تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200933 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

۴ _ انسانوں كى ہدايت تك دستيابى اور ان پر نعمت الہى كى تكميل آنحضرت (ص) كى بعثت كے اہداف سے ہے_

فولوا وجوهكم شطره و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً اگر ''كما ارسلنا'' تبديلى قبلہ كى پيامبر اسلام (ص) كى رسالت سے تشبيہ كو بيان كررہاہو تو ''لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تہتدون'' وجہ شبہ كا بيان ہے يعنى يہ كہ جس طرح آنحضرت (ص) ، كى بعثت بندوں پر اتمام نعمت اور انكى ہدايت كے حصول كے لئے ہے اسى طرح تبديلى قبلہ كے بھى ايسے ہى اہداف و نتائج ہيں _

۵ _ اللہ تعالى كى طرف سے انسانوں كو دى گئي نعمتيں آنحضرت (ص) كى بعثت كے بغير نامكمل تھيں _

و لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً يہ مطلب ماقبل مطلب كے ارتباط سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كا انتخاب خود عوام ميں سے ہونا اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۷_ انسانوں كے لئے آيات الہى كى تلاوت اور ان كو آلودگيوں (شرك اور ...) سے پاك كرنا پيامبر اسلام (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم

۸_ لوگوں كو قرآنى حقائق و معارف اور حكمت كى تعليم دينا آنحضرت (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _و يعلمكم الكتاب و الحكمه

۹_ بشريت كو ايسے علوم و حقائق كى تعليم دينا جن تك ان كى رسائي ممكن نہيں ہے آنحضرت (ص) كے اہداف اور پروگراموں ميں سے ہے _و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون

۱۰_ خود كو آلودگيوں ، ناپاكيوں سے پاك كرنا، قرآن كريم كو سيكھنا ، حكمت كى تعليم حاصل كرنا اور دينى احكام و معارف كو سيكھنا نہايت ہى بلند و برتر اور قابل قدر امر ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۱_ دين كے مبلغين كے بنيادى ترين فرائض اور سرفہرست امور انسانوں كو آلودگيوں سے پاك كرنا

۵۲۱

اور دينى احكام و معارف اور قرآن حكيم كى تعليم دينا ہے_يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۲ _ پيامبر اسلام (ص) نے انسانوں كو دينى راہوں اور الہى معارف كى تعليم دينے كے علاوہ ديگر علوم كى بھى تعليم دي_*و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون ''يعلمكم'' كا تكرار اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ پيامبر اسلام(ص) نے انسانوں كو دو طرح كے علوم كى تعليم دي_

الف) دينى علوم اور يہ جملہ''يعلمكم الكتاب والحكمة'' اس امر كى طرف اشارہ ہے _

ب) ديگر علوم اور يہ جملہ''يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون'' اس امر كى طرف اشارہ ہے_

آيات الہى : آيات الہى كى تلاوت ۷

اقدار: قدروں كا معيار ۱۰

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۴،۶

اللہ تعالى كے انبياءعليه‌السلام : ۱

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى موقعيت ۶; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

انسان: انسانوں كو تعليم دينے كى اہميت ۷،۸; انسانوں كا تزكيہ ۷،۱۱; انسانوں كى تعليم ۹،۱۲; انسانوں كى ہدايت۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے اہداف ۷،۸،۹; آنحضرت (ص) كى بعثت كى اہميت ۵; آنحضرت (ص) كا بشر ہونا۲; آنحضرت (ص) كى تاريخ ۱; آنحضرت (ص) كى تعليمات ۹; آنحضرت (ص) كا مقام و موقعيت ۲; آنحضرت (ص) كى رسالت ۱; آنحضرت (ص) كى بعثت كا فلسفہ ۴; آنحضرت (ص) كى تعليمات كا دائرہ ۱۲; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۷،۸; آنحضرت (ص) كى رسالت كى نعمت ۳

تزكيہ : تزكيہ كى قدر و منزلت ۱۰

حكمت : حكمت كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰; حكمت كى تعليم ۸

دين: دين سيكھنے كى قدر و منزلت ۱۰; دين كى تعليم ۱۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى نعمت ۳

۵۲۲

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰ قرآن حكيم كى تعليم ۸،۱۱

مبلغين : مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱;فعل '' اذكر'' امر كا جواب ہے لہذا ايك مقدر حرف شرط كے ساتھ مجزوم ہے _ پس يہ جملہ در حقيقت يوں بنتا ہے '' فاذكرونى ان

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا قبلہ بننا۳

نعمت : نعمت كى تكميل ۴; تكميل نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے درجات ۴

ہدايت: ہدايت كى اہميت ۴

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ ( ۱۵۲ )

اب تم ياد كروتا كہ ہم تمھيں ياد ركھيں اور ہماراشكريہ ادا كرو اور كفران نعمت نہ كرو(۱۵۲)

۱_ اللہ تعالى كا ذكر كرنا اور اس سے غفلت نہ كرنا ضرورى ہے_فاذكروني

۲_ اللہ تعالى كى ياد ميں رہنا اسكى عنايات اور خصوصى توجہ كو جذب كرنے كا باعث ہے_فاذكرونى اذكركم

تذكرونى اذكركم_ ميرى ياد ميں رہو اور ميرى ياد ميں رہوگے تو ميں تمہارى ياد ميں ر ہوں گا'' اللہ تعالى كا بندوں كو ياد كرنا ان پر عنايت و توجہ كے معنى ميں ہے _

۳ _ بارگاہ پروردگار ميں شكرگزارى ضرورى ہے _واشكروالي

۴ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى اللہ تعالى كى مسلمانوں پر ايسى نعمتيں ہين جن كے احترام ميں مسلمانوں كو كيلئے ضرورى ہے كہ ہميشہ اللہ تعالى كى ياد ميں رہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكروني يہ مطلب حرف ''فا''سے متضاد ہے

۵۲۳

'اذكروني'' كو مذكورہ نعمتوں (قبلہ كى تبديلى اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت )پر تفريع كررہا ہے_

۵ _ آنحضرت (ص) كى بعثت اور تبديلى قبلہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں سے ياد اور توجہ كا ايك نمونہ ہے *

و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكرونى اذكركم مذكورہ مطلب جملہ'' فاذكروني ...'' كى بعثت پيامبر(ص) اور تبديلى قبلہ پر تفريع سے حاصل ہونے والا ايك دوسرا احتمال ہے يہكه''فاذكرونى اذكركم كما ذكرتكم بارسال الرسول و تحويل القبلة ''

۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور تبديلى قبلہ ايسى دو نعمتيں ہيں جو بارگاہ ايزدى ميں شكر گزاى كے لائق ہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً و اشكروا لي شكر نعمت كے مقابلے ميں ہوتاہے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں يہاں نعمت كا مورد نظر مصداق رسالت اور تبديلى قبلہ ہے _

