تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200940 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا موضوع سخن وہ آیات ہیں جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے فی الحال ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں آسانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں اور جن آیات کا نسخ نہ ہونا (ہمارے گزشتہ بیانات کی روشنی میں) واضح ہے ان کو فی الحال پیش نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تفسیر کے موقع پر اس پہلو (نسخ) پر نظر ڈالیں گے۔

ان آیات پر بحث ہم اسی ترتیب سے کریں گے جس ترتیب سے یہ قرآن میں موجود ہیں:

۱۔( وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''(مسلمانو)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافربنا دیں (اور لطف تو یہ ہے) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی (یہ تمنا باقی ہے) پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے ، بیشک خداہر چیز پر قادر ہے،،

ابن عباس نے قتادہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۱) آیہ سیف یہ ہے:

( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۹:۲۹

''اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ خدا اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوںسے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہلوگ ذلیل ہو کر (اپنے) ہاتھ سے جزیہ دیں،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۲۶ ، طبع مکتبتہ العلامیہ ۔ مصر

۳۶۱

مذکورہ آیت کے نسخ کو اس وقت مانا جا سکتا ہے جب دو باتیں مان لی جائیں جو کہ صحیح نہیں ہیں:

(۱) اس حکم کے برطرف ہونے کو بھی نسخ کہا جائے جس کی مدت معین ہو اور اس مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوگیا ہو۔

اس بات کا باطل ہونا واضح ہے اس لئے کہ نسخ وہاں بولا جاتا ہے جہاں حکم کے عارضی اور دائمی ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا گیا ہو اور اگر کوئی حکم عارضی ہو ، اگرچہ وقت کی تعیین تفصیل سے نہ کی گئی ہو اور اجمالی طور پر معلوم ہو کہ یہ حکم عارضی ہے تو وہی دلیل ، جو وقت کی وضاحت اور حکم کی آخری مدت بیان کرے ، قرینہ بنے گی جومراد متکلم کی وضاحت کرے اس پر نسخ صادق نہیں آتا نسخ اصطلاحی یہ ہے کہ ایسے حکم کو برطرف کیا جائے جسے کلام کے اطلاق کی رو سے ظاہری طورپر دائمی سمجھا جائے اور وہ حکم کسی معین مدت سے مختص نہ ہو۔

فخر الدین رازی کا خیال ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے عارضی حکم کا وقت (آخری مدت) بیان کرنابھی نسخ کہلاتا ہے ۔ رازی کا یہ خیال سراسر باطل ہے کیونکہ اصطلاح میں اسے کوئی بھی نسخ نہیں کہتا اور جس حکم کے ابدی اور دائمی ہونے کی تصریح کی گئی ہو اس میں نسخ کا واقع نہ ہونا تو اظہر من الشمس ہے۔

(۲) پیغمبر اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آیت کریمہ میں مشرکین کو خدا اور اخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اہل کتاب سے ابتدائی طورپر جنگ لڑنا جائز نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی اور وجہ سے اہل کتاب سے لڑنا جائز ہو مثلاً اگر اہل کتاب جنگ میں پہل کریں

۳۶۲

اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو اس صورت میں ان سے لڑنا جائز ہو گا چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۲:۱۹۰

''اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہگز دوست نہیں رکھتا،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے جنگ کی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلائیں اس لئے کہ فتنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ): ۱۹۱

''اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کے ہے،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے لڑا جا سکتا ہے جب وہ طے شدہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں جس کی طرف زیر بحث آیہ کریمہ میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

لیکن اگر اس قسم کا کوئی سبب اور مجوز نہ ہو تو اہل کتاب سے صرف ان کے کفر کی بنیاد پر لڑنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں جو ان کے کفر کا لازمی نتیجہ ہے تو اسے درگزر کرو اور ان سے جنگ نہ کرو۔

یہ حکم اس سے منافات نہیں رکھتا کہ دوسری آیت میں کسی اور سبب اور مجوز کی بنیاد پر ان سے لڑنے کا حکم دیا جائے بنا برایں دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ نہیں ، بلکہ پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال (جنگ) کا کوئی مجوز نہیں تھا اس لئے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری آیت میں ان سے قتال کا مجوز موجود تھا اس لئے لڑنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ جس کو اس آیت کے نسخ پر شبہ ہوا ہے اس نے آیہ کریمہ:

(حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ) ۲:۱۰۹

''یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے،،۔

۳۶۳

میں امر کا معنی طلب اور حکم سمجھا ہے اور اس سے اس شبہ کا شکار ہوا ہے کہ کفار سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خدا ان سے جنگ لڑنے کا حکم دے اس طرح اس نے بعد والے حکم کو ناسخ قرار دیا ہے۔

محترم قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بالفرض اگرا سے درست بھی سمجھا جائے پھر بھی نسخ لازم نہیں آتا لیکن یہ احتمال سرے سے باطل ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں امر سے مراد طلب اور حکم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امر تکوینی اور مخلوق میں قضا و قدر الٰہی ہے اس کی دلیل امر سے پہلے لفظ ''اتیان،، کا لانا ہے (کیونکہ ار بمعنی مطلب اتیان کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا) اور دوسری دلیل آخری آیت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے،،

اس آیہ شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے: اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں تو انہیں معاف کر دو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰاپنی مشیّت سے اسلام کو عزت عطا فرمائے اور کفار کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے کچھ کو اللہ تع الیٰ ہلاک کر دے اور انہیں آخرت میں شدید عذاب دے اور اس قسم کے دوسرے فیصلے فرمائے جن کی قضا و قدر الٰہی متقاضی ہو۔

۲۔( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑی گجائش والا اور خوب واقف ہے،،۔

۳۶۴

علماء کی ایک جماعت ، جس میں ابن عباس ، ابو العالیہ ، حسن عطا ، مکرمہ قتادہ ، سدی اور زید بن اسلم شامل ہیں ، سے منسوب ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے(۱) البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ابن عباس فرماتے ہیں:

یہ آیت قول اللہ تعالیٰ:

( وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ۲:۱۵۰

''اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو نماز میں اپنا منہ (اسی کعبہ) کی طرف کر لیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قتادہ فرماتے ہیں:

یہ آیت ، آیہ :

( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ ) ۲:۱۵۰

''تم (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قرطبی کا بھی یہ کہنا ہے(۲)

علماء نے اس آیت کے نسخ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے تمام مسلمانوں کو پہلے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ نماز میں جس طرف چاہیں رخ کریں اگرچہ رسول اللہ (ص) نے ان اطراف میں سے بیت المقدس کی سمت اختیار فرمائی تھی اس کے بعد یہ آیت نسخ ہو گئی اور صرف بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۵۷۔۱۵۸۔

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۴

۳۶۵

اس احتمال کا بے بنیاد ہونا محتاج نہیں کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ) ۲۔۱۴۳

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ( قرار دیا تھا کہ جب (قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں،،۔

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اس وقت مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے حکم پر بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور اس میں رسول اللہ (ص) کے ذاتی اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا حقیقت امر یہ ہے کہ کوئی جہت اور طرف خدا کی ذات سے مختص نہیں کیونکہ کوئی مکان اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتا انسان اپنی نماز ، دعا اور دیگر عبادات میں جس طرف بھی رخ کرے ، خدا ہی کی طرف رخ ہو گا۔

اسی آیت کریمہ کو اہل بیت عصمت (ع) نے اس حکم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ مسافر جس طرف چاہے رخ کر کے نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسی آیت کو اس واجب نماز کے صحیح ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو غلطی سے مشرق اور مغربی کے درمیانی رخ پڑھی گئی ہو۔

جو آدمی سرگرداں ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے وہ جس طرف رخ کر کے نماز پڑھے صحیح ہے اور یہ کہ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے قرآن کے واجب سجدے کئے جا سکتے ہیں جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر (رح) کو زمین کی طرف رخ کر کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۱)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۵

۳۶۶

معلوم ہوا یہ آیت مطلق ہے جس کی مختلف اوقات میں مختلف قیدوں سے تقیید کی گئی کبھی (واجب نماز میں) بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور کبھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور بعض علماء کے مطابق نوافل بھی ، اگرچہ چلنے کی حالت میں نہ ہوں بنا برقول بعضے ، کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھے جا سکتے ہیں باقی رہیں وہ روایات جن کے مطابق یہ آیت نوافل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف نوافل سے مختص ہے کیونکہ اس سے پہلے بتا چکے ہیں کہ آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہوا کرتیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ کا نسخ اس وقت قابل قبول ہو گا جب دو باتیں ثابت ہوں۔

( i ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ کریمہ صرف واجب نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ بات یقیناً باطل ہے اور اہل سنت کی کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کی رو سے یہ آیت ، دعا ، مسافر کے نوافل ، متحیر و سرگرداں

آدمی کی نماز اور اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو(۱) اس سے قبل وہ مقامات بھی بیان کئے گئے جہاں اہل بیت اطہار (ع) نے اس آیہ شریفہ سے استدلال فرمایا ہے۔

( ii ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ شریفہ ، اس آیہ شریفہ سے پہلے نازل ہوئی ہو جس میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بات بھی ثابت اور مسلم نہیں ہے۔

بنا برایں یہ دعویٰ یقیناً باطل ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے اہل بیت (ع) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی۔

____________________

(۱) تفسیر طبری ، ج ۱ ، ص ۴۰۰۔۴۰۲

۳۶۷

ہاں! بعض اوقات نسخ بولا جاتا ہے اور اس سے ایک عام معنی مقصود ہوتا ہے جو تقیید کو بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس معنی کی طرف اس سےقبل اشارہ کیا جا چکا ہے اگر زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی اس معنی کا ارادہ کیا جائے تو پھر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا اور عین ممکن ہے کہ اس آیت میں نسخ سے ابن عباس کی مراد یہی ہو اور اس سے قبل بھی ہم اس خقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔

۳۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ ) ۲:۱۷۸

''اے مومنو! جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت،،

بعض علمائے کرام کا یہ دعویٰ ہے کہآیہ شریفہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۵:۴۵

''اور ہم نے توریت میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت،،

(پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے معاملے میں مرد ،عورت اور غلام آزاد میں مماثلت

۳۶۸

ضروری ہے یعنی مرد کے بدلے میں مرد اور عورت کے بدلے میں عورت ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے لیکن دوسری آیت کریمہ میں اس مطابقت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس بنا پر عورت کے بدلے میں مرد اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے)

