تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201342 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

ہے _ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم

۱۴ _ نيك عمل كے بانيوں كو ياد كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل

''اذ ...'' ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے يعنى يہ كہ كعبہ كے بنانے والوں كو ہميشہ ياد ركھو_ يہ حكم انسانوں كے لئے ايك درس ہے كہ نيك كاموں كى بنياد ركھنے والوں كے عمل كو كبھى فراموش نہيں ہونا چاہيئے_

۱۵_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى طرف سے كعبہ كى تعمير كا واقعہ اور اس دوران ان كى دعائيں ، ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل ربنا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اذ'' فعل مقدر ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہو _

۱۶ _ اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''... فلما امر الله عزوجل ابراهيم ان يبنى البيت و لم يدر فى اى مكان يبنيه فبعث الله جبرائيل فخطّ له موضع البيت فانزل الله عليه القواعد من الجنة فبنى ابراهيم البيت و نقل اسماعيل الحجر من ذى طوى فرفعه الى السماء تسعة اذرع (۱) جب اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو كعبہ كى تعمير كا ا مر فرمايا تو آپعليه‌السلام نہيں جانتے تھے كہ كعبہ كى تعمير كہاں كريں تو اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو حضرت جبرائيلعليه‌السلام نے زمين پر كعبہ كى جگہ ايك خط كھينچا پھر اللہ تعالى نے كعبہ كى بنياديوں كو جنت سے نازل فرمايا پس حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى تعمير كى حضرت اسماعيلعليه‌السلام وادى '' ذى طوي'' سے پتھر لے كر آئے تو حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى (ديواوں )كو نو(۹) ذراع تك بلند فرمايا ...''

۱۷_قال الحلبى سئل ابو عبدالله عليه‌السلام عن البيت اكان يحج قبل ان يبعث النبي(ص) ؟ قال نعم و تصديقه فى القرآن و اذيرفع ابراهيم القواعد من البيت واسماعيل (۲) حلبى كہتے ہيں امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كيا آنحضرت (ص) كى بعثت سے قبل حج تھا؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں اس كا شاہد قرآن ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' يادكرو جب ابراہيم اور اسماعيل كعبہ كى ديواريں بلند كررہے تھے''

۱۸_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہكان البيت درة بيضاء فرفعه الله الى السماء و بقى اساسه فامر الله ابراهيم و اسماعيل ان يبنيا البيت على القواعد (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۶۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۱۰_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۸ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۹_

۴۴۱

... خانہ كعبہ سفيد درّ ( موتي) تھا پھر اللہ تعالى نے اس كو آسمان كى طرف بلند فرماليا اور اس كى بنياد باقى رہ گئي پھر اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كو امر فرمايا كہ كعبہ كو انہى گزشتہ بنيادوں پر تعمير كريں _

اخلاص : اخلاص كى اہميت ۸

اسماء اور صفات: سميع ۱۰; عليم ۱۰

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كى اہميت ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۱۱; اوامر الہى ۵; حمد الہى ۱۳; ربوبيت الہي۹; اللہ تعالى كا سننا ۱۱; اللہ تعالى كا علم ۱۱

انسان: انسان كى ضروريات۱۱

تقرب: تقرب كے عوامل ۵

حج: حج كى تاريخ ۱۷; حج قبل از اسلام۱۷

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶ ،۱۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت ابراہيم كى ذمہ دارى ۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اخلاص ۸; حضرت اسماعيل اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶،۱۸; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵

دعا: دعا كے آداب ۶،۹،۱۳; دعا كا مستجاب ہونا ۱۲; دعا كى قبوليت كا سرچشمہ ۱۱

ذكر: اچھے عمل كے بانيوں كا ذكر ۱۴; كعبہ كى تعمير كا ذكر ۱۵; تاريخ كا ذكر ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵

روايت: ۱۶ ، ۱۷،۱۸

عبادت: عبادت كى قدرو منزلت ۷; عبادت كى قبوليت كى شرائط ۷

عمل:

۴۴۲

پسنديدہ عمل كے آداب ۱۲; پسنديدہ عمل كى اہميت ۱۴; عمل كى قبوليت كى درخواست ۴،۱۲; پسنديدہ عمل ۶; عمل كى قبوليت كے لئے كيفيت دعا ۶

قدريں : قدروں كے معيار ۷

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۱۲۸ )

پروردگار ہم دونوں كو اپنا مسلماناور فرمانبردار قرار دے دے اور ہمارياولاد ميں بھى ايك فرمانبردار امت پيداكر _ ہميں ہمارے مناسك دكھلادے اور ہماريتوبہ قبول فرما كہ تو بہترين قبول كرنےوالا مہربان ہے (۱۲۸)

۱_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونا تھا_و إذ يرفع ابراهيم القواعد ربنا و اجعلنا مسلمين لك

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى نسل ميں سے كچھ انسانوں كو مقام تسليم تك پہنچائے_و من ذريتنا امة مسلمة لك

كعبہ: كعبہ كے بانى ۱،۳; كعبہ كى تعمير ۱،۳،۴،۵ ،۸،۱۶،۱۸; كعبہ كى تاريخ ۲،۳،۱۶; كعبہ كے فضائل ۱۸; كعبہ كى قدامت ۲

مقربين : ۵

اس مطلب ميں '' من ذريتنا'' ميں '' من '' كا معنى بعض ليا گيا ہے _

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اپنى ذريت (نسل ) سے محبت_من ذريتنا امة مسلمة لك

۴ _ اللہ تعالى كى بندگى كى راہ و روش يہ ہے كہ اس كے سامنے سر تسليم خم ہوا جائے_

ربنا و اجعلنا مسلمين لك و من ذريتنا امة مسلمة لك

۵ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے مراتب و درجات ملتے ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين لك

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام باوجود اس كے كہ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم تھے ليكن پھر بھى اس مقام كے حصول كى توفيق كى دعا كرتے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ مقام تسليم كے مختلف درجات اور مراتب ہيں _

