تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201021 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر نزول وحى ۳

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۵،۲۱; انسان كى نيتوں سے آگاہى ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كو دھمكى ۲۲

بيت المقدس : بيت المقدس كے قبلہ ہونے كا نسخ ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو بشارت ۶; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) كے رجحانات۱،۷; پيامبر اسلام(ص) كى رضايت كے عوامل ۶،۱۴; پيامبر اسلام (ص) كا دائرہ اختيارات ۱۱; نزول وحى كے وقت آنحضرت (ص) ۲; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۷،۸; پيامبر اسلام(ص) پر جبرائيلعليه‌السلام كا نزول ۴

روايت: ۲۴،۲۵

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كا علم ۱۶; علمائے اہل كتاب اور حق پر پردہ ڈالنا ۱۹

عيسائي: عيسائيوں كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۳; صدر اسلام كے عيسائي ۲۳

عيسائيت كے علماء : عيسائيت كے علماء كا علم ۱۷

قانون : قانون كے نسخ كا سرچشمہ ۱۰; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۰

قبلہ : احكام قبلہ ۱۳،۱۵،۲۴; اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۲۲; تبديلى قبلہ كى بشارت ۶; تبديلى قبلہ ۱۲; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۱۸; تورات ميں تبديلى قبلہ ۱۸; آسمانى كتابوں ميں تبديلى قبلہ ۱۸; قبلہ كى جہت ۵; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۱۶،۱۹،۲۰; علمائے اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۱۶،۱۹; عيسائي علماء اور قبلہ ۱۷; يہودى علماء اور قبلہ ۱۷; تبديلى قبلہ كے اسباب ۷; تبديلى قبلہ كا فلسفہ ۲۵; مسلمانوں كا قبلہ ۱۳ ، ۱۴; پيامبر اسلام (ص) اور تبديلى قبلہ ۱; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۲۰; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۹،۱۱; يہودى اور تبديلى قبلہ ۲۰

كعبہ: كعبہ كا قبلہ ہونا ۱۸

مسجد الحرام : مسجد الحرام كاقبلہ ہونا ۱۳،۱۵; مسجد الحرام كا قبلہ قرار پانا ۱۲،۱۴،۱۷

مقربين : ۸

ملائكہ : ملائكہ وحى كے ظہور كى جگہ ۴

۵۰۱

نماز : احكام نماز ۲۴; نماز ميں قبلہ ۲۴

وحى : وحى كے ظہور كى جگہ ۳; وحى اور آسمان ۳،۴

يہود : يہودى حق كو قبول نہ كرنے والے ۲۳; صدر اسلام كے يہودى ۲۳; يہودى اور قبلہ ۲۵

يہودى علماء : علمائے يہود كا علم ۱۷

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ( ۱۴۵ )

اگر آپ ان اہل كتابكے پاس تمام آيتيں بھى پيش كرديں كہ يہآپ كے قبلہ كو مان ليں تو ہرگز نہ مانيں گے اور آپ بھى ان كے قبلہ كو نہ مانيں گےاور يہ آپس مين بھى ايك دوسرے كے قبلہ كونہيں مانتے اور علم كے آجانے كے بعد اگرآپ ان كے خواہشات كا اتباع كرليں گے توآپ كا شمار ظالموں ميں ہوجائے گا (۱۴۵)

۱ _ اہل كتاب كى ذمہ دارى ہے مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر قبول كريں _ما تبعوا قبلتك

۲ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كو باوجود اس كے كہ انہيں مسلمانوں كے قبلہ ( مسجد الحرام ) كى حقانيت كا اطمينان ہے اس كو قبول نہيں كريں گے_ليعلمون انه الحق و لئن اتيت الذين ما تبعوا قبلتك

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ حق كے طور پر قبول كرنے كے لئے كوئي دليل اور معجزہ اہل كتاب پر اثر انداز نہيں ہوسكتا_

و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

''آية'' كا معنى علامت و نشانى ہے البتہ يہاں اس سے مقصود معجزہ اور برہان ہے _

۴ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) ضدى اور حق قبول نہ كرنے والے لوگ ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك '' لئن خدا كى قسم آپ اہل كتاب كو جو بھى

۵۰۲

معجزہ يا دليل پيش كريں تو وہ آپ كے قبلہ كى پيروى نہ كريں گے '' يہ جملہ اہل كتاب كى گہرى دشمنى ، ضد اور حق ناپذيرى كو بتاتاہے_

۵ _ يہود و نصارى اپنى ضد، دشمنى اور عناد كى وجہ سے كعبہ كو قبلہ كے طور پر ماننے كو تيار نہيں ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

۶ _ تبديلى قبلہ كے بعد اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) سے چاہا كہ اہل كتاب كے قبلہ كى طرف ہرگز رخ نہ كريں اور نہ ہى اس كو اپنا قبلہ قرار ديں _و ما انت بتابع قبلتهم '' و ما انت تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كروگے '' يہ جملہ خبريہ ہے ليكن مقصود اس سے انشاء ہے اور حكم ہے كہ تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كرو_

