تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200966 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ( ۱۶۵ )

لوگوں ميں كچھ ايسے لوگ بھى ہيں جوالله علاوہ دوسروں كو اس كا مثل قراديتےہيں اور ان سے الله جيسى محبت بھى كرتے ہيں جب كہ ايمان والوں كى تمام محبّت خدا سےہوتى ہے اور اے كاش ظالمين اس بات كو اسوقت ديكھ ليتے جو عذاب كوديكھنے كے بعدسمجھيں گے كہ سارى قوت صرف الله كے لئے ہےاور الله سخت ترين عذاب كرنے والاہے(۱۶۵)

۱ _ كچھ لوگ (مشركين ) توحيد پر بہت زيادہ دلائل ہونے كے باوجود غير خدا كو خدا تعالى كى مثل، نظير اور برابر تصور كرتے ہيں _لآيات لقوم يعقلون_ و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ''انداد'' كا مفرد''ند'' ہے بمعنى مثل_

۲ _ غير خدا كو خدا كى طرح تصور كرنا آيات الہى ميں تدبر نہ كرنے كى دليل و علامت ہے _لآيات لقوم يعقلون_و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۳ _ اللہ تعالى بے مثل و مثال اور بے ہمتا حقيقت ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۴ _ مشركين جھوٹے خداؤں سے انس و محبت اور تعلق ركھتے ہيں _يحبونهم

۵ _ مشركين خيالى معبودوں سے انس و محبت كرنے كے علاوہ اللہ تعالى سے بھى محبت كرتے ہيں _يحبونهم كحب الله

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''حب'' كا اضافہ مفعول كى طرف ہوا ہو اور اسكا فاعل ضمير محذوف ہو جو ''من الناس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنىكحبهم الله _

۶ _ مشركين كى خيالى معبودوں سے محبت اللہ تعالى كى محبت كے ہم وزن و برابر ہے _

۵۶۱

يحبونهم كحب الله

۷_ موحد مومنين كے نزديك اللہ تعالى عالم ہستى كى محبوب ترين حقيقت ہے _والذين آمنوا اشد حباً لله

آيہ مجيدہ كے ابتدائي حصے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں ''الذين آمنوا'' سے مراد و ہ توحيد پرست ہيں جو فقط اللہ تعالى كى ہى عبادت كرتے ہيں كسى چيز يا شخص كو اللہ تعالى كى مثل و مانند نہيں سمجھتے _ '' اشد''افعل تفضيل ہے جسكا مفضل عليہ ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز اور ہر شخص كو شامل ہوجائے_

۸_انس و محبت اور عشق و دوستى كے بالاترين مرحلہ كے لئے انتہائي مناسب اور موزوں حقيقت اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _والذين آمنوا اشد حبا الله

۹_ اللہ تعالى كے ہمراہ غير خدا كى محبت و دوستى بے ايمانى كى علامت ہے _والذين آمنوا اشد حبالله

۱۰_ احساسات و جذبات كا رابطہ اعتقادات و يقين كے ساتھ ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم والذين آمنوا اشد حبا لله

۱۱ _ تمام تر قدرتوں اور قوتوں كا مالك اللہ تعالى ہے كوئي شخص اور نہ ہى كوئي چيز اسكے علاوہ قدرت و طاقت نہيں ركھتى _ان القوة لله جميعاً

۱۲ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا عذاب شديد ہوگا_و ان الله شديد العذاب

۳ ۱_مشركين قيامت كے دن عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے اور اس كو شديدعذاب پائيں گے_الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان الله شديد العذاب

۱۴ _ ظالمين اللہ تعالى كى قدرت و طاقت سے غافل ہيں _و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۱۵ _ ظالمين روز قيامت شديد عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لويرى الذين ظلموا وان الله شديد العذاب

۱۶_ مشركين جب عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے تو يقين كرليں گے كہ قدرت و قوت فقط اللہ تعالى ميں منحصر ہے _

و لو يرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً '' إذ يرون''، ''يري'' كے لئے مفعول ہے ''ان القوة ...'' فعل مقدر كے ساتھ جواب شرط ہے گويا مطلب يوں ہے ''لو يرى لعلموا ان القوة للہ جميعاً'' اگر مشركين آج ديكھ ليتے اس دن كو جب قيامت كے عذاب ميں مبتلا ہوں گے تو يقينا جان ليتے كہ تمام تر

۵۶۲

قدرتوں كا مالك اللہ تعالى ہے_

۱۷_جو لوگ اللہ تعالى كا مثل و مثال تصور كرتے ہيں ظالمين ميں سے ہيں _و لو يرى الذين ظلموا

'' الذين ظلموا'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كے لئے '' الذين ظلموا'' كى تعبير لانا اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ شرك اختيار كرنا اللہ تعالى كے حق ميں ظلم و تجاوز ہے( لازم ہے كہ اسى كو واحد و يكتا جانا جائے)_

۱۸_ مشركين جھوٹے خداؤں كو صاحب قدرت تصور كرتے ہيں _و لويرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً وہ لوگ جو غير خدا كو خداوند متعال كى طرح سمجھتے ہيں ان كے لئے اللہ تعالى كى قدرت اور يہ كہ قوت صرف اسى كى ذات اقدس ميں منحصر ہے كو بيان كرنا كرنا اس خاطر ہے كہ مشركين اس وہم و گمان كى بناپر كہ ان كے معبود بھى صاحب قدرت ہيں ان كو اللہ تعالى كى طرح تصور كرتے ہيں اور اسى بناپر ان سے محبت كرتے ہيں _

