تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200955 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ميں اہل تقوى كى جو صفت بيان ہوئي ہے اس سے پتہ چلتاہے كہ يہ لو گ ہدايت يافتہ ہيں پس''ہدى للمتقين'' ميں ہدايت كا اعلى ترين درجہ مراد ہے اور باتقوى انسان اس مرتبے پر فائز ہيں _

۷_ قرآن كى ہدايت ميں كسى طرح كى بھى كمى و كجى نہيں پائي جاتى اور ذرہ برابر انحراف موجود نہيں ہے_هديً للمتقين

''ہدي'' مصدر ہے اور يہاں اسم فاعل ''ہادي'' كا معنى دے رہاہے_ اسم فاعل كى جگہ مصدر كا استعمال اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن ہدايت محض ہے يعنى قرآن ميں موجود راہنمائي ميں كسى طرح كى بھى بے راہ روى ، حيرانگى ، پريشانى يا گمراہى نہيں پائي جاتى _

قرآن كريم: عظمت قرآن ۱; قرآن اور متقين ۴،۵; قرآن كا استحكا م۳; قرآن كريم كا ترديد و شبہات سے پاك ہونا ۳;قرآن كا كامل ہونا ۱; قرآن كا كردار اور اہميت ۴،۵; قرآن كى تاريخ ۲; قرآن كا منزہ ہونا ۳; قرآن كى تدوين۲; قرآن كى حقانيت۳; قرآن كى حقانيت كے دلائل ۴; قرآن كى خصوصيات ۱،۳; قرآن كى كتابت۲; قرآن كے محكم دلائل ۴; قرآنى ہدايت ۴،۵قرآنى ہدايت كى خصوصيات ۷

متقين : متقين كى تربيت ۴; متقين كى ہدايت ۴،۵

ہدايت: ہدايت كے درجات ۵،۶

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (۳)

جو غيب پر ايمان ركھتے ہيں _ پابندى سے پورے اہتمام كے ساتھ نماز ادا كرتے ہيں اور جو كچھ ہم نے رزق ديا ہے اس ميں سے ہمارى راہ ميں خرچ بھى كرتے ہيں _

۱_ غيب (خدا اور ...) پر ايمان، نماز قائم كرنا اور خرچ كرنا (راہ خدا ميں ) اہل تقوى كى صفات ميں سے ہے_

هدى للمتقين _ الذين يؤمنون ينفقون

''غيب'' كا معنى مخفى اور چھپا ہوا ہے_ اس پر ايمان كو دينى اقدار ميں سے شمار كيا گيا ہے _ غيب سے مراد ہر طرح كا مخفى يا پنہاں نہيں ہے بلكہ بعد كى آيات كى روشنى ميں اس سے مراد اللہ تعالى ، فرشتے اور ان جيسى كچھ ديگر مخلوقات ہيں _

۲_ غيب ( خدا اور ...) پر ايمان، نماز قائم كرنا اور خرچ كرنا ( راہ خدا ميں ) بندگان خدا كے ضرورى فرائض ميں سے ہے _

الذين يؤمنون بالغيب ينفقون

۴۱

۳_ عالم ہستى فقط محسوسات تك ہى محدود نہيں ہے_ يہ قانون اديان الہى ميں سب سے بنيادى امر ہے_

الذين يؤمنون بالغيب''اللہ'' كى جگہ '' الغيب'' كا استعمال ممكن ہے اس نكتے كى طرف اشارہ ہو كہ سب سے پہلى بات جو انسانوں كو ياد كرانے والى ہے وہ يہ كہ جہان ہستى محسوسات تك محدود نہيں ہے_

۴_ دين كے عملى اركان ميں سے نماز اور انفاق كو سب فرائض پر ترجيح دينا ان كى خاص اہميت كى طرف اشارہ ہے_

و يقيمون الصلوة و مما رزقناهم ينفقون

۵_ انسان كے پاس موجود وسائل و امكانات اللہ تعالى كى جانب سے عطا شدہ رزق ہے_و مما رزقناهم ينفقون

۶_ اس بات پر ايمان ركھنا كہ تمام ترو سائل و امكانات اللہ كى طرف سے ہيں انسان ميں انفاق ( فى سبيل اللہ خرچ كرنا) كى راہ ہموار كرتاہے_و مما رزقناهم ينفقون

انفاق كے ضرورى ہونے كے بيان ميں اس امر كى ( كہ سب كچھ خدا كى طرف سے عطا كيا گيا ہے) ياد دہانى كا ہدف، انفاق كا آسانى ہونا اور انسان ميں انفاق كا جذبہ پيدا كرنا ہے_

۷_ انفاق خاص قسم كے وسائل يا امكانات ميں محدود نہيں ہے _مما رزقناهم ينفقون

يہ مطلب لفظ '' ما _ جو كچھ بھي'' سے استفادہ ہوتاہے جسكا معنى عموم ہے_

۸_ سب كچھ ہى انفاق كردينے سے اللہ تعالى نے منع فرمايا ہے _و مما رزقناهم ينفقون

''مما_(من ما)'' ميں موجود ''من'' جسكا معنى بعض ہے اس سے يہ مطلب اخذ ہوتاہے_ پس ''مما رزقناهم ...'' يعنى اہل تقوى اپنے مال كا كچھ حصہ انفاق كرتے ہيں _

۹_ نماز اور انفاق انسان كے لئے ايك دائمى ، مستقل اور ہميشہ كا پروگرام ہے نہ كہ وقتى سلسلہ _

يقيمون الصلوة و مما رزقناهم ينفقونفعل مضارع (يقيمون اور ينفقون) كا استعمال اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كيونكہ فعل مضارع تجديد اور دوام پر دلالت كرتاہے_

