تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200945 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( ۱۸۹ )

اے پيغمبريہ لوگ آپ سے چاند كے بارے ميں سوال كرتےہيں تو فرما ديجئے كہ يہ لوگوں كے لئےاور حج كے لئے وقت معلوم كرنے كا ذريعہہے _ اور يہ كوئي نيكى نہيں ہے كہ مكاناتميں پچھواڑے كى طرف سے آؤ بلكہ نيكى انكے لئے ہے جو پرہيزگار ہوں اور مكاناتميں دروازوں كى طرف سے آئيں اور الله ڈروشايد تم كامياب ہوجاؤ(۱۸۹)

۱ _ ايك ماہ ميں چاند كى مختلف بننے والے صورتوں كے بارے ميں لوگوں كا پيامبر اسلام (ص) سے بار بار استفسار كرنا _يسئلونك عن الاهلة فعل مضارع ''يسئلون '' سوال كے تكرار پر دلالت كرتاہے اور جمع كا صيغہ دلالت كرتاہے كہ سوال كرنے والے افراد زيادہ ہيں _'' اہلہ'' ہلال كى جمع ہے اور اس سے ايك ماہ كے مختلف چاند مراد ہيں _

۲ _ چاند كى خلقت اور اسكى مختلف صورتوں كو وجود ميں لانا وقت كى پيمائش كا ميزان اور فطرييلنڈر كى ايجاد ہے_

قل هى مواقيت للناس ''ميقات'' كى جمع '' مواقيت'' ہے _ ميقات كا معنى زمان ہے يا ايسى جگہ كو كہاجاتاہے جسے كام كرنے كے لئے معين كيا گيا ہو (لسان العرب)

۳ _پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ معارف الہى اور احكام دين كو پيش فرمائيں نہ كہ طبيعى '' Physical '' علوم كى تشريح و تفسير * _يسئلونك عن الاهله قل هى مواقيت للناس والحج

ظاہراً يہ ہے كہ چاند كى مختلف صورتوں كے ظہور كے بارے ميں كوئي '' Physical '' طبيعاتى دلائل پيش كيئے جاتے ليكن ان دلائل كو پيش كرنے كى بجا ئے اسكے فوائد خصوصاً حج كے مسئلہ كو پيش كرنا مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۶۶۱

۴ _ چاند كى مختلف صورتوں ميں ظاہر ہونے كے فوائد ميں سے موسم كى شناخت اور حج كے وقت كى معرفت ہے _

قل هى مواقيت للناس والحج

۵ _ حج خاص وقت اور خاص مہينے كى عبادت ہے _قل هى مواقيت للناس والحج ''الحج'' ، ''الناس'' پر عطف ہے يعنى''هى مواقيت للحج''

۶_ حج بہت ہى قدر و منزلت والى عبادت اور دين كے عملى اركان ميں سے ہے_قل هى مواقيت للناس والحج

حج كے وقت كى شناخت كے لئے چاند كى مختلف صورتوں ميں جلوہ نمائي اس فرمان الہى (حج) كى عظمت كى حكايت كررہاہے_

۷_ زمانہ جاہليت كے لوگوں كى رسومات ميں سے تھا كہ گھروں كے اصلى دروازوں سے داخل ہونے كى بجائے گھروں كے پيچھے سے آتے تھے اور يہ عمل آداب حج ميں سے تھے_و ليس البربان تأتوا البيوت من ظهورها حج كا ذكر كرنے كے بعد زمانہ جاہليت كى اس رسم كا ذكر كرنا كہ لوگ گھروں كے اصلى دروازے كى بجائے اسكے عقب سے داخل ہوتے تھے يہ اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ زمانہ جاہليت ميں يہ رسم آداب حج ميں سے شمار ہوتى تھي_

۸_ حاجيوں كا گھروں ميں اصلى دروازوں كى بجائے پيچھے سے داخل ہونا زمانہ جاہليت كے لوگوں ميں ايك اچھا عمل تصور كيا جاتا تھا _و ليس البربان تأتوا البيوت من ظهورها اس رسم كے نيك اور اچھا ہونے كى نفى كرنا'' ليس البر'' اس امر پر دلالت كرتاہے كہ زمانہ جاہليت كے لوگوں ميں اسے اچھا عمل سمجھا جاتا تھا_

۹_گھروں كے اصلى دروازوں كى بجائے ان كے پيچھے سے داخل ہونا نہ تو حج كے آداب ميں سے ہے اور نہ ہى حاجيوں كے لئے ايك اچھا عمل _و ليس البربان تأتوا البيوت من ظهورها

۱۰_ زمانہ جاہليت كى خرافات اور برى رسومات و آداب سے اسلام كى معركہ آرائي _و ليس البربان تأتوا البيوت من ظهورها

۱۱ _ صدر اسلام كے مسلمان زمانہ جاہليت كى رسم كے مطابق حج كے موقع پر گھروں كے اصلى دروازوں سے داخل نہ ہوتے تھے_و ليس البربان تأتوا البيوت من ظهورها يہ جو آيہ مجيدہ ميں مسلمانوں كو مورد خطاب قرار ديا گيا ہے ايسا لگتاہے كہ اس آيت كے نزول سے پہلے كچھ مسلمان زمانہ جاہليت كى اس رسم پر عمل پيرا تھے_

۱۲ _ زمانہ جاہليت كى رسم كو ترك كرنا اور گھروں كے اصلى دروازوں سے داخل ہونا اللہ تعالى كا مسلمانوں كو فرمان اور نصيحت ہے _ليس البر وأتوا البيوت من ابوابها

۶۶۲

۱۳ _ نيكي، تقوى اختيار كرنے اور گناہوں سے اجتناب كرنے سے ہے _و لكن البر من اتقى

۱۴ _ حج كے دوران نيك عمل، تقوى اختيار كرنا اور گناہوں سے پرہيز ہے _و لكن البر من اتقى

۱۵_ اچھے مفاہيم كى قدر و قيمت اس وقت ہے جب وہ انسانوں ميں ظاہر ہوں _ولكن البر من اتقى

صاحب تقوى كے لئے '' برّ _ نيكي'' كا استعمال _ جبكہ ظاہراً يوں كہنا چاہے نيكى ، تقوا اپناناہے _اس معنى كى طرف اشار ہ ہے كہ تقوى كو اس وقت نيكى كہا جاسكتاہے جب اس كے نتائج انسانوں ميں ظاہرہوں اور وہ انسانوں ميں نظر آئيں (الميزان)

