تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200935 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

۲۰_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ '' قال تعالى فى قصة يعقوبعليه‌السلام ''قالوا نعبد الهك و اله آبائك ابراهيم و اسماعيل و اسحاق '' و اسماعيل عليه‌السلام كان عم يعقوب عليه‌السلام و قد سماه اباً فى هذه الايه (۱) حضرت يعقوبعليه‌السلام كے واقعہ ميں اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے( يعقوبعليه‌السلام كے فرزندوں نے اپنے والد كے جواب ميں كہا) ہم آپ كے اور آپ كے آباء ابراہيم ، اسماعيل اور اسحاق كے معبود كى عبادت كريں گے اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چچا تھے جبكہ اللہ تعالى نے اس آيت ميں آپعليه‌السلام كو والد كہا ہے_

اديان : اديان كے اصول ۱۶

ارتداد: ارتداد كا خطرہ ۵; ارتداد كى نبياد۵

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۵; اللہ تعالى كى اطاعت كى اہميت ۱۴

انبياء (عليہم السلام ): انبياءعليه‌السلام كى رحلت كے نتائج ۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۹; انبياء كى تربيتى خصوصيات ۱۹

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۱۳

اولاد: اولاد كى دينى تربيت ۸; اولاد كے رجحانات ۱۱

تاريخ : تاريخ كو نقل كرنے كى شرائط ۱۸

تبليغ: تبليغ ميں تنوع ۱۷; تبليغ كى روش ۱۷

تربيت: دينى تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۱

توحيد : توحيد عبادتى كى اہميت ۱۰،۱۴; توحيد ذاتى ۱۵; توحيد عبادى ۶،۷،۹،۱۳،۱۵،۱۶; توحيد كے بارے ميں وصيت ۶،۹;دادا _ ۱۲

توحيد پرست افراد:۱۰ توحيد پرستوں كى ذمہ دارى ۹

چچا : ۱۲،۲۰ حضرت ابراہيمعليه‌السلام :

حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى توحيد ۱۰

____________________

۱) قصص الانبياء راوندى ص ۱۰۵ ح ۹۸_

۴۶۱

حضرت اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كى توحيد ۱۰

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چچا ۲۰; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى توحيد ۱۰

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كے نزع كا عالم ۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے ۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے توحيد پرست بيٹے ۳،۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد ۱۰; حضرت يعقوب كى وصيتيں ۱،۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا دين ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۳،۴،۶،۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور يہوديت ۱

خبر: خبر كے نقل كرنے ميں آگاہى ۱۸; خبر نقل كرنے كى شرائط ۱۸

دادا: ۱۲

دين :

دينى تبليغ ۱۷; دين ميں اكراہ و جبر كى نفى ۱۹

روايت: ۲۰

عبادت گزار لوگ :۱۰

سر تسليم خم ہونا : غير خداكے سامنے سر تسليم خم ہونے سے اجتناب ۱۴

عبادت: عبادت كى وصيت ۹; اللہ تعالى كى عبادت ۱۶

عبادت ميں جبر كى نفى ۱۹

عقيدہ: عقيدہ توحيد ۱۶

عمل: پسنديدہ عمل ۱۷

نظريہ كائنات (جہان بينى ) :

توحيدى نظريہ كائنات ۱۶

والد : والد كے رجحانات اور ترغيبات كے نتائج ۱۱

والدين : والدين كى ذمہ دارى ۸

يہود: يہوديوں كے دعوے ۱; يہوديوں كا جھوٹ ۱

۴۶۲

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( ۱۳۴ )

يہوديو يہ قوم تھى جو گذر گئي انھيں وہ ملے گاجو انھوں نے كمايا اور تمھيں وہ ملے گاجو كماؤ گے تم سے ان كے اعمال كے بارےميں سوال نہ ہوگا (۱۳۴)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كے فرزندان اللہ تعالى كى عبادت كرنے والى امت اور اسكے حضور سر تسليم خم ہيں _تلك امة قد خلت

'' تلك'' كا مشار اليہ ما قبل آيہ مجيدہ ميں مذكور انبياءعليه‌السلام اور ان كے فرزند ہيں _ مذكر كى طرف اشارہ كرنے كے لئے ''تلك'' كا استعمال خبر (امة) كى وجہ سے ہے _

۲ _ تمام انسان حتى عظيم الشان انبيائ( عليہم السلام) بھى دنيا ميں نہ رہے اور سب كو عالم آخرت كى طرف سفر كرنا ہوگا _تلك امة قدخلت ''خلت'' كا مصدر ''خلو'' ہے اسكا ايك معنى گزرناہے اور يہاں موت سے كنايہ ہے انبياء (عليہم السلام ) كى دنيا سے رحلت فقط ايك خبر ہى نہيں كيونكہ سب انسان اس سے آگاہ ہيں بلكہ يہاں مخاطبين كى توجہ اس حقيقت كى طرف دلانا مقصود ہے كہ اگر موت انبياءعليه‌السلام كى طرف آئي ہے تو تمہارا پيچھا بھى ضرور كرے گى اس سے غافل نہ رہو_

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے نيك اعمال كى جزا ان كے ساتھ مختص ہے_ اس سے دوسروں كو فائدہ نہيں پہنچے گا_تلك امة قد خلت لها ما كسبت

''ما كسبت'' پر ''لہا'' كو مقدم كرنا حصر كا باعث ہے بنابريں ''لہا ما كسبت'' يعنى ان كے اعمال كى جزا اور فائدہ صرف انہى كو لوٹ كر جائے گا _

۴ _ يہوديوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور جيسے انبياءعليه‌السلام كى فضيلتوں اور نيك اعمال سے بہرہ مند ہونا ان كے نادرست اور ناصحيح عقائد ميں سے تھا_لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

يہ مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ اللہ تعالى

۴۶۳

نے يہوديوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اس حقيقت كو بيان فرماياہے كہ انبياءعليه‌السلام كے اعمال كى جزا صرف انہى كو ملے گي_

۵ _ ہر فرد او ر ہر امت اپنے ہى نيك اعمال كى جزا سے بہرہ مند ہوگى _لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

۶ _ ہر انسان اور ہر معاشرے كے عمل كا نتيجہ انہى سے متعلق ہے اور انہى كى طرف لوٹنا چاہيئے_

لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

۷_ ہر معاشرے اور امت كى ايك مو ت و حيات اور مستقل شخصيت ہے_تلك امة قد خلت

۸ _ انسان اپنے اسلاف كے اعمال كے ذمہ دار نہيں ہيں اور نہ ہى ان كے سبب انكا مؤاخذہ ہوگا_و لا تسئلون عما كانوا يعملون

۹_ يہوديہ باطل خيال كہ انكا كا مؤاخذہ ان كے اسلاف كے يہ اعمال كى بناپر ہوگا _ *و لا تسئلون عما كانوا يعملون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ يہوديوں كو مخاطب قرا ر دے كر يہ حقيقت بيان كى گئي ہے كہ تم اپنے اسلاف كے اعمال كے ذمہ دار نہيں ہو_

