تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201008 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

لوگوں كى تقليد ۱۸; اسلاف كى تقليد ۱۹; پسنديدہ تقليد ۱۸;ناپسنديدہ تقليد ۱۰،۱۹

حق : حق قبول نہ كرنے كى زمين كا فراہم ہونا ۶

دين : دين كو پہنچنے والے نقصانات كى شناخت ۵،۷; دين كى پيروى كرنے كى اہميت ۱; دين كى پيروى كرنا ۲،۱۱; دين سے منہ موڑنے كے عوامل ۵; دين كى پيروى كرنے ميں موانع ۸; دين كا ہدايت كرنا ۱۲

راہ و روش (وتيرہ): جاہلانہ راہ و روش ۱۹

رسومات: معاشرتى رسومات كے نتائج ۷،۹

شرك: شرك كے اثرات و نتائج ۱۷; شرك كى زمين ہموار ہونا ۹

عقل: عقل كى قدر و قيمت ۱۴; عقل كى پيروى كرنے كى اہميت ۱۴; عقل كى اہميت و كردار ۱۶; عقل اور دين كى ہم آہنگى ۱۵

عمل: پسنديدہ عمل ۱۱; ناپسنديدہ عمل ۶،۱۰

قرآن كريم : قرآن كريم كى اتباع كرنے كى اہميت ۱; قرآن كريم كى اتباع۲،۱۱; قرآن كريم كى اتباع كے دلائل۳; قرآن كريم سے منہ موڑنے كے عوامل ۵; قرآن كريم اور مخالفين ۱۳; قرآن كريم كى اتباع ميں موانع ۸; قرآن كريم كا وحى ہونا ۳

گمراہى : گمراہى كى زمين تيار ہونا ۷

مباحات: مباحات كو حرام قرار دينے پر اصرار ۹

مخالفين : مخالفين كے ساتھ منطقى برتاؤ۱۳; مخالفين كے ساتھ برتاؤ كى روش ۱۳

مشركين : صدر اسلام كے مشركين ۹; مشركين اور پيامبر اسلام(ص) كى دعوت ۴

ہدايت: ہدايت كى زمين آمادہ ہونا ۷; ہدايت كے عوامل ۱۲،۱۶;ہدايت كے موانع ۸

۵۸۱

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاء وَنِدَاء صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ ( ۱۷۱ )

جو لوگ كافر ہوگئے ہيں ان كےپكار نے والے كى مثال اس شخص كى ہے جوجانوروں كو آواز دے اور جانور پكار اورآواز كے علاوہ كچھ نہ بنيں اور نہ سمجھيں _ يہ كفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہيں _انھيں عقل سے سروكار نہيں ہے (۱۷۱)

۱ _ كفار كى مثال اس حيوان كى سى ہے جو سماعتوں كے ادراك سے عاجز و ناتوان ہے _و مثل الذين كفروا كمثل الذين ينعق بما لا يسمع ''ينعق'' كا مصدر ''نعق'' ہے اسكا معنى وہ آواز ہے جو چرواہا بكريوں ، بھيڑوں كو ہانكنے كے لئے نكالتاہے ''ما لا يسمع'' سے مراد بھيڑيں و غيرہ ہيں _مفسرين كے مطابق آيہ مجيدہ ميں ضدى اور ڈھيٹ كفار كو بھيڑوں سے اور معارف دينى كى دعوت دينے والوں كو چرواہے سے تعبير كيا گياہے _ بنابريں مشبہ كا ايك جزء ذكر نہيں ہوا_ پس تقدير كلام يوں ہے ''مثل الذين كفروا والذى يدعوهم الى الايمان كمثل الذى ''

۲ _ انبياء (عليہم السلام) كى دعوت سے كفا ر فقط چيخ و پكار اور شور و غوغا ہى سمجھتے ہيں _و مثل الذين كفروا كمثل الذين ينعق بما لا يسمع الا عاء و نداء مذكورہ مطلب كى روشنى ميں اس جملہ '' مثل الذين كفروا الا دعاء و ندائ'' كا معنى يوں بنتاہے ايمان كى دعوت دينے والوں كے حوالے سے كفار كى مثال بھيڑوں سى ہے اور دعوت دينے والے چرو ا ہے جسطرح بھيڑيں چرواہے كے امر و نہى يا ڈانٹ ڈپٹ سے فقط شور و غوغا سمجھتى ہيں اس طرح كفار بھى انبياءعليه‌السلام كى دعوت سے كسى حقيقت كو درك نہيں كرپاتے_

۳ _ قرآن كريم كے كافر حق سننے ، حق گوئي اور حق ديكھنے سے ناتوان و عاجز ہيں _و مثل الذين كفروا صم بكم عمي

'' صم ، بكم ، عمي'' كا بالترتيب معنى بہرہ ، گونگا اور اندھا ہے _ ايسا معلوم ہوتاہے كہ ماقبل آيت كى روشنى ميں '' كفروا'' كا متعلق'' ما انزل الله '' ہے يعنىمثل الذين كفروا بما انزل الله

۴ _ دينى حقائق كے ديكھنے ، سننے اور بيان كرنے كى كفار

۵۸۲

كى ناتوانى نے انہيں دينى معارف اور قرآنى حقائق كے ادراك سے محروم كرديا ہے _صم بكم عمى فهم لا يعقلون '' لا يعقلون'' كا مفعول '' ما انزل اللہ '' يعنى الہى معارف اور قرآنى حقائق ہيں _

۵ _ انسانى حواس ( سننا، ديكھنا اور ...) شناخت و معرفت كے وسائل ہيں _صم بكم عمى فهم لا يعقلون

۶ _ كفار نے چونكہ دينى معارف و حقائق كے بارے ميں سوال كرنا اور جستجو چھوڑادى ہے اس لئے ان كے ادراك سے بھى عاجزو ناتواں ہيں _بكم فهم لا يعقلون كفار كے بہرہ ہونے پر جملہ''فھم لا يعقلون'' كى تفريع ممكن ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ حقيقت كى شناخت و معرفت كے وسائل ميں ايك اس كے بارے ميں سوال، جستجو اور تحقيق ہے جبكہ كفار اس وسيلہ سے بھى محروم ہيں گويا حقيقت كى تلاش كے درپے نہيں ہيں _

