تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200969 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر نزول وحى ۳

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۵،۲۱; انسان كى نيتوں سے آگاہى ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كو دھمكى ۲۲

بيت المقدس : بيت المقدس كے قبلہ ہونے كا نسخ ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو بشارت ۶; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) كے رجحانات۱،۷; پيامبر اسلام(ص) كى رضايت كے عوامل ۶،۱۴; پيامبر اسلام (ص) كا دائرہ اختيارات ۱۱; نزول وحى كے وقت آنحضرت (ص) ۲; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۷،۸; پيامبر اسلام(ص) پر جبرائيلعليه‌السلام كا نزول ۴

روايت: ۲۴،۲۵

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كا علم ۱۶; علمائے اہل كتاب اور حق پر پردہ ڈالنا ۱۹

عيسائي: عيسائيوں كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۳; صدر اسلام كے عيسائي ۲۳

عيسائيت كے علماء : عيسائيت كے علماء كا علم ۱۷

قانون : قانون كے نسخ كا سرچشمہ ۱۰; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۰

قبلہ : احكام قبلہ ۱۳،۱۵،۲۴; اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۲۲; تبديلى قبلہ كى بشارت ۶; تبديلى قبلہ ۱۲; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۱۸; تورات ميں تبديلى قبلہ ۱۸; آسمانى كتابوں ميں تبديلى قبلہ ۱۸; قبلہ كى جہت ۵; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۱۶،۱۹،۲۰; علمائے اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۱۶،۱۹; عيسائي علماء اور قبلہ ۱۷; يہودى علماء اور قبلہ ۱۷; تبديلى قبلہ كے اسباب ۷; تبديلى قبلہ كا فلسفہ ۲۵; مسلمانوں كا قبلہ ۱۳ ، ۱۴; پيامبر اسلام (ص) اور تبديلى قبلہ ۱; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۲۰; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۹،۱۱; يہودى اور تبديلى قبلہ ۲۰

كعبہ: كعبہ كا قبلہ ہونا ۱۸

مسجد الحرام : مسجد الحرام كاقبلہ ہونا ۱۳،۱۵; مسجد الحرام كا قبلہ قرار پانا ۱۲،۱۴،۱۷

مقربين : ۸

ملائكہ : ملائكہ وحى كے ظہور كى جگہ ۴

۵۰۱

نماز : احكام نماز ۲۴; نماز ميں قبلہ ۲۴

وحى : وحى كے ظہور كى جگہ ۳; وحى اور آسمان ۳،۴

يہود : يہودى حق كو قبول نہ كرنے والے ۲۳; صدر اسلام كے يہودى ۲۳; يہودى اور قبلہ ۲۵

يہودى علماء : علمائے يہود كا علم ۱۷

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ( ۱۴۵ )

اگر آپ ان اہل كتابكے پاس تمام آيتيں بھى پيش كرديں كہ يہآپ كے قبلہ كو مان ليں تو ہرگز نہ مانيں گے اور آپ بھى ان كے قبلہ كو نہ مانيں گےاور يہ آپس مين بھى ايك دوسرے كے قبلہ كونہيں مانتے اور علم كے آجانے كے بعد اگرآپ ان كے خواہشات كا اتباع كرليں گے توآپ كا شمار ظالموں ميں ہوجائے گا (۱۴۵)

۱ _ اہل كتاب كى ذمہ دارى ہے مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر قبول كريں _ما تبعوا قبلتك

۲ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كو باوجود اس كے كہ انہيں مسلمانوں كے قبلہ ( مسجد الحرام ) كى حقانيت كا اطمينان ہے اس كو قبول نہيں كريں گے_ليعلمون انه الحق و لئن اتيت الذين ما تبعوا قبلتك

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ حق كے طور پر قبول كرنے كے لئے كوئي دليل اور معجزہ اہل كتاب پر اثر انداز نہيں ہوسكتا_

و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

''آية'' كا معنى علامت و نشانى ہے البتہ يہاں اس سے مقصود معجزہ اور برہان ہے _

۴ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) ضدى اور حق قبول نہ كرنے والے لوگ ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك '' لئن خدا كى قسم آپ اہل كتاب كو جو بھى

۵۰۲

معجزہ يا دليل پيش كريں تو وہ آپ كے قبلہ كى پيروى نہ كريں گے '' يہ جملہ اہل كتاب كى گہرى دشمنى ، ضد اور حق ناپذيرى كو بتاتاہے_

۵ _ يہود و نصارى اپنى ضد، دشمنى اور عناد كى وجہ سے كعبہ كو قبلہ كے طور پر ماننے كو تيار نہيں ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

۶ _ تبديلى قبلہ كے بعد اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) سے چاہا كہ اہل كتاب كے قبلہ كى طرف ہرگز رخ نہ كريں اور نہ ہى اس كو اپنا قبلہ قرار ديں _و ما انت بتابع قبلتهم '' و ما انت تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كروگے '' يہ جملہ خبريہ ہے ليكن مقصود اس سے انشاء ہے اور حكم ہے كہ تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كرو_

