تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200898 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

وصيت كرنے پر تاكيد اور مابعد والى آيہ مباركہ ميں اسكے تبديل كرنے كو حرام قرار دينا اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ ميت كى مالى و صيتيں قانونى طور پر معتبر ہيں اور ان پر عمل كرنا واجب ہے _

۸_ وصيت ملكيت كے اسباب ميں سے ہے _ان ترك خيراً الوصية للوالدين والاقربين

۹_ غير عادلانہ اور غير متعارف و صيتيں نہ تو معتبر ہيں اور نہ ہى ان كى كوئي قانونى حيثيت ہے_*الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف

۱۰_ ورثاء كو مال ادا كرنے كے لئے وصيت كرنا جائز اور اس كى قانونى حيثيت ہے_الوصية للوالدين والاقربين

۱۱_ وصيت ميں ديگر رشتہ داروں كى نسبت والدين فوقيت ركھتے ہيں اور اولى ہيں _الوصية للوالدين والاقربين

۱۲ _ تقوى اور پرہيزگارى كا تقاضا يہ ہے كہ والدين كے لئے اموال ميں سے وصيت كى جائے_

كتب عليكم الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقاً على المتقين

۱۳ _ ما لى وصيتوں كو ترك كرنا عدم تقوى كى علامت ہے_كتب عليكم الوصية حقا على المتقين

۱۴ _ انسان بالخصوص ايسے افراد جن كے پاس مال و دولت ہے والدين اور سارے رشتہ داران ان كى ذمہ دارى كے دائرے ميں آتے ہيں *الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقا على المتقين

۱۵ _ الہى ذمہ داريوں كو ادا كرنے كى بنياد تقوى ہے_كتب عليكم حقاً على المتقين

۱۶ _عن محمد بن مسلم عن ابى جعفر عليه‌السلام قال سألته عن الوصية للوارث فقال تجوز قال ثم تلا هذه الآيه ان ترك خيراً الوصية للوالدين والاقربين (۱) محمد بن مسلم نے امام باقرعليه‌السلام سے وارث كے لئے وصيت كا حكم پوچھا تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا وصيت جائز ہے اور اسكے بعد مافوق آيہ مجيدہ كى تلاوت فرمائي_

۱۷_عروة كہتے ہيں''ان على ابن ابى طالب عليه‌السلام دخل على مولى لهم فى الموت و له سبعمائة درهم او ستمائة درهم فقال الا اوصى قال لا انما قال الله ''ان ترك خيراً'' وليس لك كثير مال فدع مالك لورثتك'' (۲)

امير المومنين على عليہ السلام بنى ہاشم ايك مولى (كسى دوسرے قبيلے كا شخص جس نے اپنے آپ كو بنى ہاشم كے ساتھ ملحق كرركھا تھا)كى موت كے

____________________

۱) كافى ج/۷ ص۱۰ ح ۵ تفسير برہان ج/ ۱ ص۱۷۷ ح /۱_

۲) الدرالمنثور ج/۱ ص ۴۲۲ نورالثقلين ج/۱ ص۱۵۹ ح ۵۳۱_

۶۲۱

نزديك اسكے سرہانے تشريف لے گئے اس شخص كے پاس سات سو يا چھ سو درہم تھے تو اس نے

آپعليه‌السلام سے سوال كيا كيا ميں وصيت نہ كروں ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا نہيں كيونكہ ارشاد بارى تعالى ہے ''اگر زيادہ مال چھوڑ جاو'' جبكہ تيرا مال زيادہ نہيں ہے پس اسكو اپنے ورثاء كے لئے چھوڑ جاؤ_

احكام : ۱،۲،۴،۵،۷،۸،۹،۱۰،۱۶،۱۷

اولاد: اولاد كى ذمہ دارى ۱۴

تقوى : تقوى كےنتائج۱۲،۱۵; عدم تقوى كى علامتيں ۱۳

ثروت مند افراد: ثروت مند افراد كى ذمہ دارى ۱۴

جان كنى كا عالم: جان كنى كى حالت كے نتائج۱

خير: خير كے موارد۳

دولت و ثروت: دولت و ثروت كے نتائج و اثرات ۲ ;دولت و ثروت كا خير ہونا ۳

روايت: ۱۶،۱۷

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى پر عمل كى بنياد ۱۵

عرف عام: دين اور عرف عام ۶; عرف عام اور قوانين۶) عرف عام اور موضوع كى شناخت ۵; عرف كے معيارات۶

عزيز و رشتہ دار: رشتہ داروں كے حقوق ۱۴

ملكيت : ملكيت كے احكام ۸; ملكيت كے اسباب ۸

واجبات:۱

وارث: وارث كى ملكيت ۱۰

والدين : والدين كے حقوق ۱۴

وصيت: وصيت كے نتائج و اثرات ۸ ; وصيت كے طور پر ملكيت دينے كے نتائج ۷،۱۰; وصيت كے احكام

۶۲۲

۱،۲،۴،۵،۷،۹،۱۰،۱۶،۱۷; مالى وصيت كى اہميت ۷; وصيت ميں ترجيحات ۱۱; مالى وصيت ترك كرنا

۱۳; وصيت كے واجب ہونے كى شرائط ۲; موصى لہ '' جس كيلئے وصيت كى جائے '' كى ملكيت ۷;

مالى وصيت كا دائرہ كار ۵; رشتہ داروں كيلئے وصيت ۴،۱۱،۱۲; والدين كيلئے وصيت۴،۱۱،۱۲; وصيت كا معتبر نہ ہونا ۹; وصيت كا غير متعارف ہونا ۹; مالى وصيت ۱۰،۱۲،۱۷; وصيت كا اعتبار۱۰; وصيت كے واجب ہونے كا وقت ۱

فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ( ۱۸۱ )

اس كے بعد وصيت كو سن كر جو شخص تبديلكردے گا اس كا گناہ تبديل كرنے والے پرہوگا تم پر نہيں _ خدا سب كا سننے والااور سب كے حالات سے با خبر ہے (۱۸۱)

۱ _ ميت كى وصيت ميں تغير يا تبديلى كرنا حرام اور گناہ ہے_فمن بدله فانما اثمه على الذين يبدلونه

۲ _ ميت كى غير عرفى يا غير متعارف وصيتوں ميں تغيير و تبديلى گناہ نہيں ہے*فمن بدله فانما اثمه على الذين يبدلونه

'' بدلہ'' ميں ضمير مفعول وہ اور عرف كے مطابق وصيت كا ہونا ہے اور اس پر ماقبل آيہ مجيدہ دلالت كررہى ہے _

۳ _ ميت كى وصيتوں ميں تبديلى كرنے كا گناہ صرف تبديل كرنے والوں پر ہے نہ كہ وصيت كرنے والايا ان افراد پرجو ميت كے اموال سے اس وصيت كے نتيجے ميں فائدہ اٹھاتے ہيں _فمن بدله فانما اثمه على الذين يبدلونه

