تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200939 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ميں اہل تقوى كى جو صفت بيان ہوئي ہے اس سے پتہ چلتاہے كہ يہ لو گ ہدايت يافتہ ہيں پس''ہدى للمتقين'' ميں ہدايت كا اعلى ترين درجہ مراد ہے اور باتقوى انسان اس مرتبے پر فائز ہيں _

۷_ قرآن كى ہدايت ميں كسى طرح كى بھى كمى و كجى نہيں پائي جاتى اور ذرہ برابر انحراف موجود نہيں ہے_هديً للمتقين

''ہدي'' مصدر ہے اور يہاں اسم فاعل ''ہادي'' كا معنى دے رہاہے_ اسم فاعل كى جگہ مصدر كا استعمال اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن ہدايت محض ہے يعنى قرآن ميں موجود راہنمائي ميں كسى طرح كى بھى بے راہ روى ، حيرانگى ، پريشانى يا گمراہى نہيں پائي جاتى _

قرآن كريم: عظمت قرآن ۱; قرآن اور متقين ۴،۵; قرآن كا استحكا م۳; قرآن كريم كا ترديد و شبہات سے پاك ہونا ۳;قرآن كا كامل ہونا ۱; قرآن كا كردار اور اہميت ۴،۵; قرآن كى تاريخ ۲; قرآن كا منزہ ہونا ۳; قرآن كى تدوين۲; قرآن كى حقانيت۳; قرآن كى حقانيت كے دلائل ۴; قرآن كى خصوصيات ۱،۳; قرآن كى كتابت۲; قرآن كے محكم دلائل ۴; قرآنى ہدايت ۴،۵قرآنى ہدايت كى خصوصيات ۷

متقين : متقين كى تربيت ۴; متقين كى ہدايت ۴،۵

ہدايت: ہدايت كے درجات ۵،۶

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (۳)

جو غيب پر ايمان ركھتے ہيں _ پابندى سے پورے اہتمام كے ساتھ نماز ادا كرتے ہيں اور جو كچھ ہم نے رزق ديا ہے اس ميں سے ہمارى راہ ميں خرچ بھى كرتے ہيں _

۱_ غيب (خدا اور ...) پر ايمان، نماز قائم كرنا اور خرچ كرنا (راہ خدا ميں ) اہل تقوى كى صفات ميں سے ہے_

هدى للمتقين _ الذين يؤمنون ينفقون

''غيب'' كا معنى مخفى اور چھپا ہوا ہے_ اس پر ايمان كو دينى اقدار ميں سے شمار كيا گيا ہے _ غيب سے مراد ہر طرح كا مخفى يا پنہاں نہيں ہے بلكہ بعد كى آيات كى روشنى ميں اس سے مراد اللہ تعالى ، فرشتے اور ان جيسى كچھ ديگر مخلوقات ہيں _

۲_ غيب ( خدا اور ...) پر ايمان، نماز قائم كرنا اور خرچ كرنا ( راہ خدا ميں ) بندگان خدا كے ضرورى فرائض ميں سے ہے _

الذين يؤمنون بالغيب ينفقون

۴۱

۳_ عالم ہستى فقط محسوسات تك ہى محدود نہيں ہے_ يہ قانون اديان الہى ميں سب سے بنيادى امر ہے_

الذين يؤمنون بالغيب''اللہ'' كى جگہ '' الغيب'' كا استعمال ممكن ہے اس نكتے كى طرف اشارہ ہو كہ سب سے پہلى بات جو انسانوں كو ياد كرانے والى ہے وہ يہ كہ جہان ہستى محسوسات تك محدود نہيں ہے_

۴_ دين كے عملى اركان ميں سے نماز اور انفاق كو سب فرائض پر ترجيح دينا ان كى خاص اہميت كى طرف اشارہ ہے_

و يقيمون الصلوة و مما رزقناهم ينفقون

۵_ انسان كے پاس موجود وسائل و امكانات اللہ تعالى كى جانب سے عطا شدہ رزق ہے_و مما رزقناهم ينفقون

۶_ اس بات پر ايمان ركھنا كہ تمام ترو سائل و امكانات اللہ كى طرف سے ہيں انسان ميں انفاق ( فى سبيل اللہ خرچ كرنا) كى راہ ہموار كرتاہے_و مما رزقناهم ينفقون

انفاق كے ضرورى ہونے كے بيان ميں اس امر كى ( كہ سب كچھ خدا كى طرف سے عطا كيا گيا ہے) ياد دہانى كا ہدف، انفاق كا آسانى ہونا اور انسان ميں انفاق كا جذبہ پيدا كرنا ہے_

۷_ انفاق خاص قسم كے وسائل يا امكانات ميں محدود نہيں ہے _مما رزقناهم ينفقون

يہ مطلب لفظ '' ما _ جو كچھ بھي'' سے استفادہ ہوتاہے جسكا معنى عموم ہے_

۸_ سب كچھ ہى انفاق كردينے سے اللہ تعالى نے منع فرمايا ہے _و مما رزقناهم ينفقون

''مما_(من ما)'' ميں موجود ''من'' جسكا معنى بعض ہے اس سے يہ مطلب اخذ ہوتاہے_ پس ''مما رزقناهم ...'' يعنى اہل تقوى اپنے مال كا كچھ حصہ انفاق كرتے ہيں _

۹_ نماز اور انفاق انسان كے لئے ايك دائمى ، مستقل اور ہميشہ كا پروگرام ہے نہ كہ وقتى سلسلہ _

يقيمون الصلوة و مما رزقناهم ينفقونفعل مضارع (يقيمون اور ينفقون) كا استعمال اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كيونكہ فعل مضارع تجديد اور دوام پر دلالت كرتاہے_

۱۰_ اگر زندگى كے پروگرام ميں نماز شامل نہ ہو اور اسكو اہميت نہ دى جائے تو انسان باتقوى نہيں بن سكتا_

هدى للمتقين _ الذين يقيمون الصلوة

۱۱_ وقتى انفاق سے انسان متقين ميں سے قرار نہيں ديا جائے گا_

هدى للمتقين و مما رزقناهم ينفقون

۴۲

۱۲_ ضرورت مندوں كى ضرورت كو پورا كرنے كى كوشش كرنا يہ سب كا فريضہ ہے اور تقوى كى نشانيوں ميں سے ايك ہے _هدى للمتقين و مما رزقناهم ينفقون

۱۳_ اسلام ميں انفرادى اور معاشرتى احكام موجود ہيں _يقيمون الصلوة و مما رزقناهم ينفقون

۱۴_ ايمان بغير عمل كے اور عمل بغير ايمان كے اس سے انسان تقوى كو نہيں پاسكتا_هدى للمتقين_ الذين يؤمنون ينفقون

۱۵_ انسانوں كى اس طرح تربيت كرنا كہ وہ غيب پر ايمان لائيں ، نماز كے پابندہوں اور انفاق كريں يہ سب امور قرآن كريم كے اہداف ميں سے ہيں _ذلك الكتاب هدى للمتقين الذين يؤمنون و مما رزقناهم ينفقون

۱۶_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''الذين يؤمنون بالغيب'' قال: من ا قر بقيام القائم انه حق (۱) ''الذين يؤمنون بالغيب'' كے بارے امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو قائمعليه‌السلام كے قيام كى حقانيت كا اقرار كرتے ہيں _

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى قوله) '' و مما رزقناهم ينفقون'' قال مما علمناهم ينبؤن و مما علمناهم من القرآن يتلون (۲) اللہ تعالى كے اس كلام ''و مما رزقناہم ينفقون'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا جو چيز ہم نے انہيں تعليم دى ہے اسكو بتا تے ہيں ( نشر كر تے ہيں ) اور جو كچھ قرآن حكيم سے ہم نے انہيں سكھا ياہے اسكى تلاوت كرتے ہيں _

اسلام: اسلام كى انفرادى تعليمات۱۳;اسلام كى خصوصيات ۱۳; اسلام كى معاشرتى تعليمات ۱۳

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۹،۱۲; انسانوں كى روزى ۵

انفاق: انفاق كى اہميت ۲،۴;انفاق كا بنياد ۶;انفاق كى حدود ۷،۸،۱۷; دائمى انفاق كے اثرات و نتائج ۱۱; انفاق كے دائمى ہونے كى اہميت ۹،۱۱

انفاق كرنے والے : انفاق كرنے والوں كى تربيت ۱۵

____________________

۱) كمال الدين ج/۲ ص۳۴۰ ح۱۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص۳۱ ح۱۱_

۲) معانى الاخبار ص۲۳ح۲، بحارالانوار ج/ ۲ ص ۱۷، ح۳۸_

۴۳

ايمان: اللہ تعالى پر ايمان ; امام مہدىعليه‌السلام كے قيام پر ايمان ۱۶; ايمان سے متعلق امور ۱،۲،۱۶; بغير عمل كے ايمان ۱۴; غيب پر ايمان ۱،۲،۱۶; غيب پر ايمان كى اہميت ۱۵

تقوا : تقوا كى بنياد ۱۰،۱۱ ;تقوى كى علامتيں ۱۲;تقوى كے اسباب ۱۴

جہان بيني(نظريہ كائنات): توحيدى جہان بينى ۳; جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۶

حديث: ۱۶،۱۷

خدا تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۵،۶;اللہ تعالى كى نصيحتيں ۸;

