تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201007 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے''ان الصفا والمروة من شعائر اللہ فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليہ ان يطوف بہما'' كيا تم نہيں ديكھتے كہ صفا و مروة كا طواف ( سعى ) واجب ہے كيونكہ اللہ تعالى نے ا سے اپنى كتاب ميں تشريع فرمايا اور اسے اللہ كے بنى عليہ الصلوة والسلام نے بھى انجام ديا ہے(۱)

۱۱ _ عبيد بن زرارة كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ''السعى سنة من رسول الله قلت اليس الله يقول '' ان الصفا و المروة من شعائر الله قال بلى لكن قد قال فيهما'' و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم'' فلوكان السعى فريضة لم يقل و من تطوع خيراً ''(۲)

(صفا و مروة كى ) سعى رسول اللہ (ص) كى سنت ہے تو ميں نے كہا _ كيا اللہ تعالى نہيں فرمايا '' ان الصفا والمروة من شعائر اللہ ''؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ہاں ايسا ہى ہے ليكن يہ بھى تو فرماياہے _'' و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم'' پس اگر صفا ومروة كى سعى فرض ہوتى تو نہ فرماتا''و من تطوع خيراً (جو كوئي اسے رضا كارانہ انجام دے _)

۱۲ _ امام صادقعليه‌السلام كے بعض اصحاب كہتے ہيں كہ حضرتعليه‌السلام سے صفا و مروة كے مابين سعى كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''...كان ذلك فى عمرة القضاء ان رسول الله (ص) شرط عليهم ان يرفعواالاصنام من الصفاء والمروة فقالوا يا رسول الله (ص) ان فلانا ً لم يسع بين الصفا والمروة و قد اعيدت الاصنام فانزل الله عزوجل '' فلا جناح عليه ان يطوف بهما'' اى و عليهما الاصنام ''(۳) (لا جناح كا شان نزول) عمرة القضا كے بارے ميں تھا جو رسول اللہ (ص) نے مشركين كو شرط لگائي كہ بتوں كو صفا و مروة سے اٹھاليں انہوں نے عرض كيا يا رسول اللہ (ص) فلاں شخص نے صفا و مروة كے مابين سعى انجام نہيں دى جبكہ بتوں كو وہيں پلٹا ديا گياہے پس اللہ تعالى نے فرمايا ( فلاجناح ان يطوف بہما) كوئي حرج نہيں طواف (سعي) انجام ديں جبكہ بت وہاں موجودہوں _

۱۳ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا''ان الصفا و المروة من شعائر الله '' فابدء بما بدء الله تعالى به و ان المسلمين كانوا يظنون ان السعى بين الصفا والمروة شى صنعه المشركون فانزل الله عزوجل ''ان الصفا والمروة من شعائر الله (۴) صفا و مروہ شعائر اللہ ميں سے ہيں پس (سعى )كو وہاں سے شروع كرو جہاں سے اللہ تعالى نے ( آيت كريمہ ميں ) آغاز فرماياہے مسلمانوں كا گمان تھا كہ صفا و مروہ كے مابين سعى كى بنياد ركھنے والے مشركين

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۷۸ باب ۵۹ ح ۱۲۶۶، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۴۸ ح ۴۷۲_ ۲) كافى ج/ ۴ ص ۳۷۹ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۷ ح ۴۶۷_

۳) كافى ج/۴ ص ۴۳۵ ح/۸ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۸ ح ۴۷۱_ ۴) كافى ج/ ۴ ص ۲۴۵ ح ۴_

۵۴۱

ہيں پس اللہ تعالى نے اس آيہ مجيد ہ كو نازل فرمايا''ان الصفا والمروة من شعائر الله ''

۱۴ _ رسول اسلام (ص) فرماتے ہيں'' انما جعل السعى بين الصفا والمروة اقامة لذكر الله لا لغيره'' (۱)

صفا و مروة كے مابين سعى كو يقينا ذكر الہى كے لئے برپا كيا گيا ہے نہ كسى اور مقصد كى خاطر _

۱۵ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا :جعل السعى بين الصفا والمروة مذلة للجبارين (۲)

اللہ تعالى نے صفا و مروة كى سعى كو سركشوں كى ذلت و خوارى كے لئے قرار ديا ہے _

۱۶_(صفا و مروة كے مابين '' ہرولہ'' كے فلسفہ كے بارے ميں ) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''صار السعى بين الصفا و المروة لان ابراہيمعليه‌السلام عرض لہ ابليس فامرہ جبرئيل فشد عليہ فہرب منہ فجرت بہ السنة ( يعنى بالہرولہ)(۳) ابليس حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے سامنے ظاہر ہوا تو جبرييلعليه‌السلام نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو امر كيا كہ اس پر حملہ كريں حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے حملہ كيا تو ابليس فرار كرگيا (حضرت ابراہيمعليه‌السلام اس كے پيچھے بھاگے) پس (صفا و مروة كے مابين ہرولہ) كى سنت قرار دى گئي _

۱۷_عن الحلبى قال سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن المراة تطوف بين الصفا والمروة و هى حائض قال: لا لان الله تعالى يقول ''ان الصفا والمروة من شعائر الله '' (۴) حلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا كيا حائض عورت صفا و مروة كے مابين سعى انجام دے سكتى ہے ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا نہيں كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے '' صفا اور مروة شعائر الہى ميں سے ہيں ''

۱۸_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''ان ابراهيم عليه‌السلام لما خلف اسماعيل بمكة عطش الصبي ...فخرجت امه حتى قامت على الصفا فمضت حتى انتهت الى المروة ...ثم رجعت الى الصفا ...حتى صنعت ذلك سبعاً فاجرى الله ذلك سنة ... (۵) حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے جب حضرت اسماعيلعليه‌السلام كو مكة ميں چھوڑا تو بچے نے شديد پياس محسو س كى پس حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى والدہ (حضرت ہاجرہ پانى كى تلاش ميں ) نكليں اور كوہ صفا پر آكر كھڑى ہوگئيں پھر مروہ پہاڑ كى طرف گئيں اور پھر دوبارہ كو ہ صفا كى طرف لوٹ آئيں يہاں تك كہ يہ عمل انہوں نے سات مرتبہ انجام ديا پس اللہ تعالى نے اس عمل كو ايك سنت قرار دے ديا

