تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201010 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۳_ ابوسعيد خدرى سے روايت ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''قال عيسي عليه‌السلام ...''الرحمان'' رحمان الدنيا و الآخرة و''الرحيم'' رحيم الآخرة (۱)

حضرت عيسىعليه‌السلام نے فرمايا رحمان اللہ تعالى كى دنيا و آخرت كے لئے وسيع رحمت ہے _ اور رحيم اللہ تعالى كى آخرت ميں خصوصى رحمت ہے _

اسما و صفات: رحمان ۴،۱۰ َ; رحيم ۴،۱۰

اللہ: اسم اللہ كى خصوصيات۱

اللہ تعالى : اسم اعظم ۱۱;اللہ كا حسن و جمال ۱۰; اللہ كے نام كى اہميت ۷،۸; اللہ كى رحمت كے اسباب ۸; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۹; اللہ كى سلطنت ۱۰; اللہ كى عظمت و بزرگي۱۰;خدا كى بلندى ۱۰;خدا كى رحمت كے نتائج ۵،۷; خدا كى رحمانيت ۹،۱۰،۱۳; خدا كى رحيميت ۹،۱۰،۱۳; خد ا كى عمومى رحمت ۵، ۷ ; خدا كى مہربانى ۶; خدا كا نام ۲،۳، ۱۰

بسم اللہ : بسم اللہ كى اہميت ۳; بسم اللہ كى باء ۱۰; بسم اللہ كى سين ۱۰ ،۱۲; بسم اللہ كى فضيلت ۱۱; بسم اللہ كى ميم ۱۰;كاموں ميں اسكے اثرات و نتائج۸

بندگي: بندگى كى نشانياں ۱۲

حديث ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳

قرآن كريم: آغاز قرآن ۲; قرآن كى خصوصيات ۲، ۹ قرآن كا رحمت ہونا۲; قرآن كا سرچشمہ ۱;

كام: كام كے آداب ۳; كاموں ميں بسم اللہ ۳; كاموں ميں بسم اللہ كى حكمت يا فلسفہ ۷

مؤمنين: مومنين كے درجات ۱۰

____________________

۱) الدرالمنثور ج/۱ ص۲۳_

۲۱

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۲ )

سارى تعريف اللہ كے لئے ہے جو عالمين كا پالنے والا ہے_

۱_سب تعريفيں اللہ كے لئے ہيں _

الحمدلله

''الحمدللہ'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے جو استغراق كا مفہوم ديتاہے يعنى تمام حمد اللہ كے لئے ہے_

۲_ تما م تر كمالات رعنائيوں اور خوبيوں كا سرچشمہ اللہ تعالى ہے_الحمدلله اللہ تعالى كى حمد حسن و جمال اور كمالات كے مقابلے ميں ہے_ ''الحمدلله '' كے مطابق ہر توصيف و تعريف اللہ كے لئے ہے پس ہر حسن و كمال اسكى ذات اقدس سے ہے_

۳_ صرف اللہ تعالى ہى لائق حمد و ثنا ہے اور اسى كى ستائش ہونى چاہيئے_

الحمدلله

۴_ اللہ تعالى جہان ہستى كے عالمين كا مالك اور تدبير كرنے والا ہے_رب العالمين عالمين كا مفرد عالم ہے _ موجودات كے ايك مجموعہ يا گروہ كو ''عالَم'' كہتے ہيں _ پس عالمين يعنى تمام تر موجودات كے گروہ _

۵_ جہان خلقت متعدد عالموں سے تشكيل پاياہے _رب العالمين يہ مطلب''عالمين ''كے جمع ہونے سے سمجھاجاتاہے_

۶_ عالم ہستى تمام كا تمام خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير و حكمت حسين و جميل ہے_

الحمد لله رب العالمين

''رب العالمين'' الحمدللہ كے لئے دليل كے طور پر ہے يعنى چونكہ عالم ہستى كى تدبير كرنے والا خداوند متعال ہے لہذا تمام تعريفيں اسى كے لئے ہيں اور تعريف و توصيف ہميشہ كمال و جمال كے لئے ہوتى ہے پس اسكا نتيجہ يہ نكلتاہے كہ سارے كا سارا جہاں ہستى خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير حسين و جميل ہے_

۷_ كائنات كى تدبير و حكمت پروردگار عالم كے اختيار سے ہے اسكے انتظام و انصرام ميں جبر يا اضطرار نہيں پايا جاتا _

الحمدلله رب العالمين

فعل و صفت پر حمد و ثنا اس وقت صحيح ہے جب فعل و صفت حسين اور زيبا ہونے كے علاوہ اختيارى بھى ہوں يعنى اگر فعل يا صفت حسين و جميل ہوں تو فاعل كى حمد و ثنا كى جاسكتى ہے كيونكہ اس نے اپنے اختيار سے اسكو انجام دياہے_

۸_ عالم ہستى كمال كى طرف گامزن ہے_

۲۲

رب العالمين

''رب'' كا معنى تربيت كرنا ہے_ تربيت كا مفہوم پہلى حالت سے ايك نئي حالت پيدا كرنا ہے تا كہ كمال تك پہنچ جائے (مفردات راغب ) _ يہ معنى ايك تكاملى تحرك پر دلالت كرتاہے_ اس بات كى جانب اشارہ مناسب ہے كہ لفظ''رب'' صفت اور مصدر كے درميان مشترك لفظى ہے اور اس آيت ميں اسكا وصفى معنى آياہے_

۹_ اس جہان ہستى كے عالمين كى تدبير و حكمت كا پروردگار عالم كى طرف سےہونا اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں مخصوص ہيں اسكى ذات اقدس كے ساتھ_الحمدلله رب العالمين