۱۰_ اگر زندگى كے پروگرام ميں نماز شامل نہ ہو اور اسكو اہميت نہ دى جائے تو انسان باتقوى نہيں بن سكتا_

هدى للمتقين _ الذين يقيمون الصلوة

۱۱_ وقتى انفاق سے انسان متقين ميں سے قرار نہيں ديا جائے گا_

هدى للمتقين و مما رزقناهم ينفقون

۴۲

۱۲_ ضرورت مندوں كى ضرورت كو پورا كرنے كى كوشش كرنا يہ سب كا فريضہ ہے اور تقوى كى نشانيوں ميں سے ايك ہے _هدى للمتقين و مما رزقناهم ينفقون

۱۳_ اسلام ميں انفرادى اور معاشرتى احكام موجود ہيں _يقيمون الصلوة و مما رزقناهم ينفقون

۱۴_ ايمان بغير عمل كے اور عمل بغير ايمان كے اس سے انسان تقوى كو نہيں پاسكتا_هدى للمتقين_ الذين يؤمنون ينفقون

۱۵_ انسانوں كى اس طرح تربيت كرنا كہ وہ غيب پر ايمان لائيں ، نماز كے پابندہوں اور انفاق كريں يہ سب امور قرآن كريم كے اہداف ميں سے ہيں _ذلك الكتاب هدى للمتقين الذين يؤمنون و مما رزقناهم ينفقون

۱۶_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''الذين يؤمنون بالغيب'' قال: من ا قر بقيام القائم انه حق (۱) ''الذين يؤمنون بالغيب'' كے بارے امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو قائمعليه‌السلام كے قيام كى حقانيت كا اقرار كرتے ہيں _

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى قوله) '' و مما رزقناهم ينفقون'' قال مما علمناهم ينبؤن و مما علمناهم من القرآن يتلون (۲) اللہ تعالى كے اس كلام ''و مما رزقناہم ينفقون'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا جو چيز ہم نے انہيں تعليم دى ہے اسكو بتا تے ہيں ( نشر كر تے ہيں ) اور جو كچھ قرآن حكيم سے ہم نے انہيں سكھا ياہے اسكى تلاوت كرتے ہيں _

اسلام: اسلام كى انفرادى تعليمات۱۳;اسلام كى خصوصيات ۱۳; اسلام كى معاشرتى تعليمات ۱۳

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۹،۱۲; انسانوں كى روزى ۵

انفاق: انفاق كى اہميت ۲،۴;انفاق كا بنياد ۶;انفاق كى حدود ۷،۸،۱۷; دائمى انفاق كے اثرات و نتائج ۱۱; انفاق كے دائمى ہونے كى اہميت ۹،۱۱

انفاق كرنے والے : انفاق كرنے والوں كى تربيت ۱۵

____________________

۱) كمال الدين ج/۲ ص۳۴۰ ح۱۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص۳۱ ح۱۱_

۲) معانى الاخبار ص۲۳ح۲، بحارالانوار ج/ ۲ ص ۱۷، ح۳۸_

۴۳

ايمان: اللہ تعالى پر ايمان ; امام مہدىعليه‌السلام كے قيام پر ايمان ۱۶; ايمان سے متعلق امور ۱،۲،۱۶; بغير عمل كے ايمان ۱۴; غيب پر ايمان ۱،۲،۱۶; غيب پر ايمان كى اہميت ۱۵

تقوا : تقوا كى بنياد ۱۰،۱۱ ;تقوى كى علامتيں ۱۲;تقوى كے اسباب ۱۴

جہان بيني(نظريہ كائنات): توحيدى جہان بينى ۳; جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۶

حديث: ۱۶،۱۷

خدا تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۵،۶;اللہ تعالى كى نصيحتيں ۸;

دنياوى وسائل اور امكانات: دنياوى وسائل كا سرچشمہ ۵،۶

دين: دين كے اركان ۴; دينى تعليمات كى نشر و اشاعت ۱۷

ضرورت مند: ضرورت مندوں كى ضرورت كو پورا كرنا ۱۲

عالم غيب : غيب كے موارد ۱۶

عمل : بغير ايمان كے عمل ۱۴

قرآن كريم : قرآن كى تاثير و كردار ۱۵;قرآن كى تلاوت ۱۷;قرآن كے اہداف۱۵

كائنات: كائنات كا غيب ۳

متقين : متقين كا انفاق كرنا ۱; متقين كى صفات ۱; متقين كا ايمان ۱;

مومنين : مومنين كى ذمہ دارى ۲

نماز: نماز كا قائم كرنا ۱،۲; نماز كى اہميت ۴;نماز كے دائمى ہونے كے اثرات و نتائج ۱۰; نماز كے دائمى ہونے كى اہميت ۹،۱۰

نمازي: نمازيوں كى تربيت ۱۵

۴۴

والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ( ۴ )

وہ ان تمام باتوں پر بھى ايمان ركھتے ہيں جنھيں (اے رسول ) ہم نے آپ پر نازل كيا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل كى گئي ہيں اور آخرت پر بھى يقين ركھتے ہيں _

۱_ قرآن پر ايمان لانا اور پيامبر اسلام (ص) پر نازل شدہ معارف و احكام پر ايمان لانا متقين كى صفات ميں سے ہے_

هدى للمتقين ...الذين يؤمنون بما انزل اليك

۲_ اہل تقوا گذشتہ آسمانى اديان كى كتابوں اور ان كے احكام و معارف پر ايمان ركھتے ہيں _

والذين يؤمنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك

۳_ ان تمام احكام و معارف پر جو پيامبر اسلام (ص) پر اور انبياءعليه‌السلام ما سبق پر نازل ہوئے ايمان لانا واجب و ضرورى ہے_والذين يؤمنون بما انزل اليك وما انزل من قبلك