۱۶_ انسان كى حقيقت اور ماہيت كو بنانے والا انسان كا كردار اور روش ہے _و لكن البر من اتقى

۱۷_ غلط رسومات اور آداب كى نفى كرنے كے بعد صحيح روش كو پيش كرنا قرآن كريم كى تربيتى روشوں ميں سے ايك ہے _ليس البر و لكن البر من اتقى

۱۸_كاموں ميں صحيح اور منطقى روش كو اخذ كرنا اور اہداف و مقاصد كے حصول ميں درست اسباب كا انتخاب كرنا مسلمانوں كو اللہ تعالى كا فرمان اور نصيحت ہے_ليس البر و اتوا البيوت من ابوابها

مسلمانوں كو زمانہ جاہليت كى رسم (مراسم حج ميں گھروں كے پيچھے سے داخل ہونا ) سے روكنے كے لئے يہ جملہ ''و ليس البر ...'' كافى تھا پس ''و اتوا البيوت ...'' ايك كلى حكم كى حكايت كررہاہے اس جملے ميں اہداف و مقاصد كو گھروں سے تشبيہ دى گئي ہے جبكہ ان مقاصد كے حصول كيلے روشوں كو گھروں كے دروازوں سے تشبيہ دى گئي ہے _

۱۹_ اللہ تعالى كے عذاب سے دور رہنے كے لئے گناہوں سے پرہيز ضرورى ہے _و اتقوا الله

۲۰_ مختلف امور كو انجام دينے كے ليئے غير منطقى اور غير صحيح روشوں كو انتخاب كرنا تقوى كے برخلاف ہے_

ليس البر بان تأتواالبيوت من ظهورها و اتوا البيوت من ابوابها و اتقوا اللهمقصد تك پہنچنے كے لئے صحيح روش كے انتخاب كا حكم دينے كے بعد تقوى كا حكم دينا ان دوميں سے ايك نكتہ كى طرف اشارہ ہے ۱_ صحيح اور منطقى روش كا انتخاب تقوى كے مصاديق ميں سے ہے ۲_ مقاصد كے حصول كے لئے راستوں كے انتخاب ميں تقوى كا خيال ركھنا ضرورى ہے_ مندرجہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۲۱_ انسانوں كى سعادت تقوى اختيار كرنے اور

۶۶۳

گناہوں سے اجتناب ميں ہے_و اتقوا الله لعلكم تفلحون

۲۲_ مختلف امور ميں انسانوں كى كاميابى ا س صورت ميں ہے كہ صحيح راہ و روش كا انتخاب كريں _و اتوا البيوت من ابوابها لعلكم تفلحون يہ مطلب اس بناپرہے كہ''لعلكم تفلحون'' ،'' واتوا البيوت من ابوابها'' سے متعلق ہو_

۲۳_ جابر بن يزيد كہتے ہيں''عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''ليس البر بان تأتوا البيوت من ظهورها '' الآية قال يعنى ان ياتى الامر من وجهها ايّ الامور كان'' (۱) امام باقرعليه‌السلام نے فرمايا ''ليس البر بان تأتوا البيوت من ظہورہا'' سے مراد يہ ہے كہ انسان جو كام بھى انجام دے اسكے صحيح راستے سے وارد ہو_

۲۴ _ اللہ تعالى كے اس كلام''ليس البربان تأتوا البيوت من ظهورها'' كے بارے ميں امام باقر عليه‌السلام سے روايت هے''انه كان المحرمون لا يدخلون بيوتهم من ابوابها و لكنهم كانوا ينقبون فى ظهر بيوتهم اى فى مؤخرها نقباً يدخلون و يخرجون منه فنهوا عن التدين بذلك'' (۲) ( زمانہ جاہليت) ميں مناسك حج كے لئے جو لوگ محرم ہوتے وہ اپنے گھروں كے دروازوں سے داخل نہيں ہوتے تھے بلكہ گھروں كے پچھلى طرف نقب لگاتے اور وہاں سے رفت و آمد كرتے تھے اللہ تعالى نے انہيں اس عمل پر پابند رہنے سے منع فرمايا_

احكام : ۵

اسلام : اركان اسلام ۶

اصلاح معاشرہ : اصلاح معاشرہ كى روش ۱۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱۲،۱۸; اللہ تعالى كے عذاب ۱۹

انسان: انسان كى حقيقت ۱۶; انسان كى تقدير ۱۶

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) سے سوال ۱; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۳ ; پيامبر اسلام (ص) اور دين بيان كرنا ۳; يپامبر اسلام (ص) اور طبيعاتى علوم ۳

تربيت: تربيتى روش ۱۷

تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۱۶

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۸۶ ح ۲۱۱ ، ۲۱۳ ، تفسير برہا ن ج/ ۱ ص ۱۹۰ ح ۶،۷،۱_

۲) مجمع البيان ج/ ۲ ص ۵۰۸ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۷۸ح ۶۲۳_

۶۶۴

تقوى : تقوى كے نتائج۲۱; تقوى كى اہميت ۱۳،۱۴; عدمتقوى كے موارد ۲۰

جاھليت: جاھليت كى رسومات سے اجتناب ۱۲; جاھليت كى رسومات ۷،۸،۱۱،۲۴; جاھليت كى رسموں سے نبردآزمائي ۱۰

چاند: چاند كى مختلف صورتوں كے بارے ميں سوال ۱; چاند كى خلقت كا فلسفہ ۲; چاند كى مختلف شكلوں كا فلسفہ ۲; چاند كى مختلف صورتوں كے فوائد ۴

حاجي: حاجيوں كا گھروں ميں داخل ہونا ۸

حج: احكام حج ۵; حج كى عظمت ۶; حج ميں تقوى ۱۴; زمانہ جاہليت ميں حج ۷،۲۴; صدر اسلام ميں حج ۱۱; حج كى شرائط ۵; حج ميں نيكى ۱۴; حج كا وقت ۴،۵

خرافات: خرافات سے جنگ ۱۰

رسومات: غلط رسومات سے نبرد آزمائي ۱۷

روايت:۲۳،۲۴

سعادت: سعادت كے اسباب ۲۱سعادت:

سعادت كے اسباب ۲۱

عذاب: عذاب كى ركاوٹيں ۱۹

عمل: عمل كے نتائج۱۶; عمل ميں منطق كى اہميت ۱۸; عمل ميں صحيح روش ۱۸،۲۲،۲۳; عمل ميں غير صحيح روش ۲۰