۷_ يہو دو نصارى ميں سے ہر ايك كا مخصوص قبلہ ہے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۸_ يہود و نصارى ميں سے كوئي بھى ايك دوسرے كے قبلہ كو قبول نہ كريں گے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۹_ يہو د و نصارى كى كوشش تھى كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو كعبہ سے منحرف كركے اپنے قبلہ كى طرف موڑيں _و ما انت بتابع قبلتهم و لئن اتبعت اهواء هم جملہ ''و لئن اتبعت انك لمن الظالمين'' ميں ''لئن''كى لام قسم، حرف تاكيد ''ان'' اور ''لمن'' ميں لام تاكيد كے ساتھ تاكيد اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب نے پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے قبلہ كى طرف ترغيب دلانے كى مسلسل كوشش كرتے ہوئے اسكى زمين فراہم كرلى تھى _ ما قبل جملوں كے قرائن كى روشنى ميں '' اہوائہم '' كے مصاديق ميں سے ايك اہل كتاب كے قبلہ كى پيروى ہے _

۱۰_ يہود و نصارى اس كوشش ميں تھے كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے دينى احكام و قوانين كى طرف ترغيب دلائيں _و لئن اتبعت اهواء هم

۱۱ _ يہو د و نصارى نے دين الہى كو اپنى نفسانى خواہشات پر مبنى آراء كے ساتھ گڈ مڈ كرديا تھا_و لئن اتبعت اهواء هم

'' اہواء ہم _( نفسانى خواہشات پر مبنى آراء ) سے مراد يہود و نصارى كا دين ہے كيونكہ ان كى پيامبر اسلا م(ص) اور اہل ايمان سے جنگ كى بنياد دينى عقائد و احكام تھے _ اہل كتاب كا دين الہى تھا ليكن آيہ مجيدہ ميں اسے نفسانى خواہشات سے تعبير كيا گيا ہے _ مذكورہ بالا مطلب اسى اعتبار سے ہے _

۱۲ _ نبى اكرم (ص) كے دين ( اسلام ) كى بنياد وحى اور حكم خداوندى تھا_من بعد ما جاء ك من العلم

'' علم '' سے مراد وہ احكام و فرامين ہيں جو اللہ

۵۰۳

تعالى كى طرف سے وحى كے ذريعے پيامبر اسلام (ص) پر نازل ہوئے _

۱۳ _ احكام و معارف كا انحصار وحى پر ہے اوريہ عالمانہ حقائق ہيں _من بعد ما جاء ك من العلم

''وحي'' كى جگہ ''علم'' كا لفظ لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ وحى پر منحصر فرامين عالمانہ ہيں _

۱۴ _ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى عالمانہ حكم ہے اسكى بنياد و حى اور فرمان الہى ہے _

وما انت بتابع قبلتهم ...من بعد ما جاء ك من العلم '' العلم'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے وحى اور تبديلى قبلہ پر مبنى فرمان الہى ہے _

۱۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ يہود و نصارى كى پيروى سے پرہيز كريں اور نفسانى خواہشات پر مبنى ان كى آراء كو ردّ كريں _و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۶ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام(ص) كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے يہود و نصارى كى اتباع كى تو ستمگروں ميں سے شمار ہوں گے _لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۷ _ قوانين ا لہى كے ہوتے ہوئے نفسانى خواہشات پر مبنى آراء و قوانين كى پيروى كرنا ظلم ہے _

لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جاء ك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۸ _ ايسے قوانين اور معارف قابل اتباع ہيں جو نفسانى خواہشات سے پاك ہوں اور ان كى بنياد علم پر ہو_

و لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۹_ اگر دين اسلام كے رہبروں نے ديگر اديان كے پيروكاروں كے ساتھ دينى معاملات ميں سازباز كى تو ستم گروں كے زمرے ميں ہوں گے_و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۲۰_ آگاہى كے باوجود گناہ كا ارتكاب ظلم ہے _و لئن اتبعتت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

اسلام: اسلام كاسرچشمہ ۱۲; اسلام كا وحى ہونا ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۶

اہل كتاب: اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۳; اہل كتاب كى حق ناپذيرى ۴;اہل كتاب كا قبلہ ۱; اہل كتاب كى ضد ۴; اہل كتاب كى ذمہ دارى ۱

۵۰۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) اور اہل كتاب كا قبلہ ۶; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۶،۱۵; پيامبر اسلام (ص) كو تنبيہ ۱۶

دين : عالمانہ دين ۱۳; دين ميں ساز باز ظلم ہے ۱۹; دين كى حقانيت كے معيارات ۱۸

دينى قائدين : دينى قائدين كى ساز باز۱۹

ظالمين : ۱۶،۱۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱۷،۲۰

علم : علم كے آثار۲۰

عيسائي: عيسائيوں كى پيروى كے آثار۱۶; عيسائيوں سے منہ پھيرنا ۱۵; عيسائيوں كى پيروى كرنا ۱۵; عيسائيوں كى تحريف كا عمل ۱۱; عيسائيوں كى كوشش ۹; عيسائيوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; عيسائيوں كى دشمنى ۵; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائيوں كى ضد ۴،۵;عيسائي اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; عيسائي اور يہوديوں كا قبلہ ۸; عيسائي اور مومنين ۱۰; عيسائي اور پيامبر اسلام (ص) ۹،۱۰; عيسائيوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵

عيسائيت: عيسائيت ميں تحريف ۱۱; عيسائيت كى پيروى ۱۰

قانون: غير دينى قوانين كى اتباع ۱۷; عالمانہ قوانين ۱۸; لازم الاتباع قوانين كے معيارات۱۸

قبلہ: تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كا عالمانہ ہونا ۱۴; تبديلى قبلہ كا سرچشمہ ۱۴; تبديلى قبلہ كا وحى ہونا ۱۴

