تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201009 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

۱۰_ اللہ تعالى '' جس چيز كا ارادہ فرمائے'' اس كو وجود ميں لانے پر قادر ہے يہ اس امر كى دليل ہے كہ وہ صاحب اولاد ہونے يا فرزند كى ضرورت سے منزہ و پاك ہے_قالوا اتخذ الله ولداً سبحانه بل و اذا قضى امراً فانما يقول له كن

يہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ '' و اذا قضى امراً '' بھى آيہ مباركہ كے ماقبل حصے كى طرح اللہ تعالى كے صاحب اولاد ہونے يا فرزند اختيار كرنے سے پاك و منزہ ہونے كى دليل ہو_

۱۱ _ سدير صيرفى كہتے ہيں كہ ميں نے سنا حمران بن اعين نے امام باقرعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ''بديع السماوات والأرض '' كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ''ان الله ابتدع الاشياء بعلمه كلها على غير مثال كان قبله فابتدع السماوات والأرضين و لم يكن قبلهن سماوا ت ولا أرضون ..(۱)

اللہ تعالى نے تمام اشياء كو اپنے علم سے خلق فرمايا جبكہ اس سے قبل ان كى مثال يا نمونہ موجود نہ تھا پس پروردگار نے آسمانوں اور زمينوں كو خلق فرمايا جبكہ اس سے قبل نہ آسمان تھے اور نہ زمينيں _

۱۲ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے ارادہ كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا''... فارادة الله الفعل لا غير ذلك يقول له ''كن فيكون'' بلا لفظ و لا نطق بلسان و لا همة و لا تفكر و لا كيف لذلك كما انه لا كيف له (۲) اللہ تعالى كا ارادہ اس كا عين فعل ہے نہ كچھ اور جب وہ كسى چيز كے وجود ميں آنے كا فرمان صادر فرماتاہے تو كہتاہے '' ہوجا'' اس فرمان كے ساتھ ہى وہ چيز وجود ميں آجاتى ہے بغير اس كے كہ كوئي لفظ صادر ہو نہ تو اس ميں زبان سے كوئي كلام اور نہ ہى قصد و تفكر شامل ہوتاہے _ ارادہ الہى كيفيت سے خالى ہوتاہے جيسا كہ اس كى ذات اقدس ميں كيفيت نہيں ہے _

آسمان : آسمانوں كى خلقت كا آغاز ۳ ;آسمانوں كى بغير نمونے كے تخليق ۱،۵; آسمانوں كامتعدد ہونا ۲; آسمانوں كا خالق ۱

آفرينش : عالم آفرينش كا آغاز ۳

اسماء اور صفات: جلالى صفات۵; جمالى صفات۵،۹

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۲۵۶ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۹ ح ۳۲۸_

۲) كافى ج/۱ ص ۱۰۹ ح ۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۹، ح ۳۳۳_

۴۰۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا بغير نمونے كے تخليق كرنا ۱،۵،۱۱; ارادہ الہى ۱۰،۱۲ ; افعال خدا ۱۲; اوامر الہى ۷،۸; اللہ تعالى كى بے نيازى ۵،۹; تقديرات الہى ۶ ، ۷ ; اللہ تعالى كى خالقيت۶،۷،۸ ،۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; اللہ تعالى اور فرزند ۵،۱۰; اللہ تعالى كے منزہ ہونے كے دلائل ۵،۱۰; قدرت الہى ۶،۱۰

روايت: ۱۱،۱۲

وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ لَوْلاَ يُكَلِّمُنَا اللّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ( ۱۱۸ )

يہ جاہل مشركين كہتے ہيں كہ خدا ہم سےكلام كيوں نہيں كرتا اور ہم پر آيت كيوں نازل نہيں كرتا _ان كے پہلے والے بھيايسى ہى جہالت كى باتيں كرچكے ہيں _ انسب كے دل ملتے جلتے ہيں اور ہم نے تو اہليقين كے لئے آيات كو واضح كرديا ہے (۱۱۸)

۱_ مشركين چاہتے تھے كہ اللہ تعالى پيامبراسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كے بارے ميں ان سے براہ راست گفتگو كرے _و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله بعد والى آيت ( انا ارسلناك بالحق ) دلالت كرتى ہے كہ مشركين كى اعتراض آميز تجوير '' لو لا يكلمنا اللہ _ اللہ ہم سے كيوں كلام نہيں كرتا'' پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كے بارے ميں تھي_

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كو قبول كرنے كے لئے مشركين كوئي دليل يا معجزہ چاہتے تھے _

زمين: زمين كى خلقت كا آغاز ۳; زمين كا بغير نمونے كے خلق ہونا ۱،۵; زمين كا خالق ۱

قضاو قدر : ۶،۷

موجودات: موجودات كى اطاعت۴; موجودات كى خلقت

۹; موجودات كى خلقت كى كيفيت ۷،۸و قال الذين لا يعلمون لو لا او تاتينا آية

۳ _ مشركين چاہتے تھے كہ وہ معجزہ ہو جسكى انہوں نے تجويز دى ہے *و قال الذين لا يعلمون لو لا تاتينا آية

۴ _ شرك كى بنياد جہالت ہے اور مشركين نادان و جاہل ہيں _و قال الذين لا يعلمون

'' الذين لا يعلمون'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كو نادان كہنا دو حقيقتوں كى طرف اشارہ ہے اول يہ كہ شرك كى جڑ اور اساس جہالت ہے

۴۰۲

دوسرا ان كا يہ تجويز دينا كہ اللہ تعالى ان سے كلام كرے يا كوئي معجزہ ہو يہ انكى نادانى و جہالت كى دليل ہے _

۵ _ لوگوں كى يہ توقع كہ اللہ تعالى ان سے گفتگو كرے يہ جہالت كى پيداوار ہے _و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله

