تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200923 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

ہے _ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم

۱۴ _ نيك عمل كے بانيوں كو ياد كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل

''اذ ...'' ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے يعنى يہ كہ كعبہ كے بنانے والوں كو ہميشہ ياد ركھو_ يہ حكم انسانوں كے لئے ايك درس ہے كہ نيك كاموں كى بنياد ركھنے والوں كے عمل كو كبھى فراموش نہيں ہونا چاہيئے_

۱۵_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى طرف سے كعبہ كى تعمير كا واقعہ اور اس دوران ان كى دعائيں ، ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل ربنا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اذ'' فعل مقدر ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہو _

۱۶ _ اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''... فلما امر الله عزوجل ابراهيم ان يبنى البيت و لم يدر فى اى مكان يبنيه فبعث الله جبرائيل فخطّ له موضع البيت فانزل الله عليه القواعد من الجنة فبنى ابراهيم البيت و نقل اسماعيل الحجر من ذى طوى فرفعه الى السماء تسعة اذرع (۱) جب اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو كعبہ كى تعمير كا ا مر فرمايا تو آپعليه‌السلام نہيں جانتے تھے كہ كعبہ كى تعمير كہاں كريں تو اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو حضرت جبرائيلعليه‌السلام نے زمين پر كعبہ كى جگہ ايك خط كھينچا پھر اللہ تعالى نے كعبہ كى بنياديوں كو جنت سے نازل فرمايا پس حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى تعمير كى حضرت اسماعيلعليه‌السلام وادى '' ذى طوي'' سے پتھر لے كر آئے تو حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى (ديواوں )كو نو(۹) ذراع تك بلند فرمايا ...''

۱۷_قال الحلبى سئل ابو عبدالله عليه‌السلام عن البيت اكان يحج قبل ان يبعث النبي(ص) ؟ قال نعم و تصديقه فى القرآن و اذيرفع ابراهيم القواعد من البيت واسماعيل (۲) حلبى كہتے ہيں امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كيا آنحضرت (ص) كى بعثت سے قبل حج تھا؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں اس كا شاہد قرآن ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' يادكرو جب ابراہيم اور اسماعيل كعبہ كى ديواريں بلند كررہے تھے''

۱۸_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہكان البيت درة بيضاء فرفعه الله الى السماء و بقى اساسه فامر الله ابراهيم و اسماعيل ان يبنيا البيت على القواعد (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۶۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۱۰_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۸ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۹_

۴۴۱

... خانہ كعبہ سفيد درّ ( موتي) تھا پھر اللہ تعالى نے اس كو آسمان كى طرف بلند فرماليا اور اس كى بنياد باقى رہ گئي پھر اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كو امر فرمايا كہ كعبہ كو انہى گزشتہ بنيادوں پر تعمير كريں _

اخلاص : اخلاص كى اہميت ۸

اسماء اور صفات: سميع ۱۰; عليم ۱۰

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كى اہميت ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۱۱; اوامر الہى ۵; حمد الہى ۱۳; ربوبيت الہي۹; اللہ تعالى كا سننا ۱۱; اللہ تعالى كا علم ۱۱

انسان: انسان كى ضروريات۱۱

تقرب: تقرب كے عوامل ۵

حج: حج كى تاريخ ۱۷; حج قبل از اسلام۱۷

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶ ،۱۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت ابراہيم كى ذمہ دارى ۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اخلاص ۸; حضرت اسماعيل اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶،۱۸; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵

دعا: دعا كے آداب ۶،۹،۱۳; دعا كا مستجاب ہونا ۱۲; دعا كى قبوليت كا سرچشمہ ۱۱

ذكر: اچھے عمل كے بانيوں كا ذكر ۱۴; كعبہ كى تعمير كا ذكر ۱۵; تاريخ كا ذكر ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵

روايت: ۱۶ ، ۱۷،۱۸

عبادت: عبادت كى قدرو منزلت ۷; عبادت كى قبوليت كى شرائط ۷

عمل:

۴۴۲

پسنديدہ عمل كے آداب ۱۲; پسنديدہ عمل كى اہميت ۱۴; عمل كى قبوليت كى درخواست ۴،۱۲; پسنديدہ عمل ۶; عمل كى قبوليت كے لئے كيفيت دعا ۶

قدريں : قدروں كے معيار ۷

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۱۲۸ )

پروردگار ہم دونوں كو اپنا مسلماناور فرمانبردار قرار دے دے اور ہمارياولاد ميں بھى ايك فرمانبردار امت پيداكر _ ہميں ہمارے مناسك دكھلادے اور ہماريتوبہ قبول فرما كہ تو بہترين قبول كرنےوالا مہربان ہے (۱۲۸)

۱_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونا تھا_و إذ يرفع ابراهيم القواعد ربنا و اجعلنا مسلمين لك

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى نسل ميں سے كچھ انسانوں كو مقام تسليم تك پہنچائے_و من ذريتنا امة مسلمة لك

