تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201343 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

احادیث مہدی (عج) اہلسنّت کی کتابوں میں

فہیمی: ہوشیار صاحب احباب جانتے ہیں لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا تعلق اہل سنّت سے ہے اور شیعوں کی احادیث کے بارے میں آپ کی طرح حسن ظن نہیں رکھتا ہوں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب کچھ اسباب کی بناپر شیعہ مہدویت کی داستان کے معتقد ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کچھ حدیثیں گڑھی تھیں اور انھیں پیغمبر (ص) کی طرف منسوب کردیا تھا اور اس احتمال کا ثبوت یہ ہے کہ مہدی سے متعلق حدیثیں صرف شیعوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں _ ہماری صحاح میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ ہاں ہماری غیر معتبر کتابوں میں مہدی سے متعلق چند حدیثیں مرقوم ہیں _(۱) ہوشیار: اگر چہ بنی امیہ و بنی عباس کے زمانہء حکومت میں عام طور پر ایک مارشل لانافذ تھا، حکومت کی طاقت و سیاست اور مذہبی تعصب کی نباپر اہل بیت کی امامت و ولایت سے متعلق احادیث نہ بیان ہوسکتی تھیں اور نہ کتابوں میں درج ہوسکتی تھیں _ لیکن اس کے باوجود آپ کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق حدیثیں درج ہیں _ اگر تھکے نہ ہوں تو ان میں سے چند حدیثیں آپ کے سامنے پیش کروں ؟

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام تالیف سعد محمدحسن ، ط مصر سال ۱۳۷۳ ص ۶۹ _ مقدمہ ابن خلدون ط مصر مط محمد ص ۳۱۱_

۲۱

اینجنئر : ہوشیار صاحب آپ سلسلہ جاری رکھیں _

ہوشیار: فہیمی صاحب آپ کی صحاح میں مہدی کے نام سے ایک باب منعقد ہواہے اور اس میں پیغمبر(ص) کی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، بطور مثال:

عبداللہ نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: '' دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک عرب کا مالک میرے اہل بیت میں سے وہ شخص نہ ہوگا جس کا نام میرا نام ہے ''(۱)

اس حدیث کو ترمذی اپنی صحیح میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:'' یہ حدیث صحیح ہے اور مہدی کے بارے میں ابو سعید، ام سلمہ اور ابوہریرہ نے بھی روایت کی ہے_''

علی (ع) بن ابی طالب نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا: '' اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہے گا تو بھی خداوند عالم اہل بیت میں سے اس شخص کو بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میری عترت اور فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوگا ''(۳)

____________________

۱_ صحیح ترمذی ج ۴ باب ماجاء فی المہدی ص ۵۱۵ _ کتاب ینابیع المودة تالیف شیخ سلیمان ط سال ۱۳۰۸ ج۲ ص ۱۸۰_کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف شافعی ط نجف ص ۵۷_ کتاب نور الابصار ص ۱۷۱ _ مشکوة المصابیح ص ۲۷۰_

۲_ صحیح ابی داود ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷ _ البیان ص ۵۹_ کتاب نور الابصار تالیف شبلنجی ص ۱۵۶ _ الصواعق المحرقہ تالیف ابن حجر ط قاہرہ ص ۱۶۱ _ کتاب فصول المہمہ تالیف ابن صباغ ط نجف ص ۲۷۵ _ کتاب اسعاف الراغبین تالیف محمد الصبان _

۳_ صحیح ابی داؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷_ ابوداؤد در این باب ۱۱ حدیث نقل کردہ است _ صحیح ابن ماجہ باب خروج المہدی ج ۲ ص ۵۱۹_الصواعق ص ۱۶۱_ البیان ص ۶۴ _ مشکوة المصابیح تالیف محمد بن عبداللہ خطیب ط دہلی ص ۲۷۰_

۲۲

ابو سعید کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: '' ہمارا کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والا مہدی زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی اور سات سال حکومت کرے گا _'' (۱)

حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے رسول (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میرے اہل بیت سے ہے ، خداوند عالم ان کے انقلاب کے اسباب ایک رات میں فراہم کردے گا '' _(۲)

ابوسعید نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ''جب زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی اس وقت میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کرے گا اور ۷ یا ۹ سال حکومت کرے گا اور زمین کو عد ل و انصاف سے پر کرے گا ''_(۳)

ابوسعید نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:'' آخری زمانہ میں میری امت کے سرپر بادشاہ بلائیں اور مصیبتیں لائے گا _ ایسی بلائیں اور ظلم کو جو کبھی سنانہ گیا ہوگا _ میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی اور ظلم وجور سے بھر جائے گی _ مسلمانوں کا کوئی فریاد رس و پناہ دینے والا نہ ہوگا _ اس وقت خداوند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ زمین و آسمان کے مکین اس سے راضی ہوں گے _ اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان پے درپے بارش برسائے گا _ ۷ یا ۹ سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا _ اور زمین والوں پر جو خدا کی رحمتیں اور لطف ہوگا اس کے

____________________

۱_ صحیح ابی داوؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۸ _ فصول المہمہ ص ۲۷۵_ نور الابصار ط مصرص ۱۷۰ _ ینابیع المودة ج ، ص ۱۶۱

۲_ صحیح ابن ماجہ ج ۲ باب خروج المہدی ص ۵۱۹ _ اس باب میں ۷ حدیثیں ذکر ہوئی ہیں _ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱

۳_ مسند احمد ج ۳ ص ۲۸ باب مسند ات ابی سعید الخدری میں مہدی کے بارے ایک حدیث ذکر ہوئی ہے _ ینابع المودة ج ۲ ص ۲۲۷

۲۳

پیش نظر مرد ے زندگی کی آرزو کریں گے(۱)

ایسی ہی اور احادیث بھی کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن اثبات مدعا کیلئے اتنی ہی کافی ہیں _

ایک صاحب قلم کا اعتراض

فھیمی : المہدیہ فی الاسلام کے مؤلف نے تحریر کیا ہے : محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی صحاح میںمہدی سے متعلق احادیث درج نہیں کی ہیں جبکہ صحاح میں معتبر ترین ، نہایت احتیاط و تحقیق کے ساتھ ان میں احادیث جمع کی گئی ہیں ، ہاں سنن ابی داؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ایسی احادیث جن کے منقولات میں زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے _ چنانچہ منجملہ دوسرے علما کے ابن خلدون نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۲_

ابن خلدون اور احادیث مہدی (عج)

ہوشیار: موضوع کی وضاحت کے لئے بہتر ہے کہ میں آپ کے سامنے ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ پیش کروں _ ابن خلدون اپنے مقدمہ لکھتے ہیں:سارے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانے میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور

____________________

۱_ من خیرہ البیان ص ۷۲_ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱ _ ینابیع ج ۲ ص ۱۷۷_

۲_ کتاب المہدیہ فی الاسلام ص ۶۹_

۲۴

کرے گا ، دین کی حمایت کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دیگا اور سارے اسلامی ممالک اس کے تسلّط آجائیں گے _ ان (مسلمانوں) کا مدرک وہ احادیث ہیں جو کہ علماء کی ایک جماعت ، جیسے ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم ، طبرانی اور ابویعلی موصلی کی کتابوں میں موجود ہیں _ لیکن مہدی (عج) کے منکروں نے ان احادیث کے صحیح ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے پس ہمیں مہدی سے متعلق احادیث اور ان سے متعلق منکرین کے اعتراضات و طعن کو بیان کرنا چاہئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے_ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ، اگر ان احادیث کے راویوں کے بارے میں کوئی جرح و قدح ہو تو اصل حدیث ہی غیر معتبر ہوجاتی لیکن ان کے راویوں کے بارے میں عدالت و وثاقت بھی وارد ہوئی ہے تو مشہور ہے کہ ان کا ضعیف ہونا اور ان کی بدگوئی عدالت پر مقدم ہے _ اگر کوئی شخص ہمارے اوپر یہ اعتراض کر ے کہ یہی عیب بعض ان لوگوں کے بارے میں بھی سامنے آتا ہے جن سے بخاری و مسلم میں روایات لی گئی ہیں وہ طعن و تضعیف سے سالم نہ رہ سکیں تو ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ان دو کتابوں کی احادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اجماع ہے اور یہ مقبولیت ان کے ضعف کاجبران کرتی ہے لیکن دوسری کتابیں ان کے پایہ کی نہیں ہیں '' (۱)

یہ تھا ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ ، اس کے بعد انہوں نے احادیث کے راویوں کی توثیق و تضعیف سے بحث کی ہے _

تواتر احادیث

ہمارا جواب : اول تو اہل سنّت کے بہت سے علما نے ، مہدی (عج) سے متعلق احادیث کو

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۱_

۲۵

متواتر جانا ہے _ یا ان کے تواتر کو دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہیثمی نے '' صواعق محرقہ میں'' شبلنجی نے '' نور الابصار '' میں ، ابن صباغ مالکی نے ''فصول المہمہ'' میں، محمد الصبان نے '' اسعاف الراغبین'' میں ،کجی شافعی نے '' البیان'' میں ، شیخ منصور علی نے '' غایة المامول'' میں ، سویدی نے '' سبائک الذہب'' میں ا ور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے اور یہی تواتر ان کی سند کے ضعف کا جبران کرتا ہے _

عسقلانی لکھتے ہیں:'' خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ہے '' _(۱)

