تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201044 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ادراك: ادراك كے موانع ۵

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كى تباہى كے عوامل ۲

فسادى لوگ: ۱

قلب: قلبى بيمارى كے اثرات و نتائج ۵

مجرمين : ۱ ،۲

منافقين : منافقين اور اصلاح پسندى ۳; منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا ۱ ، ۲، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷; منافقين كى جہالت ۴; منافقين كى حركات كے مقابل ہوشيار رہنا ۷; منافقين كى صفات ۱،۶; منافقين كى قلبى بيمارى ۵;منافقين كے جرائم ۱ ،۲ ، ۷;منافقين كے دعوے ۳

مومنين : مومنين اور منافقين ۶; مومنين كا ہوشيار رہنا ۷

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَكِن لاَّ يَعْلَمُونَ ( ۱۳ )

جب ان سے كہا جاتاہے كہ دوسرے مومنين كى طرح ايمان لے آؤ تو كہتے ہيں كہ ہم بيوقوفوں كى طرح ايمان اختيار كرليں حالانكہ اصل ميں يہى بيوقوف ہيں اور انھيں اس كى واقفيت بھى نہيں ہے _

۱ _ پيامبر اسلام(ص) نے منافقين سے چاہا كہ وہ باقى لوگوں كى طرح ايمان لے آئيں _و اذا قيل لهم ء امنوا كما ء امن الناس بعد والى آيت ميں ہے كہ منافقين لوگوں كے سامنے ايمان كا اظہار كرتے تھے لہذا احتمال يہ ہے كہ پيامبر اسلام (ص) اور منافقين كے مابين گفتگو ہوئي ہو جس ميں انہوں نے اپنى بے ايمانى كا اظہار كيا _

۲ _ عام لوگ پيامبر اسلام (ص) اور دين اسلام پر ايمان لانے ميں سچے تھے _آمنوا كما آمن الناس

۳ _ سچے مومنين منافقين كى نظر ميں بے وقوف اور احمق لوگ ہيں _قالوا ا نومن كما آمن السفهاء

۶۱

۴ _ اہل نفاق نے بيمار دل ہونے كے باعث اہل ايمان پر حماقت كى تہمت لگائي _فى قلوبهم مرض أنومن كما آمن السفهاء

۵ _ تكبر اور اپنى بڑائي بيان كرنا اور سچے مومنين كى تحقير كرنا منافقين كى صفات ميں سے ہے_أنومن كما آمن السفهاء

۶ _ منافقين نے مومنين پر حماقت كى تہمت لگاكر دعوت ايمان كو قبول نہ كيا _قالواأانومن كما آمن السفهاء

۷ _ منافقين خود كو بڑے عاقل اور روشن فكر سمجھتے ہيں _أنومن كما آمن السفهاء

۸ _ منافقين خود ہى بے عقل اور احمق ہيں _الاانهم هم السفهاء اس جملے ''الا انهم ...'' ميں خبر پر موجود ''ال'' اور ضمير فصل حصر پر دلالت كرتے ہيں اصطلاح ميں اسے حصر اضافى كہتے ہيں پس جملے كا معنى يہ بنتاہے _ منافقين ہى احمق ہيں نہ كہ سچے مومنين_

۹_ منافقين اپنى حماقت و كم عقلى سے بے خبر ہيں _الا انهم هم السفهاء و لكن لا يعلمون

۱۰_ نيكيوں كو برائي سمجھنا اور برائيوں كو نيكى تصور كرنا منافقين كى خصوصيات ميں سے ہے_اذا قيل و اذا قيل لهم آمنوا قالواانومن كما آمن السفهاء يہ مطلب اس سے اخذ ہوتاہے كہ منافقين فساد، خرابى اور تباہى كو اصلاح اور ايمان كو حماقت و بے عقلى تصور كرتے ہيں _

ايمان : ايمان كے متعلقات ۲;ايمان ميں صداقت ۲; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۱

قلب: بيمارى قلب كے نتائج و اثرات ۴

منافقين : منافقين اور روشن فكرى ۷; منافقين اور مومنين ۳، ۴،۵،۶; منافقين كا ايمان سے اجتناب ۶; منافقوں كا تكبر ۵; منافقوں كو ايمان كى دعوت ۱;منافقوں كى جہالت ۹; منافقين كى حماقت ۸،۹; منافقين كى صفات ۵، ۸ ، ۱۰;منافقين كے توہمات۷;منافقين كے قلب كى بيمارى ۴

منكر يا برائي : برائي كو نيكى ( معروف) تصور كرنا ۱

مومنين: صدر اسلام كى مومنين كى صداقت ۲; مومنين پر حماقت و بے عقلى كى تہمت ۳،۴; مومنين كے تحقير ۵

نيكياں يا معروف : نيكيوں كو منكر (برائي) تصور كرنا ۱۰

۶۲

وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِؤُونَ ( ۱۴ )

جب يہ صاحبان ايمان سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لے آئے اور جب اپنے شياطين كى خلوتوں ميں جاتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تمھارى ہى پارٹى ميں ہيں ہم تو صرف صاحبان ايمان كا مذا ق اڑاتے ہيں _

۱ _ منافقين جب مومنين كے درميان ہوتے ہيں تو ايمان كا اظہار كرتے اور اپنے آپ كو مسلمان ثابت كرنے كى كوشش كرتے _و اذالقوا الذين آمنوا قالوا آمنا

۲ _ بعثت النبى ( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے زمانے كے منافقين دو گروہوں پر مشتمل تھے _ ايك منافقوں كے سربراہ اور دوسرے ان كے پيروكار_و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا و اذا خلوا الى شياطينهم

''شياطينہم'' سے مراد منافقوں كے سردار ہيں ان كو شيطان قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ سازشيں تيار كرنے اور لائحہ عمل دينے والے لوگ يہى تھے_ يہاں قابل ذكر نكتہ يہ ہے كہ منافقين كے سردار وں كا بھى منافق ہونا احتمال كى صورت ميں پيش كيا گيا ہے_

۳ _ صدر اسلام كے منافقين اپنے سرداروں ، رہبروں كے ساتھ مخفى ملاقاتيں كرتے تا كہ اسلام و مسلمين كے خلاف سازشيں تيار كريں _

و اذا خلوا الى شياطينهم

'' خلا بہ واليہ'' اسكا معنى يہ ہے كہ اس نے اس كے ساتھ خلوت ( ميں ملاقات) كى _ بعض كا كہناہے كہ ''خلا'' جب ''الي'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو اس ميں ''جانے'' كا مفہوم بھى پايا جاتاہے بنابرايں '' و اذا خلوا ...'' كا معنى يہ ہوا ''و اذا ذہبوا الى شياطينہم خالين بھم'' يعنى جب وہ اپنے سرداروں كى طرف جاتے تو ان كے ساتھ خلوت نشين ہوتے_

۴ _ منافقين كے گرو يا سربراہ سازشيں تيار كرنے والے شرير اور شياطين كى طرح ہيں _و اذا خلوا الى شياطينهم

۶۳

۵ _ صدر اسلام كے منافقين جب اپنے سربراہوں كى محفل ميں ہوتے تواپنے ہم مذہب،ہم عقيدہ (يعنى اسلام كا انكار) ہونے پر تاكيد كرتے_و اذا خلوا الى شياطينهم قالوا انا معكم

۶_ منافقوں كے اظہار اسلام كا ہدف مسلمانوں اور ايمانى معاشرے كا مذاق اڑانا ہے_قالوا آمنا انما نحن مستهزء ون

۷_ بعثت النبى ( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے زمانے ميں منافقت كى تحريك كے سربراہ اپنے پيروكاروں كے اسلام كى طرف رغبت سے پريشان تھے_قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن '' انما ...'' ميں حصر اضافى ہے اور '' حصر قلب'' كى ايك قسم ہے ايسے حصر كا استعمال وہاں ہوتاہے جہاں متكلم مخاطب كيلئے پيش آنے والے وہم كو دور كرنا چاہتاہو_ اس جملے ''انما نحن ...'' ميں (سرداروں كا) تو ہم ( جو دور كيا جارہاہے) يہ ہے كہ وہ منافق جو پيروكار ہيں اسلام كى طرف راغب ہوگئے ہيں _

۸_ منافقوں كا ظاہرى طور پر مسلمانوں والے اعمال انجام دينا ہرگز اس ليئے نہيں ہوتا كہ منافقوں كو كچھ تھوڑى سى بھى دين سے رغبت ہے_قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن ''انما نحن ...'' ميں موجود حصر گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے يعنى ہم ايمان يا مومنين والے اعمال جو انجام ديتے ہيں انكا مقصد صرف مذاق اڑاناہے_

۹ _روى عن ابى جعفر عليه‌السلام '' فى قوله شياطينهم'' انهم كهانهم (۱) امام باقر عليہ السلام سے روايت ہے كہ آيہ مجيدہ ميں شياطينہم سے مراد يہودى كا ہن ہيں _

اسلام : اسلام كے خلاف سازشيں ۳ / حديث : ۹

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كا مذاق اڑانا ۶

مسلمان: مسلمانوں كا مذاق اڑانا ۶; مسلمانوں كے خلاف سازشيں ۳

منافقين : پيروكار منافقين ۲; صدر اسلام كے منافقين ۲، ۳، ۵، ۷; منافقين اور مومنين ۱; منافقين كااسلام ظاہر كرنا ۱،۶،۸; منافقين كا كفر ۵; منافقوں كا مذاق ۶; منافقوں كى تنظيم ۳; منافقين كى سازشيں ۳; منافقين كى منافقت ۱; منافقين كے جرائم ۳; منافقين كے رہبروں كى پريشانى ۷;منافقين كے رہبروں كى شيطنت ۴; منافقين كے رہبروں كى شيطانى حركات ۴; منافقين كے سردار ۲; منافقين كے سرداروں كى سازشيں ۴; منافقين كے شياطين ۹;منافقين كے كاہن ۹

____________________

۱) تبيان شيخ طوسى ج/۱ ص ۷۹ ، مجمع البيان ج/۱ ص ۱۴۰_

۶۴

اللّهُ يَسْتَهْزِىءُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ( ۱۵ )

حالانكہ خدا خود ان كو مذاق بنائے ہوئے ہے اور انھيں سركشى ميں ڈھيل ديئے ہوئے ہے جو انھيں نظر بھى نہيں آرہى ہے_

۱_ اللہ تعالى نے منافقين كو ذليل و خوار كركے ان كا مذاق اڑايا _

الله يستهزيء بهم

''استهزائ ' 'كا معنى تمسخر اڑاناہے_ ہدف يہ ہے كہ جسكا تمسخر اڑايا گياہے اس كو ذليل و خوار كيا جائے_

۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے منافقين كو ''استہزائ'' كرنا يہ اس عمل كى سزا تھى جو وہ اسلام اور ايمانى معاشرے كا مذاق اڑاتے تھے_

