تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201320 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ( ۱۶۵ )

لوگوں ميں كچھ ايسے لوگ بھى ہيں جوالله علاوہ دوسروں كو اس كا مثل قراديتےہيں اور ان سے الله جيسى محبت بھى كرتے ہيں جب كہ ايمان والوں كى تمام محبّت خدا سےہوتى ہے اور اے كاش ظالمين اس بات كو اسوقت ديكھ ليتے جو عذاب كوديكھنے كے بعدسمجھيں گے كہ سارى قوت صرف الله كے لئے ہےاور الله سخت ترين عذاب كرنے والاہے(۱۶۵)

۱ _ كچھ لوگ (مشركين ) توحيد پر بہت زيادہ دلائل ہونے كے باوجود غير خدا كو خدا تعالى كى مثل، نظير اور برابر تصور كرتے ہيں _لآيات لقوم يعقلون_ و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ''انداد'' كا مفرد''ند'' ہے بمعنى مثل_

۲ _ غير خدا كو خدا كى طرح تصور كرنا آيات الہى ميں تدبر نہ كرنے كى دليل و علامت ہے _لآيات لقوم يعقلون_و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۳ _ اللہ تعالى بے مثل و مثال اور بے ہمتا حقيقت ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۴ _ مشركين جھوٹے خداؤں سے انس و محبت اور تعلق ركھتے ہيں _يحبونهم

۵ _ مشركين خيالى معبودوں سے انس و محبت كرنے كے علاوہ اللہ تعالى سے بھى محبت كرتے ہيں _يحبونهم كحب الله

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''حب'' كا اضافہ مفعول كى طرف ہوا ہو اور اسكا فاعل ضمير محذوف ہو جو ''من الناس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنىكحبهم الله _

۶ _ مشركين كى خيالى معبودوں سے محبت اللہ تعالى كى محبت كے ہم وزن و برابر ہے _

۵۶۱

يحبونهم كحب الله

۷_ موحد مومنين كے نزديك اللہ تعالى عالم ہستى كى محبوب ترين حقيقت ہے _والذين آمنوا اشد حباً لله

آيہ مجيدہ كے ابتدائي حصے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں ''الذين آمنوا'' سے مراد و ہ توحيد پرست ہيں جو فقط اللہ تعالى كى ہى عبادت كرتے ہيں كسى چيز يا شخص كو اللہ تعالى كى مثل و مانند نہيں سمجھتے _ '' اشد''افعل تفضيل ہے جسكا مفضل عليہ ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز اور ہر شخص كو شامل ہوجائے_

۸_انس و محبت اور عشق و دوستى كے بالاترين مرحلہ كے لئے انتہائي مناسب اور موزوں حقيقت اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _والذين آمنوا اشد حبا الله

۹_ اللہ تعالى كے ہمراہ غير خدا كى محبت و دوستى بے ايمانى كى علامت ہے _والذين آمنوا اشد حبالله

۱۰_ احساسات و جذبات كا رابطہ اعتقادات و يقين كے ساتھ ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم والذين آمنوا اشد حبا لله

۱۱ _ تمام تر قدرتوں اور قوتوں كا مالك اللہ تعالى ہے كوئي شخص اور نہ ہى كوئي چيز اسكے علاوہ قدرت و طاقت نہيں ركھتى _ان القوة لله جميعاً

۱۲ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا عذاب شديد ہوگا_و ان الله شديد العذاب

۳ ۱_مشركين قيامت كے دن عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے اور اس كو شديدعذاب پائيں گے_الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان الله شديد العذاب

۱۴ _ ظالمين اللہ تعالى كى قدرت و طاقت سے غافل ہيں _و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۱۵ _ ظالمين روز قيامت شديد عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لويرى الذين ظلموا وان الله شديد العذاب

۱۶_ مشركين جب عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے تو يقين كرليں گے كہ قدرت و قوت فقط اللہ تعالى ميں منحصر ہے _

و لو يرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً '' إذ يرون''، ''يري'' كے لئے مفعول ہے ''ان القوة ...'' فعل مقدر كے ساتھ جواب شرط ہے گويا مطلب يوں ہے ''لو يرى لعلموا ان القوة للہ جميعاً'' اگر مشركين آج ديكھ ليتے اس دن كو جب قيامت كے عذاب ميں مبتلا ہوں گے تو يقينا جان ليتے كہ تمام تر

۵۶۲

قدرتوں كا مالك اللہ تعالى ہے_

۱۷_جو لوگ اللہ تعالى كا مثل و مثال تصور كرتے ہيں ظالمين ميں سے ہيں _و لو يرى الذين ظلموا

'' الذين ظلموا'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كے لئے '' الذين ظلموا'' كى تعبير لانا اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ شرك اختيار كرنا اللہ تعالى كے حق ميں ظلم و تجاوز ہے( لازم ہے كہ اسى كو واحد و يكتا جانا جائے)_

۱۸_ مشركين جھوٹے خداؤں كو صاحب قدرت تصور كرتے ہيں _و لويرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً وہ لوگ جو غير خدا كو خداوند متعال كى طرح سمجھتے ہيں ان كے لئے اللہ تعالى كى قدرت اور يہ كہ قوت صرف اسى كى ذات اقدس ميں منحصر ہے كو بيان كرنا كرنا اس خاطر ہے كہ مشركين اس وہم و گمان كى بناپر كہ ان كے معبود بھى صاحب قدرت ہيں ان كو اللہ تعالى كى طرح تصور كرتے ہيں اور اسى بناپر ان سے محبت كرتے ہيں _

۱۹_ جھوٹے معبودوں كو صاحب قدرت خيال كرنا مشركين كى ان سے محبت كا سبب ہے_يحبونهم كحب الله و لو يرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۰_ قدرت و قوت كى جاذبيت محبت كو جذب كرنے ميں مؤثر ہوتى ہے _يحبونهم كحب الله و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۱ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت پر يقين دلوں ميں اسكى محبت پيدا كرنے كا سبب ہے _والذين آمنوا اشد حبا لله ان القوة لله جميعاً

۲۲_ اللہ تعالى كى قدرت كو نہ پہچاننا اور اسكے غير كو صاحب قدرت تصور كرنا شرك كے اسباب و عوامل ميں سے ہے _

و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ان القوة لله جميعاً

۲۳ _ بعض انسان (مشركين) اپنے بڑوں اور بزرگوں كو قدرت و طاقت ميں اللہ تعالى كى طرح سمجھتے ہيں اور ان كو اللہ تعالى كے برابر اور ہم وزن خيال كرتے ہيں _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم كحب الله

بعدوالى آيت مشركين كو دو حصوں ميں تقسيم كرتى ہے ايك سرداران شرك اور دوسرے ان كے پيروكار _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ '' من الناس'' سے مراد پيروكار مشركين اور '' انداد'' سے مراد ان كے سردار ہيں اور ضمير '' ہم '' ، ''انداد'' كى طرف لوٹتى ہے جو اس احتمال كى تائيد كرتى ہے _ كيونكہ يہ ضمير انسانوں اور صاحب عقل و شعور مخلوقات كے لئے استعمال ہوتى ہے _

۲۴ _ قيامت كا دن اللہ تعالى كى مطلق (لامحدود)

۵۶۳

قدرت كے ظہور كا دن ہے اور يہ كہ غير خدا كے پاس كوئي قدرت و طاقت نہيں ہے اس سے آگاہى كا دن ہے _

إذ يرون العذاب ان القوة للہ جميعاً

اسماء اور صفات: جمالى صفات۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۳،۸،۱۱،۱۶; اللہ تعالى كا بے مثل و مثال ہونا ۳; آخرت ميں اللہ تعالى كے عذاب ۱۲; آخرت ميں اللہ تعالى كى قدرت ۲۴; قدرت الہى ۱۱،۱۶

اللہ تعالى كے محب و عاشق :۷

احساسات و جذبات: احساسات اور عقيدہ۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پر ايمان كے اثرات و نتائج ۲۱; بے ايمانى كى علامتيں ۹

باطل معبود: باطل معبودوں كى قدرت ۱۸

تعقل: عدم تعقل كى علامتيں ۲

توحيد: توحيد ذاتى ۳

جہالت: جہالت كے نتائج و اثرات ۲۲; اللہ تعالى كى قدرت سے جہالت ۲۲

رجحانات و محبتيں : اللہ تعالى سے محبت ۵،۶،۷،۸، ۹،۲۳;طاقتور رہبروں سے محبت ۲۳; غير خدا سے محبت ۹،۲۳; باطل معبودوں سے محبت ۴،۵،۶;اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲۱; باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۱۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۲; شرك كا ظلم ۱۷; شرك كے عوامل ۲۲

ظالمين :۱۷

ظالمين اور قدرت الہى ۱۴; ظالمين كو اخروى عذاب ۱۵;ظالمين كى غفلت ۱۴

عذاب: شديد عذاب ۱۲،۱۳،۱۵; عذاب كے درجات ۱۲،۱۳،۱۵

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۸

عوام: مشرك عوام ۱،۲۳

۵۶۴

غفلت: اللہ تعالى كى قدرت سے غفلت ۱۴

قدرت: قدرت كے نتائج و اثرات۱۹،۲۰; غير خدا كى قدرت ۲۴; قدرت كا منبع ۱۱

قيامت: قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲۴

مشركين : مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشركين كا عقيدہ ۱،۱۸، ۱۹،۲۳; مشركين كى محبتيں ۴،۵،۶; مشركين اور قدرت الہى ۱۶;مشركين اور باطل معبود ۱۸،۱۹; مشركين كا عذاب سے سامنا ۱۶

مومنين: مومنين كا انس و محبت ۷; مومنين كے محبوب ۷

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ ( ۱۶۶ )

اس وقت جبكہ پير اپنے مريدوں سےبيزارى كا اظہار كريں گے اور سب كے سامنےعذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہوچكےہوں گے (۱۶۶)

۱ _ مشركين كى تقسيم سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں ميں _إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۲ _ مشركين ( سردار اور ان كے پيروكار) عذاب قيامت ميں مبتلا ہوں گے_إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا و رأوا العذاب ''راوا العذاب'' كى ضمير فاعلى ظاہراً دونوں گروہوں (سردار اور ان كے پيروكار) كى طرف لوٹتى ہے _ ما قبل او رما بعد والى آيت سے معلوم ہوتاہے كہ ''تبري'' كے لئے ظرف روز قيامت ہے _ بنابريں ''العذاب'' سے مراد عذاب قيامت ہے_

۳ _ سرداران شرك جب عذاب قيامت كا سامنا كريں گے تو اپنے پيروكاروں سے دورى اور بيزارى اختيار كريں گے _

إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورأوا العذاب جملہ ''و راوا العذاب'' حاليہ ہے يعنى سردار ان شرك كى اپنے پيروكاروں سے دورى و بيزارى اس حالت ميں ہوگى جب عذاب كا سامنا كريں گے _

۴ _ مشركين ( سرداران شرك اور ان كے پيروكار) كے لئے عذاب قيامت سے نجات كى خاطر كوئي وسيلہ نہيں ہے _

تقطعت بهم الاسباب ''بھم'' ، '' الاسباب'' كے لئے قيد ہے اور اس ميں ''بائ'' ،''ملابسة'' كے معنى ميں ہے پس جملہ '' تقطعت ...'' كا معنى يوں ہے