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : ''الحمدلله'' قال: الشكر لله و فى قوله ''رب العالمين'' قال: خالق المخلوقين ...''(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''الحمدللہ'' يعنى شكر ، خدا كى ذات سے مخصوص ہے اور ''رب لعالمين'' يعنى اللہ تمام عالمين و مخلوقات كا خالق ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے جو امور مختص ہيں ۱،۲،۳،۹،۱۰; اللہ تعالى كا اختيار ۷; اللہ كا خالق ہونا ۱۰;اللہ كا مالك ہونا ۴;ربوبيت الہي۴

حديث: ۱۰

حسن و رعنائي : حسن و رعنائي كا سرچشمہ۲

حمد: اللہ كى حمد ۱،۳،۱۰; حمد خدا كے دلائل ۹

كمال: كمال كا سرچشمہ ۲

كائنات ( عالم ہستي): خلقت كے عوالم ۵; عالم ہستى كا تحرك۸; عالم ہستى كا تكامل ۸; عالم ہستى كا حسن۶; عوالم ہستى كا مالك ۴;عالمين كا انتظام وانصرام ۴،۹; كائنات كى حكمت ۶،۷

موجودات: موجودات كا خالق ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۲۸ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵ ح ۶۰_

۲۳

اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۳ )

وہ عظيم اور دائمى رحمتوں والا ہے_

۱_ اللہ تعالى رحمان ( وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے_الرحمن الرحيم

۲_ تمام ترموجودات خدا وند متعال كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _الرحمن

۳_اللہ تعالى تمام انسانوں پر مہربان ہے_الرحيم

۴_ عالم ہستى كے انتظام اور انصرام كى بنياد اللہ كى رحمت پر ہے_رب العالمين _ الرحمن الرحيم

عالم ہستى كى تدبير يا انتظام و انصرام كے بعد اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كے ذكر سے يہ بات سامنے آتى ہے_

۵_ اللہ كى رحمانيت اور رحيميت اس بات كى دليل ہے كہ تمام تر تعريفيں اسكى ذات اقدس سے مختص ہيں _

الحمدلله رب العالمين _ الرحمن الرحيم

''الرحمن الرحيم''،''رب العالمين'' كى طرح '' الحمدللہ'' كے لئے دليل كا درجہ ركھتى ہے_ يعنى چونكہ خداوند متعال رحمان و رحيم ہے اس لئے تمام ترتعريفيں اسكى ذات اقدس كے لئے سزاوار ہيں _

۶_انتظام و انصرام اور تربيت كو مہربانى اور لطف و كرم كے ساتھ ساتھ ہونا چاہيئے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم

اسماء و صفات: رحمان۱; رحيم ۱

انتظام و انصرام: انتظام كى روش ۶; نظم و انتظام ميں لطف و عنايت ۶

تربيت : تربيت كى روش ۶; تربيت ميں مہربانى يا لطف و كرم ۶

حمد: اللہ تعالى كى حمد كے دلائل ۵

خداوند متعال: اللہ تعالى كى ربوبيت ۴; اللہ كى رحمانيت ۵; اللہ كى رحمت كے نتائج و اثرات ۴;اللہ كى رحمت سے استفادہ ۲; خدا كى رحيميت ۵; اللہ كى عمومى رحمت ۱،۲; اللہ تعالى سے مختص امور۵; اللہ كا مہربان ہونا ۱،۳

كائنات: كائنات كا انتظام و حكمت۴

مہربان ہونا : مہربان ہونے كى اہميت ۶

۲۴

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴ )

روز قيامت كا مالك و مختار ہے _

۱_ اللہ تعالى روز قيامت كا مالك اور فرمانروا ہے_مالك يوم الدين

''مالك يوم الدين'' ميں ملكيت حقيقى ہے يعنى وجودى وابستگى جسكا لازمى نتيجہ يہ ہے مالك ملكيت پر كامل اور ہر طرح كا تسلط ركھتاہے_''يوم الدين'' ممكن ہے مالك كے لئے مفعول ہو اورممكن ہے ظرف ہو_ اگر ظرف ہوتو اس صورت ميں مفعول ممكن ہے لفظ ''الامور'' يا اسكى مثل كوئي اور لفظ ہو اس صورت ميں جملے كى تركيب يوں ہوگي'' مالك الامور فى يوم الدين'' بہر حال يہ مفہوم اس آيہ مجيدہ سے نكل سكتا ہے_

۲_ قيامت كے دن حساب و كتا ب اور جزا و سزا خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_مالك يوم الدين

۳_ قيامت كا برپا كرنا اور اہل دنيا كے لئے روز جزا كا قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين

رحمت الہى كے بيان كے بعد قيامت كا ذكر كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۴_قيامت كا برپا كرنا اللہ تعالى كى جہان ہستى پر ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_رب العالمين مالك يوم الدين

مذكورہ بالا مفہوم ''مالك يوم الدين'' كے ''رب العالمين'' كے ساتھ ارتباط سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ قيامت كا دن جزا و سزا كا دن ہے_

مالك يوم الدين

'' دين'' كا معنى يہاں جزا و سزا يا حساب و كتاب ہے يعنى ہر دو كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_

۶_ روز جزا ميں خداوند متعال كى مالكيت اور اس دن اسكى فرمانروائي اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں اسى كى ذات سے مختص ہيں _