دنياوى وسائل اور امكانات: دنياوى وسائل كا سرچشمہ ۵،۶

دين: دين كے اركان ۴; دينى تعليمات كى نشر و اشاعت ۱۷

ضرورت مند: ضرورت مندوں كى ضرورت كو پورا كرنا ۱۲

عالم غيب : غيب كے موارد ۱۶

عمل : بغير ايمان كے عمل ۱۴

قرآن كريم : قرآن كى تاثير و كردار ۱۵;قرآن كى تلاوت ۱۷;قرآن كے اہداف۱۵

كائنات: كائنات كا غيب ۳

متقين : متقين كا انفاق كرنا ۱; متقين كى صفات ۱; متقين كا ايمان ۱;

مومنين : مومنين كى ذمہ دارى ۲

نماز: نماز كا قائم كرنا ۱،۲; نماز كى اہميت ۴;نماز كے دائمى ہونے كے اثرات و نتائج ۱۰; نماز كے دائمى ہونے كى اہميت ۹،۱۰

نمازي: نمازيوں كى تربيت ۱۵

۴۴

والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ( ۴ )

وہ ان تمام باتوں پر بھى ايمان ركھتے ہيں جنھيں (اے رسول ) ہم نے آپ پر نازل كيا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل كى گئي ہيں اور آخرت پر بھى يقين ركھتے ہيں _

۱_ قرآن پر ايمان لانا اور پيامبر اسلام (ص) پر نازل شدہ معارف و احكام پر ايمان لانا متقين كى صفات ميں سے ہے_

هدى للمتقين ...الذين يؤمنون بما انزل اليك

۲_ اہل تقوا گذشتہ آسمانى اديان كى كتابوں اور ان كے احكام و معارف پر ايمان ركھتے ہيں _

والذين يؤمنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك

۳_ ان تمام احكام و معارف پر جو پيامبر اسلام (ص) پر اور انبياءعليه‌السلام ما سبق پر نازل ہوئے ايمان لانا واجب و ضرورى ہے_والذين يؤمنون بما انزل اليك وما انزل من قبلك

۴_ اديان الہى ايك دوسرے سے تضاد و اختلاف اور ناہم آہنگى سے منزہ و پاك ہيں _

والذين يؤمنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك

۵_ عالم آخر ت پر يقين اہل تقوى كى صفات ميں سے ہے_

و بالاخرة هم يوقنون

۶_ عالم آخرت پر يقين ركھنا اور يقين حاصل كرنا ضرورى ہے_

و بالاخرة هم يوقنون

۷_ غيب پر ايمان، انبياء ( عليہم السلام ) كى رسالت پر ايمان اور آخرت پر ايمان قرآنى ہدايت كے حصول كى راہ ہموار كرتے ہيں _

هدى للمتقين الذين يؤمنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك و بالاخرة هم يوقنون

۸_ اللہ اور انبياءعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان اور آخرت پر يقين دينى عقائد كے اركان ہيں _

الذين يؤمنون بالغيب و ما انزل من قبلك و بالاخرة هم يوقنون

۴۵

۹_ہر انسان ( اہل كتاب ہو يا غير اہل كتاب) اگر دين اسلام كے عقيدتى اور عملى اركان كا پابند ہو تو متقين ميں سے ہيں _

الذين يؤمنون بالغيب و ما انزل من قبلك

يہ واضح ہے كہ آيت نمبر ۳ ، ۴ ميں جن صفات كا ذكر كيا گيا ہے وہ متقين كى خصوصيات ہيں _ لہذا ''الذين'' كے تكرار سے مراد يہ نہيں كہ اہل تقوى كے دو گروہ ہيں بلكہ ( جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے) الذين كے تكرار سے مراد يہ ہے ان صفات كے حامل اہل تقوى ہيں اب چاہے يہ لوگ اس سے پہلے آسمانى كتابوں پر ايمان ركھنے والے تھے جيسے يہود و نصارى يا ايسے نہيں تھے جيسے عرب كے جاہل_

آخرت: آخرت پر يقين كى اہميت ۶; آخرت پر يقين ۵

اديان: اديان كا منزہ ہونا ۴;اديان كى ہم آہنگى ۴

ايمان: آخرت پر ايمان ۷،۸;آخرت پر ايمان كى اہميت ۶; آسمانى كتابوں پرايمان ۲; اديان پر ايمان ۲،۳; اسلام پر ايمان ۱،۹; انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۷،۸; انبياءعليه‌السلام كى تعليمات پر ايمان ۳; اللہ پر ايمان ۸; ايما ن بالغيب۷; ايمان سے متعلق امور ; ۱ ، ۲ ، ۳،۷، ۸ ، ۹ايمان كے اثرات و نتائج ۷; پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات پر ايمان ۳; قرآن پر ايمان ۱;

تقوى : تقوى كى شرائط ۹

دين: دين كے اركان ۸

قرآن كريم : قرآن كريم كى ہدايت ۷

متقين : ۹

متقين كا ايمان ۱،۲; متقين كى صفات ۱،۲،۵

ہدايت: ہدايت كے حصول كى راہ ۷

۴۶

أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( ۵ )

يہى وہ لوگ ہيں جو اپنے پروردگار كى طرف سے ہدايت كے حامل ہيں اور فلا ح يافتہ اور كامياب ہيں _

۱_ فقط اہل تقوى ہدايت يافتہ انسان ہيں _هدى للمتقين اولئك على هدى من ربهم

۲_ فقط اہل تقوى نجات يافتہ اور سعادتمند ہيں _هدى للمتقين و اولئك هم المفلحون

۳_ غيب ( اللہ اور ...) پر ايما ن لانے والے، رسالت كا عقيدہ ركھنے والے اور آخرت كا يقين كرنے والے ہدايت يافتہ ہيں _الذين يؤمنون اولئك على هدى من ربهم

''اولئك '' كا مشاراليہ ممكن ہے اجمالى طور پر ''المتقين '' ہو يا پھر ممكن ہے اسكا تفصيلى پہلو مراد ہو يعنى ''اولئك'' سے متقين كى صفات كى طرف اشارہ ہو جن كا بيان ہوچكاہے_

۴_ نماز قائم كرنے والے اور انفاق كرنے والے ہدايت يافتہ ہيں _يقيمون الصلوة اولئك على هدى من ربهم

۵_ انسان كى نجات دين كے اعتقادى اصولوں پر ايمان اور اسكے عملى اركان كى پابندى ميں ہے_

الذين يؤمنون و اولئك هم المفلحون

۶_ اہل تقوى كو ہدايت مل جانا اللہ كى جانب سے ان پر عنايت ہے_

اولئك على هدى من ربهم

۷_ اہل تقوى كو ہدايت مل جانا اللہ تعالى كى ربوبيت كا ايك پہلو ہے_اولئك على هدى من ربهم

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۷;اللہ تعالى كى عنايات ۶

آخرت: آخرت پر ايمان لانے والے۳

۴۷

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر ايمان لانے والے۳

انفاق كرنے والے: انفاق كرنيوالوں كى ہدايت۴

ايمان: ايمان سے متعلق امور۵; دين پر ايمان ۵; ايمان كے اثرات و نتائج ۵

توفيقات: تقوى كى توفيق ۶

دين: دين پر عمل۵

عالم غيب: عالم غيب پر ايمان ركھنے والے ۳

متقين : متقين كا فلاح يافتہ ہونا ۲; متقين كى خصوصيات ۱،۲; متقين كى ہدايت ۱،۶،۷

مومنين: اللہ پر ايمان لانے والے ۳; مومنين كى ہدايت ۳

نجات يافتہ لوگ :۲

نجات يافتہ ہونا: نجات يافتہ ہونے كے عوامل ۵

نماز: نماز قائم كرنے والوں كى ہدايت ۴

ہدايت يافتہ انسان ۱،۳: ہدايت يافتہ انسانوں كى صفات۴

۴۸

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ( ۶ )

اے رسول جن لوگوں نے كفر اختيار كرلياہے ان كے لئے سب برابر ہے_ آپ انھيں ڈرائيں يا نہ ڈرائيں يہ ايمان لانے والے نہيں ہيں _

۱_ قرآن كريم كے منكروں اور كافروں كو پيامبر (ص) كا ڈرانا بے اثر تھا_

ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم

گذشتہ آيات كے قرينے كى روشنى ميں ايسا معلوم ہوتاہے كہ ''كفروا'' سے متعلق امر قرآن كريم ہے (كيونكہ گذشتہ آيات كا موضوع قرآن كريم ہے) يعنى مراد يہ ہے ''ان الذين كفروا بالقرآن'' ...''انذار'' جواَنْذَرْتَ كا مصدر ہے اسكا معنى ايسى چيز كى خبر دينا اور مطلع كرنا ( يا خبردار كرنا ) ہے جس سے ڈر نا چاہيئے اور دورى اختيار كرنى چاہيئے_

۲_ قرآن كے منكر اللہ اور قيامت پر ايمان نہيں لائيں گے _

ان الذين كفروا لا يؤمنون

''لايؤمنون '' كا متعلق آيت نمبر ۸ اور ماقبل آيات كى روشنى ميں اللہ اور قيامت ہے يعنى مراد يہ ہے _لا يؤمنون بالله و لا باليوم الآخر