شافعی فرقہ کے مفتی سید احمد شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ : جو احادیث مہدی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ معتبر ہیں ، ان میں سے بعض احادیث صحیح ، بعض حسن اور کچھ ضعیف ہیں ،اگر چہ ان میں اکثر ضعیف ہیں لیکن چونکہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے راوی اور لکھنے والے بھی زیادہ ہیں اس لئے بعض احادیث بعض کی تقویت کرتی ہیں اور انھیں مفید یقین بنادیتی ہیں _(۲)

مختصر یہ کہ عظیم صحابہ کی ایک جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعید خدری ، قیس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، علی بن ابی طالب ، ابوہریرہ ، ثوبان ، سلمان فارسی ، ابوامامہ ، حذیفہ ، انس بن مالک اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھی مہد ی سے

____________________

۱_ نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانی طبع کراچی ص ۱۲_

۲_ فتوحات الاسلامیہ طبع مکہ ج ۲ ص ۲۵۰_

۲۶

متعلق احادیث کو نقل کیا ہے اور ان حدیثوں کو علماء اہل سنّت نے لکھا ہے _

مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم نسائی ، روبانی ، ابو نعیم ، جکرانی ، اصفہانی ، دیلمی، بیہقی ، ثعلبی ، حموینی ، منادی ، ابن مغازلی ، ابن جوزی ، محمد الصبان مارودی ، کنجی شافعی ، سمعانی ،خوارزمی ، شعرانی ،دار قطنی ، ابن صباغ مالکی ، شبلنجی ، محب الدین طبری ، ابن حجر ہیثمی ، شیخ منصور علی ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدین سیوطی ، سلیمان حنفی ، قرطبی ، بغوی اور دوسرے لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے _(۱)

ہر جگہ تضعیف مقدم نہیں ہے _

دوسرے جن افراد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور ابن خلدون نے ان کے نام تحریر کئے ہیں _ ان کے بارے میں بعض توثیقات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے بعض کو خود ابن خلدون نے نقل کیا ہے اور پھر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر جگہ بطور مطلق تضعیف کو تعدیل پر مقدم کیا جائے ، ممکن ہے ضعیف قراردینے والے کے نزدیک کوئی مخصوص صفت ضعف کا سبب ہو لیکن دوسرے اس صفت کو ضعف کا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس کسی راوی کو ضعیف قراردینے والے کا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس کے ضعف کی وجہ بیان کرے _

عسقلانی اپنی کتاب ، لسان المیزان میں لکھتی ہیں :'' تضعیف تعدیل پر اسی صورت میں مقدم ہوسکتی ہے کہ جب اس کے ضعف کی علت معین ہو اس کے علاوہ ضعیف قراردینے

____________________

۱_ یہ تھے اہل سنّت کے ان علما کے نام جنہوں نے مہدی سے متعلق احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور ان کی کتابیں رائج تھیں لیکن ان سب کی کتابیں دست رس میں نہیں تھیں ، لہذا دوسری کتابوں سے نقل کیا ہے _ مہدی خراسانی نے کتاب البیان پر بہترین مقدمہ لکھا ہے اس میں علمائے اہل سنّت کے ۷۲ نام لکھے ہیں _

۲۷

والے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بغدادی کہتے ہیں کہ:'' جن احادیث سے بخاری ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسک کیا ہے _ باوجودیکہ اان میں سے بعض راویوں کو ضعیف اور مطعون قرار دیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ان حضرات کے نزدیک ان (راویوں کا ) ضعیف و مطعون ہونا ثابت نہیں تھا '' _(۱)

خطیب لکھتے ہیں کہ :'' اگر تضعیف و تعدیل دونوں برابر ہوں تو تضعیف مقدم ہے _ لیکن اگر تضعیف تعدیل سے کم ہو تو اس سلسلے میں کئی قول ہیں _ بہترین قول یہ ہے کہ تفصیل کے ساتھ یہ کہا جائے کہ اگر ضعف کا سبب بیان ہوا ہے تو ہماری نظر میں مؤثر ہے اور تعدیل پر مقدم ہے لیکن سبب بیان نہ ہونے کی صورت میں تعدیل مقدم ہے ''(۲)

مختصر یہ کہ ہر جگہ تعدیل کو بطور مطلق تضعیف پر مقدم نہیں کیا جا سکتا _ اگر یہ مسلم ہو کہ ہر قسم کی تضعیف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہی مختصر حدیثیں محفوظ رہیں گی _ اس سلسلے میں نہایت احتیاط اور کوشش و سعی کرنا چاہئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے _

شیعہ ہونا تضعیف کا سبب

راوی کے ضعیف ہونے کے اسباب میں سے ایک اس کا شیعہ ہونا بھی شمار کیا گیا ہے مثلاً ابن خلدون نے قطن بن خلیفہ جو کہ مہدی سے متعلق احادیث کا ایک راوی ہے ، کو شیعہ ہونے کے جرم میں غیر معتبر قراردیا ہے اور اس کے بارے میں تحریر کیا ہے :

____________________

۱_ لسان المیزان مؤلفہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی طبع اول ج ۱ ص ۲۵_

۲_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۵_

۲۸

''عجلی کہتا ہے : قطن حدیث کے اعتبار سے بہت اچھا ہے لیکن تھوڑا سا شیعیت کی طرف نائل ہے '' _

احمد بن عبداللہ بن یونس لکھتا ہے :'' میں نے قطن کو دیکھا لیکن اسے کتّے کی طرح چھوڑکر نکل آیا ''_ ابوبکر بن عیاش لکھتا ہے : میں نے قطن کی احادیث کو صرف اس کے مذہب کے فاسد ہونے کی بناپر چھوڑدیا ہے''_

جبکہ احمد ، یحیی بن قطاف ، ابن معین ، نسائی اور دوسرے لوگوں نے اسکی توثیق کی ہے _(۱)

اس کے بعد ابن خلدن ان احادیث کے راوی ہارون کے بارے میں لکھتا ہے : ''ہاروں شیعہ اولاد سے تھا''_(۲) ایک گروہ نے ان احادیث کے راوی یزید بن ابی زیاد کو مجمل انداز میں ضعیف قراردیا ہے اور بعض نے ان کے ضعف کی وضاحت کی ہے چنانچہ محمد بن فضیل ان کے متعلق لکھتا ہے :'' وہ سربرآوردہ شیعوں میں سے ایک تھے اور ابن عدی کہتے ہیں :'' وہ کوفہ کے شیعوں میں سے تھے''(۲)

ابن خلدون عمار ذہبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :'' اگر چہ احمد ، ابن معین ، ابوحاتم ، نسائی اور بعض دوسرے افراد نے عمار کی توثیق کی ہے لیکن بشر بن مروان نے شیعہ ہونے کی بناپر انھیں قبول نہیں کیا ہے''_(۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۳_

۲_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۴_

۳_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۸_

۴_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۹_

۲۹

عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : '' انہوں نے فضائل اہل بیت میں حدیثیں نقل کی ہیں اور شیعہ مشہور ہیں '' _(۱)

عقیدہ کا اختلاف

ایک اور چیز جو اکثر راوی کی تضعیف کا سبب ہوتی ہے اور جس سے وہ نیک اور سچے کو بھی متہم کردیتے ہیں اور ان کی حدیثوں کو رد کردیتے ہیں وہ عقیدہ کا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ میں ایک حساس اور قابل تفتیش و متنازع موضوع خلق قرآن کا شاخسانہ تھا ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ قدیم ہے دوسرا کہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں کی بحث و کشمکش اور جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک نے دوسرے کو کافر تک کہنا شروع کردیا _ چنانچہ احادیث کے راویوں کی ایک بڑی جماعت کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کے جرم میں ضعیف وکافر قراردیدیاگیا _

صاحب ''اضواء علی السنة المحمدیہ '' لکھتے ہیں : علما نے راویان احادیث کی ایک جماعت ،جیسے ابن الحصیعہ ، کو کافر قراردیدیا _ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قران کو مخلوق کہتا تھا _ اس سے بھی بڑھ کر محاسبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :'' انہوں نے اپنے باپ کی میراث سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا: دو متفرق مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ، مجھے والد کی میراث نہیں چاہئے _ میراث سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد واقفی تھے یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا مخلوق نہ ہونے کے سلسلے میں متردد تھے _(۲)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۰_

۲_ اضواء علی سنة المحمدیہ طبع اول ص ۳۱۶_

۳۰

جیسا کہ شدید مذہبی تعصب اور عقیدوں کا اختلاف اس بات کا سبب ہوا کہ وہ لوگوں کی سچائی اور امانت داری کو نظر انداز کردیں اور ان کی احادیث کو مسترد کردیں _ اسی طرح مذہب و عقیدے کے اتحاد کی وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلک افراد کے جرائم اور برائیوں سے چشم پوشی کرنے اور ان کی تعدیل و توثیق کا باعث ہوا مثلا عجلی ، عمر و بن سعد کے بارے میں کہتا ہے : وہ موثق تابعین میں سے تھے اور لوگ ان سے روایت کرتے تھے _ جبکہ عمرو بن سعد حسین بن علی یعنی جوانان جنت کے سردار رسول خدا کے پارہ دل کا قاتل تھا''_ (۱)