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے اور مرد کے وارثوں کو دیت سے کچھ حصہ دینا بھی ضرروی نہیں(۱) البتہ حسن اور عطاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

لیث کہتے ہیں:

''اگر مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو اسے صرف اپنی بیوی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا،،(۲)

امامہ اثنا عشریہ کے مطابق مقتولہ کے ولی و وارث کو اختیار حاصل ہے کہ عورت کی دیت اور خونبہا کا مطالبہ کرے اور چاہے تو قاتل کو قصاص میں قتل کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرد کی دیت اور خونبہا کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اہل سنت میں مشہور یہی ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور امامیہ کا اس پر اجماع قائم ہے لیکن ابو حنیفہ ، ثوری ، ابن ابی لیلی ٰ اور داؤد نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آزاد کسی دوسرے کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے(۳) البتہ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے گا خواہ وہ اس کا اپنا غلام ہی کیوں نہ ہو(۴)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۲۲۹

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۲۱۰

(۳) یضاً ، ج ۱ ، ص ۲۰۹۔

(۴) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۷

۳۶۹

لیکن قول حق یہی ہے کہ پہلی آیت محکم ہے اورا س کے معنی ظاہر ہیں اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی اس لئے کہ دوسری آیت میں آزاد و غلام اور مرد و عورت کے اعتبار سے اطلاق پایا جاتا ہے یعنی آیت کریمہ اس پہلو کو بیان نہیں کر رہی کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یا اگر آزاد ، غلام کو قتل کرے تو اسے غلام کے مقابلے میں قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ بلکہ دوسری آیت میں صرف اس نکتے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قصاص کے موقع پر جرم کی مقدار اور نوعیت کا خیال رکھا جائے یعنی جس نوعیت کا جرم کیا گیا ہے اسی کے حساب سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تو بھی اس پر کرو،،

کا مفہوم بھی یہی ہے۔

بہرحال اگر دوسری آیت میں مرد و عورت اور آزادو غلام کے اعتبار سے قاتل و مقتول کی خصوصیات بیان نہ کی گئی ہوں اور صرف ابتدائی جرم اور قصاص کی نوعیت میں مساوات کو بیان کیا گیا ہو جس کو اس آیہ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے تو دوسری آیت مہمل رہیگی اور اس کا عموم میں ظہور نہیں ہو گا تاکہ پہلی آیت کیلئے ناسخ بن سکے اور اگر دوسری آیت مرد و زن اور غلام و آزاد کے اعتبار سے اطلاق میں ظہور رکھتی ہو اور اس آیت میں صرف اس بات کی خبر نہ دی گئی ہو کہ یہ حکم تورات میں موجود ہے بلکہ اس امت کیلئے بھی یہی حکم ثابت ہو تو پہلی آیت دوسری کیلئے مقید ثابت ہو گی اور اس کا قرینہ ہو گی کہ دوسری آیت میں مراد الٰہی کیا ہے اس لئے کہ مطلق ، اگرچہ مؤخر ہو ، مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ مقید ظہور مطلق میں تصرف (ردوبدل) پر قرینہ ثابت ہو گا چنانچہ ہر مقید ، جو موخر ہو ، کا یہی حکم ہوا کرتا ہے۔ بنا برایں غلام کے بدلے میں آزادکے قتل کئے جانے کاقائل ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۷۰

اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ غلام کے مقابلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے دلیل کے طور پر امیر المومنین (ع) کی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جسے آپ (ع) نے رسول اللہ (ص) سے نقل فرمایاہے اس روایت میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

المسلمون تتکافا دماؤهم ،،

''مسلمانوں کا خون (آزادہو یا غلام) یکساں ہے،،

جواب: فقرض تسلیم اگر یہ روایت درست بھی ہوتو آیہ کریمہ :( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی اس لئے کہ یہ روایت غلام کے مقابلے میں آزاد کے قتل کو تب جائز قرار دے گی جب اس کے عموم پر عمل کیا جائے ظاہر ہے عام اس وقت حجت اور قابل عمل ہو گا جب اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی مخصص وارد نہ ہو۔

باقی رہی وہ روایت جو حسن نے سمرہ سے اور اس نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے اس کی سند ضعیف ہے اور یہ قابل اعتماد نہیں چنانچہ ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

''بعض لوگوں کی جہالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آزاد کے قتل کو اس کے اپنے غلام کے قتل کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) کے فرمان کو پیش کرتے ہیں جس کو حسن نے سمرہ سے نقل کیا ہے اور اس میں آپ (ص) فرماتے ہیں : من قتل عبدہ قتلناہ (یعنی )''جو اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے،، اوریہ حدیث ضعیف ہے،،(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن لابی بکربن العربی ، ج ۱ ، ص ۲۷

۳۷۱

مولف: اس روایت کی سند ضعیف ہونے کے علاوہ تین روایات سے متعارض بھی ہے۔

i ) عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے جد سے روایت بیان کرتے ہیں:

''ایک شخص نے عملاً اپنے غلام کو قتل کر دیا اس قاتل کو رسول اللہ (ص) نے سزا میں کوڑے لگائے ، ایک سال کیلئے جلا وطن کر دیا اور بیت المال سے اس کا حصہ منقطع کر دیا لیکن اسے قتل نہیں کیا گیا،،(۱) اسی مضمون کی ایک روایت ابن عباس نے رسول اللہ (ص) سے بھی نقل کیا ہے۔

( ii ) جابر نے عامر سے اور اس نے امیر المومنین (ع) سے روایت بیان کی ہے:

''آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا ،،(۲)

( iii ) عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے روایت بیان کی ہے:

''حضرت ابوبکر اور حضرت عمر غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے ،،(۳)

قارئین کرام نے روایات اہل بیت (ع) ملا خطہ فرمائیں جن کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ (ص) کے بعد مرجع دین اہل بیت اطہار (ع) ہی ہیں ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس دعویٰ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آیہ : ''الحر بالحر والعبد بالعبد،، نسخ ہو گئی اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

امامیہ ، حسن اور عطاء کے نقطہ نگاہ سے آیہ کریمہ اس اعتبار سے بھی نسخ نہیں ہوئی کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکے البتہ مذہب اہل سنت کے مطابق یہ اس اعتبار سے نسخ ہو گئی ہے یعنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے جبکہ پہلی آیہ (الانثی ٰ بالانثیٰ ) کی رو سے عورت کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۸ ، ص ۳۶

(۲) ایضاً ص ۳۴۔۳۵

(۳) ایضاً ص ۳۴

۳۷۲

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔

۳۷۳

ہاں ! یہ اور بات ہے کہ آیہ شریفہ سے قطع نظر خارجی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ جب مقتولہ کے ولی و وارث مرد کی دیت کا نصف حصہ ادا کر دیں تو مرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کر دے اس طرح مرد ، عورت اور نصف دیت کے مجموعہ کابدلہ قرار پائے گا یہ ایک جداگان اور مستقل حکم ہے جس کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں جو آیہ کریمہ سے ابتداً سمجھا جاتا ہے اوریہ وہ نسخ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیہ( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) کا نسخ اس بات پر موقوف ہے کہ مقتولہ کے ولی و ورثا جب بھی قصاص کا مطالبہ کریں توقصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا قاتل پر واجب ہو چنانچہ اہل سنت یہی کہتے ہیں لیکن یہ بات دلیل سے ثابت نہیں (اس کا اثبات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مترجم)

اہل سنت حضرات اس بات کے ثبوت میں کبھی تو دوسری آیت :( أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ ) کے اطلاق کا سہارالیتے ہیں ، کبھی حدیث شریف :المسلمون تتکافا دماؤهم کے عموم کا اس دلیل کا جواب دیا جا چکا ہے اور کبھی اس بات کے اثبات میں قتادہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو اس نے سعید بن مسیب سے نقل کی ہے اس روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے صنعاء کے کچھ لوگوں کو ایک عورت کے قتل کے جرم میں قتل کیا۔

لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین (ع) اور عبداللہ نے فرمایا:

''جب کوئی مرد کسی عورت کو قتل کرے تو اسے اس عورت کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کیا جائیگا،،

زہری نےابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور اس نے اپنے والد سے ، اس نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''ان الرجل یقتل بالمراة ،، (۱)

''مرد ، عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا،،

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۹

۳۷۴

لیکن یہ سب دلیلیں کئی اعتبار سے باطل ہیں۔

( i ) یہ سب روایات صحیح بھی ہوں لیکن کتاب خدا کی مخالف ہیں اور جو روایات کتاب الٰہی کی مخالف ہو وہ حجت نہیں ہوا کرتی یہ روایات خبر واحد ہیں اور علما کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

( ii ) ان میں سے پہلی روایت مرسلہ ہے کیونکہ سعید بن مسیّب ، خلافت حضرت عمر کے دو سال بعد پیدا ہوا(۱) اور یہ بات بہت بعید ہے کہ اس نے حضرت عمر سے بلا واسطہ روایت کی ہو اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت عمر کا فعل بذات خود حجت نہیں۔

دوسری روایت ضعیف بھی ہے اورمرسلہ بھی ۔ تیسری روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ مطلقہ ہے اور اس روایت سے اس کی تقیید کی جائے گی جس کے مطابق قاتل کو اس کی نصف دیت ادا کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیہ کریمہ کا نسخ ثابت نہیں اور صرف فقہاء کی ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے زیدیا عمرو کے قول اور فتویٰ کی بنیاد پر قول خداوند سے کیوں اور کس طرح دستبردار ہوا جا سکتا ہے ؟ اور مقام حیرت وتعجب ہے کہ علماء کی ایک جماعت جس کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا ، اس کے باوجود ، قرآن کیخلاف اپنا فتویٰ صادر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہمارے گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آیہ کریمہ:

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے،،۔

__________________

(۱) تہذیب التہذیب ، ج ۴ ، ص ۸۶

۳۷۵

اور آیہ کریمہ:

( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۷۹

''اور اے عقلمندو ! قصاص میں تمہاری زندگی ہے اور اسی لئے جاری کیا گیا ہے،،

میں آیہ شریفہ (الانثی بالانثیٰ) جس میں مرد و زن اور آزاد و غلام میں فرق کو بیان کیا گیا ہے ، کی ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں ہے انشاء اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے موقع پر اس موضوع پر مفصل بحث کی جائے گی۔

۴۔( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ) ۲:۱۸۰

''(مسلمانو!) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے جوخداسے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے،،

بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ، آیہ ارث کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ صدر اسلام میں میراث کی تقسیم کی وہ کیفیت نہیںتھی جو اب ہے بلکہ سارے کا سارا ترکہ بیٹے کو مل جاتا تھا والدین اور دیگر رشتہ داروں کو جو کچھ ملتا تھا وہ وصیت کے ذریعے ملتا تھا اورآیہ میراث کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا چنانچہ آیہ کریمہ میں اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مالدار آدمی کو چاہئے کہ وہ مرتے وقت والدین اور دیگر رشتہ داروں کیلئے ضرور وصیت کرے۔

کچھ حضرات کا دعوی ہے کہ یہ آیت فرمان رسول اللہ:''ولاوصیة لوارث (۱) ،، (یعنی) وارث کیلئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں،، کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۰

۳۷۶

مگر حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ آیہ ارث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میراث کی نوبت تب آتی ہے جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہ کی ہو اور وہ مقروض بھی نہ ہو اس کے باوجود یہ کیسے معقول ہے کہ آیہ ارث ، آیہ وصیت کی ناسخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ نسخ کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ بھی درست نہیں ، اس لئے کہ:

اولاً : اگرچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

ثانیاً: آیہ ارث کے ذریعے ، اس آیہ کا نسخ اس صورت میں ثابت ہو گا جب آیہ ارث ، اس آیہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) کے بعد نازل ہوئی ہو اور قائلین نسخ کیلئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے بعض حنفی حضرات کی طرف سے نسخ کے قطعی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔

ثالثاً : مرنے والے کے رشتہ داروں کے بارے میں اس حکم کا نسخ ہونا قابل تصور نہیں کیونکہ مرنے والے کے بیٹے کی موجودگی میں دوسرے رشتہ دار ارث کے حقدار ہی نہیں بنتے تاکہ آیہ ارث کے ذریعے آیہ وصیت کو نسخ کر کے رشتہ داروں کیلئے ارث کو ثابت کیا جا سکتے لہٰذا مرنے والے کے رشتہ دار وصیت ہی سے استفادہ کر سکتےہیں بہرکیف چونکہ وصیت کے نہ ہونے کی صورت میں ارث کی نوبت پہنچتی ہے ، اس لئے آیہ ارث نہ صرف آیہ وصیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی بلکہ اس سے آیہ وصیت کی تائید و تاکید بھی ہوتی ہے اس لئے کہ آیہ شریفہ (من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین) کی رو سے وصیت ارث پر مقدم ہے۔

۳۷۷

بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ آیہ شریفہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) رسول اللہ (ص) کی حدیث(لاوصیة لوارث ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے یہ دعویٰ کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی اور تفسیر المنار میں اس روایت کی سند کو مورد اشکال و مناقشہ قرار دیاگیا ہے(۱)

( ii ) ایسی روایت اہل بیت اطہار (ع) کی ان مستفیض روایات سے متعارض ہیں جن کے مطابق وارث کے حق میں وصیت جائز ہے چنانچہ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ میں ہے کہ راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا: کیا وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: جائز ہے پھر آپ (ع) نے اس ایت کی تلاوت فرمائی،

( إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۲:۱۸۰

''بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے،،

اس مضمون کی روایت اور بھی ہیں(۲)

( iii ) اگر اس روایت کے خبر واحد ہونے سے چشم پوشی کی جائے اور اسے اہل بیت (ع) کی روایات سے معارض بھی نہ مانیں تب بھی اس روایت اورآیہ شریفہ کے مفاہیم میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی زیادہ سے زیادہ اس حدیث شریف سے آیہ کریمہ کے اطلاق کیلئے تقیید سمجھی جائے گی بایں معنی کہ والدین کیلئے اس وقت وصیت کی جائے جب کسی مانع کی وجہ سے وہ ارث کے مستحق نہ ہوں یا ان رشتہ داروں کیلئے وصیت کی جائے جنہیں ارث نہیں مل سکتا اور اگر حدیث اورآیہ کریمہ میں منافات فرض بھی کر لی جائے تب بھی یہ حدیث آیہ کریمہ کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی کیونکہ خبر واحد قرآن کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہے ، بنا برایں آیہ کریمہ محکم ہے منسوح نہیں۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۳۸

(۲) الوافی ، ج ۱۳ ، ص ۱۷

۳۷۸

اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''کتابۃ،، کا معنی کس چیز کا حتمی فیصلہ ہے چنانچہ آیت:

( كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ ) (۶:۱۲)

''اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے،،

میں ''کتب،، اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مولا کے حکم اور اس کے حتمی فیصلوں میں اس کا امتثال امر کیا جائے اگر یہ کہ اس کی طرف سے ترک کی اجازت ہو۔

بنا برایں آیہ کریمہ کی رو سے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا لازم و واجب ہے لیکن مسلمانوں کی سیرت جو قطعی طور پر ثابت ہے، اہل بیت اطہار (ع) سے منقول روایات اورہر دور میں فقہاء کے اجتماع سے ترک وصیت کی اجازت ثابت ہے بنا برایں اس اجازت کے ثابت ہونے کے بعد آیت سے وصیت کا مستحب ہونا ثابت ہو گا بلکہ وصیت کی تاکید ثابت ہو گی اورا س آیت میں ''کتب،، سے مراد وصیت کی تشریع ہو گی اور اس کا حتمی اور لازمی قرار دینا نہیں:

۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے) بہت سے گناہوں سے بچو،،

اس آیہ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیہ دوسری آیہ:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ) : ۱۸۷

''مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حالا کر دیا گیا،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ۔ اس کے نسخ ہونے کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر روزہ اسی کیفیت سے واجب تھا جس کیفیت سے گزشتہ اقوام پر واجب تھا گزشتہ اقوام پر واجب روزہ کے احکام میں سے ایک حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں رات کا کھانا کھانے سے قبل سو جائے تو پھر رات کو کسی بھی وقت بیدار ہو کر کچھ کھانا اس کیلئے جائز نہیں تھا

۳۷۹

اور اگر کوئی عصر کے بعد سو جائے تو اس کیلئے کھانا پینا اور ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا لیکن یہ آیہ جس میں مسلمانوں کے روزہ کو گزشتہ اقوام کے روزہ سے تشبیہ دی گئی ہے آیہ کریمہ:

( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ) : ۱۸۷

''اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی دھاری تمہیں صاف نظر آنے لگے،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت کو بھی ناسخ قراردیا جاتا ہے:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ) : ۱۸۷

''(مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا،،

علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ آیہ تحلیل( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) ناسخ ہے(۱) البتہ اس کی منسوخی کے بارے میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ منسوخ وہی آیت ہے جو ہمارے محل بحث ہے کیونکہ ان حضرات نے آیت( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔الخ سے یہی سمجھا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر واجب روزہ اور گزشتہ اقوام پر واجب روزہ یکساں تھے بعد میں وہ آیہ کریمہ اس آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو گئی چنانچہ ابوالعالیہ اور علماء کا یہی خیال ہے اور ابو جعفر نحاس نے سدی کی طرف بھی اس بات کو منسوخ کیا ہے(۲)

بعض کا خیال ہے کہ آیہ تحلیل کے ذریعے گزشتہ اقوام کے عمل اور ان کی روش کو نسخ کیا گیا ہے اور آیہ کریمہ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کو نسخ نہیں کیا گیا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پہلی آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

_________________

(۱) الناسخ و المنسوخ نحاس ، ص ۲۴

(۲) ایضاً ص ۲۱

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۳۱ _ روزے كى تشريع كے اہداف ميں سے ايك ہدف عظمت الہى كى طرف توجہ اور اس كى بزرگى كو بيان كرنا ہے _

ولتكبروا الله على ما هدا كم ''لتكبروا'' كا مصدر تكبير ہے جس كامعنى بزرگ شمار كرنا اور باعظمت جانناہے'' لتكبروااللہ'' روزے كى تشريع كيلئے علت غائي ہے يعنى روزہ چونكہ انسانوں كو عظمت الہى كى طرف متوجہ كرتاہے اس لئے اس كا حكم اہل ايمان كيلئے وضع كيا گيا ہے_

۳۲ _ بارگاہ رب العزت ميں شكر ادا كرنا ضرورى ہے _و لعلكم تشكرون

۳۳_ روزہ بارگاہ ايزدى ميں شكر ادا كرنے كيلئے زمين كو ہموار كرتاہے_و لعلكم تشكرون

'' لعلكم تشكرون'' بھى '' لتكبروا ...'' كى طرح روزے كى تشريع كيلئے علت و غرض ہے_

۳۴_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شكر ادا كرنا اس لئے ضرورى ہے كہ پروردگار نے انسانوں كيلئے مشكل اور بامشقت احكام وضع نہيں فرمائے _يريد الله بكم اليسر و لا يريد بكم العسر و لعلكم تشكرون يہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم ...'' جملہ ''يريد اللہ ...'' كيلئے غرض و غايت ہو_

۳۵ _ راوى كہتاہے: ''سالت اباعبدالله عليه‌السلام عن القرآن و الفرقان فقال: القرآن جملة الكتاب و الفرقان المحكم الواجب العمل به (۱) ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے قرآن و فرقان كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: '' قرآن'' سارى كتاب ہے اور '' فرقان'' محكم ''آيات'' ہيں جن پر عمل كرنا واجب ہے _

۳۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:اذا دخل شهر رمضان فللّه فيه شرط ، قال الله تعالى : '' فمن شهد منكم الشهر فليصمه '' فليس للرجل اذا دخل شهر رمضان ان يخرج الا فى حج او عمرة او مال يخاف تلفه اواخ يخاف هلاكه (۲) جب ماہ رمضان آئے تو اللہ تعالى كيلئے اس ميں ايك شرط ہے اللہ تعالى كا ارشاد ہے: '' فمن شہد منكم الشہر فليصمہ'' پس كسى كو بھي نہيں چاہيئے كہ ماہ رمضان ميں سفر كرے مگر يہ كہ حج، عمرہ كيلئے يا كسى مال كے تلف ہوجا كے ڈر سے يا پھر دينى بھائي كى ہلاكت كے خوف سے _

۳۷_ فضل بن شاذان امام رضاعليه‌السلام سے روايت كرتے

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۱۹۰ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۶۸ ح ۵۷۶_

