تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201361 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

ظاہر ہے كہ يہود ى يہ نہيں كہتے تھے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور نصرانى ہيں اسى طرح نصارى بھى يہ نہ كہتے تھے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور يہودى ہيں پس لف اجمالى كا استعمال اور ان ميں سے ہر ايك كے عقيدہ كى تفصيل بيان نہ كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ وہ لوگ باوجود اپنے درميان شديد اختلافات كے مسلمانوں كےخلاف بالكل ايك اور ہم آواز ہيں _

۴ _ اللہ تعالى اپنے انبياءعليه‌السلام كے دين سے دوسروں كى نسبت زيادہ آگاہ ہے _قل اانتم اعلم ام الله

۵ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كى اولاد نہ تو يہودى تھے اور نہ ہى نصرانى _ام تقولون كانوا هوداً اونصارى جملہ''ام تقولون ...'' ميں استفہام انكارى توبيخى ہے يعنى يہ گمان ہے اور ايك باطل و غير صحيح گمان ہے اس پر اعتقاد ركھنے والا سزا كا مستوجب ہے _

۶ _ يہود و نصارى نے تاريخ انبياءعليه‌السلام ميں تحريف كى _ام تقولون ابراهيم و اسماعيل كانوا هوداً او نصارى

۷_ لوگوں ميں ظالم ترين افراد وہ ہيں جو دينى حقائق اور الہى معارف كو چھپاتے ہيں اور ان كو دوسروں كے سامنے پيش كرنے سے اجتناب كرتے ہيں _و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله ''من اللہ'' ،''عندہ''كى طرح ''شہادة'' كے لئے صفت ہے پس ''شہادة عندہ من اللہ'' يعنى اسكے پاس جو شہادت ہے وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے _ انسان كے اختيار ميں اللہ تعالى كى جانب سے جو شہادت ہے اس سے مراد دينى حقائق اور الہى معارف ہيں _

۸_ يہود و نصارى كے پاس اللہ تعالى كى جانب سے ايك حقيقت تھى جسے ان كو لوگوں كے سامنے پيش كرنا تھا_ امتقولون و من اظلم ممن كنم شهادة عنده من الله آيات كے اس حصہ ميں بحث چونكہ يہود و نصارى كے بارے ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جملہ'' من اظلم ...'' كا براہ راست اشارہ يہود و نصارى كى طرف ہے _

۹ _ ضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى آل اولاد كے بارے ميں يہود و نصارى نے كچھ حقائق پر پردہ ڈالا اس ليئے وہ ظالم ترين لوگ ہيں _

ام تقولون ان ابراهيم و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله '' شہادة من اللہ'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے آيہ مجيدہ كے صدر كى روشنى ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور ديگر مذكورہ انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں كچھ حقائق ہيں _

۴۸۱

۱۰_ جس حقيقت كى يہود و نصارى كيلئے گواہى دينا ضرورى تھى اس پر انہوں نے پردہ ڈالا اور لوگوں كے سامنے اسے پيش كرنے سے اجتناب كيا _و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله

۱۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے اور يہود و نصارى كے مورد قبول شخصيات تھيں _ام تقولون ان ابراهيم كانوا هوداً او نصارى

۱۲ _ گواہى دينا واجب اور اسكا چھپانا ظلم ہے_و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله

۱۳ _ اللہ تعالى انسانوں كے اعمال سے غافل نہيں اور ان سب سے آگاہ ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

۱۴ _ آسمانى حقائق كو چھپانے كى وجہ سے اہل كتاب كے علماء كو اللہ تعالى كى جانب سے دھمكى دى گئي _و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله و ما الله بغافل عما تعملون اللہ تعالى كے آگاہ ہونے اور علمائے اہل كتاب كے كردار سے غافل نہ ہونے كے كے بيان كرنے كا ہدف انہيں سزا دينے كى دھمكى دينا ہے_

۱۵ _ امام كاظمعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''و ان سئلت عن الشهادة فاشهد بها و هو قول الله عزوجل و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله .''(۱)

اگر تيرے پاس موجود گواہى كے بارے ميں سوال كيا جائے تو گواہى دو كيونكہ اللہ جل جلالہ كا ارشاد ہے ''و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله ...''

اسباط: اسباط كا دين ۵

اسلام: دشمنان اسلام۳

اسماء اور صفات: جلالى صفات۱۳; جمالى صفات۱۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۴; اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۴; اللہ تعالى اور غفلت ۱۳; علم الہى ۴،۱۳

انبيائ( عليہم السلام ): انبياءعليه‌السلام كى تاريخ كى تحريف ۶; انبياءعليه‌السلام كا دين ۴

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۳۱۵ ح ۱۴_

۴۸۲

انسان: انسانى عمل ۱۳

اہل كتاب كے علماء : علمائے اہل كتاب كو دھمكى ۱۴; علمائے اہل كتاب اور حق كا چھپانا ۱۴

جرائم : جرائم كے موارد ۱۲

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمىعليه‌السلام ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

حضرت اسحاقعليه‌السلام : دين حضرت اسحاقعليه‌السلام ۵; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : دين حضرت اسماعيلعليه‌السلام ۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

حق: حق كو چھپانے كا ظلم ۷

دين: دين كا چھپانا ۷ روايت:۱۵ ظالمين : ظالم ترين لوگ ۷،۹ ظلم : ظلم كے درجات ۷; ظلم كے موارد ۱۲

عيسائي: عيسائيوں كا تحريف كرنا ۶; عيسائيوں كا ظلم ۹; عيسائيوں كا عقيدہ ۲; عيسائيوں كى ذمہ دارى ۸; عيسائي اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۹،۱۱; عيسائي اور اسباط ۹; عيسائي اور حضرت اسحاقعليه‌السلام ۹،۱۱; عيسائي اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام ۹ ، ۱۱; عيسائي اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۲; عيسائي اور اسباطعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حق كا چھپانا ۹،۱۰; عيسائي اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۹،۱۱

گواہي: گواہى كے احكام ۱۲; گواہى كى اہميت ۱۵; گواہى كا چھپانا ۱۲; گواہى كا وجوب ۱۲

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۳ واجبات:۱۲

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۵; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

