تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201045 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

( i ) اس کا دوسری آیہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ سے پہلے نازل ہونا ثابت ہو جسے نسخ کے مدعی ثابت نہیں کر سکتے۔

( ii ) آیہ کریمہ :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ میں صدر اسلام کے روزوں کو ہر جہت سے گزشتہ اقوام کے روزوں سے تشبیہ دی جا رہی ہو (تاکہ وہ حکم میں یکساں ہو اور پھر آیت :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو جائے) اور یہ بات مفہوم عرفی بلکہ آیت کی صریح دلالت کیخلاف ہے کیونکہ آیہ شریفہ میں صدر اسلام کے روزے کے وجوب کو گزشتہ امتوں کے روزے کے وجوب سے تشبیہ دی جا رہی ہے دونوں کے روزوں کی تفصیلی کیفیت میں یگانگت بیان نہیں کی جا رہی تاکہ آیت :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اسے نسخ کیا جا سکے۔

اگر کسی اور خارجی دلیل سے ثہ بات بھی ہو کہ صدر اسلام اور قبل از اسلام کے روزوں کے احکام ایک جیسے تھے تو اس صورت میں آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ریعے ایسا حکم نسخ ہو گی جو قرآن کے علاوہ کسی اور دلیل سے ثابت ہو اور یہ ہمارے محل بحث سے خارج ہے۔

۶۔( وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ ) ۲:۱۸۴

''اور جنہیں روزہ رکھنے کی قوت ہے (اور نہ رکھیں) تو ان پر اس کا بدلہ ایک محتاج کو کھانا کھلا دینا ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہے،،۔

اس آیت کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) : ۱۸۵

''(مسلمانو!) تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں اپنی جگہ پر ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ رکھے،،

۳۸۱

پہلی آیت میں اگر ''طوق،، سے مراد (عام) طاقت و قدرت ہو تو آیت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ واضح اور درست ہے کیونکہ اس صورت میں آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو شخص روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے وہ چاہے تو روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے میں فدیہ کے طور پر مسکینوں کو کھانا کھلائے جبکہ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ماہ مبارک میں حاضر ہو وہ روزہ ضرور رکھے ، یعنی اختیاری حالت میں فدیہ پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔

لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ طاقت سے مرا دوہ قدرت ہے جس کے ساتھ مشقت اور زحمت ہو بنا برایں آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہخداوند متعال نے سب سے پہلے آیہ شریفہ:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا،،

کے ذریعے واجب تعیین(۱) کے طور پر روزہ رکھنا لازم قرار دیا ہے اور اس کے بعد آیہ شریفہ فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر : ۱۸۴

''(روزے کے دنوں میں) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو اور دونوں میں (جتنے قضا ہوئے ہوں) گن کر رکھ لے،،

کے ذریعے مسافر اور مریض سے اس حکم کو اٹھا لیا اور ان روزوں کے عوض کسی دوسرے وقت (جب مسافر کا سفر ختم ہو جائے اور مریض ٹھیک ہو جائے) روزہ جانے کا حکم دیا ہے۔

اس کے بعد بعض مخصوص افراد کیلئے جداگانہ حکم بیان کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا آدمی ، وہ آدمی جسے پیاس زیادہ لگتی ہو ، وہ مریض جس کا مرض آئندہ رمضان تک باقی رہے اور اس قسم کے دوسرے افراد جن کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت مشقت و زحمت اٹھانا پڑتی ہے ، ان لوگوں پر روزے کی ادا و قضا واجب نہیں بلکہ صرف فدیہ دیا جائے گا۔

___________________

(۱) جس کا کوئی اور چیز عوض نہ بن سکے۔

۳۸۲

معلوم ہوا جب آیہ کریمہ کی رو سے عام مومنین پر مخصوص ایام میں بطور واجب تعیینی روزوں کی ادا اور مریض و مسافر پر روزوں کی قضا کو فرض قرار دیا گیا تو وہ لوگ ان دونوں سے مختلف ہوں گے جن پر صرف فدیہ دینا واجب ہے آیات کی اس دلالت کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیہ کریمہ کے مطابق وہ آدمی جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہو ، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو روزوں کے بدلے میں فدیہ دے دے ، اسے اختیار ہے اہل بیت اطہار (ع) کی مستفیض روایات بھی آیہ کریمہ کی اسی تفسیر پر دلالت کرتی ہیں(۱)

لفظ طاقت اگرچہ عام قدرت اور توانائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن طاقت کے لغوی معنی ہیں: مشقت کثیرہ کے ساتھ کسی کام کی قدرت حاصل ہونا چنانچہ ''لسان العرب،، میں ہے:

''الطوق الطاقة ای اقصی غایته و هواسم لمقدار مایمکنه ان یفعله بمشقة منه ،،

(یعنی) '' طوق کا مطلب قدرت و توانائی کی آخری حد ہے جس میں ایک کام انتہائی زحمت کے ساتھ انجام پائے،،

اور ابن اثیر اور راغب سے بھی طاقت کا یہی معنی منقول ہے۔

اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طاقت کا معنی عام قدرت وتوانائی ہے ''اطاقہ،، جس سے ''یطیقونہ،، بنا ہے ، کا معنی کسی چیز میں طاقت پیدا کرنا ہے تو لامحالہ ''اطاقہ،، وہاں استعمال ہو گا جہاں ایک کام بذات خود آسان اور مقدور نہ ہو ، کسی دوسرے نے اسے مقدور بنایا ہو اور یہ سخت محنت و مشقت کے ساتھ ہی انجام پایا ہو۔

____________________

(۱) الوافی ، ج ۷ ، باب العاجز من الصیام ، ص ۲۳

۳۸۳

صاحب ''تفسیر المنار،، اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں:

''عرب،، ''اطاق الشئی،، وہاں کہتے ہیں جہاں کسی چیز یا فعل پر ضعیف اور معمولی سی قدرت ہو اور اس کیلئے سخت محنت و مشقت درکار ہو،،(۱)

بنا برایں یہ آیہ کریمہ محکم ہے ، منسوخ نہیں ، اور اس کا حکم اس شخص کے حکم سے بالکل مختلف ہے جس پر ادایا قضا روزے رکھنا واجب ہیں۔

یہ سب بحث اس بنیاد پر کی گئی کہ آیہ شریفہ میں مشہور قرات کے مطابق لفظ یطیقونہ یعنی صیغہ معلوم پڑھا جائے لیکن اگر ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عکرمہ اور ابن مسیّب کی قرات کے مطابق اس لفظ کو باب تفعیل مجہول(۲) (یطوقونہ) پڑھا جائے تو پھر مسئلہ اور زیادہ واضح ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں یقیناً ''مشقت،، والے معنی مراد لئے جائیں گے۔

البتہ مالک اور ربیعہ کے قول کے مطابق ، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بوڑھے مرداور بوڑھی عورتیں افطار کر لیں تو ان کے ذمے کچھ واجب نہیں (۳) آیہ کریمہ منسوخ ہوگئی لیکن یہ ان کی ذاتی رائے ہے جو ہمارے لئے حجت اور مدرک نہیں بن سکتی اس کے علاوہ اس قول کی صحت مشکوک ہے۔

۷۔( وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ) ۲:۱۹۱

''اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد الحرام(کعبہ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس وہ اگر تم سے لڑیں تو (بے کھٹکے) تم بھی ان کو قتل کرو ، کافروں کی یہی سزا ہے،،

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۵۶

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ص ۱۷۷

(۳) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۳

۳۸۴

ابو جعفر نحاس اور اکثر اہل نظر کی رائے یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے اور مشرکین سے حرم اور غیر محرم میں جنگ لڑی جا سکتی ہے یہ قول قتادہ کی طرف بھی منسوب ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ گزشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اور محکم ہے اگر اس کے کسی آیت کے ذریعے ناسخ ہونے کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو وہ آیت یہ ہے:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

یہ آیت ناسخ نہیں بن سکتی اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے اور دوسری عام ہے خاص ، عام کیلئے قرینہ ہوا کرتا ہے اور وہ عام کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اگرچہ خاص کی تاریخ صدور مقدم ہی کیوں نہ ہو اور جہاں خاص کا مقدم ہونا ثابت ہی نہ ہو وہ بطریق اولیٰ عام کیلئے قرینہ ہو گا بنا برایں اس آیت سے یہی ثابت ہوا کہ حرم سے باہر مشرکین سے جنگ لڑی جا سکتی ہے لیکن اگر مشرکین حرم میں جنگ کی ابتداء کریں تو ان سے حرم میں بھی جنگ کی جا سکتی ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ مدعیان نسخ اس روایت کو ناسخ قرار دیں جس کے مطابق رسول اکرم (ص) نے حکم دیا تھا کہ ''ابن خطل،، کو قتل کر دو جبکہ وہ خانہ کعبہ سے لپٹا ہواہو۔

یہ دعویٰ بھی باطل ہے کیونکہ اولاً یہ روایت خبر واحد ہے اور خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ روایت نسخ آیت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ مدعیان نسخ خود رسول اللہ (ص) روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''انهالم تحل لاحد قبلی و انما احلت لی ساعة من نهارها ،، (۲)

''مجھ سے قبل کسی کیلئے بھی کعبہ میں قتل کو حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی فتح مکہ کے روز صرف ایک گھڑی کیلئے حلال قرار دیا گیاتھا،،

___________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۸

(۲) فتح القدیر للشوکانی ، ج ۱ ، ص ۱۶۸

۳۸۵

بنا برایں یہ آیہ کریمہ اس حقیقت کی تصریح کر رہی ہے کہ حرم میں قتال کی اجازت صرف پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے ہے کسی اور کو یہ اجازت نہیں دی گئی اس طرح سوائے فقہاء کی ایک جماعت کا لحاظ کرنے کے ، اس آیت کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور آیہ شریفہ کا مفہوم ان کے دعویٰ کیخلاف ہے۔