قدريں :۶ قدروں پر عمل ۱۵ قدروں كا معيار ۱۵

كاميابى : كاميابى كے عوامل ۲۲

گناہ : گناہ سے اجتناب كے نتائج۱۹،۲۱; گناہ سے اجتناب ۱۳،۱۴

گھر: گھر ميں داخل ہونے كے آداب ۷،۸،۱۲; گھر ميں پيچھے سے داخل ہونا ۹،۱۱،۲۴

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمان اور جاہليت كى رسميں ۱۱

ميل جول: ميل جول كے آداب ۹،۱۲

۶۶۵

نيكي: نيكى كے معيارات ۱۳

وقت كى شناخت : وقت كى شناخت كا وسيلہ ۲،۴; وقت شناسى كى اہميت ۴

ہدف: ہدف اور وسيلہ ۱۸

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبِّ الْمُعْتَدِينَ ( ۱۹۰ )

جو لوگ تم سےجنگ كرتے ہيں تم بھى ان سے راہ خدا ميں جہاد كرو اور زيادتى نہ كرو كہ خدازيادتى كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا(۱۹۰)

۱_ اگركفار مسلمانوں كے ساتھ جنگ كريں تو ان سے معركہ آرائي واجب ہے _و قاتلوا فى سبيل الله الذين يقاتلونكم

۲ _ دشمنوں سے جہاد اور معركہ آرائي اسوقت قابل قدر ہے جب '' فى سبيل اللہ '' ہو_و قاتلوا فى سبيل الله

۳ _ جہاد كے احكام اور حدود سے تجاوز كرنا حرام ہے_قاتلوافى سبيل الله و لا تعتدوا

۴ _ دشمنوں كے حقوق كا خيال ركھنا حتى جنگ ميں بھى ضرورى ہے _و قاتلوا فى سبيل الله الذين يقاتلونكم و لا تعتدوا

۵_ جو لوگ مسلمانوں كے ساتھ برسر پيكار نہيں ہيں ان سے معركہ آرائي ،تجاوز اور حدود الہى سے نكلناہے_و قاتلوا الذين يقاتلونكم و لا تعتدوا ''الذين يقاتلونكم'' كى روشنى ميں اعتدا اور تجاوز كا ايك مصداق ان كفار سے نبرد آزمائي ہے جو مسلمانوں كے ساتھ بر سر پيكار نہيں ہيں _

۶ _ مسلمانوں كو نہيں چاہيئے كہ اپنے دشمنوں كے خلاف جنگ كا آغاز كريں *و قاتلوا فى سبيل الله الذين يقاتلونكم و لا تعتدوا

۷ _ جو تجاوز كرتے ہيں اللہ كى محبت سے محروم ہيں _ان الله لا يحب المعتدين

۸_ مجاہدين اگر جنگ كے دوران حدود الہى سے تجاوز

۶۶۶

كريں يا دشمنوں كے حقوق كا خيال نہ ركھيں تو محبت الہى سے محروم ہوں گے_ان الله لا يحب المعتدين

۹_ دشمنوں سے انتقام ليتے ہوئے بھى عدل و انصاف كا خيال ركھنا ضرورى ہے _و قاتلوا فى سبيل الله الذين يقاتلونكم و لا تعتدوا

احكام :۱،۳،۶

انتقام: انتقام ميں عدل و انصاف ۹

تجاوز كرنے والے : تجاوز كرنيواوں لوں كا محروم ہونا ۷

جنگ: جنگ كے آداب ۴ ;غير محارب افراد سے جنگ ۵; جنگ كا آغاز ۶

جہاد: جہاد كے احكام ۱،۳،۶; جہاد كى اہميت اور قدر و قيمت ۲; احكام جہاد كى خلاف ورزى ۳،۸; كفار سے جہاد ۱; فى سبيل اللہ جہاد ۲; دفاعى جہاد ۱; جہاد كى شرائط ۱; جہاد كا وجوب ۱

حدود الہى : حدود الہى سے تجاوز ۵،۸

دشمن: دشمنوں سے انتقام ۹; جنگ ميں دشمنوں كے حقوق ۴،۸

سبيل اللہ : سبيل اللہ كے موارد ۲

عدل: عدل كى اہميت ۹

قدريں : قدروں كا معيار ۲

مجاہدين: متجاوز مجاہدين ۸

محبت: محبت الہى سے محروم لوگ ۷،۸

محرمات : ۳

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۶

واجبات:۱

۶۶۷

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاء الْكَافِرِينَ ( ۱۹۱ )

اور ان مشركين كو جہاد پاؤ قتل كردواور جس طرح انھوں نے تم كو آوارہ وطنكرديا ہے تم بھى انھيں نكال باہر كردواور فتنہ پردازى تو قتل سے بھى بدتر ہے _اور ان سے مسجد الحرام كے پاس اس وقت تكجنگ نہ كرنا جب تك وہ تم سے جنگ نہ كريں _ اس كے بعد جنگ چھپڑديں تو تم بھى چپ نہبيٹھو اور جنگ كرو كہ يہى كافرين كى سزاہے (۱۹۱)

۱ _ محارب كفار جہاں كہيں بھى نظر آئيں مسلمانوں كو چاہيئے كہ ان كو قتل كرديں _و اقتلوهم حيث ثقفتموهم

اس جملہ ميں ضمير ''ہم'' ، ''الذين يقاتلوكم'' كى طرف لوٹتى ہے اسى لئے ان كے لئے كفار محارب كى تعبير استعمال كى گئي ہے '' ثقفتم'' كا مصدر '' ثقف '' ہے جسكا معنى ہے پانا يا دسترسي حاصل كرنا _

۲_ محارب كفار كو قتل كرنا لازمى ہے اور يہ امر ميدان جنگ تك محدود نہيں ہے _واقتلوهم حيث ثقفتموهم

يہ مطلب اس جملہ '' حيث ثقفتموہم _ ان كو جہاں كہيں بھى پاؤ سے ماخوذ ہے _

۳ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كى ذمہ دارى قرار دى گئي كہ مكہ كے مشركين سے جنگ كريں اورا ن كو اس سرزمين سے نكال باہر كريں _و اخرجوهم من حيث اخرجوكم مفسرين كى نظر ميں ''من حيث اخرجوكم'' سے مراد سرزمين مكہ ہے اور يہ مسلمانوں كے مجبور ہوكر مكہ ترك كرنے اور حبشہ يا مدينہ كى طرف ہجرت كرنے كى طرف اشارہ ہے _