۶ _ مشركين نے پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے مظاہر و دلائل كو نظر انداز كرتے ہوئے دعوى كيا كہ آپ (ص) كى رسالت كى حقانيت كى كوئي دليل يا علامت نہيں ہے_و قال الذين لا يعلمون لو لا تأتينا آية

۷ _ جہالت بے جا اور غير معقول توقعات كا سرچشمہ ہے_و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله

۸ _ مشركين كا دعوى كہ آنحضرت (ص) كى رسالت كى كوئي دليل و علامت موجود نہيں ہے يہ ان كى جہالت كى بڑى واضح علامت ہے _و قال الذين لا يعلمون لو لا تاتينا آية

۹ _ مشركين كى طرح يہود و نصارى بھى چاہتے تھے كہ انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى صداقت و سچائي كے بارے ميں اللہ تعالى ان سے گفتگو كرے _كذلك قال الذين من قبلهم مثل قولهم يہودو نصارى كے مقابلے ميں آيت ۱۱۳ ميں مشركين كا ذكر اس تعبير ''الذين لا يعلمون'' سے ہوا ہے جبكہ مورد بحث آيہ مجيدہ ميں مشركين اسى تعبيركے ساتھ ان لوگوں (الذين من قبلہم) كے مقابل قرار پائے ہيں اس تقابل سے معلوم ہوتاہے كہ ''الذين من قبلہم'' سے مراد يہود و نصارى ہيں _

۱۰_ اللہ تعالى كے بارے ميں زمانہ بعثت كے يہود و نصارى اور مشركين كى بصيرت و بينش كمزور و ضعيف تھي_

و قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله كذلك قال الذين من قبلهم

۱۱ _ انبيائ( عليہم السلام) كے مخالفين كى سوچ اور تفكر پورى تاريخ ميں ايك جيسا ہى رہا ہے _

كذلك قال الذين من قبلهم تشابهت قلوبهم

۱۲ _ مشركين كے غير معقول اور ناروا بہانوں كے مقابل اللہ تعالى كا آنحضرت (ص) كو تسلى و حوصلہ عطا كرنا _

لو لا يكلمنا الله او تاتينا آية كذلك قال الذين من قبلهم گذشتہ امتوں كے كفر اختيار كرنے كا ذكر اور ان كى بہانہ تراشيوں كے بيان كرنے كے اہداف ميں سے ايك اپنے نبى (ص) كو تسلى بخشنا ہے يعنى اے حبيب (ص) اگر مشركين ايمان نہيں لاتے اور عذر و بہانے تراشتے ہيں تو يہ نہ سوچو كہ تم نے كوتاہى كى ہے بلكہ گزشتہ امتوں كے افراد بھى انبياءعليه‌السلام كے مقابل يوں ہى كرتے رہے ہيں _

۱۳ _ انسانوں كے افكار كا ايك جيسا ہونا تاريخى واقعات كے تكرار كے عوامل ميں سے ہے _

۴۰۳

كذلك قال الذين مثل قولهم تشابهت قلوبهم

۱۴ _ اللہ تعالى نے حضور سرور دو عالم (ص) كى رسالت كى حقانيت كے بہت سارے دلائل اور علامتيں لوگوں كے سامنے پيش كيں _قد بيّنا الآيات '' الآيات'' ميں '' ال'' استغراق اور شمول كے لئے ہے جو آيہ مجيدہ ميں كثرت و فراوانى پر دلالت كرتاہے_

۱۵ _ فقط اہل يقين ( جو لوگ بغض ، عناد اور ضد و ہٹ دھرمى سے پاك ہيں ) آيات الہى سے بہرہ مند ہوتے ہيں اور ان آيات كے پرتو ميں دينى حقائق اور معارف كو پاليتے ہيں _قد بينا الآيات لقوم يوقنون ''لقوم''ميں ''لام'' انتفاع كے لئے ہے كيونكہ پيامبر اسلام (ص) كى صداقت كى آيات و علامتيں سب كے سامنے پيش كى گئي ہيں پس مافوق جملے كا معنى يہ بنتاہے ہم نے دلائل ، علامتيں اور آيات سب كے لئے بيان كردى ہيں ليكن صرف اہل يقين ان سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

۱۶ _ آنحضرت (ص) اور ديگر انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى حقانيت پر دلائل و علائم كے نہ ہونے كا دعوى بے ہودہ اور جھوٹا دعوى ہے _لو لا تاتينا آية قد بينا الآيات لقوم يوقنون جملہ'' قد بينا الآيات'' اس دعوے كا جواب ہے جو جملہ '' لو لا تاتينا آية'' ميں بيان ہوا ہے_

۱۷_ يہ اميد يا توقع كہ اللہ تعالى عام لوگوں سے گفتگو فرمائے ايك پست اور نامعقول امر ہے_

قال الذين لا يعلمون لو لا يكلمنا الله او تاتينا آية قد بينا الآيات

اللہ تعالى كا مشركين كے پہلے اعتراض ( لو لا يكلمنا اللہ) كا جواب نہ دينا اس امر كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ يہ اعتراض ہى پست ہے_ يعنى يہ اعتراض و خواہش اس قدر بے جا اور نامعقول ہے كہ جواب دينے كے لائق نہيں _

۱۸_ آنحضرت (ص) كى حقانيت كى بہت روشن اور واضح علامتيں قرآن حكيم كى آيات ہيں _قد بينا الآيات

'' الآيات'' سے مراد ممكن ہے وہ تمام دلائل اور علامتيں ہوں جو پيامبر گرامى اسلام (ص) كى نبوت كى صداقت و سچائي پر گواہ ہيں ان ميں سب سے واضح اور روشن قرآن كريم كى آيات ہيں يا يہ ہوسكتاہے كہ ان سے مراد خصوصاً قرآنى آيات ہى ہوں _

۱۹_ مشركين اپنى جہالت اور ہٹ دھرمى كى وجہ سے آيات قرآن كو آنحضرت (ص) كى حقانيت كى دليل نہ جانتے تھے_