۱۹_ جھوٹے معبودوں كو صاحب قدرت خيال كرنا مشركين كى ان سے محبت كا سبب ہے_يحبونهم كحب الله و لو يرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۰_ قدرت و قوت كى جاذبيت محبت كو جذب كرنے ميں مؤثر ہوتى ہے _يحبونهم كحب الله و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۱ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت پر يقين دلوں ميں اسكى محبت پيدا كرنے كا سبب ہے _والذين آمنوا اشد حبا لله ان القوة لله جميعاً

۲۲_ اللہ تعالى كى قدرت كو نہ پہچاننا اور اسكے غير كو صاحب قدرت تصور كرنا شرك كے اسباب و عوامل ميں سے ہے _

و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ان القوة لله جميعاً

۲۳ _ بعض انسان (مشركين) اپنے بڑوں اور بزرگوں كو قدرت و طاقت ميں اللہ تعالى كى طرح سمجھتے ہيں اور ان كو اللہ تعالى كے برابر اور ہم وزن خيال كرتے ہيں _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم كحب الله

بعدوالى آيت مشركين كو دو حصوں ميں تقسيم كرتى ہے ايك سرداران شرك اور دوسرے ان كے پيروكار _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ '' من الناس'' سے مراد پيروكار مشركين اور '' انداد'' سے مراد ان كے سردار ہيں اور ضمير '' ہم '' ، ''انداد'' كى طرف لوٹتى ہے جو اس احتمال كى تائيد كرتى ہے _ كيونكہ يہ ضمير انسانوں اور صاحب عقل و شعور مخلوقات كے لئے استعمال ہوتى ہے _

۲۴ _ قيامت كا دن اللہ تعالى كى مطلق (لامحدود)

۵۶۳

قدرت كے ظہور كا دن ہے اور يہ كہ غير خدا كے پاس كوئي قدرت و طاقت نہيں ہے اس سے آگاہى كا دن ہے _

إذ يرون العذاب ان القوة للہ جميعاً

اسماء اور صفات: جمالى صفات۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۳،۸،۱۱،۱۶; اللہ تعالى كا بے مثل و مثال ہونا ۳; آخرت ميں اللہ تعالى كے عذاب ۱۲; آخرت ميں اللہ تعالى كى قدرت ۲۴; قدرت الہى ۱۱،۱۶

اللہ تعالى كے محب و عاشق :۷

احساسات و جذبات: احساسات اور عقيدہ۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پر ايمان كے اثرات و نتائج ۲۱; بے ايمانى كى علامتيں ۹

باطل معبود: باطل معبودوں كى قدرت ۱۸

تعقل: عدم تعقل كى علامتيں ۲

توحيد: توحيد ذاتى ۳

جہالت: جہالت كے نتائج و اثرات ۲۲; اللہ تعالى كى قدرت سے جہالت ۲۲

رجحانات و محبتيں : اللہ تعالى سے محبت ۵،۶،۷،۸، ۹،۲۳;طاقتور رہبروں سے محبت ۲۳; غير خدا سے محبت ۹،۲۳; باطل معبودوں سے محبت ۴،۵،۶;اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲۱; باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۱۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۲; شرك كا ظلم ۱۷; شرك كے عوامل ۲۲

ظالمين :۱۷

ظالمين اور قدرت الہى ۱۴; ظالمين كو اخروى عذاب ۱۵;ظالمين كى غفلت ۱۴

عذاب: شديد عذاب ۱۲،۱۳،۱۵; عذاب كے درجات ۱۲،۱۳،۱۵

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۸

عوام: مشرك عوام ۱،۲۳

۵۶۴

غفلت: اللہ تعالى كى قدرت سے غفلت ۱۴

قدرت: قدرت كے نتائج و اثرات۱۹،۲۰; غير خدا كى قدرت ۲۴; قدرت كا منبع ۱۱

قيامت: قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲۴

مشركين : مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشركين كا عقيدہ ۱،۱۸، ۱۹،۲۳; مشركين كى محبتيں ۴،۵،۶; مشركين اور قدرت الہى ۱۶;مشركين اور باطل معبود ۱۸،۱۹; مشركين كا عذاب سے سامنا ۱۶

مومنين: مومنين كا انس و محبت ۷; مومنين كے محبوب ۷

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ ( ۱۶۶ )

اس وقت جبكہ پير اپنے مريدوں سےبيزارى كا اظہار كريں گے اور سب كے سامنےعذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہوچكےہوں گے (۱۶۶)

۱ _ مشركين كى تقسيم سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں ميں _إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۲ _ مشركين ( سردار اور ان كے پيروكار) عذاب قيامت ميں مبتلا ہوں گے_إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا و رأوا العذاب ''راوا العذاب'' كى ضمير فاعلى ظاہراً دونوں گروہوں (سردار اور ان كے پيروكار) كى طرف لوٹتى ہے _ ما قبل او رما بعد والى آيت سے معلوم ہوتاہے كہ ''تبري'' كے لئے ظرف روز قيامت ہے _ بنابريں ''العذاب'' سے مراد عذاب قيامت ہے_

۳ _ سرداران شرك جب عذاب قيامت كا سامنا كريں گے تو اپنے پيروكاروں سے دورى اور بيزارى اختيار كريں گے _

إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورأوا العذاب جملہ ''و راوا العذاب'' حاليہ ہے يعنى سردار ان شرك كى اپنے پيروكاروں سے دورى و بيزارى اس حالت ميں ہوگى جب عذاب كا سامنا كريں گے _

۴ _ مشركين ( سرداران شرك اور ان كے پيروكار) كے لئے عذاب قيامت سے نجات كى خاطر كوئي وسيلہ نہيں ہے _

