تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201355 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ( ۱۶۵ )

لوگوں ميں كچھ ايسے لوگ بھى ہيں جوالله علاوہ دوسروں كو اس كا مثل قراديتےہيں اور ان سے الله جيسى محبت بھى كرتے ہيں جب كہ ايمان والوں كى تمام محبّت خدا سےہوتى ہے اور اے كاش ظالمين اس بات كو اسوقت ديكھ ليتے جو عذاب كوديكھنے كے بعدسمجھيں گے كہ سارى قوت صرف الله كے لئے ہےاور الله سخت ترين عذاب كرنے والاہے(۱۶۵)

۱ _ كچھ لوگ (مشركين ) توحيد پر بہت زيادہ دلائل ہونے كے باوجود غير خدا كو خدا تعالى كى مثل، نظير اور برابر تصور كرتے ہيں _لآيات لقوم يعقلون_ و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ''انداد'' كا مفرد''ند'' ہے بمعنى مثل_

۲ _ غير خدا كو خدا كى طرح تصور كرنا آيات الہى ميں تدبر نہ كرنے كى دليل و علامت ہے _لآيات لقوم يعقلون_و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۳ _ اللہ تعالى بے مثل و مثال اور بے ہمتا حقيقت ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً

۴ _ مشركين جھوٹے خداؤں سے انس و محبت اور تعلق ركھتے ہيں _يحبونهم

۵ _ مشركين خيالى معبودوں سے انس و محبت كرنے كے علاوہ اللہ تعالى سے بھى محبت كرتے ہيں _يحبونهم كحب الله

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''حب'' كا اضافہ مفعول كى طرف ہوا ہو اور اسكا فاعل ضمير محذوف ہو جو ''من الناس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنىكحبهم الله _

۶ _ مشركين كى خيالى معبودوں سے محبت اللہ تعالى كى محبت كے ہم وزن و برابر ہے _

۵۶۱

يحبونهم كحب الله

۷_ موحد مومنين كے نزديك اللہ تعالى عالم ہستى كى محبوب ترين حقيقت ہے _والذين آمنوا اشد حباً لله

آيہ مجيدہ كے ابتدائي حصے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں ''الذين آمنوا'' سے مراد و ہ توحيد پرست ہيں جو فقط اللہ تعالى كى ہى عبادت كرتے ہيں كسى چيز يا شخص كو اللہ تعالى كى مثل و مانند نہيں سمجھتے _ '' اشد''افعل تفضيل ہے جسكا مفضل عليہ ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز اور ہر شخص كو شامل ہوجائے_

۸_انس و محبت اور عشق و دوستى كے بالاترين مرحلہ كے لئے انتہائي مناسب اور موزوں حقيقت اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _والذين آمنوا اشد حبا الله

۹_ اللہ تعالى كے ہمراہ غير خدا كى محبت و دوستى بے ايمانى كى علامت ہے _والذين آمنوا اشد حبالله

۱۰_ احساسات و جذبات كا رابطہ اعتقادات و يقين كے ساتھ ہے _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم والذين آمنوا اشد حبا لله

۱۱ _ تمام تر قدرتوں اور قوتوں كا مالك اللہ تعالى ہے كوئي شخص اور نہ ہى كوئي چيز اسكے علاوہ قدرت و طاقت نہيں ركھتى _ان القوة لله جميعاً

۱۲ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا عذاب شديد ہوگا_و ان الله شديد العذاب

۳ ۱_مشركين قيامت كے دن عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے اور اس كو شديدعذاب پائيں گے_الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان الله شديد العذاب

۱۴ _ ظالمين اللہ تعالى كى قدرت و طاقت سے غافل ہيں _و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۱۵ _ ظالمين روز قيامت شديد عذاب ميں مبتلا ہوں گے_و لويرى الذين ظلموا وان الله شديد العذاب

۱۶_ مشركين جب عذاب الہى ميں مبتلا ہوں گے تو يقين كرليں گے كہ قدرت و قوت فقط اللہ تعالى ميں منحصر ہے _

و لو يرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً '' إذ يرون''، ''يري'' كے لئے مفعول ہے ''ان القوة ...'' فعل مقدر كے ساتھ جواب شرط ہے گويا مطلب يوں ہے ''لو يرى لعلموا ان القوة للہ جميعاً'' اگر مشركين آج ديكھ ليتے اس دن كو جب قيامت كے عذاب ميں مبتلا ہوں گے تو يقينا جان ليتے كہ تمام تر

۵۶۲

قدرتوں كا مالك اللہ تعالى ہے_

۱۷_جو لوگ اللہ تعالى كا مثل و مثال تصور كرتے ہيں ظالمين ميں سے ہيں _و لو يرى الذين ظلموا

'' الذين ظلموا'' سے مراد مشركين ہيں _ مشركين كے لئے '' الذين ظلموا'' كى تعبير لانا اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ شرك اختيار كرنا اللہ تعالى كے حق ميں ظلم و تجاوز ہے( لازم ہے كہ اسى كو واحد و يكتا جانا جائے)_

۱۸_ مشركين جھوٹے خداؤں كو صاحب قدرت تصور كرتے ہيں _و لويرى الذين ظلموا إذ يرون العذاب ان القوة لله جميعاً وہ لوگ جو غير خدا كو خداوند متعال كى طرح سمجھتے ہيں ان كے لئے اللہ تعالى كى قدرت اور يہ كہ قوت صرف اسى كى ذات اقدس ميں منحصر ہے كو بيان كرنا كرنا اس خاطر ہے كہ مشركين اس وہم و گمان كى بناپر كہ ان كے معبود بھى صاحب قدرت ہيں ان كو اللہ تعالى كى طرح تصور كرتے ہيں اور اسى بناپر ان سے محبت كرتے ہيں _