۴۴۳

۶ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى تمام تر ذريت تسليم كے اعلى درجات كے حصول كى لياقت نہيں ركھتي_و من ذريتنا امة مسلمة لك '' من ذريتہا'' ميں '' من'' تبعيض كے لئے ہے اور مذكورہ بالا مفہوم كو بيان كرتاہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى پروردگار سے دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كى عبادت كا طريقہ اور اسكے آداب كى تشريح و تفسير تھا_و ارنا مناسكنا

'' مناسك' ' كا مفرد '' منَسَك'' ہے جس كا معنى عبادت كا طريقہ ہے ( لسان العرب) پس ''ارنا مناسكنا'' يعنى اے اللہ ہميں اپنى عبادت كرنے كا طريقہ دكھا_

۸_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے دعا كى كہ انہيں اعمال حج كى كيفيت سكھائے_ربنا ارنا مناسكنا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ مناسك كا معنى اعمال حج ہوں جيسا كہ بعض اہل لغت اور بعض مفسرين نے يہى معنى كيا ہے_

۹_ احكام دين كى قانون سازى اورعباد ت كى كيفيت كا بيان كرنا خداتعالى كى شان ہےربنا ارنا مناسكنا

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى اور ان كى اولاد كى توبہ كو قبول فرمائے _و تب علينا

۱۱ _ انسان جس بھى مقام و منزلت كا مالك ہو اپنے الہى فرائض كى ادائيگى ميں عاجز ہے_و تب علينا

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام جو گناہ اور معصيت الہى سے پاك و منزہ ہيں اس كے باجود اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كرتے ہيں اور اس توبہ كى قبوليت كے خو اہشمند ہيں اس ميں بعض نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ انسان جس مقام و منزلت پربھى فائز ہو اللہ تعالى كى بندگى كا فريضہ ادا كرنے سے معذور ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى توّاب ( بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم (بہت زيادہ مہربان) ہے _انك انت التواب الرحيم

۱۳ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے كى توفيق ، اللہ تعالى كا عبادت كى كيفيت بيان كرنا اور اللہ رب العزت كا توبہ قبول كرنا بندوں پر اسكى رحمت كے پرتو ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين و ارنا منا سكنا و تب علينا انك انت التواب الرحيم

۴۴۴

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دعا انسان كى معنوى خواہشات كى تكميل ميں موثر ہے _ربنا و اجعلنا مسلمين لك و تب علينا

۱۵ _ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت ہے''لما فرغ ابراهيم من بناء البيت قال: فعلت اى رب فارنا مناسكنا ابرزها لنا علّمنا ها فبعث الله جبرائيل فحجّ به (۱) حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى تعمير سے فارغ ہوگئے تو عرض كيا يا اللہ ميں نے اپنى ذمہ دارى كو ادا كيا پس اے اللہ تو ہمارے لئے اعمال حج كو آشكار فرما اور ان كو ہميں سكھادے_ تو پس اللہ تعالى نے حضرت جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو انہوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ہمراہ اعمال حج انجام ديئے ( يعنى عملاً حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو اعمال حج دكھائے)_

احتياجات: معنوى احتياجات كى تكميل ۱۴

اسماء اور صفات: توّاب ۱۲; رحيم ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۹; اللہ تعالى كى توفيقات۱۳; رحمت الہى كے مظاہر ۱۳

انسان: انسان كى معنوى خواہشات۱۴; انسان كا عاجز ہونا ۱۱

بندگي: بندگى كى روش۴

توبہ: توبہ كى قبوليت كى درخواست ۱۰; توبہ كى قبوليت ۱۳

توفيق: توفيق كے اسباب ۱۳

حج: اعمال حج كى تعليم ۸،۱۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيم اور كعبہ كى تعمير ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات ۷،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰،۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى محبت و رجحانات۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

حضرت اسماعيلعليه‌السلام :

____________________

۱) جامع البيان (طبري) ج/۱ ص۵۵۵ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۳۳۲_

۴۴۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيل كى محبت۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

دعا: دعا كے نتائج ۱۴

دين: دين كى قانون سازى كا سرچشمہ ۹

رجحانات: نسل سے محبت كے رجحانات

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ ( ۱۲۹ )

پروردگار ان كےدرميان ايك رسول مبعوث فرما جو ان كےسامنے تيرى آيتوں كى تلاوت كرے _ انھيں كتاب و حكمت كى تعليم دے اور ان كے نفوسكو پاكيزہ بنائے بيشك تو صاحب عزّت اورصاحب حكمت ہے (۱۲۹)

۱ _ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے كسى ايك پيامبرعليه‌السلام كى بعثت كے لئے كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعائيں كيں _و من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم

روايت:۱۵

سر تسليم خم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۱،۲،۴،۱۳; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے مراتب ۵،۶; سر تسليم خم ہونے كا مقام ۲،۶

عبادت: عبادت كے آداب كى تشريح ۷; عبادت كى كيفيت كا بيان و تشريح ۷،۹،۱۳

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱،۸،۱۵

''فيہم'' اور ''منھم'' كى ضمير ممكن ہے ماقبل آيہ ميں '' امة مسلمة'' كى طرف لوٹتى ہواور ممكن ہے آيت مجيدہ ۱۲۶ ميں '' اہلہ'' كى طرف پلٹتى ہو _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے يعنى''ربنا و ابعث فى ذريتنا المسلمة رسولاً منهم'' _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى مشتركہ دعا اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ مورد نظر پيامبر (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نظر ميں اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ہے نہ كہ كسى دوسرے فرزند كى نسل سے_

۲ _ آيات الہى كى تلاوت كرنا ، آسمانى كتاب كى تعليم دينا، حكمت (دينى احكام، معارف و غيرہ ) سكھانا اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كو آلودگيوں ، كثافتوں اور نجاستوں سے پاك كرنا اس پيامبر كى

۴۴۶

خصوصيات تھيں جس كى بعثت كے ليئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى تھي_

ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم

۳ _ حضور سرور دو عالم محمد مصطفى (ص) ہى وہ بنى ہيں كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اپنى نسل سے جن كى بعثت كيلئے دعا كى تھي_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يزكيهم سب مفسرين كے مطابق ''رسولاً'' سے مراد پيامبر عظيم الشان اسلام حضرت محمد مصطفى (ص) ہيں _