۷_ اللہ تعالى كى نعمتوں كے كفران سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تكفرون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لا تكفرون'' در اصل يوں ہو ''و لا تكفروا نعمتي''

۸_ ياد خدا سے غفلت اور اسكى نعمات كى ناسپاسى تعمت كے مقد ہونے كى وجہ سے و ناشكرى اللہ تعالى كے انكار كے برابر ہے _فاذكرونى و اشكرولى و لا تكفرون اللہ تعالى كے شكر و سپاس ادا كرنے كا حكم دينے كے بعد( لا تكفرون) اللہ تعالى كے كفر و انكار سے نہى كرنے كا ذكر كرنا اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ ياد خدا سے غفلت اوراسكى ناشكرى انسان كو خدا كے انكار اور كفر كى طرف كھينچ لے جاتى ہے يا يہ كہ يہ خود اللہ كے كفر اور انكار كے مساوى ہے _

۹_ ابوعمرو زبيرى امام صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا'' الوجه الثالث من الكفر كفر النعم و ذلك قوله تعالى فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ...''(۱) '' كفر كى اقسام ميں سے تيسرى قسم كفر ان نعمت ہے اسى بارے ميں كلام خداوندى ہے... فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ''

۱۰_ محمد بن مسلم امام باقرعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''تسبيح فاطمة عليه‌السلام من ذكر الله الكثير الذى قال اذكرونى اذكركم (۲) تسبيح حضرت فاطمةعليه‌السلام ذكر كثير ہے جو اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''ميرا ذكر كرو تو ميں تمہارا ذكركروں گا''_

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۳۹۰ ح۱ ، نور الثقلين ج/۱ص ۱۴۰ ح ۴۳۰_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۲۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۰ ح ۴۲۹_

۵۲۴

۱۱_''وروى ان رسول الله(ص) خرج على اصحابه فقال: قال سبحانه: فاذكرونى اذكركم يعنى اذكرونى بالطاعة والعبادة اذكركم بالنعم والاحسان والرحمة والرضوان (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''اذكرونى اذكركم'' كے بارے ميں رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اس مراد يہ ہے كہ تم اطاعت اورعبادت كے ساتھ مجھے ياد كرو تو ميں تمہيں نعمات، احسان ، رحمت اور رضوان كے ساتھ ياد كروں گا''_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول اسلام (ص) نے ارشاد فرمايا''ان الملك ينزل الصحيفة اول النهار و اول الليل يكتب فيها عمل ابن آدم فاملوا فى اولها خيراً و فى آخرها خيراً فان الله يغفر لكم ما بين ذلك انشاء الله فان الله يقول اذكرونى اذكركم'' (۲) ''فرشتہ دن كے شروع اور رات كے آغاز ميں انسان كا نامہ اعمال لاتا اور اس ميں بنى آدم كے اعمال كو تحرير كرتاہے پس كوشش كرو كہ دن اور رات آغازميں اچھى املاء (تحرير) لكھاؤ بےشك اللہ تعالى اس كے مابين جو كچھ (گزرا) ہے معاف فرمائے گا انشاء اللہ كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے تم مجھے ياد كرو ميں تمہيں ياد كرونگا_''

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۱

اللہ تعالى : رحمت الہى ۱۱; اللہ تعالى كو جھٹلانے كى بنياد۸; عنايات الہى كو جذب كرنے كى بنياد۲; نعمات الہى ۴

انسان: انسانى عمل كا تحرير ہونا ۱۲

بندگان خدا: اللہ تعالى كا بندوں كا ذكر كرنا ۵; بندوں الله كى طرف سے كے ذكر كے اسباب۲،۱۱

پيامبر اسلام (ص) : بعثت پيامبر (ص) كى اہميت ۶; بعثت پيامبر (ص) ۵; بعثت پيامبر (ص) كى نعمت ۶; رسالت پيامبر (ص) كى نعمت ۴

حضرت فاطمہعليه‌السلام : حضرت فاطمہعليه‌السلام كى تسبيح ۱۰

ذكر: ذكر الہى كے نتائج ۲; ذكر الہى كى اہميت۴; ذكر الہى ۱۰،۱۱

روايت: ۹،۱۰،۱۱،۱۲

شكر: شكر الہى كى اہميت ۳; شكر نعمت ۴،۶

____________________

۱) عدةالداعى ص ۲۳۸ ، بحار الانوار ج/۹۰ ص ۱۶۳ ح ۴۲_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۱۹، مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۳۱_

۵۲۵

عبادت: عبادت الہى ۱۱

غفلت : اللہ تعالى سے غفلت كے نتائج ۸ غفلت سے اجتناب ۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى اہميت ۶; تبديلى قبلہ ۵; تبديلى قبلہ كى نعمت ۴،۶

كفر: كفر كى اقسام ۹

كفران: كفران نعمت كے آثار۸; كفران نعمت سے اجتناب ۷; كفران نعمت ۹

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۴

ملائكہ : ملائكہ كا اعمال تحرير كرنا ۱۲;ملائكہ كى اہميت و كردار۱۲

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۳ )

ايمان والو صبر اور نماز كے ذريعہمدد مانگو كہ خدا صبر كرنے والوں كے ساتھہے (۱۵۳)

۱ _ مومنين كو اللہ تعالى كا فرمان اور نصيحت ہے كہ صبر كريں اور نماز قائم كريں _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پہ ايمان لانا مومنين كے لئے مشكلات اور پريشانيوں كا باعث ہے _

يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة آنحضرت (ص) كى رسالت كے بيان كرنے كے بعد مومنين كو مخاطب كركے صبر اور نماز كى نصيحت كرنا اورانہيں مدد طلب كرنے كا فرمان دينا در اصل مخاطبين كو يہ نكتہ القا كرنا مقصود ہے كہ آنحضرت (ص) كى رسالت پر ايمان كے باعث مشكلات اور پريشانيوں سے دوچار ہونا پڑے گا_

۳ _ ايمان كى راہ ميں آنے والى مشكلات اور پريشانيوں سے نمٹنے كے لئے كاميابى و كامرانى كے دو راستے ہيں ايك صبر و استقامت اختيار كرنا اور دوسرے

۵۲۶

نماز قائم كرنا _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۴ _ عنايات و نصرت الہى كو جذب كرنے كا عامل صبر اور نماز ہے _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۵ _ راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كا اللہ تعالى ياور و مددگار ہے_ان الله مع الصابرين