۴_ اديان الہى ايك دوسرے سے تضاد و اختلاف اور ناہم آہنگى سے منزہ و پاك ہيں _

والذين يؤمنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك

۵_ عالم آخر ت پر يقين اہل تقوى كى صفات ميں سے ہے_

و بالاخرة هم يوقنون

۶_ عالم آخرت پر يقين ركھنا اور يقين حاصل كرنا ضرورى ہے_

و بالاخرة هم يوقنون

۷_ غيب پر ايمان، انبياء ( عليہم السلام ) كى رسالت پر ايمان اور آخرت پر ايمان قرآنى ہدايت كے حصول كى راہ ہموار كرتے ہيں _

هدى للمتقين الذين يؤمنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك و بالاخرة هم يوقنون

۸_ اللہ اور انبياءعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان اور آخرت پر يقين دينى عقائد كے اركان ہيں _

الذين يؤمنون بالغيب و ما انزل من قبلك و بالاخرة هم يوقنون

۴۵

۹_ہر انسان ( اہل كتاب ہو يا غير اہل كتاب) اگر دين اسلام كے عقيدتى اور عملى اركان كا پابند ہو تو متقين ميں سے ہيں _

الذين يؤمنون بالغيب و ما انزل من قبلك

يہ واضح ہے كہ آيت نمبر ۳ ، ۴ ميں جن صفات كا ذكر كيا گيا ہے وہ متقين كى خصوصيات ہيں _ لہذا ''الذين'' كے تكرار سے مراد يہ نہيں كہ اہل تقوى كے دو گروہ ہيں بلكہ ( جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے) الذين كے تكرار سے مراد يہ ہے ان صفات كے حامل اہل تقوى ہيں اب چاہے يہ لوگ اس سے پہلے آسمانى كتابوں پر ايمان ركھنے والے تھے جيسے يہود و نصارى يا ايسے نہيں تھے جيسے عرب كے جاہل_

آخرت: آخرت پر يقين كى اہميت ۶; آخرت پر يقين ۵

اديان: اديان كا منزہ ہونا ۴;اديان كى ہم آہنگى ۴

ايمان: آخرت پر ايمان ۷،۸;آخرت پر ايمان كى اہميت ۶; آسمانى كتابوں پرايمان ۲; اديان پر ايمان ۲،۳; اسلام پر ايمان ۱،۹; انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۷،۸; انبياءعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۳; اللہ پر ايمان ۸; ايما ن بالغيب۷; ايمان سے متعلق امور ; ۱ ، ۲ ، ۳،۷، ۸ ، ۹ايمان كے اثرات و نتائج ۷; پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات پر ايمان ۳; قرآن پر ايمان ۱;

تقوى : تقوى كى شرائط ۹

دين: دين كے اركان ۸

قرآن كريم : قرآن كريم كى ہدايت ۷

متقين : ۹

متقين كا ايمان ۱،۲; متقين كى صفات ۱،۲،۵

ہدايت: ہدايت كے حصول كى راہ ۷

۴۶

أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( ۵ )

يہى وہ لوگ ہيں جو اپنے پروردگار كى طرف سے ہدايت كے حامل ہيں اور فلا ح يافتہ اور كامياب ہيں _

۱_ فقط اہل تقوى ہدايت يافتہ انسان ہيں _هدى للمتقين اولئك على هدى من ربهم

۲_ فقط اہل تقوى نجات يافتہ اور سعادتمند ہيں _هدى للمتقين و اولئك هم المفلحون

۳_ غيب ( اللہ اور ...) پر ايما ن لانے والے، رسالت كا عقيدہ ركھنے والے اور آخرت كا يقين كرنے والے ہدايت يافتہ ہيں _الذين يؤمنون اولئك على هدى من ربهم

''اولئك '' كا مشاراليہ ممكن ہے اجمالى طور پر ''المتقين '' ہو يا پھر ممكن ہے اسكا تفصيلى پہلو مراد ہو يعنى ''اولئك'' سے متقين كى صفات كى طرف اشارہ ہو جن كا بيان ہوچكاہے_

۴_ نماز قائم كرنے والے اور انفاق كرنے والے ہدايت يافتہ ہيں _يقيمون الصلوة اولئك على هدى من ربهم

۵_ انسان كى نجات دين كے اعتقادى اصولوں پر ايمان اور اسكے عملى اركان كى پابندى ميں ہے_

الذين يؤمنون و اولئك هم المفلحون

۶_ اہل تقوى كو ہدايت مل جانا اللہ كى جانب سے ان پر عنايت ہے_

اولئك على هدى من ربهم

۷_ اہل تقوى كو ہدايت مل جانا اللہ تعالى كى ربوبيت كا ايك پہلو ہے_اولئك على هدى من ربهم

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۷;اللہ تعالى كى عنايات ۶

آخرت: آخرت پر ايمان لانے والے۳

۴۷

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر ايمان لانے والے۳

انفاق كرنے والے: انفاق كرنيوالوں كى ہدايت۴

ايمان: ايمان سے متعلق امور۵; دين پر ايمان ۵; ايمان كے اثرات و نتائج ۵

توفيقات: تقوى كى توفيق ۶

دين: دين پر عمل۵

عالم غيب: عالم غيب پر ايمان ركھنے والے ۳

متقين : متقين كا فلاح يافتہ ہونا ۲; متقين كى خصوصيات ۱،۲; متقين كى ہدايت ۱،۶،۷

مومنين: اللہ پر ايمان لانے والے ۳; مومنين كى ہدايت ۳

نجات يافتہ لوگ :۲

نجات يافتہ ہونا: نجات يافتہ ہونے كے عوامل ۵

نماز: نماز قائم كرنے والوں كى ہدايت ۴

ہدايت يافتہ انسان ۱،۳: ہدايت يافتہ انسانوں كى صفات۴

۴۸

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ( ۶ )