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشين گوئي ۸

كعبہ : كعبہ كا قبلہ ہونا ۵

گناہ : آگاہانہ گناہ ۲۰; گناہ ظلم ہے ۲۰

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ ہونے كى حقانيت ۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱

نفس پرستى : نفس پرستى سے اجتناب ۱۸

وحي: وحى كى اہميت ۱۳، ۱۴

يہود : يہوديوں كى پيروى كے آ ثار ۱۶; يہوديوں سے

۵۰۵

منہ موڑنا ۱۵; يہوديوں كى پيروى ۱۵; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۱۱; يہوديوں كى كوشش ۹; يہوديوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; يہوديوں كى دشمنى ۵; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہوديوں كى ضد ۴،۵; يہوديوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵; يہود اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; يہود اور عيسائيوں كا قبلہ ۸; يہود اور مومنين۱۰; يہود اور پيامبراسلام (ص) ۹،۱۰

يہوديت: يہوديت ميں حق و باطل كا گڈ مڈ ہونا۱۱; يہوديت كى پيروى ۱۰

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ( ۱۴۶ )

جن لوگوں كو ہم نے كتاب دى ہے وہ رسول كوبھى اپنى اولادہى كى طرح پہنچانتے ہيں _بس ان كا ايك گروہ ہے جو حق كو ديدہ وراستہ چھپا رہا ہے (۱۴۶)

۱_ اہل كتاب كو پيامبر اسلام (ص) كى نبوت پر اس طرح اطمينان تھا جيسے انہيں اپنے بيٹوں كے فرزند ہونے كا اطمينان تھا_الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم ظاہر مطلب يہ ہے كہ ''يعرفونہ'' كى مفعولى ضمير پيامبر اسلام (ص) كى طرف لوٹتى ہے اگر چہ يہ احتمال بھى ہے كہ يہ ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو ليكن چونكہ '' مشبہ بہ '' بيٹے ہيں لہذا يہ احتمال درست معلوم نہيں ہوتا كيونكہ قبلہ كى شناخت كا بيٹوں كى شناخت سے كوئي تناسب و ربط نہيں بنتا_

۲_ تورات و انجيل ميں آنحضرت (ص) كى بعثت كى خوشخبرى اور آپ (ص) كى صفات بہت ہى واضح انداز ميں بيان تھيں _الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ بيان كرنے كے بعد كہ يہود و نصارى اہل كتاب ہيں اس حقيقت كو بيان كرنا كہ وہ لوگ آنحضرت (ص) كى حقانيت سے بخوبى آگاہ تھے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى اس شناخت كا سرچشمہ انكى آسمانى كتاب (تورات و انجيل ) تھي_

۳ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر تطبيق و مطابقت ميں اہل كتاب كو ہرگز شك و ترديد نہ تھا_

الذين آتناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۴ _ بعض اہل كتاب حقيقت ( آنحضرت (ص) كى نبوت) كى شناخت كے باوجود اس كو چھپاتے تھے_و ان فريقامنهم ليكتمون الحق و هم يعلمون

۵ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر مطابقت كا بعض اہل كتاب اعتراف كرتے اور اس كو چھپاتے نہ تھے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ مطلب اس جملہ ''ان فريقا ...'' كے مفہوم سے ماخوذ ہے_

۵۰۶

۶_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى اور اسكى حقانيت كا بيان تورات و انجيل ميں تھا_*

الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يعرفونہ'' كى ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو_

۷_ تبديلى قبلہ كى حقانيت ميں اہل كتاب كو كوئي شك و ترديد نہ تھا*الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۸_ بعض علمائے اہل كتاب كو باوجود اس كے كہ مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت كا اطمينان تھا پھر بھى اسكو چھپاتے تھے _و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ جملہ ''و ہم يعلمون'' اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ پردہ ڈالنے والے اہل كتاب كے علمائے دين تھے_

۹_ دينى مسائل پر پردہ ڈالنے والے اگر خصوصاً علماء ہوں تو سرزنش و ملامت كے سزاوار ہيں _و ان فريقاً منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون اس جملہ '' و ان فريقا ...'' كے لب و لہجہ ميں ان لوگوں كے لئے سرزنش و ملامت ہے جو حقيقت كو درك كرنے كے باوجود اسكا انكار كرتے ہيں _

۱۰_ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ضرورى ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۱۱ _ اديان كے علماء كے ليئے حقائق پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۲ ۱_ امام صادق سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا:هذه الآية نزلت فى اليهود و النصارى يقول الله تبارك و تعالى ''الذين آتيناهم الكتاب'' يعنى التوراة والانجيل (يعرفونه) يعنى رسول الله كما يعرفون ابناء هم لان الله عزوجل قد انزل عليهم فى التوراة والزبور والانجيل صفة محمد(ص) و صفتة اصحابه و مبعثه و هجرته ...; (۱)

'' يہ آيت يہود و نصارى كے بارے ميں نازل ہوئي يہ وہى لوگ تھے جن كو تورات و انجيل عطا كى گئي اور و ہ رسو ل اللہ كى بھى اپنے فرزندوں كي

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ص ۳۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۲_

۵۰۷

طرح شناخت ركھتے تھے كيونكہ اللہ تعالى نے تورات اور زبور ميں آنحضرت (ص) كى صفات، آپ (ص) كے اصحاب كى صفات ، آپ (ص) كى بعثت ، آپ (ص) كى ہجرت كا (ذكر) نازل فرمايا تھا ...''