الحمدلله مالك يوم الدين

گذشتہ صفات كى طرح''مالك يوم الدين''، ''الحمدللہ'' كے لئے دليل ہے_

۲۵

اللہ: آخرت ميں اللہ كى حاكميت ۱; آخرت ميں اللہ كي مالكيت ۲; اللہ تعالى سے مختص امور۲،۶; اللہ كى حاكميت ۶; اللہ كى ربوبيت كے مظاہر ۴; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۳اللہ كى طرف سے آخرت ميں جزا ۲; اللہ كى طرف سے اخروى سزا ۲; اللہ كى طرف سے حساب و كتاب ۲; اللہ كى مالكيت ۶

حمد: اللہ كى حمد كے دلائل ۶

قيامت: قيامت كا برپا ہونا ۳،۴; قيامت كا مالك ۱،۶; قيامت كى خصوصيات ۵،۶قيامت ميں جزا۵; قيامت ميں حاكم۱،۶; قيامت ميں حساب كتاب ۲،۳;قيامت ميں سزا ۵

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِين ُ ( ۵ )

پروردگار ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں اورتجھى سے مدد چاہتے ہيں _

۱_ فقط اللہ كى ذات اقدس لائق عبادت و بندگى ہے_

اياك نعبد

''اياك'' مفعول ہے اور اسكا نعبد پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲_ جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت، اسكى رحمانيت اور رحيميت قيامت كے دن اسكا مالك ہونا يہ دلائل ہيں اس امر كے كہ صرف وہى لائق عبادت و بندگى ہے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۳_اللہ كى ربوبيت كا يقين، اسكا رحمت نازل كرنا، روز جزا كا مالك ہونا يہ امور انسان كو اللہ كى پرستش كى ترغيب دلاتے ہيں _

رب العالمين _ الرحمن الرحيم_ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۴_ اللہ اور اسكى صفات كى معرفت توحيد عبادى كے حصول كا ذريعہ ہے _الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

۵_ انسانى افكار و عقائد اسكے اعمال و كردار كى بنياد ہيں _الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم_ مالك يو م الدين _ اياك نعبد

۲۶

۶_ خدا كے حضور خود كو ناچيز تصور كرنا اسكى بندگى كے آداب ميں سے ہيں _اياك نعبد

''ميں '' كى جگہ '' ہم'' كا استعمال بعض اوقات بڑائي كے اظہار كے لئے ہوتاہے اور كبھى انانيت، تكبر و خودپرستى سے اجتناب كے لئے آتاہے_ گفتگو كے قرينے سے مراد كا اندازہ لگايا جاسكتاہے_ يہاں بندگى و عبوديت كى مناسبت سے تكبر و انانيت سے اجتناب مراد ہے اس لئے ''نعبد '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ اور اسكى صفات پر ايمان اس يقين كا باعث ہے كہ سب اسكى بارگاہ اور اسكے حضور ميں ہيں _

الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

سورہ حمد ميں اسلوب كلام كو تبديل كيا گياہے يعنى غائب سے خطاب كى طرف التفات ہوا ہے اور يہ امر بعض نكات كا حامل ہے_ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ انسان جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت جيسى صفات خدا جاننے سے قبل گويا احساس نہيں كرتا كہ اللہ تعالى ہر چيز پر حاضر و ناظر ہے ليكن جب وہ ربوبيت الہى اور ديگر صفات پر ايمان و يقين حاصل كرليتاہے تو خود كو اور دوسروں كو اللہ كے حضور پاتاہے اسى طرح اللہ كو تمام ترحالات ميں حاضر جانتاہے_

۸_ خود كو خدا كے حضور تصور كرنا عبادت كے آداب ميں سے ہے _

اياك نعبد

غائب سے خطاب كى التفات كے نكات ميں سے ايك اور نكتہ سورہ حمد ميں عبادت اور دعا كے آداب ہيں يعنى شائستہ يہى ہے انسان كے لئے كہ عبادت و دعا كے وقت احساس كرے كہ ميں خدا كے حضور ہوں _

۹_ عبادت كى خاطر خدا كى حقيقى معرفت اور اسكى رحمتوں پر اميد اللہ كى بندگى كے لئے ترغيبات ہيں _

الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم اياك نعبد

اللہ كى ربوبيت ، رحمانيت، رحيميت، مالكيت روز جزا جيسى صفات كے بيان كے بعد اللہ كى عبادت كو بيان كرنا اسكى عبادت كى ترغيبات ہيں يعنى چونكہ اللہ رب ہے اس لئے لائق بندگى ہے_ لوگ چونكہ اسكى رحمت كے محتاج ہيں اس لئے عبادت كريں اور اس لئے كہ عذاب آخرت سے خوف زدہ ہيں اسكى پرستش كريں _

۱۰_ عذاب آخرت كا خوف اور جہان آخرت ميں جزا كى اميد انسان كے لئے خدا كى عبادت كے محرّك ہيں _

مالك يوم الدين _ اياك نعبد

۱۱_ اللہ تعالى اور اسكى صفات كى معرفت خود كو اسكى بارگاہ

۲۷

ميں ناچيز سمجھنے كا باعث ہے_الحمدلله اياك نعبد و اياك نستعين

۱۲_ توحيدپرستوں كى آرزوہے كہ سب لوگ يكتا پرست، خدا پرست ہوجائيں _اياك نعبد

'' اعبد _ ميں عباد ت كرتاہوں '' كى جگہ '' نعبد _ ہم عبادت كرتے ہيں '' كا استعمال ہوسكتاہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ يہ ہر توحيد پرست كى خواہش ہے_ يعنى وہ اس جملہ '' ہم عبادت كرتے ہيں '' كے ذريعے اس خواہش كا اظہار كرتا ہے كہ سب انسان ايسے ہى ہوں _