۲) تہذيب الاحكام ج/ ۴ ص ۲۱۶ ح ۱ ، تفسير برہا ن ج/ ۱ ص ۱۸۳ ح ۲_

۶۴۱

ہيں :فان قال : فلم جعل الصوم فى شهر رمضان خاصة دون ساير الشهور؟ قيل لان شهر رمضان هو شهر الذى انزل الله فيه القرآن و فيه فرق بين الحق و الباطل كما قال الله عزوجل '' شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن هدى للناس و بينات من الهدى و الفرقان'' و فيه نبى محمد (ص) و فيه ليلة القدر التى هى خير من الف شهر ...(۱) اگر سوال كيا جائے كہ روزے صرف ماہ رمضان ميں كيوں واجب ہوئے ہيں نہ كہ باقى مہينوں ميں ؟ تو جواب ميں كہاجائے گا چونكہ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں اللہ تعالى نے قرآن كريم كو نازل فرمايا اور اس مہينہ ميں حق كو باطل سے جدا كرديا جيسا كہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے: ''رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل كيا گيا جو انسانوں كيلئے ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ميں ہيں اور فرقان ( حق و باطل كے مابين فرق) ہے '' اور اس ماہ ميں آنحضرت(ص) مقام نبوت پر فائز ہوئے اور اس ماہ ميں شب قدر ہے جو ہزار مہينوں سے بہتر ہے _

۳۸_''بعض اصحابنا رفعه فى قول الله عزوجل:''و لتكبروا الله على ما هداكم'' قال: '' التكبير'' التعظيم لله و '' الهداية'' الولاية (۲) امام معصومعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان ، ''و لتكبروا الله على ما ہداكم'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا : تكبير سے مرا د اللہ تعالى كى عظمت و بزرگى بيان كرنااور ''ہدايت'' سے مراد ولايت ہے_(يعنى ولايت كى نعمت كے سبب اللہ تعالى كى عظمت و بزرگى بيان كرو)

۳۹_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:التكبير فى العيدين واجب، اما فى الفطر ففى خمس صلوات يبتدأ به من صلاة المغرب ليلة الفطر الى صلاة العصر من يوم الفطر و هو ان يقال '' الله اكبر، الله اكبر، لا اله الا الله و الله اكبر ، الله اكبر و لله الحمد، الله اكبر على ما هدانا ، والحمدلله على ما ابلانا '' لقوله عزوجل ''و لتكملوا العدة و لتكبروا الله على ما هداكم ''(۳) عيد فطر اور عيد قربان ميں تكبير واجب ہے ليكن عيد فطر كى پنجگانہ نمازوں جن كا آغاز عيد فطر كى رات نماز مغرب سے عيد فطر كے دن كى نماز عصر تك ہے ان نمازوں ميں تكبير يوں كہے ' ' اللہ اكبر ، اللہ اكبر ...'' يہ تكبيرات اسيلئے واجب ہيں كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے '' اس لئے كہ ايام كے عدد كو تكميل كريں اور جس اللہ نے تمہيں ہدايت فرمائي ہے اسكى عظمت و بزرگى كا ذكر كرو ''_

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/ ۲ ص ۱۱۶ ح/۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۶۳ ح ۵۵۰_

۲) محاسن برقى ج/۱ ص ۱۴۲ ح ۳۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص _۱۷ ح ۵۸۶_

۳) خصال ج/۲ ص ۶۰۹ ح ۹ ، بحار الانوار ج/ ۸۸ص ۱۲۸ ح ۲۷_

۶۴۲

۴۰_عن بعض اصحابنا رفعه فى قول الله تبارك و تعالى '' و لتكبروا الله على ما هداكم و لعلكم تشكرون'' قال الشكر المعرفة '' (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''و لتكبروا الله على ما هداكم و لعلكم تشكرون'' كے بارے ميں امام معصومعليه‌السلام سے منقول ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا شكر سے مراد معرفت ہے ..._

آرام و آسائش : آسائش كے عوامل ۲۳

احكام :( ۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۷ ۱،۱۸،۲۰ ،۲۷)

احكام ميں نرمى اور لچك ۱۹; فلسفہ احكام ۲۲،۵ ۲ ، ۳۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى مہرباني۲۴; ہدايت الہى ۲۸، ۲۹

انسان: انسانوں كى ہدايت ۶،۱۰

باطل : باطل كى تشخيص كے معيارات ۱۱

بزرگى بيان كرنا : اللہ تعالى كى عظمت و بزرگى بيان كرنے كي

اہميت ۳۰; اللہ تعالى كى بزرگى بيان كرنا ۳۱، ۳۸، ۳۹; اللہ تعالى كى عظمت بيان كرنے والے كلمات ۳۹

بيمار: بيمار كے احكام ۱۵،۱۶،۱۷

تكليف شرعي: تكليف شرعى ميں سہولت ۲۱،۳۴; تكليف شرعى اٹھنے كے اسباب ۲۲

حق : حق كى تشخيص كے معيارات ۱۱

حمد: اللہ تعالى كى حمد۳۱

روايت:۳۵،۳۶،۳۷،۳۸،۳۹،۴۰

روزہ: روزے كے اثرات و نتائج ۲۳،۲۹،۳۳; روزہ كے احكام ۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷ ،۱۸، ۲۰، ۲۷; احكام ميں نرمى اور چھكاؤ۱۹; قضا روزوں كى تعداد۱۷; بيمار كا روزہ ۱۵، ۱۶، ۱۷،۲۲; مسافر كا روزہ ۱۵،۱۶،۱۷، ۲۰، ۲۲; روزہ اور قرآن كريم ۴; روزے كے وجوب كى شرائط ۱۳،۱۴; روزے ميں تكليف و پريشانى عسر و حرج; ۲۲; روزے كا فلسفہ ۳۱،۳۷; روزوں كى قضا كا فلسفہ ۲۵; روزے كى قضا ۲۷; واجب روزوں كى مدت ۲۵،۲۶; روزے سے معذور افراد ۱۵; روزے ميں نظم ۱۹; روزے كا وجوب ۱۲; روزے كى قضا كا وجوب ۱۶;

____________________

۱) محاسن برقى ج/ ۱ ص ۱۴۹ ح ۶۵، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۷۰ ح ۵۸۷_

۶۴۳

روزے كا وقت ۱; روزے كى قضا كا وقت ۱۸; روزے كى خصوصيات۱۹

سختي: سختى سے نجات كے اسباب ۲۳

شب قدر: شب قدر كا وقت ۳۷

شكر: شكر الہى كى اہميت ۳۲،۳۴; اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كى آمادگى پيدا ہونا ۳۳; شكر سے كيا مراد ہے ؟ ۴۰

عيد فطر: عيد فطر كى تكبير ۳۹

عيد قربان : عيد قربان كى تكبير ۳۹

فرقان: فرقان سے مراد ۳۵

فقہى قواعد: عسر و حرج ( تكليف و پريشانى ) كى نفى كا قاعدہ ۲۲

قرآن حكيم : قرآن حكيم كى محكم آيات ۳۵; قرآن حكيم كى بينات۱۰،۱۱; قرآنى تعليمات۱۰; قرآن كريم كا سب انسانوں كے لئے ہونا ۷; قرآن كريم كے مخاطبين ۷; قرآن كريم سے مراد ۳۵;قرآن كريم كى اہميت ۶،۱۱; قرآن كريم كى خصوصيات۶،۱۰،۱۱; قرآنى ہدايتوں كى خصوصيت ۸ ، ۹; قرآن حكيم كا ہدايت كرنا ۶،۱۰

ماہ رمضان : ماہ رمضان كا ثابت ہونا ۱۳،۱۴; ماہ رمضان كے روزے ۱۲،۳۷; ماہ رمضان كى عظمت ۵; ماہ رمضان كے روزوں كا فلسفہ ۳; ماہ رمضان ميں قرآن كريم كانزول ۲،۳،۳۷; ماہ رمضان ميں سفر ۳۶; ماہ رمضان كى خصوصيات ۱،۲،۵

مسافر: مسافر كے احكام ۱۵،۱۶،۱۷، ۲۰

مسلمان : مسلمانوں كى شرعى تكليف ۲۶; مسلمانوں كى ہدايت ۲۸

معرفت: معرفت كى اہميت ۴۰

واجبات:۱۲

ولايت: ولايت كى نعمت ۳۸

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۶; ہدايت كے درجات ۹،۱۰; ہدايت كا منبع ۲۸

۶۴۴

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ( ۱۸۶ )

اور اے پيغمبر اگر ميرے بندے تمسے ميرے بارے ميں سوال كريں تو ميں ان سےقريب ہوں _ پكارنے والے كى آوازسنتا ہوں جب بھى پكارتا ہے لہذا مجھ سے طلب قبوليتكريں اور مجھ ہى پر ايمان وا عتمادركھيں كہ شايداس طرح راہ راست پر آجائيں (۱۸۶)

۱ _ مسلمانوں كا پيامبر اسلام (ص) سے سوال كرنا كہ اللہ تعالى بندوں كے نزديك ہے يا دور _و اذا سالك عبادى عنى فانى قريب ' ' فانى قريب'' كا جملہ بيان كررہاہے كہ سوال اللہ تعالى كے دور يا نزديك ہونے كى بارے ميں ہے_

۲ _ اللہ تعالى كى صفات كيا اور كيسى ہيں ان كے بارے ميں ٹحقيق كرنا اور سوال پوچھنا جائز ہے _و اذا سالك عبادى عنى فانى قريب

۳_ اللہ تعالى اپنے سب بندوں كے نزديك ہے_ فانى قريب

۴_ اللہ تعالى دعا كرنے والوں كى دعا كو قبول فرماتاہے_اجيب دعوة الداع

۵_ اللہ تعالى كا بندوں كے نزديك ہونا اسكى دليل پروردگار كى طرف سے دعاؤں كا قبول ہونا ہے_فانى قريب اجيب دعوة الداع جملہ ''اجيب دعوة الداع_ دعا كرنے والے كى دعا قبول كرتاہوں '' ممكن ہے اس جملہ ''فانى قريب'' كى علت و دليل ہو_

۶_دعا ميں خلوص ( فقط اللہ تعالى كو پكارنا اور اسى سے دعا كرنا ) دعا كى قبوليت كى شرط ہے_اجيب دعوة الداع اذا دعان

۷_ اللہ تعالى كى اپنے بندوں كو نصيحت ہے كہ اسكى بارگاہ ميں دعا كريں تو وہ قبول فرمائے گا_فليستجيبوا لي

استجابت كا معنى '' طلب قبوليت'' ہوسكتاہے پس ''فليستجيبوا لى '' يعنى ميرے بندے مجھ سے دعائيں طلب كرں تو ميں پورى كروں گا _