''انما'' حصر پر دلالت كرتاہے اوريہ حصر وصيت كرنے والے نيز ان لوگوں كى نسبتہے جو وصيت سے اطلاع نہ ركھتے تھے اور اس ميں تبديلى كى وجہ سے ميت كے كچھ اموال ان كو نصيب ہوگئے_

۴ _ ميت كى وصيتيں فقط احتمال يا گمان سے ثابت نہيں ہوتيں اور بغير علم كے انكى كوئي قانونى حيثيت نہيں ہے _

فمن بدله بعد ما سمعه

ميت كى وصيت كو سننا (بعد ما سمعہ) يہ ميت كى وصيت كے متعلق علم ہونے كے بارے ميں كنايہ ہے يہ قيد در حقيقت توضيحى ہے اور اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ وصيت كے مضمون كو جانے بغير وصيت ثابت نہيں ہوتى نہ ہى اس پہ تغيير و تبديلى كا عنوان صادق آتاہے_

۶۲۳

۵ _ وصيت اس وقت معتبر ہے جب وصيت كرنے والا اس وصيت كے مطالب كو بيان كرے_ *فمن بدله بعد ما سمعه يہ مطلب اس بنا پر ماخوذ ہے'' بعد ما سمعہ'' '' سننا'' استعمال كيا گيا ہے _

۶_ اللہ تعالى سميع (سننے والا ) اور عليم (جاننے والا) ہے_ان الله سميع عليم

۷ _ اللہ تعالى ميت كى وصيتوں اور اس كے جانشين اور پسماندگان كے كردار سے آگاہ ہے _فمن بدله فانما اثمه على الذين يبدلونه ان الله سميع عليم

۸_ اللہ تعالى كے عليم ہونے پر ايمان اور توجہ انسان كو ميت كى وصيتوں ميں تبديلى سے روكتے ہيں _فمن بدله ان الله سميع عليم وصيت ميں تبديلى كى حرمت اور اسكے گناہ ہونے كے بيان كرنے كے بعد اللہ تعالى كے علم و آگاہى كے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ انسان اس كى طرف توجہ سے وصيت ميں تبديلى كى فكر بھى نہ كرے _

۹_ انسان وصيت كے معاملے ميں اگر اپنے فريضہ پر عمل كرے تو اللہ كى بارگاہ ميں نہ تو جوابدہ ہوگا نہ ہى اسكا مؤاخذہ كيا جائے گا _ اگر چہ اسكى وصيتوں پر عمل نہ كيا جائے _فانما اثمه على الذين يبدلونه

۱۰_ محمد بن مسلم كہتے ہيں :''سألت اباعبدالله عليه‌السلام عن رجل اوصى بماله فى سبيل الله فقال: اعطه لمن اوصى به له و ان كان يهودياً ان اللّه تبارك و تعالى يقول: فمن بدله بعد ما سمعه فانما اثمه على الذين يبدلونه ''(۱) ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا : كہ ايك شخص نے وصيت كى ہے كہ اس كا مال اللہ كى راہ ميں خرچ كرديا جائے تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: مال كى جس كسى كو بھى اس نے وصيت كى ہے دے دو وہ شخص يہودى ہى ہو كيونكہ اللہ تعالى فرماتاہے : جس كسى نے وصيت ميں تبديلى كى بعد اس كے كہ اس نے اسكو سنا پس يقينا اسكا گناہ ان لوگوں پر اے جنہوں نے اس ميں تبديلى كى ہے _

احكام :۱،۲،۴،۵،۱۰

اسماء اور صفات: سميع ۶) عليم ۶

اللہ تعالى : علم الہى ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۷ ص ۱۴ ح۱،۲ ،نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۵۹ ح ۵۳۲_

۶۲۴

ايمان: ايمان كے نتائج ۸; علم الہى پر ايمان ۸; ايمان كے متعلقات ۸

تكليف ( شرعى ذمہ داري): تكليف پر عمل كے نتائج ۹

روايت:۱۰

محرمات :۱

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنا ت اور آئيڈيالوجي۸

وصيت : وصيت پر عمل كے نتائج و اثرات ۹; وصيت كے احكام ۱،۲،۴،۵،۱۰; وصيت كى جائز تبديلى ۲; وصيت كى تبديلى ۱۰; وصيت كو اپنے لفظوں ميں بيان كرنا ۵; وصيت تبديل كرنا حرام ہے ۱; وصيت ثابت ہونے كى شرائط ۴; وصيت تبديل كرنے كا گناہ ۱،۳; وصيت تبديل كرنے كا ذمہ دار ۳; مالى وصيت كے مصارف ۱۰; وصيت كے معتبر اور قانونى ہونے كے معيارات ۴،۵; وصيت تبديل كرنے كے موانع ۸; ميت كى وصيت ۷

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( ۱۸۲ )

پھراگر كوئي شخص وصيت كرنے والے كى طرف سےطرفدارى يا ناانصافى كا خوف ركھتا ہو اوروہ ورثہ ميں صلح كرادے تو اس پر كوئيگناہ نہيں ہے _ الله بڑا بخشنے والا اورمہربان ہے (۱۸۲)

۱ _ اگر مالى وصيتيں غير عادلانہ ہوں اور جن افراد كو فائدہ ملا ہے ان كے مابين اختلافات كا باعث بنيں تو وصيت كرنے والے كو وصيت تبديل كرنے پر آمادہ كيا جاسكتاہے_فمن خاف من موص جنفا او اثما فاصلح بينهم فلا اثم عليه

''جنف'' كا معنى ستم اور باطل كى طرف تمايل ہے پس اس اعتبار سے يہاں غير معروف و صيت مراد ہے جو پس ماندگان كے لئے ظلم و ستم شمار ہوتاہے_ ''اثما'' كا معنى بھى يہى ہے '' فاصلح بينھم'' سے مراد وصيت كرنے والے كو آمادہ كرنا ہے ، اس بات پر كہ اپنى غير عادلانہ وصيت كو تبديل كرے تا كہ اس سے پيدا ہونے والا ممكنہ اختلاف اور نزاع ختم ہوجائے_

۲ _ غير عادلانہ و صيتوں كو تبديل كرنا اور وصيت كرنے والے كو اس كى تبديلى پر آمادہ كرنا جائز ہے_فمن خاف من موص جنفاً او اثما فاصلح بينهم فلا اثم عليه يہ بات گزر گئي كہ ''جنفا'' اور ''اثماً''سے مراد غير عادلانہ وصيت ہے يہ تقسيم اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ غير عادلانہ وصيت جان بوجھ كر تحرير كى گئي ہو ( كہ اس صورت ميں وصيت كرنے والا گنہگار ہے ) يا يہ كہ بھول كر ايسا كيا گيا ہو دونوں صورتوں ميں وصيت كو تبديل كيا جاسكتاہے_