۶ _ مومنين كے لئے ياد خدا ميں رہنے اور ياد خدا سے غفلت كے خاتمے ميں صبر اور نماز مددگار ہيں _*فاذكرونى اذكركم يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة يہ مطلب اور اسكے بعد والا مطلب اس آيت اور اس سے قبل والى آيت ميں ارتباط كو بيان كررہے ہيں يعنى مورد بحث آيہ مجيدہ ايك راہنمائي ہے كہ ياد خدا سے غفلت كو كس طرح دلوں سے اكھاڑا جاسكتاہے اور اسكے مقابل شكر الہى كے جذبہ كو كيسے دلوں ميں جگہ دى جائے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور شكر گزارى اور اس كے كفر سے دورى كے جذبے كو پيدا كرنے كے لئے صبر اور نماز دو كامياب عوامل ہيں _*واشكروالى و لا تكفرون يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' و استعينوا بالصبر'' قال الصبرالصيام (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''واستعينوا بالصبر'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا صبر سے مراد روزہ ہے _

اللہ تعالى : الہى امداد ۵; الہى نصيحتيں ۱; اللہ تعالى كى حمايت و عنايت جذب كرنے كے عوامل ۴

ايمان : پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے نتائج ۲

ذكر: ذكر خدا كى بنياد۶

روايت: ۸

روزہ : روزہ كى اہميت ۸

سختى : سختى كو آسان بنانے كى روش ۳

شكر : شكر كا جذبہ پيدا كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۶۳ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۶ ح ۱۸۲_

۵۲۷

صابر لوگ: صابرين كى امداد ۵

صبر: صبر كے نتائج ۳،۴،۶،۷; صبر كى اہميت ۱

غفلت : غفلت كو دور كرنے كى بنياد ۶

كاميابى : كاميابى كے عوامل ۳

كفر: كفر سے اجتناب كے اسباب ۷

مدد طلب كرنا : روزہ سے مدد طلب كرنا ۸

مومنين : مومنين كى شرعى ذمہ دارى ۱; مومنين كو نصيحت ۱; مومنين كى مشكلات ۲

نماز : نماز كے نتائج ۳، ۴،۶ ،۷; نماز كى اہميت ۱

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ ( ۱۵۴ )

اور جو لوك راہ خدا ميں قتلہوجاتے ہيں انھيں مردہ نہ كہو بلكہ وہزندہ ہيں ليكن تمھيں ان كى زندگى كا شعورنہيں ہے (۱۵۴)

۱ _ راہ خدا ميں قتل ہونے والے زندہ ہيں اور خصوصى زندگى كے مالك ہيں _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء كے علاوہ ديگر انسان بھى عالم برزخ كى زندگى ركھتے ہيں ليكن اسكے باوجود اللہ تعالى نے شہداء كے لئے زندگى كا ذكر فرمايا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ شہداء كى زندگى خاص طرح كى ہے _

۲ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والوں كو مردہ نہيں كہنا چاہيئے اور نہ ہى انہيں مردوں ميں شمار كرنا چاہيئے _

و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۵۲۸

۳ _ دشمنان دين سے بر سر پيكار ہونا اللہ تعالى كے نزديك اعلى اقدار ميں سے ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء خصوصى حيات كے مالك ہيں اس حقيقت كو بيان كرنے كا ہدف جہاد كى ترغيب دلانا اور يہ بيان كرناہے كہ يہ اعلى ترين اقدار ميں سے ہے _

۴ _اعمال كى قدر و قيمت كا معيار فى سبيل اللہ ہونا ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله

۵ _ شہداء زندہ ہيں ليكن افكار اس امر كو درك كرنے سے عاجز ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۶_ عالم ہستى ميں ايسے حقائق بھى ہيں جو انسانى افكار و شعور سے ماوراء ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۷_ عالم برزخ اور برزخى زندگى كا وجود عالم ہستى كے حقائق ميں سے ہے _ولا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۸ _ راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ايك اللہ كى راہ ميں جہاد، نبرد آزمائي اور اسكى سختياں ہيں جنكے لئے صبر و استقامت اور نماز سے مدد لينى چاہيئے اور اپنے ايمان پر ثابت قدم رہنا چاہيئے_ استعينوا بالصبر والصلوة و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۹_ شہداء كو خصوصى زندگى عطا كرنا راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كے لئے اللہ تعالى كى حمايت و نصرت كا ايك جلوہ ہے _ان الله مع الصابرين _ و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۱۰_ قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك يہ ہے كہ اہل ايمان كو الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى كى طرف ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ ان كى فكرى بنيادوں كو مضبوط كرے _و لاتقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

انسانوں كو ايمان كى راہ ميں صبر و استقامت اور سختيوں كو برداشت كرنے كى دعوت جسكا واضح نمونہ جہاد اور قتل ہونا ہے _ كے بعد اللہ تعالى اس كا حقيقت كو بيان فرمانا كہ فى سبيل اللہ قتل ہونے والے خصوصى زندگى كے حامل ہيں شہداء كے فنا اور نابود ہونے كے نظريئے كى نفى كرتا ہے تا كہ اہل ايمان فرامين الہى ( راہ ايمان ميں صبر واستقامت كا مظاہرہ كرنا اور ...) كو بہتر طور سے انجام ديں _

۱۱ _ انسان كا اپنے اعمال پر قائم رہنا اور استقامت كا مظاہرہ كرنا اسكے افكار و نظريات سے مطابقت كے ذريعے ممكن ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

مذكورہ مطلب كہ مورد بحث آيہ مجيدہ ميں اعمال كى بنياديں فراہم كرنے كے ليئے نظريات كو پيش كيا گياہے_

۵۲۹

اقدار:۳ قدروں كا معيار ۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات۹; اللہ تعالى كى حمايت كے مظاہر ۹; اللہ تعالى كى معيت ۹

امداد طلب كرنا : صبر سے امداد طلب كرنا۸; نماز سے مدد طلب كرنا ۸

ايمان : ايمان ميں استقامت ۸; ايمان كى راہ ميں سختياں ۸

تكليف شرعي: تكليف شرعى كى تشويق ۱۰

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ۳; جہاد كى سختياں ۸

حقائق : غير قابل ادراك حقائق ۵،۶

خلقت: عالم خلقت كے حقائق كا ادراك ۶; عالم خلقت كے حقائق ۷

حيات: برزخى زندگى كى حقانيت ۷

سبيل اللہ : سبيل اللہ كى اہميت ۴

سختى : سختى كو برداشت كرنا ۸; سختى كو آسان كرنے كى روش ۸

شہداء : شہداء كى زندگى كا ادراك ۵; شہداء كى زندگى ۱،۲،۹;شہداء كے درجات ۱،۲

صابرين : صابرين كى حمايت ۹

صبر: صبر كى اہميت ۸

عالم برزخ : عالم برزخ كى حقانيت ۷

عمل: عمل كى اہميت ۴; عمل كے تسلسل كے عوامل ۱۱

فكر: فكر و عمل كى نسبت ۱۱

قرآن كريم : قرآن كى روش بيان ۱۰

نماز : نماز كى اہميت ۸

۵۳۰

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۵ )