۱۳_ فقط وہ حقيقت يا ذات جس سے مدد طلب كى جاسكتى ہے وہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_و اياك نستعين

۱۴_ اللہ كى بندگى اور اس ميں خلوص كے لئے انسان امداد الہى كا محتاج ہے_اياك نعبد و اياك نستعين

'' نستعين'' كا متعلق تمام تر فرائض ہيں جو سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں ايك يكتاپرستى يا توحيد پرستى كا واجب و ضرورى ہوناہے جو''اياك نعبد'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى ''نستعينك على عبادتك وخلوصہا''

۱۵_ باوجود اس كے كہ انسان اللہ كى بندگى پر اختيار ركھتا ہے اللہ كى مدد كے بغير عبادت كرنے كى توانائي نہيں ركھتا _

اياك نعبد و اياك نستعين

۱۶_ اللہ كى حمد و ثنا اسكى امداد و نصرت سے ہى امكان پذير ہے_الحمد لله اياك نستعين

جو فرائض سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں سے ايك اللہ كى توصيف و ثنا كا واجب و ضرورى ہوناہے _بنابريں كہا جاسكتاہے كہ يہ معنى بھى نستعين سے متعلق ہے يعنى '' نستعينك على ان نحمدك''

۱۷_ تمام جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت كى معرفت، اس كى رحمانيت و رحيميت كا يقين اور اسكا روز جزا كے مالك ہونے كا يقين يہ سب اللہ كى امداد سے ہى ممكن ہے_الحمد لله رب العالمين اياك نستعين

اللہ كى ربوبيت كى معرفت اور ان شرعى فرائض ميں سے ہے جسے سورہ حمد سے استفادہ كيا جاسكتاہے لہذا يہ بھى نستعين سے متعلق ہيں يعنى''نستعينك على ان نعرف ربوبيتك و ...''

۱۸_ انسان اپنے تمام امور ميں اللہ كى مدد و نصرت كا محتاج ہے_اياك نستعين

بعض كى رائے يہ ہے كہ نستعين كا متعلق يا استعانت كا مورد ذكر نہيں كيا گيا تا كہ تمام تر امور مراد ہوں يعنى''نستعينك على امورنا كلها''

۱۹_اللہ تعالى بندوں كى تمام دعاؤں كو پورا كرنے كى مكمل توانائي ركھتاہے_ايا ك نستعين

۲۸

اس مطلب كا لازمہ يہ ہے كہ استعانت سے مراد تمام امور ہوں _

۲۰_ اللہ تعالى اور اسكى صفات (رب العالمين ، ...) كى معرفت انسان كو توحيد افعالى كى طرف راہنمائي كرتى ہے _

اياك نستعين

اس كى دليل يہ ہے كہ '' اياك نستعين '' اللہ تعالى كى '' رب العالمين'' كے ساتھ توصيف كے بعد آياہے_ اسكا مطلب يہ ہے كہ ان صفات كے ساتھ اللہ تعالى كى معرفت انسان كو اس مرحلے تك پہنچا ديتى ہے كہ وہ غير اللہ كو ناتواں سمجھے اور نتيجتاً توحيد افعالى تك پہنچ جائے_

۲۱_ توحيد پرستوں كى آرزو ہے كہ سب انسان توحيد افعالى كے قائل ہوجائيں _اياك نستعين

''استعين _ ميں مدد مانگتاہوں '' كى جگہ ''نستعين _ ہم مدد مانگتے ہيں '' كا استعمال مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۲۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے:اياك نعبد رغبة و تقرب الى الله تعالى ذكره و اخلاص له بالعمل دون غيره و '' اياك نستعين'' استزادة من توفيقه و عبادته و استدامة لما انعم الله عليه ونصره (۱) ''اياك نعبد'' يعنى بندے كا خدا كى طرف رغبت كا اظہار اور تقرب كى تلاش اسى طرح اللہ كے لئے عمل ميں خلوص جو كہ غير خدا كے لئے نہ ہو _ '' اياك نستعين '' اللہ كى بارگاہ ميں بہت زيادہ توفيق اور عبادت كى درخواست اسى طرح خدا كى نعمتوں ميں تسلسل اور اسكى مدد كى درخواست كرنا ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد كے اثرات ۱۶،۱۷; خدا شناسى كے نتائج و اثرات ۴،۱۱،۲۰; اللہ تعالى سے مختص امور ۱،۱۳; اللہ تعالى كى امداد ۱۵; اللہ كى ربوبيت ۲،۱۷; اللہ كى رحمانيت ۲،۱۷; اللہ كى رحيميت ۲،۱۷; اللہ تعالى كى قدرت ۱۹; آخرت ميں اللہ تعالى كى مالكيت ۲،۳; خدا كے حضور ۶،۷،۸،۱۱; اللہ تعالى كى مہربانى ۲

امداد طلب كرنا : اللہ تعالى سے طلب امداد ۱۳ ،۲۲

اميد: اخروى جزا كى اميد ۱۰; اللہ كى رحمت كى اميد۹

انانيت : انانيت سے اجتناب ۶

انسان : انسانى خواہشات ۱۹; انسان كا عاجز ہونا ۱۵; انسان كى ضروريات ۱۴، ۱۸; انسان كے اختيارات ۱۵

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۰۴ ح۱۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۹ ح ۸۱_

۲۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۱۷; اللہ پر ايمان كے نتائج و اثرات۳،۷; اللہ كى ربوبيت پر ايمان ۳; اللہ كى رحمت پر ايمان ۳; اللہ كى صفات پر ايمان ۷;اللہ كى مالكيت پر ايمان ۳; توحيد پر ايمان ۲۱; ايمان سے متعلق امور ۳،۷