۶۲۵

۳ _ غير عادلانہ وصيتيں اگر جان بوجھ كر تحرير كى جائيں تو گناہ ہے_فمن خاف من موص جنفاً او اثماً

۴ _ وصيت كے غير عادلانہ ہونے كا احتمال اور يہ كہ جن لوگوں كو اس سے فائدہ پہنچاہے ان كے مابين اختلاف پيدا ہونے كا احتمال ہى كافى ہے كہ وصيت كرنے والے كو ا س كى تبديلى پر آمادہ كيا جائے_فمن خاف فلا اثم عليه

يہ مطلب لفظ '' خاف'' كے استعمال سے اخذ كيا گياہے_

۵ _ غير عادلانہ وصيتوں كى تبديلى كيلئے وصيت كرنے والے كو آمادہ كرنا وصيت كے حرام ہونے كا مصداق نہيں ہے اور نہ ہى آمادہ كرنے والا گنہگار ہے _فمن بدله فانما اثمه على الذين يبدلونه فمن خاف فلا اثم عليه

۶ _ ميت كى غير عادلانہ وصيتوں كو بدلنا جائز ہے اور بدلنے والا گنہگار نہيں ہے _فمن خاف من موص جنفاً او اثماً فاصلح بينهم فلا اثم عليه اس آيہ مجيدہ كو وصيت كرنيوالے كى قيد حيات ميں فرض كيا جاسكتاہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس كو فرد كى موت كے بعد تصور كيا جائے، مذكورہ مطلب دوسرے فرض كى بنياد پر ہے اور اس سے ماقبل مطالب پہلے فرض كى بنياد پر ہيں _

۷_ اللہ تعالى غفور (گناہوں كو بخشنے والا) اور رحيم (مہربان ) ہے _ان الله غفور رحيم

۸_ عادلانہ وصيتوں كى حفاظت اور ان كو تبديل كرنے سے محفوظ ركھنے كى بہت زيادہ اہميت ہے _فمن خاف فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم اس جملہ '' ان اللہ غفور رحيم '' كو اس شخص كے بارے ميں سمجھا جاسكتاہے جو غير عادلانہ وصيت كو تبديل كرنے كا ذمہ دار ہے ، جائز كام ميں گناہ سے بخشش كے بارے ميں گفتگو اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ وصيت كو تبديل كرنا اتنا برا اور نامناسب عمل ہے يہاں تك كہ غير عادلانہ وصيت كى تبديلى بھي_ اگر چہ ميت كا وصى اس كو تبديل كرنے كا مجاز ہو پھر بھى گويا كہ وہ ايك امر خلاف كا مرتكب ہوا ہے اور اللہ تعالى كى مغفرت كا محتاج ہے _

۹_ ميت كى غير عادلانہ وصيتوں پر عمل كرنا واجب نہيں ہے _ فمن خاف من موص جنفاً اواثماً فاصلح بينهم فلا اثم عليه

۱۰_ ميت كى غير عادلانہ وصيتوں كى تبديلى يا اصلاح كيلئے ميت كا وصى حق ولايت ركھتاہے_

فمن خاف من موص جنفاً او اثماً فاصلح بينهم فلا اثم عليه

۱۱ _ اگر غير عادلانہ وصيت كو تبديل يا اسكى اصلاح كردى جائے تو اللہ تعالى وصيت كرنے والے كا گناہ معاف فرمادے گا_فمن خاف من موص جنفا او اثماً فاصلح بينهم فلا اثم عليه ان الله غفور رحيم

۶۲۶

اس مطلب ميں ، ''ان اللہ غفور'' كو وصيت كرنيوالے كے گناہ كے حوالے سے ديكھا گيا ہے (فمن خاف من موص اثماً )

۱۲ _ مومنين ايك دوسرے كے برے يا منفى اعمال كى اصلاح كے بارے ميں ايك دوسرے پر سرپرستى ركھتے ہيں *

فمن خاف من موص جنفاً او اثماً فاصلح بينهم فلا اثم عليه

۱۳ _ اللہ تعالى كے اس كلام '' جنفاً اور اثماً'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے:''فالجنف الميل الى بعض ورثته دون بعض: و الاثم ان يامر بعمارة النيران واتخاذ المسكر فيحل للوصى ان لا يعمل بشيء من ذلك (۱)

''جنف'' سے مراد بعض وارثوں كى طرف تمايل ہے اور ''اثم'' سے مراد يہ ہے كہ آتشكدہ اور شراب بنانے كا حكم دے پس وصى كيلئے جائز ہے كہ ان پر عمل نہ كرے _

۱۴ _ ''عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : ''فمن خاف من موص جنفاً او اثماً '' قال: يعنى اذا اعتدى فى الوصية اذازاد على الثلث (۲) آيہ مجيدہ ''فمن خاف من موص جنفاً او اثماً'' كے بارے ميں امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ انہوں نے فرمايا يعنى جب وصيت كرنے والا اعتدال كى حد سے خارج ہو اور تيسرے حصے سے زيادہ وصيت كرے_

احكام : ۱،۲،۴،۵،۶،۹،۱۰

اسماء و صفات : رحيم ۷ ; غفور ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۱۱

روايت: ۱۳،۱۴

عدل و انصاف: عدل كى اہميت ۱،۲،۵،۶،۹،۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۶۵، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۶۱ ح ۵۴۰_

۲) علل الشرايع ج/۲ص۵۶۷،نورالثقلين ج/۱ص۱۶۱ ح ۵۳۹_

۶۲۷

گناہ: گناہ كے موارد ۳

مومنين : مومنين كى اصلاح كرنا ۱۲; مومنين كى سرپرستى ۱۲

وصيت: غير عادلانہ وصيت كے نتائج و اثرات۴;

وصيت كے احكام ۱،۲،۴،۵،۶،۹،۱۰; وصيت ميں وصى كے اختيارات ۱۰; وصيت كى اہميت

۸; وصيت ميں ناانصافى ۱۴; وصيت كو تبديل كرنا جائز ہے ۱،۲،۴،۵،۶،۱۰،۱۳; وصيت

ميں تبديلى ۸،۱۱; وصيت كى تبديل كى شرائط ۱،۴،۱۰; وصيت پر عمل ۹; غير عادلانہ وصيت كا گناہ ۳،۱۱; مالى وصيت۱;غيرعادلانہ وصيت ۱، ۲، ۴ ،۵،۶،۹،۱۰

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( ۱۸۳ )

صاحبان ايمان تمھارےاوپر روزے اسى طرح لكے ديئے گئے ہيں جسطرح تمھارے پہلے والوں پر لكھے گئے تھےشايد تم اسى طرح متقى بن جاؤ(۱۸۳)