انجيل : انجيل كى بشارتيں ۲; انجيل كى تعليمات۲

اہل كتاب: اہل كتاب اور پيامبر موعود ۳،۵; اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۸; اہل كتاب او ر حق كا چھپانا ۴،۸; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) ۳،۴،۵; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۵; پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) آسمانى كتابوں ميں ۳

تورات: تورات كى بشارتيں ۲; تورات كى تعليمات ۲

حق : حق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۱۰; حق چھپانے كا گناہ ۱۱

دين: دين چھپانے سے اجتناب ۱۰; دين پر پردہ ڈالنے كى سرزنش ۹

روايت: ۱۲

سرزنش: سرزنش كے عوامل ۹

علماء : علمائے دين اور حق كا چھپانا ۹،۱۱; علمائے دين كو تنبيہ ۱۱

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور حق كا چھپانا ۸

عيسائي : عيسائيوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

قبلہ : اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۷; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۶; تورات ميں تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۶،۷; مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت ۸

قرآن كريم : قرآنى تشبيہات۱

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۶

يہودي: يہوديوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

۵۰۸

اَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ( ۱۴۷ )

اے رسول يہ حقآپ كے پروردگار كى طرف سے ہے لہذا آپ انشك و شبہ كرنے والوں ميں نہ ہوجائيں (۱۴۷)

۱ _ احكام اور معارف حق ہيں جو من جانب اللہ ہيں _الحق من ربك '' الحق'' ميں '' ال '' جنسيہ ہے جو استغراق كا مفہوم دے رہاہے يعنى جو كچھ حق ہے وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ البتہ مورد كى مناسبت كے اعتبار سے اصل مقصود احكام و معارف ہيں _

۲ _ بشرى قوانين كبھى بھى خالص '' حق'' نہيں رہے بلكہ ان ميں باطل امور كى آميزش رہى ہے _الحق من ربك

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' الحق'' ميں '' ال'' زيد الرجل كى طرح افراد كى خصوصيات كے استغراق كے لئے ہے_ يعنى جس چيز كى بھى تمام تر خصوصيات حق ہوں اور كسى بھى باطل شے سے نہيں مل سكتى اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

۳_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى حق ہے اور ہر طرح كے باطل و ناروا امر سے پاك ہے_الحق من ربك ماقبل آيات كى روشنى ميں '' الحق'' كا مورد نظر مصداق قبلہ كى تبديلى ہے _

۴ _ اسلام كے احكام و معارف اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہيں _الحق من ربك

۵ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام و معارف كو قبول كرنا ضرورى ہے اور ان ميں شك و ترديد كرنے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين ''ممترين'' كا مصدر '' امترائ'' ہے جسكا معنى ہے شك و ترديد كرنا _

۶ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كى احكام اسلام كے خلاف تبليغى كوششيں (پراپيگنڈہ) صدر اسلام كے مسلمانوں كے اذہان ميں شك و ترديد پيدا كرنے كا باعث بنيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

فعل ''فلا تكوننَّ'' جس ميں نون تاكيد پائي جاتى ہے كے ذريعے مسلمانوں كو شك وترديد سے اجتناب كا حكم دينا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمانوں ميں شك و ترديد كى زمين فراہم ہوچكى تھي_ ما قبل آيات سے سمجھا جاسكتاہے كہ اس شك و ترديد كا سرچشمہ اہل كتاب كى

۵۰۹

مخالفتيں تھيں _

۷_ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى نے اپنے قبلہ كو حق ثابت كرنے اور كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى كونا حق ثابت كرنے كى مسلسل كوششيں كيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۸_ اللہ تعالى اور اسكے افعال و صفات كى معرفت اسكى طرف سے نازل ہونے والے احكام و معارف سے شك و ترديد كے خاتمے كا باعث ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۹_ اصبغ بن نباتہ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے اس آيہ مجيدہ '' الحق من ربك ...'' كے بارے ميں فرمايا ''الحق من ربك (انك الرسول اليهم) فلا تكونن من الممترين (۱)

آپ(ص) يقيناً ان كى طرف رسول( الله كے بھيجے ہوئے ) ہيں پس اس امر ميں كسى طرح كا شك و ترديد نہ كرو _

احكام: احكام كى حقانيت كے معيارات۱

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۶،۷; اسلام كے خلاف تبليغات ۶; اسلام كا منبع ۴

اللہ تعالى : خداشناسى كے نتائج ۸; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۴

بيت المقدس: بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) كا ايمان ۹; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۹

دين : دين ميں شك كرنے سے اجتناب ۵; دين قبول كرنے كى اہميت ۵; دين كى حقانيت كے معيارات ۱; دين كا سرچشمہ ۱; دين ميں شك و ترديد كے موانع ۸

روايت:۹

شبہات: شبہات كے اسباب ۶

عيسائي: عيسائيوں كى اسلام كے خلاف تبليغات۶; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائي اور صدر اسلام كے مسلمان۶

قانون: قوانين بشرى كى خصوصيات۲

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۸۳ ح ۱۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۱_

۵۱۰

قبلہ : تبديلى قبلہ كى حقانيت ۳; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۷; يہودى اور تبديلى قبلہ ۷

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۳

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸

يہود : يہوديوں كى اسلام كے خلاف تبليغات ۶; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہود اور صدر اسلام كے مسلمان ۶

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۴۸ )

ہر ايك كے لئے ايك رخ معيں ہے اوروہ اسى كى طرف منہ كرتا ہے _ اب تمنيكيوں كى طرف سبقت كرو اور تم سب جہاں بھى رہوگے خدا ايك دن سب كو جمع كردے گاكہ وہ ہرشے پرقادر ہے (۱۴۸)