۷_ يہو دو نصارى ميں سے ہر ايك كا مخصوص قبلہ ہے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۸_ يہود و نصارى ميں سے كوئي بھى ايك دوسرے كے قبلہ كو قبول نہ كريں گے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۹_ يہو د و نصارى كى كوشش تھى كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو كعبہ سے منحرف كركے اپنے قبلہ كى طرف موڑيں _و ما انت بتابع قبلتهم و لئن اتبعت اهواء هم جملہ ''و لئن اتبعت انك لمن الظالمين'' ميں ''لئن''كى لام قسم، حرف تاكيد ''ان'' اور ''لمن'' ميں لام تاكيد كے ساتھ تاكيد اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب نے پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے قبلہ كى طرف ترغيب دلانے كى مسلسل كوشش كرتے ہوئے اسكى زمين فراہم كرلى تھى _ ما قبل جملوں كے قرائن كى روشنى ميں '' اہوائہم '' كے مصاديق ميں سے ايك اہل كتاب كے قبلہ كى پيروى ہے _

۱۰_ يہود و نصارى اس كوشش ميں تھے كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے دينى احكام و قوانين كى طرف ترغيب دلائيں _و لئن اتبعت اهواء هم

۱۱ _ يہو د و نصارى نے دين الہى كو اپنى نفسانى خواہشات پر مبنى آراء كے ساتھ گڈ مڈ كرديا تھا_و لئن اتبعت اهواء هم

'' اہواء ہم _( نفسانى خواہشات پر مبنى آراء ) سے مراد يہود و نصارى كا دين ہے كيونكہ ان كى پيامبر اسلا م(ص) اور اہل ايمان سے جنگ كى بنياد دينى عقائد و احكام تھے _ اہل كتاب كا دين الہى تھا ليكن آيہ مجيدہ ميں اسے نفسانى خواہشات سے تعبير كيا گيا ہے _ مذكورہ بالا مطلب اسى اعتبار سے ہے _

۱۲ _ نبى اكرم (ص) كے دين ( اسلام ) كى بنياد وحى اور حكم خداوندى تھا_من بعد ما جاء ك من العلم

'' علم '' سے مراد وہ احكام و فرامين ہيں جو اللہ

۵۰۳

تعالى كى طرف سے وحى كے ذريعے پيامبر اسلام (ص) پر نازل ہوئے _

۱۳ _ احكام و معارف كا انحصار وحى پر ہے اوريہ عالمانہ حقائق ہيں _من بعد ما جاء ك من العلم

''وحي'' كى جگہ ''علم'' كا لفظ لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ وحى پر منحصر فرامين عالمانہ ہيں _

۱۴ _ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى عالمانہ حكم ہے اسكى بنياد و حى اور فرمان الہى ہے _

وما انت بتابع قبلتهم ...من بعد ما جاء ك من العلم '' العلم'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے وحى اور تبديلى قبلہ پر مبنى فرمان الہى ہے _

۱۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ يہود و نصارى كى پيروى سے پرہيز كريں اور نفسانى خواہشات پر مبنى ان كى آراء كو ردّ كريں _و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۶ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام(ص) كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے يہود و نصارى كى اتباع كى تو ستمگروں ميں سے شمار ہوں گے _لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۷ _ قوانين ا لہى كے ہوتے ہوئے نفسانى خواہشات پر مبنى آراء و قوانين كى پيروى كرنا ظلم ہے _

لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جاء ك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۸ _ ايسے قوانين اور معارف قابل اتباع ہيں جو نفسانى خواہشات سے پاك ہوں اور ان كى بنياد علم پر ہو_

و لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۹_ اگر دين اسلام كے رہبروں نے ديگر اديان كے پيروكاروں كے ساتھ دينى معاملات ميں سازباز كى تو ستم گروں كے زمرے ميں ہوں گے_و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۲۰_ آگاہى كے باوجود گناہ كا ارتكاب ظلم ہے _و لئن اتبعتت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

اسلام: اسلام كاسرچشمہ ۱۲; اسلام كا وحى ہونا ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۶

اہل كتاب: اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۳; اہل كتاب كى حق ناپذيرى ۴;اہل كتاب كا قبلہ ۱; اہل كتاب كى ضد ۴; اہل كتاب كى ذمہ دارى ۱

۵۰۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) اور اہل كتاب كا قبلہ ۶; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۶،۱۵; پيامبر اسلام (ص) كو تنبيہ ۱۶

دين : عالمانہ دين ۱۳; دين ميں ساز باز ظلم ہے ۱۹; دين كى حقانيت كے معيارات ۱۸

دينى قائدين : دينى قائدين كى ساز باز۱۹

ظالمين : ۱۶،۱۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱۷،۲۰

علم : علم كے آثار۲۰

عيسائي: عيسائيوں كى پيروى كے آثار۱۶; عيسائيوں سے منہ پھيرنا ۱۵; عيسائيوں كى پيروى كرنا ۱۵; عيسائيوں كى تحريف كا عمل ۱۱; عيسائيوں كى كوشش ۹; عيسائيوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; عيسائيوں كى دشمنى ۵; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائيوں كى ضد ۴،۵;عيسائي اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; عيسائي اور يہوديوں كا قبلہ ۸; عيسائي اور مومنين ۱۰; عيسائي اور پيامبر اسلام (ص) ۹،۱۰; عيسائيوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵

عيسائيت: عيسائيت ميں تحريف ۱۱; عيسائيت كى پيروى ۱۰

قانون: غير دينى قوانين كى اتباع ۱۷; عالمانہ قوانين ۱۸; لازم الاتباع قوانين كے معيارات۱۸

قبلہ: تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كا عالمانہ ہونا ۱۴; تبديلى قبلہ كا سرچشمہ ۱۴; تبديلى قبلہ كا وحى ہونا ۱۴