۱ _ مسلمانوں پر روزہ واجب ہے _ يا ايہا الذين آمنوا كتب عليكم الصيام

۲ _ روزہ واہونے كى شرائط ميں سے ايك ايمان ہے *يا ايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام

۳_ دين اسلام سے ماقبل اديان ميں بھى روزہ واجب تھا_كما كتب على الذين من قبلكم

۴ _ اسلام اور ماقبل اديان ميں روزہ اہم ترين احكام اور شرعى فرائض ميں سے رہاہے_

كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم روزہ كے وجوب كے لئے '' كتب'' كا استعمال، روزہ كى قضا كے وجوب بارے ميں صراحت، وہ روزے جو ناتوانى كے نتيجے ميں نہيں ركھے جاسكے ان كے بدل كے طور پر فديہ ادا كرنا اور تمام آسمانى اديان ميں روزے كا واجب ہونا يہ سب امور حكايت كرتے ہيں كہ روزہ دين كے اركان اور اہم ترين احكام ميں سے ہے _

۵ _ اديان الہى كے احكام اور قوانين آپس ميں مشابہ ہيں _

۶۲۸

كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم

۶_روزہ انسان كے تقوى كے مقام تك پہنچنے اور گناہوں سے بچنے كے لئے روزہ بنيادى كردار ادا كرتا ہے_

كتب عليكم الصيام لعلكم تتقون

۷_ سب انسانوں كى ذمہ دارى ہے كہ تقوى حاصل كريں اور گناہوں سے اجتناب كريں _لعلكم تتقون

تقوى كے حصول كے لئے روزہ كو واجب قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ تقوى كا حصول لازمى و ضرورى ہے _

۸_ دينى فرائض اور احكام كے فلسفہ كو بيان كرنا قرآنى روشوں ميں سے ہے _كتب عليكم الصيام لعلكم تتقون

۹_ قانون سازوں كى طرف سے قوانين كے فلسفہ كو بيان كرنا بہتر اور اچھا عمل ہے *كتب عليكم الصيام لعلكم تتقون

۱۰_ اللہ تعالى كے ديگر احكام كو جارى كرنے كے لئے روزہ پشت پناہ كا كام ديتاہے _يا ايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام لعلكم تتقون

۱۱_ حفص بن غياث نخعى كہتے ہيں ''سمعت ابا عبدالله عليه‌السلام يقول ان شهر رمضان لم يفرص الله صيامه على احد من الامم قبلنا فقلت له فقول الله عزوجل '' يا ايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم'' قال انما فرض الله صيام شهر رمضان على الانبياء عليه‌السلام دون الامم ففضل به هذه الامة .. .(۱) ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ ماقبل امتوں پر روزہ واجب نہ تھا تو ميں نے عرض كيا كہ يہ جو قرآن حكيم ميں اللہ تعالى فرماتاہے ''اے ايمان والو تم پر روزے اسى طرح فرض كيئے گئے ہيں جس طرح گزشتہ لوگوں پر فرض كيئے گئے تھے'' تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا كہ ماہ رمضان كے روزے فقط ان امتوں كے انبياءعليه‌السلام پر واجب تھے نہ كہ خود ان امتوں پر پس اس سلسلے ميں اللہ تعالى نے اس امت كو (باقى امتوں پر ) فضيلت عنايت فرمائي _

احكام: ۱،۲ فلسفہ احكام كو بيان كرنا۸

اديان: اديان كے احكام ۳; اديان كى ہم آہنگى ۵

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا روزہ ۱۱

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۲ ص ۶۱ ح ۱۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۶۲ ح ۵۴۶_

۶۲۹

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۷

ايمان : ايمان كے نتائج ۲

تقوى : تقوى كا حصول ۷; تقوى كى بنياد۶

روايت:۱۱

روزہ : روزہ كے اثرات و نتائج ۶،۱۰; روزہ كے احكام ۱،۲; روزہ كى اہميت ۴; روزہ اديان ميں ۳،۴،۱۱ روزہ واجب ہونے كى شرائط ۲; روزے كا وجوب ۱

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى پر عمل كى بنياد ۱۰

عمل: پسنديدہ عمل ۹

قانون: فلسفہ قوانين كو بيان كرنا ۹

قانون ساز لوگ: قانون بنانے والوں كى ذمہ دارى ۹

گناہ: گناہ سے اجتناب ۶،۷

ماہ رمضان : ماہ رمضان كے روزوں كى اہميت ۱۱

مسلمان : مسلمانوں كى شرعى ذمہ دارى ۱

واجبات:۱،۲

۶۳۰

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۱۸۴ )

يہروزے صرف چند دن كے ہيں ليكن اس كے بعدبھى كوئي شخص مريض ہے يا سفر ميں ہے تواتنے ہى دن دوسرے زمانے ميں ركھ لے گااور جو لوگ صرف شدت اور مشقت كى بنا پرروزے نہيں ركھ سكتے ہيں وہ ايك مسكين كوكھانا كھلاديں اور اگر اپنى طرف سے زيادہنيكى كرديں تو اور بہتر ہے _ليكن روزہركھنا بہر حال تمھارے حق ميں بہتر ہےاگر تم صاحبان علم و خبر ہو (۱۸۴)

۱_ روزہ ركھنے كے اوقات دن ہيں نہ كہ راتيں _كتب عليكم الصيام اياما '' اياما'' ، ''الصيام'' كے لئے ظرف زمان ہے جسكا ذكر ماقبل آيت ميں ہوا ہے _

۲ _ جن دنوں ميں روزہ ركھنا چاہيئے محدود، مشخص اور تقريباً تھوڑے ہيں _كتب عليكم الصيام اياما معدودات

(اشياء كو بيان كرتے ہوئے) ''معدود'' ممكن

ہے معين اور مشخص كا معنى ديتاہو اور ممكن ہے تھوڑ ايا قليل كا معنى ديتاہو دوسرے معنى كى بنياد پر اس كو جمع ''معدودات'' استعمال كرنا اس نكتہ كى طرف شارہ ہوسكتاہے كہ جن دنوں ميں روزہ ركھنا چاہيئے وہ نسبتاً كم ہيں _

۳_ ماہ مبارك رمضان ميں مريض اور مسافر پرروزہ ركھنا جائز نہيں ہے _فمن كان منكم مريضاً او على سفر فعدة من ايام اخر لفظ'' عدة '' مبتدا ء ہے اور ''كتب عليكم'' اور بعد والے جملے كے قرينہ سے اس كى خبر ''عليہ'' ہے يعنى '' فمن كان فعليہ عدة من ايام آخر'' يہ جملہ بيان كررہاہے كہ مكلف اگر ايام معدودات_ (ماہ رمضان ) ميں مريض يا مسافر ہو تو اسكا فريضہ ہے كہ ماہ رمضان كے بعد روزے ركھے يعنى يہ كہ ماہ رمضان ميں روزے نہ ركھے_