اسی طرح بسر بن ارطاة ایسے _ کہ جس نے معاویہ کے حکم سے ہزاروں بے گناہ شیعوں کو قتل کیا تھا اور جانشین رسول خدا حضرت علی بن ابی طالب کو کھلم کھلا برا بھلا کہتا تھا _ نجس انسان کو اس ننگ وعارکے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قراردیتے ہی _(۲)

عتبہ بن سعید کے بارے میں یحیی بن معین کہتا ہے وہ ثقہ ہیں ،نسائی ، ابوداؤد اور دارقطنی نے بھی اسے ثقہ جانا ہے جبکہ عتبہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کا مددگار تھا _ بخاری نے اپنی صحیح میں مروان بن حکم سے روایات نقل کی ہیں اور اس پر اعتماد کیا ہے _ حالانکہ جنگ جمل کے شعلے بھڑ کانے والوں میں سے ایک مروان بھی تھا اور حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کیلئے طلحہ کو برا نگیختہ کیا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ میں انھیں قتل کرد یا تھا _(۳)

____________________

۱_ اضواء علی سنة ص ۳۱۹

۲_ اضواء علی سنة ص ۳۲۱

۳_ اضواء علی سنة ص ۳۱۷

۳۱

یہ باتیں مثال کے طور پر لکھی گئی ہیں تا کہ قارئین مصنفّین کے طرز فکر ، فیصلہ کے طریقے اور عقیدہ کے اظہار سے آگاہ ہو جائیں اور یہ جان لیا کہ محبت و بغض اور تعصب نے انھیں کس منزل تک پہنچادیا ہے _

اضواء کے مولف لکتھے ہیں کہع ذرا ان علما کے فیصلہ کو ملا حظہ فرمائیں اور غور کریں کہ اس نے اس شخص کی توثیق کردی جو علی(ع) کی شہادت پر راضی ، طلحہ کا قاتل اور حسین بن علی (ع) کی شہادت کاذمہ دارتھا _ لیکن اس کے بر خلاف بخاری اور مسلم جیسے لوگوں نے امت کے علماء و حافظوں جیسے حماد بن مسلمہ اور مکحول ایسے عابد وزاہد کورد کردیا ہے _(۱)

مختصر یہ کہ جو شخص اہل بیت اور حضرت علی(ع) کے فضائل میں یا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو متعصب لوگ اس کی حدیث کی صحت کو مخدوش بنادتیے تھے اور سر کاری طور پر اس کی حدیثوں کے مردود ہونے کا اعلان کردیا جاتا تھا اور اگر کسی شخص کا شیعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس کے لئے بغض دعناد اور اس کی حدیث کو ٹھکرانے کیلئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا _ اگر آپ جریر کے کلام میں غور کریں تو عامة المسلمین کے تعصب کا اندازہ ہوجائے گا ، جریر کہتے ہیں : میں نے جابر جعفی سے ملاقات کی لیکن ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے _(۲)

بے جا تعصّب

غرض مندی اور بے جا تعصب تحقیق کے منافی ہے _ جو شخص حقائق کی تحقیق کرنا

____________________

۱_ اضواء ص ۳۱۹_

۲_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۰۱_

۳۲

چاہتا ہے اسے تحقیق سے پہلے خود کو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد کرلینا چاہئے ، اور اس کے بعد غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کرنا چاہئے _ اگر تحقیق کے دوران کوئی چیز حدیث کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے تو اس حدیث کے راویوں کی وثاقت سے بحث کرے ، اگر ثقہ ہیں تو ان کی روایتوں پر اعتماد کرے ، خواہ سنّی ہوں یا شیعہ ، یہ بات طریقہ تحقیق کے خلاف ہے کہ ثقہ راویوں کی احادیث کو شیعہ ہونے کے الزام میں رد کردیا جائے _ عامة المسلمین سے منصف مزاج حضرات اس بات کی طرف متوجہ رہے ہیں _

عسقلانی لکھتے ہیں : جن مقامات پر تضعیف کرنے والے قول پر توقف کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تضعیف کرنے والے اور جس کی تضعیف کی گئی ہے ان کے درمیان عقیدہ کا اختلاف اور عدالت و دشمنی ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانی ، ناصبی تھا اور کوفے والے شیعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان کی تضعیف میں توقف نہیں کیا اور سخت الفاظ میں انھیں ضعیف قراردیتا تھا _ یہاں تک کہ اعمش ، ابو نعیم اور عبیداللہ ایسے احادیث کے ارکان کو ضعیف قراردیدیا ہے _ قشیری کہتے ہیں :'' لوگوں کی اغراض و خواہشیں آگ کے گڑھے ہیں _ اگر ایسے موارد میں راوی کی توثیق وارد نہ ہوتی ہو تو تضعیف مقدم ہے '' _(۱)

ابان بن تغلب کے حالات لکھنے کے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبی لکھتے ہیں اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بدعتی ہونے کے باوجود تم ابان کی توثیق کیوں کرتے ہو تو ہم جواب دیں گے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ، ایک چھوٹی بدعت ہے جیسے تشیع میں غلو ،

____________________

۱_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۶_

۳۳

یا تشیع بغیر انحراف _ البتہ تابعین اور تبع تابعین میں ایسی بدعت رہی ہے اس کے باوجود ان کی سچائی ، دیانت داری اور پرہیزگاری باقی رہی اگر ایسے افراد کی احادیث رد کرنا ہی مسلم ہے تو نبی (ص) کی بے شمار حدیثیں رد ہوجائیں گی اوراس بات میں قباحت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے _ دوسری قسم بدعت کبری ہے یعنی مکمل رافضی _ رافضیت میں غلو اورابوبکر و عمر کی بدگوئی _ البتہ ایسے راویوں کی حدیثوں کو رد کردینا چاہئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے _ (۱)

مختصر یہ کہ ان تضعیفات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھر پور کوشش اور چھان بین سے راوی کی صلاحیت اور عدم صلاحیت کا سراغ لگانا چاہئے _

بخاری و مسلم اور احادیث مہدی (عج)

چوتھے یہ کہ اگر کوئی حدیث بخاری و مسلم میں نہ ہو تو یہ اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم کے مؤلفوں کا مقصد تمام حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا _

دار قطنی لکھتے ہیں ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جنھیں بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ہے جبکہ ان کی سند بالکل ایسی ہے جیسی ان احادیث کی ہے جو انھوں نے نقل کی ہیں _

بیہقی لکھتے ہیں : مسلم و بخاری کا ارادہ تمام حدیثوں کو جمع کرنے کا نہیں تھا _ اس بات کی دلیل وہ احادیث ہیں جو کہ بخاری میں موجود ہیں لیکن مسلم نہیں اور مسلم میں ہیں بخاری میں نہیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ میزان الاعتدال ج ۱ ص ۵_

۲_ صحیح مسلم بشرح امام نووی ج ۱ ص ۲۴_

۳۴

اور جیسا کہ مسلم نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیثوں کو نقل کیا ہے تو ابوداؤد بھی اسی کے مدعی ہیں _

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ : میں نے اپنی کتاب میں چارہزار آٹھ سو حدیثیں لکھی ہیں جو کہ سب صحیح یا صحیح کے مشابہ ہیں _

ابوالصباح کہتے ہیں کہ ابوداؤد سے نقل ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے صرف صحیح یا صحیح سے مشابہ احادیث نقل کی ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف تھی تو میں نے اس کے ضعف کا بھی ذکر کردیا ہے پس جس حدیث کے بارے میں ، میں نے خاموشی اختیار کی ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _

خطابی کہتے ہیں : سنن ابی داؤد ایک گراں بہا کتا ب ہے ، اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جو کہ مسلمانوں میں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے کے علما میں مقبولیت حاصل ہوئی ہو _(۱) مختصر یہ کہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتابوں کی احادیث اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی صحت و ضعف سے باخبر ہونے کیلئے ان کے راویوں کی تحقیق کی جائے _

پانچویں یہ کہ بخاری و مسلم ، جن کی احادیث کی صحیح ہونے کا آپ کو اعتراف ہے ، میں بھی مہدی سے متعلق احادیث موجود ہیں اگر چہ ان میں لفظ مہدی نہیں آیا ہے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے:

پیغمبر :(ص) نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے

____________________

۱_ مقدمہ سنن ابی داؤد

۳۵

جبکہ تمہارا امام خود تم ہی سے ہوگا _

ضروری وضاحت

ابن خلدون کے بارے میں یہ بات کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ مہدی (ع) سے متعلق احادیث کو کلی طور پر قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں قابل رد سمجھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اس عالم نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم کرے گا _ اجمالی طور پر یہاں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مہدی (ع) موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا _ دوسرے یہ کہ راویوں کے بارے میں رد وقدح اور جرج و تعدیل کے بعد لکھتے ہیں :

''مہدی موعود کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان میں سے بعض کے علاوہ سب مخدوش ہیں '' _ یہاں بھی ابن خلدون نے کلی طور پر مہدی سے متعلق احادیث کو قابل رد ہیں جانا ہے بلکہ ان میں سے بعض کی صحت کا اعتراف کیا ہے _

تیسرے یہ کہ مہدی موعود سے متعلق احادیث انھیں روایتوں میں منحصر نہیں ہیں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں جرح و تعدیل کی ہے بلکہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سی متواتر و یقین آور احادیث موجود ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ابن خلدون کی دست رس میں ہوتیں تو وہ مہدی موعود کے عقیدہ جو کہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہے ، جس کا سرچشمہ وحی ہے ، کے بارے میں کبھی شک نہ کرتے مذکورہ مطالب سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ ابن خلدون نے مہدی سے متعلق احادیث