اے رسول جن لوگوں نے كفر اختيار كرلياہے ان كے لئے سب برابر ہے_ آپ انھيں ڈرائيں يا نہ ڈرائيں يہ ايمان لانے والے نہيں ہيں _

۱_ قرآن كريم كے منكروں اور كافروں كو پيامبر (ص) كا ڈرانا بے اثر تھا_

ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم

گذشتہ آيات كے قرينے كى روشنى ميں ايسا معلوم ہوتاہے كہ ''كفروا'' سے متعلق امر قرآن كريم ہے (كيونكہ گذشتہ آيات كا موضوع قرآن كريم ہے) يعنى مراد يہ ہے ''ان الذين كفروا بالقرآن'' ...''انذار'' جواَنْذَرْتَ كا مصدر ہے اسكا معنى ايسى چيز كى خبر دينا اور مطلع كرنا ( يا خبردار كرنا ) ہے جس سے ڈر نا چاہيئے اور دورى اختيار كرنى چاہيئے_

۲_ قرآن كے منكر اللہ اور قيامت پر ايمان نہيں لائيں گے _

ان الذين كفروا لا يؤمنون

''لايؤمنون '' كا متعلق آيت نمبر ۸ اور ماقبل آيات كى روشنى ميں اللہ اور قيامت ہے يعنى مراد يہ ہے _لا يؤمنون بالله و لا باليوم الآخر

۳_ اللہ تعالى اور قيامت پر ايمان كے لئے قرآن كريم بہترين راہنما ہے_

ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون

يہاں ''كفر'' سے مراد قرآن كے بارے ميں ''كفر و انكار'' ہے لہذا'' سواء عليهم'' اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ اگر قرآن كسى انسان ميں اثر نہيں ركھتا تو يہ كيسے توقع كى جاسكتى ہے كہ اس پر پيامبر (ص) كاكلام اثركرے گا؟يہ مطلب اس بات كى حكايت كرتاہے كہ قرآن كريم ہدايت كا بہترين ذريعہ اور '' انذار _ ڈرانے'' كا مؤثرترين وسيلہ ہے_

۴_ پيامبر (ص) اسلام كى تبليغى اور ہدايتى روشوں ميں سے ايك انذار ہے_

ء ا نذرتهم ام لم تنذرهم

۵_ پيامبر اكرم (ص) كے زمانے ميں بعض لوگ كفر كے ايسے مرحلے پر تھے كہ ان پر آنحضرت (ص) كا انذار اثر نہ كرتا

۴۹

تھا _ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون

بعض كا خيال ہے كہ'' الذين كفروا'' سے مراد كفار مكہ كا ايك گروہ ہے_ يعنى آيہ مباركہ كا ايك خارجى حقيقت كى طرف اشارہ ہے اور اس سے مراديہ نہيں كہ كافروں ميں ايمان كى راہ ہموار نہيں _

۶_ بعض كفار كفر كے ايسے مرحلے پر پہنچ جاتے ہيں كہ ايمان كى صلاحيت ہى ان ميں ختم ہوجائي ہے_

ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون

۷_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''الكفر فى كتاب الله على خمسة اوجه فمنها كفرالجحود والجحود على وجهين ...فاما كفر الجحود فهو الجحود بالربوبية و هو قول من يقول لا رب و لا جنة و لا نار قال الله عزوجل: ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرهم ام لم تنذر هم لا يؤمنون ...(۱)

اللہ كى كتاب ميں كفر پانچ معانى ميں بيان ہوا ہے ان ميں سے كفر جحود ہے جس كى دو قسميں ہيں _ ان ميں ايك قسم ''ربوبيت'' كا انكار ہے اور وہ اس شخص كا قول ہے جو يہ كہتاہے : نہ اللہ ہے نہ بہشت ہے اور نہ جہنم ہے اللہ تعالى فرماتا ہے: ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون ''

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى ربوبيت كو جھٹلانا ۷

انذار(ڈرانا): انذار كا بے اثر ہونا ۱،۵

ايمان: اللہ پر ايمان ۳;ايمان كى ركاوٹيں ۶; ايمان كے متعلقات ۳; قيامت پر ايمان ۳

پيامبر اسلام (ص) : آنحضرت (ص) كا ہدايت كرنا ۴ ;پيامبر اسلام كا انذار ۱،۴،۵; پيامبر اسلام (ص) كى تبليغى روش ۴

تبليغ : تبليغ ميں انذار كى روش ۴

جنت: جنت كو جھٹلانا ۷

جہنم: جہنم كو جھٹلانا ۷

حديث : ۷

قرآن كريم : قرآن كريم كو جھٹلانے والوں كا كفر ۲;قرآن كريم كو جھٹلانے والوں كى خصوصيات ۲; قرآن كريم كى تكذيب كرنے والوں كا انذار ۱; قرآن كريم كى خصوصيات ۳; قرآن كريم كى ہدايت ۳

____________________

۱) كافى ج/۲ص ۳۸۹ح۱،نورالثقلين ج/۱ص۳۲ح ۱۴

۵۰

كفار:۲ صدر اسلام كے كفار ۵; كفار كا ہدايت قبول نہ كرنا ۵،۶; كفار كو انذار۱

كفر: اللہ كا انكار '' كفر'' ۲; قيامت كے بارے ميں كفرو ''انكار''۲;كفر كا مفہوم ۷ ; كفر كے درجات ۵،۶; كفر كے نتائج ۶;

ہدايت: ايمان كى ہدايت ۳ ; ہدايت كى روش۴;ہدايت كے عوامل ۳

خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِيمٌ ( ۷ )

خدا نے ان كے دلوں اور كانوں پر گويا مہر لگادى ہے كہ نہ كچھ سنتے ہيں اور نہ سمجھتے ہيں اور آنكھوں پر بھى پردے پڑگئے ہيں _ ان كے واسطے آخرت ميں عذاب عظيم ہے _