قال الذين لا يعلمون لو لا تاتينا آية قد بينّا الآيات لقوم يوقنون

۴۰۴

آيات الہي: آيات الہى سے استفادہ ۱۵

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۴

امور: غير معقول امور ۱۷

انبياءعليه‌السلام : انبيائعليه‌السلام كى حقانيت ۱۶; انبياءعليه‌السلام كے دشمنوں كى مشابہت ۱۱

انسان: انسانوں سے اللہ تعالى كى گفتگو ۱۷; انسانوں كى فكرى مشابہت ۱۳

بے جا توقعات : ۵،۱۷

اللہ تعالى سے گفتگو كى توقع ۱،۵،۹; بے جا توقعات كا منبع ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۹،۱۶; پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كے دلائل ۱۴،۱۸،۱۹; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت كے دلائل ۶،۸; پيامبر اسلام (ص) كو تسلى ۱۲

تاريخ : تاريخ كى تكرار كے اسباب ۱۳

جہالت: جہالت كے آثار۴،۵،۷،۱۹

جہلا:

۴۰۵

دعوى : جھوٹا دعوى ۱۶

دين: دينى فہم ۱۵

مشرك: شرك كى بنياد۴

ضد وہٹ دھرمى : ہٹ دھرمى سے اجتناب كے نتائج ۱۵; ہٹ دھرمى كے نتائج۱۹

عيسائي: صدر اسلام كے عيسائيوں كى خداشناسى ۱۰; عيسائيوں كى خواہشات ۹; صدر اسلام كے عيسائيوں كا عقيدہ ۱۰; عيسائي اور پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۹

قرآن كريم : قرآن كريم كى اہميت و كردار ۱۸

مشركين : مشركين كے دعوے ۶،۸; مشركين كى بہانہ تراشياں ۱۲; مشركين كى جہالت ۴،۱۹; صدر اسلام كے مشركين كى خداشناسى ۱۰; مشركين كى خواہشات ۱،۲،۳،۹; صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ ۱۰; مشركين كى ہٹ دھرمى ۱۹; مشركين اور

۴۰۶

پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۱،۲، ۶،۹; مشركين اور پيامبر اسلام (ص) ۶،۱۹; مشركين كى جہالت كى علامتيں ۸

معجزہ : معجزہ كى خواہش ۲،۳; اپنى پسند كا معجزہ ۳

يقين: اہل يقين كى صفات۱۵; اہل يقين كى خصوصيات ۱۵

يہود: صدر اسلام كے يہوديوں كى خداشناسي۱۰; يہوديوں كى خواہشات ۹; صدر اسلام كے يہوديوں كا عقيدہ ۱۰; يہود اور پيامبراسلام (ص) كى حقانيت ۹

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ ( ۱۱۹ )

اے پيغمبر ہم نے آپ كو حق كے ساتھبشارت دينے والا اور ڈرانے والا بنا كربھيجا ہے اور آپ سے اہل جہنّم كے بارےميں كوئي سوال نہ كيا جائے گا (۱۱۹)

۱_ پيامبر اسلام (ص) اللہ تعالى كى جانب سے بھيجے گئے ہيں _انا ارسلناك

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كو عطا كيئے گئے معارف اور احكام سراسر حق ہيں _انا ارسلناك بالحق

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''بالحق'' كى ''بائ'' ، '' مع'' كا معنى ديتى ہو اور ''ك'' ضمير كے لئے حال ہو _ بنابريں ''الحق'' وہ احكام اور معارف ہيں جو آنحضرت (ص) كى طرف بھيجے گئے اور حضرت (ص) ان كى تبليغ پر مامور تھے _ پس ''انا ارسلناك بالحق'' يعنى اے حبيب (ص) تجھے ان معارف اور احكام كے ساتھ ہم نے انسانوں كي طرف بھيجا جو سراسر حق ہيں _

۳_ بشر كے نظام ہدايت كے لئے آنحضرت (ص) كو نبوت كے ساتھ بھيجنا انتہائي بجا ، شائستہ اور ضرورى امر ہے _

۴۰۷

انا ارسلناك بالحق

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''بالحق'' ارسال (بھيجنا) كے لئے قيد ہو يعنى '' انا ارسلناك ارسالاً بالحق_ اے پيامبر ہم نے تجھے انسانوں كى طرف بھيجا او ر يہ بھيجنا برحق اور ضرورى تھا_

۴ _ اسلام اور نبى اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كے لئے اللہ تعالى نے اتمام حجت فرماديا_قد بيّنا الآيات لقوم يوقنون_ انا ارسلناك بالحق

۵ _ نبى اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ انسانوں كى راہنمائي، مومنين كے نيك انجام اور كفار كے برے انجام كو بيان فرمائيں _انا ارسلناك بالحق بشيراً و نذيراً

۶ _ آنحضرت (ص) انسانوں كے ايمان و كردار كا ذمہ دار خود كو تصور فرماتے اور اپنے فريضہ كى انجام دہى كے بارے ميں پريشان رہتے _انا ارسلناك بالحق بشيراًو نذيراً و لا تسئل عن اصحاب الجحيم

آنحضرت (ص) كا فريضہ لوگوں كو بشارت دينے اور ڈرانے ميں متعين ہونا اور لوگوں كے كفر اختيار كرنے كى وجہ سے آپ (ص) كا مؤاخذہ نہ ہونا گويا بتلارہا ہے كہ آپ (ص) لوگوں كے ايمان نہ لانے پر پريشان رہے تھے _

۷_ لوگوں كى راہنمائي كرنے كے بعد پيامبر اسلام (ص) ان كے كردار كے ذمہ دار نہ تھے اور ان كے كفر اختيار كرنے پر آپ (ص) كا مؤاخذہ نہ ہوگا_و لا تسئل عن اصحاب الجحيم

۸_ لوگوں كى ہدايت كے لئے حضور (ص) كى روش، خوشخبرى دينا اور ڈرانا تھا_انا ارسلناك بالحق بشيراً و نذيراً