اور ہم يقينا تمھيں تھوڑےخوف تھوڑى بھوك اور اموال ، نفوس اورثمرات كى كمى سے آزمائيں گے اور اےپيغمبر آپ ان صبر كرنے والوں كو بشارتديديں (۱۵۵)

۱ _ مومنين كى آزمائش اللہ تعالى كى حتمى سنتوں (روشوں ) ميں سے ہے _و لنبلونكم ''بلائ'' كا معنى آزمائش ہے فعل ''لنبلون'' ميں لام قسم اور نون تاكيد اسكے استمرار اور حتمى ہونے كو بيان كررہے ہيں _

۲ _ اہل ايمان كو خوف اور بھوك ميں مبتلا كركے اللہ تعالى انہيں آزماتاہے _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع

۳ _ و ہ امور جن ميں مالى ، جاني، كمائي كا نقصان اور نعمتوں كى كمى ہو ان ميں مبتلا كركے اللہ تعالى مومنين كى آزمائش كرتاہے _و لنبلونكم بشيء من نقص من الاموال والانفس والمثرات

۴_ دشمنان دين سے نبرد آزمائي اور بر سر پيكار ہونا اور اس كے نتائج ( خوف، بھوك، مالى و جانى نقصان اورنعمتوں كى كمي) راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ہيں _لا تقولوا لمن يقتل و لنبلونكم بشيء من الخوف

جہاد اور فى سبيل اللہ قتل ہونے كے بعد خوف، بھوك اور سے آزمائش كا بيان كرنا اس مطلب كى حكايت كرتاہے كہ ''الخوف و ...'' سے مراد وہ خوف اور بھوك ہيں جو دشمنان دين كے ساتھ معركہ آرائي كى وجہ سے پيدا ہوتے ہيں يعنى يہ كہ رسالت پر ايمان كا نتيجہ دشمنان دين سے صف آرائي اور اسكے نتائج خوف، بھوك اور ہيں _

۵ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والے ايك ايمانى معاشرے كے لئے امتحان كا ذريعہ ہيں _و لنبلونكم بشيء و نقص من الاموال والانفس ماقبل آيت كى روشنى ميں '' نقص الانفس'' كا مورد نظر مصداق راہ خدا ميں قتل ہونے والے افراد ہيں _

۶_ سالكان راہ ايمان كے لئے خوف اور بھوك كى مختلف اقسام، مالى و جانى نقصانات اور نعمتوں كو برداشت

كرنے كے لئے بہترين اور كارآمد وسيلہ صبر و استقامت اور نماز كا قيام ہے_يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر و لنبلونكم بشيء من الخوف والثمرات

۵۳۱

۷_ راہ ہدايت كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ مشكلات اور پھر ان مشكلات پر قابو پانے كا كامياب راستہ بيان كرنا قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك ہے_يا ايها الذين آمنوا لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين

آيات كے اس حصہ ميں راہ ہدايت جس سے مراد ايمان بر رسالت اور ...ہے كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى نے اس راہ ميں پيش آنے والى مشكلات كا ذكر فرماياہے اسى طرح ان پر قابو پانے كے لئے نماز اور صبر سے امداد حاصل كرنے كا امر فرماياہے_

۸_ معاشرے كے منتظمين اور تربيت كرنے والوں كو چاہيئے كہ مجوزہ راستوں ميں پيش آنے والى مشكلات كو ان راستوں پر چلنے والوں كے لئے بيان كريں اور ان پر كاميابى كے اسباب كو بھى بيان كريں _و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين مورد بحث آيہ مجيدہ اور ماقبل آيات مباركہ سے جوبات سامنے آتى ہے وہ صحيح راہ، اس ميں پيش آنے والى مشكلات اور ان پر كاميابى كے طريقے كو بيان كرنا ہے يہ چيز سب تربيت كرنے والوں اور منتظمين كے لئے ايك درس ہے كہ فقط صحيح راہ كو بيان كرنے پر اكتفا نہ كريں بلكہ مشكلات اور ان پر كاميابى كے راستوں كو بھى بيان كريں _

۹_ الہى امتحانات اور آزمائشيں انسانوں كے لئے طاقت فرسا اور ناقابل برداشت نہيں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف مفسرين نے وضاحت كى ہے كہ '' شيئ'' كو نكرہ استعمال كرنا اسكى كمى كو بيان كرنے كے لئے ہے يعنى '' بشيء يسير من الخوف ...'' الہى امتحانات كے موارد كو ناچيز اور كم شمار كرنا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ الہى آزمائشيں طاقت فرسا نہيں ہوتيں _

۱۰_ اللہ تعالى جن امور سے مومنين كو آزماتاہے مختلف، متنوع اور گوناگوں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات

۱۱ _ مومنين كو صبر كرنے والے اور صبر نہ كرنے والوں ميں تقسيم كرنا قرآن كريم ميں اہل ايمان ككى درجہ بنديوں ميں سے ہے _و بشر الصابرين

۱۲ _ وہ مومنين جو راہ ايمان كى سختيوں اور دشواريوں كو برداشت كرتے ہيں ان كو عظيم اجر ملے گا_و بشر الصابرين يہ جو بشارت كے متعلق كا ذكر نہيں ہوا اور صابرين كے اجر كو مشخص نہيں كيا گيا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ يہ اجر بہت گراں قدر اور عظيم ہے (الميزان سے اقتباس)_

۵۳۲

۱۳ _ پيامبر اسلام(ص) كى ذمہ دارى ہے كہ صابرين كے لئے الہى بشارتوں كا اعلان فرمائيں _و بشر الصابرين

۱۴ _ دينى قائدين كو چاہيئے كہ صابرين كو خوشخبرى ديں كہ وہ الہى رحمتوں سے بہرہ مند ہوں گے_و بشرالصابرين

۱۵_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''من صبر كرهاً ...نصيبه ماقال الله عزوجل ''و بشر الصابرين'' اى بالجنة والمغفرة (۱) جو كوئي مشكلات ميں صبر كرے تو اسكى جزا مغفرت اور جنت ہے يہى ہے جو اللہ تعالى كے كلام '' و بشر الصابرين '' ميں خوشخبرى دى گئي ہے_

۱۶_قال رسول الله (ص) يابن مسعود قول الله '' و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' قلنا يا رسول الله (ص) فمن الصابرون ؟ قال الذين يصبرون على طاعة الله و اجتنبوا معصيته الذين كسبوا طيباً و انفقوا قصداًو قدموا فضلاً فافلحوا (۲) رسول اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا اے ابن مسعود اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' ہم نے آنحضرت (ص) سے عرض كيا كہ صابرين كون لوگ ہيں ؟ تو آپ (ص) نے فرمايا وہ لوگ ہيں جو اللہ كى اطاعت پر صبر كريں ، گناہوں سے دورى اختيار كريں ، پاكيزہ روزى كمائيں ، خرچ كرنے ميں ميانہ روى اختيار كريں اور جو ان كى در آمد ميں اضافہ ہو اسكو انفاق كريں پس يہى لوگ ہيں جو سعادت مند ہيں _