۴ _ مكہ كے مشركين نے صدر اسلام كے مسلمانوں كو مكہ سے نكال باہر كيا اور ہجرت پر مجبور كيا _ واخرجوهم من حيث اخرجوكم

۵ _ دشمنان دين سے اسلامى سرزمينوں كو واپس لينا اور

۶۶۸

ان كو وہاں سے نكال باہر كرنا ضرورى ہے _و اخرجوهم من حيث اخرجوكم

۶ _ جن كفار نے اسلامى سرزمينوں پر قبضہ كرركھاہے ان سے جنگ كرنا ضرورى ہے _واقتلوهم و اخرجوهم من حيث اخرجوكم

۷_ فتنہ و فساد برپا كرنا جنگ و خونريزى سے زيادہ بدتر ہے _والفتنة اشد من القتل

۸ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كے خلاف مشركين مكہ كى فتنہ پرورى _اخرجوكم و الفتنة اشد من القتل

۹_ كفار كى فتنہ پرورى ان كے خلاف جنگ كا جواز ہے اگر چہ مسلمانوں سے جنگ ميں مصروف نہ ہوں _

و قاتلوا فى سبيل الله الذين يقاتلونكم والفتنة اشد من القتل علمائے علم اصول كى اصطلاح ميں يہ جملہ ''والفتنة اشد من القتل '' اس جملہ ''الذين يقاتلونكم'' پر حاكم ہے اور اس حكم كے موضوع ميں وسعت كا موجب ہے يعنى يہ كہ ما قبل آيت ميں تھا كہ محارب كفار سے جنگ كرو اور جملہ ''الفتنہ ...'' بيان كررہاہے كہ فتنہ پرورى جنگ كے مساوى ہے_

۱۰_ اسلام ميں جنگ و جہاد كے اہداف ميں سے ايك فتنہ كو جڑ سے ا كھاڑنا ہے _واقتلوهم حيث ثقفتموهم و اخرجوهم من حيث اخرجوكم و الفتنه اشد من القتل

۱۱ _ مسلمانوں كو ان كے ديار و طن سے نكالنا اور دربدركرنا كفار كى فتنہ پرورى كے مصاديق ميں سے ايك ہے _

و اخرجوهم من حيث اخرجوكم و الفتنة اشد من القتل

۱۲ _ مسجد الحرام ميں اور اسكے گرد و نواح ميں جنگ كرنا حرام ہے _و لا تقاتلوهم عند المسجد الحرام

۱۳ _ اگر ايسى صورت ہوجائے كہ دشمنان دين مسجد الحرام كے اندر يا اسكے گرد و نواح ميں مسلمانوں كے خلاف جنگ كريں تو ان سے بر سر پيكار ہونا اورا ن كا قتل كرنا واجب ہے _و لا تقاتلوهم عند المسجد الحرام حتى يقاتلوكم فيه فان قاتلوكم فاقتلوهم

۱۴_ مقدس مقامات كى حفاظت كرتے ہوئے متجاوز اور تہاجم كرنے والے دشمنوں كے مقابل دفاع سے مسلمان ہرگز دست بردار نہ ہوں _حتى يقاتلوكم فيه فان قاتلوكم فاقتلوهم

۱۵ _ كفار كى فتنہ پرورى مسجد الحرام اور اس كے گرد و نواح ميں ان كے قتل يا ان سے جنگ كا جواز فراہم نہيں كرتي_

والفتنه اشد من القتل و لا تقاتلوهم عند المسجد الحرام حتى يقاتلوكم يہ جملہ'' والفتنة ...'' بيان كررہاہے كہ فتنہ پرور كفار محارب كفار كى طرح ہيں لہذا ان كے خلاف بھى جنگ كرنا ضرورى ہے_ البتہ ايسا معلوم ہوتاہے كہ يہ جملہ'' و لا تقاتلوہم عند المسجد الحرام ...'' اس قانون سے ايك استثنا ہے يعنى كفار كى فتنہ پرورى مسجد الحرام ميں جنگ كا جواز فراہم نہيں كرتى

۶۶۹

۱۶_ مسجد الحرام اور اس كے گرد و نواح كا ايك خاص احترام اور تقدس ہے_ولا تقاتلوهم عند المسجد الحرام

۱۷_ محارب اور فتنہ پرور كفار كى سزا ان كو قتل كرنا ہے_فاقتلوهم كذلك جزاء الكافرين

''الكافرين'' ميں ''ا ل'' عہد كا ہے اور يہ اشارہ ان كفار كى طرف ہے جو مسلمانوں كے خلاف جنگ يا فتنہ پرورى ميں مصروف عمل ہيں _

احكام :۱،۲،۶،۹، ۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۷

فلسفہ احكام ۱۰

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۴

اسلامى سرزمينيں : اسلامى سرزمينوں كو آزاد كرانا ۵; دشمنوں كو اسلامى سرزمينوں سے نكالنا ۵

اصلاح معاشرہ : اصلاح معاشرہ كے عوامل ۱۰

جہاد: جہاد كے احكام ۶،۹،۱۳; ابتدائي جہاد ۹; كفار سے جہاد ۹; قابض كفار سے جہاد ۶; مشركين مكہ سے جہاد ۳; جہاد كا فلسفہ ۱۰; جہاد كا دائرہ كار ۵،۶

حرام (مسجد الحرام كى اطراف ): حرم كا احترام ۱۶; حرم كے احكام ۱۲،۱۳،۱۵;حرم ميں جنگ ۱۲،۱۳،۱۵; حرم ميں دفاع ۱۳; حرم ميں قتل ۱۳،۱۵; حرم كا تقدس ۱۶

دفاع: دفاع كے احكام۱۴

فتنہ و فساد برپا كرنا : فتنہ و فساد برپا كرنے كے نتائج ۷; فتنہ و فساد برپا كرنے كا جرم ۷; فتنہ و فساد كو جڑ سے اكھاڑنا ۱۰; فساد برپا كرنے كے موارد ۱۱

قتل: جرم قتل ۷; قتل كا جائز ہونا ۱،۲،۱۳،۱۷

كفار: كفار كى فتنہ پرورى ۹،۱۱،۱۵; محارب كفار كا قاتل ۱،۲،۱۷; محارب كفار كى سزا ۱۷; محارب كفار كى سزائيں ۱،۲،۱۷