۱۹_ جھوٹے معبودوں كو صاحب قدرت خيال كرنا مشركين كى ان سے محبت كا سبب ہے_يحبونهم كحب الله و لو يرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۰_ قدرت و قوت كى جاذبيت محبت كو جذب كرنے ميں مؤثر ہوتى ہے _يحبونهم كحب الله و لويرى الذين ظلموا ان القوة لله جميعاً

۲۱ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت پر يقين دلوں ميں اسكى محبت پيدا كرنے كا سبب ہے _والذين آمنوا اشد حبا لله ان القوة لله جميعاً

۲۲_ اللہ تعالى كى قدرت كو نہ پہچاننا اور اسكے غير كو صاحب قدرت تصور كرنا شرك كے اسباب و عوامل ميں سے ہے _

و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً ان القوة لله جميعاً

۲۳ _ بعض انسان (مشركين) اپنے بڑوں اور بزرگوں كو قدرت و طاقت ميں اللہ تعالى كى طرح سمجھتے ہيں اور ان كو اللہ تعالى كے برابر اور ہم وزن خيال كرتے ہيں _و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم كحب الله

بعدوالى آيت مشركين كو دو حصوں ميں تقسيم كرتى ہے ايك سرداران شرك اور دوسرے ان كے پيروكار _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ '' من الناس'' سے مراد پيروكار مشركين اور '' انداد'' سے مراد ان كے سردار ہيں اور ضمير '' ہم '' ، ''انداد'' كى طرف لوٹتى ہے جو اس احتمال كى تائيد كرتى ہے _ كيونكہ يہ ضمير انسانوں اور صاحب عقل و شعور مخلوقات كے لئے استعمال ہوتى ہے _

۲۴ _ قيامت كا دن اللہ تعالى كى مطلق (لامحدود)

۵۶۳

قدرت كے ظہور كا دن ہے اور يہ كہ غير خدا كے پاس كوئي قدرت و طاقت نہيں ہے اس سے آگاہى كا دن ہے _

إذ يرون العذاب ان القوة للہ جميعاً

اسماء اور صفات: جمالى صفات۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۳،۸،۱۱،۱۶; اللہ تعالى كا بے مثل و مثال ہونا ۳; آخرت ميں اللہ تعالى كے عذاب ۱۲; آخرت ميں اللہ تعالى كى قدرت ۲۴; قدرت الہى ۱۱،۱۶

اللہ تعالى كے محب و عاشق :۷

احساسات و جذبات: احساسات اور عقيدہ۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پر ايمان كے اثرات و نتائج ۲۱; بے ايمانى كى علامتيں ۹

باطل معبود: باطل معبودوں كى قدرت ۱۸

تعقل: عدم تعقل كى علامتيں ۲

توحيد: توحيد ذاتى ۳

جہالت: جہالت كے نتائج و اثرات ۲۲; اللہ تعالى كى قدرت سے جہالت ۲۲

رجحانات و محبتيں : اللہ تعالى سے محبت ۵،۶،۷،۸، ۹،۲۳;طاقتور رہبروں سے محبت ۲۳; غير خدا سے محبت ۹،۲۳; باطل معبودوں سے محبت ۴،۵،۶;اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲۱; باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۱۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۲; شرك كا ظلم ۱۷; شرك كے عوامل ۲۲

ظالمين :۱۷

ظالمين اور قدرت الہى ۱۴; ظالمين كو اخروى عذاب ۱۵;ظالمين كى غفلت ۱۴

عذاب: شديد عذاب ۱۲،۱۳،۱۵; عذاب كے درجات ۱۲،۱۳،۱۵

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۸

عوام: مشرك عوام ۱،۲۳

۵۶۴

غفلت: اللہ تعالى كى قدرت سے غفلت ۱۴

قدرت: قدرت كے نتائج و اثرات۱۹،۲۰; غير خدا كى قدرت ۲۴; قدرت كا منبع ۱۱

قيامت: قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲۴

مشركين : مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشركين كا عقيدہ ۱،۱۸، ۱۹،۲۳; مشركين كى محبتيں ۴،۵،۶; مشركين اور قدرت الہى ۱۶;مشركين اور باطل معبود ۱۸،۱۹; مشركين كا عذاب سے سامنا ۱۶

مومنين: مومنين كا انس و محبت ۷; مومنين كے محبوب ۷

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ ( ۱۶۶ )

اس وقت جبكہ پير اپنے مريدوں سےبيزارى كا اظہار كريں گے اور سب كے سامنےعذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہوچكےہوں گے (۱۶۶)

۱ _ مشركين كى تقسيم سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں ميں _إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۲ _ مشركين ( سردار اور ان كے پيروكار) عذاب قيامت ميں مبتلا ہوں گے_إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا و رأوا العذاب ''راوا العذاب'' كى ضمير فاعلى ظاہراً دونوں گروہوں (سردار اور ان كے پيروكار) كى طرف لوٹتى ہے _ ما قبل او رما بعد والى آيت سے معلوم ہوتاہے كہ ''تبري'' كے لئے ظرف روز قيامت ہے _ بنابريں ''العذاب'' سے مراد عذاب قيامت ہے_

۳ _ سرداران شرك جب عذاب قيامت كا سامنا كريں گے تو اپنے پيروكاروں سے دورى اور بيزارى اختيار كريں گے _

إذ تبرأ الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورأوا العذاب جملہ ''و راوا العذاب'' حاليہ ہے يعنى سردار ان شرك كى اپنے پيروكاروں سے دورى و بيزارى اس حالت ميں ہوگى جب عذاب كا سامنا كريں گے _

۴ _ مشركين ( سرداران شرك اور ان كے پيروكار) كے لئے عذاب قيامت سے نجات كى خاطر كوئي وسيلہ نہيں ہے _

تقطعت بهم الاسباب ''بھم'' ، '' الاسباب'' كے لئے قيد ہے اور اس ميں ''بائ'' ،''ملابسة'' كے معنى ميں ہے پس جملہ '' تقطعت ...'' كا معنى يوں ہے