۸۔( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ ) ۲:۲۱۷

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم سے لوگ حرمت والے مہینوں کے نسبت پوچھتے ہیں کہ (آیا) جہاد (ان میں جائز) ہے تو تم انہیں جواب دو کہ ان مہینوں میں جہاد بڑا گناہ ہے،،

ابو جعفر نحاس کہتے ہیں:

''علماء (اہل سنت) کا اس بات پر اجماع ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے اور ان مہینوں میں جنگ جائز ہے البتہ عطا کی رائے یہ ہے کہ آیہ کریمہ محکم ہے اور حرمت والے مہینوں میں قتال جائز نہیں ہے ،،(۱)

شیعہ امامیہ روایات اور علماء کے فتاویٰ کے مطابق یہ آیت نسخ نہیں ہوئی اورا ن مہینوں میں جنگ جائز نہیں ہے چنانچہ صاحب ''التبیان،، اور ''جواہر الکلام،، نے اس بات کی تصریح کی ہے۔

مولف: قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ ناسخ کے طورپر آیہ کریمہ:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۳۲

۳۸۶

کو پیش کرنا تعجب خیز ہے کیونکہ اس آیت میں مشرکین سے قتال اور جنگ کو باحرمت مہینوں کے گزر جانے پر موقوف قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

( فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''پھر جب حرمت کے (چاروں) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،۔

آیہ کریمہ کی اس تصریح کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیت :یسلونک عن الشہر الحرام ۔۔۔۔۔۔ الخ دوسری آیت : فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے۔

ہو سکتا ہے ناسخ کے طور پر آیہ سیف:

( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ) ۹:۳۶

''مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب مل کر لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو،،

کے اطلاق کو پیش کیا جائے لیکن یہ بھی درست نہیں اس لئے کہ یہ آیت مطلق ہے اور مطلق اگرچہ موخر ہو مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر نسخ کے اثبات کیلئے ابن عباس اور قتادہ کی روایت کا سہارا لیا جائے جس کے مطابق متنازع فیہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے تو یہ بھی اعتراض سے خالی نہیں اس لئے کہ اولایہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ کسی معصوم کی روایت نہیں شاید یہ ابن عباس اور قتادہ کااپنا اجتہاد ہو ثالثاً یہ روایت ابراہیم ابن شریک کی روایت سے متعارض ہے ابراہیم کہتے ہیں : احمد بن عبداللہ بن یونس نے لیث سے ، لیث نے ابی ازہر سے ، ابی ازہر نے جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''لایقاتل فی شهر الحرام الاان یغزی اویغزو فاذا حضر ذالک اقام حتی ٰ ینسلخ ،،

''حرمت والے مہینوں میں جنگ نہ لڑی جائے مگریہ کہ دشمن کی طرف سے پہل ہو اور جب حرمت والا مہینہ آ جائے تو جنگ کو موقوف کیا جائے حتیٰ کہ ماہ حرام گزر جائے،،

۳۸۷

اسکے علاوہ اقتادہ اور ابن عباس سے منقول روایت ، اہل بیت ، (ع) سے منقول روایات کے بھی مخالف ہے ، جن کے مطابق ان مہینوں میں جنگ حرام ہے۔

اس آیت کے نسخ کے اثبات کیلئے اس روایت سے بھی تمسک صحیح نہیں جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ماہ شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں حنین میں ہوازن کے ساتھ اور طائف میں ثقیف کے ساتھ جنگ کی کیونکہ اولاً یہ خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا ثانیاً بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو یہ مجمل ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے ممکن ہے کسی خاص اوراہم ضرورت کے تحت آپ نے ان مہینوں میں جنگ کا حکم دیا ہو ایسی روایت کس طرح آیہ کریمہ کے لئے ناسخ بن سکتی ہے ۔

۹۔( وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ ) ۲:۲۲۱

''اور (مسلمانو) تم مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو،،۔

بعض علماء کا د عویٰ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے:

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمومناتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) ۵:۵

''اور ان لوگوں میں کی آزاد پاک دامن عورتیں جن کوتم میں سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے جب تم ان کوا ن کے مہر دیدو،،

چنانچہ ابن عباس ، مالک بن انس ، سفیان بن سعید ، عبدالرحمن ، ابن عمراور اوزاعی کی رائے یہی ہے عبداللہ بن عمر کی رائے یہ ہے کہ دوسری آیت منسوخ اور پہلی آیت ناسخ ہے اس طرح اہل کتاب عورت سے نکاح حرام ہو گا(۱)

لیکن حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں اس لئے کہ اگر مشرک عورت (جس سے نکاح پہلی آیت حرام قرار دے دی رہی ہے) سے مراد بت پرست عورتیں ہوں (جیسا کہ آیت سے ظاہر ہو رہا ہے ) تو ان سے نکاح حرام ہونا ، اہل کتاب سے نکاح جائز ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا تاکہ ایک ناسخ اور دوسری منسوخ قرار پائے کیونکہ پہلی آیت میں عورت بت پرست ہونے کی بنا پر حرام اور

_____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۵۸

۳۸۸

دوسری آیت میں عورت اہل کتاب ہونے کی بنیاد پر حلال قرار پائی ہے اور اگر مشرکہ سے مراد وہ عورت ہو جو اہل کتاب کوبھی شامل ہو (جیسا کہ مدعیان نسخ کا خیال ہے) تو دوسری آیت پہلی آیت کیلئے مخصص قرار پائے گی اس طرح دونوں آیتوں کامفہوم یہ ہو گا کہ اہل کتاب عورت سے تو نکاح جائز ہے لیکن مشرک ، بت پرست عورت سے نکاح جائز نہیں کیونکہ اس فرض کے مطابق پہلی آیت بت پرست اور اہل کتاب عورتوں کو حرام قرار دے رہی ہے اور دوسری آیت اس حکم سے اہل کتاب کو خارج کر کے انہیں حلال قرار دے رہی ہے۔

البتہ شیعہ نقطہ نگاہ سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح موقت (متعہ) جائز ہے لیکن نکاح دائمی جائز نہیں اہل کتاب سے دائمی نکاح جائز نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ روایات جن کی رو سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی جائز نہیں، اس آیت کیلئے مقید ثابت ہوں گی جس کے مطابق اہل کتاب سے نکاح دائمی اور نکاح موقت دونوں کا جواز سمجھا جاتا ہے یا عدم جواز کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آیت کریمہ (جس سے اہل کتاب سے نکاح کا جوازثابت ہوتا ہے) سے صرف نکاح موقت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اس مشہور قول کے مقابلے میں علماء امامیہ کی ایک جماعت اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی کوبھی جائز سمجھتی ہے چنانچہ حسین اور صدوقین (علی بن بابویہ ، محمد بن بابویہ ) سے یہ فتویٰ منقول ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس مسئلہ پر اس آیت کی تفسیر کے موقع پر تفصیلی بحث کریں گے۔

۱۰۔( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ) ۲:۲۵۶

''دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی ۔

۳۸۹

علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ آیت ، اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہوگ ئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ ) ۹:۷۳

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! کفار کے ساتھ (تلوار سے) اور منافقین کے ساتھ (زبان سے) جہاد کرو،،

کیونکہ اس آیت میں کفارسے جنگ کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ پہلی آیت میں دین کے معاملہ میں جبر کرنے سے روکا گیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ پہلی آیت نسخ نہیں ہوئی بلکہ دوسری آیت کے ذریعے اس کی تخصیص ہوئی ہے یعنی اہل کتاب کو مجبور نہ کیا جائے کیونکہ جیسا کہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اہل کتاب سے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اہل کتاب ہیں ، جنگ نہیں کی جا سکتی۔

مولف : قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور نہ اس کی تخصیص ہوئی ہے۔

وضاحت : لغت عرب میں ''کرہ،، دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:

i ۔ وہ معنی جو رضا مندی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر نارض یا خفا ہونا چنانچہ آیہ شریفہ:

( وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ) ۲:۲۱۶

''اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز (جہاد) کون اپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،،

میں یہی معنی مراد ہے۔

ii ۔ وہ معنی جو اختیار کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی مجبوراً چنانچہ آیہ کریمہ:

( حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ) ۴۶:۱۵

''اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اور رنج ہی سے اس کو جنا،،۔

۳۹۰

میں یہی مقصود ہے کیونکہ حاملہ ہونا اور بچے کی ولادت اگرچہ اکثر اوقات عورت کی رضا مندی سے ہوتی ہے لیکن یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے متنازعہ فیہ آیہ شریفہ میں نسخ یا تخصیص اس صورت میں ممکن ہے جب ''کرہ،، پہلے معنی (ناراضگی) میں استعمال ہو۔

لیکن ''اکراہ،، سے پہلا معنی (کسی چیز کو پسند نہ کرنا) مراد ہونا کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) جہاں بھی کسی لفظ کے دو معنی ہوں ، ان میں سے کسی ایک معنی کے تعین کیلئے قرینہ اور موید کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس مقام پر کوئی ایسا قرینہ اور موید موجود نہیں جس سے معنی اول کا ارادہ کیا جانا ثابت ہو سکے۔

( ii ) دین اسلام ، اصول دین اور فروع دین دونوں کو شامل ہے اس آیت کے بعد کفر اور ایمان کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ دین صرف اصول دین کا نام ہے بلکہ ایک کلیہ کو اس کے بعض مصادیق پر منطبق کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں بہت سے ایسے احکام موجود ہیں جو مسلمانوں پر (برحق) مسلط کئے گئے ہیں چنانچہ عقلاء کی سیرت بھی اس کی تائید کرتی ہے شریعت میں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً مقروض کو قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے زوجہ کو شہر کی اطاعت پر مجبور کیا گیا ہے چور کو چوری ترک کرنے پر مجبور کیا جاتاہ ے ان تمام موارد کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ''اکراہ،، نہیں ہے۔