ترغيبات: ترغيبات كے عوامل ۳،۹،۱۰

تزكيہ : تزكيہ كے اسباب ۱۱

تفكر : تفكر كے اثرات و نتائج ۵

تقرب: تقرب كے عوامل ۲۲

توحيد : توحيد افعالى ۲۱; توحيد افعالى كى بنياد ۲۰; توحيد افعالى كى ترويج۲۱; توحيد عبادى كى بنياد ۴; توحيد كى ترويج ۱۲

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو۱۲، ۲۱

توفيقات: توفيق كى درخواست ۲۲; خداشناسى كى توفيق ۱۷; عبادت كى توفيق ۱۴،۱۵، ۲۲

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۳،۴ ، ۷، ۹ ، ۱۰ ،۱۱

حديث :۲۲

حمد: حمد خدا كى بنياد۱۶

خوف: عذاب سے خوف كے نتائج و اثرات ۱۰; اخروى عذاب سے خوف ۱۰

ضروريات: اللہ تعالى كى امداد كى ضرورت۱۴،۱۸

عالم ہستى ( كائنات): عالم ہستى كا نظم و انتظام۲، ۱۷

عبادت: اللہ كى بندگى كے دلائل ۲; بندگى كے محركات ۳خدا كى عبادت ۹،۱۰; عبادت كے آداب ۶،۸; عبادت كے اسباب ۹،۱۰; عبادت ميں اختيار ۱۵;

عبادت ميں خلوص ۱۴; عبادت ميں حضور قلب ۸;

عمل: عمل ميں خلوص ۲۲

قيامت : قيامت كا مالك ۲،۱۷

كردار: كردار و اعمال كى اساس ۵

نعمت : نعمتوں كى درخواست ۲۲

۳۰

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ ( ۶ )

ہميں سيدھے راستہ كى ہدايت فرماتا رہ _

۱_ صراط مستقيم كى ہدايت كى درخواست ايك عارف و سالك الى اللہ انسان كى اہم ترين درخواست و دعا ہے_

الحمد لله اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر''اهدنا الصراط المستقيم '' كے''الحمدلله رب العالمين '' كے ساتھ ربط كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ پيغام ملتاہے كہ اللہ تعالى كى معرفت كے بعد انسان كا ہدف صراط مستقيم پر گامزن رہناہے يعنى وہ راستہ جسكا منتہائے مقصود اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_

۲_ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں دعا كرنے كا لازمى نتيجہ صراط مستقيم كا حصول ہے_اهدنا الصراط المستقيم

۳_اللہ تعالى كى تعريف اور اس كى بارگاہ ميں بندگى كا اظہار دعا كے آداب ميں سے ہے_

الحمدلله رب العالمين اهدناالصراط المستقيم

چونكہ خداوند قدوس كى حمد و ثنا اوراسكى عبوديت كے اظہار كے بعد اسكى بارگاہ ميں دعا اور'' اهدناالصراط المستقيم'' كى درخواست كى گئي ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب نكلتاہے_

۴_ انسان ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كا محتاج ہے _

اهدنا الصراط المستقيم

۵_ صراط مستقيم كى ہدايت كى دعاكرنا پروردگار متعال سے مدد طلب كرنے كا انتہائي شائستہ اور زيبا مورد ہے_

اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر '' اہدنا ...'' كو''اياك نستعين'' سے مربوط كركے ديكھا جائے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ صراط مستقيم كى ہدايت وہ اعلى ترين مورد ہے جسكے حصول ميں انسان خدائے متعال كى امداد كا محتاج ہے_

۶_اللہ تعالى كى مدد و نصرت كے بغير انسان صراط مستقيم كو نہيں پاسكتا_اهدنا الصراط المستقيم

۷_ يكتاپرستى اور فقط خدا سے مدد طلب كرنا ''صراط مستقيم '' ہے_اياك نعبد و اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

لفظ الصراط ميں الف لام عہد ذكرى ہوسكتاہے اور يہ ان حقائق كى طرف اشارہ ہے جو گذشتہ آيت ميں گذرچكے ہے اور ان ميں يكتاپرستى اور صرف خدا سے مدد طلب كرنا ہے_

۳۱

۸_ اللہ تعالى پر اور اسكى صفات پر ايمان لانا ''صراط مستقيم '' ہے_الحمدلله رب العالمين اهدنا الصراط المستقيم

''الصراط المستقيم'' كا جن حقائق كى طرف اشارہ ہے اللہ تعالى اور اسكى ربوبيت پر ايمان لانا ان ميں سے ہے_ ان كى طرف اشارہ''الحمدلله '' سے''مالك يوم الدين'' تك كيا گياہے_

۹_ ايك توحيد پرست انسان كى آرزو ہے كہ سب انسان صراط مستقيم كى ہدايت پاليں _اهدنا الصراط المستقيم

اس مطلب كى طرف راہنمائي اسطرح ہوتى ہے كہ ''اهدنا ہميں ہدايت فرما'' استعمال ہوا ہے نہ كہ ''اهدنى مجھے ہدايت فرما ''_

۱۰_ ہدايت كے بہت سارے درجات اور مراحل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم

گذشتہ آيات كے بعد ''اہدنا'' كا استعمال اس امر كى طرف نشاندہى كررہاہے كہ يہ دعا كرنے والا انسان ہدايت يافتہ ہے_ بنابريں يہ كہنا چاہيئے كہ ہدايت كے بہت سارے مراحل ہيں اور يہ كہنا صحيح ہے : ہر وہ شخص جو ہدايت پاچكاہے اسكو بھى انتہائي سنجيدگى سے ہدايت كى دعا كرنى چاہيئے_

