تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201022 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ( ۱۶۵ )

لوگوں ميں كچھ ايسے لوگ بھى ہيں جوالله علاوہ دوسروں كو اس كا مثل قراديتےہيں اور ان سے الله جيسى محبت بھى كرتے ہيں جب كہ ايمان والوں كى تمام محبّت خدا سےہوتى ہے اور اے كاش ظالمين اس بات كو اسوقت ديكھ ليتے جو عذاب كوديكھنے كے بعدسمجھيں گے كہ سارى قوت صرف الله كے لئے ہےاور الله سخت ترين عذاب كرنے والاہے(۱۶۵)

۱ _ كچھ لوگ (مشركين ) توحيد پر بہت زيادہ دلائل ہونے كے باوجود غير خدا كو خدا تعالى كى مثل، نظير اور برابر تصور كرتے ہيں _لآيات لقوم يعقلون_ و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ''انداد'' كا مفرد''ند'' ہے بمعنى مثل_

۲ _ غير خدا كو خدا كى طرح تصور كرنا آيات الہى ميں تدبر نہ كرنے كى دليل و علامت ہے _لآيات لقوم يعقلون_و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۳ _ اللہ تعالى بے مثل و مثال اور بے ہمتا حقيقت ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۴ _ مشركين جھوٹے خداؤں سے انس و محبت اور تعلق ركھتے ہيں _يحبونهم

۵ _ مشركين خيالى معبودوں سے انس و محبت كرنے كے علاوہ اللہ تعالى سے بھى محبت كرتے ہيں _يحبونهم كحب الله

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''حب'' كا اضافہ مفعول كى طرف ہوا ہو اور اسكا فاعل ضمير محذوف ہو جو ''من الناس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنىكحبهم الله _

۶ _ مشركين كى خيالى معبودوں سے محبت اللہ تعالى كى محبت كے ہم وزن و برابر ہے _

۵۶۱

يحبونهم كحب الله

۷_ موحد مومنين كے نزديك اللہ تعالى عالم ہستى كى محبوب ترين حقيقت ہے _والذين آمنوا اشد حباً لله

آيہ مجيدہ كے ابتدائي حصے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں ''الذين آمنوا'' سے مراد و ہ توحيد پرست ہيں جو فقط اللہ تعالى كى ہى عبادت كرتے ہيں كسى چيز يا شخص كو اللہ تعالى كى مثل و مانند نہيں سمجھتے _ '' اشد''افعل تفضيل ہے جسكا مفضل عليہ ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز اور ہر شخص كو شامل ہوجائے_

۸_انس و محبت اور عشق و دوستى كے بالاترين مرحلہ كے لئے انتہائي مناسب اور موزوں حقيقت اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _والذين آمنوا اشد حبا الله

۹_ اللہ تعالى كے ہمراہ غير خدا كى محبت و دوستى بے ايمانى كى علامت ہے _والذين آمنوا اشد حبالله

۱۰_ احساسات و جذبات كا رابطہ اعتقادات و يقين كے ساتھ ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم والذين آمنوا اشد حبا لله

۱۱ _ تمام تر قدرتوں اور قوتوں كا مالك اللہ تعالى ہے كوئي شخص اور نہ ہى كوئي چيز اسكے علاوہ قدرت و طاقت نہيں ركھتى _ان القوة لله جميعاً

۱۲ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا عذاب شديد ہوگا_و ان الله شديد العذاب

۳ ۱_مشركين قيامت كے دن عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے اور اس كو شديدعذاب پائيں گے_الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان الله شديد العذاب

۱۴ _ ظالمين اللہ تعالى كى قدرت و طاقت سے غافل ہيں _و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۱۵ _ ظالمين روز قيامت شديد عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لويرى الذين ظلموا وان الله شديد العذاب

۱۶_ مشركين جب عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے تو يقين كرليں گے كہ قدرت و قوت فقط اللہ تعالى ميں منحصر ہے _

و لو يرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً '' إذ يرون''، ''يري'' كے لئے مفعول ہے ''ان القوة ...'' فعل مقدر كے ساتھ جواب شرط ہے گويا مطلب يوں ہے ''لو يرى لعلموا ان القوة للہ جميعاً'' اگر مشركين آج ديكھ ليتے اس دن كو جب قيامت كے عذاب ميں مبتلا ہوں گے تو يقينا جان ليتے كہ تمام تر

۵۶۲

قدرتوں كا مالك اللہ تعالى ہے_

۱۷_جو لوگ اللہ تعالى كا مثل و مثال تصور كرتے ہيں ظالمين ميں سے ہيں _و لو يرى الذين ظلموا

'' الذين ظلموا'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كے لئے '' الذين ظلموا'' كى تعبير لانا اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ شرك اختيار كرنا اللہ تعالى كے حق ميں ظلم و تجاوز ہے( لازم ہے كہ اسى كو واحد و يكتا جانا جائے)_

۱۸_ مشركين جھوٹے خداؤں كو صاحب قدرت تصور كرتے ہيں _و لويرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً وہ لوگ جو غير خدا كو خداوند متعال كى طرح سمجھتے ہيں ان كے لئے اللہ تعالى كى قدرت اور يہ كہ قوت صرف اسى كى ذات اقدس ميں منحصر ہے كو بيان كرنا كرنا اس خاطر ہے كہ مشركين اس وہم و گمان كى بناپر كہ ان كے معبود بھى صاحب قدرت ہيں ان كو اللہ تعالى كى طرح تصور كرتے ہيں اور اسى بناپر ان سے محبت كرتے ہيں _