۱_ دينى امتوں ميں سے ہر ايك كے لئے ايك خاص قبلہ ہے_ ''وجھة'' اس چيز كو كہتے ہيں جس كى طرف انسان رخ كرے_ ماقبل اور مابعد كى آيات كے قرينہ كى روشنى ميں اس سے مراد قبلہ ہے_ لفظ ''كل'' كا مضاف اليہ ''امة'' جيسا كوئي لفظ ہے_ البتہ ''ہو موليہا'' كے قرينہ سے اس سے مراد دينى امتيں ہيں _

۲ _ امتوں كے لئے قبلہ كا تعين كرنے والا اللہ تعالى ہے_و لكل وجهة هو موليها ''ہو'' كى ضمير ماقبل آيت ميں ''ربك'' كى طرف لوٹتى ہے _ ''مولّي'' كا معنى پلٹانے يا لوٹانے والا ہے اسكا پہلا مفعول ''كل امة'' ہے جو بہت واضح ہونے

كى بناپر كلام ميں نہيں آيا _ بنابريں ''ہوموليّھا'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى ہے جو امتوں كو ايك خاص قبلہ كى طرف پلٹاتاہے ( يعنى حكم ديتاہے كہ كس سمت كو اپنا قبلہ قرار دو ) _

۳ _ تبديلى قبلہ اور اسكے تعين كے بارے ميں بحث كرنا بے جا امر ہے _و لكل وجهة هو موليها اہل كتاب كى مخالفت اور تبديلى قبلہ كے خلاف تبليغات نے مسلمانوں كے درميان اختلافات كو جنم ديا_ اس چيز كے بيان كے بعد اس حقيقت كى ياد دہانى كرانا كہ قبلہ كا متعين كرنے والا اللہ تعالى ہى ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ توحيد پرستوں كوزيب نہيں ديتا كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں بحث يا اختلاف كريں كيونكہ خداوند متعال ہے جو قبلہ كو متعين كرنے والا ہے _

۵۱۱

۴ _ اس امر كى طرف توجہ كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين الہى افعال ميں سے ہے اسكے بارے ميں اختلاف كو ختم كرنے كا موجب ہے _و لكل وجهة هو موليها

۵ _ نيكى كے كاموں كو انجام دينا اور ان ميں سبقت كرنا ضرورى ہے _فاستبقوا الخيرات

۶ _ امتوں كى فضيلت و برترى كا معيار نيك كاموں ميں سبقت كرناہے نہ خاص قبلہ ركھنا _و لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات '' ہو موليہا'' كے بعد اس جملہ '' فاستبقوا الخيرات'' كو لانا قبلہ كى تبديلى كے بارے ميں بحث و تمحيص اور اختلاف كے بے جا ہونے كے بارے ميں ايك اور حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فقط قبلہ رخ ہونا ہى كافى نہيں ہے بلكہ نيك كاموں كى انجام دہى اہم ہے پس ان ميں سبقت كرو_

۷_ دين كے فروعى احكام كے بارے ميں دوسرے اديان كے پيروكاروں سے بحث،جدل اور اختلاف كرنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ *لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۸_ قبلہ اور فرعى احكام كے بارے ميں اختلاف اور جدل سے كام لينا نيكى كے مصاديق ميں سے نہيں ہے _لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۹_ اللہ تعالى تمام انسانوں كو جہاں كہيں بھى ہوں گے ميدان محشر ميں حاضر كرے گا _اين ما تكونوا يا ت بكم الله جميعا

۱۰_ قيامت ميں تمام انسانوں كا يكبارگى اور اجتماعى طور پر حاضر ہونا _اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

۱۱ _ قيامت نيك اعمال كى جزا كا وقت ہے _فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

جملہ'' اين ما تكونوا ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے يعنى چونكہ تم سب كے لئے قيامت كا وقت ہے پس دنيا ميں نيك اعمال بجا لاؤ يہ علت اس

۵۱۲

مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ آخرت ميں انسان كى سعادت دنيا ميں نيك اعمال سے وابستہ ہے_

۱۲ _ اللہ تعالى مطلق ( لامحدود) قدرت و قوت كا مالك ہے _ان الله على كل شى قدير

۱۳ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو جمع كرنا اللہ تعالى كى لا محدود قدرت كا مظہر ہے _يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۴ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو حاضر كرنا صرف ايسى ہستى كے لئے ممكن ہے جو قادر مطلق ہو _

يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۵ _ قيامت اور وہاں انسانوں كے حاضر ہونے پر يقين انسان كو نيك كاموں كى انجام دہى كى ترغيب دلاتاہے_

فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

نيك كاموں كا حكم دينے كے بعد قيامت كى ياد آورى اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان قيامت پر يقين اور توجہ كى وجہ سے نيك كام انجام دينے ميں سستى نہ كرے گا _

اسماء اور صفات: قدير ۱۲

اقدار: قدروں كا معيار ۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۶; قدرت الہى ۱۲; قدرت الہى كے مظاہر۱۳،۱۴

امتيں : امتوں كى فضيلت و برترى كے معيارات ۶

انسان: انسان قيامت ميں ۹،۱۰; انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا۹،۱۰،۱۳،۱۴

ايمان : حشر پہ ايمان كے نتائج ۱۵;قيامت پر ايمان كے نتائج ۱۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۵