تقطعت بهم الاسباب ''بھم'' ، '' الاسباب'' كے لئے قيد ہے اور اس ميں ''بائ'' ،''ملابسة'' كے معنى ميں ہے پس جملہ '' تقطعت ...'' كا معنى يوں ہے

۵۶۵

(درآں حاليكہ ) ان كے پاس جو وسائل و اسباب تھے وہ سب كے سب ٹوٹ چكے ہوں گے اور نابود ہوجائيں گے ''الاسباب'' سے ممكن ہے عذاب سے نجات كے اسباب مراد ہوں يا مراد وہ اسباب ہوں جو سردار اور ان كے پيروكاروں كو ايك دوسرے سے جوڑتے ہوں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۵ _ قيامت كا دن پيروكار مشركين كے لئے ان كے پيشواؤں اور بزرگوں كى گمراہى سے آگاہى كا دن ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۶ _ الہى فرامين كے مقابل باطل قوتوں كى پيروى شرك ہے _*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم إذ تبرأ الذين اتبعوا

۷_ گمراہ قائدين اور پيشواؤں كا عوام كى گمراہى ميں بہت بنيادى كردار ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۸_ قيامت كے دن سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں كے مابين دوستى و ارتباط كے تمام وسائل و اسباب نابود ہوجائيں گے _و تقطعت بهم الاسباب يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الاسباب'' سے مراد سرداروں اور پيروكاروں كے مابين دوستى و پيوند كے اسباب ہوں _

۹_باطل كى بنياد پر انسانوں كى دوستياں اور اطاعت قيامت كے دن دشمنى اور اختلاف ميں تبديل ہوجائيں گي_إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۱۰_ دوستى اور اطاعت كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے _يحبونهم كحب الله إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

ماقبل آيت ميں پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين ارتباط كى بنياد محبت اور دوستى كو قرار ديا گيا ہے _ البتہ اگر ''انداد''سے مراد سردار و پيشوا ہوں تو آيت نے پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين رابطے كو تابع اور متبوع ( جسكى اتباع كى جائے ) كا رابطہ قرار ديا ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشار ہ ہے كہ محبت اور اطاعت ايك دوسرے كے لئے لازم و ملزوم ہيں يعنى جہاں محبت ہے وہاں اطاعت بھى ہے_

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا

۵۶۶

''اذا كان يوم القيامة ياتى النداء من عند الله عزوجل الا من تعلق بامام فى دار الدنيا فليتبعه الى حيث يذهب فحينئذ يتبرء الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورا وا العذاب و تقطعت بهم الاسباب ''(۱)

جب قيامت بر پا ہوگى تو ...رب ذو الجلال كى جانب سے صدا آئے گى جو كوئي دنيا ميں جس پيشوا سے وابستہ تھا جہاں اسكا پيشوا جائے تو وہ بھى اسى كے پيچھے جائے اس وقت گمراہ پيشوا اپنے پيروكاروں سے بيزارى اختيار كريں گے_ وہ لوگ عذاب الہى كا سامنا كريں گے اور ان كے تمام تر اسباب ٹوٹ جائيں گے ...''

اختلاف: آخرت ميں اختلاف كے اسباب ۹)

اظہار برائت كرنا : پيروكار مشركين سے اظہار برا ت ۳

اللہ تعالى : اوامر الہى سے منہ موڑنا ۶

تقليد: باطل تقليد كے نتائج ۹

دشمني: آخرت ميں دشمنى كے اسباب ۹

دوستى : باطل دوستى كے نتائج۹; دوستى اور اطاعت ۱۰

روايت: ۱۱

شرك : شرك كے موارد ۶

عذاب: اخروى عذاب سے نجات ۴

قائدين : گمراہ قائدين كا گمراہ كرنا ۷; گمراہى كے پيشوا قيامت ميں ۱۱

قدرت: باطل قوت و قدرت كى اتباع ۶

قيامت : قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۵; قيامت ميں اسباب كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں روابط كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں محبتوں كا منقطع ہونا ۸

لوگ: لوگوں كى گمراہى كے عوامل ۷

مشركين : پيروكار مشركين كى آگاہى ۵; مشركين پيشواؤں كا اظہار برائت ۳; مشركين كے پيشوا ۱; مشركين كے قائدين قيامت ميں ۲،۳،۸; مشركين كو اخروى

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ص ۶۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۰ ح ۴۸۵_

۵۶۷

عذاب ۲،۴; پيروكار مشركين كو عذاب ۴; مشرك قائدين كى گمراہي۵;پيروكار مشركين ۱; پيروكار مشركين قيامت ميں ۲،۵،۸; مشركين كا عذاب سے سامنا كرنا ۳

معاشرہ : معاشرے كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۷

معاشرتى طبقات: ۱

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ( ۱۶۷ )

اور مريد بھى يہ كہيں گے كہاے كاش ہم نے ان سے اسى بيزارى اختيار كيہوتى جس طرح يہ آج ہم سے نفرت كررہے ہيں _ خدا ان سب كے اعمال كو اسى طرح حسرتبنا كرپيش كرے گا اور ان ميں سے كوئيجہنم سے نكلنے والا نہيں ہے (۱۶۷)

۱ _ پيروكار مشركين ميدان حشر ميں دنيا كى طرف لوٹنے كى خواہش كريں گے تا كہ اپنے پيشواؤں سے اظہار برائت كريں اور ان كى مخالفت كريں _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرة فنتبرا منهم '' كرّ'' كا معنى رجوع ہے اور '' كرّة'' كا معنى ہے ايك بار رجوع كرنا اور اس سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہے بنابرايں '' لو ان لنا كرّة'' يعنى اے كاش ہم ايك مرتبہ دنيا كى طرف لوٹائے جائيں _

