تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206681 / ڈاؤنلوڈ: 5969
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

شیخ طوسی کا جواب

تقیہ جھوٹ نہیں ہے  کیونکہ  ، الکذب ضد الصدق و ہو الاخبار عن الشیء لا علی ما ہو بہ. یعنی جھوٹ  سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کی کوئی حقیقت  نہ ہو .

پس جھوٹ کا دو رکن ہے :

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا .

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا.

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا.

 ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا .

 ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہو کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کو حفاظت کرے .

 لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ  اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے .دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھا ہے وہ حق ہو .

اگر کسی نے اشکال کیا  کہ جھوٹ تقیہ سے اعم ہے .تو ہم جواب دیں گے کہ بالفرض تقیہ کرنے والا خبر دینے کی نیت کرے     بلکہ تعریض کی نیت کرے(1)

--------------

(1):- .   ہمان ،  ص  ۲۸۰.  

۱۸۱

تقیہ یعنی منافقت!

ممکن ہے کوئی یہ  ادعا کرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ  بھی اسی کی ایک قسم ہے. کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھا ہو .

شیخ طوسی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع  اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے  تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے .اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام  کاکلمہ پڑھ کر کفر کے حکم لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے اگر چہ منافق مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے .

یہ  درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے .اور دونوں قابل جمع بھی نہیں.

امام صادق(ع) اس مختصر حدیث میں  مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کے دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:و ایّم اﷲ لو دعیتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقی و لکانت التقیه احبّ الیکم من آبائکم و امّهاتکم ، ولو قد قام القائم ما احتاج الی مسائلکم عن ذالک و لا قام فی کثیر منکم حدّ النفاق .(1)

یعنی خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو  کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کیونکہ ہم تقیہ کی حالت میں ہیں  .تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک  زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گا ، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے

--------------

(1):- .      وسائل الشیعہ، ج ۲ ، باب ۲۵.

۱۸۲

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام(ع)  اپنے بعض نادان دوست کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصہ کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں .

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پردہ پوشی کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے .اجتماعی اور الٰہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام تقیہ ہے .اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وہ منافق کہلائے گا.

ایک اور حدیث میں امام (ع)سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان میں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن  کی صفات سے خارج ہے  اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں  ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے: لانّ للتقیه مواضع من ازالها  عن مواضعها لم تستقم له (1)

کیونکہ تقیہ کے بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے تو وہ معذور نہیں ہوگا .اور حدیث کے آکر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو .

کمیت شاعر کہ جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت میں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور  مکتب اہل بیتکی حمایت کی ایک دن امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ  امام کا چہرہ بگڑا ہواہے .

--------------

(1):- .      ہمان ، ج ۶ ، باب ۲۵.

۱۸۳

 جب وجہ پوچھی   توشدید اور اعتراض آمیز لہجے میں  فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فالان صرت ا لی امّة    و الامم  لها الی مصائر

یعنی ابھی تو میں خاندان  بنی امیہ کی طرف  متوجہ ہوا ہوں اور ان کا کام میری طرف متوجہ ہورہا ہے

کمیت کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور آپ خاندان اہل بیت سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی  لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً  پڑھا ہے

امام(ع) نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف  کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز ملے گا .اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گا .اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا. اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسی اور ظالموں کی ثنا خوانی کا بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا.اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گا(1)

تقیہ،  جہادکے متنافی

اشکال  یہ ہے : اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں(2)

--------------

(1):- مکارم شیرازی؛ تقیہ سپری عمیقتر، ص ۷۰.   

(2):- قفاری ؛ اصول مذہب الشیعہ، ج۲، ص ۸۰۷.

۱۸۴

جواب: اسلامی احکام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

1.  وہ احکامات جن کا اجراء کرنا  کسی جانی ضرر یا نقصان  سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر .

2.  وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جیسے زکوۃ  اور خمس  کا ادا  کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ .

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے .لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے .اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، کہ جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد  بھی واجب ہوجاتا ہے .اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانی پڑے.

تقیہ اور آیات تبلیغ کے درمیان  تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم (ص) کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے(1)

۱. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (2)

--------------

(1):-   ابوالفضل آلوسی؛ روح المعانی،ج ۳، ص ۱۲۵.

(2):- مائدہ۶۷.

۱۸۵

 اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

اس آیہ مبارکہ  میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف  اور ڈر ہی کیوں نہ ہو.

۲. الَّذِینَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ الل ه وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا الل ه وَكَفَی بِالل ه حَسِیبًا (1) یعنی وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے  .

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے .

اسی طرح اللہ  تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:إِنَّ الَّذِینَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ الل ه مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَُونَ بِهِ ثمََنًا قَلِیلاً  أُوْلَئكَ مَا يَأْکلُُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ الل ه يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. (2)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے  .

--------------

(1):- احزاب ۳۹.

(2):- بقرہ ۱۷۴.

۱۸۶

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے یہاں تقیہ بے مورد ہے .

 لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے مثال کے طور پر ایک  کم اہمیت والا فقہی فتویٰ دے کر کسی فقیہ  یا عالم دین کی جان پچانا.

تقیہ اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وہابی لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے خداتعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے.(1)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق بات کرنے سے  سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ  ذلت کا سبب  ہے اور نہ مذمت کاباعث

چنانچہ عمار ابن یاسر نے ایسا کیا تو قرآن  کریم نے بھی اس کی مدح سرائی  شروع کی .

--------------

(1):- .      موسی موسوی؛ الشیعہ و التصحیح ، ص ۶۷.

۱۸۷

تقیہ ،ما نع امر بہ معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربہ معروف اور نہی از منکر کرنے سے روکتی ہے کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا .جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہے .اس مطلب کی تائید میں فرمایا : افضل الجہاد کلمة حق عند سلطان جائر. ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا  بہترین جہاد  ہے .

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ـ امر بہ معروف و نہی از منکر بہ صورت مطلق جائز  نہیں بلکہ اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معیارہے  کہ اگر یہ  شرائط اور معیار موجود ہوں تو  واجب ہے ..ورنہ  اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا .

من  جملہ شرائط امر بہ معروف و نہی از منکر  میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے  جرم ،جیسے قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے

۲ـ  وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گا ،اس سے  دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے(1)

تقیہ امام معصوم(ع)سےمربوط شبہات

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام معصوم(ع) کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کرے تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

--------------

(1):- .      دکتر محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص ۲۸۹.

۱۸۸

 تقیہ اور امام(ع) کا بیان شریعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصوم کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے  خلق کیا گیا ہے لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگے تو بہت سارے احکام رہ جائیں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے. اور ان کی بعثت کا فلسفہ  بھی ناقص ہو گا. اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے علی(ع) کو  اظہار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کیا معنی  رکھتا  ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ امامان معصوم نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر عمل کئے ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے  ان کے فرامین کو قبول نہیں کیا .

. چنانچہ حضرت علی(ع) کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآں مجید کی جمع آوری ، آیات کی شان نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں  ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا .(1)

جب امام نے یہ حالت دیکھی تو خاص شاگردوں کی تربیت اور ان کو اسلامی احکامات اور دوسرے معارف کا تعلیم دیتے ہوئے اپنا شرعی وظیفہ انجام دینے لگے ؛ لیکن یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نے ان کے فرامین کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا .

امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

1.  معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امام کا قول ، پیغمبر اسلام(ص) کے قول کی طرح حجت ہے .

2.  امامیہ  والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہو،کوئی اور مانع بھی موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں شیخ طوسی کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہو .

--------------

(1):- .      محمد باقر حجتی؛ تاریخ قرآن کریم، ص ۳۸۷.

۱۸۹

امام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے  شرائط

     شرعی وظیفوں  پر عمل پیرا ہونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام پر منحصر نہ ہو جیسے امام کا منصوص ہونا فقط امام کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبر (ص) اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف جان سکتا ہے تو  ایسی صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں

      اس صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہو.

     جن موارد میں امام تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں .

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام میں منحصر نہ ہو ، یا امام کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام کا تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتی ہو اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام حالت تقیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں کہ  امام تقیہ کرسکتے ہیں(1)

 تقیہ، فرمان امام(ع) پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے  کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینوسیع پیمانے پر تقیہ لگے تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کئے  ہوں .اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے .کیونکہ کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی. اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومین کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے .

--------------

(1):- .      محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی، ص۳۳۳.

۱۹۰

لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام ہو یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہو تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے .اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب اگر ان کو معلوم ہوجائے تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا .

تقیہ اور علم امام  (ع)

علم امام کے بارے میں شیعہ متکلمین کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں  اختلاف  ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں .

پہلا نظریہ : قدیم شیعہ متکلمین جیسے ، سید مرتضی وغیرہ معتقد ہیں کہ امام تمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت  کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و...بصورت موجبہ جزئیہ ہے نہ موجبہ کلیہ .

دوسرا نظریہ : علم امام(ع) دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں(1)

بہ ہر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ علم امام(ع)احکام اور معارف اسلامی کے بارے میں  بصورت موجبہ ہے .  وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنا میں ممکن ہے  اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے

پہلا اشکال: تقیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  آئمہ تمام فقہی احکام اور اسلامی معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں.

--------------

(1):- .      کلینی ؛ اصول کافی، ج۱ ، ص ۳۷۶

۱۹۱

اس اشکال کو سلیمان ابن جریر زیدی نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہمیں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.

پہلا عقیدہ  بداء ہے .

دوسرا عقیدہ تقیہ ہے.

شیعیان اپنے  اماموں سے  مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے  اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے  یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعہ جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں  .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .

سلیمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر  جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے(1)

--------------

(1):- ۱.    نوبختی؛  فرق الشیعہ ،  ص  ۸۵ ـ۸۷.

۱۹۲

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے  .

جواب :

 امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام  احکام اور معارف الٰہی کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر متقن دلیل بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہو.

چنانچہ شیخ طوسی نے اپنی روایت کی کتاب تہذیب الاحکام  کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے

علامہ شعرانی اور علامہ قزوینی یہ دو شیعہ دانشورکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ  شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے

علامہ شعرانی کہتے ہیں : آئمہ  تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف  امر بہ معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :  اذا شائوا  ان یعلموا علموا.کے مالک تھے  ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہ کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں

علامہ قزوینی فرماتے ہیں :آئمہ تقیہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے اس لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے(1)

اس  شبہ کا جواب

اولا: علم امام کے دوسرے مبنا پر یہ اشکال  ہے  نہ پہلے مبنا پر ، کیونکہ ممکن ہے جو پہلےمبنا  کا قائل ہے  وہ کہے  امام اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاہ نہیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیہ کرتے تھے

--------------

(1):- .  مجلہ نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.

۱۹۳

ثانیاً : امام کا تقیہ کرنا اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ ممکن ہے اپنے اصحاب اور چاہنے والوں کی جان کے خوف سے ہوں ؛ یا اہل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیہ کئے ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہیں کہ تقیہ کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل ہیں ممکن ہے کہہ دیں کہ امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ ہی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیہ کے ذریعے اپنی جان بچانا چاہتے تھے

ان دو شیعہ عالم دین پر جو اشکال وارد ہے یہ ہے ، کہ اگر آپ آئمہ کے تقیہ کا انکار کرتے ہیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں خود آئمہ طاہرین  تقیہ کے بہت سے فضائل بیان فرماتے ہیں  اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیہ کرنے کو ثابت کرتی ہیں؟!

تقیہ اور عصمت

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام تقیہ کرتے ہوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یہ حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف ہے !(1)

جواب یہ ہے کہ اگر ہم تقیہ کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے ہیں چنانچہ اہل سنت بھی اسے مانتے ہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقیہ کو حکم کلی قرار دیا ہے.

--------------

(1):- محسن امین، عاملی؛  نقض الوشیعہ ، ص ۱۷۹.

۱۹۴

ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ امام (ع) نے بہ عنوان حکم اولی اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی ہے ؛ لیکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے .جیسے خود اللہ تعالیٰٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے  مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا ہے

ثانیاً: شیعہ اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے بلکہ  انہیں خودشارعین میں سے مانتے ہیں .جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےہیں .

 بجائےتقیہ؛ خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے؟

اشکال: تقیہ کے موقع پر امام بطور تقیہ جواب دینے کی بجائے خاموشی کیوں اختیار نہیں کرتے ؟!

جواب :

اولا: امام معصوم(ع) نےبعض موارد میں سکوت بھی اختیار کئے ہیں اور کبھی طفرہ بھی کئے ہیں اورکبھی  سوال اور جواب  کو جابجا بھی کئے ہیں .

ثانیا:سکوت خود تعریف تقیہ کے مطابق ایک قسم کاتقیہ ہے کہ جسے تقیہ کتمانیہ کہا گیاہے .

ثالثا: کبھی ممکن ہے کہ خاموش رہنا ، زیادہ  مسئلہ کو خراب کرے جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو تو اس کو گمراہ کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا ہی  زیادہ فائدہ مند ہے(1)

رابعا: کبھی امام کے تقیہ کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعیت کے خلاف اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے جیسے اپنے چاہنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیز کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا اور یہ صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظہار کرکے ہی ممکن ہے

--------------

(1):- فخر رازی؛ محصل افکار المتقدمین من الفلاسفہ والمتکلمین،ص ۱۸۲.

۱۹۵

.اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے اہل سنت کے فتوی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے چنانچہ امام موسیٰ کاظم(ع)نے علی ابن یقطین  کو اہل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا  گیا(1)

تقیہ کی بجائے توریہ کیوں نہیں کرتے ؟!

شبہ: امام(ع)موارد تقیہ  میں توریہ کرسکتے ہیں، تو توریہ کیوں نہیں کرتے ؟ تاکہ جھوٹ بولنے میں مرتکب نہ ہو(2)

اس شبہہ کا جواب:

اولاً:تقیہ کے  موارد میں توریہ کرنا خود ایک قسم کا تقیہ ہے

ثانیاً: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر امام کیلئے ہر جگہ توریہ کرنے کا امکان ہوتا تو ایسا ضرور کرتے .

ثالثاً:بعض جگہوں پر امام کیلئے توریہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اظہار خلاف پر ناچار ہوجاتےہیں.

تقیہ اور دین کا  دفاع

شبہہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ، اللہ تعالیٰٰ کے دین کی حفاظت کرنا ہے .اگر چہ اس راہ میں قسم قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے .اور اہل بیت پیغمبر بالخصوص ان ذمہ داری کو نبھانے کیلئے زیادہ حقدار ہیں(3)

جواب:آئمہ طاہرین نے جب بھی اصل دین کیلئے کوئی خطر محسوس کیا اور اپنے تقیہ کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیہ کو ترک کرتے ہوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف ہوگئے

--------------

(1):- ہمان ،  ص  ۱۹۳.

(2):- وسائل شیعہ، ج۱، ص  ۲۱۳.

(3):- ابوالقاسم، آلوسی؛ روح المعانی،ج۳، ص۱۴۴.

۱۹۶

.اور اس راہ میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا .جس کا بہترین نمونہ سالار شہیدان اباعبداللہ (ع) کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کے علاوہ اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن کبھی ان کا تقیہ نہ کرنا اسلام پر ضرر پہنچنے ، مسلمانوں کا گروہوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب ہونے  کا سبب بنتا تو ؛ وہ لوگ ضرور تقیہ کرتے تھے ..چنانچہ اگر علی(ع) رحلت پیغمبر (ص) کے بعد تقیہ نہ کرتے اور مسلحانہ جنگ کرنے پر اترآتے تو  اصل اسلام  خطرے میں پڑ جاتا اور جو ابھی ابھی مسلمان ہو چکے تھے ، دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جاتے .کیونکہ امام کو اگرچہ ظاہری فتح حاصل ہوجاتی ؛ لیکن لوگ کہتے کہ انہوں نے پیغمبر کے جانے کے بعد ان کی امّت پر مسلحانہ حملہ کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا .

پس معلوم ہوا کہ آئمہ طاہرین  کا تقیہ کرنا ضرور بہ ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا.

تقیہ« سلونی قبل ان تفقدونی» کے منافی

امام علی(ع) فرماتے ہیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانہ سکو

 اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارہے ہیں ، جس کا لازمہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ بطور  جواب فرمائیں گے  ، اسے قبول کرنا ہم پر واجب ہوگا؛ اور امام کا تقیہ کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ بعض سوال کا امام جواب نہیں دیں گے. 