يہود: يہوديوں اور عيسائيوں كا اتحاد ۳; يہوديوں كا عيسائيوں سے اختلاف ۳; يہوديوں كا تحريف كا عمل ۶; يہوديوں كا ظلم ۹; يہوديوں كا عقيدہ ۱; يہوديوں كى ذمہ دارى ۸; يہود اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۹،۱۱; يہود اور اسباطعليه‌السلام ۹; يہود اور حضرت اسحاقعليه‌السلام ۹،۱۱; يہود اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام ۹،۱۱; يہود اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۱; يہود اور اسباطعليه‌السلام كا دين ۱; يہود اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا دين۱; يہود اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا دين ۱; يہود اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۱; يہود اور حق كا چھپانا ۹،۱۰; يہود اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۹،۱۱

۴۸۳

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ( ۱۴۱ )

يہ امت گذرچكى ہے اس كا حصہ وہ ہے جو اس نے كيا ہےاور تمھارا حصہ وہ ہے جو تم كردگے اورخدا تم سے ان كے اعمال كے بارے ميں كوئيسوال نہيں كرے گا(۱۴۱)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام اللہ تعالى كى پرستش كرنے والى امت اور اسكے حضور سر تسليم خم تھے_تلك امة قد خلت ''تلك '' كا مشار اليہ ما قبل آيت ميں موجود انبياءعليه‌السلام ہيں مذكر كى طرف اشارہ كے لئے ''تلك'' كا استعمال خبر (امة) كى مناسبت سے ہے _

۲ _ تمام انسان حتى انبياءعليه‌السلام اولوالعزم بھى دنيا ميں نہ رہے اور سب كو عالم آخرت كى طرف جانا ہوگا_تلك امة قد خلت اس مطلب كى مزيد وضاحت كے لئے آيت ۱۳۴ كے مطلب نمبر ۲ كى طرف رجوع كريں _

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے نيك اعمال كى جزا نہيں سے مختص ہے اس سے دوسروں كو فائدہ نہ ہوگا_تلك امة قد خلت لها ما كسبت '' لہا'' كا '' ماكسبت'' پر مقدم ہونا حصر كا معني ديتاہے پس '' لہا ما كسبت''يعنى ان كے نيك اعمال كا فائدہ خود انہى كى طرف لوٹ كے جائے گا _

۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور جيسے انبياءعليه‌السلام كے نيك اعمال اور انكى فضيلتوں كى جزا سے يہود كا بہرہ مند ہونا يہود كے نادرست عقائد ميں سے ہے_لها ما كسبت و لكم ما كسبتم اس مطلب كا يوں استفادہ ہوتاہے كہ اللہ تعالى يہوديوں سے مخاطب ہوكر فرماتاہے كہ انبياءعليه‌السلام كے اعمال كا نتيجہ دوسروں كو نہ ملے گا _

۵ _ ہر فرد اور ہر امت اپنے نيك اعمال كے اجر سے بہرہ مند ہوں گے _لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

۶_ ہر شخص اور ہر معاشرے كے اعمال كا نتيجہ خود انہيں سے مربوط ہے اور انہيں كى طرف لوٹے گا_

لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

۴۸۴

۷_ ہر معاشرے اور امت كى ايك زندگي، موت اور مستقل شخصيت ہے_تلك امة قد خلت

۸ _ انسان اپنے اسلاف كے اعمال كا ذمہ دار نہيں ہے اور نہ ہى ان كے سبب اسكا مؤاخذہ ہوگا_و لاتسئلون عما كانوا يعملون

۹ _ يہوديوں كو ان كے اپنے اسلاف كے برُے اعمال كا نتيجہ بھگتنا پڑے گا اور اس پر ان كا مواخذہ ہوگا يہ يہوديوں كے باطل خيالات ميں سے ہے *و لا تسئلون عما كانوا يعملون يہ مطلب اس وجہ سے ہے كہ يہوديوں كو مورد خطاب قرار دے كر يہ حقيقت بيان كى گئي ہے كہ وہ لوگ اپنے اسلاف كے اعمال كے ذمہ دار نہيں ہيں _

۱۰_ انبياءعليه‌السلام سے رشتہ دارى يا ان كى نسل سے ہونا قيامت ميں كام نہ آئے گا اور نہ ہى اعمال كے نتائج سے رہائي كا باعث ہوگا_تلك امة قد خلت لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

انبياءعليه‌السلام كے اعمال كے نتائج سے دوسروں كو فائدہ نہ ہوگا يہ مطلب ايسے لوگوں سے مخاطب ہوكر كہا گيا ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى نسل سے ہيں اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ كيا جاسكتاہے _

۱۱ _ انسانوں كے اعمال كے حساب كتاب اور ان كے اعمال كى جزا عدل الہى كے مطابق ہوگي_لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

اجر : اجر كا مختص ہونا ۳،۵،۶; اجر ميں عدالت و انصاف ۱۱

اسلاف: اسلاف كا عمل ۸

اللہ تعالى : الہى جزائيں ۱۱; اللہ تعالى كا حساب كتاب ۱۱; اللہ تعالى كا عدل و انصاف ۱۱

امتيں : عبادت گزارا امتيں ۱; امتوں كى جزا ۵; امتوں كى زندگى ۷; امتوں كى شخصيت ۷; امتوں كى موت ۷

انبيائ( عليہم السلام) : انبياءعليه‌السلام سے ر شتہ دارى ۱۰; انبياءعليه‌السلام كى رحلت ۲; انبياءعليه‌السلام كى نسل ۱۰

انسان: انسانوں كى موت ۲

اولاد: اولاد كى ذمہ دارى كا دائرہ۸

۴۸۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عبادت ۱

حضرت اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى عبادت ۱

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى عبادت۱

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى عبادت۱

سرتسليم خم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كى اہميت ۱

سزائيں : سزاؤں كا ذاتى ہونا۸; سزاؤں كا نظام ۶،۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴،۹

عمل : عمل كے آثار۱۰; دوسروں كے عمل سے فائدہ اٹھانا ۳،۴;عمل كى جزا ۶

عمل صالح : عمل صالح كى جزا ۳،۵

قيامت : قيامت ميں رشتہ دارى ۱۰

معاشرہ : معاشروں كى زندگى ۷; معاشروں كى شخصيت ۷ معاشروں كى موت ۷

موت : موت كا حتمى ہونا ۲

نجات: اخروى نجات كے عوامل۱۰

يہودي: يہوديوں كا عقيدہ۴،۹; يہوديوں كے اسلاف كا عمل ۹

۴۸۶

سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( ۱۴۲ )