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشين گوئي ۸

كعبہ : كعبہ كا قبلہ ہونا ۵

گناہ : آگاہانہ گناہ ۲۰; گناہ ظلم ہے ۲۰

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ ہونے كى حقانيت ۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱

نفس پرستى : نفس پرستى سے اجتناب ۱۸

وحي: وحى كى اہميت ۱۳، ۱۴

يہود : يہوديوں كى پيروى كے آ ثار ۱۶; يہوديوں سے

۵۰۵

منہ موڑنا ۱۵; يہوديوں كى پيروى ۱۵; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۱۱; يہوديوں كى كوشش ۹; يہوديوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; يہوديوں كى دشمنى ۵; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہوديوں كى ضد ۴،۵; يہوديوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵; يہود اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; يہود اور عيسائيوں كا قبلہ ۸; يہود اور مومنين۱۰; يہود اور پيامبراسلام (ص) ۹،۱۰

يہوديت: يہوديت ميں حق و باطل كا گڈ مڈ ہونا۱۱; يہوديت كى پيروى ۱۰

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ( ۱۴۶ )

جن لوگوں كو ہم نے كتاب دى ہے وہ رسول كوبھى اپنى اولادہى كى طرح پہنچانتے ہيں _بس ان كا ايك گروہ ہے جو حق كو ديدہ وراستہ چھپا رہا ہے (۱۴۶)

۱_ اہل كتاب كو پيامبر اسلام (ص) كى نبوت پر اس طرح اطمينان تھا جيسے انہيں اپنے بيٹوں كے فرزند ہونے كا اطمينان تھا_الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم ظاہر مطلب يہ ہے كہ ''يعرفونہ'' كى مفعولى ضمير پيامبر اسلام (ص) كى طرف لوٹتى ہے اگر چہ يہ احتمال بھى ہے كہ يہ ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو ليكن چونكہ '' مشبہ بہ '' بيٹے ہيں لہذا يہ احتمال درست معلوم نہيں ہوتا كيونكہ قبلہ كى شناخت كا بيٹوں كى شناخت سے كوئي تناسب و ربط نہيں بنتا_

۲_ تورات و انجيل ميں آنحضرت (ص) كى بعثت كى خوشخبرى اور آپ (ص) كى صفات بہت ہى واضح انداز ميں بيان تھيں _الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ بيان كرنے كے بعد كہ يہود و نصارى اہل كتاب ہيں اس حقيقت كو بيان كرنا كہ وہ لوگ آنحضرت (ص) كى حقانيت سے بخوبى آگاہ تھے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى اس شناخت كا سرچشمہ انكى آسمانى كتاب (تورات و انجيل ) تھي_

۳ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر تطبيق و مطابقت ميں اہل كتاب كو ہرگز شك و ترديد نہ تھا_

الذين آتناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۴ _ بعض اہل كتاب حقيقت ( آنحضرت (ص) كى نبوت) كى شناخت كے باوجود اس كو چھپاتے تھے_و ان فريقامنهم ليكتمون الحق و هم يعلمون

۵ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر مطابقت كا بعض اہل كتاب اعتراف كرتے اور اس كو چھپاتے نہ تھے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ مطلب اس جملہ ''ان فريقا ...'' كے مفہوم سے ماخوذ ہے_

۵۰۶

۶_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى اور اسكى حقانيت كا بيان تورات و انجيل ميں تھا_*

الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يعرفونہ'' كى ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو_

۷_ تبديلى قبلہ كى حقانيت ميں اہل كتاب كو كوئي شك و ترديد نہ تھا*الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۸_ بعض علمائے اہل كتاب كو باوجود اس كے كہ مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت كا اطمينان تھا پھر بھى اسكو چھپاتے تھے _و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ جملہ ''و ہم يعلمون'' اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ پردہ ڈالنے والے اہل كتاب كے علمائے دين تھے_

۹_ دينى مسائل پر پردہ ڈالنے والے اگر خصوصاً علماء ہوں تو سرزنش و ملامت كے سزاوار ہيں _و ان فريقاً منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون اس جملہ '' و ان فريقا ...'' كے لب و لہجہ ميں ان لوگوں كے لئے سرزنش و ملامت ہے جو حقيقت كو درك كرنے كے باوجود اسكا انكار كرتے ہيں _

۱۰_ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ضرورى ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۱۱ _ اديان كے علماء كے ليئے حقائق پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۲ ۱_ امام صادق سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا:هذه الآية نزلت فى اليهود و النصارى يقول الله تبارك و تعالى ''الذين آتيناهم الكتاب'' يعنى التوراة والانجيل (يعرفونه) يعنى رسول الله كما يعرفون ابناء هم لان الله عزوجل قد انزل عليهم فى التوراة والزبور والانجيل صفة محمد(ص) و صفتة اصحابه و مبعثه و هجرته ...; (۱)

'' يہ آيت يہود و نصارى كے بارے ميں نازل ہوئي يہ وہى لوگ تھے جن كو تورات و انجيل عطا كى گئي اور و ہ رسو ل اللہ كى بھى اپنے فرزندوں كي

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ص ۳۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۲_

۵۰۷

طرح شناخت ركھتے تھے كيونكہ اللہ تعالى نے تورات اور زبور ميں آنحضرت (ص) كى صفات، آپ (ص) كے اصحاب كى صفات ، آپ (ص) كى بعثت ، آپ (ص) كى ہجرت كا (ذكر) نازل فرمايا تھا ...''