كعبہ: كعبہ كے بانى ۱،۳; كعبہ كى تعمير ۱،۳،۴،۵ ،۸،۱۶،۱۸; كعبہ كى تاريخ ۲،۳،۱۶; كعبہ كے فضائل ۱۸; كعبہ كى قدامت ۲

مقربين : ۵

اس مطلب ميں '' من ذريتنا'' ميں '' من '' كا معنى بعض ليا گيا ہے _

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اپنى ذريت (نسل ) سے محبت_من ذريتنا امة مسلمة لك

۴ _ اللہ تعالى كى بندگى كى راہ و روش يہ ہے كہ اس كے سامنے سر تسليم خم ہوا جائے_

ربنا و اجعلنا مسلمين لك و من ذريتنا امة مسلمة لك

۵ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے مراتب و درجات ملتے ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين لك

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام باوجود اس كے كہ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم تھے ليكن پھر بھى اس مقام كے حصول كى توفيق كى دعا كرتے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ مقام تسليم كے مختلف درجات اور مراتب ہيں _

۴۴۳

۶ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى تمام تر ذريت تسليم كے اعلى درجات كے حصول كى لياقت نہيں ركھتي_و من ذريتنا امة مسلمة لك '' من ذريتہا'' ميں '' من'' تبعيض كے لئے ہے اور مذكورہ بالا مفہوم كو بيان كرتاہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى پروردگار سے دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كى عبادت كا طريقہ اور اسكے آداب كى تشريح و تفسير تھا_و ارنا مناسكنا

'' مناسك' ' كا مفرد '' منَسَك'' ہے جس كا معنى عبادت كا طريقہ ہے ( لسان العرب) پس ''ارنا مناسكنا'' يعنى اے اللہ ہميں اپنى عبادت كرنے كا طريقہ دكھا_

۸_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے دعا كى كہ انہيں اعمال حج كى كيفيت سكھائے_ربنا ارنا مناسكنا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ مناسك كا معنى اعمال حج ہوں جيسا كہ بعض اہل لغت اور بعض مفسرين نے يہى معنى كيا ہے_

۹_ احكام دين كى قانون سازى اورعباد ت كى كيفيت كا بيان كرنا خداتعالى كى شان ہےربنا ارنا مناسكنا

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى اور ان كى اولاد كى توبہ كو قبول فرمائے _و تب علينا

۱۱ _ انسان جس بھى مقام و منزلت كا مالك ہو اپنے الہى فرائض كى ادائيگى ميں عاجز ہے_و تب علينا

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام جو گناہ اور معصيت الہى سے پاك و منزہ ہيں اس كے باجود اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كرتے ہيں اور اس توبہ كى قبوليت كے خو اہشمند ہيں اس ميں بعض نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ انسان جس مقام و منزلت پربھى فائز ہو اللہ تعالى كى بندگى كا فريضہ ادا كرنے سے معذور ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى توّاب ( بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم (بہت زيادہ مہربان) ہے _انك انت التواب الرحيم

۱۳ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے كى توفيق ، اللہ تعالى كا عبادت كى كيفيت بيان كرنا اور اللہ رب العزت كا توبہ قبول كرنا بندوں پر اسكى رحمت كے پرتو ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين و ارنا منا سكنا و تب علينا انك انت التواب الرحيم

۴۴۴

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دعا انسان كى معنوى خواہشات كى تكميل ميں موثر ہے _ربنا و اجعلنا مسلمين لك و تب علينا

۱۵ _ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت ہے''لما فرغ ابراهيم من بناء البيت قال: فعلت اى رب فارنا مناسكنا ابرزها لنا علّمنا ها فبعث الله جبرائيل فحجّ به (۱) حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى تعمير سے فارغ ہوگئے تو عرض كيا يا اللہ ميں نے اپنى ذمہ دارى كو ادا كيا پس اے اللہ تو ہمارے لئے اعمال حج كو آشكار فرما اور ان كو ہميں سكھادے_ تو پس اللہ تعالى نے حضرت جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو انہوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ہمراہ اعمال حج انجام ديئے ( يعنى عملاً حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو اعمال حج دكھائے)_

احتياجات: معنوى احتياجات كى تكميل ۱۴

اسماء اور صفات: توّاب ۱۲; رحيم ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۹; اللہ تعالى كى توفيقات۱۳; رحمت الہى كے مظاہر ۱۳

انسان: انسان كى معنوى خواہشات۱۴; انسان كا عاجز ہونا ۱۱

بندگي: بندگى كى روش۴

توبہ: توبہ كى قبوليت كى درخواست ۱۰; توبہ كى قبوليت ۱۳

توفيق: توفيق كے اسباب ۱۳

حج: اعمال حج كى تعليم ۸،۱۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيم اور كعبہ كى تعمير ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات ۷،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰،۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى محبت و رجحانات۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

حضرت اسماعيلعليه‌السلام :

____________________

۱) جامع البيان (طبري) ج/۱ ص۵۵۵ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۳۳۲_

