تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200947 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے''ان الصفا والمروة من شعائر اللہ فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليہ ان يطوف بہما'' كيا تم نہيں ديكھتے كہ صفا و مروة كا طواف ( سعى ) واجب ہے كيونكہ اللہ تعالى نے ا سے اپنى كتاب ميں تشريع فرمايا اور اسے اللہ كے بنى عليہ الصلوة والسلام نے بھى انجام ديا ہے(۱)

۱۱ _ عبيد بن زرارة كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ''السعى سنة من رسول الله قلت اليس الله يقول '' ان الصفا و المروة من شعائر الله قال بلى لكن قد قال فيهما'' و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم'' فلوكان السعى فريضة لم يقل و من تطوع خيراً ''(۲)

(صفا و مروة كى ) سعى رسول اللہ (ص) كى سنت ہے تو ميں نے كہا _ كيا اللہ تعالى نہيں فرمايا '' ان الصفا والمروة من شعائر اللہ ''؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ہاں ايسا ہى ہے ليكن يہ بھى تو فرماياہے _'' و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم'' پس اگر صفا ومروة كى سعى فرض ہوتى تو نہ فرماتا''و من تطوع خيراً (جو كوئي اسے رضا كارانہ انجام دے _)

۱۲ _ امام صادقعليه‌السلام كے بعض اصحاب كہتے ہيں كہ حضرتعليه‌السلام سے صفا و مروة كے مابين سعى كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''...كان ذلك فى عمرة القضاء ان رسول الله (ص) شرط عليهم ان يرفعواالاصنام من الصفاء والمروة فقالوا يا رسول الله (ص) ان فلانا ً لم يسع بين الصفا والمروة و قد اعيدت الاصنام فانزل الله عزوجل '' فلا جناح عليه ان يطوف بهما'' اى و عليهما الاصنام ''(۳) (لا جناح كا شان نزول) عمرة القضا كے بارے ميں تھا جو رسول اللہ (ص) نے مشركين كو شرط لگائي كہ بتوں كو صفا و مروة سے اٹھاليں انہوں نے عرض كيا يا رسول اللہ (ص) فلاں شخص نے صفا و مروة كے مابين سعى انجام نہيں دى جبكہ بتوں كو وہيں پلٹا ديا گياہے پس اللہ تعالى نے فرمايا ( فلاجناح ان يطوف بہما) كوئي حرج نہيں طواف (سعي) انجام ديں جبكہ بت وہاں موجودہوں _

۱۳ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا''ان الصفا و المروة من شعائر الله '' فابدء بما بدء الله تعالى به و ان المسلمين كانوا يظنون ان السعى بين الصفا والمروة شى صنعه المشركون فانزل الله عزوجل ''ان الصفا والمروة من شعائر الله (۴) صفا و مروہ شعائر اللہ ميں سے ہيں پس (سعى )كو وہاں سے شروع كرو جہاں سے اللہ تعالى نے ( آيت كريمہ ميں ) آغاز فرماياہے مسلمانوں كا گمان تھا كہ صفا و مروہ كے مابين سعى كى بنياد ركھنے والے مشركين

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۷۸ باب ۵۹ ح ۱۲۶۶، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۴۸ ح ۴۷۲_ ۲) كافى ج/ ۴ ص ۳۷۹ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۷ ح ۴۶۷_

۳) كافى ج/۴ ص ۴۳۵ ح/۸ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۸ ح ۴۷۱_ ۴) كافى ج/ ۴ ص ۲۴۵ ح ۴_

۵۴۱

ہيں پس اللہ تعالى نے اس آيہ مجيد ہ كو نازل فرمايا''ان الصفا والمروة من شعائر الله ''

۱۴ _ رسول اسلام (ص) فرماتے ہيں'' انما جعل السعى بين الصفا والمروة اقامة لذكر الله لا لغيره'' (۱)

صفا و مروة كے مابين سعى كو يقينا ذكر الہى كے لئے برپا كيا گيا ہے نہ كسى اور مقصد كى خاطر _

۱۵ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا :جعل السعى بين الصفا والمروة مذلة للجبارين (۲)

اللہ تعالى نے صفا و مروة كى سعى كو سركشوں كى ذلت و خوارى كے لئے قرار ديا ہے _

۱۶_(صفا و مروة كے مابين '' ہرولہ'' كے فلسفہ كے بارے ميں ) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''صار السعى بين الصفا و المروة لان ابراہيمعليه‌السلام عرض لہ ابليس فامرہ جبرئيل فشد عليہ فہرب منہ فجرت بہ السنة ( يعنى بالہرولہ)(۳) ابليس حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے سامنے ظاہر ہوا تو جبرييلعليه‌السلام نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو امر كيا كہ اس پر حملہ كريں حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے حملہ كيا تو ابليس فرار كرگيا (حضرت ابراہيمعليه‌السلام اس كے پيچھے بھاگے) پس (صفا و مروة كے مابين ہرولہ) كى سنت قرار دى گئي _

۱۷_عن الحلبى قال سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن المراة تطوف بين الصفا والمروة و هى حائض قال: لا لان الله تعالى يقول ''ان الصفا والمروة من شعائر الله '' (۴) حلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا كيا حائض عورت صفا و مروة كے مابين سعى انجام دے سكتى ہے ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا نہيں كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے '' صفا اور مروة شعائر الہى ميں سے ہيں ''

۱۸_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''ان ابراهيم عليه‌السلام لما خلف اسماعيل بمكة عطش الصبي ...فخرجت امه حتى قامت على الصفا فمضت حتى انتهت الى المروة ...ثم رجعت الى الصفا ...حتى صنعت ذلك سبعاً فاجرى الله ذلك سنة ... (۵) حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے جب حضرت اسماعيلعليه‌السلام كو مكة ميں چھوڑا تو بچے نے شديد پياس محسو س كى پس حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى والدہ (حضرت ہاجرہ پانى كى تلاش ميں ) نكليں اور كوہ صفا پر آكر كھڑى ہوگئيں پھر مروہ پہاڑ كى طرف گئيں اور پھر دوبارہ كو ہ صفا كى طرف لوٹ آئيں يہاں تك كہ يہ عمل انہوں نے سات مرتبہ انجام ديا پس اللہ تعالى نے اس عمل كو ايك سنت قرار دے ديا

