تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200924 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

۱۲ _ اہل ايمان كو چاہيئے اپنے الہى فرائض و اعمال (جہاد، دفاع، انفاق و غيرہ ...) كو نہايت احسن انداز سے انجام ديں _قاتلوا فى سبيل الله وانفقوا فى سبيل الله واحسنوا

۱۳ _ نيك انسانوں سے اللہ تعالى محبت فرماتاہے _ان الله يحب المحسنين

۱۴ _ الہى فرائض اور اعمال كو احسن انداز سے انجام دينے كے باعث اللہ تعالى كى محبت حاصل ہوتى ہے _

واحسنوا ان الله يحب المحسنين

۱۵_ نيك اعمال انجام دينے كے لئے احساسات و جذبات كواور ابھارنا قرآنى روشوں ميں سے ہے_ان الله يحب المحسنين

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''لو ان رجلا انفق ما فى يديه فى سبيل الله ما كان احسن و لا وفّق أليس يقول الله تعالى ''ولا تلقوا بايديكم الى التهلكة و احسنوا ان الله يحب المحسنين'' ؟ يعنى المقتصدين'' (۱) اگر كوئي شخص اپنے تمام اموال كو راہ خدا ميں خرچ كردے تو اس نے احسن كام انجام نہيں ديا اور نہ ہى كامياب ہوگا_ كيا اللہ تعالى نہيں فرماتا'' و لا تلقوا بايديكم الى التهلكة واحسنوا ان الله يحب المحسنين'' ؟ راہ خدا ميں خرچ كرو اور اپنے آپ كو ہلاكت ميں نہ ڈالو اور نيك كام انجام دو اللہ نيكى كرنے والوں سے محبت كرتاہے اور ''محسنين'' يعنى وہ لوگ جو زندگى ميں ميانہ روى اختيار كرتے ہيں _

۱۷_ رسو ل اللہ (ص) كا ارشاد گرامى ہے''طاعة السلطان واجبة و من ترك طاعة السلطان فقد ترك طاعة الله عزوجل و دخل فى نهيه ان الله عزوجل يقول'' ولا تلقوا بايديكم الى التهلكة'' (۲) سلطان عادل كى اطاعت واجب ہے جو كوئي سلطان كى اطاعت نہ كرے اس نے اللہ كى اطاعت نہ كى اور نہى الہى كى مخالفت كى ہے اللہ تعالى كا ارشاد ہے '' خود كو اپنے ہاتھوں سے ہلاكت ميں نہ ڈالو''_

احسان (نيكى كرنا ) : نيكى كرنے كى اہميت ۱۱،۱۲; نيكى كرنے كى تشويق ۱۵ احساسات: احساسات بيدار كرنا ۱۵

احكام :۴ اسلامى معاشرہ : اسلامى معاشرے كى ضروريات كو پورا كرنا ۱

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۸۷ ح ۲۱۷ ، بحار الانوار ج/ ۹۳ ص ۱۶۸ ح ۱۲_

۲) امالى شيخ صدوق ص ۲۷۷ ح ۲۰ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۸۰ ح ۶۳۸_

۶۸۱

اطاعت: سلطان كى اطاعت۱۷

اعتدال: اعتدال كى اہميت۱۶

اقدار: قدروں كا معيار ۳

اللہ تعالى : نصرت الہى كے لئے آمادگى كا ہونا ۱۰

اللہ كے محبوب بندے:۱۳

انسان: انسانى اختيار ۸; انسانى صفات۸

انفاق: انفاق كے نتائج۱۰; انفاق ترك كرنے كے نتائج ۵; انفاق كے آداب ۱۲; انفاق كى اہميت ۳،۱; انفاق ميں ميانہ روى ۱۶; راہ خدا ميں انفاق ۳،۹،۱۰; انفاق كا دائرہ ۷

تقوى : تقوى كى علامتيں ۹

تكليف شرعى : تكليف شرعى پر عمل كے آداب ۱۲،۱۴

جہاد: جہاد ترك كرنے كے نتائج۶; جہاد كے آداب ۱۲) جہاد كے اخراجات كيلئے انفاق نہ كرنا۵; جہاد كا تدارك و تيارى ۲،۳،۹،۱۰

خودكشي: خودكشى حرام ہونا ۴

خوف: خوف خدا كى علامتيں ۹

دفاع: دفاع ترك كرنے كے نتائج ۶; دفاع كے آداب ۱۲

روايت:۱۶،۱۷

سبيل اللہ (راہ خدا ): سبيل اللہ كے موارد ۳

محبت : محبت الہى كے لئے آمادگى و بنياد ۱۴

محرمات:۴

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۱۱

معاشرہ: معاشرے كے انحطاط كا پيش خيمہ ۵; معاشرتى انحطاط و زوال كے اسباب ۶

مومنين: مومنين كى شرعى ذمہ دارى ۱۲; مومنين كى ذمہ دارى ۱،۲،۱۲

۶۸۲

نافرماني: نافرمانى كے موارد۱۷

نيك لوگ: نيك انسانوں كا اعتدال ۱۶; نيك لوگوں كا محبوب ہونا ۱۳

ہلاكت : ہلاكت كے اسباب ۵

۶۸۳

اشاريى(۱)

آ

آبياري: گائے سے _۲/۷۱ ، _كا وسيلہ ۲/۷۱

نيز ر_ ك بنى اسرائيل

آتش: ر_ك جہنم اور صبر

( آگ بھڑكانے والا): ر _ ك تشبيہات

آخرت: _كى قدر و قيمت ۲ / ۹۴ _ پريقين كى اہميت ۲/۴، _ ميں مختلف گروہ ۲ / ۱۳۰ _ پہ ايمان ركھنے والے ۲/۵،_ كى خصوصيات ۲/۱۰۲ _ پہ يقين ۲/۴_نيز ر _ ك آخرت فروش لوگ ، آخرت فروشى ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،ايمان، دنيا ، صالحين ، قيامت اور مايوسى _