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۸۸_ ۲) كافى ج/۴ ص ۴۳۴ ح ۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۸ ح ۴۷۰_ ۳) علل الشرائع ج/ ۲ ص ۴۳۲ ح ۱ باب ۱۶۷ ، بحارالانوار ج/ ۹۶ ص ۲۳۴ ح ۴_ ۴) تہذيب الاحكام ج/ ۵ ص ۳۹۴ ح ۱۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۶۹ ح ۵_ ۵) علل الشرائع ص ۴۳۲ ح / ۱ ب ۱۶۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۵ ح ۴۶۱_

۵۴۲

اجر: اجر كى ضمانت ۹; اجر كے موجبات ۸

احكام : ۲،۵

اسماء اور صفات: شاكر ۴; عليم ۴

اللہ تعالى : علم الہى كے آثار۹; اللہ تعالى كى طرف سے اجر ۸; اللہ تعالى كى شكر گزارى ۳; علم الہى ۷

حاجى : حاجيوں كے اعمال سے آگاہ ہونا ۷

حج: احكام حج ۲،۵،۱۰،۱۳،۱۷; مناسك حج ۲،۵، ۶، ۷

ذكر: ذكر الہى ۱۴

روايت:۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸

شعائر اللہ : ۱،۱۳،۱۷

صفا و مروہ كى سعي: ۲،۵،۶،۷،۸ ،۱۰،۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۷; صدر اسلام ميں صفا و مروہ كى سعى ۶; صفا و مروہ كى سعى كا عبادت ہونا ۲; صفا و مروہ كى سعى كا فلسفہ ۱۵،۱۶،۱۸

عبادت: عبادت كى جگہ ۱

عمرہ: عمرہ كے احكام ۲،۵; عمرہ كے مناسك ۲،۵

عمل: پسنديدہ عمل كا اجر ۸،۹; پسنديدہ عمل ۵،۸; وہ پسنديدہ عمل جو رضاكارانہ انجام ديا جائے ۳

كوہ صفا: ۱

كوہ مروة : ۱

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمان اور شرعى ذمہ دارى ۶

مقدس مقامات: ۱

۵۴۳

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ( ۱۵۹ )

جولوگ ہمارے نازل كئے ہوئے واضح بيانات اورہدايات كو ہمارے بيان كردينے كے بعد بھيچھپاتے ہيں ان پر الله بھى لعنت كرتا ہےاور تمام لعنت كرنے والے بھى لعنت كرتےہيں (۱۵۹)

۱ _ آسمانى كتابوں ميں دينى احكام و معارف ہيں اور انكى حقانيت كے واضح دلائل بھى ان ميں ہيں _ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى نے دينى احكام و معارف اور ان كى حقانيت كے دلائل كو نازل فرمايا اور انہيں آسمانى كتابوں ميں بيان فرمايا _ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب يہاں '' ہدي'' كا معنى ہدايت كرنے والا ہے اور آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد دين كے احكام و معارف ہيں _ '' بينات'' كا معنى واضح اور روشن دلائل ہيں اور آيہ شريفہ ميں مراد وہ دلائل و براہين ہيں جو دينى احكام و معارف كے لئے بيان ہوئے ہيں _

۳ _ تمام انسان آسمانى كتابوں كے مخاطب ہيں اور ان كى ذمہ دارى ہے كہ ان كے احكام و معارف كو سيكھيں _

من بعد ما بيناه للناس

۴ _ آسمانى كتابوں كے حقائق (دينى احكام و معارف اور انكے دلائل ) كى لوگوں كے لئے تعليم و تبليغ كى ذمہ دارى علمائے دين كى ہے _ان الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس

۵ _پيامبر اسلام (ص) اور اسلامى احكام و معارف كى حقانيت كے شواہد و قرائن تو رات و انجيل ميں ہيں _من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب بعض كا خيال ہے كہ ''الكتاب'' سے مراد تورات و انجيل ہيں اور ''البينات والہدى '' سے مراد وہ دلائل و براہين ہيں جو لوگوں كو نبوت اور احكام اسلام كى حقانيت كى طرف راہنمائي كرتے ہيں _ گزشتہ آيات جن ميں تبديلى قبلہ كى

۵۴۴

حقانيت پر پردہ ڈالنے كے بارے ميں بيان ہوا ہے اس احتمال كى تائيد كرتى ہيں _

۶_ زمانہ بعثت كے علمائے يہود و نصارى پيامبر اسلام(ص) اور احكام اسلامى كى حقانيت كے شواہد و قرائن پر پردہ ڈالتے تھے_الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب

۷_ آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردہ ڈالنا اور چھپانا گناہان كبيرہ ميں سے ہے_ان الذين يكتمون ما أنزلنا اولئك يلعنهم الله

۸_ دينى حقائق كو چھپانے والے اللہ تعالى كى لعنت اور اس كى رحمت سے دورى ميں مبتلا ہوں گے_ان الذين يكتمون اولئك يلعنهم الله

۹_ جو لوگ آسمانى كتابوں كے حقائق كو لوگوں سے چھپاتے ہيں ان پر لعنت و نفرين كرنا ضرورى ہے _اولئك يلعنهم اللاعنون فعل '' يلعن'' كا تكرار اللہ تعالى كى طرف سے اور دوسروں كى طرف سے لعنت پر دلالت كرتاہے اللہ تعالى كى طرف سے لعنت كا معنى رحمت سے دور كرنا ہے اور دوسروں كى طرف سے لعنت كا معنى مذمت و نفرين اور اللہ تعالى كى رحمت سے دورى كى درخواست كرنا ہے ان لوگوں كےلئے جن پر لعنت ہے_