۴ _ جو شخص ماہ رمضان ميں مسافر يا مريض ہواس پر ماہ رمضان كے روزوں كى قضا واجب ہے _

فمن كان منكم مريضاً او على سفر فعدة من ايام اخر

۵ _ قضا روزوں كى تعداد اتنى ہے كہ جتنے دن مكلف مريض يا مسافر رہاہے_فعدة من ايام اخر

''عدة'' كا معنى تعداد ہے اس لفظ كو لانا اس معنى كى طرف اشار ہ ہے كہ جن ايام كے روزوں كى قضا كى جائے تو ان كو شمار كيا جائے قضا روزوں كى تعداد گننا اس ليئے ضرورى ہے كہ ان كو ان روزوں كے مطابق كيا جائے جو مكلف سے رہ گئے ہيں _

۶۳۱

۶ _ ماہ رمضان كے روزوں كى قضا كسى خاص وقت سے مشروط نہيں ہے _فعدة من ايام اخر

'' اياماً معدودات'' كے لئے ماہ رمضان كو معين كرنا جيسا كہ بعد والى آيت ميں ہے اور '' ايام اخر''كو خاص ايام يا مہينوں سے معين نہ كرنا اس ليئے ہے كہ ماہ رمضان كے روزوں كى قضا كے لئے كوئي خاص وقت متعين نہيں كيا گيا _

۷_ روزہ واجب نہ ہونے كے لئے سفر كا ارادہ ہى كرنا كافى نہيں ہے _فمن كان منكم مريضا او على سفر

'' على سفر '' گويا سفر كا متحقق يا وقوع پذير ہونا ہے پس اس شخص كو شامل نہيں ہے جو مسافر نہيں ہے اگرچہ اس نے سفر كا ارادہ كيا ہوا ہے_

۸_ جن افراد كے لئے ماہ رمضان كا روزہ ركھنا مشقت كاباعث ہے يا ان كے لئے طاقت فرساہے ان پر روزہ ركھنا واجب نہيں ہے _و على الذين يطيقونه فدية '' اطاقة'' كسى كام كے انجام دينے پر توانائي ركھنا يا اسكى انجام دہى كيلئے تمام توانائي خرچ كرنا ہے _ دوسرے معنى كا لازمى نتيجہ يہ ہے كہ كسى كام كو محنت و مشقت كے ساتھ انجام ديا جائے _ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ ''يطيقونہ'' سے مراد دوسرا معنى ہو _ بنابريں ''وعلى الذين يطيقونہ فدية'' يعنى وہ لوگ جو روزہ ركھناچاہتے ہيں اگر اپنى تمام تر توانائي كو صرف كريں اور محنت و مشقت ميں مبتلا ہوں تو روزہ نہ ركھيں بلكہ فديہ ادا كرديں _

۹_ شرعى فرائض اگر طاقت فرسا ہوں تو انسان پر عمل كرنا لازمى نہيں ہے _و على الذين يطيقونه فدية

۱۰_ شرعى تكاليف كو انسانوں كيلئے وضع كرنے ميں اللہ تعالى نے ان تكاليف ميں سہولت كو مدنظر ركھاہے_

و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين

۱۱ _ وہ لوگ جو انتہائي مشقت كى وجہ سے روزہ نہيں ركھتے ان پر فديہ ادا كرنا واجب ہے _و على الذين يطيقونه فدية

۱۲ _ جن لوگوں كيلئے روزہ ركھنا طاقت فرسا ہے وہ روزہ نہ ركھيں اور ان كى قضا بھى واجب نہيں ہے _و على الذين يطيقونه فدية اگر ان لوگوں پر روزہ كى قضا واجب ہوتى تو ان كا ذكر مسافر اور مريض كى طرح ہوتا _ علاوہ بريں جملہ ''على الذين . '' اس بات ميں ظہور ركھتاہے كہ ان پر فقط فديہ دينا واجب ہے _

۱۳ _ جو لوگ انتہائي مشقت كى وجہ سے ماہ رمضان كے روزے نہيں ركھ سكتے ان پر ہر روزے كا فديہ يا كفارہ ايك وقت كا كھانا ہے جو انكو چاہئے مسكين كو ادا كريں _و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين

۶۳۲

۱۴ _ دين كے احكام و قوانين بنانے ميں مسكينوں اور حاجت مندوں كى طرف توجہ كى گئي ہے _و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين

۱۵ _ دينى فرائض كو اگر رغبت اور تمايل سے انجام ديا جائے تو اسكے بہت اچھے نتائج نكلتے ہيں _فمن تطوع خيراً فهو خيرله '' تطوع'' اطاعت سے ليا گيا ہے اور چونكہ متعدى استعمال ہوا ہے اس ميں '' اتى _ انجام دينا'' كا معنى بھى پايا جاتاہے بنابريں '' فمن تطوع خيراً ...'' يعنى ہر كوئي جو نيك كام كو جذبہ اطاعت سے انجام دے _

۱۶ _ اگر روزہ ركھنا اور مسكين كو فديہ دينا تمايل اور رغبت كے ساتھ ہو تو اس كا ثواب كہيں زيادہ ہے _

كتب عليكم الصيام ...وعلى الذين يطيقونه فدية فمن تطوع خيراً فهو خير له

آيہ مجيدہ كے ماقبل حصوں كى روشنى ميں '' خير '' كا مورد نظر مصداق روزہ ركھنا اور روزے كے طاقت فرسا ہونے كى صورت ميں فديہ دينا ہے _

۱۷_ روزہ ركھنا اگر مشقت كا باعث ہو تو اس كے بدلے فديہ ادا كرنا اعمال خير ميں سے ہے _و على الذين يطيقونه فدية فمن تطوع خيرا ً

۱۸ _ اہل ايمان كو حاجتمندوں پر انفاق اور انكى حاجت روائي كى طرف ترغيب دلائي گئي ہے _فمن تطوع خيراً فهو خير له

۱۹_ روزہ اعمال خير ميں سے ہے اور روزہ داروں كيلئے اس ميں بہت سارے فائدے ہيں _و ان تصوموا خير لكم

۲۰_ شرعى تكاليف كا انسانوں كيلئے نفع بخش اور مصلحت آميز ہونا ان كے وضع ہونے كے معيارات ميں سے ہے جو اللہ تعالى كى طرف سے ہيں _و ان تصوموا خير لكم

۲۱ _ فقط عالم ودانا افراد ہيں جو روزے كے نفع بخش اور بہتر ہونے سے آگاہ ہيں _و ان تصوموا خير لكم ان كنتم تعلمون

۲۲ _ روزہ كى عظيم قدر و منزلت سے آگاہى اسكے انجام دينے كى بنياد بنتى ہے _وان تصوموا خير لكم ان كنتم تعلمون

۲۳ _ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:فاما صوم السفر والمرض يفطر فى الحالين جميعاً فان صام فى السفر اور فى حال المرض فعليه القضاء فان الل ہعزوجل يقول ''فمن كان منكم مريضاً او على سفر فعدة من ايام اخر''