آخرت فروش لوگوں : كا بے وارث ہونا ۲ / ۸۶ _ پر عذاب ۲/۸۶ _ كى سزا _۲ / ۸۶

آخرت فروشي: _ كا نقصا ن ۲ / ۱۰۲ _ كى سزا ۲ / ۸۶ نيز ر_ك يہود

حضرت آدمعليه‌السلام : _ كى نافرمانى كے آثار ۲/۳۸ ، وجود _ كے اثرات و نتائج ۲ /۳۳ _ بہشت ميں ۲/۳۵ _ اور شجرہ ممنوعہ ۲/۳۵،۳۶ _ اور ملائكہ ۲/۳۳_ كى بخشش ۲/۳۷_ كابہشت سے نكالا جانا ۲/۳۶،۳۸ _ اور حضرت حواعليه‌السلام كى شادى ۲ / ۳۵ _ كى صلاحيتيں ۲ /۳۱، ۳۴ كا طلب كرنا۲/۳۷ _ كا زمين پر ٹھہرنا۲/۳۷_كو تعليم شدہ اسماء ۲/۳۱ ، ۳۳_ كو كلمات كا القاء كيا جانا ۲ / ۳۷ _ كے واقعہ كى اہميت ۲ /۳۴ _ كى ملائكہ پر فضيلت و برترى ۲ /۳۱، ۳۲،۳۳، ۳۴_ كى نسل كو خوشخبرى ۲/۳۸_ كى پشيمانى ۲ /۳۷_ كى تاريخ خلقت ۲ / ۳۰ _كے ؤاقعہ كى تعليمات ۲ / ۳۰، ۳۴ _ كو اسماء كى تعليم ۲ / ۳۱ ، ۳۳ ، ۳۴ _ كو توبہ كى تعليم ۲ /۳۷ _كى بہشت ميں تكليف شرعى ۲ / ۳۵ _ كى توبہ ۲ /۳۷ _ كى خلافت ۲ / ۳۰_ ۳۳،۳۴_ كى خلقت ۲/۳۰ ، ۳۱،۳۳_ كے بہشتى كے كھانے ۲ / ۳۵ اولاد_ كى دشمنى ۲ / ۳۶ _ كى بہشت ميں رفاہ و آسائش ۲ / ۳۵ _ كو سجدہ كى آمادگى ۲ /۳۴ _ كو ملائكہ كا سجدہ ۲ / ۳۴ ، ۳۵ _ كا بہشت ميں قيام ۲ / ۳۵ ، ۳۶ موجودات كو _ كے سامنے پيش كيا جانا ۲/۳۱_ كى نافرمانى ۲ /۳۶،۳۷،۳۸_ كا علم ۲ / ۳۱ ، ۳۲ ، ۳۳ _ كى نافرمانى كے اسباب ۲ / ۳۶_ كے ہبوط (زمين پر آنے ) كے اسباب ۲ / ۳۶ _ كے فضائل ۲ / ۳۳ _

۶۸۴

كى بہشت كے فضائل ۲ / ۳۶_ كى فضيلت كا فلسفہ ۲ / ۳۱ _كى توبہ كى قبوليت ۲ ۳۷_ كا واقعہ ۲ / ۳۱ ، ۳۳ ، ۳۴ ، ۳۵،۳۶،۳۷،۳۸_ كى لغزش ۲ / ۳۶ _ كى بہشت ميں محرمات ۲ / ۳۵ _ كا بہشت سے محروم ہونا ۲ / ۳۶ ، ۳۸ _ كى نسل كا محروم ہونا ۲ / ۳۶ ، ۳۸ _ كے درجات ۲ /۳۳ ، ۳۴ _كى بہشت كا مقام ۲ / ۳۵ ، ۳۶ _ كى توبہ كا مقام ۲ / ۳۷_ كے ہبوط كا مقام ۲ / ۳۶ _ كى بہشت كى نعمتيں ۲ / ۳۵ _ كى خلقت كا وقت ۲ / ۳۶ _ كى خصوصيات ۲ / ۳۱ _ كى بہشت كى خصويات ۲ / ۳۵ _ كا ہبوط ۲ / ۳۶ ،۳۸_ كو تنبيہ ۲ / ۳۵_ نيز ر _ك ابليس ، انسان، شيطان ، كفار اور موجودات آدم كشى : ر _ ك قتل

آنكھ: _ كے حجاب ك عوامل ۲/۷ _ كے فوائد ۲/۷

آرزو : سلمانوں كے مرتد ہونے كى _ ۲ / ۱۰۹ _دنيا كى طرف بازگشت كى ۲/ ۱۶۷_ باطل _۲/ ۱۶۷ پسنديدہ_ ۲ / ۱۲۴_ طولانى عمر كى _ ۲ / ۹۶ _موت كى _۲/۹۴ ، ۹۵_ نيز ر_ ك عيسائي ، مشركين اور يہود

آزادى بيان : _ كى تاريخ ۲ / ۶۷

آزمائش : ر _ ك ابتلا اور امتحان

آسائش : _ كے عوامل ۲ / ۱۸۵_

آسمان ( يا آسمانوں ): سات _۲/۲۹ _ كى تخليق كا آغاز ۲ / ۱۱۷ _ كى خلقت ۲/ ۱۱۷ _ كا آپس ميں گڈمڈ ہونا ۲ / ۲۹ _ كا اعتدال و توازن ۲ / ۲۹_ كا متعدد ہونا ۲/ ۲۹ ، ۳۳ ، ۱۰۷ ، ۱۱۶،۱۱۷،۱۶۴_ كا ايك دوسرے سے امتياز و شناخت ۲ / ۲۹ _ كا حكمران ۲ / ۱۰۷ _ كا خالق ۲ / ۱۱۷ ، ۱۶۴ _ كى خلقت ۲ / ۲۲ ،۲۹ ۳۰،۱۶۴_ كى عالمانہ تخليق ۲/۲۹ _ كے غيب ۲ / ۳۳_ كے فوائد ۲ / ۲۲ ، ۱۶۴ _كى موجودات كا مالك ۲ / ۱۱۶ _ كى تخليق كے مراحل ۲ / ۲۹ _نيز ر _ ك وحي

آسمانى كتابيں : _سے منہ موڑنے كے اثرات و نتائج ۲/۶۴ ، ۱۱۳ _ كى تعليم كے نتائج ۲/۱۲۹ _ چھپانے كے نتائج ۲/۱۷۵ _ كى تعليمات كى قدر و منزلت ۲/۱۷۴ _ سكھانے كى قدر و قيمت ۲/۱۲۹ _ سے منہ موڑنا ۲/۱۰۱ _ عطا كرنا ۲/۱۳۶ _ سے وابستگى ۲/۱۰۱ _ كے زندہ ركھنے كى اہميت ۲/۶۳ _ كى پيروى كى اہميت ۲/۱۲۱ _ كى تلاوت كرنے كى اہميت ۲/۱۲۱ _ كى اہميت ۲ /۹۳ ، ۱۱۳ ، ۱۵۹ _ كے حقائق بيان كرنا ۲/۱۷۵ _ كى حفاظت ۲/۶۳ _ كى پيروى ۲/۱۲۱ _ كى تعليمات ميں تبعيض ( بعض پہ عمل كرنا اور بعض پہ عمل نہ كرنا ) ۲/۱۷۶ _ كى تبليغ ۲/۱۵۹ _ كے قبول كرنے ميں تجزى ( بعض اجزا كو قبول اور بعض كى نفى كرنا ) ۲/۱۰۱ ، ۱۷۶ _ كى تحريف ۲/۴۲ _ كى تعليمات۲ /۴۲ ، ۴۴ ، ۷۸ ، ۹۳ ، ۱۰۱ ، ۱۵۹ ، ۱۷۶ _ سيكھنا ۲/۱۵۹ _ كا سكھانا ۲/۶۳ ، ۱۲۹ ، ۱۵۹ _ كى تفسير ۲/۷۸ _ كے بعض حصوں كو جھٹلانا