انجيل : انجيل كى بشارتيں ۲; انجيل كى تعليمات۲

اہل كتاب: اہل كتاب اور پيامبر موعود ۳،۵; اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۸; اہل كتاب او ر حق كا چھپانا ۴،۸; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) ۳،۴،۵; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۵; پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) آسمانى كتابوں ميں ۳

تورات: تورات كى بشارتيں ۲; تورات كى تعليمات ۲

حق : حق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۱۰; حق چھپانے كا گناہ ۱۱

دين: دين چھپانے سے اجتناب ۱۰; دين پر پردہ ڈالنے كى سرزنش ۹

روايت: ۱۲

سرزنش: سرزنش كے عوامل ۹

علماء : علمائے دين اور حق كا چھپانا ۹،۱۱; علمائے دين كو تنبيہ ۱۱

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور حق كا چھپانا ۸

عيسائي : عيسائيوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

قبلہ : اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۷; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۶; تورات ميں تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۶،۷; مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت ۸

قرآن كريم : قرآنى تشبيہات۱

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۶

يہودي: يہوديوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

۵۰۸

اَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ( ۱۴۷ )

اے رسول يہ حقآپ كے پروردگار كى طرف سے ہے لہذا آپ انشك و شبہ كرنے والوں ميں نہ ہوجائيں (۱۴۷)

۱ _ احكام اور معارف حق ہيں جو من جانب اللہ ہيں _الحق من ربك '' الحق'' ميں '' ال '' جنسيہ ہے جو استغراق كا مفہوم دے رہاہے يعنى جو كچھ حق ہے وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ البتہ مورد كى مناسبت كے اعتبار سے اصل مقصود احكام و معارف ہيں _

۲ _ بشرى قوانين كبھى بھى خالص '' حق'' نہيں رہے بلكہ ان ميں باطل امور كى آميزش رہى ہے _الحق من ربك

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' الحق'' ميں '' ال'' زيد الرجل كى طرح افراد كى خصوصيات كے استغراق كے لئے ہے_ يعنى جس چيز كى بھى تمام تر خصوصيات حق ہوں اور كسى بھى باطل شے سے نہيں مل سكتى اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

۳_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى حق ہے اور ہر طرح كے باطل و ناروا امر سے پاك ہے_الحق من ربك ماقبل آيات كى روشنى ميں '' الحق'' كا مورد نظر مصداق قبلہ كى تبديلى ہے _

۴ _ اسلام كے احكام و معارف اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہيں _الحق من ربك

۵ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام و معارف كو قبول كرنا ضرورى ہے اور ان ميں شك و ترديد كرنے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين ''ممترين'' كا مصدر '' امترائ'' ہے جسكا معنى ہے شك و ترديد كرنا _

۶ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كى احكام اسلام كے خلاف تبليغى كوششيں (پراپيگنڈہ) صدر اسلام كے مسلمانوں كے اذہان ميں شك و ترديد پيدا كرنے كا باعث بنيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

فعل ''فلا تكوننَّ'' جس ميں نون تاكيد پائي جاتى ہے كے ذريعے مسلمانوں كو شك وترديد سے اجتناب كا حكم دينا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمانوں ميں شك و ترديد كى زمين فراہم ہوچكى تھي_ ما قبل آيات سے سمجھا جاسكتاہے كہ اس شك و ترديد كا سرچشمہ اہل كتاب كى

۵۰۹

مخالفتيں تھيں _

۷_ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى نے اپنے قبلہ كو حق ثابت كرنے اور كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى كونا حق ثابت كرنے كى مسلسل كوششيں كيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۸_ اللہ تعالى اور اسكے افعال و صفات كى معرفت اسكى طرف سے نازل ہونے والے احكام و معارف سے شك و ترديد كے خاتمے كا باعث ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۹_ اصبغ بن نباتہ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے اس آيہ مجيدہ '' الحق من ربك ...'' كے بارے ميں فرمايا ''الحق من ربك (انك الرسول اليهم) فلا تكونن من الممترين (۱)

آپ(ص) يقيناً ان كى طرف رسول( الله كے بھيجے ہوئے ) ہيں پس اس امر ميں كسى طرح كا شك و ترديد نہ كرو _

احكام: احكام كى حقانيت كے معيارات۱

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۶،۷; اسلام كے خلاف تبليغات ۶; اسلام كا منبع ۴

اللہ تعالى : خداشناسى كے نتائج ۸; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۴

بيت المقدس: بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) كا ايمان ۹; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۹

دين : دين ميں شك كرنے سے اجتناب ۵; دين قبول كرنے كى اہميت ۵; دين كى حقانيت كے معيارات ۱; دين كا سرچشمہ ۱; دين ميں شك و ترديد كے موانع ۸

روايت:۹

شبہات: شبہات كے اسباب ۶

عيسائي: عيسائيوں كى اسلام كے خلاف تبليغات۶; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائي اور صدر اسلام كے مسلمان۶

قانون: قوانين بشرى كى خصوصيات۲

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۸۳ ح ۱۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۱_

۵۱۰

قبلہ : تبديلى قبلہ كى حقانيت ۳; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۷; يہودى اور تبديلى قبلہ ۷

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۳

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸

يہود : يہوديوں كى اسلام كے خلاف تبليغات ۶; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہود اور صدر اسلام كے مسلمان ۶

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۴۸ )

ہر ايك كے لئے ايك رخ معيں ہے اوروہ اسى كى طرف منہ كرتا ہے _ اب تمنيكيوں كى طرف سبقت كرو اور تم سب جہاں بھى رہوگے خدا ايك دن سب كو جمع كردے گاكہ وہ ہرشے پرقادر ہے (۱۴۸)