۱۹_ جھوٹے معبودوں كو صاحب قدرت خيال كرنا مشركين كى ان سے محبت كا سبب ہے_يحبونهم كحب الله و لو يرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۰_ قدرت و قوت كى جاذبيت محبت كو جذب كرنے ميں مؤثر ہوتى ہے _يحبونهم كحب الله و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۱ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت پر يقين دلوں ميں اسكى محبت پيدا كرنے كا سبب ہے _والذين آمنوا اشد حبا لله ان القوة لله جميعاً

۲۲_ اللہ تعالى كى قدرت كو نہ پہچاننا اور اسكے غير كو صاحب قدرت تصور كرنا شرك كے اسباب و عوامل ميں سے ہے _

و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ان القوة لله جميعاً

۲۳ _ بعض انسان (مشركين) اپنے بڑوں اور بزرگوں كو قدرت و طاقت ميں اللہ تعالى كى طرح سمجھتے ہيں اور ان كو اللہ تعالى كے برابر اور ہم وزن خيال كرتے ہيں _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم كحب الله

بعدوالى آيت مشركين كو دو حصوں ميں تقسيم كرتى ہے ايك سرداران شرك اور دوسرے ان كے پيروكار _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ '' من الناس'' سے مراد پيروكار مشركين اور '' انداد'' سے مراد ان كے سردار ہيں اور ضمير '' ہم '' ، ''انداد'' كى طرف لوٹتى ہے جو اس احتمال كى تائيد كرتى ہے _ كيونكہ يہ ضمير انسانوں اور صاحب عقل و شعور مخلوقات كے لئے استعمال ہوتى ہے _

۲۴ _ قيامت كا دن اللہ تعالى كى مطلق (لامحدود)

۵۶۳

قدرت كے ظہور كا دن ہے اور يہ كہ غير خدا كے پاس كوئي قدرت و طاقت نہيں ہے اس سے آگاہى كا دن ہے _

إذ يرون العذاب ان القوة للہ جميعاً

اسماء اور صفات: جمالى صفات۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۳،۸،۱۱،۱۶; اللہ تعالى كا بے مثل و مثال ہونا ۳; آخرت ميں اللہ تعالى كے عذاب ۱۲; آخرت ميں اللہ تعالى كى قدرت ۲۴; قدرت الہى ۱۱،۱۶

اللہ تعالى كے محب و عاشق :۷

احساسات و جذبات: احساسات اور عقيدہ۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پر ايمان كے اثرات و نتائج ۲۱; بے ايمانى كى علامتيں ۹

باطل معبود: باطل معبودوں كى قدرت ۱۸

تعقل: عدم تعقل كى علامتيں ۲

توحيد: توحيد ذاتى ۳

جہالت: جہالت كے نتائج و اثرات ۲۲; اللہ تعالى كى قدرت سے جہالت ۲۲

رجحانات و محبتيں : اللہ تعالى سے محبت ۵،۶،۷،۸، ۹،۲۳;طاقتور رہبروں سے محبت ۲۳; غير خدا سے محبت ۹،۲۳; باطل معبودوں سے محبت ۴،۵،۶;اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲۱; باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۱۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۲; شرك كا ظلم ۱۷; شرك كے عوامل ۲۲

ظالمين :۱۷

ظالمين اور قدرت الہى ۱۴; ظالمين كو اخروى عذاب ۱۵;ظالمين كى غفلت ۱۴

عذاب: شديد عذاب ۱۲،۱۳،۱۵; عذاب كے درجات ۱۲،۱۳،۱۵

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۸

عوام: مشرك عوام ۱،۲۳

۵۶۴

غفلت: اللہ تعالى كى قدرت سے غفلت ۱۴

قدرت: قدرت كے نتائج و اثرات۱۹،۲۰; غير خدا كى قدرت ۲۴; قدرت كا منبع ۱۱

قيامت: قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲۴

مشركين : مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشركين كا عقيدہ ۱،۱۸، ۱۹،۲۳; مشركين كى محبتيں ۴،۵،۶; مشركين اور قدرت الہى ۱۶;مشركين اور باطل معبود ۱۸،۱۹; مشركين كا عذاب سے سامنا ۱۶

مومنين: مومنين كا انس و محبت ۷; مومنين كے محبوب ۷

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ ( ۱۶۶ )

اس وقت جبكہ پير اپنے مريدوں سےبيزارى كا اظہار كريں گے اور سب كے سامنےعذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہوچكےہوں گے (۱۶۶)

۱ _ مشركين كى تقسيم سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں ميں _إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۲ _ مشركين ( سردار اور ان كے پيروكار) عذاب قيامت ميں مبتلا ہوں گے_إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا و رأوا العذاب ''راوا العذاب'' كى ضمير فاعلى ظاہراً دونوں گروہوں (سردار اور ان كے پيروكار) كى طرف لوٹتى ہے _ ما قبل او رما بعد والى آيت سے معلوم ہوتاہے كہ ''تبري'' كے لئے ظرف روز قيامت ہے _ بنابريں ''العذاب'' سے مراد عذاب قيامت ہے_

۳ _ سرداران شرك جب عذاب قيامت كا سامنا كريں گے تو اپنے پيروكاروں سے دورى اور بيزارى اختيار كريں گے _

إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورأوا العذاب جملہ ''و راوا العذاب'' حاليہ ہے يعنى سردار ان شرك كى اپنے پيروكاروں سے دورى و بيزارى اس حالت ميں ہوگى جب عذاب كا سامنا كريں گے _

۴ _ مشركين ( سرداران شرك اور ان كے پيروكار) كے لئے عذاب قيامت سے نجات كى خاطر كوئي وسيلہ نہيں ہے _