دين : فروع دين ميں مجادلہ ۷،۸

عمل : پسنديدہ عمل كى اہميت ۵،۶; اخروى عمل كى پاداش ۱۱; پسنديدہ عمل كا اجر ۱۱; پسنديدہ عمل كى زمين فراہم ہونا ۱۵; ناپسنديدہ عمل ۸; عمل كے نتيجے كا وقت ۱۱

۵۱۳

قبلہ : قبلہ كے بارے ميں بحث و گفتگو ۳; امتوں كا قبلہ ۱،۲; قبلہ كے بارے ميں جدل ۸; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۲،۴; قبلہ كى تبديلى كا سرچشمہ ۴

قيامت : قيامت كا برپاہونا ۱۳، ۱۴; قيامت كى خصوصيات ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۱۵

گفتگو: بے جا گفتگو ۳

مجادلہ : ناپسنديدہ مجادلہ ۴،۷

نظريہ كائنات ( جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۱۵

نيكى : يكى ميں سبقت ۵،۶

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۱۴۹ )

پيغمبر آپجہاں سے باہر نكليں اپنا رخ مسجدالحرام كيسمت ہى ركھيں كہ يہى پروردگار كى طرف سےحق ہے اور الله تم لوگوں كے اعمال سے غافلنہيں ہے (۱۴۹)

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كے ليئے مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ ومن حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و انه للحق من ربك

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى قرار دى گئي كہ وہ اعمال جو قبلہ رخ انجام دينے ضرورى ہيں ان كو مسجد الحرام كے رخ ادا كريں _و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا حق ( با حكمت او ر بجا حكم ) ہے جو اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

و انه للحق من ربك

۴ _ وہ اعمال جن ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ان ميں مسجد

۵۱۴

الحرام كى جہت اور سمت كى طرف رخ كرنا كافى ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام

يہ واضح ہے كہ مسجد الحرام يا كعبہ ہى قبلہ ہے پس ''شطر'' كا لفظ لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ضرورى نہيں ايك براہ راست، مستقيم يا سيدھا خط كھينچا جائے جو كعبہ كے بالكل روبرو ہو بلكہ اس سمت اور جہت كى طرف رخ كرناكافى ہے جس ميں كعبہ يا مسجد الحرام ہے _

۵ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا پيامبر اسلام (ص) پر اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے اور يہ عمل آنحضرت (ص) كے اہداف كى تكميل كے لئے تھا_و انه للحق من ربك لفظ '' رب _ (تربيت كرنے والا' مدبر) كى ضمير ''ك'' كى طرف اضافت جو آنحضرت (ص) كو خطاب ہے ممكن ہے اس معنى كى طرف اشارہ ہو كہ تبديلى قبلہ آنحضرت (ص) كے امور ( رسالت كے اہداف) كى تدبير كے لئے ہے_

۶ _ اللہ تعالى ہرگز انسانوں كے اعمال سے غافل نہيں ہے_و ما الله بغافل عما تعملون

۷_ اللہ تعالى كى سزا ان لوگوں كے انتظار ميں جو احكام الہى (مثلاً مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا ) كى مخالفت كرتے ہيں _

و ما الله بغافل عما تعملون بندوں كے اعمال پر اللہ تعالى كى نظارت كے ذكر كرنے كا ہدف ان لوگوں كو دھمكى دينا ہے جو احكام الہى كى مخالفت كرتے ہيں _

۸_ مسلمانوں كے مابين فرمان خدا ( تبديلى و تعيين قبلہ) كى نافرمانى كى آمادگى پائي جاتى ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

ظاہراً '' تعملون'' كا مورد خطاب مسلمان ہيں _ پس يہ جو مسلمانوں كو دھمكى دى گئي ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں كے درميان ايسے افراد تھے جو نئے قبلہ ميں شك و ترديد سے دوچار تھے يا پھر مخالفت كے در پے تھے_

احكام : ۲،۴

اسماء اور صفات: جلالى صفات۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۱; حكمت الہى ۳; اللہ تعالى اور غفلت ۶; الہى سزائيں ۷; ربوبيت خدا كے مظاہر ۵

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۶

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كے اہداف ۵; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارياں ۲

دين : دين كى مخالفت كى سزا ۷

۵۱۵

سزا : سزا كے موجبات ۷

قبلہ : قبلہ كے احكام ۲،۴; قبلہ كى جہت ۴; قبلہ كے تعين كا منبع ۱،۳، ۸

مسجد الحرام : كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۲،۴; مسجد الحرام كا قبلہ بننا ۱،۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى مخالفت ۷

مسلمان : مسلمانوں كى نافرمانى كى زمين فراہم ہونا ۸

نافرمانى : اللہ تعالى كى نافرمانى ۸

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۱۵۰ )

اور آپ جہاں سے بھى نكليں اپنا رخ خانہ كعبہ كى طرف ركھيں اور پھرتم سب جہاں رہو تم سب بھى اپنا رخ ادھرہيركھو تا كہ لوگوں كے لئے تمھارے اوپركوئي حجت نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں كےكہ جو ظالم ہيں تو ان كا خوف نہ كرو بلكہالله سے ڈرو كہ ہم تم پر اپنى نعمت تمامكردينا چاہتے ہيں كہ شايد تم ہدايت يافتہہوجاؤ(۱۵۰)

۱ _ مسجد الحرام آنحضرت (ص) اور تمام مسلمانان عالم كا قبلہ ہے _و من حيث و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى حقانيت ۳; مسجد الحرام