( iii ) ''اکراہ،، کی تفسیر میں اس کے پہلے معنی کو ذکر کرنا آیہ شریفہ کے دوسرے حصے:

( قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) ۲:۲۵۶

''کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی،،۔

۳۹۱

سے سازگار نہیں مگر یہ کہ ''قدتبین الرشد من الغی کو ''لااکراہ فی الدین،، کیلئے علت اور وجہ قرار دیا جائے بایں معنی کہ ہدایت اور گمراہی کا آشکار ہونا، احکام اسلام کو لوگوں پر ان کی مرضی کیخلاف مسلط کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اگر آیہ کریمہ کا مطلب یہی ہے تو پھر اس کے نسخ ہونے کا امکان باقی نہیں رہتاکیونکہ دین اسلام کی دلیلیں اور حجیتیں شروع ہی سے واضح اور آشکار تھیں یہ الگ بات ہے کہ یہ روز بروز مستحکم ہوتی گئیں ا ن حقائق کی روشنی میں صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں اکراہ کا واقع نہ ہونا زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ اسلام کے دلائل صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں زیادہ واضح اور مستحکم ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ جب عدم کراہ کی یہ علت تمام کفار میں مشترک تھی تو پھر اس حکم (عدم اکراہ) کے صرف بعض کفارسے مختص ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ تمام کے تمام کفار سے جنگ حرام ہو اس نتیجے کا باطل ہونا بدیہی اور واضح ہے۔

پس حق یہی ہے کہ آیہ کریمہ میں ''اکراہ،، سے مراد وہی معنی ہے جو اختیار کے مقابلے میں آتا ہے اور یہ یہاں جملہ خبریہ ہے انشائیہ نہیں۔

آیہ شریفہ اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جس کا قرآن کی متعدد آیات میں ذکر ہو چکا ہے کہ شریعت الٰہی کسی جبر و اکراہ پر مبنی نہیں ہے نہ اس کے اصول کے سلسلے میں کسی کو مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے فروع کے بارے میں پس حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت کیلئے رسول بھیجے جائیں ، آسمان سے کتابیں نازل ہوں اور احکام الٰہی کی وضاحت کی جائے تاکہ ہلاک (گمراہ) ہونے اور زندگی (ہدایت) حاصل کرنے والوں پر اتمام حجت ہو جائے اور خدا کے مقابلے میں کوئی عذر باقی نہ رہے جیسا کہ ارشاد تعالیٰ ہے:

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اور اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،۔

۳۹۲

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کوبھی ایمان لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ صرف حق کو گمراہی اور باطل کے مقابلے میںواضح طور پر بیان فرماتا ہے اور جو شخص حق پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ارادے اور اختیارسے ایمان لاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی اپنے ارادے اور اختیار سے باطل اورگمراہی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو حق کی منزل تک پہنچاسکتا ہے لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ حق اور باطل کی وضاحت کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال میں مجبور نہ کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۵:۴۸

''اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کے سب کو ایک ہی (شریعت کی ) امت بنا دیتا مگر (مختلف شریعتوں سے) خدا کا مقصودیہ تھا کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہاراامتحان کر لے بس تم نیکیوں میں لپک کے آگے بڑھ جاؤ اور (یقین جانو) کہ تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت) جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا،،

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ (اب تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خد ہی کیلئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ) ۱۶:۳۵

''اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس (کی مرضی) کے کسی چیز کو حرام کر بیٹھتے جولوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ بھی ایسے ( حیلہ حوالہ کی ) باتیں کر چکے ہیں تو (کہا کریں) پیغمبروں پر تو اس کے سوا کہ احکام کو صاف صاف پہنچا دیں اور کچھ بھی نہیں،،

۳۹۳

۱۱۔( وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ) ۴:۱۵

''اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے لوگوں میں سے چار کی گواہی لو پھر اگر چاروں گواہ اس کی تصدیق کریں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ ) ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت آ جائے یا خدا ان کی کوئی (دوسری) راہ نکالے،،۔

( وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) : ۱۶

'' اور تم لوگوں میں جن سے بدکاری سرزد ہوئی ہو ان کو مارو پیٹو ، پھر اگر وہ دونوں (اپنی حرکت سے) توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو ان کو چھوڑ دو بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

حسن کی روایت ، جواس نے رقاشی سے نقل کی ہے ، کے مطابق عکرمہ اور عبادۃ بن صامت کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت ، دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اور دوسری آیت کنوارہ مرد اور عورت جب زنا کریں تو ان کے بارے میں نسخ ہو گئی ہے اس لئے کہ ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت جب زنا کریں توا ن کے بارے میں بھی یہ آیت نسخ ہو گئی ہے کیونکہ ان کو سو کوڑے مارنے کے علاوہ سنگسار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جائیں۔

قتادہ اور محمد بن جابر کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت (میں موجود حکم) شادی شدہ ہے اور دوسری آیت باکرہ سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔

۳۹۴

ابن عباس ، مجاہد اور ابو جعفر نحاس جیسے ، ان کے ہم رائے ، حضرات کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت عورتوں کے زنا (چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا باکرہ) اور دوسری آیت مردوں کے زنا (چاہے شادی شدہ ہوں یا کنوارے) سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے نسخ ہو گئی ہیں(۱) بہرحال ابوبکر جصاص کا کہنا ہے کہ زنا کے ان دونوں حکموں کے نسخ ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے(۲)

مولف: حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں۔

توضیح: لفظ فاحشہ سے مراد وہ عمل ہے جس کی برائی اور قباحت سنگین ہو۔ اگر ایسی سنگین برائی کا ارتکاب دو عورتیں باہم مل کر کریں تو اسے ''مساحقہ،، کہا جاتا ہے ، کبھی اس برائی کو دو مرد انجام دیتے ہیں جو ''لواطہ،، کہلاتا ہے اور کبھی ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعے یہ برائی انجام پاتی ہے جو زنا کہلاتی ہے لفظ ''فاحشہ،، سے نہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زنا کیلئے وضع کیا گیا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے خالق کی مراد زنا ہے اس نکتے کے پیش نظر پہلی آیت کا نسخ دو چیزوں پر موقوف ہے:

i ۔ پہلی آیت میں گھروں میں نظر بند کرنے کا مطلب ، مرتکب فحش کی تعزیر ہو۔

ii ۔ خدا کی طرف سے راہ مقرر ہونے سے مراد سنگساری اور کوڑے ہوں۔

ان دونوں کا ثابت ہونا ناممکن ہے کیونکہ آیہ مبارکہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا مقصد اسے دوبارہ ارتکاب فحش سے روکنا اور اس طرح منکرات کا سدباب کرناہے اور یہ مسلم ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ناموس اور اس قسم کے دیگر حساس اعمال کے سلسلے میں منکرات کا سدباب کرنا واجب اور ہر شخص کا فرض ہے بلکہ ایک قول کے مطابق ہر برائی کی روک تھام واجب ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۹۸

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۰۷

۳۹۵

اسی طرح فحش کی مرتکب عورت کیلئے راہ مقرر کرنے کا مقصد ، اس کیلئے ایک ایسا طریقہ مقرر کرنا ہے جس کے ذریعے اسے عذاب سے نجات مل جائے یہ راہ کوڑے اور سنگساری کس طرح ہو سکتی ہے ؟ کیا کوئی آسودہ حال اور عقلمند عورت جو نظر بند ہو ، اس بات پر راضی ہو سکتی ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائیں یا اسے سنگسار کیا جائے اسے کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا تو اس کے عذاب میں اضافہ کرتا ہے ، اس کی نجات اور سہولت کی راہ و سبیل نہیں ہے ۔

گزشتہ بیان کی روشنی میں ''فاحشہ،، سے کبھی مراد ''مساحقہ،، ہوتا ہے ، جس طرح دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے چنانچہ اس کو بعد میں بیان کیا جائے گا اور کبھی ''فاحشہ،، سے مراد وہ گناہ ہوتا ہے جو ''مساحقہ،، اور زنا دونوں کو شامل ہو۔

ان دونوںاحتمالات کے مطابق آیہ کریمہ میں فاحشہ عورت کی نظر بندی کولازمی قرار دیا جا رہا ہے (حتیٰ کہ خدا اس کیلئے آسانی نصیب فرمائے بایں معنی کہ یا وہ توبہ کر لے یا گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جائے اور کسی فحش کے ارتکاب کے قابل نہ رہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائے یا اس میں شادی کی خواہش پیدا ہو اور اس کا شوہر اس کی ناموس کا تحفظ کرے یا اس قسم کے دیگر اسباب فراہم ہوں جن کی وجہ سے اس کے کسی فحش میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ رہے یہ ایک ایسا حکم ہے جو ہمیشہ کیلئے ثابت ہے۔

جہاں تک کوڑوں اور سنگساری کا تعلق ہے وہ ایک جداگانہ اور مستقل حکم ہے جو فحش کے مرتکب افراد کی تادیب اور تنبیہ کیلئے شارع مقدس نے مقرر فرمایا ہے جس کا حکم اول (عورت کی نظر بندی) سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کیلئے نسخ واقع ہوا ہے دوسرے الفاظ میں پہلا حکم شارع مقدس نے اس لئے مقرر فرمایا کہ دوبارہ فحش اور بدکاری کا سدباب ہو سکے اور دوسرے حکم کو پہلے جرم کی سزا اور اس پر تنبیہ کیلئے مقرر کیاتاکہ دوتری عورتیں بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں پس حکم اول اور حکم ثانی میں کوئی منافات نہیں کہ دوسرے حکم کو پہلے حکم کا ناسخ قرار دیا جائے البتہ اگر کوڑے مارنے اور سنگساری کی وجہ سے عورت کی موت واقع ہو جائے تو اسے گھر میں نظر بند کرنے کا حکم برطرف ہو جائے گا کیونکہ موت سے نظر بندی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۳۹۶

خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو شخص آیہ کریمہ میں غور و فکر کرے اسے اس میں کوئی ایسا نکتہ نظر نہیں آئے گا جس سے نسخ کا تو ہم ہو چاہئے آیہ جلد (کوڑے) اس آیہ پر مقدم ہو یا مؤخر ہو۔

جہاں تک دوسری آیت کے نسخ کا تعلق ہے وہ اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً : ''یاتیانھا،، کی ضمیر زنا کی طرف لوٹتی ہو۔

ثانیاً : آیہ کریمہ میں ''ایذائ،، سے مراد سب و شتم (گالی گلوچ) اور لعن طعن ہو۔

ان دونوں امور کی کوئی دلیل نہیں اس کے علاوہ یہ دونوں باتیں آیہ کریمہ سے ظاہر نہیں ہوتیں۔

وضاحت: گزشتہ دونوں آیات میں تین مرتبہ جمع مذکر حاضر کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ مسلم ہے کہ تیسری ضمیر سے مراد وہی ہے جو پہلی اور دوسری ضمیر سے مردا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ پہلی دو ضمیروں سے مراد ، مرد ہیں پس بنا برایں''اللذان،، سے مراد دو مرد ہیں اور اس سے مراد ایسا عام معنی نہیں ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہو۔

اس کے علاوہ اگر تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو مرد نہ لئے جائیں تو اس کا کوئی دوسرا معنی مراد لینا صحیح بھی نہیں کیونکہ اگر ضمیر سے مراد دو مرد نہ ہوتے توا س کی جگہ جمع کی ضمیر آنی چاہئے تھی جس طرح سابقہ آیت میں جمع کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے ، زنا نہیں اور نہ وہ عام معنی ہے جو لواط اور زنا دونوں کو شامل ہو یہ بات واضح ہونے کے بعد ثابت ہو جاتا ہے کہ اس آیت کے موضوع کا آیہ جلد سے کوئی ربط نہیں یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کہ اس آیت میں موجود حکم کے موضوع میں زانی بھی شامل ہے اس امر کی کوئی دلیل نہیں رہتی کہ آیت میں جس ایذارسانی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کوئی خاص قسم کی اذیت ہو البتہ ابن عباس ےس مروی ہے کہ اس ایذا سے مراد ضرب و شتم ہے لیکن یہ روایت حجت نہیں کہ اس کے ذریعے نسخ ثابت ہو سکے لہٰذا لفظ کے اپنے ظہور پر عمل کرنا چاہئے اور آیہ جلد یا حکم رجم کے ذریعے (جو قطعی طور پر ثابت ہے) اس کی تقیید کی جائے۔

۳۹۷

خلاصہ بحث یہ کہ ان دونوں آیتوں میں نسخ کے التزام کی کوئی وجہ نہیں مگر یہ کہ کوئی اندھی تقلید کرے اور ان احاد روایات پر عمل کرے جو کسی علم و عمل کا فائدہ نہیں دیتیں۔

۱۲۔( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا( اور عورتیں) تمہارے لئے جائز نہیں،،

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیہ کریمہ ان روایات کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس کی رُو سے سورہ نساء کی آیہ ۲۳ میں مذکور عورتوں کے علاوہ بھی کچھ عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں یہ دعویٰ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب خاص متاخر ، عام مقدم کیلئے ناسخ بنے ، مخصص نہ بنے۔

لیکن قول حق یہی ہے کہ خاص عام کیلئے مخصص بنتا ہے ناسخ نہیںبنتا ، خواہ خاص ، مقدم ہویا موخر یہی وجہ ہے کہ خبر واحد ، جس میں جیت کی تمام شرائط موجود ہوں کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد ، جس میں حجیت کی تمام شرائط موجود ہوں، کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہے اگر مؤخر خاص ناسخ ہوتا تو خبر واحد پر اکتفا نہ کیا جاتا اس لئے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں کیا جا سکتا اس کے علاوہ آیہ کریمہ میں کوئی عموم لفظی نہیں پایا جاتا بلکہ ظاہری اطلاق کے ذریعے عموم سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی ایسی دلیل موجود ہو جو اس آیہ کیلئے مقید بننے کی صلاحیت رکھتی ہو وہاں یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس مقام پر شروع سے (واقعی) اطلاق مراد نہیں۔

۳۹۸

۱۳۔( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ۴:۲۴

''ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انہیں و مہر معین کیا ہے دے دو،،

علماء اہل سنت میں مشہور ہے کہ متعہ کی حلیت (حلال ہونا) نسخ ہو گئی ہے اور قیامت تک کیلئے اس کی حرمت ثابت ہو گئی ہے اس کے برعکس شیعہ امام کا اتفاق ہے کہ متعہ کی حلیت باقی ہے اور آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے بھی شیعہ امامیہ کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے چنانچہ ابن حزم لکھتے ہیں:

''ابن مسعود ، معاویہ ، ابو سعید ، ابن عباس ، امیہ بن خلف کے دونوں بیٹے سلمہ اور معبد ، جابر اور عمرو بن حریث پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی متعہ کی حلیت کے قائل تھے،،۔

اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں:

''جابر نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ پیغمبر اکرم (ص) ، رسول اللہ (ص) کی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران اور خلافت حضرت عمر کے آخر تک متعہ کو حلال سمجھتے تھے،،

ابن حزم مزید لکھتے ہیں:

''تابعین میں سے طاووس ، سعید بن جبیر ، عطا اور مکہ کے دیگر فقہا متعہ کی حلیت کے قائل تھے ،،(۱)

شیخ الاسلام مرغینانی نے جو ازمتعہ کے قول کی نسبت مالک کی طرف دی ہے مالک متعہ کے جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

____________________

(۱) حاشیہ فقی برمنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۲۰

۳۹۹

''متعہ (رسول اللہ (ص) کے زمانے میں) یقیناً مباح تھا۔ جب تک اس کا نسخ ثابت نہ ہو اس کی حلیت باقی رہے گی،،(۱)

ابن کثیر لکھتے ہیں:

''ایک اور روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل اضطراری حالت میں متعہ کو جائز سمجھتے ہیں،،(۲)

مکہ کے نامور عالم اور فقیہ ابن جریح نے اپنے زمانے میں ستر عورتوں سے نکاح متعہ کیا تھا(۳) انشاء اللہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر کے موقعہپر ہم تفصیلی گفتگو کریں گے یہاں ہم اس آیہ کے بارے میں مختصر بحث کریں گے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ اس آیہ شریفہ کا مفہوم نسخ نہیں ہوا۔

توضیح: آیہ شریفہ میں موجود حکم اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً: آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو۔

ثانیاً : بعد میں نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہو جائے۔

جہاں تک امر اول (استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو) کا تعلق ہے اس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں طرفین کی بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے۔

____________________

(۱) ہدایہ شرح بدایہ ص ۳۸۵ ۔ مطبوعہ بولاق معہ فتح القدیر ۔ اس نسبت کی شیخ محمد بابرتی نے بھی شرح ہدایہ میں تاید کی ہے البتہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میںاس کاانکار کیا ہے عبدالباقی مالکی زرقانی نے شرح مختصر ابی ضیاء ج ۳ ص ۱۹۰ پر کہا ہے:

''متعہ جو کسی بھی وقت قابل فسخ ہے کی حقیقت یہ ہے کہ مرد یا عورت یا ان کے ولی عقد اس طرح پڑھیں کہ اس میں مدت مذکور ہو اور یہ کہ مرد عورت کو اپنے مقصد سے آگاہ کرے لیکن اگر صیغہ عقد میں مدت کا ذکر نہ ہو لیکن مرد اس کا قصد کرے اور عورت بھی مرد کے قصد کو سمجھا جائے تو بھی کافی ہے امام مالک کا فتویٰ یہی ہے اور یہ عقد مسافروں کیلئے مفید ہے،،۔

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۴۷۴

(۳) شرح زرقانی برمختصر ابی ضیاء ، ج ۸ ، ص ۷۶

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

ہے _ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم

۱۴ _ نيك عمل كے بانيوں كو ياد كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل

''اذ ...'' ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے يعنى يہ كہ كعبہ كے بنانے والوں كو ہميشہ ياد ركھو_ يہ حكم انسانوں كے لئے ايك درس ہے كہ نيك كاموں كى بنياد ركھنے والوں كے عمل كو كبھى فراموش نہيں ہونا چاہيئے_

۱۵_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى طرف سے كعبہ كى تعمير كا واقعہ اور اس دوران ان كى دعائيں ، ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و إذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل ربنا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اذ'' فعل مقدر ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہو _

۱۶ _ اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''... فلما امر الله عزوجل ابراهيم ان يبنى البيت و لم يدر فى اى مكان يبنيه فبعث الله جبرائيل فخطّ له موضع البيت فانزل الله عليه القواعد من الجنة فبنى ابراهيم البيت و نقل اسماعيل الحجر من ذى طوى فرفعه الى السماء تسعة اذرع (۱) جب اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو كعبہ كى تعمير كا ا مر فرمايا تو آپعليه‌السلام نہيں جانتے تھے كہ كعبہ كى تعمير كہاں كريں تو اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو حضرت جبرائيلعليه‌السلام نے زمين پر كعبہ كى جگہ ايك خط كھينچا پھر اللہ تعالى نے كعبہ كى بنياديوں كو جنت سے نازل فرمايا پس حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى تعمير كى حضرت اسماعيلعليه‌السلام وادى '' ذى طوي'' سے پتھر لے كر آئے تو حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے كعبہ كى (ديواوں )كو نو(۹) ذراع تك بلند فرمايا ...''