۲ _ ميدان حشرميں پيروكار مشركين اپنے مشرك يپشواؤں كى دوستى اور دنيا ميں ان كى اطاعت سے اظہار پشيمانى كريں گے _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

۳ _ قيامت كے دن مشرك پيروكاروں كى شرك اختيار كرنے اور مشرك قائدين كى اطاعت كرنے سے ندامت كوئي نتيجہ نہ دے گى اور نہ ہى انہيں نجات دلائے گى _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

اگر قيامت ميں ان كى نجات ميں شرك اور سے ندامت مؤثر ہوتى تو مشركين دنيا كى طرف بازگشت كى تمنا نہ كرتے _

۴ _ مشرك پيروكاروں كا اپنے مشرك قائدين سے اظہار برائت كے لئے تيار ہونا حق و حقيقت كى تلاش و جستجو كے لئے نہ ہوگا بلكہ جذبہ انتقام كى خاطر ہوگا _

فنتبرا منهم كما تبرء وا منا '' كما تبرا وا منا '' (چونكہ انہوں نے ہم سے بيزارى كى ہے) يہ جملہ پيروكار مشركين كے اظہار برائت كے محرك كو بيان كررہاہے_

۵ _ قيامت كے دن انسانوں ميں جذبہ انتقام ہوگا_فنتبرا منهم كما تبرأوا منا

۵۶۸

۶ _ قيامت ميں انسانوں كى نفسياتى كيفيات اور احساسات بھى ہوں گے _لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم كما تبرا و منا

۷_ قيامت كے ميدان ميں پيروكار مشركين شرك اختيار كرنے اور مشرك رہبروں كى اطاعت سے حسرت و پشيمانى اور غم و اندوہ كا اظہار كريں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۸_ قيامت كا منظردنياوى اعمال اور ان كے نتائج كے مشاہدے كا ميدان ہے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات

''يري'' كا فعل ممكن ہے '' رؤيت '' سے ہے جو آنكھوں سے ديكھنے كے معنى ميں ہے اس بناپر اس جملہ ''كذلك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى مشركين كو انكے اعمال ( يا ان اعمال كے نتائج ) دكھائے گا _

۹_ دنيا ميں انسان كے بُرے اور ناقابل قبول اعمال قيامت ميں حسرت و ندامت اور غم و اندوہ كا باعث بنيں گے _

كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۰_ اللہ تعالى قيامت كے ميدان ميں انسان كو اسكے دنياوى اعمال كا مشاہدہ كرائے گا _كذلك يريهم الله اعمالهم

۱۱ _ انسانوں كے برے اعمال قيامت ميں مجسم حسرت كى صورت ميں ان كے مقابل ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''يري'' كا معنى قلبى مشاہدہ ہو اس صورت ميں ' ' حسرات'' ، ''يري'' كے لئے تيسرا مفعول ہوگا اور جملے كا معنى يہ ہوگا اللہ تعالى مشركوں كے اعمال كو حسرتوں كى صورت ميں ان كے سامنے جلوہ نما كرے گا _

۱۲ _ شرك اختيار كرنا ، مشرك رہبروں كى محبت اور پيروى كرنا يہ اعمال پيروكار مشركين كے لئے عالم آخرت ميں حسرت و اندوہ كا باعث ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۳ _ مشركين ( قائدين اور پيروكار) آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے اور ہميشہ وہيں رہيں گے_و ما هم بخارجين من النار

۱۴ _ عالم آخرت سے دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو بے معنى اور بے ہودہ آرزو ہے جو ہرگز پورى نہ ہوگى _

لو ان لنا كرة و ما هم بخارجين من النار

۵۶۹

يہ جملہ '' و ما ہم بخارجين ...'' در حقيقت مشركين كى دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو كا جواب ہے _ يہ جملہ بيان كررہاہے كہ وہ لوگ نہ فقط واپس نہ لوٹيں گے بلكہ انہيں آتش جہنم سے رہائي بھى نہ ملے گى _

۱۵ _ اللہ تعالى كے اس كلام '' كذلك يريھم اللہ اعمالہم حسرات عليہم'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''هو الرجل يدع المال لا ينفقه فى طاعة الله بخلاً ثم يموت فيدعه لمن هو يعمل فى طاعة الله او فى معصيته فان عمل به فى طاعة الله راه فى ميزان غيره فزاده حسرة و قد كان المال له و ان كان عمل به فى معصية الله قواه بذلك المال حتى عمل به فى معصية الله'' (۱) اس سے مراد وہ شخص ہے جو دنيا ميں مال چھوڑ جاتاہے اور بخل كى وجہ سے اللہ كى اطاعت ميں اسے خر چ نہيں كرتا وہ مرجاتاہے اور پھر يہ مال اللہ كى اطاعت يا معصيت كى راہ ميں خرچ ہوتاہے پس اگر يہ مال خدا كى راہ ميں خرچ ہوا تو يہ شخص اس كو دوسروں كے نامہ اعمال ميں ديكھے گا اور اس كى حسرت ميں اضافہ ہوگا كيونكہ يہ مال اس كى ملكيت تھا اور اگر يہ مال اللہ تعالى كى معصيت كى راہ ميں خرچ ہوگا تو اس نے اس مال سے گناہ گار كى تقويت كى تا كہ اللہ تعالى كى نافرمانى كرسكے _

۱۶_ منصور حازم كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت'' و ماهم بخارجين من النار'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''اعداء على عليه‌السلام هم المخلدون فى النار ابد الابدين و دهر الداهرين ''(۲)