محارب: محارب كے احكام۱،۲،۱۷

۶۷۰

محاربہ : محاربہ كا جرم ۱،۲،۱۷

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا احترام ۱۶; مسجد الحرام ميں جنگ ۱۲،۱۳،۱۵; مسجد الحرام ميں قتل ۱۳; مسجد الحرام كا تقدس ۱۶

مسلمان : مسلمانوں كا اخراج ۱۱; مسلمانوں كا مكہ سے اخراج ۴; مسلمانوں كى ذمہ دارى ۱; صدر اسلام كے مسلمانوں كى ذمہ دارى ۳; صدر اسلام كے مسلمانوں كى ہجرت ۴

مشركين : مكہ سے مشركين كا اخراج ۳; صدر اسلام كے مشركين ۸

مشركين مكہ : مشركين مكہ كى فتنہ پرورى اور فساد انگيزى ۸; مشركين مكہ اور مسلمان ۴

مقدس مقامات: ۱۶ مقدس مقامات كا احترام ۱۴

واجبات:۱۳

فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( ۱۹۲ )

پھر اگر جنگ سے باز آجائيں توخدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے (۱۹۲)

۱ _ جو كفار جنگ اور فتنہ پرورى نہيں كرتے ان سے نہ تو جنگ كى جائے اور نہ ہى انہيں قتل كيا جائے_

فان انتهوا فان الله غفور رحيم ماقبل آيات كے قرينہ سے ''انتہوا'' كا متعلق جنگ اور فتنہ پرورى ہے _ جملہ '' فان اللہ ...'' جواب مقام ہے يعنى تقدير كلام يوں بنتى ہے''فان انتهوا عن القتال و الفتنة فلا تقاتلوهم و لا تقتلوهم ان الله غفور رحيم''

۲ _ اگر كفار جنگ كے خاتمے كا اعلان كريں تو مسلمان كو چاہيئے كہ اسے قبول كريں *فان انتهوا فان الله غفور رحيم

۳ _ اللہ تعالى غفور (بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے_فان الله غفور رحيم

۴ _ ايمان سب سے حتى محارب كفار سے بھى قابل قبول ہے_

۶۷۱

فان انتهوا فان الله غفور رحيميہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''انتہوا'' كا متعلق كفر اور شرك ہو پس ''فان انتہوا ...'' كا معنى يہ بنتاہے اگر كفار و مشركين كفر و شرك سے دست بردار ہوجائيں اور ايمان لے آئيں بنابريں جملہ'' فان اللہ ...'' كے دو معنى بنتے ہيں ۱_ ان سے ايمان كو قبول كرنا ۲_ ان كى گزشتہ غلطيوں اور خطاؤں كو معاف كرنا_

۵_ اگر محارب كفار ايمان لے آئيں تو ان كى گزشتہ خطاؤں (مسلمانوں كا قتل، فتنہ پرورى و غيرہ ...) پر مؤاخذہ نہيں ہونا چاہيئے_فان انتهوا فان الله غفور رحيم

۶_ وہ كفار جو جنگ كے شعلے بھڑكانے اور فتنہ پرورى سے باز آجائيں ان سے جنگ كے خاتمے كا الہى حكم اللہ تعالى كى رحمت و مغفرت كا ايك پرتو ہے _فان انتهوا فان الله غفور رحيم

۷_محارب كفاركے ايمان لانے كے بعد ان كے گناہوں كى بخشش رحمت و مغفرت الہى كا ايك پرتو ہے _

فان انتهوا فان الله غفور رحيم

احكام : ۱،۲

اسلام: اسلا م كے احترام كے آثار۵

اسماء اور صفات: رحيم ۳; غفور ۳

اللہ تعالى : اوامر الہى ۶; بخشش الہى كے مظاہر ۶،۷; رحمت الہى كے مظاہر ۶،۷اللہ تعالى :

ايمان: ايمان كے آثار۷; ايمان قبول كرنا ۴

جرائم: قبل از اسلام كے جرائم ۵

جنگ كے خاتمے كا اعلان : كفار سے جنگ كا خاتمہ ۱،۲; جنگ كے خاتمے كا اعلان قبول كرنا ۲

جہاد: جہاد كے احكام ۱،۲; كفار سے جہاد ترك كرنا ۱،۶

خطا: قبل از اسلام كى خطائيں ۵

قتل: ناجائز قتل ۱

كفار: محارب كفار كى بخشش ۷;محارب كفار كا ايمان ۴،۵،۷; محارب كفار كا مؤاخذہ ۵

۶۷۲

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ ( ۱۹۳ )

اور ان سے اس وقت تك جنگ جارى ركھو جب تكسارا فتنہ ختم نہ ہوجائے اور دين صرف الله كا نہ رہ جائے پھر اگر وہ لوگ باز آجائيں تو ظالمين كے علاوہ كسى پر زيادتى جائزنہيں ہے (۱۹۳)

۱ _ جب تك كفار كى فتنہ پرورى ختم نہ ہو ان سے نبرد آزمارہنا مسلمانوں كى اہم ذمہ ارى ہے_و قاتلوهم حتى لا تكون فتنة

۲ _ فتنوں اور فتنہ انگيز افراد سے برسر پيكار رہنا ضرورى ہے _و قاتلوهم حتى لا تكون فتنة

۳_ اہل ايمان كو اللہ تعالى كا فرمان ہے كہ جب تك زمين كى تمام وسعتوں پر دين الہى كى حاكميت نہ ہوجائے كفار سے نبرد آزمارہيں _و قاتلوهم حتى لا تكون فتنة و يكون الدين لله

۴_ اسلام ميں جہاد و معركہ آرائي كى تشريع كا ہدف فتنوں كو جڑ سے اكھارنا اور عالمى سطح پر دين كا پھيلاؤ ہے _

و قاتلوهم حتى لا تكون فتنة و يكون الدين لله

۵ _ اگر كفار فتنہ پرورى سے اور اسلام كے پھيلاؤ كى راہ ميں ركاوٹيں ڈالنے سے بازآجائيں تو ان سے جنگ ترك كرنا ضرورى ہے _فان انتهوا فلا عدوان الا على الظالمين آيت كے ماقبل حصے كى روشنى ميں '' انتہوا'' كا متعلق فتنہ پرورى اور دين الہى كى حاكميت كى راہ ميں ركاوٹيں ڈالناہے_ ''فان انتہوا'' كا جواب شرط محذوف ہے اور اسكا قاتئم مقام '' فلا عدوان ...'' ہے يعنى يہ كہ اگر فتنہ پرورى سے اور دين الہى كے پھيلاؤ كى راہ ميں ركاوٹيں ڈالنے سے باز آجائيں تو ان كو قتل نہ كرو كيونكہ تجاوز فقط ظالموں پر جائز ہے _