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۸۸_ ۲) كافى ج/۴ ص ۴۳۴ ح ۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۸ ح ۴۷۰_ ۳) علل الشرائع ج/ ۲ ص ۴۳۲ ح ۱ باب ۱۶۷ ، بحارالانوار ج/ ۹۶ ص ۲۳۴ ح ۴_ ۴) تہذيب الاحكام ج/ ۵ ص ۳۹۴ ح ۱۹ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۶۹ ح ۵_ ۵) علل الشرائع ص ۴۳۲ ح / ۱ ب ۱۶۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۵ ح ۴۶۱_

۵۴۲

اجر: اجر كى ضمانت ۹; اجر كے موجبات ۸

احكام : ۲،۵

اسماء اور صفات: شاكر ۴; عليم ۴

اللہ تعالى : علم الہى كے آثار۹; اللہ تعالى كى طرف سے اجر ۸; اللہ تعالى كى شكر گزارى ۳; علم الہى ۷

حاجى : حاجيوں كے اعمال سے آگاہ ہونا ۷

حج: احكام حج ۲،۵،۱۰،۱۳،۱۷; مناسك حج ۲،۵، ۶، ۷

ذكر: ذكر الہى ۱۴

روايت:۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸

شعائر اللہ : ۱،۱۳،۱۷

صفا و مروہ كى سعي: ۲،۵،۶،۷،۸ ،۱۰،۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۷; صدر اسلام ميں صفا و مروہ كى سعى ۶; صفا و مروہ كى سعى كا عبادت ہونا ۲; صفا و مروہ كى سعى كا فلسفہ ۱۵،۱۶،۱۸

عبادت: عبادت كى جگہ ۱

عمرہ: عمرہ كے احكام ۲،۵; عمرہ كے مناسك ۲،۵

عمل: پسنديدہ عمل كا اجر ۸،۹; پسنديدہ عمل ۵،۸; وہ پسنديدہ عمل جو رضاكارانہ انجام ديا جائے ۳

كوہ صفا: ۱

كوہ مروة : ۱

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمان اور شرعى ذمہ دارى ۶

مقدس مقامات: ۱

۵۴۳

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ( ۱۵۹ )

جولوگ ہمارے نازل كئے ہوئے واضح بيانات اورہدايات كو ہمارے بيان كردينے كے بعد بھيچھپاتے ہيں ان پر الله بھى لعنت كرتا ہےاور تمام لعنت كرنے والے بھى لعنت كرتےہيں (۱۵۹)

۱ _ آسمانى كتابوں ميں دينى احكام و معارف ہيں اور انكى حقانيت كے واضح دلائل بھى ان ميں ہيں _ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى نے دينى احكام و معارف اور ان كى حقانيت كے دلائل كو نازل فرمايا اور انہيں آسمانى كتابوں ميں بيان فرمايا _ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب يہاں '' ہدي'' كا معنى ہدايت كرنے والا ہے اور آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد دين كے احكام و معارف ہيں _ '' بينات'' كا معنى واضح اور روشن دلائل ہيں اور آيہ شريفہ ميں مراد وہ دلائل و براہين ہيں جو دينى احكام و معارف كے لئے بيان ہوئے ہيں _

۳ _ تمام انسان آسمانى كتابوں كے مخاطب ہيں اور ان كى ذمہ دارى ہے كہ ان كے احكام و معارف كو سيكھيں _

من بعد ما بيناه للناس

۴ _ آسمانى كتابوں كے حقائق (دينى احكام و معارف اور انكے دلائل ) كى لوگوں كے لئے تعليم و تبليغ كى ذمہ دارى علمائے دين كى ہے _ان الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس

۵ _پيامبر اسلام (ص) اور اسلامى احكام و معارف كى حقانيت كے شواہد و قرائن تو رات و انجيل ميں ہيں _من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب بعض كا خيال ہے كہ ''الكتاب'' سے مراد تورات و انجيل ہيں اور ''البينات والہدى '' سے مراد وہ دلائل و براہين ہيں جو لوگوں كو نبوت اور احكام اسلام كى حقانيت كى طرف راہنمائي كرتے ہيں _ گزشتہ آيات جن ميں تبديلى قبلہ كى

۵۴۴

حقانيت پر پردہ ڈالنے كے بارے ميں بيان ہوا ہے اس احتمال كى تائيد كرتى ہيں _

۶_ زمانہ بعثت كے علمائے يہود و نصارى پيامبر اسلام(ص) اور احكام اسلامى كى حقانيت كے شواہد و قرائن پر پردہ ڈالتے تھے_الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب

۷_ آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردہ ڈالنا اور چھپانا گناہان كبيرہ ميں سے ہے_ان الذين يكتمون ما أنزلنا اولئك يلعنهم الله

۸_ دينى حقائق كو چھپانے والے اللہ تعالى كى لعنت اور اس كى رحمت سے دورى ميں مبتلا ہوں گے_ان الذين يكتمون اولئك يلعنهم الله

۹_ جو لوگ آسمانى كتابوں كے حقائق كو لوگوں سے چھپاتے ہيں ان پر لعنت و نفرين كرنا ضرورى ہے _اولئك يلعنهم اللاعنون فعل '' يلعن'' كا تكرار اللہ تعالى كى طرف سے اور دوسروں كى طرف سے لعنت پر دلالت كرتاہے اللہ تعالى كى طرف سے لعنت كا معنى رحمت سے دور كرنا ہے اور دوسروں كى طرف سے لعنت كا معنى مذمت و نفرين اور اللہ تعالى كى رحمت سے دورى كى درخواست كرنا ہے ان لوگوں كےلئے جن پر لعنت ہے_