۳۶

کو قطعی قبول نہیں کیا ہے _ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ''دیگ سے زیادہ چمچا گرم ہے _

ابن خلدون اس بحث کے خاتمہ پر لکھتے ہیں :'' ہم نے پہلے ہی یہ بات ثابت کردی ہے کہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع کرکے حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے قوم قبیلے والوں کی اکثریت ہو اور خلوص کے ساتھ اس کی حمایت کرتے ہوں اور مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس کے مددگار ہوں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاندانی تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں _ اس کے علاوہ کامیابی ممکن نہیں ہے _ مہدی موعود کے عقیدہ کے سلسلے میں بھی یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کیونکہ فاطمیین بلکہ طائفہ قریش ہی پراگندہ اور منتشر ہوگیا ہے اور اب ان میں خاندانی تعصب باقی نہیں رہا ہے بلکہ اس کی جگہ دوسرے تعصبات نے لے لی ہے ، ہاں حجاز و ینبع میں حسن (ع) و حسین(ع) کی اولاد میں سے کچھ لوگ آباد ہیں جن کے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھی صحرا نشین ہیں جو کہ مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ہیں، پھر ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے _ لیکن اگر ہم مہدی موعود کے عقیدہ کو صحیح مان لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ مہدی انھیں میں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں میں بھی اتفاق و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور وہ قومی تعصب کی بناپر ان کی حمایت کریں گے اور مقصد کے حصول کی وجہ سے ان کی مدد کریں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدی (ع) کے ظہور اور ان کے انقلاب و تحریک کا تصور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے _(۱)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۷_

۳۷

جواب

اس بات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتاہے _ طاقت جمع کرنا چاہتا ہے ، حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے تووہ اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے ایک گروہ سنجیدگی سے اس کی مدد وحمایت کرے ، مہدی موعود اور ان کے عالمی انقلاب کیلئے بھی یہی شرط ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کی حمایت کرنے والے صرف علوی سادات اور قریش ہوں گے _ کیونکہ اگر ان کی حکومت قوم و قبیلے کی حدتک محدود ہوتی تو ان کے طرف دار قوم و قبیلے کے لحاظ سے ان کی مدد کرتے جیسا کہ طوائف الملوکی کے زمانہ میں اسی نہج سے حکومتیں قائم ہوتی تھیں ، بلکہ یہ عام بات ہے کہ جو حکومت محدود اور خاص عنوان کے تحت قائم ہوتی ہے تو اس کے حمایت کرنے والے بھی محدود ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت قومی ملکی ، اقلیمی یا مکتبی و مقصدی ناقص ہے _

لیکن اگر کوئی کسی خاص مقصد اور منصوبہ کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس منصوبہ اور مقصد کے ہمنواؤں کا ہونا ضروری ہے _ اس کی کا میابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ اس منصوبہ کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اور اسے عملی جامہ پہنا نے کیلئے سنجیدگی سے جدو جہد کرتا ہو اور مقصد کے حصول کے سلسے میں اپنے قائد کی حمایت کرتا ہو اور قربانی دینے سے دریغ نہ کرتا ہو _ مہدی موعود کی عالمی حکومت بھی ایسی ہی ہے _ ان کا منصوبہ بھی عالمی ہے وہ بشریت کو جو کہ تیزی کے ساتھ مادیت کی طرف بڑ ھ رہی ہے اور الہی قوانین سے رو گرداں ہے _ آپ اسے

۳۸

الہی احکام اور منصوبہ کی طرف متوجہ کریں گے اور اس دقیق منصوبہ کونا فذ کر کے اس کی مشکلیں حل کریں گے _ بشریت کے ذہن سے موہوم سرحدوں کو ، جو کہ اختلاف و کشمکش کا سر چشمہ ہیں باہر نکال کراسے توحید کے قومی پرچم کے نیچے جمع کریں گے _ آپ دین اسلام اور خدا پرستی کو عالمی بنائیں گے _ اسلام کے حقیقی قوانین نافذ کر کے ظلم و بیداد گری کا قلع قمع کریں گے _ اور پوری کائنات میں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھیلائیں گے _

ایسی عظیم تحریک اور عالمی انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حجاز اور مدینہ کے اطراف میں بکھر ے ہوئے علوی سادات کافی ہیں _ بلکہ اس کیلئے تو عالمی تیاری ضروری ہے _ مہدی موعود کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب غیبی تائید کے علاوہ ایک طاقت ور گروہ وجود میں آئے جو کہ خداکے قوانین اور منصوبہ کودرک کر ے _ اور دل و جان سے اس کے نفاذکی کوشش کرے _ ایسے عالمی انقلاب کے اسباب فراہم کرے اور انسانی مقاصدکی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے _اس صورت میں اگر انہیں معصوم اور قوی و جری قائد مل جائے ، کہ جس کے ہا تھ میں الہی قوانین و احکام ہوں اور تائید غیبی اس کے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس کی حمایت کریں گے اور عدل و انصاف کی حکومت کی تشکیل میں فدا کاری کا ثبوت دیں گے _

عقیدہ مہدی مسلم تھا

مہدی موعود سے متعلق رسول(ع) خدا کی بہت سی حدیثیں شیعہ اور اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں _ ان میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی اور قائم کا موضوع پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مسلم تھا چنانچہ لوگ ایسے شخص کے

۳۹

منتظر تھے جو حق ، خدا پرستی کی ترویج ، اصلاح کائنات اور عدل کیلئے قیام کرے یہ عقیدہ لوگوں میں اتنا شہرت یافتہ تھا کہ وہ اس کی اصل کو مسلّم سمجھتے تھے اور اس کی فروع سے بحث کرتے تھے _ کبھی وہ یہ سوچتے تھے کہ مہدی موعود کس کی نسل سے ہوں گے ؟ کبھی آپ (ع) کی کنیت و نام کے بارے میں استفسار کرتے تھے ؟ کبھی یہ سوال کرتے تھے آپ (ع) کا نامہدی کیوں ہے ؟ کبھی آپ (ع) کے انقلاب اور ظہور کے زمانے اور اس کی علامتوں کے بارے میں سوال کرتے تھے _ کبھی غیبت کی وجہ اور غیبت کے زمانہ میں اپنے فرائض دریافت کرتے تھے کبھی پوچھتے تھے ، کیا مہدی قائم ایک ہی شخص ہے یا د و اشخاص ہیں؟ پیغمبر اسلام بھی گاہ بگاہ آپ (ع) کے متعلق خبردیا کرتے تھے ، فرماتے تھے: مہدی میری نسل اور فاطمہ (ع) کے فرزند حسین(ع) کی اولاد سے ہوگا _ کبھی آپ کے نام اور کنیت سے آگاہ کرتے تھے اور کبھی آپ کی علامتیں اور خصوصیات بیان فرماتے تھے_

صحابہ اور تابعین کی بحث و گفتگو

رسول اکرم کی وفات کے بعد بھی صحابہ اور تابعین کے درمیان مہدی موعود کا عقیدہ مسلّم تھا اور اس سلسلے میں وہ بحث و گفتگو کیا کرتے تھے_ اس گروہ کے چند افراد یہ ہیں:

ابوہریرہ کہتے ہیں : رکن و مقام کے درمیان مہدی کی بیعت ہوگی _(۱)

ابن عباس معاویہ سے کہا کرتے تھے: آخری زمانہ میں ہمارے خاندان میں سے ایک شخص چالیس سال خلیفہ رہے گا _(۲)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۴۶_

۲_ الملاحم و الفتن ص ۶۳_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

ہے _ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم

۱۴ _ نيك عمل كے بانيوں كو ياد كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل

''اذ ...'' ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے يعنى يہ كہ كعبہ كے بنانے والوں كو ہميشہ ياد ركھو_ يہ حكم انسانوں كے لئے ايك درس ہے كہ نيك كاموں كى بنياد ركھنے والوں كے عمل كو كبھى فراموش نہيں ہونا چاہيئے_

۱۵_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى طرف سے كعبہ كى تعمير كا واقعہ اور اس دوران ان كى دعائيں ، ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل ربنا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اذ'' فعل مقدر ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہو _

۱۶ _ اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''... فلما امر الله عزوجل ابراهيم ان يبنى البيت و لم يدر فى اى مكان يبنيه فبعث الله جبرائيل فخطّ له موضع البيت فانزل الله عليه القواعد من الجنة فبنى ابراهيم البيت و نقل اسماعيل الحجر من ذى طوى فرفعه الى السماء تسعة اذرع (۱) جب اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو كعبہ كى تعمير كا ا مر فرمايا تو آپعليه‌السلام نہيں جانتے تھے كہ كعبہ كى تعمير كہاں كريں تو اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو حضرت جبرائيلعليه‌السلام نے زمين پر كعبہ كى جگہ ايك خط كھينچا پھر اللہ تعالى نے كعبہ كى بنياديوں كو جنت سے نازل فرمايا پس حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى تعمير كى حضرت اسماعيلعليه‌السلام وادى '' ذى طوي'' سے پتھر لے كر آئے تو حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى (ديواوں )كو نو(۹) ذراع تك بلند فرمايا ...''