۸_ اللہ تعالى كے احكامات پر عمل اور اس كى ذات اقدس پر ايمان ركھنا واجب و ضرورى ہے _فلستجيبوا الى و ليؤمنوا بي يہ مطلب اس مناسبت سے ہے كہ ''استجابت'' كا معنى '' اجاب_ قبول كرنا '' ہو_ لہذا '' فليستجيبوا لى '' كا يہ معنى ہے '' پس ميرے بندوں پر واجب ہے كہ ميرے فرامين كو قبول كريں اور اطاعت كريں ''

۶۴۵

۹_ اللہ تعالى كا اپنے بندوں سے قرب اور اس كى اپنے بندوں كى درخواستوں كو پورا كرنے كى توان ركھنے پر ايمان ضرورى ہے _و ليومنوا بي بندوں كى نسبت اللہ تعالى كے قرب اور اسكى طرف سے ان كى دعاؤں كے قبول كرنے كے بيان كے بعد '' و ليومنوا بى '' كا ذكر ہوسكتاہے اس سے مراد يہ ہو كہ يہاں ايمان سے مراد تقرب الہى اور بندوں كى دعاؤں كے پورا ہونے پر ايمان ہے_

۱۰_ اللہ تعالى كے تقرب اور بندوں كى دعاؤں كے پورا كرنے كى قدرت پر ايمان انسان كو اللہ تعالى پر ايمان اور اس كى اطاعت كى ترغيب دلاتاہے_فانى قريب اجيب دعوة الداع فليستجيبوا لى و ليومنوا بي يہ مطلب اس بنا پر ہے كہ '' فليستجيبوا'' كى ''فا'' تفريح كے لئے ہو _

۱۱_ اللہ تعالى كى اطاعت اور اس پر ايمان ہدايت كے حصول كا ذريعہ ہے _فليستجيبوا لى و ليؤمنوا بى لعلهم يرشدون '' يرشدون'' كا مصدر ''رشد'' ہے جسكا معنى ہدايت پانا اور حصول ثواب كے راستہ پر پہنچنا_

۱۲_اللہ تعالى پر ايمان اور اسكى اطاعت كامل ہوتو ہدايت كا حصول ممكن ہے _فليستجيبوا لى و ليومنوا بى لعلهم يرشدون

۱۳_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دعا اور اسكى قبوليت پہ يقين انسان كے لئے ہدايت كے حصول كا سبب ہے _فليستجيبوا لى و ليومنوا بى لعلهم يرشدون

۱۴_ عمل كے نتيجہ بخش ہونے كى اميد انسان ميں عمل كى ترغيب پيدا كرتى ہے _فليستجيبوا لى و ليومنوا بى لعلهم يرشدون جملہ '' لعلہم يرشدون'' اعمال كے ثمر كى اميد كو بيان كررہاہے ہوسكتاہے يہ جملہ اطاعت الہى كى ترغيب كے لئے بيان كيا گيا ہو پس عمل كے نتيجہ كى اميد انسان ميں عمل كى تحريك پيدا كرتى ہے _

۱۵_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دعا كرنے كا مناسب ترين زمانہ ماہ مبارك رمضان ہے _شهر رمضان و اذا سالك عبادى عنى فانى قريب اجيب دعوة الداع اس مطلب ميں اس آيہ مجيدہ كا ماقبل آيت سے ارتباط ملحوظ ركھا گيا ہے _

۱۶_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله '' فليستجيبوا لى و ليومنوا بي'' يعملون انى اقدر على ان اعطيهم ما يسئلون (۱)

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ ص ۸۳ ح ۱۹۶ _ تفسير برہان ج/۱ ص ۵۸۱ ح ۴_

۶۴۶

اللہ تعالى كے اس كلام'' فليستجيبوا لى و ليومنوا بي'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے (ميرے بندوں ) كو جاننا چاہئے كہ جو كچھ وہ طلب كرتے ہيں ميں ان كو دينے كى قدرت و توان ركھتاہوں ''_

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت كے اثرات و نتائج ۱۱; اطاعت الہى ۸،۱۲; اطاعت الہى كى آمادگى پيدا ہونا ۱۰

اللہ تعالى : افعال الہى ۴; اوامر الہى ۸; صفات الہى كے بارے ميں سوال ۲; اللہ تعالى كے قرب كے بارے ميں سوال۱; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۷; قدرت الہى ۱۶; تقرب الہى ۳; قرب الہى كى علامتيں ۵

اميدوار ہونا : اميد ركھنے كے نتائج ۱۴

ايمان : اللہ تعالى پر ايمان كے نتائج۱۱; اللہ تعالى كى قدرت پر ايمان كے نتائج ۱۰; تقرب الہى پر ايمان كے نتائج۱۰;دعا كى قبوليت پر ايمان ۱۳; اللہ تعالى پر ايمان ۸،۱۲; اللہ تعالى كى قدرت پر

ايمان ۹; تقرب الہى پر ايمان ۹; ايمان اور عمل ۱۲; اللہ تعالى پر ايمان كى بنياد۱۰; ايمان كے متعلقات ۸،۹،۱۲،۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) سے سوال كرنا ۱

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۰،۱۲

دعا: دعا كے نتائج۱۳; دعا كى قبوليت ۴،۵،۹; دعا ميں اخلاص ۶; قبوليت دعا كى درخواست ۷; دعا كى اہميت ۷; قبوليت دعا كى شرائط ۶; وقت دعا ۱۵

روايت:۱۶

سوال: جائز سوال ۲

عمل: عمل كے نتائج كى اميد۱۴

ماہ رمضان : رمضان المبارك ميں دعا ۱۵; رمضان المبارك

كى خصوصيات ۱۵

مسلمان: مسلمانوں كا سوال پوچھنا ۱

نظريہ كائنات (جہان بينى ) : نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجي۱۰

واجبات : ۸

ہدايت : حصول ہدايت كے اسباب ۱۱،۱۲،۱۳

۶۴۷

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ( ۱۸۷ )

تمھارے لئے ماہ رمضان كى رات ميں عورتوں كے پاس جانا حلال كرديا گيا ہے _وہ تمھارے لئے پردہ پوش ہيں اور تم ان كےلئے _ خدا كو معلوم ہے كہ تم اپنے ہى نفسسے خيانت كرتے تھے تو اس نے تمھارے توبہقبول كركے تمھيں معاف كرديا _ اب تم بہاطمينان مباشرت كرو اور جو خدا نے تمھارےلئے مقدر كيا ہے اس كى آرزو كرو اور اسوقت تك كھاپى سكتے ہو جب تك فجر كا سياہڈورا سفيد ڈورے سے نمايان نہ ہوجائے _ اسكے بعد رات كى سياہى تك روزہ كو پورا كرواور خبردار مسجدوں ميں اعتكاف كے موقع پرعورتوں سے مباشرت نہ كرنا _ يہ سب مقررہحدود الہى ہيں _ ان كے قريب بھى نہ جانا_ الله اس طرح اپنى آيتوں كو لوگوں كے لئےواضح طور پر بيان كرتا ہے كہ شايد وہمتقى اور پرہيزگار بن جائيں (۱۸۷)

۱ _ زمانہ بعثت ميں كچھ مدت كے لئے بيويوں سے نزديكى كرنا حتى ماہ رمضان كى راتوں ميں بھى روزہ داروں پر حرام تھا_احل لكم ليلة الصيام الرفث الى نسائكم

''رفث' ' كا معنى نزديكى ہے _ نزديكى كرنے كى ترغيب ميں صراحت كے لئے بھى استعمال ہوتاہے _ البتہ آيہ مجيدہ ميں '' مباشرت ''سے كنايہ ہے (مفردات راغب سے ا قتباس) اسكا '' الي'' كے ساتھ متعدى ہونا نيز جملہ''فالآان باشروہن'' اس كنائي معنى كے لئے قرينہ ہے _ جملہ ''كنتم تختانون'' جو انحراف و سركشى كى حكايت كررہاہے نيز جملہ''فالآن باشروھن'' كامفہوم اس بات پر دلالت كررہے ہيں كہ ماہ رمضان كى راتوں ميں ' ' نزديكى كرنا '' حرام تھا_

۲_ كچھ مدت كے بعد ماہ رمضان كى راتوں ميں نزديكى كرنے كى حرمت كا حكم منسوخ ہوگيا اور يہ عمل حلال قرار ديا گيا _

احل لكم ليلة الصيام الرفث الى نسائكم فالآن باشروهن

۳_مياں بيوى ايك دوسرے كے لئے عفت و پاكيزگى كا لباس ہيں اور ايك دوسرے كے لئے جنسى گناہوں كےاجتناب كا ذريعہ ہيں _هن لباس لكم وانتم لباس لهن

۴_ مياں بيوى ہميشہ ايك دوسرے كى ضرورت ہيں _هن لباس لكم و انتم لباس لهن اس جملہ ''ہن لباس لكم ...'' ميں بيوى كو شوہر كے لئے اور شوہر كو بيوى كے لئے جو لباس سے تشبيہ دى گئي ہيں شباہت ميں وجہ شبہ '' ہميشہ كے لئے ضرورت'' بہت واضح اور روشن ہے_

۶۴۸

۵_ ماہ رمضان كى راتوں ميں مباشرتكے حلال ہونے كى حكمتوں ميں سے ايك بيوى اور شوہر كى ايك دوسرے كے لئے جنسى ضرورت ہے_احل لكم ليلة الصيام الرفث الى نسائكم هن لباس لكم و انتم لباس لهن حليت كے حكم''احل لكم ...'' كى دليل و حكمت كويہ جملہ''ہن لباس لكم ...''بيان كررہاہے_

۶_ دينى احكا م و قوانين كى تشريع ميں اسلام كى جنسى اور فطرى ضروريات كى طرف توجہ _احل لكم ليلة الصيام الرفث الى نسائكم

۷_ صدر اسلام كے بہت سارے مسلمان ماہ رمضان ميں نزديكى كى حرمت كے حكم كى اعتنا نہ كرتے اور نافرمانى كرتے تھے_علم الله انكم كنتم تختانون أنفسكم يہ واضح ہے كہ اس حكم كى مخالفت سب مسلمان نہ كرتے تھے ليكن اس جملہ''كنتم تختاتون ...'' سے سب كو مخاطب قرار دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ خلاف ورزى كرنے والے كم نہ تھے_

۸_جنسى غريزہ بہت طاقتور غريزہ ہے جسے كنٹرول كرنا عام لوگوں كے لئے ايك دشوار امر ہے _علم الله انكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم

۹_ اللہ تعالى كے احكام كى نافرمانى كرنا اور احكام دين كى پروا ہ نہ كرنا اپنے آپ سے خيانت ہے_كنتم تختانون أنفسكم

۱۰_ اللہ تعالى انسان كے پوشيدہ اعمال سے آگاہ ہے _علم الله انكم كنتم تختاتون أنفسكم