۴ _ اپنى اولاد اور نسل كے لئے دعا كرنا كہ وہ احكام الہى سيكھيں اور ان كى دينى تربيت ہو ايك اچھا اور نيك شگون عمل ہے _ربنا ابعث فيهم رسولاً و يزكيهم

۵ _ وہ نسل، اولاد اور ذريت جو دينى تعليمات كے ساتھ ليس ہو اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہو ايسى اولاد اپنے اسلاف كے لئے سربلندى و سرفرازى كا سبب ہے _ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم و يزكيهم

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كى بعثت اورخود عوام ميں سے ان كا انتخاب اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم

۷_آيات الہى كى تلاوت كرنا، آسمانى كتاب كى تعليم دينا ، حكمت سكھانا اور لوگوں كو آلودگيوں ، كثافتوں سے پاك كرنا انبياء (عليہم السلام) كے فرائض اور ان كى بعثت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة و يزكيهم

۸_ امتوں كا مقام تسليم و رضاتك پہنچنا انبياءعليه‌السلام كى بعثت ، آسمانى كتاب اور دينى احكام و معارف كى تعليم اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہونے سے ممكن ہے _من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا ...يزكيهم ''امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے درخواست كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اپنى نسل سے ايك نبى كى بعثت كے لئے دعا كرنا لگتا ہے اسلئے تھا كہ : '' امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے بعثت اور اس كے اہداف بنيادى ترين ضروريات ميں سے ہيں _

۹_آسمانى كتاب كى تعليم ، حكمت اور الہى احكام و معارف كا سيكھنا اور خود كو آلودگيوں اور كثافتوں سے پاك ركھنا انبيائے الہىعليه‌السلام كى نظر ميں بہت بلند و ارفع مقام و منزلت كا باعث ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا و يزكيهم

۴۴۷

۱۰_ اللہ تعالى ہى تنہا عزيز ( كامياب اور شكست ناپذير) اور فقط وہى حكيم ( ايسى ہستى جو امور كى نہايت محكم و مستحكم بنياد ركھے ) ہے _انك انت العزيز الحكيم

۱۱ _ انبيائ( عليہم السلام )كى بعثت اللہ تعالى كى عزت و حكمت كا ايك پرتو ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً انك انت العزيز الحكيم

۱۲ _ دعا كے اختتام پر اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _ربنا و ابعث انك انت العزيز الحكيم

۱۳ _ اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا اسكى بارگاہ ميں دعا كى قبوليت كے لئے موثر ہے_ ربنا وابعث فيهم انك انت العزيز الحكيم

۱۴ _ رسول اسلام (ص) كا ارشاد ہے''انا دعوة ابراهيم قال و هو يرفع القواعد من البيت ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم ''(۱) ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى قبول شدہ دعا ہوں حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى ديواريں بلند فرماررہے تھے تو انہوں نے عرض كيا اے ہمارے رب ان كے درميان انہيں ميں سے ايك رسول كو مبعوث فرما ...''

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كى تعليمات كے نتائج ۸; آسمانى كتابوں كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; آسمانى كتابوں كى تعليمات ۲،۷

آيات الہي: آيات الہى كى تلاوت ۲،۷

اسماء اور صفات: حكيم۱۰;عزيز۱۰

اقدار: ۵،۹

قدروں كا معيار ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۱۰; حكمت الہى كے مظاہر ۱۱; عزت الہى كے مظاہر ۱۱; الہى نعمتيں ۶

امتيں : امتوں كى اطاعت يا سر تسليم خم ہونا ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى بعثت كے آثار۸; انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۷ انبياءعليه‌السلام كابشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۱۱; ابنياءعليه‌السلام كى

____________________

۱) الدر المنثور ج/۱ ص۳۳۴_

۴۴۸

بصيرت ۹; جس نبى (ص) كے لئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; جس نبى (ص) كےلئے حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

اولاد: تربيت اولاد۴; اولاد كى تعليم ۴; اولاد و نسل كے لئے دعا ۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل سے ۳; پيامبر اسلام (ص) حضزت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ۳; آنحضرت (ص) كے درجات ۱۴; آنحضرت (ص) كى نبوت ۱۴; آنحضرت (ص) كے اسلاف و بزرگان ۳

تزكيہ : تزكيہ كے آثار۸; تزكيہ كى قدر و قيمت۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱، ۱۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۳

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ۲; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱;حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۱،۳

حكمت: حكمت كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; حكمت كى تعليم ۲،۷

حمد: حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳

دعا: دعا كے آداب ۱۲; دعا ميں حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳ دعا كى قبوليت كى بنياد۱۳

دين : دينى تعليم كے نتائج ۸; دينى تعليم كى قدر و منزلت ۹; دينى تعليم ۲،۴

روايت:۱۴

سر تسليم خم ہونا: مقام تسليم و رضا كا حصول ۸

عمل: پسنديدہ عمل ۴

عوام: عوام كا تزكيہ نفوس ۷

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱

نسل : صالح اولاد يا نسل كى قدر وقيمت۵; مؤمن نسل كى قدر و منزلت ۵; سربلند و باعظمت نسل ۵

۴۴۹

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( ۱۳۰ )

اور كون ہے جو ملّتابراہيم سے اعراض كرے مگر يہ كہ اپنے ہيكو بيوقوف بنائے _ اور ہم نے انھيں دنياميں منتخب قرارديا ہے اور وہ آخرت ميں نيك كردار لوگوں ميں ہيں ( ۱۳۰)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شريعت اور مكتب عاقلانہ اور خردمند انہ ہے جبكہ اسكى پيروى كرنا عقل و خردمندى كا ثبوت ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۲ _ فقط احمق ، سفيہ اور بے وقوف لوگ ہيں جوحضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مكتب سے منحرف ہوئے ہيں اور قبول نہيں كرتے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''رغبة'' كا لفظ جب اپنے مشتقات كے ہمراہ حرف ''عن'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو انحراف اور روگردانى كا معنى ديتاہے_ '' من يرغب '' ميں ''من'' اسم استفہام ہے جو يہاں استفہام انكارى كے طور پر آياہے_