۱۰_ علمائے يہو د و نصارى آسمانى كتابوں كے حقائق و معارف كو چھپانے كى وجہ سے اللہ تعالى كى رحمت سے دور ہوگئے ہيں اور لعنت كرنے والوں كى مذمت و نفرين اور لعنت ميں مبتلا ہوئے ہيں _ان الذين يكتمون ما أنزلنا اولئك يلعنهم الله و يلعنهم اللاعنون

۱۱_ رحمت الہى سے دور ہونے ميں لعنت كرنے والوں كى مذمت و لعنت اور ملامت و نفرين كا بنيادى كردار اور اہميت ہے _و يلعنهم اللاعنون

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كو چھپانے كے نتائج و اثرات ۹; آسمانى كتابوں كى اہميت ۹; آسمانى كتابوں كى تبليغ ۴; آسمانى كتابوں كى تعليمات۱،۲; آسمانى كتابوں كا سيكھنا ۳; آسمانى كتابوں كا سكھانا ۴; آسمانى كتابوں كو چھپانا ۷; آسمانى كتابوں كے مخاطبين ۳; آسمانى كتابوں كى اہميت ۱

اسلام: انجيل ميں اسلام ۵; تورات ميں اسلام ۵; صدر اسلام كى تاريخ ۶; اسلام كى حقانيت كے دلائل ۵،۶

اللہ تعالى : رحمت الہى ۸،۱۰،۱۱

۵۴۵

انجيل : انجيل كى تعليمات ۵

انسان: انسانوں كى شرعى ذمہ دارياں ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كے دلائل ۵،۶; پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۵; پيامبر اسلام تورات ميں ۵

تورات: تورات كى تعليمات ۵

حق: حق چھپانے كے آثار۸،۱۰; حق چھپانے والے ۱۰; حق چھپانے والوں پر لعنت ۹

دين: تبليغ دين ۴; دين كى حقانيت كے دلائل ۱،۲; دين كا وحى ہونا ۲

رحمت : رحمت سے محروم لوگ ۸،۱۰; رحمت سے محروم ہونا ۱۱

علماء : علمائے دين كى ذمہ دارى ۴

علمائے يہود: علمائے يہود اور حق كا چھپانا ۶،۱۰; علمائے يہود پر لعنت ۱۰

عيسائي: صدر اسلام كے عيسائي ۶

عيسائي علماء : عيسائي علماء اور حق كا چھپانا ۶،۱۰; عيسائي علماء پر لعنت ۱۰

گناہان كبيرہ : ۷

لعنت: لعنت كے اثرات و نتائج ۱۱; جن لوگوں پر لعنت ہوتى ہے ۸،۹،۱۰; لعنت كے موجبات ۹

يہود: صدر اسلام كے يہود ۶

۵۴۶

إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۱۶۰ )

علاوہ ان لوگوں كے جو توبہكرليں اور اپنے كئے كى اصلاح كرليں اورجس كو چھپايا ہے اس كو واضح كرديں تو ہمان كى توبہ قبول كرليتے ہيں كہ ہم بہترينتوبہ قبول كرنے والے اور مہربان ہيں (۱۶۰)

۱ _ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے والے اگر تو بہ كريں تو اللہ تعالى كى لعنت سے نجات حاصل كرسكتے ہيں اوراسكى رحمت كے مستحق ہوسكتے ہيں _اولئك يلعنهم الا الذين تابوا

۲ _ گناہوں سے توبہ، ان كے مفاسد اور برے نتائج كى اصلاح كرنا منقطع رحمت كے دوبارہ برقرار ہونے كا سبب ہے _اولئك يلعنهم الله ...الا الذين تابوا و اصلحوا فاولئك اتوب عليهم

۳ _ توبہ كى قبوليت كى شرائط ميں سے ايك يہ ہے كہ ان مفاسد كى اصلاح كى جائے جو دينى حقائق كو چھپانے سے پيدا ہوئے ہيں نيز ان حقائق كو بيان كيا جائے_الاالذين تابوا و اصلحوا و بينوا فاولئك اتوب عليهم

۴ _ دينى حقائق پر پردہ ڈالنا اور آسمانى كتابوں كے معارف كو چھپانا فساد كا باعث ہے_الا الذين تابوا و اصلحوا

۵ _ آسمانى كتابوں كے معارف و حقائق درك كرنے اور ان پر ايمان لانے سے لوگوں كو روكنا فساد برپا كرنا ہے _

الا الذين تابوا و اصلحوا

۶ _ گناہگاروں پر اللہ تعالى كى لعنت انكى توبہ كى توفيق سلب ہونے كى باعث نہيں ہے_اولئك يلعنهم الله الا الذين تابوا و اصلحوا و بينوا

۷_ اللہ تعالى گناہگاروں كى توبہ اس صورت ميں قبول فرمائے گا كہ مفاسد و برائيوں كى تلافى كريں _الا الذين تابوا و اصلحوا و بينوا فاولئك اتوب عليهم

۸_دينى حقائق كو چھپانے والے اگر توبہ كريں اور گزشتہ اعمال كى تلافى كريں تو ان پر نفرين نہيں كرنى چاہيئے اور نہ ہى رحمت الہى سے ان كى دورى كى دعا كرنى چاہيئے_و يلعنهم اللاعنون_ الا الذين تابوا و اصلحوا و بينوا

۹_ اللہ تعالى تواب ( بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے _و انا التواب الرحيم

۱۰_ اللہ تعالى كا توبہ قبول كرنا اسكى رحمت كا ايك جلوہ ہے_فاولئك اتوب عليهم و انا التواب الرحيم

۵۴۷

۱۱ _ اللہ تعالى ان كى توبہ قبول فرمائے گا جنہوں نے بارہا اپنى توبہ توڑي_و انا التواب الرحيم

توبہ كى قبوليت كو صيغہ مبالغہ ( توّاب_ بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) كے ساتھ بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ گناہ جتنے بھى بڑے ہوں اللہ تعالى ان سب كى بخشش فرمائے گا يا پھر اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ توبہ كو توڑنا اس امر ميں ركاوٹ كا باعث نہيں كہ دوبارہ توبہ قبول نہ ہو مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كا چھپانا ۴; آسمانى كتابوں كے درك اور سمجھنے سے روكنا ۵