۷_ حقيقت كے بارے ميں سوال اور جستجو اسكے درك كرنے كا ايك راستہ ہے_بكم فهم لا يعقلون

۸_ دينى معارف و حقائق كے ادراك اور قبوليت سے انسان كے ادراك كى قوتوں كى قدر و منزلت كا تعين ہوتاہے_

صم بكم عمى فهم لا يعقلون كفار باوجود اس كے كہ سننے اور كى صلاحيت ركھتے ہيں انہيں بہرہ، گونگا اور اندھا قرار دينا ہوسكتاہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہوكہ انسانى ادراك كى قوتيں اگر دينى معارف كو سمجھنے كا وسيلہ قرار نہ پا ئيں تو گويا در حقيقت ان كا ہونا نہ ہونے كے برابر ہے اور بالكل قيمت نہيں ركھتا_

۹_ مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _

''مثل الذين كفروا فى دعائك اياهم اى مثل الداعى لهم الى الايمان كمثل الناعق فى دعائه المنعوق به من البهائم التى لا تفهم و انما تسمع الصوت فكما ان الانعام لا يحصل لها من دعاء الراعى الا السماع دون تفهم المعنى فكذلك الكفار لا يحصل لهم من دعائك اياهم الى الايمان الا السماع دون تفهم المعني'' (۱)

اے رسول (ص) ان كفار كو دعوت دينے ميں تيرى مثال چرواہے كى سى ہے جو بھيڑوں كو بلاتاہے اور وہ نہيں سمجھتيں كہ چرواہا كيا كہہ رہاہے وہ فقط شور و غوغا سنتى ہيں _ پس جسطرح بھيڑيں چرواہے كى فقط آواز سنتى ہے اور كوئي معنى درك نہيں كرتيں اس طرح كفار بھى تيرى ايمان كى دعوت كو فقط ايك آواز سنتے ہيں اور معنى درك نہيں كرتے''_

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۶۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵ ح ۴۹۵_

۵۸۳

ادراك: نسانى ادراك كى قوتوں كى قدر و قيمت ۸

اقدار: اقدار كے معيارات۸

انسان: انسانى بينائي ۵ ;انسانى حواس ۵; انسانى سماعت ۵

تشبيہات: حيوان سے تشبيہ ۱; بھيڑ سے تشبيہ ۹;

تعقل: تعقل نہ كرنے كے نتائج۶;

حقائق : حقائق سمجھنے كى روش ۷;

دين: دين شناسى كى اہميت ۸; دين كى قبوليت ۸; فہم دين سے محروم افراد ۶

روايت: ۹

سوال: سوال كے نتائج ۷

شناخت: شناخت كا وسيلہ ۵

قرآن حكيم: قرآنى مثاليں ۱

كفار: كفار كى تشبيہ ۱; كفار كا عاجز ہونا ۳،۴،۶; كفار اور حق ديكھنا ۳; كفار اور حق كى سماعت ۳; كفار اور حق گوئي ۳; كفار او رانبياءعليه‌السلام كى دعوت ۲; كفار اور پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۹; كفار اور دين فہمى ۴،۶; كفار كا بہرہ پن ۴; كفار كا اندھا پن ۱،۲،۴; كفار كا گونگا پن ۴; كفار كى نافہمى ۹;كفار كى خصوصيات ۱،۲، ۳ ،۴ ،۶

كفر: قرآن كا كفر ۳

مثاليں : حيوان كى مثال ۱

نفسيات: تربيتى نفسيات۷

۵۸۴

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ( ۱۷۲ )

صاحبان ايمان جو ہم نے پاكيزہ رزق عطاكيا ہے اسے كھاؤ اور دينے والے خدا كاشكريہ ادا كرو اگر تم اس كى عبادت كرتےہو (۱۷۲)

۱ _ حلال غذاؤں سے استفادہ كرنا اور ان كو كھانا جائز ہے_كلوا من طيبات ما رزقناكم

۲ _پاكيزہ نعمتوں اور غذاؤں كو مسلمانوں كو حرام قرار نہيں دينا چاہيئے اور نہ ہى ان كے فوائد سے خود كو محروم كريں _

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم

۳ _ انسانوں كو الہى نعمتيں اور غذائيں عطا كرنے كا اصلى مقصد يہ ہے كہ مومنين ان نعمتوں سے استفادہ كريں _*

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم نعمتوں سے استفادہ ''كلوا من طيبات ما رزقناكم'' كے لئے قرآن كريم نے اہل ايمان كو نصيحت كرتے ہوئے صراحت فرمائي ہے كہ اللہ تعالى نے ان نعمتوں كو ان كے لئے رزق و روزى قرار ديا ہے جبكہ آيہ مجيدہ ۱۶۸'' كلوا مما في الأرض'' ميں يہ نہيں فرمايا كہ ہم نے زمين كے تمام وسائل اور رزق و روزى تمام نسانوں كے لئے قرار ديئے ہيں _ ان دو مختلف تعبيرات كے تقابل سے مندرجہ بالا مطلب اخذ كيا گيا ہے_

۴ _ غذاؤں ميں بنياد اور اصل قانون ان كا پاك اور حلال ہونا ہے _كلوا من طيبات ما رزقناكم

۵_ خبيث غذاؤں ( ناپاك اور جو انسانى طبيعت كے ناموافق ہوں ) سے استفادہ كرنا حرام ہے_ كلوا من طيبات ما رزقناكم

۶ _ غذاؤں ميں حفظان صحت كے اصولوں كى طرف اسلام كى توجہ ہے_كلوا من طيبات ما رزقناكم