۹_ آنحضرت (ص) كى رسالت كا انكار كرنے والوں اور احكام اسلام سے انحراف كرنے والوں كا انجام جہنم ہے_

انا ارسلناك بالحق و لا تسئل عن اصحاب الجحيم

اسلام: اسلام كى حقانيت ۲،۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اتمام حجت ۴

انبيائے الہى : ۱

انجام : برا انجام ۵

انسان: انسانوں كے عمل كا ذمہ دار ۷

اہل جہنم : ۹

۴۰۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) كا ڈرانا ۸; پيامبر اسلام (ص) كى بشارتيں ۸; پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ۳،۴; پيامبر اسلام (ص) كى رسالت ۱; پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانے والوں كا انجام ۹; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى كا دائرہ ۶،۷; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۵; پيامبر اسلام (ص) كى پريشانى ۶; پيامبر اسلام (ص) كا ہدايت كرنا ۵،۷،۸

دين: دين كى نافرمانى كا انجام ۹

كفار: كفار كا انجام ۵; كفار جہنم ميں ۹

ہدايت: ہدايت ميں ڈرانا ۸; ہدايت ميں بشارت۸; ہدايت كى روش ۸

وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ ( ۱۲۰ )

يہودو نصارى آپ سے اس وقت تك راضى نہ ہوں گےجب تك آپ ان كى ملّت كى پيروى نہ كرليں تو آپ كہہ ديجئے كہ ہدايت صرف ہدايتپروردگا رہے _ اور اگر آپ علم كے آنے كےبعد ان كے خواہشات كى پيروى كريں گے توپھر خدا كے عذاب سے بچانے والا نہ كوئيسرپرست ہوگا نہ مددگار ( ۱۲۰)

۱_ نبى اسلام (ص) اس اميد سے كہ يہود و نصارى اسلام قبول كريں گے ان كى رضايت كے طلبگار تھے _و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى بہت واضح ہے كہ يہو د و نصارى كى خوشنودى كو طلب كرنے ميں آنحضرت (ص) كا كوئي ذاتى مفاد نہ تھا_ بلكہ ايسا كرنا آپ (ص) كے فريضے كى خاطر تھا يعنى ان كو اسلام كے دائرہ ميں لانا يہى وجہ ہے كہ ہم نے يہ تعبير ( اس اميد سے كہ ) استعمال كى ہے _

۲ _ آنحضرت (ص) نے يہود و نصارى كو اسلام كے دائرے ميں آنے كى مسلسل دعوت دى _و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى

۳ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى ہدايت قبول كرنے والے لوگ نہ تھے _و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى

۴ _ يہود آنحضرت (ص) سے فقط اس صورت ميں راضى تھے كہ آپ (ص) دين يہوديت كو قبول كريں _ولن ترضى عنك اليهود ...حتى تتبع ملتهم ''ملة'' كا معنى دين اور آئين ہے _

۴۰۹

۵ _ نصارى كى رضايت فقط اس صورت ميں ممكن تھى كہ آنحضرت (ص) دين نصرانيت كو قبول كريں _

و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى حتى تتبع ملتهم

۶ _ يہو د و نصارى كے ساتھ سطحى اور سادہ موافقت ان كے اسلام كى طرف رجحان كے لئے كافى اور مؤثر نہيں ہے_

و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى حتى تتبع ملتهم

۷_ يہو د و نصارى كا اپنے دين سے دفاع اور اسلام كے مقابل ڈٹ جانا بے دليل اور بے منطق تعصب ہے_

و لن ترضى عنك اليهود و لا النصارى حتى تتبع ملتهم و لئن اتبعت اهواء هم

۸ _ اللہ تعالى كى جانب سے آنے والى ہدايت انتہائي كامل اور خالص ہے جو ہر طرح كى ضلالت و گمراہى كے تصور اور خطرناك نتائج سے پاك و منزہ ہے _ان هدى الله هو الهدى

'' الہدى '' ميں '' ال'' استغراق صفات كے لئے ہے اور ''ہو'' اس جملہ ميں ضمير فصل ہے جو حصر كى حكايت كررہى ہے بنابريں ( ان ہدى اللہ ہو الہدى ) يعنى فقط خداوند عالم كى ہدايت ہى كامل ہے _

۹ _ اسلام اور قرآن كريم انسانوں كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت كا پروگرام ہے _ان هدى الله هو الهدى مفسرين كى رائے ميں '' ہدى اللہ'' كا مورد نظر مصداق قرآن كريم اور اسلام ہيں _

۱۰_ يہود و نصارى كا موجودہ دين ان كى ذاتى آراء اور افكار پر مشتمل ہے جن كى بنياد ان كى ہوائے نفس ہے_

و لئن اتبعت اهواء هم ''حتى تتبع ملتهم'' كے قرينہ سے '' اہواء ہم'' سے مراد يہود و نصارى كا دين و مكتب ہے _ دين كو '' اہواء _ نفسانى خواہشات'' سے تعبير كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ يہود و نصارى نے جو كچھ پيش كيا ہوا تھا وہ ان كى آراء و نظريات تھے جن كى بنياد ان كى نفسانى خواہشات تھيں _

۱۱ _ يہو د و نصارى نے اپنى نفسانى خواہشات سے اٹھنے والى آراء اور افكار سے دين الہى ميں انحراف پيدا كرديا تھا_

و لئن اتبعت اهواء هم يہ واضح ہے كہ يہوديت و نصرانيت كے دين خدائي اور آسمانى تھے_ پس اس دين كو ان كى نفسانى خواہشات سے تعبير كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں اور نصرانيوں نے اپنے افكار و نظريات اور نفسانى خواہشات كو دين كے احكام اور معارف كے ساتھ ملاديا اور اسكى الہى صورت كو بگاڑ كے ركھ ديا _

۱۲ _ اللہ تعالى نے نبى اسلام (ص) كو يہود و نصارى كے دين كى پيروى كرنے سے منع فرمايا_

و لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من ولى و لا نصير

۴۱۰

۱۳ _ يہوديت و نصرانيت كا تحريف شدہ دين ايك جاہلانہ مكتب ہے جو انسانيت كى ہدايت كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتا _ان هدى الله هو الهدى و لئن اتبعت اهواء _ هم بعد الذى جاء ك من العلم '' ان ہدى اللہ ...'' ميں جو حصر ہے وہ يہود و نصارى كے دين پرناظر ہے يعنى يہ كہ ان كا تحريف شدہ دين ہدايت نہيں كرسكتا_ دين اسلام كو ''علم'' سے تعبير كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ يہود و نصارى كے دين كى بنياد علم پر نہيں ہے _

۱۴ _ ايسے معارف اور قوانين قابل اطاعت و پيروى ہيں جو نفسانى خواہشات سے خالى ہوں اور ان كى بنياد علم پر ہو _

و لئن اتبعت اہوائہم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من اللہ من ولى و لا نصير

۱۵ _ آنحضرت (ص) كو ہميشہ اللہ تعالى كى نصرت و تائيد حاصل تھى _و لئن اتبعت مالك من الله من ولى و لا نصير

۱۶ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) كو يہود و نصارى كے دين كے اتباع كى صورت ميں دھمكى دى كہ آپ (ص) اللہ كى نصرت و تائيد سے محروم ہوجائيں گے _لئن اتبعت اهوائهم مالك من الله من ولى و لا نصير

اس مطلب ميں ''من اللہ'' محذوف سے متعلق ہے اور ''ولى و لا نصير'' كے لئے حال ہے _ پس جملہ ''مالك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى كى طرف سے آپ (ص) كى حمايت و نصرت نہيں ہوگى _

۱۷_ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) كو يہود و نصارى كے دين كے اتباع كى صورت ميں اپنى طرف سے بعض سزاؤں كى دھمكى دي_لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من ولى و لا نصير يہ مطلب اس پر مبنى ہے كہ ''من الله'' ، ''ولى ولا نصير'' كے متعلق ہو بنابريں '' ولى و لا نصير'' كے معنى ميں ''منع'' كا معنى موجو د ہے _ پس جملہ '' مالك ...'' كا معنى يہ بنتاہے آپ كے لئے ايسا ياور و مددگار جو اللہ ( كى سزاؤں ) سے بچائے نہ ہوگا _

۱۸_ الہى قوانين كے ہوتے ہوئے ايسى آراء اور قوانين كى پيروى كرنا جن كى بنياد خواہشات نفسانى ہوں ،اس سے انسان اللہ تعالى كى سرپرستى اور نصرت سے محروم ہوجاتاہے_لئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من الله من ولى ولا نصير

۱۹_ جو لوگ عذاب الہى كے مستحق ہيں ان كو كوئي ياور و مددگار اللہ تعالى كى سزاؤں سے نہيں بچاسكتا_

مالك من الله من ولى و لا نصير

۲۰_ الہى قوانين كے ہوتے ہوئے ايسے نظريات و قوانين كى پيروى كرنا جن كى بنياد خواہشات نفسانى پر ہو اس سے انسان الہى سزاؤں ميں مبتلا ہوگا _

۴۱۱

لئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من الله من ولى ولا نصير

۲۱_ الہى ہدايت سے آگاہانہ مخالفت كرنا انحراف، ناقابل بخشش اور گناہ كبيرہ ہے _و لئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم مالك من الله من ولى ولا نصير

۲۲ _ اديان الہى ميں ايسے افكار و نظريات كى آميزش كا خطرہ ہے جن كى بنياد نفسانى خواہشات ہوں _لئن اتبعت اهواء هم

۲۳ _ دين كو ايسے افكار و نظريات سے محفوظ كرنا ضرورى ہے جن كى بنياد نفسانى خواہشات ہوں _لئن اتبعت اهوائهم مالك من الله من ولى و لا نصير

۲۴ _ دينى قائدين كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ مختلف معاشرتى گروہوں كے نفسانى رجحانات كى پيروى كريں _

و لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من ولى و لا نصير

اديان: اديان ميں انحراف كا خطرہ ۲۲

اسلام: اسلام كى اہميت و كردار ۹; اسلام كى ہدايت۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۶،۱۷; اللہ تعالى كى سزائيں ۲۰; اللہ تعالى كى ہدايت كى مخالفت ۲۱; نصرت الہى ۱۵; اللہ تعالى كے نواہى ۱۲; ہدايت الہى كى خصوصيات۸; ہدايت الہى ۹

انحراف: انحراف كے موارد۲۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تبليغى كوششيں ۲ ; پيامبر اسلام (ص) كى حمايت ۱۵; پيامبر اسلام (ص) اور عيسائيوں كا اسلام ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) اور يہوديوں كا اسلام ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) اور عيسائيت ۵،۱۲; پيامبر اسلام (ص) اور يہوديت ۴،۱۲; پيامبر اسلام(ص) كى ذمہ دارى ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كو تنبيہ ۱۲،۱۶،۱۷

دين: دين كو پہنچنے والے نقصانات كى پہچان ۲۲; دين كى حفاظت كى اہميت ۲۳; دين كے مقبول معيارات۱۴

دينى قائدين: دينى قائدين اور عوامى رجحانات۲۴; دينى قائدين كو تنبيہ ۱۹

سرپرستى : اللہ تعالى كى سرپرستى سے محروم ہونا ۱۸

سزا : سزا كے موجبات ۲۰

۴۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۹; عذاب سے نجات ۲۴

علم: علم كے نتائج ۲۱

عيسائي: عيسائيوں كا اسلام لانا ۶; عيسائيوں كا بے منطق ہونا ۷; عيسائيوں كا تعصب ۷; عيسائيوں كى رضايت حاصل كرنا ۱; عيسائيوں كى آنحضرت (ص) سے رضايت كى شرائط ۵; صدر اسلام كے عيسائي ۳; عيسائيوں سے معاہدہ ۶; عيسائي اور اسلام ۶; عيسائيوں كا ہدايت قبول نہ كرنا ۳; عيسائيوں كى نفس پرستى ۱۱