۱۰_ علمائے يہو د و نصارى آسمانى كتابوں كے حقائق و معارف كو چھپانے كى وجہ سے اللہ تعالى كى رحمت سے دور ہوگئے ہيں اور لعنت كرنے والوں كى مذمت و نفرين اور لعنت ميں مبتلا ہوئے ہيں _ان الذين يكتمون ما أنزلنا اولئك يلعنهم الله و يلعنهم اللاعنون

۱۱_ رحمت الہى سے دور ہونے ميں لعنت كرنے والوں كى مذمت و لعنت اور ملامت و نفرين كا بنيادى كردار اور اہميت ہے _و يلعنهم اللاعنون

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كو چھپانے كے نتائج و اثرات ۹; آسمانى كتابوں كى اہميت ۹; آسمانى كتابوں كى تبليغ ۴; آسمانى كتابوں كى تعليمات۱،۲; آسمانى كتابوں كا سيكھنا ۳; آسمانى كتابوں كا سكھانا ۴; آسمانى كتابوں كو چھپانا ۷; آسمانى كتابوں كے مخاطبين ۳; آسمانى كتابوں كى اہميت ۱

اسلام: انجيل ميں اسلام ۵; تورات ميں اسلام ۵; صدر اسلام كى تاريخ ۶; اسلام كى حقانيت كے دلائل ۵،۶

اللہ تعالى : رحمت الہى ۸،۱۰،۱۱

۵۴۵

انجيل : انجيل كى تعليمات ۵

انسان: انسانوں كى شرعى ذمہ دارياں ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كے دلائل ۵،۶; پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۵; پيامبر اسلام تورات ميں ۵

تورات: تورات كى تعليمات ۵

حق: حق چھپانے كے آثار۸،۱۰; حق چھپانے والے ۱۰; حق چھپانے والوں پر لعنت ۹

دين: تبليغ دين ۴; دين كى حقانيت كے دلائل ۱،۲; دين كا وحى ہونا ۲

رحمت : رحمت سے محروم لوگ ۸،۱۰; رحمت سے محروم ہونا ۱۱

علماء : علمائے دين كى ذمہ دارى ۴

علمائے يہود: علمائے يہود اور حق كا چھپانا ۶،۱۰; علمائے يہود پر لعنت ۱۰

عيسائي: صدر اسلام كے عيسائي ۶

عيسائي علماء : عيسائي علماء اور حق كا چھپانا ۶،۱۰; عيسائي علماء پر لعنت ۱۰

گناہان كبيرہ : ۷

لعنت: لعنت كے اثرات و نتائج ۱۱; جن لوگوں پر لعنت ہوتى ہے ۸،۹،۱۰; لعنت كے موجبات ۹

يہود: صدر اسلام كے يہود ۶

۵۴۶

إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۱۶۰ )

علاوہ ان لوگوں كے جو توبہكرليں اور اپنے كئے كى اصلاح كرليں اورجس كو چھپايا ہے اس كو واضح كرديں تو ہمان كى توبہ قبول كرليتے ہيں كہ ہم بہترينتوبہ قبول كرنے والے اور مہربان ہيں (۱۶۰)

۱ _ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے والے اگر تو بہ كريں تو اللہ تعالى كى لعنت سے نجات حاصل كرسكتے ہيں اوراسكى رحمت كے مستحق ہوسكتے ہيں _اولئك يلعنهم الا الذين تابوا

۲ _ گناہوں سے توبہ، ان كے مفاسد اور برے نتائج كى اصلاح كرنا منقطع رحمت كے دوبارہ برقرار ہونے كا سبب ہے _اولئك يلعنهم الله ...الا الذين تابوا و اصلحوا فاولئك اتوب عليهم

۳ _ توبہ كى قبوليت كى شرائط ميں سے ايك يہ ہے كہ ان مفاسد كى اصلاح كى جائے جو دينى حقائق كو چھپانے سے پيدا ہوئے ہيں نيز ان حقائق كو بيان كيا جائے_الاالذين تابوا و اصلحوا و بينوا فاولئك اتوب عليهم

۴ _ دينى حقائق پر پردہ ڈالنا اور آسمانى كتابوں كے معارف كو چھپانا فساد كا باعث ہے_الا الذين تابوا و اصلحوا

۵ _ آسمانى كتابوں كے معارف و حقائق درك كرنے اور ان پر ايمان لانے سے لوگوں كو روكنا فساد برپا كرنا ہے _

الا الذين تابوا و اصلحوا

۶ _ گناہگاروں پر اللہ تعالى كى لعنت انكى توبہ كى توفيق سلب ہونے كى باعث نہيں ہے_اولئك يلعنهم الله الا الذين تابوا و اصلحوا و بينوا

۷_ اللہ تعالى گناہگاروں كى توبہ اس صورت ميں قبول فرمائے گا كہ مفاسد و برائيوں كى تلافى كريں _الا الذين تابوا و اصلحوا و بينوا فاولئك اتوب عليهم

۸_دينى حقائق كو چھپانے والے اگر توبہ كريں اور گزشتہ اعمال كى تلافى كريں تو ان پر نفرين نہيں كرنى چاہيئے اور نہ ہى رحمت الہى سے ان كى دورى كى دعا كرنى چاہيئے_و يلعنهم اللاعنون_ الا الذين تابوا و اصلحوا و بينوا

۹_ اللہ تعالى تواب ( بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے _و انا التواب الرحيم

۱۰_ اللہ تعالى كا توبہ قبول كرنا اسكى رحمت كا ايك جلوہ ہے_فاولئك اتوب عليهم و انا التواب الرحيم

۵۴۷

۱۱ _ اللہ تعالى ان كى توبہ قبول فرمائے گا جنہوں نے بارہا اپنى توبہ توڑي_و انا التواب الرحيم

توبہ كى قبوليت كو صيغہ مبالغہ ( توّاب_ بہت زيادہ توبہ قبول كرنے والا) كے ساتھ بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ گناہ جتنے بھى بڑے ہوں اللہ تعالى ان سب كى بخشش فرمائے گا يا پھر اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ توبہ كو توڑنا اس امر ميں ركاوٹ كا باعث نہيں كہ دوبارہ توبہ قبول نہ ہو مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كا چھپانا ۴; آسمانى كتابوں كے درك اور سمجھنے سے روكنا ۵