۱۱_ ہدايت كے حصول كے لئے بارگاہ رب العزت ميں دعا كا بہت موثر كردار ہے_اهد نا الصراط المستقيم

۱۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے :''اهدنا الصراط المستقيم استرشاد لدينه واعتصام بحبله و استزادة فى المعرفة لربه عزوجل ..(۱)

''اهدنا الصراط مستقيم'' اللہ كے دين كى طرف ہدايت، اسكى رسى كو مضبوطى سے تھامنے اور اللہ جل جلالہ كى معرفت ميں اضافے كى دعا ہے_

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم'' صراط الانبياء و هم الذين انعم الله عليهم (۲) ''صراط مستقيم '' سے مراد انبياءعليه‌السلام كا راستہ ہے يہى وہ ہستياں ہيں جن پر اللہ تعالى نے اپنى نعمتيں نازل فرمائيں _

۱۴_عن رسول الله (ص) انه قال ( فى قول الله عزوجل)_ اهدنا الصراط المستقيم دين الله الذى نزل به جبرئيل عليه‌السلام على محمد (ص) ... (۳)

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۵_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۲۲ح۱۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۶_

۳) تفسير فرات كوفى ص ۵۱،بحارالانوار ج/۳۶ ص۱۲۸ ح ۷۱_

۳۲

رسول اللہ (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نےاهدنا الصراط المستقيم كے بارے ميں فرمايا اس سے مراد اللہ كا دين ہے جو جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے محمد (ص) پر نازل ہوا _

۱۵_عن رسول الله(ص) وعن على عليه‌السلام فى معنى ''الصراط المستقيم '' انه كتاب الله (۱)

پيامبر اسلام (ص) اور حضرت علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ صراط مستقيم سے مراد اللہ كى كتاب ہے_

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم اميرالمومنين علي عليه‌السلام '' (۲)

صراط مستقيم امير المومنين على عليہ السلام ہيں _

اسلام: دين اسلام كى اہميت ۱۴

اعتصام: اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھامنا ۱۲

امام علىعليه‌السلام : امام علىعليه‌السلام كا راستہ ۱۶

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا راستہ ۱۳

انسان: انسان كى امداد۶; انسان كا عاجز ہونا ۶; انسانى ضروريات ۴; انسانوں كى ہدايت ۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۸; اللہ كى صفات پر ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

توحيد : توحيد عبادى ۷

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو ۹; توحيد پرستوں كى خواہشات ۱

توفيقات: ہدايت كى توفيق۶

حديث :۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

حمد: اللہ كى حمد ۳

خدا تعالى : اللہ كى امداد كے اثرات ۶; ہدايت الہى ۴

دعا: دعا كے اثرات ۱۱;دعا كے آداب ۳; دعا كى اہميت ۲،۱۱

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۰۴، نورالثقلين ج/ ۱ ص۲۰ ح ۸۷_

۲) معانى الاخبار ص ۳۲ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۱ ح ۹۴_

۳۳

صراط مستقيم : صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۷،۸،۱۳،۱۴، ۱۵،۱۶

مددطلب كرنا : اللہ سے مدد طلب كرنا ۵،۷

ضروريات: ہدايت كى ضرورت ۴

عبوديت: عبوديت كا اظہار ۳

قرآن كريم: قرآن كى فضيلت ۱۵

نعمت : نعمتيں جن كے شامل حال ہيں ۱۳

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۱،۲،۵،۶،۹; ہدايت كى اہميت ۱۲; ہدايت كى درخواست ۱،۵،۱۲; ہدايت كے اسباب ۶،۱۱; ہدايت كے درجات ۱۰;

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمْتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ( ۷ )

جو ان لوگوں كا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل كى ہيں ان كا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے يا جو بہكے ہوئے ہيں _

۱_ قرآن كريم ميں انسانوں كو مختلف طبقات ميں تقسيم كيا گيا ہے ايك وہ ہيں جو ہدايت پر ثابت قدم ہيں اور دوسرے وہ جو گمراہ اور بارگاہ ايزدى ميں غضب كا شكار ہيں _

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

''انعمت عليہم'' سے پہلے اور بعد والى آيات كے قرينے كى بناپر انعمت سے مراد ہدايت كى نعمت ہے نہ كہ مادى نعمتيں _ ان نعمات سے تمام مخلوقات حتى كافر بھى بہرہ مند ہيں _

۲_ بعض انسان اللہ تعالى كى خصوصى ہدايت سے بہرہ

۳۴

مند ہيں اور ہدايت كے اعلى مراتب و مراحل كے حامل ہيں _صراط الذين انعمت عليهم

جيسا كہ بيان ہوا ہے ''نعمت'' سے مراد ہدايت كى نعمت ہے جبكہ ہدايت كى دعا مانگنے والے خود ہدايت يافتہ ہيں لہذا يہاں مراد خاص ہدايت ہے_

۳_ صراط مستقيم كى ہدايت اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_صراط الذين انعمت عليهم

يہاں نعمت مطلق بيان ہوئي ہے پس اس سے ہدايت كى نعمت كا ارادہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ متكلم ہدايت كى نعمت كے مقابل ديگر نعمتوں كو نعمت تصور نہيں كرتا اور يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ہدايت كى نعمت بہت ہى عظيم ہے_

۴_ بعض ہدايت يافتہ لوگ ہدايت پر ثابت قدم نہ رہے اور غضب شدہ اورگمراہ افراد ميں سے قرار پائے_