۵۶۵

(درآں حاليكہ ) ان كے پاس جو وسائل و اسباب تھے وہ سب كے سب ٹوٹ چكے ہوں گے اور نابود ہوجائيں گے ''الاسباب'' سے ممكن ہے عذاب سے نجات كے اسباب مراد ہوں يا مراد وہ اسباب ہوں جو سردار اور ان كے پيروكاروں كو ايك دوسرے سے جوڑتے ہوں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۵ _ قيامت كا دن پيروكار مشركين كے لئے ان كے پيشواؤں اور بزرگوں كى گمراہى سے آگاہى كا دن ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۶ _ الہى فرامين كے مقابل باطل قوتوں كى پيروى شرك ہے _*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم إذ تبرأ الذين اتبعوا

۷_ گمراہ قائدين اور پيشواؤں كا عوام كى گمراہى ميں بہت بنيادى كردار ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۸_ قيامت كے دن سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں كے مابين دوستى و ارتباط كے تمام وسائل و اسباب نابود ہوجائيں گے _و تقطعت بهم الاسباب يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الاسباب'' سے مراد سرداروں اور پيروكاروں كے مابين دوستى و پيوند كے اسباب ہوں _

۹_باطل كى بنياد پر انسانوں كى دوستياں اور اطاعت قيامت كے دن دشمنى اور اختلاف ميں تبديل ہوجائيں گي_إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۱۰_ دوستى اور اطاعت كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے _يحبونهم كحب الله إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

ماقبل آيت ميں پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين ارتباط كى بنياد محبت اور دوستى كو قرار ديا گيا ہے _ البتہ اگر ''انداد''سے مراد سردار و پيشوا ہوں تو آيت نے پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين رابطے كو تابع اور متبوع ( جسكى اتباع كى جائے ) كا رابطہ قرار ديا ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشار ہ ہے كہ محبت اور اطاعت ايك دوسرے كے لئے لازم و ملزوم ہيں يعنى جہاں محبت ہے وہاں اطاعت بھى ہے_

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا

۵۶۶

''اذا كان يوم القيامة ياتى النداء من عند الله عزوجل الا من تعلق بامام فى دار الدنيا فليتبعه الى حيث يذهب فحينئذ يتبرء الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورا وا العذاب و تقطعت بهم الاسباب ''(۱)

جب قيامت بر پا ہوگى تو ...رب ذو الجلال كى جانب سے صدا آئے گى جو كوئي دنيا ميں جس پيشوا سے وابستہ تھا جہاں اسكا پيشوا جائے تو وہ بھى اسى كے پيچھے جائے اس وقت گمراہ پيشوا اپنے پيروكاروں سے بيزارى اختيار كريں گے_ وہ لوگ عذاب الہى كا سامنا كريں گے اور ان كے تمام تر اسباب ٹوٹ جائيں گے ...''

اختلاف: آخرت ميں اختلاف كے اسباب ۹)

اظہار برائت كرنا : پيروكار مشركين سے اظہار برا ت ۳

اللہ تعالى : اوامر الہى سے منہ موڑنا ۶

تقليد: باطل تقليد كے نتائج ۹

دشمني: آخرت ميں دشمنى كے اسباب ۹

دوستى : باطل دوستى كے نتائج۹; دوستى اور اطاعت ۱۰

روايت: ۱۱

شرك : شرك كے موارد ۶

عذاب: اخروى عذاب سے نجات ۴

قائدين : گمراہ قائدين كا گمراہ كرنا ۷; گمراہى كے پيشوا قيامت ميں ۱۱

قدرت: باطل قوت و قدرت كى اتباع ۶

قيامت : قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۵; قيامت ميں اسباب كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں روابط كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں محبتوں كا منقطع ہونا ۸

لوگ: لوگوں كى گمراہى كے عوامل ۷

مشركين : پيروكار مشركين كى آگاہى ۵; مشركين پيشواؤں كا اظہار برائت ۳; مشركين كے پيشوا ۱; مشركين كے قائدين قيامت ميں ۲،۳،۸; مشركين كو اخروى

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ص ۶۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۰ ح ۴۸۵_

۵۶۷

عذاب ۲،۴; پيروكار مشركين كو عذاب ۴; مشرك قائدين كى گمراہي۵;پيروكار مشركين ۱; پيروكار مشركين قيامت ميں ۲،۵،۸; مشركين كا عذاب سے سامنا كرنا ۳

معاشرہ : معاشرے كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۷

معاشرتى طبقات: ۱

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ( ۱۶۷ )

اور مريد بھى يہ كہيں گے كہاے كاش ہم نے ان سے اسى بيزارى اختيار كيہوتى جس طرح يہ آج ہم سے نفرت كررہے ہيں _ خدا ان سب كے اعمال كو اسى طرح حسرتبنا كرپيش كرے گا اور ان ميں سے كوئيجہنم سے نكلنے والا نہيں ہے (۱۶۷)

۱ _ پيروكار مشركين ميدان حشر ميں دنيا كى طرف لوٹنے كى خواہش كريں گے تا كہ اپنے پيشواؤں سے اظہار برائت كريں اور ان كى مخالفت كريں _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرة فنتبرا منهم '' كرّ'' كا معنى رجوع ہے اور '' كرّة'' كا معنى ہے ايك بار رجوع كرنا اور اس سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہے بنابرايں '' لو ان لنا كرّة'' يعنى اے كاش ہم ايك مرتبہ دنيا كى طرف لوٹائے جائيں _

۲ _ ميدان حشرميں پيروكار مشركين اپنے مشرك يپشواؤں كى دوستى اور دنيا ميں ان كى اطاعت سے اظہار پشيمانى كريں گے _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

۳ _ قيامت كے دن مشرك پيروكاروں كى شرك اختيار كرنے اور مشرك قائدين كى اطاعت كرنے سے ندامت كوئي نتيجہ نہ دے گى اور نہ ہى انہيں نجات دلائے گى _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

اگر قيامت ميں ان كى نجات ميں شرك اور سے ندامت مؤثر ہوتى تو مشركين دنيا كى طرف بازگشت كى تمنا نہ كرتے _

۴ _ مشرك پيروكاروں كا اپنے مشرك قائدين سے اظہار برائت كے لئے تيار ہونا حق و حقيقت كى تلاش و جستجو كے لئے نہ ہوگا بلكہ جذبہ انتقام كى خاطر ہوگا _

فنتبرا منهم كما تبرء وا منا '' كما تبرا وا منا '' (چونكہ انہوں نے ہم سے بيزارى كى ہے) يہ جملہ پيروكار مشركين كے اظہار برائت كے محرك كو بيان كررہاہے_

۵ _ قيامت كے دن انسانوں ميں جذبہ انتقام ہوگا_فنتبرا منهم كما تبرأوا منا

۵۶۸

۶ _ قيامت ميں انسانوں كى نفسياتى كيفيات اور احساسات بھى ہوں گے _لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم كما تبرا و منا

۷_ قيامت كے ميدان ميں پيروكار مشركين شرك اختيار كرنے اور مشرك رہبروں كى اطاعت سے حسرت و پشيمانى اور غم و اندوہ كا اظہار كريں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۸_ قيامت كا منظردنياوى اعمال اور ان كے نتائج كے مشاہدے كا ميدان ہے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات

''يري'' كا فعل ممكن ہے '' رؤيت '' سے ہے جو آنكھوں سے ديكھنے كے معنى ميں ہے اس بناپر اس جملہ ''كذلك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى مشركين كو انكے اعمال ( يا ان اعمال كے نتائج ) دكھائے گا _

۹_ دنيا ميں انسان كے بُرے اور ناقابل قبول اعمال قيامت ميں حسرت و ندامت اور غم و اندوہ كا باعث بنيں گے _

كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۰_ اللہ تعالى قيامت كے ميدان ميں انسان كو اسكے دنياوى اعمال كا مشاہدہ كرائے گا _كذلك يريهم الله اعمالهم

۱۱ _ انسانوں كے برے اعمال قيامت ميں مجسم حسرت كى صورت ميں ان كے مقابل ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''يري'' كا معنى قلبى مشاہدہ ہو اس صورت ميں ' ' حسرات'' ، ''يري'' كے لئے تيسرا مفعول ہوگا اور جملے كا معنى يہ ہوگا اللہ تعالى مشركوں كے اعمال كو حسرتوں كى صورت ميں ان كے سامنے جلوہ نما كرے گا _

۱۲ _ شرك اختيار كرنا ، مشرك رہبروں كى محبت اور پيروى كرنا يہ اعمال پيروكار مشركين كے لئے عالم آخرت ميں حسرت و اندوہ كا باعث ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۳ _ مشركين ( قائدين اور پيروكار) آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے اور ہميشہ وہيں رہيں گے_و ما هم بخارجين من النار

۱۴ _ عالم آخرت سے دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو بے معنى اور بے ہودہ آرزو ہے جو ہرگز پورى نہ ہوگى _

لو ان لنا كرة و ما هم بخارجين من النار

۵۶۹

يہ جملہ '' و ما ہم بخارجين ...'' در حقيقت مشركين كى دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو كا جواب ہے _ يہ جملہ بيان كررہاہے كہ وہ لوگ نہ فقط واپس نہ لوٹيں گے بلكہ انہيں آتش جہنم سے رہائي بھى نہ ملے گى _

۱۵ _ اللہ تعالى كے اس كلام '' كذلك يريھم اللہ اعمالہم حسرات عليہم'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''هو الرجل يدع المال لا ينفقه فى طاعة الله بخلاً ثم يموت فيدعه لمن هو يعمل فى طاعة الله او فى معصيته فان عمل به فى طاعة الله راه فى ميزان غيره فزاده حسرة و قد كان المال له و ان كان عمل به فى معصية الله قواه بذلك المال حتى عمل به فى معصية الله'' (۱) اس سے مراد وہ شخص ہے جو دنيا ميں مال چھوڑ جاتاہے اور بخل كى وجہ سے اللہ كى اطاعت ميں اسے خر چ نہيں كرتا وہ مرجاتاہے اور پھر يہ مال اللہ كى اطاعت يا معصيت كى راہ ميں خرچ ہوتاہے پس اگر يہ مال خدا كى راہ ميں خرچ ہوا تو يہ شخص اس كو دوسروں كے نامہ اعمال ميں ديكھے گا اور اس كى حسرت ميں اضافہ ہوگا كيونكہ يہ مال اس كى ملكيت تھا اور اگر يہ مال اللہ تعالى كى معصيت كى راہ ميں خرچ ہوگا تو اس نے اس مال سے گناہ گار كى تقويت كى تا كہ اللہ تعالى كى نافرمانى كرسكے _

۱۶_ منصور حازم كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت'' و ماهم بخارجين من النار'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''اعداء على عليه‌السلام هم المخلدون فى النار ابد الابدين و دهر الداهرين ''(۲)

ان سے مراد علىعليه‌السلام كے دشمن ہيں جو جہنم ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے_

آرزو: دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو ۱،۱۴; باطل آرزو ۱۴

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۲،۳،۷،۱۲

اظہار برائت: مشرك رہبروں سے اظہار برائت ۱،۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۰

امام علىعليه‌السلام : على عليہ السلام كے دشمنوں كا انجام ۱۶

انسان: آخرت ميں انسانى احساسات۶; آخرت ميں انسانوں كا جذبہ انتقام۵; انسان كى آخرت ميں حسرت ۱۱; قيامت ميں انسانوں كا عمل ۱۰