ان سے مراد علىعليه‌السلام كے دشمن ہيں جو جہنم ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے_

آرزو: دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو ۱،۱۴; باطل آرزو ۱۴

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۲،۳،۷،۱۲

اظہار برائت: مشرك رہبروں سے اظہار برائت ۱،۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۰

امام علىعليه‌السلام : على عليہ السلام كے دشمنوں كا انجام ۱۶

انسان: آخرت ميں انسانى احساسات۶; آخرت ميں انسانوں كا جذبہ انتقام۵; انسان كى آخرت ميں حسرت ۱۱; قيامت ميں انسانوں كا عمل ۱۰

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۴۲ ح ۲ ، نورالثقلين /ج۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۹_

۲) تفسير عياشى ج/۱ص۷۳ ح ۱۴۵، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۸_

۵۷۰

اہل جہنم : ۱۳،۱۶

پشيمانى : بے نتيجہ پشيمانى ۳

جذبہ محركہ: جذبہ محركہ كے عوامل ۴

جہنم: آتش جہنم ۱۳; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۶; جہنم ميں ہميشگى ۱۳

حسرت : اخروى حسرت كے عوامل ۱۵

دشمني: مشركين قائدين سے دشمنى ۱

دوستى : مشركين قائدين سے دوستى كے نتائج ۲ ;ناپسنديدہ دوستى ۲

رجحانات اور محبتيں : مشرك قائدين سے محبت كے نتائج ۱۲

روايت:۱۵،۱۶

شرك : شرك كے نتائج و اثرات ۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۳

عمل: عمل كے اخروى نتائج ۸; ناپسنديدہ عمل كے اخروى نتائج ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے نتائج ۹

قيامت : قيامت ميں جذبات و احساسات۶; قيامت ميں جذبہ انتقام ۵; قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۸،۱۱; قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۸; قيامت ميں اندوہ كے عوامل ۷،۹،۱۲; قيامت ميں حسرت كے عوامل ۷،۹،۱۱،۱۲; قيامت كى خصوصيات۸

مال: گناہ ميں مال كا استعمال ۱۵

مشركين : مشركين كى اخروى آرزو ۱; پيروكار مشركين كا جذبہ انتقام ۴; مشركين كا اندوہ ۷; پيروكار مشركين كا اخروى اندوہ ۱۲; مشركين كى اخروى پشيمانى ۲،۳; مشركين كى اخروى حسرت ۷; پيروكار مشركين كى حسرت ۱۲;مشرك قائدين جہنم ميں ۱۳; مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشرك قائدين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين جہنم ميں ۱۳; پيروكار مشركين قيامت ميں ۱،۲،۳،۷

۵۷۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ( ۱۶۸ )

اےانسانو ميں جو كچھ بھى حلال و طيب ہےاسے استعمال كرو اور شيطانى اقدامات كااتباع نہ كرو كہ وہ تمھارا كھلا ہوا دشمنہے (۱۶۸)

۱ _ زمين كى پيداوار سے كھانا اور استفادہ كرنا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اللہ تعالى نے تاكيد فرمائي ہے_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً ''كلوا'' كا مصدر ''اكل'' ہے جس كا معنى كھانا ہے _ بہت سے موارد ميں ''مجاز شامل'' كے طور پر استعمال ہوتاہے جسكا معنى مطلق تصرف يا استفادہ كرنا ہے اور كھانا بھى اسى ميں شامل ہے _

۲ _ تمام انسان قرآن حكيم كے مخاطب ہيں اور ان كو دعوت دى گئي ہے كہ اس كے احكام كا خيال ركھيں _

يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۳ _ زمين كى پيدا وار سے كھانے اور استفادہ كرنے ميں اللہ تعالى كى نصيحت ميں بنيادى شرائط يہ ہيں كہ پاكيزہ، طبيعت كے موافق اور حلال ہو_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً اس مطلب ميں ''حلالاً'' اور ''طيباً'' ، ''ما'' كے لئے حال ہے ، طيب اپنے موارد استعمال كے اعتبار سے خوب ، اچھا كا معنى ديتاہے لہذا ہر جملے ميں اس كى تفسير اس حكم كے مناسب كى جائيگى جو اس جملے ميں موجود ہے_

۴ _ زمينى پيداوار اور وسائل سے استفادہ كرنے كے لئے ضرور ى ہے كہ حلال اور اچھى چيز كا انتخاب كيا جائے_

كلوا مما فى الأرض حلالاً طيبا اس مطلب ميں ''حلالا'' اور ''طيبا'' كو محذوف مفعول مطلق كى صفت قرار ديا گيا ہے يعنى كلوا اكلاً حلالا طيبا پس يہ دو قيد اس لئے بيان ہوئيں ہيں كہ استفادے كى نوعيت بيان كريں _

۵_زمين سے پيدا ہونے والى عذاؤں ميں حفظان صحت كے اصول كى مراعات كرنا ضرورى ہے_كلوا مما فى الأرض حلا لا طيبا

۶_ زمين كے وسائل سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے_ يہ كسى گروہ يا امت مسلمان و غيرہ سے مختص نہيں ہے _يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۷_ انسان بے ہودہ اور بے بنياد بہانوں (زہد، قبائلى رسومات و غيرہ وغيرہ ) كى بناپر زمين كى نعمتوں اور وسائل سے خود كو محروم نہ كريں _

كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا

۵۷۲

''كلوا'' كا حكم اگر چہ مفسرين كى نظر ميں مباح كے لئے ہے نہ كہ وجوب كے لئے _ تا ہم مباح كو بيان كرنے كے لئے امر كا صيغہ استعمال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ متكلم ترغيب دلارہاہے اور ان چيزوں سے اجتناب يا پرہيز كو ٹھيك نہيں سمجھتا_