انما نحن مستهزء ون _ الله يستهزيء

اس آيہ مجيدہ ميں تمسخر كرنے والے منافقين كى سزا بيان كى گئي ہے_

۳ _ منافقين گمراہى و سركشى كى وادى ميں متحير و سرگرداں ہيں _

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

'' يعمہون'' كا مصدر '' عَمَہ'' ہے جسكا معنى حيرت و سرگردانى ہے _ '' يمدھم'' ميں ''ہم''

كے لئے يعمہون حال واقع ہوا ہے اور '' فى طغيانہم'' يمدہم سے متعلق ہونے كے علاوہ يعمہون سے بھى متعلق ہوسكتاہے_ پس جملے كا معنى يوں ہوگا منافقين در آں حاليكہ گمراہى و سركشى ميں سرگرداں ہيں اللہ تعالى انكى سركشى ميں اضافہ كرتاہے_

۴ _ اہل نفاق كى سركشى و سرگردانى ميں مسلسل اضافہ ہورہاہے _

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

''يمدّ'' كا مصدر ''مدّ'' ہے جسكا معنى اضافہ كرنا يا مہلت دينے كے ہيں _مذكورہ مطلب پہلے معنى سے ماخوذ ہے_

۵ _ اہل نفاق كى حيرت و سركشى ميں اضافہ اللہ تعالى كى جانب سے سزا كے طور پر ہے_

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

۶_ اللہ تعالى كى جانب سے سزا گناہگاروں كے گناہ كے مطابق ہے_انما نحن مستهزؤن _ الله يستهزيء بهم

۶۵

۷ _ منافقين، گمراہوں اور سركشوں كو مہلت دينا اللہ تعالى كى سنتوں ( روشوں ) ميں سے ايك سنت ہے_

و يمدهم فى طغيانهم يعمهونيہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' مدّ'' كا معنى مہلت دينا مراد ليا جائے لسان العرب ميں آياہے ''مده فى غيه''يعنى _ امهله_ اسكو مہلت دى _

۸ _ منافقين كو انكى سركشى اور سرگردانى ميں مہلت دينا اللہ تعالى كى جانب سے انكا تمسخر ہے_الله يستهريء بهم و يمدهم فى طغيانهم يعمهون يہ مطلب اس بناپر ہے اگر جملہ '' يمدھم ...'' ، ''الله يستهزيء بهم'' كے لئے بيان اور تفسير ہو _

۹ _ صادق و سچے مومنين اللہ تعالى كى بارگاہ ميں نہايت عزيز و محترم ہيں _

انما نحن مستهزؤن _ الله يستهزيء بهماللہ تعالى نے اپنے مومنين كا منافقين كى طرف سے تمسخر كا جواب دياہے اور اسكا دفاع فرماياہے جملے كا آغاز اپنے باعظمت و جلال اسم '' اللہ'' سے فرماياہے اور خود كو انكا تمسخر كرنے كا جواب دياہے_ اس طرح كا برتاؤ كرنا اس ميں بہت سارے نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ مومن كى اللہ تعالى كے ہاں بہت عزت و منزلت ہے_

۱۰_ تمسخر كى سزا اگر تمسخر ہو تو ناپسنديدہ نہيں ہے _انما نحن مستهزء ون_الله يستهزيء بهم

۱۱ _ امام رضا (عليہ السلام) سے روايت ہے _

''ان الله تبارك و تعالى لا يسخر و لايستهزي ...ولكنه عزوجل يجازيهم جزاء السخريةوجزاء الاستهزائ ...''(۱) اللہ تعالى كسى كا بھى تمسخر اور استہزاء نہيں كرتا بلكہ اسكى صاحب عزت و جلال ذات منافقين كو ان كے تمسخر اور استہزاء كى سزا ديتى ہے_

استہزاء : جائز استہزاء ۱۰; استہزاء كى سزا ۱۰

اسلام: اسلام كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا تمسخر كرنا ۱، ۲ ، ۸، ۱۱; اللہ تعالى كا سزا دينا ۵ ، ۶; سنن الہى ۷

پاداش: پاداش دينے كا نظام ۶;گناہ كا پاداش سے تناسب۶

حديث : ۱۱

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۶۳ ح /۱ باب ۲۱ ، نورالثقلين ج/۱ص ۳۵ ح ۲۳_

۶۶

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲

سركش: سركشوں كو مہلت دينا ۷

سنن الہي: مہلت دينے كى الہى سنت ۷

گمراہ: گمراہوں كو مہلت دينا ۷

منافقين : منافقين كا تمسخر ۱، ۲، ۸; منافقين كو مہلت دينا ۷،۸;منافقين كى تحقير ۱; منافقين كى سركشى ۳ ، ۸; منافقين كى سركشى ميں اضافہ ۴،۵ ; منافقين كى سرگردانى ۳،۸; منافقين كى سرگردانى ميں اضافہ ۴،۵; منافقين كى سزا ۵; منافقين كى گمراہى ۳;منافقين كے تمسخر كى سزا ۲،۱۱

مومنين: مومنين كى عزت ۹; مومنين كى منزلت و درجات ۹

أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ ( ۱۶ )

يہى وہ لوگ ہيں جنھوں نے ہدايت كو دے كر گمراہى خريدلى ہے جس تجارت سے نہ كوئي فائدہ ہے اور نہ اس ميں كسى طرح كى ہدايت ہے _

۱_ منافقين ہدايت كے كھوجانے اور ضائع كردينے كے مقابل گمراہى كے خريدار ہيں _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدي

۲ _ بعثت النبى (ص) كے زمانے ميں منافقين كے ہدايت حاصل كرنے كے تمام امكانات موجود تھے_اشترو الضلالة بالهدي آيہ مجيدہ ميں ہدايت كو انكا سرمايہ شمار كيا گيا ہے_ در آں حاليكہ منافقين نے ہدايت نہ پائي پس آيہ مباركہ اس حقيقت كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ ہدايت كے تمام تر امكانات اور خارجى اسباب گويا ان كے اختيار ميں تھے_

۳_ منافقين كى تجارت ( ہدايت كے مقابلے ميں گمراہى خريدنا) ايسى تجارت ہے جس ميں كوئي سود و منفعت نہيں ہے_

فما ربحت تجارتهم

۶۷

۴ _ منافقين اپنے حقيقى سود و زياں سے آگاہى نہيں ركھتے _و ما كانوا مهتدين

ما قبل جملوں كى روشنى ميں '' مہتدين'' سے مراد حقيقى سود و زياں ہے گويا آيت كا مفہوم يہ ہے:و ما كانوا مهتدين الى منافعهم و مضارهم

۵_ اہل نفاق كا گمراہى اختيار كرنے اور ہدايت كو كھودينے كا سبب اپنے حقيقى سود و زياں سے عدم آگاہى ہے_اولئك الذين اشتروا الضلالة و ما كانوا مهتدين

''ما كانوا مهتدين'' كا جملہ''اشتروا الضلالة بالهدى '' پر عطف ہے گويا اسكى دليل كے طور پرہے_ يعنى يوں ہے: چونكہ اپنے حقيقى سود و زياں سے آگاہ نہيں ہيں اس لئے انہوں نے ايسى تجارت كى ہے_

۶ _ انسان كا حقيقى نقصان و زياں اس ميں ہے كہ وہ گمراہى اختيار كرے اور ہدايت كو كھودے_اشتروا الضلالة بالهدى فما ربحت تجارتهم

۷ _ منافقين اسلام كے فقط اظہار سے اپنے مقاصد (مفادات كا حصول اور اسلام كو نقصان پہنچانا) ميں كاميابى حاصل نہيں كرسكتے _و ما كانوا مهتدين

يہ مطلب اس صورت ميں ہے كہ '' مھتدين'' كامتعلق منافقوں كے مقاصد ہوں يعنى مراد يہ ہو :و ما كانوا مهتدين الى مقاصدهم _ بعد والى آيات اس مطلب كى تائيد بھى كرتى ہيں _

گمراہي: گمراہى كا زياں ۶

منافقين: صدر اسلام كے منافقين ۲; منافقوں كا اظہار اسلام ۷; منافقوں كا نقصان۴;منافقوں كى تجارت ۳; منافقين كى جہالت ۴;منافقين كى جہالت كے اثرات و نتائج ۵; منافقوں كى سازشيں ۷; منافقوں كى شكست ۷; منافقين كى گمراہى ۱،۳; منافقين كى گمراہى كے عوامل ۵; منافقين كى ہدايت ۲; منافقين كى ہدايت فروشى ۱، ۳، ۵

نقصان و زيان: نقصان كے عو امل ۶

۶۸

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ ( ۱۷ )

ان كى مثال اس شخص كى ہے جس نے روشنى كے لئے آگ بھڑكائي اور جب ہر طرف روشنى پھيل گئي تو خدا نے اس نور كو سلب كرليا اور اب اسے اندھيرے ميں كچھ سوجھتا بھى نہيں ہے _

۱ _ منافقين كا اظہار ايمان كرنا ايسے شخص كى مانند ہے جو تاريكى سے نجات كے لئے بہت جلد بجھنے والى آگ روشن كرے_

مثلهم كمثل الذى استوقد ناراً فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم

''استوقد '' كا مصدر استيقاد ہے جسكا معنى آتش روشن كرنا ہے ''لما'' حرف شرط ہے جبكہ اسكا جواب محذوف ہے اور يہ جملہ ''ذہب اللہ ...'' اس كے جواب كى طرف اشارہ ہے گويا مطلب يوں ہوا : جيسے ہى آگ نے اس كے اطراف ميں روشنى پھيلائي تو بجھ گئي اور وہ تاريكى ميں رہ گيا_

۲_ منافقين ايمان كا مظاہرہ كركے اپنے مفادات كا حصول اور معاشرتى مشكلات سے چھٹكار اچاہتے ہيں _

مثلهم كمثل الذى استوقد ناراً ذهب الله بنورهم

منافقين كو ايسے آدمى سے تشبيہ دى گئي ہے جو تاريكى ميں بہت جلد بجھنے والى آگ جلاتاہے_

اس سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ كافر ايمانى معاشرے ميں سماجى مشكلات سے دوچار ہے لہذا مجبوراً ايمان كا اظہار كرتاہے تا كہ ان مشكلات سے نجات حاصل كرسكے ليكن اللہ تعالى بہت جلد ہى اسكو ذليل و رسوا كرديتاہے_

۳ _ منافقين كو ايمان كا مظاہرہ كرنے سے بہت ہى كم اور ناپائيدار مفادات حاصل ہوتے ہيں _فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم

۴ _ منافقين اپنے ايمان كے مظاہرے سے سوء استفادہ كرپائيں اللہ تعالى اس فرصت كو بہت محدود فرماديتاہے_ذهب الله بنورهم

۵ _ ايمان كے مظاہرے سے كچھ فائدے حاصل ہوتے ہيں اگرچہ يہ فوائدناپائيدار اورزودگذرہوتے ہيں _فلما اضائت ما حوله ذهب الله بنورهم