۳_ اللہ تعالى اور قيامت پر ايمان كے لئے قرآن كريم بہترين راہنما ہے_

ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون

يہاں ''كفر'' سے مراد قرآن كے بارے ميں ''كفر و انكار'' ہے لہذا'' سواء عليهم'' اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ اگر قرآن كسى انسان ميں اثر نہيں ركھتا تو يہ كيسے توقع كى جاسكتى ہے كہ اس پر پيامبر (ص) كاكلام اثركرے گا؟يہ مطلب اس بات كى حكايت كرتاہے كہ قرآن كريم ہدايت كا بہترين ذريعہ اور '' انذار _ ڈرانے'' كا مؤثرترين وسيلہ ہے_

۴_ پيامبر (ص) اسلام كى تبليغى اور ہدايتى روشوں ميں سے ايك انذار ہے_

ء ا نذرتهم ام لم تنذرهم

۵_ پيامبر اكرم (ص) كے زمانے ميں بعض لوگ كفر كے ايسے مرحلے پر تھے كہ ان پر آنحضرت (ص) كا انذار اثر نہ كرتا

۴۹

تھا _ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون

بعض كا خيال ہے كہ'' الذين كفروا'' سے مراد كفار مكہ كا ايك گروہ ہے_ يعنى آيہ مباركہ كا ايك خارجى حقيقت كى طرف اشارہ ہے اور اس سے مراديہ نہيں كہ كافروں ميں ايمان كى راہ ہموار نہيں _

۶_ بعض كفار كفر كے ايسے مرحلے پر پہنچ جاتے ہيں كہ ايمان كى صلاحيت ہى ان ميں ختم ہوجائي ہے_

ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون

۷_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''الكفر فى كتاب الله على خمسة اوجه فمنها كفرالجحود والجحود على وجهين ...فاما كفر الجحود فهو الجحود بالربوبية و هو قول من يقول لا رب و لا جنة و لا نار قال الله عزوجل: ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرهم ام لم تنذر هم لا يؤمنون ...(۱)

اللہ كى كتاب ميں كفر پانچ معانى ميں بيان ہوا ہے ان ميں سے كفر جحود ہے جس كى دو قسميں ہيں _ ان ميں ايك قسم ''ربوبيت'' كا انكار ہے اور وہ اس شخص كا قول ہے جو يہ كہتاہے : نہ اللہ ہے نہ بہشت ہے اور نہ جہنم ہے اللہ تعالى فرماتا ہے: ان الذين كفروا سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون ''

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى ربوبيت كو جھٹلانا ۷

انذار(ڈرانا): انذار كا بے اثر ہونا ۱،۵

ايمان: اللہ پر ايمان ۳;ايمان كى ركاوٹيں ۶; ايمان كے متعلقات ۳; قيامت پر ايمان ۳

پيامبر اسلام (ص) : آنحضرت (ص) كا ہدايت كرنا ۴ ;پيامبر اسلام كا انذار ۱،۴،۵; پيامبر اسلام (ص) كى تبليغى روش ۴

تبليغ : تبليغ ميں انذار كى روش ۴

جنت: جنت كو جھٹلانا ۷

جہنم: جہنم كو جھٹلانا ۷

حديث : ۷

قرآن كريم : قرآن كريم كو جھٹلانے والوں كا كفر ۲;قرآن كريم كو جھٹلانے والوں كى خصوصيات ۲; قرآن كريم كى تكذيب كرنے والوں كا انذار ۱; قرآن كريم كى خصوصيات ۳; قرآن كريم كى ہدايت ۳

____________________

۱) كافى ج/۲ص ۳۸۹ح۱،نورالثقلين ج/۱ص۳۲ح ۱۴

۵۰

كفار:۲ صدر اسلام كے كفار ۵; كفار كا ہدايت قبول نہ كرنا ۵،۶; كفار كو انذار۱

كفر: اللہ كا انكار '' كفر'' ۲; قيامت كے بارے ميں كفرو ''انكار''۲;كفر كا مفہوم ۷ ; كفر كے درجات ۵،۶; كفر كے نتائج ۶;

ہدايت: ايمان كى ہدايت ۳ ; ہدايت كى روش۴;ہدايت كے عوامل ۳

خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِيمٌ ( ۷ )

خدا نے ان كے دلوں اور كانوں پر گويا مہر لگادى ہے كہ نہ كچھ سنتے ہيں اور نہ سمجھتے ہيں اور آنكھوں پر بھى پردے پڑگئے ہيں _ ان كے واسطے آخرت ميں عذاب عظيم ہے _

۱_ اللہ تعالى نے قرآن كريم كے منكروں كے دلوں كو دينى معارف كے سمجھنے اور ان كے كانوں كو دينى حقائق سننے سے روك ديا ہے_

ختم الله على قلوبهم و على سمعهم

''ختم'' كا معنى گيلى مٹى يا اسى طرح كى كسى چيز سے دروازے كو بند كرديناہے اور اصطلاح ميں كسى چيز كو لاك لگاكر بند كرنا ہے _ قلب كا بند ہونا درك نہ كرنے اور نہ سمجھنے كا كنايہ ہے_ '' على سمعھم'' ممكن ہے ''على قلوبہم'' پر عطف ہو يا پھر ''غشاوة'' كى خبر بھى ہوسكتى ہے_ مذكورہ بالا مطلب ميں پہلے احتمال كى طرف اشارہ ہے_

۲_ قرآن كريم كے منكروں كے كانوں اور آنكھوں پر پردے پڑے ہوئے ہيں جن كے باعث وہ دين كے حقائق سننے اور ديكھنے كى صلاحيت نہيں ركھتے_

و على سمعهم و على ابصارهم غشاوة

''غشاوہ'' كا معنى پردہ اور اس طرح كى چيز ہے_ مذكورہ مطلب ميں''على سمعهم'' ، ''غشاوة '' كى خبر كے طور پر ہے_

۳_ قلب ( دل اور تفكر) ، كان اور آنكھيں معرفت كے وسائل ہيں _

۵۱

ختم الله على قلوبهم و على سمعهم و على ابصارهم غشاوة

۴_ پيامبر اكرم (ص) كا انذار قرآن كريم كے منكروں پر اس لئے غير مؤثر ہے كيونكہ ان كے ادراك اور فہم كے وسائل بند ہو چكے ہيں _سواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا يؤمنون ، ختم الله على قلوبهم

۵_ انسان اپنى آنكھوں اور كانوں پر ديكھنے اور سننے كے حوالے سے خود پردے ڈالتاہے_

وعلى سمعهم و على ابصارهم غشاوة

آنكھوں اور كانوں پر ''غشاوة '' كا ظاہر ہونا اللہ تعالى كى طرف اسكى نسبت نہيں دى گئي برخلاف قلوب كے مسدود ہونے كے، اس تقابل سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ كفار اپنى آنكھو ں اور كانوں پر خود ''غشاوة' ' كے ظہور كا باعث بنتے ہيں _

۶_ الہى معارف كو درك نہ كرنا اللہ تعالى كى جانب سے دينى حقائق كو نہ سننے اور اہميت نہ دينے كے مقابلے ميں ايك سزا ہے_ختم الله على قلوبهم و على سمهم و على ابصارهم غشاوة

''و على سمعهم ...'' يہ جملہ حاليہ ہے اور قلوب كے مسدود ہونے كى علت بيان كررہاہے_ يعنى يہ كہ اللہ تعالى نے ان كو ادراك كى صلاحيت سے اس ليے محروم كرديا كيونكہ انہوں نے حقائق كو '' ان سنا'' كرديا اور ان پر اپنى آنكھيں بند كرليں _

۷_ كفر اختيار كرنے والوں كے لئے بہت بڑا عذاب ہے _و لهم عذاب عظيم

آنكھيں : آنكھوں پر پردے كے عوامل ۵; آنكھوں كے فوائد ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سزائيں ۶

انذار : انذار كے غير مؤثر ہونے كے اسباب ۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كا انذار ۴

حق : حق كو قبول نہ كرنے كى سزا ۶

دين: دين سے دورى اختيار كرنا ۶; دين فہمى كے موانع ۱،۲

شناخت: شناخت كے وسائل ۳; معرفت كے موانع ۴

عذاب: اہل عذاب ۷; عذاب كے درجات ۷; عظيم عذاب ۷

۵۲

قرآن كريم : قرآن كريم كى تكذيب كے اثرات و نتائج ۱،۲;كريم كے جھٹلانے والوں كا بہرہ پن ۱،۲; قرآن كريم كے جھٹلانے والوں كا ختم قلوب۱،۲،۴; قرآن كريم كے جھٹلانے والوں كى خصوصيات ۲; قرآن قرآن كريم كے منكروں كا اندھا پن ۲

قلب: ختم قلوب كے اثرات و نتائج ۱; قلب كے فوائد ۳

كان: كانوں پر پردے كے عوامل ۵; كانوں كے فوائد۳

كفار: كفار كو عذاب ۷

كيفر يا سزا : كيفر كے اسباب ۶

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ( ۸ )

كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ كہتے ہيں كہ ہم خدا اور آخرت پر ايمان لائے ہيں حالانكہ وہ صاحب ايمان نہيں ہيں _