۱۱_ ماہ رمضان كى راتوں ميں نزديكى كے حرام ہونے كے حكم كى مسلمانوں كى طرف سے نافرمانى اور پروا ہ نہ كرنا اس حكم كے منسوخ ہونے كا باعث بنا _احل لكم علم الله انكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم و عفا عنكم ماہ رمضان كى راتوں ميں نزديككے حلال ہونے كے حكم'' احل لكم ...'' كى حكمت و دليل كو ''ہن لباس لكم ...'' كى طرح يہ جملہ ''علم اللہ ...'' بھى بيان كررہاہے_

۱۲ _ حكم الہى ( ماہ رمضان كى راتوں ميں مباشرت كا حرام ہونا ) كى مخالفت كرنے والوں پر اللہ تعالى نے اپنى رحمت لوٹا كر ان كے گناہ كو بخش ديا _فتاب عليكم و عفا عنكم

۱۳ _ ماہ رمضان كى راتوں ميں نزديكى كے حلال ہونے كے حكم الہى كى علتوں ميں ايك يہ تھى كہ نزديكى سے پرہيز كرنا بہت دشوار امرہے_علم الله انكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم و عفا عنكم يہ جملہ '' علم اللہ ...''( اللہ جانتاہے

۶۴۹

كہ تم نے اپنے آپ سے خيانت كى ہے) مباشرت كے حكم حرمت كے منسوخ ہونے كى علتوں ميں سے ايك ہے جبكہ اللہ تعالى واقعات كے ہونے سے قبل ہى ان كے بارے ميں علم ركھتاہے پس اس جملے '' علم اللہ ...'' سے مراد '' معلوم '' كا ظاہرى طور پر پر واقع ہونا ہے_ پس حكم حرمت كے منسوخ ہونے كى علت اور دليل سركشى اور خيانت كا وجود ميں آناہے نہ كہ اللہ تعالى كا پہلے سے آگاہ ہونا _

۱۴ _ مباشرت كے حلال ہونے كى حكمتوں ميں سے ايك سلسلہ نسل كو آگے بڑھانااور اسكى طرف اللہ تعالى كا ترغيب دلانا ہے _فالآن باشروهن و ابتغوا ما كتب الله لكم مفسرين كے نزديك ''ما كتب ...'' سے مراد اولاد ہے پس جملہ''فالآن ...'' كا معنى يہ بنتاہے اپنى بيويوں سےنزديكى كرو اور پھر اس كى تلاش و انتظار ميں رہو جو اللہ تعالى نے تمہارے لئے مقرر فرمادياہے_

۱۵_ماہ رمضان كى راتوں ميں بيويوں سے نزديكى كرنے كى صورت ميں طلوع فجر سے پہلے غسل كرنا چاہيئے*

فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم حتى يتبين لكم الخيط الابيض بعض مفسرين نے '' ما كتب اللہ'' سے مراد طہارت حاصل كرنا ليا ہے جيسا كہ سورہ مائدہ كى آيت ۶) ميں ارشاد ہے ''و ان كنتم جنباً فاطهروا ...او لمستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيداً طيباً''

۱۶_ اللہ تعالى نے مسلمانوں سے فرماياہے كہ اپنى بيويوں سے نزديكى كرو اور مباح چيزوں سے استفادہ كرو _

فالآن باشروهن كلوا و اشربوا جملہ ''فالآن باشروھن'' سب مفسرين كے نزديك بيويوں سے مباشرت كے مباح ہونے پر دلالت كرتاہے نہ كہ وجوب پر _ البتہ مباح ہونے كے لئے فعل امر (باشروھن ...) كا استعمال ممكن ہے اسكى ترغيب پہ دلالت كرتاہو_

۱۷_ تمام امور كى تقدير اللہ تعالى كے ہاتھ ميں ہے _ما كتب الله لكم

۱۸_ اللہ تعالى كى طرف سے تقدير كيئے ہوئے اموركے واقع ہونے ميں انسان اور اس كا انتخاب بہت اہميت ركھتے ہيں _و ابتغوا ما كتب الله لكم

مقدرات الہى كو حاصل كرنے كے لئے انسان كو تگ و دو كا فرمان دينا ( و ابتغوا ما كتب اللہ لكم) اس بات كو بيان كررہاہے كہ بعض امور جو انسان كے لئے اللہ تعالى نے مقدر فرمائے ہيں انسان كے انتخاب اور عمل سے مشروط ہيں يعنى ان امور كے مكمل ہونے يا ظاہر ہونے ميں خود انسان بہت زيادہ اہميت ركھتاہے_

۶۵۰

۱۹_ ماہ رمضان كى راتوں ميں اپنى بيويوں سے نزديكى كرنا رات كى ابتدا سے طلوع فجر تك جائز ہے _فالآن باشروهن ...حتى يتبين لكم الخيط الابيض اس مطلب ميں ''رات كى ابتدا سے طلوع فجر تك'' كى قيد اس ليئے بيان ہوئي ہے كيونكہ''حتى يتبين'' ، ''باشروھن'' كے لئے بھى غايت ہے_

۲۰_ ماہ رمضان كى راتوں ميں طلوع فجر تك كھانا پينا جائز ہے _كلوا و اشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر

۲۱ _ روزے كا وقت طلوع فجر سے رات تك ہے _ثم اتموا الصيام الى الليل

۲۲_ افق پر جب سياہ رات كى تاريكى پر سفيد خط يا لكير ظاہر ہوجائے تووہ فجر كا وقت ہےحتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ''من الفجر' 'ميں ''من''،''الخيط الابيض'' كے لئے بيان ہے يعنى سفيد لكير وہى فجر ہے _

۲۳ _ شب وروز كے مابين طلوع فجر حد فاصل ہےاحل لكم ليلة الصيام كلوا و اشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض

آيت ۱۸۴ ميں روزوں كو دنوں كے ساتھ مخصوص كيا گيا ہے ''اياما معدودات'' اور اس آيت ميں روزے كے آغاز كو طلوع فجر قرار ديا گيا ہے ''حتى يتبين ...'' پس شريعت كى نظر ميں دن كا آغاز طلوع فجر سے ہوتاہے_

۲۴_ كھانا ، پينا اور نزديكيكرنا روزے كو باطل كردينے والے امور ميں سے ہيں _فالآن باشروهن كلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض

۲۵_ مساجد ميں اعتكاف كرنے والوں كو چاہيئے كہ اعتكاف كى راتوں ميں نزديكى سے اجتناب كريں _فالآن باشروهن ولا تباشروهن و انتم عاكفون فى المساجد جمله' 'ولا تباشروھن'' گويا كہ ''فالآن باشروھن'' پر ايك تبصرہ ہے يعنى كہيں يہ گمان نہ ہو كہ ماہ رمضان كى راتوں ميں مباشرت كرنا جو جائز ہے تو يہ اعتكاف كى حالت كو بھى شامل ہے _

۲۶_ اعتكاف كا مقام مساجد ہيں _و انتم عاكفون فى المساجد '' فى المساجد'' كى قيد توضيحى اور مقام اعتكاف كو بيان كرنے كيلئے ہے_ بنابريں '' ولا تباشروھن و انتم ...'' كا معنى يہ نہيں بنتا كہ اگر مساجد ميں اعتكاف كرو تو مباشرت حرام ہے اور اس كے علاوہ حرام نہيں ورنہ اس صورت ميں عبارت يوں ہوتى'' و انتم فى المساجد عاكفين'' _

۲۷_ اعتكاف ايك ايسى عبادت ہے جس ميں روزہ ركھنا شرط ہے _ولا تباشروهن و انتم عاكفون فى المساجد

احكام روزہ كو بيان كرنے كے بعد اعتكاف كے مسئلہ كو پيش كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اعتكاف كى

۶۵۱

عبادت ميں روزہ شرط ہے _

۲۸ _ مساجد كا احترام كرنا لازمى اور ان كے تقدس كا خيال ركھنا ضرورى ہے *و لا تباشروهن و انتم عاكفون فى المساجد

۲۹_ حدود الہى كا خيال ركھنا اور لحاظ كرنا لازمى ہے _تلك حدود الله فلا تقربوها

۳۰_ روزہ ،اعتكاف اور ان كے احكام اللہ تعالى كى حدود ہيں جن كو ہرگز نہيں توڑنا چاہيئے_تلك حدود الله فلا تقربوها

۳۱ _ قصاص اور وصيت كے احكام اللہ تعالى كى حدود ہيں جن كو ہرگز نہيں توڑنا چاہيئے_

كتب عليكم القصاص كتب عليكم الوصية تلك حدود اللہ فلا تقربوھا

'' تلك'' كا مشار اليہ روزہ اور اس كے احكام كے علاوہ قصاص، وصيت اور ان كے احكام كو بھى شامل ہوسكتاہے_

۳۲ _ اللہ تعالى اپنے احكام كو لوگوں كے لئے بہت واضح اور روشن بيان فرماتاہے_كذلك يبين الله آياته للناس

۳۳_ تمام انسان قرآن كريم كے مخاطب ہيں _يبين الله آياته للناس

۳۴_ روزہ، اعتكاف اور ان كے احكام اسى طرح قصاص اور وصيت كے احكام آيات الہى ہيں _كذلك يبين الله آياته للناس

۳۵_ تقوا اور پرہيزگارى حاصل كرنا ضرورى ہے_لعلهم يتقون

۳۶_ احكام دين پہ عمل كرنا اور حدود الہى كى پابندى كرنا تقوى اختيار كرنے كى زمين ہموار كرتے ہيں _تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون

۳۷_عن على ابن مهزيار قال: كتب ابوالحسن بن الحصين الى ابى جعفر الثاني عليه‌السلام معى جعلت فداك قد اختلفت موالوك فى صلاة الفجر فمنهم من يصلى اذا طلع الفجر الاوّل المستطيل فى السماء و منهم من يصلى اذا اعترض فى اسفل الافق واستبان فكتب عليه‌السلام بخطه و قراته: الفجر يرحمك الله هو الخيط الابيض المعترض ليس هو الابيض صعداً فقال كلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر . ..(۱) على بن مہزيار كہتے ہيں ابوالحسن بن حصين نے ميرے توسط سے ايك خط امام جوادعليه‌السلام كى خدمت ميں ارسال كيا اور تحرير كيا ميں آپعليه‌السلام پے قربان جاؤں آپعليه‌السلام كے شيعہ اور موالى نماز صبح كے وقت ميں اختلاف ركھتے ہيں ان ميں سے بعض جب آسمان پر پہلى سفيدى (صبح كاذب)جو آسمان پر لكير سى ہوتى ہے ظاہر ہوتى ہے تو نماز صبح بجالاتے ہيں