عيسائيت: عيسائيت كى پيروى كے نتائج ۱۶; عيسائيت كا انحراف ۱۱;عيسائيت كى پيروى ۵،۱۲; عيسائيت ميں تحريف ۱۰،۱۱،۱۳; عيسائيت كى كمزورى ۱۳; عيسائيت كى پيروى كى سزا ۱۷; عيسائيت كا سرچشمہ ۱۰

قانون: غير دينى قوانين كى پيروى ۱۸،۲۰

قرآن كريم : قرآن كريم كى اہميت ۹; قرآن كريم كا ہدايت كرنا ۹

گناہ كبيرہ : ۲۱

معاشرتى گروہ: معاشرتى گروہ اور دينى قائدين۲۴

نصرت : اللہ تعالى كى نصرت سے محروم ہونا ۱۶،۱۸

نفس پرستى : نفس پرستى كے نتائج ۱۰

يہود: يہوديوں كا اسلام ۶; يہوديوں كا بے منطق ہونا ۷; يہوديوں كا تعصب ۷; يہوديوں كى رضايت حاصل كرنا ۱; يہوديوں كى آنحضرت(ص) سے رضايت كى شرائط ۴; يہوديوں سے معاہدہ ۶; يہوديوں كى نفس پرستى ۱۱; صدر اسلام كے يہودى ۳; يہودى اور اسلام ۶; يہوديوں كا ہدايت قبول نہ كرنا ۳

يہوديت: يہوديت كى پيروى كے نتائج ۱۶; يہوديت كا انحراف ۱۱; يہوديت كى پيروى ۴،۱۲; يہوديت كى تحريف ۱۰،۱۱،۱۳; يہوديت كى كمزورى ۱۳; يہوديت كى پيروى كى سزا ۱۷; يہوديت كا منبع ۱۰

۴۱۳

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( ۱۲۱ )

اور جنلوگوں كو ہم نے قرآن ديا ہے وہ اس كيباقاعدہ بلادت كرتے ہيں اور اھيں كا اسپر ايمان بھى ہے اور جو اس كا انكاركرےگا اس كا شكارخسارہ والوں ميں ہوگا (۱۲۱)

۱_ يہود و نصارى ان امتوں ميں سے ہيں جن كے پاس آسمانى كتاب تھى _الذين آتيناهم الكتاب

۲ _ يہود و نصارى ميں سے جو تورات و انجيل كے حقيقى پيروكار ہيں وہى قرآن اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لاتے ہيں _الذين آتتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به '' تلاوت'' كامعنى ہے پڑھنا اور قرا ت كرنا_ بعض اہل لغت نے اسكا معنى اطاعت كرنا كيا ہے_ '' بہ '' كى ضمير سے مراد ممكن ہے قرآن كريم ہو يا پبامبر اسلام(ص) _نيز يہ ضمير الكتاب(تورات يا انجيل) كى طرف لوٹ سكتى ہے _ مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ يہ ضمير قرآن كريم يا پيامبر

اسلام (ص) كى طرف لوٹتى ہو اور تلاوت كا معنى پيروى كرنا ہو_

۳ _ تورات اور انجيل كى تلاوت و اطاعت، قرآن كريم اور پيامبر اسلام(ص) پر ايمان لانے كا موجب ہے _

الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به

۴ _ تورات و انجيل ميں قرآن كريم اور آنحضرت (ص) كے آنے كى بشارت دى گئي تھى اور ان پر ايمان لانے كا ذكر بھى تھا_الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به چونكہ تورات و انجيل كى تلاوت اور اطاعت قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے كا باعث ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ ان دو كتابوں ميں قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كے آنے كى بشارت دى گئي تھى اور ان پر ايمان لانے كا ذكر بھى تھا_

۴۱۴

۵ _ يہود و نصارى ميں سے وہ لوگ حقيقتاً اپنى آسمانى كتاب پر ايمان ركھتے ہيں جو در حقيقت اسكى اتباع اور پيروى كرتے ہيں _الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به اس مطلب ميں '' بہ'' كى ضمير '' الكتاب'' كى طرف لوٹائي گئي ہے كہ جس سے مراد تورات اور انجيل ہيں _

۶ _ آسمانى كتابوں كى اطاعت كرنا ضرورى ہے_يتلونه حق تلاوته

۷_ آسمانى كتابوں كے فرامين كى اطاعت كرنا ان پر ايمان لانے كى دليل ہے _الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به ''الذين'' مبتدا اور ''اولئك يؤمنون به'' اسكى خبر ہے اور جملہ '' يتلونہ ...'' ، ''الذين'' كے لئے حال ہے پس ''بہ'' كى ضمير ''الكتاب'' كى طرف لوٹانے سے جملے كا معنى يہ بنتاہے اہل كتاب ميں سے وہ لوگ '' جو اپنى كتاب كى پيروى كرتے ہيں '' اس پر ايمان ركھتے ہيں _

۸_سب انسانوں كا فريضہ ہے كہ آسمانى كتابوں كو پڑھيں اور تلاوت كريں _يتلونه حق تلاوته

۹_دينى حقائق كى انصاف سے تحقيق كى جائے تو ان پر ايمان لانے كا موجب ہے_يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به

۱۰_ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر اختيار كرنے والے حقيقتاً خود كو نقصان پہنچانے والے اور تباہ كرنے والے ہيں _و من يكفر به فاولئك هم الخاسرون

۱۱_ انسانوں كى حقيقى منفعت ان كے قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے ميں ہے _و من يكفر به فاؤلئك هم الخاسرون