۲ _ مسجد الحرام كسى خاص علاقے يا كسى خاص گروہ كا قبلہ نہيں ہے _و حيث ما كنتم فولوا و جوهكم شطره

۵۱۶

۳ _ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے كافى ہے كہ مسجد الحرام كى جہت و سمت كى طرف منہ كيا جائے_

فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره يہ مطلب كلمہ '' شطر'' كہ جو سمت اور جہت كے معنى ميں ہے ، سے مستفاد ہے _

۴ _ بيت المقدس كے مسلسل قبلہ كے طور پر رہنے سے مخالفين اسلام كو آنحضرت (ص) اور مسلمانوں كے خلاف دليل و حجت مل جاتى _فول وجهك فولوا وجوهكم شطره لئلا يكون للناس عليكم حجة

۵ _ قبلہ كى بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى سے مخالفين اسلام و مسلمين كا پراپيگنڈہ نقش بر آب ہوگيا _

فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة

۶ _ دشمنان اسلام كے تبليغاتى نقشوں كو ختم كرنا مسلمانوں كے ضرورى فرائض ميں سے ہے _لئلا يكون للناس عليكم حجة

۷_ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى سابقہ اديان ميں مذكور پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل ميں سے ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة '' لئلا يكون'' كى تعليل بيان كررہى ہے كہ مسلمانوں كا سابق قبلہ (بيت المقدس) پر باقى رہنا باعث بنتا كہ مخالفين اسلام پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت اور مسلمانوں كے خلاف دليل قائم كريں _ بنابرايں تبديلى قبلہ كو گذشتہ آسمانى كتابوں ميں پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل يا نشانيوں ميں سے ہونا چاہيئے_

۸ _ كعبہ كے مسلمانوں كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے سے بعض مخالفين پر پيامبر اسلام(ص) كى حقانيت واضح ہوگئي_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم ظالمين كے لئے حجت اور دليل كا وجود _ جو جملہ استثنائيہ كا مفاد ہے _اس اعتبار سے نہيں ہے كہ ظالموں كے پاس مسلمانوں كے خلاف كوئي دليل ہے بلكہ اس سے مراد مخالفين كى دو گروہوں ميں تقسيم ہے _ ايك وہ گروہ جو ظلم و ستم كے بناپر پيامبر اسلام (ص) كى مخالفت كرتاہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو شبہ كى بناپر مخالفت كرتاہے پہلا گروہ قبلہ تبديل ہوتا يا نہ ہوتا اپنى مخالفت اور دشمنى كو ہر صورت جارى ركھتا _ دوسرا گروہ پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كو درك كركے پراپيگنڈا يا تبليغات سوء كو چھوڑ ديتا_

۹_ مسجد الحرام كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے بعد فقط ظالمين تھے جو ٹسووں ، بہانوں سے دستبردار نہ ہوئے اور مسلمانوں كے خلاف اپنى دشمنى كو جارى ركھا_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم

۵۱۷

۱۰_ اہل ايمان كو دشمنان دين سے ہرگز نہيں ڈرنا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۱_ مسلمانوں كو دشمنان دين كے خوف اور ان سے احساس خطر كے بہانے احكام الہى كے اجرا كرنے ميں كوتاہى نہيں كرنى چاہيئے_فولوا وجوهكم شطره الا الذين ظلموا منهم فلا تخشوهم

۱۲ _ مسلمانوں كو احكام الہى پر عمل كرنے اور اپنے برحق موقف كے حوالے سے دشمنوں كے پراپيگنڈے، جنجال اور تبليغات سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۳ _ صر ف اللہ تعالى سے ڈرنے كى ضرورت ہے اور اسكے احكام كى مخالفت سے اجتناب كرنا چاہيئے_واخشوني

۱۴ _ اللہ تعالى سے ڈر اور خوف ہے جو اسكے احكام پر عمل كرنے كے لئے راہ ہموار كرتاہے_فولوا وجوهكم شطره فلا تخشوهم واخشوني

۱۵ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ نے مسلمانوں پر اللہ كى نعمت كے تمام ہونے كى راہ ہموار كى _

فولوا وجوهكم شطره لاتم نعمتى عليكم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لاتم نعمتي ...'' ، '' لئلا يكون ...'' پر عطف ہو نتيجتاً '' لاتم ...'' جملہ '' فولوا وجوہكم شطرہ'' كے لئے ہدف اورغايت كا بيان ہوگا_

۱۶_ مسلمانوں كے لئے خصوصى ہدايت كى فراہمى كى زمين كا ہموار ہونا مسجد الحرام كے انكے لئے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے اہداف ميں سے ہے _فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون

آيہ مجيدہ كے مخاطبين مسلمان ہيں اور وہ اپنے اسلام پر ايمان كى وجہ سے ہدايت يافتہ ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' ميں بيان شدہ ہدايت سے مراد پہلى ہدايت كى نسبت ايك كاملتر اور مخصوص ہدايت ہے _

۱۷ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ كا واقعہ تاريخ اسلام ميں بہت ہى اہم اور تاريخ ساز ہے _