۳ _ انسان فقط اپنى عقل كو فريب دے كر اديان الہى سے گريزاں ہوتاہے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''سفہ'' كا مفعول ''نفسہ'' ہے پس ''من سفہ نفسہ'' يعنى وہ شخص جس نے خود كو حماقت و بےوقوفى ميں مبتلا كيا ہے البتہ مذكورہ مطلب ميں اسكے لئے '' عقل كو فريب دينے'' كى تعبير استعمال كى گئي ہے _

۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مكتب و آئين دين اسلام كى بنياد ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

قرآن حكيم انسانوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت ديتاہے اور دين ابراہيمىعليه‌السلام سے انحراف اور روگردانى كو جائز نہيں سمجھتا اس سے معلوم ہوتاہے كہ ہر دو اديان كى ماہيت ايك ہى ہے جبكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ،اسلام كى اساس و بنياد ہے _

۵ _ توحيد ربوبى وافعالى اور اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا، آنحضرت (ص) كى رسالت اورآپ (ص) كى كتاب (قرآن كريم ) كى تصديق كرنا دين ابراہيمىعليه‌السلام كے

۴۵۰

اصولوں ميں سے ہے _ربنا تقبل منا واجعلنا مسلمين لك ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملة ابراهيم

مورد بحث آيہ مجيد ہ انسانوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے انتخاب كى دعوت دے رہى ہے اور گزشتہ آيات اس دين كے اصولوں كى طرف اشارہ ہے _ يہ جملہ ''ربنا تقبل ...'' بيان كررہاہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام توحيد ربوبى و افعالى اور پر اعتقاد ركھتے تھے_

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كو قبول كرنے كا لازمى نتيجہ اسلام كو قبول كرناہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملةابراهيم الا من سفه نفسه يہ جملہ''ربنا و ابعث ...'' آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى بعثت كى طرف اشارہ ہے اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دينى اصولوں ميں سے ايك اصول كى حكايت كررہاہے_ بنابريں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين پر يقين كا نتيجہ دين اسلام كى حقانيت پر ايمان و ايقان ہے_

۷_ دين اسلام سے روگردانى حماقت و بے عقلى كى دليل ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۸_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام دنيا ميں اللہ تعالى كى برگزيدہ شخصيت اور عالم آخرت ميں صالحين اور باعظمت انسانوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا وا نه فى الاخرة لمن الصالحين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كے خالص بندوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا ''اصطفائ'' يعنى ہر چيز ميں سے ''صفوہ'' (خالص اور پاكيزہ) كا انتخاب كرنا _

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اخلاص ، اللہ تعالى كى طرف سے آپعليه‌السلام كا انتخاب اور عالم آخرت ميں آپعليه‌السلام كا صالحين كے ساتھ ملحق ہونا يہ دلائل ہيں جن كى بناپر آپعليه‌السلام كے دين كى اتباع ضرورى ہوجاتى ہے _

و من يرغب لقد اصطفيناه فى الدنيا و انه فى الاخرة لمن الصالحين

يہ جملے '' لقد اصطفيناہ'' اور ''انہ فى الاخرة ...'' اس جملہ ''و من يرغب ...'' كے لئے دليل كے طور پر ہيں _

۱۱ _ عالم آخرت ميں بعض اعلى و ارفع انسان صالحين كے عنوان سے حاضر ہوں گے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين

۱۲ _ اللہ تعالى كے خالص و برگزيدہ انسان قيامت كے دن صالحين كے ساتھ ملحق ہوں گے _

و لقد اصطفيناه فى الدنيا وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۴۵۱

احمق افراد:۲

اديان : اديان سے منہ موڑنے كى بنياد ۳

اسلام : اسلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴; اسلام سے منہ موڑنا ۷; اسلام كو قبول كرنے كى بنياد ۶

اللہ كے بندے : ۹ اللہ كے بندے قيامت ميں ۱۱،۱۲

برگزيدہ انسان : ۸، ۱۰ برگزيدہ انسان قيامت ميں ۱۱،۱۲

پيامبر گرامى اسلام (ص) : پيامبر گرامى اسلام (ص) كى تصديق ۵

توحيد : توحيد افعالى ۵; توحيد ربوبى ۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۹،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كے اصول ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا برگزيدہ ہونا ۸،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كي اتباع ۱،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كا معقول ہونا ۱; دين ابراہيمىعليه‌السلام سے منہ پھيرنے والے ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۸،۹

حماقت و سفاہت: حماقت كى نشانياں اور دلائل ۷

خودفريبى : خودفريبى كے نتائج ۳

سرتسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۵

صالحين : ۸ صالحين آخرت ميں ۱۱; صالحين قيامت ميں ۱۲;صالحين كے درجات ۱۲

عالم آخرت : عالم آخرت ميں مختلف گروہ ۱۱

عقيدہ: دين ابراہيمىعليه‌السلام پر اعتقاد۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى تصديق ۵

مخلصين: مخلصين قيامت ميں ۱۲

۴۵۲

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۱۳۱ )

جب ان سےان كے پروردگار نے كہا كہ اپنے كو ميرےحوالے كردو تو انھوں نے كہا كہ ميں ربالعالمين كے لئے سراپا تسليم ہوں ( ۱۳۱)

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے چاہا كہ ہميشہ اس كے سامنے سر تسليم خم رہيں _إذ قال له ربه اسلم

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرمان الہى كو بلاتاخير قبول كيا اور اللہ رب العزت كے حضور سر تسليم خم ہونے كا اعلان كيا _قال اسلمت

۳ _ اللہ تعالى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا پروردگار اور تمام عالمين كا مدير و مدبر ہے _ربه لرب العالمين

۴ _ اللہ تعالى كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ( اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كا ) حكم دينا آپعليه‌السلام كى تربيت اور رشد و تكامل كے لئے تھا_إذ قال له ربه اسلم

يہ مطلب كلمہ''رب'' كہ جو مدير و مدبر اور تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے _ سے حاصل كيا گيا ہے _