۷_ اللہ تعالى ہے جو اپنے بندوں كو رزق و روزى دينے والا ہے _رزقناكم

۸_ بارگاہ اقدس رب العالمين ميں سپاس گزارى اور

۵۸۵

اسكى نعمتوں كا شكر ادا كرنا ضرور ى ہے _و اشكروا الله

۹_ غذا تناول كرنے اور اللہ تعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنے كے بعد پروردگار كى بارگاہ ميں شكرگزار ہونا لازمى ہے _

كلوا من طيبات ما رزقناكم و اشكروالله

۱۰_اللہ تعالى كى بندگى اور عبادت و اطاعت ميں توحيد كا لازمہ يہ ہے كہ اسكے حلال كو حلال اور خدا تعالى كے حرام كو حرام سمجھا جائے_كلوا من طيبات ما رزقناكم ان كنتم اياه تعبدون

يہ دو جملے''كلوا'' اور '' واشكروا'' ہوسكتاہے جواب شرط ''ان كنتم'' كى حكايت كرتے ہوں _ مندرجہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ پہلا جملہ جواب شرط كے طور پر ہو_ ان دو فرامين ''كلوا''،''واشكروا'' كى شرط چونكہ عبادت ہے پس اس ميں اطاعت كا مفہوم بھى موجود ہے _ '' اياہ'' كا ''تعبدون'' پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے پس اس سے عبادت و اطاعت ميں توحيد كا مفہوم نكلتاہے يعنى فقط تيرى ہى عبادت و اطاعت كرتے ہيں _

۱۱ _ بارگاہ رب العزت ميں سپاس گزار ہونا اسكى بندگى اور عبادت و اطاعت ميں توحيد كى علامت و دليل ہے _

واشكروا لله ان كنتم اياه تعبدون

۱۲ _ صدر اسلام كے بعض مسلمان بعض طيبات كو حرام خيال كرتے تھے اور ان كو كھانے سے اجتناب كرتے _*

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ان كنتم اياه تعبدونطيبات كے مباح ہونے پر اللہ تعالى كا تاكيد فرمانا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ بعض مسلمان بعض طيبات كے استعمال سے اجتناب كرتے تھے_ بعد والى آيہ مجيدہ '' انما حرّم ...'' بيان كرتى ہے كہ ان كے اجتناب كى وجہ ان كا يہ عقيدہ تھاكہ بعض طيبات حرام ہيں _

۱۳ _ اپنے اوپر طيبات اور اللہ تعالى كى نعمتوں كو حرام قرار دے كر زہد اختيار كرنا نادرست اور بے جا عمل ہے_

يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ان كنتم اياه تعبدون

احكام: ۱،۲،۴،۵

اصالة الحلية۴

اطاعت: اطاعت الہى ۱۰; اطاعت الہى كى علامتيں ۱۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رزاقيت ۷; اللہ تعالى كى عنايات۳

انسان: انسانوں كا رزق ۷

۵۸۶

توحيد: عبادتى توحيد كے نتائج۱۰; توحيد عبادتى كى علامتيں ۱۱

خبائث: خبائث سے استفادہ ۵

دين : دين پر قائم رہنے كے عوامل ۱۰

رزق : رزق سے استفادہ ۱،۳; پاكيزہ رزق ۱; رزق كا سرچشمہ ۷

زہد: ناپسنديدہ زہد ۱۳

شكر: اللہ تعالى كے شكر كے نتائج ۱۱; شكر الہى كى اہميت ۸،۹;نعمت كاشكر ۸

طيبات: طيبات سے استفادہ ۲; طيبات كو حرام قرار دينا ۱۲،۱۳

عبوديت: عبوديت كے نتائج۱۰; عبوديت كى علامتيں ۱۱

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۳

غذائيں : غذاؤں كے احكام ۴،۵; خبيث غذائيں ۵

غذا تناول كرنا : غذا تناول كرنے كے آداب ۹; غذا ميں حفظان صحت كے اصولوں كى اہميت ۶

مباحات:۱ مباحات كو حرام قرار دينا ۲

محرمات:

۵۸۷

مسلمان : مسلمانوں كى ذمہ دارى ۲; صدر اسلام كے مسلمان ۱۲

مومنين: مومنين كے درجات ۳

نعمت: نعمت سے استفادہ ۲،۹; نعمت كى خلقت كا فلسفہ ۳

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( ۱۷۳ )

اس نے تمھارے اوپر بس مردار ،خون ، سور كا گوشت اور جو غير خدا كے نامپر ذبح كيا جائے اس كو حرام قرارديا ہےپھر بھى اگر كوئي مضطر ہوجائے اور حرامكا طلب گار اور ضرورت سے زيادہ استعمالكرنے والا نہ ہو تو اس كے لئے كوئي گناہنہيں ہے _ بيشك خدا بخشنے والا اورمہربان ہے (۱۷۲)

۱ _ مردار، خون، سور كا گوشت اور ايسے جانور كا گوشت كھانا حرام ہے جس پر غير خدا كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو_

انما حرم عليكم المية والدم ولحم الخنزير و ما اهل به لغير الله

''اہل'' كا مصدر''اہلال'' ہے اسكا معنى ہے آواز اونچى كرنا اور آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد (جيسا كہ مفسرين نے بيان كيا ہے ) نام لينا ہے_ لغير اللہ ميں لام متعدى كرنے كے لئے آيا ہے _ بنابريں ''ما اہل بہ لغير اللہ '' يعنى وہ جانور جس پر ( ذبح كرتے ہوئے ) غير خدا كا نام ليا گيا ہو_

۲ _ اضطراب و اضطرار كے وقت مردار ، خون ، خنزير كا گوشت اور اس ذبح شدہ جانور كو كھانا جائز ہے جس پر غير خدا كا نام ليا گيا ہو_فمن اضطر فلا اثم عليه

۳ _ مردار، خون ، خنزير كا گوشت، وہ جانور جوبت كے لئے ذبح كيا گيا ہو اور وہ جانور جو غير خدا كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو اسكا گوشت، يہ سب خبيث اور نجس غذاؤں ميں سے ہے_كلوا من طيبات انما حرم عليكم الميتة و ما اهل به لغير الله