۶_ كچھ لوگ اگر چہ ان كا ايمان صادق ہوتاہے ليكن

۶۹

اس كے باوجود منافقت كى طرف مائل اور منافقين ميں سے ہوجاتے ہيں _ذهب الله بنورهم اس جملے ''ذہب اللہ بنورہم'' ميں ان كى تعريف كى گئي ہے كہ جو نور ركھتے تھے اس اعتبار سے مذكورہ بالا مفہوم اخذ كيا جاسكتاہے گويا آيہ مباركہ بيان فرمارہى ہے كہ منافقين كا ايك گروہ ايسا ہے جو شروع ميں حقيقى ايمان لے آيا ليكن بعض عوامل و اسباب كى بناپر منافق ہوگيا_ اس بات كى تائيد بعد والى آيت كا يہ جملہ ہے'' فهم لا يرجعون''

۷_ اللہ تعالى منافقوں كو نور ايمان سے محروم كركے انتہائي سخت تاريكيوں ميں مبتلا كرتاہے_ذهب الله بنورهم و تركهم فى ظلمات لا يبصرون ''ظلمات'' نكرہ استعمال ہوا ہے اس سے تاريكى كى شدت و سختى مراد ہے_

۸_گمراہى كے مختلف شعبے اور اسكے مختلف چہرے ہيں _و تركهم فى ظلمات لا يبصرون يہ مطلب '' ظلمات _ تا ريكياں اور گمراہياں '' كے جمع استعمال ہونے سے ماخوذ ہے_

۹_ منافقين سے نور ايمان سلب ہونے كے بعد ہدايت كى كوئي راہ باقى نہيں رہي_و تركهم فى ظلمات لا يبصرون جملہ'' تركهم فى ظلمات'' يہ بيان كرتاہے كہ منافقين كو تاريكيوں نے مكمل طور پر گھير ركھاہے لہذا نجات كى كوئي راہ نہيں ہے جملہ''لا يبصرون_ وہ نہيں ديكھتے'' حكايت كرتاہے كہ ديكھنے اور ہدايت ہونے كے وسائل و امكانات نابود ہوچكے ہيں بالفاظ ديگر نہ صرف يہ كہ ہدايت كى راہ ميں ركاوٹيں ايجاد ہوچكى ہيں بلكہ ان ميں ہدايت قبول كرنے كى صلاحيت ہى ختم ہوچكى ہے_

۱۰_ منافقين كو بہت كم مدت روشنى كے بعد تاريكى و گمراہى ميں رہنے دينا اللہ تعالى كى جانب سے ان كا استہزاء ( تمسخر) تھا_الله يستهزيء بهم فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم ممكن ہے اس جملے ''الله يستهزي بهم و يمدهم'' كے لئے توضيحى جملہ مثال كى صورت ميں يہ جملہ ہو'' فلما اضا ء ت ما حوله ...''

۱۱ _ ابراہيم بن ابى محمود كہتے ہيں :'' سألت ابا الحسن الرضا عليه‌السلام عن قول الله تعالى ''و تركهم فى ظلمات لا يبصرون''فقال ...منعهم المعاونة و اللطف وخلى بينهم و بين اختيارهم (۱) ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے سوال كيا اللہ تعالى كے اس قول''وتركہم فى ظلمات لا يبصرون'' كا كيا مطلب ہے؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا يعنى ان كو اپنى مدد اور لطف و كرم سے محروم كرتاہے اور ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديتاہے_ اللہ تعالى : اللہ تعالى كا استہزاء ( تمسخر) كرنا ۱۰; اللہ تعالى كے افعال۷; امداد الہى سے محروم ہونا ۱۱

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۱ ص ۱۲۳ ح ۱۵ باب۱۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۳۶ ح ۲۶_

۷۰

ايمان: اظہار ايمان كے اثرات و نتائج ۵; ايمان سے محروم لوگ ۷; نور ايمان ۷ ، ۹

تاريكي: تاريكى كے درجات ۷

تشبيہات: آگ جلانے والے سے تشبيہ ۱

حديث: ۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كى مثاليں ۱

گمراہي: گمراہى كى اقسام ۸

منافقت: منافقت كى طرف مائل ہونے والے ۶

منافقين : ۶ منافقين تاريكى ميں ۷ ، ۱۰; منافقين كا استہزاء كرنا ۱۰; منافقين كا اظہار اسلام ۱،۲،۳،۴; منافقين كو مہلت دينا ۴; منافقين كى گمراہى ۹،۱۰; منافقين كى محروميت ۷; منافقين كى مفادپرستى ۲; منافقين كى ہدايت ۹

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ ( ۱۸ )

يہ سب بہرے ، گونگے اور اندھے ہوگئے ہيں اور اب پلٹ كر آنے والے نہيں ہيں _

۱_ ظلمت و گمراہى ميں رہنے والے منافقين بہرے، گونگے اور نابينا افراد كى طرح ہيں _

تركهم فى ظلمات لا يبصرون_صم بكم عمي صم بكم، عمى بالترتيب اصم ( بہرہ)ابكم ( گونگا) اوراعمى ( اندھا) كى جمع ہے _ يہ كلمات مبتدائے محذوف كى خبر ہيں جو ''ہم'' ہے اور ماقبل آيت ميں ان لوگوں ( ظلمتوں ميں گھرے ہوئے منافقين ) كا ذكر ہوا ہے_

۲_ منافقين حق سننے ، حق ديكھنے اور حق بولنے كى توانائي نہيں ركھتے_صم بكم عمي

۳ _ منافقين معارف الہى اور دينى حقائق كے ادراك و تشخيص سے ناتواں ہيں _صم بكم عمي

۴ _ حقائق كے سننے، ديكھنے اور كہنے سے عاجزى و ناتوانى وہ ظلمتيں ہيں جن سے منافقين دوچار ہيں _و تركهم فى ظلمات لا يبصرون _ صم بكم عمي يہ آيہ مباركہ ممكن ہے ''ظلمات '' اور''لا يبصرون'' كے لئے تفسير ہو_

۵ _ گمراہيوں كى ظلمت ميں گھرے ہوئے منافقين كے پاس راہ نجات نہيں ہے اور يہ لوگ حقيقى ايمان كى طرف نہيں لوٹ سكتے_صمٌ بكمٌ عميٌ فهم لا يرجعون

تشبيہات: اندھے سے تشبيہ ۱;بہرے سے تشبيہ ۱; گونگے سے تشبيہ ۱

۷۱

ظلمت: ظلمت كے موارد ۴،۵

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ۱

گمراہي: گمراہى كى ظلمت ۵

منافقين : منافقين اور حق بينى ۲; منافقين اور حق گوئي ۲; منافقين كا اندھاپن ۱; منافقين كا برا ادراك ۳،۴; منافقين كا بہرہ پن ۱;منافقين كا حق نہ سننا۲، ۴; منافقين كا عجز ۳،۴; منافقين كا گونگا پن ۱; منافقين كا ہدايت قبول نہ كرنا ۵;منافقين ظلمت ميں ۱، ۴ ، ۵; منافقين كى گمراہى ۱، ۵;منافقين كے پاس ادراك كى صلاحيت نہ ہونا ۳، ۴

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاء فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصْابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّهُ مُحِيطٌ بِالْكافِرِينَ ( ۱۹ )

ان كى دوسرى مثال آسمان كى اس بارش كى ہے جس ميں تاريكى اور گرج چمك سب كچھ ہو كہ موت كے خوف سے كڑك ديكھ كر كانوں ميں انگلياں ركھ ليں حالانكہ خدا كافروں كا احاطہ كئے ہوئے ہے اور يہ بچ كر نہيں جاسكتے ہيں _

۱ _ اسلام اور قرآن انسانى حيات كا سرمايہ اوررشد و تكامل كاباعث ہيں _او كصيب

۲ _ قرآن كريم منافقين كے لئے ايسى بارش كى مانندہے جو تاريك و خوفناك رات ميں بجلى اور گرج چمك كے ساتھ ہو _او كصيب من السماء فيه ظلمات و رعد و برق

۳ _ قرآن كريم اہل نفاق كے لئے ظلمت و وحشت آفرين ہے اور بعض اوقات روشنى بخش ( بعض زودگذر مفادات كا ذريعہ) بھى ہے _فيه ظلمات و رعد و برق

۴ _ منافقين قرآنى معاشرے ميں اور اسلام كے مقابل خود كو نابودى و زوال ميں تصور كرتے تھے_يجعلون اصابعهم فى آذانهم من الصواعق حذر الموت

۵ _ كفار ہر طرف سے اللہ تعالى كى قدر ت و سلطنت ميں گھرے ہوئے ہيں _والله محيط بالكافرين

۶_ منافقين كفار كے زمرے ميں ہيں _والله محيط بالكافرين

۷_ شكست، ناكامى اور زوال منافقين كا انجام ہے_والله محيط بالكافرين

۸ _ منافقين قرآن كريم كى عظمت و شہرت اور اسلام كے پھيلاؤ كے مقابل اس كے سوا كوئي چارہ نہيں ركھتے مگر يہ كہ يہ اظہار كريں انہيں تو سنائي ہى نہيں دے رہا_يجعلون اصابعهم فى آذانهم من الصواعق حذر الموت

اسلام: اسلام كى اہميت و كردار ۱; اسلام كى خصوصيات ۱

۷۲

اسماء و صفات: محيط ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا احاطہ ۵

تشبيہات: تاريكى ميں بارش سے تشبيہ ۲; تاريكى ميں بجلى سے تشبيہ ۲; تاريكى ميں بجلى كڑكنے سے تشبيہ۲

حيات: حيات كے عوامل ۱

رشد و تكامل: رشدو تكامل كے عوامل ۱

قرآن كريم : قرآن كريم اور منافقين ۲،۳; قرآن كريم كى اہميت و كردار ۱;قرآن كريم كى تشبيہات ۲; قرآن كريم كى خصوصيات ۱

كفار: ۶ كفار اللہ تعالى كے گھيرے ميں ۵

منافقين : منافقين اور اسلام ۸; منافقين اور قرآن ۸ ; منافقين دينى معاشرے ميں ۴;منافقين كا انجام ۷;منافقين كا حق نہ سننا ۸; منافقين كا كفر ۶;منافقين كى شكست ۷; منافقين كى ہلاكت ۷

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاء لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۲۰ )

قريب ہے كہ بجلى ان كى آنكھوں كو چكا چوند كردے كہ جب وہ چمك جائے تو چل پڑيں اور جب اندھيرا ہوجائے تو ٹھہر جائيں خدا چاہے تو ان كى سماعت و بصارت كو بھى ختم كرسكتاہے كہ وہ ہر شے پر قدرت و اختيار ركھنے والا ہے _

۱ _ منافقين اسلام كى سربلندى اور پيشرفت كے مقابلے ميں خو د كو درماندہ اور بندگلى ميں ديكھتے ہيں _يكاد البرق يخطف ابصارهم ان آيات ميں اسلام كے مقابلے ميں منافقين كى حالت كو چند تشبيہات سے بيان كيا گياہے_ مفسرين كا كہناہے اس جملے'' يكاد البرق ...'' ميں اسلام اور اس كى بركت سے ملنے والے وسائل و امكانات كو '' برق _ بجلي'' سے تشبيہ دى گئي ہے اسكے ساتھ ہى ان نعمتوں سے مفادپرست اور موقع پرست منافقين كے فائدہ اٹھانے كو ايك اور تشبيہ سے بيان كيا گيا ہے_

