تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200922 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

۱۰_ اللہ تعالى '' جس چيز كا ارادہ فرمائے'' اس كو وجود ميں لانے پر قادر ہے يہ اس امر كى دليل ہے كہ وہ صاحب اولاد ہونے يا فرزند كى ضرورت سے منزہ و پاك ہے_قالوا اتخذ الله ولداً سبحانه بل و اذا قضى امراً فانما يقول له كن

يہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ '' و اذا قضى امراً '' بھى آيہ مباركہ كے ماقبل حصے كى طرح اللہ تعالى كے صاحب اولاد ہونے يا فرزند اختيار كرنے سے پاك و منزہ ہونے كى دليل ہو_

۱۱ _ سدير صيرفى كہتے ہيں كہ ميں نے سنا حمران بن اعين نے امام باقرعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ''بديع السماوات والأرض '' كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ''ان الله ابتدع الاشياء بعلمه كلها على غير مثال كان قبله فابتدع السماوات والأرضين و لم يكن قبلهن سماوا ت ولا أرضون ..(۱)

اللہ تعالى نے تمام اشياء كو اپنے علم سے خلق فرمايا جبكہ اس سے قبل ان كى مثال يا نمونہ موجود نہ تھا پس پروردگار نے آسمانوں اور زمينوں كو خلق فرمايا جبكہ اس سے قبل نہ آسمان تھے اور نہ زمينيں _

۱۲ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے ارادہ كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا''... فارادة الله الفعل لا غير ذلك يقول له ''كن فيكون'' بلا لفظ و لا نطق بلسان و لا همة و لا تفكر و لا كيف لذلك كما انه لا كيف له (۲) اللہ تعالى كا ارادہ اس كا عين فعل ہے نہ كچھ اور جب وہ كسى چيز كے وجود ميں آنے كا فرمان صادر فرماتاہے تو كہتاہے '' ہوجا'' اس فرمان كے ساتھ ہى وہ چيز وجود ميں آجاتى ہے بغير اس كے كہ كوئي لفظ صادر ہو نہ تو اس ميں زبان سے كوئي كلام اور نہ ہى قصد و تفكر شامل ہوتاہے _ ارادہ الہى كيفيت سے خالى ہوتاہے جيسا كہ اس كى ذات اقدس ميں كيفيت نہيں ہے _

آسمان : آسمانوں كى خلقت كا آغاز ۳ ;آسمانوں كى بغير نمونے كے تخليق ۱،۵; آسمانوں كامتعدد ہونا ۲; آسمانوں كا خالق ۱

آفرينش : عالم آفرينش كا آغاز ۳

اسماء اور صفات: جلالى صفات۵; جمالى صفات۵،۹

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۲۵۶ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۹ ح ۳۲۸_

۲) كافى ج/۱ ص ۱۰۹ ح ۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۹، ح ۳۳۳_

۴۰۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا بغير نمونے كے تخليق كرنا ۱،۵،۱۱; ارادہ الہى ۱۰،۱۲ ; افعال خدا ۱۲; اوامر الہى ۷،۸; اللہ تعالى كى بے نيازى ۵،۹; تقديرات الہى ۶ ، ۷ ; اللہ تعالى كى خالقيت۶،۷،۸ ،۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; اللہ تعالى اور فرزند ۵،۱۰; اللہ تعالى كے منزہ ہونے كے دلائل ۵،۱۰; قدرت الہى ۶،۱۰

روايت: ۱۱،۱۲

وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ لَوْلاَ يُكَلِّمُنَا اللّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ( ۱۱۸ )

يہ جاہل مشركين كہتے ہيں كہ خدا ہم سےكلام كيوں نہيں كرتا اور ہم پر آيت كيوں نازل نہيں كرتا _ان كے پہلے والے بھيايسى ہى جہالت كى باتيں كرچكے ہيں _ انسب كے دل ملتے جلتے ہيں اور ہم نے تو اہليقين كے لئے آيات كو واضح كرديا ہے (۱۱۸)

۱_ مشركين چاہتے تھے كہ اللہ تعالى پيامبراسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كے بارے ميں ان سے براہ راست گفتگو كرے _و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله بعد والى آيت ( انا ارسلناك بالحق ) دلالت كرتى ہے كہ مشركين كى اعتراض آميز تجوير '' لو لا يكلمنا اللہ _ اللہ ہم سے كيوں كلام نہيں كرتا'' پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كے بارے ميں تھي_

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كو قبول كرنے كے لئے مشركين كوئي دليل يا معجزہ چاہتے تھے _

زمين: زمين كى خلقت كا آغاز ۳; زمين كا بغير نمونے كے خلق ہونا ۱،۵; زمين كا خالق ۱

قضاو قدر : ۶،۷

موجودات: موجودات كى اطاعت۴; موجودات كى خلقت

۹; موجودات كى خلقت كى كيفيت ۷،۸و قال الذين لا يعلمون لو لا او تاتينا آية

۳ _ مشركين چاہتے تھے كہ وہ معجزہ ہو جسكى انہوں نے تجويز دى ہے *و قال الذين لا يعلمون لو لا تاتينا آية

۴ _ شرك كى بنياد جہالت ہے اور مشركين نادان و جاہل ہيں _و قال الذين لا يعلمون

'' الذين لا يعلمون'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كو نادان كہنا دو حقيقتوں كى طرف اشارہ ہے اول يہ كہ شرك كى جڑ اور اساس جہالت ہے

۴۰۲

دوسرا ان كا يہ تجويز دينا كہ اللہ تعالى ان سے كلام كرے يا كوئي معجزہ ہو يہ انكى نادانى و جہالت كى دليل ہے _

۵ _ لوگوں كى يہ توقع كہ اللہ تعالى ان سے گفتگو كرے يہ جہالت كى پيداوار ہے _و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله

۶ _ مشركين نے پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے مظاہر و دلائل كو نظر انداز كرتے ہوئے دعوى كيا كہ آپ (ص) كى رسالت كى حقانيت كى كوئي دليل يا علامت نہيں ہے_و قال الذين لا يعلمون لو لا تأتينا آية

۷ _ جہالت بے جا اور غير معقول توقعات كا سرچشمہ ہے_و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله

۸ _ مشركين كا دعوى كہ آنحضرت (ص) كى رسالت كى كوئي دليل و علامت موجود نہيں ہے يہ ان كى جہالت كى بڑى واضح علامت ہے _و قال الذين لا يعلمون لو لا تاتينا آية

۹ _ مشركين كى طرح يہود و نصارى بھى چاہتے تھے كہ انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى صداقت و سچائي كے بارے ميں اللہ تعالى ان سے گفتگو كرے _كذلك قال الذين من قبلهم مثل قولهم يہودو نصارى كے مقابلے ميں آيت ۱۱۳ ميں مشركين كا ذكر اس تعبير ''الذين لا يعلمون'' سے ہوا ہے جبكہ مورد بحث آيہ مجيدہ ميں مشركين اسى تعبيركے ساتھ ان لوگوں (الذين من قبلہم) كے مقابل قرار پائے ہيں اس تقابل سے معلوم ہوتاہے كہ ''الذين من قبلہم'' سے مراد يہود و نصارى ہيں _

۱۰_ اللہ تعالى كے بارے ميں زمانہ بعثت كے يہود و نصارى اور مشركين كى بصيرت و بينش كمزور و ضعيف تھي_

و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله كذلك قال الذين من قبلهم

۱۱ _ انبيائ( عليہم السلام) كے مخالفين كى سوچ اور تفكر پورى تاريخ ميں ايك جيسا ہى رہا ہے _

كذلك قال الذين من قبلهم تشابهت قلوبهم

۱۲ _ مشركين كے غير معقول اور ناروا بہانوں كے مقابل اللہ تعالى كا آنحضرت (ص) كو تسلى و حوصلہ عطا كرنا _

لو لا يكلمنا الله او تاتينا آية كذلك قال الذين من قبلهم گذشتہ امتوں كے كفر اختيار كرنے كا ذكر اور ان كى بہانہ تراشيوں كے بيان كرنے كے اہداف ميں سے ايك اپنے نبى (ص) كو تسلى بخشنا ہے يعنى اے حبيب (ص) اگر مشركين ايمان نہيں لاتے اور عذر و بہانے تراشتے ہيں تو يہ نہ سوچو كہ تم نے كوتاہى كى ہے بلكہ گزشتہ امتوں كے افراد بھى انبياءعليه‌السلام كے مقابل يوں ہى كرتے رہے ہيں _

۱۳ _ انسانوں كے افكار كا ايك جيسا ہونا تاريخى واقعات كے تكرار كے عوامل ميں سے ہے _

۴۰۳

كذلك قال الذين مثل قولهم تشابهت قلوبهم

۱۴ _ اللہ تعالى نے حضور سرور دو عالم (ص) كى رسالت كى حقانيت كے بہت سارے دلائل اور علامتيں لوگوں كے سامنے پيش كيں _قد بيّنا الآيات '' الآيات'' ميں '' ال'' استغراق اور شمول كے لئے ہے جو آيہ مجيدہ ميں كثرت و فراوانى پر دلالت كرتاہے_

۱۵ _ فقط اہل يقين ( جو لوگ بغض ، عناد اور ضد و ہٹ دھرمى سے پاك ہيں ) آيات الہى سے بہرہ مند ہوتے ہيں اور ان آيات كے پرتو ميں دينى حقائق اور معارف كو پاليتے ہيں _قد بينا الآيات لقوم يوقنون ''لقوم''ميں ''لام'' انتفاع كے لئے ہے كيونكہ پيامبر اسلام (ص) كى صداقت كى آيات و علامتيں سب كے سامنے پيش كى گئي ہيں پس مافوق جملے كا معنى يہ بنتاہے ہم نے دلائل ، علامتيں اور آيات سب كے لئے بيان كردى ہيں ليكن صرف اہل يقين ان سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

۱۶ _ آنحضرت (ص) اور ديگر انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى حقانيت پر دلائل و علائم كے نہ ہونے كا دعوى بے ہودہ اور جھوٹا دعوى ہے _لو لا تاتينا آية قد بينا الآيات لقوم يوقنون جملہ'' قد بينا الآيات'' اس دعوے كا جواب ہے جو جملہ '' لو لا تاتينا آية'' ميں بيان ہوا ہے_

۱۷_ يہ اميد يا توقع كہ اللہ تعالى عام لوگوں سے گفتگو فرمائے ايك پست اور نامعقول امر ہے_

قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله او تاتينا آية قد بينا الآيات

اللہ تعالى كا مشركين كے پہلے اعتراض ( لو لا يكلمنا اللہ) كا جواب نہ دينا اس امر كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ يہ اعتراض ہى پست ہے_ يعنى يہ اعتراض و خواہش اس قدر بے جا اور نامعقول ہے كہ جواب دينے كے لائق نہيں _

۱۸_ آنحضرت (ص) كى حقانيت كى بہت روشن اور واضح علامتيں قرآن حكيم كى آيات ہيں _قد بينا الآيات

'' الآيات'' سے مراد ممكن ہے وہ تمام دلائل اور علامتيں ہوں جو پيامبر گرامى اسلام (ص) كى نبوت كى صداقت و سچائي پر گواہ ہيں ان ميں سب سے واضح اور روشن قرآن كريم كى آيات ہيں يا يہ ہوسكتاہے كہ ان سے مراد خصوصاً قرآنى آيات ہى ہوں _

۱۹_ مشركين اپنى جہالت اور ہٹ دھرمى كى وجہ سے آيات قرآن كو آنحضرت (ص) كى حقانيت كى دليل نہ جانتے تھے_