۴۴۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيل كى محبت۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

دعا: دعا كے نتائج ۱۴

دين: دين كى قانون سازى كا سرچشمہ ۹

رجحانات: نسل سے محبت كے رجحانات

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ ( ۱۲۹ )

پروردگار ان كےدرميان ايك رسول مبعوث فرما جو ان كےسامنے تيرى آيتوں كى تلاوت كرے _ انھيں كتاب و حكمت كى تعليم دے اور ان كے نفوسكو پاكيزہ بنائے بيشك تو صاحب عزّت اورصاحب حكمت ہے (۱۲۹)

۱ _ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے كسى ايك پيامبرعليه‌السلام كى بعثت كے لئے كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعائيں كيں _و من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم

روايت:۱۵

سر تسليم خم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۱،۲،۴،۱۳; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے مراتب ۵،۶; سر تسليم خم ہونے كا مقام ۲،۶

عبادت: عبادت كے آداب كى تشريح ۷; عبادت كى كيفيت كا بيان و تشريح ۷،۹،۱۳

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱،۸،۱۵

''فيہم'' اور ''منھم'' كى ضمير ممكن ہے ماقبل آيہ ميں '' امة مسلمة'' كى طرف لوٹتى ہواور ممكن ہے آيت مجيدہ ۱۲۶ ميں '' اہلہ'' كى طرف پلٹتى ہو _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے يعنى''ربنا و ابعث فى ذريتنا المسلمة رسولاً منهم'' _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى مشتركہ دعا اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ مورد نظر پيامبر (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نظر ميں اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ہے نہ كہ كسى دوسرے فرزند كى نسل سے_

۲ _ آيات الہى كى تلاوت كرنا ، آسمانى كتاب كى تعليم دينا، حكمت (دينى احكام، معارف و غيرہ ) سكھانا اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كو آلودگيوں ، كثافتوں اور نجاستوں سے پاك كرنا اس پيامبر كى

۴۴۶

خصوصيات تھيں جس كى بعثت كے ليئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى تھي_

ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم

۳ _ حضور سرور دو عالم محمد مصطفى (ص) ہى وہ بنى ہيں كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اپنى نسل سے جن كى بعثت كيلئے دعا كى تھي_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يزكيهم سب مفسرين كے مطابق ''رسولاً'' سے مراد پيامبر عظيم الشان اسلام حضرت محمد مصطفى (ص) ہيں _

۴ _ اپنى اولاد اور نسل كے لئے دعا كرنا كہ وہ احكام الہى سيكھيں اور ان كى دينى تربيت ہو ايك اچھا اور نيك شگون عمل ہے _ربنا ابعث فيهم رسولاً و يزكيهم

۵ _ وہ نسل، اولاد اور ذريت جو دينى تعليمات كے ساتھ ليس ہو اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہو ايسى اولاد اپنے اسلاف كے لئے سربلندى و سرفرازى كا سبب ہے _ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم و يزكيهم

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كى بعثت اورخود عوام ميں سے ان كا انتخاب اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم

۷_آيات الہى كى تلاوت كرنا، آسمانى كتاب كى تعليم دينا ، حكمت سكھانا اور لوگوں كو آلودگيوں ، كثافتوں سے پاك كرنا انبياء (عليہم السلام) كے فرائض اور ان كى بعثت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة و يزكيهم

۸_ امتوں كا مقام تسليم و رضاتك پہنچنا انبياءعليه‌السلام كى بعثت ، آسمانى كتاب اور دينى احكام و معارف كى تعليم اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہونے سے ممكن ہے _من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا ...يزكيهم ''امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے درخواست كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اپنى نسل سے ايك نبى كى بعثت كے لئے دعا كرنا لگتا ہے اسلئے تھا كہ : '' امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے بعثت اور اس كے اہداف بنيادى ترين ضروريات ميں سے ہيں _

۹_آسمانى كتاب كى تعليم ، حكمت اور الہى احكام و معارف كا سيكھنا اور خود كو آلودگيوں اور كثافتوں سے پاك ركھنا انبيائے الہىعليه‌السلام كى نظر ميں بہت بلند و ارفع مقام و منزلت كا باعث ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا و يزكيهم

۴۴۷

۱۰_ اللہ تعالى ہى تنہا عزيز ( كامياب اور شكست ناپذير) اور فقط وہى حكيم ( ايسى ہستى جو امور كى نہايت محكم و مستحكم بنياد ركھے ) ہے _انك انت العزيز الحكيم

۱۱ _ انبيائ( عليہم السلام )كى بعثت اللہ تعالى كى عزت و حكمت كا ايك پرتو ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً انك انت العزيز الحكيم

۱۲ _ دعا كے اختتام پر اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _ربنا و ابعث انك انت العزيز الحكيم

۱۳ _ اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا اسكى بارگاہ ميں دعا كى قبوليت كے لئے موثر ہے_ ربنا وابعث فيهم انك انت العزيز الحكيم

۱۴ _ رسول اسلام (ص) كا ارشاد ہے''انا دعوة ابراهيم قال و هو يرفع القواعد من البيت ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم ''(۱) ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى قبول شدہ دعا ہوں حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى ديواريں بلند فرماررہے تھے تو انہوں نے عرض كيا اے ہمارے رب ان كے درميان انہيں ميں سے ايك رسول كو مبعوث فرما ...''