۲ _ منافقين باوجود اس كے كہ اسلام كے مقابلے ميں درماندہ و زبوں حال ہيں پھر بھى اپنى موقع پرستى كے ذريعے اسلام كى نعمتوں سے استفادہ كرنے كے در پے ہيں _كلما اضاء لهم مشوا فيه

۷۳

۳ _ اسلامى معاشرے كى سہولتوں اور فوائد سے استفادہ كرنا ليكن مشكلات اور سختيوں كے وقت عليحدہ رہنا منافقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و اذا اظلم عليهم قاموا

۴ _ اللہ تعالى نے بعض منافقين كے ادراك و فہم كى صلاحيت سلب فرماكر انہيں ايسا بنادياہے كہ وہ حق قبول نہيں كرسكتے اور بعض كو ہدايت قبول كرنے كى مہلت عنايت فرمائي ہے_و لو شاء الله لذهب بسمعهم و ابصارهم

۵_ منافقين اس بات كے سزاوار ہيں كہ انہيں معارف الہى كى شناخت سے محروم كرديا جائے_و لو شاء الله لذهب بسمعهم و ابصارهم

۶ _ اللہ تعالى ہر كام انجام دينے پر قادر ہے _ان الله على كل شيء قدير

۷ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ''قيل لامير المومنين عليه‌السلام هل يقدر ربك ان يدخل الدنيا فى بيضة من غير ان تصغر الدنيا و تكبر البيضه؟ قال ان الله تبارك و تعالى لا ينسب الى العجز والذى سألتنى لا يكون (۱)

امير المومنينعليه‌السلام سے سوال كيا گيا : كيا اللہ تعالى دنيا كو مرغى كے انڈے ميں قرار دے سكتاہے بغير اس كے كہ دنيا چھوٹى ہوجائے اور انڈا بڑا ہوجائے؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا اللہ تبارك و تعالى كى ذات اقدس كو عاجزى كى نسبت نہيں دى جاسكتى ليكن جو تو نے پوچھا ہے وہ ہوہى نہيں سكتا_

اسلامى معاشرہ : اسلامى معاشرے سے استفادہ كرنا ۳

اسماء و صفات: قدير ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت ۶; اللہ تعالى كى قدرت كا دائرہ۷

حديث : ۷

دين: دين فہمى سے محروم لوگ ۵

منافقين : منافقين اور اسلام۱، ۲;منافقين اور دينى تعليمات ۵;منافقين كا حق قبول نہ كرنا ۴;منافقين كا عجز ۲، ۵; منافقين كا مشكلات سے فرار ۳;منافقين كى جہالت ۵; منافقين كى خصوصيات۳;منافقين كى شكست ۱; منافقين كى محروميت ۵;منافقين كى موقع پرستى ۲،۳; منافقين كے ادراك كى صلاحيت سلب ہونا ۴،۵; منافقين كے لئے مہلت ۴;

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۳۰ ح ۹ باب ۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۹ ح ۳۶_

۷۴

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( ۲۱ )

اے انسانو پروردگار كى عبادت كرو جس نے تمھيں بھى پيدا كيا ہے اور تم سے پہلے والوں كو بھى خلق كيا ہے _ شايد كہ تم اسى طرح متقى اور پرہيزگا بن جاؤ _

۱_ لوگوں كے لئے اللہ كى عبادت و پرستش ايك لازم و ضرورى فريضہ ہے_يا ايها الناس اعبدوا ربكم

۲_ اللہ تعالى سب انسانوں كا پروردگار ہے_يا ايها الناس اعبدوا ربكم

۳ _ اللہ تعالى تمام موجودہ اور گذرے ہوئے انسانوں كا خالق ہے _اعبدوا ربكم الذى خلقكم و الذين من قبلكم

۴ _ انسانوں كا خالق ہونا وہ واحد حقيقت ہے جو اس بات كى شائستگى ركھتى ہے كہ اللہ تعالى كى پرستش كى جائے_اعبدو ربكم الذى خلقكم و الذين من قبلكم عبادت و بندگى كے ضرورى ہونے كے بعد اللہ تعالى كا ''خالقيت'' سے موصوف ہونا گويا عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل بيان فرمارہاہے_

۵_ اللہ تعالى كى انسانوں پر ربوبيت اسكى پرستش و عبادت كى شائستگى كى دليل ہے_اعبدوا ربكم ''اعبدوا ربكم'' ميں اللہ كى بجائے رب كا استعمال عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل كى طرف اشارہ ہے يعنى چونكہ ذات اقدس الہ العالمين ''رب '' ہے اس لئے پرستش كے لائق ہے پس اسكى عبادت ہونى چاہيئے_

۶ _ اللہ تعالى كى خالقيت و ربوبيت پر يقين انسان كيلئے اسكى بندگى كى طرف تمايل كا سبب ہے_اعبدوا ربكم الذى خلقكم

۷ _ انسانى اعمال و كردار كى بنياد انسان كا نظريہ كائنات يا جہاں بينى ہے_اعبدوا ربكم الذى خلقكم

۸ _ اللہ تعالى كى بندگى تقوى اختيار كرنے كى زمين ہموار كرتى ہے _

۷۵

اعبدوا ربكم لعلكم تتقون

۹ _ تقوى كا حصول تمام انسانوں كے لئے ايك نہايت لازم فريضہ ہے _لعلكم تتقون چونكہ عبادت كے ضرورى ہونے كا ہدف تقوى تك پہنچنا ہے پس تقوى كا حصول بھى لازم ہے _

۱۰ _ انسانوں كى خلقت كا ہدف تقوى كے مراتب كا حصول ہے_خلقكم لعلكم تتقون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ اگر ''لعلكم ...'' ، ''اعبدوا' ' كے علاوہ ''خلقكم'' سے بھى متعلق ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى كى بندگى انسان كو كفر و نفاق كے گرداب ميں گھر نے اور انكے نتائج سے محفوظ ركھتى ہے_ اعبدوا ربكم لعلكم تتقون كفر و نفاق كے شوم نتائج كا بيان كرنے كے بعد اللہ تعالى كى بندگى كى طرف دعوت ايك راہنمائي ہے تا كہ انسان خود كو كفر و نفاق كى طرف تمايل سے بچائے_ اس بناپر ''تتقون'' اپنے لغوى معنى ميں ہوگا اور اسكا متعلق كفر و نفاق ہوگا يعنى مفہوم آيت يوں ہوگا''اعبدوا ربكم لعلكم تتقون الكفر و النفاق''

۱۲_ اللہ تعالى كے احكام و ہ پروگرام ہيں جو انسان كو اس كے معين اہداف تك پہنچاتے ہيں _'' لعلكم تتقون'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ انسانوں كا متعين شدہ ہدف تقوى كا حصول ہے _ اس مقصد كے حصول كى خاطر اللہ تعالى نے عبادت كو واجب فرماياہے_ پس احكام الہى انسان كو اس كے اہداف تك پہنچانے كے لئے بيان ہوئے ہيں _

۱۳ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ'' فان قال ( قائل ) فلم تعبّدهم ؟ قيل لئلا يكونوا ناسين لذكره و لا تاركين لادبه و لا لاهين عن امره و نهيه (۱)

اگر كوئي يہ كہے كہ اللہ نے انسانوں كے لئے عبادت كيوں ضرورى قرار دى ہے ؟ تو كہا جائے گا اس لئے كہ اس كى ياد سے غافل نہ ہوں ؟ اس كے ادب كو ترك نہ كريں اور اس كے امر و نہى سے بى اعتنائي نہ برتيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۴; اللہ تعالى كى خالقيت ۳; اوامر الہى پر عمل ۱۳;ربوبيت الہى ۲،۵

انسان: انسان كا خالق ۳ ، ۴; انسان كى خلقت كا فلسفہ ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۱ ، ۹

ايمان: اللہ تعالى كى خالقيت پر ايمان ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۶;ايمان كے نتائج ۶; ايمان كے متعلقات ۶

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۲ ص ۱۰۳ ح ۱ باب ۳۴ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۹ ح ۳۹_

۷۶

بندگى و عبوديت: عبوديت كى بنياد يا جڑ ۶

تقوى : تقوى كى اہميت ۹،۱۰; تقوى كى بنياد ۸

جہاں بيني: جہاں بينى اور آئيڈيالوجى ۶،۷; جہاں بينى كى اہميت ۷

حديث : ۱۳

حقيقى معبود: حقيقى معبود كى خالقيت ۴

دين: فلسفہ دين ۱۲

ذكر: اللہ تعالى كے ذكر كى اہميت ۱۳

ذمہ دارى : ذمہ دارى كا عمومى ہونا ۱ ، ۹

عبادت: اللہ كى عبادت ۱; عبادت كا فلسفہ ۱۳; عبادت كى اہميت ۱; عبادت كى دليل ۵;عبادت كے اثرات و نتائج ۸، ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۷

كفر : كفر كے موانع ۱۱

معبوديت: معبوديت كے معيارات ۴،۵

نفاق: منافقت كے موانع ۱۱

۷۷

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاء وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّكُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۲۲ )

اس پروردگار نے تمھارے لئے زمين كا فرش اور آسمان كا شاميانہ بناياہے اور پھر آسمان سے پانى برساكر تمھارى روزى كے لئے زمين سے پھل نكالے ہيں لہذا اس كے لئے جان بوجھ كر كسى كو ہمسر اور مثل نہ بناؤ _

۱ _ انسانوں كى زندگى كے لئے زمين بہت ہى موزوں اور وسيع بسترہے _جعل لكم الارض فراشا ''جعل '' كا معنى ''صير'' _ تبديل كيا ہوسكتاہے اور '' خلق''_ خلق كيا بھى ہوسكتاہے_ ''فراشاً'' كا معنى وسيع بستر ہے اسكا زمين پر اطلاق تشبيہ كے طور پر ہے يعنى مراد يہ ہے''جعل الارض كالفراش''

۲ _ زمين كو انسانى زندگى كے لئے نہايت موزوں و مناسب خلق كرنا اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے_اعبدوا ربكم ...الذى جعل لكم الارض فراشا ''الذى جعل ...'' ما قبل آيت ميں ''ربكم '' كے لئے دوسرى صفت ہے_

۳ _ زمين اپنى خلقت كے ابتدائي دور ميں انسان كى سكونت و رہائش كے قابل نہ تھي_الذى جعل لكم الارض فراشا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''جعل '' كا معنى ''صير' ' ہو يعنى اللہ تعالى نے زمين كو اس قابل بنايا كہ سكونت اور زندگى كرنے كے قابل ہوسكے_ اس سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ زمين اپنى خلقت كے ابتدائي زمانے ميں ايسى نہ تھى _

۴ _ اللہ تعالى كى نعمتوں اور فطرى نعمات سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے _فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۵ _ زمين كى وسعتوں ميں تمام انسانوں كو حق تصرف حاصل ہے_الذى جعل لكم الارض فراشا