احكام:۸

اسماء اور صفات: تواب۹; رحيم ۹

اصلاح: اصلاح كے اثرات ۷،۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى لعنت كے نتائج ۶; توبہ الہى ۱۰،۱۱; اللہ تعالى كى لعنت ۶; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۱۰; اللہ تعالى كى لعنت سے نجات ۱

ايمان: آسمانى كتابوں پر ايمان لانے سے منع كرنا ۵

توبہ: توبہ كے نتائج ۱،۲،۸; توبہ توڑنے والے ۱۱; توبہ كى توفيق سلب ہونا ۶; توبہ كى قبوليت كى شرائط ۳،۷; توبہ كا قبول ہونا ۱۰،۱۱; توبہ كى ركاوٹيں ۶

حق : حق كو چھپانے كے آثار۴; حق كو چھپانے كے مفاسد كى اصلاح ۳; حق چھپانے والوں كى توبہ ۱،۳،۸; حق چھپانے والوں پر لعنت ۸

دين : دينى حقائق كا اظہار ۳

۵۴۸

رحمت : جن لوگوں كے رحمت شامل حال ہوتى ہے ۱; رحمت كے موجبات ۱،۲

فساد بر پاكرنا: فساد برپا كرنے كے موارد ۴،۵

گناہ : گناہ كے مفاسد كى اصلاح ۲

گناہ گار: گناہگاروں پر لعنت ۶

لعنت : لعنت كے احكام ۸; جن لوگوں پر لعنت ہوتى ہے ۶

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( ۱۶۱ )

جو لوگ كافر ہوگئے اور اسى حالتكفر ميں مرگئے ان پر الله ملائكہ اور تمامانسانوں كى لعنت ہے (۱۶۱)

۱ _ وہ كفار جو حالت كفر ميں مرتے ہيں اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوں گے اور ان پر فرشتوں كى لعنت و نفرين ہوگي_

ان الذين كفروا و ماتوا وهم كفار اولئك عليهم لعنة الله والملائكه والناس اجمعين

۲ _ دينى احكام و معارف اور آسمانى كتابوں كے حقائق پر پر دے ڈالنا كفر اختيار كرنا ہے _ان الذين يكتمون ما أنزلنا ان الذين كفروا و ما توا وهم كفار ''ان الذين يكتمون'' كے بعد اس جملہ '' ان الذين كفروا '' كو بغير كسى فاصلہ ( مثلاً حرف واو) كے لانا اس معنى كو بيان كرتاہے كہ ''الذين كفروا'' وہى حق كو چھپانے والے لوگ ہيں يا يہ كہ حق كو چھپانے والے كفا ر كے مصاديق ميں سے ہيں _ بہر حال دونوں صورتوں ميں يہ معنى نكلتاہے كہ دينى حقائق كو چھپانا كفر ہے _

۳ _قيامت كے دن وہ كفار جو حالت كفر ميں مرے ہيں ان پر فرشتے اور تمام انسان لعنت بھيجيں گے اور دعاكريں گے كہ ان كو رحمت الہى سے دور ركھا جائے_اولئك عليهم لعنة الله والملائكة والناس اجمعين

لوگوں كے لعنت بھيجنے كا معنى يہ ہے كہ وہ دعا كريں كہ ملامت شدہ اور نفرين شدہ انسانوں كو رحمت سے دور ركھا جائے_

۴ _ مرنے كے بعد توبہ و پشيمانى قبول نہ ہوگى اور نہ ہى

۵۴۹

اسكا كوئي نتيجہ نكلے گا_الا الذين تابوا ان الذين كفروا و ماتوا وهم كفار اولئك عليهم لعنة الله

''كفروا'' كى جملہ'' و ماتوا و ہم كفار'' كے ساتھ تقييد در اصل توبہ كى قبوليت كے وقت يا مہلت كا خاتمہ ہے_ يعنى مرنے كے بعد پشيمانى مفيد نہ ہوگى _

۵ _ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے والے دنيا ميں اور آخرت ميں بھى اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوں گے _

اولئك يلعنهم الله اولئك عليهم لعنة الله آيت ۱۵۹ ميں جملہ ''اولئك يلعنھم اللہ''، '' الا الذين تابوا ...'' كے قرينہ سے حكايت كرتاہے كہ حقائق كو چھپانے والے دنيا ميں اللہ تعالى كى لعنت كا شكار ہوں گے جبكہ جملہ ''اولئك عليہم لعنة اللہ'' ''ماتواو ہم كفار'' كے قرينے سے حكايت كررہاہے كہ آخرت ميں بھى ان پر اللہ تعالى كى لعنت ہوگى _

۶_ انسانوں اور ان كے اعمال كے ساتھ فرشتوں كا گہرا رابطہ ہے _اولئك عليهم لعنة الله والملائكة

۷_ گناہگاروں كے رحمت الہى سے دور ہونے ميں فرشتوں اور انسانوں كى دعا و نفرين مؤثر ہيں _اولئك عليهم لعنة الله والملائكة والناس اجمعين

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كا چھپانا ۲

اللہ تعالى : آخرت ميں اللہ تعالى كى لعنت ۵; اللہ تعالى كى لعنت ۱; دنيا ميں اللہ تعالى كى لعنت ۵; رحمت الہى كى ركاوٹيں ۷