۶۳۳

مسافر اور مريض كو چاہيئے كہ سفر و بيمارى كے حالت ميں اپنے روزے كو افطار كر لين پس اگر انہوں نے حالت سفر يا بيمارى كے دوران روزہ ركھا تو ضرورى ہے كہ اسكى قضا بجا لائيں اس لئے كہ اللہ تعالى فرماتاہے'' تم ميں سے جو كوئي مريض يا مسافر ہو تو كچھ ايام بعد ميں روزے ركھ لے ''_(۱)

۲۴ _''عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل: ''و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين'' قال: الذين كانوا يطيقون الصوم فاصابهم كبر أو عطاش او شبه ذلك فعليهم لكل يوم مدّ (۲) امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام '' وہ لوگ جن كيلئے روزہ ركھنا مشقت كا باعث ہے ان پر لازم ہے كہ مسكين كو كفارے كے طور پر كھانا كھلائيں '' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا : اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو بڑھاپے، تشنگى يا اس طرح كى كسى چيز ميں مبتلا ہوجاتے ہيں ان كو چاہيئے كہ ہر دن كے مقابل ايك مد طعام مسكين كو ادا كريں _

۲۵_ ابوبصير كہتے ہيں :سالته عن رجل مرض من رمضان الى رمضان قابل و لم يصح بينهما و لم يطق الصوم قال: تصدق مكان كل يوم افطر على مسكين مدّاً من طعام و ان لم يكن حنطة فمن تمر و هو قول الله : '' فدية طعام مسكين '' ايسے شخص كى بيمارى كے بارے ميں جو ايك ماہ رمضان سے اگلے سال كے ماہ رمضان تك طول پكڑ جائے اور وہ شخص روزہ ركھنے كى طاقت نہ ركھتا ہو ميں نے امام باقرعليه‌السلام يا امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا : ہر وہ ايك روزہ جو نہيں ركھ سكا اسكے مقابل ايك مد طعام فقير كو صدقہ دے اگر گندم موجود نہ ہو تو كھجور سے صدقہ ادا كرے اور اللہ تعالى كا فرمان يہى ہے ''فدية طعام مسكين ''(۳)

۲۶_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله: ''و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين '' قال المرأة تخاف على ولدها ... (۴) اللہ تعالى كے اس كلام '' وہ لوگ جو روزہ ركھنے كى توان نہيں ركھتے ان پر واجب ہے كہ كفارہ كے طور پر مسكين كو كھانا كھلائيں '' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے (جنين يا شير خوار) بچے كے بارے ميں _

۲۷_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''حد المرض الذى يجب على صاحبه فيه الافطار لقول الله عزوجل ''فمن كان منكم مريضاً او على سفر فعدة من ايام آخر '' ان يكون العليل لا يستطيع ان

____________________

۱) كافى ج/ ۳ ص ۸۶ ح/۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۶۴ ح ۵۵۱_ ۲) كافى ج/ ۴ ص ۱۱۶ ح ۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۶۵ ح ۵۶۲_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۷۹ ح ۱۷۸ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۸۱ ح ۱۵_ ۴) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۷۹ ح ۱۸۰ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۸۲ ح ۱۷_

۶۳۴

يصوم او يكون ان استطاع الصوم زاد فى علته و خاف منه على نفسه فان احس ضعفاً فليفطر و ان وجد قوة على الصوم فليصم كان المرض ما كان (۱) وہ بيمار شخص جس كو روزہ كھول لينا جاہئے اور اللہ تعالى اسكے بارے ميں ارشاد فرماتاہے'' فمن كان منكم مريضاً اور على سفر فعدة من ايام آخر'' اس شخص كى بيمارى كا معيار يہ ہے كہ روزہ ركھنے كى توان نہ ركھتا ہو ، روزہ ركھنا اس كى بيمارى ميں اضافے كا موجب ہو اور اسے جان كا خطرہ( ضرر كا احتمال ركھتا ہو) ہو تو پس اگر بيمار انسان كمزورى كا احساس كرے تو اسے روزہ كھول لينا چاہئے اور اگر روزہ ركھنے كى طاقت پيدا كرے تو روزہ ركھنا ضرورى ہے بيمارى جيسى بھى ہو ...''

۲۸_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ'' يقضى شهر رمضان من كان فيه عليلاً اور مسافراً عدة ما اعتل او سافر فيه ان شاء متصلاً و ان شاء مفترقاً قال الله عزوجل '' فعدة من ايام اخر ..(۲) مسافر اور مريض جتنے دن حالت سفر يا مريضى ميں ہو اتنے دنوں كى قضا كريں يہ قضا چاہے تو پے در پے بجا لائيں يا جدا جدا كيونكہ اللہ تعالى فرماتاہے '' كچھ ديگر ايام ميں ...''

۲۹_ اما م صادقعليه‌السلام سے روايت ہے '' ادنى السفر الذى تقصر فيہ الصلوة و يفطر فيہ الصائم بريدان و عنہعليه‌السلام انہ قال من خرج مسافراً فى شہر رمضان قبل الزوال قضى ذلك اليوم و ان خرج بعد الزوال تم صومہ و لا قضاء عليہ(۳) سفر كى سب سے كم مقدار وہ ہے جس ميں نماز قصر ہوجاتى ہے اور روزہ دار افطار كرسكتاہے دو بريد (آٹھ فرسخ) ہے حضرتعليه‌السلام سے ہى منقول ہے كہ ( آپعليه‌السلام نے قرمايا ) جو شخص ماہ رمضان ميں زوال سے پہلے سفر كرے تو اس دن كى قضا بجا لائے اور اگر زوال كے بعد سفر كرے تو روزہ پورا كرے اور اس پر قضاء بھى نہيں ہے _

احكام : ۱،۲،۳،۴ ،۵،۶،۷ ،۸،۱۱، ۱۲، ۱۳،۲۳ ،۲۴، ۵ ۲، ۲۶، ۸ ۲ ;فلسفہ احكام ۱۴; احكام كى مصلحتيں ۲۰; احكام كى قانون سازى كے معيارات ۱۰،۲۰

اجر: كئي گنا اجر ۱۶; اجر كے موجبات ۱۶

انسان: انسان كى مصلحتيں ۲۰

____________________

۱) دعائم الاسلام ج/ ۱ ص ۲۷۸ ، بحار الانوار ج/ ۹۳ ص ۳۲۶ ح ۲۳_ ۲) دعائم الاسلام ج/۱ ص ۲۷۹ ، بحار الانوار ج/ ۹۳ ص ۳۲۸ ح ۲۳_