۸_ شيطان كى پيروى سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۹_ شيطان انسانوں كا بہت واضح دشمن ہے _انه لكم عدو مبين

۱۰_ شيطان مكار، فريب دينے والا اور دغاباز موجود ہے جبكہ انسان اس كے اثرات كو قبول كرنے والا ہے _

و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۱ _ شيطان انسانوں كو مرحلہ بہ مرحلہ ، قد م بہ قدم زوال اور انحراف كى طرف كھينچ لے جاتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان ''خطوات'' كى مفرد ''خطوة'' ہے جسكا معنى قدم ہے آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد وہ راستہ ہے جو شيطان نے انسان كے ليئے معين كيا ہے خطوات كو جمع استعمال كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كو منحرف كرنے كے لئے شيطان كے پاس مختلف راستے ہيں يا اس سے مراد يہ ہوسكتا ہے كہ شيطان انسان كو قدم بہ قدم ، گام بہ گام تباہى و زوال كى طرف لے جاتاہے_

۱۲ _ انسانوں كو منحرف كرنے كے لئے شيطان مختلف راہوں سے استفادہ كرتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۳ _ زمين كى نعمتوں اور وسائل كو اپنے ليئے حرام قرار دينا شيطان كى پيروى ہے_كلوا مما فى الأرض و لا تتبعوا خطوات الشيطان وسائل و امكانات سے استفادہ كرنے اور حرام و پليديوں سے پرہيز كى نصيحت كرنے كے بعد شيطان كى پيروى سے منع كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ وسائل و نعمات سے استفادہ نہ كرنا اور حرام و پليديوں سے نہ بچنا ايك طرح سے شيطان كى پيروى ہے _

۱۴_ محرمات اور ناپاك و پليد اشياء سے فائدہ اٹھانا شيطان كى پيروى كرنا ہے _كلوا مما فى الأرض حلالا طيباً و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۵ ۱_ انسان كى فطرى ضروريات اسكے انحراف اور شيطان كے دام اور چنگل ميں پھنسنے كى زمين كو فراہم كرتى ہيں _

كلوا مما فى الأرض حلالا ً طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۶_ لوگوں كو حرام اور ناپاك و پليد اشياء سے استفادہ پر آمادہ كرنا اور حلال نعمتوں سے روكنا انسان كے ساتھ شيطان كى دشمنى كا ايك جلوہ ہے _ كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو

۵۷۳

۱۷_ دشمنوں اور ان كى خواہشات كى پيروى سے پرہيز ضرورى ہے _

ولا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين شيطان كى انسان سے دشمنى اس بات كى دليل ہے كہ اسكى اتباع سے اجتناب كيا جائے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جو كوئي يا جو چيز بھى انسان كى دشمن ہو اسكى پيروى سے اجتناب كرے _

۱۸_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''ان من خطوات الشيطان الحلف بالطلاق والنذور فى المعاصى وكل يمين بغير الله (۱)

زوجہ كى طلاق كى قسم كھانا، گناہوں پر نذر كرنا اور اللہ كے علاوہ ہر قسم كھانا يہ شيطان كے قدموں ميں سے ہے_

احكام:۱

اطاعت: دشمنوں كى اطاعت ۱۷; شيطان كى اطاعت ۸،۱۳،۱۴; ناپسنديدہ اطاعت ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱

انحراف: انحراف كا مرحلہ بہ مرحلہ ہونا ۱۱; انحراف كى زمين آمادہ ہونا ۱۵; انحراف كے عوامل ۱۱،۱۲

انسان: انسان كامكارى و فريب كے دام ميں پھنسنا ۱۰; انسانوں كے حقوق ۶; انسان كے دشمن ۹،۱۶; انسان كى صفات ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۲،۷

حقوق: استفادے كا حق ۶

خبائت و پليد چيزيں : خبيث و پليد اشياء سے استفادہ ۱۴،۱۶

زمين : زمين سے استفادہ ۱،۶; زمين كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۳،۴

زہد: ناپسنديدہ زہد ۷

روايت:۱۸

شيطان : شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱۰; شيطان كى مختلف راہيں ۱۲; شيطان كى دشمنى ۹،۱۶; شيطان كے فريب كى روش ۱۱،۱۲; شيطان كے تسلط كى

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۴۶۰،نورالثقلين ج/۱ ص۱۵۲ ح ۴۹۲_

۵۷۴

زمين ہموار ہونا ۱۵; شيطان كى صفات ۱۰; شيطان كے قدم ۱۸

ضروريات: ضروريات كے اثرات و نتائج ۱۵

غذائيں : پاكيزہ غذائيں ۳; غذاؤں سے استفادہ كى شرائط ۳

غذا كى فراہمي: غذا كى فراہمى ميں حفظان صحت كى اہميت ۵

قرآن كريم : قرآن كريم كے مخاطبين ۲

قسم : زوجہ كى طلاق كى قسم ۱۸

مباحات:۱

مباحات سے استفادہ ۷; مباحات كو حرام قرار دينا ۱۳; مباحات سے ممانعت۱۶;

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۴، ۱۶

نذر: گناہ كے ليئے نذر كرنا ۱۸

وسائل و نعمات: وسائل و نعمات سے اسفتادہ كرنا مباح ہے۷ ; مباح وسائل و نعمات كو حرام قرار دينا ۱۳

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۱۶۹ )