۵ _اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا اور اس كے فرامين كى اطاعت كرنا انسان كى تربيت اور رشدو تكامل كا باعث ہے_إذ قال له ربه اسلم

۶ _عالم آفرينش ميں مختلف جہان موجود ہيں _رب العالمين يہ مطلبكلمہ''عالمين''كے جمع استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس دليل عالم ہستى كے تمام جہانوں پر پروردگار عالم كى ربوبيت ہے_اسلمت لرب العالمين اللہ تعالى اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مابين گفتگو كا تقاضا يہ تھا كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كو جواب كے طور پر''اسلمت لك'' كہيں _ ''لك'' كى جگہ ''لرب العالمين'' كا لانا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حقيقت كو دليل كے ساتھ پيش كرنا يعنى يہ كہ جب حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے جان ليا كہ اللہ ہى رب

۴۵۳

العالمين ہے تو اسكے حضور سر تسليم خم ہوگئے_

۸_ جہان آفرينش پر اللہ تعالى كى ربوبيت پر يقين انسان كو اللہ تعالى كى اطاعت اوراسكے سامنے سر تسليم خم ہونے كى ترغيب دلاتاہے_اسلمت لرب العالمين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اللہ كے حضور سر تسليم ہونا ان كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے ساتھ ملحق ہونے كى دليل ہے _لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

''اذقال ...'' ميں ''اذ'' حرف تعليل ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونے كى دليل ہے _

۱۰_ عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونا اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے اور اسكى اطاعت كرنے كے باعث ہے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كے نتائج ۵،۱۰; اللہ تعالى كى اطاعت كى بنياد ۸

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; ربوبيت الہى ۳،۷; اوامر الہي

ايمان: اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۸; ايمان كے متعلقات۸

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۸

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے آثار۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے دلائل۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب كے اسباب ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تربيت كے اسباب ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رشد و تكامل كے عوامل ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاواقعہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مربى '' تربيت كرنے والا'' ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۹

خلقت : كائنات كے مختلف عوالم۶; كائنات كے جہانوں كا مدير و مدبر ۳،۷

رشد: رشد كے عوامل ۵

سرتسليم خم ہونا:

۴۵۴

اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كے نتائج ۴،۵،۹،۱۰; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم ہونے كى اہميت ۱،۲; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے دلائل ۷; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كى بنياد۸

صالحين : صالحين عالم آخرت ميں ۹،۱۰; صالحين كے درجات ۱۰

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸;كا فلسفہ ۴; اوامر الہى كى قبوليت ۲

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ( ۱۳۲ )

اور اسى بات كى ابراہيم اور يعقوب نےاپنى اولاد كو وصيت كى كہ اے ميرے فرزندوالله نے تمھارے لئے دين كو منتخب كرديا ہےاب اس وقت تك دنيا سے نہ جانا جب تكواقعى مسلمان نہ جاؤ(۱۳۲)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ہر دو كے چند فرزند تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو اپنے دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه

''بہا'' كى ضمير ممكن ہے '' ملة ابراہيم _ آيہ مجيدہ ۱۳۰'' ميں كى طرف لوٹتى ہو اورممكن ہے جملہ '' اسلمت _ ما قبل آيت '' ميں كى طرف لوٹتى ہو _دونوں صورتوں ميں معنى ايك ہى بنتاہے كيونكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين وہى خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہوناہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين (اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب ''يعقوب'' ''ابراہيم'' پر عطف ہے گويا ''وصى بہا يعقوب بنيہ ''

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے

۴۵۵

پيروكار تھے اور اسى كى تبليغ كرنے والے تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب

۵ _دين ابراہيمىعليه‌السلام بہترين دين اور ہر طرح كے باطل و منحرف شبہات سے پاك و منزہ ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين ''اصطفائ''يعنى كسى بھى چيز ميں سے صفوہ (خالص و بہترين) كا انتخاب كرنا '' الدين'' ميں '' ال'' عہد ذكرى كا ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى طرف اشارہ ہے _

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا ) اللہ تعالى كا پسنديدہ اور برگزيدہ دين ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين

۷ _ دين ابراہيمىعليه‌السلام كا ہر طرح كے باطل و انحراف سے منزہ ہونا اور اس دين كا اللہ تعالى كى طرف سے انتخاب ہونا علت ہے اس امر كى كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اس دين كو قبول كرنے كى وصيت و نصيحت فرمائي _و وصى بها ابراهيم يا بنى ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن

جملہ '' لا تموتن ...'' كى جملہ '' ان اللہ ...'' پر حرف '' فائ'' كے ذريعے تفريع مذكورہ مطلب كى حكايتكرتى ہے _

۸ _ اللہ تعالى انسان كے لئے جو كچھ انتخاب فرماتاہے اور اسكا حكم ديتاہے اس كو قبول كرنا ضرورى ہے _

ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

'' فلا تموتن ...'' ميں '' فائ'' سببيہ ہے يعنى اس كے مابعد جو كچھ واقع ہواہے وہ ماقبل جملے كے مضمون كا نتيجہ ہے پس جملے كا يہ معنى ہے _ چونكہ اللہ تعالى نے دين ابراہيمىعليه‌السلام (اللہ جل جلالہ كے حضور سرتسليم خم ہونا ) كو تمہارے لئے انتخاب فرمايا ہے پس ہميشہ اسى كے ساتھ وابستہ رہنا ضرورى ہے _

۹ _اديان الہى كى اتباع اور پيروى كا خود انسان كو فائدہ ہے _اصطفى لكم الدين يہ مفہوم '' لكم'' كے ''لام'' كى بناپرہے_

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد سے چاہا كہ ہميشہ اللہ كے حضور سر تسليم خم رہيں اور اس كے فرمان كى اطاعت كريں _فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اللہ تعالى كے حضور ہميشہ سر تسليم خم رہنے اور ہميشہ اسى كے مطيع فرمان رہنے كے لئے جملہ ''فلا تموتن ...'' كنايہ ہے _