تقطعت بهم الاسباب ''بھم'' ، '' الاسباب'' كے لئے قيد ہے اور اس ميں ''بائ'' ،''ملابسة'' كے معنى ميں ہے پس جملہ '' تقطعت ...'' كا معنى يوں ہے

۵۶۵

(درآں حاليكہ ) ان كے پاس جو وسائل و اسباب تھے وہ سب كے سب ٹوٹ چكے ہوں گے اور نابود ہوجائيں گے ''الاسباب'' سے ممكن ہے عذاب سے نجات كے اسباب مراد ہوں يا مراد وہ اسباب ہوں جو سردار اور ان كے پيروكاروں كو ايك دوسرے سے جوڑتے ہوں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۵ _ قيامت كا دن پيروكار مشركين كے لئے ان كے پيشواؤں اور بزرگوں كى گمراہى سے آگاہى كا دن ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۶ _ الہى فرامين كے مقابل باطل قوتوں كى پيروى شرك ہے _*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم إذ تبرأ الذين اتبعوا

۷_ گمراہ قائدين اور پيشواؤں كا عوام كى گمراہى ميں بہت بنيادى كردار ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۸_ قيامت كے دن سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں كے مابين دوستى و ارتباط كے تمام وسائل و اسباب نابود ہوجائيں گے _و تقطعت بهم الاسباب يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الاسباب'' سے مراد سرداروں اور پيروكاروں كے مابين دوستى و پيوند كے اسباب ہوں _

۹_باطل كى بنياد پر انسانوں كى دوستياں اور اطاعت قيامت كے دن دشمنى اور اختلاف ميں تبديل ہوجائيں گي_إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۱۰_ دوستى اور اطاعت كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے _يحبونهم كحب الله إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

ماقبل آيت ميں پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين ارتباط كى بنياد محبت اور دوستى كو قرار ديا گيا ہے _ البتہ اگر ''انداد''سے مراد سردار و پيشوا ہوں تو آيت نے پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين رابطے كو تابع اور متبوع ( جسكى اتباع كى جائے ) كا رابطہ قرار ديا ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشار ہ ہے كہ محبت اور اطاعت ايك دوسرے كے لئے لازم و ملزوم ہيں يعنى جہاں محبت ہے وہاں اطاعت بھى ہے_

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا

۵۶۶

''اذا كان يوم القيامة ياتى النداء من عند الله عزوجل الا من تعلق بامام فى دار الدنيا فليتبعه الى حيث يذهب فحينئذ يتبرء الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورا وا العذاب و تقطعت بهم الاسباب ''(۱)

جب قيامت بر پا ہوگى تو ...رب ذو الجلال كى جانب سے صدا آئے گى جو كوئي دنيا ميں جس پيشوا سے وابستہ تھا جہاں اسكا پيشوا جائے تو وہ بھى اسى كے پيچھے جائے اس وقت گمراہ پيشوا اپنے پيروكاروں سے بيزارى اختيار كريں گے_ وہ لوگ عذاب الہى كا سامنا كريں گے اور ان كے تمام تر اسباب ٹوٹ جائيں گے ...''

اختلاف: آخرت ميں اختلاف كے اسباب ۹)

اظہار برائت كرنا : پيروكار مشركين سے اظہار برا ت ۳

اللہ تعالى : اوامر الہى سے منہ موڑنا ۶

تقليد: باطل تقليد كے نتائج ۹

دشمني: آخرت ميں دشمنى كے اسباب ۹

دوستى : باطل دوستى كے نتائج۹; دوستى اور اطاعت ۱۰

روايت: ۱۱

شرك : شرك كے موارد ۶

عذاب: اخروى عذاب سے نجات ۴

قائدين : گمراہ قائدين كا گمراہ كرنا ۷; گمراہى كے پيشوا قيامت ميں ۱۱

قدرت: باطل قوت و قدرت كى اتباع ۶

قيامت : قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۵; قيامت ميں اسباب كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں روابط كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں محبتوں كا منقطع ہونا ۸

لوگ: لوگوں كى گمراہى كے عوامل ۷

مشركين : پيروكار مشركين كى آگاہى ۵; مشركين پيشواؤں كا اظہار برائت ۳; مشركين كے پيشوا ۱; مشركين كے قائدين قيامت ميں ۲،۳،۸; مشركين كو اخروى

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ص ۶۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۰ ح ۴۸۵_

۵۶۷

عذاب ۲،۴; پيروكار مشركين كو عذاب ۴; مشرك قائدين كى گمراہي۵;پيروكار مشركين ۱; پيروكار مشركين قيامت ميں ۲،۵،۸; مشركين كا عذاب سے سامنا كرنا ۳

معاشرہ : معاشرے كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۷

معاشرتى طبقات: ۱

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ( ۱۶۷ )

اور مريد بھى يہ كہيں گے كہاے كاش ہم نے ان سے اسى بيزارى اختيار كيہوتى جس طرح يہ آج ہم سے نفرت كررہے ہيں _ خدا ان سب كے اعمال كو اسى طرح حسرتبنا كرپيش كرے گا اور ان ميں سے كوئيجہنم سے نكلنے والا نہيں ہے (۱۶۷)

۱ _ پيروكار مشركين ميدان حشر ميں دنيا كى طرف لوٹنے كى خواہش كريں گے تا كہ اپنے پيشواؤں سے اظہار برائت كريں اور ان كى مخالفت كريں _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرة فنتبرا منهم '' كرّ'' كا معنى رجوع ہے اور '' كرّة'' كا معنى ہے ايك بار رجوع كرنا اور اس سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہے بنابرايں '' لو ان لنا كرّة'' يعنى اے كاش ہم ايك مرتبہ دنيا كى طرف لوٹائے جائيں _