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۴۲ ح ۲ ، نورالثقلين /ج۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۹_

۲) تفسير عياشى ج/۱ص۷۳ ح ۱۴۵، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۸_

۵۷۰

اہل جہنم : ۱۳،۱۶

پشيمانى : بے نتيجہ پشيمانى ۳

جذبہ محركہ: جذبہ محركہ كے عوامل ۴

جہنم: آتش جہنم ۱۳; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۶; جہنم ميں ہميشگى ۱۳

حسرت : اخروى حسرت كے عوامل ۱۵

دشمني: مشركين قائدين سے دشمنى ۱

دوستى : مشركين قائدين سے دوستى كے نتائج ۲ ;ناپسنديدہ دوستى ۲

رجحانات اور محبتيں : مشرك قائدين سے محبت كے نتائج ۱۲

روايت:۱۵،۱۶

شرك : شرك كے نتائج و اثرات ۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۳

عمل: عمل كے اخروى نتائج ۸; ناپسنديدہ عمل كے اخروى نتائج ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے نتائج ۹

قيامت : قيامت ميں جذبات و احساسات۶; قيامت ميں جذبہ انتقام ۵; قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۸،۱۱; قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۸; قيامت ميں اندوہ كے عوامل ۷،۹،۱۲; قيامت ميں حسرت كے عوامل ۷،۹،۱۱،۱۲; قيامت كى خصوصيات۸

مال: گناہ ميں مال كا استعمال ۱۵

مشركين : مشركين كى اخروى آرزو ۱; پيروكار مشركين كا جذبہ انتقام ۴; مشركين كا اندوہ ۷; پيروكار مشركين كا اخروى اندوہ ۱۲; مشركين كى اخروى پشيمانى ۲،۳; مشركين كى اخروى حسرت ۷; پيروكار مشركين كى حسرت ۱۲;مشرك قائدين جہنم ميں ۱۳; مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشرك قائدين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين جہنم ميں ۱۳; پيروكار مشركين قيامت ميں ۱،۲،۳،۷

۵۷۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ( ۱۶۸ )

اےانسانو ميں جو كچھ بھى حلال و طيب ہےاسے استعمال كرو اور شيطانى اقدامات كااتباع نہ كرو كہ وہ تمھارا كھلا ہوا دشمنہے (۱۶۸)

۱ _ زمين كى پيداوار سے كھانا اور استفادہ كرنا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اللہ تعالى نے تاكيد فرمائي ہے_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً ''كلوا'' كا مصدر ''اكل'' ہے جس كا معنى كھانا ہے _ بہت سے موارد ميں ''مجاز شامل'' كے طور پر استعمال ہوتاہے جسكا معنى مطلق تصرف يا استفادہ كرنا ہے اور كھانا بھى اسى ميں شامل ہے _

۲ _ تمام انسان قرآن حكيم كے مخاطب ہيں اور ان كو دعوت دى گئي ہے كہ اس كے احكام كا خيال ركھيں _

يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۳ _ زمين كى پيدا وار سے كھانے اور استفادہ كرنے ميں اللہ تعالى كى نصيحت ميں بنيادى شرائط يہ ہيں كہ پاكيزہ، طبيعت كے موافق اور حلال ہو_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً اس مطلب ميں ''حلالاً'' اور ''طيباً'' ، ''ما'' كے لئے حال ہے ، طيب اپنے موارد استعمال كے اعتبار سے خوب ، اچھا كا معنى ديتاہے لہذا ہر جملے ميں اس كى تفسير اس حكم كے مناسب كى جائيگى جو اس جملے ميں موجود ہے_

۴ _ زمينى پيداوار اور وسائل سے استفادہ كرنے كے لئے ضرور ى ہے كہ حلال اور اچھى چيز كا انتخاب كيا جائے_

كلوا مما فى الأرض حلالاً طيبا اس مطلب ميں ''حلالا'' اور ''طيبا'' كو محذوف مفعول مطلق كى صفت قرار ديا گيا ہے يعنى كلوا اكلاً حلالا طيبا پس يہ دو قيد اس لئے بيان ہوئيں ہيں كہ استفادے كى نوعيت بيان كريں _

۵_زمين سے پيدا ہونے والى عذاؤں ميں حفظان صحت كے اصول كى مراعات كرنا ضرورى ہے_كلوا مما فى الأرض حلا لا طيبا

۶_ زمين كے وسائل سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے_ يہ كسى گروہ يا امت مسلمان و غيرہ سے مختص نہيں ہے _يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۷_ انسان بے ہودہ اور بے بنياد بہانوں (زہد، قبائلى رسومات و غيرہ وغيرہ ) كى بناپر زمين كى نعمتوں اور وسائل سے خود كو محروم نہ كريں _

كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا

۵۷۲

''كلوا'' كا حكم اگر چہ مفسرين كى نظر ميں مباح كے لئے ہے نہ كہ وجوب كے لئے _ تا ہم مباح كو بيان كرنے كے لئے امر كا صيغہ استعمال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ متكلم ترغيب دلارہاہے اور ان چيزوں سے اجتناب يا پرہيز كو ٹھيك نہيں سمجھتا_

۸_ شيطان كى پيروى سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۹_ شيطان انسانوں كا بہت واضح دشمن ہے _انه لكم عدو مبين

۱۰_ شيطان مكار، فريب دينے والا اور دغاباز موجود ہے جبكہ انسان اس كے اثرات كو قبول كرنے والا ہے _

و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۱ _ شيطان انسانوں كو مرحلہ بہ مرحلہ ، قد م بہ قدم زوال اور انحراف كى طرف كھينچ لے جاتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان ''خطوات'' كى مفرد ''خطوة'' ہے جسكا معنى قدم ہے آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد وہ راستہ ہے جو شيطان نے انسان كے ليئے معين كيا ہے خطوات كو جمع استعمال كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كو منحرف كرنے كے لئے شيطان كے پاس مختلف راستے ہيں يا اس سے مراد يہ ہوسكتا ہے كہ شيطان انسان كو قدم بہ قدم ، گام بہ گام تباہى و زوال كى طرف لے جاتاہے_

۱۲ _ انسانوں كو منحرف كرنے كے لئے شيطان مختلف راہوں سے استفادہ كرتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۳ _ زمين كى نعمتوں اور وسائل كو اپنے ليئے حرام قرار دينا شيطان كى پيروى ہے_كلوا مما فى الأرض و لا تتبعوا خطوات الشيطان وسائل و امكانات سے استفادہ كرنے اور حرام و پليديوں سے پرہيز كى نصيحت كرنے كے بعد شيطان كى پيروى سے منع كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ وسائل و نعمات سے استفادہ نہ كرنا اور حرام و پليديوں سے نہ بچنا ايك طرح سے شيطان كى پيروى ہے _

۱۴_ محرمات اور ناپاك و پليد اشياء سے فائدہ اٹھانا شيطان كى پيروى كرنا ہے _كلوا مما فى الأرض حلالا طيباً و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۵ ۱_ انسان كى فطرى ضروريات اسكے انحراف اور شيطان كے دام اور چنگل ميں پھنسنے كى زمين كو فراہم كرتى ہيں _

كلوا مما فى الأرض حلالا ً طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۶_ لوگوں كو حرام اور ناپاك و پليد اشياء سے استفادہ پر آمادہ كرنا اور حلال نعمتوں سے روكنا انسان كے ساتھ شيطان كى دشمنى كا ايك جلوہ ہے _ كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو

۵۷۳

۱۷_ دشمنوں اور ان كى خواہشات كى پيروى سے پرہيز ضرورى ہے _

ولا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين شيطان كى انسان سے دشمنى اس بات كى دليل ہے كہ اسكى اتباع سے اجتناب كيا جائے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جو كوئي يا جو چيز بھى انسان كى دشمن ہو اسكى پيروى سے اجتناب كرے _

۱۸_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''ان من خطوات الشيطان الحلف بالطلاق والنذور فى المعاصى وكل يمين بغير الله (۱)

زوجہ كى طلاق كى قسم كھانا، گناہوں پر نذر كرنا اور اللہ كے علاوہ ہر قسم كھانا يہ شيطان كے قدموں ميں سے ہے_

احكام:۱

اطاعت: دشمنوں كى اطاعت ۱۷; شيطان كى اطاعت ۸،۱۳،۱۴; ناپسنديدہ اطاعت ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱

انحراف: انحراف كا مرحلہ بہ مرحلہ ہونا ۱۱; انحراف كى زمين آمادہ ہونا ۱۵; انحراف كے عوامل ۱۱،۱۲

انسان: انسان كامكارى و فريب كے دام ميں پھنسنا ۱۰; انسانوں كے حقوق ۶; انسان كے دشمن ۹،۱۶; انسان كى صفات ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۲،۷

حقوق: استفادے كا حق ۶

خبائت و پليد چيزيں : خبيث و پليد اشياء سے استفادہ ۱۴،۱۶

زمين : زمين سے استفادہ ۱،۶; زمين كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۳،۴

زہد: ناپسنديدہ زہد ۷

روايت:۱۸

شيطان : شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱۰; شيطان كى مختلف راہيں ۱۲; شيطان كى دشمنى ۹،۱۶; شيطان كے فريب كى روش ۱۱،۱۲; شيطان كے تسلط كى

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۴۶۰،نورالثقلين ج/۱ ص۱۵۲ ح ۴۹۲_

۵۷۴

زمين ہموار ہونا ۱۵; شيطان كى صفات ۱۰; شيطان كے قدم ۱۸

ضروريات: ضروريات كے اثرات و نتائج ۱۵

غذائيں : پاكيزہ غذائيں ۳; غذاؤں سے استفادہ كى شرائط ۳

غذا كى فراہمي: غذا كى فراہمى ميں حفظان صحت كى اہميت ۵

قرآن كريم : قرآن كريم كے مخاطبين ۲

قسم : زوجہ كى طلاق كى قسم ۱۸

مباحات:۱

مباحات سے استفادہ ۷; مباحات كو حرام قرار دينا ۱۳; مباحات سے ممانعت۱۶;

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۴، ۱۶

نذر: گناہ كے ليئے نذر كرنا ۱۸

وسائل و نعمات: وسائل و نعمات سے اسفتادہ كرنا مباح ہے۷ ; مباح وسائل و نعمات كو حرام قرار دينا ۱۳

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۱۶۹ )

وہ بس تمھيں بد عملى اور بدكاريكا حكم ديتا ہے اور اس بات پر آمادہ كرتاہے كہ خدا كے خلاف جہالت كى باتيں كرتےرہو (۱۶۹)

۱ _ شيطان اپنے وسوسوں كے ساتھ انسانوں كو برّے اور مكروہ اعمال ( گناہان صغيرہ اور كبيرہ ) كى ترغيب دلاتاہے _

انما يامركم بالسوء والفحشاء ''امر'' كا معنى ہے حكم دينا _ آيہ مجيدہ ميں حكم اور موضوع كى مناسبت سے اس سے مراد وسوسہ و غيرہ ميں ڈالنا ہے_ ''فحشا'' ايسى برائي كو كہتے ہيں

جو حد سے بڑھى ہوئي ہو _ اسے گناہ كبيرہ كہا جاسكتاہے اور قرينہ مقابلہ كے ہوتے ہوئے ''سوئ'' سے مراد گناہ صغيرہ ہے _