۱۷_قال الحلبى سئل ابو عبدالله عليه‌السلام عن البيت اكان يحج قبل ان يبعث النبي(ص) ؟ قال نعم و تصديقه فى القرآن و اذيرفع ابراهيم القواعد من البيت واسماعيل (۲) حلبى كہتے ہيں امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كيا آنحضرت (ص) كى بعثت سے قبل حج تھا؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں اس كا شاہد قرآن ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' يادكرو جب ابراہيم اور اسماعيل كعبہ كى ديواريں بلند كررہے تھے''

۱۸_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہكان البيت درة بيضاء فرفعه الله الى السماء و بقى اساسه فامر الله ابراهيم و اسماعيل ان يبنيا البيت على القواعد (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۶۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۱۰_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۰ ح ۹۸ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۹_

۴۴۱

... خانہ كعبہ سفيد درّ ( موتي) تھا پھر اللہ تعالى نے اس كو آسمان كى طرف بلند فرماليا اور اس كى بنياد باقى رہ گئي پھر اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كو امر فرمايا كہ كعبہ كو انہى گزشتہ بنيادوں پر تعمير كريں _

اخلاص : اخلاص كى اہميت ۸

اسماء اور صفات: سميع ۱۰; عليم ۱۰

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كى اہميت ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۱۱; اوامر الہى ۵; حمد الہى ۱۳; ربوبيت الہي۹; اللہ تعالى كا سننا ۱۱; اللہ تعالى كا علم ۱۱

انسان: انسان كى ضروريات۱۱

تقرب: تقرب كے عوامل ۵

حج: حج كى تاريخ ۱۷; حج قبل از اسلام۱۷

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶ ،۱۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت ابراہيم كى ذمہ دارى ۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اخلاص ۸; حضرت اسماعيل اور كعبہ كى تعمير ۱،۳،۱۶،۱۸; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا تقرب ۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵

دعا: دعا كے آداب ۶،۹،۱۳; دعا كا مستجاب ہونا ۱۲; دعا كى قبوليت كا سرچشمہ ۱۱

ذكر: اچھے عمل كے بانيوں كا ذكر ۱۴; كعبہ كى تعمير كا ذكر ۱۵; تاريخ كا ذكر ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا كا ذكر ۱۵

روايت: ۱۶ ، ۱۷،۱۸

عبادت: عبادت كى قدرو منزلت ۷; عبادت كى قبوليت كى شرائط ۷

عمل:

۴۴۲

پسنديدہ عمل كے آداب ۱۲; پسنديدہ عمل كى اہميت ۱۴; عمل كى قبوليت كى درخواست ۴،۱۲; پسنديدہ عمل ۶; عمل كى قبوليت كے لئے كيفيت دعا ۶

قدريں : قدروں كے معيار ۷

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۱۲۸ )

پروردگار ہم دونوں كو اپنا مسلماناور فرمانبردار قرار دے دے اور ہمارياولاد ميں بھى ايك فرمانبردار امت پيداكر _ ہميں ہمارے مناسك دكھلادے اور ہماريتوبہ قبول فرما كہ تو بہترين قبول كرنےوالا مہربان ہے (۱۲۸)

۱_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونا تھا_و إذ يرفع ابراهيم القواعد ربنا و اجعلنا مسلمين لك

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى نسل ميں سے كچھ انسانوں كو مقام تسليم تك پہنچائے_و من ذريتنا امة مسلمة لك

كعبہ: كعبہ كے بانى ۱،۳; كعبہ كى تعمير ۱،۳،۴،۵ ،۸،۱۶،۱۸; كعبہ كى تاريخ ۲،۳،۱۶; كعبہ كے فضائل ۱۸; كعبہ كى قدامت ۲

مقربين : ۵

اس مطلب ميں '' من ذريتنا'' ميں '' من '' كا معنى بعض ليا گيا ہے _

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اپنى ذريت (نسل ) سے محبت_من ذريتنا امة مسلمة لك

۴ _ اللہ تعالى كى بندگى كى راہ و روش يہ ہے كہ اس كے سامنے سر تسليم خم ہوا جائے_

ربنا و اجعلنا مسلمين لك و من ذريتنا امة مسلمة لك

۵ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے مراتب و درجات ملتے ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين لك

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام باوجود اس كے كہ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم تھے ليكن پھر بھى اس مقام كے حصول كى توفيق كى دعا كرتے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ مقام تسليم كے مختلف درجات اور مراتب ہيں _

۴۴۳

۶ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى تمام تر ذريت تسليم كے اعلى درجات كے حصول كى لياقت نہيں ركھتي_و من ذريتنا امة مسلمة لك '' من ذريتہا'' ميں '' من'' تبعيض كے لئے ہے اور مذكورہ بالا مفہوم كو بيان كرتاہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى پروردگار سے دعاؤں ميں سے ايك دعا اللہ تعالى كى عبادت كا طريقہ اور اسكے آداب كى تشريح و تفسير تھا_و ارنا مناسكنا

'' مناسك' ' كا مفرد '' منَسَك'' ہے جس كا معنى عبادت كا طريقہ ہے ( لسان العرب) پس ''ارنا مناسكنا'' يعنى اے اللہ ہميں اپنى عبادت كرنے كا طريقہ دكھا_

۸_ كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے دعا كى كہ انہيں اعمال حج كى كيفيت سكھائے_ربنا ارنا مناسكنا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ مناسك كا معنى اعمال حج ہوں جيسا كہ بعض اہل لغت اور بعض مفسرين نے يہى معنى كيا ہے_

۹_ احكام دين كى قانون سازى اورعباد ت كى كيفيت كا بيان كرنا خداتعالى كى شان ہےربنا ارنا مناسكنا

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے چاہا كہ ان كى اور ان كى اولاد كى توبہ كو قبول فرمائے _و تب علينا

۱۱ _ انسان جس بھى مقام و منزلت كا مالك ہو اپنے الہى فرائض كى ادائيگى ميں عاجز ہے_و تب علينا

حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام جو گناہ اور معصيت الہى سے پاك و منزہ ہيں اس كے باجود اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كرتے ہيں اور اس توبہ كى قبوليت كے خو اہشمند ہيں اس ميں بعض نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ انسان جس مقام و منزلت پربھى فائز ہو اللہ تعالى كى بندگى كا فريضہ ادا كرنے سے معذور ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى توّاب ( بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم (بہت زيادہ مہربان) ہے _انك انت التواب الرحيم

۱۳ _ اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم ہونے كى توفيق ، اللہ تعالى كا عبادت كى كيفيت بيان كرنا اور اللہ رب العزت كا توبہ قبول كرنا بندوں پر اسكى رحمت كے پرتو ہيں _ربنا و اجعلنا مسلمين و ارنا منا سكنا و تب علينا انك انت التواب الرحيم

۴۴۴

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دعا انسان كى معنوى خواہشات كى تكميل ميں موثر ہے _ربنا و اجعلنا مسلمين لك و تب علينا

۱۵ _ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت ہے''لما فرغ ابراهيم من بناء البيت قال: فعلت اى رب فارنا مناسكنا ابرزها لنا علّمنا ها فبعث الله جبرائيل فحجّ به (۱) حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى تعمير سے فارغ ہوگئے تو عرض كيا يا اللہ ميں نے اپنى ذمہ دارى كو ادا كيا پس اے اللہ تو ہمارے لئے اعمال حج كو آشكار فرما اور ان كو ہميں سكھادے_ تو پس اللہ تعالى نے حضرت جبرائيلعليه‌السلام كو بھيجا تو انہوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ہمراہ اعمال حج انجام ديئے ( يعنى عملاً حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو اعمال حج دكھائے)_

احتياجات: معنوى احتياجات كى تكميل ۱۴

اسماء اور صفات: توّاب ۱۲; رحيم ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۹; اللہ تعالى كى توفيقات۱۳; رحمت الہى كے مظاہر ۱۳

انسان: انسان كى معنوى خواہشات۱۴; انسان كا عاجز ہونا ۱۱

بندگي: بندگى كى روش۴

توبہ: توبہ كى قبوليت كى درخواست ۱۰; توبہ كى قبوليت ۱۳

توفيق: توفيق كے اسباب ۱۳

حج: اعمال حج كى تعليم ۸،۱۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيم اور كعبہ كى تعمير ۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات ۷،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰،۱۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى محبت و رجحانات۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

حضرت اسماعيلعليه‌السلام :

____________________

۱) جامع البيان (طبري) ج/۱ ص۵۵۵ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۳۳۲_

۴۴۵

حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱،۲،۷،۸،۱۰; حضرت اسماعيل كى محبت۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۸،۱۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۲،۳،۶،۱۰

دعا: دعا كے نتائج ۱۴

دين: دين كى قانون سازى كا سرچشمہ ۹

رجحانات: نسل سے محبت كے رجحانات

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ ( ۱۲۹ )

پروردگار ان كےدرميان ايك رسول مبعوث فرما جو ان كےسامنے تيرى آيتوں كى تلاوت كرے _ انھيں كتاب و حكمت كى تعليم دے اور ان كے نفوسكو پاكيزہ بنائے بيشك تو صاحب عزّت اورصاحب حكمت ہے (۱۲۹)

۱ _ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے كسى ايك پيامبرعليه‌السلام كى بعثت كے لئے كعبہ كى تعمير كے وقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعائيں كيں _و من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم

روايت:۱۵

سر تسليم خم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۱،۲،۴،۱۳; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے مراتب ۵،۶; سر تسليم خم ہونے كا مقام ۲،۶

عبادت: عبادت كے آداب كى تشريح ۷; عبادت كى كيفيت كا بيان و تشريح ۷،۹،۱۳

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱،۸،۱۵

''فيہم'' اور ''منھم'' كى ضمير ممكن ہے ماقبل آيہ ميں '' امة مسلمة'' كى طرف لوٹتى ہواور ممكن ہے آيت مجيدہ ۱۲۶ ميں '' اہلہ'' كى طرف پلٹتى ہو _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے يعنى''ربنا و ابعث فى ذريتنا المسلمة رسولاً منهم'' _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى مشتركہ دعا اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ مورد نظر پيامبر (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نظر ميں اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ہے نہ كہ كسى دوسرے فرزند كى نسل سے_