قال الذين لا يعلمون لو لا تاتينا آية قد بينّا الآيات لقوم يوقنون

۴۰۴

آيات الہي: آيات الہى سے استفادہ ۱۵

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۴

امور: غير معقول امور ۱۷

انبياءعليه‌السلام : انبيائعليه‌السلام كى حقانيت ۱۶; انبياءعليه‌السلام كے دشمنوں كى مشابہت ۱۱

انسان: انسانوں سے اللہ تعالى كى گفتگو ۱۷; انسانوں كى فكرى مشابہت ۱۳

بے جا توقعات : ۵،۱۷

اللہ تعالى سے گفتگو كى توقع ۱،۵،۹; بے جا توقعات كا منبع ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۹،۱۶; پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كے دلائل ۱۴،۱۸،۱۹; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت كے دلائل ۶،۸; پيامبر اسلام (ص) كو تسلى ۱۲

تاريخ : تاريخ كى تكرار كے اسباب ۱۳

جہالت: جہالت كے آثار۴،۵،۷،۱۹

جہلا:

۴۰۵

دعوى : جھوٹا دعوى ۱۶

دين: دينى فہم ۱۵

مشرك: شرك كى بنياد۴

ضد وہٹ دھرمى : ہٹ دھرمى سے اجتناب كے نتائج ۱۵; ہٹ دھرمى كے نتائج۱۹

عيسائي: صدر اسلام كے عيسائيوں كى خداشناسى ۱۰; عيسائيوں كى خواہشات ۹; صدر اسلام كے عيسائيوں كا عقيدہ ۱۰; عيسائي اور پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۹

قرآن كريم : قرآن كريم كى اہميت و كردار ۱۸

مشركين : مشركين كے دعوے ۶،۸; مشركين كى بہانہ تراشياں ۱۲; مشركين كى جہالت ۴،۱۹; صدر اسلام كے مشركين كى خداشناسى ۱۰; مشركين كى خواہشات ۱،۲،۳،۹; صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ ۱۰; مشركين كى ہٹ دھرمى ۱۹; مشركين اور

۴۰۶

پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۱،۲، ۶،۹; مشركين اور پيامبر اسلام (ص) ۶،۱۹; مشركين كى جہالت كى علامتيں ۸

معجزہ : معجزہ كى خواہش ۲،۳; اپنى پسند كا معجزہ ۳

يقين: اہل يقين كى صفات۱۵; اہل يقين كى خصوصيات ۱۵

يہود: صدر اسلام كے يہوديوں كى خداشناسي۱۰; يہوديوں كى خواہشات ۹; صدر اسلام كے يہوديوں كا عقيدہ ۱۰; يہود اور پيامبراسلام (ص) كى حقانيت ۹

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ ( ۱۱۹ )

اے پيغمبر ہم نے آپ كو حق كے ساتھبشارت دينے والا اور ڈرانے والا بنا كربھيجا ہے اور آپ سے اہل جہنّم كے بارےميں كوئي سوال نہ كيا جائے گا (۱۱۹)

۱_ پيامبر اسلام (ص) اللہ تعالى كى جانب سے بھيجے گئے ہيں _انا ارسلناك

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كو عطا كيئے گئے معارف اور احكام سراسر حق ہيں _انا ارسلناك بالحق

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''بالحق'' كى ''بائ'' ، '' مع'' كا معنى ديتى ہو اور ''ك'' ضمير كے لئے حال ہو _ بنابريں ''الحق'' وہ احكام اور معارف ہيں جو آنحضرت (ص) كى طرف بھيجے گئے اور حضرت (ص) ان كى تبليغ پر مامور تھے _ پس ''انا ارسلناك بالحق'' يعنى اے حبيب (ص) تجھے ان معارف اور احكام كے ساتھ ہم نے انسانوں كي طرف بھيجا جو سراسر حق ہيں _

۳_ بشر كے نظام ہدايت كے لئے آنحضرت (ص) كو نبوت كے ساتھ بھيجنا انتہائي بجا ، شائستہ اور ضرورى امر ہے _

۴۰۷

انا ارسلناك بالحق

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''بالحق'' ارسال (بھيجنا) كے لئے قيد ہو يعنى '' انا ارسلناك ارسالاً بالحق_ اے پيامبر ہم نے تجھے انسانوں كى طرف بھيجا او ر يہ بھيجنا برحق اور ضرورى تھا_

۴ _ اسلام اور نبى اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كے لئے اللہ تعالى نے اتمام حجت فرماديا_قد بيّنا الآيات لقوم يوقنون_ انا ارسلناك بالحق

۵ _ نبى اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ انسانوں كى راہنمائي، مومنين كے نيك انجام اور كفار كے برے انجام كو بيان فرمائيں _انا ارسلناك بالحق بشيراً و نذيراً

۶ _ آنحضرت (ص) انسانوں كے ايمان و كردار كا ذمہ دار خود كو تصور فرماتے اور اپنے فريضہ كى انجام دہى كے بارے ميں پريشان رہتے _انا ارسلناك بالحق بشيراًو نذيراً و لا تسئل عن اصحاب الجحيم

آنحضرت (ص) كا فريضہ لوگوں كو بشارت دينے اور ڈرانے ميں متعين ہونا اور لوگوں كے كفر اختيار كرنے كى وجہ سے آپ (ص) كا مؤاخذہ نہ ہونا گويا بتلارہا ہے كہ آپ (ص) لوگوں كے ايمان نہ لانے پر پريشان رہے تھے _

۷_ لوگوں كى راہنمائي كرنے كے بعد پيامبر اسلام (ص) ان كے كردار كے ذمہ دار نہ تھے اور ان كے كفر اختيار كرنے پر آپ (ص) كا مؤاخذہ نہ ہوگا_و لا تسئل عن اصحاب الجحيم

۸_ لوگوں كى ہدايت كے لئے حضور (ص) كى روش، خوشخبرى دينا اور ڈرانا تھا_انا ارسلناك بالحق بشيراً و نذيراً