عنقريب احمق لوگ يہكہيں گے كہ ان مسلمانوں كو اس قبلہ سے كسنے موڑديا ہے جس پر پہلے قائم تھے تو اےپيغمبر كہہ ديجئے كہ مشرق و مغرب سب خداكے ہيں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقيم كيہدايت دے ديتا ہے (۱۴۲)

۱ _ زمانہ بعثت ميں كچھ مدت كے لئے بيت المقدس مسلمانوں كا قبلہ رہا _ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها

اكثر مفسرين كے نظريئے كے مطابق ''قبلتھم ...'' سے مراد بيت المقدس ہے _

۲ _ مسلمانوں كا قبلہ اول (بيت المقدس) اللہ تعالى كے حكم سے كعبہ كى طرف تبديل ہوگيا_ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها ...يهدى من يشاء '' يہدى من يشائ'' قرينہ ہے اس پر كہ قبلہ كى تبديلى اللہ تعالى كے فرمان سے ہوئي _

۳ _ احمقوں اور بے وقوفوں نے قبلہ كى تبديلى كو بے جا تصور كيا اور اس پر اعتراض كيا _سيقول السفهآء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها

۴ _ اللہ تعالى كے احكام كو قبول نہ كرنا اور ان پراعتراض كرنا بے وقوفى اور كم عقلى ہے _سيقول السفهاء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم

۵ _ احكام دين كا نسخ ايك ممكن امر ہے اس كو بے جا تصور كرنا حماقت و كم عقلى كى دليل ہے _سيقول السفهاء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم

۶_ تبديلى قبلہ كے بارے ميں مخالفين اسلام كى مخالفت اور ضد كى قرآن حكيم نے پيشين گوئي فرمائي_سيقول السفهآء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها

۷_ تبديلى قبلہ كے سلسلہ ميں قبل اس كے كہ اعتراض كرنے والے اعتراض كريں اللہ تعالى نے آنحضرت (ص) كو اسكا جواب سكھايا_سيقول قل لله المشرق والمغرب

۴۸۷

۸_ دين كى تبليغ كرنے والوں كيلئے مخالفين كے شبہات اور اعتراضات سے مطلع ہونا اور انكا مناسب جواب دينا ضرورى ہے_سيقول ما ولّى هم عن قبلتهم قل لله المشرق والمغرب مخالفين كے شبہات اور اعتراضات سے پہلے ہى جو اللہ تعالى نے اپنے حبيب (ص) كو ان سے آگاہ فرمايا اور ان كا جواب سكھايا اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتاہے_

۹_ مشرق و مغرب ( سب جہتيں اور جگہيں ) اللہ تعالى كى ہيں _قل لله المشرق والمغرب

۱۰_ سب سمتوں اور جگہوں كى ملكيت ميں اللہ تعالى كا كوئي شريك نہيں ہے_لله المشرق والمغرب

۱۱ _ اس اعتبار سے كہ تمام سمتيں اور جگہيں اللہ تعالى كى ملكيت ہيں لذا قبلہ بننے كى صلاحيت ركھتى ہيں ان ميں سے بعض كو بعض پر كوئي فوقيت حاصل نہيں ہے_قل لله المشرق والمغرب

۱۲ _ كعبہ كا قبلہ بننا انسانوں كى صراط مستقيم كى طرف ہدايت كى بنياد ہے _ماولّى هم عن قبلتهم يهدى من يشاء الى صراط مستقيم يہ جملہ ''لله المشرق ...'' بيان كررہاہے كہ كعبہ اور بيت المقدس دونوں خداوند متعال كى ملكيت ہيں اس اعتبار سے ان ميں كوئي فرق نہيں پايا جاتا_ جملہ''يھدي ...'' اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ كعبہ كو قبلہ كے طور پر انتخاب كرنا انسانوں كى ہدايت كا ذريعہ ہے اسى لئے اسے سب كے لئے قبلہ قرار ديا گياہے_

۱۳ _ كسى سمت كو قبلہ قرار دينے كا معيار يہ ہے كہ وہ سمت يا حگہ انسانوں كى ہدايت ميں مؤثر ہو_ما وليهم عن قبلتهم قل لله المشرق والمغرب يهدى من يشائ _

۱۴ _ انسانوں كى صراط مستقيم كى طرف ہدايت كرنے والا اللہ تعالى ہے _يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۱۵ _ اللہ تعالى كى جانب سے احكام اور دين كى تشريع (قانون سازي) كا ہدف انسانوں كى صراط مستقيم كى طرف ہدايت ہے _ماولّى هم عن قبلتهم يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۱۶_ انسانوں كى ہدايت اور دين كے قوانين كى تشريع كے سلسلے ميں اللہ تعالى مختار ہے _يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۱۷_ امام صادقعليه‌السلام نے فرمايا''و صلّى رسول الله (ص) الى بيت المقدس بعد النبوة ثلاث عشرة سنة بمكة و تسعة عشر شهراً بالمدينة

۴۸۸

ثم عيرته اليهود (۱)

رسول خدا (ص) نے رسالت كے بعد تيرہ سال مكہ ميں اور انيس ماہ مدينہ منورہ ميں بيت المقدس كى طرف نماز پڑھى يہاں تك كہ يہوديوں نے آپ (ص) پر انگشت نمائي اور اعتراضات كيئے _

احكام: احكام پر اعتراض ۴; احكام كى تشريع ۱۶; فلسفہ احكام ۱۵; احكام كا نسخ ہونا ۵

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱،۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اختيار ۱۶ ;اوامر الہى ۲; اللہ تعالى اور شريك ۱۰; اللہ تعالى كى مالكيت ۹،۱۰،۱۱; ہدايت الہى ۱۴

انسان: انسانوں كى ہدايت ۱۲،۱۴،۱۵،۱۶

بيت المقدس: بيت المقدس كا قبلہ ہونا۱،۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو تعليم دينا ۷; پيامبر اسلام (ص) كا بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ۱۷