۲ _ ميدان حشرميں پيروكار مشركين اپنے مشرك يپشواؤں كى دوستى اور دنيا ميں ان كى اطاعت سے اظہار پشيمانى كريں گے _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

۳ _ قيامت كے دن مشرك پيروكاروں كى شرك اختيار كرنے اور مشرك قائدين كى اطاعت كرنے سے ندامت كوئي نتيجہ نہ دے گى اور نہ ہى انہيں نجات دلائے گى _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

اگر قيامت ميں ان كى نجات ميں شرك اور سے ندامت مؤثر ہوتى تو مشركين دنيا كى طرف بازگشت كى تمنا نہ كرتے _

۴ _ مشرك پيروكاروں كا اپنے مشرك قائدين سے اظہار برائت كے لئے تيار ہونا حق و حقيقت كى تلاش و جستجو كے لئے نہ ہوگا بلكہ جذبہ انتقام كى خاطر ہوگا _

فنتبرا منهم كما تبرء وا منا '' كما تبرا وا منا '' (چونكہ انہوں نے ہم سے بيزارى كى ہے) يہ جملہ پيروكار مشركين كے اظہار برائت كے محرك كو بيان كررہاہے_

۵ _ قيامت كے دن انسانوں ميں جذبہ انتقام ہوگا_فنتبرا منهم كما تبرأوا منا

۵۶۸

۶ _ قيامت ميں انسانوں كى نفسياتى كيفيات اور احساسات بھى ہوں گے _لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم كما تبرا و منا

۷_ قيامت كے ميدان ميں پيروكار مشركين شرك اختيار كرنے اور مشرك رہبروں كى اطاعت سے حسرت و پشيمانى اور غم و اندوہ كا اظہار كريں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۸_ قيامت كا منظردنياوى اعمال اور ان كے نتائج كے مشاہدے كا ميدان ہے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات

''يري'' كا فعل ممكن ہے '' رؤيت '' سے ہے جو آنكھوں سے ديكھنے كے معنى ميں ہے اس بناپر اس جملہ ''كذلك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى مشركين كو انكے اعمال ( يا ان اعمال كے نتائج ) دكھائے گا _

۹_ دنيا ميں انسان كے بُرے اور ناقابل قبول اعمال قيامت ميں حسرت و ندامت اور غم و اندوہ كا باعث بنيں گے _

كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۰_ اللہ تعالى قيامت كے ميدان ميں انسان كو اسكے دنياوى اعمال كا مشاہدہ كرائے گا _كذلك يريهم الله اعمالهم

۱۱ _ انسانوں كے برے اعمال قيامت ميں مجسم حسرت كى صورت ميں ان كے مقابل ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''يري'' كا معنى قلبى مشاہدہ ہو اس صورت ميں ' ' حسرات'' ، ''يري'' كے لئے تيسرا مفعول ہوگا اور جملے كا معنى يہ ہوگا اللہ تعالى مشركوں كے اعمال كو حسرتوں كى صورت ميں ان كے سامنے جلوہ نما كرے گا _

۱۲ _ شرك اختيار كرنا ، مشرك رہبروں كى محبت اور پيروى كرنا يہ اعمال پيروكار مشركين كے لئے عالم آخرت ميں حسرت و اندوہ كا باعث ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۳ _ مشركين ( قائدين اور پيروكار) آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے اور ہميشہ وہيں رہيں گے_و ما هم بخارجين من النار

۱۴ _ عالم آخرت سے دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو بے معنى اور بے ہودہ آرزو ہے جو ہرگز پورى نہ ہوگى _

لو ان لنا كرة و ما هم بخارجين من النار

۵۶۹

يہ جملہ '' و ما ہم بخارجين ...'' در حقيقت مشركين كى دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو كا جواب ہے _ يہ جملہ بيان كررہاہے كہ وہ لوگ نہ فقط واپس نہ لوٹيں گے بلكہ انہيں آتش جہنم سے رہائي بھى نہ ملے گى _

۱۵ _ اللہ تعالى كے اس كلام '' كذلك يريھم اللہ اعمالہم حسرات عليہم'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''هو الرجل يدع المال لا ينفقه فى طاعة الله بخلاً ثم يموت فيدعه لمن هو يعمل فى طاعة الله او فى معصيته فان عمل به فى طاعة الله راه فى ميزان غيره فزاده حسرة و قد كان المال له و ان كان عمل به فى معصية الله قواه بذلك المال حتى عمل به فى معصية الله'' (۱) اس سے مراد وہ شخص ہے جو دنيا ميں مال چھوڑ جاتاہے اور بخل كى وجہ سے اللہ كى اطاعت ميں اسے خر چ نہيں كرتا وہ مرجاتاہے اور پھر يہ مال اللہ كى اطاعت يا معصيت كى راہ ميں خرچ ہوتاہے پس اگر يہ مال خدا كى راہ ميں خرچ ہوا تو يہ شخص اس كو دوسروں كے نامہ اعمال ميں ديكھے گا اور اس كى حسرت ميں اضافہ ہوگا كيونكہ يہ مال اس كى ملكيت تھا اور اگر يہ مال اللہ تعالى كى معصيت كى راہ ميں خرچ ہوگا تو اس نے اس مال سے گناہ گار كى تقويت كى تا كہ اللہ تعالى كى نافرمانى كرسكے _

۱۶_ منصور حازم كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت'' و ماهم بخارجين من النار'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''اعداء على عليه‌السلام هم المخلدون فى النار ابد الابدين و دهر الداهرين ''(۲)