و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و لعلكم تهتدون قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں متعدد آيات كا نزول ، ''فول ...'' كے فرمان كا تكرار (آيات ۱۴۴ ، ۱۴۹ ، ۱۵۰) اور اس سے پيامبر اسلام (ص) كو مخاطب قرار دينا نيز ''قولوا وجوہكم شطرہ'' كے ذريعے مسلمانوں كو بار بار مخاطب قرار دينا (آيات ۱۴۴ ، ۱۵۰) خاص اہميت كا حامل ہے اوراس سے قبلہ كے تعين و تبديلى كى اہميت واضح ہوتى ہے _ اسى طرح قبلہ كے لئے جو بنيادى احكام بيان كئے گئے ہيں وہ اس كے تاريخ ساز ہونے پر دلالت كرتے ہيں _

۵۱۸

۱۸ _ ہدايت كے مختلف مراحل اور درجات ہيں _و لعلكم تهتدون

'' لعلكم ...'' كا خطاب چونكہ مسلمانوں كے لئے ہے جبكہ وہ ہدايت كا ايك مرحلہ طے كرچكے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' كى ہدايت سے مراد اسكا ايك بالاتر مرحلہ ہے اس سے روشن ہوتاہے كہ ہدايت كے مختلف مراحل ہيں _

۱۹_ جناب ابن عباس سے روايت كہ آنحضرت (ص) نے فرمايا:'البيت قبلة لاهل المسجد و المسجد قبلة لاهل الحرم و الحرم قبلة لاهل الأرض فى مشارقها و مغاربها من امتى ''(۱) كعبہ مسجد الحرام والوں كے لئے قبلہ ہے ، مسجد الحرام اہل حرم (مكہ اور اسكے اطراف كے مقامات ميں رہنے والوں ) كے لئے قبلہ ہے اور حرم اہل زمين كے مشرق و مغرب ميں رہنے والے ميرى امت كے تمام افراد كے لئے قبلہ ہے_

احكام : ۱،۳،۱۹

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱۷ دشمنان اسلام كا پراپيگنڈا۵; دشمنان اسلام كے دلائل ۴

اللہ تعالى : اوامر الہى كى مخالفت سے اجتناب ۱۳; نعمات الہى ۱۵

انبياءعليه‌السلام : اديان ميں پيامبر موعود ۷

بيت المقدس: بيت ا لمقدس كے مسلسل قبلہ رہنے كے آثار۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كى حقانيت كے دلائل ۷،۸;اديان ميں پيامبر اسلام (ص) ۷

ترغيب: ترغيب كے عوامل ۱۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر آمادگى ۱۴; تكليف شرعى پر عمل ميں قاطعيت ۱۱،۱۲; تكليف شرعى پر عمل ميں كوتاہى كرنا ۱۱

خوف : خوف خدا كے نتائج ۱۴; خوف خدا كى اہميت ۱۳ ; دشمنوں سے خوف ۱۰،۱۱،۱۲; پسنديدہ خوف ۱۴; ناپسنديدہ خوف ۱۰،۱۲

دشمن: دشمنوں كا پراپيگنڈا ۱۲; دشمنوں كو پراپيگنڈے سے روكنا ۶

روايت:۱۹

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۵۵_

۵۱۹

ظالمين : ظالموں كى بہانہ تراشياں ۹; ظالموں كى دشمنى ۹

قبلہ : تبديلى قبلہ كے نتائج ۵،۸،۱۵; قبلہ كے احكام ۱،۳،۱۹; تبديلى قبلہ كى اہميت ۱۷; اديان ميں تبديلى قبلہ ۷; قبلہ كى جہت ۳; اہل حرم كا قبلہ ۱۹; اہل مكہ كا قبلہ ۱۹; پيامبر اسلام كا قبلہ ۱; مكہ سے دور رہنے والوں كا قبلہ ۱۹; مسلمانوں كا قبلہ ۱

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ بننے كے نتائج ۸،۹،۱۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۱۶; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱،۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ بننا۱۷

مسلمان: مسلمانوں كے دشمن ۹; مسلمانوں كى ذمہ دارى ۶،۱۲; مسلمانوں كى نعمتيں ۱۵;مسلمانوں كى ہدايت ۱۶

مؤمنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۰،۱۱

نعمت: نعمت كى تكميل كا پيش خيمہ ۱۵

ہدايت:

ہدايت كى راہ ہموار ہونا ۱۶; ہدايت كے مراتب ۱۸; وہ لوگ جن كو خصوصى ہدايت ميسر آتى ہے ۱۶; خصوصى ہدايت ۱۴

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ( ۱۵۱ )

جس طرح ہم نے تمھارے در ميانتمھيں ميں سے ايك رسول بھيجا ہے جو تم پرہمارى آيات كى تلاوت كرتا ہے تمھيں پاك وپاكيزہ بناتا ہے اور تمھيں كتاب و حكمتكى تعليم ديتا ہے اور وہ سب كچھ بتاتا ہےجو تم نہيں جانتے تھے (۱۵۱)

۱_ حضرت محمد (ص) ، اللہ تعالى كى جانب سے مبعوث ہوئے_كما ارسلنا فيكم رسولا

۲ _ آنحضرت (ص) ، لوگوں ميں رسول مبعوث ہوئے اور انہى ميں سے تھے_كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۳ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ رسالت كى نعمت كے ہمراہ ايك بڑى نعمت ہے _

فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون، كما ارسلنا فيكم رسولا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''كما'' ميں ''كاف'' تشبيہ كے لئے ہو پس تبديلى قبلہ جو ماقبل آيت ميں مذكور ہے ''مشبہہ'' ہے اور پيامبر كى بعثت ''مشبہہ بہ '' ہے قبلہ كو رسالت كى نعمت سے تشبيہ دينا اس مسئلے كى عظمت اور اس نعمت كى بزرگى كى دليل ہے _

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785