تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200944 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

لوگوں كى تقليد ۱۸; اسلاف كى تقليد ۱۹; پسنديدہ تقليد ۱۸;ناپسنديدہ تقليد ۱۰،۱۹

حق : حق قبول نہ كرنے كى زمين كا فراہم ہونا ۶

دين : دين كو پہنچنے والے نقصانات كى شناخت ۵،۷; دين كى پيروى كرنے كى اہميت ۱; دين كى پيروى كرنا ۲،۱۱; دين سے منہ موڑنے كے عوامل ۵; دين كى پيروى كرنے ميں موانع ۸; دين كا ہدايت كرنا ۱۲

راہ و روش (وتيرہ): جاہلانہ راہ و روش ۱۹

رسومات: معاشرتى رسومات كے نتائج ۷،۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۱۷; شرك كى زمين ہموار ہونا ۹

عقل: عقل كى قدر و قيمت ۱۴; عقل كى پيروى كرنے كى اہميت ۱۴; عقل كى اہميت و كردار ۱۶; عقل اور دين كى ہم آہنگى ۱۵

عمل: پسنديدہ عمل ۱۱; ناپسنديدہ عمل ۶،۱۰

قرآن كريم : قرآن كريم كى اتباع كرنے كى اہميت ۱; قرآن كريم كى اتباع۲،۱۱; قرآن كريم كى اتباع كے دلائل۳; قرآن كريم سے منہ موڑنے كے عوامل ۵; قرآن كريم اور مخالفين ۱۳; قرآن كريم كى اتباع ميں موانع ۸; قرآن كريم كا وحى ہونا ۳

گمراہى : گمراہى كى زمين تيار ہونا ۷

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينے پر اصرار ۹

مخالفين : مخالفين كے ساتھ منطقى برتاؤ۱۳; مخالفين كے ساتھ برتاؤ كى روش ۱۳

مشركين : صدر اسلام كے مشركين ۹; مشركين اور پيامبر اسلام(ص) كى دعوت ۴

ہدايت: ہدايت كى زمين آمادہ ہونا ۷; ہدايت كے عوامل ۱۲،۱۶;ہدايت كے موانع ۸

۵۸۱

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاء وَنِدَاء صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ ( ۱۷۱ )

جو لوگ كافر ہوگئے ہيں ان كےپكار نے والے كى مثال اس شخص كى ہے جوجانوروں كو آواز دے اور جانور پكار اورآواز كے علاوہ كچھ نہ بنيں اور نہ سمجھيں _ يہ كفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہيں _انھيں عقل سے سروكار نہيں ہے (۱۷۱)

۱ _ كفار كى مثال اس حيوان كى سى ہے جو سماعتوں كے ادراك سے عاجز و ناتوان ہے _و مثل الذين كفروا كمثل الذين ينعق بما لا يسمع ''ينعق'' كا مصدر ''نعق'' ہے اسكا معنى وہ آواز ہے جو چرواہا بكريوں ، بھيڑوں كو ہانكنے كے لئے نكالتاہے ''ما لا يسمع'' سے مراد بھيڑيں و غيرہ ہيں _مفسرين كے مطابق آيہ مجيدہ ميں ضدى اور ڈھيٹ كفار كو بھيڑوں سے اور معارف دينى كى دعوت دينے والوں كو چرواہے سے تعبير كيا گياہے _ بنابريں مشبہ كا ايك جزء ذكر نہيں ہوا_ پس تقدير كلام يوں ہے ''مثل الذين كفروا والذى يدعوهم الى الايمان كمثل الذى ''

۲ _ انبياء (عليہم السلام) كى دعوت سے كفا ر فقط چيخ و پكار اور شور و غوغا ہى سمجھتے ہيں _و مثل الذين كفروا كمثل الذين ينعق بما لا يسمع الا عاء و نداء مذكورہ مطلب كى روشنى ميں اس جملہ '' مثل الذين كفروا الا دعاء و ندائ'' كا معنى يوں بنتاہے ايمان كى دعوت دينے والوں كے حوالے سے كفار كى مثال بھيڑوں سى ہے اور دعوت دينے والے چرو ا ہے جسطرح بھيڑيں چرواہے كے امر و نہى يا ڈانٹ ڈپٹ سے فقط شور و غوغا سمجھتى ہيں اس طرح كفار بھى انبياءعليه‌السلام كى دعوت سے كسى حقيقت كو درك نہيں كرپاتے_

۳ _ قرآن كريم كے كافر حق سننے ، حق گوئي اور حق ديكھنے سے ناتوان و عاجز ہيں _و مثل الذين كفروا صم بكم عمي

'' صم ، بكم ، عمي'' كا بالترتيب معنى بہرہ ، گونگا اور اندھا ہے _ ايسا معلوم ہوتاہے كہ ماقبل آيت كى روشنى ميں '' كفروا'' كا متعلق'' ما انزل الله '' ہے يعنىمثل الذين كفروا بما انزل الله

۴ _ دينى حقائق كے ديكھنے ، سننے اور بيان كرنے كى كفار

۵۸۲

كى ناتوانى نے انہيں دينى معارف اور قرآنى حقائق كے ادراك سے محروم كرديا ہے _صم بكم عمى فهم لا يعقلون '' لا يعقلون'' كا مفعول '' ما انزل اللہ '' يعنى الہى معارف اور قرآنى حقائق ہيں _

۵ _ انسانى حواس ( سننا، ديكھنا اور ...) شناخت و معرفت كے وسائل ہيں _صم بكم عمى فهم لا يعقلون

۶ _ كفار نے چونكہ دينى معارف و حقائق كے بارے ميں سوال كرنا اور جستجو چھوڑادى ہے اس لئے ان كے ادراك سے بھى عاجزو ناتواں ہيں _بكم فهم لا يعقلون كفار كے بہرہ ہونے پر جملہ''فھم لا يعقلون'' كى تفريع ممكن ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ حقيقت كى شناخت و معرفت كے وسائل ميں ايك اس كے بارے ميں سوال، جستجو اور تحقيق ہے جبكہ كفار اس وسيلہ سے بھى محروم ہيں گويا حقيقت كى تلاش كے درپے نہيں ہيں _