۲ _ شيطان لوگوں كو ترغيب دلاتاہے كہ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھيں ( بدعتيں ايجاد كريں اور احكام دين ميں تحريف كريں )_انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۵۷۵

''قول'' اپنے مشتقات كے ساته جب بهى ''علي'' كے ساته متعدى هو تو '' نسبت دينا اور جهوٹ باندهنا'' كا معنى ديتاهے_

۳ _ حرام كو حلال سمجھنا اور حلال كو حرام خيال كرنا اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ہے _يا ايها الناس انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۴ _ ہر چيز ( فعل ، گفتگو، صفت و غيرہ و غيرہ ) كى اللہ تعالى كى طرف نسبت دينا علم و يقين كى بنياد پر ہونا چاہيئے_

و ان تقولوا على الله ما لاتعلمون

۵ _ احكام دين كے بارے ميں بغير علم و آگاہى كے اظہار نظر كرنا (فتوى دينا ) ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے _

و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۶ _ شيطان كا برائيوں اور بدعتوں كى طرف دعوت دينا اس كى شيطنت كا ايك جلوہ اور انسانوں كے ساتھ اسكى دشمنى كى دليل ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون يہ جملہ''انما يامركم ...'' اس جملہ ''انہ لكم عدو مبين'' كى دليل ہے يعنى تم انسانوں كے ساتھ شيطان كى دشمنى كى دليل و علامت يہ ہے كہ وہ تمہيں برائيوں كى ترغيب دلاتاہے_

۷_ لوگوں كو برائيوں كى طرف دعوت دينا شيطانى فعل ہے اور انسان كے دشمنوں كى آشنائي اور شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء اگر جملہ''انما يامركم'' اس جملہ ''انہ لكم عدو'' كے لئے استدلال ہو تو مذكورہ بالا مطلب اس سے نكلتاہے_

۸_ لوگوں كو بدعتوں كے ايجاد كرنے اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے پر آمادہ كرنا شيطانى كام ہے اور انسان كے دشمنوں كى شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۹_ شيطان انسانوں كو شرك اختيار كرنے پر ترغيب دلاتا ہے اور مشرك قائدين كے ساتھ دوستى اور ان كى اتباع پر تشويق دلاتاہے*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً انما يامركم بالسوء والفحشاء

ماقبل آيات كے قرينہ سے ''سوئ'' اور ''فحشائ'' كے مصاديق ميں سے شرك اختيار كرنا اور ہے_

۱۰_ بدكارياں كرنے والے اور فحشا و پليدياں اختيار كرنے والے شيطان كے پيروكار ہيں _لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم بالسوء و الفحشاء

۱۱_ حلال اور طيب نعمتوں سے پرہيز كرنا اور پليد و حرام

۵۷۶

غذائيں كھانا برُے اور ناپسنديدہ افعال ہيں _كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا انما يامركم بالسوء والفحشاء

۱۲_ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے والے شيطان كے پيروكار اور اس كے نمائندے ہيں _

لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

احكام : ۵

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كى شرائط ۴

اللہ تعالى پرجھوٹ باندھنے والے : ۱۲

انسان: انسان كے دشمن ۶

بدعت: بدعت كى تشويق ۸; بدعت كے عوامل ۲،۶

تحريف : تحريف كے عوامل ۲

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۲،۳،۸; جھوٹ باندھنے پر تشويق كرنا ۸

حرام خورى : حرام خورى كا ناپسنديدہ ہونا۱۱

خبائث اور پليدياں : خبائث اور پليديوں سے استفادہ كرنا ۱۱

دشمن شناسى : دشمن شناسى كے معيارات ۷،۸

دوستى : مشرك قائدين سے دوستى ۹

شرك : شرك كى تشويق كرنا ۹; شرك كے عوامل ۹

شيطان : شيطان كا گمراہ كرنا ۹; شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱،۲،۶; شيطان كے پيروكار ۱۰،۱۲; شيطان كى تشويقات ۱،۲،۹; شيطان كى دشمنى ۶; شيطان كے نمائدے ۱۲; شيطان كا اہم كردار ۱،۲،۹

طيبات: طيبات سے اجتناب ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل كى دعوت ۶،۷; شيطانى عمل ۷،۸; ناپسنديدہ عمل ۵،۱۱

۵۷۷

فتوى دينا : بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے ۵; فتوى دينے كى شرائط ۵

فحشاء : فحشاء كا ارتكاب كرنے والا ۱۰

گناہ : گناہ كى تشويق ۱; گناہ كے اسباب ۱

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينا ۳

محرمات :۵ محرمات كو حلال قرار دينا ۳

يقين: يقين كى اہميت ۴

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ ( ۱۷۰ )

جب ان سے كہا جاتا ہے كہ جو كچھخدا نے نازل كيا ہے اس كا اتباع كرو توكہتے ہيں كہ ہم اس كا اتباع كريں گے جسپر ہم نے اپنے باپ دادا كو پايا ہے _ كيايہ ايسا ہى كريں گے چاہے ان كے باپ دادابے عقل ہى رہے ہوں اور ہدايت يافتہ رہےہوں (۱۷۰)

۱ _ قرآن كريم اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام كى اتباع كرنا ضرورى ہے _اتبعوا ما انزل الله

۲ _ پيامبر اسلام (ص) تمام انسانوں كو قرآن كريم اور احكام الہى كى پيروى كى دعوت دينے والے ہيں _و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله

۳_قرآن كريم اور احكام اسلام كا الہى ہونا ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے _اتبعوا ما انزل الله

''ما انزل اللہ'' ميں ''ما'' سے مراد قرآن حكيم اور احكام دين ہيں ان كى پيروى كا حكم دينے كے بعد جو فرمايا كہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے ہيں يہ ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) نے مشركين كو احكام الہى كى پيروى كرنے كى دعوت دى تو انہوں نے كہا ہم اپنے اسلاف كے آداب و اطوار اور رسوم و رواج كى اتباع كريں گے _و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا ''الفينا'' كا مصدر'' الفائ'' اسكا معنى ہے پانا _

۵۷۸

۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى دعوت كو قبول نہ كرنا اور قرآن و دين كے احكام كى پيروى نہ كرنے كے عوامل ميں سے ايك اپنے اسلاف كے آداب و اطوار پر انحصار كرنا اور اسى پر باقى رہنے پر اصرار كرنا ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آبائنا

۶ _ نسلى اور قبائلى تعصبات ناپسنديدہ اور مكروہ چيز ہے جو حق كو قبول نہ كرنے كى زمين فراہم كرتے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۷_ نسلوں كى گمراہى يا ہدايت ميں اقوام كے آداب و اطوار اور رسوم اثر انداز ہوتى ہيں _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۸_ انسانوں كو قرآن كريم اور احكام دين سے روكنے كے لئے اندھى تقليد شيطانى حيلوں اور سازشوں ميں سے ہے _

لا تتبعوا خطوات الشيطان و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

'' بل نتبع ...'' سے مراد اندھى تقليد ہے ماقبل آيات كى روشنى ميں يہ '' خطوات الشيطان'' كا ايك مصداق ہے _اندھى تقليد كا مفہوم جملہ''و لو كان آباؤہم ...'' سے استفادہ ہوتاہے _

۹_ زمانہ بعثت كے لوگوں كا شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام قرار دينا اسكى بنياد ان كى اپنے اسلاف كى تقليد تھي_كلوا مما فى الأرض ...و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

آيت ۱۶۵ ، ۱۶۸ كى روشنى ميں ''ما الفينا عليہ آبائنا''كے مورد نظر مصاديق شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام جانناہے_

۱۰_ احمقوں اور ناقابل ہدايت لوگوں كى پيروى اور تقليد كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ عمل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون

۱۱_ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا عاقلانہ امر ہے _اتبعوا ما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون قرآن حكيم اور احكام الہى كى پيروى كو ضرورى قرار دينا اور پھر مشركين كى اپنے گمراہ و احمق اسلاف كى پيروى كرنے كى روش كو غير منطقى قرار دينا اور اس پر تنقيد كرنا يہ اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا ايك عاقلانہ معاملہ ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت كرنے والے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعواما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۳ _ قرآن كريم نے مخالفين كو منطق و ا ستدلال كے

۵۷۹

ساتھ مخاطب قرار ديا ہے_اولوكان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۴ _ عقل كى قدر و منزلت اور اسكى پيروى _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۵ _ عقل اور دين ہم جہت و ہم آہنگ ہيں _اتبعوا ما نانزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۶ _ انسانوں كى ہدايت قبول كرنے ميں عقل ايك سرمايہ ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۷_ شرك اختيار كرنا حماقت كى دليل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً

۱۸_ ہدايت يافتہ اور صاحب عقل انسانوں كى تقليد يا پيروى كرنا بے جا نہيں ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون يہ جملہ '' او لو كان ...'' بيان كررہاہے كہ فقط تقليد كرنے كو رد نہيں كيا جاسكتا بلكہ وہ تقليد قابل مذمت ہے جس ميں وہ شخص جسكى تقليد كى گئي ہے اہل فہم و خرد اور ہدايت يافتہ نہ ہو_

۱۹_ اسلاف كى تقليد كرنا جاہلانہ اور غير منطقى و تيرہ ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا او لو كان آباؤهم لا يعقلون

احكام : احكام كا وحى ہونا ۳

اسلاف: اسلاف كى پيروى كے نتائج۹; اسلاف كے آداب و رسوم كى پيروى كرنا ۴،۵

اسلام: اسلام كى پيروى كے دلائل ۳; اسلام كا وحى ہونا ۳

اطاعت: شيطان كى اطاعت ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات سے منہ موڑنا ۵; پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۲

تعصب: تعصب كے اثرات و نتائج ۶; نسلى تعصب ۶

قومى تعصب ۶; تعصب كا ناپسنديدہ ہونا ۶

تعقل: تعقل نہ ہونے كى علامتيں ۱۷

تقليد: اندھى تقليد كے نتائج ۸; احمقوں كى تقليد ۱۰; عقلاء كى تقليد ۱۸; گمراہوں كى تقليد ۱۰; ہدايت يافتہ

۵۸۰

لوگوں كى تقليد ۱۸; اسلاف كى تقليد ۱۹; پسنديدہ تقليد ۱۸;ناپسنديدہ تقليد ۱۰،۱۹

حق : حق قبول نہ كرنے كى زمين كا فراہم ہونا ۶

دين : دين كو پہنچنے والے نقصانات كى شناخت ۵،۷; دين كى پيروى كرنے كى اہميت ۱; دين كى پيروى كرنا ۲،۱۱; دين سے منہ موڑنے كے عوامل ۵; دين كى پيروى كرنے ميں موانع ۸; دين كا ہدايت كرنا ۱۲

راہ و روش (وتيرہ): جاہلانہ راہ و روش ۱۹

رسومات: معاشرتى رسومات كے نتائج ۷،۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۱۷; شرك كى زمين ہموار ہونا ۹

عقل: عقل كى قدر و قيمت ۱۴; عقل كى پيروى كرنے كى اہميت ۱۴; عقل كى اہميت و كردار ۱۶; عقل اور دين كى ہم آہنگى ۱۵