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كے ساتھ رشتہ دارى او ر ان كى نسل سے ہونا قيامت ميں كار ساز نہ ہوگا اور نہ ہى اپنے اعمال كے نتائج سے رہائي كا موجب بنے گا_تلك امة قد خلت لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

حضرت ابراہيم ،عليه‌السلام حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى نسل كومخاطب قرار ديتے ہوئے يہ مطلب بيان كرنا كہ انبياء ( عليہم السلام)كے اعمال كى جزا كا دوسروں كو فائدہ نہيں ہوگا _ مذكورہ بالا مطلب پر دلالت كرتاہے_

۱۱ _ انسانوں كے اعمال كے حساب كتاب اور ان كى جزا كے لئے عدل الہيلها ما كسبت و لكم ما كسبتم

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى جزائيں ۱۱; اللہ تعالى كى عدالت ۱۱

امتيں : عبادت گزار امتيں ۱; امتوں كى جزا ۵; امتوں كى حيات ۷; امتوں كى شخصيت ۷; امتوں كى موت ۷

انبيائ( عليہم السلام ): انبياء كى رحلت ۲

انسان : انسانوں كى موت ۲

جزا : جزا كا مختص ہونا ۳،۴، ۵; دوسروں كى جزا سے فائدہ اٹھانا ۳،۴; جزا دينے ميں عدالت ۱۱

۴۶۴

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كا امت ہونا ۱;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خاضع و خاشع ہونا ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كا خاضع و خاشع ہونا ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳،۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عبادت ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كى عبادات ۱

حضرت اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كا خاضع و خاشع ہونا ۱; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳،۴

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا خاضع و خاشع ہونا ۱; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خاشع و خاشع ہونا ۱; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳

رشتہ داري: انبياءعليه‌السلام سے رشتہ دارى ۱۰

سر تسليم خم ہونا : اللہ رب العزت كے حضور سرتسليم خم ہونے كى اہميت ۱

سزا : زا كا ذاتى ہونا ۸

سزائيں : سزاؤں كا ذاتى ہونا ۸; سزاؤں كا نظام ۱۱

عبادت گزار لوگ :۱

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴،۹

عمل : عمل كے نتائج ۶; عمل كى جزا ۵; عمل كا حساب كتاب ۱۱

فرزند: فرزند كى ذمہ دارى كا دائرہ ۸

قيامت : قيامت ميں رشتہ دارى ۱۰

معاشرہ: معاشروں كى زندگى ۷; معاشروں كى شخصيت ۷; معاشروں كى موت ۷

موت: موت كا حتمى ہونا ۲

نجات: اخروى نجات كے اسباب ۱۰

يہود: يہوديوں كا عقيدہ۴،۹; يہوديوں كا مؤاخذہ ۹; يہوديوں كے اسلاف ۹

۴۶۵

وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ( ۱۳۵ )

اور يہودى اورعيسائي كہتے ہيں كہ تم لوگ بھى يہودى اورعيسائي ہو جاؤ تاكہ ہدايت پاجاؤ تو آپكہہ ديں كہ صحيح راستہ باطل سے كتراكرچلنے والے ابراہيم كا راستہ ہے كہ وہمشركين ميں نہيں تھے (۱۳۵)

۱ _ يہود و نصارى ميں سے ہر كوئي چاہتا تھا كہ مسلمانوں كو اپنے دين كى طرف راغب كريں _و قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا يہ جو يہود و نصارى ايك دوسرے كو ہدايت يافتہ نہيں سمجھتے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جملہ ''قالوا ...'' ميں '' لف اجمالى '' پائي جاتى ہے جو دو جملوں كى حكايت كرتى ہے _ ايك ''قالت اليہود كونوا ہوداً تہتدوا'' دوسرے ''قالت النصارى كونوانصارى تہتدوا'' ما بعد آيت كى روشنى ميں مافوق جملے كے مخاطبين مسلمان ہيں _

۲ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى كا مسلمانوں كے خلاف اتفاق و اتحاد تھا باوجود اس كے كہ ان كے درميان شديد اختلافات پائے جاتے تھے_قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا آيت ميں '' لف اجمالى '' كا پايا جانا اور ايك ہى كلام ميں دو جملوں كا ہونا اس بات كى دليل ہے كہ يہو د ونصارى مسلمانوں كے خلاف متحد و متفق ہيں _

۳ _ يہود و نصارى ميں سے ہر ايك اپنے مكتب كو انسانيت كى ہدايت كا ذريعہ سمجھتے تھے_قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا

۴ _ يہو د و نصارى ہر ايك كا دين شرك كى آميزش كے باعث قابل ہدايت نہيں ہے _قل بل ملة ابراهيم

۵ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى پيروى ضرور ى ہے _كونوا هوداً قل بل ملة ابراهيم '' ملة ابراہيم''، '' اتبعوا _( پيروى كرو) يا ''نتبع_( ہم پيروى كرتے ہيں ) كے لئے مفعول ہے _

۶ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين بشريت كے لئے ہدايت كرنے والا دين ہے _قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا قل بل ملة ابراهيم حرف ''بل'' ما قبل جملے ميں موجود دعووں كى نفى اوراسكے مابعد كى ضد كے اثبات پر حكايت كرتاہے پس ''بل ملة ابراہيم'' يعنى يہود و نصارى كا دين قابل ہدايت نہيں _ لہذا انكى اتباع نہيں ہونى چاہيئے بلكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ہدايت بخش ہے اور اسكى پيروى كى جانى چاہيئے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام حق پرست اور باطل سے گريزاں انسان تھے _ملة ابراهيم حنيفاً ''حنيف'' اس كو كہتے ہيں جو ضلالت و گمراہى سے دور رہے اور صراط مستقيم كى طرف متوجہ رہے (مفردات راغب )

۴۶۶

۸ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ہرگز شرك كى طرف راغب نہ ہوئے اور نہ ہى وہ مشركين ميں سے تھے_و ما كان من المشركين

۹ _ يہود و نصارى نے اپنے دين كو شرك سے ملاكر آلودہ كيا _بل ملة ابراهيم حنيفاً و ما كان من المشركين

يہود و نصارى كے دين كى نفى كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى تائيد، حضرتعليه‌السلام كى تعريف كرنا كہ آپعليه‌السلام (ہميشہ) شرك و گمراہى سے دور رہے_ اشارہ ہے كہ يہود و نصارى نے اپنے دين كو شرك اور گمراہيوں سے آلودہ كرليا تھا_

۱۰ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين، دين اسلام كى بنياد و اساس ہے _قل بل ملة ابراهيم حنيفاً

۱۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نہ تو دين يہود كے پيروكار تھے اور نہ ہى دين نصارى پر تھے _قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا قل بل ملة ابراهيم حنيفاً

۱۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى بنياد و اساس توحيدہےملة ابراهيم حنيفاً و ما كان من المشركين