۴ _مشركين بعض جانوروں كو بتوں كے لئے اور ان كے نام پر قربانى كرتے تھے_و ما اهل به لغير الله

فعل ماضى ''اہل'' اس امر كى حكايت كررہاہے كہ جانور غير خدا كانام لے كر ذبح كيئے جاتے اور بتوں كے لئے اور بتوں كے نام پر ذبح ہوتے تھے_ يہ چيز زمانہ جاہليت ميں رائج تھي_

۵ _ شرك و بت پرستى كے مظاہر سے اسلام نے نبرد آزمائي كى _انما حرم ما اهل به لغير الله

۵۸۸

۶ _ اضطرار و اضطراب كى حالت ميں محرمات كے ارتكاب سے گناہ و معصيت نہيں ہوتى _فمن اضطر فلا اثم عليه

۷_ جو لوگ ستم گرى اور تجاوز كرتے ہوئے محرمات كے ارتكاب كے لئے مضطر ہوں تو ان پر مضطر كا حكم نہيں آتا ( يعنى محرمات سے استفادہ جائز ہے)_فمن اضطر غير باغ و لا عادت فلا اثم عليه '' غيرباغ و لا عاد'' اس صورت ميں كہ نہ تو ستم گر ہو اورنہ تجاوز كرنيوالا'' يہ ''اضطر'' كے نائب فاعل كے لئے حال ہے _ پس يہ حكم '' فلا اثم عليہ'' ايسے مضطر شخص كو بيان كرتاہے جو ستم و تجاوز كى وجہ سے مضطر نہ ہوا ہو_

۸_ وہ لوگ جو ستم گرى اور تجاوز كرتے ہوئے محرمات كا ارتكاب كريں اگر چہ اضطرار كى بناپر محرمات انجام ديں پھر بھى گناہگار ہيں _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۹_ اللہ تعالى غفور ( بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے_ان الله غفور رحيم

۱۰_ محرمات كے حرام ہونے كا معيار باقى رہتاہے اگرچہ ان كے ارتكاب كے لئے انسان مضطر ہوجائے_

فمن اضطر فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

اضطرار كى حالت ميں محرمات كے ارتكاب كا بيان كرنا اور اس كے بعد اللہ كى صفت ''غفور'' بيان كرنا گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ محرمات كى حرمت كا معيار حتى حالت اضطرار ميں بھى باقى رہتاہے (الميزان)

۱۱ _ حالت اضطرار ميں محرمات كے ارتكاب كو جائز قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كى بناپر ہے_

فمن اضطر ...فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۲ _ جو لوگ حالت اضطرار ميں محرمات كا ارتكاب كرتے ہيں ان كو گناہگار شمار نہ كرنا اللہ تعالى كى مغفرت كا ايك پرتو ہے _فمن اضطر ...فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۳ _ جو لوگ محرمات كے ارتكاب پر مضطر ہوئے ہيں انہيں ضرورت كى حد سے آگے نہيں بڑھنا چاہيئے*_

فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''غير باغ و لا عاد'' كا متعلق اسطرح كا كلمہ ہو ( فى اكل الميتة) پس اس جملہ '' فمن اضطر ...'' كا معنى يہ ہوگا جو شخص مردار كھانے اور ميں اضطرار كى كيفيت پيدا كرے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس استفادے ميں ستم اور تجاوز نہ ہو تو ايسے شخص پر كوئي گناہ نہيں ہے _

۱۴ _ دينى احكام و قوانين ميں جھكاؤ يا ملائمت اور ہنگامى ضرورتوں كو ان قوانين كے بنانے (تشريع) ميں لحاظ كيا گيا ہے _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۵۸۹

۱۵ _ دينى احكام اور تكاليف كا انعطاف پذير ہونا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك پرتو ہے _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۱۶_قانون سازوں كو چاہئے كہ قانون بناتے ہوئے ہنگامى ضروريات كو مدنظر ركھيں اور انكے لئے خصوصى احكام وضع كريں _فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۱۷_ جو لوگ جان بوجھ كر خود كو اضطرارى حالات ميں مبتلا كريں تو ان پر مضطر كا حكم نہيں لگايا جاسكتا_فمن اضطر فلا اثم علي ہ فعل ''اضطر'' كو مجہول لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _

۱۸_ احكام كى تشريع ( قانون سازي)مختلف امور يا اشياء كو حلال قرار دينا اور بعض وسائل كے استعمال يا استفادہ كو حرام قرار دينا اللہ تعالى كے اختيار ميں ہے _كلوا من طيبات انما حرم عليكم الميتة والدم فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه

۱۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' قال الباغى الذى يخرج على الامام والعادى الذى يقطع الطريق لا يحل لهما الميتة (۱) اللہ تعالى كے اس كلام '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' كے بارے ميں اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے باغى سے مراد وہ شخص جو امام (حق ) كے خلاف قيام كرنے اور متجاوز (العادي) وہ ہے جو ڈاكہ ڈالے( پس اضطرار كى حالت ميں بھي) اس پر مردار كھانا جائز نہيں ہے_

۲۰_عبدالعظيم بن عبدالله الحسنى عن ابى جعفر عليه‌السلام محمد بن على الرضا عليه‌السلام قال سالته يابن رسول الله ما معنى قوله عزوجل '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه '' قال العادى السارق والباغى يبغى الصيدبطراً او لهواً لا ليعود به على عياله'' (۲) عبدالعظيم حسنى كہتے ہيں امام تقى الجوادعليه‌السلام سے ميں نے ''باغي'' اور ''عادي'' كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا عادى يعنى چورا اور باغى وہ شخص ہے جو سيرو تفريح كے لئے شكار پر جاتاہے نہ كہ اپنے اہل و عيال كے فائدہ كے لئے_