۶۸۵

۲/۱۷۶_ كى تلاوت ۲/۴۴ _ كا منزہ ہونا ۲/۷۸ _ كى حقانيت ۲/۴۱ ، ۱۷۶ _ كے ادراك كى روش ۲/۷۸ _ پردہ ڈالنے والوں كا عذاب ۲/۱۶۲ _ پہ عمل كرنا ۲/۴۴ ، ۸۵ ، ۹۳ _ كو چھپانے كے عوامل ۲/۱۶۳ _ كو جھٹلانے كا فلسفہ ۲/۴۱ _ كے نزول كا فلسفہ ۲/۵۳ ، ۶۳ _ كا ادراك ۲/۷۸ _ كا قبول كرنا۲/۹۳ _پر پردہ ڈالنا ۲/۱۵۹ ، ۱۶۰ ، ۱۶۱ ، ۱۶۲ ، ۱۷۴ ، ۱۷۶ _ كو چھپانے والے ۲/۱۷۵ ، ۱۷۶ _ سے منہ موڑنے كى سزا ۲/۱۱۳ _ كو چھپانے كى سزا ۲/۱۷۴ _ كو چھپانے والوں كى گمراہى ۲/۱۷۵ _ كو چھپانے كا گناہ ۲/۱۶۲ ، ۱۷۴ _ كو چھپانے والوں كا گناہ ۲/۱۷۴ _ پہ ايمان والے ۲/۱۲۱ _ كے مخاطبين ۲/۱۵۹_ كے ادراك ميں ركاوٹ ۲/۱۶۰ _ پر پردہ ڈالنے كے موانع ۲/۱۶۳ _ كى نعمت ۲/۵۳ _ كا كردار و اہميت ۲/۵۳ ، ۶۳ ، ۱۱۳ ، ۱۵۹ ، ۱۷۵ _ كا وحى ہونا ۲/۱۷۶ _ كا ہدايت ہونا ۲/۱۷۵ نيز ر_ ك ايمان ، بنى اسرائيل ، تورات ، قبلہ ، قرآن كريم ، كفر ، پيامبر اسلام (ص) ، يہود_ كر ( بہرہ ) : ر_ ك تشبيہات

آسيب شناسى : ( نقصان اور صدمے و غيرہ كى شناخت) ر _ ك معاشرہ اور دين

آگاہي: ر _ ك شناخت اور علم

آل فرعون : _اور بنى اسرائيل ۲ / ۴۹ _كے جرائم ۲ / ۴۹ _كے شكنجے ۲ / ۴۹ _ نيز ر_ ك فرعونى لشكر

آرزوئيں :ر_ك آرزو امر بہ معروف كرنے والوں : _ كى ذمہ دارى ۲ / ۴۴ نيز ر_ ك امر بہ معروف

الف

آئمہ ( عليہم السلا م) : كى امامت ۲ / ۱۲۴ _ كا علم ۲ / ۱۲۱ كے فضائل ۲ / ۱۲۱ كى گواہى ۲ / ۱۴۳ كے درجات ۲ / ۱۲۴ ،۱۴۳_ نيز ر_ ك امام علىعليه‌السلام اور اہل بيتعليه‌السلام

ابتلا ( امتحان ) : _خوف كے ذريعے ۲ / ۱۵۵_ جہاد كے ذريعے ۲ / ۱۵۵ _جانى نقصان كے ذريعے _ ۲ / ۱۵۵ _مالى نقصان كے ذريعے ۲ / ۱۵۵_ پيداوار كى كمى كے ذريعے ۲ / ۱۵۵_ بھوك كے ذريعے ۲ / ۱۵۵ ابرار: ر _ ك نيك لوگ

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : _ كى اطاعت كے آثار۲ / ۱۳۱_ كى كاميابى كے آثار ۲ / ۱۲۴ _كا امتحان ۲ / ۱۲۴_ صالحين ميں سے ۲ / ۱۳۰ ، ۱۳۱_ آخرت ميں ۲/۱۳۰، ۱۳۱_ اور كعبہ كى تعمير۲ /۱۲۷ ، ۱۲۸ _ اور شرك ۲ / ۱۳۵ _ اور ظلم ۲ / ۱۲۴ _ اور كفار مكہ ۲ /۱۲۶ _ اور عيسائيت ۲ / ۱۳۵ _ اور يہوديت ۲ / ۱۳۵_ كى قبوليت دعا ۲ /۱۲۶ كا خلوص ۲ /۱۲۷، ۱۳۰_ كے اصول دين ۲ / ۱۳۰، ۱۳۵ _ كى پيروى ۲ / ۴ ۱۲_ كو نمونہ عمل قرار دينا ۲ / ۱۲۴_

۶۸۶

كى امامت ۲ / ۱۲۴ _ كى نسل ميں امامت ۲ / ۱۲۴ _ كى نسل كا امت ہونا ۲ / ۱۳۴ _كا امتحان و ابتلا ۲/ ۱۲۴_ كى اطاعت ۲ / ۱۳۱، ۱۳۴ ، ۱۴۱_ كى نسل كى اطاعت ۲ / ۱۳۴ _كے اہداف ۲ / ۱۲۶ _ كا انتخاب ۲ / ۱۳۰_ دين كا انتخاب ۲ / ۱۳۲ _كى بصيرت ۲ / ۱۲۶ _ كا اخروى اجر ۲ / ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كے بيٹے ۲ / ۱۳۲ _كے پيروكار ۱۳۲ _كے دين كى اتباع ۲ / ۱۳۰ ، ۱۳۲ ، ۱۳۵_كى نسل كا تزكيہ ۲ / ۱۲۹ _ دين_ كى تعليمات ۲ / ۱۲۵_ كا تقرب ۲ /۱۲۷ _كى سخت شرعى ذمہ دارياں ۲ / ۱۲۴ _كا منزہ ہونا ۲ / ۱۲۴ كى توحيد ۲ / ۱۳۳ ، ۱۳۵_ كى نصيحتيں ۲ / ۱۳۲ _كے دين كى حقانيت ۲ / ۱۳۲ _ كا حق پرست ہونا ۲/ ۱۳۵ كا حنيف ہونا ۲ / ۱۳۵ _ كا خدمت گزار ہونا ۲ / ۱۲۵ _ كى خواہشات ۲ / ۱۲۴ ، ۱۲۶ ، ۱۲۸،۱۲۹، ۱۳۲ _ كى دعا ۲ / ۱۲۴ ، ۱۲۶ ، ۱۲۷ ، ۱۲۸ ، ۱۲۹ _ كى اطاعت كے دلائل ۲/ ۱۳۱ _كى حوصلہ افزائي ۲/ ۱۲۶ _دين _ ۲/۱۳۵ ، ۱۳۶ ، ۱۴۰ _ كا رشد ۲ / ۱۲۴ _ كى شخصيت ۲/ ۱۴۰ _ كى صفات ۲/ ۱۳۵ _ كى عبادت ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كے رجحانات ۲ / ۱۲۴ ، ۱۲۳ ، ۱۳۲_ نسل _ كى عبادت ۲ / ۱۳۴ _دين _ كا عقلى ہونا۲ / ۱۳۰ _ كے منتخب ہونے كے اسباب ۲ / ۱۳۱ _ كى تربيت كے عوامل ۲/ ۱۳۱ _ كے رشد كے اسباب ۲/۱۳۱ _ كے فضائل ۲ / ۱۲۴ _كے امتحان كا فلسفہ ۲ / ۱۲۴ _ كے دين كو قبول كرنا ۲/ ۱۳۲_ كا واقعہ ۲ / ۱۲۴ ، ۱۲۵ ، ۱۲۶ ، ۱۲۷ ، ۱۲۸ ، ۱۳۱ ، ۱۳۲ ، ۱۳۵ _ كے امتحانى كلمات ۲ / ۱۲۴_ كا مربى (تربيت كرنيوالا ) ۲/۱۲۴ ، ۱۳۱ _ كى ذمہ دارى ۲ /۱۲۵ ، ۱۲۷ ، ۱۳۱ _كے دين سے منہ پھيرنے والے ۲ / ۱۳۰ _ كے درجات ۲ / ۱۲۴، ۱۲۵ ، ۱۳۰ ، ۱۳۱ _ كى كاميابى ۲ / ۱۲۴ _كى نبوت ۲ / ۱۲۴ _ كى نسل ۲ / ۱۲۴ ، ۱۲۸ ،۱۲۹ _دين كى خصوصيات ۲ / ۱۳۲ _دين _ كا ہادى ہونا ۲ / ۱۳۵ _ نيز ر_ ك اسلام ، اعتكاف ، ايمان ، توحيد ، ذكر ، ركوع ، سجدہ ، عقيدہ، پيامبر اسلام (ص) ،عيسائي ، نماز ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور يہود_