۱۳ _ توحيد پر زور دينا دين حق كى بنياد ى نشانيوں ميں سے ہے اور اس دين كے ہدايت بخش ہونے كى اہم ترين علامتوں ميں سے ہے _و قالوا تهتدوا بل ملة ابراهيم حنيفاً و ما كان من الشمركين

يہ جملہ ''و ماكان من المشركين '' در حقيقت حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے انتخاب كى دليل ہے اور اس دين كے ہدايت بخش ہونے اور اسكى پيروى كے لئے اہل ہونے كا اعلان بھى ہے گويا يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام چونكہ مشرك نہ تھے اور ان كا دين شرك سے آلودہ نہ تھا پس اسى لئے صرف اسى كى اتباع ہونى چاہيئے اور اسى دليل سے انكا دين ہدايت بخش ہے _

۱۴ _ دشمنوں كے غلط پراپيگنڈہ كا جواب دينا ضرورى ہے _قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا قل بل ملة ابراهيم حنيفاً آيہ مجيدہ ميں '' قل'' كا لانا اس ہدف كى خاطر ہے كہ دشمنان دين كے غلط پراپيگنڈہ كا جواب دينا ضرورى ہے _

۱۵ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''

۴۶۷

ان الحنيفة هى الاسلام'' (۱) (دين )حنيف وہى اسلام ہے _

۱۶ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے ''ما ابقت الحنيفة شيئاً حتى ان منها قص الشارب و قلم الاظفار والختان ''(۲) دين حنيف نے كوئي چيز (بغير حكم كے ) نہيں چھوڑى حتى مونچھوں كے بالوں كو چھوٹا كرنا ، ناخن كاٹنا اور ختنہ كے بارے ميں (بھى حكم ) ہے _

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۲; دين اسلام ۱۵; اسلام كا سرچشمہ۱۰

توحيد: توحيد كى اہميت ۱۳; دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں توحيد ۱۲

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور شرك ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور عيسائيت ۱۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور يہوديت ۱۱; دين ابراہيمىعليه‌السلام كے اصول ۱۲;د ين ابراہيمىعليه‌السلام كى اتباع ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى توحيد ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى حق پرستى ۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا حنيف ہونا ۷; دين ابراہيمىعليه‌السلام ۱۰،۱۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى صفات۷،۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا واقعہ ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كا ہدايت بخش ہونا ۶

دشمنان: دشمنوں كے پراپيگنڈہ كا جواب دينا ۱۴

دين : دين كى نگہدارى و حفاظت ۱۴; دين حق ۱۳; دين حنيف ۱۵،۱۶; دين كى حقانيت كے دلائل و نشانياں ۱۳

روايت : ۱۵،۱۶

عيسائي : مسلمانوں كے خلاف عيسائيوں كى كوششيں ۱; عيسائيوں كا عقيدہ ۳; صدر اسلام كے عيسائي ۲; عيسائي اور ہدايت۳

عيسائيت: عيسائيت ميں آميزش ۴،۹; عيسائيت ميں تحريف ۴،۹;عيسائيت اور شرك ۹; عيسائيت اور ہدايت ۴

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۲; مسلمانوں كے انحراف كے اسباب۱

ہدايت: ہدايت كے اسباب ۶

يہود: يہوديوں اور عيسائيوں كا اتحاد۲; يہوديوں كا عيسائيوں سے اختلاف ۲; يہوديوں كى كوشش ۱; يہوديوں كا عقيدہ ۳; صدر اسلام كے يہود ۲; يہود اور ہدايت۳

يہوديت: يہوديت ميں آميزش ۴،۹; يہوديت ميں تحريف ۴،۹; يہوديت اور شركت ۹; يہوديت اور ہدايت ۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۱ ح ۱۰۳ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۱_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۱ ح ۱۰۴ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۲_

۴۶۸

قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ( ۱۳۶ )

اور مسلمانو تم ان سے كہو كہ ہم الله پراور جو اس نےہمارى طرف بھيجا ہے اور جو ابراہيم ،اسماعيل ، اسحاق، يعقوب ، اولاد يعقوب كيطرف نازل كيا ہے اور جو موسى ، عيسى اور انبياء كو پروردگار كى طرف سے دياگيا ہے ان سب پر ايمان لے آے ہيں _ ہمپيغمبروں ميں تفريق نہيں كرتے اور ہم خداكے سچے مسلمان ہيں (۱۳۶)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام پر نازل ہونے والے احكام و معارف ، قرآن كريم اور اللہ تعالى پر ايمان لانا ضرورى ہے _قولوا آمنا بالله و ما انزل الينا و اما انزل الى ابراهيم و يعقوب

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نسل در نسل اولاد(بنى اسرائيل كے بارہ قبائل ) ميں انبياءعليه‌السلام اور آسمانى احكام و معارف تھے_قولوا آمنا بالله و ما انزل الى والاسباط

''سبط'' كى جمع '' اسباط'' ہے جسكا معنى پوتے پڑ پوتے ہيں آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد بنى اسرائيل كے بارہ قبيلے ہيں ہر قبيلے كا شجرہ نسب حضرت يعقوبعليه‌السلام كے ايك فرزند سے جاملتا تھا_ جملہ '' و ما انزل الى الاسباط'' بيان كررہاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پوتوں پڑ پوتوں ميں سے بعض افراد بطور نبى مبعوث ہوئے_

۳ _ اسباط (بنى اسرائيل كے قبائل ) كے ليئے ضرورى تھا كہ ان كى طرف بھيجے گئے انبياءعليه‌السلام اور احكام و معارف پر ايمان لائيں _آمنا بالله و ما انزل الينا الاسباط

۴ _ تورات و انجيل اور حضرت موسىعليه‌السلام اور حضرت عيسىعليه‌السلام كو عطا كيئے گئے آسمانى احكام و معارف پر ايمان لانا ضرورى ہے _آمنا بالله و ما اوتى موسى و عيسى

۵ _ يہود و نصارى نے دين الہى ميں تحريف كى اور الہى احكام و معارف كو غير دينى امور سے ملا جلاديا_

قولوا آمنا بالله و ما اوتى موسى و عيسى آيہ مجيدہ كا مورد خطاب يہود و نصارى ہيں اور وہ لوگ خود كو حضرت موسىعليه‌السلام اور حضرت عيسىعليه‌السلام كا پيروكار جانتے تھے پس تقاضائے كلام يہ تھا كہ ''و ما اوتى موسى و عيسى '' كى بجائے كہا جاتا ''و ما اوتيتم'' ليكن يہ امر اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام اور حضرت عيسىعليه‌السلام پر جو احكام و معارف نازل كيئے گئے تھے يہ وہ نہيں ہيں جو يہود و نصارى كے پاس ہيں _

۴۶۹

۶ _ تمام انبيائ( عليہم السلام) پر نازل ہونے والى آسمانى كتابيں اور احكا م و معارف پر ايمان لانا ضرورى ہے _