۵۶۵

(درآں حاليكہ ) ان كے پاس جو وسائل و اسباب تھے وہ سب كے سب ٹوٹ چكے ہوں گے اور نابود ہوجائيں گے ''الاسباب'' سے ممكن ہے عذاب سے نجات كے اسباب مراد ہوں يا مراد وہ اسباب ہوں جو سردار اور ان كے پيروكاروں كو ايك دوسرے سے جوڑتے ہوں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۵ _ قيامت كا دن پيروكار مشركين كے لئے ان كے پيشواؤں اور بزرگوں كى گمراہى سے آگاہى كا دن ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۶ _ الہى فرامين كے مقابل باطل قوتوں كى پيروى شرك ہے _*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً يحبونهم إذ تبرأ الذين اتبعوا

۷_ گمراہ قائدين اور پيشواؤں كا عوام كى گمراہى ميں بہت بنيادى كردار ہے _إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۸_ قيامت كے دن سرداران شرك اور ان كے پيروكاروں كے مابين دوستى و ارتباط كے تمام وسائل و اسباب نابود ہوجائيں گے _و تقطعت بهم الاسباب يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الاسباب'' سے مراد سرداروں اور پيروكاروں كے مابين دوستى و پيوند كے اسباب ہوں _

۹_باطل كى بنياد پر انسانوں كى دوستياں اور اطاعت قيامت كے دن دشمنى اور اختلاف ميں تبديل ہوجائيں گي_إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

۱۰_ دوستى اور اطاعت كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے _يحبونهم كحب الله إذ تبرا الذين اتبعوا من الذين اتبعوا

ماقبل آيت ميں پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين ارتباط كى بنياد محبت اور دوستى كو قرار ديا گيا ہے _ البتہ اگر ''انداد''سے مراد سردار و پيشوا ہوں تو آيت نے پيشواؤں اور پيروكاروں كے مابين رابطے كو تابع اور متبوع ( جسكى اتباع كى جائے ) كا رابطہ قرار ديا ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشار ہ ہے كہ محبت اور اطاعت ايك دوسرے كے لئے لازم و ملزوم ہيں يعنى جہاں محبت ہے وہاں اطاعت بھى ہے_

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا

۵۶۶

''اذا كان يوم القيامة ياتى النداء من عند الله عزوجل الا من تعلق بامام فى دار الدنيا فليتبعه الى حيث يذهب فحينئذ يتبرء الذين اتبعوا من الذين اتبعوا ورا وا العذاب و تقطعت بهم الاسباب ''(۱)

جب قيامت بر پا ہوگى تو ...رب ذو الجلال كى جانب سے صدا آئے گى جو كوئي دنيا ميں جس پيشوا سے وابستہ تھا جہاں اسكا پيشوا جائے تو وہ بھى اسى كے پيچھے جائے اس وقت گمراہ پيشوا اپنے پيروكاروں سے بيزارى اختيار كريں گے_ وہ لوگ عذاب الہى كا سامنا كريں گے اور ان كے تمام تر اسباب ٹوٹ جائيں گے ...''

اختلاف: آخرت ميں اختلاف كے اسباب ۹)

اظہار برائت كرنا : پيروكار مشركين سے اظہار برا ت ۳

اللہ تعالى : اوامر الہى سے منہ موڑنا ۶

تقليد: باطل تقليد كے نتائج ۹

دشمني: آخرت ميں دشمنى كے اسباب ۹

دوستى : باطل دوستى كے نتائج۹; دوستى اور اطاعت ۱۰

روايت: ۱۱

شرك : شرك كے موارد ۶

عذاب: اخروى عذاب سے نجات ۴

قائدين : گمراہ قائدين كا گمراہ كرنا ۷; گمراہى كے پيشوا قيامت ميں ۱۱

قدرت: باطل قوت و قدرت كى اتباع ۶

قيامت : قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۵; قيامت ميں اسباب كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں روابط كا منقطع ہونا ۸; قيامت ميں محبتوں كا منقطع ہونا ۸

لوگ: لوگوں كى گمراہى كے عوامل ۷

مشركين : پيروكار مشركين كى آگاہى ۵; مشركين پيشواؤں كا اظہار برائت ۳; مشركين كے پيشوا ۱; مشركين كے قائدين قيامت ميں ۲،۳،۸; مشركين كو اخروى

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ص ۶۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۰ ح ۴۸۵_

۵۶۷

عذاب ۲،۴; پيروكار مشركين كو عذاب ۴; مشرك قائدين كى گمراہي۵;پيروكار مشركين ۱; پيروكار مشركين قيامت ميں ۲،۵،۸; مشركين كا عذاب سے سامنا كرنا ۳

معاشرہ : معاشرے كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۷

معاشرتى طبقات: ۱

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ( ۱۶۷ )

اور مريد بھى يہ كہيں گے كہاے كاش ہم نے ان سے اسى بيزارى اختيار كيہوتى جس طرح يہ آج ہم سے نفرت كررہے ہيں _ خدا ان سب كے اعمال كو اسى طرح حسرتبنا كرپيش كرے گا اور ان ميں سے كوئيجہنم سے نكلنے والا نہيں ہے (۱۶۷)

۱ _ پيروكار مشركين ميدان حشر ميں دنيا كى طرف لوٹنے كى خواہش كريں گے تا كہ اپنے پيشواؤں سے اظہار برائت كريں اور ان كى مخالفت كريں _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرة فنتبرا منهم '' كرّ'' كا معنى رجوع ہے اور '' كرّة'' كا معنى ہے ايك بار رجوع كرنا اور اس سے مراد دنيا كى طرف بازگشت ہے بنابرايں '' لو ان لنا كرّة'' يعنى اے كاش ہم ايك مرتبہ دنيا كى طرف لوٹائے جائيں _