حماقت: حماقت كے نتائج ۴; حماقت كى علامتيں ۵

دين : فلسفہ دين ۱۵

روايت:۱۷

مقامات: مقامات كا مالك ۹،۱۰،۱۱

شبہات: شبہہ شناسى كى اہميت ۸; شبہات كا جواب دينا ۷،۸

شرك: شرك كو رد كرنا ۱۰

قبلہ : تبديلى قبلہ پر اعتراض ۳،۷; تبديلى قبلہ ۲; دشمن اور تبديلى قبلہ ۶; احمق افراد اور تبديلى قبلہ ۳; مسلمانوں كا قبلہ اوّل ۱،۲; قبلہ ہونے كا معيار ۱۱،۱۳

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشين گوئي ۶

كعبہ: كعبہ كے قبلہ ہونے كے نتائج ۱۲; كعبہ كا قبلہ ہونا ۲

مبلغين :

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہہ ج ص ۱۷۸ح۸۴۳;نور الثقلين ج۱ ص ۱۳۷ ح ۴۲۷

۴۸۹

مبلغين كى ذمہ دارى ۸;

مشرق : مشرق كا مالك ۹

مغرب: مغرب كا مالك ۹

نسخ : نسخ پر اعتراض۵

ہدايت: ہدايت كى اہميت ۱۳; ہدايت كى بنياد ۱۲; ہدايت كے عوامل ۱۳; ہدايت كا سرچشمہ ۱۴; صراط مستقيم كى ہدايت ۱۲،۱۴،۱۵

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ( ۱۴۳ )

او رتحويل قبلہكى طرح ہم نے تم كو درميانى امت قرادراہے تا كہ تم لوگوں كے اعمال كے گواہ رہواور پيغمبر تمھارے اعمال كے گواہ رہيں اور ہم نے پہلے قبلہ كو صرف اس لئے قبلہبنايا تھا كہ ہم يہ ديكھيں كہ كون رسولكا اتباع كرتا ہے اور كون پھچلے پاؤں پلٹجاتا ہے _ اگر چہ قبلہ ان لوگوں كے علاوہسب پرگراں ہے جن كى الله نے ہدايت كردى ہےاور خدا تمھارے ايمان كو ضائع نہيں كرناچاہتا _ وہ بندوں كے حال پر مہربان اوررحم كرنے والا ہے (۱۴۳)

۱_ اللہ تعالى نے امت مسلمة كو معتدل اور برتر امت قرار دياہے_جعلناكم امة وسطاً '' وسطاً'' بعض مفسرين كے بقول كہ يہ كنايہ ہے '' معتدل '' يا ''برتر'' سے_

۲ _ ماديات اور معنويات كے اعتبار سے اسلام ايك متوازن دين ہے _جعلناكم امة وسطاً

ان آيات ميں مورد خطاب يہود و نصارى ہيں اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ امت مسلمہ كو جو متوازن اور معتدل امت قرار ديا گياہے يہ يہود و نصارى كے مقابلہ ميں ہے_ كيونكہ يہود ى دنياپرست ہيں جبكہ نصارى ترك دنيا اور رہبانيت كى تائيد كرتے ہيں _ پس امت مسلمہ كا معتدل ہونا دنياوى اور معنوى امور ميں ہے _

۴۹۰

۳_ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى كا كردار امت مسلمہ ايك متوازن اور برتر امت كا درجہ حاصل كرنے ہيںماولى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها و كذلك جعلناكم امة وسطاً

۴ _ اسلامى آداب و احكام ہر طر ح كى افراط و تفريط سے مبرا اور پاك ہيں _جعلناكم امة و سطاً

۵ _ مسلمان ديگر انسانوں كے اعمال پر گواہ ہيں اور پيامبر گرامى اسلام (ص) مسلمانوں كے اعمال پر گواہ ہيں _

لتكونوا شهداء على الناس و يكون الرسول عليكم شهيداًآيہ مجيدہ ميں '' شہدائ'' اور '' شہيد '' سے كيا مراد ہے اس سلسلہ ميں چند آراء پائي جاتى ہيں _ ان ميں سے ايك اعمال پر گواہ ہونا ہے يعنى امت اسلامى يا اس امت كے بعض لوگ دوسرى امتوں كے اعمال كا مشاہدہ كرتے ہيں اور قيامت كے دن ان پر گواہى ديں گے اور نبى اسلام (ص) بھى مسلمانوں كے اعمال پر ناظر ہيں اور عالم آخرت ميں ان پر گواہى ديں گے_

۶ _ پيامبر اسلام (ص) مسلمانوں پر اللہ تعالى كى حجّت و برہان ہيں اور امت مسلمہ ديگر لوگوں پر اللہ تعالى كى حجت ہے_

لتكونوا شهداء على الناس و يكون الرسول عليكم شهيداً ميں ''شہدا'' اور ''شہيد '' كى ايك تفسيرحجت ہے_

۷_ امت مسلمہ كا معتدل ہونا اور ديگر امتوں سے برتر ہونا امت مسلمہ كے ديگر امتوں پر حجت ہونے كى علت ہے_

جعلنكم امة وسطاً لتكونوا شهداء على الناس

۸_ زمانہ بعثت ميں كچھ عرصہ كے لئے بيت المقدس مسلمانوں كا قبلہ رہاہے_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها

''القبلة'' سے مراد بيت المقدس ہے '' التى كنت عليہا'' ميں ''كان'' ممكن ہے حال كامعنى ديتا ہو يعنى وہ قبلہ جس كى طرف تم ہو_ اس بناپر مذكورہ آيت قبلہ كى تبديلى سے قبل نازل ہوئي يہ بھى ممكن ہے كہ ''كان'' ماضى كا معنى ديتاہو اس صورت ميں مذكورہ آيت قبلہ كى تبديلى كے بعد نازل ہوئي _البتہ قبلہ كى تبديلى كا حكم چونكہ بعد والى آيت ميں بيان ہوا ہے اس اعتبار سے زيادہ بہتر پہلے والا احتمال معلوم ہوتاہے _

۹_ بيت المقدس كو مسلمانوں كے لئے قبلہ كے طور پر متعين كرنے كا ہدف پيامبر اسلام (ص) كے حقيقى پيروكاروں كو دوسروں سے مشخص اور ممتاز كرنا تھا_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه

۴۹۱

۱۰_ بيت المقدس كو قبلہ كے طور پر معين كرنا مسلمانوں كى آزمائش اور ان كى چھان پھٹك كے لئے تھا_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم

۱۱ _ بيت المقدس كا اہل اسلام كے لئے قبلہ ہونا كچھ مسلمانوں كے لئے ايك مشكل اور ناقابل قبول امر تھا_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۲ _ فقط ہدايت يافتہ لوگ تھے جنہوں نے بيت المقدس كو قبلہ كے طور پر قبول كيا اور اسكو كوئي مشكل شرعى حكم نہ سمجھا_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۳ _ اللہ تعالى تمام انسانوں كى ہدايت كرنے والا ہے_الا على الذين هدى الله

۱۴ _ احكام الہى كو قبول كرنا اللہ تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے انسانوں كى پيروى كرنے كى دليل ہے _ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه

۵ ۱_ پيامبر اسلام (ص) كى اتباع كرنا ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كى دليل ہے _الا لنعلم من يتبع الرسول و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى اتباع اور احكام الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوناضرورى ہے_ما جعلنا القبلة الا لنعلم من يتبع الرسول

۱۷ _ بيت المقدس كو مسلمانوں كے لئے قبلہ كے طور پر متعين كرنے كا فلسفہ اور حكمت اس چيز كا مشخص كرنا تھا كہ كون خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہے اور چون و چرا نہيں كرتا _الا لنعلم من يتبع الرسول ...و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۸ _ ہدايت يافتہ انسانوں ميں خداوند متعال اور احكام الہى كے سامنے بے چون و چرا سر تسليم خم ہونے جذبہ پايا جاتاہے_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۹ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف مسلمانوں كے قبلہ كى تبديلى كا واقع ہونا*و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ''التى كنت عليها'' ميں ''كان'' زمانہ ماضى پر دلالت كرتاہو اس صورت ميں ''التى كنت عليها'' قبلہ كى تبديلى پر دلالت كرتاہے_

۲۰_ قبلہ كى تبديلى اور مسجد الحرام كو مسلمانوں كے لئے قبلہ كے طور پر متعين كرنے كا ہدف آنحضرت كے حقيقى پيروكاروں كو دوسروں سے مشخص اور ممتاز كرنا ہے_*ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن

۴۹۲

ينقلب بعض كى رائے يہ ہے كہ ''الا لنعلم ...'' كا بيان كرنا بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى كا ہدف بيان كرنے كيلئےہے يعنى ''لنعلم'' در حقيقت فعل محذوف سے متعلق ہے_ كہ جس پركلام كے قرائن دلالت كررہے ہيں _ پس جملہ در حقيقت يوں ہے''ما جعلنا القبلة التى كنت عليها فصرفناك عنها الا لنعلم ...''

۲۱ _ قبلہ كى تبديلى دوسروں كى بجائے سچے مسلمانوں كى پاكيزگى اور چھانٹى كےلئے ايك آزمائش تھي_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم

۲ ۲_ قبلہ كى تبديلى كا معاملہ بعض مسلمانوں كے لئے ايك مشكل اور ناقابل قبول مسئلہ تھا_وان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۲۳ _ فقط ہدايت يافتہ لوگ پيامبر اسلام (ص) كے سچے پيروكار تھے جنہوں نے قبلہ كى تبديلى كو قبول كيا اور اسكو ايك دشوار امر نہ سمجھا_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۲۴ _ نماز ايمان كا مظہر ہے _و ما كان الله ليضيع ايمانكم

بہت سے مفسرين كا كہناہے كہ ايمان سے مراد يہاں نماز ہے_ ايمان كا نماز پر اطلاق نماز كى عظمت پر دلالت كرتاہے _ اس طرح كہ نماز كو ايمان كہاجاسكتاہے يا اسے مظہر ايمان سمجھا جائے_

۲۵ _ قبلہ كى تبديلى سے قبل جو نمازيں بيت المقدس كے رخ پر پڑھى گئي ان كو اللہ تعالى نے قبول فرمايا اور ان كا اجر ضائع نہيں ہوگا_و ما كان الله ليضيع ايمانكم

قبلہ كى تبديلى يا تبديلى كى خوشخبرى نے مسلمانوں كے درميان اس سوال كو پيدا كيا كہ وہ نمازيں اور عبادات جو بيت المقدس كے رخ پر ادا كى گئي ہيں كيا وہ باطل ہيں ؟ يہ جملہ''و ما كان ...'' اس سؤال كا جواب ہے _

۲۶ _ قواعد و ضوابط اور قوانين كا وضع ہونا اور ان كا رسمى اعلان ان سے ماقبل كے زمانوں كو شامل نہيں ہوتا_

و ما كان الله ليضيع ايمانكم

۲۷_ اللہ تعالى انسانوں كے ساتھ رؤوف اور مہربان ہے _ان الله بالناس لرؤوف رحيم

۲۸_ اللہ تعالى كے اس كلام '' و كذلك جعلناكم امة وسطاً لتكونوا شہداء على الناس'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا : ''نحن الشهداء على الناس بما عندهم من الحلال والحرام و ما ضيعوا منه_ ''(۱) ہم (ائمہ) حلال و حرام اور جو كچھ لوگ ان (حرام و حلال) سے ضائع كرتے ہيں كے شاہد ہيں _

۴۹۳

۲۹_ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''يدعى نوح يوم القيامة فيقال له: هل بلغت؟ فيقول نعم، فيدعى قومه فيقال لهم هل بلغكم ؟ فيقولون ما اتانا من نذير و ما اتانا من احد، فيقال لنوح من يشهد لك؟ فيقول محمد (ص) ، و امته و ذلك قوله ''و كذلك جعلناكم امة وسطاً'' قال والوسط العدل فتدعون فتشهدون له بالبلاغ ...''(۲)

'' قيامت كے دن حضرت نوحعليه‌السلام كو بلايا جائے گا اور كہا جائے گا كيا آپعليه‌السلام نے رسالت كى تبليغ كى ؟ تو جواب دينگے ہاں اس كے بعد آپعليه‌السلام كى قوم كو بلايا جائےگا اور ان سے پوچھا جائے گا كيا نوحعليه‌السلام نے تمہيں (رسالت كي) تبليغ كى تو وہ جواب ميں كہيں گے ہميں كوئي ڈرانے كے لئے نہيں آيا تھا پھر حضرت نوحعليه‌السلام سے كہا جائے گا آپعليه‌السلام كى گواہى دينے والا كون ہے تو آپعليه‌السلام جواب دينگے حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى امت ، پس يہى اللہ تعالى كا قول ہے _ اور اسى طرح ہم نے تمہيں امت وسط قرار ديا'' رسول خدا (ص) فرماتے ہيں وسط سے مراد عدل ہے پس تم (مسلمان) بلائے جاؤگے اور حضرت نوحعليه‌السلام كى رسالت اور خود ان كے بارے ميں گواہى دوگے ...''