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كى تعليمات كے نتائج ۸; آسمانى كتابوں كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; آسمانى كتابوں كى تعليمات ۲،۷

آيات الہي: آيات الہى كى تلاوت ۲،۷

اسماء اور صفات: حكيم۱۰;عزيز۱۰

اقدار: ۵،۹

قدروں كا معيار ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۱۰; حكمت الہى كے مظاہر ۱۱; عزت الہى كے مظاہر ۱۱; الہى نعمتيں ۶

امتيں : امتوں كى اطاعت يا سر تسليم خم ہونا ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى بعثت كے آثار۸; انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۷ انبياءعليه‌السلام كابشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۱۱; ابنياءعليه‌السلام كى

____________________

۱) الدر المنثور ج/۱ ص۳۳۴_

۴۴۸

بصيرت ۹; جس نبى (ص) كے لئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; جس نبى (ص) كےلئے حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

اولاد: تربيت اولاد۴; اولاد كى تعليم ۴; اولاد و نسل كے لئے دعا ۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل سے ۳; پيامبر اسلام (ص) حضزت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ۳; آنحضرت (ص) كے درجات ۱۴; آنحضرت (ص) كى نبوت ۱۴; آنحضرت (ص) كے اسلاف و بزرگان ۳

تزكيہ : تزكيہ كے آثار۸; تزكيہ كى قدر و قيمت۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱، ۱۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۳

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ۲; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱;حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۱،۳

حكمت: حكمت كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; حكمت كى تعليم ۲،۷

حمد: حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳

دعا: دعا كے آداب ۱۲; دعا ميں حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳ دعا كى قبوليت كى بنياد۱۳

دين : دينى تعليم كے نتائج ۸; دينى تعليم كى قدر و منزلت ۹; دينى تعليم ۲،۴

روايت:۱۴

سر تسليم خم ہونا: مقام تسليم و رضا كا حصول ۸

عمل: پسنديدہ عمل ۴

عوام: عوام كا تزكيہ نفوس ۷

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱

نسل : صالح اولاد يا نسل كى قدر وقيمت۵; مؤمن نسل كى قدر و منزلت ۵; سربلند و باعظمت نسل ۵

۴۴۹

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( ۱۳۰ )

اور كون ہے جو ملّتابراہيم سے اعراض كرے مگر يہ كہ اپنے ہيكو بيوقوف بنائے _ اور ہم نے انھيں دنياميں منتخب قرارديا ہے اور وہ آخرت ميں نيك كردار لوگوں ميں ہيں ( ۱۳۰)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شريعت اور مكتب عاقلانہ اور خردمند انہ ہے جبكہ اسكى پيروى كرنا عقل و خردمندى كا ثبوت ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۲ _ فقط احمق ، سفيہ اور بے وقوف لوگ ہيں جوحضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مكتب سے منحرف ہوئے ہيں اور قبول نہيں كرتے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''رغبة'' كا لفظ جب اپنے مشتقات كے ہمراہ حرف ''عن'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو انحراف اور روگردانى كا معنى ديتاہے_ '' من يرغب '' ميں ''من'' اسم استفہام ہے جو يہاں استفہام انكارى كے طور پر آياہے_

۳ _ انسان فقط اپنى عقل كو فريب دے كر اديان الہى سے گريزاں ہوتاہے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''سفہ'' كا مفعول ''نفسہ'' ہے پس ''من سفہ نفسہ'' يعنى وہ شخص جس نے خود كو حماقت و بےوقوفى ميں مبتلا كيا ہے البتہ مذكورہ مطلب ميں اسكے لئے '' عقل كو فريب دينے'' كى تعبير استعمال كى گئي ہے _

۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مكتب و آئين دين اسلام كى بنياد ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

قرآن حكيم انسانوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت ديتاہے اور دين ابراہيمىعليه‌السلام سے انحراف اور روگردانى كو جائز نہيں سمجھتا اس سے معلوم ہوتاہے كہ ہر دو اديان كى ماہيت ايك ہى ہے جبكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ،اسلام كى اساس و بنياد ہے _

۵ _ توحيد ربوبى وافعالى اور اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا، آنحضرت (ص) كى رسالت اورآپ (ص) كى كتاب (قرآن كريم ) كى تصديق كرنا دين ابراہيمىعليه‌السلام كے

۴۵۰

اصولوں ميں سے ہے _ربنا تقبل منا واجعلنا مسلمين لك ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملة ابراهيم