احكام:۸

اسماء اور صفات: تواب۹; رحيم ۹

اصلاح: اصلاح كے اثرات ۷،۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى لعنت كے نتائج ۶; توبہ الہى ۱۰،۱۱; اللہ تعالى كى لعنت ۶; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۱۰; اللہ تعالى كى لعنت سے نجات ۱

ايمان: آسمانى كتابوں پر ايمان لانے سے منع كرنا ۵

توبہ: توبہ كے نتائج ۱،۲،۸; توبہ توڑنے والے ۱۱; توبہ كى توفيق سلب ہونا ۶; توبہ كى قبوليت كى شرائط ۳،۷; توبہ كا قبول ہونا ۱۰،۱۱; توبہ كى ركاوٹيں ۶

حق : حق كو چھپانے كے آثار۴; حق كو چھپانے كے مفاسد كى اصلاح ۳; حق چھپانے والوں كى توبہ ۱،۳،۸; حق چھپانے والوں پر لعنت ۸

دين : دينى حقائق كا اظہار ۳

۵۴۸

رحمت : جن لوگوں كے رحمت شامل حال ہوتى ہے ۱; رحمت كے موجبات ۱،۲

فساد بر پاكرنا: فساد برپا كرنے كے موارد ۴،۵

گناہ : گناہ كے مفاسد كى اصلاح ۲

گناہ گار: گناہگاروں پر لعنت ۶

لعنت : لعنت كے احكام ۸; جن لوگوں پر لعنت ہوتى ہے ۶

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( ۱۶۱ )

جو لوگ كافر ہوگئے اور اسى حالتكفر ميں مرگئے ان پر الله ملائكہ اور تمامانسانوں كى لعنت ہے (۱۶۱)

۱ _ وہ كفار جو حالت كفر ميں مرتے ہيں اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوں گے اور ان پر فرشتوں كى لعنت و نفرين ہوگي_

ان الذين كفروا و ماتوا وهم كفار اولئك عليهم لعنة الله والملائكه والناس اجمعين

۲ _ دينى احكام و معارف اور آسمانى كتابوں كے حقائق پر پر دے ڈالنا كفر اختيار كرنا ہے _ان الذين يكتمون ما أنزلنا ان الذين كفروا و ما توا وهم كفار ''ان الذين يكتمون'' كے بعد اس جملہ '' ان الذين كفروا '' كو بغير كسى فاصلہ ( مثلاً حرف واو) كے لانا اس معنى كو بيان كرتاہے كہ ''الذين كفروا'' وہى حق كو چھپانے والے لوگ ہيں يا يہ كہ حق كو چھپانے والے كفا ر كے مصاديق ميں سے ہيں _ بہر حال دونوں صورتوں ميں يہ معنى نكلتاہے كہ دينى حقائق كو چھپانا كفر ہے _

۳ _قيامت كے دن وہ كفار جو حالت كفر ميں مرے ہيں ان پر فرشتے اور تمام انسان لعنت بھيجيں گے اور دعاكريں گے كہ ان كو رحمت الہى سے دور ركھا جائے_اولئك عليهم لعنة الله والملائكة والناس اجمعين

لوگوں كے لعنت بھيجنے كا معنى يہ ہے كہ وہ دعا كريں كہ ملامت شدہ اور نفرين شدہ انسانوں كو رحمت سے دور ركھا جائے_

۴ _ مرنے كے بعد توبہ و پشيمانى قبول نہ ہوگى اور نہ ہى

۵۴۹

اسكا كوئي نتيجہ نكلے گا_الا الذين تابوا ان الذين كفروا و ماتوا وهم كفار اولئك عليهم لعنة الله

''كفروا'' كى جملہ'' و ماتوا و ہم كفار'' كے ساتھ تقييد در اصل توبہ كى قبوليت كے وقت يا مہلت كا خاتمہ ہے_ يعنى مرنے كے بعد پشيمانى مفيد نہ ہوگى _

۵ _ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے والے دنيا ميں اور آخرت ميں بھى اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوں گے _

اولئك يلعنهم الله اولئك عليهم لعنة الله آيت ۱۵۹ ميں جملہ ''اولئك يلعنھم اللہ''، '' الا الذين تابوا ...'' كے قرينہ سے حكايت كرتاہے كہ حقائق كو چھپانے والے دنيا ميں اللہ تعالى كى لعنت كا شكار ہوں گے جبكہ جملہ ''اولئك عليہم لعنة اللہ'' ''ماتواو ہم كفار'' كے قرينے سے حكايت كررہاہے كہ آخرت ميں بھى ان پر اللہ تعالى كى لعنت ہوگى _

۶_ انسانوں اور ان كے اعمال كے ساتھ فرشتوں كا گہرا رابطہ ہے _اولئك عليهم لعنة الله والملائكة

۷_ گناہگاروں كے رحمت الہى سے دور ہونے ميں فرشتوں اور انسانوں كى دعا و نفرين مؤثر ہيں _اولئك عليهم لعنة الله والملائكة والناس اجمعين

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں كا چھپانا ۲

اللہ تعالى : آخرت ميں اللہ تعالى كى لعنت ۵; اللہ تعالى كى لعنت ۱; دنيا ميں اللہ تعالى كى لعنت ۵; رحمت الہى كى ركاوٹيں ۷