۲ _ ميدان حشرميں پيروكار مشركين اپنے مشرك يپشواؤں كى دوستى اور دنيا ميں ان كى اطاعت سے اظہار پشيمانى كريں گے _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

۳ _ قيامت كے دن مشرك پيروكاروں كى شرك اختيار كرنے اور مشرك قائدين كى اطاعت كرنے سے ندامت كوئي نتيجہ نہ دے گى اور نہ ہى انہيں نجات دلائے گى _و قال الذين اتبعوا لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم

اگر قيامت ميں ان كى نجات ميں شرك اور سے ندامت مؤثر ہوتى تو مشركين دنيا كى طرف بازگشت كى تمنا نہ كرتے _

۴ _ مشرك پيروكاروں كا اپنے مشرك قائدين سے اظہار برائت كے لئے تيار ہونا حق و حقيقت كى تلاش و جستجو كے لئے نہ ہوگا بلكہ جذبہ انتقام كى خاطر ہوگا _

فنتبرا منهم كما تبرء وا منا '' كما تبرا وا منا '' (چونكہ انہوں نے ہم سے بيزارى كى ہے) يہ جملہ پيروكار مشركين كے اظہار برائت كے محرك كو بيان كررہاہے_

۵ _ قيامت كے دن انسانوں ميں جذبہ انتقام ہوگا_فنتبرا منهم كما تبرأوا منا

۵۶۸

۶ _ قيامت ميں انسانوں كى نفسياتى كيفيات اور احساسات بھى ہوں گے _لو ان لنا كرّة فنتبرا منهم كما تبرا و منا

۷_ قيامت كے ميدان ميں پيروكار مشركين شرك اختيار كرنے اور مشرك رہبروں كى اطاعت سے حسرت و پشيمانى اور غم و اندوہ كا اظہار كريں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۸_ قيامت كا منظردنياوى اعمال اور ان كے نتائج كے مشاہدے كا ميدان ہے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات

''يري'' كا فعل ممكن ہے '' رؤيت '' سے ہے جو آنكھوں سے ديكھنے كے معنى ميں ہے اس بناپر اس جملہ ''كذلك ...'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى مشركين كو انكے اعمال ( يا ان اعمال كے نتائج ) دكھائے گا _

۹_ دنيا ميں انسان كے بُرے اور ناقابل قبول اعمال قيامت ميں حسرت و ندامت اور غم و اندوہ كا باعث بنيں گے _

كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۰_ اللہ تعالى قيامت كے ميدان ميں انسان كو اسكے دنياوى اعمال كا مشاہدہ كرائے گا _كذلك يريهم الله اعمالهم

۱۱ _ انسانوں كے برے اعمال قيامت ميں مجسم حسرت كى صورت ميں ان كے مقابل ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''يري'' كا معنى قلبى مشاہدہ ہو اس صورت ميں ' ' حسرات'' ، ''يري'' كے لئے تيسرا مفعول ہوگا اور جملے كا معنى يہ ہوگا اللہ تعالى مشركوں كے اعمال كو حسرتوں كى صورت ميں ان كے سامنے جلوہ نما كرے گا _

۱۲ _ شرك اختيار كرنا ، مشرك رہبروں كى محبت اور پيروى كرنا يہ اعمال پيروكار مشركين كے لئے عالم آخرت ميں حسرت و اندوہ كا باعث ہوں گے _كذلك يريهم الله اعمالهم حسرات عليهم

۱۳ _ مشركين ( قائدين اور پيروكار) آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے اور ہميشہ وہيں رہيں گے_و ما هم بخارجين من النار

۱۴ _ عالم آخرت سے دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو بے معنى اور بے ہودہ آرزو ہے جو ہرگز پورى نہ ہوگى _

لو ان لنا كرة و ما هم بخارجين من النار

۵۶۹

يہ جملہ '' و ما ہم بخارجين ...'' در حقيقت مشركين كى دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو كا جواب ہے _ يہ جملہ بيان كررہاہے كہ وہ لوگ نہ فقط واپس نہ لوٹيں گے بلكہ انہيں آتش جہنم سے رہائي بھى نہ ملے گى _

۱۵ _ اللہ تعالى كے اس كلام '' كذلك يريھم اللہ اعمالہم حسرات عليہم'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''هو الرجل يدع المال لا ينفقه فى طاعة الله بخلاً ثم يموت فيدعه لمن هو يعمل فى طاعة الله او فى معصيته فان عمل به فى طاعة الله راه فى ميزان غيره فزاده حسرة و قد كان المال له و ان كان عمل به فى معصية الله قواه بذلك المال حتى عمل به فى معصية الله'' (۱) اس سے مراد وہ شخص ہے جو دنيا ميں مال چھوڑ جاتاہے اور بخل كى وجہ سے اللہ كى اطاعت ميں اسے خر چ نہيں كرتا وہ مرجاتاہے اور پھر يہ مال اللہ كى اطاعت يا معصيت كى راہ ميں خرچ ہوتاہے پس اگر يہ مال خدا كى راہ ميں خرچ ہوا تو يہ شخص اس كو دوسروں كے نامہ اعمال ميں ديكھے گا اور اس كى حسرت ميں اضافہ ہوگا كيونكہ يہ مال اس كى ملكيت تھا اور اگر يہ مال اللہ تعالى كى معصيت كى راہ ميں خرچ ہوگا تو اس نے اس مال سے گناہ گار كى تقويت كى تا كہ اللہ تعالى كى نافرمانى كرسكے _

۱۶_ منصور حازم كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت'' و ماهم بخارجين من النار'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''اعداء على عليه‌السلام هم المخلدون فى النار ابد الابدين و دهر الداهرين ''(۲)

ان سے مراد علىعليه‌السلام كے دشمن ہيں جو جہنم ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے_