۱۱ _ اديان الہى كى تعليمات كا محور اور ان كى روح خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہونا ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۲ _ اپنى اولاد ميں صحيح دينى خطوط اور رجحانات پيدا كرنے سے محبت يہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت

۴۵۶

يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ميں سے ہے _وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۱۳ _ اپنے بچوں كو دين الہى كے انتخاب كى طرف راغب كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۴ _ دين الہى كے انتخاب اور اللہ رب العزت كى بارگاہ ميں سر تسليم ہونے كى وصيت كرنا وصيتوں ميں سے بہترين وصيت ہے _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اديان : اديان كى اتباع ۹; اديان كى حقيقت ۱۱

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۰

اللہ تعالى : اوامر الہى كى قبوليت ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے رجحانات۱۲ انسان: انسان كے فوائد اور منافع ۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمى كا انتخاب ۶،۷،; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فرزند ۱،۲; حضرت ا براہيمعليه‌السلام كے پيروكار ۴; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى وصيتيں ۲،۷; دين ابراہيمعليه‌السلام كى حقانيت ۵،۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى قبوليت ۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى خصوصيات۵،۶،۷

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتيں ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہشات ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتوں كے دلائل ۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴

دين: برگزيدہ دين ۵،۶،۷; دين كى قبوليت ۱۴; برگزيدہ دين كا قبول كرنا ۸

سر تسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۲ ، ۳ ، ۶ ،۱۰،۱۱،۱۴

فرزند: فرزند كى دينى تربيت ۱۲،۱۳

والدين: والدين كى ذمہ دارى ۱۳

وصيت : بہترين وصيت ۱۴

۴۵۷

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ( ۱۳۳ )

كيا تم اس وقتتك موجود تھے جب يعقوب كا وقت موت آيااور انھوں نے اپنى اولاد سے پوچھا كہميرے بعد كس كى عبادت كروگے تو انھوں نےكہا كہ آپ اور آپ كے آباء اور اجدادابراہيم و اسماعيل و اسحاق كے پروردگارخدائے وحدہ لاشريك كى اور ہم اسى كےمسلمان اور فرمانبردار ہيں (۱۳۳)

۱_ يہوديوں كے جھوٹے اور كاذب دعووں ميں سے تھا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى _ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت ''ام'' منقطعة ہے جس ميں استفہام انكارى كا معنى پايا جاتاہے _شہداء شہيد كى جمع ہے اور اس كا معنى حاضرين بنتاہے يہ يہوديوں كو خطاب ہے

پس ''ام كنتم شہداء ...'' يعنى تم يہودى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كے وقت موجود نہ تھے( پس تم كيسے يہ دعوى كرتے ہو كہ يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت اور تاكيد كى ؟)

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چند فرزند تھے_إذ قال لبنيه يہ مطلب اس وجہ ہے كہ''بنيہ'' كا لفظ جمع استعمال ہواہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندان آپعليه‌السلام كے زمانہ حيات ميں موحد اور خدائے يكتا و لا شريك كى عبادت كرتے تھے_إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي يہ مطلب ''من بعدي'' كى قيد سے سمجھ ميں آتاہے _

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو خوف تھا كہ ان فرزندوں ميں آپعليه‌السلام كے بعد كہيں دينى اعتقادات ختم نہ ہوجائيں _

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۵ _ انبياءعليه‌السلام كى رحلت كے بعد امتوں كے مرتد ہونے كا خطرہ پايا جاتاہے_

إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۶ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كا وقت نزديك آيا تو آپعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو توحيد پر باقى رہنے كى دعوت اور يكتاپرستى كى وصيت فرمائي _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۴۵۸

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندوں نے آپعليه‌السلام كو اطمينان دلايا كہ وہ لوگ خدائے بزرگ و برتر كى پرستش كريں گے اور اسى كے سامنے سر تسليم خم ہوں گے _قالوا نعبد الها واحداً

۸_ اپنے فرزندوں كى دينى تربيت اور اسكے نتائج كى طرف توجہ دينا اور اس بارے ميں احساس ذمہ دارى كرنا ضرورى و لازمى ہے _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۹_ توحيد پرستوں كو چاہيئے كہ جب انكى رحلت كا وقت نزديك ہو تو اپنے پس ماندگان كو توحيد اور خدائے بزرگ و برتر كى عبادت پہ قائم و دائم رہنے كى وصيت ضرور كريں _إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام خدائے يكتا كى پرستش كرنے والے توحيد پرست ہيں _نعبد الهلك واله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق

۱۱ _ اسلاف كے دينى عقائد فرزندوں كے عقيدتى رجحانات ميں بہت زيادہ مؤثر ہوتے ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق الهاً واحداً حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند '' نعبد اللہ الہاً واحداً'' جيسے جملے سے اپنے توحيدى عقيدہ اور عبادتى توحيد كا اظہار كرسكتے تھے ليكن اس مفہوم كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كا نام لے كر بيان كرنا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ كہ اسلاف اور بزرگوں كے عقائد فرزندوں اور ان كى نسل پر اثر انداز ہوتے ہيں _

۱۲ _ انسان كے دادا اور چچا والد كى طرح ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل حضرت ابراہيمعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دادا اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام آپعليه‌السلام كے چچا تھے _ قرآن كريم نے ان كے لئے '' اب'' _( والد) كا لفظ استعمال كيا ہے _ يہ امر اس بات كى حكايت كرتاہے كہ عربى ميں '' اب'' كا لفظ دادا اور چچا دونوں كے لئے بھى استعمال ہوتاہے يا يہ كہ دادا اور چچا والدكى مانند ہيں _ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۳ _ خدائے وحدہ لا شريك كى عبادت سب كا عمومى فريضہ ہے _نعبد الها واحداً

۱۴ _ اللہ تعالى كى كامل اطاعت اور اس كے غير كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے اجتناب ضرورى ہے_و نحن له مسلمون '' مسلمون'' پر '' لہ'' كا مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس '' نحن لہ مسلمون'' كا معنى يہ ہے كہ ہم فقط اللہ كے ہى حضور سر تسليم خم ہيں _