۱_ اللہ تعالى نے قرآن كريم كے منكروں كے دلوں كو دينى معارف كے سمجھنے اور ان كے كانوں كو دينى حقائق سننے سے روك ديا ہے_

ختم الله على قلوبهم و على سمعهم

''ختم'' كا معنى گيلى مٹى يا اسى طرح كى كسى چيز سے دروازے كو بند كرديناہے اور اصطلاح ميں كسى چيز كو لاك لگاكر بند كرنا ہے _ قلب كا بند ہونا درك نہ كرنے اور نہ سمجھنے كا كنايہ ہے_ '' على سمعھم'' ممكن ہے ''على قلوبہم'' پر عطف ہو يا پھر ''غشاوة'' كى خبر بھى ہوسكتى ہے_ مذكورہ بالا مطلب ميں پہلے احتمال كى طرف اشارہ ہے_

۲_ قرآن كريم كے منكروں كے كانوں اور آنكھوں پر پردے پڑے ہوئے ہيں جن كے باعث وہ دين كے حقائق سننے اور ديكھنے كى صلاحيت نہيں ركھتے_

و على سمعهم و على ابصارهم غشاوة

''غشاوہ'' كا معنى پردہ اور اس طرح كى چيز ہے_ مذكورہ مطلب ميں''على سمعهم'' ، ''غشاوة '' كى خبر كے طور پر ہے_

۳_ قلب ( دل اور تفكر) ، كان اور آنكھيں معرفت كے وسائل ہيں _

۵۱

ختم الله على قلوبهم و على سمعهم و على ابصارهم غشاوة

۴_ پيامبر اكرم (ص) كا انذار قرآن كريم كے منكروں پر اس لئے غير مؤثر ہے كيونكہ ان كے ادراك اور فہم كے وسائل بند ہو چكے ہيں _سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون ، ختم الله على قلوبهم

۵_ انسان اپنى آنكھوں اور كانوں پر ديكھنے اور سننے كے حوالے سے خود پردے ڈالتاہے_

وعلى سمعهم و على ابصارهم غشاوة

آنكھوں اور كانوں پر ''غشاوة '' كا ظاہر ہونا اللہ تعالى كى طرف اسكى نسبت نہيں دى گئي برخلاف قلوب كے مسدود ہونے كے، اس تقابل سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ كفار اپنى آنكھو ں اور كانوں پر خود ''غشاوة' ' كے ظہور كا باعث بنتے ہيں _

۶_ الہى معارف كو درك نہ كرنا اللہ تعالى كى جانب سے دينى حقائق كو نہ سننے اور اہميت نہ دينے كے مقابلے ميں ايك سزا ہے_ختم الله على قلوبهم و على سمهم و على ابصارهم غشاوة

''و على سمعهم ...'' يہ جملہ حاليہ ہے اور قلوب كے مسدود ہونے كى علت بيان كررہاہے_ يعنى يہ كہ اللہ تعالى نے ان كو ادراك كى صلاحيت سے اس ليے محروم كرديا كيونكہ انہوں نے حقائق كو '' ان سنا'' كرديا اور ان پر اپنى آنكھيں بند كرليں _

۷_ كفر اختيار كرنے والوں كے لئے بہت بڑا عذاب ہے _و لهم عذاب عظيم

آنكھيں : آنكھوں پر پردے كے عوامل ۵; آنكھوں كے فوائد ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سزائيں ۶

انذار : انذار كے غير مؤثر ہونے كے اسباب ۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كا انذار ۴

حق : حق كو قبول نہ كرنے كى سزا ۶

دين: دين سے دورى اختيار كرنا ۶; دين فہمى كے موانع ۱،۲

شناخت: شناخت كے وسائل ۳; معرفت كے موانع ۴

عذاب: اہل عذاب ۷; عذاب كے درجات ۷; عظيم عذاب ۷

۵۲

قرآن كريم : قرآن كريم كى تكذيب كے اثرات و نتائج ۱،۲;كريم كے جھٹلانے والوں كا بہرہ پن ۱،۲; قرآن كريم كے جھٹلانے والوں كا ختم قلوب۱،۲،۴; قرآن كريم كے جھٹلانے والوں كى خصوصيات ۲; قرآن قرآن كريم كے منكروں كا اندھا پن ۲

قلب: ختم قلوب كے اثرات و نتائج ۱; قلب كے فوائد ۳

كان: كانوں پر پردے كے عوامل ۵; كانوں كے فوائد۳

كفار: كفار كو عذاب ۷

كيفر يا سزا : كيفر كے اسباب ۶

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ( ۸ )

كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ كہتے ہيں كہ ہم خدا اور آخرت پر ايمان لائے ہيں حالانكہ وہ صاحب ايمان نہيں ہيں _

۱_ قرآن كريم نے لوگوں كو تين طبقات ميں تقسيم كيا ہے : متقين ، كفار اور منافقين _

هدى للمتقين ان الذين كفروا و من الناس من يقول ء امنا

۲_ كچھ انسان ( منافقين) اللہ پر اور روز قيامت پر ايمان كا جھوٹا دعوى كرتے ہيں _

و من الناس من يقول ء امنا بالله و باليوم الاخر و ما هم بمومنين

۳_ اللہ پر اور روز قيامت پر ايمان دين كے اعتقادي اركان ميں سے ہے_

و من الناس من يقول ء امنا بالله و باليوم الاخر

معمولاً وہ لوگ جو كسى گروہ يا قبيلے ميں نفوذ كرنا چاہتے ہيں اس گروہ كے اہم ترين اور بنيادى اصولوں پر پابندى كا اظہار كرتے ہيں لہذا سب لوگوں كى نظر ميں اللہ پر اور قيامت پر ايمان اسلام كے بالكل بنيادى اعتقادى اركان ميں سے ہے اور انسان ان پر ايمان كے اظہار سے مسلمان كہلاتاہے_