آمنا بالله و ما اوتى النبيون من ربهم

۷_ انبيائ( عليہم السلام )كو آسمانى كتابوں كا عطا كيا جانا اور ان پر دينى احكام و معارف كا نازل ہونا اللہ تعالى كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے _و ما اوتى النبيون من ربهم يہ مطلب لفظ '' رب' ' سے استفادہ ہوا ہے _

۸ _ مسلمانوں كو چاہيئے كہ تمام انبياءعليه‌السلام پر ايمان لائيں اور ايمان ميں تبعيض (بعض پر ايمان لانا اور بعض پر ايمان نہ لانا ) سے گريز كريں _لا نفرق بين احد منهم آيہ مجيدہ ميں چونكہ ايمان كے بارے ميں بحث ہوئي ہے پس ''لا نفرق بين احد منهم _ (ہم انبياء كے مابين فرق نہيں كرتے ) سے مراد ايمان ميں فرق نہ كرنا ہے نہ كہ ديگر جہات ميں _

۹ _ بعض انبياءعليه‌السلام پر ايمان لانا اور بعض كا كفر اختيار كرنا نہ توہدايت كا باعث ہے اور نہ ہى جائز ہے _

قالوا كونوا هوداً او نصارى تهتدوا لا نفرق بين احد منهم

۱۰_ مسلمانوں كو چاہيئے كہ يہود و نصارى كو تبليغ كريں كہ وہ قرآن كريم ، تمام انبيائ( عليہم السلام) ان پر نازل ہونے والے احكام و معارف اور تمام آسمانى كتابوں پر ايمان ركھتے ہيں _قولوا آمنا بالله و ما انزل الينا و ما انزل الى ابراهيم و ما اوتى النبيون يہ مطلب '' قولوا ...'' كہہ دو'' سے استفادہ ہوتاہے _ ماقبل آيت مقول لہ _'' جس كو يہ تبليغ كى جائے '' كو بيان كررہى ہے كہ اس سے يہود و نصارى مراد ہيں _

۱۱ _ سب كا فريضہ ہے كہ خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہوجائيں _و نحن له مسلمون

۱۲ _ غير خدا كے سامنے سر تسليم خم ہونا ناجائز ،ناپسنديدہ اور نہايت مكروہ عمل ہے _و نحن له مسلمون

'' مسلمون'' پر '' لہ'' كو مقدم كرنا حصر كا معنى ديتاہے پس اس جملہ '' نحن لہ مسلمون'' دو حقيقتوں كو بيان كر رہا ہے۱ _ اللہ كے حضور سر تسليم خم ہونا ۲ _ غير خدا كے سامنے تسليم خم نہ ہونا_

۱۳ _ مسلمان كو چاہيئے كہ يہوديوں اور نصرانيوں تك يہ بات پہنچاديں كہ وہ ان كى خواہشات كے سامنے ہرگز نہيں جھكيں گے _كونواهوداً او نصارى قولوا آمنا و نحن له مسلمون جملہ ''و نحن لہ مسلمون'' كا حصر يہود و نصارى كى بات پر ناظر ہے جو مسلمانوں سے چاہتے تھے كہ دين يہوديت و نصرانيت پر ايمان لے آئيں اور اہل يہود و نصارى ميں سے ہوجائيں _

۴۷۰

۱۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين تمام اديان الہى كى اساس و بنياد ہے _ملة ابراهيم حنيفاً قولوا آمنا بالله و ما انزل الينا و ما انزل الى ابراهيم و ما اوتى النبيون يہ جملہ ''بل ملة ابراہيم ...'' بيان كررہاہے كہ فقط دين ابراہيمىعليه‌السلام قابل قبول ہے _ مورد بحث آيت تمام انبياءعليه‌السلام ، ان كى كتابوں اور ان پر نازل ہونے والے احكام و معارف پر ايمان كو ضرورى قرار دے رہى ہے ان دو باتوں كے تقابل سے يہ معنى نكلتاہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے بعد سب اديان كى بنياد و اساس دين ابراہيمىعليه‌السلام ہى رہاہے_

۱۵ _يہود و نصارى فقط بعض انبياءعليه‌السلام پر ايمان ركھتے تھے _لا نفرق بين احد منهم جملہ ''و ما اوتى النبيون'' سب انبيائ( عليہم السلام) پر ايمان كو ضرورى قر ار دے رہاہے _ اس جملہ كى '' و لا نفرق ...'' سے تاكيد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ مخاطبين (يہود و نصارى ) تمام انبياءعليه‌السلام پر ايمان نہيں ركھتے تھے_

۱۶_ اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كا لازمى نتيجہ تمام انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابوں پر ايمان ہے _

آمنا بالله و ما انزل الينا و نحن له مسلمون جملہ''و نحن لہ مسلمون'' ہوسكتاہے آيہ مجيدہ ميں مذكورہ حقائق كى دليل كے طور پر آياہو_

۱۷_ اللہ تعالى انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابوں پر ايمان اور پروردگار كے حضور سرتسليم خم ہونا دين اسلام كے اركان ميں سے ہے _قولوا آمنا بالله و نحن له مسلمون

۱۸_حنان بن سدير عن ابيه عن ابى جعفر عليه‌السلام قال قلت له كان ولد يعقوب عليه‌السلام انبياء ؟ قال لا و لكنهم كانوا اسباطاً اولاد الانبياء (۱) حنان بن سدير اپنے والد سے روايت كرتے ہيں كہ انہوں نے امام باقرعليه‌السلام سے سوال كيا كيا حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد انبياء تھے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا نہيں بلكہ وہ لوگ اسباط تھے اور انبياءعليه‌السلام كى اولاد تھے_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كا عطا ہونا ۷

اديان : اديان كا سرچشمہ ۱۴

اسباط : اسباط جو انبياءعليه‌السلام تھے ۲ اسباط كى تعليمات۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۲ ح ۱۰۶ ، مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۰۵_

۴۷۱

اسلام: اركان اسلام ۱۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۷

انسان : انسانوں كى ذمہ دارى ۱۱

ايمان: انجيل پر ايمان كى اہميت ۴; تورات پر ايمان كى اہميت ۴; اللہ تعالى پر ايمان كى اہميت ۱; قرآن كريم پر ايمان كى اہميت ۱; آسمانى كتابوں پر ايمان كى اہميت ۶;ان انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۸،۹، ۱۰، ۱۶، ۱۷; ان انبياءعليه‌السلام پر ايمان جو اسباط تھے ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تعليمات پرا يمان ۱; اسباط كى تعليمات پر ايمان ۳; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۱; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۱; انبياءعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۶; حضرت عيسىعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۴; حضرت موسىعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۱; اللہ تعالى پر ايمان ۱۷; قرآن كريم پر ايمان ۱۰; آسمانى كتابوں پر ايمان ۶،۱۰،۱۶،۱۷; ايمان ميں تبعيض ۸،۹،۱۵; ايمان كے متعلقات ۱ ،۳ ،۴،۶،۸،۹،۱۰،۱۶،۱۷

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمى ۱۴

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كے اسباط ۱۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نسل ۲