ان سے مراد علىعليه‌السلام كے دشمن ہيں جو جہنم ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے_

آرزو: دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو ۱،۱۴; باطل آرزو ۱۴

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۲،۳،۷،۱۲

اظہار برائت: مشرك رہبروں سے اظہار برائت ۱،۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۰

امام علىعليه‌السلام : على عليہ السلام كے دشمنوں كا انجام ۱۶

انسان: آخرت ميں انسانى احساسات۶; آخرت ميں انسانوں كا جذبہ انتقام۵; انسان كى آخرت ميں حسرت ۱۱; قيامت ميں انسانوں كا عمل ۱۰

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۴۲ ح ۲ ، نورالثقلين /ج۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۹_

۲) تفسير عياشى ج/۱ص۷۳ ح ۱۴۵، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۸_

۵۷۰

اہل جہنم : ۱۳،۱۶

پشيمانى : بے نتيجہ پشيمانى ۳

جذبہ محركہ: جذبہ محركہ كے عوامل ۴

جہنم: آتش جہنم ۱۳; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۶; جہنم ميں ہميشگى ۱۳

حسرت : اخروى حسرت كے عوامل ۱۵

دشمني: مشركين قائدين سے دشمنى ۱

دوستى : مشركين قائدين سے دوستى كے نتائج ۲ ;ناپسنديدہ دوستى ۲

رجحانات اور محبتيں : مشرك قائدين سے محبت كے نتائج ۱۲

روايت:۱۵،۱۶

شرك : شرك كے نتائج و اثرات ۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۳

عمل: عمل كے اخروى نتائج ۸; ناپسنديدہ عمل كے اخروى نتائج ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے نتائج ۹

قيامت : قيامت ميں جذبات و احساسات۶; قيامت ميں جذبہ انتقام ۵; قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۸،۱۱; قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۸; قيامت ميں اندوہ كے عوامل ۷،۹،۱۲; قيامت ميں حسرت كے عوامل ۷،۹،۱۱،۱۲; قيامت كى خصوصيات۸

مال: گناہ ميں مال كا استعمال ۱۵

مشركين : مشركين كى اخروى آرزو ۱; پيروكار مشركين كا جذبہ انتقام ۴; مشركين كا اندوہ ۷; پيروكار مشركين كا اخروى اندوہ ۱۲; مشركين كى اخروى پشيمانى ۲،۳; مشركين كى اخروى حسرت ۷; پيروكار مشركين كى حسرت ۱۲;مشرك قائدين جہنم ميں ۱۳; مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشرك قائدين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين جہنم ميں ۱۳; پيروكار مشركين قيامت ميں ۱،۲،۳،۷

۵۷۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ( ۱۶۸ )

اےانسانو ميں جو كچھ بھى حلال و طيب ہےاسے استعمال كرو اور شيطانى اقدامات كااتباع نہ كرو كہ وہ تمھارا كھلا ہوا دشمنہے (۱۶۸)

۱ _ زمين كى پيداوار سے كھانا اور استفادہ كرنا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اللہ تعالى نے تاكيد فرمائي ہے_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً ''كلوا'' كا مصدر ''اكل'' ہے جس كا معنى كھانا ہے _ بہت سے موارد ميں ''مجاز شامل'' كے طور پر استعمال ہوتاہے جسكا معنى مطلق تصرف يا استفادہ كرنا ہے اور كھانا بھى اسى ميں شامل ہے _

۲ _ تمام انسان قرآن حكيم كے مخاطب ہيں اور ان كو دعوت دى گئي ہے كہ اس كے احكام كا خيال ركھيں _

يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۳ _ زمين كى پيدا وار سے كھانے اور استفادہ كرنے ميں اللہ تعالى كى نصيحت ميں بنيادى شرائط يہ ہيں كہ پاكيزہ، طبيعت كے موافق اور حلال ہو_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً اس مطلب ميں ''حلالاً'' اور ''طيباً'' ، ''ما'' كے لئے حال ہے ، طيب اپنے موارد استعمال كے اعتبار سے خوب ، اچھا كا معنى ديتاہے لہذا ہر جملے ميں اس كى تفسير اس حكم كے مناسب كى جائيگى جو اس جملے ميں موجود ہے_

۴ _ زمينى پيداوار اور وسائل سے استفادہ كرنے كے لئے ضرور ى ہے كہ حلال اور اچھى چيز كا انتخاب كيا جائے_

كلوا مما فى الأرض حلالاً طيبا اس مطلب ميں ''حلالا'' اور ''طيبا'' كو محذوف مفعول مطلق كى صفت قرار ديا گيا ہے يعنى كلوا اكلاً حلالا طيبا پس يہ دو قيد اس لئے بيان ہوئيں ہيں كہ استفادے كى نوعيت بيان كريں _

۵_زمين سے پيدا ہونے والى عذاؤں ميں حفظان صحت كے اصول كى مراعات كرنا ضرورى ہے_كلوا مما فى الأرض حلا لا طيبا

۶_ زمين كے وسائل سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے_ يہ كسى گروہ يا امت مسلمان و غيرہ سے مختص نہيں ہے _يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۷_ انسان بے ہودہ اور بے بنياد بہانوں (زہد، قبائلى رسومات و غيرہ وغيرہ ) كى بناپر زمين كى نعمتوں اور وسائل سے خود كو محروم نہ كريں _

كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا

۵۷۲

''كلوا'' كا حكم اگر چہ مفسرين كى نظر ميں مباح كے لئے ہے نہ كہ وجوب كے لئے _ تا ہم مباح كو بيان كرنے كے لئے امر كا صيغہ استعمال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ متكلم ترغيب دلارہاہے اور ان چيزوں سے اجتناب يا پرہيز كو ٹھيك نہيں سمجھتا_