۴_ اللہ تعالى انسانوں كے رازوں اور افكار سے آگاہ

۵۳

ہے _

و من الناس من يقول ء امنا و ما هم بمومنين

اسلام: اركان اسلام ۳

اللہ تعالى : اللہ كا علم غيب ۴

انسان: انسانوں كے راز ۴; انسانوں كے طبقات ۱

ايمان: اللہ پر ايمان ۳; ايمان كے جھوٹے دعوى دار ۲; ايمان كے متعلقات ۳; قيامت پر ايمان ۳

كفار:۱

متقين:۱

معاشرتى طبقات : ۱

منافقين:۱ منافقين كا ايمان۲; منافقين كاجھوٹ۲

يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ ( ۹ )

يہ خدا اور صاحبان ايمان كو دھوكہ دينا چاہتے ہيں حالانكہ اپنے ہى كو دھوكہ دے رہے ہيں اور سمجھتے بھى نہيں ہيں _

۱_ منافقين مكار اور فريبى ہيں _

يخادعون الله والذين امنوا

۲_منافقين كے اظہار ايمان كا ہدف اہل ايمان كو نقصان پہنچانا اور ان كے خلاف سازشيں كرنا ہے_

يخادعون الله والذين آمنوا

''خدع'' كا معنى ہے كوئي ايك چيز چھپانا اور كسى دوسرى شيء كو ظاہر كرنا تا كہ نقصان پہنچايا جائے اور پريشانى پيدا كى جائے_

۳_منافقين ايمان كے اظہار سے اللہ سے مكارى اور اہل ايمان كو فريب دينے كے درپے ہيں _

۵۴

و من الناس من يقول ء امنا يخادعون الله والذين آمنوا

يہ جملہ '' و ما يخدعون الا انفسہم'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافقين نہ تو اللہ اور اہل ايمان سے مكارى كرسكتے ہيں اور نہ فريب دے سكتے ہيں _ بنابريں ''يخادعون الله ...'' كا مفہوم يہ ہوا كہ وہ فريب و مكارى كے درپے ہيں _

۴_ منافقين اللہ تعالى كے وسيع، مطلق علم اور يہ كہ اللہ تعالى انسانوں كے بھيدوں اور انكے اندرون سے آگاہى ركھتاہے اس پر يقين و ايمان نہيں ركھتے_يخادعون الله منافقين چونكہ اللہ تعالى كو فريب دينے كے در پے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ ان كا خيال تھا اگر كسى بات كو مخفى ركھيں گے تو اللہ تعالى اس سے آگاہ نہيں ہوسكتا_

۵_ اللہ تعالى اور مومنين سے فريب و مكارى در حقيقت خودفريبى اور اپنے آپ سے مكارى و عيار ى ہے_

و ما يخادعون الا انفسهم

۶_منافقين اپنى خودفريبى اور اپنے آپ سے مكارى و عيارى سے ناآگاہ ہيں _و ما يخادعون الا انفسهم و ما يشعرون

۷_ رسول اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا:

'' من يخادع الله يخدعه قيل له و كيف يخادع الله ؟ قال يعمل بما امره الله عزوجل ثم يريد به غيره (۱)

جو كوئي (اپنے خيال ميں ) خدا كو فريب ديتاہے تو خدا اسكو فريب ديتاہے آپ (ص) سے پوچھا گيا كہ وہ كيسے خدا كو فريب ديتاہے؟ آپ (ص) نے فرمايا اللہ تعالى نے جو حكم دياہے اس پر عمل كرتاہے ليكن اسكى نيت ميں غير خدا ہوتاہے_

اسلامى معاشرہ : اسلامى معاشرے كے خلاف سازشيں ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم غيب ۴; اللہ تعالى كا مكر ۷

انسان: انسانوں كے راز ۴

حديث : ۷

خود: خود سے مكر كرنا ۵،۶

شرك: عملى شرك۷

مكر: اللہ تعالى سے مكر كرنا ۳،۵،۷

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ ص۲۸۳ ح ۲۹۵ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۵ ح ۲۰_

۵۵

منافقين : منافقين اور علم خدا ۴; منافقين اور مومنين ۲; منافقين كا اظہار اسلام ۲،۳; منافقين كا كفر ۴; منافقين كا مكر ۱، ۳ ، ۶; منافقين كى جہالت ۶; منافقين كى جہان بينى ۴; منافقين كى سازشيں ۲;منافقين كى صفات ۱

مومنين: مومنين كے خلاف سازشيں ۲; مومنين سے مكر ۳،۵

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( ۱۰ )

ان كے دلوں ميں بيمارى ہے اور خدا نے نفاق كى بناپر اسے اور بھى بڑھا ديا ہے اب اس جھوٹ كے نتيجہ ميں انھيں دردناك عذاب ملے گا _

۱_ منافقين كے دل او ر ذہن شديد بيمارى ميں مبتلا ہيں _فى قلوبهم مرض بيمارى كى شدت كا مفہوم لفظ '' مرض'' كے نكرہ ہونے سے سمجھا جاتاہے_

۲_ اللہ تعالى منافقين كے دل و جان كى بيمارى ميں اضافہ كرديتاہے _فزادهم الله مرضاً

۳_ نفاق، مكارى اور جھوٹ ايسى رذيلہ صفات ہيں جو دل كى بيمارى سے جنم ليتى ہيں _و من الناس من يقول ء ا منا يخادعون الله فى قلوبهم مرض ''فى قلوبهم مرض'' يہ جملہ گذشتہ اور مابعد والى آيات ميں موجود ان رذيلہ صفات كى جڑ كو بيان كررہاہے جو منافقين كے لئے بيان ہوئي ہيں _