۱_ دينى امتوں ميں سے ہر ايك كے لئے ايك خاص قبلہ ہے_ ''وجھة'' اس چيز كو كہتے ہيں جس كى طرف انسان رخ كرے_ ماقبل اور مابعد كى آيات كے قرينہ كى روشنى ميں اس سے مراد قبلہ ہے_ لفظ ''كل'' كا مضاف اليہ ''امة'' جيسا كوئي لفظ ہے_ البتہ ''ہو موليہا'' كے قرينہ سے اس سے مراد دينى امتيں ہيں _

۲ _ امتوں كے لئے قبلہ كا تعين كرنے والا اللہ تعالى ہے_و لكل وجهة هو موليها ''ہو'' كى ضمير ماقبل آيت ميں ''ربك'' كى طرف لوٹتى ہے _ ''مولّي'' كا معنى پلٹانے يا لوٹانے والا ہے اسكا پہلا مفعول ''كل امة'' ہے جو بہت واضح ہونے

كى بناپر كلام ميں نہيں آيا _ بنابريں ''ہوموليّھا'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى ہے جو امتوں كو ايك خاص قبلہ كى طرف پلٹاتاہے ( يعنى حكم ديتاہے كہ كس سمت كو اپنا قبلہ قرار دو ) _

۳ _ تبديلى قبلہ اور اسكے تعين كے بارے ميں بحث كرنا بے جا امر ہے _و لكل وجهة هو موليها اہل كتاب كى مخالفت اور تبديلى قبلہ كے خلاف تبليغات نے مسلمانوں كے درميان اختلافات كو جنم ديا_ اس چيز كے بيان كے بعد اس حقيقت كى ياد دہانى كرانا كہ قبلہ كا متعين كرنے والا اللہ تعالى ہى ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ توحيد پرستوں كوزيب نہيں ديتا كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں بحث يا اختلاف كريں كيونكہ خداوند متعال ہے جو قبلہ كو متعين كرنے والا ہے _

۵۱۱

۴ _ اس امر كى طرف توجہ كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين الہى افعال ميں سے ہے اسكے بارے ميں اختلاف كو ختم كرنے كا موجب ہے _و لكل وجهة هو موليها

۵ _ نيكى كے كاموں كو انجام دينا اور ان ميں سبقت كرنا ضرورى ہے _فاستبقوا الخيرات

۶ _ امتوں كى فضيلت و برترى كا معيار نيك كاموں ميں سبقت كرناہے نہ خاص قبلہ ركھنا _و لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات '' ہو موليہا'' كے بعد اس جملہ '' فاستبقوا الخيرات'' كو لانا قبلہ كى تبديلى كے بارے ميں بحث و تمحيص اور اختلاف كے بے جا ہونے كے بارے ميں ايك اور حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فقط قبلہ رخ ہونا ہى كافى نہيں ہے بلكہ نيك كاموں كى انجام دہى اہم ہے پس ان ميں سبقت كرو_

۷_ دين كے فروعى احكام كے بارے ميں دوسرے اديان كے پيروكاروں سے بحث،جدل اور اختلاف كرنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ *لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۸_ قبلہ اور فرعى احكام كے بارے ميں اختلاف اور جدل سے كام لينا نيكى كے مصاديق ميں سے نہيں ہے _لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۹_ اللہ تعالى تمام انسانوں كو جہاں كہيں بھى ہوں گے ميدان محشر ميں حاضر كرے گا _اين ما تكونوا يا ت بكم الله جميعا

۱۰_ قيامت ميں تمام انسانوں كا يكبارگى اور اجتماعى طور پر حاضر ہونا _اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

۱۱ _ قيامت نيك اعمال كى جزا كا وقت ہے _فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

جملہ'' اين ما تكونوا ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے يعنى چونكہ تم سب كے لئے قيامت كا وقت ہے پس دنيا ميں نيك اعمال بجا لاؤ يہ علت اس

۵۱۲

مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ آخرت ميں انسان كى سعادت دنيا ميں نيك اعمال سے وابستہ ہے_

۱۲ _ اللہ تعالى مطلق ( لامحدود) قدرت و قوت كا مالك ہے _ان الله على كل شى قدير

۱۳ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو جمع كرنا اللہ تعالى كى لا محدود قدرت كا مظہر ہے _يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۴ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو حاضر كرنا صرف ايسى ہستى كے لئے ممكن ہے جو قادر مطلق ہو _

يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۵ _ قيامت اور وہاں انسانوں كے حاضر ہونے پر يقين انسان كو نيك كاموں كى انجام دہى كى ترغيب دلاتاہے_

فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

نيك كاموں كا حكم دينے كے بعد قيامت كى ياد آورى اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان قيامت پر يقين اور توجہ كى وجہ سے نيك كام انجام دينے ميں سستى نہ كرے گا _

اسماء اور صفات: قدير ۱۲

اقدار: قدروں كا معيار ۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۶; قدرت الہى ۱۲; قدرت الہى كے مظاہر۱۳،۱۴

امتيں : امتوں كى فضيلت و برترى كے معيارات ۶

انسان: انسان قيامت ميں ۹،۱۰; انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا۹،۱۰،۱۳،۱۴

ايمان : حشر پہ ايمان كے نتائج ۱۵;قيامت پر ايمان كے نتائج ۱۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۵