۱۷_قال الحلبى سئل ابو عبدالله عليه‌السلام عن البيت اكان يحج قبل ان يبعث النبي(ص) ؟ قال نعم و تصديقه فى القرآن و اذيرفع ابراهيم القواعد من البيت واسماعيل (۲) حلبى كہتے ہيں امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كيا آنحضرت (ص) كى بعثت سے قبل حج تھا؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں اس كا شاہد قرآن ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' يادكرو جب ابراہيم اور اسماعيل كعبہ كى ديواريں بلند كررہے تھے''

۱۸_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہكان البيت درة بيضاء فرفعه الله الى السماء و بقى اساسه فامر الله ابراهيم و اسماعيل ان يبنيا البيت على القواعد (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۶۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۱۰_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۸ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۹_

۴۴۱

... خانہ كعبہ سفيد درّ ( موتي) تھا پھر اللہ تعالى نے اس كو آسمان كى طرف بلند فرماليا اور اس كى بنياد باقى رہ گئي پھر اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كو امر فرمايا كہ كعبہ كو انہى گزشتہ بنيادوں پر تعمير كريں _

اخلاص : اخلاص كى اہميت ۸

اسماء اور صفات: سميع ۱۰; عليم ۱۰

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كى اہميت ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۱۱; اوامر الہى ۵; حمد الہى ۱۳; ربوبيت الہي۹; اللہ تعالى كا سننا ۱۱; اللہ تعالى كا علم ۱۱

انسان: انسان كى ضروريات۱۱

تقرب: تقرب كے عوامل ۵

حج: حج كى تاريخ ۱۷; حج قبل از اسلام۱۷

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶ ،۱۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت ابراہيم كى ذمہ دارى ۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اخلاص ۸; حضرت اسماعيل اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶،۱۸; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵

دعا: دعا كے آداب ۶،۹،۱۳; دعا كا مستجاب ہونا ۱۲; دعا كى قبوليت كا سرچشمہ ۱۱

ذكر: اچھے عمل كے بانيوں كا ذكر ۱۴; كعبہ كى تعمير كا ذكر ۱۵; تاريخ كا ذكر ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵

روايت: ۱۶ ، ۱۷،۱۸

عبادت: عبادت كى قدرو منزلت ۷; عبادت كى قبوليت كى شرائط ۷

عمل:

۴۴۲

پسنديدہ عمل كے آداب ۱۲; پسنديدہ عمل كى اہميت ۱۴; عمل كى قبوليت كى درخواست ۴،۱۲; پسنديدہ عمل ۶; عمل كى قبوليت كے لئے كيفيت دعا ۶

قدريں : قدروں كے معيار ۷

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۱۲۸ )

پروردگار ہم دونوں كو اپنا مسلماناور فرمانبردار قرار دے دے اور ہمارياولاد ميں بھى ايك فرمانبردار امت پيداكر _ ہميں ہمارے مناسك دكھلادے اور ہماريتوبہ قبول فرما كہ تو بہترين قبول كرنےوالا مہربان ہے (۱۲۸)

۱_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونا تھا_و إذ يرفع ابراهيم القواعد ربنا و اجعلنا مسلمين لك

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى نسل ميں سے كچھ انسانوں كو مقام تسليم تك پہنچائے_و من ذريتنا امة مسلمة لك

كعبہ: كعبہ كے بانى ۱،۳; كعبہ كى تعمير ۱،۳،۴،۵ ،۸،۱۶،۱۸; كعبہ كى تاريخ ۲،۳،۱۶; كعبہ كے فضائل ۱۸; كعبہ كى قدامت ۲

مقربين : ۵

اس مطلب ميں '' من ذريتنا'' ميں '' من '' كا معنى بعض ليا گيا ہے _

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اپنى ذريت (نسل ) سے محبت_من ذريتنا امة مسلمة لك

۴ _ اللہ تعالى كى بندگى كى راہ و روش يہ ہے كہ اس كے سامنے سر تسليم خم ہوا جائے_

ربنا و اجعلنا مسلمين لك و من ذريتنا امة مسلمة لك

۵ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے مراتب و درجات ملتے ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين لك

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام باوجود اس كے كہ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم تھے ليكن پھر بھى اس مقام كے حصول كى توفيق كى دعا كرتے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ مقام تسليم كے مختلف درجات اور مراتب ہيں _

۴۴۳

۶ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى تمام تر ذريت تسليم كے اعلى درجات كے حصول كى لياقت نہيں ركھتي_و من ذريتنا امة مسلمة لك '' من ذريتہا'' ميں '' من'' تبعيض كے لئے ہے اور مذكورہ بالا مفہوم كو بيان كرتاہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى پروردگار سے دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كى عبادت كا طريقہ اور اسكے آداب كى تشريح و تفسير تھا_و ارنا مناسكنا

'' مناسك' ' كا مفرد '' منَسَك'' ہے جس كا معنى عبادت كا طريقہ ہے ( لسان العرب) پس ''ارنا مناسكنا'' يعنى اے اللہ ہميں اپنى عبادت كرنے كا طريقہ دكھا_

۸_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے دعا كى كہ انہيں اعمال حج كى كيفيت سكھائے_ربنا ارنا مناسكنا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ مناسك كا معنى اعمال حج ہوں جيسا كہ بعض اہل لغت اور بعض مفسرين نے يہى معنى كيا ہے_

۹_ احكام دين كى قانون سازى اورعباد ت كى كيفيت كا بيان كرنا خداتعالى كى شان ہےربنا ارنا مناسكنا

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى اور ان كى اولاد كى توبہ كو قبول فرمائے _و تب علينا

۱۱ _ انسان جس بھى مقام و منزلت كا مالك ہو اپنے الہى فرائض كى ادائيگى ميں عاجز ہے_و تب علينا

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام جو گناہ اور معصيت الہى سے پاك و منزہ ہيں اس كے باجود اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كرتے ہيں اور اس توبہ كى قبوليت كے خو اہشمند ہيں اس ميں بعض نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ انسان جس مقام و منزلت پربھى فائز ہو اللہ تعالى كى بندگى كا فريضہ ادا كرنے سے معذور ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى توّاب ( بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم (بہت زيادہ مہربان) ہے _انك انت التواب الرحيم

۱۳ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے كى توفيق ، اللہ تعالى كا عبادت كى كيفيت بيان كرنا اور اللہ رب العزت كا توبہ قبول كرنا بندوں پر اسكى رحمت كے پرتو ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين و ارنا منا سكنا و تب علينا انك انت التواب الرحيم

۴۴۴

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دعا انسان كى معنوى خواہشات كى تكميل ميں موثر ہے _ربنا و اجعلنا مسلمين لك و تب علينا

۱۵ _ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت ہے''لما فرغ ابراهيم من بناء البيت قال: فعلت اى رب فارنا مناسكنا ابرزها لنا علّمنا ها فبعث الله جبرائيل فحجّ به (۱) حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى تعمير سے فارغ ہوگئے تو عرض كيا يا اللہ ميں نے اپنى ذمہ دارى كو ادا كيا پس اے اللہ تو ہمارے لئے اعمال حج كو آشكار فرما اور ان كو ہميں سكھادے_ تو پس اللہ تعالى نے حضرت جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو انہوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ہمراہ اعمال حج انجام ديئے ( يعنى عملاً حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو اعمال حج دكھائے)_

احتياجات: معنوى احتياجات كى تكميل ۱۴

اسماء اور صفات: توّاب ۱۲; رحيم ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۹; اللہ تعالى كى توفيقات۱۳; رحمت الہى كے مظاہر ۱۳

انسان: انسان كى معنوى خواہشات۱۴; انسان كا عاجز ہونا ۱۱

بندگي: بندگى كى روش۴

توبہ: توبہ كى قبوليت كى درخواست ۱۰; توبہ كى قبوليت ۱۳

توفيق: توفيق كے اسباب ۱۳

حج: اعمال حج كى تعليم ۸،۱۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيم اور كعبہ كى تعمير ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات ۷،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰،۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى محبت و رجحانات۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

حضرت اسماعيلعليه‌السلام :

____________________

۱) جامع البيان (طبري) ج/۱ ص۵۵۵ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۳۳۲_

۴۴۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيل كى محبت۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

دعا: دعا كے نتائج ۱۴

دين: دين كى قانون سازى كا سرچشمہ ۹

رجحانات: نسل سے محبت كے رجحانات

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ ( ۱۲۹ )

پروردگار ان كےدرميان ايك رسول مبعوث فرما جو ان كےسامنے تيرى آيتوں كى تلاوت كرے _ انھيں كتاب و حكمت كى تعليم دے اور ان كے نفوسكو پاكيزہ بنائے بيشك تو صاحب عزّت اورصاحب حكمت ہے (۱۲۹)

۱ _ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے كسى ايك پيامبرعليه‌السلام كى بعثت كے لئے كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعائيں كيں _و من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم

روايت:۱۵

سر تسليم خم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۱،۲،۴،۱۳; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے مراتب ۵،۶; سر تسليم خم ہونے كا مقام ۲،۶

عبادت: عبادت كے آداب كى تشريح ۷; عبادت كى كيفيت كا بيان و تشريح ۷،۹،۱۳

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱،۸،۱۵

''فيہم'' اور ''منھم'' كى ضمير ممكن ہے ماقبل آيہ ميں '' امة مسلمة'' كى طرف لوٹتى ہواور ممكن ہے آيت مجيدہ ۱۲۶ ميں '' اہلہ'' كى طرف پلٹتى ہو _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے يعنى''ربنا و ابعث فى ذريتنا المسلمة رسولاً منهم'' _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى مشتركہ دعا اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ مورد نظر پيامبر (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نظر ميں اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ہے نہ كہ كسى دوسرے فرزند كى نسل سے_