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۳

توبہ : بے اثر توبہ ۴; مرنے كے بعد توبہ ۴; توبہ كى فرصت ۴

حق : حق كو چھپانے والوں پر لعنت ۵

دعا: دعا كے اثرات و نتائج ۷

دين: دين كو چھپانے كے نتائج ۲; دين كو چھپانا ۵

رحمت : رحمت سے محروميت ۷

كفر: كفر كے اثرات و نتائج ۱; كفر كے موارد ۲

كفار: كفار پر لعنت ۳

۵۵۰

گناہ : گناہ سے پشيمانى ۴

گناہ گار لوگ: گناہگاروں كا محروم ہونا ۷

لعنت : لعنت كے نتائج ۷; جن لوگوں پر لعنت ہوتي

ہے۱،۵،۷; لعنت كے موجبات ۳

لوگ: لوگوں كى لعنت ۳،۷

موت: كفر كے ساتھ مرنے كے نتائج ۱،۳

ملائكة: ملائكة كى لعنت ۱،۳،۷; ملائكة اور انسان ۶; ملائكہ اور انسانى عمل ۶

خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ ( ۱۶۲ )

وہ اسى لعنتميں ہميشہ رہيں گے كہ نہ ان كے عذاب ميں تخفيف ہوگى اور نہ انھيں مہلت دى جائے گي(۱۶۲)

۱_جو لوگ كافر ہو كے مرتے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوں گے_اولئك عليهم لعنة الله خالدين فيها ظاهراً '' فيہا'' كى ضميرگذشتہ آيت ميں '' لعنة اللہ ...'' كى طرف لوٹتى ہے _

۲ _ دينى حقائق كو چھپانے والے اگر توبہ كيئے بغير مرجائيں تو ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى لعنت كا شكار ہوں گے _

ان الذين يكتمون اولئك عليهم لعنة الله ...خالدين فيها

۳ _ وہ كفار جو توبہ كيئے بغير مرجاتے ہيں آخرت ميں ہميشہ كے لئے عذاب الہى سے دوچار ہوں گے _خالدين فيها لا يخفف عنهم العذاب

۴ _ وہ لوگ جو دينى احكام و معارف اور آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردے ڈالتے ہيں ہميشہ كے لئے عذاب اخروى ميں مبتلا ہوں گے _ان الذين كفروا و ما توا خالدين في ها لا يخفف عنهم العذاب

۵ _ كفار اور حقائق پر پردے ڈالنے والوں كے اخروى عذاب ميں تخفيف يا كمى نہيں كى جاسكتى _لا يخفف عنهم العذاب

۵۵۱

۶ _ اخروى عذاب الله تعالى كى لعنت اور اسكى رحمت سے دورى كا ايك جلوه هے _اولئك علي هم لعنة الل هخالدين في ها لا يخفف عن هم العذاب

''خالدين فيہا'' كے بعد جملہ ''لا يخفف عنھم العذاب'' كا لانا اس مطلب كو بيا ن كررہاہے كہ قيامت ميں لعنت الہى كا اثر دوزخ كا عذاب ہے _

۷_ دينى حقائق اور آسمانى كتابوں كے معارف كو چھپانا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _خالدين فيها لا يخفف عنهم العذاب

حقائق چھپانے والوں كا ہميشہ كے لئے رحمت الہى سے دور رہنا اور كم نہ ہونے والے عذاب ميں مبتلا ہونا اس امر كى حكايت كرتاہے كہ حقائق پر پردہ ڈالنا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _

۸_ كفار اور دينى حقائق پر پردہ ڈالنے والوں كا اخروى عذاب مرنے كے بعد شروع ہوجائے گا اور اس ميں تاخير بالكل نہ ہوگى _و لا هم ينظرون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ينظرون'' باب افعال سے فعل مجہول ہو اسكا مصدر '' انظار _ مہلت دينا'' ہے _ ''و ماتوا و ہم كفار'' كے قرينہ سے مہلت نہ دينے سے مراد يہ ہے كہ عذاب مرنے كے فوراً بعد شروع ہوجائے گا_

۹_ كفار اور دينى حقائق چھپانے والوں پر قيامت ميں اللہ تعالى نظر رحمت نہ ڈالے گا_و لا هم ينظرون

اس مطلب ميں فعل مجہول ''ينظرون'' ، ''نظر'' سے ليا گيا ہے جسكا معنى ہے ديكھنا پس ''و لا ہم ينظرون'' يعنى ان پر نظر رحمت نہ ڈالے گا_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں پر پردے ڈالنے والوں كا عذاب ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنا ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كا گناہ ۷

اللہ تعالى : آخرت ميں رحمت الہى ۹; اللہ تعالى كے عذاب ۳; اللہ تعالى كى ابدى لعنت ۱،۲; اللہ تعالى كى لعنت كے مظاہر۶

توبہ : توبہ كے نتائج ۲،۳

حق : حق كو چھپانے والوں كا اخروى عذاب ۵،۸; قيامت ميں حق كو چھپانے والے ۹; حق كو چھپانے والوں كا گناہ ۷; حق چھپانے والوں پر لعنت ۲

۵۵۲

دين: دين كو چھپانے كے نتائج ۲; دين كو چھپانے والوں كا اخروى عذاب ۴،۸; دين كو چھپانے والوں كى محروميت ۹

رحمت : رحمت سے محروم لوگ ۹; رحمت سے محروميت ۶

عذاب: عذاب ميں تاخير ۸; عذاب ميں كمى ۵; عذاب ميں ہميشگى ۳،۴; اخروى عذاب ۶; عذاب كے درجات ۵; عذاب كے موجبات ۳،۴

كفار: كفار كا اخروى عذاب ۳،۵،۸;كفار كا برزخى عذاب۸; كفار قيامت ميں ۹; كفار پر لعنت ۱; آخرت ميں كفار كى محروميت ۹

گناہان كبيرہ: ۷

لعنت : جن پر لعنت ہوتى ہے ۱،۲

موت: كفر كے ساتھ مرنے كے نتائج ۱; بغير توبہ كے مرنے كے نتائج ۲،۳;كفر كى موت مرنا ۳

وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ( ۱۶۳ )

اور تمھارا خدا بس ايك ہے _ اس كےعلاوہ كوئي خدا نہيں ہے دى رحمان بھى ہےاور وہى رحيم بھى ہے (۱۶۳)