۳۰ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''و لما ان اصرف نبيه الى الكعبة عن بيت المقدس قال المسلمون للنبي(ص) ا رأيت صلاتنا التى كنا نصلى الى بيت المقدس ما حالنا فيها وماحال من مضى من امواتنا و هم يصلون الى بيت المقدس؟ فانزل الله ''و ما كان الله ليضيع ايمانكم ان الله بالناس لرؤوف رحيم'' فسمّى الصلوة ايماناً ...''(۳) اللہ تعالى نے جب اپنے نبى (ص) كا رخ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف بدلا تو مسلمانوں نے حضور (ص) كى خدمت ميں عرض كيا كہ ہم نے جو نمازيں بيت المقدس كى طرف رخ كركے پڑھى ہيں ان كا كيا بنے گا اسى طرح ان لوگوں كى نمازيں جنہوں نے بيت المقدس كى طرف رخ كركے پڑھيں او ر اب دنيا سے جاچكے ہيں ؟ تو اللہ تعالى نے اس آيہ مباركہ كو نازل فرمايا''و ما كان الله ليضيع ايمانكم ان الله بالناس لرؤوف رحيم'' اس آيت ميں اللہ تعالى نے نماز كو ايمان قرار ديا ہے ...''

۳۱_عن ابى بصير عن احدهما عليه‌السلام فقلت له الله امره ان يصلى الى بيت المقدس قال نعم الا ترى ان الله تعالى يقول '' و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه (۴)

___________________

۱) بصائر الدرجات ص ۸۲ ح /۱ باب ۱۳ ،نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۳ ح ۴۰۱ و ۴۰۸_ ۲) تفسير ابن كثير ج/ ۱ ص ۲۹۷_ ۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص۶۳ ح ۱۱۵ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۶۱ ح ۳ ، ۴_ ۴) تہذيب الاحكام ج/ ۲ ص ۴۴ ح ۱۳۸ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۶ ح ۴۱۴_

۴۹۴

ابى بصير نے امام باقرعليه‌السلام يا امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا كيا اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) كو مامور فرمايا كہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں كيا تجھے نہيں معلوم كہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' اس سے پہلے جس قبلہ پر تم تھے ہم نے فقط اس ليئے اسكو قبلہ قرار ديا تا كہ رسول كى اتباع كرنے والوں كو ان لوگوں سے ممتاز و مشخص كريں جو جاہليت كى طرف لوٹ جاتے ہيں

آئمہعليه‌السلام : آئمہعليه‌السلام كى گواہى ۲۸; آئمہعليه‌السلام كے درجات ۲۸;

احكام : فلسفہ احكام ۹،۲۰; احكام كا دائرہ عمل ۲۶

اسلام : اسلام اور ماديات ۲; اسلام اور معنويات ۲; اسلام ميں اعتدال ۲،۴; صدر اسلام كى تاريخ ۸،۱۱،۲۲ ; اسلام كى خصوصيات۴

اسماء اور صفات: رؤوف ۲۷; رحيم ۲۷

اطاعت: پيامبر اسلام (ص) كى اطاعت كے نتائج ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى اطاعت ۱۴; پيامبر اسلام (ص) كى اطاعت ۱۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حجتيں ۶; اللہ تعالى اور اجر كا ضائع كرنا۲۵; اللہ تعالى كا رؤف ہونا ۲۷; اللہ تعالى كى مہربانى ۲۷; ہدايت الہى ۱۳

امتحان : امتحان كے وسائل و ذرائع ۱۰،۲۱

امتيں : امت وسط ۱،۳،۷; امتوں كى حجت ۷; امت وسط كى گواہى ۲۹; امت وسط كے درجات ۲۹

انسان: انسانوں كے گواہ ۵; انسانوں كى ہدايت ۱۳

ايمان: ايمان كى نشانياں يا علامتيں ۲۴

بيت المقدس : بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنے كا اجر ۲۵; بيت المقدس كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۹،۱۰،۱۷; بيت المقدس كا قبلہ بننا ۸،۱۹; بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ۳۰;

پيامبر گرامى اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو نمونہ عمل قرار دينا ۶; پيامبر اسلام (ص) كے پيروكار ۲۳; پيامبر اسلام (ص) كا حجت ہونا ۶; پيامبر اسلام (ص) كے پيروكاروں كى تشخيص كى روش ۲۰;

۴۹۵

پيامبر اسلام (ص) كى گواہى ۵،۲۹; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۲۹; پيامبر(ص) اسلام كے پيروكاروں كى تشخيص كے معيارات۹; پيامبر اسلام (ص) كا بيت المقدس كے رخ نماز پڑھنا ۳۱

تعبد و بندگى : تعبد كى اہميت ۱۷، ۱۸

دين : دين قبول كرنا ۱۴; دين كا نظام تعليم ۴

روايت:۲۸، ۲۹، ۳۰،۳۱،۳۲

روح بندگى ركھنے والے يا متعبد افراد:

متعبد انسانوں كى تشخيص كى روش ۱۷

سر تسليم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سر تسليم ہونے كى اہميت ۱۷،۱۸; دين كے حضور سر تسليم ہونے كى اہميت ۱۶

عمل: عمل كے گواہ ۵

قانون: قانون كا ماضى پر اطلاق ۲۶

قبلہ : قبلہ كى تبديلى كے نتائج ۳; قبلہ كى تبديلى ۱۹; قبلہ كى تبديلى كا فلسفہ ۲۰،۲۱; قبلہ كى تبديلى اور مسلمان ۲۲;ہدايت يافتہ لوگ اور قبلہ كى تبديلى ۲۳