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

مذكورہ مطلب اس بناپرہے كہ''غير المغضوب'' ،''الذين انعمت'' كے لئے ايك احترازى صفت ہے_ بنابريں جن كو نعمت دى گئي يعنى ہدايت يافتہ افراد كے تين گروہ ہيں ۱ _ وہ ہدايت يافتہ افراد جو ہدايت سے ہاتھ دھوبيٹھے اور ''مغضوبين'' ميں سے قرار پائے ۲_ وہ افراد جو وسط راہ سے گم ہوگئے اور '' ضالين'' ميں سے قرار پائے ۳_ وہ ہدايت يافتہ انسان جو صراط مستقيم پر آخر تك ثابت قدم رہے_

۵_ ہدايت يافتہ افراد كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ بھى غضب شدہ اورگمراہ افراد كے زمرے ميں آجائيں _

صراط الذين انعت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

۶_ اللہ تعالى كى يكتائي كے قائل خداپرست انسان چاہتے ہيں كہ وہ ہدايت پر ثابت قدم انسانوں ميں سے ہوں _

الحمدلله اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۷_ '' صراط مستقيم'' خدا كى طرف جانے والا راستہ ہے جس ميں كجى اور انحراف ہرگز نہيں پايا جاتا_

اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

'' غير المغضوب ...'' سے'' الذين ...'' كى صفت بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ''صراط الذين ...'' ايسا راستہ ہے جس ميں انحراف اور كجى ہرگز نہيں ہوسكتى اور اسى راستے كو صراط مستقيم كہتے ہيں كيونكہ''صراط الذين'' ،''الصراط المستقيم '' كے لئے عطف بيان ہے_

۸_ ہدايت يافتہ انسانوں كے عملى نمونے صراط مستقيم كے حصول اور اس پر گامزن رہنے ميں انتہائي اہم كردار كے حامل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۳۵

صراط مستقيم كو چونكہ ہدايت يافتہ انسانوں كى راہ سے تفسير و تعبير كيا گيا ہے اس لئے كہاجاسكتاہے كہ صراط مستقيم كے حصول كے لئے انسان عملى نمونوں كا محتاج ہے_ پس ضرورت ہے كہ ان سالكان راہ كى تلاش كرے اور ان كى پيروى كرے_

۹_جن كو نعمات سے نوازا گيا ہے( ہدايت يافتہ انسان) وہ ايسے لوگ ہيں جن پر اللہ كا غضب نہيں ہوا اور نہ ہى وہ گمراہ ہوئے_صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين يہ مطلب اس طرح حاصل ہوتاہے كہ اگر '' غير المغضوب'' ، ''الذين'' كے لئے توضيحى صفت ہو يا بدل اور يا عطف بيان ہو_

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام قال: قول الله عزوجل فى الحمد''صراط الذين انعمت عليهم'' يعنى محمداً وذريته صلوات الله عليهم (۱) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''صراط الذين انعمت عليہم'' سے سورہ حمد ميں مراد حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى ذريتعليه‌السلام ہيں _

۱۱_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:غير المغضوب عليهم

استعاذة من ان يكون من المعاندين الكافرين المستخفين به و بامره و نهيه .(۲) غير المغضوب عليہم سے مراد اللہ كى پناہ طلب كرنا اس سے كہ انسان دشمنوں اور كافروں ميں سے ہو جو اللہ كو اہميت نہيں ديتے اور اللہ كے امر و نہى كو ہلكا سمجھتے ہيں _

استعاذہ: اللہ تعالى كى پناہ مانگنا ۱۱; پناہ طلب كرنے كے موارد ۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى نعمتيں ۳; اللہ كے اوامر كو ہلكا سمجھنا ۱۱; اللہ تعالى كى خاص ہدايت۲;اللہ تعالى كى ذات اقدس كو سبك تصور كرنا ۱۱; اللہ تعالى كے نواہى كو ہلكا سمجھنا ۱۱

انحراف : انحراف كى ركاوٹيں ۷

انسان : انسانوں كى قسميں ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : آپ (ص) كے فضائل۱۰;جن پر خدا كا غضب نازل ہوا ۱،۴،۵

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۳۶ ح ۷ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۲۳ ح ۱۰۱_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۴ ح ۱۰۸_

۳۶

توحيد پرست: توحيد پرستوں كى خواہشات ۶

حديث :۱۰،۱۱

صراط مستقيم: صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۱۰; صراط مستقيم كى خصوصيات ۷

گمراہ افراد :۱

معاشرتى طبقات :۱،۲

مغضوبان خدا : ۱ ، ۴، ۵

نعمت : ۹ ،۱۰

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۳،۸;ہدايت ميں ثابت قدم انسان۱; ہدايت ميں ثابت قدمي۶ ; ہدايت ميں نمونے كى پيروى كرنا ۸; ہدايت كى درخواست ۶; ہدايت كى نعمت ۳; ہدايت كے درجات ۲;

ہدايت يافتہ انسان: ۲ ہدايت يافتہ انسانوں كى خصوصيات۹; ہدايت يافتہ انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۴،۵;

۳۷

سوره بقره

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الم ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى دعاء له : الهى و سيدى قلت: '' الم ذلك الكتاب لا ريب فيه ...'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك و استودعته سرّ غيبك (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك دعا كے ضمن ميں بارگاہ رب الارباب ميں عرض كيا: اے ميرے معبود ، اے ميرے آقا تو نے فرماياہے الم ذلك الكتاب تو نے اپنى كتاب كى تعريف اس قسم كے ساتھ كى ہے جو نام ہے اسكا جسكو تو نے اپنى وحى كےساتھ مخصوص كيا اور اسكو تو نے اپنے غيب كا راز وديعت فرمايا