۲ _ آيات الہى كى تلاوت كرنا ، آسمانى كتاب كى تعليم دينا، حكمت (دينى احكام، معارف و غيرہ ) سكھانا اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كو آلودگيوں ، كثافتوں اور نجاستوں سے پاك كرنا اس پيامبر كى

۴۴۶

خصوصيات تھيں جس كى بعثت كے ليئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى تھي_

ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم

۳ _ حضور سرور دو عالم محمد مصطفى (ص) ہى وہ بنى ہيں كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اپنى نسل سے جن كى بعثت كيلئے دعا كى تھي_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يزكيهم سب مفسرين كے مطابق ''رسولاً'' سے مراد پيامبر عظيم الشان اسلام حضرت محمد مصطفى (ص) ہيں _

۴ _ اپنى اولاد اور نسل كے لئے دعا كرنا كہ وہ احكام الہى سيكھيں اور ان كى دينى تربيت ہو ايك اچھا اور نيك شگون عمل ہے _ربنا ابعث فيهم رسولاً و يزكيهم

۵ _ وہ نسل، اولاد اور ذريت جو دينى تعليمات كے ساتھ ليس ہو اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہو ايسى اولاد اپنے اسلاف كے لئے سربلندى و سرفرازى كا سبب ہے _ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم و يزكيهم

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كى بعثت اورخود عوام ميں سے ان كا انتخاب اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم

۷_آيات الہى كى تلاوت كرنا، آسمانى كتاب كى تعليم دينا ، حكمت سكھانا اور لوگوں كو آلودگيوں ، كثافتوں سے پاك كرنا انبياء (عليہم السلام) كے فرائض اور ان كى بعثت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة و يزكيهم

۸_ امتوں كا مقام تسليم و رضاتك پہنچنا انبياءعليه‌السلام كى بعثت ، آسمانى كتاب اور دينى احكام و معارف كى تعليم اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہونے سے ممكن ہے _من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا ...يزكيهم ''امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے درخواست كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اپنى نسل سے ايك نبى كى بعثت كے لئے دعا كرنا لگتا ہے اسلئے تھا كہ : '' امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے بعثت اور اس كے اہداف بنيادى ترين ضروريات ميں سے ہيں _

۹_آسمانى كتاب كى تعليم ، حكمت اور الہى احكام و معارف كا سيكھنا اور خود كو آلودگيوں اور كثافتوں سے پاك ركھنا انبيائے الہىعليه‌السلام كى نظر ميں بہت بلند و ارفع مقام و منزلت كا باعث ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا و يزكيهم

۴۴۷

۱۰_ اللہ تعالى ہى تنہا عزيز ( كامياب اور شكست ناپذير) اور فقط وہى حكيم ( ايسى ہستى جو امور كى نہايت محكم و مستحكم بنياد ركھے ) ہے _انك انت العزيز الحكيم

۱۱ _ انبيائ( عليہم السلام )كى بعثت اللہ تعالى كى عزت و حكمت كا ايك پرتو ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً انك انت العزيز الحكيم

۱۲ _ دعا كے اختتام پر اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _ربنا و ابعث انك انت العزيز الحكيم

۱۳ _ اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا اسكى بارگاہ ميں دعا كى قبوليت كے لئے موثر ہے_ ربنا وابعث فيهم انك انت العزيز الحكيم

۱۴ _ رسول اسلام (ص) كا ارشاد ہے''انا دعوة ابراهيم قال و هو يرفع القواعد من البيت ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم ''(۱) ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى قبول شدہ دعا ہوں حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى ديواريں بلند فرماررہے تھے تو انہوں نے عرض كيا اے ہمارے رب ان كے درميان انہيں ميں سے ايك رسول كو مبعوث فرما ...''

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كى تعليمات كے نتائج ۸; آسمانى كتابوں كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; آسمانى كتابوں كى تعليمات ۲،۷

آيات الہي: آيات الہى كى تلاوت ۲،۷

اسماء اور صفات: حكيم۱۰;عزيز۱۰

اقدار: ۵،۹

قدروں كا معيار ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۱۰; حكمت الہى كے مظاہر ۱۱; عزت الہى كے مظاہر ۱۱; الہى نعمتيں ۶

امتيں : امتوں كى اطاعت يا سر تسليم خم ہونا ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى بعثت كے آثار۸; انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۷ انبياءعليه‌السلام كابشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۱۱; ابنياءعليه‌السلام كى

____________________

۱) الدر المنثور ج/۱ ص۳۳۴_

۴۴۸

بصيرت ۹; جس نبى (ص) كے لئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; جس نبى (ص) كےلئے حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

اولاد: تربيت اولاد۴; اولاد كى تعليم ۴; اولاد و نسل كے لئے دعا ۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل سے ۳; پيامبر اسلام (ص) حضزت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ۳; آنحضرت (ص) كے درجات ۱۴; آنحضرت (ص) كى نبوت ۱۴; آنحضرت (ص) كے اسلاف و بزرگان ۳

تزكيہ : تزكيہ كے آثار۸; تزكيہ كى قدر و قيمت۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱، ۱۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۳

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ۲; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱;حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۱،۳

حكمت: حكمت كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; حكمت كى تعليم ۲،۷

حمد: حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳

دعا: دعا كے آداب ۱۲; دعا ميں حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳ دعا كى قبوليت كى بنياد۱۳

دين : دينى تعليم كے نتائج ۸; دينى تعليم كى قدر و منزلت ۹; دينى تعليم ۲،۴

روايت:۱۴

سر تسليم خم ہونا: مقام تسليم و رضا كا حصول ۸

عمل: پسنديدہ عمل ۴

عوام: عوام كا تزكيہ نفوس ۷

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱

نسل : صالح اولاد يا نسل كى قدر وقيمت۵; مؤمن نسل كى قدر و منزلت ۵; سربلند و باعظمت نسل ۵

۴۴۹

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( ۱۳۰ )

اور كون ہے جو ملّتابراہيم سے اعراض كرے مگر يہ كہ اپنے ہيكو بيوقوف بنائے _ اور ہم نے انھيں دنياميں منتخب قرارديا ہے اور وہ آخرت ميں نيك كردار لوگوں ميں ہيں ( ۱۳۰)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شريعت اور مكتب عاقلانہ اور خردمند انہ ہے جبكہ اسكى پيروى كرنا عقل و خردمندى كا ثبوت ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۲ _ فقط احمق ، سفيہ اور بے وقوف لوگ ہيں جوحضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مكتب سے منحرف ہوئے ہيں اور قبول نہيں كرتے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''رغبة'' كا لفظ جب اپنے مشتقات كے ہمراہ حرف ''عن'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو انحراف اور روگردانى كا معنى ديتاہے_ '' من يرغب '' ميں ''من'' اسم استفہام ہے جو يہاں استفہام انكارى كے طور پر آياہے_

۳ _ انسان فقط اپنى عقل كو فريب دے كر اديان الہى سے گريزاں ہوتاہے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''سفہ'' كا مفعول ''نفسہ'' ہے پس ''من سفہ نفسہ'' يعنى وہ شخص جس نے خود كو حماقت و بےوقوفى ميں مبتلا كيا ہے البتہ مذكورہ مطلب ميں اسكے لئے '' عقل كو فريب دينے'' كى تعبير استعمال كى گئي ہے _

۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مكتب و آئين دين اسلام كى بنياد ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

قرآن حكيم انسانوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت ديتاہے اور دين ابراہيمىعليه‌السلام سے انحراف اور روگردانى كو جائز نہيں سمجھتا اس سے معلوم ہوتاہے كہ ہر دو اديان كى ماہيت ايك ہى ہے جبكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ،اسلام كى اساس و بنياد ہے _

۵ _ توحيد ربوبى وافعالى اور اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا، آنحضرت (ص) كى رسالت اورآپ (ص) كى كتاب (قرآن كريم ) كى تصديق كرنا دين ابراہيمىعليه‌السلام كے

۴۵۰

اصولوں ميں سے ہے _ربنا تقبل منا واجعلنا مسلمين لك ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملة ابراهيم

مورد بحث آيہ مجيد ہ انسانوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے انتخاب كى دعوت دے رہى ہے اور گزشتہ آيات اس دين كے اصولوں كى طرف اشارہ ہے _ يہ جملہ ''ربنا تقبل ...'' بيان كررہاہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام توحيد ربوبى و افعالى اور پر اعتقاد ركھتے تھے_

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كو قبول كرنے كا لازمى نتيجہ اسلام كو قبول كرناہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملةابراهيم الا من سفه نفسه يہ جملہ''ربنا و ابعث ...'' آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى بعثت كى طرف اشارہ ہے اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دينى اصولوں ميں سے ايك اصول كى حكايت كررہاہے_ بنابريں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين پر يقين كا نتيجہ دين اسلام كى حقانيت پر ايمان و ايقان ہے_

۷_ دين اسلام سے روگردانى حماقت و بے عقلى كى دليل ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۸_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام دنيا ميں اللہ تعالى كى برگزيدہ شخصيت اور عالم آخرت ميں صالحين اور باعظمت انسانوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا وا نه فى الاخرة لمن الصالحين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كے خالص بندوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا ''اصطفائ'' يعنى ہر چيز ميں سے ''صفوہ'' (خالص اور پاكيزہ) كا انتخاب كرنا _