آرزو: دنيا كى طرف بازگشت كى آرزو ۱،۱۴; باطل آرزو ۱۴

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۲،۳،۷،۱۲

اظہار برائت: مشرك رہبروں سے اظہار برائت ۱،۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۱۰

امام علىعليه‌السلام : على عليہ السلام كے دشمنوں كا انجام ۱۶

انسان: آخرت ميں انسانى احساسات۶; آخرت ميں انسانوں كا جذبہ انتقام۵; انسان كى آخرت ميں حسرت ۱۱; قيامت ميں انسانوں كا عمل ۱۰

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۴۲ ح ۲ ، نورالثقلين /ج۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۹_

۲) تفسير عياشى ج/۱ص۷۳ ح ۱۴۵، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵۱ ح ۴۸۸_

۵۷۰

اہل جہنم : ۱۳،۱۶

پشيمانى : بے نتيجہ پشيمانى ۳

جذبہ محركہ: جذبہ محركہ كے عوامل ۴

جہنم: آتش جہنم ۱۳; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۶; جہنم ميں ہميشگى ۱۳

حسرت : اخروى حسرت كے عوامل ۱۵

دشمني: مشركين قائدين سے دشمنى ۱

دوستى : مشركين قائدين سے دوستى كے نتائج ۲ ;ناپسنديدہ دوستى ۲

رجحانات اور محبتيں : مشرك قائدين سے محبت كے نتائج ۱۲

روايت:۱۵،۱۶

شرك : شرك كے نتائج و اثرات ۱۲

عذاب: اہل عذاب ۱۳

عمل: عمل كے اخروى نتائج ۸; ناپسنديدہ عمل كے اخروى نتائج ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے نتائج ۹

قيامت : قيامت ميں جذبات و احساسات۶; قيامت ميں جذبہ انتقام ۵; قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۸،۱۱; قيامت ميں حقيقتوں كا ظہور ۸; قيامت ميں اندوہ كے عوامل ۷،۹،۱۲; قيامت ميں حسرت كے عوامل ۷،۹،۱۱،۱۲; قيامت كى خصوصيات۸

مال: گناہ ميں مال كا استعمال ۱۵

مشركين : مشركين كى اخروى آرزو ۱; پيروكار مشركين كا جذبہ انتقام ۴; مشركين كا اندوہ ۷; پيروكار مشركين كا اخروى اندوہ ۱۲; مشركين كى اخروى پشيمانى ۲،۳; مشركين كى اخروى حسرت ۷; پيروكار مشركين كى حسرت ۱۲;مشرك قائدين جہنم ميں ۱۳; مشركين كو اخروى عذاب ۱۳; مشرك قائدين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين كو عذاب ۱۳; پيروكار مشركين جہنم ميں ۱۳; پيروكار مشركين قيامت ميں ۱،۲،۳،۷

۵۷۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ( ۱۶۸ )

اےانسانو ميں جو كچھ بھى حلال و طيب ہےاسے استعمال كرو اور شيطانى اقدامات كااتباع نہ كرو كہ وہ تمھارا كھلا ہوا دشمنہے (۱۶۸)

۱ _ زمين كى پيداوار سے كھانا اور استفادہ كرنا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اللہ تعالى نے تاكيد فرمائي ہے_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً ''كلوا'' كا مصدر ''اكل'' ہے جس كا معنى كھانا ہے _ بہت سے موارد ميں ''مجاز شامل'' كے طور پر استعمال ہوتاہے جسكا معنى مطلق تصرف يا استفادہ كرنا ہے اور كھانا بھى اسى ميں شامل ہے _

۲ _ تمام انسان قرآن حكيم كے مخاطب ہيں اور ان كو دعوت دى گئي ہے كہ اس كے احكام كا خيال ركھيں _

يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۳ _ زمين كى پيدا وار سے كھانے اور استفادہ كرنے ميں اللہ تعالى كى نصيحت ميں بنيادى شرائط يہ ہيں كہ پاكيزہ، طبيعت كے موافق اور حلال ہو_كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً اس مطلب ميں ''حلالاً'' اور ''طيباً'' ، ''ما'' كے لئے حال ہے ، طيب اپنے موارد استعمال كے اعتبار سے خوب ، اچھا كا معنى ديتاہے لہذا ہر جملے ميں اس كى تفسير اس حكم كے مناسب كى جائيگى جو اس جملے ميں موجود ہے_

۴ _ زمينى پيداوار اور وسائل سے استفادہ كرنے كے لئے ضرور ى ہے كہ حلال اور اچھى چيز كا انتخاب كيا جائے_

كلوا مما فى الأرض حلالاً طيبا اس مطلب ميں ''حلالا'' اور ''طيبا'' كو محذوف مفعول مطلق كى صفت قرار ديا گيا ہے يعنى كلوا اكلاً حلالا طيبا پس يہ دو قيد اس لئے بيان ہوئيں ہيں كہ استفادے كى نوعيت بيان كريں _

۵_زمين سے پيدا ہونے والى عذاؤں ميں حفظان صحت كے اصول كى مراعات كرنا ضرورى ہے_كلوا مما فى الأرض حلا لا طيبا

۶_ زمين كے وسائل سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے_ يہ كسى گروہ يا امت مسلمان و غيرہ سے مختص نہيں ہے _يا ايها الناس كلوا مما فى الأرض حلالاً طيباً

۷_ انسان بے ہودہ اور بے بنياد بہانوں (زہد، قبائلى رسومات و غيرہ وغيرہ ) كى بناپر زمين كى نعمتوں اور وسائل سے خود كو محروم نہ كريں _

كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا

۵۷۲

''كلوا'' كا حكم اگر چہ مفسرين كى نظر ميں مباح كے لئے ہے نہ كہ وجوب كے لئے _ تا ہم مباح كو بيان كرنے كے لئے امر كا صيغہ استعمال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ متكلم ترغيب دلارہاہے اور ان چيزوں سے اجتناب يا پرہيز كو ٹھيك نہيں سمجھتا_