دين : فروع دين ميں مجادلہ ۷،۸

عمل : پسنديدہ عمل كى اہميت ۵،۶; اخروى عمل كى پاداش ۱۱; پسنديدہ عمل كا اجر ۱۱; پسنديدہ عمل كى زمين فراہم ہونا ۱۵; ناپسنديدہ عمل ۸; عمل كے نتيجے كا وقت ۱۱

۵۱۳

قبلہ : قبلہ كے بارے ميں بحث و گفتگو ۳; امتوں كا قبلہ ۱،۲; قبلہ كے بارے ميں جدل ۸; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۲،۴; قبلہ كى تبديلى كا سرچشمہ ۴

قيامت : قيامت كا برپاہونا ۱۳، ۱۴; قيامت كى خصوصيات ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۱۵

گفتگو: بے جا گفتگو ۳

مجادلہ : ناپسنديدہ مجادلہ ۴،۷

نظريہ كائنات ( جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۱۵

نيكى : يكى ميں سبقت ۵،۶

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۱۴۹ )

پيغمبر آپجہاں سے باہر نكليں اپنا رخ مسجدالحرام كيسمت ہى ركھيں كہ يہى پروردگار كى طرف سےحق ہے اور الله تم لوگوں كے اعمال سے غافلنہيں ہے (۱۴۹)

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كے ليئے مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ ومن حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و انه للحق من ربك

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى قرار دى گئي كہ وہ اعمال جو قبلہ رخ انجام دينے ضرورى ہيں ان كو مسجد الحرام كے رخ ادا كريں _و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا حق ( با حكمت او ر بجا حكم ) ہے جو اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

و انه للحق من ربك

۴ _ وہ اعمال جن ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ان ميں مسجد

۵۱۴

الحرام كى جہت اور سمت كى طرف رخ كرنا كافى ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام

يہ واضح ہے كہ مسجد الحرام يا كعبہ ہى قبلہ ہے پس ''شطر'' كا لفظ لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ضرورى نہيں ايك براہ راست، مستقيم يا سيدھا خط كھينچا جائے جو كعبہ كے بالكل روبرو ہو بلكہ اس سمت اور جہت كى طرف رخ كرناكافى ہے جس ميں كعبہ يا مسجد الحرام ہے _

۵ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا پيامبر اسلام (ص) پر اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے اور يہ عمل آنحضرت (ص) كے اہداف كى تكميل كے لئے تھا_و انه للحق من ربك لفظ '' رب _ (تربيت كرنے والا' مدبر) كى ضمير ''ك'' كى طرف اضافت جو آنحضرت (ص) كو خطاب ہے ممكن ہے اس معنى كى طرف اشارہ ہو كہ تبديلى قبلہ آنحضرت (ص) كے امور ( رسالت كے اہداف) كى تدبير كے لئے ہے_

۶ _ اللہ تعالى ہرگز انسانوں كے اعمال سے غافل نہيں ہے_و ما الله بغافل عما تعملون

۷_ اللہ تعالى كى سزا ان لوگوں كے انتظار ميں جو احكام الہى (مثلاً مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا ) كى مخالفت كرتے ہيں _

و ما الله بغافل عما تعملون بندوں كے اعمال پر اللہ تعالى كى نظارت كے ذكر كرنے كا ہدف ان لوگوں كو دھمكى دينا ہے جو احكام الہى كى مخالفت كرتے ہيں _

۸_ مسلمانوں كے مابين فرمان خدا ( تبديلى و تعيين قبلہ) كى نافرمانى كى آمادگى پائي جاتى ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

ظاہراً '' تعملون'' كا مورد خطاب مسلمان ہيں _ پس يہ جو مسلمانوں كو دھمكى دى گئي ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں كے درميان ايسے افراد تھے جو نئے قبلہ ميں شك و ترديد سے دوچار تھے يا پھر مخالفت كے در پے تھے_

احكام : ۲،۴

اسماء اور صفات: جلالى صفات۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۱; حكمت الہى ۳; اللہ تعالى اور غفلت ۶; الہى سزائيں ۷; ربوبيت خدا كے مظاہر ۵

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۶

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كے اہداف ۵; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارياں ۲

دين : دين كى مخالفت كى سزا ۷

۵۱۵

سزا : سزا كے موجبات ۷

قبلہ : قبلہ كے احكام ۲،۴; قبلہ كى جہت ۴; قبلہ كے تعين كا منبع ۱،۳، ۸

مسجد الحرام : كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۲،۴; مسجد الحرام كا قبلہ بننا ۱،۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى مخالفت ۷

مسلمان : مسلمانوں كى نافرمانى كى زمين فراہم ہونا ۸

نافرمانى : اللہ تعالى كى نافرمانى ۸

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۱۵۰ )

اور آپ جہاں سے بھى نكليں اپنا رخ خانہ كعبہ كى طرف ركھيں اور پھرتم سب جہاں رہو تم سب بھى اپنا رخ ادھرہيركھو تا كہ لوگوں كے لئے تمھارے اوپركوئي حجت نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں كےكہ جو ظالم ہيں تو ان كا خوف نہ كرو بلكہالله سے ڈرو كہ ہم تم پر اپنى نعمت تمامكردينا چاہتے ہيں كہ شايد تم ہدايت يافتہہوجاؤ(۱۵۰)

۱ _ مسجد الحرام آنحضرت (ص) اور تمام مسلمانان عالم كا قبلہ ہے _و من حيث و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى حقانيت ۳; مسجد الحرام