مورد بحث آيہ مجيد ہ انسانوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے انتخاب كى دعوت دے رہى ہے اور گزشتہ آيات اس دين كے اصولوں كى طرف اشارہ ہے _ يہ جملہ ''ربنا تقبل ...'' بيان كررہاہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام توحيد ربوبى و افعالى اور پر اعتقاد ركھتے تھے_

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كو قبول كرنے كا لازمى نتيجہ اسلام كو قبول كرناہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملةابراهيم الا من سفه نفسه يہ جملہ''ربنا و ابعث ...'' آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى بعثت كى طرف اشارہ ہے اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دينى اصولوں ميں سے ايك اصول كى حكايت كررہاہے_ بنابريں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين پر يقين كا نتيجہ دين اسلام كى حقانيت پر ايمان و ايقان ہے_

۷_ دين اسلام سے روگردانى حماقت و بے عقلى كى دليل ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۸_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام دنيا ميں اللہ تعالى كى برگزيدہ شخصيت اور عالم آخرت ميں صالحين اور باعظمت انسانوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا وا نه فى الاخرة لمن الصالحين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كے خالص بندوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا ''اصطفائ'' يعنى ہر چيز ميں سے ''صفوہ'' (خالص اور پاكيزہ) كا انتخاب كرنا _

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اخلاص ، اللہ تعالى كى طرف سے آپعليه‌السلام كا انتخاب اور عالم آخرت ميں آپعليه‌السلام كا صالحين كے ساتھ ملحق ہونا يہ دلائل ہيں جن كى بناپر آپعليه‌السلام كے دين كى اتباع ضرورى ہوجاتى ہے _

و من يرغب لقد اصطفيناه فى الدنيا و انه فى الاخرة لمن الصالحين

يہ جملے '' لقد اصطفيناہ'' اور ''انہ فى الاخرة ...'' اس جملہ ''و من يرغب ...'' كے لئے دليل كے طور پر ہيں _

۱۱ _ عالم آخرت ميں بعض اعلى و ارفع انسان صالحين كے عنوان سے حاضر ہوں گے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين

۱۲ _ اللہ تعالى كے خالص و برگزيدہ انسان قيامت كے دن صالحين كے ساتھ ملحق ہوں گے _

و لقد اصطفيناه فى الدنيا وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۴۵۱

احمق افراد:۲

اديان : اديان سے منہ موڑنے كى بنياد ۳

اسلام : اسلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴; اسلام سے منہ موڑنا ۷; اسلام كو قبول كرنے كى بنياد ۶

اللہ كے بندے : ۹ اللہ كے بندے قيامت ميں ۱۱،۱۲

برگزيدہ انسان : ۸، ۱۰ برگزيدہ انسان قيامت ميں ۱۱،۱۲

پيامبر گرامى اسلام (ص) : پيامبر گرامى اسلام (ص) كى تصديق ۵

توحيد : توحيد افعالى ۵; توحيد ربوبى ۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۹،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كے اصول ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا برگزيدہ ہونا ۸،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كي اتباع ۱،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كا معقول ہونا ۱; دين ابراہيمىعليه‌السلام سے منہ پھيرنے والے ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۸،۹

حماقت و سفاہت: حماقت كى نشانياں اور دلائل ۷

خودفريبى : خودفريبى كے نتائج ۳

سرتسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۵

صالحين : ۸ صالحين آخرت ميں ۱۱; صالحين قيامت ميں ۱۲;صالحين كے درجات ۱۲

عالم آخرت : عالم آخرت ميں مختلف گروہ ۱۱

عقيدہ: دين ابراہيمىعليه‌السلام پر اعتقاد۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى تصديق ۵

مخلصين: مخلصين قيامت ميں ۱۲

۴۵۲

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۱۳۱ )

جب ان سےان كے پروردگار نے كہا كہ اپنے كو ميرےحوالے كردو تو انھوں نے كہا كہ ميں ربالعالمين كے لئے سراپا تسليم ہوں ( ۱۳۱)

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے چاہا كہ ہميشہ اس كے سامنے سر تسليم خم رہيں _إذ قال له ربه اسلم

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرمان الہى كو بلاتاخير قبول كيا اور اللہ رب العزت كے حضور سر تسليم خم ہونے كا اعلان كيا _قال اسلمت

۳ _ اللہ تعالى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا پروردگار اور تمام عالمين كا مدير و مدبر ہے _ربه لرب العالمين

۴ _ اللہ تعالى كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ( اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كا ) حكم دينا آپعليه‌السلام كى تربيت اور رشد و تكامل كے لئے تھا_إذ قال له ربه اسلم

يہ مطلب كلمہ''رب'' كہ جو مدير و مدبر اور تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے _ سے حاصل كيا گيا ہے _

۵ _اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا اور اس كے فرامين كى اطاعت كرنا انسان كى تربيت اور رشدو تكامل كا باعث ہے_إذ قال له ربه اسلم