۱_ قرآن كريم نے لوگوں كو تين طبقات ميں تقسيم كيا ہے : متقين ، كفار اور منافقين _

هدى للمتقين ان الذين كفروا و من الناس من يقول ء امنا

۲_ كچھ انسان ( منافقين) اللہ پر اور روز قيامت پر ايمان كا جھوٹا دعوى كرتے ہيں _

و من الناس من يقول ء امنا بالله و باليوم الاخر و ما هم بمومنين

۳_ اللہ پر اور روز قيامت پر ايمان دين كے اعتقادي اركان ميں سے ہے_

و من الناس من يقول ء امنا بالله و باليوم الاخر

معمولاً وہ لوگ جو كسى گروہ يا قبيلے ميں نفوذ كرنا چاہتے ہيں اس گروہ كے اہم ترين اور بنيادى اصولوں پر پابندى كا اظہار كرتے ہيں لہذا سب لوگوں كى نظر ميں اللہ پر اور قيامت پر ايمان اسلام كے بالكل بنيادى اعتقادى اركان ميں سے ہے اور انسان ان پر ايمان كے اظہار سے مسلمان كہلاتاہے_

۴_ اللہ تعالى انسانوں كے رازوں اور افكار سے آگاہ

۵۳

ہے _

و من الناس من يقول ء امنا و ما هم بمومنين

اسلام: اركان اسلام ۳

اللہ تعالى : اللہ كا علم غيب ۴

انسان: انسانوں كے راز ۴; انسانوں كے طبقات ۱

ايمان: اللہ پر ايمان ۳; ايمان كے جھوٹے دعوى دار ۲; ايمان كے متعلقات ۳; قيامت پر ايمان ۳

كفار:۱

متقين:۱

معاشرتى طبقات : ۱

منافقين:۱ منافقين كا ايمان۲; منافقين كاجھوٹ۲

يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ ( ۹ )

يہ خدا اور صاحبان ايمان كو دھوكہ دينا چاہتے ہيں حالانكہ اپنے ہى كو دھوكہ دے رہے ہيں اور سمجھتے بھى نہيں ہيں _

۱_ منافقين مكار اور فريبى ہيں _

يخادعون الله والذين امنوا

۲_منافقين كے اظہار ايمان كا ہدف اہل ايمان كو نقصان پہنچانا اور ان كے خلاف سازشيں كرنا ہے_

يخادعون الله والذين آمنوا

''خدع'' كا معنى ہے كوئي ايك چيز چھپانا اور كسى دوسرى شيء كو ظاہر كرنا تا كہ نقصان پہنچايا جائے اور پريشانى پيدا كى جائے_

۳_منافقين ايمان كے اظہار سے اللہ سے مكارى اور اہل ايمان كو فريب دينے كے درپے ہيں _

۵۴

و من الناس من يقول ء امنا يخادعون الله والذين آمنوا

يہ جملہ '' و ما يخدعون الا انفسہم'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافقين نہ تو اللہ اور اہل ايمان سے مكارى كرسكتے ہيں اور نہ فريب دے سكتے ہيں _ بنابريں ''يخادعون الله ...'' كا مفہوم يہ ہوا كہ وہ فريب و مكارى كے درپے ہيں _

۴_ منافقين اللہ تعالى كے وسيع، مطلق علم اور يہ كہ اللہ تعالى انسانوں كے بھيدوں اور انكے اندرون سے آگاہى ركھتاہے اس پر يقين و ايمان نہيں ركھتے_يخادعون الله منافقين چونكہ اللہ تعالى كو فريب دينے كے در پے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ ان كا خيال تھا اگر كسى بات كو مخفى ركھيں گے تو اللہ تعالى اس سے آگاہ نہيں ہوسكتا_

۵_ اللہ تعالى اور مومنين سے فريب و مكارى در حقيقت خودفريبى اور اپنے آپ سے مكارى و عيار ى ہے_

و ما يخادعون الا انفسهم

۶_منافقين اپنى خودفريبى اور اپنے آپ سے مكارى و عيارى سے ناآگاہ ہيں _و ما يخادعون الا انفسهم و ما يشعرون

۷_ رسول اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا:

'' من يخادع الله يخدعه قيل له و كيف يخادع الله ؟ قال يعمل بما امره الله عزوجل ثم يريد به غيره (۱)

جو كوئي (اپنے خيال ميں ) خدا كو فريب ديتاہے تو خدا اسكو فريب ديتاہے آپ (ص) سے پوچھا گيا كہ وہ كيسے خدا كو فريب ديتاہے؟ آپ (ص) نے فرمايا اللہ تعالى نے جو حكم دياہے اس پر عمل كرتاہے ليكن اسكى نيت ميں غير خدا ہوتاہے_

اسلامى معاشرہ : اسلامى معاشرے كے خلاف سازشيں ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم غيب ۴; اللہ تعالى كا مكر ۷

انسان: انسانوں كے راز ۴

حديث : ۷

خود: خود سے مكر كرنا ۵،۶

شرك: عملى شرك۷

مكر: اللہ تعالى سے مكر كرنا ۳،۵،۷

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ ص۲۸۳ ح ۲۹۵ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۵ ح ۲۰_

۵۵

منافقين : منافقين اور علم خدا ۴; منافقين اور مومنين ۲; منافقين كا اظہار اسلام ۲،۳; منافقين كا كفر ۴; منافقين كا مكر ۱، ۳ ، ۶; منافقين كى جہالت ۶; منافقين كى جہان بينى ۴; منافقين كى سازشيں ۲;منافقين كى صفات ۱

مومنين: مومنين كے خلاف سازشيں ۲; مومنين سے مكر ۳،۵

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( ۱۰ )

ان كے دلوں ميں بيمارى ہے اور خدا نے نفاق كى بناپر اسے اور بھى بڑھا ديا ہے اب اس جھوٹ كے نتيجہ ميں انھيں دردناك عذاب ملے گا _

۱_ منافقين كے دل او ر ذہن شديد بيمارى ميں مبتلا ہيں _فى قلوبهم مرض بيمارى كى شدت كا مفہوم لفظ '' مرض'' كے نكرہ ہونے سے سمجھا جاتاہے_

۲_ اللہ تعالى منافقين كے دل و جان كى بيمارى ميں اضافہ كرديتاہے _فزادهم الله مرضاً

۳_ نفاق، مكارى اور جھوٹ ايسى رذيلہ صفات ہيں جو دل كى بيمارى سے جنم ليتى ہيں _و من الناس من يقول ء ا منا يخادعون الله فى قلوبهم مرض ''فى قلوبهم مرض'' يہ جملہ گذشتہ اور مابعد والى آيات ميں موجود ان رذيلہ صفات كى جڑ كو بيان كررہاہے جو منافقين كے لئے بيان ہوئي ہيں _

۴_ منافقين اپنے لئے دل اور افكار كى بيمارى كے وجود كا خود ہى باعث ہيں _فى قلوبهم مرض

مذكورہ بالا مطلب ان دو جملوں ''فى قلوبہم مرض _ منافقين كے دلوں ميں مرض ہے '' ''فزادہم اللہ مرضاً'' پس اللہ نے ان كى بيمارى ميں اضافہ كرديا ہے كے تقابل سے نكلتاہے اس كى وجہ يہ ہے كہ دوسرے جملے ميں ہے كہ اللہ تعالى بيمارى كو بڑھانے والا ہے جبكہ پہلے جملے ميں منافقين كے دلوں كے بيمار ہونے كى نسبت اللہ تعالى كى طرف نہيں دى گئي يعنى اس بيمارى كے پيدا ہونے كا موجب خود منافقين ہيں _

۵_ دل اور فكر و ذہن كى بيمارى انسان كے سارے وجود ميں سرايت كرجاتى ہے_فى قلوبهم مرض فزادهم الله مرضاً

پہلا جملہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافقين كے دل اور ذہن بيمار ہيں اور بعد كا جملہ دلالت كرتاہے كہ بيمارى نے ان كے سارے وجود كو گھير لياہے كيونكہ يوں نہيں فرمايا'' فزادہا اللہ مرضاً'' يہاں پر تعبير كا اختلاف يا تو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كى تمام تر حقيقت اس كا دل اور فكر ہے يا يہ حكايت كرتاہے كہ دل كى بيمارى سارے وجود ميں سرايت كرجاتى ہے اور پھر انسان كى تمام حركات و سكنات متاثر ہوتى ہيں _

۵۶

۶_ منافقين بڑے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لهم عذاب اليم

۷_ جھوٹ اور جھوٹ بولنا منافقين كا اوڑھنا بچھوناہے_بما كانوا يكذبون '' كان'' فعل مضارع پر آجائے تو زمانہ ماضى ميں تسلسل اور دوام پر دلالت كرتاہے_

۸_ جھوٹ كے رفقاء كى مسلسل سزا دردناك عذاب ہے_و لهم عذاب اليم بما كانوا يكذبون

'' بما كانوا'' ميں باء سبب كے لئے اور '' ما'' مصدر يہ ہے يعنى''و لهم عذاب اليم بسبب كذبهم المستمر''

۹_ منافقين كى مسلسل دروغ گوئي اور كذب ان كے دل و جان ميں بيمارى كے اضافے كا باعث ہے_فزادهم الله مرضاً بما كانوا يكذبون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''بماكانوا '' كا متعلق'' لهم عذاب اليم'' كے علاوہ ''فزادهم ... '' بھى ہو_

۱۰_ اللہ تعالى كے عذاب كى مختلف صورتيں اور اقسام ہيں _و لهم عذاب عظيم و لهم عذاب اليم