دين : نزول دين ۷

روايت:۱۸

سر تسليم خم ہونا : اللہ رب العزت كے حضور سر تسليم خم ہونے كے نتائج ۱۱،۱۶،۱۷; غير اللہ كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۱۲

عيسائي: عيسائيوں كا ايمان ۱۵; عيسائيوں كا تحريف كرنا ۵

عيسائيت: عيسائيت ميں تحريف ۵

عمل: ناپسنديدہ عمل ۹،۱۲

كفر: انبياءعليه‌السلام كا كفر اختيار كرنا ۹

مسلمان : مسلمانوں كى تبليغ ۱۰،۱۳; مسلمانوں كى ذمہ دارى ۸،۱۰،۱۳; مسلمان اور عيسائي ۱۳; مسلمان اور يہودي۱۰،۱۳

۴۷۲

ہدايت: ہدايت كے اسباب ۹

يہودي: يہوديوں كا ايمان ۱۵; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۵

يہوديت: يہوديت ميں تحريف ۵; يہوديت ميں آميزش۵

فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( ۱۳۷ )

اب اگر يہ لوگبھى ايساہى ايمان لے آئيں گے تو ہدايتيافتہ ہوجائيں گے اور اگر اعراض كريں گےتو يہ صرف ہناد ہوگا اور عنقريب الله تمھيں ان سب كے شر سے بچالے گا كہ وہ سننے والابھى ہے اور جاننے والا بھى ہے (۱۳۷)

۱_ اللہ تعالى ، تمام انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابوں پر ايمان لانے اور پروردگار كے حضور سر نياز جھكانے سے ہدايت كے مقام تك پہنچنا ممكن ہے _فان آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا

۲ _ يہود و نصارى جب تك قرآن حكيم، تمام انبياءعليه‌السلام اور تمام آسمانى كتابوں پر ايمان نہ لائيں ہدايت يافتہ نہيں ہيں _

فان آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا '' آمنوا'' اور ''اہتدوا'' كى فاعلى ضميرسے مراد آيت ۱۳۵ كى روشنى ميں يہود نصارى ہيں _

۳ _ معارف اسلام كى آگاہى حاصل ہوجانے كے بعد ان كو قبول نہ كرنا حق كے خلاف ڈھٹائي اور اس كے خلاف ستيزہ كارى كے مترادف ہے_قولوا آمنا بالله فان آمنوا و ان تولوا فانما هم فى شقاق

۴ _ يہو د و نصارا كو تبليغ كيئے گئے معارف ( قرآن كريم ، تمام انبياءعليه‌السلام اور پر ايمان ) كو اگر وہ قبول نہ كريں تو اسلام و مسلمين كے خلاف سرگرم عمل دشمن تصور ہوں گے _فان آمنوا فقد اهتدوا و ان تولوا فانماهم

۴۷۳

فى شقاق

''شقاق'' كا معنى دشمنى اور مخالفت كرناہے حرف ''في'' اس بات كى نشاندہى كررہاہے كہ اسلام كى دشمنى اور مخالفت نے يہود و نصارى كے سارے وجود كو گھيرا ہوا ہے _

۵ _ اللہ تعالى نے نبى اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو خوش خبرى دى كر اسلامى معاشرہ يہودو نصارى كے شر سے محفوظ ہوجائے گا _فانما هم فى شقاق فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم

۶ _ انبياءعليه‌السلام كے مخلافين كى سازشوں ، سرگرميوں اور ستيزہ كارى كے شر كو دور كرنے كے ليئے اللہ تعالى كا فى ہے_

فسيكفيكهم الله

۷_ يہود و نصارى كا قرآن كريم اور اسلامى معارف پر ايمان نہ لانا دشمنى و ستيزہ كارى ہے_و ان تولوا فانماهم فى شقاق

۸_ اللہ تعالى سميع (سننے والا) اور عليم ( جاننے والا) ہے_وهو السميع العليم

۹_ اللہ تعالى دشمنان اسلام كى گفتگو ، باتوں ، افكار اور سازشوں سے آگاہ ہے _فانما هم فى شقاق فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم

۱۰_ انسانوں كے اركان ايمان كے اقرار و اعتراف كو اللہ تعالى سننے والا ہے اور ان كے افكار و عقائد سے آگاہ ہے _

فان آمنوا فقد اهتدوا و هو السميع العليم

اس مطلب ميں جملہ ''وہو السميع العليم'' كا آيہ مجيدہ كے صدر سے ارتباط كے حوالے سے معنى كيا گيا ہے _

۱۱_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا آيہ مجيدہ ''فانما ہم فى شقاق'' ميں شقاق سے مراد كفر ہے(۱)

اسلام: دشمنان اسلام۴

اسماء اور صفات: سميع ۸; عليم ۸

اقرار: ايمان كا اقرار ۱۰

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بشارتيں ۵; اللہ تعالى كا سننا ۱۰; علم الہى ۹،۱۰; قدرت الہى ۶

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۰۶ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۵۷ ح ۳_

۴۷۴

اہل كتاب: اہل كتاب كا كفر ۱۱

ايمان: انبياءعليه‌السلام پر ايمان كے نتائج ۱; اللہ تعالى پر ايمان كے آثار۱; آسمانى كتابوں پر ايمان كے نتائج ۱

پيامبر اسلام(ص) : پيامبر اسلام (ص) كو بشارت دينا ۵

حق : حق كو قبول نہ كرنے كى علامتيں ۳

دشمن: دشمنوں كى سازشوں سے آگاہى ۹; دشمنوں كے شر كو دفع كرنا ۶

دشمنى : دشمنى كى علامتيں يا نشانياں ۳

روايت:۱۱

سر تسليم خم ہونا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم ہونے كے آثار۱

علم: علم كے آثار۳

عيسائي: عيسائيوں كى دشمنى كے نتائج ۷; عيسائيوں كى دشمنى ۴; عيسائيوں كے شركا دفع ہونا ۵; عيسائيوں كى ہدايت كى شرائط ۲; عيسائيوں كا كفر ۷

كفر : انبياءعليه‌السلام كا كفر اختيار كرنے كےآثار ۴; قرآن كريم كا كفر اختيار كرنے كے نتائج ۴; اسلام كا كفر ۳،۷; قرآن كريم كا كفر ۷

مسلمان : مسلمانوں كى حمايت ۵; مسلمانوں كے دشمن ۴

ہدايت: ہدايت كے اسباب ۱

يہودي: يہوديوں كى دشمنى كے نتائج ۷; يہوديوں كى دشمنى ۴; يہوديوں كے شركا دفع ہونا ۵; يہوديوں كى ہدايت كى شرائط ۲; يہوديوں كا كفر ۷

۴۷۵

صِبْغَةَ اللّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدونَ ( ۱۳۸ )

رنگتو صرف الله كا رنگ ہے اور اس سے بہتر كسكا رنگ ہوسكتا ہے اور ہم سب اسى كے عبادتگذار ہيں (۱۳۸)