۶_ اگر محارب كفار يا فتنہ پرور لوگ اپنے كفر سے باز آجائيں تو ان سے جنگ نہ كرو_فان انتهوا فلا عدوان الا على الظالمين يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' انتہوا'' كا متعلق كفر اختيار كرنا ہو_

۶۷۳

۷_ محارب كفار، فتنہ پرور لوگ اور دين الہى كى حاكميت اور پھيلاؤ كى راہ ميں ركاوٹيں ڈالنے والے لوگ ظالم ہيں _

فلا عدوان الا على الظالمين

۸_ فقط ظالموں ( محارب كفار ، فتنہ پرور افراد اور دين الہى كى حاكميت اور پھيلاؤ كى راہ ميں ركاوٹيں ڈالنے والوں ) سے نبرد آزما ہونا چاہيئے_فلا عدوان الا على الظالمين

۹_ جو لوگ جنگى قوانين كا خيال نہ ركھيں انہيں سزا دينى ضرورى ہے *فلا عدوان الا على الظالمين

۱۰_''و قاتلوهم حتى لا تكون فتنة'' اى شرك و هو المروى عن الصادق عليه‌السلام (۱) اللہ تعالى كے اس فرمان '' و قاتلوہم حتى لا تكون فتنة'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ فتنہ سے مراد شرك ہے

احكام : ۱،۵،۶،۹ فلسفہ احكام ۴

اسلام: اسلام كا عالمى ہونا ۴

اضطرار: اضطرار كے نتائج ۱۵

اللہ تعالى : اوامر الہى ۳

تجاوز كرنے والے : تجاوز كرنے والوں كى سزا ۹

جرائم: جرائم سے نبرد آزمائي ۲

جنگ : قوانين جنگ كى خلاف ورزى كا جرم ۹ قوانين جنگ كى خلاف ورزى كى سزا ۹

جہاد: جہادى احكام ۱،۵،۶; جہاد كى اہميت ۱; جہاد كے احكام كى خلاف ورزى ۹; كفار سے جہاد كا ترك كرنا ۵،۶; كفار سے جہاد ۱،۳; جہاد ترك كرنے كى شرائط ۶; جہاد كا فلسفہ ۳،۴; جہادكا دائرہ كار ۳

دين: دين كى حاكميت ۳; دين كے پھيلاؤ كے عوامل ۴; دين كا پھيلاؤ ۵; دين كى حاكميت ميں ركاوٹيں ڈالنے والے۸; دين كى حاكميت ميں ركاوٹ۷

روايت:۱۰

شرك: شرك سے نبرد آزمائي ۱۰

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۲ص۵۱۳ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۹۱ ح ۱_

۶۷۴

ظالمين:۷ ظالمين سے نبرد آزمائي ۸

فتنہ: فتنہ كے خلاف جنگ ۲

فتنہ و فساد: فتنہ و فساد كو جڑ سے اكھاڑنا ۱،۴

مجرمين : مجرموں سے معركہ آرائي ۲

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۱

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ۳

فساد: فساد كے خلاف معركہ آرائي ۲

فساد برپا كرنے والے : فساديوں كا ظلم ۷; اہل فساد سے معركہ آرائي ۲،۸

كفار: كفار كا فساد سے دست بردار ہونا ۵،۶; كفاركا كفر سے ہاٹھ اٹھانا ۶; كفار كا فساد برپاكرنا ۱; محارب كفار كا ظلم ۷; محارب كفار سے نبرد آزمائي ۸

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ( ۱۹۴ )

شہر حرام كا جواب شہر حرامہے اور حرمات كا بھى قصاص ہے لہذا جو تمزيادتى كرے تم بھى ويساہى برتاؤ كرو جيسيزيادتى اس نے كى ہے اور الله سے ڈرتے رہواور يہ سمجھ لو كہ خدا پرہيزگاروں ہى كےساتھ ہے (۱۹۴)

۱ _ قابل احترام '' حرام '' مہينوں ميں جنگ كا حرام ہونا _الشهر الحرام بالشهر الحرام

حرا م مہينوں كى تعبير اس لئے استعمال كى گئي ہے كہ وہ امور جو ديگر مہينوں ميں جائز ہيں ان مہينوں ميں حرام ہيں جو ديگر مہينوں ميں جائز ہيں ان امور ميں سے ايك جنگ ہے حرام مہينے يہ ہيں : رجب ، ذى قعدہ، ذى الحجة اور محرم _

۲ _ حرا م مہينوں ميں اگر دشمن تجاوز كرے تو جنگ كرنا جائز ہے _الشهر الحرام بالشهر الحرام ''بالشہر'' كى ''بائ'' مقابلہ يا عوض كے لئے ہے _آيت كے مابعد والے حصے اور ماقبل آيات جو جنگ كے بارے ميں تھيں كى روشنى ميں اس ''مقابلہ'' كا معنى يہ بنتاہے اگر ان حرام مہينوں كى حرمت كو دشمن توڑدے تو تم بھى اسوقت اس حرمت كى اعتنا نہ كرو اور دفاع كے لئے قيام كرو_

۶۷۵

۳_ زمانہ بعثت كے كفار بھى حرام مہينوں كى حرمت و تقدس اور ان مہينوں ميں جنگ كى ممانعت كے قائل تھے _

الشهر الحرام بالشهر الحرام

۴_ اسلام اور مسلمانوں كى عظمت و حيثيت كا دفاع ان مہينوں كے احترام كى حفاظت اور ان ميں جنگ كے حرام ہونے سے كہيں زيادہ اہم ہے_الشهر الحرام بالشهر الحرام

۵_ اگر بين الاقوامى سطح پر مسلم قوانين كى دشمن خلاف ورزى كرے تو ان قوانين كو توڑنا جائز ہے _