۴۵۹

۱۵ _ خدائے وحدہ پر عقيدہ، اسكى عبادت اور اسكى كامل اطاعت كے ہمراہ ہونا چاہيئے_نعبد الها واحداً و نحن له مسلمون ''تعبدون_( تم عبادت كرتے ہو) اور ''نعبد_ (ہم عبادت كرتے ہيں ) سے يہ ہم مفہوم نكلتاہے كہ خدائے وحدہ (توحيد ذاتي) پر ايمان ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ اسكى ذات اقدس كو ہى معبود جان كر اسكى پرستش كرنى چاہيئے _ جملہ ''نحن لہ مسلمون'' يہ بيان كررہاہے كہ اللہ كى عبادت و بندگى كے علاوہ اس كے فرامين و احكام كى بھى اطاعت كرنى چاہيئے_

۱۶_ اللہ تعالى كى وحدانيت اور اسكى عبادت كا عقيدہ اديان الہى كا اہم ترين اصول جبكہديگر اصولوں اور دينى احكام كى بنياد و اساس ہے _ما تعبدون من بعدى قالوا نعبد الهاً واحداً واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام دين كے تمام احكام اور اصولوں ميں سے فقط اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كو نجات كا ذريعہ نہ جانتے تھے بنابريں فقط '' ماتعبدون'' كا ذكر كرنا ممكن ہے اس امر كى حكايت كرتاہو كہ اولاً_ توحيد عبادى اہم ترين اصولوں ميں سے ہے ثانياً_ انسان اللہ تعالى كى عبادت كے ذريعے دين كے ديگر اصولوں كر احكام كى طرف راغب ہو اور ان پر عمل پيرا ہوجائيگا _

۱۷_تبليغ دين كے لئے مختلف روشوں اور انداز كو اختيار كرنا ايك اچھا اور احسن عمل ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي مورد بحث آيہ مجيدہ اور اس سے ماقبل كى آيت ہر دو كى دعوت توحيد كى طرف ہے ليكن دونوں ميں حالات كےمطابق بيان اور انداز ميں ايك فرق و تفاوت پايا جاتاہے _

۱۸_ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان اور انكى تشريح كرنى چاہيئے_ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت

اللہ تعالى نے يہوديوں كے دعوى ( حضرت يعقوبعليه‌السلام نے دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى ) كو اس جملہ '' ام كنتم ...( تم تو اس وقت موجود ہى نہ تھے) كے ساتھ بے بنياد اور بے اساس جاناہے _ اسكا معنى يہ ہے كہ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان كرنا اور ان كى تشريح كرنى چاہيئے تا كہ ان كو قبول كيا جاسكے_

۱۹ _ انبياء (عليہم السلام) حتى اپنے فرزندوں كو بھى اللہ وحدہ اور اسكى عبادت كى قبوليت پر مجبور نہ كرتے تھے_

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدى قالوا نعبدخدائے واحد كى عبادت كى طرف دعوت دينا اور وصيت كرنا اور اسكے ساتھ يہ سوال پوچھنا ( ما تعبدون ...؟) يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دين كى قبوليت اور اللہ تعالى كى عبادت بجا لانے ميں جبر نہيں ہے _

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

عبد: کبھی ''عبد،، انسان کو کہا جاتا ہے خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انسان اللہ کی مخلوق اور اس کا پروردہ ہے جو اپنے وجود اور تمام افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خاضع اور نیاز مند ہے اگرچہ وہ اس کے اوامرونواہی کی مخالفت کرے اور کبھی ''عہد،، زرخرید غلام کو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے مالک کا مملوک اور اس کے زیر سلطنت ہوتا ہے کبھی لفظ ''عبد،، کے استعمال میں وسعت سے کام لیا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو ''عبد،، کہا جاتا ہے جو کسی غیر معمولی چیز کو اہمیت دے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اسے دکھائی نہ دیتی ہو چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

الناس عبید الدنیا و الدین لعق علیٰ السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم و اذا محصوبالبلاء قل الدیا نون،، (۱)

''لوگ دنیا پرست ہیں اور دین ان کی زبانوں تک محدود ہے جب تک یہ آسودہ حال رہیں دین کا طواف کرتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو متدین افراد بہت کم رہ جاتے ہیں،،۔

کبھی ''عبد،، متواضع اور عبادت گزار کو کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) ۲۶:۲۲

''کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے،،۔

( عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) کا مطلب ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا اطاعت گزار بنا دیا ہے جو تیرے امرو نہی کی مخالفت نہیں کرتے۔

____________________

(۱) بحار ، ج ۱۰ ، ص ۱۸۹

۵۸۱

الاستعانتہ

استعانت مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں یہ لفظ کبھی خود اور کبھی 'ب، کے ذریعے متعدی ہوتا ہے چنانچہ استعنتہ،، بھی کہا جاتا ہے اور''استعنت به ،، بھی کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس سے مدد طلب کی۔

اعراب:

دونوں جملوں( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں ''ایاک،، کو جو مفعول ہے حصر کی خاطر مقدم کیا گیا ہے اور آیت میں غائب سے خطاب کی طرف التفات سے کام لیا گیا ہے(۱) اس میں دو راز ہو سکتے ہیں:

(۱) گزشتہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام موجدات کامالک اور مزتی ہے اور زندگی کا ہر کام اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ ، انسان اور اس کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہو تاکہ روز قیامت اطاعت گزاروں اور معصیت کاروں کو جزاء و سزا دے سکے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری دے اور اس سے مخاطب ہو۔

(۲) عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے سامنے اسے اپنا رب سمجھ کر متواضع ہو اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربی ا پنے پروردہ کے سامنے ہو۔ یہی حکم استعانت کا بھی ہے کیونکہ انسان کا اپنے رب کا محتاج ہونا اور اس کا مستقل نہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ معبود ، عبد کے سامنے ہوتا کہ اس کی طرف سے مدد ہو سکے۔

ان دو نکتوں کے پیش نظر سورہ حمد میں غایب سے خطاب کی طرف رخ کیا گیا اور( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) کہا گیا ۔ پس بندہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اس سے غائب نہیں۔