اخلاق: اخلاقى رذائل ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے افعال ۲; اللہ تعالى كے عذاب ۱۰

بيمار دل افراد:۱،۲

جھوٹ : جھوٹ كے عوامل ۳;جھوٹ كے نتائج ۹

جھوٹے : جھوٹوں كى سزا ۸

عذاب: اہل عذاب ۶ ،۸; دردناك عذاب۶،۸; عذاب كى اقسام ۱۰; عذاب كے درجے ۶،۸

قلب: بيمارى قلب كے عوامل ۴; بيمارى قلب كے نتائج ۳،۵; بيمارى قلب كے بڑھنے كے عوامل ۹

مكرو فريب : مكر كے عوامل ۳

منافقين : منافقين پر عذاب ۶;منافقين كى خصوصيات ۱،۷; منافقين كى دروغ گوئي ۷،۹; منافقين كے قلب كى بيمارى ميں اضافہ ۲; منافقين كے دل كى بيمارى ۱،۴،۹

نفاق: منافقت كے عوامل ۳

۵۷

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ( ۱۱ )

جب ان سے كہا جاتاہے كہ زمين ميں فساد نہ برپاكرو تو كہتے ہيں كہ ہم تو صرف اصلاح كرنے والے ہيں _

۱_ منافقين معاشرے ميں تباہى و بربادى لانے والے عناصر ہيں _و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

''فى الارض'' كا كلمہ اس بات كى وضاحت كررہاہے كہ منافقين جو تباہى و بدبختى پھيلاتے تھے وہ فقط ان كى اطراف تك محدود نہ تھى بلكہ پورے سماج ميں سرايت كرجاتى تھي_

۲_ زمانہ بعثت نبوى (ص) كے منافقين كے ناپسنديدہ اور تباہ كن اعمال پر اس زمانے كے مسلمانوں نے اعتراض كيا_و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

۳_ تباہى پھيلانے والے منافقين اپنے بارے ميں ذرہ برابر تباہى پھيلانے كو قبول كرنے كيلئے تيار نہيں ہيں _قالوا انما نحن مصلحون

''انما'' حصر پر دلالت كرتاہے _ اس جملے ميں ''موصوف كا صفت ميں حصر'' پايا جاتاہے _ لہذا اس جملے '' انما نحن مصلحون'' كا مفہوم يہ ہوا كہ ہم فقط صحيح امور انجام ديتے ہيں _ ہمارے تمام تر افعال معاشرے كى بہترى كے لئے ہيں _

۴_منافقين خود كو مصلح اور اصلاح طلب سمجھتے ہيں _قالوا انما نحن مصلحون

۵_ منافقين اپنے بيمار دل اور بيمار ذہن كے باعث اپنے فساد و تباہى پھيلانے والے كاموں كو اصلاح تصور كرتے ہيں _فى قلوبهم مرض قالوا انما نحن مصلحون

۶_ منافقين ايسے لوگ ہيں جن پر نصيحت كا كوئي اثر نہيں ہوتا_و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض قالوا انما نحن مصلحون

۷_ منافقين كا تباہى پھيلانا اور ان پر نصيحت كا اثر نہ ہونا ان كى قلبى بيمارى كى وجہ سے ہے_فى قلوبهم مرض و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

۸_ دل اور ذہن و فكر كى بيمارى كى واضح نشانى فساد پھيلانا اور نصيحت كا اثر نہ ہونا ہے_فى قلوبهم مرض ...و اذا قيل لهم لا تفسدوا

۵۸

فى الارض قالوا انما نحن مصلحون

۹ _ منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا اور نصيحت كا ان پر اثر نہ ہونا ان كے دردناك عذاب ميں مبتلا ہونے كا باعث بنا_

و لهم عذاب اليم بما كانوا و اذا قيل لهم لا تفسدوا فى الارض

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''اذا قيل'' يكذبون پر عطف ہو _ اس اعتبار سے ''اذا قيل ...'' كا مفہوم '' يكذبون'' كى طرح منافقين كے لئے دردناك عذاب كا سبب بيان كررہاہے_

۱۰_ منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا ان كے لئے دل ، ذہن و فكر كى بيمارى ميں اضافے كا موجب ہے_

فزادهم الله مرضاً بما كانوا يكذبون ...و اذا قيل لهم لا تفسدوا

يہ مطلب دوچيزوں پر مبنى ہے: ۱_''اذاقيل ...'' ''يكذبون'' پر عطف ہو ۲ _ ''بما كانوا يكذبون''،''و لہم عذاب اليم'' سے متعلق ہونے كے علاوہ ''فزادہم اللہ ''سے بھى متعلق ہو اس لحاظ سے جملہ يوں ہوجائے گا ''فزادهم الله مرضاً ...بما كانوا اذا قيل لهم ''

عذاب: اہل عذاب ۹; دردناك عذاب ۹;عذاب كے اسباب ۹;عذاب كے درجے ۹

فساد و تباہى : فساد و تباہى كے عوامل ۸

فساد و تباہى پھيلانا: فساد و تباہى پھيلانے كى سزا ۹

قلب: قلبى بيمارى ميں اضافے كے اسباب و حالات ۱۰;قلب كى بيمارى كے اثرات ۷; قلبى بيمارى كى علامتيں ۸

مجرمين: ۱

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان اور منافقين ۲

معاشرہ : معاشرے كى ابترى كے عوامل ۱

منافقين : صدر اسلام كے منافقين ۲; منافقين پر اعتراض ۲; منافقين پر نصيحت كا اثر نہ ہونا۶،۷; منافقين كا تباہى پھيلانا ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۷ ، ۹;منافقين كا ناپسنديدہ عمل ۲;منافقين كى اصلاح نہ ہونا ۹; منافقين كى تباہى پھيلانے كے اثرات ۱۰; منافقين كى قلبى بيمارى ۷،۱۰; منافقين كى قلبى بيمارى كے اثرات ۵;منافقين كى خصوصيات ۳، ۶; منافقين كے جرائم ۱،۹; منافقين كے دعوے ۴،۵;منافقين اور اصلاح طلبى ۴،۵

نصيحت و موعظہ : نصيحت كے اثرا انداز نہ ہونے كے عوامل ۸

۵۹

أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لاَّ يَشْعُرُونَ ( ۱۲ )

حالانكہ يہ سب مفسد ہيں اور اپنے فساد كو سمجھتے بھى نہيں ہيں _

۱ _ منافقين فساد اور تباہى پھيلانے والے لوگ ہيں _الا انهم هم المفسدون

۲_ منافقين انسانى معاشروں ميں فساد اور تباہى كا سرچشمہ ہيں _الا انهم هم المفسدون

قرآن كريم كى بعض آيات ميں منافقين كے علاوہ بھى كچھ لوگوں كو فسادى كہا گيا ہے پس يہاں جملے '' الا انہم فقط منافقين فسادى ہيں '' كا حصر ادعائي ہے اور اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ غير منافقين كا فسادى ہونا منافقين كے مقابلے ميں كچھ بھى نہيں يا يہ كہ دوسروں كا فساد و تباہى بھى منافقت اور منافقينكى طرف لوٹ جاتاہے_

۳ _ منافقين ايسے فساد ى ہيں جو اصلاح كے دعويدار ہيں _انما نحن مصلحون_ الا انهم هم المفسدون

۴ _ منافقين اپنے فساد و تباہى سے بے خبر ہيں _و لكن لا يشعرون

۵ _ منافقين كى دلى بيمارى انكے فساد كو سمجھنے كے راستے ميں ركاوٹ ہے _فى قلوبهم مرض الا انهم هم المفسدون و لكن لا يشعرون

۶_ اہل ايمان كو چاہيئے كہ منافقين كو ہميشہ فسادى سمجھيں _الا انهم هم المفسدون

منافقين كے تباہى و ويرانى پھيلانے كا ذكر جملہ اسميہ سے كرنا جبكہ اس كے ساتھ حرف تنبيہ ( الا _ آگاہ رہو) اور حرف تاكيد ( انّ _ بيشك) كا استعمال ہوا ہے ،يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافقين نے جھوٹ بول بول كر مسلمانوں كو يہ باور كراديا تھا كہ وہ لوگ اصلاح پسند ہيں _ لہذا كہا جاسكتاہے كہ اس جملے كا ايك مقصد يہ ہے كہ مسلمان منافقين كے فساد و تباہى پھيلانے كے عمل ميں ہرگز شك نہ كريں _

۷ _ مومنين كو منافقين كے فساد و تباہى پھيلانے كے عمل و حركات سے ہوشيار رہنے كى ضرورت ہے_الا انهم هم المفسدون

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا موضوع سخن وہ آیات ہیں جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے فی الحال ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں آسانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں اور جن آیات کا نسخ نہ ہونا (ہمارے گزشتہ بیانات کی روشنی میں) واضح ہے ان کو فی الحال پیش نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تفسیر کے موقع پر اس پہلو (نسخ) پر نظر ڈالیں گے۔

ان آیات پر بحث ہم اسی ترتیب سے کریں گے جس ترتیب سے یہ قرآن میں موجود ہیں:

۱۔( وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''(مسلمانو)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافربنا دیں (اور لطف تو یہ ہے) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی (یہ تمنا باقی ہے) پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے ، بیشک خداہر چیز پر قادر ہے،،