الشهر الحرام بالشهر الحرام والحرمات قصاص حرمات كا مفرد '' حرمة'' ايسے امور ( قوانين و غيرہ ) كو كہا جاتاہے جن كا خيال ركھنا ضرورى اور ان كو توڑنا يا خلاف ورزى كرنا ممنوع ہے _ قصاص ايسى سزا ہے جو قتل و جنايت كے مقابل جارى ہوتى ہے_ پس '' والحرمات قصاص'' يعنى وہ قوانين جن كا احترام ہونا چاہيئے اور ان كو توڑنا درست نہيں اگر ان كى دشمن كى طرف سے خلاف ورزى ہو اور اس طرح تمہيں نقصان پہنچے تو تم بھى اس امر كى اعتنا نہ كرو اور دشمن كى بربريت كا جواب دو_

۶_ دشمن كے تجاوز كا بالمقابل مقابلہ كرنا اور جواب دينا جائزہے _فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم

۷_ مجاہدين اسلام كے لئے جنگ كے قانونى و شرعى مسائل كے بارے ميں پيدا ہونے والے شبہات كو دور كرنا اور ان كو نفسياتى اور فكر ى طور پر تيار كرنا ضرورى ہے _الشهر الحرام بالشهر الحرام والحرمات قصاص فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه جملہ'' فمن اعتدي ...'' كا گزشتہ دو جملوں پر '' فائ'' تفريع كے ذريعے بيان اس طرف اشارہ

ہے كہ ان جملوں ميں ايك قانون كلى بيان ہوا ہے وہ يہ كہ مسجد الحرام كے گرد و نواح ميں جہاد كے ضرورى ہونے ''فان قاتلوكم'' سے ممكن ہے اہل اسلام كے ذہنوں ميں كوئي شبہہ يا توہم جو پيدا ہو تو وہ دور جانا چاہيئے _

۸_ دشمن اگر قوانين كى خلاف ورزى كرے تو اسكے تجاوز كا جواب دينا صحيح ہے ليكن جتنے عمل كا ارتكاب دشمن نے كيا ہے اس سے زيادہ اقدام كرنا جائز نہيں ہے_فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم

يہ مطلب آيہ مجيدہ ميں موجود لفظ '' مثل ''سے ماخوذ ہے _

۹_ مسلمانوں كو چاہيئے كہ حتى دشمنوں سے جنگ ميں بھى عدل و انصاف سے كام ليں _فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم

۱۰_ اللہ تعالى كے عذابوں سے دور رہنے كے لئے تقوى اختياركرنا اور گناہوں سے اجتناب ضرورى ہے _واتقوا الله

۶۷۶

۱۱_ اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے كہ حتى دشمن كے تجاوز كا جواب ديتے وقت تقوى كا خيال ركھيں _فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم و اتقوا الله

۱۳ _ اللہ تعالى اہل تقوى كا حامى و ناصر ہے _واعلموا ان الله مع المتقين

۱۴_ جنگ ميں تقوى كا خيال ركھنا اور دشمن كے تجاوز كا جواب ديتے ہوئے عدل و انصاف سے كام لينا اللہ تعالى كى نصرت و امداد اور حمايت كا باعث بنتاہے_واتقوا الله و اعلموا ان الله مع المتقين

۱۵ _ دين كے اوّلى اور بنيادى احكام ميں ضرورت كے وقت نرمى اور تغير و تبديلى كى گنجائش موجود ہے *الشهر الحرام بالشهر الحرام فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم

۱۶_ دشمنوں كے ساتھ جنگ يا ان كے تجاوز كا جواب ديتے ہوئے عدل و انصاف كى حدود سے نكلنے كا خطرہ موجود ہے _فاعتدوا عليه واتقوا الله اس جملہ ''واتقواللہ'' كے ساتھ تقوى كے خيال ركھنے كى طرف تاكيد اور دشمن كے تجاوز كا جواب دينا جائز ہے كے ذكر كے بعد ''واعلموا ...'' كو بيان كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اس قانون كو جارى كرتے ہوئے عدل و انصاف كى حدود سے نكلنے كا خطرہ موجود ہے لہذا اس بے جا عمل سے بچنے كا طريقہ يہ ہے كہ تقوى كا خيال ركھا جائے _

۱۷_ معاويہ بن عمار كہتے ہيں ''سالت اباعبدالله عليه‌السلام ما تقول فى رجل قتل فى الحرم اور سرق؟ قال: يقام عليه الحد فى الحرم صاغراً انه لم ير للحرم حرمة و قد قال الله تعالى فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم '' فقال هذا هو فى الحرم . ..(۱) امام صادقعليه‌السلام سے ميں نے سوال كيا كہ ايك شخص نے حرم (مكہ) ميں كسى كو قتل كيا يا چورى كى تو اس كا حكم كيا ہے ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا بہت برُى طرح اس پر حرم ميں حد جارى كى جائے كيونكہ اس نے حرم كے احترام كا خيال نہيں ركھا اور اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے_''فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم'' امامعليه‌السلام نے فرمايا حرم ميں '' بالمقابل اقدام'' يہى ہے_

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۲۲۸، ح۴، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۷۸ ح ۶۲۹_

۶۷۷

۱۸_اللہ تعالى كے اس فرمان '' والحرمات قصاص'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے''ان قريشاً فخرت بردها رسول الله (ص) عام الحديبية محرماً فى ذى القعده عن البلد الحرام فادخله الله مكة فى العام المقبل فى ذى القعده فقضى عمرته واقصه بما حيل بينه و بينه يوم الحديبية (۱) قريش اس بات پر فخر كرتے تھے كہ انہوں نے رسول اسلام (ص) كو سال حديبيہ كے دوران ماہ ذى قعدہ ميں حالت احرام ميں سرزمين حرام (مكہ ) سے منع كرديا پس اللہ تعالى نے آنحضرت (ص) كو اگلے سال ماہ ذى قعدہ مكہ ميں وارد كيا اور آنحضرت (ص) عمرہ بجالائے_ اللہ تعالى نے (اس طرح) آنحضرت (ص) كى محروميت كا قصاص يا تلافى فرمائي _

احكام: ۱،۲،۶،۸،۱۷ اضطرارى احكام ۱۵; احكام اوليہ ۱۵; احكام ثانويہ ۱۵;احكام ميں نرمى اور انعطاف پذيري۱۵

اسلام: اسلام كى حفاظت كى اہميت ۴

اضطرار: اضطرار كے نتائج۱۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصرت و حمايت ۱۳; امداد الہى كے اسباب ۱۴; اللہ تعالى كے عذاب ۱۰

بالمقابل اقدام: بالمقابل اقدام ميں بے عدالتي۱۲،۱۶; بالمقابل اقدام ميں تقوى ۱۱; بالمقابل اقدام كا جائز ہونا ۶; بالمقابل اقدام ميں عدل و انصاف ۱۴; بالمقابل اقدام كا دائرہ كار ۸