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۳

توبہ : بے اثر توبہ ۴; مرنے كے بعد توبہ ۴; توبہ كى فرصت ۴

حق : حق كو چھپانے والوں پر لعنت ۵

دعا: دعا كے اثرات و نتائج ۷

دين: دين كو چھپانے كے نتائج ۲; دين كو چھپانا ۵

رحمت : رحمت سے محروميت ۷

كفر: كفر كے اثرات و نتائج ۱; كفر كے موارد ۲

كفار: كفار پر لعنت ۳

۵۵۰

گناہ : گناہ سے پشيمانى ۴

گناہ گار لوگ: گناہگاروں كا محروم ہونا ۷

لعنت : لعنت كے نتائج ۷; جن لوگوں پر لعنت ہوتي

ہے۱،۵،۷; لعنت كے موجبات ۳

لوگ: لوگوں كى لعنت ۳،۷

موت: كفر كے ساتھ مرنے كے نتائج ۱،۳

ملائكة: ملائكة كى لعنت ۱،۳،۷; ملائكة اور انسان ۶; ملائكہ اور انسانى عمل ۶

خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ ( ۱۶۲ )

وہ اسى لعنتميں ہميشہ رہيں گے كہ نہ ان كے عذاب ميں تخفيف ہوگى اور نہ انھيں مہلت دى جائے گي(۱۶۲)

۱_جو لوگ كافر ہو كے مرتے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوں گے_اولئك عليهم لعنة الله خالدين فيها ظاهراً '' فيہا'' كى ضميرگذشتہ آيت ميں '' لعنة اللہ ...'' كى طرف لوٹتى ہے _

۲ _ دينى حقائق كو چھپانے والے اگر توبہ كيئے بغير مرجائيں تو ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى لعنت كا شكار ہوں گے _

ان الذين يكتمون اولئك عليهم لعنة الله ...خالدين فيها

۳ _ وہ كفار جو توبہ كيئے بغير مرجاتے ہيں آخرت ميں ہميشہ كے لئے عذاب الہى سے دوچار ہوں گے _خالدين فيها لا يخفف عنهم العذاب

۴ _ وہ لوگ جو دينى احكام و معارف اور آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردے ڈالتے ہيں ہميشہ كے لئے عذاب اخروى ميں مبتلا ہوں گے _ان الذين كفروا و ما توا خالدين في ها لا يخفف عنهم العذاب

۵ _ كفار اور حقائق پر پردے ڈالنے والوں كے اخروى عذاب ميں تخفيف يا كمى نہيں كى جاسكتى _لا يخفف عنهم العذاب

۵۵۱

۶ _ اخروى عذاب الله تعالى كى لعنت اور اسكى رحمت سے دورى كا ايك جلوه هے _اولئك علي هم لعنة الل هخالدين في ها لا يخفف عن هم العذاب

''خالدين فيہا'' كے بعد جملہ ''لا يخفف عنھم العذاب'' كا لانا اس مطلب كو بيا ن كررہاہے كہ قيامت ميں لعنت الہى كا اثر دوزخ كا عذاب ہے _

۷_ دينى حقائق اور آسمانى كتابوں كے معارف كو چھپانا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _خالدين فيها لا يخفف عنهم العذاب

حقائق چھپانے والوں كا ہميشہ كے لئے رحمت الہى سے دور رہنا اور كم نہ ہونے والے عذاب ميں مبتلا ہونا اس امر كى حكايت كرتاہے كہ حقائق پر پردہ ڈالنا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _

۸_ كفار اور دينى حقائق پر پردہ ڈالنے والوں كا اخروى عذاب مرنے كے بعد شروع ہوجائے گا اور اس ميں تاخير بالكل نہ ہوگى _و لا هم ينظرون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ينظرون'' باب افعال سے فعل مجہول ہو اسكا مصدر '' انظار _ مہلت دينا'' ہے _ ''و ماتوا و ہم كفار'' كے قرينہ سے مہلت نہ دينے سے مراد يہ ہے كہ عذاب مرنے كے فوراً بعد شروع ہوجائے گا_

۹_ كفار اور دينى حقائق چھپانے والوں پر قيامت ميں اللہ تعالى نظر رحمت نہ ڈالے گا_و لا هم ينظرون

اس مطلب ميں فعل مجہول ''ينظرون'' ، ''نظر'' سے ليا گيا ہے جسكا معنى ہے ديكھنا پس ''و لا ہم ينظرون'' يعنى ان پر نظر رحمت نہ ڈالے گا_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں پر پردے ڈالنے والوں كا عذاب ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنا ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كا گناہ ۷

اللہ تعالى : آخرت ميں رحمت الہى ۹; اللہ تعالى كے عذاب ۳; اللہ تعالى كى ابدى لعنت ۱،۲; اللہ تعالى كى لعنت كے مظاہر۶

توبہ : توبہ كے نتائج ۲،۳

حق : حق كو چھپانے والوں كا اخروى عذاب ۵،۸; قيامت ميں حق كو چھپانے والے ۹; حق كو چھپانے والوں كا گناہ ۷; حق چھپانے والوں پر لعنت ۲

۵۵۲

دين: دين كو چھپانے كے نتائج ۲; دين كو چھپانے والوں كا اخروى عذاب ۴،۸; دين كو چھپانے والوں كى محروميت ۹

رحمت : رحمت سے محروم لوگ ۹; رحمت سے محروميت ۶

عذاب: عذاب ميں تاخير ۸; عذاب ميں كمى ۵; عذاب ميں ہميشگى ۳،۴; اخروى عذاب ۶; عذاب كے درجات ۵; عذاب كے موجبات ۳،۴

كفار: كفار كا اخروى عذاب ۳،۵،۸;كفار كا برزخى عذاب۸; كفار قيامت ميں ۹; كفار پر لعنت ۱; آخرت ميں كفار كى محروميت ۹

گناہان كبيرہ: ۷

لعنت : جن پر لعنت ہوتى ہے ۱،۲

موت: كفر كے ساتھ مرنے كے نتائج ۱; بغير توبہ كے مرنے كے نتائج ۲،۳;كفر كى موت مرنا ۳

وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ( ۱۶۳ )

اور تمھارا خدا بس ايك ہے _ اس كےعلاوہ كوئي خدا نہيں ہے دى رحمان بھى ہےاور وہى رحيم بھى ہے (۱۶۳)