ابليس: _كے تكبر كے آثار۲ / ۳۴ _ كى نافرمانى كے آثار ۲/ ۳۴ _ ملائكہ ميں سے ۲ / ۳۴ _ نافرمانى سے پہلے ۲/ ۳۴ _ اور حضرت آدمعليه‌السلام كو سجدہ ۲ / ۳۴ _ كا اختيار ۲ / ۳۴ _ كا تكبر ۲/ ۳۴ _ كى اطاعت ۲/ ۳۴ _ كى نسل يا جنسيت ۲ / ۳۴ _ كى نافرمانى ۲ / ۳۴ _كى نافرمانى كے عوامل ۲/۳۴_ كے كفر اختيار كرنے كے عوامل ۲/ ۳۴ _كا كفر ۲/۳۴_ كى ذمہ دارى ۲ / ۳۴_ كے درجات ۲/ ۳۴ _ كا ہبوط ۲ /۳۶_ نيز ر_ ك شيطان

اسلامى معاشرہ: _سے استفادہ ۲/۲۰ _ كى ضروريات كو پورا كرنا ۲/۱۹۵_ كى تدبير امور ۲/۱۷۸ _ كے خلاف سازش ۲/۹ _ كى زندگى كے عوامل ۲/۱۷۹ _ كى ذمہ دارى ۲/۱۷۸ احساس برترى : ر_ ك تكبر

اسلاف: _ كى پيروى كے نتائج ۲/۱۷۰ _ كى رسومات كى پيروى ۲/۱۷۰ _ كا عمل ۲/۱۴۱ نيز ر_ ك تقليد

۶۸۷

اہل اطاعت: _ كا اجر ۲/۵۸

انتظامى صلاحيت : _ كى روش و انداز ۱/۳ _ كى شرائط ۲/۱۲۴ _ميں مہربان۱/۳

اللہ تعالى كى سنتيں : اللہ تعالى كے امتحان كى سنت ۲/۱۵۵ اللہ تعالى كى مہلت دينے كى سنت ۲/۱۵

اتحاد: _ كى اہميت ۲/۶۰ نيز ر_ ك مشركين اور يہود

اتمام حجت: _ كى اہميت ۲ / ۲۴ نيز ر_ ك خدا تعالى

اجر:ر_ك پاداش احبار: ر _ ك علمائے يہود

احتجاج : بے جا _ ۲/۱۳۹ _انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں ۲/ ۱۳۹_ اللہ تعالى كے بارے ميں ۲/ ۱۳۹ _پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں ۲/ ۱۳۹ _كى روشن كى تعليم ۲ /۸۰_

احترام: ر _ ك اسلام ، اماكن مقدس ( مقدس مقامات) حرم ، رہبران مسجد، مسجد الحرام

احتضار ( جان كنى كا عالم ) : _ كے آثار۲ / ۱۸۰ نيز ر_ ك حضرت يعقوبعليه‌السلام

احساسات: _ كا توازن ۲ /۱۰۹ نيز ر_ ك انسان ، قيامت اور نبرد آزمائي

احسان ( نيكى كرنا ) : _ كے آثار ۲/ ۱۱۲ _ كى اہميت ۲/ ۱۹۵ _ كى تشويق ۲/ ۱۹۵ نيز ر _ ك حقوق ، خويشاوندان ( رشتہ دار) مساكين ،والدين،يتيم

احكام: ۲/۲۷، ۲۹،۴۳،۶۰،۷۹،۸۳،۸۴،۸۵ ،۸۹، ۱۰۲ ،۱۱۴،۱۲۵،۱۲۶،۱۴۴،۱۴۹،۱۵۰،۱۵۸، ۱۶۰ ، ۱۶۸، ۶۹ ۱، ۱۷۲،۱۷۳، ۱۷۴،۱۷۸، ۱۸۰، ۱۸۱، ،۱۸۲، ۱۸۳،۱۸۴، ۱۸۵، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰ ، ۱۹۱ ، ۱۹۲، ۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵_

_ كے منسوخ ہونے كے آثار۲ / ۱۰۸اضطرارى _ ۲/۱۹۴ _ اولى ۲/ ۱۹۴ _ ثانوى ۲/ ۱۷۳ ، ۱۹۴ ، وقتى _ ۲/۱۰۹ _ پر اعتراض ۲/ ۱۴۲ _ ميں نرمى اور انعطاف پذيرى ۲/ ۱۷۳ ، ۱۷۸ ، ۱۸۵، ۱۹۴_ كى تبديلى ۲/ ۱۰۹ _ كا بيان كرنا ۲/ ۱۸۷ _ كے بيان كرنے كا فلسفہ ۲/ ۶۳ ، ۱۸۳ _ كى تشريع ( قانون سازي) ۲/ ۱۴۲ ، ۱۸۷ ، اضطرارى _ كى تشريع ۲/