۱ _ سب انسانوں كا حقيقى معبود و احد، يگانہ و يكتاہے_و الهكم اله واحد

۲ _ اللہ تعالى كے علاوہ معبود حقيقى وجود ہى نہيں ركھتا _لا اله الا هو

۳ _ اللہ تعالى رحمان (انتہائي وسيع رحمت والا) اور رحيم (مہربان) ہے _هو الرحمن الرحيم

۴ _ اللہ تعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل اسكى رحمانيت و رحيميت ہے _الهكم اله واحد لا اله الا هو الرحمن الرحيم اللہ تعالى كى عبادت كے لازم و ضرورى ہونے كا ذكر كرنے كے بعد اسكى صفات رحمت و رحيم كا ذكر كرنا بندگى كى دليل بيان كرنے كيلئے ہے _

۵۵۳

۵ _ اللہ تعالى كى وحدانيت و يگانگت پر يقين اور اس پر يقين كہ اسكے سوا كوئي معبود نہيں ہے انسان كو معارف الہى اور آسمانى كتابوں كے حقائق چھپانے سے روكتاہے _*ان الذين يكتمون ما أنزلنا و الهكم اله واحد لا اله الا هو

يہ مطلب اور بعد والے مطالب اس آيہ مجيدہ كے گزشتہ آيات كے ساتھ ارتباط كى وجہ كو بيان كررہے ہيں _

۶ _ انسان كا شرك اور غير خدا كى عبادت كى طرف رجحان ان عوامل ميں سے ہے جو اسكو دينى حقائق اور آسمانى كتابوں كے معارف چھپانے پر ترغيب دلاتے ہيں _*ان الذين يكتمون ما أنزلنا و الهكم اله واحد لا اله الا هو

۷ _ اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت گناہگاروں كى توبہ قبول كرنے كى ضامن ہے _*لا اله الا هو الرحمن الرحيم

۸ _''ان اعرابياً قام يوم الجمل الى امير المؤمنين عليه‌السلام فقال يا امير المومنين عليه‌السلام اتقول ان الله واحد؟ قال عليه‌السلام يا اعرابى ان القول فى ان الله واحدعلى اربعةاقسام فوجهان منها لايجوزان على الله عزوجل و وجهان يثبتان فيه _فاما اللذان لا يجوزان عليه قول القائل واحد يقصد به باب الاعداد فهذا مالا يجوز فقول القائل هو واحد من الناس يريد النوع من الجنس ...واما الوجهان اللذان يثبتان فيه قول القائل هو واحد ليس له فى الاشياء شبه كذلك ربنا وقول القائل احدى المعنى يعنى به لا ينقسم فى وجود ولاعقل ولاوهم كذلك ربنا عزوجل (۱) جنگ جمل ميں ايك اعرابى امير المومنينعليه‌السلام كى خدمت ميں آيا اور حضرتعليه‌السلام سے سوال كيا كيا آپعليه‌السلام كہتے ہيں '' اللہ واحد ہے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا يہ كہنا'' اللہ واحد ہے'' اسكى چار قسميں ہيں جن ميں دو اقسام اللہ رب العزت كى ذات اقدس پر جائز نہيں ہيں اور ديگر دو اقسام اسكے لئے ثابت ہيں وہ صورتيں جو جائز نہيں ہيں ايك يہ كہ واحد سے مراد واحد عددى ہو تو يہ جائز نہيں اور دوسرے واحد سے مراد واحد نوعى ہو تويہ بھى جائز نہيں ليكن دو وجہيں جو جائز ہيں وہ يہ كہ ہم كہيں واحد يعنى اسكے كوئي مشابہ نہيں اسكى مثل و نظير نہيں يا يہ كہيں احدى المعنى مراد ہے يعنى اسكى ذات كے لئے نہ تو كوئي وجود ميں ، نہ عقل ميں اور نہ ہى وہم ميں كسى طرح كوئي تقسيم نہيں ہوسكتى ہمارارب ذوالجلال اسى طرح ہے _

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كے اسباب ۶; آسمانى كتابوں كو چھپانے كے موانع ۵

اسماء اور صفات: رحمان ۳; رحيم ۳

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۵ ح ۲ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۷۱ ح ۴_

۵۵۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رحمانيت كے اثرات ۷; اللہ تعالى كى رحيميت كے اثرات ۷; اللہ تعالى كے مختصات ۲; اللہ تعالى كا توبہ قبول كرنا ۷; اللہ تعالى كى رحمانيت ۴; اللہ تعالى كى رحيميت ۴; اللہ تعالى كى وحدانيت ۸

انسان: انسانوں كا معبود ۱

ايمان: توحيد عبادى پرايمان كے اثرات ۵;

ترغيبت: ترغيب كے عوامل ۶

توبہ : توبہ كى قبوليت ۷

توحيد : توحيد عبادى ۱،۲; توحيد عبادى كے دلائل ۴

حق : حق كو چھپانے كے موانع ۵

دين: دين پر پردہ ڈالنے كے عوامل ۶

روايت :۸

شرك : شرك كے نتائج ۶

عبادت: خداوند تعالى كى بندگى كے دلائل ۴

گناہگار: گناہگاروں كى توبہ ۷

نظريہ كائنات (جان بيني): توحيدى نظريہ كائنات ۱; نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۵

۵۵۵

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ( ۱۶۴ )

بيشك زمين وآسمان كى خلقت روز و شب كى رفت و آمد _ان كشتيوں ميں جو درياؤں ميں لوگوں كےفائدہ كے لئے چلتى ہيں اور اس پانى جسےخدا نے آسمان سے نازل كركے اس كے ذريعہمردہ زمينوں كو زندہ كرديا ہے اور اس ميں طرح كے چوپائے پھلاديئے ہيں اور ہواؤں كےچلانے ميں اور آسمان و زمين كے در ميانمسخر كئے جانے والے بادل ميں صاحبان عقلكے لئے الله كى نشانياں پائي جاتى ہيں (۱۶۴)

۱ _ زمين و آسمان ( عالم ہستى ) كا بنانے والا خدائے واحد و يكتاہے _ان فى خلق السماوات والأرض