۶ _ اللہ تعالى نے آسمان كو انسانوں كے منافع اور فوائد كے لئے بلند فرمايا _الذى جعل لكم السماء بناء

'' بنائ'' كا لفظ عرب لغت ميں عمارت، خيمہ و غيرہ كا معنى ركھتاہے_ آسمان كو بناء كہنا تشبيہ كے طور پر ہے يعنى مفہوم يہ ہوگا _جعل لكم السماء كالبناء _

۷۸

۷_ اللہ تعالى ہے جو بادلوں سے بارش نازل فرماتاہے_و انزل من السماء ماء ہر چيز جو اوپر ہو اسكو '' سمائ'' كہتے ہيں _ ''السمائ'' كا تكرار اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہر جگہ اس سے خاص مصداق مراد ہے _ پہلے جملے ميں چونكہ ''ارض'' كے مقابل استعمال ہوا ہے اس لئے آسمان كے معنى ميں ہے جبكہ دوسرے جملے ميں '' مائ'' كے قرينے سے اس سے بادل مراد ہوسكتا ہے_

۸ _ اللہ تعالى ہے جو رزق كا پيدا كرنے والا اور انسانوں كى زندگى كے اسباب مہيا فرمانے والا ہے_فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۹_ بادلوں سے نازل ہونے والا پانى انسانوں كے لئے رزق كے مہيا ہونے كا بنيادى سبب ہے_فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۱۰_ آسمان سے نازل ہونے والے پانى كے ذريعے اللہ تعالى درختوں كو پرثمر بناتاہے_وانزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات رزقالكم ثمرات كا مفرد ''ثمرة'' ہے جو درختوں كے پھلوں كےلئے استعمال ہوتاہے_''من الثمرات'' ميں '' منْ'' كا معنى بعض ہوسكتاہے_ اس صورت ميں ''من الثمرات' ، ''اخرج'' كے لئے مفعول ہوگا يعنى''فاخرج به بعض الثمرات ليكون رزقالكم'' ،''من'' بيانيہ بھى ہوسكتاہے پس اس صورت ميں ''اخرج ''كامفعول ''رزقاً '' ہوگا يعني:اخرج به رزقاً لكم وهى الثمرات

۱۱ _ درختوں كے پھل اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں اور انسانوں كے لئے رزق و روزى بھى ہے_فاخرج به من الثمرات رزقا لكم

۱۲_ آسمان كى خلقت ، بارش كا نزول، پھلوں كا پكنا اور انسانوں كے لئے رزق كا تيار ہونا يہ سب اللہ تعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _اعبدوا ربكم ...الذى جعل لكم ...رزقا لكم

۱۳ _ نعمتوں كا اللہ كى جانب سے ہونے كا يقين انسان كيلئے پروردگار كى بندگى كا محرّك بنتاہے_اعبدوا ربكم الذى انزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات يہ مطلب يوں استفادہ ہوتاہے كہ اللہ تعالى نے انسانوں ميں بندگى و عبادت كى روح زندہ كرنے كے لئے اپنى نعمتوں كى طرف لوگوں كى توجہ دلائي ہے_

۱۴ _ عالم طبيعات ميں اللہ تعالى كے افعال طبيعى اسباب اور عوامل كے ماتحت انجام پاتے ہيں _فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۱۵_ طبيعى عوامل و اسباب پر خداوند متعال كى مطلق حاكميت قائم ہے_انزل من السماء ماء فاخرج به

۷۹

۱۶_ خداوند قدوس كا كوئي مثل و ہمسر نہيں _فلا تجعلوا للّه انداداً ''انداد'' كا مفرد ''ند'' ہے جسكا معنى مثل و ہمسر ہے_

۱۷_ پروردگار عالم كے مثل و نظير كے بارے ميں توّہم سے اجتناب كى ضرورت ہے_فلا تجعلوا لله انداداً

۱۸_ اللہ تعالى كے خلق كرنے كے اور عالم طبيعات كى نعمات كى خلقت ميں غور و فكر انسان كو عقيدہ توحيد كى طرف لے جاتاہے_الذى خلقكم الذى جعل لكم الارض فلاتجعلوا لله انداداً جمله'' لا تجعلوا ...'' كو ''فائ '' كے ساتھ بيان كرنا اس آيت اور ماقبل آيت كے حقائق كى طرف اشارہ ہے يعنى يہ كہ ان امور كى طرف توجہ انسان كو توحيد ربوبى كى طرف لے جاتى ہے گويا يہ كہ جب يہ علم ہوگيا كہ خداوند متعال ہى تمہارا خالق ہے وہى زمين كا پيدا كرنے والا ہے اور تو اب يہ معقول نہيں كہ تم اس كے لئے مثل و نظير فرض كرو_

۱۹_ كائنات كى خلقت ميں باقاعدہ ہدف اور منصوبہ بندى موجود ہے_الذى جعل فاخرج به من الثمرات رزقالكم

اس آيہ مجيدہ ميں زمين، بارش اور ديگر عوامل كو ايك خاص ہدف كے پورا كرنے كے لئے بيان كيا گيا ہے_ جب بعض امور كو كسى خاص ہدف كى تكميل كے لئے بيان كيا جائے تو اصطلاح ميں اسے منصوبہ بندى كہا جاتاہے يعنى ان امور ميں ہدف كا ہونا ضرورى ہوتاہے_

۲۰_ لوگوں كو عالم طبيعات اور خلقت كے مطالعے اور مشاہدے كى طرف ترغيب دلانا ايك راہ ہے جس سے انہيں توحيد كى طرف راغب كيا جائے_الذى جعل لكم الارض فراشاً فلا تجعلوا لله انداداً

۲۱_ اللہ تعالى كے لئے مثل و ہمسر تصور كرنا درست علم و تفكر سے سازگار نہيں ہے_فلا تجعلوا لله انداداً و انتم تعلمون

۲۲_ اللہ تعالى كے لئے مثل و ہمسر تصور كرنا جہالت و نادانى كى بناپر ہے_فلا تجعلوا لله انداداً و انتم تعلمون

آسمان: آسمان كى خلقت ۶ ، ۱۲; آسمان كے فوائد ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حاكميت ۱۵; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۲،۱۲; اللہ تعالى كى عنايات ۴،۱۱;اللہ تعالى كى وحدانيت ۱۶; اللہ تعالى كے افعال ۶،۷،۸،۱۰،۱۴;خداشناسى كى روشيں ۲۰

انسان : انسانوں كا رزق ۹، ۱۱، ۱۲;انسانوں كے حقوق ۴،۵

ايمان: توحيد پر ايمان كى بنياد ۱۸

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

( i ) اس کا دوسری آیہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ سے پہلے نازل ہونا ثابت ہو جسے نسخ کے مدعی ثابت نہیں کر سکتے۔

( ii ) آیہ کریمہ :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ میں صدر اسلام کے روزوں کو ہر جہت سے گزشتہ اقوام کے روزوں سے تشبیہ دی جا رہی ہو (تاکہ وہ حکم میں یکساں ہو اور پھر آیت :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو جائے) اور یہ بات مفہوم عرفی بلکہ آیت کی صریح دلالت کیخلاف ہے کیونکہ آیہ شریفہ میں صدر اسلام کے روزے کے وجوب کو گزشتہ امتوں کے روزے کے وجوب سے تشبیہ دی جا رہی ہے دونوں کے روزوں کی تفصیلی کیفیت میں یگانگت بیان نہیں کی جا رہی تاکہ آیت :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اسے نسخ کیا جا سکے۔

اگر کسی اور خارجی دلیل سے ثہ بات بھی ہو کہ صدر اسلام اور قبل از اسلام کے روزوں کے احکام ایک جیسے تھے تو اس صورت میں آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ریعے ایسا حکم نسخ ہو گی جو قرآن کے علاوہ کسی اور دلیل سے ثابت ہو اور یہ ہمارے محل بحث سے خارج ہے۔

۶۔( وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ ) ۲:۱۸۴

''اور جنہیں روزہ رکھنے کی قوت ہے (اور نہ رکھیں) تو ان پر اس کا بدلہ ایک محتاج کو کھانا کھلا دینا ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہے،،۔

اس آیت کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) : ۱۸۵

''(مسلمانو!) تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں اپنی جگہ پر ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ رکھے،،

۳۸۱

پہلی آیت میں اگر ''طوق،، سے مراد (عام) طاقت و قدرت ہو تو آیت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ واضح اور درست ہے کیونکہ اس صورت میں آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو شخص روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے وہ چاہے تو روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے میں فدیہ کے طور پر مسکینوں کو کھانا کھلائے جبکہ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ماہ مبارک میں حاضر ہو وہ روزہ ضرور رکھے ، یعنی اختیاری حالت میں فدیہ پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔

لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ طاقت سے مرا دوہ قدرت ہے جس کے ساتھ مشقت اور زحمت ہو بنا برایں آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہخداوند متعال نے سب سے پہلے آیہ شریفہ:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا،،

کے ذریعے واجب تعیین(۱) کے طور پر روزہ رکھنا لازم قرار دیا ہے اور اس کے بعد آیہ شریفہ فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر : ۱۸۴

''(روزے کے دنوں میں) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو اور دونوں میں (جتنے قضا ہوئے ہوں) گن کر رکھ لے،،

کے ذریعے مسافر اور مریض سے اس حکم کو اٹھا لیا اور ان روزوں کے عوض کسی دوسرے وقت (جب مسافر کا سفر ختم ہو جائے اور مریض ٹھیک ہو جائے) روزہ جانے کا حکم دیا ہے۔

اس کے بعد بعض مخصوص افراد کیلئے جداگانہ حکم بیان کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا آدمی ، وہ آدمی جسے پیاس زیادہ لگتی ہو ، وہ مریض جس کا مرض آئندہ رمضان تک باقی رہے اور اس قسم کے دوسرے افراد جن کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت مشقت و زحمت اٹھانا پڑتی ہے ، ان لوگوں پر روزے کی ادا و قضا واجب نہیں بلکہ صرف فدیہ دیا جائے گا۔

___________________

(۱) جس کا کوئی اور چیز عوض نہ بن سکے۔

۳۸۲

معلوم ہوا جب آیہ کریمہ کی رو سے عام مومنین پر مخصوص ایام میں بطور واجب تعیینی روزوں کی ادا اور مریض و مسافر پر روزوں کی قضا کو فرض قرار دیا گیا تو وہ لوگ ان دونوں سے مختلف ہوں گے جن پر صرف فدیہ دینا واجب ہے آیات کی اس دلالت کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیہ کریمہ کے مطابق وہ آدمی جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہو ، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو روزوں کے بدلے میں فدیہ دے دے ، اسے اختیار ہے اہل بیت اطہار (ع) کی مستفیض روایات بھی آیہ کریمہ کی اسی تفسیر پر دلالت کرتی ہیں(۱)

لفظ طاقت اگرچہ عام قدرت اور توانائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن طاقت کے لغوی معنی ہیں: مشقت کثیرہ کے ساتھ کسی کام کی قدرت حاصل ہونا چنانچہ ''لسان العرب،، میں ہے:

''الطوق الطاقة ای اقصی غایته و هواسم لمقدار مایمکنه ان یفعله بمشقة منه ،،

(یعنی) '' طوق کا مطلب قدرت و توانائی کی آخری حد ہے جس میں ایک کام انتہائی زحمت کے ساتھ انجام پائے،،

اور ابن اثیر اور راغب سے بھی طاقت کا یہی معنی منقول ہے۔

اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طاقت کا معنی عام قدرت وتوانائی ہے ''اطاقہ،، جس سے ''یطیقونہ،، بنا ہے ، کا معنی کسی چیز میں طاقت پیدا کرنا ہے تو لامحالہ ''اطاقہ،، وہاں استعمال ہو گا جہاں ایک کام بذات خود آسان اور مقدور نہ ہو ، کسی دوسرے نے اسے مقدور بنایا ہو اور یہ سخت محنت و مشقت کے ساتھ ہی انجام پایا ہو۔

____________________

(۱) الوافی ، ج ۷ ، باب العاجز من الصیام ، ص ۲۳

۳۸۳

صاحب ''تفسیر المنار،، اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں:

''عرب،، ''اطاق الشئی،، وہاں کہتے ہیں جہاں کسی چیز یا فعل پر ضعیف اور معمولی سی قدرت ہو اور اس کیلئے سخت محنت و مشقت درکار ہو،،(۱)

بنا برایں یہ آیہ کریمہ محکم ہے ، منسوخ نہیں ، اور اس کا حکم اس شخص کے حکم سے بالکل مختلف ہے جس پر ادایا قضا روزے رکھنا واجب ہیں۔

یہ سب بحث اس بنیاد پر کی گئی کہ آیہ شریفہ میں مشہور قرات کے مطابق لفظ یطیقونہ یعنی صیغہ معلوم پڑھا جائے لیکن اگر ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عکرمہ اور ابن مسیّب کی قرات کے مطابق اس لفظ کو باب تفعیل مجہول(۲) (یطوقونہ) پڑھا جائے تو پھر مسئلہ اور زیادہ واضح ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں یقیناً ''مشقت،، والے معنی مراد لئے جائیں گے۔

البتہ مالک اور ربیعہ کے قول کے مطابق ، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بوڑھے مرداور بوڑھی عورتیں افطار کر لیں تو ان کے ذمے کچھ واجب نہیں (۳) آیہ کریمہ منسوخ ہوگئی لیکن یہ ان کی ذاتی رائے ہے جو ہمارے لئے حجت اور مدرک نہیں بن سکتی اس کے علاوہ اس قول کی صحت مشکوک ہے۔

۷۔( وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ) ۲:۱۹۱

''اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد الحرام(کعبہ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس وہ اگر تم سے لڑیں تو (بے کھٹکے) تم بھی ان کو قتل کرو ، کافروں کی یہی سزا ہے،،

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۵۶

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ص ۱۷۷

(۳) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۳

۳۸۴

ابو جعفر نحاس اور اکثر اہل نظر کی رائے یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے اور مشرکین سے حرم اور غیر محرم میں جنگ لڑی جا سکتی ہے یہ قول قتادہ کی طرف بھی منسوب ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ گزشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اور محکم ہے اگر اس کے کسی آیت کے ذریعے ناسخ ہونے کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو وہ آیت یہ ہے:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

یہ آیت ناسخ نہیں بن سکتی اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے اور دوسری عام ہے خاص ، عام کیلئے قرینہ ہوا کرتا ہے اور وہ عام کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اگرچہ خاص کی تاریخ صدور مقدم ہی کیوں نہ ہو اور جہاں خاص کا مقدم ہونا ثابت ہی نہ ہو وہ بطریق اولیٰ عام کیلئے قرینہ ہو گا بنا برایں اس آیت سے یہی ثابت ہوا کہ حرم سے باہر مشرکین سے جنگ لڑی جا سکتی ہے لیکن اگر مشرکین حرم میں جنگ کی ابتداء کریں تو ان سے حرم میں بھی جنگ کی جا سکتی ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ مدعیان نسخ اس روایت کو ناسخ قرار دیں جس کے مطابق رسول اکرم (ص) نے حکم دیا تھا کہ ''ابن خطل،، کو قتل کر دو جبکہ وہ خانہ کعبہ سے لپٹا ہواہو۔

یہ دعویٰ بھی باطل ہے کیونکہ اولاً یہ روایت خبر واحد ہے اور خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ روایت نسخ آیت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ مدعیان نسخ خود رسول اللہ (ص) روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''انهالم تحل لاحد قبلی و انما احلت لی ساعة من نهارها ،، (۲)

''مجھ سے قبل کسی کیلئے بھی کعبہ میں قتل کو حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی فتح مکہ کے روز صرف ایک گھڑی کیلئے حلال قرار دیا گیاتھا،،

___________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۸

(۲) فتح القدیر للشوکانی ، ج ۱ ، ص ۱۶۸

۳۸۵

بنا برایں یہ آیہ کریمہ اس حقیقت کی تصریح کر رہی ہے کہ حرم میں قتال کی اجازت صرف پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے ہے کسی اور کو یہ اجازت نہیں دی گئی اس طرح سوائے فقہاء کی ایک جماعت کا لحاظ کرنے کے ، اس آیت کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور آیہ شریفہ کا مفہوم ان کے دعویٰ کیخلاف ہے۔

۸۔( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ ) ۲:۲۱۷

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم سے لوگ حرمت والے مہینوں کے نسبت پوچھتے ہیں کہ (آیا) جہاد (ان میں جائز) ہے تو تم انہیں جواب دو کہ ان مہینوں میں جہاد بڑا گناہ ہے،،

ابو جعفر نحاس کہتے ہیں:

''علماء (اہل سنت) کا اس بات پر اجماع ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے اور ان مہینوں میں جنگ جائز ہے البتہ عطا کی رائے یہ ہے کہ آیہ کریمہ محکم ہے اور حرمت والے مہینوں میں قتال جائز نہیں ہے ،،(۱)

شیعہ امامیہ روایات اور علماء کے فتاویٰ کے مطابق یہ آیت نسخ نہیں ہوئی اورا ن مہینوں میں جنگ جائز نہیں ہے چنانچہ صاحب ''التبیان،، اور ''جواہر الکلام،، نے اس بات کی تصریح کی ہے۔

مولف: قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ ناسخ کے طورپر آیہ کریمہ:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۳۲

۳۸۶

کو پیش کرنا تعجب خیز ہے کیونکہ اس آیت میں مشرکین سے قتال اور جنگ کو باحرمت مہینوں کے گزر جانے پر موقوف قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

( فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''پھر جب حرمت کے (چاروں) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،۔

آیہ کریمہ کی اس تصریح کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیت :یسلونک عن الشہر الحرام ۔۔۔۔۔۔ الخ دوسری آیت : فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے۔

ہو سکتا ہے ناسخ کے طور پر آیہ سیف:

( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ) ۹:۳۶

''مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب مل کر لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو،،

کے اطلاق کو پیش کیا جائے لیکن یہ بھی درست نہیں اس لئے کہ یہ آیت مطلق ہے اور مطلق اگرچہ موخر ہو مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر نسخ کے اثبات کیلئے ابن عباس اور قتادہ کی روایت کا سہارا لیا جائے جس کے مطابق متنازع فیہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے تو یہ بھی اعتراض سے خالی نہیں اس لئے کہ اولایہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ کسی معصوم کی روایت نہیں شاید یہ ابن عباس اور قتادہ کااپنا اجتہاد ہو ثالثاً یہ روایت ابراہیم ابن شریک کی روایت سے متعارض ہے ابراہیم کہتے ہیں : احمد بن عبداللہ بن یونس نے لیث سے ، لیث نے ابی ازہر سے ، ابی ازہر نے جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''لایقاتل فی شهر الحرام الاان یغزی اویغزو فاذا حضر ذالک اقام حتی ٰ ینسلخ ،،

''حرمت والے مہینوں میں جنگ نہ لڑی جائے مگریہ کہ دشمن کی طرف سے پہل ہو اور جب حرمت والا مہینہ آ جائے تو جنگ کو موقوف کیا جائے حتیٰ کہ ماہ حرام گزر جائے،،

۳۸۷

اسکے علاوہ اقتادہ اور ابن عباس سے منقول روایت ، اہل بیت ، (ع) سے منقول روایات کے بھی مخالف ہے ، جن کے مطابق ان مہینوں میں جنگ حرام ہے۔

اس آیت کے نسخ کے اثبات کیلئے اس روایت سے بھی تمسک صحیح نہیں جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ماہ شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں حنین میں ہوازن کے ساتھ اور طائف میں ثقیف کے ساتھ جنگ کی کیونکہ اولاً یہ خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا ثانیاً بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو یہ مجمل ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے ممکن ہے کسی خاص اوراہم ضرورت کے تحت آپ نے ان مہینوں میں جنگ کا حکم دیا ہو ایسی روایت کس طرح آیہ کریمہ کے لئے ناسخ بن سکتی ہے ۔

۹۔( وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ ) ۲:۲۲۱

''اور (مسلمانو) تم مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو،،۔

بعض علماء کا د عویٰ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے:

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمومناتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) ۵:۵

''اور ان لوگوں میں کی آزاد پاک دامن عورتیں جن کوتم میں سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے جب تم ان کوا ن کے مہر دیدو،،

چنانچہ ابن عباس ، مالک بن انس ، سفیان بن سعید ، عبدالرحمن ، ابن عمراور اوزاعی کی رائے یہی ہے عبداللہ بن عمر کی رائے یہ ہے کہ دوسری آیت منسوخ اور پہلی آیت ناسخ ہے اس طرح اہل کتاب عورت سے نکاح حرام ہو گا(۱)

لیکن حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں اس لئے کہ اگر مشرک عورت (جس سے نکاح پہلی آیت حرام قرار دے دی رہی ہے) سے مراد بت پرست عورتیں ہوں (جیسا کہ آیت سے ظاہر ہو رہا ہے ) تو ان سے نکاح حرام ہونا ، اہل کتاب سے نکاح جائز ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا تاکہ ایک ناسخ اور دوسری منسوخ قرار پائے کیونکہ پہلی آیت میں عورت بت پرست ہونے کی بنا پر حرام اور

_____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۵۸

۳۸۸

دوسری آیت میں عورت اہل کتاب ہونے کی بنیاد پر حلال قرار پائی ہے اور اگر مشرکہ سے مراد وہ عورت ہو جو اہل کتاب کوبھی شامل ہو (جیسا کہ مدعیان نسخ کا خیال ہے) تو دوسری آیت پہلی آیت کیلئے مخصص قرار پائے گی اس طرح دونوں آیتوں کامفہوم یہ ہو گا کہ اہل کتاب عورت سے تو نکاح جائز ہے لیکن مشرک ، بت پرست عورت سے نکاح جائز نہیں کیونکہ اس فرض کے مطابق پہلی آیت بت پرست اور اہل کتاب عورتوں کو حرام قرار دے رہی ہے اور دوسری آیت اس حکم سے اہل کتاب کو خارج کر کے انہیں حلال قرار دے رہی ہے۔