۹_ آنحضرت (ص) كى رسالت كا انكار كرنے والوں اور احكام اسلام سے انحراف كرنے والوں كا انجام جہنم ہے_

انا ارسلناك بالحق و لا تسئل عن اصحاب الجحيم

اسلام: اسلام كى حقانيت ۲،۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اتمام حجت ۴

انبيائے الہى : ۱

انجام : برا انجام ۵

انسان: انسانوں كے عمل كا ذمہ دار ۷

اہل جہنم : ۹

۴۰۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) كا ڈرانا ۸; پيامبر اسلام (ص) كى بشارتيں ۸; پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۳،۴; پيامبر اسلام (ص) كى رسالت ۱; پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانے والوں كا انجام ۹; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى كا دائرہ ۶،۷; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۵; پيامبر اسلام (ص) كى پريشانى ۶; پيامبر اسلام (ص) كا ہدايت كرنا ۵،۷،۸

دين: دين كى نافرمانى كا انجام ۹

كفار: كفار كا انجام ۵; كفار جہنم ميں ۹

ہدايت: ہدايت ميں ڈرانا ۸; ہدايت ميں بشارت۸; ہدايت كى روش ۸

وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ ( ۱۲۰ )

يہودو نصارى آپ سے اس وقت تك راضى نہ ہوں گےجب تك آپ ان كى ملّت كى پيروى نہ كرليں تو آپ كہہ ديجئے كہ ہدايت صرف ہدايتپروردگا رہے _ اور اگر آپ علم كے آنے كےبعد ان كے خواہشات كى پيروى كريں گے توپھر خدا كے عذاب سے بچانے والا نہ كوئيسرپرست ہوگا نہ مددگار ( ۱۲۰)

۱_ نبى اسلام (ص) اس اميد سے كہ يہود و نصارى اسلام قبول كريں گے ان كى رضايت كے طلبگار تھے _و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى بہت واضح ہے كہ يہو د و نصارى كى خوشنودى كو طلب كرنے ميں آنحضرت (ص) كا كوئي ذاتى مفاد نہ تھا_ بلكہ ايسا كرنا آپ (ص) كے فريضے كى خاطر تھا يعنى ان كو اسلام كے دائرہ ميں لانا يہى وجہ ہے كہ ہم نے يہ تعبير ( اس اميد سے كہ ) استعمال كى ہے _

۲ _ آنحضرت (ص) نے يہود و نصارى كو اسلام كے دائرے ميں آنے كى مسلسل دعوت دى _و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى

۳ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى ہدايت قبول كرنے والے لوگ نہ تھے _و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى

۴ _ يہود آنحضرت (ص) سے فقط اس صورت ميں راضى تھے كہ آپ (ص) دين يہوديت كو قبول كريں _ولن ترضى عنك اليهود ...حتى تتبع ملتهم ''ملة'' كا معنى دين اور آئين ہے _

۴۰۹

۵ _ نصارى كى رضايت فقط اس صورت ميں ممكن تھى كہ آنحضرت (ص) دين نصرانيت كو قبول كريں _

و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى حتى تتبع ملتهم

۶ _ يہو د و نصارى كے ساتھ سطحى اور سادہ موافقت ان كے اسلام كى طرف رجحان كے لئے كافى اور مؤثر نہيں ہے_

و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى حتى تتبع ملتهم

۷_ يہو د و نصارى كا اپنے دين سے دفاع اور اسلام كے مقابل ڈٹ جانا بے دليل اور بے منطق تعصب ہے_

و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى حتى تتبع ملتهم و لئن اتبعت اهواء هم

۸ _ اللہ تعالى كى جانب سے آنے والى ہدايت انتہائي كامل اور خالص ہے جو ہر طرح كى ضلالت و گمراہى كے تصور اور خطرناك نتائج سے پاك و منزہ ہے _ان هدى الله هو الهدى

'' الہدى '' ميں '' ال'' استغراق صفات كے لئے ہے اور ''ہو'' اس جملہ ميں ضمير فصل ہے جو حصر كى حكايت كررہى ہے بنابريں ( ان ہدى اللہ ہو الہدى ) يعنى فقط خداوند عالم كى ہدايت ہى كامل ہے _

۹ _ اسلام اور قرآن كريم انسانوں كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت كا پروگرام ہے _ان هدى الله هو الهدى مفسرين كى رائے ميں '' ہدى اللہ'' كا مورد نظر مصداق قرآن كريم اور اسلام ہيں _

۱۰_ يہود و نصارى كا موجودہ دين ان كى ذاتى آراء اور افكار پر مشتمل ہے جن كى بنياد ان كى ہوائے نفس ہے_

و لئن اتبعت اهواء هم ''حتى تتبع ملتهم'' كے قرينہ سے '' اہواء ہم'' سے مراد يہود و نصارى كا دين و مكتب ہے _ دين كو '' اہواء _ نفسانى خواہشات'' سے تعبير كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ يہود و نصارى نے جو كچھ پيش كيا ہوا تھا وہ ان كى آراء و نظريات تھے جن كى بنياد ان كى نفسانى خواہشات تھيں _

۱۱ _ يہو د و نصارى نے اپنى نفسانى خواہشات سے اٹھنے والى آراء اور افكار سے دين الہى ميں انحراف پيدا كرديا تھا_

و لئن اتبعت اهواء هم يہ واضح ہے كہ يہوديت و نصرانيت كے دين خدائي اور آسمانى تھے_ پس اس دين كو ان كى نفسانى خواہشات سے تعبير كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں اور نصرانيوں نے اپنے افكار و نظريات اور نفسانى خواہشات كو دين كے احكام اور معارف كے ساتھ ملاديا اور اسكى الہى صورت كو بگاڑ كے ركھ ديا _

۱۲ _ اللہ تعالى نے نبى اسلام (ص) كو يہود و نصارى كے دين كى پيروى كرنے سے منع فرمايا_

و لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من ولى و لا نصير

۴۱۰

۱۳ _ يہوديت و نصرانيت كا تحريف شدہ دين ايك جاہلانہ مكتب ہے جو انسانيت كى ہدايت كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتا _ان هدى الله هو الهدى و لئن اتبعت اهواء _ هم بعد الذى جاء ك من العلم '' ان ہدى اللہ ...'' ميں جو حصر ہے وہ يہود و نصارى كے دين پرناظر ہے يعنى يہ كہ ان كا تحريف شدہ دين ہدايت نہيں كرسكتا_ دين اسلام كو ''علم'' سے تعبير كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ يہود و نصارى كے دين كى بنياد علم پر نہيں ہے _

۱۴ _ ايسے معارف اور قوانين قابل اطاعت و پيروى ہيں جو نفسانى خواہشات سے خالى ہوں اور ان كى بنياد علم پر ہو _

و لئن اتبعت اہوائہم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من اللہ من ولى و لا نصير

۱۵ _ آنحضرت (ص) كو ہميشہ اللہ تعالى كى نصرت و تائيد حاصل تھى _و لئن اتبعت مالك من الله من ولى و لا نصير

۱۶ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) كو يہود و نصارى كے دين كے اتباع كى صورت ميں دھمكى دى كہ آپ (ص) اللہ كى نصرت و تائيد سے محروم ہوجائيں گے _لئن اتبعت اهوائهم مالك من الله من ولى و لا نصير

اس مطلب ميں ''من اللہ'' محذوف سے متعلق ہے اور ''ولى و لا نصير'' كے لئے حال ہے _ پس جملہ ''مالك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى كى طرف سے آپ (ص) كى حمايت و نصرت نہيں ہوگى _

۱۷_ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) كو يہود و نصارى كے دين كے اتباع كى صورت ميں اپنى طرف سے بعض سزاؤں كى دھمكى دي_لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من ولى و لا نصير يہ مطلب اس پر مبنى ہے كہ ''من الله'' ، ''ولى ولا نصير'' كے متعلق ہو بنابريں '' ولى و لا نصير'' كے معنى ميں ''منع'' كا معنى موجو د ہے _ پس جملہ '' مالك ...'' كا معنى يہ بنتاہے آپ كے لئے ايسا ياور و مددگار جو اللہ ( كى سزاؤں ) سے بچائے نہ ہوگا _

۱۸_ الہى قوانين كے ہوتے ہوئے ايسى آراء اور قوانين كى پيروى كرنا جن كى بنياد خواہشات نفسانى ہوں ،اس سے انسان اللہ تعالى كى سرپرستى اور نصرت سے محروم ہوجاتاہے_لئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من الله من ولى ولا نصير

۱۹_ جو لوگ عذاب الہى كے مستحق ہيں ان كو كوئي ياور و مددگار اللہ تعالى كى سزاؤں سے نہيں بچاسكتا_

مالك من الله من ولى و لا نصير

۲۰_ الہى قوانين كے ہوتے ہوئے ايسے نظريات و قوانين كى پيروى كرنا جن كى بنياد خواہشات نفسانى پر ہو اس سے انسان الہى سزاؤں ميں مبتلا ہوگا _

۴۱۱

لئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من الله من ولى ولا نصير

۲۱_ الہى ہدايت سے آگاہانہ مخالفت كرنا انحراف، ناقابل بخشش اور گناہ كبيرہ ہے _و لئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من الله من ولى ولا نصير

۲۲ _ اديان الہى ميں ايسے افكار و نظريات كى آميزش كا خطرہ ہے جن كى بنياد نفسانى خواہشات ہوں _لئن اتبعت اهواء هم

۲۳ _ دين كو ايسے افكار و نظريات سے محفوظ كرنا ضرورى ہے جن كى بنياد نفسانى خواہشات ہوں _لئن اتبعت اهوائهم مالك من الله من ولى و لا نصير

۲۴ _ دينى قائدين كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ مختلف معاشرتى گروہوں كے نفسانى رجحانات كى پيروى كريں _

و لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من ولى و لا نصير

اديان: اديان ميں انحراف كا خطرہ ۲۲

اسلام: اسلام كى اہميت و كردار ۹; اسلام كى ہدايت۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۶،۱۷; اللہ تعالى كى سزائيں ۲۰; اللہ تعالى كى ہدايت كى مخالفت ۲۱; نصرت الہى ۱۵; اللہ تعالى كے نواہى ۱۲; ہدايت الہى كى خصوصيات۸; ہدايت الہى ۹

انحراف: انحراف كے موارد۲۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تبليغى كوششيں ۲ ; پيامبر اسلام (ص) كى حمايت ۱۵; پيامبر اسلام (ص) اور عيسائيوں كا اسلام ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) اور يہوديوں كا اسلام ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) اور عيسائيت ۵،۱۲; پيامبر اسلام (ص) اور يہوديت ۴،۱۲; پيامبر اسلام(ص) كى ذمہ دارى ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كو تنبيہ ۱۲،۱۶،۱۷

دين: دين كو پہنچنے والے نقصانات كى پہچان ۲۲; دين كى حفاظت كى اہميت ۲۳; دين كے مقبول معيارات۱۴

دينى قائدين: دينى قائدين اور عوامى رجحانات۲۴; دينى قائدين كو تنبيہ ۱۹

سرپرستى : اللہ تعالى كى سرپرستى سے محروم ہونا ۱۸

سزا : سزا كے موجبات ۲۰

۴۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۹; عذاب سے نجات ۲۴

علم: علم كے نتائج ۲۱

عيسائي: عيسائيوں كا اسلام لانا ۶; عيسائيوں كا بے منطق ہونا ۷; عيسائيوں كا تعصب ۷; عيسائيوں كى رضايت حاصل كرنا ۱; عيسائيوں كى آنحضرت (ص) سے رضايت كى شرائط ۵; صدر اسلام كے عيسائي ۳; عيسائيوں سے معاہدہ ۶; عيسائي اور اسلام ۶; عيسائيوں كا ہدايت قبول نہ كرنا ۳; عيسائيوں كى نفس پرستى ۱۱