۱۲ _ قرآن كريم اور پيامبر اسلا م(ص) كے فرامين كو ترك كرنے كا نتيجہ تباہى اور دنيا و آخرت كا گھاٹا ہے _و من يكفر به فاؤلئك هم الخاسرون اگر جملے ميں تلاوت كا معنى پيروى كرنا ہو تو كہا جاسكتاہے كہ ''من يكفر'' ميں كفر سے مراد قرينہ مقابلہ كى روشنى ميں قرآن كريم كے فرامين كا ترك كرنا ہے_ اسكو '' كفر عملي'' سے تعبير كرتے ہيں _

۱۳ _عن ابى ولاّد قال سألت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل '' الذين اتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به '' قال هم الائمه عليه‌السلام (۱)

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۲۱۵ ح ۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۲۰ ح ۳۳۶_

۴۱۵

ابى ولاّد كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام'' الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولئك يؤمنون به'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا '' يہ ائمہعليه‌السلام ہيں ''_

۱۴ _ امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان''الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته'' كے بارے ميں روايت وارد ہوئي ہے كہ:''يرتلون آياته و يتفقهون به و يعملون باحكامه و يرجون وعده و يخافون وعيده و يعتبرون بقصصه و يأتمرون باوامره و ينتهون بنواهيه (۱)

وہ لوگ قرآن كو ترتيل كے ساتھ پڑھتے ہيں اور آيات كے گہرے ادراك كى كوشش كرتے ہيں _ اس كے احكام پر عمل كرتے ہيں اس كے وعدوں كى اميد ركھتے ہيں اوراسكے وعيد سے خوف زدہ رہتے ہيں اس كے قصوں سے عبرت و نصيحت ليتے ہيں ، اس كے اوامر كو بجالاتے ہيں اور اس كے نواہى سے دورى اختيار كرتے ہيں _

ائمہعليه‌السلام : آئمة كا علم ۱۳; آئمہعليه‌السلام كے فضائل ۱۳

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كے اتباع كى اہميت ۶; آسمانى كتابوں كى تلاوت كى اہميت ۸; آسمانى كتابوں كى پيروى ۵،۷; آسمانى كتابوں پر ايمان لانے والے ۵

اسلام: اسلام پر ايمان لانے والے۲

انجيل: انجيل كى پيروى كے نتائج ۳; انجيل كى تلاوت كے نتائج ۳; انجيل كى بشارتيں ۴; انجيل كے پيروكار ۲

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۸; انسانوں كے منافع ۱۱

ايمان: قرآن كريم پر ايمان كے نتائج ۱۱; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے نتائج ۱۱; قرآن پر ايمان ۴; آسمانى كتابوں پر ايمان ۷; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۴; قرآن كريم پر ايمان كے اسباب ۳; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے اسباب ۳; ايمان كے متعلقات ۴،۷; ايمان كے موجبات ۹; ايمان كى علامتيں ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے فرامين سے منہ موڑنے كے نتائج ۱۲;پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۴; پيامبر اسلام (ص) ; تورات ميں ۴

____________________

۱) ارشاد القلوب ديلمى ص ۷۸ باب ۱۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۴۷ ح ۴_

۴۱۶

تورات: تورات كى پيروى كے نتائج ۳; تورات كى تلاوت كے نتائج ۳; تورات كى بشارتيں ۴; تورات كے پيروكار ۲

خود: خود كى تباہى كے عوامل ۱۰،۱۲

دين: دين كى تعليمات كے نتائج ۹

روايت: ۱۳،۱۴

زياں كار لوگ:۱۰

عبرت: عبرت كے عوامل ۱۴

عيسائي: عيسائيوں كى آسمانى كتاب۱; مؤمن عيسائي ۵; اسلام پر ايمان لانے والے عيسائي ۲; قرآن كريم پر ايمان لانے والے عيسائي ۲

قرآن كريم : قرآن كريم سے منہ موڑے كے نتائج ۱۲; قرآن كريم كى ترتيل كے ساتھ تلاوت ۱۴; قرآن كريم كى تلاوت كرنے والے ۱۴; قرآنى قصوں سے عبرت ۱۴; قرآن پر عمل ۱۴; قرآن كريم كا ادراك۱۴; قرآن كريم انجيل ميں ۴; قرآن كريم تورات ميں ۴; قرآن پہ ايمان لانے والے ۲

كفار: كفار كا نقصان ۱۰

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر كے نتائج ۱۰ پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر كے نتائج ۱۰

نقصان: نقصان كے اسباب ۱۲

يہود: يہوديوں كى آسمانى كتاب۱; مؤمن يہود۵; قرآن كريم پر ايمان لانے والے يہود ۲; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے والے يہود ۲

۴۱۷

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ( ۱۲۲ )

اے بنى اسرائيل ان نعمتوں كو ياد كرو جوہم نے تمھيں عنايت كى ہيں اور جى كے طفيلتمھيں سارے عالم سے بہتر بناديا ہے (۱۲۲)

۱_ ماضى ميں اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو گراں قدر نعمتوں سے نوازا_يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

''نعمت'' مفرد استعمال ہواہے اس سے ممكن ہے خاص نعمت مراد ہو جيسے حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت يا اس سے مراد جنس نعمت ہو تو اس اعتبار سے ا س ميں متعدد نعمتيں شامل ہوں گى جن سے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نوازا _ نعمت كو ''يائ'' متكلم كى طرف اضافہ كرنا يعنى نعمت كو اللہ تعالى كى طرف نسبت دينااس امر كى حكايت كرتاہے كہ يہ نعمت يا نعمتيں بہت باعظمت ہيں _

۲_ اپنے بندوں پر نعمتيں بھيجنے والا اللہ تعالى ہے _نعمتى التى انعمت عليكم

۳ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اس كى نعمتوں كا ذكر كريں اور ان كو ہميشہ ياد ركھيں _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