۷_ حقيقت كے بارے ميں سوال اور جستجو اسكے درك كرنے كا ايك راستہ ہے_بكم فهم لا يعقلون

۸_ دينى معارف و حقائق كے ادراك اور قبوليت سے انسان كے ادراك كى قوتوں كى قدر و منزلت كا تعين ہوتاہے_

صم بكم عمى فهم لا يعقلون كفار باوجود اس كے كہ سننے اور كى صلاحيت ركھتے ہيں انہيں بہرہ، گونگا اور اندھا قرار دينا ہوسكتاہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہوكہ انسانى ادراك كى قوتيں اگر دينى معارف كو سمجھنے كا وسيلہ قرار نہ پا ئيں تو گويا در حقيقت ان كا ہونا نہ ہونے كے برابر ہے اور بالكل قيمت نہيں ركھتا_

۹_ مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _

''مثل الذين كفروا فى دعائك اياهم اى مثل الداعى لهم الى الايمان كمثل الناعق فى دعائه المنعوق به من البهائم التى لا تفهم و انما تسمع الصوت فكما ان الانعام لا يحصل لها من دعاء الراعى الا السماع دون تفهم المعنى فكذلك الكفار لا يحصل لهم من دعائك اياهم الى الايمان الا السماع دون تفهم المعني'' (۱)

اے رسول (ص) ان كفار كو دعوت دينے ميں تيرى مثال چرواہے كى سى ہے جو بھيڑوں كو بلاتاہے اور وہ نہيں سمجھتيں كہ چرواہا كيا كہہ رہاہے وہ فقط شور و غوغا سنتى ہيں _ پس جسطرح بھيڑيں چرواہے كى فقط آواز سنتى ہے اور كوئي معنى درك نہيں كرتيں اس طرح كفار بھى تيرى ايمان كى دعوت كو فقط ايك آواز سنتے ہيں اور معنى درك نہيں كرتے''_

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۶۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵ ح ۴۹۵_

۵۸۳

ادراك: نسانى ادراك كى قوتوں كى قدر و قيمت ۸

اقدار: اقدار كے معيارات۸

انسان: انسانى بينائي ۵ ;انسانى حواس ۵; انسانى سماعت ۵

تشبيہات: حيوان سے تشبيہ ۱; بھيڑ سے تشبيہ ۹;

تعقل: تعقل نہ كرنے كے نتائج۶;

حقائق : حقائق سمجھنے كى روش ۷;

دين: دين شناسى كى اہميت ۸; دين كى قبوليت ۸; فہم دين سے محروم افراد ۶

روايت: ۹

سوال: سوال كے نتائج ۷

شناخت: شناخت كا وسيلہ ۵

قرآن حكيم: قرآنى مثاليں ۱

كفار: كفار كى تشبيہ ۱; كفار كا عاجز ہونا ۳،۴،۶; كفار اور حق ديكھنا ۳; كفار اور حق كى سماعت ۳; كفار اور حق گوئي ۳; كفار او رانبياءعليه‌السلام كى دعوت ۲; كفار اور پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۹; كفار اور دين فہمى ۴،۶; كفار كا بہرہ پن ۴; كفار كا اندھا پن ۱،۲،۴; كفار كا گونگا پن ۴; كفار كى نافہمى ۹;كفار كى خصوصيات ۱،۲، ۳ ،۴ ،۶

كفر: قرآن كا كفر ۳

مثاليں : حيوان كى مثال ۱

نفسيات: تربيتى نفسيات۷

۵۸۴

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ( ۱۷۲ )

صاحبان ايمان جو ہم نے پاكيزہ رزق عطاكيا ہے اسے كھاؤ اور دينے والے خدا كاشكريہ ادا كرو اگر تم اس كى عبادت كرتےہو (۱۷۲)

۱ _ حلال غذاؤں سے استفادہ كرنا اور ان كو كھانا جائز ہے_كلوا من طيبات ما رزقناكم

۲ _پاكيزہ نعمتوں اور غذاؤں كو مسلمانوں كو حرام قرار نہيں دينا چاہيئے اور نہ ہى ان كے فوائد سے خود كو محروم كريں _

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم

۳ _ انسانوں كو الہى نعمتيں اور غذائيں عطا كرنے كا اصلى مقصد يہ ہے كہ مومنين ان نعمتوں سے استفادہ كريں _*

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم نعمتوں سے استفادہ ''كلوا من طيبات ما رزقناكم'' كے لئے قرآن كريم نے اہل ايمان كو نصيحت كرتے ہوئے صراحت فرمائي ہے كہ اللہ تعالى نے ان نعمتوں كو ان كے لئے رزق و روزى قرار ديا ہے جبكہ آيہ مجيدہ ۱۶۸'' كلوا مما في الأرض'' ميں يہ نہيں فرمايا كہ ہم نے زمين كے تمام وسائل اور رزق و روزى تمام نسانوں كے لئے قرار ديئے ہيں _ ان دو مختلف تعبيرات كے تقابل سے مندرجہ بالا مطلب اخذ كيا گيا ہے_

۴ _ غذاؤں ميں بنياد اور اصل قانون ان كا پاك اور حلال ہونا ہے _كلوا من طيبات ما رزقناكم

۵_ خبيث غذاؤں ( ناپاك اور جو انسانى طبيعت كے ناموافق ہوں ) سے استفادہ كرنا حرام ہے_ كلوا من طيبات ما رزقناكم

۶ _ غذاؤں ميں حفظان صحت كے اصولوں كى طرف اسلام كى توجہ ہے_كلوا من طيبات ما رزقناكم