۲ _ عالم خلقت ميں متعدد آسمان ہيں _ان فى خلق السماوات

۳_ آسمانوں اور زمين كى خلقت ميں توحيد كى نشانياں اور علائم ہيں اور يہ تخليقات اللہ تعالى كى رحمانيت و رحيميت كى دليل ہے _لا اله الا هو الرحمن الرحيم ان فى خلق السماوات والأرض لايات ما قبل آيت كے قرينہ سے يہ آيہ مجيدہ اللہ تعالى كى توحيد، رحمانيت اور رحيميت پر استدلال كررہى ہے اس اعتبار سے '' آيات'' سے مراد اللہ تعالى كى توحيد اور انتہائي وسيع رحمت كى نشانياں اور علامتيں ہيں _

۴ _ ليل و نہار كا آنا جانا اللہ تعالى كى توحيد، اسكى رحمانيت اور رحيميت كے دلائل ميں سے ہے_لا اله الا هو الرحمن الرحيم _ ان فى

۵۵۶

اختلاف الليل والنهار لايات

'' اختلاف'' كا معنى آنا جاناہے يا كسى چيز كے كسى دوسرى چيز كے مقام پر آنا، قائم مقام ہونے كا معنى بھى ديتاہے _ نيز عدم تساوى كے معنى ميں بھى آياہے_ مذكورہ بالا مطلب پہلے دو معانى كى بناپر ہے _

۵ _ شب و روز كا اختلاف ( ان كے چھوٹے بڑے ہونے ميں تفاوت )توحيد كے دلائل اور اللہ تعالى كى رحمانيت و رحيميت كو بيان كررہاہے_لا اله الا هو الرحمن الرحيم _ ان فى اختلاف الليل والنهار ...لآيات

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' اختلاف '' كا معنى آيہ مجيدہ ميں عدم تساوى ہو _

۶ _ انسانوں كے فائدے اور منافع كے لئے سمندر ميں كشتى ( يا بحرى جہاز) كى حركت اللہ تعالى كى توحيد اور اس كى انتہائي وسيع رحمت كے دلائل ميں سے ہے_ان فى الفلك التى تجرى فى البحر بما ينفع الناس لآيات

''بما ينفع'' ميں '' ما'' ممكن ہے موصولہ ہو تو اس صورت ميں '' بائ'' مصاحبت كے لئے ہوگى _ بنابريں '' التى تجرى ...'' يعنى وہ كشتياں جو سمندر ميں حركت كرتى ہيں اور ان ميں (مال تجارت و غيرہ ) ہوتاہے لوگوں كے لئے نفع بخش ہيں البة ''ما'' مصدريہ بھى ہوسكتى ہے اس صورت ميں ''بائ'' سببيت كے لئے ہوگى يعنى وہ كشتياں جو انسانوں كو نفع دينے كے لئے سمندر ميں حركت كرتى ہيں _

۷_ عالم ہستى كے تمام تر فعل و انفعالات حتى انسانى ايجادات بھى خدا تعالى كى طرف سے ہيں اور اس كى توحيد اور وسيع رحمت كى علامت ہيں _ان فى الفلك التى تجرى فى البحر بما ينفع الناس كشتياں جو انسان كى بنائي ہوئي ہيں خداوند متعال نے ان كو اپنى توحيد اور رحمت كے لئے دليل و نشانى قرار ديا ہے يہ مطلب اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ تمام تر موجودات حتى بشر كى بنائي ہوئي اشياء بھى من جانب اللہ ہيں _ اگر لفظ ''الفلك'' ''السماوات''پر عطف ہو تو لفظ ''خلق'' ''الفلك'' كى طرف بھى مضاف ہوگا ہو تو مذكورہ مطلب زيادہ واضح اور روشن ہوجاتاہے_

۸_ باران رحمت كو نازل كرنے والا اللہ تعالى ہے _و ما انزل الله من السماء من ماء

۹ _ زمين پر موجود پانيوں كا منبع اورسرچشمہ آسمان ہے_و ما انزل الله من السماء من ماء

۱۰_ آسمان سے پانى نازل كرنا اور اس سے زمين كو زندہ كرنا اللہ تعالى كى توحيد اور اسكى انتہائي و سيع رحمت كے دلائل ميں سے ہے _ان فى ما انزل الله من السماء من ماء فاحيا به الأرض لآيات

۱۱ _ بے آب و گياہ زمين مردہ ہے اور اسكى زندگى اس پر پودوں كا اگنا ہے _فاحيا به الأرض بعد موتها ''

۵۵۷

احيائے ا رض ''_( زمين كو زندہ كرنا ) سے مراد اس پر درختوں اور پودوں كو پيدا كرنا ہے _

۱۲ _ بارش زمين پر زندگى اور متحرك مخلوقات كى پيدائش كا سبب ہے _فاحيا به الأرض بعد موتها و بث فيها من كل دابة ''بث''كا معنى ہے پراكندہ كرنا، منتشر كرنا، پھيلانا_ آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد متحرك مخلوقات كى مختلف انواع و اقسام كو پيدا كرنا ، ان ميں ولادت اور نسل كے عمل سے انہيں زيادہ كرنا اور زمين پر پھيلا ناہے ''بث فيہا'' ممكن ہے ''احيا '' پر عطف ہو تو اس صورت ميں ''انزل من السمائ'' پرمتفرع ہوگا_ اور اس كا مطلب يوں ہوگا كہ حيوانات كے وجود ميں آنے كا سبب آسمان سے نازل ہونے والا پانى ہے _

۱۳ _اللہ تعالى زمين كو زندہ كرنے والا، اس پر زندہ موجودات كا پيدا كرنے والا اور روئے زمين پر ان كو پھيلانے والا ہے _فاحيا به الأرض و بث فيها من كل دابة

۱۴ _ زمين پر ہر جگہ انواع و اقسام كى متحرك مخلوقات كا وجود اللہ تعالى كى توحيد اور اسكى انتہائي وسيع رحمت كے دلائل و علامتوں ميں سے ہے _و بث فيها من كل دابة لايات