____________________

۱) كافى ج/۳ ص۲۸۲ ح۱،وسائل الشيعة ج/۴ص ۲۱۰ ح ۴_

۶۵۲

اور بعض جب يہ سفيدى افق كے نيچے تك ظاہر ہوجاتى ہے تو نماز ادا كرتے ہيں _ حضرتعليه‌السلام نے اپنے دست مبارك سے تحرير فرمايا اور ميں نے اسے پڑھا كہ فجر وہى نور كى سفيد پٹى ہے جو افق پرعرض ميں پھيلى ہوئي ہوتى ہے نہ كہ افق ميں اوپر كى طرف جانے والى سفيدى ہے_ ارشاد بارى تعالى ہے''كلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر' '

۳۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله تعالى : '' اتموا الصيام الى الليل'' قال سقوط الشفق (۱) اس آيہ مجيدہ ''اتموا الصيام الى الليل'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا شفق كے زائل ہونے سے رات كا آغاز ہوتاہے_

۳۹_ ابوبصير كہتے ہيں''سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن اناس صاموا فى شهر رمضان فغشيهم سحاب اسود عند مغرب الشمس فظنوا انّه الليل فافطروا او افطر بعضهم ثم ان السحاب فصل عن السماء فاذا الشمس لم تغب ؟ قال على الذى افطر قضاء ذلك اليوم ان الله يقول'' اتموا الصيام الى الليل'' فمن اكل قبل ان يدخل الليل فعليه قضائه لانه اكل متعمداً'' (۲) ميں نے امام صادقعليه‌السلام كچھ افراد كے بارے ميں پوچھا جن كا ماہ رمضان ميں روزہ تھا_ سياہ بادل چھاگئے تو انہوں نے گمان كيا كہ رات ہوگئي ہے اس طرح سب نے يا ان ميں سے بعض نے روزہ افطار كرليا اور جب بادل چھٹ گئے تو وہ لوگ متوجہ ہوئے كہ ابھى تو سورج آسمان پر (چمك رہا) ہے _ اس پر امامعليه‌السلام نے فرمايا جنہوں نے روزہ افطار كيا تھا اس كى قضا بجا لائيں كيونكہ ارشاد رب العزت ہے '' روزے كو رات تك تمام كرو '' پس جس كسى نے بھى رات ہونے سے قبل افطار كيا ہے چونكہ اس نے جان بوجھ روزہ توڑا ہے اسلئے اس كى قضا بجا لائے_

۴۰ _عن سعد عن بعض اصحابه عنهما عليه‌السلام فى رجل تسحّر و هو شاك فى الفجر قال لا باس ''كلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر (۳) جناب سعد بعض اصحاب سے اور انہوں نے امام باقرعليه‌السلام اور امام صادقعليه‌السلام سے ايسے شخص كے بارے ميں سوال كيا جس نے اس وقت سحرى كھائي جب اسے طلوع فجر ميں شك تھا تو امامعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا كوئي حرج نہيں كيونكہ بارى تعالى كا ارشاد ہے '' كھاؤ پيو يہاں تك كہ فجر كى سفيد پٹى كالى پٹى سے واضح ہوجائے''

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۹۳ ص ۳۱۴ ح ۱۶_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ص۸۴ ح ۲۰۰ ، ۲۰۲ تفسير برہان ج/۱ ص۱۸۷ ح ۱۲_ ۳) تفسير عياشى ج/۱ ص۸۳ ح۱۹۸ تفسير برہان ج/۱ ص ۱۸۷ ح۱۰_

۶۵۳

۴۱ _ ابوبصير كہتے ہيں ''سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن رجلين قاما فى شهر رمضان فقال احدهما هذا الفجر و قال الآخر ما ارى شيئاً قال لياكل الذى لم يستيقن الفجرو قد حرم الاكل علي الذى الاكل على الذى زعم قد راى ان الله يقول '' كلوا و اشربوا ...'' (۱) ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے دو افراد كے بارے ميں سوال كيا جنہوں نے ماہ رمضا ن ميں طلوع فجركے بارے ميں اختلاف نظر كيا ايك كہتاہے كہ يہ فجر ہے جبكہ دوسرا كہتاہے سفيدى صبح سے ميں كچھ نہيں ديكھ رہا ، آپعليه‌السلام نے فرمايا جس كو فجر كا يقين نہيں كھا سكتاہے ليكن جس كو يقين ہے اس نے فجر كو ديكھاہے تو اس پر كھانا حرام ہے _ اللہ تعالى كا ارشاد ہے: ''كلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام الى الليل''

آيات الہى :۳۴

احكام : ۱،۲،۱۵،۱۹،۲۰،۲۱،۲۴،۲۵،۲۶،۲۷،۳۹، ۴۰، ۴۱; احكام بيان كرنا ۳۲; احكام كى تشريع ۶; احكام كے منسوخ ہونے كے اسباب ۱۱; فلسفہ احكام ۵،۱۴; احكام كا نسخ ۲

اعتكاف: اعتكاف كے دوران مباشرت كرنا ۲۵; احكام اعتكاف ۲۵،۲۶،۲۷; مسجد ميں اعتكاف ۲۵، ۲۶; اعتكاف كى اہميت ۳۰،۳۴; اعتكاف ميں روزہ ۲۷; اعتكاف كى شرائط ۲۷; اعتكاف كى جگہ ۲۵،۲۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۳۲; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱۶; رحمت الہى ۱۲; اللہ تعالى كى بخشش ۱۲; اللہ تعالى كا علم غيب ۱۰; مقدرات الہى كى تكميل يا ظہور كے اسباب ۱۸

امور: امور كى تقدير كا سرچشمہ ۱۷

انسان: انسان كا پوشيدہ عمل ۱۰; انسان كى تقدير ۱۸; انسان كى ضروريات۴

تقوى : تقوى كے حصول كى اہميت ۳۵; تقوى كى آمادگى پيدا ہونا ۳۶

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر عمل كے نتائج۳۶

تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۱۸ جنابت: غسل جنابت ۱۵

جنسى انحراف: جنسى انحراف كے موانع ۳

جنسى غريزہ : جنسى غريزے كا توازن ۸; جنسى غريزے كى طاقت ۸

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ص ۸۳ ح ۱۹۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص۱۷۴ ح ۶۰۳_

۶۵۴

خلقت: نظام خلقت ۱۷

حدود الہى : حدود الہى كو قائم ركھنے كے نتائج ۳۶; حدود الہى كى حفاظت ۲۹،۳۰،۳۱; حدود الہى كے موارد ۳۰،۳۱

خود: خود سے خيانت ۹

دين: دين سے منہ موڑنا ۹

رات: رات كا آغاز ۳۸; شب و روز كى حد ۲۳

روايت:۳۷،۳۹۳۸،۴۰،۴۱

روزہ : روزے كى ابتدا ۲۱; روزے كے احكام ۱،۱۵،۹ ۱،۲۰ ،۲۱،۲۴،۳۹،۴۰،۴۱; قبل از غروب روزہ افطار كرنا ۳۹; روزے كى انتہا ۲۱; روزے كى اہميت ۳۰،۳۴; روزے كى قضا ۳۹; روزے كے مبطلات ۲۴;روزے كا وقت ۲۱

زوجہ اور شوہر: شوہر اور زوجہ كا لباس ہونا ۳

شوہر: شوہر كى اہميت ۳

ضروريات: بيوى اور شوہر ايك دوسرے كى ضرورت ۴،۵;جنسى ضرورت ۶

عورت: عورت كى اہميت ۳

غسل : غسل كے احكام ۱۵

فجر : فجر كے طلوع ميں شك ۴۰،۴۱; طلوع فجر ۲۳; طلوع فجر سے مراد ۳۷; طلوع فجر كا وقت ۲۲ ; طلوع فجر پہ يقين ۴۱

قرآن كريم : قرآن كريم كا عالمى ہونا ۳۳;قرآن كريم كے مخاطبين ۳۳

قصاص : قصاص كے احكام ۳۱; قصاص كى اہميت ۳۱، ۳۴

قضا و قدر : ۳۱،۳۴

گناہ : گناہ كى بخشش ۱۲; گناہ كے موانع ۳

ماہ رمضان : ماہ رمضان كى راتوں ميں پينا ۲۰; ماہ رمضان كى راتوں ميں مباشرت كرنا ۱،۲،۵،۷،۱۱،۱۳،۱۹; ماہ رمضان كى راتوں ميں كھانا ۲۰; ماہ رمضان ميں غسل كرنے كا وقت ۱۵

مباح امور:

۶۵۵

مباح امور سے استفادہ كرنا ۱۶

محرمات:۱

مسجد: مسجد كے احترام كى اہميت ۲۸;مسجد كى تقدس ۲۸

مسلمان: مسلمانوں كا گناہ ۱۱; صدر اسلام كے مسلمانوں كا گناہ ۷

معصيت : اللہ تعالى كى معصيت ۹

مقدس مقامات:۲۸

نزديكى كرنا : نزديكى كرنے كے احكام ۲،۱۹،۲۵ ; نزديكى كرنے

كى ترغيب ۱۴،۱۶; نزديكى حلال ہونے كا فلسفہ ۱۴

نسل بڑھانا: نسل بڑھانے كى اہميت ۱۴

نظريہ كائنات (جہان بيني):

توحيدى نظريہ كائنات ۱۷

نماز: نماز صبح كا وقت ۳۷

وصيت : وصيت كے احكام ۳۱; وصيت كى اہميت ۳۱،۳۴

وقت كى معرفت : وقت كى معرفت كى اہميت ۲۲،۲۳،۳۸

وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۱۸۸ )

اورخبردار ايك دوسرے كا مال نا جائز طريقےسے نہ كھانا اور نہ حكام كے حوالہ كرديناكہ رشوت دے كر حرام طريقہ سے لوگوں كےاموال كو كھا جاؤ جب كہ تم جانتے ہو كہيہ تمھارا مال نہيں ہے (۱۸۸)

۱ _ مال و ثروت جمع كرنے كے كچھ اسباب ناجائز و باطل ہيں اور كچھ حق اور صحيح ہيں _و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل

۲ _ دوسروں كے مال و اسباب كو ناجائز ذرائع سے حاصل كرنا حرام ہے _و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل ''بينكم'' ، ''اموالكم'' كے لئے قيد ہے يعنى جو اموال تمہارے مابين ہيں اور ہر كوئي كچھ حصے كا مالك ہے _ پس جملہ'' لا تاكلوا ...'' كا ترجمہ يوں ہوگا _ تم ميں سے كوئي بھى دوسرے كے مال كو ناجائز طريقے سے ہڑپ نہ كرے _