۸_ شيطان كى پيروى سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۹_ شيطان انسانوں كا بہت واضح دشمن ہے _انه لكم عدو مبين

۱۰_ شيطان مكار، فريب دينے والا اور دغاباز موجود ہے جبكہ انسان اس كے اثرات كو قبول كرنے والا ہے _

و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۱ _ شيطان انسانوں كو مرحلہ بہ مرحلہ ، قد م بہ قدم زوال اور انحراف كى طرف كھينچ لے جاتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان ''خطوات'' كى مفرد ''خطوة'' ہے جسكا معنى قدم ہے آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد وہ راستہ ہے جو شيطان نے انسان كے ليئے معين كيا ہے خطوات كو جمع استعمال كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كو منحرف كرنے كے لئے شيطان كے پاس مختلف راستے ہيں يا اس سے مراد يہ ہوسكتا ہے كہ شيطان انسان كو قدم بہ قدم ، گام بہ گام تباہى و زوال كى طرف لے جاتاہے_

۱۲ _ انسانوں كو منحرف كرنے كے لئے شيطان مختلف راہوں سے استفادہ كرتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۳ _ زمين كى نعمتوں اور وسائل كو اپنے ليئے حرام قرار دينا شيطان كى پيروى ہے_كلوا مما فى الأرض و لا تتبعوا خطوات الشيطان وسائل و امكانات سے استفادہ كرنے اور حرام و پليديوں سے پرہيز كى نصيحت كرنے كے بعد شيطان كى پيروى سے منع كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ وسائل و نعمات سے استفادہ نہ كرنا اور حرام و پليديوں سے نہ بچنا ايك طرح سے شيطان كى پيروى ہے _

۱۴_ محرمات اور ناپاك و پليد اشياء سے فائدہ اٹھانا شيطان كى پيروى كرنا ہے _كلوا مما فى الأرض حلالا طيباً و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۵ ۱_ انسان كى فطرى ضروريات اسكے انحراف اور شيطان كے دام اور چنگل ميں پھنسنے كى زمين كو فراہم كرتى ہيں _

كلوا مما فى الأرض حلالا ً طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۶_ لوگوں كو حرام اور ناپاك و پليد اشياء سے استفادہ پر آمادہ كرنا اور حلال نعمتوں سے روكنا انسان كے ساتھ شيطان كى دشمنى كا ايك جلوہ ہے _ كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو

۵۷۳

۱۷_ دشمنوں اور ان كى خواہشات كى پيروى سے پرہيز ضرورى ہے _

ولا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين شيطان كى انسان سے دشمنى اس بات كى دليل ہے كہ اسكى اتباع سے اجتناب كيا جائے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جو كوئي يا جو چيز بھى انسان كى دشمن ہو اسكى پيروى سے اجتناب كرے _

۱۸_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''ان من خطوات الشيطان الحلف بالطلاق والنذور فى المعاصى وكل يمين بغير الله (۱)

زوجہ كى طلاق كى قسم كھانا، گناہوں پر نذر كرنا اور اللہ كے علاوہ ہر قسم كھانا يہ شيطان كے قدموں ميں سے ہے_

احكام:۱

اطاعت: دشمنوں كى اطاعت ۱۷; شيطان كى اطاعت ۸،۱۳،۱۴; ناپسنديدہ اطاعت ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱

انحراف: انحراف كا مرحلہ بہ مرحلہ ہونا ۱۱; انحراف كى زمين آمادہ ہونا ۱۵; انحراف كے عوامل ۱۱،۱۲

انسان: انسان كامكارى و فريب كے دام ميں پھنسنا ۱۰; انسانوں كے حقوق ۶; انسان كے دشمن ۹،۱۶; انسان كى صفات ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۲،۷

حقوق: استفادے كا حق ۶

خبائت و پليد چيزيں : خبيث و پليد اشياء سے استفادہ ۱۴،۱۶

زمين : زمين سے استفادہ ۱،۶; زمين كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۳،۴

زہد: ناپسنديدہ زہد ۷

روايت:۱۸

شيطان : شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱۰; شيطان كى مختلف راہيں ۱۲; شيطان كى دشمنى ۹،۱۶; شيطان كے فريب كى روش ۱۱،۱۲; شيطان كے تسلط كى

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۴۶۰،نورالثقلين ج/۱ ص۱۵۲ ح ۴۹۲_

۵۷۴

زمين ہموار ہونا ۱۵; شيطان كى صفات ۱۰; شيطان كے قدم ۱۸

ضروريات: ضروريات كے اثرات و نتائج ۱۵

غذائيں : پاكيزہ غذائيں ۳; غذاؤں سے استفادہ كى شرائط ۳

غذا كى فراہمي: غذا كى فراہمى ميں حفظان صحت كى اہميت ۵

قرآن كريم : قرآن كريم كے مخاطبين ۲

قسم : زوجہ كى طلاق كى قسم ۱۸

مباحات:۱

مباحات سے استفادہ ۷; مباحات كو حرام قرار دينا ۱۳; مباحات سے ممانعت۱۶;

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۴، ۱۶

نذر: گناہ كے ليئے نذر كرنا ۱۸

وسائل و نعمات: وسائل و نعمات سے اسفتادہ كرنا مباح ہے۷ ; مباح وسائل و نعمات كو حرام قرار دينا ۱۳

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۱۶۹ )