۷_ اللہ تعالى ہے جو اپنے بندوں كو رزق و روزى دينے والا ہے _رزقناكم

۸_ بارگاہ اقدس رب العالمين ميں سپاس گزارى اور

۵۸۵

اسكى نعمتوں كا شكر ادا كرنا ضرور ى ہے _و اشكروا الله

۹_ غذا تناول كرنے اور اللہ تعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنے كے بعد پروردگار كى بارگاہ ميں شكرگزار ہونا لازمى ہے _

كلوا من طيبات ما رزقناكم و اشكروالله

۱۰_اللہ تعالى كى بندگى اور عبادت و اطاعت ميں توحيد كا لازمہ يہ ہے كہ اسكے حلال كو حلال اور خدا تعالى كے حرام كو حرام سمجھا جائے_كلوا من طيبات ما رزقناكم ان كنتم اياه تعبدون

يہ دو جملے''كلوا'' اور '' واشكروا'' ہوسكتاہے جواب شرط ''ان كنتم'' كى حكايت كرتے ہوں _ مندرجہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ پہلا جملہ جواب شرط كے طور پر ہو_ ان دو فرامين ''كلوا''،''واشكروا'' كى شرط چونكہ عبادت ہے پس اس ميں اطاعت كا مفہوم بھى موجود ہے _ '' اياہ'' كا ''تعبدون'' پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس اس سے عبادت و اطاعت ميں توحيد كا مفہوم نكلتاہے يعنى فقط تيرى ہى عبادت و اطاعت كرتے ہيں _

۱۱ _ بارگاہ رب العزت ميں سپاس گزار ہونا اسكى بندگى اور عبادت و اطاعت ميں توحيد كى علامت و دليل ہے _

واشكروا لله ان كنتم اياه تعبدون

۱۲ _ صدر اسلام كے بعض مسلمان بعض طيبات كو حرام خيال كرتے تھے اور ان كو كھانے سے اجتناب كرتے _*

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ان كنتم اياه تعبدونطيبات كے مباح ہونے پر اللہ تعالى كا تاكيد فرمانا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ بعض مسلمان بعض طيبات كے استعمال سے اجتناب كرتے تھے_ بعد والى آيہ مجيدہ '' انما حرّم ...'' بيان كرتى ہے كہ ان كے اجتناب كى وجہ ان كا يہ عقيدہ تھاكہ بعض طيبات حرام ہيں _

۱۳ _ اپنے اوپر طيبات اور اللہ تعالى كى نعمتوں كو حرام قرار دے كر زہد اختيار كرنا نادرست اور بے جا عمل ہے_

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ان كنتم اياه تعبدون

احكام: ۱،۲،۴،۵

اصالة الحلية۴

اطاعت: اطاعت الہى ۱۰; اطاعت الہى كى علامتيں ۱۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رزاقيت ۷; اللہ تعالى كى عنايات۳

انسان: انسانوں كا رزق ۷

۵۸۶

توحيد: عبادتى توحيد كے نتائج۱۰; توحيد عبادتى كى علامتيں ۱۱

خبائث: خبائث سے استفادہ ۵

دين : دين پر قائم رہنے كے عوامل ۱۰

رزق : رزق سے استفادہ ۱،۳; پاكيزہ رزق ۱; رزق كا سرچشمہ ۷

زہد: ناپسنديدہ زہد ۱۳

شكر: اللہ تعالى كے شكر كے نتائج ۱۱; شكر الہى كى اہميت ۸،۹;نعمت كاشكر ۸

طيبات: طيبات سے استفادہ ۲; طيبات كو حرام قرار دينا ۱۲،۱۳

عبوديت: عبوديت كے نتائج۱۰; عبوديت كى علامتيں ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۳

غذائيں : غذاؤں كے احكام ۴،۵; خبيث غذائيں ۵

غذا تناول كرنا : غذا تناول كرنے كے آداب ۹; غذا ميں حفظان صحت كے اصولوں كى اہميت ۶

مباحات:۱ مباحات كو حرام قرار دينا ۲

محرمات:

۵۸۷

مسلمان : مسلمانوں كى ذمہ دارى ۲; صدر اسلام كے مسلمان ۱۲

مومنين: مومنين كے درجات ۳

نعمت: نعمت سے استفادہ ۲،۹; نعمت كى خلقت كا فلسفہ ۳

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( ۱۷۳ )

اس نے تمھارے اوپر بس مردار ،خون ، سور كا گوشت اور جو غير خدا كے نامپر ذبح كيا جائے اس كو حرام قرارديا ہےپھر بھى اگر كوئي مضطر ہوجائے اور حرامكا طلب گار اور ضرورت سے زيادہ استعمالكرنے والا نہ ہو تو اس كے لئے كوئي گناہنہيں ہے _ بيشك خدا بخشنے والا اورمہربان ہے (۱۷۲)

۱ _ مردار، خون، سور كا گوشت اور ايسے جانور كا گوشت كھانا حرام ہے جس پر غير خدا كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو_

انما حرم عليكم المية والدم ولحم الخنزير و ما اهل به لغير الله

''اہل'' كا مصدر''اہلال'' ہے اسكا معنى ہے آواز اونچى كرنا اور آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد (جيسا كہ مفسرين نے بيان كيا ہے ) نام لينا ہے_ لغير اللہ ميں لام متعدى كرنے كے لئے آيا ہے _ بنابريں ''ما اہل بہ لغير اللہ '' يعنى وہ جانور جس پر ( ذبح كرتے ہوئے ) غير خدا كا نام ليا گيا ہو_

۲ _ اضطراب و اضطرار كے وقت مردار ، خون ، خنزير كا گوشت اور اس ذبح شدہ جانور كو كھانا جائز ہے جس پر غير خدا كا نام ليا گيا ہو_فمن اضطر فلا اثم عليه

۳ _ مردار، خون ، خنزير كا گوشت، وہ جانور جوبت كے لئے ذبح كيا گيا ہو اور وہ جانور جو غير خدا كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو اسكا گوشت، يہ سب خبيث اور نجس غذاؤں ميں سے ہے_كلوا من طيبات انما حرم عليكم الميتة و ما اهل به لغير الله