۲۱ _ محمد بن اسماعيل رفع الى ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله ''فمن اضطر غير باغ ولا عاد'' قال الباغى الظالم والعادى الغاصب اللہ تعالى كے اس كلام ''فمن اضطر غير باغ و لا عاد'' كے بارے ميں امام صادق عليه‌السلام سے روايت ہے ''باغي'' سے

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۲۱۳ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۵ ح ۵۰۳_ ۲ )من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۳ ص ۲۱۷ ح ۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۴ ح ۵۰۱_

۵۹۰

مراد ظالم اور ''عادي'' سے مراد غاصب ہے _ (۱)

۲۲ _ محمد بن مسلم كہتے ہيں ''سألت اباعبدالله عليه‌السلام عن الرجل والمرأة يذهب بصره فياتيه الاطباء فيقولون نداويك شهراً او اربعين ليلة مستلقياً كذلك يصلي؟ فرخص فى ذلك و قال فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ''(۲) امام صادقعليه‌السلام سے ايسى عورت يا مرد كے بارے ميں ميں نے سوال كيا جس كى بينائي ضائع ہوچكى ہو _ طبيبوں نے اسے كہا ہے كہ تيرا ايك ماہ يا چاليس روز علاج كرتے ہيں البتہ شرط يہ ہے كہ چاليس دن چت ليٹو_ كيا وہ فرد پيٹھ كے بل ليٹےہوئے نماز پڑھ سكتاہے؟ تو امامعليه‌السلام نے اجازت دى كہ وہ ايسے كرسكتاہے اور فرمايا''فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا اثم عليه ''_

۲۳ _محمد بن عذافر عن بعض رجاله عن ابى جعفر عليه‌السلام قال قلت له لم حرم الله عزوجل الخمر والميتة و الدم و لحم الخنزير؟ فقال ان الله تبارك و تعالى خلق الخلق ...و علم ما يضرهم فنهاهم عنه و حرمه عليهم ثم احله للمضطر فى الوقت الذى لا يقوم بدنه الا به فامره ان ينال منه بقدر البلغة لا غير ذلك ... (۳) محمد بن عزافر نے بعض افراد سے انہوں نے امام باقرعليه‌السلام سے سوال كيا كہ اللہ تعالى نے شراب ، مردار، خون اور سور كے گوشت كو حرام كيوں قرار ديا ہے ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا اللہ تعالى نے مخلوقات كو خلق فرمايا ... اور وہ جانتا تھا كہ كون سى چيز (انسانوں كے لئے) نقصان دہ ہے پس اس سے منع فرمايا اور اس چيز كو حرام قرار ديا اور پھر اس چيزكو مضطر كے لئے ايسى صورت ميں حلال قرار ديا كہ اسكا بدن صرف اسى سے قائم رہ سكتاہو پس اتنى مقدار ميں اس چيز كو حلال قرار ديا كہ جس سے اسكى ضرورت پورى ہوتى ہو نہ اس سے زيادہ

۲۴ _ امام صادق عليه‌السلام سے روايت ہے'' عشرة اشياء من الميتة ذكية العظم والشعر والصوف والريش والقرن والحافر والبيض و الانفخة واللبن والسن (۴) مردار كى دس چيز يں پاك اور قابل استفادہ ہيں ہڈي، بال، اون، پر ، سينگھ، ّسم، انڈا، مايہ پنير (مردہ بھيڑ، بكري) كے وجود ميں ايك خاص مواد ہوتاہے جو پنير بنانے كے كام آتاہے) دودھ اور دانت_

۲ _ محمد بن سنان كے فلسفہ احكام كے بيان كے بارے ميں سوالات كے جوابات ميں امام رضاعليه‌السلام تحرير فرماتے ہيں

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ص ۷۴ ح۱۵۱ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۷۴ ح ۳_ ۲) كافى ج/ ۳ ص ۴۱۰ ح۴ نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۵۴ ح ۵۰۰_

۳) علل الشرائع ص ۴۸۳ ح ۲، نورالثقلين ج/۱ص ۱۵۳ ح ۴۹۷_ ۴) خصال شيخ صدوق ج/۲ص۴۳۴ ح ۱۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۴ ح ۴۹۸_

۵۹۱

و حرم ما اهل لغير الله به و لئلا يسوى بين ما تقرب به اليه و بين ما جعل عبادة للشياطين و الاوثان لان فى تسمية الله عزوجل الاقرار بربوبيته و توحيده و ما فى الاهلال لغير الله من الشرك به والتقرب به الى غيره (۱) ايسا ذبيحہ جس كے ذبح كے وقت غير خدا كا نام ليا گيا ہو اللہ تعالى نے حرام قرار ديا ہے تا كہ جو چيز خدا تعالى كے تقرب كا باعث بنتى ہے اس ميں اور جو چيز شياطين اور بتوں كى عبادت كا ذريعہ بنتى ہے برابر نہ ہو اس ليئے كہ قربانى كرتے ہوئے اللہ تعالى كا نام لينا در اصل اسكى ربوبيت اور توحيد كا اقرار ہے اور غير خدا كا نام لينا شرك اور اللہ تعالى كے غير كا تقرب حاصل كرنا ہے _

احكام : ۱،۲،۷،۱۰،۱۳،۲۲،۲۴) احكام ثانوى ۲; احكام كا انعطاف پذير ہونا۱۴،۱۵; اضطرارى احكام كى تشريع ۱۶; احكام ثانوى كى تشريع ۱۶; احكام كا توقيفى ہونا ۱۸; فلسفہ احكام ۲۳،۲۵; اضطرارى احكام كا سرچشمہ ۱۱،۲۲،۲۳; احكام كى تشريع كا سرچشمہ ۱۸ اسماء اور صفات: رحيم ۹; غفور ۹

اضطرار: حالت اضطرار كے احكام ۲،۷،۱۰،۱۳،۱۷ ،۲۲، ۲۳; اضطرارى حالت ميں محرمات سے استفادہ ۲،۶،۷،۸،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳; باغى كا اضطرار ۷، ۸; متجاوز كا اضطرار ۷،۸; اضطرار كو پيدا كرنے كا حكم ۱۷; حالت اضطرار كى شرائط ۱۷; حالت اضطرار ميں باغى سے مراد كون ہے ۱۹،۲۰،۲۱; حالت اضطرار ميں عادى سے مراد كون ہے ۱۹،۲۰،۲۱; حالت اضطرار ميں حرمت كا معيار ۱۰