وہ بس تمھيں بد عملى اور بدكاريكا حكم ديتا ہے اور اس بات پر آمادہ كرتاہے كہ خدا كے خلاف جہالت كى باتيں كرتےرہو (۱۶۹)

۱ _ شيطان اپنے وسوسوں كے ساتھ انسانوں كو برّے اور مكروہ اعمال ( گناہان صغيرہ اور كبيرہ ) كى ترغيب دلاتاہے _

انما يامركم بالسوء والفحشاء ''امر'' كا معنى ہے حكم دينا _ آيہ مجيدہ ميں حكم اور موضوع كى مناسبت سے اس سے مراد وسوسہ و غيرہ ميں ڈالنا ہے_ ''فحشا'' ايسى برائي كو كہتے ہيں

جو حد سے بڑھى ہوئي ہو _ اسے گناہ كبيرہ كہا جاسكتاہے اور قرينہ مقابلہ كے ہوتے ہوئے ''سوئ'' سے مراد گناہ صغيرہ ہے _

۲ _ شيطان لوگوں كو ترغيب دلاتاہے كہ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھيں ( بدعتيں ايجاد كريں اور احكام دين ميں تحريف كريں )_انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۵۷۵

''قول'' اپنے مشتقات كے ساته جب بهى ''علي'' كے ساته متعدى هو تو '' نسبت دينا اور جهوٹ باندهنا'' كا معنى ديتاهے_

۳ _ حرام كو حلال سمجھنا اور حلال كو حرام خيال كرنا اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ہے _يا ايها الناس انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۴ _ ہر چيز ( فعل ، گفتگو، صفت و غيرہ و غيرہ ) كى اللہ تعالى كى طرف نسبت دينا علم و يقين كى بنياد پر ہونا چاہيئے_

و ان تقولوا على الله ما لاتعلمون

۵ _ احكام دين كے بارے ميں بغير علم و آگاہى كے اظہار نظر كرنا (فتوى دينا ) ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے _

و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۶ _ شيطان كا برائيوں اور بدعتوں كى طرف دعوت دينا اس كى شيطنت كا ايك جلوہ اور انسانوں كے ساتھ اسكى دشمنى كى دليل ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون يہ جملہ''انما يامركم ...'' اس جملہ ''انہ لكم عدو مبين'' كى دليل ہے يعنى تم انسانوں كے ساتھ شيطان كى دشمنى كى دليل و علامت يہ ہے كہ وہ تمہيں برائيوں كى ترغيب دلاتاہے_

۷_ لوگوں كو برائيوں كى طرف دعوت دينا شيطانى فعل ہے اور انسان كے دشمنوں كى آشنائي اور شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء اگر جملہ''انما يامركم'' اس جملہ ''انہ لكم عدو'' كے لئے استدلال ہو تو مذكورہ بالا مطلب اس سے نكلتاہے_

۸_ لوگوں كو بدعتوں كے ايجاد كرنے اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے پر آمادہ كرنا شيطانى كام ہے اور انسان كے دشمنوں كى شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۹_ شيطان انسانوں كو شرك اختيار كرنے پر ترغيب دلاتا ہے اور مشرك قائدين كے ساتھ دوستى اور ان كى اتباع پر تشويق دلاتاہے*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً انما يامركم بالسوء والفحشاء

ماقبل آيات كے قرينہ سے ''سوئ'' اور ''فحشائ'' كے مصاديق ميں سے شرك اختيار كرنا اور ہے_

۱۰_ بدكارياں كرنے والے اور فحشا و پليدياں اختيار كرنے والے شيطان كے پيروكار ہيں _لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم بالسوء و الفحشاء

۱۱_ حلال اور طيب نعمتوں سے پرہيز كرنا اور پليد و حرام

۵۷۶

غذائيں كھانا برُے اور ناپسنديدہ افعال ہيں _كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا انما يامركم بالسوء والفحشاء

۱۲_ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے والے شيطان كے پيروكار اور اس كے نمائندے ہيں _

لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

احكام : ۵

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كى شرائط ۴

اللہ تعالى پرجھوٹ باندھنے والے : ۱۲

انسان: انسان كے دشمن ۶

بدعت: بدعت كى تشويق ۸; بدعت كے عوامل ۲،۶

تحريف : تحريف كے عوامل ۲

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۲،۳،۸; جھوٹ باندھنے پر تشويق كرنا ۸

حرام خورى : حرام خورى كا ناپسنديدہ ہونا۱۱

خبائث اور پليدياں : خبائث اور پليديوں سے استفادہ كرنا ۱۱

دشمن شناسى : دشمن شناسى كے معيارات ۷،۸

دوستى : مشرك قائدين سے دوستى ۹

شرك : شرك كى تشويق كرنا ۹; شرك كے عوامل ۹

شيطان : شيطان كا گمراہ كرنا ۹; شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱،۲،۶; شيطان كے پيروكار ۱۰،۱۲; شيطان كى تشويقات ۱،۲،۹; شيطان كى دشمنى ۶; شيطان كے نمائدے ۱۲; شيطان كا اہم كردار ۱،۲،۹

طيبات: طيبات سے اجتناب ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل كى دعوت ۶،۷; شيطانى عمل ۷،۸; ناپسنديدہ عمل ۵،۱۱

۵۷۷

فتوى دينا : بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے ۵; فتوى دينے كى شرائط ۵

فحشاء : فحشاء كا ارتكاب كرنے والا ۱۰

گناہ : گناہ كى تشويق ۱; گناہ كے اسباب ۱

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينا ۳

محرمات :۵ محرمات كو حلال قرار دينا ۳

يقين: يقين كى اہميت ۴

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ ( ۱۷۰ )