۴ _مشركين بعض جانوروں كو بتوں كے لئے اور ان كے نام پر قربانى كرتے تھے_و ما اهل به لغير الله

فعل ماضى ''اہل'' اس امر كى حكايت كررہاہے كہ جانور غير خدا كانام لے كر ذبح كيئے جاتے اور بتوں كے لئے اور بتوں كے نام پر ذبح ہوتے تھے_ يہ چيز زمانہ جاہليت ميں رائج تھي_

۵ _ شرك و بت پرستى كے مظاہر سے اسلام نے نبرد آزمائي كى _انما حرم ما اهل به لغير الله

۵۸۸

۶ _ اضطرار و اضطراب كى حالت ميں محرمات كے ارتكاب سے گناہ و معصيت نہيں ہوتى _فمن اضطر فلا اثم عليه

۷_ جو لوگ ستم گرى اور تجاوز كرتے ہوئے محرمات كے ارتكاب كے لئے مضطر ہوں تو ان پر مضطر كا حكم نہيں آتا ( يعنى محرمات سے استفادہ جائز ہے)_فمن اضطر غير باغ و لا عادت فلا اثم عليه '' غيرباغ و لا عاد'' اس صورت ميں كہ نہ تو ستم گر ہو اورنہ تجاوز كرنيوالا'' يہ ''اضطر'' كے نائب فاعل كے لئے حال ہے _ پس يہ حكم '' فلا اثم عليہ'' ايسے مضطر شخص كو بيان كرتاہے جو ستم و تجاوز كى وجہ سے مضطر نہ ہوا ہو_

۸_ وہ لوگ جو ستم گرى اور تجاوز كرتے ہوئے محرمات كا ارتكاب كريں اگر چہ اضطرار كى بناپر محرمات انجام ديں پھر بھى گناہگار ہيں _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۹_ اللہ تعالى غفور ( بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے_ان الله غفور رحيم

۱۰_ محرمات كے حرام ہونے كا معيار باقى رہتاہے اگرچہ ان كے ارتكاب كے لئے انسان مضطر ہوجائے_

فمن اضطر فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

اضطرار كى حالت ميں محرمات كے ارتكاب كا بيان كرنا اور اس كے بعد اللہ كى صفت ''غفور'' بيان كرنا گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ محرمات كى حرمت كا معيار حتى حالت اضطرار ميں بھى باقى رہتاہے (الميزان)

۱۱ _ حالت اضطرار ميں محرمات كے ارتكاب كو جائز قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كى بناپر ہے_

فمن اضطر ...فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۲ _ جو لوگ حالت اضطرار ميں محرمات كا ارتكاب كرتے ہيں ان كو گناہگار شمار نہ كرنا اللہ تعالى كى مغفرت كا ايك پرتو ہے _فمن اضطر ...فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۳ _ جو لوگ محرمات كے ارتكاب پر مضطر ہوئے ہيں انہيں ضرورت كى حد سے آگے نہيں بڑھنا چاہيئے*_

فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''غير باغ و لا عاد'' كا متعلق اسطرح كا كلمہ ہو ( فى اكل الميتة) پس اس جملہ '' فمن اضطر ...'' كا معنى يہ ہوگا جو شخص مردار كھانے اور ميں اضطرار كى كيفيت پيدا كرے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس استفادے ميں ستم اور تجاوز نہ ہو تو ايسے شخص پر كوئي گناہ نہيں ہے _

۱۴ _ دينى احكام و قوانين ميں جھكاؤ يا ملائمت اور ہنگامى ضرورتوں كو ان قوانين كے بنانے (تشريع) ميں لحاظ كيا گيا ہے _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۵۸۹

۱۵ _ دينى احكام اور تكاليف كا انعطاف پذير ہونا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك پرتو ہے _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۶_قانون سازوں كو چاہئے كہ قانون بناتے ہوئے ہنگامى ضروريات كو مدنظر ركھيں اور انكے لئے خصوصى احكام وضع كريں _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۱۷_ جو لوگ جان بوجھ كر خود كو اضطرارى حالات ميں مبتلا كريں تو ان پر مضطر كا حكم نہيں لگايا جاسكتا_فمن اضطر فلا اثم علي ہ فعل ''اضطر'' كو مجہول لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _

۱۸_ احكام كى تشريع ( قانون سازي)مختلف امور يا اشياء كو حلال قرار دينا اور بعض وسائل كے استعمال يا استفادہ كو حرام قرار دينا اللہ تعالى كے اختيار ميں ہے _كلوا من طيبات انما حرم عليكم الميتة والدم فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۱۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' قال الباغى الذى يخرج على الامام والعادى الذى يقطع الطريق لا يحل لهما الميتة (۱) اللہ تعالى كے اس كلام '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' كے بارے ميں اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے باغى سے مراد وہ شخص جو امام (حق ) كے خلاف قيام كرنے اور متجاوز (العادي) وہ ہے جو ڈاكہ ڈالے( پس اضطرار كى حالت ميں بھي) اس پر مردار كھانا جائز نہيں ہے_

۲۰_عبدالعظيم بن عبدالله الحسنى عن ابى جعفر عليه‌السلام محمد بن على الرضا عليه‌السلام قال سالته يابن رسول الله ما معنى قوله عزوجل '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه '' قال العادى السارق والباغى يبغى الصيدبطراً او لهواً لا ليعود به على عياله'' (۲) عبدالعظيم حسنى كہتے ہيں امام تقى الجوادعليه‌السلام سے ميں نے ''باغي'' اور ''عادي'' كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا عادى يعنى چورا اور باغى وہ شخص ہے جو سيرو تفريح كے لئے شكار پر جاتاہے نہ كہ اپنے اہل و عيال كے فائدہ كے لئے_