عمل: پسنديدہ عمل ۱۱; ناپسنديدہ عمل ۶،۱۰

قرآن كريم : قرآن كريم كى اتباع كرنے كى اہميت ۱; قرآن كريم كى اتباع۲،۱۱; قرآن كريم كى اتباع كے دلائل۳; قرآن كريم سے منہ موڑنے كے عوامل ۵; قرآن كريم اور مخالفين ۱۳; قرآن كريم كى اتباع ميں موانع ۸; قرآن كريم كا وحى ہونا ۳

گمراہى : گمراہى كى زمين تيار ہونا ۷

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينے پر اصرار ۹

مخالفين : مخالفين كے ساتھ منطقى برتاؤ۱۳; مخالفين كے ساتھ برتاؤ كى روش ۱۳

مشركين : صدر اسلام كے مشركين ۹; مشركين اور پيامبر اسلام(ص) كى دعوت ۴

ہدايت: ہدايت كى زمين آمادہ ہونا ۷; ہدايت كے عوامل ۱۲،۱۶;ہدايت كے موانع ۸

۵۸۱

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاء وَنِدَاء صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ ( ۱۷۱ )

جو لوگ كافر ہوگئے ہيں ان كےپكار نے والے كى مثال اس شخص كى ہے جوجانوروں كو آواز دے اور جانور پكار اورآواز كے علاوہ كچھ نہ بنيں اور نہ سمجھيں _ يہ كفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہيں _انھيں عقل سے سروكار نہيں ہے (۱۷۱)

۱ _ كفار كى مثال اس حيوان كى سى ہے جو سماعتوں كے ادراك سے عاجز و ناتوان ہے _و مثل الذين كفروا كمثل الذين ينعق بما لا يسمع ''ينعق'' كا مصدر ''نعق'' ہے اسكا معنى وہ آواز ہے جو چرواہا بكريوں ، بھيڑوں كو ہانكنے كے لئے نكالتاہے ''ما لا يسمع'' سے مراد بھيڑيں و غيرہ ہيں _مفسرين كے مطابق آيہ مجيدہ ميں ضدى اور ڈھيٹ كفار كو بھيڑوں سے اور معارف دينى كى دعوت دينے والوں كو چرواہے سے تعبير كيا گياہے _ بنابريں مشبہ كا ايك جزء ذكر نہيں ہوا_ پس تقدير كلام يوں ہے ''مثل الذين كفروا والذى يدعوهم الى الايمان كمثل الذى ''

۲ _ انبياء (عليہم السلام) كى دعوت سے كفا ر فقط چيخ و پكار اور شور و غوغا ہى سمجھتے ہيں _و مثل الذين كفروا كمثل الذين ينعق بما لا يسمع الا عاء و نداء مذكورہ مطلب كى روشنى ميں اس جملہ '' مثل الذين كفروا الا دعاء و ندائ'' كا معنى يوں بنتاہے ايمان كى دعوت دينے والوں كے حوالے سے كفار كى مثال بھيڑوں سى ہے اور دعوت دينے والے چرو ا ہے جسطرح بھيڑيں چرواہے كے امر و نہى يا ڈانٹ ڈپٹ سے فقط شور و غوغا سمجھتى ہيں اس طرح كفار بھى انبياءعليه‌السلام كى دعوت سے كسى حقيقت كو درك نہيں كرپاتے_

۳ _ قرآن كريم كے كافر حق سننے ، حق گوئي اور حق ديكھنے سے ناتوان و عاجز ہيں _و مثل الذين كفروا صم بكم عمي

'' صم ، بكم ، عمي'' كا بالترتيب معنى بہرہ ، گونگا اور اندھا ہے _ ايسا معلوم ہوتاہے كہ ماقبل آيت كى روشنى ميں '' كفروا'' كا متعلق'' ما انزل الله '' ہے يعنىمثل الذين كفروا بما انزل الله

۴ _ دينى حقائق كے ديكھنے ، سننے اور بيان كرنے كى كفار

۵۸۲

كى ناتوانى نے انہيں دينى معارف اور قرآنى حقائق كے ادراك سے محروم كرديا ہے _صم بكم عمى فهم لا يعقلون '' لا يعقلون'' كا مفعول '' ما انزل اللہ '' يعنى الہى معارف اور قرآنى حقائق ہيں _

۵ _ انسانى حواس ( سننا، ديكھنا اور ...) شناخت و معرفت كے وسائل ہيں _صم بكم عمى فهم لا يعقلون

۶ _ كفار نے چونكہ دينى معارف و حقائق كے بارے ميں سوال كرنا اور جستجو چھوڑادى ہے اس لئے ان كے ادراك سے بھى عاجزو ناتواں ہيں _بكم فهم لا يعقلون كفار كے بہرہ ہونے پر جملہ''فھم لا يعقلون'' كى تفريع ممكن ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ حقيقت كى شناخت و معرفت كے وسائل ميں ايك اس كے بارے ميں سوال، جستجو اور تحقيق ہے جبكہ كفار اس وسيلہ سے بھى محروم ہيں گويا حقيقت كى تلاش كے درپے نہيں ہيں _

۷_ حقيقت كے بارے ميں سوال اور جستجو اسكے درك كرنے كا ايك راستہ ہے_بكم فهم لا يعقلون

۸_ دينى معارف و حقائق كے ادراك اور قبوليت سے انسان كے ادراك كى قوتوں كى قدر و منزلت كا تعين ہوتاہے_

صم بكم عمى فهم لا يعقلون كفار باوجود اس كے كہ سننے اور كى صلاحيت ركھتے ہيں انہيں بہرہ، گونگا اور اندھا قرار دينا ہوسكتاہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہوكہ انسانى ادراك كى قوتيں اگر دينى معارف كو سمجھنے كا وسيلہ قرار نہ پا ئيں تو گويا در حقيقت ان كا ہونا نہ ہونے كے برابر ہے اور بالكل قيمت نہيں ركھتا_

۹_ مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _

''مثل الذين كفروا فى دعائك اياهم اى مثل الداعى لهم الى الايمان كمثل الناعق فى دعائه المنعوق به من البهائم التى لا تفهم و انما تسمع الصوت فكما ان الانعام لا يحصل لها من دعاء الراعى الا السماع دون تفهم المعنى فكذلك الكفار لا يحصل لهم من دعائك اياهم الى الايمان الا السماع دون تفهم المعني'' (۱)

اے رسول (ص) ان كفار كو دعوت دينے ميں تيرى مثال چرواہے كى سى ہے جو بھيڑوں كو بلاتاہے اور وہ نہيں سمجھتيں كہ چرواہا كيا كہہ رہاہے وہ فقط شور و غوغا سنتى ہيں _ پس جسطرح بھيڑيں چرواہے كى فقط آواز سنتى ہے اور كوئي معنى درك نہيں كرتيں اس طرح كفار بھى تيرى ايمان كى دعوت كو فقط ايك آواز سنتے ہيں اور معنى درك نہيں كرتے''_

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۶۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵ ح ۴۹۵_

۵۸۳

ادراك: نسانى ادراك كى قوتوں كى قدر و قيمت ۸

اقدار: اقدار كے معيارات۸

انسان: انسانى بينائي ۵ ;انسانى حواس ۵; انسانى سماعت ۵

تشبيہات: حيوان سے تشبيہ ۱; بھيڑ سے تشبيہ ۹;

تعقل: تعقل نہ كرنے كے نتائج۶;

حقائق : حقائق سمجھنے كى روش ۷;

دين: دين شناسى كى اہميت ۸; دين كى قبوليت ۸; فہم دين سے محروم افراد ۶

روايت: ۹

سوال: سوال كے نتائج ۷

شناخت: شناخت كا وسيلہ ۵

قرآن حكيم: قرآنى مثاليں ۱

كفار: كفار كى تشبيہ ۱; كفار كا عاجز ہونا ۳،۴،۶; كفار اور حق ديكھنا ۳; كفار اور حق كى سماعت ۳; كفار اور حق گوئي ۳; كفار او رانبياءعليه‌السلام كى دعوت ۲; كفار اور پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۹; كفار اور دين فہمى ۴،۶; كفار كا بہرہ پن ۴; كفار كا اندھا پن ۱،۲،۴; كفار كا گونگا پن ۴; كفار كى نافہمى ۹;كفار كى خصوصيات ۱،۲، ۳ ،۴ ،۶

كفر: قرآن كا كفر ۳

مثاليں : حيوان كى مثال ۱

نفسيات: تربيتى نفسيات۷

۵۸۴

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ( ۱۷۲ )

صاحبان ايمان جو ہم نے پاكيزہ رزق عطاكيا ہے اسے كھاؤ اور دينے والے خدا كاشكريہ ادا كرو اگر تم اس كى عبادت كرتےہو (۱۷۲)

۱ _ حلال غذاؤں سے استفادہ كرنا اور ان كو كھانا جائز ہے_كلوا من طيبات ما رزقناكم

۲ _پاكيزہ نعمتوں اور غذاؤں كو مسلمانوں كو حرام قرار نہيں دينا چاہيئے اور نہ ہى ان كے فوائد سے خود كو محروم كريں _

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم

۳ _ انسانوں كو الہى نعمتيں اور غذائيں عطا كرنے كا اصلى مقصد يہ ہے كہ مومنين ان نعمتوں سے استفادہ كريں _*

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم نعمتوں سے استفادہ ''كلوا من طيبات ما رزقناكم'' كے لئے قرآن كريم نے اہل ايمان كو نصيحت كرتے ہوئے صراحت فرمائي ہے كہ اللہ تعالى نے ان نعمتوں كو ان كے لئے رزق و روزى قرار ديا ہے جبكہ آيہ مجيدہ ۱۶۸'' كلوا مما في الأرض'' ميں يہ نہيں فرمايا كہ ہم نے زمين كے تمام وسائل اور رزق و روزى تمام نسانوں كے لئے قرار ديئے ہيں _ ان دو مختلف تعبيرات كے تقابل سے مندرجہ بالا مطلب اخذ كيا گيا ہے_

۴ _ غذاؤں ميں بنياد اور اصل قانون ان كا پاك اور حلال ہونا ہے _كلوا من طيبات ما رزقناكم

۵_ خبيث غذاؤں ( ناپاك اور جو انسانى طبيعت كے ناموافق ہوں ) سے استفادہ كرنا حرام ہے_ كلوا من طيبات ما رزقناكم

۶ _ غذاؤں ميں حفظان صحت كے اصولوں كى طرف اسلام كى توجہ ہے_كلوا من طيبات ما رزقناكم

۷_ اللہ تعالى ہے جو اپنے بندوں كو رزق و روزى دينے والا ہے _رزقناكم

۸_ بارگاہ اقدس رب العالمين ميں سپاس گزارى اور

۵۸۵

اسكى نعمتوں كا شكر ادا كرنا ضرور ى ہے _و اشكروا الله

۹_ غذا تناول كرنے اور اللہ تعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنے كے بعد پروردگار كى بارگاہ ميں شكرگزار ہونا لازمى ہے _

كلوا من طيبات ما رزقناكم و اشكروالله

۱۰_اللہ تعالى كى بندگى اور عبادت و اطاعت ميں توحيد كا لازمہ يہ ہے كہ اسكے حلال كو حلال اور خدا تعالى كے حرام كو حرام سمجھا جائے_كلوا من طيبات ما رزقناكم ان كنتم اياه تعبدون