جواب : یہ کلام امیر المومنین (ع) نے اس وقت فرمایا ، کہ جب آپ برسر حکومت تھے  ؛ جس وقت تقیہ کے  سارے علل و اسباب مفقود تھے .یعنی تقیہ کرنے کی ضرورت نہ تھی.اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا  ،اس کا جواب تقیہ کے بغیر  کاملاً دئے جاسکتے تھے البتہ اس سنہرے موقع سے لوگوں نے استفادہ نہیں کیا .لیکن ہمارے دیگر آئمہ طاہرین کو اتنی کم مدت  کابھی موقع نہیں ملا. یہی وجہ ہے کہ بقیہ اماموں سے ایسا جملہ صادر نہیں ہوا اگرچہ شیعہ اور سنی سوال کرنے والوں  کو احکام بیان کرنے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی .امام سجاد(ع)سے روایت  ہے کہ ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہمارے شیعوں کے ہر سوال کا جواب دیدیں .اگر ہم چاہیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نہ چاہیں تو گریز کریں گے(1)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ، ج ۱۸، ص۴۳.

۱۹۷

تقیہ  اور  شجاعت

اس  شبہہ کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے سارے امام انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز ہیں یعنی ہر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے ہیں اور شجاعت بھی کمالات  انسانی میں سے ایک ہے . 

لیکن تقیہ اور واقعیت کے خلاف اظہار کرنا بہت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجہ سے ہے

اس کے علاوہ اس سخن کا مضمون یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰٰ نے ایسے رہنما اور امام بھیجے ہیں، جو اپنی جان کی خوف کی وجہ سے پوری زندگی حالت تقیہ میں گذاری(1)

جواب: اولاً شجاعت اور تہور میں فرق ہے شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راہ  ہے لیکن تہور افراط  اور بزدلی ، تفریط ہے .اور شجاعت کا یہ معنی نہیں کہ بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے بلکہ جب بھی کوئی زیادہ اہم مصلحت خطرے میں ہو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں .

ثانیاً: ہمارے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ تقیہ کے سارے موارد میں خوف اور ترس ہی علت تامہ ہو ، بلکہ اور بھی علل و اسباب پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے تقیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں .جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی  خاطر تقیہ کرتے ہیں جن کا ترس اور خوف سےکوئی رابطہ نہیں ہے .

ثالثا ً: امام کا خوف اپنی جان کی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامام خائف ہیں ، کہ ایسا نہ ہو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پہنچے .جیسا کہ امام حسین (ع) نے ایسا ہی کیا .

اب اس اشکال یا بہتان کا جواب کہ  آئمہ طاہرین نے اپنی آخری عمر تک تقیہ کیا ہے ؛ یہ ہے:

--------------

(1):- کمال جوادی؛ ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان.

۱۹۸

اولا ً : یہ بالکل بیہودہ بات   ہے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور ہے .کیونکہ ہم آئمہ طاہرین کی زندگی میں دیکھتےہیں کہ بہت سارے موارد میں انہوں نے  ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر جنگ و جہاد کئے ہیں چنانچہ امام موسیٰ کاظم (ع)نے اس وقت ، کہ جب ہارون نے چاہا کہ باغ فدک آپ کو واپس کریں ،  ہارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .

ثانیا ً : ہدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ بعض اہم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا کہ سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائیں.

تقیہ اور تحلیل حرام و تحریم حلال

شبہہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو قبول کرلے کہ امام بعض فقہی مسائل کا جواب بطو رتقیہ دیں گے تو  مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی  (حرمت) کی بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا اور یہ سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام  اور تحریم حلال کا، یعنی حرام حلال میں بدل جائے گا اورحلال حرام میں(1)

اس شبہہ کا جواب  یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تقیہ سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم کی پیروی کرنا ہے .

تقیہ کا حکم بھی دوسرے احکام جیسے  اضطرار، اکراہ ، رفع  ضرر اور  حرج کی طرح ہے ، کہ ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل  کرکے اس کی جگہ   تقیہ والا حکم لگایا جاتا ہے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقہ اہلسنت  میں بھی ہر جگہ موجود ہے .

تقیہ ا یک حکم اختصاصی  ہے  یا عمومی؟

--------------

(1):- احسان الہی ظہیر؛ السنّہ والشیعہ، ص ۱۳۶.

۱۹۹

اس حصے میں درج ذیل مسائل کی بررسی کرنے کی ضرورت ہے :

1.  قانون تقیہ پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعہ امامیہ کے ساتھ مختص ہے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل ہیں ؟اور اسے ایک الہی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ؟!

2.  کیا تقیہ کوئی ایسا حکم ہے جو ہرجگہ اور ہرحال میں جائز ہے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب ہے ؟

3.  کیا حکم تقیہ ،متعلّق کے اعتبار سے  عام ہے یا نہیں ؟ بطوری کہ سارےلوگ  ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے ہیں ؟  یا بعض لوگ بطور استثنا ہر عام و خاص شرائط کے بغیر  بھی تقیہ کرسکتے ہیں ؟جیسے : پیغمبر و امام(ع)؟

جواب: دو احتمال ہیں :

۱ـ تقیہ یک حکم ثانوی عام  ہے کہ سارے لوگ جس سے استفادہ کرسکتے ہیں .

۲ـ پیغمبران تقیہ سے مستثنی ہیں کیونکہ عقلی طور پر مانع موجود  ہے شیخ طوسی اور اکثر مسلمانوں نے دوسرے  احتمال  کو قبول کئے ہیں کہ پیغمبر کیلئے  تقیہ جائز نہیں ہے .کیونکہ اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف  پیغمبر  کے پاس ہے 

اور صرف  پیغمبر  اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن ہے .پس جب پیغمبر  کیلئے تقیہ جائز ہو جائے تو ہمیں کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفہ کو پہچان لیں اور اس پر عمل کریں(1) اسی لئے فرماتے ہیں :فلا یجوز علی الانبیاء قبائح و لا التقیة فی اخبارهم لا نّه یؤدی الی التشکیک (2)

--------------

(1):- محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،ص ۳۲۸.

(2):- التبیان ، ج۷ ، ص  ۲۵۹. 

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ( ۱۶۵ )

لوگوں ميں كچھ ايسے لوگ بھى ہيں جوالله علاوہ دوسروں كو اس كا مثل قراديتےہيں اور ان سے الله جيسى محبت بھى كرتے ہيں جب كہ ايمان والوں كى تمام محبّت خدا سےہوتى ہے اور اے كاش ظالمين اس بات كو اسوقت ديكھ ليتے جو عذاب كوديكھنے كے بعدسمجھيں گے كہ سارى قوت صرف الله كے لئے ہےاور الله سخت ترين عذاب كرنے والاہے(۱۶۵)

۱ _ كچھ لوگ (مشركين ) توحيد پر بہت زيادہ دلائل ہونے كے باوجود غير خدا كو خدا تعالى كى مثل، نظير اور برابر تصور كرتے ہيں _لآيات لقوم يعقلون_ و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ''انداد'' كا مفرد''ند'' ہے بمعنى مثل_

۲ _ غير خدا كو خدا كى طرح تصور كرنا آيات الہى ميں تدبر نہ كرنے كى دليل و علامت ہے _لآيات لقوم يعقلون_و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۳ _ اللہ تعالى بے مثل و مثال اور بے ہمتا حقيقت ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۴ _ مشركين جھوٹے خداؤں سے انس و محبت اور تعلق ركھتے ہيں _يحبونهم

۵ _ مشركين خيالى معبودوں سے انس و محبت كرنے كے علاوہ اللہ تعالى سے بھى محبت كرتے ہيں _يحبونهم كحب الله

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''حب'' كا اضافہ مفعول كى طرف ہوا ہو اور اسكا فاعل ضمير محذوف ہو جو ''من الناس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنىكحبهم الله _

۶ _ مشركين كى خيالى معبودوں سے محبت اللہ تعالى كى محبت كے ہم وزن و برابر ہے _

۵۶۱

يحبونهم كحب الله

۷_ موحد مومنين كے نزديك اللہ تعالى عالم ہستى كى محبوب ترين حقيقت ہے _والذين آمنوا اشد حباً لله