اقرار: اللہ تعالى كى ربوبيت كا اقرار ۲۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش كے مظاہر ۱۲; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۱۱،۱۵

بت : بتوں كے لئے قربانى خبائث ميں سے ہے ۳; بتوں كے لئے قرباني۴

بت پرستى : بت پرستى سے نبرد آزمائي۵

بيمار: بيمار كے احكام ۲۲

خنزير: خنزير كے گوشت كى حرمت ۱; خنزير كا گوشت خبائث ميں سے ہے ۳; خنزير كا گوشت كھانا ۲; خنزير كے گوشت كے حرام ہونے كا فلسفہ۲۳

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۲ ص ۹۳ ح ۱ باب ۳۳ ، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۳ ح ۴۹۶_

۵۹۲

خون: خون پينے يا استعمال كرنے كى حرمت ۱; خون خبائث ميں سے ہے ۳; خون كا استعمال كرنا ۲; خون حرام ہونے كا فلسفہ ۲۳

دين : دين اور تقاضے ۱۴

ذبح : ذبح كرتے ہوئے بسملہ كہنا ۲۵

ذبيحہ( ذبح شدہ جانور): بغير بسملہكے ذبيحہ كا حرام ہونا ۱; بغير بسملہ كے ذبيحہ كا خبائث ميں سے ہونا ۳; ذبيحہ كا بغير بسملہ كے ہونا ۲،۲۵; حرام ذبيحہ كى حرمت كا فلسفہ ۲۵;

روايت:۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

شراب: شراب كى حرمت كا فلسفہ ۲۳

شرك: شرك سے نبرد آزمائي ۵

شكار: تفريحى شكار ۲۰

غذائيں : غذاؤں كے احكام ۱،۲; خبيث خوراكيں ۳

قائدين : قائدين حق كے خلاف قيام ۱۹

قانون: دينى قوانين كى خصوصيات۱۴

قانون سازى : قانونسازى كى شرائط ۱۴،۱۶; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۸

گناہگار افراد: ۸

محرمات : ۱ محرمات ارتكاب كا گناہ ۸; بے گناہ شخص كے محرمات ۶

مردار: مردار كے پاك اجزاء ۲۴; مردار كے احكام ۲۴; مردار كے كھانے كى حرمت ۱; مردار كا خبيث ہونا ۳; مردار كھانا ۲; مردار كے حرام ہونے كا فلسفہ ۲۳

مشركين : مشركين كى قربانى ۴

۵۹۳

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۷۴ )

جو لوگ خدا كى نازل كيہوئي كتاب كے احكام كو چھپاتے ہيں اوراسے تھوڑى قيمت پربيچ ڈالتے ہيں وہ درحقيقت اپنے پيٹ ميں صرف آگ بھررہے ہيں اور خدا قيامت ان سے بات بھى نہ كرے گااور نہ انھيں پاكيزہ قراردے گا اور ان كےلئے دردناك عذاب ہے (۱۷۴)

۱ _ ان احكام و معارف كو چھپانا جن كو اللہ تعالى نے نازل اور آسمانى كتابوں ميں بيان اور ضبط فرماياہے گناہ كبيرہ ميں سےہے _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب لهم عذاب اليم

۲ _ جن لوگوں نے آسمانى كتابوں كے احكام و معارف پر پردہ اس ليئے ڈالا كہ اسطرح وہ دنيا كى متاع حاصل كريں گے تو قيامت كے روز يہ لوگ دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _ان الذين يكتمون ما انزل الله ...لهم عذاب اليم

۳ _ دين فروشى اور اسكے مقابل متاع دنيا كسب كرنا گناہان كبيرہ ميں سے ہے _و يشترون به ثمنا قليلا اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار

۴_ دين فروشى اور آسمانى كتابوں كے احكام و معارف كو چھپانے سے حاصل ہونے والے فوائد سے استفادہ كرنا در حقيقت آگ كھانا اور شكم كو اس سے بھرنا ہے _به ثمناً قليلا اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار

۵ _ اشياء كے ظاہرى چہرے اور حقيقت كے علاوہ بھى ايك حقيقت بھى ركھتى ہيں _اولئك ما ياكلون فى بطونهم الا النار اس جملہ ''اولئك ما ياكلون فى بطونهم

۵۹۴

لا النار'' ميں بيان شدہ آگ ظاہر يہ ہے كہ يہ اس متاع كا دوسرا چہرہ ہے جو دين فروشى كے ذريعہ حاصل ہوا ہے _

۶ _ دين فروشى اور دينى حقائق پر پردہ ڈالنے كے عوامل ميں سے ايك متاع دنيا كا حصول ہے _و يشترون به ثمنا قليلاً

۷_ علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے آگاہ انسانوں كى ذمہ دارى ہے كہ الہى احكام و معارف كو بيان كريں _

ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب

۸_ دينى علماء كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ آسمانى كتابوں كے حقائق اور احكام الہى پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں ملوث اور آلودہ ہوجائيں _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب

۹_ علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے آگاہ لوگوں كے لئے دنيا كى طرف لپكنا بہت بڑا خطرہ ہے _

ان الذين يكتمون ما انزل اللہ من الكتاب و يشترون بہ ثمنا قليلاً اولئك لہم عذاب اليم

۱۰_ علمائے اہل كتاب تورات و انجيل كے بعض احكام (بعض غذاؤں كا حلال ہونا اور بعض كا حرام ہونا ) كو چھپاتے تھے _ان الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب'' الذين يكتمون ...'' كا مصداق مفسدين كے نزديك يہود و نصارى كے علماء ہيں _