۱۷۳_ ثانويہ كى تشريع ۲/۱۷۳ _ كا توقيفى ہونا ۲/۱۷۳ منسوخ شدہ _ كى جانشينى ۲/ ۱۰۶ _ كے اطلاقات كى حجيت ۲/ ۷۱ _ كے عمومات كى حجيت ۲/ ۷۱ سزاؤں كے _ كا خير ہونا ۲/ ۵۴_ كى تبديلى كى درخواست۲/ ۱۰۸ _ كے منسوخ ہونے كى درخواست ۲ /۱۰۸ _ كے بيان كرنے كى روش ۲/ ۱۰۹ _ كى قبوليت كے لئے آمادگى ۲/ ۱۰۹ _كے منسوخ ہونے كے اسباب ۲/ ۱۸۷ _ كو بھلانا ۲/ ۱۰۶ فلسفہ _ ۲/ ۵۴ ، ۱۰۶ ، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۷۳، ۱۷۹، ۱۸۴، ۱۸۵، ۱۸۷، ۱۹۱،۱۹۳، _

۶۸۸

كے استعمال كا دائرہ ۲/ ۱۴۳ _ كى مصلحتيں ۲ / ۱۸۴ _ كى تشريع كے معيارات ۲/ ۱۸۴ _ كى حقانيت كے معيارات ۲/ ۱۴۷ اضطرارى _ كا سرچشمہ ۲/ ۱۷۳ _كى تشريع كا منبع ۲/ ۱۴۴ ، ۱۷۳ _ كى منسوخى كا منبع ۲/ ۱۴۴_ كا منسوخ ہونا ۲/ ۱۰۶ ، ۱۰۷ ، ۱۰۹، ۱۴۲، ۱۴۴، ۱۸۷_ كا وحى ہونا ۲ / ۱۷۰

اختراعات ( ايجادات): _ كا منبع ۲/ ۱۶۴

اختلاف: دينى _ كا حل ۲/ ۱۱۳ _ كے عوامل ۲/ ۱۷۶ ، اخروى _ كے عوامل ۲/ ۱۶۶ دينى _ كے عوامل ۲/ ۸۶ ، ۱۷۶ معاشرتى _ كے خلاف محاذ آرائي ۲/ ۶۰ نيز ر_ ك اختلاف ڈالنا ، اہل كتاب، خانوادہ (خاندان ) يہودي

اختلاف پيدا كرنا: جادو سے _ ۲ / ۱۰۲ _ كى سرزنش ۲/ ۱۰۲ _ كا گناہ ۲/۱۰۲

اختيار: نيز ر _ ك ہمسر، انسان ، جبر و اختيار

اخلاص ( خلوص ) : _ كى اہميت ۲/ ۱۱۲ ، ۱۲۷

نيز ر_ ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، دعا ، عبادت ، عمل ، مسلمان ، ملائكہ

اخلاق : ناپسنديدہ _ ۲/ ۹۶ اخلاقى رذائل ۲/ ۱۰ ، ۳۴ ، ۹۰ ، شيطانى صفات ۲/ ۳۴ اخلاقى فضيلتيں ۲/ ۱۷۷ اخوت ر_ ك مومنين

ادراك : _ كى اہميت ۲/ ۷۳ قوائے مدركہ كى اہميت ۲/ ۱۷۱ _ كا سرچشمہ ۲/ ۷۳ جن لوگوں ميں _ كا فقدان ہے ۲/۴۴ _ كى ركاوٹيں ۲/ ۱۲ صحيح _ كى علامتيں ۲/ ۴۴ نيز ر_ ك آفرينش (كائنات) انسان، شہداء ، ملائكہ ، منافقين اديان : ۲/ ۶۲

_كے منسو خ ہونے كے آثار ۲/ ۱۰۸ _ كے احكام ۲/۱۸۳_ قرآن كريم ميں ۲/ ۶۲ _ كے اصول ۲/ ۱۳۳ _ كے پيروكاروں كا اخروى امن و امان ۲/ ۳۸ _ سے نسبت ۲/ ۶۲ ، ۱۱۲ قيامت ميں _كے پيروكار ۲/ ۳۸ _ كى تاريخ ۲/ ۱۰۶ _ كى اتباع ۲/ ۱۳۲ _ كى تعليمات ۲/ ۵۴ ، ۶۲ ، ۹۳ _ كا تكامل ۲/۱۰۶ _ كا منزہ ہونا ۲/ ۴ _ پہ تہمت ۲/۱۱۳ ناسخ كرنے والے _ كا قائم مقام ہونا ۲/ ۱۰۶ ، ۱۰۷ _كى حقانيت ۲/ ۱۱۳ _ كى حقيقت ۲/ ۱۳۲ _ ميں انحراف كا خطرہ ۲/ ۱۲۰_ سے منہ موڑنے كے اسباب ۲/ ۱۳۰ _ كے پيروكاروں كا اخروى سرور ۲/ ۳۸ _ كو بھلانا ۲ /۱۰۶ _ كے منسوخ ہونے كا فلسفہ ۲/ ۱۰۷ _كے مشتركات ۲ / ۶۲ _ كا سرچشمہ ۲/ ۱۳۶ _ كا اہم ترين ركن ۲/ ۸۳ _كا منسوخ ہونا ۲/ ۱۰۶ ، ۱۰۷ ، ۱۰۹ _ كى ہم آہنگى ۲/ ۴، ۶۲، ۱۷۷ ، ۱۸۳ نيز ر_ ك اسلام ، انبياءعليه‌السلام ، توحيد ، روز ہ، پيامبر اسلام (ص) ، مرتد، عيسائيت، يہودو يہوديت اذكار: _كى تحريف سے اجتناب ۲/۹ ۵ اربعين نشينى ( چاليس دن كا چلہ ) ر_ ك چلہ نشيني

۶۸۹

ارتداد: _ كى بخشش ۲/۵۲ _ كى حقيقت ۲/ ۱۰۸ _ كا خطرہ ۲ / ۱۳۳ _كا سبب ۲/ ۱۳۳ _ كا ظلم ۲/۹۲ _ كے اسباب ۲/ ۱۰۹ _ كا گناہ ۲/ ۵۲ نيز ر_ ك آرزو، اہل كتاب، بنى اسرائيل، عيسائي، يہود و يہوديت_ ارزش گزارى (قدر و قيمت اور اہميت كا اندازہ لگانا ):_كے معيارات ۲/ ۹۰

ارزشہا ( اقدار ) : ۲/ ۳۱ ، ۵۱ ، ۷۳،۹۴، ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۲۹،۱۵۴،۱۷۸،۱۸۴، ۱۸۹ _سے جہالت ۲/۱۰۳_ پہ عمل ۲/ ۱۸۹ _ كا معيار ۲ / ۲۳ ، ۹۰، ۱۰۹، ۱۲۷ ،،۱۲۹، ۱۴۸ ، ۱۵۱ ، ۱۵۴ ، ۱۷۱ ، ۱۷۷، ۱۷۹ ، ۱۸۹ ، ۱۹۰، ۱۹۵