يہ دو جملے''كلوا'' اور '' واشكروا'' ہوسكتاہے جواب شرط ''ان كنتم'' كى حكايت كرتے ہوں _ مندرجہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ پہلا جملہ جواب شرط كے طور پر ہو_ ان دو فرامين ''كلوا''،''واشكروا'' كى شرط چونكہ عبادت ہے پس اس ميں اطاعت كا مفہوم بھى موجود ہے _ '' اياہ'' كا ''تعبدون'' پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس اس سے عبادت و اطاعت ميں توحيد كا مفہوم نكلتاہے يعنى فقط تيرى ہى عبادت و اطاعت كرتے ہيں _

۱۱ _ بارگاہ رب العزت ميں سپاس گزار ہونا اسكى بندگى اور عبادت و اطاعت ميں توحيد كى علامت و دليل ہے _

واشكروا لله ان كنتم اياه تعبدون

۱۲ _ صدر اسلام كے بعض مسلمان بعض طيبات كو حرام خيال كرتے تھے اور ان كو كھانے سے اجتناب كرتے _*

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ان كنتم اياه تعبدونطيبات كے مباح ہونے پر اللہ تعالى كا تاكيد فرمانا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ بعض مسلمان بعض طيبات كے استعمال سے اجتناب كرتے تھے_ بعد والى آيہ مجيدہ '' انما حرّم ...'' بيان كرتى ہے كہ ان كے اجتناب كى وجہ ان كا يہ عقيدہ تھاكہ بعض طيبات حرام ہيں _

۱۳ _ اپنے اوپر طيبات اور اللہ تعالى كى نعمتوں كو حرام قرار دے كر زہد اختيار كرنا نادرست اور بے جا عمل ہے_

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ان كنتم اياه تعبدون

احكام: ۱،۲،۴،۵

اصالة الحلية۴

اطاعت: اطاعت الہى ۱۰; اطاعت الہى كى علامتيں ۱۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رزاقيت ۷; اللہ تعالى كى عنايات۳

انسان: انسانوں كا رزق ۷

۵۸۶

توحيد: عبادتى توحيد كے نتائج۱۰; توحيد عبادتى كى علامتيں ۱۱

خبائث: خبائث سے استفادہ ۵

دين : دين پر قائم رہنے كے عوامل ۱۰

رزق : رزق سے استفادہ ۱،۳; پاكيزہ رزق ۱; رزق كا سرچشمہ ۷

زہد: ناپسنديدہ زہد ۱۳

شكر: اللہ تعالى كے شكر كے نتائج ۱۱; شكر الہى كى اہميت ۸،۹;نعمت كاشكر ۸

طيبات: طيبات سے استفادہ ۲; طيبات كو حرام قرار دينا ۱۲،۱۳

عبوديت: عبوديت كے نتائج۱۰; عبوديت كى علامتيں ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۳

غذائيں : غذاؤں كے احكام ۴،۵; خبيث غذائيں ۵

غذا تناول كرنا : غذا تناول كرنے كے آداب ۹; غذا ميں حفظان صحت كے اصولوں كى اہميت ۶

مباحات:۱ مباحات كو حرام قرار دينا ۲

محرمات:

۵۸۷

مسلمان : مسلمانوں كى ذمہ دارى ۲; صدر اسلام كے مسلمان ۱۲

مومنين: مومنين كے درجات ۳

نعمت: نعمت سے استفادہ ۲،۹; نعمت كى خلقت كا فلسفہ ۳

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( ۱۷۳ )

اس نے تمھارے اوپر بس مردار ،خون ، سور كا گوشت اور جو غير خدا كے نامپر ذبح كيا جائے اس كو حرام قرارديا ہےپھر بھى اگر كوئي مضطر ہوجائے اور حرامكا طلب گار اور ضرورت سے زيادہ استعمالكرنے والا نہ ہو تو اس كے لئے كوئي گناہنہيں ہے _ بيشك خدا بخشنے والا اورمہربان ہے (۱۷۲)

۱ _ مردار، خون، سور كا گوشت اور ايسے جانور كا گوشت كھانا حرام ہے جس پر غير خدا كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو_

انما حرم عليكم المية والدم ولحم الخنزير و ما اهل به لغير الله

''اہل'' كا مصدر''اہلال'' ہے اسكا معنى ہے آواز اونچى كرنا اور آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد (جيسا كہ مفسرين نے بيان كيا ہے ) نام لينا ہے_ لغير اللہ ميں لام متعدى كرنے كے لئے آيا ہے _ بنابريں ''ما اہل بہ لغير اللہ '' يعنى وہ جانور جس پر ( ذبح كرتے ہوئے ) غير خدا كا نام ليا گيا ہو_

۲ _ اضطراب و اضطرار كے وقت مردار ، خون ، خنزير كا گوشت اور اس ذبح شدہ جانور كو كھانا جائز ہے جس پر غير خدا كا نام ليا گيا ہو_فمن اضطر فلا اثم عليه

۳ _ مردار، خون ، خنزير كا گوشت، وہ جانور جوبت كے لئے ذبح كيا گيا ہو اور وہ جانور جو غير خدا كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو اسكا گوشت، يہ سب خبيث اور نجس غذاؤں ميں سے ہے_كلوا من طيبات انما حرم عليكم الميتة و ما اهل به لغير الله

۴ _مشركين بعض جانوروں كو بتوں كے لئے اور ان كے نام پر قربانى كرتے تھے_و ما اهل به لغير الله

فعل ماضى ''اہل'' اس امر كى حكايت كررہاہے كہ جانور غير خدا كانام لے كر ذبح كيئے جاتے اور بتوں كے لئے اور بتوں كے نام پر ذبح ہوتے تھے_ يہ چيز زمانہ جاہليت ميں رائج تھي_

۵ _ شرك و بت پرستى كے مظاہر سے اسلام نے نبرد آزمائي كى _انما حرم ما اهل به لغير الله

۵۸۸

۶ _ اضطرار و اضطراب كى حالت ميں محرمات كے ارتكاب سے گناہ و معصيت نہيں ہوتى _فمن اضطر فلا اثم عليه

۷_ جو لوگ ستم گرى اور تجاوز كرتے ہوئے محرمات كے ارتكاب كے لئے مضطر ہوں تو ان پر مضطر كا حكم نہيں آتا ( يعنى محرمات سے استفادہ جائز ہے)_فمن اضطر غير باغ و لا عادت فلا اثم عليه '' غيرباغ و لا عاد'' اس صورت ميں كہ نہ تو ستم گر ہو اورنہ تجاوز كرنيوالا'' يہ ''اضطر'' كے نائب فاعل كے لئے حال ہے _ پس يہ حكم '' فلا اثم عليہ'' ايسے مضطر شخص كو بيان كرتاہے جو ستم و تجاوز كى وجہ سے مضطر نہ ہوا ہو_

۸_ وہ لوگ جو ستم گرى اور تجاوز كرتے ہوئے محرمات كا ارتكاب كريں اگر چہ اضطرار كى بناپر محرمات انجام ديں پھر بھى گناہگار ہيں _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۹_ اللہ تعالى غفور ( بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے_ان الله غفور رحيم

۱۰_ محرمات كے حرام ہونے كا معيار باقى رہتاہے اگرچہ ان كے ارتكاب كے لئے انسان مضطر ہوجائے_

فمن اضطر فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

اضطرار كى حالت ميں محرمات كے ارتكاب كا بيان كرنا اور اس كے بعد اللہ كى صفت ''غفور'' بيان كرنا گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ محرمات كى حرمت كا معيار حتى حالت اضطرار ميں بھى باقى رہتاہے (الميزان)

۱۱ _ حالت اضطرار ميں محرمات كے ارتكاب كو جائز قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كى بناپر ہے_

فمن اضطر ...فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۲ _ جو لوگ حالت اضطرار ميں محرمات كا ارتكاب كرتے ہيں ان كو گناہگار شمار نہ كرنا اللہ تعالى كى مغفرت كا ايك پرتو ہے _فمن اضطر ...فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۳ _ جو لوگ محرمات كے ارتكاب پر مضطر ہوئے ہيں انہيں ضرورت كى حد سے آگے نہيں بڑھنا چاہيئے*_

فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''غير باغ و لا عاد'' كا متعلق اسطرح كا كلمہ ہو ( فى اكل الميتة) پس اس جملہ '' فمن اضطر ...'' كا معنى يہ ہوگا جو شخص مردار كھانے اور ميں اضطرار كى كيفيت پيدا كرے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس استفادے ميں ستم اور تجاوز نہ ہو تو ايسے شخص پر كوئي گناہ نہيں ہے _

۱۴ _ دينى احكام و قوانين ميں جھكاؤ يا ملائمت اور ہنگامى ضرورتوں كو ان قوانين كے بنانے (تشريع) ميں لحاظ كيا گيا ہے _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۵۸۹

۱۵ _ دينى احكام اور تكاليف كا انعطاف پذير ہونا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك پرتو ہے _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۶_قانون سازوں كو چاہئے كہ قانون بناتے ہوئے ہنگامى ضروريات كو مدنظر ركھيں اور انكے لئے خصوصى احكام وضع كريں _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۱۷_ جو لوگ جان بوجھ كر خود كو اضطرارى حالات ميں مبتلا كريں تو ان پر مضطر كا حكم نہيں لگايا جاسكتا_فمن اضطر فلا اثم علي ہ فعل ''اضطر'' كو مجہول لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _

۱۸_ احكام كى تشريع ( قانون سازي)مختلف امور يا اشياء كو حلال قرار دينا اور بعض وسائل كے استعمال يا استفادہ كو حرام قرار دينا اللہ تعالى كے اختيار ميں ہے _كلوا من طيبات انما حرم عليكم الميتة والدم فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۱۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' قال الباغى الذى يخرج على الامام والعادى الذى يقطع الطريق لا يحل لهما الميتة (۱) اللہ تعالى كے اس كلام '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' كے بارے ميں اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے باغى سے مراد وہ شخص جو امام (حق ) كے خلاف قيام كرنے اور متجاوز (العادي) وہ ہے جو ڈاكہ ڈالے( پس اضطرار كى حالت ميں بھي) اس پر مردار كھانا جائز نہيں ہے_

۲۰_عبدالعظيم بن عبدالله الحسنى عن ابى جعفر عليه‌السلام محمد بن على الرضا عليه‌السلام قال سالته يابن رسول الله ما معنى قوله عزوجل '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه '' قال العادى السارق والباغى يبغى الصيدبطراً او لهواً لا ليعود به على عياله'' (۲) عبدالعظيم حسنى كہتے ہيں امام تقى الجوادعليه‌السلام سے ميں نے ''باغي'' اور ''عادي'' كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا عادى يعنى چورا اور باغى وہ شخص ہے جو سيرو تفريح كے لئے شكار پر جاتاہے نہ كہ اپنے اہل و عيال كے فائدہ كے لئے_

۲۱ _ محمد بن اسماعيل رفع الى ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله ''فمن اضطر غير باغ ولا عاد'' قال الباغى الظالم والعادى الغاصب اللہ تعالى كے اس كلام ''فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' كے بارے ميں امام صادق عليه‌السلام سے روايت ہے ''باغي'' سے

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۲۱۳ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۵۰۳_ ۲ )من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۳ ص ۲۱۷ ح ۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۴ ح ۵۰۱_

۵۹۰

مراد ظالم اور ''عادي'' سے مراد غاصب ہے _ (۱)