۲۱ _ محمد بن اسماعيل رفع الى ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله ''فمن اضطر غير باغ ولا عاد'' قال الباغى الظالم والعادى الغاصب اللہ تعالى كے اس كلام ''فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' كے بارے ميں امام صادق عليه‌السلام سے روايت ہے ''باغي'' سے

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۲۱۳ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۵۰۳_ ۲ )من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۳ ص ۲۱۷ ح ۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۴ ح ۵۰۱_

۵۹۰

مراد ظالم اور ''عادي'' سے مراد غاصب ہے _ (۱)

۲۲ _ محمد بن مسلم كہتے ہيں ''سألت اباعبدالله عليه‌السلام عن الرجل والمرأة يذهب بصره فياتيه الاطباء فيقولون نداويك شهراً او اربعين ليلة مستلقياً كذلك يصلي؟ فرخص فى ذلك و قال فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ''(۲) امام صادقعليه‌السلام سے ايسى عورت يا مرد كے بارے ميں ميں نے سوال كيا جس كى بينائي ضائع ہوچكى ہو _ طبيبوں نے اسے كہا ہے كہ تيرا ايك ماہ يا چاليس روز علاج كرتے ہيں البتہ شرط يہ ہے كہ چاليس دن چت ليٹو_ كيا وہ فرد پيٹھ كے بل ليٹےہوئے نماز پڑھ سكتاہے؟ تو امامعليه‌السلام نے اجازت دى كہ وہ ايسے كرسكتاہے اور فرمايا''فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ''_

۲۳ _محمد بن عذافر عن بعض رجاله عن ابى جعفر عليه‌السلام قال قلت له لم حرم الله عزوجل الخمر والميتة و الدم و لحم الخنزير؟ فقال ان الله تبارك و تعالى خلق الخلق ...و علم ما يضرهم فنهاهم عنه و حرمه عليهم ثم احله للمضطر فى الوقت الذى لا يقوم بدنه الا به فامره ان ينال منه بقدر البلغة لا غير ذلك ... (۳) محمد بن عزافر نے بعض افراد سے انہوں نے امام باقرعليه‌السلام سے سوال كيا كہ اللہ تعالى نے شراب ، مردار، خون اور سور كے گوشت كو حرام كيوں قرار ديا ہے ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا اللہ تعالى نے مخلوقات كو خلق فرمايا ... اور وہ جانتا تھا كہ كون سى چيز (انسانوں كے لئے) نقصان دہ ہے پس اس سے منع فرمايا اور اس چيز كو حرام قرار ديا اور پھر اس چيزكو مضطر كے لئے ايسى صورت ميں حلال قرار ديا كہ اسكا بدن صرف اسى سے قائم رہ سكتاہو پس اتنى مقدار ميں اس چيز كو حلال قرار ديا كہ جس سے اسكى ضرورت پورى ہوتى ہو نہ اس سے زيادہ

۲۴ _ امام صادق عليه‌السلام سے روايت ہے'' عشرة اشياء من الميتة ذكية العظم والشعر والصوف والريش والقرن والحافر والبيض و الانفخة واللبن والسن (۴) مردار كى دس چيز يں پاك اور قابل استفادہ ہيں ہڈي، بال، اون، پر ، سينگھ، ّسم، انڈا، مايہ پنير (مردہ بھيڑ، بكري) كے وجود ميں ايك خاص مواد ہوتاہے جو پنير بنانے كے كام آتاہے) دودھ اور دانت_

۲ _ محمد بن سنان كے فلسفہ احكام كے بيان كے بارے ميں سوالات كے جوابات ميں امام رضاعليه‌السلام تحرير فرماتے ہيں

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ص ۷۴ ح۱۵۱ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۷۴ ح ۳_ ۲) كافى ج/ ۳ ص ۴۱۰ ح۴ نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۵۴ ح ۵۰۰_

۳) علل الشرائع ص ۴۸۳ ح ۲، نورالثقلين ج/۱ص ۱۵۳ ح ۴۹۷_ ۴) خصال شيخ صدوق ج/۲ص۴۳۴ ح ۱۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۴ ح ۴۹۸_

۵۹۱

و حرم ما اهل لغير الله به و لئلا يسوى بين ما تقرب به اليه و بين ما جعل عبادة للشياطين و الاوثان لان فى تسمية الله عزوجل الاقرار بربوبيته و توحيده و ما فى الاهلال لغير الله من الشرك به والتقرب به الى غيره (۱) ايسا ذبيحہ جس كے ذبح كے وقت غير خدا كا نام ليا گيا ہو اللہ تعالى نے حرام قرار ديا ہے تا كہ جو چيز خدا تعالى كے تقرب كا باعث بنتى ہے اس ميں اور جو چيز شياطين اور بتوں كى عبادت كا ذريعہ بنتى ہے برابر نہ ہو اس ليئے كہ قربانى كرتے ہوئے اللہ تعالى كا نام لينا در اصل اسكى ربوبيت اور توحيد كا اقرار ہے اور غير خدا كا نام لينا شرك اور اللہ تعالى كے غير كا تقرب حاصل كرنا ہے _

احكام : ۱،۲،۷،۱۰،۱۳،۲۲،۲۴) احكام ثانوى ۲; احكام كا انعطاف پذير ہونا۱۴،۱۵; اضطرارى احكام كى تشريع ۱۶; احكام ثانوى كى تشريع ۱۶; احكام كا توقيفى ہونا ۱۸; فلسفہ احكام ۲۳،۲۵; اضطرارى احكام كا سرچشمہ ۱۱،۲۲،۲۳; احكام كى تشريع كا سرچشمہ ۱۸ اسماء اور صفات: رحيم ۹; غفور ۹