ارشاد : ر_ ك تبليغ ازدواج: ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام

اسباط: _ انبياءعليه‌السلام ۲ / ۱۳۶ _ كى تعليمات ۲/ ۱۳۶ _ كا دين ۲/۱۴۰

نيز ر_ ك ايمان ، عيسائي ، حضرت يعقوبعليه‌السلام ،يہود

استثمار (استحصال): ر _ ك بنى اسرائيل

استدلال : ر_ ك احتجاج ، برہان /استرجاع: كلمہ _۲/ ۱۵۶ نيز ر_ ك مصائب

استسقا : ر_ ك حضرت موسىعليه‌السلام

استغفار: _ كے آثار ۲/ ۵۸ _ كے آداب ۲/۵۸ _ كى اہميت ۲/ ۳۷ ، ۵۸ ، ۵۹ ، _ كى آمادگى ۲/ ۳۷ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، بنى اسرائيل ، ملائكہ

استقامت :ر _ ك جنگ

استكبار : _كے آثار ۲/ ۳۴ _ كى سرزنش ۲/ ۳۴ نيز ر_ ك ابليس و تكبر

حضرت اسحاقعليه‌السلام : _ كى اطاعت ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كا اخروى اجر ۲ / ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كى توحيد ۲/ ۱۳۳ _ كا دين ۲/ ۱۴۰ _ كى شخصيت ۲/ ۱۴۰ _ كى عبادت ۲/ ۱۴۱ نيز ر_ ك ايمان ، عيسائي ، يہود

اسرار : ر_ ك راز

اسلام : _كے احترام كے آثار ۲/ ۱۹۲ _ كى قبوليت كے آثار ۲/ ۱۱۲_ كے پہلو ۲/ ۱۷۷ اركان _۲ /۸، ۴۳ ، ۱۳۶ ، ۱۸۹ _ انجيل ميں ۲/ ۱۵۹ _ تورات ميں ۲/ ۱۵۹_ اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۲/ ۱۳۰ _ اور ماديات ۲/۱۴۳ _ اور معنويات ۲/ ۱۴۳_ ميں اعتدال ۲ / ۱۴۳ _سے منہ موڑنا ۲/ ۱۳۰ _ كى حفاظت كى اہميت ۲/ ۱۹۴ دين _ كى اہميت ۱/۶_ كا معاشرتى پہلو ۲ /۱۷۷ _ كا اخلاقى پہلو ۲/ ۱۷۷_كا اقتصادى پہلو ۲/ ۱۷۷ _ كا عبادتى پہلو ۲ /۱۷۷_ كا عقيدتى پہلو ۲/ ۱۷۷ _

۶۹۰

كا فوجى اور دفاعى پہلو ۲/۱۷۷ تاريخ صدر _۲/ ۷۵ ،۷۶ ، ۹۹، ۱۰۴ ، ۱۰۸،۱۰۹،۱۱۴، ۱۳۵ ، ۱۳۹ ، ۱۴۲، ۱۴۳،۱۴۴، ۱۴۷، ۱۵۰،۱۵۹،۱۹۱ دشمنان_ كا پراپيگنڈا ۲ / ۱۵۰_ كے خلاف پراپيگنڈا ۲ / ۱۰۹ ، ۱۴۷ _ كى معاشرتى تعليمات ۲ / ۳ _كى انفرادى تعليمات ۲/ ۳ _ كے خلاف سازش ۲/ ۱۴ ، ۷۶ _كى جامعيت ۲/ ۱۷۷ _ كا عالمى ہونا ۲/ ۱۹۳ دشمنان _كے دلائل ۲/ ۱۵۰ _ كى حقانيت ۲/ ۱۰۹ ، ۱۱۹ دشمنان _ ۲/ ۱۰۵ ، ۱۱۱،۱۱۴، ۱۳۷ ، ۱۴۰ _ كى دعوت ۲/ ۹۱_ كى پيروى كے دلائل ۲/ ۱۷۰ _ كى حقانيت كے دلائل ۲/ ۱۵۹ دين _ ۲/ ۱۳۵ _ قبول كرنے كى آمادگى ۲/ ۱۳۰ فہم _سے عاجز ہونا ۲/ ۸۸ _ كا تمسخر اڑانے كى سزا ۲/ ۱۵ _ پہ ايمان لانے والے ۲/ ۱۲۱ _ سے معركہ آرائي ۲/ ۱۱۴ _ كا سرچشمہ ۲/ ۱۳۵ ، ۱۴۵ ، ۱۴۷ _ كے پھيلاؤ ميں ركاوٹيں ۲/ ۱۱۱ _ كے احكام كا منسوخ ہونا ۲/ ۱۰۶ _ كى اہميت ۲/ ۹۱ ، ۱۰۶ ، ۱۲۰_ كا وحى ہونا ۲/ ۱۴۵ ، ۱۷۰ _كى خصوصيات ۲/ ۳ ، ۱۹ ، ۱۴۳ ، ۱۷۷_ كا ہدايت كرنا ۲/ ۱۲۰ نيز ر_ ك اقرار ، اہل كتاب، ايمان ، بنى اسرائيل ، جرائم ، حج ، خطا ، كفر ، گرايشہا ( رجحانات ) پيامبر اسلام (ص) ، مسلمان ، عيسائي ، منافقين ، يہود_

اسم اعظم : ر _ ك خدا تعالى

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : _كا خلوص ۲ /۱۲۷ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چچا ۲/ ۱۳۳ _ اور تعمير كعبہ ۲/ ۱۲۷ _كى اطاعت ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كا اخروى اجر۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كى نسل كا تزكيہ ۲/ ۱۲۹ _ كا تقرب ۲/ ۱۲۷ _ كى توحيد ۲/ ۱۳۳ _ كى خدمت گزارى ۲/۱۲۵ _ كى خواہشات ۲/ ۱۲۸ ،۱۲۹ _ كى دعا ۲/ ۱۲۷ ، ۱۲۸،۱۲۹ _ كا دين ۲/۱۴۰ _ كى شخصيت ۲/ ۱۴۰ _ كى عبادت ۲/ ۱۴۱ _ كے رجحانات ۲/ ۱۲۸ _ كا واقعہ ۲/ ۱۲۵ ، ۱۲۷ ، ۱۲۸ _ كى ذمہ دارى ۲/ ۱۲۵ ، ۱۲۷ _ كى نسل ۲/ ۱۲۸ ، ۱۲۹نيز ر_ك ايمان، ذكر ، پيامبر اسلام (ص) ، عيسائي ، يہود_