۸_ شيطان كى پيروى سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۹_ شيطان انسانوں كا بہت واضح دشمن ہے _انه لكم عدو مبين

۱۰_ شيطان مكار، فريب دينے والا اور دغاباز موجود ہے جبكہ انسان اس كے اثرات كو قبول كرنے والا ہے _

و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۱ _ شيطان انسانوں كو مرحلہ بہ مرحلہ ، قد م بہ قدم زوال اور انحراف كى طرف كھينچ لے جاتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان ''خطوات'' كى مفرد ''خطوة'' ہے جسكا معنى قدم ہے آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد وہ راستہ ہے جو شيطان نے انسان كے ليئے معين كيا ہے خطوات كو جمع استعمال كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كو منحرف كرنے كے لئے شيطان كے پاس مختلف راستے ہيں يا اس سے مراد يہ ہوسكتا ہے كہ شيطان انسان كو قدم بہ قدم ، گام بہ گام تباہى و زوال كى طرف لے جاتاہے_

۱۲ _ انسانوں كو منحرف كرنے كے لئے شيطان مختلف راہوں سے استفادہ كرتاہے_و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۳ _ زمين كى نعمتوں اور وسائل كو اپنے ليئے حرام قرار دينا شيطان كى پيروى ہے_كلوا مما فى الأرض و لا تتبعوا خطوات الشيطان وسائل و امكانات سے استفادہ كرنے اور حرام و پليديوں سے پرہيز كى نصيحت كرنے كے بعد شيطان كى پيروى سے منع كرنا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ وسائل و نعمات سے استفادہ نہ كرنا اور حرام و پليديوں سے نہ بچنا ايك طرح سے شيطان كى پيروى ہے _

۱۴_ محرمات اور ناپاك و پليد اشياء سے فائدہ اٹھانا شيطان كى پيروى كرنا ہے _كلوا مما فى الأرض حلالا طيباً و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۵ ۱_ انسان كى فطرى ضروريات اسكے انحراف اور شيطان كے دام اور چنگل ميں پھنسنے كى زمين كو فراہم كرتى ہيں _

كلوا مما فى الأرض حلالا ً طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان

۱۶_ لوگوں كو حرام اور ناپاك و پليد اشياء سے استفادہ پر آمادہ كرنا اور حلال نعمتوں سے روكنا انسان كے ساتھ شيطان كى دشمنى كا ايك جلوہ ہے _ كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا و لا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو

۵۷۳

۱۷_ دشمنوں اور ان كى خواہشات كى پيروى سے پرہيز ضرورى ہے _

ولا تتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين شيطان كى انسان سے دشمنى اس بات كى دليل ہے كہ اسكى اتباع سے اجتناب كيا جائے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جو كوئي يا جو چيز بھى انسان كى دشمن ہو اسكى پيروى سے اجتناب كرے _

۱۸_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''ان من خطوات الشيطان الحلف بالطلاق والنذور فى المعاصى وكل يمين بغير الله (۱)

زوجہ كى طلاق كى قسم كھانا، گناہوں پر نذر كرنا اور اللہ كے علاوہ ہر قسم كھانا يہ شيطان كے قدموں ميں سے ہے_

احكام:۱

اطاعت: دشمنوں كى اطاعت ۱۷; شيطان كى اطاعت ۸،۱۳،۱۴; ناپسنديدہ اطاعت ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱

انحراف: انحراف كا مرحلہ بہ مرحلہ ہونا ۱۱; انحراف كى زمين آمادہ ہونا ۱۵; انحراف كے عوامل ۱۱،۱۲

انسان: انسان كامكارى و فريب كے دام ميں پھنسنا ۱۰; انسانوں كے حقوق ۶; انسان كے دشمن ۹،۱۶; انسان كى صفات ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۲،۷

حقوق: استفادے كا حق ۶

خبائت و پليد چيزيں : خبيث و پليد اشياء سے استفادہ ۱۴،۱۶

زمين : زمين سے استفادہ ۱،۶; زمين كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۳،۴

زہد: ناپسنديدہ زہد ۷

روايت:۱۸

شيطان : شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱۰; شيطان كى مختلف راہيں ۱۲; شيطان كى دشمنى ۹،۱۶; شيطان كے فريب كى روش ۱۱،۱۲; شيطان كے تسلط كى

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۴۶۰،نورالثقلين ج/۱ ص۱۵۲ ح ۴۹۲_

۵۷۴

زمين ہموار ہونا ۱۵; شيطان كى صفات ۱۰; شيطان كے قدم ۱۸

ضروريات: ضروريات كے اثرات و نتائج ۱۵

غذائيں : پاكيزہ غذائيں ۳; غذاؤں سے استفادہ كى شرائط ۳

غذا كى فراہمي: غذا كى فراہمى ميں حفظان صحت كى اہميت ۵

قرآن كريم : قرآن كريم كے مخاطبين ۲

قسم : زوجہ كى طلاق كى قسم ۱۸

مباحات:۱

مباحات سے استفادہ ۷; مباحات كو حرام قرار دينا ۱۳; مباحات سے ممانعت۱۶;

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۴، ۱۶

نذر: گناہ كے ليئے نذر كرنا ۱۸

وسائل و نعمات: وسائل و نعمات سے اسفتادہ كرنا مباح ہے۷ ; مباح وسائل و نعمات كو حرام قرار دينا ۱۳

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۱۶۹ )

وہ بس تمھيں بد عملى اور بدكاريكا حكم ديتا ہے اور اس بات پر آمادہ كرتاہے كہ خدا كے خلاف جہالت كى باتيں كرتےرہو (۱۶۹)

۱ _ شيطان اپنے وسوسوں كے ساتھ انسانوں كو برّے اور مكروہ اعمال ( گناہان صغيرہ اور كبيرہ ) كى ترغيب دلاتاہے _