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا قبلہ بننا ۱۹

مسلمان: مسلمانوں كا اعتدال ۱،۷; مسلمانوں كو نمونہ عمل قرار دينا ۶،۷; مسلمانوں كا نمونہ عمل ہونا ۶; مسلمانوں كا امتحان ۱۰،۲۱; مسلمانوں كى برترى ۱،۷; مسلمانوں كى صفوں كى چھانٹى ۲۱; مسلمانوں كا حجت ہونا ۶،۷; مسلمانوں كے اعتدال كے اسباب ۳; مسلمانوں كى برترى كے عوامل ۳; مسلمانوں كے فضائل ۱; مسلمانوں كا گواہ ہونا ۵; مسلمانوں كى گواہى ۵،۲۹; مسلمان اور بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۱۱; مسلمانوں كے درجات ۲۹

نماز : نماز كى اہميت ۲۴

نمونہ عمل: لوگوں كے لئے نمونہ عمل ۶

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۱۳،۱۵

ہدايت يافتہ لوگ: ہدايت يافتہ انسانوں كا خشوع و خضوع ۱۸; ہدايت يافتہ انسانوں كا تعبد ۱۸; ہدايت يافتہ انسانوں كا جذبہ ۱۸; ہدايت يافتہ انسانوں كى صفات ۱۸; ہدايت يافتہ لوگ اور بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۱۲

۴۹۶

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (۱۴۴)

اے رسول ہم آپ كيتوجہ كو آسمان كى طرف ديكھ رہے ہيں تو ہمعنقريب آپ كو اس قبلہ كى طرف موڑديں گےجسے آپ پسند كرتے ہيں لہذا آپ اپنا رخمسجد الحرام كى جہت كى طرف موڑديجئے اورجہاں بھى رہے اسى طرف رخ كيجئے _ اہلكتاب خوب جانتا ہيں كہ خدا كى طرف سے يہيبر حق ہے اور الله ان لوگوں كے اعمال سےغافل نہيں ہے (۱۴۴)

۱ _ آنحضرت (ص) كچھ عرصہ كے لئے اس انتظار اور اشتياق ميں تھے كہ اللہ تعالى كى جانب سے قبلہ كى تبديلى كا فرمان آئے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ''فلنولينك ...''كى جملہ'' قد نري''پر تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آنحضرت (ص) كا آسمان كے اطراف و اكناف پہ نظريں جمائے ركھنا تبديلى قبلہ كے فرمان كے انتظار كے لئے تھا_

۲ _ وحى كے انتظار كے وقت آنحضرت(ص) آسمان كے ہر طرف نظريں لگائے ركھتے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء '' تقلب '' كا معنى ايك طرف سے دوسرى طرف گھومنا _چہرے كو آسمان كى طرف كركے گھمانے كا مطلب آسمان كى ايك طرف سے دوسرى طرف ديكھنا ہے _

۳ _ انبياءعليه‌السلام پر وحى كے ظہور كا مقام آسمان ہے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء

۴ _ آنحضرت (ص) پر فرشتہ وحى كے نزول كا احتمال تھا كہ آسمان ميں سے كسى بھى مقام سے ظاہر ہوجائے_

قد نرى تقلب وجهك فى السماء يہ مطلب اس بناپر ہے كہ آنحضرت (ص) فرشتہ وحى كے نزول كے مشاہدہ كے لئے آسمان كے كسى خاص نقطہ كى طرف نگاہ نہ فرماتے بلكہ اپنے چہرہ مبارك كو آسمان كے تمام اطراف كى طرف پھيرتے_

۵ _ اللہ تعالى انسانوں كے اعمال پر ناظر اور ان كے ضميروں سے آگاہ ہے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء

۶ _ اللہ تعالى نے پيامبراسلام (ص) كو قبلہ كى تبديلى اور اسكى جگہ ايسے قبلہ كى جاگزينى كى خوشخبرى دى جو آپ (ص) كى خوشنودى كا باعث تھا_فلنولينك قبلة ترضى ها

''نولّي'' كا مصدر'' تولية'' ہے جسكا معنى گھمانا ہے پس '' فلنولينك ...'' يعنى ہم نے تيرا رخ ايسے قبلہ كى طرف پھيرديں گے جو تيرى خوشنودى اور رضايت كا باعث تھا_

۴۹۷

۷_ سابق قبلہ (بيت المقدس) كے نسخ ميں آنحضرت (ص) كے انتظار و اشتياق كى بڑى اہميت تھي_ قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضى ها جملہ'' فلنولينك ...'' كى '' قد نري ...'' پر حرف فاء كے ساتھ تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آنحضرت (ص) كا انتظار و اشتياق قبلہ كى تبديلى ميں مؤثر تھا_

۸_ پيامبر اسلام(ص) اللہ تعالى كے ہاں بہت ہى زيادہ عظمت و شان كے مالك ہيں _قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبله ترضى ها

۹_ قبلہ كا تعين كرنا اللہ تعالى كے امور و افعال ميں سے ہے _قد نرى فلنولينك قبلة ترضى ها

۱۰_ احكام دين كى تشريع ( قانونسازي) اور انكا نسخ اللہ تعالى كے دست قدرت اور اسى كے دائرہ اختيار ميں ہے _

قدنرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضى ها

۱۱_ قبلہ كا نسخ كرنا اور متعين كرنا آنحضرت (ص) كے اختيار ميں نہ تھا_قد نرى تقلب و جهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضيها اگر پيامبر اسلام(ص) كو اللہ تعالى كى جانب سے قبلہ كى تبديلى ، كسى حكم كى تشريع يا نسخ كى اجازت ہوتى تو پھر قبلہ كے نسخ اور نئے قبلہ كے تعين كے لئے وحى كا انتظار نہ ہوتا اور آپ(ص) آسمان كى طرف نگاہيں نہ لگائے ركھتے_

۱۲ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام(ص) اور مسلمانوں كو قبلہ كى تبديلى كى خوشخبرى دينے كے ساتھ ساتھ حكم ديا كہ مسجد الحرام كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں _فلنولينك فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطرة

۱۳_ مسلمان جس بھى سرزمين پر ہوں ان كو چاہيئے كہ مسجد الحرام كو اپنا قبلہ قرار ديں _و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

۱۴ _ مسلمانوں كے لئے مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا پيامبر اسلام (ص) كى رضايت و خوشنودى كا باعث بنا _فلنولينك قبلة ترضى ها فول وجهك شطر المسجد الحرام