۳) دعائم الاسلام ج/ ۱ ص ۲۷۷ ، بحار الانوار ج/ ۹۳ ص ۳۲۹ ح ۲۴_

۶۳۵

انفاق: انفاق كى تشويق ۱۸

بيمار: بيمار كے احكام ۳،۴،۲۳،۲۵،۲۷،۲۸

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر عمل ميں رغبت ۱۵; تكليف شرعى كا آسان ہونا ۱۰; تكليف شرعى كى شرائط ۹; تكليف شرعى كى توان ہونا ۹

خير: خير كے موارد ۱۵،۱۷،۱۹،۲۱ روايت:۲۳،۲۴، ۲۵،۲۶، ۲۷،۲۸،۲۹

روزہ: روزہ كے اثرات و نتائج ۱۹،۲۱; روزہ كے احكام ۱،۲،۳، ۴،۵،۶،۷،۸، ۱۱، ۱۲،۱۳،۲۳،۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹; روزہ كى اہميت ۲۲; ايام روزہ ۲; روزے كا اجر ۱۶; واجب روزوں كى تعداد۲; روزے ميں رغبت ۱۶; بيما ر كا روزہ ۳،۴،۵ ، ۲۳ ، ۷ ۲، ۲۸; مسافر كا روزہ ۳،۴، ۵،۷ ،۲۳ ، ۲۸ ،۲۹; روزہ كى آمادگى ۲۲; روزے كى شرائط ۳،۸; روزے كى قضا كى شرائط ۱۲; روزہ ميں مشقت ۸; روزے كا فديہ ۱۱،۱۷،۲۴،۲۵ ، ۲۶; روزہ ركھنے كى طاقت ۸; روزے كى قضا ۵،۲۳ ، ۲۸; روزہ ركھنے سے معذور افراد ۸، ۱۱،۱۲، ۲۴ ، ۲۶، ۲۷; روزے كے فديہ كى مقدار ۱۳; روزہ كے باطل ہونے كے موارد ۲۹; روزے كى قضا كا واجب ہونا ۴; روزہ كا وقت ۱; روزے كى قضا كا وقت ۶

ضرورتمند افراد: حاجتمندوں كى ضرورت كو پورا كرنا ۱۴، و ۱۸

علم: علم كے نتائج ۲۲

علماء : علماء كى خصوصيات۲۱

عورت : حاملہ عورت كا روزہ ۲۶

فديہ: فديہ دينے ميں ترغيب ۱۶; فديہ كے مصارف ۲۵

فقہى قواعد: مشقت ياعسر وحرج كى نفى كا قاعدہ ۹

قدريں : ۲۲

مسافر: مسافر كے احكام ۳،۴،۲۳،۲۸

مساكين : مساكين كو كھانا كھلانا ۱۳; مساكين كو كھانا كھلانے كا اجر ۱۶

مومنين: مومنين كى تشويق ۱۸

واجبات: ۴،۱۱

۶۳۶

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۱۸۵ )

ماہرمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل كياگيا ہے جو لوگوں كے لئے ہدايت ہے اور اسميں ہدايت اور حق و باطل كے امتياز كيواضح نشانياں موجود ہيں لہذا جو شخص اسمہينہ ميں حاضر رہے اس كا فرض ہے كہ روزہركھے اور جو مريض يا مسافر ہو وہ اتنے ہيدن دوسرے زمانہ ميں ركھے_ خدا تمھارےبارے ميں آسانى چاہتا ہے زحمت نہيں چاہتا_ اور اتنے ہى دن كا حكم اس لئے ہےكہ تم عدد پورے كردو اور الله كى دى ہوئيہدايت پر اس كى كبريائي كا اقرار كرو اورشايد تم اس طرح اس كے شكر گذار بندے بنجاؤ(۱۸۵)

۱ _ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس كو روزے ركھنے كيلئے معين كيا گيا ہے _كتب عليكم الصيام ...اياماً معدودات

شهر رمضان ''شہر رمضان '' مبتدائے محذوف كى خبر ہے ور وہ ''ہي'' ہے جو '' اياماً معدودات'' كي طرف لوٹتى ہے _

۲_قرآن كريم ماہ رمضان ميں نازل ہوا _شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن

۳_ ماہ رمضان ميں قرآن حكيم كا نزول اس ماہ كو روزہ ركھنے كيلئے انتخاب كرنے كى دليل ہے _شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن روزہ كے احكام بيان كرنے اور اس ماہ كو روزے ركھنے كيلئے متعين كرنے كے بعد ماہ مبارك رمضان ميں قرآن كريم كے نزول كے ساتھ اس مہينے كى تعريف كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ ماہ رمضان كو روزے ركھتے كيلئے اس

۶۳۷

لئے متعين كيا گيا كہ اس ميں قرآن نازل ہوا _

۴ _ روزوں اور قرآن كريم كا آپس ميں گہرا اور بہت قريبى ارتباط ہے_شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن

۵ _ ماہ رمضان ايك باعظمت مہينہ اور ايك خاص تقدس كا حامل ہے_ كتب عليكم الصيام شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن

۶_ قرآن كريم ہدايت كرنے والى اور سب انسانوں كيلئے ايك راہنما كتاب ہے _الذى انزل فيه القرآن هدى للناس

۷_ سب انسان قرآن كريم كے مخاطبين ہيں _هدى للنا س

۸_ قرآن كريم كى ہدايات ہر طرح كى كمى اور كجى يا انحراف سے پاك و پاكيزہ ہيں _هدى للناس

''ہدي'' يہاں پر مصدر ہے جو اسم فاعل ''ہادي'' كا معنى دے رہاہے اسم فاعل كى جگہ مصدر كا استعمال اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن حكيم خالص ہدايت ہے يعنى اسكى رہنمائي ميں كسى طرح كى ضلالت ، گمراہي، پريشانى ، انحراف نہيں پايا جاتا_

۹_ قرآن كريم كى ہدايتوں كے مختلف مراحل اور درجات ہيں _هدى للناس وبينات من الهدي

'' ہدي'' كا تكرار دلالت كررہاہے كہ قرآن كى ہدايتيں مختلف مراحل اور درجات ركھتى ہيں ان كا پہلا مرحلہ سب انسانوں كيلئے ہے جبكہ يہ بڑى فطرى سى بات ہے كہ بالاتر درجات ان لوگوں كيلئے ہيں جو پہلا مرحلہ طے كرچكے ہوں _

۱۰_انسانوں كو خصوصى ہدايت اور ہدايت كے بالاتر مراحل كى طرف ہدايت كرنے كيلئے قرآن حكيم ميں بہت زيادہ اور روشن دلائل موجود ہيں _الذى انزل فيه القرآن هدى للناس و بينات من الهدي ''بينة'' كا معنى واضح ، آشكار اور روشن دليل ہے اسكى جمع لانا كثرت پر دلالت كرتاہے_ '' بينات من الہدي'' ميں ''الہدي'' كا معرفہ ہونا اس سے مراد خاص ہدايتيں ہيں _