البتہ شیعہ نقطہ نگاہ سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح موقت (متعہ) جائز ہے لیکن نکاح دائمی جائز نہیں اہل کتاب سے دائمی نکاح جائز نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ روایات جن کی رو سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی جائز نہیں، اس آیت کیلئے مقید ثابت ہوں گی جس کے مطابق اہل کتاب سے نکاح دائمی اور نکاح موقت دونوں کا جواز سمجھا جاتا ہے یا عدم جواز کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آیت کریمہ (جس سے اہل کتاب سے نکاح کا جوازثابت ہوتا ہے) سے صرف نکاح موقت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اس مشہور قول کے مقابلے میں علماء امامیہ کی ایک جماعت اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی کوبھی جائز سمجھتی ہے چنانچہ حسین اور صدوقین (علی بن بابویہ ، محمد بن بابویہ ) سے یہ فتویٰ منقول ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس مسئلہ پر اس آیت کی تفسیر کے موقع پر تفصیلی بحث کریں گے۔

۱۰۔( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ) ۲:۲۵۶

''دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی ۔

۳۸۹

علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ آیت ، اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہوگ ئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ ) ۹:۷۳

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! کفار کے ساتھ (تلوار سے) اور منافقین کے ساتھ (زبان سے) جہاد کرو،،

کیونکہ اس آیت میں کفارسے جنگ کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ پہلی آیت میں دین کے معاملہ میں جبر کرنے سے روکا گیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ پہلی آیت نسخ نہیں ہوئی بلکہ دوسری آیت کے ذریعے اس کی تخصیص ہوئی ہے یعنی اہل کتاب کو مجبور نہ کیا جائے کیونکہ جیسا کہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اہل کتاب سے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اہل کتاب ہیں ، جنگ نہیں کی جا سکتی۔

مولف : قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور نہ اس کی تخصیص ہوئی ہے۔

وضاحت : لغت عرب میں ''کرہ،، دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:

i ۔ وہ معنی جو رضا مندی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر نارض یا خفا ہونا چنانچہ آیہ شریفہ:

( وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ) ۲:۲۱۶

''اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز (جہاد) کون اپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،،

میں یہی معنی مراد ہے۔

ii ۔ وہ معنی جو اختیار کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی مجبوراً چنانچہ آیہ کریمہ:

( حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ) ۴۶:۱۵

''اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اور رنج ہی سے اس کو جنا،،۔

۳۹۰

میں یہی مقصود ہے کیونکہ حاملہ ہونا اور بچے کی ولادت اگرچہ اکثر اوقات عورت کی رضا مندی سے ہوتی ہے لیکن یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے متنازعہ فیہ آیہ شریفہ میں نسخ یا تخصیص اس صورت میں ممکن ہے جب ''کرہ،، پہلے معنی (ناراضگی) میں استعمال ہو۔

لیکن ''اکراہ،، سے پہلا معنی (کسی چیز کو پسند نہ کرنا) مراد ہونا کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) جہاں بھی کسی لفظ کے دو معنی ہوں ، ان میں سے کسی ایک معنی کے تعین کیلئے قرینہ اور موید کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس مقام پر کوئی ایسا قرینہ اور موید موجود نہیں جس سے معنی اول کا ارادہ کیا جانا ثابت ہو سکے۔

( ii ) دین اسلام ، اصول دین اور فروع دین دونوں کو شامل ہے اس آیت کے بعد کفر اور ایمان کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ دین صرف اصول دین کا نام ہے بلکہ ایک کلیہ کو اس کے بعض مصادیق پر منطبق کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں بہت سے ایسے احکام موجود ہیں جو مسلمانوں پر (برحق) مسلط کئے گئے ہیں چنانچہ عقلاء کی سیرت بھی اس کی تائید کرتی ہے شریعت میں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً مقروض کو قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے زوجہ کو شہر کی اطاعت پر مجبور کیا گیا ہے چور کو چوری ترک کرنے پر مجبور کیا جاتاہ ے ان تمام موارد کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ''اکراہ،، نہیں ہے۔

( iii ) ''اکراہ،، کی تفسیر میں اس کے پہلے معنی کو ذکر کرنا آیہ شریفہ کے دوسرے حصے:

( قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) ۲:۲۵۶

''کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی،،۔

۳۹۱

سے سازگار نہیں مگر یہ کہ ''قدتبین الرشد من الغی کو ''لااکراہ فی الدین،، کیلئے علت اور وجہ قرار دیا جائے بایں معنی کہ ہدایت اور گمراہی کا آشکار ہونا، احکام اسلام کو لوگوں پر ان کی مرضی کیخلاف مسلط کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اگر آیہ کریمہ کا مطلب یہی ہے تو پھر اس کے نسخ ہونے کا امکان باقی نہیں رہتاکیونکہ دین اسلام کی دلیلیں اور حجیتیں شروع ہی سے واضح اور آشکار تھیں یہ الگ بات ہے کہ یہ روز بروز مستحکم ہوتی گئیں ا ن حقائق کی روشنی میں صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں اکراہ کا واقع نہ ہونا زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ اسلام کے دلائل صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں زیادہ واضح اور مستحکم ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ جب عدم کراہ کی یہ علت تمام کفار میں مشترک تھی تو پھر اس حکم (عدم اکراہ) کے صرف بعض کفارسے مختص ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ تمام کے تمام کفار سے جنگ حرام ہو اس نتیجے کا باطل ہونا بدیہی اور واضح ہے۔

پس حق یہی ہے کہ آیہ کریمہ میں ''اکراہ،، سے مراد وہی معنی ہے جو اختیار کے مقابلے میں آتا ہے اور یہ یہاں جملہ خبریہ ہے انشائیہ نہیں۔

آیہ شریفہ اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جس کا قرآن کی متعدد آیات میں ذکر ہو چکا ہے کہ شریعت الٰہی کسی جبر و اکراہ پر مبنی نہیں ہے نہ اس کے اصول کے سلسلے میں کسی کو مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے فروع کے بارے میں پس حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت کیلئے رسول بھیجے جائیں ، آسمان سے کتابیں نازل ہوں اور احکام الٰہی کی وضاحت کی جائے تاکہ ہلاک (گمراہ) ہونے اور زندگی (ہدایت) حاصل کرنے والوں پر اتمام حجت ہو جائے اور خدا کے مقابلے میں کوئی عذر باقی نہ رہے جیسا کہ ارشاد تعالیٰ ہے:

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اور اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،۔

۳۹۲

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کوبھی ایمان لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ صرف حق کو گمراہی اور باطل کے مقابلے میںواضح طور پر بیان فرماتا ہے اور جو شخص حق پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ارادے اور اختیارسے ایمان لاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی اپنے ارادے اور اختیار سے باطل اورگمراہی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو حق کی منزل تک پہنچاسکتا ہے لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ حق اور باطل کی وضاحت کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال میں مجبور نہ کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۵:۴۸

''اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کے سب کو ایک ہی (شریعت کی ) امت بنا دیتا مگر (مختلف شریعتوں سے) خدا کا مقصودیہ تھا کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہاراامتحان کر لے بس تم نیکیوں میں لپک کے آگے بڑھ جاؤ اور (یقین جانو) کہ تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت) جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا،،

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ (اب تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خد ہی کیلئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ) ۱۶:۳۵

''اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس (کی مرضی) کے کسی چیز کو حرام کر بیٹھتے جولوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ بھی ایسے ( حیلہ حوالہ کی ) باتیں کر چکے ہیں تو (کہا کریں) پیغمبروں پر تو اس کے سوا کہ احکام کو صاف صاف پہنچا دیں اور کچھ بھی نہیں،،

۳۹۳

۱۱۔( وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ) ۴:۱۵

''اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے لوگوں میں سے چار کی گواہی لو پھر اگر چاروں گواہ اس کی تصدیق کریں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ ) ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت آ جائے یا خدا ان کی کوئی (دوسری) راہ نکالے،،۔

( وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) : ۱۶

'' اور تم لوگوں میں جن سے بدکاری سرزد ہوئی ہو ان کو مارو پیٹو ، پھر اگر وہ دونوں (اپنی حرکت سے) توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو ان کو چھوڑ دو بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

حسن کی روایت ، جواس نے رقاشی سے نقل کی ہے ، کے مطابق عکرمہ اور عبادۃ بن صامت کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت ، دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اور دوسری آیت کنوارہ مرد اور عورت جب زنا کریں تو ان کے بارے میں نسخ ہو گئی ہے اس لئے کہ ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت جب زنا کریں توا ن کے بارے میں بھی یہ آیت نسخ ہو گئی ہے کیونکہ ان کو سو کوڑے مارنے کے علاوہ سنگسار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جائیں۔

قتادہ اور محمد بن جابر کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت (میں موجود حکم) شادی شدہ ہے اور دوسری آیت باکرہ سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔

۳۹۴

ابن عباس ، مجاہد اور ابو جعفر نحاس جیسے ، ان کے ہم رائے ، حضرات کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت عورتوں کے زنا (چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا باکرہ) اور دوسری آیت مردوں کے زنا (چاہے شادی شدہ ہوں یا کنوارے) سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے نسخ ہو گئی ہیں(۱) بہرحال ابوبکر جصاص کا کہنا ہے کہ زنا کے ان دونوں حکموں کے نسخ ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے(۲)

مولف: حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں۔

توضیح: لفظ فاحشہ سے مراد وہ عمل ہے جس کی برائی اور قباحت سنگین ہو۔ اگر ایسی سنگین برائی کا ارتکاب دو عورتیں باہم مل کر کریں تو اسے ''مساحقہ،، کہا جاتا ہے ، کبھی اس برائی کو دو مرد انجام دیتے ہیں جو ''لواطہ،، کہلاتا ہے اور کبھی ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعے یہ برائی انجام پاتی ہے جو زنا کہلاتی ہے لفظ ''فاحشہ،، سے نہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زنا کیلئے وضع کیا گیا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے خالق کی مراد زنا ہے اس نکتے کے پیش نظر پہلی آیت کا نسخ دو چیزوں پر موقوف ہے:

i ۔ پہلی آیت میں گھروں میں نظر بند کرنے کا مطلب ، مرتکب فحش کی تعزیر ہو۔

ii ۔ خدا کی طرف سے راہ مقرر ہونے سے مراد سنگساری اور کوڑے ہوں۔

ان دونوں کا ثابت ہونا ناممکن ہے کیونکہ آیہ مبارکہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا مقصد اسے دوبارہ ارتکاب فحش سے روکنا اور اس طرح منکرات کا سدباب کرناہے اور یہ مسلم ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ناموس اور اس قسم کے دیگر حساس اعمال کے سلسلے میں منکرات کا سدباب کرنا واجب اور ہر شخص کا فرض ہے بلکہ ایک قول کے مطابق ہر برائی کی روک تھام واجب ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۹۸