عيسائيت: عيسائيت كى پيروى كے نتائج ۱۶; عيسائيت كا انحراف ۱۱;عيسائيت كى پيروى ۵،۱۲; عيسائيت ميں تحريف ۱۰،۱۱،۱۳; عيسائيت كى كمزورى ۱۳; عيسائيت كى پيروى كى سزا ۱۷; عيسائيت كا سرچشمہ ۱۰

قانون: غير دينى قوانين كى پيروى ۱۸،۲۰

قرآن كريم : قرآن كريم كى اہميت ۹; قرآن كريم كا ہدايت كرنا ۹

گناہ كبيرہ : ۲۱

معاشرتى گروہ: معاشرتى گروہ اور دينى قائدين۲۴

نصرت : اللہ تعالى كى نصرت سے محروم ہونا ۱۶،۱۸

نفس پرستى : نفس پرستى كے نتائج ۱۰

يہود: يہوديوں كا اسلام ۶; يہوديوں كا بے منطق ہونا ۷; يہوديوں كا تعصب ۷; يہوديوں كى رضايت حاصل كرنا ۱; يہوديوں كى آنحضرت(ص) سے رضايت كى شرائط ۴; يہوديوں سے معاہدہ ۶; يہوديوں كى نفس پرستى ۱۱; صدر اسلام كے يہودى ۳; يہودى اور اسلام ۶; يہوديوں كا ہدايت قبول نہ كرنا ۳

يہوديت: يہوديت كى پيروى كے نتائج ۱۶; يہوديت كا انحراف ۱۱; يہوديت كى پيروى ۴،۱۲; يہوديت كى تحريف ۱۰،۱۱،۱۳; يہوديت كى كمزورى ۱۳; يہوديت كى پيروى كى سزا ۱۷; يہوديت كا منبع ۱۰

۴۱۳

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( ۱۲۱ )

اور جنلوگوں كو ہم نے قرآن ديا ہے وہ اس كيباقاعدہ بلادت كرتے ہيں اور اھيں كا اسپر ايمان بھى ہے اور جو اس كا انكاركرےگا اس كا شكارخسارہ والوں ميں ہوگا (۱۲۱)

۱_ يہود و نصارى ان امتوں ميں سے ہيں جن كے پاس آسمانى كتاب تھى _الذين آتيناهم الكتاب

۲ _ يہود و نصارى ميں سے جو تورات و انجيل كے حقيقى پيروكار ہيں وہى قرآن اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لاتے ہيں _الذين آتتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به '' تلاوت'' كامعنى ہے پڑھنا اور قرا ت كرنا_ بعض اہل لغت نے اسكا معنى اطاعت كرنا كيا ہے_ '' بہ '' كى ضمير سے مراد ممكن ہے قرآن كريم ہو يا پبامبر اسلام(ص) _نيز يہ ضمير الكتاب(تورات يا انجيل) كى طرف لوٹ سكتى ہے _ مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ يہ ضمير قرآن كريم يا پيامبر

اسلام (ص) كى طرف لوٹتى ہو اور تلاوت كا معنى پيروى كرنا ہو_

۳ _ تورات اور انجيل كى تلاوت و اطاعت، قرآن كريم اور پيامبر اسلام(ص) پر ايمان لانے كا موجب ہے _

الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به

۴ _ تورات و انجيل ميں قرآن كريم اور آنحضرت (ص) كے آنے كى بشارت دى گئي تھى اور ان پر ايمان لانے كا ذكر بھى تھا_الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به چونكہ تورات و انجيل كى تلاوت اور اطاعت قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے كا باعث ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ ان دو كتابوں ميں قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كے آنے كى بشارت دى گئي تھى اور ان پر ايمان لانے كا ذكر بھى تھا_

۴۱۴

۵ _ يہود و نصارى ميں سے وہ لوگ حقيقتاً اپنى آسمانى كتاب پر ايمان ركھتے ہيں جو در حقيقت اسكى اتباع اور پيروى كرتے ہيں _الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به اس مطلب ميں '' بہ'' كى ضمير '' الكتاب'' كى طرف لوٹائي گئي ہے كہ جس سے مراد تورات اور انجيل ہيں _

۶ _ آسمانى كتابوں كى اطاعت كرنا ضرورى ہے_يتلونه حق تلاوته

۷_ آسمانى كتابوں كے فرامين كى اطاعت كرنا ان پر ايمان لانے كى دليل ہے _الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به ''الذين'' مبتدا اور ''اولئك يؤمنون به'' اسكى خبر ہے اور جملہ '' يتلونہ ...'' ، ''الذين'' كے لئے حال ہے پس ''بہ'' كى ضمير ''الكتاب'' كى طرف لوٹانے سے جملے كا معنى يہ بنتاہے اہل كتاب ميں سے وہ لوگ '' جو اپنى كتاب كى پيروى كرتے ہيں '' اس پر ايمان ركھتے ہيں _

۸_سب انسانوں كا فريضہ ہے كہ آسمانى كتابوں كو پڑھيں اور تلاوت كريں _يتلونه حق تلاوته

۹_دينى حقائق كى انصاف سے تحقيق كى جائے تو ان پر ايمان لانے كا موجب ہے_يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به

۱۰_ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر اختيار كرنے والے حقيقتاً خود كو نقصان پہنچانے والے اور تباہ كرنے والے ہيں _و من يكفر به فاولئك هم الخاسرون

۱۱_ انسانوں كى حقيقى منفعت ان كے قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے ميں ہے _و من يكفر به فاؤلئك هم الخاسرون