بين الاقوامى قوانين: بين الاقوامى قوانين كو توڑنے كے نتائج۵ ; بين الاقوامى قوانين كو توڑنے كى شرائط و حالات۵

تقوى : تقوى كے نتائج۱۴; تقوى كى اہميت ۱۰،۱۱; عدم تقوى كے موارد ۱۲

جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسومات۳

جنگ: جنگ كے احكام ۱،۲; جنگ ميں عدم تقوى ۱۶; جنگ ميں بے عدالتى اور بے انصافى ۱۶; جنگ ميں تقوى ۱۴; دشمنوں سے جنگ ۹; حرام مہينوں ميں جنگ كى حرمت ۱،۳،۴; حرام مہينوں ميں جنگ كى شرائط ۲; جنگ ميں عدل و انصاف ۹

حرام مہينے : حرام مہينوں كا احترام ۳،۴; زمانہ جاہليت ميں حرام مہينے ۳

حرم (مسجد الحرام كے گرد و نواح): حرم كے احكام ۱۷; حرم كا احترام ۱۷; حرم ميں چورى ۱۷; حرم ميں قتل ۱۷

____________________

۱) تبيان شيخ طوسى ج/۲ ص ۱۵۰ ، مجمع البيان ج/۲ ص ۵۱۴_

۶۷۸

دفاع: حرام مہينوں ميں دفاع۲،۴; دفاع كا دائرہ كار ۸

روايت : ۱۷،۱۸

عدل: عدل كے نتائج۱۴; عدل كى اہميت ۹

عذاب: عذب سے بچنے كے عوامل ۱۰

قصاص: احرام شكنى كا قصاص ۸ ۱

كفار : صدر اسلام كے كفار كا عقيدہ ۳

گناہ : گناہ سے اجتناب ۱۰

متقين : متقين كى حمايت ۱۳

مجاہدين: مجاہدين كى فكرى و نفسياتى آمادگى كى اہميت ۷; مجاہدين كے شبہات كو دور كرنا ۷

محرمات:۱

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۹

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۱

وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( ۱۹۵ )

اور راہ خدا ميں خرچ كرواور اپنے نفس كو ہلاكت ميں نہ ڈالو _ نيكبرتاؤ كرو كہ خدا نيك عمل كرنے والوں كےساتھ ہے (۱۹۵)

۱_ اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے كہ اسلامى معاشرے كى ضروريات كو پورا كريں اور انفاق كريں :وانفقوا

۲_ جہادى ضروريات كو پورا كرنا اہل ايمان كے فرائض ميں سے ہے _قاتلوا فى سبيل الله و انفقوا فى سبيل الله

گزشتہ آيات كى روشنى ميں انفاق كے مصارف و موارد ميں سے ايك مورد جہادى و دفاعى ضروريات و اخراجات ہيں _

۶۷۹

۳_ انفاق اور جہادى و دفاعى ضروريات كو پورا كرنا اس وقت قابل قدر ہے اگر''فى سبيل اللہ'' ہوں _وانفقوا فى سبيل الله

۴ _ خودكشى يا ايسا طريقہ، روش اختيار كرنا جس سے انسان كى ہلاكت ہوتى ہو حرام ہے _و لا تلقوا بايديكم الى التهلكة

۵_ جو لوگ انفاق نہيں كرتے يا دفاعى ضروريات كو پورا نہيں كرتے ان كا يہ عمل ان كى اور معاشرے كى نابودى اور زوال كا سبب ہے_و انفقوا فى سبيل الله و لا تلقوا بايديكم الى التهلكة

اس جملہ''ولا تلقوا ...'' كا معنى ممكن ہے اس جملہ''و انفقوا فى سبيل اللہ '' يعنى دفاعى اخراجات و ضروريات كا مسئلہ'' كى روشنى ميں كيا جائے يا پھر خود جہاد و معركہ آرائي (قاتلوا فى سبيل اللہ) كے اعتبار سے اس كا معنى كيا جائے البتہ يہ بھى ہوسكتاہے كہ اس كو انفاق كے آداب ميں سے شمار كيا جائے _مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے يعنى دفاعى ضروريات كو پورا كرو ورنہ ہلاك ہوجاؤگے_

۶_ جہاد و دفاع كو ترك كرنا اسلامى معاشرے كى ہلاكت و زوال كا سبب بنتاہے_قاتلوا فى سبيل الله و لا تلقوا بايديكم الى التهلكة اس مطلب ميں ''لا تلقوا ...'' كا معنى اس جملہ '' قاتلوا فى سبيل اللہ ' 'كى روشنى ميں كيا گيا ہے _

۷_ انفاق اتنى حد ميں ہو كہ كہيں انفاق كرنے والا درماندگى و بے چارگى ميں مبتلا نہ ہوجائے*

انفقوا فى سبيل الله و لا تلقوا بايديكم الى التهلكة اس مطلب ميں جملہ'' و لا تلقوا ...'' انفاق كے آداب و دائرہ كو بيان كررہاہے_ يعنى انفاق كرو ليكن اتنا كہ كہيں خود لاچارگى كے شكار نہ ہوجاؤ_

۸_ انسان ايك ايسا موجود ہے جو اپنى نجات يا ہلاكت كى راہ خود انتخاب كرتاہے_و لا تلقوا بايديكم الى التهلكة

''بايديكم'' (اپنے ہاتھوں سے)كا استعمال بتاتاہے كہ انسان اپنى نجات و ہلاكت كے انتخاب ميں خود مختار ہے _

۹_ راہ خدا ميں انفاق كرنا اور دفاعى ضروريات كو پورا كرنا تقوى اور خدا ترسى كى علامت ہے_واتقوا الله وانفقوا فى سبيل الله تقوى كا حكم دينے كے بعد انفاق كے مسئلہ كو بيان كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ تقوى كے مصاديق ميں سے ايك راہ خدا ميں انفاق كرنا ہے_

۱۰_ راہ خدا ميں انفاق كرنے اور جہادى و دفاعى ضروريات پورا كرنے سے اللہ تعالى كى حمايت ونصرت شامل حال ہوتى ہے _واتقوا الله و اعلموا ان الله مع المتقين وانفقوا فى سبيل الله

۱۱_ مسلمانوں كو نيك انسان ہونا چاہيئے_واحسنوا

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785