۱ _ سب انسانوں كا حقيقى معبود و احد، يگانہ و يكتاہے_و الهكم اله واحد

۲ _ اللہ تعالى كے علاوہ معبود حقيقى وجود ہى نہيں ركھتا _لا اله الا هو

۳ _ اللہ تعالى رحمان (انتہائي وسيع رحمت والا) اور رحيم (مہربان) ہے _هو الرحمن الرحيم

۴ _ اللہ تعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل اسكى رحمانيت و رحيميت ہے _الهكم اله واحد لا اله الا هو الرحمن الرحيم اللہ تعالى كى عبادت كے لازم و ضرورى ہونے كا ذكر كرنے كے بعد اسكى صفات رحمت و رحيم كا ذكر كرنا بندگى كى دليل بيان كرنے كيلئے ہے _

۵۵۳

۵ _ اللہ تعالى كى وحدانيت و يگانگت پر يقين اور اس پر يقين كہ اسكے سوا كوئي معبود نہيں ہے انسان كو معارف الہى اور آسمانى كتابوں كے حقائق چھپانے سے روكتاہے _*ان الذين يكتمون ما أنزلنا و الهكم اله واحد لا اله الا هو

يہ مطلب اور بعد والے مطالب اس آيہ مجيدہ كے گزشتہ آيات كے ساتھ ارتباط كى وجہ كو بيان كررہے ہيں _

۶ _ انسان كا شرك اور غير خدا كى عبادت كى طرف رجحان ان عوامل ميں سے ہے جو اسكو دينى حقائق اور آسمانى كتابوں كے معارف چھپانے پر ترغيب دلاتے ہيں _*ان الذين يكتمون ما أنزلنا و الهكم اله واحد لا اله الا هو

۷ _ اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت گناہگاروں كى توبہ قبول كرنے كى ضامن ہے _*لا اله الا هو الرحمن الرحيم

۸ _''ان اعرابياً قام يوم الجمل الى امير المؤمنين عليه‌السلام فقال يا امير المومنين عليه‌السلام اتقول ان الله واحد؟ قال عليه‌السلام يا اعرابى ان القول فى ان الله واحدعلى اربعةاقسام فوجهان منها لايجوزان على الله عزوجل و وجهان يثبتان فيه _فاما اللذان لا يجوزان عليه قول القائل واحد يقصد به باب الاعداد فهذا مالا يجوز فقول القائل هو واحد من الناس يريد النوع من الجنس ...واما الوجهان اللذان يثبتان فيه قول القائل هو واحد ليس له فى الاشياء شبه كذلك ربنا وقول القائل احدى المعنى يعنى به لا ينقسم فى وجود ولاعقل ولاوهم كذلك ربنا عزوجل (۱) جنگ جمل ميں ايك اعرابى امير المومنينعليه‌السلام كى خدمت ميں آيا اور حضرتعليه‌السلام سے سوال كيا كيا آپعليه‌السلام كہتے ہيں '' اللہ واحد ہے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا يہ كہنا'' اللہ واحد ہے'' اسكى چار قسميں ہيں جن ميں دو اقسام اللہ رب العزت كى ذات اقدس پر جائز نہيں ہيں اور ديگر دو اقسام اسكے لئے ثابت ہيں وہ صورتيں جو جائز نہيں ہيں ايك يہ كہ واحد سے مراد واحد عددى ہو تو يہ جائز نہيں اور دوسرے واحد سے مراد واحد نوعى ہو تويہ بھى جائز نہيں ليكن دو وجہيں جو جائز ہيں وہ يہ كہ ہم كہيں واحد يعنى اسكے كوئي مشابہ نہيں اسكى مثل و نظير نہيں يا يہ كہيں احدى المعنى مراد ہے يعنى اسكى ذات كے لئے نہ تو كوئي وجود ميں ، نہ عقل ميں اور نہ ہى وہم ميں كسى طرح كوئي تقسيم نہيں ہوسكتى ہمارارب ذوالجلال اسى طرح ہے _

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كے اسباب ۶; آسمانى كتابوں كو چھپانے كے موانع ۵

اسماء اور صفات: رحمان ۳; رحيم ۳

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۵ ح ۲ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۷۱ ح ۴_

۵۵۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رحمانيت كے اثرات ۷; اللہ تعالى كى رحيميت كے اثرات ۷; اللہ تعالى كے مختصات ۲; اللہ تعالى كا توبہ قبول كرنا ۷; اللہ تعالى كى رحمانيت ۴; اللہ تعالى كى رحيميت ۴; اللہ تعالى كى وحدانيت ۸

انسان: انسانوں كا معبود ۱

ايمان: توحيد عبادى پرايمان كے اثرات ۵;

ترغيبت: ترغيب كے عوامل ۶

توبہ : توبہ كى قبوليت ۷

توحيد : توحيد عبادى ۱،۲; توحيد عبادى كے دلائل ۴

حق : حق كو چھپانے كے موانع ۵

دين: دين پر پردہ ڈالنے كے عوامل ۶

روايت :۸

شرك : شرك كے نتائج ۶

عبادت: خداوند تعالى كى بندگى كے دلائل ۴

گناہگار: گناہگاروں كى توبہ ۷

نظريہ كائنات (جان بيني): توحيدى نظريہ كائنات ۱; نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۵

۵۵۵

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ( ۱۶۴ )

بيشك زمين وآسمان كى خلقت روز و شب كى رفت و آمد _ان كشتيوں ميں جو درياؤں ميں لوگوں كےفائدہ كے لئے چلتى ہيں اور اس پانى جسےخدا نے آسمان سے نازل كركے اس كے ذريعہمردہ زمينوں كو زندہ كرديا ہے اور اس ميں طرح كے چوپائے پھلاديئے ہيں اور ہواؤں كےچلانے ميں اور آسمان و زمين كے در ميانمسخر كئے جانے والے بادل ميں صاحبان عقلكے لئے الله كى نشانياں پائي جاتى ہيں (۱۶۴)

۱ _ زمين و آسمان ( عالم ہستى ) كا بنانے والا خدائے واحد و يكتاہے _ان فى خلق السماوات والأرض