ابتلاء ( آزمائش ) : خوف كے ذريعے ابتلاء ۲،۴; جہاد كے ذريعے ابتلاء ۴; جانى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; مالى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; نعمتوں كى كمى كے ذريعے آزمائش ۴; بھو ك كے ذريعے آزمائش ۲،۴

اجر: اجر كے درجات ۱۲

اللہ تعالى : و بخشش الہى ۱۵; الہى امتحانات ۱، ۲ ، ۳ ، ۱۰; الہى بشارتيں ۱۳،۱۵; الہى سنتيں ''روشيں '' ۱; الہى امتحانات كا آساں ہونا ۹

الہى سنتيں (روشيں ): اللہ تعالى كے امتحان كى سنت ۱

امتحان : امتحان كا وسيلہ ۲،۳،۵; جانى نقصان كے ذريعے امتحان ۳; مالى نقصان امتحان ۳; شہداء كے ذريعے امتحان ۵; نعمتوں كى كمى كے ذريعے امتحان ۳;امتحانى ذرائع ميں تنوع ۱۰

انفاق ( خرچ كرنا ) : انفاق ميں اعتدال۱۶

____________________

۱) مصباح الشريعة ص ۱۸۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۳ ح ۴۴۹_ ۲) مكارم الاخلاق ص ۴۴۶ ، بحار الانوار ج/ ۷۴ ص ۹۳ ح/۱_

۵۳۳

ايمان : ايمان كى سختياں ۴،۱۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۱۳

دينى قائدين : دينى قائدين كى ذمہ دارى ۱۴

رحمت : رحمت كى بشارت ۱۴; وہ افراد جن كے رحمت شامل حال ہو ۱۴

روايت:۱۵،۱۶

سختياں : سختيوں ميں صبر كى اہميت ۱۲; سختيوں ميں صبر كا اجر ۱۵; سختيوں كو آسان بنانے كى روش ۶،۷

روزي: حلال روزى كمانا ۱۶

سعادت مند لوگ : ۱۶

صابرين: صابرين كو بشارت ۱۳،۱۴; صابرين سے مراد كون لوگ ہيں ۱۶

صبر: صبر كے نتائج ۶; اطاعت ميں صبر ۱۶

كاميابي: كاميابى كى روش كا بيان كرنا ۷; كاميابى كے اسباب كا بيان ۸

گناہ : گناہ سے اجتناب ۱۶

مشكلات: مشكلات بيان كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ : دينى معاشرے كا امتحان ۵;معاشرے كے قائدين كى ذمہ دارى ۸

معاشرتى طبقات:۱۱

مومنين: مومنين كا امتحان ۱،۲،۳،۵،۱۰; صابر مومنين كا اجر ۱۲; مومنين كا خوف ۶; مومنين كا جانى نقصان ۶; مومنين كا مالى نقصان ۶; مومنين كى بھوك ۶; مومنين كى مشكلات۴; صابر مومنين ۱۱; غير صابر مومنين ۱۱

نماز : نماز قائم كرنے كے آثار۶

ہدايت: راہ ہدايت كى مشكلات كا بيان ۷

۵۳۴

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ( ۱۵۶ )

جو مصيبت پرنے كے بعد يہ كہتے ہيں كہ ہم الله ہى كے لئے ہيں اور اسيكى بارگاہ ميں واپس جانے والے ہيں (۱۵۶)

۱ _ اللہ تعالى انسانوں كا مالك و مختار ہے جبكہ انسان اسكے مملوك اور اسكے اختيار ميں ہيں _قالوا انا لله

۲ _ انسان اور اسكے تمام امور و معاملات كا منبع اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور انسان اسى كى طرف لوٹ جائے گا_

قالوا انا اليه راجعون ''رجوع ''كا معنى اس چيز كى طرف لوٹنا ہے جو منبع ياسر چشم ہو ''انا'' ميں ''نا''سے مراد انسان اور اس سے متعلق امور ہيں بنابريں جملہ''انا اليہ راجعون'' حكايت كررہاہے كہ انسان اور جو كچھ اس سے متعلق ہے اسكا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور سب كچھ اسى كى طرف لوٹ جائے گا _

۳ _ صابرين وہ لوگ ہيں جو مشكلات كا سامنا ہو تو قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں ، اپنے تمام امور كو خداوند متعال كى جانب سے جانتے ہيں اور اسى كا اظہار كرتے ہيں _و بشر الصابرين _ الذين قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۴_ اللہ تعالى كى مالكيت اور اس پر يقين كہ انسان بالآخر خدا كى طرف لوٹ جائے گا يہ امر مصائب و مشكلات كو آسان كرنے والا ہے _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۵ _ صابر مومنين كا نظريہ ( اللہ كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف بازگشت ہوگي)ان كے صبر و استقامت كى دليل ہے جسكا مظاہرہ انہوں نے راہ ايمان ميں پيش آنے والى مشكلات كے مقابل كيا_الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون آيه مجيدة ' ' الذين قالوا ...'' صابرين كى صفات بيان كرنے كے ساتھ ساتھ ان كے صبر كى دليل كو بھى بيان كررہى ہے _

۶_مصائب و مشكلات كے وقت استرجاع ( انا للہ و انا اليہ راجعون) صابر مومنين كا وطيرہ ( شعار) ہے_

و بشر الصابرين _ الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله وانا اليه راجعون

۵۳۵

'' استرجاع '' يعنى ''انا لله و انا اليه واجعون'' كہنا_

۷_الہى بشارت ان مومنين كے لئے جو مشكلات و پريشانيوں كے مقابل قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں _و بشر الصابرين _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۸_''وسمع رجلاً يقول''انا لله و انا اليه راجون'' فقال عليه‌السلام ان قولنا ''انا لله'' اقرار على انفسنا بالملك وقولنا ''انا اليه راجعون'' ''اقرار على انفسنا بالهلك'' (۱) امير المومنين علىعليه‌السلام نے ايك شخص سے كلمہ استرجاع سنا تو فرمايا'' انا للہ'' كہنا اللہ تعالى كى اپنے اوپر مالكيت كو تسليم كرنا ہے اور''انا اليه راجعون'' كہنا اپنى موت و ہلاكت كا اعتراف ہے_