____________________

(۱) علم معنی بیان میں کسی خاص مقصد کے تحت غائب کی ضمیرا ستعمال کرتے کرتے اچانک مخاطب کی ضمیر لانے یا مخاطب کے بعد غائب کی ضمیر لائے ، یعنی ایک ضمیر کو چھوڑ کر دوسری ضمیر سے استفادہ کرنے کو ''التفات،، کہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۸۲

گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور بزرگی بیان فرمائی اس کے بعد اس آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تلاوت کی تلقین فرمائی اور یہ کہ اس آیت کے مدلول و مفہوم کا اعتراف کریں یعنی ہم سوائے خدا کے کسی اور کی عبادت و پرستش نہیں کرتے اور غیر اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے اس خدا کے علاوہ تمام موجودات ذاتاً فقیر، محتاج اور عاجز ہیں بلکہ وہ لاشئی اور ہیچ ہیں مگر یہ کہ رحمت الٰہی انہیں شامل حال ہو۔

جس موجود و مخلوق کی یہ حالت ہو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے اور تمام ممکنات ، اگرچہ کمال و نقص کے اعتبار سے ان کے درجے مختلف ہیں صفت عجز میں مشترک ہیں جو ایک ممکن کا لازمہ ہے اور یہ کہ سب ممکنات اللہ کے حکم اور اس کے ارادے سے موجود ہیں۔

( أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) ۷:۵۴

''دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کیلئے ، وہ خدا جو سارے جہاں کا پروردگار ہے ، بڑا برکت والا ہے،،

( وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ) ۲۴:۴۲

''اور سارے آسمان اور زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے،،

اللہ کے ساتھ اس کی سلطنت میں کون ٹکر لے سکتا ہے اور اس کے امرو حکم کے سامنے کون آ سکتا ہے عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے اور روکنے والی ذات بھی وہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہے حکم فرماتا ہے پس مومن اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ اس کے غیر سے مدد مطلب کرتا ہے کیونکہ غیر خدا چاہے کوئی بھی ہو ہر کام اور ہر بات میں اللہ کا محتاج ہے معبود کوہر حالت میں مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہئے اس لئے کہ فقیر اپنے جیسے فقیروں کی کیسے عبادت کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرے اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس اپنی حاجت لے کر نہ جائے غمیر خدا پر بھروسہ نہ کرے اور صرف اللہ سے مانگے ورنہ شرک باللہ اور اس کی سلطنت میں کسی اور کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،،

۵۸۳

آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں بحث دوم

٭ العبادۃ و التالہ

٭ عبادت اور اطاعت

٭ عبادت اور خشوع

٭ غیر اللہ کو سجدہ

٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ

٭ شرک باللہ کیا ہے ؟

٭ اسباب عبادت

٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے

٭ شفاعت

٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ تحلیل آیتہ ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔

٭ قرات

٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال

٭ اعراب ، الضالین

٭ تفسیر----- ٭ ہدایت عامہ

٭ ہدایت خاصہ

۵۸۴

العبادۃ و التالہ

اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،

پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

'' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،

۵۸۵

( وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ) ۲۳:۹۱

''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔

دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ) ۲۷:۶۴

''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،

( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) ۲۶:۷۱

''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،

( أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ) : ۷۳

''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،

( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ) : ۷۴

''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،

۵۸۶

کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ) ۲۱:۶۶

''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) : ۶۷

''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،

( قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ ) ۵:۷۶

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔

( أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ) ۷:۱۴۸

''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،

مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔

۵۸۷

( وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ) ۵:۱۱۶

''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ ) ۵:۱۱۷

؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،

کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) ۵۰:۱۶

''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) ۴۰:۶۰

''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،

۵۸۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ) ۶:۱۸

''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،

( قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۳:۲۹

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ) ۱۰:۱۰۷

'' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ ----- فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۶:۱۷

''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،

( اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ ) ۱۳:۲۶

''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،

ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) ۴۲:۱۱

''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،

۵۸۹

( أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ) ۴۱:۵۴

''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،

بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔

( مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ) ۵۸:۷

''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،

( كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) ۳:۴۰

'' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،

( إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ) ۵ :۱

''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،

خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:

۵۹۰

عبادت اور اطاعت

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔

اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ) ۴:۸۰

''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ) ۴:۶۴

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،

یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) ۳۳:۷۱

''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹

'' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،

۵۹۱

ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ ) ۳۳:۱

''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،

( فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ) ۷۶:۲۴

''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔

( وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ ) ۳۱:۱۵

''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔

ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔

عبادت اور خشوع

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔

۵۹۲

(۱) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:

مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ) ۱۷:۲۴

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،

ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،

نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔

۵۹۳

(۲) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ(۱) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ) ۱۸:۱۵

''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،

(۳) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمومنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ) ۵:۵۴

''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،

____________________

(۱) قرآن سنت ، اجماع اور عقل

۵۹۴

خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

( عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (۲۱: ۲۶۔۲۷)

'' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،

ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے

آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔

۵۹۵

جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔

من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی

''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔

اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں(۱) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا(۱) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

___________________

(۱) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ۱۷ میں ذکر کی گئی ہیں۔

۵۹۶

ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔

بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔

(۱) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔

(۲)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔

ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی

( وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ) ۲۲:۳۲

''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،

اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔

۵۹۷

غیر اللہ کو سجدہ

گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) ۴۱:۳۷

''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔

اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔

( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ) ۷۲:۱۸

''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،

یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا

____________________

(۱) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ۳ ، ص ۴۴۸

۵۹۸

کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیادہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔

بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے(۱) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔

شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں(۲) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(۳)

خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا(۴)

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) وسائل ، باب ۱۶۲ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ۲۳۶

(۳) ضمیمہ نمبر ۱۹ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا

(۴) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ۱ ، ص۲۱۲ ۔ ۲۱۳

۵۹۹

ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں(۱)

فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔

آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔

(۱) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

__________________

(۱) وسائل ، ج ۱ ، ص ۲۳۶ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۰

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785