انما يامركم بالسوء والفحشاء ''امر'' كا معنى ہے حكم دينا _ آيہ مجيدہ ميں حكم اور موضوع كى مناسبت سے اس سے مراد وسوسہ و غيرہ ميں ڈالنا ہے_ ''فحشا'' ايسى برائي كو كہتے ہيں

جو حد سے بڑھى ہوئي ہو _ اسے گناہ كبيرہ كہا جاسكتاہے اور قرينہ مقابلہ كے ہوتے ہوئے ''سوئ'' سے مراد گناہ صغيرہ ہے _

۲ _ شيطان لوگوں كو ترغيب دلاتاہے كہ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھيں ( بدعتيں ايجاد كريں اور احكام دين ميں تحريف كريں )_انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۵۷۵

''قول'' اپنے مشتقات كے ساته جب بهى ''علي'' كے ساته متعدى هو تو '' نسبت دينا اور جهوٹ باندهنا'' كا معنى ديتاهے_

۳ _ حرام كو حلال سمجھنا اور حلال كو حرام خيال كرنا اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ہے _يا ايها الناس انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۴ _ ہر چيز ( فعل ، گفتگو، صفت و غيرہ و غيرہ ) كى اللہ تعالى كى طرف نسبت دينا علم و يقين كى بنياد پر ہونا چاہيئے_

و ان تقولوا على الله ما لاتعلمون

۵ _ احكام دين كے بارے ميں بغير علم و آگاہى كے اظہار نظر كرنا (فتوى دينا ) ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے _

و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۶ _ شيطان كا برائيوں اور بدعتوں كى طرف دعوت دينا اس كى شيطنت كا ايك جلوہ اور انسانوں كے ساتھ اسكى دشمنى كى دليل ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء و ان تقولوا على الله ما لا تعلمون يہ جملہ''انما يامركم ...'' اس جملہ ''انہ لكم عدو مبين'' كى دليل ہے يعنى تم انسانوں كے ساتھ شيطان كى دشمنى كى دليل و علامت يہ ہے كہ وہ تمہيں برائيوں كى ترغيب دلاتاہے_

۷_ لوگوں كو برائيوں كى طرف دعوت دينا شيطانى فعل ہے اور انسان كے دشمنوں كى آشنائي اور شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم بالسوء والفحشاء اگر جملہ''انما يامركم'' اس جملہ ''انہ لكم عدو'' كے لئے استدلال ہو تو مذكورہ بالا مطلب اس سے نكلتاہے_

۸_ لوگوں كو بدعتوں كے ايجاد كرنے اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے پر آمادہ كرنا شيطانى كام ہے اور انسان كے دشمنوں كى شناخت كا معيار ہے _انه لكم عدو مبين ، انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

۹_ شيطان انسانوں كو شرك اختيار كرنے پر ترغيب دلاتا ہے اور مشرك قائدين كے ساتھ دوستى اور ان كى اتباع پر تشويق دلاتاہے*و من الناس من يتخذ من دون الله انداداً انما يامركم بالسوء والفحشاء

ماقبل آيات كے قرينہ سے ''سوئ'' اور ''فحشائ'' كے مصاديق ميں سے شرك اختيار كرنا اور ہے_

۱۰_ بدكارياں كرنے والے اور فحشا و پليدياں اختيار كرنے والے شيطان كے پيروكار ہيں _لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم بالسوء و الفحشاء

۱۱_ حلال اور طيب نعمتوں سے پرہيز كرنا اور پليد و حرام

۵۷۶

غذائيں كھانا برُے اور ناپسنديدہ افعال ہيں _كلوا مما فى الأرض حلالا طيبا انما يامركم بالسوء والفحشاء

۱۲_ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے والے شيطان كے پيروكار اور اس كے نمائندے ہيں _

لا تتبعوا خطوات الشيطان انما يامركم ان تقولوا على الله ما لا تعلمون

احكام : ۵

اطاعت: مشرك قائدين كى اطاعت ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كى شرائط ۴

اللہ تعالى پرجھوٹ باندھنے والے : ۱۲

انسان: انسان كے دشمن ۶

بدعت: بدعت كى تشويق ۸; بدعت كے عوامل ۲،۶

تحريف : تحريف كے عوامل ۲

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۲،۳،۸; جھوٹ باندھنے پر تشويق كرنا ۸

حرام خورى : حرام خورى كا ناپسنديدہ ہونا۱۱

خبائث اور پليدياں : خبائث اور پليديوں سے استفادہ كرنا ۱۱

دشمن شناسى : دشمن شناسى كے معيارات ۷،۸

دوستى : مشرك قائدين سے دوستى ۹

شرك : شرك كى تشويق كرنا ۹; شرك كے عوامل ۹

شيطان : شيطان كا گمراہ كرنا ۹; شيطان كى فريب كارى و دغابازى ۱،۲،۶; شيطان كے پيروكار ۱۰،۱۲; شيطان كى تشويقات ۱،۲،۹; شيطان كى دشمنى ۶; شيطان كے نمائدے ۱۲; شيطان كا اہم كردار ۱،۲،۹

طيبات: طيبات سے اجتناب ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل كى دعوت ۶،۷; شيطانى عمل ۷،۸; ناپسنديدہ عمل ۵،۱۱

۵۷۷

فتوى دينا : بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے ۵; فتوى دينے كى شرائط ۵

فحشاء : فحشاء كا ارتكاب كرنے والا ۱۰

گناہ : گناہ كى تشويق ۱; گناہ كے اسباب ۱

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينا ۳

محرمات :۵ محرمات كو حلال قرار دينا ۳

يقين: يقين كى اہميت ۴

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ ( ۱۷۰ )