اضطرار: حالت اضطرار كے احكام ۲،۷،۱۰،۱۳،۱۷ ،۲۲، ۲۳; اضطرارى حالت ميں محرمات سے استفادہ ۲،۶،۷،۸،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳; باغى كا اضطرار ۷، ۸; متجاوز كا اضطرار ۷،۸; اضطرار كو پيدا كرنے كا حكم ۱۷; حالت اضطرار كى شرائط ۱۷; حالت اضطرار ميں باغى سے مراد كون ہے ۱۹،۲۰،۲۱; حالت اضطرار ميں عادى سے مراد كون ہے ۱۹،۲۰،۲۱; حالت اضطرار ميں حرمت كا معيار ۱۰

اقرار: اللہ تعالى كى ربوبيت كا اقرار ۲۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش كے مظاہر ۱۲; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۱۱،۱۵

بت : بتوں كے لئے قربانى خبائث ميں سے ہے ۳; بتوں كے لئے قرباني۴

بت پرستى : بت پرستى سے نبرد آزمائي۵

بيمار: بيمار كے احكام ۲۲

خنزير: خنزير كے گوشت كى حرمت ۱; خنزير كا گوشت خبائث ميں سے ہے ۳; خنزير كا گوشت كھانا ۲; خنزير كے گوشت كے حرام ہونے كا فلسفہ۲۳

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۲ ص ۹۳ ح ۱ باب ۳۳ ، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۳ ح ۴۹۶_

۵۹۲

خون: خون پينے يا استعمال كرنے كى حرمت ۱; خون خبائث ميں سے ہے ۳; خون كا استعمال كرنا ۲; خون حرام ہونے كا فلسفہ ۲۳

دين : دين اور تقاضے ۱۴

ذبح : ذبح كرتے ہوئے بسملہ كہنا ۲۵

ذبيحہ( ذبح شدہ جانور): بغير بسملہكے ذبيحہ كا حرام ہونا ۱; بغير بسملہ كے ذبيحہ كا خبائث ميں سے ہونا ۳; ذبيحہ كا بغير بسملہ كے ہونا ۲،۲۵; حرام ذبيحہ كى حرمت كا فلسفہ ۲۵;

روايت:۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

شراب: شراب كى حرمت كا فلسفہ ۲۳

شرك: شرك سے نبرد آزمائي ۵

شكار: تفريحى شكار ۲۰

غذائيں : غذاؤں كے احكام ۱،۲; خبيث خوراكيں ۳

قائدين : قائدين حق كے خلاف قيام ۱۹

قانون: دينى قوانين كى خصوصيات۱۴

قانون سازى : قانونسازى كى شرائط ۱۴،۱۶; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۸

گناہگار افراد: ۸

محرمات : ۱ محرمات ارتكاب كا گناہ ۸; بے گناہ شخص كے محرمات ۶

مردار: مردار كے پاك اجزاء ۲۴; مردار كے احكام ۲۴; مردار كے كھانے كى حرمت ۱; مردار كا خبيث ہونا ۳; مردار كھانا ۲; مردار كے حرام ہونے كا فلسفہ ۲۳

مشركين : مشركين كى قربانى ۴

۵۹۳

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۷۴ )

جو لوگ خدا كى نازل كيہوئي كتاب كے احكام كو چھپاتے ہيں اوراسے تھوڑى قيمت پربيچ ڈالتے ہيں وہ درحقيقت اپنے پيٹ ميں صرف آگ بھررہے ہيں اور خدا قيامت ان سے بات بھى نہ كرے گااور نہ انھيں پاكيزہ قراردے گا اور ان كےلئے دردناك عذاب ہے (۱۷۴)

۱ _ ان احكام و معارف كو چھپانا جن كو اللہ تعالى نے نازل اور آسمانى كتابوں ميں بيان اور ضبط فرماياہے گناہ كبيرہ ميں سےہے _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب لهم عذاب اليم

۲ _ جن لوگوں نے آسمانى كتابوں كے احكام و معارف پر پردہ اس ليئے ڈالا كہ اسطرح وہ دنيا كى متاع حاصل كريں گے تو قيامت كے روز يہ لوگ دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _ان الذين يكتمون ما انزل الله ...لهم عذاب اليم

۳ _ دين فروشى اور اسكے مقابل متاع دنيا كسب كرنا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _و يشترون به ثمنا قليلا اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار

۴_ دين فروشى اور آسمانى كتابوں كے احكام و معارف كو چھپانے سے حاصل ہونے والے فوائد سے استفادہ كرنا در حقيقت آگ كھانا اور شكم كو اس سے بھرنا ہے _به ثمناً قليلا اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار

۵ _ اشياء كے ظاہرى چہرے اور حقيقت كے علاوہ بھى ايك حقيقت بھى ركھتى ہيں _اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار اس جملہ ''اولئك ما ياكلون فى بطونهم

۵۹۴

لا النار'' ميں بيان شدہ آگ ظاہر يہ ہے كہ يہ اس متاع كا دوسرا چہرہ ہے جو دين فروشى كے ذريعہ حاصل ہوا ہے _

۶ _ دين فروشى اور دينى حقائق پر پردہ ڈالنے كے عوامل ميں سے ايك متاع دنيا كا حصول ہے _و يشترون به ثمنا قليلاً

۷_ علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے آگاہ انسانوں كى ذمہ دارى ہے كہ الہى احكام و معارف كو بيان كريں _

ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب

۸_ دينى علماء كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ آسمانى كتابوں كے حقائق اور احكام الہى پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں ملوث اور آلودہ ہوجائيں _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب

۹_ علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے آگاہ لوگوں كے لئے دنيا كى طرف لپكنا بہت بڑا خطرہ ہے _

ان الذين يكتمون ما انزل اللہ من الكتاب و يشترون بہ ثمنا قليلاً اولئك لہم عذاب اليم

۱۰_ علمائے اہل كتاب تورات و انجيل كے بعض احكام (بعض غذاؤں كا حلال ہونا اور بعض كا حرام ہونا ) كو چھپاتے تھے _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب'' الذين يكتمون ...'' كا مصداق مفسدين كے نزديك يہود و نصارى كے علماء ہيں _