۱۵_ مسجد الحرام كى سمت يا جہت كى طرف رخ كرنا ان اعمال كے لئے كافى ہے جن ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے _

فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره يہ واضح ہے كہ خود مسجد الحرام يا كعبہ ہى قبلہ ہے بنابريں لفظ '' شطر'' كا لانا سمت اور جہت كے معنى ميں ہے_

۴۹۸

يہ معنى اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ جن اعمال مثلاً نماز ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے لازم نہيں كہ ايك سيد ھا خط جو بالكل مسجد الحرام يا كعبہ كى طرف ہو اسى رخ كھڑا ہوا جائے بلكہ اتنا ہى كافى ہے كہ مسجد الحرام يا كعبہ كى جہت يا سمت ہو_

۱۶_ علمائے اہل كتاب (يہود و نصارى ) تبديلى قبلہ (بيت المقدس سے مسجد الحرام كى جانب) كى حقانيت سے واقف و آگاہ تھے _ان الذين اوتوا الكتاب يعلمون انه الحق ''انہ'' كى ضمير سے مراد سابق قبلہ ( بيت المقدس) كا نسخ اور موجود ہ قبلہ ( مسجد الحرام) كا تعين ہے _

۱۷ _ علمائے يہود و نصارى بڑى اچھى طرح جانتے تھے كہ مسجد الحرام كا قبلہ بننا اللہ تعالى كا فرمان ہے _

ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم '' ليعلمون'' كا لام تاكيد اس بات كى دليل ہے كہ اہل كتاب كو كوئي شك و ترديد نہ تھا اور بڑى اچھى طرح جانتے تھے كہ قبلہ كى تبديلى حق اور اللہ تعالى كى طرف سے ہے _

۱۸_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى جانب تبديلى ايسى حقيقت ہے جسكا ماقبل آسمانى كتابوں (تورات ، انجيل اور ...) ميں ذكر تھا_ان الذين اوتو الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم تبديلى قبلہ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف اسكى حقانيت سے يہود و نصارى كى آگاہى كو '' اہل كتاب'' كے عنوان سے بيان كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى آگاہى كا سرچشمہ آسمانى كتابيں ( تورات وانجيل ) تھيں _

۱۹_ علمائے اہل كتاب نے تبديلى قبلہ كى حقيقت كو چھپايا_ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم و ما الله بغافل عما يعملون

۲۰_ تبديلى قبلہ كى حقيقت و حقانيت سے آگاہى كے باوجود يہود و نصارى نے ضد و مخالفت كا مظاہرہ كيا_

ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم و ما الله بغافل عما يعملونجملہ''و ما اللہ ...'' اہل كتاب كو دھمكى ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب نے تبديلى قبلہ كى حقانيت كے مقابل ضد اور حكم الہى كے خلاف مخالفت كا مظاہر ہ كيا _

۲۱ _ انسانوں كے اعمال سے ہرگز اللہ تعالى غافل نہيں ہے_و ما الله بغافل عما يعملون

۲۲ _ تبديلى قبلہ كے خلاف ضد و مخالفت كے باعث اللہ تعالى كى جانب سے اہل كتاب كو دھمكى دى گئي_

۴۹۹

وما الله بغافل عما يعملون يہ جملہ ''و ما اللہ ' اللہ تعالى كى طرف سے سزا كے طور پر اہل كتاب كو دھمكى سے كنايہ ہے_

۲۳ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى حق كو قبول كرنے والے نہ تھے _و ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم و ما الله بغافل عما يعلمون

۲۴ _ ''ان الفرائض لا تصليها الا الى القبلة و هو المروى عن آئمتنا عليه‌السلام (۱) ائمہ اہل بيت( عليہم السلام )سے روايت ہے كہ واجب نمازيں فقط قبلہ رخ ادا كى جاسكتى ہيں _

۲۵ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''و صلى رسول الله (ص) الى بيت المقدس ثم عيرته اليهود فقالوا انك تابع لقبلتنا فاغتم لذلك غماً شديداولما كان فى بعض الليل خرج (ص) يقلب وجهه فى آفاق السمائ فلما صلى من الظهر ركعتين جاء ه جبرائيل عليه‌السلام فقال له ''قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضى ها فول وجهك شطر المسجد الحرام '' ثم اخذ بيد النبي(ص) فحوّل وجهه الى الكعبة ...'' (۲) رسول اللہ (ص) بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے تھے پھر يہود نے آپ (ص) كى ،سرزنش كى اور كہنے لگے آپ(ص) تو ہمارے قبلہ كى پيروى كرتے ہيں _ پس ا س پر آنحضرت (ص) شديد غم و اندوہ ميں مبتلا ہوگئے ، ايك رات آپ(ص) (گھر سے )باہر نكلے اور آسمانوں كى طرف متوجہ ہوئے ...جب آپ (ص) ظہر كى دو ركعت بجا لاچكے تو جبرائيلعليه‌السلام نازل ہوئے اور حضور (ص) سے كہا '' ہم نے(تبديلى قبلہ كيلئے) تمہارى انتظار سے بھرى ہوئي نظروں كا مشاہدہ كيا پس ہم آپ (ص) كا رخ ايسے قبلہ كى طرف موڑ ديں گے جس پر تم راضى ہو پس اپنا رخ مسجد الحرام كى طرف كرلو'' اس كے بعد جبرائيلعليه‌السلام نے نبى (ص) كا ہاتھ پكڑ كر ان كا رخ كعبہ كى طرف كرديا

احكام : ۱۳،۱۵ ، ۲۴

احكام كى تشريع كا سرچشمہ ۱۰; احكام كے نسخ كا سرچشمہ ۱۰; نسخ احكام ۷

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۲۰

اسماء اور صفات: جلالى صفات۲۱

اللہ تعالى : افعالى الہى ۹،۱۰ ;اوامر الہى ۱۲،۱۷; اللہ تعالى كى بشارتيں ۶ اللہ تعالى كى دھمكياں ۲۲; اللہ تعالى اور غفلت ۲۱; اللہ تعالى كا علم غيب ۵; اللہ تعالى كى نظارت ۵

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۳۶۳، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۸ ح ۳۲۶_ ۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۱۷۸ ح ۳ ، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۶ ح ۴۱۷_

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785