جب ان سے كہا جاتا ہے كہ جو كچھخدا نے نازل كيا ہے اس كا اتباع كرو توكہتے ہيں كہ ہم اس كا اتباع كريں گے جسپر ہم نے اپنے باپ دادا كو پايا ہے _ كيايہ ايسا ہى كريں گے چاہے ان كے باپ دادابے عقل ہى رہے ہوں اور ہدايت يافتہ رہےہوں (۱۷۰)

۱ _ قرآن كريم اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام كى اتباع كرنا ضرورى ہے _اتبعوا ما انزل الله

۲ _ پيامبر اسلام (ص) تمام انسانوں كو قرآن كريم اور احكام الہى كى پيروى كى دعوت دينے والے ہيں _و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله

۳_قرآن كريم اور احكام اسلام كا الہى ہونا ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے _اتبعوا ما انزل الله

''ما انزل اللہ'' ميں ''ما'' سے مراد قرآن حكيم اور احكام دين ہيں ان كى پيروى كا حكم دينے كے بعد جو فرمايا كہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے ہيں يہ ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) نے مشركين كو احكام الہى كى پيروى كرنے كى دعوت دى تو انہوں نے كہا ہم اپنے اسلاف كے آداب و اطوار اور رسوم و رواج كى اتباع كريں گے _و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا ''الفينا'' كا مصدر'' الفائ'' اسكا معنى ہے پانا _

۵۷۸

۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى دعوت كو قبول نہ كرنا اور قرآن و دين كے احكام كى پيروى نہ كرنے كے عوامل ميں سے ايك اپنے اسلاف كے آداب و اطوار پر انحصار كرنا اور اسى پر باقى رہنے پر اصرار كرنا ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آبائنا

۶ _ نسلى اور قبائلى تعصبات ناپسنديدہ اور مكروہ چيز ہے جو حق كو قبول نہ كرنے كى زمين فراہم كرتے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۷_ نسلوں كى گمراہى يا ہدايت ميں اقوام كے آداب و اطوار اور رسوم اثر انداز ہوتى ہيں _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۸_ انسانوں كو قرآن كريم اور احكام دين سے روكنے كے لئے اندھى تقليد شيطانى حيلوں اور سازشوں ميں سے ہے _

لا تتبعوا خطوات الشيطان و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

'' بل نتبع ...'' سے مراد اندھى تقليد ہے ماقبل آيات كى روشنى ميں يہ '' خطوات الشيطان'' كا ايك مصداق ہے _اندھى تقليد كا مفہوم جملہ''و لو كان آباؤہم ...'' سے استفادہ ہوتاہے _

۹_ زمانہ بعثت كے لوگوں كا شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام قرار دينا اسكى بنياد ان كى اپنے اسلاف كى تقليد تھي_كلوا مما فى الأرض ...و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

آيت ۱۶۵ ، ۱۶۸ كى روشنى ميں ''ما الفينا عليہ آبائنا''كے مورد نظر مصاديق شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام جانناہے_

۱۰_ احمقوں اور ناقابل ہدايت لوگوں كى پيروى اور تقليد كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ عمل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون

۱۱_ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا عاقلانہ امر ہے _اتبعوا ما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون قرآن حكيم اور احكام الہى كى پيروى كو ضرورى قرار دينا اور پھر مشركين كى اپنے گمراہ و احمق اسلاف كى پيروى كرنے كى روش كو غير منطقى قرار دينا اور اس پر تنقيد كرنا يہ اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا ايك عاقلانہ معاملہ ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت كرنے والے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعواما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۳ _ قرآن كريم نے مخالفين كو منطق و ا ستدلال كے

۵۷۹

ساتھ مخاطب قرار ديا ہے_اولوكان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۴ _ عقل كى قدر و منزلت اور اسكى پيروى _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۵ _ عقل اور دين ہم جہت و ہم آہنگ ہيں _اتبعوا ما نانزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۶ _ انسانوں كى ہدايت قبول كرنے ميں عقل ايك سرمايہ ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۷_ شرك اختيار كرنا حماقت كى دليل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً

۱۸_ ہدايت يافتہ اور صاحب عقل انسانوں كى تقليد يا پيروى كرنا بے جا نہيں ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون يہ جملہ '' او لو كان ...'' بيان كررہاہے كہ فقط تقليد كرنے كو رد نہيں كيا جاسكتا بلكہ وہ تقليد قابل مذمت ہے جس ميں وہ شخص جسكى تقليد كى گئي ہے اہل فہم و خرد اور ہدايت يافتہ نہ ہو_

۱۹_ اسلاف كى تقليد كرنا جاہلانہ اور غير منطقى و تيرہ ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا او لو كان آباؤهم لا يعقلون

احكام : احكام كا وحى ہونا ۳

اسلاف: اسلاف كى پيروى كے نتائج۹; اسلاف كے آداب و رسوم كى پيروى كرنا ۴،۵

اسلام: اسلام كى پيروى كے دلائل ۳; اسلام كا وحى ہونا ۳

اطاعت: شيطان كى اطاعت ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات سے منہ موڑنا ۵; پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۲

تعصب: تعصب كے اثرات و نتائج ۶; نسلى تعصب ۶

قومى تعصب ۶; تعصب كا ناپسنديدہ ہونا ۶

تعقل: تعقل نہ ہونے كى علامتيں ۱۷

تقليد: اندھى تقليد كے نتائج ۸; احمقوں كى تقليد ۱۰; عقلاء كى تقليد ۱۸; گمراہوں كى تقليد ۱۰; ہدايت يافتہ

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785