۹_ ابوامامہ كہتے ہيں''انقطع قبال النبي(ص) فاسترجع فقالوا مصيبةيارسول الله؟ فقال ما اصاب المومن مما يكره فهو مصيبة'' (۲) نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے جوتے كا تسمہ ٹوٹ گيا تو آپ (ص) نے كلمہ استرجاع '' انا للہ و انا اليہ راجعون'' زبان پر جارى فرمايا تو اصحاب نے كہا يا رسو ل اللہ (ص) كيا يہ بھى مصيبت ہے ؟ تو آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمايا ہر ناپسنديدگى يا سختى جو مومن كو پہنچے مصيبت ہے_

۱۰_رسول اسلام (ص) سے روايت ہے آپ (ص) نے فرمايا''اعطيت امتى شيئاً لم يعطه احد من الامم ان يقولوا عند المصيبة ''انا لله وانا اليه راجعون'' (۳) ميرى امت كو ايك ايسى چيز عطا ہوئي ہے جو سابقہ امتوں ميں سے كسى كو عطا نہ كى گئي اور وہ مصيبت كے وقت ''انا للہ و انا اليہ راجعون'' كہناہے_

اقرار : اللہ تعالى كى مالكيت كا اقرار ۸; موت كا اقرار ۸

اللہ تعالى : الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى مالكيت ۱ اللہ تعالى كى طرف بازگشت : ۲،۴،۵

انسان: انسان كا انجام ۲; انسان كا مالك ۱; انسان كا مبداء و آغاز ۲،۵

ايمان : اللہ تعالى كى مالكيت پر ايمان ۴; ايمان كى سختياں ۵

روايت: ۸،۹،۱۰

____________________

۱) نہج البلاغة حكمت ۹۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۴۵ ح ۴۵۷_ ۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۹_ ۳) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۷_

۵۳۶

سختياں : سختيوں سے نمٹنے كے آداب ۳،۶; سختيوں كے آسان كرنے كى روش ۴; سختيوں ميں صبر ۵

سر تسليم خم ہونا: خداوند متعال كى قضا كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۳،۷

صابر لوگ: صابرين كا عقيدہ ۳; صابرين كى خصوصيات ۳

كلمہ استرجاع : ۸

أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ( ۱۵۷ )

كہ ان كے لئے پروردگار كى طرف سے صلواتاور رحمت ہے اور وہى ہدايت يافتہ ہيں (۱۵۷)

۱_ اللہ تعالى كا لطف و عنايات ، اسكى خاص رحمت ، درود و سلام اور ثنا كا سايہ ہميشہ صابر مومنين پر رہتاہے_

اولئك عليهم صلوت من ربهم و رحمة صلوة كا معنى توجہ كردنا اور مورد محبت قرار دينا ہے (الكشاف)

۲ _ اللہ تعالى كى خاص رحمت اور اسكے الطاف و عنايات كا صابر مومنين پر سايہ فگن رہنا خداوند متعال كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے _

مصائب: مصائب سے نمٹنے كے آداب ۶; مصائب ميں كلمہ استرجاع ۶،۱۰; مصائب كو آسان كرنے كى روش ۴; مصيبت سے مراد كيا ہے ۹

مؤمنين: مومنين كو بشارت۷; مومنين كا نظريہ ۵; مومنين كى روش يا وطيرہ ۶; مومنين كے صبر كے عوامل ۵; صابر مومنين ۵،۷; مومنين كى مشكلات ۷; صابر مومنين كى خصوصيات۶من ربهم

۳ _ وہ مومنين جو اس يقين اور عقيدہ ( خدا كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف لوٹ جائيں گے ) كى بناپر راہ ا يمان ميں مصيبتوں كو برداشت كرتے ہيں ان كا اللہ تعالى كے ہاں بڑا بلند مقام ہے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون_اولئك عليهم صلوات من ربهم

۵۳۷

۴ _ وہ مومنين جو راہ ايمان ميں مصيبتوں پر صابر ہيں وہ حقيقى ہدايت كو حاصل كر پائيں گے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون و اولئك هم المهتدون

۵ _ فقط صابر مومنين ہيں جو اپنے اہداف (دنيا و آخرت كى سعادت) اور كاميابيوں كو حاصل كر پائيں گے_*و اولئك هم المهتدون

۶ _ كاميابى كا حصول اللہ تعالى كے الطاف اور رحمت سے ہى ممكن ہے _اولئك عليهم صلوات من ربهم و رحمة و اولئك هم المهتدون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ( ذيل آيت ميں ) ''اولئك'' ان لوگوں كى طرف اشارہ ہو جن كے شامل حال صلوات اور رحمت الہى ہے (اولئك عليهم )_

۷_ راہ ايمان ميں صبر كرنے والوں كو اللہ تعالى كى جانب سے خوشخبرى اور بشارت دى گئي ہے كہ وہ لوگ ہدايت و رحمت اور الطاف الہى كو حاصل كرپائيں گے_و بشر الصابرين اولئك هم المهتدون

يہ جملہ ''اولئك عليہم ...'' ممكن ہے اس نويد اور خوشخبرى ''و بشر الصابرين'' كى طرف اشارہ ہو يعنى ''بشر ہم بان عليہم صلوات و ...''

۸_ وہ مومنين جو مصيبتوں اور سختيوں ميں صابر اور قضائے الہى كے سامنے سرتسليم خم ہيں فقط يہى لوگ ہيں جو ہدايت يافتہ ہيں _و بشر الصابرين _الذين واولئك هم المهتدون ضمير فصل ''ہم'' اور خبر ''المہتدون'' كا معرفة ہونا حصر كا معنى دے رہاہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رحمت كے نتائج ۶; لطف الہى كے اثرات ۶; الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى خاص رحمت ۱،۲; اللہ تعالى كى طرف سے صلوات ۱; لطف الہى ۲; ربوبيت الہى كے مظاہر ۲

انسان: انسان كا مبداء ۳

ايمان : ايمان كے نتائج ۳; اللہ تعالى كى طرف بازگشت بر ايمان ۳; ايمان كى سختياں ۳; ايمان كے متعلقات۳

رحمت : رحمت كا حصول ۷; وہ لوگ جن كے رحمت شامل حال ہوتى ہے ۱،۲

سختي: سختيوں ميں صبر ۸

سر تسليم خم ہونا :

۵۳۸

قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۸

سعادت مند لوگ: ۵ صابرين :

صابرين كو بشارت۷; صابرين كى ہدايت ۸

لطف الہي: لطف الہى كا حصول ۷; جن لوگوں كے لطف الہى شامل حال ہوتاہے ۱

مصائب: مصائب پر صبر كرنا ۳،۴،۸

مؤمنين: مومنين كى اخروى سعادت۵; مؤمنين كى دنياوى سعادت۵; صابر مومنين كے درجات ۳; صابر مومنين ۱،۲،۴; صابر مومنين كى كاميابى ۵; صابر مومنين كى خصوصيات ۵،۸; صابر مومنين كى ہدايت ۴