۱۲ _ قرآن كريم اور پيامبر اسلا م(ص) كے فرامين كو ترك كرنے كا نتيجہ تباہى اور دنيا و آخرت كا گھاٹا ہے _و من يكفر به فاؤلئك هم الخاسرون اگر جملے ميں تلاوت كا معنى پيروى كرنا ہو تو كہا جاسكتاہے كہ ''من يكفر'' ميں كفر سے مراد قرينہ مقابلہ كى روشنى ميں قرآن كريم كے فرامين كا ترك كرنا ہے_ اسكو '' كفر عملي'' سے تعبير كرتے ہيں _

۱۳ _عن ابى ولاّد قال سألت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل '' الذين اتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به '' قال هم الائمه عليه‌السلام (۱)

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۲۱۵ ح ۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۲۰ ح ۳۳۶_

۴۱۵

ابى ولاّد كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام'' الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا '' يہ ائمہعليه‌السلام ہيں ''_

۱۴ _ امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان''الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته'' كے بارے ميں روايت وارد ہوئي ہے كہ:''يرتلون آياته و يتفقهون به و يعملون باحكامه و يرجون وعده و يخافون وعيده و يعتبرون بقصصه و يأتمرون باوامره و ينتهون بنواهيه (۱)

وہ لوگ قرآن كو ترتيل كے ساتھ پڑھتے ہيں اور آيات كے گہرے ادراك كى كوشش كرتے ہيں _ اس كے احكام پر عمل كرتے ہيں اس كے وعدوں كى اميد ركھتے ہيں اوراسكے وعيد سے خوف زدہ رہتے ہيں اس كے قصوں سے عبرت و نصيحت ليتے ہيں ، اس كے اوامر كو بجالاتے ہيں اور اس كے نواہى سے دورى اختيار كرتے ہيں _

ائمہعليه‌السلام : آئمة كا علم ۱۳; آئمہعليه‌السلام كے فضائل ۱۳

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كے اتباع كى اہميت ۶; آسمانى كتابوں كى تلاوت كى اہميت ۸; آسمانى كتابوں كى پيروى ۵،۷; آسمانى كتابوں پر ايمان لانے والے ۵

اسلام: اسلام پر ايمان لانے والے۲

انجيل: انجيل كى پيروى كے نتائج ۳; انجيل كى تلاوت كے نتائج ۳; انجيل كى بشارتيں ۴; انجيل كے پيروكار ۲

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۸; انسانوں كے منافع ۱۱

ايمان: قرآن كريم پر ايمان كے نتائج ۱۱; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے نتائج ۱۱; قرآن پر ايمان ۴; آسمانى كتابوں پر ايمان ۷; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۴; قرآن كريم پر ايمان كے اسباب ۳; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے اسباب ۳; ايمان كے متعلقات ۴،۷; ايمان كے موجبات ۹; ايمان كى علامتيں ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے فرامين سے منہ موڑنے كے نتائج ۱۲;پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۴; پيامبر اسلام (ص) ; تورات ميں ۴

____________________

۱) ارشاد القلوب ديلمى ص ۷۸ باب ۱۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۴۷ ح ۴_

۴۱۶

تورات: تورات كى پيروى كے نتائج ۳; تورات كى تلاوت كے نتائج ۳; تورات كى بشارتيں ۴; تورات كے پيروكار ۲

خود: خود كى تباہى كے عوامل ۱۰،۱۲

دين: دين كى تعليمات كے نتائج ۹

روايت: ۱۳،۱۴

زياں كار لوگ:۱۰

عبرت: عبرت كے عوامل ۱۴

عيسائي: عيسائيوں كى آسمانى كتاب۱; مؤمن عيسائي ۵; اسلام پر ايمان لانے والے عيسائي ۲; قرآن كريم پر ايمان لانے والے عيسائي ۲

قرآن كريم : قرآن كريم سے منہ موڑے كے نتائج ۱۲; قرآن كريم كى ترتيل كے ساتھ تلاوت ۱۴; قرآن كريم كى تلاوت كرنے والے ۱۴; قرآنى قصوں سے عبرت ۱۴; قرآن پر عمل ۱۴; قرآن كريم كا ادراك۱۴; قرآن كريم انجيل ميں ۴; قرآن كريم تورات ميں ۴; قرآن پہ ايمان لانے والے ۲

كفار: كفار كا نقصان ۱۰

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر كے نتائج ۱۰ پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر كے نتائج ۱۰

نقصان: نقصان كے اسباب ۱۲

يہود: يہوديوں كى آسمانى كتاب۱; مؤمن يہود۵; قرآن كريم پر ايمان لانے والے يہود ۲; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے والے يہود ۲

۴۱۷

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ( ۱۲۲ )

اے بنى اسرائيل ان نعمتوں كو ياد كرو جوہم نے تمھيں عنايت كى ہيں اور جى كے طفيلتمھيں سارے عالم سے بہتر بناديا ہے (۱۲۲)

۱_ ماضى ميں اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو گراں قدر نعمتوں سے نوازا_يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

''نعمت'' مفرد استعمال ہواہے اس سے ممكن ہے خاص نعمت مراد ہو جيسے حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت يا اس سے مراد جنس نعمت ہو تو اس اعتبار سے ا س ميں متعدد نعمتيں شامل ہوں گى جن سے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نوازا _ نعمت كو ''يائ'' متكلم كى طرف اضافہ كرنا يعنى نعمت كو اللہ تعالى كى طرف نسبت دينااس امر كى حكايت كرتاہے كہ يہ نعمت يا نعمتيں بہت باعظمت ہيں _

۲_ اپنے بندوں پر نعمتيں بھيجنے والا اللہ تعالى ہے _نعمتى التى انعمت عليكم

۳ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اس كى نعمتوں كا ذكر كريں اور ان كو ہميشہ ياد ركھيں _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