۲ _ مسجد الحرام كسى خاص علاقے يا كسى خاص گروہ كا قبلہ نہيں ہے _و حيث ما كنتم فولوا و جوهكم شطره

۵۱۶

۳ _ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے كافى ہے كہ مسجد الحرام كى جہت و سمت كى طرف منہ كيا جائے_

فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره يہ مطلب كلمہ '' شطر'' كہ جو سمت اور جہت كے معنى ميں ہے ، سے مستفاد ہے _

۴ _ بيت المقدس كے مسلسل قبلہ كے طور پر رہنے سے مخالفين اسلام كو آنحضرت (ص) اور مسلمانوں كے خلاف دليل و حجت مل جاتى _فول وجهك فولوا وجوهكم شطره لئلا يكون للناس عليكم حجة

۵ _ قبلہ كى بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى سے مخالفين اسلام و مسلمين كا پراپيگنڈہ نقش بر آب ہوگيا _

فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة

۶ _ دشمنان اسلام كے تبليغاتى نقشوں كو ختم كرنا مسلمانوں كے ضرورى فرائض ميں سے ہے _لئلا يكون للناس عليكم حجة

۷_ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى سابقہ اديان ميں مذكور پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل ميں سے ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة '' لئلا يكون'' كى تعليل بيان كررہى ہے كہ مسلمانوں كا سابق قبلہ (بيت المقدس) پر باقى رہنا باعث بنتا كہ مخالفين اسلام پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت اور مسلمانوں كے خلاف دليل قائم كريں _ بنابرايں تبديلى قبلہ كو گذشتہ آسمانى كتابوں ميں پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل يا نشانيوں ميں سے ہونا چاہيئے_

۸ _ كعبہ كے مسلمانوں كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے سے بعض مخالفين پر پيامبر اسلام(ص) كى حقانيت واضح ہوگئي_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم ظالمين كے لئے حجت اور دليل كا وجود _ جو جملہ استثنائيہ كا مفاد ہے _اس اعتبار سے نہيں ہے كہ ظالموں كے پاس مسلمانوں كے خلاف كوئي دليل ہے بلكہ اس سے مراد مخالفين كى دو گروہوں ميں تقسيم ہے _ ايك وہ گروہ جو ظلم و ستم كے بناپر پيامبر اسلام (ص) كى مخالفت كرتاہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو شبہ كى بناپر مخالفت كرتاہے پہلا گروہ قبلہ تبديل ہوتا يا نہ ہوتا اپنى مخالفت اور دشمنى كو ہر صورت جارى ركھتا _ دوسرا گروہ پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كو درك كركے پراپيگنڈا يا تبليغات سوء كو چھوڑ ديتا_

۹_ مسجد الحرام كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے بعد فقط ظالمين تھے جو ٹسووں ، بہانوں سے دستبردار نہ ہوئے اور مسلمانوں كے خلاف اپنى دشمنى كو جارى ركھا_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم

۵۱۷

۱۰_ اہل ايمان كو دشمنان دين سے ہرگز نہيں ڈرنا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۱_ مسلمانوں كو دشمنان دين كے خوف اور ان سے احساس خطر كے بہانے احكام الہى كے اجرا كرنے ميں كوتاہى نہيں كرنى چاہيئے_فولوا وجوهكم شطره الا الذين ظلموا منهم فلا تخشوهم

۱۲ _ مسلمانوں كو احكام الہى پر عمل كرنے اور اپنے برحق موقف كے حوالے سے دشمنوں كے پراپيگنڈے، جنجال اور تبليغات سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۳ _ صر ف اللہ تعالى سے ڈرنے كى ضرورت ہے اور اسكے احكام كى مخالفت سے اجتناب كرنا چاہيئے_واخشوني

۱۴ _ اللہ تعالى سے ڈر اور خوف ہے جو اسكے احكام پر عمل كرنے كے لئے راہ ہموار كرتاہے_فولوا وجوهكم شطره فلا تخشوهم واخشوني

۱۵ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ نے مسلمانوں پر اللہ كى نعمت كے تمام ہونے كى راہ ہموار كى _

فولوا وجوهكم شطره لاتم نعمتى عليكم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لاتم نعمتي ...'' ، '' لئلا يكون ...'' پر عطف ہو نتيجتاً '' لاتم ...'' جملہ '' فولوا وجوہكم شطرہ'' كے لئے ہدف اورغايت كا بيان ہوگا_

۱۶_ مسلمانوں كے لئے خصوصى ہدايت كى فراہمى كى زمين كا ہموار ہونا مسجد الحرام كے انكے لئے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے اہداف ميں سے ہے _فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون

آيہ مجيدہ كے مخاطبين مسلمان ہيں اور وہ اپنے اسلام پر ايمان كى وجہ سے ہدايت يافتہ ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' ميں بيان شدہ ہدايت سے مراد پہلى ہدايت كى نسبت ايك كاملتر اور مخصوص ہدايت ہے _

۱۷ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ كا واقعہ تاريخ اسلام ميں بہت ہى اہم اور تاريخ ساز ہے _