جب ان سے كہا جاتا ہے كہ جو كچھخدا نے نازل كيا ہے اس كا اتباع كرو توكہتے ہيں كہ ہم اس كا اتباع كريں گے جسپر ہم نے اپنے باپ دادا كو پايا ہے _ كيايہ ايسا ہى كريں گے چاہے ان كے باپ دادابے عقل ہى رہے ہوں اور ہدايت يافتہ رہےہوں (۱۷۰)

۱ _ قرآن كريم اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام كى اتباع كرنا ضرورى ہے _اتبعوا ما انزل الله

۲ _ پيامبر اسلام (ص) تمام انسانوں كو قرآن كريم اور احكام الہى كى پيروى كى دعوت دينے والے ہيں _و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله

۳_قرآن كريم اور احكام اسلام كا الہى ہونا ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے _اتبعوا ما انزل الله

''ما انزل اللہ'' ميں ''ما'' سے مراد قرآن حكيم اور احكام دين ہيں ان كى پيروى كا حكم دينے كے بعد جو فرمايا كہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے ہيں يہ ان كے واجب الاتباع ہونے كى دليل ہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) نے مشركين كو احكام الہى كى پيروى كرنے كى دعوت دى تو انہوں نے كہا ہم اپنے اسلاف كے آداب و اطوار اور رسوم و رواج كى اتباع كريں گے _و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا ''الفينا'' كا مصدر'' الفائ'' اسكا معنى ہے پانا _

۵۷۸

۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى دعوت كو قبول نہ كرنا اور قرآن و دين كے احكام كى پيروى نہ كرنے كے عوامل ميں سے ايك اپنے اسلاف كے آداب و اطوار پر انحصار كرنا اور اسى پر باقى رہنے پر اصرار كرنا ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آبائنا

۶ _ نسلى اور قبائلى تعصبات ناپسنديدہ اور مكروہ چيز ہے جو حق كو قبول نہ كرنے كى زمين فراہم كرتے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۷_ نسلوں كى گمراہى يا ہدايت ميں اقوام كے آداب و اطوار اور رسوم اثر انداز ہوتى ہيں _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

۸_ انسانوں كو قرآن كريم اور احكام دين سے روكنے كے لئے اندھى تقليد شيطانى حيلوں اور سازشوں ميں سے ہے _

لا تتبعوا خطوات الشيطان و اذا قيل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

'' بل نتبع ...'' سے مراد اندھى تقليد ہے ماقبل آيات كى روشنى ميں يہ '' خطوات الشيطان'' كا ايك مصداق ہے _اندھى تقليد كا مفہوم جملہ''و لو كان آباؤہم ...'' سے استفادہ ہوتاہے _

۹_ زمانہ بعثت كے لوگوں كا شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام قرار دينا اسكى بنياد ان كى اپنے اسلاف كى تقليد تھي_كلوا مما فى الأرض ...و اذا قيل لهم اتبعوا قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا

آيت ۱۶۵ ، ۱۶۸ كى روشنى ميں ''ما الفينا عليہ آبائنا''كے مورد نظر مصاديق شرك اختيار كرنا اور بعض حلال اشياء كو حرام جانناہے_

۱۰_ احمقوں اور ناقابل ہدايت لوگوں كى پيروى اور تقليد كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ عمل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون

۱۱_ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا عاقلانہ امر ہے _اتبعوا ما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون قرآن حكيم اور احكام الہى كى پيروى كو ضرورى قرار دينا اور پھر مشركين كى اپنے گمراہ و احمق اسلاف كى پيروى كرنے كى روش كو غير منطقى قرار دينا اور اس پر تنقيد كرنا يہ اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ قرآن حكيم اور احكام الہى كى اتباع كرنا ايك عاقلانہ معاملہ ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت كرنے والے ہيں _

و اذا قيل لهم اتبعواما انزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۳ _ قرآن كريم نے مخالفين كو منطق و ا ستدلال كے

۵۷۹

ساتھ مخاطب قرار ديا ہے_اولوكان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۴ _ عقل كى قدر و منزلت اور اسكى پيروى _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۵ _ عقل اور دين ہم جہت و ہم آہنگ ہيں _اتبعوا ما نانزل الله او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا

۱۶ _ انسانوں كى ہدايت قبول كرنے ميں عقل ايك سرمايہ ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً و لا يهتدون

۱۷_ شرك اختيار كرنا حماقت كى دليل ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئاً

۱۸_ ہدايت يافتہ اور صاحب عقل انسانوں كى تقليد يا پيروى كرنا بے جا نہيں ہے _او لو كان آباؤهم لا يعقلون شيئا و لا يهتدون يہ جملہ '' او لو كان ...'' بيان كررہاہے كہ فقط تقليد كرنے كو رد نہيں كيا جاسكتا بلكہ وہ تقليد قابل مذمت ہے جس ميں وہ شخص جسكى تقليد كى گئي ہے اہل فہم و خرد اور ہدايت يافتہ نہ ہو_

۱۹_ اسلاف كى تقليد كرنا جاہلانہ اور غير منطقى و تيرہ ہے _قالوا بل نتبع ما الفينا عليه آباء نا او لو كان آباؤهم لا يعقلون

احكام : احكام كا وحى ہونا ۳

اسلاف: اسلاف كى پيروى كے نتائج۹; اسلاف كے آداب و رسوم كى پيروى كرنا ۴،۵

اسلام: اسلام كى پيروى كے دلائل ۳; اسلام كا وحى ہونا ۳

اطاعت: شيطان كى اطاعت ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات سے منہ موڑنا ۵; پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۲

تعصب: تعصب كے اثرات و نتائج ۶; نسلى تعصب ۶

قومى تعصب ۶; تعصب كا ناپسنديدہ ہونا ۶

تعقل: تعقل نہ ہونے كى علامتيں ۱۷

تقليد: اندھى تقليد كے نتائج ۸; احمقوں كى تقليد ۱۰; عقلاء كى تقليد ۱۸; گمراہوں كى تقليد ۱۰; ہدايت يافتہ

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785