۶۵۶

۳ _ قاضيوں كو رشوت دينا ناجائز اور حرام ہے_و تدلوا بها الى الحكام '' تدلوا'' ، ''تاكلوا'' پر عطف ہے اسى لئے ''لائے ناہيہ'' كے ذريعے مجزوم ہے يعنى '' و لا تدلوا ...'' ''تدلوا'' كا مصدر '' ادلائ'' ہے جسكا معنى ڈول يا بالٹى كو كنويں ميں بھيجناہے _ تا ہم آيہ مجيدہ ميں '' وسيلہ بنانے'' كےلئے كنايہ ہے يعنى '' تدلوا بھا ...'' گويا قاضيوں كو مال نہ دو كہ اس وسيلے سے لوگوں كے اموال كو ہڑپ كر جاؤ _البتہ يہاں صرف مال حاصل كرنے كو ہى خصوصيت حاصل نہيں ہے لہذا حرمت رشوت كا عنوان ان تمام موارد كو شامل ہوسكتاہے جہاں كسى كا كوئي حق ضائع ہوتاہو اس مطلب كى ''بالاثم'' تائيد كرتاہے_

۴ _دوسروں كے اموال كو اينٹھنے كے لئے قاضيوں كو رشوت دينا حصول مال كے ناجائز اسباب ميں سے ہے _

و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقاً من اموال الناس

جملہ''وتدلوا ...'' عام پر عطف خاص ہے لہذا دوسروں كے اموال كو ناجائز ذرائع سے استعمال كا واضح نمونہ ہے _ ''لائے ناہيہ'' كا ''تدلوا'' پر نہ لانا اس مطلب كى تائيد كررہاہے_

۵ _ وہ حكم يا قضاوت جو رشوت لے كر كى گئي ہو گناہ ہے اور اس كى كوئي حيثيت نہيں ہے _و تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقا من اموال الناس بالاثم

۶_ ان اموال كى ملكيت جو ناجائز راستوں اور ذرائع سے حاصل كيئے گئے ہوں ان كى كوئي قانونى حيثيت نہيں ہے_

و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطلباطل طريقے سے حاصل كيئے گئے اموال كا حرام ہونا اس امر كى حكايت كرتاہے كہ ان اموال كو حاصل كرنے والا ان كا مالك نہيں ہے _

۷ _ حكمرانوں كى نظر عنايت حاصل كرنا اور ان كے فيصلوں كو راشى كے حق ميں كرنے كے ليئے رشوت كا حرام و ناجائز ہونا ايك ايسا حكم ہے جو سب كے لئے عياں ہے _تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقا من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون ''تعلمون'' كا مفعول ممكن ہے حكمرانوں كو رشوت دينا ہو نيز دوسروں كے اموال كا استعمال بھى ہو سكتاہے مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۸ _ دوسروں كے اموال كو ہڑپ كرنا حرام و ناجائز ہے يہ حكم سب كے لئے معلوم ہے _

و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل ...و انتم تعلمون يہ مطلب اس بناپر ہے اگر ''تعلمون'' كا مفعول دوسروں كے اموال كے استعمال كى حرمت ہو اور يہ معنى '' لا تاكلوا ...'' سے ماخوذ ہے _

۶۵۷

۹_ عمومى اموال اور اسباب كو ہڑپ كرنا حرام ہے _لتاكلوا فريقاً من اموال الناس بالاثم

''اموال الناس'' سے مراد ممكن ہے لوگوں كے ذاتى اموال و اسباب ہوں اسى طرح ممكن ہے اس سے مراد عمومى اموال ہوں مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۰_ حكمرانوں كو رشوت دے كر انكے فيصلے اور حكم سے عمومى اموال پر قبضہ كرنا حرام ہے _و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقا من اموال الناس

۱۱ _ حكمرانوں اور قاضيوں كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ رشوت خور ہوجائيں اور لوگوں كے حقوق ضائع كريں _

و تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقا من اموال الناس بالاثم

۱۲ _ معاشرے كى اقتصادى سلامتى اور لوگوں كے حقوق كے تحفظ ميں قاضيوں كا كردار بہت بنيادى ہے _

و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام و انتم تعلمون

۱۴ _ ابوعبيدہ حذّاء كہتے ہيں'' سالت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل ''ولاتاكلوا اموالكم بينكم بالباطل'' فقال: كانت قريش تقامر الرجل باهله و ماله فنهاهم الله عزوجل عن ذلك '' (۱) ميں نے اللہ تعالى كے اس كلام '' و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل '' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا قريش اپنے خاندان اور مال كو سٹے بازى اور قمار كے لئے داؤ پر لگاتے تھے پس اللہ تعالى نے انہيں اس عمل سے منع فرمايا_

۱۵_ ''روى عن ابى جعفر عليه‌السلام انه يعنى بالباطل اليمين الكاذبة يقتطع بها الاموال (۲)

آيہ مجيدہ ميں ''باطل'' سے كيا مراد ہے امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ جھوٹى قسم ہے جس سے مال حاصل كيا جاتاہے ( يعنى جھوٹى قسم سے مال حاصل كرنا اكل مال بالباطل ہے )_

۱۶_ سماعة كہتے ہيں ''قلت لابى عبدالله عليه‌السلام : الرجل يكون عنده الشى تبلّغ به و عليه الدين ايطعمه عياله فقال يقضى بما عنده دينه و لا يأكل اموال الناس الا و عنده ما يؤدى اليهم حقوقهم ان الله يقول لا تأكلوا اموالكم بينكم بالباطل (۳) ميں نے امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا ايك شخص

___________________

۱) كافى ج/۵ ص ۱۲۲ ح۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۷۵ ح ۶۱۱_ ۲) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۵۰۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۷۶ ح ۶۱۵_

۳) تفسير عياشى ج/۱ ص ۸۵ ح ۲۰۷ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۷۶ ح ۶۱۴_

۶۵۸

كے پاس اتنا مال ہے كہ صرف اپنى ضروريات زندگى پورى كرتاہے جبكہ اس پر قرض بھى ہے تو كيا اس مال سے اپنے اہل و عيال كے اخراجات پورے كرے؟ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا جو كچھ اس كے پاس ہے اس سے قرض ادا كرے اور لوگوں كے اموال كو نہ كھائے مگر يہ كہ اس كے پاس اموال ہوں اور ان سے لوگوں كے حقوق ادا كرے اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے''لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل''

۱۷_عن ابى بصير عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال قلت له قول الله '' و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام فقال اما انه لم يعن حكام اهل العدل و لكنه عنى حكام اهل الجور (۱) ابوبصير كہتے ہيں ميں نے اللہ تعالى كے اس كلام''ولا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا اس سے عادل حكمران مراد نہيں ہيں بلكہ ظالم حكمران مراد ہيں _

۱۸_ حسن بن على بن فضال كہتے ہيں : ''قرا ت فى كتاب ابى الاسد الى ابى الحسن الثانى عليه‌السلام و قرأته بخطه سأله ما تفسير قوله تعالى ''و لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام'' قال: فكتب اليه بخطه الحكام القضاة قال: ثم كتب تحته هو ان يعلم الرجل انه ظالم فيحكم له القاضى فهو غير معذور فى اخذه ذلك الذى حكم له اذا كان قد علم انه ظالم ''(۲) ابوالاسد نے ايك خط امام رضاعليه‌السلام كى خدمت ميں تحرير كيا جسے ميں نے پڑھا اس نے امامعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام '' و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بہا الى الحكام'' كى تفسير كے بارے ميں سوال كيا تھا حضرتعليه‌السلام نے اپنے دست مبارك سے تحرير فرمايا حكام سے مراد قاضى ہيں اس كے نيچے امامعليه‌السلام نے تحرير فرمايا اگر فرد كو علم ہو كہ '' طرف مقابل'' ظالم ہے اور قاضى نے بھى اسى كے حق ميں فيصلہ ديا ہے اس صورت ميں وہ مال لے لے تو معذور نہيں ہے جبكہ جانتاہو كہ طرف ظالم ہے _

احكام : ۲،۳،۴،۵،۹،۱۰،۱۶

بيت المال : بيت المال غصب كرنا ۹

تصرفات ( استعمالات): حرام تصرفات۲،۹

رشوت: رشوت كے نتائج ۵; رشوت كے احكام ۳،۱۰; رشوت كا جرم ۳،۷; رشوت كا حرام ہونا ۳،۱۰; رشوت كى حرمت كا واضح ہونا ۷

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۸۵ ح ۲۰۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۷۶ ح ۶۱۲_ ۲) تہذيب الاحكام ج/۶ ص ۲۱۹ ح ۱۰ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۷۶ ح ۶۱۳_

۶۵۹

رشوت خوري: رشوت خورى كا خطرہ ۱۱

روايت: ۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸

عمل: ناپسنديدہ عمل ۳،۷

عمومى اموال: عمومى اموال ميں تصرف ۹،۱۰

غصب: غصب كا جرم ۸; غصب كى حرمت كا واضح ہونا ۸

قائدين: قائدين كو رشوت دينا ۱۰; ظالم كو رشوت دينا ۱۷;رشوت خورى ۱۱

قاضي: قاضى كو رشوت دينا ۳،۴; ظالم كو رشوت دينا ۱۸; قاضى كا رشوت خور ہونا ۱۱; قاضى كى اہميت ۱۲

قرض: قرض كے احكام ۱۶; قرض ادا كرنے كى اہميت ۱۶

قريش: قريش ميں سٹے بازى ۱۴

قسم: جھوٹى قسم۱۵

قضاوت: قضاوت كے احكام ۵; رشوت سے قضاوت كرنا ۵; بے اعتبار قضاوت ۵; قضاوت كا گناہ ۵

قمار يا سٹے بازى : قمار سے ممانعت۱۴

كمائي : جھوٹ كے ساتھ كمائي ۱۵

مال: جھوٹ كے ذريعے مال حاصل كرنا ۱۵

محرمات : ۲،۳،۹،۱۰

معاشرہ : معاشرے كى اقتصادى سلامتى ۱۲

ملكيت : ملكيت كے احكام ۲،۴،۶; ملكيت كے اسباب ۲، ۴; اسباب ملكيت كى اقسام ۱; ملكيت كا باطل ہونا ۴; ذاتى ملكيت ۱۳; ملكيت كے معتبر ہونے كا معيار ۶

لوگ: لوگوں كے حقوق كى حفاظت ۱۲; لوگوں كے حقوق ضائع ہونے كا خطرہ ۱۱; لوگوں كے اموال غصب كرنا۲

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785