ابن عباس نے قتادہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۱) آیہ سیف یہ ہے:

( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۹:۲۹

''اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ خدا اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوںسے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہلوگ ذلیل ہو کر (اپنے) ہاتھ سے جزیہ دیں،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۲۶ ، طبع مکتبتہ العلامیہ ۔ مصر

۳۶۱

مذکورہ آیت کے نسخ کو اس وقت مانا جا سکتا ہے جب دو باتیں مان لی جائیں جو کہ صحیح نہیں ہیں:

(۱) اس حکم کے برطرف ہونے کو بھی نسخ کہا جائے جس کی مدت معین ہو اور اس مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوگیا ہو۔

اس بات کا باطل ہونا واضح ہے اس لئے کہ نسخ وہاں بولا جاتا ہے جہاں حکم کے عارضی اور دائمی ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا گیا ہو اور اگر کوئی حکم عارضی ہو ، اگرچہ وقت کی تعیین تفصیل سے نہ کی گئی ہو اور اجمالی طور پر معلوم ہو کہ یہ حکم عارضی ہے تو وہی دلیل ، جو وقت کی وضاحت اور حکم کی آخری مدت بیان کرے ، قرینہ بنے گی جومراد متکلم کی وضاحت کرے اس پر نسخ صادق نہیں آتا نسخ اصطلاحی یہ ہے کہ ایسے حکم کو برطرف کیا جائے جسے کلام کے اطلاق کی رو سے ظاہری طورپر دائمی سمجھا جائے اور وہ حکم کسی معین مدت سے مختص نہ ہو۔

فخر الدین رازی کا خیال ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے عارضی حکم کا وقت (آخری مدت) بیان کرنابھی نسخ کہلاتا ہے ۔ رازی کا یہ خیال سراسر باطل ہے کیونکہ اصطلاح میں اسے کوئی بھی نسخ نہیں کہتا اور جس حکم کے ابدی اور دائمی ہونے کی تصریح کی گئی ہو اس میں نسخ کا واقع نہ ہونا تو اظہر من الشمس ہے۔

(۲) پیغمبر اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آیت کریمہ میں مشرکین کو خدا اور اخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اہل کتاب سے ابتدائی طورپر جنگ لڑنا جائز نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی اور وجہ سے اہل کتاب سے لڑنا جائز ہو مثلاً اگر اہل کتاب جنگ میں پہل کریں

۳۶۲

اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو اس صورت میں ان سے لڑنا جائز ہو گا چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۲:۱۹۰

''اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہگز دوست نہیں رکھتا،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے جنگ کی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلائیں اس لئے کہ فتنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ): ۱۹۱

''اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کے ہے،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے لڑا جا سکتا ہے جب وہ طے شدہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں جس کی طرف زیر بحث آیہ کریمہ میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

لیکن اگر اس قسم کا کوئی سبب اور مجوز نہ ہو تو اہل کتاب سے صرف ان کے کفر کی بنیاد پر لڑنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں جو ان کے کفر کا لازمی نتیجہ ہے تو اسے درگزر کرو اور ان سے جنگ نہ کرو۔

یہ حکم اس سے منافات نہیں رکھتا کہ دوسری آیت میں کسی اور سبب اور مجوز کی بنیاد پر ان سے لڑنے کا حکم دیا جائے بنا برایں دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ نہیں ، بلکہ پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال (جنگ) کا کوئی مجوز نہیں تھا اس لئے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری آیت میں ان سے قتال کا مجوز موجود تھا اس لئے لڑنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ جس کو اس آیت کے نسخ پر شبہ ہوا ہے اس نے آیہ کریمہ:

(حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ) ۲:۱۰۹

''یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے،،۔

۳۶۳

میں امر کا معنی طلب اور حکم سمجھا ہے اور اس سے اس شبہ کا شکار ہوا ہے کہ کفار سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خدا ان سے جنگ لڑنے کا حکم دے اس طرح اس نے بعد والے حکم کو ناسخ قرار دیا ہے۔

محترم قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بالفرض اگرا سے درست بھی سمجھا جائے پھر بھی نسخ لازم نہیں آتا لیکن یہ احتمال سرے سے باطل ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں امر سے مراد طلب اور حکم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امر تکوینی اور مخلوق میں قضا و قدر الٰہی ہے اس کی دلیل امر سے پہلے لفظ ''اتیان،، کا لانا ہے (کیونکہ ار بمعنی مطلب اتیان کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا) اور دوسری دلیل آخری آیت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے،،

اس آیہ شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے: اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں تو انہیں معاف کر دو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰاپنی مشیّت سے اسلام کو عزت عطا فرمائے اور کفار کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے کچھ کو اللہ تع الیٰ ہلاک کر دے اور انہیں آخرت میں شدید عذاب دے اور اس قسم کے دوسرے فیصلے فرمائے جن کی قضا و قدر الٰہی متقاضی ہو۔

۲۔( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑی گجائش والا اور خوب واقف ہے،،۔

۳۶۴

علماء کی ایک جماعت ، جس میں ابن عباس ، ابو العالیہ ، حسن عطا ، مکرمہ قتادہ ، سدی اور زید بن اسلم شامل ہیں ، سے منسوب ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے(۱) البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ابن عباس فرماتے ہیں:

یہ آیت قول اللہ تعالیٰ:

( وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ۲:۱۵۰

''اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو نماز میں اپنا منہ (اسی کعبہ) کی طرف کر لیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قتادہ فرماتے ہیں:

یہ آیت ، آیہ :

( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ ) ۲:۱۵۰

''تم (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قرطبی کا بھی یہ کہنا ہے(۲)

علماء نے اس آیت کے نسخ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے تمام مسلمانوں کو پہلے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ نماز میں جس طرف چاہیں رخ کریں اگرچہ رسول اللہ (ص) نے ان اطراف میں سے بیت المقدس کی سمت اختیار فرمائی تھی اس کے بعد یہ آیت نسخ ہو گئی اور صرف بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۵۷۔۱۵۸۔

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۴

۳۶۵

اس احتمال کا بے بنیاد ہونا محتاج نہیں کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ) ۲۔۱۴۳

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ( قرار دیا تھا کہ جب (قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں،،۔

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اس وقت مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے حکم پر بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور اس میں رسول اللہ (ص) کے ذاتی اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا حقیقت امر یہ ہے کہ کوئی جہت اور طرف خدا کی ذات سے مختص نہیں کیونکہ کوئی مکان اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتا انسان اپنی نماز ، دعا اور دیگر عبادات میں جس طرف بھی رخ کرے ، خدا ہی کی طرف رخ ہو گا۔

اسی آیت کریمہ کو اہل بیت عصمت (ع) نے اس حکم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ مسافر جس طرف چاہے رخ کر کے نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسی آیت کو اس واجب نماز کے صحیح ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو غلطی سے مشرق اور مغربی کے درمیانی رخ پڑھی گئی ہو۔

جو آدمی سرگرداں ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے وہ جس طرف رخ کر کے نماز پڑھے صحیح ہے اور یہ کہ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے قرآن کے واجب سجدے کئے جا سکتے ہیں جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر (رح) کو زمین کی طرف رخ کر کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۱)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۵

۳۶۶

معلوم ہوا یہ آیت مطلق ہے جس کی مختلف اوقات میں مختلف قیدوں سے تقیید کی گئی کبھی (واجب نماز میں) بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور کبھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور بعض علماء کے مطابق نوافل بھی ، اگرچہ چلنے کی حالت میں نہ ہوں بنا برقول بعضے ، کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھے جا سکتے ہیں باقی رہیں وہ روایات جن کے مطابق یہ آیت نوافل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف نوافل سے مختص ہے کیونکہ اس سے پہلے بتا چکے ہیں کہ آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہوا کرتیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ کا نسخ اس وقت قابل قبول ہو گا جب دو باتیں ثابت ہوں۔

( i ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ کریمہ صرف واجب نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ بات یقیناً باطل ہے اور اہل سنت کی کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کی رو سے یہ آیت ، دعا ، مسافر کے نوافل ، متحیر و سرگرداں

آدمی کی نماز اور اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو(۱) اس سے قبل وہ مقامات بھی بیان کئے گئے جہاں اہل بیت اطہار (ع) نے اس آیہ شریفہ سے استدلال فرمایا ہے۔

( ii ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ شریفہ ، اس آیہ شریفہ سے پہلے نازل ہوئی ہو جس میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بات بھی ثابت اور مسلم نہیں ہے۔

بنا برایں یہ دعویٰ یقیناً باطل ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے اہل بیت (ع) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی۔

____________________

(۱) تفسیر طبری ، ج ۱ ، ص ۴۰۰۔۴۰۲

۳۶۷

ہاں! بعض اوقات نسخ بولا جاتا ہے اور اس سے ایک عام معنی مقصود ہوتا ہے جو تقیید کو بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس معنی کی طرف اس سےقبل اشارہ کیا جا چکا ہے اگر زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی اس معنی کا ارادہ کیا جائے تو پھر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا اور عین ممکن ہے کہ اس آیت میں نسخ سے ابن عباس کی مراد یہی ہو اور اس سے قبل بھی ہم اس خقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔

۳۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ ) ۲:۱۷۸

''اے مومنو! جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت،،

بعض علمائے کرام کا یہ دعویٰ ہے کہآیہ شریفہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۵:۴۵

''اور ہم نے توریت میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت،،

(پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے معاملے میں مرد ،عورت اور غلام آزاد میں مماثلت

۳۶۸

ضروری ہے یعنی مرد کے بدلے میں مرد اور عورت کے بدلے میں عورت ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے لیکن دوسری آیت کریمہ میں اس مطابقت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس بنا پر عورت کے بدلے میں مرد اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے)

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے اور مرد کے وارثوں کو دیت سے کچھ حصہ دینا بھی ضرروی نہیں(۱) البتہ حسن اور عطاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

لیث کہتے ہیں:

''اگر مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو اسے صرف اپنی بیوی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا،،(۲)

امامہ اثنا عشریہ کے مطابق مقتولہ کے ولی و وارث کو اختیار حاصل ہے کہ عورت کی دیت اور خونبہا کا مطالبہ کرے اور چاہے تو قاتل کو قصاص میں قتل کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرد کی دیت اور خونبہا کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اہل سنت میں مشہور یہی ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور امامیہ کا اس پر اجماع قائم ہے لیکن ابو حنیفہ ، ثوری ، ابن ابی لیلی ٰ اور داؤد نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آزاد کسی دوسرے کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے(۳) البتہ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے گا خواہ وہ اس کا اپنا غلام ہی کیوں نہ ہو(۴)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۲۲۹

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۲۱۰

(۳) یضاً ، ج ۱ ، ص ۲۰۹۔

(۴) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۷

۳۶۹

لیکن قول حق یہی ہے کہ پہلی آیت محکم ہے اورا س کے معنی ظاہر ہیں اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی اس لئے کہ دوسری آیت میں آزاد و غلام اور مرد و عورت کے اعتبار سے اطلاق پایا جاتا ہے یعنی آیت کریمہ اس پہلو کو بیان نہیں کر رہی کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یا اگر آزاد ، غلام کو قتل کرے تو اسے غلام کے مقابلے میں قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ بلکہ دوسری آیت میں صرف اس نکتے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قصاص کے موقع پر جرم کی مقدار اور نوعیت کا خیال رکھا جائے یعنی جس نوعیت کا جرم کیا گیا ہے اسی کے حساب سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تو بھی اس پر کرو،،

کا مفہوم بھی یہی ہے۔

بہرحال اگر دوسری آیت میں مرد و عورت اور آزادو غلام کے اعتبار سے قاتل و مقتول کی خصوصیات بیان نہ کی گئی ہوں اور صرف ابتدائی جرم اور قصاص کی نوعیت میں مساوات کو بیان کیا گیا ہو جس کو اس آیہ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے تو دوسری آیت مہمل رہیگی اور اس کا عموم میں ظہور نہیں ہو گا تاکہ پہلی آیت کیلئے ناسخ بن سکے اور اگر دوسری آیت مرد و زن اور غلام و آزاد کے اعتبار سے اطلاق میں ظہور رکھتی ہو اور اس آیت میں صرف اس بات کی خبر نہ دی گئی ہو کہ یہ حکم تورات میں موجود ہے بلکہ اس امت کیلئے بھی یہی حکم ثابت ہو تو پہلی آیت دوسری کیلئے مقید ثابت ہو گی اور اس کا قرینہ ہو گی کہ دوسری آیت میں مراد الٰہی کیا ہے اس لئے کہ مطلق ، اگرچہ مؤخر ہو ، مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ مقید ظہور مطلق میں تصرف (ردوبدل) پر قرینہ ثابت ہو گا چنانچہ ہر مقید ، جو موخر ہو ، کا یہی حکم ہوا کرتا ہے۔ بنا برایں غلام کے بدلے میں آزادکے قتل کئے جانے کاقائل ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۷۰

اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ غلام کے مقابلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے دلیل کے طور پر امیر المومنین (ع) کی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جسے آپ (ع) نے رسول اللہ (ص) سے نقل فرمایاہے اس روایت میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

المسلمون تتکافا دماؤهم ،،

''مسلمانوں کا خون (آزادہو یا غلام) یکساں ہے،،

جواب: فقرض تسلیم اگر یہ روایت درست بھی ہوتو آیہ کریمہ :( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی اس لئے کہ یہ روایت غلام کے مقابلے میں آزاد کے قتل کو تب جائز قرار دے گی جب اس کے عموم پر عمل کیا جائے ظاہر ہے عام اس وقت حجت اور قابل عمل ہو گا جب اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی مخصص وارد نہ ہو۔

باقی رہی وہ روایت جو حسن نے سمرہ سے اور اس نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے اس کی سند ضعیف ہے اور یہ قابل اعتماد نہیں چنانچہ ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

''بعض لوگوں کی جہالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آزاد کے قتل کو اس کے اپنے غلام کے قتل کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) کے فرمان کو پیش کرتے ہیں جس کو حسن نے سمرہ سے نقل کیا ہے اور اس میں آپ (ص) فرماتے ہیں : من قتل عبدہ قتلناہ (یعنی )''جو اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے،، اوریہ حدیث ضعیف ہے،،(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن لابی بکربن العربی ، ج ۱ ، ص ۲۷

۳۷۱

مولف: اس روایت کی سند ضعیف ہونے کے علاوہ تین روایات سے متعارض بھی ہے۔

i ) عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے جد سے روایت بیان کرتے ہیں:

''ایک شخص نے عملاً اپنے غلام کو قتل کر دیا اس قاتل کو رسول اللہ (ص) نے سزا میں کوڑے لگائے ، ایک سال کیلئے جلا وطن کر دیا اور بیت المال سے اس کا حصہ منقطع کر دیا لیکن اسے قتل نہیں کیا گیا،،(۱) اسی مضمون کی ایک روایت ابن عباس نے رسول اللہ (ص) سے بھی نقل کیا ہے۔

( ii ) جابر نے عامر سے اور اس نے امیر المومنین (ع) سے روایت بیان کی ہے:

''آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا ،،(۲)

( iii ) عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے روایت بیان کی ہے:

''حضرت ابوبکر اور حضرت عمر غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے ،،(۳)

قارئین کرام نے روایات اہل بیت (ع) ملا خطہ فرمائیں جن کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ (ص) کے بعد مرجع دین اہل بیت اطہار (ع) ہی ہیں ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس دعویٰ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آیہ : ''الحر بالحر والعبد بالعبد،، نسخ ہو گئی اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

امامیہ ، حسن اور عطاء کے نقطہ نگاہ سے آیہ کریمہ اس اعتبار سے بھی نسخ نہیں ہوئی کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکے البتہ مذہب اہل سنت کے مطابق یہ اس اعتبار سے نسخ ہو گئی ہے یعنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے جبکہ پہلی آیہ (الانثی ٰ بالانثیٰ ) کی رو سے عورت کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۸ ، ص ۳۶

(۲) ایضاً ص ۳۴۔۳۵

(۳) ایضاً ص ۳۴

۳۷۲

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔

۳۷۳

ہاں ! یہ اور بات ہے کہ آیہ شریفہ سے قطع نظر خارجی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ جب مقتولہ کے ولی و وارث مرد کی دیت کا نصف حصہ ادا کر دیں تو مرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کر دے اس طرح مرد ، عورت اور نصف دیت کے مجموعہ کابدلہ قرار پائے گا یہ ایک جداگان اور مستقل حکم ہے جس کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں جو آیہ کریمہ سے ابتداً سمجھا جاتا ہے اوریہ وہ نسخ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیہ( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) کا نسخ اس بات پر موقوف ہے کہ مقتولہ کے ولی و ورثا جب بھی قصاص کا مطالبہ کریں توقصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا قاتل پر واجب ہو چنانچہ اہل سنت یہی کہتے ہیں لیکن یہ بات دلیل سے ثابت نہیں (اس کا اثبات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مترجم)

اہل سنت حضرات اس بات کے ثبوت میں کبھی تو دوسری آیت :( أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ ) کے اطلاق کا سہارالیتے ہیں ، کبھی حدیث شریف :المسلمون تتکافا دماؤهم کے عموم کا اس دلیل کا جواب دیا جا چکا ہے اور کبھی اس بات کے اثبات میں قتادہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو اس نے سعید بن مسیب سے نقل کی ہے اس روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے صنعاء کے کچھ لوگوں کو ایک عورت کے قتل کے جرم میں قتل کیا۔

لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین (ع) اور عبداللہ نے فرمایا:

''جب کوئی مرد کسی عورت کو قتل کرے تو اسے اس عورت کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کیا جائیگا،،

زہری نےابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور اس نے اپنے والد سے ، اس نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''ان الرجل یقتل بالمراة ،، (۱)

''مرد ، عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا،،

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۹

۳۷۴

لیکن یہ سب دلیلیں کئی اعتبار سے باطل ہیں۔

( i ) یہ سب روایات صحیح بھی ہوں لیکن کتاب خدا کی مخالف ہیں اور جو روایات کتاب الٰہی کی مخالف ہو وہ حجت نہیں ہوا کرتی یہ روایات خبر واحد ہیں اور علما کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