۱۱ _ دين فروشى كے مقابل متاع دنيا كا حصول انتہائي كم قيمت ہے _و يشترون به ثمناً قليلا

''قليلاً'' توضيحى صفت ہے اور يہ اس امر كى حكايت كررہى ہے كہ دين فروشى كے مقابل جو قيمت بھى طے پاجائے بہت ہى كم ہے _

۱۲ _ تمام تر دنياوى فوائد اور منافع سے زيادہ قابل قدر اور باعظمت آسمانى كتابوں كے معارف و حقائق ہيں _

و يشترون به ثمنا قليلا

۱۳ _ قيامت كے دن اللہ تعالى كا لطف و عنايت دينى احكام و معارف پر پردہ ڈالنے والوں كے شامل حال نہيں ہوگا اور اللہ تعالى ان سے كلام نہيں فرمائے گا _ان الذين يكتمون ما انزل الله ...لا يكلمهم الله يوم القيامة جملہ ''و لا يكلمھم اللہ'' غضب الہى اور لطف و عنايت سے اجتناب كے لئےكنايہ ہے _

۱۴ _ آسمانى كتابوں كے حقائق پر پردہ ڈالنے والوں كو اللہ تعالى گناہوں اور آلودگيوں سے پاك نہيں فرمائے گا_

ان الذين يكتمون ما انزل الله لا يزكيهم

۱۵ _ گناہگار قيامت كے دن آتش جہنم كے علاوہ روحى

۵۹۵

اور نفسياتى عذابوں ميں بھى مبتلا ہوں گے _و لا يكلمهم الله يوم القيامة

۱۶ _ اللہ تعالى كے لطف و كرم كے شامل حال ہو نے اور گناہوں ، آلودگيوں سے پاك ہونے كى صورت ميں قيامت كے دردناك عذاب سے نجات مل سكتى ہے _و لا يكلمهم الله يوم القيامة و لا يزكيهم و لهم عذاب اليم

۷ ۱_ آسمانى كتابوں كے حقائق و معارف كو بيان كرنے والوں اور دين دار، ذمہ دار علماء كو قيامت كے دن اللہ تعالى اپنے الطاف سے نوازے گا اور ان كے ساتھ كلام فرمائے گا _ان الذين يكتمون لا يكلمهم الله يہ مفہوم اس جملہ '' ان الذين لا يكلمھم اللہ '' سے ماخود ہے _

۱۸_ دين دار اور ذمہ دار علماء تزكيہ الہى كى نعمت سے بہرہ مند ہوں گے اور قيامت كے دن اللہ تعالى ان سے ہم كلام ہوگا_ان الذين يكتمون ما انزل الله لا يكلمهم الله يوم القيامة و لا يزكيهم

۱۹_ آمدنى كو ناجائز راستوں سے كمانا حرام اور اللہ تعالى كے عذاب كا باعث ہے _و يشترون به ثمناً قليلاً اولئك لا يكلمهم الله و لهم عذاب اليم

آسمانى كتاب: آسمانى كتابوں كى تعليمات كى قدر و منزلت ۱۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنا ۴; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كى سزا ۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے كا گناہ ۱،۸; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والوں كا گناہ ۱۴

احكام:

اللہ تعالى : لطف الہى كے نتائج ۱۶; قيامت ميں اللہ تعالى كا ہم كلام ہونا ۱۳ ،۱۷،۱۸; اللہ تعالى كے عذاب ۱۹

انجيل : انجيل كے بعض حصوں پر پردہ ڈالنا ۱۰

اہل جہنم : ۱۵

تورات: تورات كے بعض حصوں پر پردہ ڈالنا ۱۰

حق : حق بيان كرنے والے قيامت ميں ۱۷; حق بيان كرنے والوں كے فضائل ۱۷; حق چھپانے كا گناہ ۸; حق چھپانے والوں كا گناہ ۱۴

۵۹۶

دنيا طلبي: دنيا طلبى كے نتائج ۶; دنيا طلبى كا خطرہ ۹

دين: دينى تبليغ ۷; دين پر پردہ ڈالنے والوں كى دنيا طلبى ۲; دين پر پردہ ڈالنے والوں كو عذاب ۲; دين كو چھپانے كے اسباب ۶; دين پر پردہ ڈالنے كى سزا ۲; دين پر پر دہ ڈالنے كا گناہ ۱،۸; دين پر پردہ ڈالنے والوں كا آخرت ميں محروم ہونا ۱۳

دين فروش لوگ: دين فروشوں كا آگ كھانا ۴

دين فروشى : دين فروشى كى قيمت ۱۱; دين فروشى كے فوائد سے استفادہ ۴; دين فروشى كے عوامل ۶; دين فروشى كا گنا ہ ۳

سزا : سزا كے موجبات ۲

عذاب: اہل عذاب ۲،۱۵; دردناك عذاب ۲،۱۶; عذاب سے نجات كے اسباب ۱۶; عذاب كے درجات ۲،۱۶; عذاب كے موجبات ۱۹

علماء : علمائے دين كى تبليغ ۷; دين دار علماء كا تزكيہ ۱۸; علمائے دين كى دنياطلبى ۹ دين دار علماء قيامت ميں ۱۷،۱۸; دين دار علماء كے فضائل ۱۷،۱۸; علمائے دين كى ذمہ دارى ۷; علمائے دين كو تنبيہ ۸،۹

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور انجيل ۱۰; علمائے اہل كتاب اور تورات ۱۰; علمائے اہل كتاب اور حقائق پر پردہ ڈالنا۱۰

كمائي ( آمدني): كمائي كے احكام ۱۹; ناجائز كمائي كا حرام ہونا ۱۹; ناجائز كمائي كى سزا ۱۹

گناہ : گناہ سے پاك ہونے كے نتائج ۱۶; گناہوں سے پاك ہونا ۱۴; گناہان كبيرہ ۱،۳

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب ۱۵; گناہگاروں كو نفسياتى اور روحى عذاب ۱۵; گناہگار جہنم ميں ۱۵