ہدايت: ہدايت كا حصول ۷; ہدايت كى شرائط ۶ ہدايت يافتہ لوگ: ۴،۸

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ( ۱۵۸ )

بيشك صفا اور مروہ دونوں پہاڑياں الله كى نشانيوں ميں ہيں لہذا جو شخص بھيحج يا عمرہ كرے اس كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ ان دونوں پہاڑيوں كا چكر لگائے اورجو مزيد خير كرے گا تو خدا اس كے عمل كاقدردان اور اس سے خوب واقف ہے (۱۵۸)

۱ _ صفا و مروہ كے پہاڑ دو ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادات كا مقام قرار دياہے_ان الصفا والمروة من شعائر الله '' شعيرة'' كى جمع شعائر ہے_ ايسى نشانيوں يا علامتوں كو كہتے ہيں جن كو خاص اعمال كے لئے قرا ر ديا گيا ہو _ كہا جاتاہے كہ'' شعائر اللہ '' ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادت كے لئے قرار ديا ہے ( مجمع البيان سے اقتباس) پس ''صفا و مروہ'' كو ''شعائر اللہ '' كہنا يعنى اللہ تعالى نے ان دو جگہوں كو ايسى علامتيں قرار ديا ہے كہ بند گان خدا وہاں عبادت كريں _

۲ _ صفا و مروہ كا طواف ( ان دو كے درميان سعى كرنا ) عبادت اور حج و عمرہ كے مناسك ميں سے ہے _

ان الصفا و المروه فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما ''اعتمر'' كا مصدر '' اعتمار'' ہے جس كا معنى زيارت كرنا اور عمرہ بجالاناہے _ صفا و مروة كو عبادت كى علامت قرار دينے كے بعد ''من حج البيت ...''كى اس

۵۳۹

پر تفريع اس مطلب كو بيان كررہى ہے كہ اولاً صفا و مروة كا طواف ( ان كے درميان سعي) اللہ كى عبادت ہے اور ثانياً يہ عبادت حج و عمرہ كے اعمال و مناسك ميں سے ہے _

۳ _ اللہ تعالى ان انسانوں كا شكر گزار ہے جو نيك اعمال كو توجہ اور رغبت سے انجام ديتے ہيں _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم فعل '' تطوع'' چونكہ متعدى استعمال ہوا ہے اس لئے اس ميں ''اتي'' كا معنى پايا جاتاہے بنابريں '' من تطوع خيراً'' يعنى جو كوئي بھى نيك عمل كو اطاعت كى بناپر انجام دے_

۴ _ اللہ تعالى شاكر ( سپاس گزار) اور عليم ( جاننے والا) ہے _فان الله شاكر عليم

۵ _ صفا و مروہ كے مابين سعى حج و عمرہ كے بہترين اعمال ميں سے ہے _فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما و من تطوع خيراً ما قبل جملے كى روشنى ميں ''خيراً'' كا مورد نظر مصداق صفا و مروة كے مابين سعى ہے_

۶_ صدر اسلام كے بعض مسلمان صفا و مروة كے مابين سعى سے كر اہت كرتے اور نہ چاہتے تھے كہ يہ مناسك حج ميں سے ہو_فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما صفا و مروة كى سعى پر اعتراض كو اس جملہ '' فلا جناح ...'' سے رد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمان اس عمل كو كرنا نہ چاہتے تھے _ اسكى وجہ جيسا كہ شان نزول ميں اسكا ذكر ہوا ہے وہ بت تھے جو مشركين نے صفا و مروة ميں يا ان دو كے مابين نصب كيئے ہوئے تھے_

۷_ خانہ خدا كے زائرين كے اعمال ( حج و عمرہ اور صفا و مروہ كى سعي) سے اللہ تعالى آگاہ ہے_فمن حج البيت او اعتمر ...و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۸ _ جو لوگ نيك اعمال ( صفا و مروة كے مابين سعى اور ...) انجام ديتے ہيں اللہ تعالى كى جزاؤں سے بہرہ مند ہوں گے_

من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم بندوں سے اللہ تعالى كا سپاس گزار ہونا يہ اللہ تعالى كى جزائيں عطا كرنے سے كنايہ ہے _

۹ _ بندوں كے نيك اعمال سے اللہ تعالى كى علم و آگاہى ان كے اجر كے ضائع نہ ہونے كى ضمانت ہے _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۱۰_ امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں : ''قال الله عزوجل: '' ان الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت اواعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما'' الا ترون ان الطواف بهما واجب مفروض لان الله عزوجل ذكره فى كتابه و صنعه نبيه عليه‌السلام ..''

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

عبد: کبھی ''عبد،، انسان کو کہا جاتا ہے خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انسان اللہ کی مخلوق اور اس کا پروردہ ہے جو اپنے وجود اور تمام افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خاضع اور نیاز مند ہے اگرچہ وہ اس کے اوامرونواہی کی مخالفت کرے اور کبھی ''عہد،، زرخرید غلام کو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے مالک کا مملوک اور اس کے زیر سلطنت ہوتا ہے کبھی لفظ ''عبد،، کے استعمال میں وسعت سے کام لیا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو ''عبد،، کہا جاتا ہے جو کسی غیر معمولی چیز کو اہمیت دے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اسے دکھائی نہ دیتی ہو چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

الناس عبید الدنیا و الدین لعق علیٰ السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم و اذا محصوبالبلاء قل الدیا نون،، (۱)

''لوگ دنیا پرست ہیں اور دین ان کی زبانوں تک محدود ہے جب تک یہ آسودہ حال رہیں دین کا طواف کرتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو متدین افراد بہت کم رہ جاتے ہیں،،۔

کبھی ''عبد،، متواضع اور عبادت گزار کو کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) ۲۶:۲۲

''کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے،،۔

( عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) کا مطلب ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا اطاعت گزار بنا دیا ہے جو تیرے امرو نہی کی مخالفت نہیں کرتے۔

____________________

(۱) بحار ، ج ۱۰ ، ص ۱۸۹

۵۸۱

الاستعانتہ

استعانت مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں یہ لفظ کبھی خود اور کبھی 'ب، کے ذریعے متعدی ہوتا ہے چنانچہ استعنتہ،، بھی کہا جاتا ہے اور''استعنت به ،، بھی کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس سے مدد طلب کی۔

اعراب:

دونوں جملوں( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں ''ایاک،، کو جو مفعول ہے حصر کی خاطر مقدم کیا گیا ہے اور آیت میں غائب سے خطاب کی طرف التفات سے کام لیا گیا ہے(۱) اس میں دو راز ہو سکتے ہیں:

(۱) گزشتہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام موجدات کامالک اور مزتی ہے اور زندگی کا ہر کام اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ ، انسان اور اس کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہو تاکہ روز قیامت اطاعت گزاروں اور معصیت کاروں کو جزاء و سزا دے سکے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری دے اور اس سے مخاطب ہو۔