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اخلاص ، اللہ تعالى كى طرف سے آپعليه‌السلام كا انتخاب اور عالم آخرت ميں آپعليه‌السلام كا صالحين كے ساتھ ملحق ہونا يہ دلائل ہيں جن كى بناپر آپعليه‌السلام كے دين كى اتباع ضرورى ہوجاتى ہے _

و من يرغب لقد اصطفيناه فى الدنيا و انه فى الاخرة لمن الصالحين

يہ جملے '' لقد اصطفيناہ'' اور ''انہ فى الاخرة ...'' اس جملہ ''و من يرغب ...'' كے لئے دليل كے طور پر ہيں _

۱۱ _ عالم آخرت ميں بعض اعلى و ارفع انسان صالحين كے عنوان سے حاضر ہوں گے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين

۱۲ _ اللہ تعالى كے خالص و برگزيدہ انسان قيامت كے دن صالحين كے ساتھ ملحق ہوں گے _

و لقد اصطفيناه فى الدنيا وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۴۵۱

احمق افراد:۲

اديان : اديان سے منہ موڑنے كى بنياد ۳

اسلام : اسلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴; اسلام سے منہ موڑنا ۷; اسلام كو قبول كرنے كى بنياد ۶

اللہ كے بندے : ۹ اللہ كے بندے قيامت ميں ۱۱،۱۲

برگزيدہ انسان : ۸، ۱۰ برگزيدہ انسان قيامت ميں ۱۱،۱۲

پيامبر گرامى اسلام (ص) : پيامبر گرامى اسلام (ص) كى تصديق ۵

توحيد : توحيد افعالى ۵; توحيد ربوبى ۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۹،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كے اصول ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا برگزيدہ ہونا ۸،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كي اتباع ۱،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كا معقول ہونا ۱; دين ابراہيمىعليه‌السلام سے منہ پھيرنے والے ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۸،۹

حماقت و سفاہت: حماقت كى نشانياں اور دلائل ۷

خودفريبى : خودفريبى كے نتائج ۳

سرتسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۵

صالحين : ۸ صالحين آخرت ميں ۱۱; صالحين قيامت ميں ۱۲;صالحين كے درجات ۱۲

عالم آخرت : عالم آخرت ميں مختلف گروہ ۱۱

عقيدہ: دين ابراہيمىعليه‌السلام پر اعتقاد۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى تصديق ۵

مخلصين: مخلصين قيامت ميں ۱۲

۴۵۲

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۱۳۱ )

جب ان سےان كے پروردگار نے كہا كہ اپنے كو ميرےحوالے كردو تو انھوں نے كہا كہ ميں ربالعالمين كے لئے سراپا تسليم ہوں ( ۱۳۱)

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے چاہا كہ ہميشہ اس كے سامنے سر تسليم خم رہيں _إذ قال له ربه اسلم

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرمان الہى كو بلاتاخير قبول كيا اور اللہ رب العزت كے حضور سر تسليم خم ہونے كا اعلان كيا _قال اسلمت

۳ _ اللہ تعالى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا پروردگار اور تمام عالمين كا مدير و مدبر ہے _ربه لرب العالمين

۴ _ اللہ تعالى كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ( اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كا ) حكم دينا آپعليه‌السلام كى تربيت اور رشد و تكامل كے لئے تھا_إذ قال له ربه اسلم

يہ مطلب كلمہ''رب'' كہ جو مدير و مدبر اور تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے _ سے حاصل كيا گيا ہے _

۵ _اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا اور اس كے فرامين كى اطاعت كرنا انسان كى تربيت اور رشدو تكامل كا باعث ہے_إذ قال له ربه اسلم

۶ _عالم آفرينش ميں مختلف جہان موجود ہيں _رب العالمين يہ مطلبكلمہ''عالمين''كے جمع استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس دليل عالم ہستى كے تمام جہانوں پر پروردگار عالم كى ربوبيت ہے_اسلمت لرب العالمين اللہ تعالى اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مابين گفتگو كا تقاضا يہ تھا كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كو جواب كے طور پر''اسلمت لك'' كہيں _ ''لك'' كى جگہ ''لرب العالمين'' كا لانا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حقيقت كو دليل كے ساتھ پيش كرنا يعنى يہ كہ جب حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے جان ليا كہ اللہ ہى رب

۴۵۳

العالمين ہے تو اسكے حضور سر تسليم خم ہوگئے_

۸_ جہان آفرينش پر اللہ تعالى كى ربوبيت پر يقين انسان كو اللہ تعالى كى اطاعت اوراسكے سامنے سر تسليم خم ہونے كى ترغيب دلاتاہے_اسلمت لرب العالمين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اللہ كے حضور سر تسليم ہونا ان كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے ساتھ ملحق ہونے كى دليل ہے _لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

''اذقال ...'' ميں ''اذ'' حرف تعليل ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونے كى دليل ہے _

۱۰_ عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونا اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے اور اسكى اطاعت كرنے كے باعث ہے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كے نتائج ۵،۱۰; اللہ تعالى كى اطاعت كى بنياد ۸

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; ربوبيت الہى ۳،۷; اوامر الہي

ايمان: اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۸; ايمان كے متعلقات۸

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۸

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے آثار۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے دلائل۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب كے اسباب ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تربيت كے اسباب ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رشد و تكامل كے عوامل ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاواقعہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مربى '' تربيت كرنے والا'' ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۹

خلقت : كائنات كے مختلف عوالم۶; كائنات كے جہانوں كا مدير و مدبر ۳،۷

رشد: رشد كے عوامل ۵

سرتسليم خم ہونا:

۴۵۴

اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كے نتائج ۴،۵،۹،۱۰; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم ہونے كى اہميت ۱،۲; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے دلائل ۷; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كى بنياد۸

صالحين : صالحين عالم آخرت ميں ۹،۱۰; صالحين كے درجات ۱۰

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸;كا فلسفہ ۴; اوامر الہى كى قبوليت ۲

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ( ۱۳۲ )

اور اسى بات كى ابراہيم اور يعقوب نےاپنى اولاد كو وصيت كى كہ اے ميرے فرزندوالله نے تمھارے لئے دين كو منتخب كرديا ہےاب اس وقت تك دنيا سے نہ جانا جب تكواقعى مسلمان نہ جاؤ(۱۳۲)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ہر دو كے چند فرزند تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو اپنے دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه

''بہا'' كى ضمير ممكن ہے '' ملة ابراہيم _ آيہ مجيدہ ۱۳۰'' ميں كى طرف لوٹتى ہو اورممكن ہے جملہ '' اسلمت _ ما قبل آيت '' ميں كى طرف لوٹتى ہو _دونوں صورتوں ميں معنى ايك ہى بنتاہے كيونكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين وہى خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہوناہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين (اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب ''يعقوب'' ''ابراہيم'' پر عطف ہے گويا ''وصى بہا يعقوب بنيہ ''

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے

۴۵۵

پيروكار تھے اور اسى كى تبليغ كرنے والے تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب

۵ _دين ابراہيمىعليه‌السلام بہترين دين اور ہر طرح كے باطل و منحرف شبہات سے پاك و منزہ ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين ''اصطفائ''يعنى كسى بھى چيز ميں سے صفوہ (خالص و بہترين) كا انتخاب كرنا '' الدين'' ميں '' ال'' عہد ذكرى كا ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى طرف اشارہ ہے _

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا ) اللہ تعالى كا پسنديدہ اور برگزيدہ دين ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين

۷ _ دين ابراہيمىعليه‌السلام كا ہر طرح كے باطل و انحراف سے منزہ ہونا اور اس دين كا اللہ تعالى كى طرف سے انتخاب ہونا علت ہے اس امر كى كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اس دين كو قبول كرنے كى وصيت و نصيحت فرمائي _و وصى بها ابراهيم يا بنى ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن

جملہ '' لا تموتن ...'' كى جملہ '' ان اللہ ...'' پر حرف '' فائ'' كے ذريعے تفريع مذكورہ مطلب كى حكايتكرتى ہے _

۸ _ اللہ تعالى انسان كے لئے جو كچھ انتخاب فرماتاہے اور اسكا حكم ديتاہے اس كو قبول كرنا ضرورى ہے _

ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

'' فلا تموتن ...'' ميں '' فائ'' سببيہ ہے يعنى اس كے مابعد جو كچھ واقع ہواہے وہ ماقبل جملے كے مضمون كا نتيجہ ہے پس جملے كا يہ معنى ہے _ چونكہ اللہ تعالى نے دين ابراہيمىعليه‌السلام (اللہ جل جلالہ كے حضور سرتسليم خم ہونا ) كو تمہارے لئے انتخاب فرمايا ہے پس ہميشہ اسى كے ساتھ وابستہ رہنا ضرورى ہے _

۹ _اديان الہى كى اتباع اور پيروى كا خود انسان كو فائدہ ہے _اصطفى لكم الدين يہ مفہوم '' لكم'' كے ''لام'' كى بناپرہے_