۲۲ _ محمد بن مسلم كہتے ہيں ''سألت اباعبدالله عليه‌السلام عن الرجل والمرأة يذهب بصره فياتيه الاطباء فيقولون نداويك شهراً او اربعين ليلة مستلقياً كذلك يصلي؟ فرخص فى ذلك و قال فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ''(۲) امام صادقعليه‌السلام سے ايسى عورت يا مرد كے بارے ميں ميں نے سوال كيا جس كى بينائي ضائع ہوچكى ہو _ طبيبوں نے اسے كہا ہے كہ تيرا ايك ماہ يا چاليس روز علاج كرتے ہيں البتہ شرط يہ ہے كہ چاليس دن چت ليٹو_ كيا وہ فرد پيٹھ كے بل ليٹےہوئے نماز پڑھ سكتاہے؟ تو امامعليه‌السلام نے اجازت دى كہ وہ ايسے كرسكتاہے اور فرمايا''فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ''_

۲۳ _محمد بن عذافر عن بعض رجاله عن ابى جعفر عليه‌السلام قال قلت له لم حرم الله عزوجل الخمر والميتة و الدم و لحم الخنزير؟ فقال ان الله تبارك و تعالى خلق الخلق ...و علم ما يضرهم فنهاهم عنه و حرمه عليهم ثم احله للمضطر فى الوقت الذى لا يقوم بدنه الا به فامره ان ينال منه بقدر البلغة لا غير ذلك ... (۳) محمد بن عزافر نے بعض افراد سے انہوں نے امام باقرعليه‌السلام سے سوال كيا كہ اللہ تعالى نے شراب ، مردار، خون اور سور كے گوشت كو حرام كيوں قرار ديا ہے ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا اللہ تعالى نے مخلوقات كو خلق فرمايا ... اور وہ جانتا تھا كہ كون سى چيز (انسانوں كے لئے) نقصان دہ ہے پس اس سے منع فرمايا اور اس چيز كو حرام قرار ديا اور پھر اس چيزكو مضطر كے لئے ايسى صورت ميں حلال قرار ديا كہ اسكا بدن صرف اسى سے قائم رہ سكتاہو پس اتنى مقدار ميں اس چيز كو حلال قرار ديا كہ جس سے اسكى ضرورت پورى ہوتى ہو نہ اس سے زيادہ

۲۴ _ امام صادق عليه‌السلام سے روايت ہے'' عشرة اشياء من الميتة ذكية العظم والشعر والصوف والريش والقرن والحافر والبيض و الانفخة واللبن والسن (۴) مردار كى دس چيز يں پاك اور قابل استفادہ ہيں ہڈي، بال، اون، پر ، سينگھ، ّسم، انڈا، مايہ پنير (مردہ بھيڑ، بكري) كے وجود ميں ايك خاص مواد ہوتاہے جو پنير بنانے كے كام آتاہے) دودھ اور دانت_

۲ _ محمد بن سنان كے فلسفہ احكام كے بيان كے بارے ميں سوالات كے جوابات ميں امام رضاعليه‌السلام تحرير فرماتے ہيں

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ص ۷۴ ح۱۵۱ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۷۴ ح ۳_ ۲) كافى ج/ ۳ ص ۴۱۰ ح۴ نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۵۴ ح ۵۰۰_

۳) علل الشرائع ص ۴۸۳ ح ۲، نورالثقلين ج/۱ص ۱۵۳ ح ۴۹۷_ ۴) خصال شيخ صدوق ج/۲ص۴۳۴ ح ۱۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۴ ح ۴۹۸_

۵۹۱

و حرم ما اهل لغير الله به و لئلا يسوى بين ما تقرب به اليه و بين ما جعل عبادة للشياطين و الاوثان لان فى تسمية الله عزوجل الاقرار بربوبيته و توحيده و ما فى الاهلال لغير الله من الشرك به والتقرب به الى غيره (۱) ايسا ذبيحہ جس كے ذبح كے وقت غير خدا كا نام ليا گيا ہو اللہ تعالى نے حرام قرار ديا ہے تا كہ جو چيز خدا تعالى كے تقرب كا باعث بنتى ہے اس ميں اور جو چيز شياطين اور بتوں كى عبادت كا ذريعہ بنتى ہے برابر نہ ہو اس ليئے كہ قربانى كرتے ہوئے اللہ تعالى كا نام لينا در اصل اسكى ربوبيت اور توحيد كا اقرار ہے اور غير خدا كا نام لينا شرك اور اللہ تعالى كے غير كا تقرب حاصل كرنا ہے _

احكام : ۱،۲،۷،۱۰،۱۳،۲۲،۲۴) احكام ثانوى ۲; احكام كا انعطاف پذير ہونا۱۴،۱۵; اضطرارى احكام كى تشريع ۱۶; احكام ثانوى كى تشريع ۱۶; احكام كا توقيفى ہونا ۱۸; فلسفہ احكام ۲۳،۲۵; اضطرارى احكام كا سرچشمہ ۱۱،۲۲،۲۳; احكام كى تشريع كا سرچشمہ ۱۸ اسماء اور صفات: رحيم ۹; غفور ۹

اضطرار: حالت اضطرار كے احكام ۲،۷،۱۰،۱۳،۱۷ ،۲۲، ۲۳; اضطرارى حالت ميں محرمات سے استفادہ ۲،۶،۷،۸،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳; باغى كا اضطرار ۷، ۸; متجاوز كا اضطرار ۷،۸; اضطرار كو پيدا كرنے كا حكم ۱۷; حالت اضطرار كى شرائط ۱۷; حالت اضطرار ميں باغى سے مراد كون ہے ۱۹،۲۰،۲۱; حالت اضطرار ميں عادى سے مراد كون ہے ۱۹،۲۰،۲۱; حالت اضطرار ميں حرمت كا معيار ۱۰

اقرار: اللہ تعالى كى ربوبيت كا اقرار ۲۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش كے مظاہر ۱۲; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۱۱،۱۵

بت : بتوں كے لئے قربانى خبائث ميں سے ہے ۳; بتوں كے لئے قرباني۴

بت پرستى : بت پرستى سے نبرد آزمائي۵

بيمار: بيمار كے احكام ۲۲

خنزير: خنزير كے گوشت كى حرمت ۱; خنزير كا گوشت خبائث ميں سے ہے ۳; خنزير كا گوشت كھانا ۲; خنزير كے گوشت كے حرام ہونے كا فلسفہ۲۳

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۲ ص ۹۳ ح ۱ باب ۳۳ ، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۳ ح ۴۹۶_

۵۹۲

خون: خون پينے يا استعمال كرنے كى حرمت ۱; خون خبائث ميں سے ہے ۳; خون كا استعمال كرنا ۲; خون حرام ہونے كا فلسفہ ۲۳

دين : دين اور تقاضے ۱۴

ذبح : ذبح كرتے ہوئے بسملہ كہنا ۲۵

ذبيحہ( ذبح شدہ جانور): بغير بسملہكے ذبيحہ كا حرام ہونا ۱; بغير بسملہ كے ذبيحہ كا خبائث ميں سے ہونا ۳; ذبيحہ كا بغير بسملہ كے ہونا ۲،۲۵; حرام ذبيحہ كى حرمت كا فلسفہ ۲۵;

روايت:۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

شراب: شراب كى حرمت كا فلسفہ ۲۳

شرك: شرك سے نبرد آزمائي ۵

شكار: تفريحى شكار ۲۰

غذائيں : غذاؤں كے احكام ۱،۲; خبيث خوراكيں ۳

قائدين : قائدين حق كے خلاف قيام ۱۹

قانون: دينى قوانين كى خصوصيات۱۴

قانون سازى : قانونسازى كى شرائط ۱۴،۱۶; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۸

گناہگار افراد: ۸

محرمات : ۱ محرمات ارتكاب كا گناہ ۸; بے گناہ شخص كے محرمات ۶

مردار: مردار كے پاك اجزاء ۲۴; مردار كے احكام ۲۴; مردار كے كھانے كى حرمت ۱; مردار كا خبيث ہونا ۳; مردار كھانا ۲; مردار كے حرام ہونے كا فلسفہ ۲۳

مشركين : مشركين كى قربانى ۴

۵۹۳

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۷۴ )

جو لوگ خدا كى نازل كيہوئي كتاب كے احكام كو چھپاتے ہيں اوراسے تھوڑى قيمت پربيچ ڈالتے ہيں وہ درحقيقت اپنے پيٹ ميں صرف آگ بھررہے ہيں اور خدا قيامت ان سے بات بھى نہ كرے گااور نہ انھيں پاكيزہ قراردے گا اور ان كےلئے دردناك عذاب ہے (۱۷۴)

۱ _ ان احكام و معارف كو چھپانا جن كو اللہ تعالى نے نازل اور آسمانى كتابوں ميں بيان اور ضبط فرماياہے گناہ كبيرہ ميں سےہے _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب لهم عذاب اليم

۲ _ جن لوگوں نے آسمانى كتابوں كے احكام و معارف پر پردہ اس ليئے ڈالا كہ اسطرح وہ دنيا كى متاع حاصل كريں گے تو قيامت كے روز يہ لوگ دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _ان الذين يكتمون ما انزل الله ...لهم عذاب اليم

۳ _ دين فروشى اور اسكے مقابل متاع دنيا كسب كرنا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _و يشترون به ثمنا قليلا اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار

۴_ دين فروشى اور آسمانى كتابوں كے احكام و معارف كو چھپانے سے حاصل ہونے والے فوائد سے استفادہ كرنا در حقيقت آگ كھانا اور شكم كو اس سے بھرنا ہے _به ثمناً قليلا اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار

۵ _ اشياء كے ظاہرى چہرے اور حقيقت كے علاوہ بھى ايك حقيقت بھى ركھتى ہيں _اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار اس جملہ ''اولئك ما ياكلون فى بطونهم

۵۹۴

لا النار'' ميں بيان شدہ آگ ظاہر يہ ہے كہ يہ اس متاع كا دوسرا چہرہ ہے جو دين فروشى كے ذريعہ حاصل ہوا ہے _

۶ _ دين فروشى اور دينى حقائق پر پردہ ڈالنے كے عوامل ميں سے ايك متاع دنيا كا حصول ہے _و يشترون به ثمنا قليلاً

۷_ علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے آگاہ انسانوں كى ذمہ دارى ہے كہ الہى احكام و معارف كو بيان كريں _

ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب

۸_ دينى علماء كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ آسمانى كتابوں كے حقائق اور احكام الہى پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں ملوث اور آلودہ ہوجائيں _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب

۹_ علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے آگاہ لوگوں كے لئے دنيا كى طرف لپكنا بہت بڑا خطرہ ہے _

ان الذين يكتمون ما انزل اللہ من الكتاب و يشترون بہ ثمنا قليلاً اولئك لہم عذاب اليم

۱۰_ علمائے اہل كتاب تورات و انجيل كے بعض احكام (بعض غذاؤں كا حلال ہونا اور بعض كا حرام ہونا ) كو چھپاتے تھے _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب'' الذين يكتمون ...'' كا مصداق مفسدين كے نزديك يہود و نصارى كے علماء ہيں _

۱۱ _ دين فروشى كے مقابل متاع دنيا كا حصول انتہائي كم قيمت ہے _و يشترون به ثمناً قليلا