۲ _ عالم خلقت ميں متعدد آسمان ہيں _ان فى خلق السماوات

۳_ آسمانوں اور زمين كى خلقت ميں توحيد كى نشانياں اور علائم ہيں اور يہ تخليقات اللہ تعالى كى رحمانيت و رحيميت كى دليل ہے _لا اله الا هو الرحمن الرحيم ان فى خلق السماوات والأرض لايات ما قبل آيت كے قرينہ سے يہ آيہ مجيدہ اللہ تعالى كى توحيد، رحمانيت اور رحيميت پر استدلال كررہى ہے اس اعتبار سے '' آيات'' سے مراد اللہ تعالى كى توحيد اور انتہائي وسيع رحمت كى نشانياں اور علامتيں ہيں _

۴ _ ليل و نہار كا آنا جانا اللہ تعالى كى توحيد، اسكى رحمانيت اور رحيميت كے دلائل ميں سے ہے_لا اله الا هو الرحمن الرحيم _ ان فى

۵۵۶

اختلاف الليل والنهار لايات

'' اختلاف'' كا معنى آنا جاناہے يا كسى چيز كے كسى دوسرى چيز كے مقام پر آنا، قائم مقام ہونے كا معنى بھى ديتاہے _ نيز عدم تساوى كے معنى ميں بھى آياہے_ مذكورہ بالا مطلب پہلے دو معانى كى بناپر ہے _

۵ _ شب و روز كا اختلاف ( ان كے چھوٹے بڑے ہونے ميں تفاوت )توحيد كے دلائل اور اللہ تعالى كى رحمانيت و رحيميت كو بيان كررہاہے_لا اله الا هو الرحمن الرحيم _ ان فى اختلاف الليل والنهار ...لآيات

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' اختلاف '' كا معنى آيہ مجيدہ ميں عدم تساوى ہو _

۶ _ انسانوں كے فائدے اور منافع كے لئے سمندر ميں كشتى ( يا بحرى جہاز) كى حركت اللہ تعالى كى توحيد اور اس كى انتہائي وسيع رحمت كے دلائل ميں سے ہے_ان فى الفلك التى تجرى فى البحر بما ينفع الناس لآيات

''بما ينفع'' ميں '' ما'' ممكن ہے موصولہ ہو تو اس صورت ميں '' بائ'' مصاحبت كے لئے ہوگى _ بنابريں '' التى تجرى ...'' يعنى وہ كشتياں جو سمندر ميں حركت كرتى ہيں اور ان ميں (مال تجارت و غيرہ ) ہوتاہے لوگوں كے لئے نفع بخش ہيں البة ''ما'' مصدريہ بھى ہوسكتى ہے اس صورت ميں ''بائ'' سببيت كے لئے ہوگى يعنى وہ كشتياں جو انسانوں كو نفع دينے كے لئے سمندر ميں حركت كرتى ہيں _

۷_ عالم ہستى كے تمام تر فعل و انفعالات حتى انسانى ايجادات بھى خدا تعالى كى طرف سے ہيں اور اس كى توحيد اور وسيع رحمت كى علامت ہيں _ان فى الفلك التى تجرى فى البحر بما ينفع الناس كشتياں جو انسان كى بنائي ہوئي ہيں خداوند متعال نے ان كو اپنى توحيد اور رحمت كے لئے دليل و نشانى قرار ديا ہے يہ مطلب اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ تمام تر موجودات حتى بشر كى بنائي ہوئي اشياء بھى من جانب اللہ ہيں _ اگر لفظ ''الفلك'' ''السماوات''پر عطف ہو تو لفظ ''خلق'' ''الفلك'' كى طرف بھى مضاف ہوگا ہو تو مذكورہ مطلب زيادہ واضح اور روشن ہوجاتاہے_

۸_ باران رحمت كو نازل كرنے والا اللہ تعالى ہے _و ما انزل الله من السماء من ماء

۹ _ زمين پر موجود پانيوں كا منبع اورسرچشمہ آسمان ہے_و ما انزل الله من السماء من ماء

۱۰_ آسمان سے پانى نازل كرنا اور اس سے زمين كو زندہ كرنا اللہ تعالى كى توحيد اور اسكى انتہائي و سيع رحمت كے دلائل ميں سے ہے _ان فى ما انزل الله من السماء من ماء فاحيا به الأرض لآيات

۱۱ _ بے آب و گياہ زمين مردہ ہے اور اسكى زندگى اس پر پودوں كا اگنا ہے _فاحيا به الأرض بعد موتها ''

۵۵۷

احيائے ا رض ''_( زمين كو زندہ كرنا ) سے مراد اس پر درختوں اور پودوں كو پيدا كرنا ہے _

۱۲ _ بارش زمين پر زندگى اور متحرك مخلوقات كى پيدائش كا سبب ہے _فاحيا به الأرض بعد موتها و بث فيها من كل دابة ''بث''كا معنى ہے پراكندہ كرنا، منتشر كرنا، پھيلانا_ آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد متحرك مخلوقات كى مختلف انواع و اقسام كو پيدا كرنا ، ان ميں ولادت اور نسل كے عمل سے انہيں زيادہ كرنا اور زمين پر پھيلا ناہے ''بث فيہا'' ممكن ہے ''احيا '' پر عطف ہو تو اس صورت ميں ''انزل من السمائ'' پرمتفرع ہوگا_ اور اس كا مطلب يوں ہوگا كہ حيوانات كے وجود ميں آنے كا سبب آسمان سے نازل ہونے والا پانى ہے _

۱۳ _اللہ تعالى زمين كو زندہ كرنے والا، اس پر زندہ موجودات كا پيدا كرنے والا اور روئے زمين پر ان كو پھيلانے والا ہے _فاحيا به الأرض و بث فيها من كل دابة

۱۴ _ زمين پر ہر جگہ انواع و اقسام كى متحرك مخلوقات كا وجود اللہ تعالى كى توحيد اور اسكى انتہائي وسيع رحمت كے دلائل و علامتوں ميں سے ہے _و بث فيها من كل دابة لايات