۱۵ _ ہواؤں كا چلنا اور انكا ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل ہونا اللہ تعالى كى توحيد اور اسكى رحمت آفرينى كے دلائل و علائم ميں سے ہے _ان فى و تصريف الرياح لآيات '' تصريف'' كا معنى ايك جہت سے دوسرى جہت ميں لوٹاناہے_

۱۶_ بارش برسانے والے بادل اللہ تعالى كى توحيد اوراسكى انتہايى وسيع رحمت كى نشانيوں اور دلائل ميں سے ہيں _

ان فى السحاب المسخر بين السماء والأرض لآيات '' سحابة'' كى جمع ''سحاب'' ہے جسكا معنى بارش برسانے والا بادل ہے (لسان العرب)

۱۷_ آسمان و زمين كے مابين بادل اللہ تعالى كے تسخير شدہ اور فرماں بردار ہيں _والسحاب المسخر بين السماء والارض ''سخر'' كا مصدر''تسخير'' ہے جسكا معنى كسى شخص يا چيز كو اطاعت پرمجبور كرناہے_

۱۸_ جہان خلقت كى كيفيت ( اس كے اجزاء كا ايك دوسرے سے ارتباط اور پيوند، ان كى ہم آہنگى اور ان ميں موجود ہدف ) يہ سب ايك ہى خالق كى حكايت كرتے ہيں _ان فى خلق السماوات والأرض لآيات لقوم يعقلون

آيہ مجيدہ چونكہ توحيد پرا ستدلال بيان كررہى ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' يعقلون'' كا محور يہ امور ہيں عالم ہستى كى ايك چيز كے اجزا كا ايك

۵۵۸

دوسرے سے پيوند و ارتباط اور پھر چيزوں كا ايك دوسرے كے ساتھ پيوند و ارتباط اور انكا با ہدف ہونا_ يہ پيوند و ارتباط اور باہدف ہونا ايك ہى خالق و منتظم كى حكايت كرتاہے_

۱۹_ عالم ہستى سے اللہ تعالى كى توحيد، رحمانيت اور رحيميت كا نتيجہ نكالنا اس ميں غور و فكر كرنے سے ممكن ہے _

ان فى خلق السماوات لآيات لقوم يعقلون

۲۰_ شرك اختيار كرنا اور توحيد تك نہ پہنچنا فكر و تدبر نہ كرنے اور جہان ہستى كے پيوند و ہم آہنگى كو درك نہ كرنے كى دليل اور علامت ہے _ان فى خلق السماوات والأرض لآيات لقوم يعقلون

۲۱ _ اللہ تعالى كى توحيد تك پہنچنے اور اسكى رحمانيت و رحيميت كو درك كرنے كے لئے عالم خلقت كے موجودات اور مظاہر ميں تفكر كرنا ضرورى ہے _ان فى خلق السماوات والأرض لآيات لقوم يعقلون آسمان: آسمانوں كا متعدد ہونا ۲; آسمانوں كا خالق ۱; آسمان كى خلقت ۳; آسمان كے فوائد ۹

آيات الہى : آفاقى آيات ۱۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۱; افعال الہى ۸،۱۳; حاكميت الہى ۱۷; اللہ تعالى كى خالقيت ۱،۱۳; خداشناسى كے دلائل ۱۹; اللہ تعالى كى رحمانيت كے دلائل ۳،۴،۵; اللہ تعالى كى رحيميت كے دلائل ۳،۴،۵; اللہ تعالى كى رحمانيت كو در ك كرنے كى بنياد۲۱; رحيميت كو درك كرنے كى بنياد۲۱; رحمت الہى كے مظاہر ۶،۷،۱۰، ۱۴، ۱۵ ، ۱۶

انسان: انسان كے فائدے اور منافع ۶

ايجادات: ايجادات كا سرچشمہ ۷

ايمان: توحيد پر ايمان كى بنياد۱۹،۲۱; اللہ تعالى كى رحمانيت پر ايمان كى بنياد ۱۹; اللہ تعالى كى رحيميت پر ايمان كى بنياد۱۹

بادل: بارش برسانے والے بادل ۱۶; بادلوں كى تسخير ۱۷

بارش: بارش كے فوائد ۱۰،۱۲; بارش كا منبع ۸

پاني: پانى كا منبع ۹

پودے: پودوں كا اگنا ۱۱

۵۵۹

تعقل: تعقل كى اہميت ۲۱; خلقت ميں تعقل ۱۹،۲۰; موجودات كى خلقت ميں تعقل ۲۱; خلقت ميں تعقل كا فلسفہ ۲۱; تعقل نہ كرنے كى علامتيں ۲۰

توحيد : توحيد كے دلائل ۳،۴،۵،۶،۷ ،۱۰،۴ ۱،۱۵ ، ۱۶;توحيد افعالى كے دلائل ۱۸

خلقت: عالم خلقت كا خالق ۱،۱۸; عالم خلقت ميں تبديليوں كا سرچشمہ ۷; عالم خلقت كا نظام ۱۸،۲۰; عالم خلقت كا باہدف ہونا ۱۸; عالم خلقت كے اجزاء كى ہم آہنگى ۱۸،۲۰

دليل نظم: ۱۸

رات:

شب و روز ميں تفاوت ۵; شب و روز كى گردش ۴

زمين: زمين كو زندہ كرنا ۱۰; زمين كا خالق ۱; زمين كى تخليق ۳; مردہ زمين ۱۱;زمين كى زندگى كے اسباب ۱۲; زمين كى زندگى كا معيار ۱۱; زمين كى زندگى كا منبع ۱۳

شرك : شرك كے عوامل ۲۰

كشتى : كشتى كى سمندر ميں حركت ۶; كشتياں چلانے كے فوائد ۶

متحرك موجود ات: متحرك موجودات كى انواع و اقسام ۱۴; متحرك موجودات كى پيدائش كا منبع ۱۲،۱۳

موجودات: موجودات كى تخليق ۱۳

ہوا: ہوا كا چلنا ۱۵

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785