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد سے چاہا كہ ہميشہ اللہ كے حضور سر تسليم خم رہيں اور اس كے فرمان كى اطاعت كريں _فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اللہ تعالى كے حضور ہميشہ سر تسليم خم رہنے اور ہميشہ اسى كے مطيع فرمان رہنے كے لئے جملہ ''فلا تموتن ...'' كنايہ ہے _

۱۱ _ اديان الہى كى تعليمات كا محور اور ان كى روح خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہونا ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۲ _ اپنى اولاد ميں صحيح دينى خطوط اور رجحانات پيدا كرنے سے محبت يہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت

۴۵۶

يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ميں سے ہے _وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۱۳ _ اپنے بچوں كو دين الہى كے انتخاب كى طرف راغب كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۴ _ دين الہى كے انتخاب اور اللہ رب العزت كى بارگاہ ميں سر تسليم ہونے كى وصيت كرنا وصيتوں ميں سے بہترين وصيت ہے _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اديان : اديان كى اتباع ۹; اديان كى حقيقت ۱۱

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۰

اللہ تعالى : اوامر الہى كى قبوليت ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے رجحانات۱۲ انسان: انسان كے فوائد اور منافع ۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمى كا انتخاب ۶،۷،; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فرزند ۱،۲; حضرت ا براہيمعليه‌السلام كے پيروكار ۴; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى وصيتيں ۲،۷; دين ابراہيمعليه‌السلام كى حقانيت ۵،۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى قبوليت ۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى خصوصيات۵،۶،۷

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتيں ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہشات ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتوں كے دلائل ۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴

دين: برگزيدہ دين ۵،۶،۷; دين كى قبوليت ۱۴; برگزيدہ دين كا قبول كرنا ۸

سر تسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۲ ، ۳ ، ۶ ،۱۰،۱۱،۱۴

فرزند: فرزند كى دينى تربيت ۱۲،۱۳

والدين: والدين كى ذمہ دارى ۱۳

وصيت : بہترين وصيت ۱۴

۴۵۷

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ( ۱۳۳ )

كيا تم اس وقتتك موجود تھے جب يعقوب كا وقت موت آيااور انھوں نے اپنى اولاد سے پوچھا كہميرے بعد كس كى عبادت كروگے تو انھوں نےكہا كہ آپ اور آپ كے آباء اور اجدادابراہيم و اسماعيل و اسحاق كے پروردگارخدائے وحدہ لاشريك كى اور ہم اسى كےمسلمان اور فرمانبردار ہيں (۱۳۳)

۱_ يہوديوں كے جھوٹے اور كاذب دعووں ميں سے تھا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى _ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت ''ام'' منقطعة ہے جس ميں استفہام انكارى كا معنى پايا جاتاہے _شہداء شہيد كى جمع ہے اور اس كا معنى حاضرين بنتاہے يہ يہوديوں كو خطاب ہے

پس ''ام كنتم شہداء ...'' يعنى تم يہودى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كے وقت موجود نہ تھے( پس تم كيسے يہ دعوى كرتے ہو كہ يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت اور تاكيد كى ؟)

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چند فرزند تھے_إذ قال لبنيه يہ مطلب اس وجہ ہے كہ''بنيہ'' كا لفظ جمع استعمال ہواہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندان آپعليه‌السلام كے زمانہ حيات ميں موحد اور خدائے يكتا و لا شريك كى عبادت كرتے تھے_إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي يہ مطلب ''من بعدي'' كى قيد سے سمجھ ميں آتاہے _

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو خوف تھا كہ ان فرزندوں ميں آپعليه‌السلام كے بعد كہيں دينى اعتقادات ختم نہ ہوجائيں _

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۵ _ انبياءعليه‌السلام كى رحلت كے بعد امتوں كے مرتد ہونے كا خطرہ پايا جاتاہے_

إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۶ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كا وقت نزديك آيا تو آپعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو توحيد پر باقى رہنے كى دعوت اور يكتاپرستى كى وصيت فرمائي _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۴۵۸

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندوں نے آپعليه‌السلام كو اطمينان دلايا كہ وہ لوگ خدائے بزرگ و برتر كى پرستش كريں گے اور اسى كے سامنے سر تسليم خم ہوں گے _قالوا نعبد الها واحداً

۸_ اپنے فرزندوں كى دينى تربيت اور اسكے نتائج كى طرف توجہ دينا اور اس بارے ميں احساس ذمہ دارى كرنا ضرورى و لازمى ہے _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۹_ توحيد پرستوں كو چاہيئے كہ جب انكى رحلت كا وقت نزديك ہو تو اپنے پس ماندگان كو توحيد اور خدائے بزرگ و برتر كى عبادت پہ قائم و دائم رہنے كى وصيت ضرور كريں _إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام خدائے يكتا كى پرستش كرنے والے توحيد پرست ہيں _نعبد الهلك واله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق

۱۱ _ اسلاف كے دينى عقائد فرزندوں كے عقيدتى رجحانات ميں بہت زيادہ مؤثر ہوتے ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق الهاً واحداً حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند '' نعبد اللہ الہاً واحداً'' جيسے جملے سے اپنے توحيدى عقيدہ اور عبادتى توحيد كا اظہار كرسكتے تھے ليكن اس مفہوم كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كا نام لے كر بيان كرنا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ كہ اسلاف اور بزرگوں كے عقائد فرزندوں اور ان كى نسل پر اثر انداز ہوتے ہيں _

۱۲ _ انسان كے دادا اور چچا والد كى طرح ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل حضرت ابراہيمعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دادا اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام آپعليه‌السلام كے چچا تھے _ قرآن كريم نے ان كے لئے '' اب'' _( والد) كا لفظ استعمال كيا ہے _ يہ امر اس بات كى حكايت كرتاہے كہ عربى ميں '' اب'' كا لفظ دادا اور چچا دونوں كے لئے بھى استعمال ہوتاہے يا يہ كہ دادا اور چچا والدكى مانند ہيں _ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۳ _ خدائے وحدہ لا شريك كى عبادت سب كا عمومى فريضہ ہے _نعبد الها واحداً

۱۴ _ اللہ تعالى كى كامل اطاعت اور اس كے غير كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے اجتناب ضرورى ہے_و نحن له مسلمون '' مسلمون'' پر '' لہ'' كا مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس '' نحن لہ مسلمون'' كا معنى يہ ہے كہ ہم فقط اللہ كے ہى حضور سر تسليم خم ہيں _

۴۵۹

۱۵ _ خدائے وحدہ پر عقيدہ، اسكى عبادت اور اسكى كامل اطاعت كے ہمراہ ہونا چاہيئے_نعبد الها واحداً و نحن له مسلمون ''تعبدون_( تم عبادت كرتے ہو) اور ''نعبد_ (ہم عبادت كرتے ہيں ) سے يہ ہم مفہوم نكلتاہے كہ خدائے وحدہ (توحيد ذاتي) پر ايمان ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ اسكى ذات اقدس كو ہى معبود جان كر اسكى پرستش كرنى چاہيئے _ جملہ ''نحن لہ مسلمون'' يہ بيان كررہاہے كہ اللہ كى عبادت و بندگى كے علاوہ اس كے فرامين و احكام كى بھى اطاعت كرنى چاہيئے_

۱۶_ اللہ تعالى كى وحدانيت اور اسكى عبادت كا عقيدہ اديان الہى كا اہم ترين اصول جبكہديگر اصولوں اور دينى احكام كى بنياد و اساس ہے _ما تعبدون من بعدى قالوا نعبد الهاً واحداً واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام دين كے تمام احكام اور اصولوں ميں سے فقط اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كو نجات كا ذريعہ نہ جانتے تھے بنابريں فقط '' ماتعبدون'' كا ذكر كرنا ممكن ہے اس امر كى حكايت كرتاہو كہ اولاً_ توحيد عبادى اہم ترين اصولوں ميں سے ہے ثانياً_ انسان اللہ تعالى كى عبادت كے ذريعے دين كے ديگر اصولوں كر احكام كى طرف راغب ہو اور ان پر عمل پيرا ہوجائيگا _

۱۷_تبليغ دين كے لئے مختلف روشوں اور انداز كو اختيار كرنا ايك اچھا اور احسن عمل ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي مورد بحث آيہ مجيدہ اور اس سے ماقبل كى آيت ہر دو كى دعوت توحيد كى طرف ہے ليكن دونوں ميں حالات كےمطابق بيان اور انداز ميں ايك فرق و تفاوت پايا جاتاہے _

۱۸_ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان اور انكى تشريح كرنى چاہيئے_ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت

اللہ تعالى نے يہوديوں كے دعوى ( حضرت يعقوبعليه‌السلام نے دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى ) كو اس جملہ '' ام كنتم ...( تم تو اس وقت موجود ہى نہ تھے) كے ساتھ بے بنياد اور بے اساس جاناہے _ اسكا معنى يہ ہے كہ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان كرنا اور ان كى تشريح كرنى چاہيئے تا كہ ان كو قبول كيا جاسكے_

۱۹ _ انبياء (عليہم السلام) حتى اپنے فرزندوں كو بھى اللہ وحدہ اور اسكى عبادت كى قبوليت پر مجبور نہ كرتے تھے_

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدى قالوا نعبدخدائے واحد كى عبادت كى طرف دعوت دينا اور وصيت كرنا اور اسكے ساتھ يہ سوال پوچھنا ( ما تعبدون ...؟) يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دين كى قبوليت اور اللہ تعالى كى عبادت بجا لانے ميں جبر نہيں ہے _

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785