۴ _ بنى اسرائيل زمانہ نزول قرآن تك قوم و قبيلے كى صورت ركھتے تھے_يا بنى اسرائيل

۵ _ بنى اسرائيل قرآن كريم كے مخاطبين ميں سے ہيں اور ان كى ذمہ دارى ہے كہ قرآن كريم كى پيروى كريں _

يا بنى اسرائيل اذكروا

۶ _ نعمتوں كو ياد كرنے كا مقصد اللہ تعالى كى ياد اور نعمتوں كو اس كى جانب سے جانناہے_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم ''نعمت'' كى اسطرح تعريف كرنا كہ اسكو اللہ تعالى نے عنايت كيا ہے (انعمت عليكم) اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت عطا كرنے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے_

۷_ اللہ تعالى نے تاريخ كے ايك خاص زمانے ميں بنى

۴۱۸

اسرائيل كو سب انسانوں پر فضيلت بخشي_و انى فضلتكم على العالمين

'' عالمين '' كا اطلاق كبھى تو تمام عالم ہستى پر ہوتاہے اور كبھى اسكا استعمال عقل و شعور ركھنے والى مخلوقات كے لئے اور بعض اوقات فقط انسانوں كے لئے استعمال ہوتاہے _ حكم اور موضوع كى مناسبت سے آيہ مجيدہ ميں ظاہراً اس سے مراد انسان ہيں _

۸ _ ايك خاص زمانے ميں سب انسانوں پر نبى اسرائيل كى برترى اللہ تعالى كى بنى اسرائيل پر انتہائي عظيم نعمتوں ميں سے تھي_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم و انى فضلتكم على العالمين يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' انى فضلتكم'' ، '' نعمتي'' پر عطف خاص على العام ہو ياعطف تفسير ى ہو_

۹_ اگر بنى اسرائيل اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كو ياد كريں اور گزشتہ زمانوں ميں اپنى فضيلت كے اسباب كى تحقيق كريں تو پيامبر اسلام (ص) پر ان كے ايمان كى زمين ہموار ہوجائے_و من يكفر به فاولئك هم الخاسرون _ يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتي پيامبر اسلام (ص) اور قرآن كريم كے بارے ميں كفر اختيار كرنے كا ذكر كرنے كے بعد خداداد نعمتوں كو ياد كرنے كى نصيحت ممكن ہے ايمان كى زمين فراہم كرنے كے لئے ايك راہنمائي ہو_

۱۰_ نعمتوں كو ياد كرنا اور ان كو اللہ تعالى كى جانب سے جاننا انسان كى ہدايت ميں اسكا بڑا اہم كردار ہے _

يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

اللہ تعالى : افعال الہى ۷; اللہ تعالى كى عنايات۲; اللہ تعالى كى نعمتيں ۱،۲،۸

ايمان: پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كى زمين ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى برترى ۷،۸،۹; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۷; بنى اسرائيل كے اسلام لانے كى بنياد۹; بنى اسرائيل كى معاشرتى شكل ۴; قوم بنى اسرائيل ۴; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۳،۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱،۸،۹

ذكر: الہى نعمتوں كے ذكر كے نتائج ۹،۱۰;ذكر خدا ۶; ذكر نعمت ۳; نعمت كے ذكر كا فلسفہ ۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيروى ۵; قرآن كے مخاطبين ۵

نعمت: نعمت كا سرچشمہ ۶،۱۰

ہدايت: ہدايت كے اسباب ۱۰

۴۱۹

وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ ( ۱۲۳ )

اور اس دن سے ڈرو جس دن كوئي كسى كافديہنہ ہوسكے گا اور نہ كوئي معاوضہ كام آئےگا نہ كوئي سفارش ہوگى اور نہ كوئي مددكى جاسكے گى (۱۲۳)

۱_ قيامت ايك باعظمت دن ہے جسكاسامناسب كو كرنا پڑے گا_واتقوا يوماً ''يوماً'' سے مراد قيامت كا دن ہے اور اسكا نكرہ لانا اس كى عظمت پر دلالت كرتاہے_

۲ _ قيامت انتہائي ہولناك دن ہے جس سے بچنے كے لئے بہت ہى كارساز سبب آمادہ كرنے كى ضرورت ہے_

واتقوا يوماً''اتقوا'' كا مصدر '' اتقائ'' ہے يعنى كسى ہولناك اور خطرناك چيز سے بچنے اور اس سے حفاظت كے لئے كسى وسيلے كو اختيار كرنا يا تيار كرنا _ پس '' اتقوا يوماً'' دلالت كرتاہے كہ روز قيامت جو ہولناكيوں اور خطرات سے پر ہے اس سے بچنے كے لئے انسان وقاية ( حفاظت كا وسيلہ ) آمادہ و تيار كرے _

۳ _ قيامت كے عذاب اور خطرات سے حفاظت كا وسيلہ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پرايمان اور ان كے

بارے ميں كفر اختيار كرنے سے اجتناب كرنا ہے _اولئك يؤمنون به و من يكفر به ...واتقوا يوماً

ايمان كى ترغيب ''اولئك يؤمنون به '' اور كفر اختيار كرنے ( و من يكفر ...) سے متنبہ كرنے كے بعدوقايہ ( حفاظت كا وسيلہ) تيار كرنے كا فرمان دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ روز قيامت كا انسان كے لئے وقايہ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان اور ان دو كا كفر اختيار كرنے سے اجتناب ہے _

۴ _ قيامت كے روز كوئي بھى كسى دوسرے كا ذرہ برابر عذاب ذمے نہ لے گا اور نہ ہى اسكا متحمل ہوسكے گا_واتقوا يوماً لا تجزى نفس شيئاً

۵ _ قيامت كے دن كسى سے بھى كوئي فديہ يا عوض قبول نہ كيا جائے گا كہ جس سے خود كو بچاسكے _و لا يقبل منها عدل

'' عدل' ' ا س فديہ ياعوض كو كہتے ہيں جو انسان اپنى يا كسى كى قيد و غيرہ سے رہائي كے لئے دے_

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785