۲ _ آيات الہى كى تلاوت كرنا ، آسمانى كتاب كى تعليم دينا، حكمت (دينى احكام، معارف و غيرہ ) سكھانا اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كو آلودگيوں ، كثافتوں اور نجاستوں سے پاك كرنا اس پيامبر كى

۴۴۶

خصوصيات تھيں جس كى بعثت كے ليئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى تھي_

ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم

۳ _ حضور سرور دو عالم محمد مصطفى (ص) ہى وہ بنى ہيں كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے اپنى نسل سے جن كى بعثت كيلئے دعا كى تھي_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يزكيهم سب مفسرين كے مطابق ''رسولاً'' سے مراد پيامبر عظيم الشان اسلام حضرت محمد مصطفى (ص) ہيں _

۴ _ اپنى اولاد اور نسل كے لئے دعا كرنا كہ وہ احكام الہى سيكھيں اور ان كى دينى تربيت ہو ايك اچھا اور نيك شگون عمل ہے _ربنا ابعث فيهم رسولاً و يزكيهم

۵ _ وہ نسل، اولاد اور ذريت جو دينى تعليمات كے ساتھ ليس ہو اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہو ايسى اولاد اپنے اسلاف كے لئے سربلندى و سرفرازى كا سبب ہے _ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم و يزكيهم

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كى بعثت اورخود عوام ميں سے ان كا انتخاب اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم

۷_آيات الہى كى تلاوت كرنا، آسمانى كتاب كى تعليم دينا ، حكمت سكھانا اور لوگوں كو آلودگيوں ، كثافتوں سے پاك كرنا انبياء (عليہم السلام) كے فرائض اور ان كى بعثت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة و يزكيهم

۸_ امتوں كا مقام تسليم و رضاتك پہنچنا انبياءعليه‌السلام كى بعثت ، آسمانى كتاب اور دينى احكام و معارف كى تعليم اور آلودگيوں سے پاك و منزہ ہونے سے ممكن ہے _من ذريتنا امة مسلمة لك ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا ...يزكيهم ''امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے درخواست كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا اپنى نسل سے ايك نبى كى بعثت كے لئے دعا كرنا لگتا ہے اسلئے تھا كہ : '' امت مسلمة'' كى تشكيل كے لئے بعثت اور اس كے اہداف بنيادى ترين ضروريات ميں سے ہيں _

۹_آسمانى كتاب كى تعليم ، حكمت اور الہى احكام و معارف كا سيكھنا اور خود كو آلودگيوں اور كثافتوں سے پاك ركھنا انبيائے الہىعليه‌السلام كى نظر ميں بہت بلند و ارفع مقام و منزلت كا باعث ہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يتلوا و يزكيهم

۴۴۷

۱۰_ اللہ تعالى ہى تنہا عزيز ( كامياب اور شكست ناپذير) اور فقط وہى حكيم ( ايسى ہستى جو امور كى نہايت محكم و مستحكم بنياد ركھے ) ہے _انك انت العزيز الحكيم

۱۱ _ انبيائ( عليہم السلام )كى بعثت اللہ تعالى كى عزت و حكمت كا ايك پرتو ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً انك انت العزيز الحكيم

۱۲ _ دعا كے اختتام پر اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _ربنا و ابعث انك انت العزيز الحكيم

۱۳ _ اللہ تعالى كى ستائش و تعريف كرنا اسكى بارگاہ ميں دعا كى قبوليت كے لئے موثر ہے_ ربنا وابعث فيهم انك انت العزيز الحكيم

۱۴ _ رسول اسلام (ص) كا ارشاد ہے''انا دعوة ابراهيم قال و هو يرفع القواعد من البيت ربنا و ابعث فيهم رسولاً منهم ''(۱) ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى قبول شدہ دعا ہوں حضرت ابراہيمعليه‌السلام جب كعبہ كى ديواريں بلند فرماررہے تھے تو انہوں نے عرض كيا اے ہمارے رب ان كے درميان انہيں ميں سے ايك رسول كو مبعوث فرما ...''

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كى تعليمات كے نتائج ۸; آسمانى كتابوں كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; آسمانى كتابوں كى تعليمات ۲،۷

آيات الہي: آيات الہى كى تلاوت ۲،۷

اسماء اور صفات: حكيم۱۰;عزيز۱۰

اقدار: ۵،۹

قدروں كا معيار ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۱۰; حكمت الہى كے مظاہر ۱۱; عزت الہى كے مظاہر ۱۱; الہى نعمتيں ۶

امتيں : امتوں كى اطاعت يا سر تسليم خم ہونا ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى بعثت كے آثار۸; انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۷ انبياءعليه‌السلام كابشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۱۱; ابنياءعليه‌السلام كى

____________________

۱) الدر المنثور ج/۱ ص۳۳۴_

۴۴۸

بصيرت ۹; جس نبى (ص) كے لئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; جس نبى (ص) كےلئے حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى ۱،۲،۳; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

اولاد: تربيت اولاد۴; اولاد كى تعليم ۴; اولاد و نسل كے لئے دعا ۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل سے ۳; پيامبر اسلام (ص) حضزت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل سے ۳; آنحضرت (ص) كے درجات ۱۴; آنحضرت (ص) كى نبوت ۱۴; آنحضرت (ص) كے اسلاف و بزرگان ۳

تزكيہ : تزكيہ كے آثار۸; تزكيہ كى قدر و قيمت۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۱، ۱۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل ۳

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل كا تزكيہ۲; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى خواہشات۱،۲،۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا ۱;حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نسل ۱،۳

حكمت: حكمت كى تعليم كى قدر و قيمت ۹; حكمت كى تعليم ۲،۷

حمد: حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳

دعا: دعا كے آداب ۱۲; دعا ميں حمد بارى تعالى ۱۲،۱۳ دعا كى قبوليت كى بنياد۱۳

دين : دينى تعليم كے نتائج ۸; دينى تعليم كى قدر و منزلت ۹; دينى تعليم ۲،۴

روايت:۱۴

سر تسليم خم ہونا: مقام تسليم و رضا كا حصول ۸

عمل: پسنديدہ عمل ۴

عوام: عوام كا تزكيہ نفوس ۷

كعبہ: كعبہ كى تعمير ۱

نسل : صالح اولاد يا نسل كى قدر وقيمت۵; مؤمن نسل كى قدر و منزلت ۵; سربلند و باعظمت نسل ۵

۴۴۹

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( ۱۳۰ )

اور كون ہے جو ملّتابراہيم سے اعراض كرے مگر يہ كہ اپنے ہيكو بيوقوف بنائے _ اور ہم نے انھيں دنياميں منتخب قرارديا ہے اور وہ آخرت ميں نيك كردار لوگوں ميں ہيں ( ۱۳۰)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شريعت اور مكتب عاقلانہ اور خردمند انہ ہے جبكہ اسكى پيروى كرنا عقل و خردمندى كا ثبوت ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۲ _ فقط احمق ، سفيہ اور بے وقوف لوگ ہيں جوحضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مكتب سے منحرف ہوئے ہيں اور قبول نہيں كرتے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''رغبة'' كا لفظ جب اپنے مشتقات كے ہمراہ حرف ''عن'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو انحراف اور روگردانى كا معنى ديتاہے_ '' من يرغب '' ميں ''من'' اسم استفہام ہے جو يہاں استفہام انكارى كے طور پر آياہے_

۳ _ انسان فقط اپنى عقل كو فريب دے كر اديان الہى سے گريزاں ہوتاہے_و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

''سفہ'' كا مفعول ''نفسہ'' ہے پس ''من سفہ نفسہ'' يعنى وہ شخص جس نے خود كو حماقت و بےوقوفى ميں مبتلا كيا ہے البتہ مذكورہ مطلب ميں اسكے لئے '' عقل كو فريب دينے'' كى تعبير استعمال كى گئي ہے _

۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مكتب و آئين دين اسلام كى بنياد ہے _و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

قرآن حكيم انسانوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت ديتاہے اور دين ابراہيمىعليه‌السلام سے انحراف اور روگردانى كو جائز نہيں سمجھتا اس سے معلوم ہوتاہے كہ ہر دو اديان كى ماہيت ايك ہى ہے جبكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ،اسلام كى اساس و بنياد ہے _

۵ _ توحيد ربوبى وافعالى اور اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا، آنحضرت (ص) كى رسالت اورآپ (ص) كى كتاب (قرآن كريم ) كى تصديق كرنا دين ابراہيمىعليه‌السلام كے

۴۵۰

اصولوں ميں سے ہے _ربنا تقبل منا واجعلنا مسلمين لك ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملة ابراهيم

مورد بحث آيہ مجيد ہ انسانوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے انتخاب كى دعوت دے رہى ہے اور گزشتہ آيات اس دين كے اصولوں كى طرف اشارہ ہے _ يہ جملہ ''ربنا تقبل ...'' بيان كررہاہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام توحيد ربوبى و افعالى اور پر اعتقاد ركھتے تھے_

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كو قبول كرنے كا لازمى نتيجہ اسلام كو قبول كرناہے_ربنا وابعث فيهم رسولاً و من يرغب عن ملةابراهيم الا من سفه نفسه يہ جملہ''ربنا و ابعث ...'' آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى بعثت كى طرف اشارہ ہے اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دينى اصولوں ميں سے ايك اصول كى حكايت كررہاہے_ بنابريں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين پر يقين كا نتيجہ دين اسلام كى حقانيت پر ايمان و ايقان ہے_

۷_ دين اسلام سے روگردانى حماقت و بے عقلى كى دليل ہے _ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم و من يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه

۸_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام دنيا ميں اللہ تعالى كى برگزيدہ شخصيت اور عالم آخرت ميں صالحين اور باعظمت انسانوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا وا نه فى الاخرة لمن الصالحين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كے خالص بندوں ميں سے ہيں _و لقد اصطفيناه فى الدنيا ''اصطفائ'' يعنى ہر چيز ميں سے ''صفوہ'' (خالص اور پاكيزہ) كا انتخاب كرنا _