۱۱ _ حق و باطل كے مابين فرق كا ميزان حاصل كرنے كيلئے قرآن حكيم ميں روشن دلائل اور راہنمائي موجود ہے_

الذى انزل فيه القرآن بينات من الهدى والفرقان

'' فرقان'' ايسى چيز كو كہتے ہيں جو حق كو باطل سے، صحيح كو غير صحيح سے ممتاز كرنے اور پہچاننے كا ذريعہ ہو_

۱۲ _ مسلمانوں كے ايك ايك فرد پر ماہ رمضان كا روزہ واجب ہے _فمن شهد منكم الشهر فليصمه

۶۳۸

۱۳ _ ماہ رمضان كے روزے اس صورت ميں واجب ہيں كہ اس ماہ كا حلول ( پہلى كا چاند) ثابت ہوجائے اس بارے ميں خالى احتمال كافى نہيں ہے_فمن شهد منكم الشهر فليصمه '' شہد'' كا مصدر شہود اور شہادت ہے جسكا معنى ہے حاضر ہونا اور اس كے نتيجے ميں ديكھنا اور سمجھنا ہے(مفردات راغب) بنابريں ( فمن شہد منكم الشہر ...) يعنى جو كوئي اس مہينے كو پائے، اس سے آگاہ ہوجائے اور يقين حاصل كرلے اس ماہ كے حلول كے بارے ميں احتمال كا كافى نہ ہونا يہ مطلب اس جملے كا مفہوم ہے_

۱۴ _ روزے كے واجب ہونے كى خاصر كسى شخصى كے لئے ذاتى طور پر رمضان كا يقين اور ثابت ہو ناكافى ہے _

فمن شهد منكم الشهر فليصمه ''منكم'' مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۱۵ _ مريض اور مسافر كے لئے روزہ واجب اور مشروع نہيں ہے _و من كان مريضاً او على سفر فعدة من ايام اخر

۱۶_ جو شخص ماہ رمضان ميں مريض يا مسافر رہاہو اس پر روزوں كى قضا واجب ہے_و من كان مريضاً او على سفر فعدة من ايام اخر

۱۷_ قضا روزوں كى تعداد اتنى ہى ہے كہ جتنے روز مكلف مريض يا مسافر رہاہے_فعدة من ايام اخر

۱۸_ ماہ رمضان كے روزوں كى قضا كسى خاص وقت يا زمان سے مشروط نہيں ہے _فعدة من ايام اخر

اس مطلب كى دليل گزشتہ آيت كے مطلب ۶ كى طرح ہے

۱۹_ روزہ ايك منظم عبادت ہے تا ہم اس عبادت ميں جھكاؤاور نرمى بھى ہے _كتب عليكم الصيام اياماً معدودات شهر رمضان فمن كان مريضاً اور على سفرفعدة من ايام اخر

۲۰_ روزے كے عدم وجوب ميں مسافرت كا ارادہ كافى نہيں ہے _و من كان مريضاً او على سفر فعدة من ايام اخر

۲۱_ اللہ تعالى نے انسانوں كے لئے بامشقت و طاقت فرسا شرعى تكاليف قرار نہيں ديں_ يريد الله بكم اليسر و لا يريد بكم العسر

۲۲_ مريض و مسافر كے لئے روزے كو قرار نہ دينے كى دليل و حكمت ، سختى و مشكل اور مشقت ہے _و من كان مريضاً يريد الله بكم اليسر و لا يريد بكم العسر جملہ '' يريد اللہ ...'' ممكن ہے جملہ'' من

۶۳۹

كان ...'' پر ناظر ہو اور اس كو مريض و مسافر پر روزہ واجب قرار نہ دينے كى دليل و حكمت شمار كيا جائے البتہ يہ بھى ممكن ہے كہ اس كو روزے كے وجوب اور اسكى حكمت كے بيان پر ناظر سمجھا جائے_ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے _

۲۳_روزہ انسانوں كيلئے آسان اور راحت والى زندگى كے حصول اور دنيا و آخرت كى مشكلات سے رہائي كا سبب بنتاہے*يريد الله بكم اليسر و لا يريد بكم العسر يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يريد اللہ ...'' وجوب روزہ پر ناظر ہو بنابرايں يہ جملہ اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى نے تم پر روزہ فرض كيا تا كہ اس كے نتيجے ميں آسان زندگى حاصل كرسكو اور مشكلات ميں مبتلا نہ ہو_

۲۴ _ اللہ تعالى كا اپنے بندوں سے لطف و مہرباني_يريد الله بكم السير و لايريد بكم العسر

۲۵_ قضا روزوں كے فرض ہونے كا ہدف يہ ہے كہ پورے سال ميں ايك ماہ مكمل طور پر روزے ركھے جائيں _

فعدة من ايام اخر لتكملوا العدة ''لتكملوا ...'' ''فعدة من ايا م آخر''كى علت ہے ''العدة'' ميں ''ال'' عہد ذكرى كاہے جو '' اياماً معدودات'' كى طرف اشارہ ہے جس سے مراد ماہ رمضان ہے بنابرايں '' فعدة من ايام اخر لتكملوا العدة'' يعنى ماہ رمضان كے روزوں كى قضا حتماً بجالاؤ تا كہ روزوں كے ايام كى تعداد جو ايك ماہ ہے وہ مكمل ہوجائے_

۲۶_ ہر مسلمان كو چاہيئے كہ سال ميں ايك ماہ روزے ركھے_فعدة من ايام اخر و لتكملوا العدة اس مطلب كى دليل گذشتہ مطلب ميں موجود ہے_

۲۷_ جو لوگ سارا ماہ رمضان يا ماہ رمضان كے كچھ ايام (بيمارى يا سفر كے عذر سے يا كسى اور عذر سے روزہ نہ ركھ سكيں تو واجب ہے كہ اس كى قضا بجا لائيں _و لتكملوا العدة جملہ '' فعدة من ايام اخر'' اگر چہ مريض اور مسافر كے بارے ميں بيان ہوا ہے ليكن اسكى علت ''لتكملوا العدة'' اس معنى كو بيان كررہى ہے كہ ان دو موارد كے علاوہ بھى روزوں كى قضا واجب ہے اگر چہ كسى عذر كى بناپر يا بغير كسى عذر كے اس نے روزے نہ ركھے ہوں _

۲۸_ مسلمانوں كو اللہ تعالى ہدايت كرنے والا ہے _و لتكبّروا الله على ما هداكم ''ما ہدى كم'' ميں ''ما'' مصدر يہ ہے يعنى''على هدايته اياكم''

۲۹_ روزہ اور اسكے احكام، الہى ہدايتوں ميں سے ہيں _و لتكبر وا الله على ماهداكم

۳۰_ اللہ تعالى كى عظمت و بزرگى بيان كرنا ضرورى ہے_و لتكبروا الله

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785