آيہ مجيدہ كے ابتدائي حصے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں ''الذين آمنوا'' سے مراد و ہ توحيد پرست ہيں جو فقط اللہ تعالى كى ہى عبادت كرتے ہيں كسى چيز يا شخص كو اللہ تعالى كى مثل و مانند نہيں سمجھتے _ '' اشد''افعل تفضيل ہے جسكا مفضل عليہ ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز اور ہر شخص كو شامل ہوجائے_

۸_انس و محبت اور عشق و دوستى كے بالاترين مرحلہ كے لئے انتہائي مناسب اور موزوں حقيقت اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _والذين آمنوا اشد حبا الله

۹_ اللہ تعالى كے ہمراہ غير خدا كى محبت و دوستى بے ايمانى كى علامت ہے _والذين آمنوا اشد حبالله

۱۰_ احساسات و جذبات كا رابطہ اعتقادات و يقين كے ساتھ ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم والذين آمنوا اشد حبا لله

۱۱ _ تمام تر قدرتوں اور قوتوں كا مالك اللہ تعالى ہے كوئي شخص اور نہ ہى كوئي چيز اسكے علاوہ قدرت و طاقت نہيں ركھتى _ان القوة لله جميعاً

۱۲ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا عذاب شديد ہوگا_و ان الله شديد العذاب

۳ ۱_مشركين قيامت كے دن عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے اور اس كو شديدعذاب پائيں گے_الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان الله شديد العذاب

۱۴ _ ظالمين اللہ تعالى كى قدرت و طاقت سے غافل ہيں _و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۱۵ _ ظالمين روز قيامت شديد عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لويرى الذين ظلموا وان الله شديد العذاب

۱۶_ مشركين جب عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے تو يقين كرليں گے كہ قدرت و قوت فقط اللہ تعالى ميں منحصر ہے _

و لو يرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً '' إذ يرون''، ''يري'' كے لئے مفعول ہے ''ان القوة ...'' فعل مقدر كے ساتھ جواب شرط ہے گويا مطلب يوں ہے ''لو يرى لعلموا ان القوة للہ جميعاً'' اگر مشركين آج ديكھ ليتے اس دن كو جب قيامت كے عذاب ميں مبتلا ہوں گے تو يقينا جان ليتے كہ تمام تر

۵۶۲

قدرتوں كا مالك اللہ تعالى ہے_

۱۷_جو لوگ اللہ تعالى كا مثل و مثال تصور كرتے ہيں ظالمين ميں سے ہيں _و لو يرى الذين ظلموا

'' الذين ظلموا'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كے لئے '' الذين ظلموا'' كى تعبير لانا اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ شرك اختيار كرنا اللہ تعالى كے حق ميں ظلم و تجاوز ہے( لازم ہے كہ اسى كو واحد و يكتا جانا جائے)_

۱۸_ مشركين جھوٹے خداؤں كو صاحب قدرت تصور كرتے ہيں _و لويرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً وہ لوگ جو غير خدا كو خداوند متعال كى طرح سمجھتے ہيں ان كے لئے اللہ تعالى كى قدرت اور يہ كہ قوت صرف اسى كى ذات اقدس ميں منحصر ہے كو بيان كرنا كرنا اس خاطر ہے كہ مشركين اس وہم و گمان كى بناپر كہ ان كے معبود بھى صاحب قدرت ہيں ان كو اللہ تعالى كى طرح تصور كرتے ہيں اور اسى بناپر ان سے محبت كرتے ہيں _

۱۹_ جھوٹے معبودوں كو صاحب قدرت خيال كرنا مشركين كى ان سے محبت كا سبب ہے_يحبونهم كحب الله و لو يرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۰_ قدرت و قوت كى جاذبيت محبت كو جذب كرنے ميں مؤثر ہوتى ہے _يحبونهم كحب الله و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۱ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت پر يقين دلوں ميں اسكى محبت پيدا كرنے كا سبب ہے _والذين آمنوا اشد حبا لله ان القوة لله جميعاً

۲۲_ اللہ تعالى كى قدرت كو نہ پہچاننا اور اسكے غير كو صاحب قدرت تصور كرنا شرك كے اسباب و عوامل ميں سے ہے _

و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ان القوة لله جميعاً

۲۳ _ بعض انسان (مشركين) اپنے بڑوں اور بزرگوں كو قدرت و طاقت ميں اللہ تعالى كى طرح سمجھتے ہيں اور ان كو اللہ تعالى كے برابر اور ہم وزن خيال كرتے ہيں _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم كحب الله

بعدوالى آيت مشركين كو دو حصوں ميں تقسيم كرتى ہے ايك سرداران شرك اور دوسرے ان كے پيروكار _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ '' من الناس'' سے مراد پيروكار مشركين اور '' انداد'' سے مراد ان كے سردار ہيں اور ضمير '' ہم '' ، ''انداد'' كى طرف لوٹتى ہے جو اس احتمال كى تائيد كرتى ہے _ كيونكہ يہ ضمير انسانوں اور صاحب عقل و شعور مخلوقات كے لئے استعمال ہوتى ہے _

۲۴ _ قيامت كا دن اللہ تعالى كى مطلق (لامحدود)

۵۶۳

قدرت كے ظہور كا دن ہے اور يہ كہ غير خدا كے پاس كوئي قدرت و طاقت نہيں ہے اس سے آگاہى كا دن ہے _

إذ يرون العذاب ان القوة للہ جميعاً

اسماء اور صفات: جمالى صفات۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۳،۸،۱۱،۱۶; اللہ تعالى كا بے مثل و مثال ہونا ۳; آخرت ميں اللہ تعالى كے عذاب ۱۲; آخرت ميں اللہ تعالى كى قدرت ۲۴; قدرت الہى ۱۱،۱۶

اللہ تعالى كے محب و عاشق :۷

احساسات و جذبات: احساسات اور عقيدہ۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پر ايمان كے اثرات و نتائج ۲۱; بے ايمانى كى علامتيں ۹

باطل معبود: باطل معبودوں كى قدرت ۱۸

تعقل: عدم تعقل كى علامتيں ۲

توحيد: توحيد ذاتى ۳

جہالت: جہالت كے نتائج و اثرات ۲۲; اللہ تعالى كى قدرت سے جہالت ۲۲

رجحانات و محبتيں : اللہ تعالى سے محبت ۵،۶،۷،۸، ۹،۲۳;طاقتور رہبروں سے محبت ۲۳; غير خدا سے محبت ۹،۲۳; باطل معبودوں سے محبت ۴،۵،۶;اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲۱; باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۱۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۲; شرك كا ظلم ۱۷; شرك كے عوامل ۲۲

ظالمين :۱۷

ظالمين اور قدرت الہى ۱۴; ظالمين كو اخروى عذاب ۱۵;ظالمين كى غفلت ۱۴

عذاب: شديد عذاب ۱۲،۱۳،۱۵; عذاب كے درجات ۱۲،۱۳،۱۵

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۸

عوام: مشرك عوام ۱،۲۳

۵۶۴

غفلت: اللہ تعالى كى قدرت سے غفلت ۱۴

قدرت: قدرت كے نتائج و اثرات۱۹،۲۰; غير خدا كى قدرت ۲۴; قدرت كا منبع ۱۱

قيامت: قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲۴

مشركين : مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشركين كا عقيدہ ۱،۱۸، ۱۹،۲۳; مشركين كى محبتيں ۴،۵،۶; مشركين اور قدرت الہى ۱۶;مشركين اور باطل معبود ۱۸،۱۹; مشركين كا عذاب سے سامنا ۱۶

مومنين: مومنين كا انس و محبت ۷; مومنين كے محبوب ۷

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ ( ۱۶۶ )

اس وقت جبكہ پير اپنے مريدوں سےبيزارى كا اظہار كريں گے اور سب كے سامنےعذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہوچكےہوں گے (۱۶۶)

۱ _ مشركين كى تقسيم سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں ميں _إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۲ _ مشركين ( سردار اور ان كے پيروكار) عذاب قيامت ميں مبتلا ہوں گے_إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا و رأوا العذاب ''راوا العذاب'' كى ضمير فاعلى ظاہراً دونوں گروہوں (سردار اور ان كے پيروكار) كى طرف لوٹتى ہے _ ما قبل او رما بعد والى آيت سے معلوم ہوتاہے كہ ''تبري'' كے لئے ظرف روز قيامت ہے _ بنابريں ''العذاب'' سے مراد عذاب قيامت ہے_

۳ _ سرداران شرك جب عذاب قيامت كا سامنا كريں گے تو اپنے پيروكاروں سے دورى اور بيزارى اختيار كريں گے _

إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورأوا العذاب جملہ ''و راوا العذاب'' حاليہ ہے يعنى سردار ان شرك كى اپنے پيروكاروں سے دورى و بيزارى اس حالت ميں ہوگى جب عذاب كا سامنا كريں گے _

۴ _ مشركين ( سرداران شرك اور ان كے پيروكار) كے لئے عذاب قيامت سے نجات كى خاطر كوئي وسيلہ نہيں ہے _

تقطعت بهم الاسباب ''بھم'' ، '' الاسباب'' كے لئے قيد ہے اور اس ميں ''بائ'' ،''ملابسة'' كے معنى ميں ہے پس جملہ '' تقطعت ...'' كا معنى يوں ہے

۵۶۵

(درآں حاليكہ ) ان كے پاس جو وسائل و اسباب تھے وہ سب كے سب ٹوٹ چكے ہوں گے اور نابود ہوجائيں گے ''الاسباب'' سے ممكن ہے عذاب سے نجات كے اسباب مراد ہوں يا مراد وہ اسباب ہوں جو سردار اور ان كے پيروكاروں كو ايك دوسرے سے جوڑتے ہوں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۵ _ قيامت كا دن پيروكار مشركين كے لئے ان كے پيشواؤں اور بزرگوں كى گمراہى سے آگاہى كا دن ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۶ _ الہى فرامين كے مقابل باطل قوتوں كى پيروى شرك ہے _*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم إذ تبرأ الذين اتبعوا

۷_ گمراہ قائدين اور پيشواؤں كا عوام كى گمراہى ميں بہت بنيادى كردار ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۸_ قيامت كے دن سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں كے مابين دوستى و ارتباط كے تمام وسائل و اسباب نابود ہوجائيں گے _و تقطعت بهم الاسباب يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الاسباب'' سے مراد سرداروں اور پيروكاروں كے مابين دوستى و پيوند كے اسباب ہوں _

۹_باطل كى بنياد پر انسانوں كى دوستياں اور اطاعت قيامت كے دن دشمنى اور اختلاف ميں تبديل ہوجائيں گي_إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۱۰_ دوستى اور اطاعت كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے _يحبونهم كحب الله إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

ماقبل آيت ميں پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين ارتباط كى بنياد محبت اور دوستى كو قرار ديا گيا ہے _ البتہ اگر ''انداد''سے مراد سردار و پيشوا ہوں تو آيت نے پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين رابطے كو تابع اور متبوع ( جسكى اتباع كى جائے ) كا رابطہ قرار ديا ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشار ہ ہے كہ محبت اور اطاعت ايك دوسرے كے لئے لازم و ملزوم ہيں يعنى جہاں محبت ہے وہاں اطاعت بھى ہے_

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا

۵۶۶

''اذا كان يوم القيامة ياتى النداء من عند الله عزوجل الا من تعلق بامام فى دار الدنيا فليتبعه الى حيث يذهب فحينئذ يتبرء الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورا وا العذاب و تقطعت بهم الاسباب ''(۱)

جب قيامت بر پا ہوگى تو ...رب ذو الجلال كى جانب سے صدا آئے گى جو كوئي دنيا ميں جس پيشوا سے وابستہ تھا جہاں اسكا پيشوا جائے تو وہ بھى اسى كے پيچھے جائے اس وقت گمراہ پيشوا اپنے پيروكاروں سے بيزارى اختيار كريں گے_ وہ لوگ عذاب الہى كا سامنا كريں گے اور ان كے تمام تر اسباب ٹوٹ جائيں گے ...''

اختلاف: آخرت ميں اختلاف كے اسباب ۹)

اظہار برائت كرنا : پيروكار مشركين سے اظہار برا ت ۳

اللہ تعالى : اوامر الہى سے منہ موڑنا ۶

تقليد: باطل تقليد كے نتائج ۹

دشمني: آخرت ميں دشمنى كے اسباب ۹

دوستى : باطل دوستى كے نتائج۹; دوستى اور اطاعت ۱۰

روايت: ۱۱

شرك : شرك كے موارد ۶

عذاب: اخروى عذاب سے نجات ۴

قائدين : گمراہ قائدين كا گمراہ كرنا ۷; گمراہى كے پيشوا قيامت ميں ۱۱

قدرت: باطل قوت و قدرت كى اتباع ۶

قيامت : قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۵; قيامت ميں اسباب كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں روابط كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں محبتوں كا منقطع ہونا ۸

لوگ: لوگوں كى گمراہى كے عوامل ۷

مشركين : پيروكار مشركين كى آگاہى ۵; مشركين پيشواؤں كا اظہار برائت ۳; مشركين كے پيشوا ۱; مشركين كے قائدين قيامت ميں ۲،۳،۸; مشركين كو اخروى

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ص ۶۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۰ ح ۴۸۵_

۵۶۷

عذاب ۲،۴; پيروكار مشركين كو عذاب ۴; مشرك قائدين كى گمراہي۵;پيروكار مشركين ۱; پيروكار مشركين قيامت ميں ۲،۵،۸; مشركين كا عذاب سے سامنا كرنا ۳

معاشرہ : معاشرے كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۷

معاشرتى طبقات: ۱

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ( ۱۶۷ )

اور مريد بھى يہ كہيں گے كہاے كاش ہم نے ان سے اسى بيزارى اختيار كيہوتى جس طرح يہ آج ہم سے نفرت كررہے ہيں _ خدا ان سب كے اعمال كو اسى طرح حسرتبنا كرپيش كرے گا اور ان ميں سے كوئيجہنم سے نكلنے والا نہيں ہے (۱۶۷)

۱ _ پيروكار مشركين ميدان حشر ميں دنيا كى طرف لوٹنے كى خواہش كريں گے تا كہ اپنے پيشواؤں سے اظہار برائت كريں اور ان كى مخالفت كريں _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرة فنتبرا منهم '' كرّ'' كا معنى رجوع ہے اور '' كرّة'' كا معنى ہے ايك بار رجوع كرنا اور اس سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہے بنابرايں '' لو ان لنا كرّة'' يعنى اے كاش ہم ايك مرتبہ دنيا كى طرف لوٹائے جائيں _

۲ _ ميدان حشرميں پيروكار مشركين اپنے مشرك يپشواؤں كى دوستى اور دنيا ميں ان كى اطاعت سے اظہار پشيمانى كريں گے _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

۳ _ قيامت كے دن مشرك پيروكاروں كى شرك اختيار كرنے اور مشرك قائدين كى اطاعت كرنے سے ندامت كوئي نتيجہ نہ دے گى اور نہ ہى انہيں نجات دلائے گى _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

اگر قيامت ميں ان كى نجات ميں شرك اور سے ندامت مؤثر ہوتى تو مشركين دنيا كى طرف بازگشت كى تمنا نہ كرتے _

۴ _ مشرك پيروكاروں كا اپنے مشرك قائدين سے اظہار برائت كے لئے تيار ہونا حق و حقيقت كى تلاش و جستجو كے لئے نہ ہوگا بلكہ جذبہ انتقام كى خاطر ہوگا _

فنتبرا منهم كما تبرء وا منا '' كما تبرا وا منا '' (چونكہ انہوں نے ہم سے بيزارى كى ہے) يہ جملہ پيروكار مشركين كے اظہار برائت كے محرك كو بيان كررہاہے_

۵ _ قيامت كے دن انسانوں ميں جذبہ انتقام ہوگا_فنتبرا منهم كما تبرأوا منا

۵۶۸

۶ _ قيامت ميں انسانوں كى نفسياتى كيفيات اور احساسات بھى ہوں گے _لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم كما تبرا و منا

۷_ قيامت كے ميدان ميں پيروكار مشركين شرك اختيار كرنے اور مشرك رہبروں كى اطاعت سے حسرت و پشيمانى اور غم و اندوہ كا اظہار كريں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۸_ قيامت كا منظردنياوى اعمال اور ان كے نتائج كے مشاہدے كا ميدان ہے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات

''يري'' كا فعل ممكن ہے '' رؤيت '' سے ہے جو آنكھوں سے ديكھنے كے معنى ميں ہے اس بناپر اس جملہ ''كذلك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى مشركين كو انكے اعمال ( يا ان اعمال كے نتائج ) دكھائے گا _

۹_ دنيا ميں انسان كے بُرے اور ناقابل قبول اعمال قيامت ميں حسرت و ندامت اور غم و اندوہ كا باعث بنيں گے _

كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۰_ اللہ تعالى قيامت كے ميدان ميں انسان كو اسكے دنياوى اعمال كا مشاہدہ كرائے گا _كذلك يريهم الله اعمالهم

۱۱ _ انسانوں كے برے اعمال قيامت ميں مجسم حسرت كى صورت ميں ان كے مقابل ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''يري'' كا معنى قلبى مشاہدہ ہو اس صورت ميں ' ' حسرات'' ، ''يري'' كے لئے تيسرا مفعول ہوگا اور جملے كا معنى يہ ہوگا اللہ تعالى مشركوں كے اعمال كو حسرتوں كى صورت ميں ان كے سامنے جلوہ نما كرے گا _

۱۲ _ شرك اختيار كرنا ، مشرك رہبروں كى محبت اور پيروى كرنا يہ اعمال پيروكار مشركين كے لئے عالم آخرت ميں حسرت و اندوہ كا باعث ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۳ _ مشركين ( قائدين اور پيروكار) آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے اور ہميشہ وہيں رہيں گے_و ما هم بخارجين من النار

۱۴ _ عالم آخرت سے دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو بے معنى اور بے ہودہ آرزو ہے جو ہرگز پورى نہ ہوگى _

لو ان لنا كرة و ما هم بخارجين من النار

۵۶۹

يہ جملہ '' و ما ہم بخارجين ...'' در حقيقت مشركين كى دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو كا جواب ہے _ يہ جملہ بيان كررہاہے كہ وہ لوگ نہ فقط واپس نہ لوٹيں گے بلكہ انہيں آتش جہنم سے رہائي بھى نہ ملے گى _

۱۵ _ اللہ تعالى كے اس كلام '' كذلك يريھم اللہ اعمالہم حسرات عليہم'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''هو الرجل يدع المال لا ينفقه فى طاعة الله بخلاً ثم يموت فيدعه لمن هو يعمل فى طاعة الله او فى معصيته فان عمل به فى طاعة الله راه فى ميزان غيره فزاده حسرة و قد كان المال له و ان كان عمل به فى معصية الله قواه بذلك المال حتى عمل به فى معصية الله'' (۱) اس سے مراد وہ شخص ہے جو دنيا ميں مال چھوڑ جاتاہے اور بخل كى وجہ سے اللہ كى اطاعت ميں اسے خر چ نہيں كرتا وہ مرجاتاہے اور پھر يہ مال اللہ كى اطاعت يا معصيت كى راہ ميں خرچ ہوتاہے پس اگر يہ مال خدا كى راہ ميں خرچ ہوا تو يہ شخص اس كو دوسروں كے نامہ اعمال ميں ديكھے گا اور اس كى حسرت ميں اضافہ ہوگا كيونكہ يہ مال اس كى ملكيت تھا اور اگر يہ مال اللہ تعالى كى معصيت كى راہ ميں خرچ ہوگا تو اس نے اس مال سے گناہ گار كى تقويت كى تا كہ اللہ تعالى كى نافرمانى كرسكے _

۱۶_ منصور حازم كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت'' و ماهم بخارجين من النار'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''اعداء على عليه‌السلام هم المخلدون فى النار ابد الابدين و دهر الداهرين ''(۲)

ان سے مراد علىعليه‌السلام كے دشمن ہيں جو جہنم ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے_

آرزو: دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو ۱،۱۴; باطل آرزو ۱۴

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۲،۳،۷،۱۲

اظہار برائت: مشرك رہبروں سے اظہار برائت ۱،۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۰

امام علىعليه‌السلام : على عليہ السلام كے دشمنوں كا انجام ۱۶

انسان: آخرت ميں انسانى احساسات۶; آخرت ميں انسانوں كا جذبہ انتقام۵; انسان كى آخرت ميں حسرت ۱۱; قيامت ميں انسانوں كا عمل ۱۰

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۴۲ ح ۲ ، نورالثقلين /ج۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۹_

۲) تفسير عياشى ج/۱ص۷۳ ح ۱۴۵، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۸_

۵۷۰

اہل جہنم : ۱۳،۱۶

پشيمانى : بے نتيجہ پشيمانى ۳

جذبہ محركہ: جذبہ محركہ كے عوامل ۴

جہنم: آتش جہنم ۱۳; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۶; جہنم ميں ہميشگى ۱۳

حسرت : اخروى حسرت كے عوامل ۱۵

دشمني: مشركين قائدين سے دشمنى ۱

دوستى : مشركين قائدين سے دوستى كے نتائج ۲ ;ناپسنديدہ دوستى ۲

رجحانات اور محبتيں : مشرك قائدين سے محبت كے نتائج ۱۲

روايت:۱۵،۱۶

شرك : شرك كے نتائج و اثرات ۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۳

عمل: عمل كے اخروى نتائج ۸; ناپسنديدہ عمل كے اخروى نتائج ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے نتائج ۹

قيامت : قيامت ميں جذبات و احساسات۶; قيامت ميں جذبہ انتقام ۵; قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۸،۱۱; قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۸; قيامت ميں اندوہ كے عوامل ۷،۹،۱۲; قيامت ميں حسرت كے عوامل ۷،۹،۱۱،۱۲; قيامت كى خصوصيات۸

مال: گناہ ميں مال كا استعمال ۱۵

مشركين : مشركين كى اخروى آرزو ۱; پيروكار مشركين كا جذبہ انتقام ۴; مشركين كا اندوہ ۷; پيروكار مشركين كا اخروى اندوہ ۱۲; مشركين كى اخروى پشيمانى ۲،۳; مشركين كى اخروى حسرت ۷; پيروكار مشركين كى حسرت ۱۲;مشرك قائدين جہنم ميں ۱۳; مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشرك قائدين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين جہنم ميں ۱۳; پيروكار مشركين قيامت ميں ۱،۲،۳،۷

۵۷۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ( ۱۶۸ )

اےانسانو ميں جو كچھ بھى حلال و طيب ہےاسے استعمال كرو اور شيطانى اقدامات كااتباع نہ كرو كہ وہ تمھارا كھلا ہوا دشمنہے (۱۶۸)

۱ _ زمين كى پيداوار سے كھانا اور استفادہ كرنا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اللہ تعالى نے تاكيد فرمائي ہے_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً ''كلوا'' كا مصدر ''اكل'' ہے جس كا معنى كھانا ہے _ بہت سے موارد ميں ''مجاز شامل'' كے طور پر استعمال ہوتاہے جسكا معنى مطلق تصرف يا استفادہ كرنا ہے اور كھانا بھى اسى ميں شامل ہے _

۲ _ تمام انسان قرآن حكيم كے مخاطب ہيں اور ان كو دعوت دى گئي ہے كہ اس كے احكام كا خيال ركھيں _

يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۳ _ زمين كى پيدا وار سے كھانے اور استفادہ كرنے ميں اللہ تعالى كى نصيحت ميں بنيادى شرائط يہ ہيں كہ پاكيزہ، طبيعت كے موافق اور حلال ہو_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً اس مطلب ميں ''حلالاً'' اور ''طيباً'' ، ''ما'' كے لئے حال ہے ، طيب اپنے موارد استعمال كے اعتبار سے خوب ، اچھا كا معنى ديتاہے لہذا ہر جملے ميں اس كى تفسير اس حكم كے مناسب كى جائيگى جو اس جملے ميں موجود ہے_

۴ _ زمينى پيداوار اور وسائل سے استفادہ كرنے كے لئے ضرور ى ہے كہ حلال اور اچھى چيز كا انتخاب كيا جائے_

كلوا مما فى الأرض حلالاً طيبا اس مطلب ميں ''حلالا'' اور ''طيبا'' كو محذوف مفعول مطلق كى صفت قرار ديا گيا ہے يعنى كلوا اكلاً حلالا طيبا پس يہ دو قيد اس لئے بيان ہوئيں ہيں كہ استفادے كى نوعيت بيان كريں _

۵_زمين سے پيدا ہونے والى عذاؤں ميں حفظان صحت كے اصول كى مراعات كرنا ضرورى ہے_كلوا مما فى الأرض حلا لا طيبا

۶_ زمين كے وسائل سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے_ يہ كسى گروہ يا امت مسلمان و غيرہ سے مختص نہيں ہے _يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۷_ انسان بے ہودہ اور بے بنياد بہانوں (زہد، قبائلى رسومات و غيرہ وغيرہ ) كى بناپر زمين كى نعمتوں اور وسائل سے خود كو محروم نہ كريں _

كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا

۵۷۲

''كلوا'' كا حكم اگر چہ مفسرين كى نظر ميں مباح كے لئے ہے نہ كہ وجوب كے لئے _ تا ہم مباح كو بيان كرنے كے لئے امر كا صيغہ استعمال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ متكلم ترغيب دلارہاہے اور ان چيزوں سے اجتناب يا پرہيز كو ٹھيك نہيں سمجھتا_

۸_ شيطان كى پيروى سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۹_ شيطان انسانوں كا بہت واضح دشمن ہے _انه لكم عدو مبين

۱۰_ شيطان مكار، فريب دينے والا اور دغاباز موجود ہے جبكہ انسان اس كے اثرات كو قبول كرنے والا ہے _

و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۱ _ شيطان انسانوں كو مرحلہ بہ مرحلہ ، قد م بہ قدم زوال اور انحراف كى طرف كھينچ لے جاتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان ''خطوات'' كى مفرد ''خطوة'' ہے جسكا معنى قدم ہے آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد وہ راستہ ہے جو شيطان نے انسان كے ليئے معين كيا ہے خطوات كو جمع استعمال كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كو منحرف كرنے كے لئے شيطان كے پاس مختلف راستے ہيں يا اس سے مراد يہ ہوسكتا ہے كہ شيطان انسان كو قدم بہ قدم ، گام بہ گام تباہى و زوال كى طرف لے جاتاہے_

۱۲ _ انسانوں كو منحرف كرنے كے لئے شيطان مختلف راہوں سے استفادہ كرتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۳ _ زمين كى نعمتوں اور وسائل كو اپنے ليئے حرام قرار دينا شيطان كى پيروى ہے_كلوا مما فى الأرض و لا تتبعوا خطوات الشيطان وسائل و امكانات سے استفادہ كرنے اور حرام و پليديوں سے پرہيز كى نصيحت كرنے كے بعد شيطان كى پيروى سے منع كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ وسائل و نعمات سے استفادہ نہ كرنا اور حرام و پليديوں سے نہ بچنا ايك طرح سے شيطان كى پيروى ہے _

۱۴_ محرمات اور ناپاك و پليد اشياء سے فائدہ اٹھانا شيطان كى پيروى كرنا ہے _كلوا مما فى الأرض حلالا طيباً و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۵ ۱_ انسان كى فطرى ضروريات اسكے انحراف اور شيطان كے دام اور چنگل ميں پھنسنے كى زمين كو فراہم كرتى ہيں _

كلوا مما فى الأرض حلالا ً طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۶_ لوگوں كو حرام اور ناپاك و پليد اشياء سے استفادہ پر آمادہ كرنا اور حلال نعمتوں سے روكنا انسان كے ساتھ شيطان كى دشمنى كا ايك جلوہ ہے _ كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو

۵۷۳

۱۷_ دشمنوں اور ان كى خواہشات كى پيروى سے پرہيز ضرورى ہے _

ولا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين شيطان كى انسان سے دشمنى اس بات كى دليل ہے كہ اسكى اتباع سے اجتناب كيا جائے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جو كوئي يا جو چيز بھى انسان كى دشمن ہو اسكى پيروى سے اجتناب كرے _

۱۸_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''ان من خطوات الشيطان الحلف بالطلاق والنذور فى المعاصى وكل يمين بغير الله (۱)

زوجہ كى طلاق كى قسم كھانا، گناہوں پر نذر كرنا اور اللہ كے علاوہ ہر قسم كھانا يہ شيطان كے قدموں ميں سے ہے_

احكام:۱

اطاعت: دشمنوں كى اطاعت ۱۷; شيطان كى اطاعت ۸،۱۳،۱۴; ناپسنديدہ اطاعت ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱

انحراف: انحراف كا مرحلہ بہ مرحلہ ہونا ۱۱; انحراف كى زمين آمادہ ہونا ۱۵; انحراف كے عوامل ۱۱،۱۲

انسان: انسان كامكارى و فريب كے دام ميں پھنسنا ۱۰; انسانوں كے حقوق ۶; انسان كے دشمن ۹،۱۶; انسان كى صفات ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۲،۷

حقوق: استفادے كا حق ۶

خبائت و پليد چيزيں : خبيث و پليد اشياء سے استفادہ ۱۴،۱۶

زمين : زمين سے استفادہ ۱،۶; زمين كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۳،۴

زہد: ناپسنديدہ زہد ۷

روايت:۱۸

شيطان : شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱۰; شيطان كى مختلف راہيں ۱۲; شيطان كى دشمنى ۹،۱۶; شيطان كے فريب كى روش ۱۱،۱۲; شيطان كے تسلط كى

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۴۶۰،نورالثقلين ج/۱ ص۱۵۲ ح ۴۹۲_

۵۷۴

زمين ہموار ہونا ۱۵; شيطان كى صفات ۱۰; شيطان كے قدم ۱۸

ضروريات: ضروريات كے اثرات و نتائج ۱۵

غذائيں : پاكيزہ غذائيں ۳; غذاؤں سے استفادہ كى شرائط ۳

غذا كى فراہمي: غذا كى فراہمى ميں حفظان صحت كى اہميت ۵

قرآن كريم : قرآن كريم كے مخاطبين ۲

قسم : زوجہ كى طلاق كى قسم ۱۸

مباحات:۱

مباحات سے استفادہ ۷; مباحات كو حرام قرار دينا ۱۳; مباحات سے ممانعت۱۶;

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۴، ۱۶

نذر: گناہ كے ليئے نذر كرنا ۱۸

وسائل و نعمات: وسائل و نعمات سے اسفتادہ كرنا مباح ہے۷ ; مباح وسائل و نعمات كو حرام قرار دينا ۱۳

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۱۶۹ )

وہ بس تمھيں بد عملى اور بدكاريكا حكم ديتا ہے اور اس بات پر آمادہ كرتاہے كہ خدا كے خلاف جہالت كى باتيں كرتےرہو (۱۶۹)

۱ _ شيطان اپنے وسوسوں كے ساتھ انسانوں كو برّے اور مكروہ اعمال ( گناہان صغيرہ اور كبيرہ ) كى ترغيب دلاتاہے _

انما يامركم بالسوء والفحشاء ''امر'' كا معنى ہے حكم دينا _ آيہ مجيدہ ميں حكم اور موضوع كى مناسبت سے اس سے مراد وسوسہ و غيرہ ميں ڈالنا ہے_ ''فحشا'' ايسى برائي كو كہتے ہيں

جو حد سے بڑھى ہوئي ہو _ اسے گناہ كبيرہ كہا جاسكتاہے اور قرينہ مقابلہ كے ہوتے ہوئے ''سوئ'' سے مراد گناہ صغيرہ ہے _

۲ _ شيطان لوگوں كو ترغيب دلاتاہے كہ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھيں ( بدعتيں ايجاد كريں اور احكام دين ميں تحريف كريں )_انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۵۷۵

''قول'' اپنے مشتقات كے ساته جب بهى ''علي'' كے ساته متعدى هو تو '' نسبت دينا اور جهوٹ باندهنا'' كا معنى ديتاهے_

۳ _ حرام كو حلال سمجھنا اور حلال كو حرام خيال كرنا اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ہے _يا ايها الناس انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۴ _ ہر چيز ( فعل ، گفتگو، صفت و غيرہ و غيرہ ) كى اللہ تعالى كى طرف نسبت دينا علم و يقين كى بنياد پر ہونا چاہيئے_

و ان تقولوا على الله ما لاتعلمون

۵ _ احكام دين كے بارے ميں بغير علم و آگاہى كے اظہار نظر كرنا (فتوى دينا ) ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے _

و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۶ _ شيطان كا برائيوں اور بدعتوں كى طرف دعوت دينا اس كى شيطنت كا ايك جلوہ اور انسانوں كے ساتھ اسكى دشمنى كى دليل ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون يہ جملہ''انما يامركم ...'' اس جملہ ''انہ لكم عدو مبين'' كى دليل ہے يعنى تم انسانوں كے ساتھ شيطان كى دشمنى كى دليل و علامت يہ ہے كہ وہ تمہيں برائيوں كى ترغيب دلاتاہے_

۷_ لوگوں كو برائيوں كى طرف دعوت دينا شيطانى فعل ہے اور انسان كے دشمنوں كى آشنائي اور شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء اگر جملہ''انما يامركم'' اس جملہ ''انہ لكم عدو'' كے لئے استدلال ہو تو مذكورہ بالا مطلب اس سے نكلتاہے_