۱۵ _ ہواؤں كا چلنا اور انكا ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل ہونا اللہ تعالى كى توحيد اور اسكى رحمت آفرينى كے دلائل و علائم ميں سے ہے _ان فى و تصريف الرياح لآيات '' تصريف'' كا معنى ايك جہت سے دوسرى جہت ميں لوٹاناہے_

۱۶_ بارش برسانے والے بادل اللہ تعالى كى توحيد اوراسكى انتہايى وسيع رحمت كى نشانيوں اور دلائل ميں سے ہيں _

ان فى السحاب المسخر بين السماء والأرض لآيات '' سحابة'' كى جمع ''سحاب'' ہے جسكا معنى بارش برسانے والا بادل ہے (لسان العرب)

۱۷_ آسمان و زمين كے مابين بادل اللہ تعالى كے تسخير شدہ اور فرماں بردار ہيں _والسحاب المسخر بين السماء والارض ''سخر'' كا مصدر''تسخير'' ہے جسكا معنى كسى شخص يا چيز كو اطاعت پرمجبور كرناہے_

۱۸_ جہان خلقت كى كيفيت ( اس كے اجزاء كا ايك دوسرے سے ارتباط اور پيوند، ان كى ہم آہنگى اور ان ميں موجود ہدف ) يہ سب ايك ہى خالق كى حكايت كرتے ہيں _ان فى خلق السماوات والأرض لآيات لقوم يعقلون

آيہ مجيدہ چونكہ توحيد پرا ستدلال بيان كررہى ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' يعقلون'' كا محور يہ امور ہيں عالم ہستى كى ايك چيز كے اجزا كا ايك

۵۵۸

دوسرے سے پيوند و ارتباط اور پھر چيزوں كا ايك دوسرے كے ساتھ پيوند و ارتباط اور انكا با ہدف ہونا_ يہ پيوند و ارتباط اور باہدف ہونا ايك ہى خالق و منتظم كى حكايت كرتاہے_

۱۹_ عالم ہستى سے اللہ تعالى كى توحيد، رحمانيت اور رحيميت كا نتيجہ نكالنا اس ميں غور و فكر كرنے سے ممكن ہے _

ان فى خلق السماوات لآيات لقوم يعقلون

۲۰_ شرك اختيار كرنا اور توحيد تك نہ پہنچنا فكر و تدبر نہ كرنے اور جہان ہستى كے پيوند و ہم آہنگى كو درك نہ كرنے كى دليل اور علامت ہے _ان فى خلق السماوات والأرض لآيات لقوم يعقلون

۲۱ _ اللہ تعالى كى توحيد تك پہنچنے اور اسكى رحمانيت و رحيميت كو درك كرنے كے لئے عالم خلقت كے موجودات اور مظاہر ميں تفكر كرنا ضرورى ہے _ان فى خلق السماوات والأرض لآيات لقوم يعقلون آسمان: آسمانوں كا متعدد ہونا ۲; آسمانوں كا خالق ۱; آسمان كى خلقت ۳; آسمان كے فوائد ۹

آيات الہى : آفاقى آيات ۱۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۱; افعال الہى ۸،۱۳; حاكميت الہى ۱۷; اللہ تعالى كى خالقيت ۱،۱۳; خداشناسى كے دلائل ۱۹; اللہ تعالى كى رحمانيت كے دلائل ۳،۴،۵; اللہ تعالى كى رحيميت كے دلائل ۳،۴،۵; اللہ تعالى كى رحمانيت كو در ك كرنے كى بنياد۲۱; رحيميت كو درك كرنے كى بنياد۲۱; رحمت الہى كے مظاہر ۶،۷،۱۰، ۱۴، ۱۵ ، ۱۶

انسان: انسان كے فائدے اور منافع ۶

ايجادات: ايجادات كا سرچشمہ ۷

ايمان: توحيد پر ايمان كى بنياد۱۹،۲۱; اللہ تعالى كى رحمانيت پر ايمان كى بنياد ۱۹; اللہ تعالى كى رحيميت پر ايمان كى بنياد۱۹

بادل: بارش برسانے والے بادل ۱۶; بادلوں كى تسخير ۱۷

بارش: بارش كے فوائد ۱۰،۱۲; بارش كا منبع ۸

پاني: پانى كا منبع ۹

پودے: پودوں كا اگنا ۱۱

۵۵۹

تعقل: تعقل كى اہميت ۲۱; خلقت ميں تعقل ۱۹،۲۰; موجودات كى خلقت ميں تعقل ۲۱; خلقت ميں تعقل كا فلسفہ ۲۱; تعقل نہ كرنے كى علامتيں ۲۰

توحيد : توحيد كے دلائل ۳،۴،۵،۶،۷ ،۱۰،۴ ۱،۱۵ ، ۱۶;توحيد افعالى كے دلائل ۱۸

خلقت: عالم خلقت كا خالق ۱،۱۸; عالم خلقت ميں تبديليوں كا سرچشمہ ۷; عالم خلقت كا نظام ۱۸،۲۰; عالم خلقت كا باہدف ہونا ۱۸; عالم خلقت كے اجزاء كى ہم آہنگى ۱۸،۲۰

دليل نظم: ۱۸

رات:

شب و روز ميں تفاوت ۵; شب و روز كى گردش ۴

زمين: زمين كو زندہ كرنا ۱۰; زمين كا خالق ۱; زمين كى تخليق ۳; مردہ زمين ۱۱;زمين كى زندگى كے اسباب ۱۲; زمين كى زندگى كا معيار ۱۱; زمين كى زندگى كا منبع ۱۳

شرك : شرك كے عوامل ۲۰

كشتى : كشتى كى سمندر ميں حركت ۶; كشتياں چلانے كے فوائد ۶

متحرك موجود ات: متحرك موجودات كى انواع و اقسام ۱۴; متحرك موجودات كى پيدائش كا منبع ۱۲،۱۳

موجودات: موجودات كى تخليق ۱۳

ہوا: ہوا كا چلنا ۱۵

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785