اسماء اور صفات: بصير ۲ / ۹۶ ، ۱۱۰ _ تواب ۲/ ۳۷ ، ۵۴ ، ۱۲۸ ، ۱۶۰ ، حكيم ۲ / ۳۲ ، ۱۲۹ ذوالفضل العظيم ۲/ ۱۰۵ رحمان ۱ /۱ ، ۳ ، ۲ _ ۱۶۳ رؤوف ۲/ ۱۴۳ رحيم ۱/۱ ، ۳ ، ۲ /۳۷، ۵۴ ، ۱۲۸ ، ۱۴۳ ، ۱۶۰ ، ۱۶۳، ۱۷۳، ۱۸۲، ۱۹۲ سميع ۲/ ۱۲۷ ، ۱۳۷ ، ۱۸۱ شاكر ۲ / ۱۵۸ شديد العذاب ۲/ ۱۶۵ جلالى صفات ۲/ ۳۲ ، ۱۶ ۱، ۱۱۷ ، ۱۳۹ ، ۱۴۰، ۱۴۴، ۱۴۹ جمالى صفات ۲/ ۱۱۰ ، ۱۱۷ ، ۱۴۰ ، ۱۶۵ عزيز ۲/ ۱۲۹ عليم ۲/ ۲۹ ، ۳۲ ، ۱۱۵ ، ۱۲۷ ، ۱۳۷ ، ۱۵۸ ، ۱۸۱ غفور ۲/ ۱۳۷ ، ۱۸۲ ، ۱۹۲ ، قدير ۲/ ۲۰ ، ۱۰۶ ، ۱۰۹ ، ۱۴۸ محيط ۲/ ۱۹ واسع ۲/ ۱۱۵

اسير (قيدي): _ كى آزادى ۲/ ۸۵ _كى آزادى كى اہميت ۲/ ۸۵ _كے لئے فديہ ۲/ ۸۵ نيز ر_ك بنى اسرائيل

اصحاب سبت: _ كا مردود و ذليل ہونا ۲/۶۵ _ سے عبرت ۲/۶۶ _ كو عذاب ۲/ ۶۶ _ كا انجام ۲/ ۶۵ ، ۶۶ _ كى سزا

۶۹۱

۲/ ۶۶ _ كا مسخ ہونا ۲/ ۶۵ ، ۶۶ نيز ر_ ك اہل ايلہ، بنى اسرائيل

اصلاح: _ كے آثار ۲/ ۱۶۰ معاشرتى _ كى روش ۲/ ۱۸۹ معاشرتى _كے اسباب ۲/ ۱۹۱ نيز ر_ ك حق ، گناہ

اصلاح طلبى : ر_ك منافقين /اصل حليت : ۲/ ۲۹ ، ۱۷۲

اضطرار: _كے آثار ۲/۱۹۳، ۱۹۴ _ كے احكام ۲/ ۱۷۳ _ كى حالت ميں محرمات سے استفادہ ۲ /۱۷۳ باغى كا _۲/۱۷۳ متجاوز_ كا ۲/ ۱۷۳ _ كى حالت پيدا كرنے كا حكم ۲/ ۱۷۳ _ كى شرائط ۲/ ۱۷۳ _ميں باغى سے مراد ۲/ ۱۷۳ _ ميں عادى سے مراد ۲/ ۱۷۳ _ميں حرمت كا معيار ۲/ ۱۷۳

اضلال(گمراہ كرنا): ر_ ك خدا تعالى ، رہبران، شيطان و قرآن كريم

اطاعت: اللہ تعالى كى _ كے آثار ۲ /۴۸ ، ۱۳۱ ، ۱۸۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى _ كے آثار ۲/ ۱۴۳ اللہ تعالى كى _ كى اہميت ۲/ ۱۲۷ _انبياءعليه‌السلام كي_ ۲/۹۱ ، ۱۴۳ _ اللہ تعالى كى _ ۲ /۹۳ ، ۱۱۶ ، ۱۳۲ ، ۱۳۳ ، ۱۵۲ ، ۱۷۲ ، ۱۸۶ _ دشمنوں كي_ ۲/۱۶۸ مشرك رہبروں كى _۲/ ۱۶۷ ،۱۶۹_ سلطان كى _۲/ ۱۹۵ شيطان كي_ ۲/ ۱۶۸ ، ۱۷۰ _ پيامبر اسلام (ص) كى _۲/ ۱۰۴ ، ۱۴۳_ ناپسنديدہ _۲/ ۱۶۸ اللہ تعالى كى _ كى اہميت ۲/ ۱۳۳ اللہ تعالى كى _ كى پيش خيمہ ۲/ ۳۴ ، ۱۳۱ ، ۱۸۶ _اللہ تعالى كى _ كى علامتيں ۲/ ۱۷۲ /نيز ر_ ك دوستى ، صبر

اطعام ( كھانا كھلانا): _ كے احكام ۲/ ۸۳ نيز ر_ك سائلين ، مساكين

اطمينان : ر_ ك سعادت /اعتدال: _ كى اہميت ۲/ ۱۹۵

اعتراف ر_ ك اقرار : اقرار اسلام كے _ كے آثا ر ۲/ ۱۰۴ ايمان كا _ ۲/ ۱۳۷ پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كا _ ۲/ ۷۶ اللہ تعالى كى ربوبيت كا _ ۲/ ۱۳۷ _اللہ تعالى كى مالكيت كا _۲/۱۵۶ _موت كا ۲/ ۱۵۶ نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، علمائے اہل كتاب ، ملائكہ ، يہود

اعتكاف : _ ميں ہمبسترى ۲/ ۱۸۷ _ كے احكام ۲/ ۱۸۷_ دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں ۲/ ۱۲۵_ كعبہ ميں ۲/ ۱۲۵ مسجد ميں _ ۲/ ۱۸۷ _ كى اہميت ۲/ ۱۸۷_ ميں روزہ ۲/ ۱۸۷_ كى شرائط ۲/ ۱۸۷ _كى جگہ ۲/ ۱۸۷_

اعداد: چاليس كا عدد ۲/ ۵۱ بارہ كا عدد ۲/ ۶۰ ہزار كا عدد ۲/ ۹۶

افتا( فتوى دينا ) : بغير علم كے _ كى حرمت ۲/ ۱۶۹ _ كى شرائط ۲/ ۱۶۹

افتر ا( جھوٹ باندھنا ) : اللہ تعالى پر _ سے اجتناب ۲/ ۸۰ اللہ تعالى پر _

۶۹۲

۲/ ۸۰ ، ۱۱۶ ، ۱۶۹_ كى تشويق ۲/ ۱۶۹ اللہ تعالى پر _ كا منبع ۲/ ۶۷ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ، تورات ، تہمت ، عيسائي ، مشركين، حضرت موسىعليه‌السلام اور يہود

افساد(فساد و تباہى پھيلانا): _ كے آثار ۲/ ۲۷ ، ۱۹۱ جادو كے ذريعے _ ۲/ ۱۰۲ زمين پر _ ۲/ ۲۷،۶۰_ كا جرم ۲/ ۱۹۱ _ كى حرمت ۲/ ۶۰ زمين پر _ كى حرمت ۲/ ۲۷ _ كو جڑ سے اكھاڑنا ۲/ ۱۹۱ ، ۱۹۳ _ كى سزا ۲/۱۱ _ كے موارد۲/۳۰ ، ۶۰ ، ۱۶۰ ، ۱۹۱ _ سے ممانعت ۲/۶۰ نيز ر_ ك انسان، بنى اسرائيل ،جنات، فساد، كفار ، مشركين مكہ ، منافقين