____________________

۱) بحار الانوار ج/۸۸ ص۷،۸ ح۳،نورالثقلين ج/۲ ص۰۲۹۱

۳۸

۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الم'' رمز و اشارة بينه و بين حبيبه محمد (ص) ا راد ان لا يطلع عليه سواهما ..(۱) '' الم'' اللہ اور اسكے حبيب محمد (ص) كے درميان رمز اور اشارہ ہے_ اللہ نے چاہا كہ اس راز سے فقط وہ اور اسكا حبيب ہى آگاہ رہيں _

۳_ سفيان ثورى كہتے ہيں : ''قلت لجعفر بن محمد عليه‌السلام يابن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل الم قال عليه‌السلام اما '' الم'' فى اول البقرة فمعناه انا الله الملك (۲)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا اے فرزند رسول (ص) يہ فرمائيں كہ اللہ كے اس قول '' الم '' كا كيا معنى ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا سورة بقرہ كے شروع ميں ''الم'' كامعنى يہ ہے ميں اللہہى بادشاہ_

۴_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:

''الم'' هو حرف من حروف اسم الله الاعظم المقطع فى القرآن الذى يؤلفه النبى و الامام فاذا دعا به اجيب (۳) ''الم'' اللہ تعالى كے اسم اعظم كے حروف ميں سے ايك ہے جو مقطع صورت ميں قرآن ميں آياہے_ اس كو نبى (ص) اور امامعليه‌السلام تاليف كرتے ہيں اور جب اسكے ذريعے دعا كرتے ہيں تو مستجاب ہوتى ہے_

۵_ آئمہ ہدى (عليہم السلام) سے روايت ہے_'' ان الحروف المفتحة بها السور من المتشابهات التى استاثر الله تعالى بعلمها و لا يعلم تاويلها الا هو (۴) حروف ( مقطعہ) جن سے سورتوں كا آغاز ہوتاہے متشابہات ميں سے ہيں جن كا علم اللہ تعالى نے اپنے ساتھ مختص فرماياہے ان كى تاويل اسكے علاوہ كوئي اور نہيں جانتا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اسم اعظم ۴; اللہ تعالى كى سلطنت ۳

پيامبر اسلام(ص) : اللہ اور پيامبر خدا (ص) كے درميان رموز ۱،۲

حديث: ۱،۲،۳،۴،۵

حروف مقطعہ ۱: حروف مقطعہ كا علم ۵; حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱،۲،۴

قرآن كريم: قرآن كے متشابہات۵

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۸۹ ص ۳۸۴_ ۲) معانى الاخبار ص۲۲ ح۱، نورالثقلين ج /۱ص ۲۶ ح ۴_ ۳) معانى الاخبار ص۲۳ ح۲ ، نورالثقلين ج/۱ص۲۶ ح۵_

۴) مجمع البيان ج/۱ ص۱۱۲ ، نور الثقلين ج / ۱ ص۳۰ح۸_

۳۹

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( ۲ )

يہ وہ كتاب ہے جس ميں كسى طرح كے شك و شبہہ كى گنجائش نہيں ہے_ يہ صاحبان تقوى اور پرہيزگار لوگوں كے لئے مجسم ہدايت ہے _

۱_ قرآن كريم كامل ترين اور باعظمت كتاب ہے_ذلك الكتاب

''ذلك'' مبتداء اور '' الكتاب'' خبر ہے_ اس اعتبار سے '' ال'' صفات كے استغراق كے لئے آياہے اور كمال پر دلالت كرتاہے_

۲_ آيات قرآن كى كتابت اور تدوين آنحضرت (ص) پر نزول كے بعد ہوئي _ذلك الكتاب

كتاب ( لكھا ہوا يا تحرير شدہ) كا قرآن حكيم پر اطلاق ،اسكى جہات مختلف ہوسكتى ہيں ۱_ آيات نازل ہونے كے بعد لكھى جاتى تھيں ۲_ پروردگار كى طرف سے تاكيد ہو كہ انہيں تحرير كيا جائے۳_ تحرير شدہ صورت ميں آنحضرت (ص) پر نازل ہوئيں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۳_ قرآن حكيم ايك انتہائي مستحكم كتاب ہے اور ہر اس چيز سے پاك و منزہ ہے جو اس كى حقانيت ميں ترديد اور شبہہ پيدا كرے_لا ريب فيه ريب كا معنى شك اور وہ چيز ہے جو شك كا باعث بنے _ مذكورہ بالا مطلب اسكے دوسرے معنى سے ماخوذ ہے_ پس '' لاريب فيہ'' كا مطلب يہ ہے كہ قرآن كريم ميں كوئي ايك مسئلہ بھى ايسا نہيں كہ جو اس كى حقانيت ميں شك و ترديد كا سبب بنے_

۴_ قرآن حكيم متقى اور پرہيزگار انسانوں كى ہدايت و تربيت كى پورى صلاحيت ركھتاہے يہى چيز قرآن كريم كے استحكام اور حقانيت كى دليل ہے_لا ريب فيه هدى للمتقين

''هدى للمتقين'' ،''لا ريب فيه'' كے لئے دليل كى حيثيت ركھتاہے_

۵_ قرآن حكيم اہل تقوى كو اعلى ترين مدارج كى طرف ہدايت اور راہنمائي كرنے والى كتاب ہے_

هدى للمتقين

۶_ ہدايت كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _هدى للمتقين

بعد والى آيات ميں جو صفات بيان ہوئي ہيں خصوصاً آية مباركہ ۵ (اولئك على هديً )

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785