وہ بس تمھيں بد عملى اور بدكاريكا حكم ديتا ہے اور اس بات پر آمادہ كرتاہے كہ خدا كے خلاف جہالت كى باتيں كرتےرہو (۱۶۹)

۱ _ شيطان اپنے وسوسوں كے ساتھ انسانوں كو برّے اور مكروہ اعمال ( گناہان صغيرہ اور كبيرہ ) كى ترغيب دلاتاہے _

انما يامركم بالسوء والفحشاء ''امر'' كا معنى ہے حكم دينا _ آيہ مجيدہ ميں حكم اور موضوع كى مناسبت سے اس سے مراد وسوسہ و غيرہ ميں ڈالنا ہے_ ''فحشا'' ايسى برائي كو كہتے ہيں

جو حد سے بڑھى ہوئي ہو _ اسے گناہ كبيرہ كہا جاسكتاہے اور قرينہ مقابلہ كے ہوتے ہوئے ''سوئ'' سے مراد گناہ صغيرہ ہے _

۲ _ شيطان لوگوں كو ترغيب دلاتاہے كہ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھيں ( بدعتيں ايجاد كريں اور احكام دين ميں تحريف كريں )_انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۵۷۵

''قول'' اپنے مشتقات كے ساته جب بهى ''علي'' كے ساته متعدى هو تو '' نسبت دينا اور جهوٹ باندهنا'' كا معنى ديتاهے_

۳ _ حرام كو حلال سمجھنا اور حلال كو حرام خيال كرنا اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ہے _يا ايها الناس انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۴ _ ہر چيز ( فعل ، گفتگو، صفت و غيرہ و غيرہ ) كى اللہ تعالى كى طرف نسبت دينا علم و يقين كى بنياد پر ہونا چاہيئے_

و ان تقولوا على الله ما لاتعلمون

۵ _ احكام دين كے بارے ميں بغير علم و آگاہى كے اظہار نظر كرنا (فتوى دينا ) ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے _

و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۶ _ شيطان كا برائيوں اور بدعتوں كى طرف دعوت دينا اس كى شيطنت كا ايك جلوہ اور انسانوں كے ساتھ اسكى دشمنى كى دليل ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون يہ جملہ''انما يامركم ...'' اس جملہ ''انہ لكم عدو مبين'' كى دليل ہے يعنى تم انسانوں كے ساتھ شيطان كى دشمنى كى دليل و علامت يہ ہے كہ وہ تمہيں برائيوں كى ترغيب دلاتاہے_

۷_ لوگوں كو برائيوں كى طرف دعوت دينا شيطانى فعل ہے اور انسان كے دشمنوں كى آشنائي اور شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء اگر جملہ''انما يامركم'' اس جملہ ''انہ لكم عدو'' كے لئے استدلال ہو تو مذكورہ بالا مطلب اس سے نكلتاہے_

۸_ لوگوں كو بدعتوں كے ايجاد كرنے اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے پر آمادہ كرنا شيطانى كام ہے اور انسان كے دشمنوں كى شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۹_ شيطان انسانوں كو شرك اختيار كرنے پر ترغيب دلاتا ہے اور مشرك قائدين كے ساتھ دوستى اور ان كى اتباع پر تشويق دلاتاہے*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً انما يامركم بالسوء والفحشاء

ماقبل آيات كے قرينہ سے ''سوئ'' اور ''فحشائ'' كے مصاديق ميں سے شرك اختيار كرنا اور ہے_

۱۰_ بدكارياں كرنے والے اور فحشا و پليدياں اختيار كرنے والے شيطان كے پيروكار ہيں _لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم بالسوء و الفحشاء

۱۱_ حلال اور طيب نعمتوں سے پرہيز كرنا اور پليد و حرام

۵۷۶

غذائيں كھانا برُے اور ناپسنديدہ افعال ہيں _كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا انما يامركم بالسوء والفحشاء

۱۲_ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے والے شيطان كے پيروكار اور اس كے نمائندے ہيں _

لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

احكام : ۵

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كى شرائط ۴

اللہ تعالى پرجھوٹ باندھنے والے : ۱۲

انسان: انسان كے دشمن ۶

بدعت: بدعت كى تشويق ۸; بدعت كے عوامل ۲،۶

تحريف : تحريف كے عوامل ۲

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۲،۳،۸; جھوٹ باندھنے پر تشويق كرنا ۸

حرام خورى : حرام خورى كا ناپسنديدہ ہونا۱۱

خبائث اور پليدياں : خبائث اور پليديوں سے استفادہ كرنا ۱۱

دشمن شناسى : دشمن شناسى كے معيارات ۷،۸

دوستى : مشرك قائدين سے دوستى ۹

شرك : شرك كى تشويق كرنا ۹; شرك كے عوامل ۹

شيطان : شيطان كا گمراہ كرنا ۹; شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱،۲،۶; شيطان كے پيروكار ۱۰،۱۲; شيطان كى تشويقات ۱،۲،۹; شيطان كى دشمنى ۶; شيطان كے نمائدے ۱۲; شيطان كا اہم كردار ۱،۲،۹

طيبات: طيبات سے اجتناب ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل كى دعوت ۶،۷; شيطانى عمل ۷،۸; ناپسنديدہ عمل ۵،۱۱

۵۷۷

فتوى دينا : بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے ۵; فتوى دينے كى شرائط ۵

فحشاء : فحشاء كا ارتكاب كرنے والا ۱۰

گناہ : گناہ كى تشويق ۱; گناہ كے اسباب ۱

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينا ۳

محرمات :۵ محرمات كو حلال قرار دينا ۳

يقين: يقين كى اہميت ۴

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ ( ۱۷۰ )