''قليلاً'' توضيحى صفت ہے اور يہ اس امر كى حكايت كررہى ہے كہ دين فروشى كے مقابل جو قيمت بھى طے پاجائے بہت ہى كم ہے _

۱۲ _ تمام تر دنياوى فوائد اور منافع سے زيادہ قابل قدر اور باعظمت آسمانى كتابوں كے معارف و حقائق ہيں _

و يشترون به ثمنا قليلا

۱۳ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا لطف و عنايت دينى احكام و معارف پر پردہ ڈالنے والوں كے شامل حال نہيں ہوگا اور اللہ تعالى ان سے كلام نہيں فرمائے گا _ان الذين يكتمون ما انزل الله ...لا يكلمهم الله يوم القيامة جملہ ''و لا يكلمھم اللہ'' غضب الہى اور لطف و عنايت سے اجتناب كے لئےكنايہ ہے _

۱۴ _ آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردہ ڈالنے والوں كو اللہ تعالى گناہوں اور آلودگيوں سے پاك نہيں فرمائے گا_

ان الذين يكتمون ما انزل الله لا يزكيهم

۱۵ _ گناہگار قيامت كے دن آتش جہنم كے علاوہ روحى

۵۹۵

اور نفسياتى عذابوں ميں بھى مبتلا ہوں گے _و لا يكلمهم الله يوم القيامة

۱۶ _ اللہ تعالى كے لطف و كرم كے شامل حال ہو نے اور گناہوں ، آلودگيوں سے پاك ہونے كى صورت ميں قيامت كے دردناك عذاب سے نجات مل سكتى ہے _و لا يكلمهم الله يوم القيامة و لا يزكيهم و لهم عذاب اليم

۷ ۱_ آسمانى كتابوں كے حقائق و معارف كو بيان كرنے والوں اور دين دار، ذمہ دار علماء كو قيامت كے دن اللہ تعالى اپنے الطاف سے نوازے گا اور ان كے ساتھ كلام فرمائے گا _ان الذين يكتمون لا يكلمهم الله يہ مفہوم اس جملہ '' ان الذين لا يكلمھم اللہ '' سے ماخود ہے _

۱۸_ دين دار اور ذمہ دار علماء تزكيہ الہى كى نعمت سے بہرہ مند ہوں گے اور قيامت كے دن اللہ تعالى ان سے ہم كلام ہوگا_ان الذين يكتمون ما انزل الله لا يكلمهم الله يوم القيامة و لا يزكيهم

۱۹_ آمدنى كو ناجائز راستوں سے كمانا حرام اور اللہ تعالى كے عذاب كا باعث ہے _و يشترون به ثمناً قليلاً اولئك لا يكلمهم الله و لهم عذاب اليم

آسمانى كتاب: آسمانى كتابوں كى تعليمات كى قدر و منزلت ۱۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنا ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كى سزا ۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كا گناہ ۱،۸; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والوں كا گناہ ۱۴

احكام:

اللہ تعالى : لطف الہى كے نتائج ۱۶; قيامت ميں اللہ تعالى كا ہم كلام ہونا ۱۳ ،۱۷،۱۸; اللہ تعالى كے عذاب ۱۹

انجيل : انجيل كے بعض حصوں پر پردہ ڈالنا ۱۰

اہل جہنم : ۱۵

تورات: تورات كے بعض حصوں پر پردہ ڈالنا ۱۰

حق : حق بيان كرنے والے قيامت ميں ۱۷; حق بيان كرنے والوں كے فضائل ۱۷; حق چھپانے كا گناہ ۸; حق چھپانے والوں كا گناہ ۱۴

۵۹۶

دنيا طلبي: دنيا طلبى كے نتائج ۶; دنيا طلبى كا خطرہ ۹

دين: دينى تبليغ ۷; دين پر پردہ ڈالنے والوں كى دنيا طلبى ۲; دين پر پردہ ڈالنے والوں كو عذاب ۲; دين كو چھپانے كے اسباب ۶; دين پر پردہ ڈالنے كى سزا ۲; دين پر پر دہ ڈالنے كا گناہ ۱،۸; دين پر پردہ ڈالنے والوں كا آخرت ميں محروم ہونا ۱۳

دين فروش لوگ: دين فروشوں كا آگ كھانا ۴

دين فروشى : دين فروشى كى قيمت ۱۱; دين فروشى كے فوائد سے استفادہ ۴; دين فروشى كے عوامل ۶; دين فروشى كا گنا ہ ۳

سزا : سزا كے موجبات ۲

عذاب: اہل عذاب ۲،۱۵; دردناك عذاب ۲،۱۶; عذاب سے نجات كے اسباب ۱۶; عذاب كے درجات ۲،۱۶; عذاب كے موجبات ۱۹

علماء : علمائے دين كى تبليغ ۷; دين دار علماء كا تزكيہ ۱۸; علمائے دين كى دنياطلبى ۹ دين دار علماء قيامت ميں ۱۷،۱۸; دين دار علماء كے فضائل ۱۷،۱۸; علمائے دين كى ذمہ دارى ۷; علمائے دين كو تنبيہ ۸،۹

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور انجيل ۱۰; علمائے اہل كتاب اور تورات ۱۰; علمائے اہل كتاب اور حقائق پر پردہ ڈالنا۱۰

كمائي ( آمدني): كمائي كے احكام ۱۹; ناجائز كمائي كا حرام ہونا ۱۹; ناجائز كمائي كى سزا ۱۹

گناہ : گناہ سے پاك ہونے كے نتائج ۱۶; گناہوں سے پاك ہونا ۱۴; گناہان كبيرہ ۱،۳

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب ۱۵; گناہگاروں كو نفسياتى اور روحى عذاب ۱۵; گناہگار جہنم ميں ۱۵

لطف الہى : لطف الہى سے محروم لوگ ۱۳; وہ لوگ لطف الہى جن كے شامل حال ہے ۱۷

محرمات : ۱۹

موجودات: موجودات كى حقيقت ۵; موجودات كا ظاہر ۵

۵۹۷

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ( ۱۷۵ )

يہى وہ لوگ ہيں جہنوں نے گمراہى كو ہدايت كے عوض اورعذاب كو مغفرت كے عوض خريد كيا ہے آخريہآتش جہنم پر كس قدر صبر كريں گے (۱۷۵)

۱ _ دين فروش اور آسمانى كتابوں كے احكام و معارف كو چھپانے والے ضلالت و گمراہى كا شكار اور ہدايت سے دور لوگ ہيں _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى

۲ _ دين فروش اور آسمانى كتابوں كے حقائق كو چھپانے والے اللہ تعالى كى مغفرت سے محروم اور آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے _اولئك الذين اشتروا العذاب بالمغفرة

۳ _ آتش جہنم طاقت فرسا اور ناقابل برداشت ہے _فما اصبرهم على النار

۴ _ آتش جہنم كو برداشت كرنے كا گمان اور اسكے مقابل لاپرواہ ہونا بہت ہى عجيب اور نامعقول امر ہے _فما اصبرهم على النار

۵ _ علمائے اہل كتاب آسمانى كتابوں كے حقائق چھپانے كى وجہ سے گمراہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے لئے عذاب الہى كمايا _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة

۶ _ بے دين اور غير ذمہ دار علماء اللہ تعالى كى مغفرت سے محروم ہوں گے اور آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے_

اولئك الذين اشتروا العذاب بالمغفرة فما اصبرهم على النار

۷_ آسمانى كتابيں اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت بخش اور مغفرت الہى كو جذب كرنے والے ہيں _ان الذين يكتمون اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة

۸_ آسمانى كتابوں كے حقائق كو بيان كرنا ہدايت كے

۵۹۸

حصول اور مغفرت الہى كا موجب ہے _ان الذين يكتمون اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة مذكورہ مطلب آيت كے مفہوم سے ماخوذ ہے _

۹ _گمراہ اور گناہگار افراد قيامت كے طاقت فرسا عذاب ميں مبتلا ہوں گے _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى فما اصبرهم على النار

۱۰_ ''عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''فما اصبرهم على النار'' فقال ما اصبرهم على فعل ما يعلمون انه يصيرٌ هم الى النار ''(۱) اللہ تعالى كے اس كلام '' فما اصبرھم على النار'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كس چيز نے انكو صبر ديا ايسے عمل كى انجام دہى پر جسكے بارے ميں جانتے تھے كہ اسكا نتيجہ آتش جہنم ہوگا_

۱۱_ اللہ تعالى كے اس كلام ''فما اصبرہم على النار'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام ے فرمايا''ان معناه ما اجرا هم على النار (۲) يعنى كس چيز نے ان كو جرا ت دى كہ ايسے اعمال انجام ديں جس كے نتيجے ميں وہ لوگ آتش جہنم ميں جائيں گے _

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابيں چھپانے كے نتائج۵; آسمانى كتابوں كے حقائق بيان كرنا ۸; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والے ۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والوں كى گمراہى ۱; آسمانى كتابوں كى اہميت ۷; آسمانى كتابوں كا ہدايت كرنا ۷

اللہ تعالى : بخشش الہى ۲،۸; اللہ تعالى كى بخشش كے لئے زمين ہموار ہونا ۷; اللہ تعالى كى طرف سے عذاب ۵

امور: تعجب آور امور۴

اہل جہنم:۲،۶،۹

بخشش: بخشش كے عوامل ۸; بخشش سے محروم لوگ ۲،۶

جہنم: آتش جہنم ۳،۴،۶; جہنم كى خصوصيات۳،۴

حق: حق پردہ ڈالنے كے نتائج ۵;حق چھپانے والوں كى سزا ۲; حق چھپانے والوں كا محروم ہونا ۲

دين: دين كى اہميت ۷; دين كا ہدايت كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۶۸ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۵۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۲ ص ۴۷۰ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۵۰۹_

۵۹۹

دين فروش لوگ: دين فروش جہنم ميں ۲; دين فروشوں كى سزا ۲; دين فروشوں كى گمراہى ۱;دين فروشوں كا محروم ہونا ۱،۲

روايت:۱۰،۱۱

صبر: آگ پر صبر سے مراد۱۰،۱۱

عذاب: اہل عذاب ۵،۶،۹; عذاب كے درجات ۹; عذاب كے موجبات ۵،۶،۹،۱۰،۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴

علماء : بے عمل علماء كو عذاب ۶; بے عمل علماء جہنم ميں ۶; بے عمل علماء كا محروم ہونا ۶

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كو عذاب ۵; علمائے اہل كتاب كى گمراہى ۵

گمراہ لوگ: ۱،۵ گمراہوں كو اخروى عذاب ۹

گمراہي: گمراہى كے اسباب ۵

گناہگار لوگ: گناہگاروں كو اخروى عذاب ۹

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۸; ہدايت سے محروم لوگ ۱

ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ( ۱۷۶ )

يہ عذاب صرف اس لئے ہے كہ الله نے كتاب كو حقكے ساتھ نازل كيا ہے اور اس ميں اختلافكرنے والے حق سے بہت دور ہو گر جھگڑےكررہے ہيں (۱۷۶)

۱ _ آسمانى كتابوں ( تورات، انجيل ، قرآن اور ...) كو نازل كرنے والا اللہ تعالى ہے _

ذلك بان اللہ نزل الكتاب

'' الكتاب'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے پس سارى آسمانى كتابوں كو شامل ہے _

۲ _ آسمانى كتابوں كے حقائق دنيا دار علماء كے مفادات

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785