( ii ) ان میں سے پہلی روایت مرسلہ ہے کیونکہ سعید بن مسیّب ، خلافت حضرت عمر کے دو سال بعد پیدا ہوا(۱) اور یہ بات بہت بعید ہے کہ اس نے حضرت عمر سے بلا واسطہ روایت کی ہو اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت عمر کا فعل بذات خود حجت نہیں۔

دوسری روایت ضعیف بھی ہے اورمرسلہ بھی ۔ تیسری روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ مطلقہ ہے اور اس روایت سے اس کی تقیید کی جائے گی جس کے مطابق قاتل کو اس کی نصف دیت ادا کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیہ کریمہ کا نسخ ثابت نہیں اور صرف فقہاء کی ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے زیدیا عمرو کے قول اور فتویٰ کی بنیاد پر قول خداوند سے کیوں اور کس طرح دستبردار ہوا جا سکتا ہے ؟ اور مقام حیرت وتعجب ہے کہ علماء کی ایک جماعت جس کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا ، اس کے باوجود ، قرآن کیخلاف اپنا فتویٰ صادر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہمارے گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آیہ کریمہ:

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے،،۔

__________________

(۱) تہذیب التہذیب ، ج ۴ ، ص ۸۶

۳۷۵

اور آیہ کریمہ:

( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۷۹

''اور اے عقلمندو ! قصاص میں تمہاری زندگی ہے اور اسی لئے جاری کیا گیا ہے،،

میں آیہ شریفہ (الانثی بالانثیٰ) جس میں مرد و زن اور آزاد و غلام میں فرق کو بیان کیا گیا ہے ، کی ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں ہے انشاء اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے موقع پر اس موضوع پر مفصل بحث کی جائے گی۔

۴۔( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ) ۲:۱۸۰

''(مسلمانو!) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے جوخداسے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے،،

بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ، آیہ ارث کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ صدر اسلام میں میراث کی تقسیم کی وہ کیفیت نہیںتھی جو اب ہے بلکہ سارے کا سارا ترکہ بیٹے کو مل جاتا تھا والدین اور دیگر رشتہ داروں کو جو کچھ ملتا تھا وہ وصیت کے ذریعے ملتا تھا اورآیہ میراث کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا چنانچہ آیہ کریمہ میں اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مالدار آدمی کو چاہئے کہ وہ مرتے وقت والدین اور دیگر رشتہ داروں کیلئے ضرور وصیت کرے۔

کچھ حضرات کا دعوی ہے کہ یہ آیت فرمان رسول اللہ:''ولاوصیة لوارث (۱) ،، (یعنی) وارث کیلئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں،، کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۰

۳۷۶

مگر حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ آیہ ارث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میراث کی نوبت تب آتی ہے جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہ کی ہو اور وہ مقروض بھی نہ ہو اس کے باوجود یہ کیسے معقول ہے کہ آیہ ارث ، آیہ وصیت کی ناسخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ نسخ کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ بھی درست نہیں ، اس لئے کہ:

اولاً : اگرچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

ثانیاً: آیہ ارث کے ذریعے ، اس آیہ کا نسخ اس صورت میں ثابت ہو گا جب آیہ ارث ، اس آیہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) کے بعد نازل ہوئی ہو اور قائلین نسخ کیلئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے بعض حنفی حضرات کی طرف سے نسخ کے قطعی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔

ثالثاً : مرنے والے کے رشتہ داروں کے بارے میں اس حکم کا نسخ ہونا قابل تصور نہیں کیونکہ مرنے والے کے بیٹے کی موجودگی میں دوسرے رشتہ دار ارث کے حقدار ہی نہیں بنتے تاکہ آیہ ارث کے ذریعے آیہ وصیت کو نسخ کر کے رشتہ داروں کیلئے ارث کو ثابت کیا جا سکتے لہٰذا مرنے والے کے رشتہ دار وصیت ہی سے استفادہ کر سکتےہیں بہرکیف چونکہ وصیت کے نہ ہونے کی صورت میں ارث کی نوبت پہنچتی ہے ، اس لئے آیہ ارث نہ صرف آیہ وصیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی بلکہ اس سے آیہ وصیت کی تائید و تاکید بھی ہوتی ہے اس لئے کہ آیہ شریفہ (من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین) کی رو سے وصیت ارث پر مقدم ہے۔

۳۷۷

بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ آیہ شریفہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) رسول اللہ (ص) کی حدیث(لاوصیة لوارث ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے یہ دعویٰ کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی اور تفسیر المنار میں اس روایت کی سند کو مورد اشکال و مناقشہ قرار دیاگیا ہے(۱)

( ii ) ایسی روایت اہل بیت اطہار (ع) کی ان مستفیض روایات سے متعارض ہیں جن کے مطابق وارث کے حق میں وصیت جائز ہے چنانچہ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ میں ہے کہ راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا: کیا وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: جائز ہے پھر آپ (ع) نے اس ایت کی تلاوت فرمائی،

( إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۲:۱۸۰

''بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے،،

اس مضمون کی روایت اور بھی ہیں(۲)

( iii ) اگر اس روایت کے خبر واحد ہونے سے چشم پوشی کی جائے اور اسے اہل بیت (ع) کی روایات سے معارض بھی نہ مانیں تب بھی اس روایت اورآیہ شریفہ کے مفاہیم میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی زیادہ سے زیادہ اس حدیث شریف سے آیہ کریمہ کے اطلاق کیلئے تقیید سمجھی جائے گی بایں معنی کہ والدین کیلئے اس وقت وصیت کی جائے جب کسی مانع کی وجہ سے وہ ارث کے مستحق نہ ہوں یا ان رشتہ داروں کیلئے وصیت کی جائے جنہیں ارث نہیں مل سکتا اور اگر حدیث اورآیہ کریمہ میں منافات فرض بھی کر لی جائے تب بھی یہ حدیث آیہ کریمہ کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی کیونکہ خبر واحد قرآن کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہے ، بنا برایں آیہ کریمہ محکم ہے منسوح نہیں۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۳۸

(۲) الوافی ، ج ۱۳ ، ص ۱۷

۳۷۸

اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''کتابۃ،، کا معنی کس چیز کا حتمی فیصلہ ہے چنانچہ آیت:

( كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ ) (۶:۱۲)

''اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے،،

میں ''کتب،، اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مولا کے حکم اور اس کے حتمی فیصلوں میں اس کا امتثال امر کیا جائے اگر یہ کہ اس کی طرف سے ترک کی اجازت ہو۔

بنا برایں آیہ کریمہ کی رو سے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا لازم و واجب ہے لیکن مسلمانوں کی سیرت جو قطعی طور پر ثابت ہے، اہل بیت اطہار (ع) سے منقول روایات اورہر دور میں فقہاء کے اجتماع سے ترک وصیت کی اجازت ثابت ہے بنا برایں اس اجازت کے ثابت ہونے کے بعد آیت سے وصیت کا مستحب ہونا ثابت ہو گا بلکہ وصیت کی تاکید ثابت ہو گی اورا س آیت میں ''کتب،، سے مراد وصیت کی تشریع ہو گی اور اس کا حتمی اور لازمی قرار دینا نہیں:

۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے) بہت سے گناہوں سے بچو،،

اس آیہ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیہ دوسری آیہ:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ) : ۱۸۷

''مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حالا کر دیا گیا،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ۔ اس کے نسخ ہونے کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر روزہ اسی کیفیت سے واجب تھا جس کیفیت سے گزشتہ اقوام پر واجب تھا گزشتہ اقوام پر واجب روزہ کے احکام میں سے ایک حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں رات کا کھانا کھانے سے قبل سو جائے تو پھر رات کو کسی بھی وقت بیدار ہو کر کچھ کھانا اس کیلئے جائز نہیں تھا

۳۷۹

اور اگر کوئی عصر کے بعد سو جائے تو اس کیلئے کھانا پینا اور ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا لیکن یہ آیہ جس میں مسلمانوں کے روزہ کو گزشتہ اقوام کے روزہ سے تشبیہ دی گئی ہے آیہ کریمہ:

( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ) : ۱۸۷

''اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی دھاری تمہیں صاف نظر آنے لگے،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت کو بھی ناسخ قراردیا جاتا ہے:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ) : ۱۸۷

''(مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا،،

علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ آیہ تحلیل( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) ناسخ ہے(۱) البتہ اس کی منسوخی کے بارے میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ منسوخ وہی آیت ہے جو ہمارے محل بحث ہے کیونکہ ان حضرات نے آیت( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔الخ سے یہی سمجھا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر واجب روزہ اور گزشتہ اقوام پر واجب روزہ یکساں تھے بعد میں وہ آیہ کریمہ اس آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو گئی چنانچہ ابوالعالیہ اور علماء کا یہی خیال ہے اور ابو جعفر نحاس نے سدی کی طرف بھی اس بات کو منسوخ کیا ہے(۲)

بعض کا خیال ہے کہ آیہ تحلیل کے ذریعے گزشتہ اقوام کے عمل اور ان کی روش کو نسخ کیا گیا ہے اور آیہ کریمہ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کو نسخ نہیں کیا گیا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پہلی آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

_________________

(۱) الناسخ و المنسوخ نحاس ، ص ۲۴

(۲) ایضاً ص ۲۱

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785