۴_ منافقين اپنے لئے دل اور افكار كى بيمارى كے وجود كا خود ہى باعث ہيں _فى قلوبهم مرض

مذكورہ بالا مطلب ان دو جملوں ''فى قلوبہم مرض _ منافقين كے دلوں ميں مرض ہے '' ''فزادہم اللہ مرضاً'' پس اللہ نے ان كى بيمارى ميں اضافہ كرديا ہے كے تقابل سے نكلتاہے اس كى وجہ يہ ہے كہ دوسرے جملے ميں ہے كہ اللہ تعالى بيمارى كو بڑھانے والا ہے جبكہ پہلے جملے ميں منافقين كے دلوں كے بيمار ہونے كى نسبت اللہ تعالى كى طرف نہيں دى گئي يعنى اس بيمارى كے پيدا ہونے كا موجب خود منافقين ہيں _

۵_ دل اور فكر و ذہن كى بيمارى انسان كے سارے وجود ميں سرايت كرجاتى ہے_فى قلوبهم مرض فزادهم الله مرضاً

پہلا جملہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافقين كے دل اور ذہن بيمار ہيں اور بعد كا جملہ دلالت كرتاہے كہ بيمارى نے ان كے سارے وجود كو گھير لياہے كيونكہ يوں نہيں فرمايا'' فزادہا اللہ مرضاً'' يہاں پر تعبير كا اختلاف يا تو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كى تمام تر حقيقت اس كا دل اور فكر ہے يا يہ حكايت كرتاہے كہ دل كى بيمارى سارے وجود ميں سرايت كرجاتى ہے اور پھر انسان كى تمام حركات و سكنات متاثر ہوتى ہيں _

۵۶

۶_ منافقين بڑے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لهم عذاب اليم

۷_ جھوٹ اور جھوٹ بولنا منافقين كا اوڑھنا بچھوناہے_بما كانوا يكذبون '' كان'' فعل مضارع پر آجائے تو زمانہ ماضى ميں تسلسل اور دوام پر دلالت كرتاہے_

۸_ جھوٹ كے رفقاء كى مسلسل سزا دردناك عذاب ہے_و لهم عذاب اليم بما كانوا يكذبون

'' بما كانوا'' ميں باء سبب كے لئے اور '' ما'' مصدر يہ ہے يعنى''و لهم عذاب اليم بسبب كذبهم المستمر''

۹_ منافقين كى مسلسل دروغ گوئي اور كذب ان كے دل و جان ميں بيمارى كے اضافے كا باعث ہے_فزادهم الله مرضاً بما كانوا يكذبون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''بماكانوا '' كا متعلق'' لهم عذاب اليم'' كے علاوہ ''فزادهم ... '' بھى ہو_

۱۰_ اللہ تعالى كے عذاب كى مختلف صورتيں اور اقسام ہيں _و لهم عذاب عظيم و لهم عذاب اليم

اخلاق: اخلاقى رذائل ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے افعال ۲; اللہ تعالى كے عذاب ۱۰

بيمار دل افراد:۱،۲

جھوٹ : جھوٹ كے عوامل ۳;جھوٹ كے نتائج ۹

جھوٹے : جھوٹوں كى سزا ۸

عذاب: اہل عذاب ۶ ،۸; دردناك عذاب۶،۸; عذاب كى اقسام ۱۰; عذاب كے درجے ۶،۸

قلب: بيمارى قلب كے عوامل ۴; بيمارى قلب كے نتائج ۳،۵; بيمارى قلب كے بڑھنے كے عوامل ۹

مكرو فريب : مكر كے عوامل ۳

منافقين : منافقين پر عذاب ۶;منافقين كى خصوصيات ۱،۷; منافقين كى دروغ گوئي ۷،۹; منافقين كے قلب كى بيمارى ميں اضافہ ۲; منافقين كے دل كى بيمارى ۱،۴،۹

نفاق: منافقت كے عوامل ۳

۵۷

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ( ۱۱ )

جب ان سے كہا جاتاہے كہ زمين ميں فساد نہ برپاكرو تو كہتے ہيں كہ ہم تو صرف اصلاح كرنے والے ہيں _

۱_ منافقين معاشرے ميں تباہى و بربادى لانے والے عناصر ہيں _و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

''فى الارض'' كا كلمہ اس بات كى وضاحت كررہاہے كہ منافقين جو تباہى و بدبختى پھيلاتے تھے وہ فقط ان كى اطراف تك محدود نہ تھى بلكہ پورے سماج ميں سرايت كرجاتى تھي_

۲_ زمانہ بعثت نبوى (ص) كے منافقين كے ناپسنديدہ اور تباہ كن اعمال پر اس زمانے كے مسلمانوں نے اعتراض كيا_و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

۳_ تباہى پھيلانے والے منافقين اپنے بارے ميں ذرہ برابر تباہى پھيلانے كو قبول كرنے كيلئے تيار نہيں ہيں _قالوا انما نحن مصلحون

''انما'' حصر پر دلالت كرتاہے _ اس جملے ميں ''موصوف كا صفت ميں حصر'' پايا جاتاہے _ لہذا اس جملے '' انما نحن مصلحون'' كا مفہوم يہ ہوا كہ ہم فقط صحيح امور انجام ديتے ہيں _ ہمارے تمام تر افعال معاشرے كى بہترى كے لئے ہيں _

۴_منافقين خود كو مصلح اور اصلاح طلب سمجھتے ہيں _قالوا انما نحن مصلحون

۵_ منافقين اپنے بيمار دل اور بيمار ذہن كے باعث اپنے فساد و تباہى پھيلانے والے كاموں كو اصلاح تصور كرتے ہيں _فى قلوبهم مرض قالوا انما نحن مصلحون