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اخلاص ، اللہ تعالى كى طرف سے آپعليه‌السلام كا انتخاب اور عالم آخرت ميں آپعليه‌السلام كا صالحين كے ساتھ ملحق ہونا يہ دلائل ہيں جن كى بناپر آپعليه‌السلام كے دين كى اتباع ضرورى ہوجاتى ہے _

و من يرغب لقد اصطفيناه فى الدنيا و انه فى الاخرة لمن الصالحين

يہ جملے '' لقد اصطفيناہ'' اور ''انہ فى الاخرة ...'' اس جملہ ''و من يرغب ...'' كے لئے دليل كے طور پر ہيں _

۱۱ _ عالم آخرت ميں بعض اعلى و ارفع انسان صالحين كے عنوان سے حاضر ہوں گے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين

۱۲ _ اللہ تعالى كے خالص و برگزيدہ انسان قيامت كے دن صالحين كے ساتھ ملحق ہوں گے _

و لقد اصطفيناه فى الدنيا وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۴۵۱

احمق افراد:۲

اديان : اديان سے منہ موڑنے كى بنياد ۳

اسلام : اسلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴; اسلام سے منہ موڑنا ۷; اسلام كو قبول كرنے كى بنياد ۶

اللہ كے بندے : ۹ اللہ كے بندے قيامت ميں ۱۱،۱۲

برگزيدہ انسان : ۸، ۱۰ برگزيدہ انسان قيامت ميں ۱۱،۱۲

پيامبر گرامى اسلام (ص) : پيامبر گرامى اسلام (ص) كى تصديق ۵

توحيد : توحيد افعالى ۵; توحيد ربوبى ۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۸،۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خلوص ۹،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كے اصول ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا برگزيدہ ہونا ۸،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كي اتباع ۱،۱۰; دين ابراہيمىعليه‌السلام كا معقول ہونا ۱; دين ابراہيمىعليه‌السلام سے منہ پھيرنے والے ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۸،۹

حماقت و سفاہت: حماقت كى نشانياں اور دلائل ۷

خودفريبى : خودفريبى كے نتائج ۳

سرتسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۵

صالحين : ۸ صالحين آخرت ميں ۱۱; صالحين قيامت ميں ۱۲;صالحين كے درجات ۱۲

عالم آخرت : عالم آخرت ميں مختلف گروہ ۱۱

عقيدہ: دين ابراہيمىعليه‌السلام پر اعتقاد۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى تصديق ۵

مخلصين: مخلصين قيامت ميں ۱۲

۴۵۲

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۱۳۱ )

جب ان سےان كے پروردگار نے كہا كہ اپنے كو ميرےحوالے كردو تو انھوں نے كہا كہ ميں ربالعالمين كے لئے سراپا تسليم ہوں ( ۱۳۱)

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے چاہا كہ ہميشہ اس كے سامنے سر تسليم خم رہيں _إذ قال له ربه اسلم

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرمان الہى كو بلاتاخير قبول كيا اور اللہ رب العزت كے حضور سر تسليم خم ہونے كا اعلان كيا _قال اسلمت

۳ _ اللہ تعالى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا پروردگار اور تمام عالمين كا مدير و مدبر ہے _ربه لرب العالمين

۴ _ اللہ تعالى كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ( اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كا ) حكم دينا آپعليه‌السلام كى تربيت اور رشد و تكامل كے لئے تھا_إذ قال له ربه اسلم

يہ مطلب كلمہ''رب'' كہ جو مدير و مدبر اور تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے _ سے حاصل كيا گيا ہے _

۵ _اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونا اور اس كے فرامين كى اطاعت كرنا انسان كى تربيت اور رشدو تكامل كا باعث ہے_إذ قال له ربه اسلم

۶ _عالم آفرينش ميں مختلف جہان موجود ہيں _رب العالمين يہ مطلبكلمہ''عالمين''كے جمع استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس دليل عالم ہستى كے تمام جہانوں پر پروردگار عالم كى ربوبيت ہے_اسلمت لرب العالمين اللہ تعالى اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مابين گفتگو كا تقاضا يہ تھا كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اللہ تعالى كو جواب كے طور پر''اسلمت لك'' كہيں _ ''لك'' كى جگہ ''لرب العالمين'' كا لانا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حقيقت كو دليل كے ساتھ پيش كرنا يعنى يہ كہ جب حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے جان ليا كہ اللہ ہى رب

۴۵۳

العالمين ہے تو اسكے حضور سر تسليم خم ہوگئے_

۸_ جہان آفرينش پر اللہ تعالى كى ربوبيت پر يقين انسان كو اللہ تعالى كى اطاعت اوراسكے سامنے سر تسليم خم ہونے كى ترغيب دلاتاہے_اسلمت لرب العالمين

۹_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اللہ كے حضور سر تسليم ہونا ان كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے ساتھ ملحق ہونے كى دليل ہے _لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

''اذقال ...'' ميں ''اذ'' حرف تعليل ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب اور عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونے كى دليل ہے _

۱۰_ عالم آخرت ميں صالحين كے زمرے ميں شامل ہونا اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے اور اسكى اطاعت كرنے كے باعث ہے _و انه فى الاخرة لمن الصالحين _ إذ قال له ربه اسلم قال اسلمت

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كے نتائج ۵،۱۰; اللہ تعالى كى اطاعت كى بنياد ۸

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; ربوبيت الہى ۳،۷; اوامر الہي

ايمان: اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۸; ايمان كے متعلقات۸

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۸

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے آثار۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين ميں سے ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام عالم آخرت ميں ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے دلائل۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب كے اسباب ۹; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تربيت كے اسباب ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رشد و تكامل كے عوامل ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاواقعہ ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا مربى '' تربيت كرنے والا'' ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے درجات ۹

خلقت : كائنات كے مختلف عوالم۶; كائنات كے جہانوں كا مدير و مدبر ۳،۷

رشد: رشد كے عوامل ۵

سرتسليم خم ہونا:

۴۵۴

اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كے نتائج ۴،۵،۹،۱۰; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم ہونے كى اہميت ۱،۲; اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے دلائل ۷; اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كى بنياد۸

صالحين : صالحين عالم آخرت ميں ۹،۱۰; صالحين كے درجات ۱۰

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸;كا فلسفہ ۴; اوامر الہى كى قبوليت ۲

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ( ۱۳۲ )

اور اسى بات كى ابراہيم اور يعقوب نےاپنى اولاد كو وصيت كى كہ اے ميرے فرزندوالله نے تمھارے لئے دين كو منتخب كرديا ہےاب اس وقت تك دنيا سے نہ جانا جب تكواقعى مسلمان نہ جاؤ(۱۳۲)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ہر دو كے چند فرزند تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۲ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو اپنے دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه

''بہا'' كى ضمير ممكن ہے '' ملة ابراہيم _ آيہ مجيدہ ۱۳۰'' ميں كى طرف لوٹتى ہو اورممكن ہے جملہ '' اسلمت _ ما قبل آيت '' ميں كى طرف لوٹتى ہو _دونوں صورتوں ميں معنى ايك ہى بنتاہے كيونكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين وہى خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہوناہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين (اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا) كى اطاعت كى وصيت فرمائي _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب ''يعقوب'' ''ابراہيم'' پر عطف ہے گويا ''وصى بہا يعقوب بنيہ ''

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے

۴۵۵

پيروكار تھے اور اسى كى تبليغ كرنے والے تھے_و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب

۵ _دين ابراہيمىعليه‌السلام بہترين دين اور ہر طرح كے باطل و منحرف شبہات سے پاك و منزہ ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين ''اصطفائ''يعنى كسى بھى چيز ميں سے صفوہ (خالص و بہترين) كا انتخاب كرنا '' الدين'' ميں '' ال'' عہد ذكرى كا ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى طرف اشارہ ہے _

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ( خدا تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونا ) اللہ تعالى كا پسنديدہ اور برگزيدہ دين ہے_

ان الله اصطفى لكم الدين

۷ _ دين ابراہيمىعليه‌السلام كا ہر طرح كے باطل و انحراف سے منزہ ہونا اور اس دين كا اللہ تعالى كى طرف سے انتخاب ہونا علت ہے اس امر كى كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اس دين كو قبول كرنے كى وصيت و نصيحت فرمائي _و وصى بها ابراهيم يا بنى ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن

جملہ '' لا تموتن ...'' كى جملہ '' ان اللہ ...'' پر حرف '' فائ'' كے ذريعے تفريع مذكورہ مطلب كى حكايتكرتى ہے _

۸ _ اللہ تعالى انسان كے لئے جو كچھ انتخاب فرماتاہے اور اسكا حكم ديتاہے اس كو قبول كرنا ضرورى ہے _

ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

'' فلا تموتن ...'' ميں '' فائ'' سببيہ ہے يعنى اس كے مابعد جو كچھ واقع ہواہے وہ ماقبل جملے كے مضمون كا نتيجہ ہے پس جملے كا يہ معنى ہے _ چونكہ اللہ تعالى نے دين ابراہيمىعليه‌السلام (اللہ جل جلالہ كے حضور سرتسليم خم ہونا ) كو تمہارے لئے انتخاب فرمايا ہے پس ہميشہ اسى كے ساتھ وابستہ رہنا ضرورى ہے _

۹ _اديان الہى كى اتباع اور پيروى كا خود انسان كو فائدہ ہے _اصطفى لكم الدين يہ مفہوم '' لكم'' كے ''لام'' كى بناپرہے_

۱۰_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى اولاد سے چاہا كہ ہميشہ اللہ كے حضور سر تسليم خم رہيں اور اس كے فرمان كى اطاعت كريں _فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اللہ تعالى كے حضور ہميشہ سر تسليم خم رہنے اور ہميشہ اسى كے مطيع فرمان رہنے كے لئے جملہ ''فلا تموتن ...'' كنايہ ہے _