۱۱ _ دين فروشى كے مقابل متاع دنيا كا حصول انتہائي كم قيمت ہے _و يشترون به ثمناً قليلا

''قليلاً'' توضيحى صفت ہے اور يہ اس امر كى حكايت كررہى ہے كہ دين فروشى كے مقابل جو قيمت بھى طے پاجائے بہت ہى كم ہے _

۱۲ _ تمام تر دنياوى فوائد اور منافع سے زيادہ قابل قدر اور باعظمت آسمانى كتابوں كے معارف و حقائق ہيں _

و يشترون به ثمنا قليلا

۱۳ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا لطف و عنايت دينى احكام و معارف پر پردہ ڈالنے والوں كے شامل حال نہيں ہوگا اور اللہ تعالى ان سے كلام نہيں فرمائے گا _ان الذين يكتمون ما انزل الله ...لا يكلمهم الله يوم القيامة جملہ ''و لا يكلمھم اللہ'' غضب الہى اور لطف و عنايت سے اجتناب كے لئےكنايہ ہے _

۱۴ _ آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردہ ڈالنے والوں كو اللہ تعالى گناہوں اور آلودگيوں سے پاك نہيں فرمائے گا_

ان الذين يكتمون ما انزل الله لا يزكيهم

۱۵ _ گناہگار قيامت كے دن آتش جہنم كے علاوہ روحى

۵۹۵

اور نفسياتى عذابوں ميں بھى مبتلا ہوں گے _و لا يكلمهم الله يوم القيامة

۱۶ _ اللہ تعالى كے لطف و كرم كے شامل حال ہو نے اور گناہوں ، آلودگيوں سے پاك ہونے كى صورت ميں قيامت كے دردناك عذاب سے نجات مل سكتى ہے _و لا يكلمهم الله يوم القيامة و لا يزكيهم و لهم عذاب اليم

۷ ۱_ آسمانى كتابوں كے حقائق و معارف كو بيان كرنے والوں اور دين دار، ذمہ دار علماء كو قيامت كے دن اللہ تعالى اپنے الطاف سے نوازے گا اور ان كے ساتھ كلام فرمائے گا _ان الذين يكتمون لا يكلمهم الله يہ مفہوم اس جملہ '' ان الذين لا يكلمھم اللہ '' سے ماخود ہے _

۱۸_ دين دار اور ذمہ دار علماء تزكيہ الہى كى نعمت سے بہرہ مند ہوں گے اور قيامت كے دن اللہ تعالى ان سے ہم كلام ہوگا_ان الذين يكتمون ما انزل الله لا يكلمهم الله يوم القيامة و لا يزكيهم

۱۹_ آمدنى كو ناجائز راستوں سے كمانا حرام اور اللہ تعالى كے عذاب كا باعث ہے _و يشترون به ثمناً قليلاً اولئك لا يكلمهم الله و لهم عذاب اليم

آسمانى كتاب: آسمانى كتابوں كى تعليمات كى قدر و منزلت ۱۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنا ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كى سزا ۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كا گناہ ۱،۸; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والوں كا گناہ ۱۴

احكام:

اللہ تعالى : لطف الہى كے نتائج ۱۶; قيامت ميں اللہ تعالى كا ہم كلام ہونا ۱۳ ،۱۷،۱۸; اللہ تعالى كے عذاب ۱۹

انجيل : انجيل كے بعض حصوں پر پردہ ڈالنا ۱۰

اہل جہنم : ۱۵

تورات: تورات كے بعض حصوں پر پردہ ڈالنا ۱۰

حق : حق بيان كرنے والے قيامت ميں ۱۷; حق بيان كرنے والوں كے فضائل ۱۷; حق چھپانے كا گناہ ۸; حق چھپانے والوں كا گناہ ۱۴

۵۹۶

دنيا طلبي: دنيا طلبى كے نتائج ۶; دنيا طلبى كا خطرہ ۹

دين: دينى تبليغ ۷; دين پر پردہ ڈالنے والوں كى دنيا طلبى ۲; دين پر پردہ ڈالنے والوں كو عذاب ۲; دين كو چھپانے كے اسباب ۶; دين پر پردہ ڈالنے كى سزا ۲; دين پر پر دہ ڈالنے كا گناہ ۱،۸; دين پر پردہ ڈالنے والوں كا آخرت ميں محروم ہونا ۱۳

دين فروش لوگ: دين فروشوں كا آگ كھانا ۴

دين فروشى : دين فروشى كى قيمت ۱۱; دين فروشى كے فوائد سے استفادہ ۴; دين فروشى كے عوامل ۶; دين فروشى كا گنا ہ ۳

سزا : سزا كے موجبات ۲

عذاب: اہل عذاب ۲،۱۵; دردناك عذاب ۲،۱۶; عذاب سے نجات كے اسباب ۱۶; عذاب كے درجات ۲،۱۶; عذاب كے موجبات ۱۹

علماء : علمائے دين كى تبليغ ۷; دين دار علماء كا تزكيہ ۱۸; علمائے دين كى دنياطلبى ۹ دين دار علماء قيامت ميں ۱۷،۱۸; دين دار علماء كے فضائل ۱۷،۱۸; علمائے دين كى ذمہ دارى ۷; علمائے دين كو تنبيہ ۸،۹

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور انجيل ۱۰; علمائے اہل كتاب اور تورات ۱۰; علمائے اہل كتاب اور حقائق پر پردہ ڈالنا۱۰

كمائي ( آمدني): كمائي كے احكام ۱۹; ناجائز كمائي كا حرام ہونا ۱۹; ناجائز كمائي كى سزا ۱۹

گناہ : گناہ سے پاك ہونے كے نتائج ۱۶; گناہوں سے پاك ہونا ۱۴; گناہان كبيرہ ۱،۳

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب ۱۵; گناہگاروں كو نفسياتى اور روحى عذاب ۱۵; گناہگار جہنم ميں ۱۵