جب ان سے كہا جاتا ہے كہ جو كچھخدا نے نازل كيا ہے اس كا اتباع كرو توكہتے ہيں كہ ہم اس كا اتباع كريں گے جسپر ہم نے اپنے باپ دادا كو پايا ہے _ كيايہ ايسا ہى كريں گے چاہے ان كے باپ دادابے عقل ہى رہے ہوں اور ہدايت يافتہ رہےہوں (۱۷۰)

۱ _ قرآن كريم اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام كى اتباع كرنا ضرورى ہے _اتبعوا ما انزل الله

۲ _ پيامبر اسلام (ص) تمام انسانوں كو قرآن كريم اور احكام الہى كى پيروى كى دعوت دينے والے ہيں _و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله

۳_قرآن كريم اور احكام اسلام كا الہى ہونا ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے _اتبعوا ما انزل الله

''ما انزل اللہ'' ميں ''ما'' سے مراد قرآن حكيم اور احكام دين ہيں ان كى پيروى كا حكم دينے كے بعد جو فرمايا كہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے ہيں يہ ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) نے مشركين كو احكام الہى كى پيروى كرنے كى دعوت دى تو انہوں نے كہا ہم اپنے اسلاف كے آداب و اطوار اور رسوم و رواج كى اتباع كريں گے _و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا ''الفينا'' كا مصدر'' الفائ'' اسكا معنى ہے پانا _

۵۷۸

۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى دعوت كو قبول نہ كرنا اور قرآن و دين كے احكام كى پيروى نہ كرنے كے عوامل ميں سے ايك اپنے اسلاف كے آداب و اطوار پر انحصار كرنا اور اسى پر باقى رہنے پر اصرار كرنا ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آبائنا

۶ _ نسلى اور قبائلى تعصبات ناپسنديدہ اور مكروہ چيز ہے جو حق كو قبول نہ كرنے كى زمين فراہم كرتے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۷_ نسلوں كى گمراہى يا ہدايت ميں اقوام كے آداب و اطوار اور رسوم اثر انداز ہوتى ہيں _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۸_ انسانوں كو قرآن كريم اور احكام دين سے روكنے كے لئے اندھى تقليد شيطانى حيلوں اور سازشوں ميں سے ہے _

لا تتبعوا خطوات الشيطان و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

'' بل نتبع ...'' سے مراد اندھى تقليد ہے ماقبل آيات كى روشنى ميں يہ '' خطوات الشيطان'' كا ايك مصداق ہے _اندھى تقليد كا مفہوم جملہ''و لو كان آباؤہم ...'' سے استفادہ ہوتاہے _

۹_ زمانہ بعثت كے لوگوں كا شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام قرار دينا اسكى بنياد ان كى اپنے اسلاف كى تقليد تھي_كلوا مما فى الأرض ...و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

آيت ۱۶۵ ، ۱۶۸ كى روشنى ميں ''ما الفينا عليہ آبائنا''كے مورد نظر مصاديق شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام جانناہے_

۱۰_ احمقوں اور ناقابل ہدايت لوگوں كى پيروى اور تقليد كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ عمل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون

۱۱_ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا عاقلانہ امر ہے _اتبعوا ما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون قرآن حكيم اور احكام الہى كى پيروى كو ضرورى قرار دينا اور پھر مشركين كى اپنے گمراہ و احمق اسلاف كى پيروى كرنے كى روش كو غير منطقى قرار دينا اور اس پر تنقيد كرنا يہ اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا ايك عاقلانہ معاملہ ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت كرنے والے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعواما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۳ _ قرآن كريم نے مخالفين كو منطق و ا ستدلال كے

۵۷۹

ساتھ مخاطب قرار ديا ہے_اولوكان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۴ _ عقل كى قدر و منزلت اور اسكى پيروى _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۵ _ عقل اور دين ہم جہت و ہم آہنگ ہيں _اتبعوا ما نانزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۶ _ انسانوں كى ہدايت قبول كرنے ميں عقل ايك سرمايہ ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۷_ شرك اختيار كرنا حماقت كى دليل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً

۱۸_ ہدايت يافتہ اور صاحب عقل انسانوں كى تقليد يا پيروى كرنا بے جا نہيں ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون يہ جملہ '' او لو كان ...'' بيان كررہاہے كہ فقط تقليد كرنے كو رد نہيں كيا جاسكتا بلكہ وہ تقليد قابل مذمت ہے جس ميں وہ شخص جسكى تقليد كى گئي ہے اہل فہم و خرد اور ہدايت يافتہ نہ ہو_

۱۹_ اسلاف كى تقليد كرنا جاہلانہ اور غير منطقى و تيرہ ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا او لو كان آباؤهم لا يعقلون

احكام : احكام كا وحى ہونا ۳

اسلاف: اسلاف كى پيروى كے نتائج۹; اسلاف كے آداب و رسوم كى پيروى كرنا ۴،۵

اسلام: اسلام كى پيروى كے دلائل ۳; اسلام كا وحى ہونا ۳

اطاعت: شيطان كى اطاعت ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات سے منہ موڑنا ۵; پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۲

تعصب: تعصب كے اثرات و نتائج ۶; نسلى تعصب ۶

قومى تعصب ۶; تعصب كا ناپسنديدہ ہونا ۶

تعقل: تعقل نہ ہونے كى علامتيں ۱۷

تقليد: اندھى تقليد كے نتائج ۸; احمقوں كى تقليد ۱۰; عقلاء كى تقليد ۱۸; گمراہوں كى تقليد ۱۰; ہدايت يافتہ

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785