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۰۷

۳۹۵

اسی طرح فحش کی مرتکب عورت کیلئے راہ مقرر کرنے کا مقصد ، اس کیلئے ایک ایسا طریقہ مقرر کرنا ہے جس کے ذریعے اسے عذاب سے نجات مل جائے یہ راہ کوڑے اور سنگساری کس طرح ہو سکتی ہے ؟ کیا کوئی آسودہ حال اور عقلمند عورت جو نظر بند ہو ، اس بات پر راضی ہو سکتی ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائیں یا اسے سنگسار کیا جائے اسے کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا تو اس کے عذاب میں اضافہ کرتا ہے ، اس کی نجات اور سہولت کی راہ و سبیل نہیں ہے ۔

گزشتہ بیان کی روشنی میں ''فاحشہ،، سے کبھی مراد ''مساحقہ،، ہوتا ہے ، جس طرح دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے چنانچہ اس کو بعد میں بیان کیا جائے گا اور کبھی ''فاحشہ،، سے مراد وہ گناہ ہوتا ہے جو ''مساحقہ،، اور زنا دونوں کو شامل ہو۔

ان دونوںاحتمالات کے مطابق آیہ کریمہ میں فاحشہ عورت کی نظر بندی کولازمی قرار دیا جا رہا ہے (حتیٰ کہ خدا اس کیلئے آسانی نصیب فرمائے بایں معنی کہ یا وہ توبہ کر لے یا گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جائے اور کسی فحش کے ارتکاب کے قابل نہ رہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائے یا اس میں شادی کی خواہش پیدا ہو اور اس کا شوہر اس کی ناموس کا تحفظ کرے یا اس قسم کے دیگر اسباب فراہم ہوں جن کی وجہ سے اس کے کسی فحش میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ رہے یہ ایک ایسا حکم ہے جو ہمیشہ کیلئے ثابت ہے۔

جہاں تک کوڑوں اور سنگساری کا تعلق ہے وہ ایک جداگانہ اور مستقل حکم ہے جو فحش کے مرتکب افراد کی تادیب اور تنبیہ کیلئے شارع مقدس نے مقرر فرمایا ہے جس کا حکم اول (عورت کی نظر بندی) سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کیلئے نسخ واقع ہوا ہے دوسرے الفاظ میں پہلا حکم شارع مقدس نے اس لئے مقرر فرمایا کہ دوبارہ فحش اور بدکاری کا سدباب ہو سکے اور دوسرے حکم کو پہلے جرم کی سزا اور اس پر تنبیہ کیلئے مقرر کیاتاکہ دوتری عورتیں بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں پس حکم اول اور حکم ثانی میں کوئی منافات نہیں کہ دوسرے حکم کو پہلے حکم کا ناسخ قرار دیا جائے البتہ اگر کوڑے مارنے اور سنگساری کی وجہ سے عورت کی موت واقع ہو جائے تو اسے گھر میں نظر بند کرنے کا حکم برطرف ہو جائے گا کیونکہ موت سے نظر بندی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۳۹۶

خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو شخص آیہ کریمہ میں غور و فکر کرے اسے اس میں کوئی ایسا نکتہ نظر نہیں آئے گا جس سے نسخ کا تو ہم ہو چاہئے آیہ جلد (کوڑے) اس آیہ پر مقدم ہو یا مؤخر ہو۔

جہاں تک دوسری آیت کے نسخ کا تعلق ہے وہ اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً : ''یاتیانھا،، کی ضمیر زنا کی طرف لوٹتی ہو۔

ثانیاً : آیہ کریمہ میں ''ایذائ،، سے مراد سب و شتم (گالی گلوچ) اور لعن طعن ہو۔

ان دونوں امور کی کوئی دلیل نہیں اس کے علاوہ یہ دونوں باتیں آیہ کریمہ سے ظاہر نہیں ہوتیں۔

وضاحت: گزشتہ دونوں آیات میں تین مرتبہ جمع مذکر حاضر کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ مسلم ہے کہ تیسری ضمیر سے مراد وہی ہے جو پہلی اور دوسری ضمیر سے مردا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ پہلی دو ضمیروں سے مراد ، مرد ہیں پس بنا برایں''اللذان،، سے مراد دو مرد ہیں اور اس سے مراد ایسا عام معنی نہیں ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہو۔

اس کے علاوہ اگر تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو مرد نہ لئے جائیں تو اس کا کوئی دوسرا معنی مراد لینا صحیح بھی نہیں کیونکہ اگر ضمیر سے مراد دو مرد نہ ہوتے توا س کی جگہ جمع کی ضمیر آنی چاہئے تھی جس طرح سابقہ آیت میں جمع کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے ، زنا نہیں اور نہ وہ عام معنی ہے جو لواط اور زنا دونوں کو شامل ہو یہ بات واضح ہونے کے بعد ثابت ہو جاتا ہے کہ اس آیت کے موضوع کا آیہ جلد سے کوئی ربط نہیں یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کہ اس آیت میں موجود حکم کے موضوع میں زانی بھی شامل ہے اس امر کی کوئی دلیل نہیں رہتی کہ آیت میں جس ایذارسانی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کوئی خاص قسم کی اذیت ہو البتہ ابن عباس ےس مروی ہے کہ اس ایذا سے مراد ضرب و شتم ہے لیکن یہ روایت حجت نہیں کہ اس کے ذریعے نسخ ثابت ہو سکے لہٰذا لفظ کے اپنے ظہور پر عمل کرنا چاہئے اور آیہ جلد یا حکم رجم کے ذریعے (جو قطعی طور پر ثابت ہے) اس کی تقیید کی جائے۔

۳۹۷

خلاصہ بحث یہ کہ ان دونوں آیتوں میں نسخ کے التزام کی کوئی وجہ نہیں مگر یہ کہ کوئی اندھی تقلید کرے اور ان احاد روایات پر عمل کرے جو کسی علم و عمل کا فائدہ نہیں دیتیں۔

۱۲۔( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا( اور عورتیں) تمہارے لئے جائز نہیں،،

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیہ کریمہ ان روایات کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس کی رُو سے سورہ نساء کی آیہ ۲۳ میں مذکور عورتوں کے علاوہ بھی کچھ عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں یہ دعویٰ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب خاص متاخر ، عام مقدم کیلئے ناسخ بنے ، مخصص نہ بنے۔

لیکن قول حق یہی ہے کہ خاص عام کیلئے مخصص بنتا ہے ناسخ نہیںبنتا ، خواہ خاص ، مقدم ہویا موخر یہی وجہ ہے کہ خبر واحد ، جس میں جیت کی تمام شرائط موجود ہوں کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد ، جس میں حجیت کی تمام شرائط موجود ہوں، کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہے اگر مؤخر خاص ناسخ ہوتا تو خبر واحد پر اکتفا نہ کیا جاتا اس لئے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں کیا جا سکتا اس کے علاوہ آیہ کریمہ میں کوئی عموم لفظی نہیں پایا جاتا بلکہ ظاہری اطلاق کے ذریعے عموم سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی ایسی دلیل موجود ہو جو اس آیہ کیلئے مقید بننے کی صلاحیت رکھتی ہو وہاں یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس مقام پر شروع سے (واقعی) اطلاق مراد نہیں۔

۳۹۸

۱۳۔( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ۴:۲۴

''ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انہیں و مہر معین کیا ہے دے دو،،

علماء اہل سنت میں مشہور ہے کہ متعہ کی حلیت (حلال ہونا) نسخ ہو گئی ہے اور قیامت تک کیلئے اس کی حرمت ثابت ہو گئی ہے اس کے برعکس شیعہ امام کا اتفاق ہے کہ متعہ کی حلیت باقی ہے اور آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے بھی شیعہ امامیہ کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے چنانچہ ابن حزم لکھتے ہیں:

''ابن مسعود ، معاویہ ، ابو سعید ، ابن عباس ، امیہ بن خلف کے دونوں بیٹے سلمہ اور معبد ، جابر اور عمرو بن حریث پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی متعہ کی حلیت کے قائل تھے،،۔

اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں:

''جابر نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ پیغمبر اکرم (ص) ، رسول اللہ (ص) کی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران اور خلافت حضرت عمر کے آخر تک متعہ کو حلال سمجھتے تھے،،

ابن حزم مزید لکھتے ہیں:

''تابعین میں سے طاووس ، سعید بن جبیر ، عطا اور مکہ کے دیگر فقہا متعہ کی حلیت کے قائل تھے ،،(۱)

شیخ الاسلام مرغینانی نے جو ازمتعہ کے قول کی نسبت مالک کی طرف دی ہے مالک متعہ کے جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

____________________

(۱) حاشیہ فقی برمنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۲۰

۳۹۹

''متعہ (رسول اللہ (ص) کے زمانے میں) یقیناً مباح تھا۔ جب تک اس کا نسخ ثابت نہ ہو اس کی حلیت باقی رہے گی،،(۱)

ابن کثیر لکھتے ہیں:

''ایک اور روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل اضطراری حالت میں متعہ کو جائز سمجھتے ہیں،،(۲)

مکہ کے نامور عالم اور فقیہ ابن جریح نے اپنے زمانے میں ستر عورتوں سے نکاح متعہ کیا تھا(۳) انشاء اللہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر کے موقعہپر ہم تفصیلی گفتگو کریں گے یہاں ہم اس آیہ کے بارے میں مختصر بحث کریں گے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ اس آیہ شریفہ کا مفہوم نسخ نہیں ہوا۔

توضیح: آیہ شریفہ میں موجود حکم اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً: آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو۔

ثانیاً : بعد میں نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہو جائے۔

جہاں تک امر اول (استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو) کا تعلق ہے اس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں طرفین کی بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے۔

____________________

(۱) ہدایہ شرح بدایہ ص ۳۸۵ ۔ مطبوعہ بولاق معہ فتح القدیر ۔ اس نسبت کی شیخ محمد بابرتی نے بھی شرح ہدایہ میں تاید کی ہے البتہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میںاس کاانکار کیا ہے عبدالباقی مالکی زرقانی نے شرح مختصر ابی ضیاء ج ۳ ص ۱۹۰ پر کہا ہے:

''متعہ جو کسی بھی وقت قابل فسخ ہے کی حقیقت یہ ہے کہ مرد یا عورت یا ان کے ولی عقد اس طرح پڑھیں کہ اس میں مدت مذکور ہو اور یہ کہ مرد عورت کو اپنے مقصد سے آگاہ کرے لیکن اگر صیغہ عقد میں مدت کا ذکر نہ ہو لیکن مرد اس کا قصد کرے اور عورت بھی مرد کے قصد کو سمجھا جائے تو بھی کافی ہے امام مالک کا فتویٰ یہی ہے اور یہ عقد مسافروں کیلئے مفید ہے،،۔

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۴۷۴

(۳) شرح زرقانی برمختصر ابی ضیاء ، ج ۸ ، ص ۷۶

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785