لطف الہى : لطف الہى سے محروم لوگ ۱۳; وہ لوگ لطف الہى جن كے شامل حال ہے ۱۷

محرمات : ۱۹

موجودات: موجودات كى حقيقت ۵; موجودات كا ظاہر ۵

۵۹۷

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ( ۱۷۵ )

يہى وہ لوگ ہيں جہنوں نے گمراہى كو ہدايت كے عوض اورعذاب كو مغفرت كے عوض خريد كيا ہے آخريہآتش جہنم پر كس قدر صبر كريں گے (۱۷۵)

۱ _ دين فروش اور آسمانى كتابوں كے احكام و معارف كو چھپانے والے ضلالت و گمراہى كا شكار اور ہدايت سے دور لوگ ہيں _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى

۲ _ دين فروش اور آسمانى كتابوں كے حقائق كو چھپانے والے اللہ تعالى كى مغفرت سے محروم اور آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے _اولئك الذين اشتروا العذاب بالمغفرة

۳ _ آتش جہنم طاقت فرسا اور ناقابل برداشت ہے _فما اصبرهم على النار

۴ _ آتش جہنم كو برداشت كرنے كا گمان اور اسكے مقابل لاپرواہ ہونا بہت ہى عجيب اور نامعقول امر ہے _فما اصبرهم على النار

۵ _ علمائے اہل كتاب آسمانى كتابوں كے حقائق چھپانے كى وجہ سے گمراہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے لئے عذاب الہى كمايا _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة

۶ _ بے دين اور غير ذمہ دار علماء اللہ تعالى كى مغفرت سے محروم ہوں گے اور آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے_

اولئك الذين اشتروا العذاب بالمغفرة فما اصبرهم على النار

۷_ آسمانى كتابيں اور اللہ تعالى كى جانب سے نازل ہونے والے احكام ہدايت بخش اور مغفرت الہى كو جذب كرنے والے ہيں _ان الذين يكتمون اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة

۸_ آسمانى كتابوں كے حقائق كو بيان كرنا ہدايت كے

۵۹۸

حصول اور مغفرت الہى كا موجب ہے _ان الذين يكتمون اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة مذكورہ مطلب آيت كے مفہوم سے ماخوذ ہے _

۹ _گمراہ اور گناہگار افراد قيامت كے طاقت فرسا عذاب ميں مبتلا ہوں گے _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى فما اصبرهم على النار

۱۰_ ''عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''فما اصبرهم على النار'' فقال ما اصبرهم على فعل ما يعلمون انه يصيرٌ هم الى النار ''(۱) اللہ تعالى كے اس كلام '' فما اصبرھم على النار'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كس چيز نے انكو صبر ديا ايسے عمل كى انجام دہى پر جسكے بارے ميں جانتے تھے كہ اسكا نتيجہ آتش جہنم ہوگا_

۱۱_ اللہ تعالى كے اس كلام ''فما اصبرہم على النار'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام ے فرمايا''ان معناه ما اجرا هم على النار (۲) يعنى كس چيز نے ان كو جرا ت دى كہ ايسے اعمال انجام ديں جس كے نتيجے ميں وہ لوگ آتش جہنم ميں جائيں گے _

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابيں چھپانے كے نتائج۵; آسمانى كتابوں كے حقائق بيان كرنا ۸; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والے ۲; آسمانى كتابوں پر پردہ ڈالنے والوں كى گمراہى ۱; آسمانى كتابوں كى اہميت ۷; آسمانى كتابوں كا ہدايت كرنا ۷

اللہ تعالى : بخشش الہى ۲،۸; اللہ تعالى كى بخشش كے لئے زمين ہموار ہونا ۷; اللہ تعالى كى طرف سے عذاب ۵

امور: تعجب آور امور۴

اہل جہنم:۲،۶،۹

بخشش: بخشش كے عوامل ۸; بخشش سے محروم لوگ ۲،۶

جہنم: آتش جہنم ۳،۴،۶; جہنم كى خصوصيات۳،۴

حق: حق پردہ ڈالنے كے نتائج ۵;حق چھپانے والوں كى سزا ۲; حق چھپانے والوں كا محروم ہونا ۲

دين: دين كى اہميت ۷; دين كا ہدايت كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۶۸ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۵۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۲ ص ۴۷۰ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۶ ح ۵۰۹_

۵۹۹

دين فروش لوگ: دين فروش جہنم ميں ۲; دين فروشوں كى سزا ۲; دين فروشوں كى گمراہى ۱;دين فروشوں كا محروم ہونا ۱،۲

روايت:۱۰،۱۱

صبر: آگ پر صبر سے مراد۱۰،۱۱

عذاب: اہل عذاب ۵،۶،۹; عذاب كے درجات ۹; عذاب كے موجبات ۵،۶،۹،۱۰،۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴

علماء : بے عمل علماء كو عذاب ۶; بے عمل علماء جہنم ميں ۶; بے عمل علماء كا محروم ہونا ۶

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كو عذاب ۵; علمائے اہل كتاب كى گمراہى ۵

گمراہ لوگ: ۱،۵ گمراہوں كو اخروى عذاب ۹

گمراہي: گمراہى كے اسباب ۵

گناہگار لوگ: گناہگاروں كو اخروى عذاب ۹

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۸; ہدايت سے محروم لوگ ۱

ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ( ۱۷۶ )

يہ عذاب صرف اس لئے ہے كہ الله نے كتاب كو حقكے ساتھ نازل كيا ہے اور اس ميں اختلافكرنے والے حق سے بہت دور ہو گر جھگڑےكررہے ہيں (۱۷۶)

۱ _ آسمانى كتابوں ( تورات، انجيل ، قرآن اور ...) كو نازل كرنے والا اللہ تعالى ہے _

ذلك بان اللہ نزل الكتاب

'' الكتاب'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے پس سارى آسمانى كتابوں كو شامل ہے _

۲ _ آسمانى كتابوں كے حقائق دنيا دار علماء كے مفادات

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785