۱ _ قرآن كريم ، انبياءعليه‌السلام اور ان پر نازل ہونے والے معارف پر ايمان ركھنا ايك ايسا رنگ ہے جسكے ذريعے اللہ تعالى نے اہل ايمان كو پاكيزہ اور مزين فرماياہے_قولوا آمنا بالله صبغة الله ''صبغة'' مصدر نوعى ہے جسكا معنى رنگ آميز ى كرناہے جو آيہ مجيدہ ميں فعل محذوف (صبغنا) كا مفعول مطلق ہے اس كا مصدر نوعى استعمال كرنا يہود و نصارى كى ايك رسم كى طرف اشارہ ہے جو اپنے بچوں كى تطہير كے لئے انہيں ايك خاص قسم كا پانى ''معموديہ''كے ساتھ نہلاتے تھے_ ما قبل آيات كى روشنى ميں '' صبغة اللہ '' سے مراد اللہ تعالى اور پر ايمان لاناہے پس ''صبغةاللہ'' كا معنى يوں بنتاہے اللہ تعالى نے ہميں اپنے اور پر ايمان كے ذريعے رنگ كيا ہے( پاك و تطہير كيا) اسطرح رنگ نہ كيا كہ جس طرح يہود و نصارى كرتے ہيں _

۲ _ انسانوں كى آلودگيوں سے پاكيزگى كے لئے اللہ تعالى نے بہترين معارف اور احكام پيش فرمائے_و من احسن من الله صبغة ''و من احسن كون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ دے سكتاہے'' ( يعنى پاك كرسكتاہے) ايمان ، قرآنى معارف و احكام اور كو بيان كرنے كے بعد اس جملہ كو لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى نے جواحكام و معارف نازل فرمائے ہيں اور انسانوں كو ان كى طرف دعوت دى ہے انسانوں كى پاكيزگى اور تطہير كے لئے يہ معارف اور احكام بہترين ہيں _

۳ _ اہل ايمان فقط اللہ كى ہى عبادت كرنے والے ہيں _و نحن له عابدون

۴_ اہل ايمان عبادت ميں شرك كرنے سے منزہ و مبرا ہيں _و نحن له عابدون يہ مطلب اس سے ليا گيا ہے كہ ''لہ'' ''عابدون'' پر مقدم ہے جو حصر پر دلالت

۴۷۶

كرتاہے_

۵ _ يكتاپرستى انسانوں كے ليئے بہترين رنگ اور انتہائي خوبصورت زينت ہے _و من احسن من الله صبغة و نحن له عابدون

۶ _عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' صبغة الله و من احسن من الله صبغة'' قال الصبغة هى الاسلام (۱) اللہ تعالى كے اس كلام''صبغة الله و من احسن من الله صبغة'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا اس رنگ سے مراد وہى اسلام ہے_

اللہ تعالى : افعال الہى ۲

ايمان : انبياءعليه‌السلام پرايمان ۱; انبياءعليه‌السلام كى تعليمات پرا يمان ۱ قرآن كريم پر ايمان ۱; ايمان كے متعلقات۱

تزكيہ : تزكيہ كے اسباب۲

توحيد: توحيد عبادى كى اہميت ۵

دين: فلسفہ دين ۲; دين كا سرچشمہ ۲

روايت:۶

زينت: بہترين زينت ۵

صبغة اللہ :۱ صبغة اللہ سے كيا مرادہے ۶

عبادت: اللہ تعالى كى عبادت۳

عبادت گزار انسان : ۳

مبرا ہونا :

عبادت ميں شرك سے مبرا ہونا ۴

مؤمنين: مومنين كا مزين ہونا ۱; مومنين كى تطہير ۱;مومنين كى توحيد عبادى ۴; مومنين كى عبادت۳

___________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۱۴ ح۱ ، ۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۲ ح ۳۹۳ ، ۳۹۵ ، ۳۹۶ ، ۳۹۷_

۴۷۷

قُلْ أَتُحَآجُّونَنَا فِي اللّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ ( ۱۳۹ )

اے رسول كہہ ديجئے كہ كياتم ہم سے اس خدا كے بارے ميں جھگڑتے ہوجو ہمارا بھى پروردگار ہے اور تمھارا بھي_ تو ہمارے لئے ہمارے اعمال ہيں اورتمھارے لئے تمھارے اعمال اور ہم تو صرفخدا كے مخلص بندے ہيں (۱۳۹)

۱ _ صدر اسلام كے مسلمانوں سے اہل كتاب كا اللہ تعالى كے بارے ميں بحث و گفتگو كرنا _قل اتحاجوننا فى الله

اللہ تعالى كے بارے ميں يہود و نصارى كا بحث و گفتگو كرنا ما قبل اور مابعد آيات كى روشنى ميں اس سے مراد اسلام اور آنحضرت (ص) كى بعثت كے بارے ميں بحث و گفتگو ہے _ البتہ يہ بحث و گفتگو اس انداز سے تھى كہ اسكى بازگشت اللہ تعالى اور اسكى صفات وافعال كى طرف تھى _ اسكى مثال يہ دعوى ہے كہ محمد (ص) عربى النسل ہيں اورانبياءعليه‌السلام كو تو بنى اسرائيل كى نسل سے ہونا چاہيئے_

۲ _ اللہ تعالى كے بارے ميں مسلمانوں سے اہل كتاب كى بحث و گفتگو بے جا اور بے نتيجہ تھي_قل اتحاجوننا فى الله

'' اتحاجوننا ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے يعنى اللہ تعالى كے بارے ميں ہم سے كيوں بحث و گفتگو كرتے ہو؟

۳ _ اللہ تعالى سب ( مسلمانوں اہل كتاب اور ...) كا پروردگار ہے _و هو ربنا و ربكم

۴ _ اہل كتاب كى مسلمانوں سے اللہ تعالى اور اسكى صفات و افعال (انبياءعليه‌السلام كو مبعوث كرنا ) كے بارے ميں بحث وگفتگو كے بے جا ہونے كے دلائل ميں سے ايك چيز اہل كتاب اور مسلمانوں كا خدائے واحد و يكتا كى ربوبيت پر اعتقاد ہے _اتحاجوننا فى الله و هو ربنا و ربكم

جملہ''و ہو ربنا ...'' حاليہ ہے جو اہل كتاب كى توبيخ اور انكے اعتراض كو بيان كررہاہے گويا يہ كہ معقول نہيں ہے كہ تم اللہ تعالى اور اس كے افعال و صفات كے بارے ميں ہم سے بحث كرو كيونكہ جسطرح وہ ہمارا پروردگار ہے اسى طرح تمھارا پروردگار بھى ہے_ اگر تمہارى نسل سے كسى نبى كو مبعوث كرتاہے تو بعينہ قادر ہے كہ عربوں ميں بھى پيامبر كو مبعوث فرمائے _