لطف الہى : لطف الہى سے محروم لوگ ۱۳; وہ لوگ لطف الہى جن كے شامل حال ہے ۱۷

محرمات : ۱۹

موجودات: موجودات كى حقيقت ۵; موجودات كا ظاہر ۵

۵۹۷

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ( ۱۷۵ )

يہى وہ لوگ ہيں جہنوں نے گمراہى كو ہدايت كے عوض اورعذاب كو مغفرت كے عوض خريد كيا ہے آخريہآتش جہنم پر كس قدر صبر كريں گے (۱۷۵)

۱ _ دين فروش اور آسمانى كتابوں كے احكام و معارف كو چھپانے والے ضلالت و گمراہى كا شكار اور ہدايت سے دور لوگ ہيں _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى

۲ _ دين فروش اور آسمانى كتابوں كے حقائق كو چھپانے والے اللہ تعالى كى مغفرت سے محروم اور آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے _اولئك الذين اشتروا العذاب بالمغفرة

۳ _ آتش جہنم طاقت فرسا اور ناقابل برداشت ہے _فما اصبرهم على النار

۴ _ آتش جہنم كو برداشت كرنے كا گمان اور اسكے مقابل لاپرواہ ہونا بہت ہى عجيب اور نامعقول امر ہے _فما اصبرهم على النار

۵ _ علمائے اہل كتاب آسمانى كتابوں كے حقائق چھپانے كى وجہ سے گمراہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے لئے عذاب الہى كمايا _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة

۶ _ بے دين اور غير ذمہ دار علماء اللہ تعالى كى مغفرت سے محروم ہوں گے اور آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے_

اولئك الذين اشتروا العذاب بالمغفرة فما اصبرهم على النار

۷_ آسمانى كتابيں اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت بخش اور مغفرت الہى كو جذب كرنے والے ہيں _ان الذين يكتمون اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة

۸_ آسمانى كتابوں كے حقائق كو بيان كرنا ہدايت كے

۵۹۸

حصول اور مغفرت الہى كا موجب ہے _ان الذين يكتمون اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة مذكورہ مطلب آيت كے مفہوم سے ماخوذ ہے _

۹ _گمراہ اور گناہگار افراد قيامت كے طاقت فرسا عذاب ميں مبتلا ہوں گے _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى فما اصبرهم على النار

۱۰_ ''عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''فما اصبرهم على النار'' فقال ما اصبرهم على فعل ما يعلمون انه يصيرٌ هم الى النار ''(۱) اللہ تعالى كے اس كلام '' فما اصبرھم على النار'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كس چيز نے انكو صبر ديا ايسے عمل كى انجام دہى پر جسكے بارے ميں جانتے تھے كہ اسكا نتيجہ آتش جہنم ہوگا_

۱۱_ اللہ تعالى كے اس كلام ''فما اصبرہم على النار'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام ے فرمايا''ان معناه ما اجرا هم على النار (۲) يعنى كس چيز نے ان كو جرا ت دى كہ ايسے اعمال انجام ديں جس كے نتيجے ميں وہ لوگ آتش جہنم ميں جائيں گے _

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابيں چھپانے كے نتائج۵; آسمانى كتابوں كے حقائق بيان كرنا ۸; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والے ۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والوں كى گمراہى ۱; آسمانى كتابوں كى اہميت ۷; آسمانى كتابوں كا ہدايت كرنا ۷

اللہ تعالى : بخشش الہى ۲،۸; اللہ تعالى كى بخشش كے لئے زمين ہموار ہونا ۷; اللہ تعالى كى طرف سے عذاب ۵

امور: تعجب آور امور۴

اہل جہنم:۲،۶،۹

بخشش: بخشش كے عوامل ۸; بخشش سے محروم لوگ ۲،۶

جہنم: آتش جہنم ۳،۴،۶; جہنم كى خصوصيات۳،۴

حق: حق پردہ ڈالنے كے نتائج ۵;حق چھپانے والوں كى سزا ۲; حق چھپانے والوں كا محروم ہونا ۲

دين: دين كى اہميت ۷; دين كا ہدايت كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۶۸ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۵۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۲ ص ۴۷۰ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۵۰۹_

۵۹۹

دين فروش لوگ: دين فروش جہنم ميں ۲; دين فروشوں كى سزا ۲; دين فروشوں كى گمراہى ۱;دين فروشوں كا محروم ہونا ۱،۲

روايت:۱۰،۱۱

صبر: آگ پر صبر سے مراد۱۰،۱۱

عذاب: اہل عذاب ۵،۶،۹; عذاب كے درجات ۹; عذاب كے موجبات ۵،۶،۹،۱۰،۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴

علماء : بے عمل علماء كو عذاب ۶; بے عمل علماء جہنم ميں ۶; بے عمل علماء كا محروم ہونا ۶

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كو عذاب ۵; علمائے اہل كتاب كى گمراہى ۵

گمراہ لوگ: ۱،۵ گمراہوں كو اخروى عذاب ۹

گمراہي: گمراہى كے اسباب ۵

گناہگار لوگ: گناہگاروں كو اخروى عذاب ۹

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۸; ہدايت سے محروم لوگ ۱

ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ( ۱۷۶ )

يہ عذاب صرف اس لئے ہے كہ الله نے كتاب كو حقكے ساتھ نازل كيا ہے اور اس ميں اختلافكرنے والے حق سے بہت دور ہو گر جھگڑےكررہے ہيں (۱۷۶)

۱ _ آسمانى كتابوں ( تورات، انجيل ، قرآن اور ...) كو نازل كرنے والا اللہ تعالى ہے _

ذلك بان اللہ نزل الكتاب

'' الكتاب'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے پس سارى آسمانى كتابوں كو شامل ہے _

۲ _ آسمانى كتابوں كے حقائق دنيا دار علماء كے مفادات

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785