و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و لعلكم تهتدون قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں متعدد آيات كا نزول ، ''فول ...'' كے فرمان كا تكرار (آيات ۱۴۴ ، ۱۴۹ ، ۱۵۰) اور اس سے پيامبر اسلام (ص) كو مخاطب قرار دينا نيز ''قولوا وجوہكم شطرہ'' كے ذريعے مسلمانوں كو بار بار مخاطب قرار دينا (آيات ۱۴۴ ، ۱۵۰) خاص اہميت كا حامل ہے اوراس سے قبلہ كے تعين و تبديلى كى اہميت واضح ہوتى ہے _ اسى طرح قبلہ كے لئے جو بنيادى احكام بيان كئے گئے ہيں وہ اس كے تاريخ ساز ہونے پر دلالت كرتے ہيں _

۵۱۸

۱۸ _ ہدايت كے مختلف مراحل اور درجات ہيں _و لعلكم تهتدون

'' لعلكم ...'' كا خطاب چونكہ مسلمانوں كے لئے ہے جبكہ وہ ہدايت كا ايك مرحلہ طے كرچكے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' كى ہدايت سے مراد اسكا ايك بالاتر مرحلہ ہے اس سے روشن ہوتاہے كہ ہدايت كے مختلف مراحل ہيں _

۱۹_ جناب ابن عباس سے روايت كہ آنحضرت (ص) نے فرمايا:'البيت قبلة لاهل المسجد و المسجد قبلة لاهل الحرم و الحرم قبلة لاهل الأرض فى مشارقها و مغاربها من امتى ''(۱) كعبہ مسجد الحرام والوں كے لئے قبلہ ہے ، مسجد الحرام اہل حرم (مكہ اور اسكے اطراف كے مقامات ميں رہنے والوں ) كے لئے قبلہ ہے اور حرم اہل زمين كے مشرق و مغرب ميں رہنے والے ميرى امت كے تمام افراد كے لئے قبلہ ہے_

احكام : ۱،۳،۱۹

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱۷ دشمنان اسلام كا پراپيگنڈا۵; دشمنان اسلام كے دلائل ۴

اللہ تعالى : اوامر الہى كى مخالفت سے اجتناب ۱۳; نعمات الہى ۱۵

انبياءعليه‌السلام : اديان ميں پيامبر موعود ۷

بيت المقدس: بيت ا لمقدس كے مسلسل قبلہ رہنے كے آثار۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كى حقانيت كے دلائل ۷،۸;اديان ميں پيامبر اسلام (ص) ۷

ترغيب: ترغيب كے عوامل ۱۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر آمادگى ۱۴; تكليف شرعى پر عمل ميں قاطعيت ۱۱،۱۲; تكليف شرعى پر عمل ميں كوتاہى كرنا ۱۱

خوف : خوف خدا كے نتائج ۱۴; خوف خدا كى اہميت ۱۳ ; دشمنوں سے خوف ۱۰،۱۱،۱۲; پسنديدہ خوف ۱۴; ناپسنديدہ خوف ۱۰،۱۲

دشمن: دشمنوں كا پراپيگنڈا ۱۲; دشمنوں كو پراپيگنڈے سے روكنا ۶

روايت:۱۹

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۵۵_

۵۱۹

ظالمين : ظالموں كى بہانہ تراشياں ۹; ظالموں كى دشمنى ۹

قبلہ : تبديلى قبلہ كے نتائج ۵،۸،۱۵; قبلہ كے احكام ۱،۳،۱۹; تبديلى قبلہ كى اہميت ۱۷; اديان ميں تبديلى قبلہ ۷; قبلہ كى جہت ۳; اہل حرم كا قبلہ ۱۹; اہل مكہ كا قبلہ ۱۹; پيامبر اسلام كا قبلہ ۱; مكہ سے دور رہنے والوں كا قبلہ ۱۹; مسلمانوں كا قبلہ ۱

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ بننے كے نتائج ۸،۹،۱۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۱۶; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱،۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ بننا۱۷

مسلمان: مسلمانوں كے دشمن ۹; مسلمانوں كى ذمہ دارى ۶،۱۲; مسلمانوں كى نعمتيں ۱۵;مسلمانوں كى ہدايت ۱۶

مؤمنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۰،۱۱

نعمت: نعمت كى تكميل كا پيش خيمہ ۱۵

ہدايت:

ہدايت كى راہ ہموار ہونا ۱۶; ہدايت كے مراتب ۱۸; وہ لوگ جن كو خصوصى ہدايت ميسر آتى ہے ۱۶; خصوصى ہدايت ۱۴

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ( ۱۵۱ )

جس طرح ہم نے تمھارے در ميانتمھيں ميں سے ايك رسول بھيجا ہے جو تم پرہمارى آيات كى تلاوت كرتا ہے تمھيں پاك وپاكيزہ بناتا ہے اور تمھيں كتاب و حكمتكى تعليم ديتا ہے اور وہ سب كچھ بتاتا ہےجو تم نہيں جانتے تھے (۱۵۱)

۱_ حضرت محمد (ص) ، اللہ تعالى كى جانب سے مبعوث ہوئے_كما ارسلنا فيكم رسولا

۲ _ آنحضرت (ص) ، لوگوں ميں رسول مبعوث ہوئے اور انہى ميں سے تھے_كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۳ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ رسالت كى نعمت كے ہمراہ ايك بڑى نعمت ہے _

فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون، كما ارسلنا فيكم رسولا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''كما'' ميں ''كاف'' تشبيہ كے لئے ہو پس تبديلى قبلہ جو ماقبل آيت ميں مذكور ہے ''مشبہہ'' ہے اور پيامبر كى بعثت ''مشبہہ بہ '' ہے قبلہ كو رسالت كى نعمت سے تشبيہ دينا اس مسئلے كى عظمت اور اس نعمت كى بزرگى كى دليل ہے _

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785