۶ _عالم آفرينش ميں مختلف جہان موجود ہيں _رب العالمين يہ مطلبكلمہ''عالمين''كے جمع استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس دليل عالم ہستى كے تمام جہانوں پر پروردگار عالم كى ربوبيت ہے_اسلمت لرب العالمين اللہ تعالى اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مابين گفتگو كا تقاضا يہ تھا كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كو جواب كے طور پر''اسلمت لك'' كہيں _ ''لك'' كى جگہ ''لرب العالمين'' كا لانا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حقيقت كو دليل كے ساتھ پيش كرنا يعنى يہ كہ جب حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے جان ليا كہ اللہ ہى رب

۴۵۳

العالمين ہے تو اسكے حضور سر تسليم خم ہوگئے_

۸_ جہان آفرينش پر اللہ تعالى كى ربوبيت پر يقين انسان كو اللہ تعالى كى اطاعت اوراسكے سامنے سر تسليم خم ہونے كى ترغيب دلاتاہے_اسلمت لرب العالمين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اللہ كے حضور سر تسليم ہونا ان كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے ساتھ ملحق ہونے كى دليل ہے _لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

''اذقال ...'' ميں ''اذ'' حرف تعليل ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونے كى دليل ہے _

۱۰_ عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونا اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے اور اسكى اطاعت كرنے كے باعث ہے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كے نتائج ۵،۱۰; اللہ تعالى كى اطاعت كى بنياد ۸

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; ربوبيت الہى ۳،۷; اوامر الہي

ايمان: اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۸; ايمان كے متعلقات۸

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۸

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے آثار۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے دلائل۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب كے اسباب ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تربيت كے اسباب ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رشد و تكامل كے عوامل ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاواقعہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مربى '' تربيت كرنے والا'' ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۹

خلقت : كائنات كے مختلف عوالم۶; كائنات كے جہانوں كا مدير و مدبر ۳،۷

رشد: رشد كے عوامل ۵

سرتسليم خم ہونا:

۴۵۴

اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كے نتائج ۴،۵،۹،۱۰; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم ہونے كى اہميت ۱،۲; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے دلائل ۷; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كى بنياد۸

صالحين : صالحين عالم آخرت ميں ۹،۱۰; صالحين كے درجات ۱۰

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸;كا فلسفہ ۴; اوامر الہى كى قبوليت ۲

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ( ۱۳۲ )

اور اسى بات كى ابراہيم اور يعقوب نےاپنى اولاد كو وصيت كى كہ اے ميرے فرزندوالله نے تمھارے لئے دين كو منتخب كرديا ہےاب اس وقت تك دنيا سے نہ جانا جب تكواقعى مسلمان نہ جاؤ(۱۳۲)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ہر دو كے چند فرزند تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو اپنے دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه

''بہا'' كى ضمير ممكن ہے '' ملة ابراہيم _ آيہ مجيدہ ۱۳۰'' ميں كى طرف لوٹتى ہو اورممكن ہے جملہ '' اسلمت _ ما قبل آيت '' ميں كى طرف لوٹتى ہو _دونوں صورتوں ميں معنى ايك ہى بنتاہے كيونكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين وہى خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہوناہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين (اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب ''يعقوب'' ''ابراہيم'' پر عطف ہے گويا ''وصى بہا يعقوب بنيہ ''

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے

۴۵۵

پيروكار تھے اور اسى كى تبليغ كرنے والے تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب

۵ _دين ابراہيمىعليه‌السلام بہترين دين اور ہر طرح كے باطل و منحرف شبہات سے پاك و منزہ ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين ''اصطفائ''يعنى كسى بھى چيز ميں سے صفوہ (خالص و بہترين) كا انتخاب كرنا '' الدين'' ميں '' ال'' عہد ذكرى كا ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى طرف اشارہ ہے _

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا ) اللہ تعالى كا پسنديدہ اور برگزيدہ دين ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين

۷ _ دين ابراہيمىعليه‌السلام كا ہر طرح كے باطل و انحراف سے منزہ ہونا اور اس دين كا اللہ تعالى كى طرف سے انتخاب ہونا علت ہے اس امر كى كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اس دين كو قبول كرنے كى وصيت و نصيحت فرمائي _و وصى بها ابراهيم يا بنى ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن

جملہ '' لا تموتن ...'' كى جملہ '' ان اللہ ...'' پر حرف '' فائ'' كے ذريعے تفريع مذكورہ مطلب كى حكايتكرتى ہے _

۸ _ اللہ تعالى انسان كے لئے جو كچھ انتخاب فرماتاہے اور اسكا حكم ديتاہے اس كو قبول كرنا ضرورى ہے _

ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

'' فلا تموتن ...'' ميں '' فائ'' سببيہ ہے يعنى اس كے مابعد جو كچھ واقع ہواہے وہ ماقبل جملے كے مضمون كا نتيجہ ہے پس جملے كا يہ معنى ہے _ چونكہ اللہ تعالى نے دين ابراہيمىعليه‌السلام (اللہ جل جلالہ كے حضور سرتسليم خم ہونا ) كو تمہارے لئے انتخاب فرمايا ہے پس ہميشہ اسى كے ساتھ وابستہ رہنا ضرورى ہے _