۶_ منافقين ايسے لوگ ہيں جن پر نصيحت كا كوئي اثر نہيں ہوتا_و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض قالوا انما نحن مصلحون

۷_ منافقين كا تباہى پھيلانا اور ان پر نصيحت كا اثر نہ ہونا ان كى قلبى بيمارى كى وجہ سے ہے_فى قلوبهم مرض و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

۸_ دل اور ذہن و فكر كى بيمارى كى واضح نشانى فساد پھيلانا اور نصيحت كا اثر نہ ہونا ہے_فى قلوبهم مرض ...و اذا قيل لهم لا تفسدوا

۵۸

فى الارض قالوا انما نحن مصلحون

۹ _ منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا اور نصيحت كا ان پر اثر نہ ہونا ان كے دردناك عذاب ميں مبتلا ہونے كا باعث بنا_

و لهم عذاب اليم بما كانوا و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''اذا قيل'' يكذبون پر عطف ہو _ اس اعتبار سے ''اذا قيل ...'' كا مفہوم '' يكذبون'' كى طرح منافقين كے لئے دردناك عذاب كا سبب بيان كررہاہے_

۱۰_ منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا ان كے لئے دل ، ذہن و فكر كى بيمارى ميں اضافے كا موجب ہے_

فزادهم الله مرضاً بما كانوا يكذبون ...و اذا قيل لهم لا تفسدوا

يہ مطلب دوچيزوں پر مبنى ہے: ۱_''اذاقيل ...'' ''يكذبون'' پر عطف ہو ۲ _ ''بما كانوا يكذبون''،''و لہم عذاب اليم'' سے متعلق ہونے كے علاوہ ''فزادہم اللہ ''سے بھى متعلق ہو اس لحاظ سے جملہ يوں ہوجائے گا ''فزادهم الله مرضاً ...بما كانوا اذا قيل لهم ''

عذاب: اہل عذاب ۹; دردناك عذاب ۹;عذاب كے اسباب ۹;عذاب كے درجے ۹

فساد و تباہى : فساد و تباہى كے عوامل ۸

فساد و تباہى پھيلانا: فساد و تباہى پھيلانے كى سزا ۹

قلب: قلبى بيمارى ميں اضافے كے اسباب و حالات ۱۰;قلب كى بيمارى كے اثرات ۷; قلبى بيمارى كى علامتيں ۸

مجرمين: ۱

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان اور منافقين ۲

معاشرہ : معاشرے كى ابترى كے عوامل ۱

منافقين : صدر اسلام كے منافقين ۲; منافقين پر اعتراض ۲; منافقين پر نصيحت كا اثر نہ ہونا۶،۷; منافقين كا تباہى پھيلانا ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۷ ، ۹;منافقين كا ناپسنديدہ عمل ۲;منافقين كى اصلاح نہ ہونا ۹; منافقين كى تباہى پھيلانے كے اثرات ۱۰; منافقين كى قلبى بيمارى ۷،۱۰; منافقين كى قلبى بيمارى كے اثرات ۵;منافقين كى خصوصيات ۳، ۶; منافقين كے جرائم ۱،۹; منافقين كے دعوے ۴،۵;منافقين اور اصلاح طلبى ۴،۵

نصيحت و موعظہ : نصيحت كے اثرا انداز نہ ہونے كے عوامل ۸

۵۹

أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لاَّ يَشْعُرُونَ ( ۱۲ )

حالانكہ يہ سب مفسد ہيں اور اپنے فساد كو سمجھتے بھى نہيں ہيں _

۱ _ منافقين فساد اور تباہى پھيلانے والے لوگ ہيں _الا انهم هم المفسدون

۲_ منافقين انسانى معاشروں ميں فساد اور تباہى كا سرچشمہ ہيں _الا انهم هم المفسدون

قرآن كريم كى بعض آيات ميں منافقين كے علاوہ بھى كچھ لوگوں كو فسادى كہا گيا ہے پس يہاں جملے '' الا انہم فقط منافقين فسادى ہيں '' كا حصر ادعائي ہے اور اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ غير منافقين كا فسادى ہونا منافقين كے مقابلے ميں كچھ بھى نہيں يا يہ كہ دوسروں كا فساد و تباہى بھى منافقت اور منافقينكى طرف لوٹ جاتاہے_

۳ _ منافقين ايسے فساد ى ہيں جو اصلاح كے دعويدار ہيں _انما نحن مصلحون_ الا انهم هم المفسدون

۴ _ منافقين اپنے فساد و تباہى سے بے خبر ہيں _و لكن لا يشعرون

۵ _ منافقين كى دلى بيمارى انكے فساد كو سمجھنے كے راستے ميں ركاوٹ ہے _فى قلوبهم مرض الا انهم هم المفسدون و لكن لا يشعرون

۶_ اہل ايمان كو چاہيئے كہ منافقين كو ہميشہ فسادى سمجھيں _الا انهم هم المفسدون

منافقين كے تباہى و ويرانى پھيلانے كا ذكر جملہ اسميہ سے كرنا جبكہ اس كے ساتھ حرف تنبيہ ( الا _ آگاہ رہو) اور حرف تاكيد ( انّ _ بيشك) كا استعمال ہوا ہے ،يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافقين نے جھوٹ بول بول كر مسلمانوں كو يہ باور كراديا تھا كہ وہ لوگ اصلاح پسند ہيں _ لہذا كہا جاسكتاہے كہ اس جملے كا ايك مقصد يہ ہے كہ مسلمان منافقين كے فساد و تباہى پھيلانے كے عمل ميں ہرگز شك نہ كريں _

۷ _ مومنين كو منافقين كے فساد و تباہى پھيلانے كے عمل و حركات سے ہوشيار رہنے كى ضرورت ہے_الا انهم هم المفسدون

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785