۸_ لوگوں كو بدعتوں كے ايجاد كرنے اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے پر آمادہ كرنا شيطانى كام ہے اور انسان كے دشمنوں كى شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۹_ شيطان انسانوں كو شرك اختيار كرنے پر ترغيب دلاتا ہے اور مشرك قائدين كے ساتھ دوستى اور ان كى اتباع پر تشويق دلاتاہے*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً انما يامركم بالسوء والفحشاء

ماقبل آيات كے قرينہ سے ''سوئ'' اور ''فحشائ'' كے مصاديق ميں سے شرك اختيار كرنا اور ہے_

۱۰_ بدكارياں كرنے والے اور فحشا و پليدياں اختيار كرنے والے شيطان كے پيروكار ہيں _لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم بالسوء و الفحشاء

۱۱_ حلال اور طيب نعمتوں سے پرہيز كرنا اور پليد و حرام

۵۷۶

غذائيں كھانا برُے اور ناپسنديدہ افعال ہيں _كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا انما يامركم بالسوء والفحشاء

۱۲_ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے والے شيطان كے پيروكار اور اس كے نمائندے ہيں _

لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

احكام : ۵

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كى شرائط ۴

اللہ تعالى پرجھوٹ باندھنے والے : ۱۲

انسان: انسان كے دشمن ۶

بدعت: بدعت كى تشويق ۸; بدعت كے عوامل ۲،۶

تحريف : تحريف كے عوامل ۲

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۲،۳،۸; جھوٹ باندھنے پر تشويق كرنا ۸

حرام خورى : حرام خورى كا ناپسنديدہ ہونا۱۱

خبائث اور پليدياں : خبائث اور پليديوں سے استفادہ كرنا ۱۱

دشمن شناسى : دشمن شناسى كے معيارات ۷،۸

دوستى : مشرك قائدين سے دوستى ۹

شرك : شرك كى تشويق كرنا ۹; شرك كے عوامل ۹

شيطان : شيطان كا گمراہ كرنا ۹; شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱،۲،۶; شيطان كے پيروكار ۱۰،۱۲; شيطان كى تشويقات ۱،۲،۹; شيطان كى دشمنى ۶; شيطان كے نمائدے ۱۲; شيطان كا اہم كردار ۱،۲،۹

طيبات: طيبات سے اجتناب ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل كى دعوت ۶،۷; شيطانى عمل ۷،۸; ناپسنديدہ عمل ۵،۱۱

۵۷۷

فتوى دينا : بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے ۵; فتوى دينے كى شرائط ۵

فحشاء : فحشاء كا ارتكاب كرنے والا ۱۰

گناہ : گناہ كى تشويق ۱; گناہ كے اسباب ۱

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينا ۳

محرمات :۵ محرمات كو حلال قرار دينا ۳

يقين: يقين كى اہميت ۴

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ ( ۱۷۰ )

جب ان سے كہا جاتا ہے كہ جو كچھخدا نے نازل كيا ہے اس كا اتباع كرو توكہتے ہيں كہ ہم اس كا اتباع كريں گے جسپر ہم نے اپنے باپ دادا كو پايا ہے _ كيايہ ايسا ہى كريں گے چاہے ان كے باپ دادابے عقل ہى رہے ہوں اور ہدايت يافتہ رہےہوں (۱۷۰)

۱ _ قرآن كريم اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام كى اتباع كرنا ضرورى ہے _اتبعوا ما انزل الله

۲ _ پيامبر اسلام (ص) تمام انسانوں كو قرآن كريم اور احكام الہى كى پيروى كى دعوت دينے والے ہيں _و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله

۳_قرآن كريم اور احكام اسلام كا الہى ہونا ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے _اتبعوا ما انزل الله

''ما انزل اللہ'' ميں ''ما'' سے مراد قرآن حكيم اور احكام دين ہيں ان كى پيروى كا حكم دينے كے بعد جو فرمايا كہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے ہيں يہ ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) نے مشركين كو احكام الہى كى پيروى كرنے كى دعوت دى تو انہوں نے كہا ہم اپنے اسلاف كے آداب و اطوار اور رسوم و رواج كى اتباع كريں گے _و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا ''الفينا'' كا مصدر'' الفائ'' اسكا معنى ہے پانا _

۵۷۸

۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى دعوت كو قبول نہ كرنا اور قرآن و دين كے احكام كى پيروى نہ كرنے كے عوامل ميں سے ايك اپنے اسلاف كے آداب و اطوار پر انحصار كرنا اور اسى پر باقى رہنے پر اصرار كرنا ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آبائنا

۶ _ نسلى اور قبائلى تعصبات ناپسنديدہ اور مكروہ چيز ہے جو حق كو قبول نہ كرنے كى زمين فراہم كرتے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۷_ نسلوں كى گمراہى يا ہدايت ميں اقوام كے آداب و اطوار اور رسوم اثر انداز ہوتى ہيں _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۸_ انسانوں كو قرآن كريم اور احكام دين سے روكنے كے لئے اندھى تقليد شيطانى حيلوں اور سازشوں ميں سے ہے _

لا تتبعوا خطوات الشيطان و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

'' بل نتبع ...'' سے مراد اندھى تقليد ہے ماقبل آيات كى روشنى ميں يہ '' خطوات الشيطان'' كا ايك مصداق ہے _اندھى تقليد كا مفہوم جملہ''و لو كان آباؤہم ...'' سے استفادہ ہوتاہے _

۹_ زمانہ بعثت كے لوگوں كا شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام قرار دينا اسكى بنياد ان كى اپنے اسلاف كى تقليد تھي_كلوا مما فى الأرض ...و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

آيت ۱۶۵ ، ۱۶۸ كى روشنى ميں ''ما الفينا عليہ آبائنا''كے مورد نظر مصاديق شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام جانناہے_

۱۰_ احمقوں اور ناقابل ہدايت لوگوں كى پيروى اور تقليد كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ عمل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون

۱۱_ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا عاقلانہ امر ہے _اتبعوا ما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون قرآن حكيم اور احكام الہى كى پيروى كو ضرورى قرار دينا اور پھر مشركين كى اپنے گمراہ و احمق اسلاف كى پيروى كرنے كى روش كو غير منطقى قرار دينا اور اس پر تنقيد كرنا يہ اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا ايك عاقلانہ معاملہ ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت كرنے والے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعواما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۳ _ قرآن كريم نے مخالفين كو منطق و ا ستدلال كے

۵۷۹

ساتھ مخاطب قرار ديا ہے_اولوكان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۴ _ عقل كى قدر و منزلت اور اسكى پيروى _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۵ _ عقل اور دين ہم جہت و ہم آہنگ ہيں _اتبعوا ما نانزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۶ _ انسانوں كى ہدايت قبول كرنے ميں عقل ايك سرمايہ ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۷_ شرك اختيار كرنا حماقت كى دليل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً

۱۸_ ہدايت يافتہ اور صاحب عقل انسانوں كى تقليد يا پيروى كرنا بے جا نہيں ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون يہ جملہ '' او لو كان ...'' بيان كررہاہے كہ فقط تقليد كرنے كو رد نہيں كيا جاسكتا بلكہ وہ تقليد قابل مذمت ہے جس ميں وہ شخص جسكى تقليد كى گئي ہے اہل فہم و خرد اور ہدايت يافتہ نہ ہو_

۱۹_ اسلاف كى تقليد كرنا جاہلانہ اور غير منطقى و تيرہ ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا او لو كان آباؤهم لا يعقلون

احكام : احكام كا وحى ہونا ۳

اسلاف: اسلاف كى پيروى كے نتائج۹; اسلاف كے آداب و رسوم كى پيروى كرنا ۴،۵

اسلام: اسلام كى پيروى كے دلائل ۳; اسلام كا وحى ہونا ۳

اطاعت: شيطان كى اطاعت ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات سے منہ موڑنا ۵; پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۲

تعصب: تعصب كے اثرات و نتائج ۶; نسلى تعصب ۶

قومى تعصب ۶; تعصب كا ناپسنديدہ ہونا ۶

تعقل: تعقل نہ ہونے كى علامتيں ۱۷

تقليد: اندھى تقليد كے نتائج ۸; احمقوں كى تقليد ۱۰; عقلاء كى تقليد ۱۸; گمراہوں كى تقليد ۱۰; ہدايت يافتہ

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785