۴۷۸

۵ _ اللہ تعالى سے انسانوں كا قرب اور بعد ان كے اعمال و كردار كى بناپر ہے نہ كہ قبيلہ اور نسل كى بنياد پر_لنا اعمالنا و لكم اعمالكم يہ جملہ''و لنا اعمالنا ...'' اہل كتاب كى مسلمانوں سے اللہ تعالى كے انتخاب انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں گفتگو كو بے جا قرار دے رہاہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' لنا اعمالنا ...'' سے مراد يہ ہے كہ كسى نسل يا قبيلے سے ہونا خداوند قدوس سے تقرب كا باعث نہيں جو يہ امر اس بات كا موجب ہو كہ اللہ تعالى ہميشہ اسى نسل سے انبياءعليه‌السلام كو مبعوث فرمائے بلكہ يہ تو انسان كے اعمال ہيں جو قرب الہى كى بنياديں فراہم كرتے ہيں _

۶_ اللہ تعالى كے تقرب كا كسى قبيلے يا نسل سے مربوط و مخصوص نہ ہونايہ دليل ہے كہ اہل كتاب كى مسلمانوں سے اللہ تعالى اور اسكے افعال ( انبياءعليه‌السلام كا انتخاب و غيرہ ) كے بارے ميں بحث و گفتگو بے جاہے_

اتحاجوننا فى الله و لنا اعمالنا و لكم اعمالكم

۷_ اللہ تعالى نے مسلمانوں كو شريك خدا كى عبادت سے منزہ جاناہے اور وہ فقط اللہ رب الارباب كى ہى عبادت كرتے ہيں _و نحن له مخلصون

۸_ اہل كتاب كى مسلمانوں سے اللہ تعالى اور اسكے انتخاب انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں بحث و گفتگو كے بے جا ہونے كى دليل مسلمانوں كا اخلاص اور توحيد پر ان كا ايمان و اعتقاد ہے _اتحاجوننا فى الله ...و نحن له مخلصون

۹ _ مخالفين دين كى طرف سے القاء كيئے گئے شبہات كا جواب دينا ضرورى ہے _قل اتحاجوننا فى الله و هو ربنا و ربكم

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱

اسماء اور صفات: جلالى صفات۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۷; اللہ تعالى اور شريك ۷; اللہ تعالى كى ربوبيت ۳;اللہ تعالى سے دورى كے عوامل۵

اہل كتاب: اہل كتاب كى بحث و گفتگو ۱،۲،۴،۶،۸; اہل كتاب اور مسلمان ۱،۲ ، ۴،۶; ہل كتاب كا پروردگار ۳; اہل كتاب كى توحيد ۴

ايمان: توحيد پر ايمان ۸; ايمان كے متعلقات۸

بحث و مجادلہ كرنا : بے جا بحث كرنا ۲،۴،۶،۸; ، انبياءعليه‌السلام كے بارے

۴۷۹

ميں بحث كرنا ۴،۶; اللہ تعالى كے بارے ميں بحث كرنا ۲،۴، ۶، ۸; پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں بحث كرنا ۸

تقرب: تقرب كے عوامل ۵،۶

توحيد: توحيد ربوبى ۴

شبہات: شبہات كے جواب دينے كى اہميت ۹

عمل: عمل كے آثار۵

مسلمان: مسلمانوں كا اخلاص ۸;مسلمانوں كا پروردگار ۳; مسلمانوں كى توحيد عبادتى ۷; مسلمانوں كى توحيد ۴،۸; مسلمانوں كى عبوديت ۷; مسلمانوں كا عقيدہ۷

نظريہ كائنا ت (جہان بيني): توحيد ى نظريہ كائنات ۷

أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطَ كَانُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۱۴۰ )

كيا تمھاراكہنا يہ ہے كہ ابراہيم ، اسماعيل ، اسحاق، يعقوب اور اولاد يعقوب يہودى يا نصرانيتھے اے رسول كہہ ديجئے كہ كيا تم خدا سےبہتر جانتے ہو _ اور اس سے بڑا ظالم كوہوگا جس كے پاس خدائي شہادت موجود ہو اوروہ پھر پردہ پوشى كرے اور الله تمھارےاعمال سے غافل نہيں ہے ( ۱۴۰)

۱ _ يہودى حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كى اولاد كے دين كو دين يہوديت اور ان كو يہودى سمجھتے تھے_ام تقولون ان ابراهيم و اسماعيل كانوا هوداً

جملہ ''ام تقولون ...'' لف اجمالى پر مشتمل ہے اور دو قضيوں (جملوں ) كى حكايت كررہاہے الف) اے يہود كياتم خيال كرتے ہو كہ ابراہيم اور يہودى تھے ؟ ب) اے نصارى كيا تم گمان كرتے ہو كہ ابراہيم اور نصرانى تھے_

۲ _نصارى حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كى اولاد كے دين كو نصرانيت اورخود ان كو نصرانى جانتے تھے_ام تقولون ان ابراهيم و اسماعيل كانوا هوداً او نصارى

۳ _ يہود و نصارى باوجود اس كے كہ ان كے مابين بنيادى اختلافات پائے جاتے ہيں ليكن اسلام اور مسلمانوں كے خلاف متحد او رہم آواز ہيں _ام تقولون ان ابراهيم كانوا هوداً او نصارى

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

عبد: کبھی ''عبد،، انسان کو کہا جاتا ہے خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انسان اللہ کی مخلوق اور اس کا پروردہ ہے جو اپنے وجود اور تمام افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خاضع اور نیاز مند ہے اگرچہ وہ اس کے اوامرونواہی کی مخالفت کرے اور کبھی ''عہد،، زرخرید غلام کو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے مالک کا مملوک اور اس کے زیر سلطنت ہوتا ہے کبھی لفظ ''عبد،، کے استعمال میں وسعت سے کام لیا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو ''عبد،، کہا جاتا ہے جو کسی غیر معمولی چیز کو اہمیت دے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اسے دکھائی نہ دیتی ہو چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

الناس عبید الدنیا و الدین لعق علیٰ السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم و اذا محصوبالبلاء قل الدیا نون،، (۱)

''لوگ دنیا پرست ہیں اور دین ان کی زبانوں تک محدود ہے جب تک یہ آسودہ حال رہیں دین کا طواف کرتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو متدین افراد بہت کم رہ جاتے ہیں،،۔

کبھی ''عبد،، متواضع اور عبادت گزار کو کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) ۲۶:۲۲

''کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے،،۔

( عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) کا مطلب ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا اطاعت گزار بنا دیا ہے جو تیرے امرو نہی کی مخالفت نہیں کرتے۔

____________________

(۱) بحار ، ج ۱۰ ، ص ۱۸۹

۵۸۱

الاستعانتہ

استعانت مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں یہ لفظ کبھی خود اور کبھی 'ب، کے ذریعے متعدی ہوتا ہے چنانچہ استعنتہ،، بھی کہا جاتا ہے اور''استعنت به ،، بھی کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس سے مدد طلب کی۔

اعراب:

دونوں جملوں( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں ''ایاک،، کو جو مفعول ہے حصر کی خاطر مقدم کیا گیا ہے اور آیت میں غائب سے خطاب کی طرف التفات سے کام لیا گیا ہے(۱) اس میں دو راز ہو سکتے ہیں:

(۱) گزشتہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام موجدات کامالک اور مزتی ہے اور زندگی کا ہر کام اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ ، انسان اور اس کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہو تاکہ روز قیامت اطاعت گزاروں اور معصیت کاروں کو جزاء و سزا دے سکے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری دے اور اس سے مخاطب ہو۔

(۲) عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے سامنے اسے اپنا رب سمجھ کر متواضع ہو اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربی ا پنے پروردہ کے سامنے ہو۔ یہی حکم استعانت کا بھی ہے کیونکہ انسان کا اپنے رب کا محتاج ہونا اور اس کا مستقل نہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ معبود ، عبد کے سامنے ہوتا کہ اس کی طرف سے مدد ہو سکے۔

ان دو نکتوں کے پیش نظر سورہ حمد میں غایب سے خطاب کی طرف رخ کیا گیا اور( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) کہا گیا ۔ پس بندہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اس سے غائب نہیں۔

____________________

(۱) علم معنی بیان میں کسی خاص مقصد کے تحت غائب کی ضمیرا ستعمال کرتے کرتے اچانک مخاطب کی ضمیر لانے یا مخاطب کے بعد غائب کی ضمیر لائے ، یعنی ایک ضمیر کو چھوڑ کر دوسری ضمیر سے استفادہ کرنے کو ''التفات،، کہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۸۲

گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور بزرگی بیان فرمائی اس کے بعد اس آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تلاوت کی تلقین فرمائی اور یہ کہ اس آیت کے مدلول و مفہوم کا اعتراف کریں یعنی ہم سوائے خدا کے کسی اور کی عبادت و پرستش نہیں کرتے اور غیر اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے اس خدا کے علاوہ تمام موجودات ذاتاً فقیر، محتاج اور عاجز ہیں بلکہ وہ لاشئی اور ہیچ ہیں مگر یہ کہ رحمت الٰہی انہیں شامل حال ہو۔

جس موجود و مخلوق کی یہ حالت ہو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے اور تمام ممکنات ، اگرچہ کمال و نقص کے اعتبار سے ان کے درجے مختلف ہیں صفت عجز میں مشترک ہیں جو ایک ممکن کا لازمہ ہے اور یہ کہ سب ممکنات اللہ کے حکم اور اس کے ارادے سے موجود ہیں۔

( أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) ۷:۵۴

''دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کیلئے ، وہ خدا جو سارے جہاں کا پروردگار ہے ، بڑا برکت والا ہے،،

( وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ) ۲۴:۴۲

''اور سارے آسمان اور زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے،،

اللہ کے ساتھ اس کی سلطنت میں کون ٹکر لے سکتا ہے اور اس کے امرو حکم کے سامنے کون آ سکتا ہے عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے اور روکنے والی ذات بھی وہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہے حکم فرماتا ہے پس مومن اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ اس کے غیر سے مدد مطلب کرتا ہے کیونکہ غیر خدا چاہے کوئی بھی ہو ہر کام اور ہر بات میں اللہ کا محتاج ہے معبود کوہر حالت میں مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہئے اس لئے کہ فقیر اپنے جیسے فقیروں کی کیسے عبادت کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرے اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس اپنی حاجت لے کر نہ جائے غمیر خدا پر بھروسہ نہ کرے اور صرف اللہ سے مانگے ورنہ شرک باللہ اور اس کی سلطنت میں کسی اور کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،،

۵۸۳

آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں بحث دوم

٭ العبادۃ و التالہ

٭ عبادت اور اطاعت

٭ عبادت اور خشوع

٭ غیر اللہ کو سجدہ

٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ

٭ شرک باللہ کیا ہے ؟

٭ اسباب عبادت

٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے

٭ شفاعت

٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ تحلیل آیتہ ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔

٭ قرات

٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال

٭ اعراب ، الضالین

٭ تفسیر----- ٭ ہدایت عامہ

٭ ہدایت خاصہ

۵۸۴

العبادۃ و التالہ

اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،

پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

'' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،

۵۸۵

( وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ) ۲۳:۹۱

''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔

دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ) ۲۷:۶۴

''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،

( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) ۲۶:۷۱

''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،

( أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ) : ۷۳

''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،

( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ) : ۷۴

''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،

۵۸۶

کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ) ۲۱:۶۶

''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) : ۶۷

''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،

( قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ ) ۵:۷۶

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔

( أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ) ۷:۱۴۸

''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،

مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔

۵۸۷

( وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ) ۵:۱۱۶

''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ ) ۵:۱۱۷

؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،

کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) ۵۰:۱۶

''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) ۴۰:۶۰

''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،

۵۸۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ) ۶:۱۸

''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،

( قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۳:۲۹

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ) ۱۰:۱۰۷

'' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ ----- فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۶:۱۷

''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،

( اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ ) ۱۳:۲۶

''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،

ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) ۴۲:۱۱

''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،

۵۸۹

( أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ) ۴۱:۵۴

''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،

بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔

( مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ) ۵۸:۷

''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،

( كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) ۳:۴۰

'' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،

( إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ) ۵ :۱

''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،

خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:

۵۹۰

عبادت اور اطاعت

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔

اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ) ۴:۸۰

''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ) ۴:۶۴

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،

یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) ۳۳:۷۱

''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹

'' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،

۵۹۱

ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ ) ۳۳:۱

''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،

( فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ) ۷۶:۲۴

''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔

( وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ ) ۳۱:۱۵

''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔

ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔

عبادت اور خشوع

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔

۵۹۲

(۱) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:

مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ) ۱۷:۲۴

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،

ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،

نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔

۵۹۳

(۲) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ(۱) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ) ۱۸:۱۵

''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،

(۳) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمومنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ) ۵:۵۴

''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،

____________________

(۱) قرآن سنت ، اجماع اور عقل

۵۹۴

خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

( عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (۲۱: ۲۶۔۲۷)

'' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،

ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے

آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔

۵۹۵

جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔

من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی

''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔

اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں(۱) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا(۱) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

___________________

(۱) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ۱۷ میں ذکر کی گئی ہیں۔

۵۹۶

ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔

بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔

(۱) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔

(۲)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔

ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی

( وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ) ۲۲:۳۲

''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،

اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔

۵۹۷

غیر اللہ کو سجدہ

گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) ۴۱:۳۷

''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔

اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔

( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ) ۷۲:۱۸

''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،

یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا

____________________

(۱) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ۳ ، ص ۴۴۸

۵۹۸

کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیادہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔

بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے(۱) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔

شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں(۲) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(۳)

خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا(۴)

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) وسائل ، باب ۱۶۲ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ۲۳۶

(۳) ضمیمہ نمبر ۱۹ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا

(۴) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ۱ ، ص۲۱۲ ۔ ۲۱۳

۵۹۹

ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں(۱)

فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔

آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔

(۱) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

__________________

(۱) وسائل ، ج ۱ ، ص ۲۳۶ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۰

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785