۹ _اديان الہى كى اتباع اور پيروى كا خود انسان كو فائدہ ہے _اصطفى لكم الدين يہ مفہوم '' لكم'' كے ''لام'' كى بناپرہے_

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد سے چاہا كہ ہميشہ اللہ كے حضور سر تسليم خم رہيں اور اس كے فرمان كى اطاعت كريں _فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اللہ تعالى كے حضور ہميشہ سر تسليم خم رہنے اور ہميشہ اسى كے مطيع فرمان رہنے كے لئے جملہ ''فلا تموتن ...'' كنايہ ہے _

۱۱ _ اديان الہى كى تعليمات كا محور اور ان كى روح خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہونا ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۲ _ اپنى اولاد ميں صحيح دينى خطوط اور رجحانات پيدا كرنے سے محبت يہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت

۴۵۶

يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ميں سے ہے _وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۱۳ _ اپنے بچوں كو دين الہى كے انتخاب كى طرف راغب كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۴ _ دين الہى كے انتخاب اور اللہ رب العزت كى بارگاہ ميں سر تسليم ہونے كى وصيت كرنا وصيتوں ميں سے بہترين وصيت ہے _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اديان : اديان كى اتباع ۹; اديان كى حقيقت ۱۱

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۰

اللہ تعالى : اوامر الہى كى قبوليت ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے رجحانات۱۲ انسان: انسان كے فوائد اور منافع ۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمى كا انتخاب ۶،۷،; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فرزند ۱،۲; حضرت ا براہيمعليه‌السلام كے پيروكار ۴; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى وصيتيں ۲،۷; دين ابراہيمعليه‌السلام كى حقانيت ۵،۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى قبوليت ۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى خصوصيات۵،۶،۷

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتيں ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہشات ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتوں كے دلائل ۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴

دين: برگزيدہ دين ۵،۶،۷; دين كى قبوليت ۱۴; برگزيدہ دين كا قبول كرنا ۸

سر تسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۲ ، ۳ ، ۶ ،۱۰،۱۱،۱۴

فرزند: فرزند كى دينى تربيت ۱۲،۱۳

والدين: والدين كى ذمہ دارى ۱۳

وصيت : بہترين وصيت ۱۴

۴۵۷

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ( ۱۳۳ )

كيا تم اس وقتتك موجود تھے جب يعقوب كا وقت موت آيااور انھوں نے اپنى اولاد سے پوچھا كہميرے بعد كس كى عبادت كروگے تو انھوں نےكہا كہ آپ اور آپ كے آباء اور اجدادابراہيم و اسماعيل و اسحاق كے پروردگارخدائے وحدہ لاشريك كى اور ہم اسى كےمسلمان اور فرمانبردار ہيں (۱۳۳)

۱_ يہوديوں كے جھوٹے اور كاذب دعووں ميں سے تھا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى _ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت ''ام'' منقطعة ہے جس ميں استفہام انكارى كا معنى پايا جاتاہے _شہداء شہيد كى جمع ہے اور اس كا معنى حاضرين بنتاہے يہ يہوديوں كو خطاب ہے

پس ''ام كنتم شہداء ...'' يعنى تم يہودى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كے وقت موجود نہ تھے( پس تم كيسے يہ دعوى كرتے ہو كہ يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت اور تاكيد كى ؟)

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چند فرزند تھے_إذ قال لبنيه يہ مطلب اس وجہ ہے كہ''بنيہ'' كا لفظ جمع استعمال ہواہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندان آپعليه‌السلام كے زمانہ حيات ميں موحد اور خدائے يكتا و لا شريك كى عبادت كرتے تھے_إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي يہ مطلب ''من بعدي'' كى قيد سے سمجھ ميں آتاہے _

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو خوف تھا كہ ان فرزندوں ميں آپعليه‌السلام كے بعد كہيں دينى اعتقادات ختم نہ ہوجائيں _

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۵ _ انبياءعليه‌السلام كى رحلت كے بعد امتوں كے مرتد ہونے كا خطرہ پايا جاتاہے_

إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۶ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كا وقت نزديك آيا تو آپعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو توحيد پر باقى رہنے كى دعوت اور يكتاپرستى كى وصيت فرمائي _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۴۵۸

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندوں نے آپعليه‌السلام كو اطمينان دلايا كہ وہ لوگ خدائے بزرگ و برتر كى پرستش كريں گے اور اسى كے سامنے سر تسليم خم ہوں گے _قالوا نعبد الها واحداً

۸_ اپنے فرزندوں كى دينى تربيت اور اسكے نتائج كى طرف توجہ دينا اور اس بارے ميں احساس ذمہ دارى كرنا ضرورى و لازمى ہے _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۹_ توحيد پرستوں كو چاہيئے كہ جب انكى رحلت كا وقت نزديك ہو تو اپنے پس ماندگان كو توحيد اور خدائے بزرگ و برتر كى عبادت پہ قائم و دائم رہنے كى وصيت ضرور كريں _إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام خدائے يكتا كى پرستش كرنے والے توحيد پرست ہيں _نعبد الهلك واله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق

۱۱ _ اسلاف كے دينى عقائد فرزندوں كے عقيدتى رجحانات ميں بہت زيادہ مؤثر ہوتے ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق الهاً واحداً حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند '' نعبد اللہ الہاً واحداً'' جيسے جملے سے اپنے توحيدى عقيدہ اور عبادتى توحيد كا اظہار كرسكتے تھے ليكن اس مفہوم كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كا نام لے كر بيان كرنا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ كہ اسلاف اور بزرگوں كے عقائد فرزندوں اور ان كى نسل پر اثر انداز ہوتے ہيں _

۱۲ _ انسان كے دادا اور چچا والد كى طرح ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل حضرت ابراہيمعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دادا اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام آپعليه‌السلام كے چچا تھے _ قرآن كريم نے ان كے لئے '' اب'' _( والد) كا لفظ استعمال كيا ہے _ يہ امر اس بات كى حكايت كرتاہے كہ عربى ميں '' اب'' كا لفظ دادا اور چچا دونوں كے لئے بھى استعمال ہوتاہے يا يہ كہ دادا اور چچا والدكى مانند ہيں _ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۳ _ خدائے وحدہ لا شريك كى عبادت سب كا عمومى فريضہ ہے _نعبد الها واحداً

۱۴ _ اللہ تعالى كى كامل اطاعت اور اس كے غير كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے اجتناب ضرورى ہے_و نحن له مسلمون '' مسلمون'' پر '' لہ'' كا مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس '' نحن لہ مسلمون'' كا معنى يہ ہے كہ ہم فقط اللہ كے ہى حضور سر تسليم خم ہيں _

۴۵۹

۱۵ _ خدائے وحدہ پر عقيدہ، اسكى عبادت اور اسكى كامل اطاعت كے ہمراہ ہونا چاہيئے_نعبد الها واحداً و نحن له مسلمون ''تعبدون_( تم عبادت كرتے ہو) اور ''نعبد_ (ہم عبادت كرتے ہيں ) سے يہ ہم مفہوم نكلتاہے كہ خدائے وحدہ (توحيد ذاتي) پر ايمان ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ اسكى ذات اقدس كو ہى معبود جان كر اسكى پرستش كرنى چاہيئے _ جملہ ''نحن لہ مسلمون'' يہ بيان كررہاہے كہ اللہ كى عبادت و بندگى كے علاوہ اس كے فرامين و احكام كى بھى اطاعت كرنى چاہيئے_

۱۶_ اللہ تعالى كى وحدانيت اور اسكى عبادت كا عقيدہ اديان الہى كا اہم ترين اصول جبكہديگر اصولوں اور دينى احكام كى بنياد و اساس ہے _ما تعبدون من بعدى قالوا نعبد الهاً واحداً واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام دين كے تمام احكام اور اصولوں ميں سے فقط اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كو نجات كا ذريعہ نہ جانتے تھے بنابريں فقط '' ماتعبدون'' كا ذكر كرنا ممكن ہے اس امر كى حكايت كرتاہو كہ اولاً_ توحيد عبادى اہم ترين اصولوں ميں سے ہے ثانياً_ انسان اللہ تعالى كى عبادت كے ذريعے دين كے ديگر اصولوں كر احكام كى طرف راغب ہو اور ان پر عمل پيرا ہوجائيگا _

۱۷_تبليغ دين كے لئے مختلف روشوں اور انداز كو اختيار كرنا ايك اچھا اور احسن عمل ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي مورد بحث آيہ مجيدہ اور اس سے ماقبل كى آيت ہر دو كى دعوت توحيد كى طرف ہے ليكن دونوں ميں حالات كےمطابق بيان اور انداز ميں ايك فرق و تفاوت پايا جاتاہے _

۱۸_ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان اور انكى تشريح كرنى چاہيئے_ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت

اللہ تعالى نے يہوديوں كے دعوى ( حضرت يعقوبعليه‌السلام نے دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى ) كو اس جملہ '' ام كنتم ...( تم تو اس وقت موجود ہى نہ تھے) كے ساتھ بے بنياد اور بے اساس جاناہے _ اسكا معنى يہ ہے كہ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان كرنا اور ان كى تشريح كرنى چاہيئے تا كہ ان كو قبول كيا جاسكے_

۱۹ _ انبياء (عليہم السلام) حتى اپنے فرزندوں كو بھى اللہ وحدہ اور اسكى عبادت كى قبوليت پر مجبور نہ كرتے تھے_

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدى قالوا نعبدخدائے واحد كى عبادت كى طرف دعوت دينا اور وصيت كرنا اور اسكے ساتھ يہ سوال پوچھنا ( ما تعبدون ...؟) يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دين كى قبوليت اور اللہ تعالى كى عبادت بجا لانے ميں جبر نہيں ہے _

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785