۴ _ بنى اسرائيل زمانہ نزول قرآن تك قوم و قبيلے كى صورت ركھتے تھے_يا بنى اسرائيل

۵ _ بنى اسرائيل قرآن كريم كے مخاطبين ميں سے ہيں اور ان كى ذمہ دارى ہے كہ قرآن كريم كى پيروى كريں _

يا بنى اسرائيل اذكروا

۶ _ نعمتوں كو ياد كرنے كا مقصد اللہ تعالى كى ياد اور نعمتوں كو اس كى جانب سے جانناہے_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم ''نعمت'' كى اسطرح تعريف كرنا كہ اسكو اللہ تعالى نے عنايت كيا ہے (انعمت عليكم) اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت عطا كرنے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے_

۷_ اللہ تعالى نے تاريخ كے ايك خاص زمانے ميں بنى

۴۱۸

اسرائيل كو سب انسانوں پر فضيلت بخشي_و انى فضلتكم على العالمين

'' عالمين '' كا اطلاق كبھى تو تمام عالم ہستى پر ہوتاہے اور كبھى اسكا استعمال عقل و شعور ركھنے والى مخلوقات كے لئے اور بعض اوقات فقط انسانوں كے لئے استعمال ہوتاہے _ حكم اور موضوع كى مناسبت سے آيہ مجيدہ ميں ظاہراً اس سے مراد انسان ہيں _

۸ _ ايك خاص زمانے ميں سب انسانوں پر نبى اسرائيل كى برترى اللہ تعالى كى بنى اسرائيل پر انتہائي عظيم نعمتوں ميں سے تھي_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم و انى فضلتكم على العالمين يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' انى فضلتكم'' ، '' نعمتي'' پر عطف خاص على العام ہو ياعطف تفسير ى ہو_

۹_ اگر بنى اسرائيل اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كو ياد كريں اور گزشتہ زمانوں ميں اپنى فضيلت كے اسباب كى تحقيق كريں تو پيامبر اسلام (ص) پر ان كے ايمان كى زمين ہموار ہوجائے_و من يكفر به فاولئك هم الخاسرون _ يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتي پيامبر اسلام (ص) اور قرآن كريم كے بارے ميں كفر اختيار كرنے كا ذكر كرنے كے بعد خداداد نعمتوں كو ياد كرنے كى نصيحت ممكن ہے ايمان كى زمين فراہم كرنے كے لئے ايك راہنمائي ہو_

۱۰_ نعمتوں كو ياد كرنا اور ان كو اللہ تعالى كى جانب سے جاننا انسان كى ہدايت ميں اسكا بڑا اہم كردار ہے _

يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

اللہ تعالى : افعال الہى ۷; اللہ تعالى كى عنايات۲; اللہ تعالى كى نعمتيں ۱،۲،۸

ايمان: پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كى زمين ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى برترى ۷،۸،۹; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۷; بنى اسرائيل كے اسلام لانے كى بنياد۹; بنى اسرائيل كى معاشرتى شكل ۴; قوم بنى اسرائيل ۴; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۳،۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱،۸،۹

ذكر: الہى نعمتوں كے ذكر كے نتائج ۹،۱۰;ذكر خدا ۶; ذكر نعمت ۳; نعمت كے ذكر كا فلسفہ ۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيروى ۵; قرآن كے مخاطبين ۵

نعمت: نعمت كا سرچشمہ ۶،۱۰

ہدايت: ہدايت كے اسباب ۱۰

۴۱۹

وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ ( ۱۲۳ )

اور اس دن سے ڈرو جس دن كوئي كسى كافديہنہ ہوسكے گا اور نہ كوئي معاوضہ كام آئےگا نہ كوئي سفارش ہوگى اور نہ كوئي مددكى جاسكے گى (۱۲۳)

۱_ قيامت ايك باعظمت دن ہے جسكاسامناسب كو كرنا پڑے گا_واتقوا يوماً ''يوماً'' سے مراد قيامت كا دن ہے اور اسكا نكرہ لانا اس كى عظمت پر دلالت كرتاہے_

۲ _ قيامت انتہائي ہولناك دن ہے جس سے بچنے كے لئے بہت ہى كارساز سبب آمادہ كرنے كى ضرورت ہے_

واتقوا يوماً''اتقوا'' كا مصدر '' اتقائ'' ہے يعنى كسى ہولناك اور خطرناك چيز سے بچنے اور اس سے حفاظت كے لئے كسى وسيلے كو اختيار كرنا يا تيار كرنا _ پس '' اتقوا يوماً'' دلالت كرتاہے كہ روز قيامت جو ہولناكيوں اور خطرات سے پر ہے اس سے بچنے كے لئے انسان وقاية ( حفاظت كا وسيلہ ) آمادہ و تيار كرے _

۳ _ قيامت كے عذاب اور خطرات سے حفاظت كا وسيلہ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پرايمان اور ان كے

بارے ميں كفر اختيار كرنے سے اجتناب كرنا ہے _اولئك يؤمنون به و من يكفر به ...واتقوا يوماً

ايمان كى ترغيب ''اولئك يؤمنون به '' اور كفر اختيار كرنے ( و من يكفر ...) سے متنبہ كرنے كے بعدوقايہ ( حفاظت كا وسيلہ) تيار كرنے كا فرمان دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ روز قيامت كا انسان كے لئے وقايہ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان اور ان دو كا كفر اختيار كرنے سے اجتناب ہے _

۴ _ قيامت كے روز كوئي بھى كسى دوسرے كا ذرہ برابر عذاب ذمے نہ لے گا اور نہ ہى اسكا متحمل ہوسكے گا_واتقوا يوماً لا تجزى نفس شيئاً

۵ _ قيامت كے دن كسى سے بھى كوئي فديہ يا عوض قبول نہ كيا جائے گا كہ جس سے خود كو بچاسكے _و لا يقبل منها عدل

'' عدل' ' ا س فديہ ياعوض كو كہتے ہيں جو انسان اپنى يا كسى كى قيد و غيرہ سے رہائي كے لئے دے_

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785