(۲) عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے سامنے اسے اپنا رب سمجھ کر متواضع ہو اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربی ا پنے پروردہ کے سامنے ہو۔ یہی حکم استعانت کا بھی ہے کیونکہ انسان کا اپنے رب کا محتاج ہونا اور اس کا مستقل نہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ معبود ، عبد کے سامنے ہوتا کہ اس کی طرف سے مدد ہو سکے۔

ان دو نکتوں کے پیش نظر سورہ حمد میں غایب سے خطاب کی طرف رخ کیا گیا اور( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) کہا گیا ۔ پس بندہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اس سے غائب نہیں۔

____________________

(۱) علم معنی بیان میں کسی خاص مقصد کے تحت غائب کی ضمیرا ستعمال کرتے کرتے اچانک مخاطب کی ضمیر لانے یا مخاطب کے بعد غائب کی ضمیر لائے ، یعنی ایک ضمیر کو چھوڑ کر دوسری ضمیر سے استفادہ کرنے کو ''التفات،، کہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۸۲

گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور بزرگی بیان فرمائی اس کے بعد اس آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تلاوت کی تلقین فرمائی اور یہ کہ اس آیت کے مدلول و مفہوم کا اعتراف کریں یعنی ہم سوائے خدا کے کسی اور کی عبادت و پرستش نہیں کرتے اور غیر اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے اس خدا کے علاوہ تمام موجودات ذاتاً فقیر، محتاج اور عاجز ہیں بلکہ وہ لاشئی اور ہیچ ہیں مگر یہ کہ رحمت الٰہی انہیں شامل حال ہو۔

جس موجود و مخلوق کی یہ حالت ہو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے اور تمام ممکنات ، اگرچہ کمال و نقص کے اعتبار سے ان کے درجے مختلف ہیں صفت عجز میں مشترک ہیں جو ایک ممکن کا لازمہ ہے اور یہ کہ سب ممکنات اللہ کے حکم اور اس کے ارادے سے موجود ہیں۔

( أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) ۷:۵۴

''دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کیلئے ، وہ خدا جو سارے جہاں کا پروردگار ہے ، بڑا برکت والا ہے،،

( وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ) ۲۴:۴۲

''اور سارے آسمان اور زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے،،

اللہ کے ساتھ اس کی سلطنت میں کون ٹکر لے سکتا ہے اور اس کے امرو حکم کے سامنے کون آ سکتا ہے عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے اور روکنے والی ذات بھی وہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہے حکم فرماتا ہے پس مومن اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ اس کے غیر سے مدد مطلب کرتا ہے کیونکہ غیر خدا چاہے کوئی بھی ہو ہر کام اور ہر بات میں اللہ کا محتاج ہے معبود کوہر حالت میں مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہئے اس لئے کہ فقیر اپنے جیسے فقیروں کی کیسے عبادت کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرے اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس اپنی حاجت لے کر نہ جائے غمیر خدا پر بھروسہ نہ کرے اور صرف اللہ سے مانگے ورنہ شرک باللہ اور اس کی سلطنت میں کسی اور کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،،

۵۸۳

آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں بحث دوم

٭ العبادۃ و التالہ

٭ عبادت اور اطاعت

٭ عبادت اور خشوع

٭ غیر اللہ کو سجدہ

٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ

٭ شرک باللہ کیا ہے ؟

٭ اسباب عبادت

٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے

٭ شفاعت

٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ تحلیل آیتہ ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔

٭ قرات

٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال

٭ اعراب ، الضالین

٭ تفسیر----- ٭ ہدایت عامہ

٭ ہدایت خاصہ

۵۸۴

العبادۃ و التالہ

اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،

پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

'' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،

۵۸۵

( وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ) ۲۳:۹۱

''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔

دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ) ۲۷:۶۴

''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،

( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) ۲۶:۷۱

''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،

( أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ) : ۷۳

''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،

( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ) : ۷۴

''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،

۵۸۶

کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ) ۲۱:۶۶

''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) : ۶۷

''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،

( قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ ) ۵:۷۶

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔

( أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ) ۷:۱۴۸

''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،

مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔

۵۸۷

( وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ) ۵:۱۱۶

''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ ) ۵:۱۱۷

؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،

کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) ۵۰:۱۶

''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) ۴۰:۶۰

''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،

۵۸۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ) ۶:۱۸

''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،

( قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۳:۲۹

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ) ۱۰:۱۰۷

'' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ ----- فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۶:۱۷

''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،

( اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ ) ۱۳:۲۶

''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،

ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) ۴۲:۱۱

''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،

۵۸۹

( أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ) ۴۱:۵۴

''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،

بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔

( مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ) ۵۸:۷

''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،

( كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) ۳:۴۰

'' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،

( إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ) ۵ :۱

''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،

خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:

۵۹۰

عبادت اور اطاعت

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔

اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ) ۴:۸۰

''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ) ۴:۶۴

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،

یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) ۳۳:۷۱

''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹

'' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،

۵۹۱

ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ ) ۳۳:۱

''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،

( فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ) ۷۶:۲۴

''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔

( وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ ) ۳۱:۱۵

''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔

ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔

عبادت اور خشوع

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔

۵۹۲

(۱) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:

مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ) ۱۷:۲۴

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،

ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،

نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔

۵۹۳

(۲) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ(۱) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ) ۱۸:۱۵

''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،

(۳) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمومنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ) ۵:۵۴

''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،

____________________

(۱) قرآن سنت ، اجماع اور عقل

۵۹۴

خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

( عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (۲۱: ۲۶۔۲۷)

'' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،

ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے

آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔

۵۹۵

جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔

من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی

''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔

اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں(۱) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا(۱) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

___________________

(۱) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ۱۷ میں ذکر کی گئی ہیں۔

۵۹۶

ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔

بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔

(۱) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔

(۲)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔

ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی

( وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ) ۲۲:۳۲

''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،

اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔

۵۹۷

غیر اللہ کو سجدہ

گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) ۴۱:۳۷

''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔

اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔

( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ) ۷۲:۱۸

''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،

یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا

____________________

(۱) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ۳ ، ص ۴۴۸

۵۹۸

کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیادہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔

بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے(۱) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔

شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں(۲) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(۳)

خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا(۴)

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) وسائل ، باب ۱۶۲ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ۲۳۶

(۳) ضمیمہ نمبر ۱۹ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا

(۴) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ۱ ، ص۲۱۲ ۔ ۲۱۳

۵۹۹

ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں(۱)

فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔

آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔

(۱) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

__________________

(۱) وسائل ، ج ۱ ، ص ۲۳۶ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۰

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785