۱۱ _ اديان الہى كى تعليمات كا محور اور ان كى روح خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہونا ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۲ _ اپنى اولاد ميں صحيح دينى خطوط اور رجحانات پيدا كرنے سے محبت يہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت

۴۵۶

يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ميں سے ہے _وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بني

۱۳ _ اپنے بچوں كو دين الہى كے انتخاب كى طرف راغب كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

۱۴ _ دين الہى كے انتخاب اور اللہ رب العزت كى بارگاہ ميں سر تسليم ہونے كى وصيت كرنا وصيتوں ميں سے بہترين وصيت ہے _و وصى بها ابراهيم بنيه و يعقوب يا بنى فلا تموتن الا و انتم مسلمون

اديان : اديان كى اتباع ۹; اديان كى حقيقت ۱۱

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۰

اللہ تعالى : اوامر الہى كى قبوليت ۸

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے رجحانات۱۲ انسان: انسان كے فوائد اور منافع ۹

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمى كا انتخاب ۶،۷،; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فرزند ۱،۲; حضرت ا براہيمعليه‌السلام كے پيروكار ۴; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى اطاعت ۲،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى وصيتيں ۲،۷; دين ابراہيمعليه‌السلام كى حقانيت ۵،۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۱۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى قبوليت ۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲; دين ابراہيمىعليه‌السلام كى خصوصيات۵،۶،۷

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتيں ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہشات ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى وصيتوں كے دلائل ۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رجحانات ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۴

دين: برگزيدہ دين ۵،۶،۷; دين كى قبوليت ۱۴; برگزيدہ دين كا قبول كرنا ۸

سر تسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كى اہميت ۲ ، ۳ ، ۶ ،۱۰،۱۱،۱۴

فرزند: فرزند كى دينى تربيت ۱۲،۱۳

والدين: والدين كى ذمہ دارى ۱۳

وصيت : بہترين وصيت ۱۴

۴۵۷

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ( ۱۳۳ )

كيا تم اس وقتتك موجود تھے جب يعقوب كا وقت موت آيااور انھوں نے اپنى اولاد سے پوچھا كہميرے بعد كس كى عبادت كروگے تو انھوں نےكہا كہ آپ اور آپ كے آباء اور اجدادابراہيم و اسماعيل و اسحاق كے پروردگارخدائے وحدہ لاشريك كى اور ہم اسى كےمسلمان اور فرمانبردار ہيں (۱۳۳)

۱_ يہوديوں كے جھوٹے اور كاذب دعووں ميں سے تھا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى _ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت ''ام'' منقطعة ہے جس ميں استفہام انكارى كا معنى پايا جاتاہے _شہداء شہيد كى جمع ہے اور اس كا معنى حاضرين بنتاہے يہ يہوديوں كو خطاب ہے

پس ''ام كنتم شہداء ...'' يعنى تم يہودى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كے وقت موجود نہ تھے( پس تم كيسے يہ دعوى كرتے ہو كہ يعقوبعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت اور تاكيد كى ؟)

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چند فرزند تھے_إذ قال لبنيه يہ مطلب اس وجہ ہے كہ''بنيہ'' كا لفظ جمع استعمال ہواہے_

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندان آپعليه‌السلام كے زمانہ حيات ميں موحد اور خدائے يكتا و لا شريك كى عبادت كرتے تھے_إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي يہ مطلب ''من بعدي'' كى قيد سے سمجھ ميں آتاہے _

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو خوف تھا كہ ان فرزندوں ميں آپعليه‌السلام كے بعد كہيں دينى اعتقادات ختم نہ ہوجائيں _

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۵ _ انبياءعليه‌السلام كى رحلت كے بعد امتوں كے مرتد ہونے كا خطرہ پايا جاتاہے_

إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۶ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رحلت كا وقت نزديك آيا تو آپعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو توحيد پر باقى رہنے كى دعوت اور يكتاپرستى كى وصيت فرمائي _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۴۵۸

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزندوں نے آپعليه‌السلام كو اطمينان دلايا كہ وہ لوگ خدائے بزرگ و برتر كى پرستش كريں گے اور اسى كے سامنے سر تسليم خم ہوں گے _قالوا نعبد الها واحداً

۸_ اپنے فرزندوں كى دينى تربيت اور اسكے نتائج كى طرف توجہ دينا اور اس بارے ميں احساس ذمہ دارى كرنا ضرورى و لازمى ہے _إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۹_ توحيد پرستوں كو چاہيئے كہ جب انكى رحلت كا وقت نزديك ہو تو اپنے پس ماندگان كو توحيد اور خدائے بزرگ و برتر كى عبادت پہ قائم و دائم رہنے كى وصيت ضرور كريں _إذ حضر يعقوب الموت إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام خدائے يكتا كى پرستش كرنے والے توحيد پرست ہيں _نعبد الهلك واله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق

۱۱ _ اسلاف كے دينى عقائد فرزندوں كے عقيدتى رجحانات ميں بہت زيادہ مؤثر ہوتے ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق الهاً واحداً حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فرزند '' نعبد اللہ الہاً واحداً'' جيسے جملے سے اپنے توحيدى عقيدہ اور عبادتى توحيد كا اظہار كرسكتے تھے ليكن اس مفہوم كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور كا نام لے كر بيان كرنا بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ كہ اسلاف اور بزرگوں كے عقائد فرزندوں اور ان كى نسل پر اثر انداز ہوتے ہيں _

۱۲ _ انسان كے دادا اور چچا والد كى طرح ہيں _نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل حضرت ابراہيمعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دادا اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام آپعليه‌السلام كے چچا تھے _ قرآن كريم نے ان كے لئے '' اب'' _( والد) كا لفظ استعمال كيا ہے _ يہ امر اس بات كى حكايت كرتاہے كہ عربى ميں '' اب'' كا لفظ دادا اور چچا دونوں كے لئے بھى استعمال ہوتاہے يا يہ كہ دادا اور چچا والدكى مانند ہيں _ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۳ _ خدائے وحدہ لا شريك كى عبادت سب كا عمومى فريضہ ہے _نعبد الها واحداً

۱۴ _ اللہ تعالى كى كامل اطاعت اور اس كے غير كے سامنے سر تسليم خم ہونے سے اجتناب ضرورى ہے_و نحن له مسلمون '' مسلمون'' پر '' لہ'' كا مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس '' نحن لہ مسلمون'' كا معنى يہ ہے كہ ہم فقط اللہ كے ہى حضور سر تسليم خم ہيں _

۴۵۹

۱۵ _ خدائے وحدہ پر عقيدہ، اسكى عبادت اور اسكى كامل اطاعت كے ہمراہ ہونا چاہيئے_نعبد الها واحداً و نحن له مسلمون ''تعبدون_( تم عبادت كرتے ہو) اور ''نعبد_ (ہم عبادت كرتے ہيں ) سے يہ ہم مفہوم نكلتاہے كہ خدائے وحدہ (توحيد ذاتي) پر ايمان ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ اسكى ذات اقدس كو ہى معبود جان كر اسكى پرستش كرنى چاہيئے _ جملہ ''نحن لہ مسلمون'' يہ بيان كررہاہے كہ اللہ كى عبادت و بندگى كے علاوہ اس كے فرامين و احكام كى بھى اطاعت كرنى چاہيئے_

۱۶_ اللہ تعالى كى وحدانيت اور اسكى عبادت كا عقيدہ اديان الہى كا اہم ترين اصول جبكہديگر اصولوں اور دينى احكام كى بنياد و اساس ہے _ما تعبدون من بعدى قالوا نعبد الهاً واحداً واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام دين كے تمام احكام اور اصولوں ميں سے فقط اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كو نجات كا ذريعہ نہ جانتے تھے بنابريں فقط '' ماتعبدون'' كا ذكر كرنا ممكن ہے اس امر كى حكايت كرتاہو كہ اولاً_ توحيد عبادى اہم ترين اصولوں ميں سے ہے ثانياً_ انسان اللہ تعالى كى عبادت كے ذريعے دين كے ديگر اصولوں كر احكام كى طرف راغب ہو اور ان پر عمل پيرا ہوجائيگا _

۱۷_تبليغ دين كے لئے مختلف روشوں اور انداز كو اختيار كرنا ايك اچھا اور احسن عمل ہے _ان الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن الا و انتم مسلمون إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي مورد بحث آيہ مجيدہ اور اس سے ماقبل كى آيت ہر دو كى دعوت توحيد كى طرف ہے ليكن دونوں ميں حالات كےمطابق بيان اور انداز ميں ايك فرق و تفاوت پايا جاتاہے _

۱۸_ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان اور انكى تشريح كرنى چاہيئے_ام كنتم شهداء إذ حضر يعقوب الموت

اللہ تعالى نے يہوديوں كے دعوى ( حضرت يعقوبعليه‌السلام نے دين يہوديت پر باقى رہنے كى وصيت كى ) كو اس جملہ '' ام كنتم ...( تم تو اس وقت موجود ہى نہ تھے) كے ساتھ بے بنياد اور بے اساس جاناہے _ اسكا معنى يہ ہے كہ واقعات كو علم و آگاہى كى بنياد پر بيان كرنا اور ان كى تشريح كرنى چاہيئے تا كہ ان كو قبول كيا جاسكے_

۱۹ _ انبياء (عليہم السلام) حتى اپنے فرزندوں كو بھى اللہ وحدہ اور اسكى عبادت كى قبوليت پر مجبور نہ كرتے تھے_

إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدى قالوا نعبدخدائے واحد كى عبادت كى طرف دعوت دينا اور وصيت كرنا اور اسكے ساتھ يہ سوال پوچھنا ( ما تعبدون ...؟) يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دين كى قبوليت اور اللہ تعالى كى عبادت بجا لانے ميں جبر نہيں ہے _

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785