اقتصاد: اقتصادى توازن كى اہميت ۲/۶۰ اقتصادى رونق كى اہميت ۲/ ۱۲۶ اقتصادى تفاوت ۲/۱۷۷_ كى تقويت ۲/ ۱۱۰ نيز ر_ك اسلام، معاشرہ ، مكہ ، يہوديت

اللہ ( لفظ جلالہ): _كى خصوصيات ۱/۱

الوہيت : _ كے معيارات ۲/ ۵۴

امامت : _ اور ظلم ۲/ ۱۲۴ _ كى اہميت ۲/ ۲۵ مقام و درجہ _ كى اہميت ۲/ ۱۲۴ _ كى خواہش و درخواست ۲ / ۱۲۴ _ كى شرائط ۲/ ۱۲۴ _ ميں عصمت ۲/ ۱۲۴ _ كا درجہ و عظمت ۲/ ۱۲۴ _ كا سرچشمہ ۲/۱۲۴ نيز ر_ ك آئمہعليه‌السلام ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، رہبري

امام على عليہ السلام : _ كى راہ ۱/ ۶ _ كے دشمنوں كا انجام ۲/۱۶۷ /امام مہدى عليہ السلام : ر_ ك ايمان

امتحان : _ كا ذريعہ ۲/ ۴۹ ، ۱۰۲ ، ۱۲۴ ، ۱۴۳ ، ۱۵۵ تكليف شرعى كے ذريعے_ ۲/۱۵۵ مالى نقصان كے ذريعے _۲/۱۵۵ سختى كے ذريعے _ ۲/۴۹ شہداء كے ذريعے _ ۲/۱۵۵ پيداوار كى كمى كے ذريعے ۲/ ۱۵۵ نعمت سے ۲/ ۴۹ _ كے ذرائع كا مختلف ہونا ۲/ ۱۵۵ _ كا فلسفہ ۲/۴۹ ، ۱۲۴_ نيز ر_ ك انسان، بنى اسرائيل، جامعہ دينى (دينى معاشرہ ) خدا تعالى ، ذكر، سنتہاى خدا (الہى سنتيں )، مومنين ، مسلمان

امتيں : امت وسط ۲/ ۱۴۳ _ قيامت ميں ۲/ ۱۱۳ عبادت گزار _۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ صاحب ايمان _۲/ ۶۲ _ كى اطاعت ۲/ ۱۲۹ بہترين _ ۲/۶۲ _ كا اجر ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كى دليل۲/ ۱۴۳ _ كى زندگى ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كے انحراف كى بنياديں فراہم ہونا ۲/ ۵۱ ، ۹۲ _ كا تشخص ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ امت وسط كى گواہى ۲/ ۱۴۳ _ كى موت ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ ، امت وسط كے درجات ۲/ ۱۴۳ _ كى فضيلت كے معيارات ۲/ ۱۴۸

امر بہ معروف: كى اہميت ۲/ ۸۳_ كى شرائط ۲/۴۴ نيز ر_ ك امر بہ معروف كرنے والے، بنى اسرائيل ، معروف

۶۹۳

امنيت ( امن و امان ) : _ كى اہميت ۲/ ۱۲۶ _ كى نعمت ۲/۱۲۵

نيز ر_ ك اديان ،انسان ، كعبہ ، مومنين، مكہ ، مہتدين (ہدايت يافتہ لوگ) /اموال عمومى : _ ميں تصرف ۲/ ۱۸۸

امور: تعجب آور_ ۲/ ۲۸ ، ۲۹ ، ۶۴ ، ۸۳ ، ۱۰۵ ، ۱۷۵، نامعقول _ ۲/۲۹ ، ۱۱۸ تدبير _ كا سرچشمہ ۲/ ۱۰۷ تقدير _ كا منبع ۲/ ۱۸۷ //اميدوارى ( پر اميد ہونا ) : _ كے آثار ۲/ ۱۸۶ اخروى اجركى _۱/۵ رحمت الہى كى _۱/۵ نيز ر_ ك عمل ، مسلمان //انانيت: _ سے اجتناب ۱/۵

انجام : _شوم ۲/۶۵ ، ۶۶ ، ۱۱۹ ، ۱۲۶

اولاد : _كى دينى تربيت ۲/۱۳۲ ،۱۳۳ ، كى تربيت ۲/۱۲۹ _ كى تعليم ۲/۱۲۹ _ كے لئے دعا ۲/۱۲۹ _كے رجحانات ۲/۱۳۳ _كى ذمہ دارى كا دائرہ ۲/۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كى ذمہ دارى ۲/۱۸۰ فرصت طلبي: ر_ ك منافقين

انبياءعليه‌السلام : _ كى بعثت كے آثار ۲/ ۱۲۹ _ كو جھٹلانے كے آثار ۲/۵۵ ، ۶۱ _ كى غيبت كے آثار ۲/۵۱ ، ۹۲ ، قتل _ كے آثار ۲/ ۶۱_ كى رحلت كے آثار ۲/ ۱۳۳ _ كى تعليمات كے اركان ۲/ ۱۲۶_ اور لوگوں كا تمسخر اڑانا ۲/ ۶۷_ اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۲/ ۶۷ _ اور جاہلانہ عمل ۲/ ۶۷ _ اور ملائكہ ۲/ ۹۸ اولوالعزم_۲/۵۳ ، ۸۷ حضرت موسىعليه‌السلام كے مابعد انبياءعليه‌السلام ۲/ ۸۷_ كے اہداف ۲/ ۱۲۹ _ كى جبرئيلعليه‌السلام پر فضيلت ۲/ ۹۸ _ كى ميكائيلعليه‌السلام پر فضيلت ۲/ ۹۸ _ كا بشر ہونا ۲/ ۱۲۹ ،۱۵۱ _ كى بعثت ۲/ ۹۰، ۱۲۹ _ كى بصيرت ۲/ ۱۲۹ پيامبرعليه‌السلام جس كے لئے حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے دعا كى ۲/ ۱۲۹پيامبرعليه‌السلام جس كے لئے حضرت اسماعيلعليه‌السلام نے دعا كى ۲/ ۱۲۹ اديان ميں پيامبرعليه‌السلام موعود ۲/ ۱۵۰ _ كى تاريخ ۲/ ۸۷ ، ۹۱ ، ۱۰۸ _ كى تبليغ ۲/ ۶۷ ، ۱۳۳ تاريخ _ ميں تحريف ۲/۱۴۰ _ پر اللہ تعالى كا فضل و كرم ۲/ ۹۰ _ كا منزہ ہونا ۲/ ۶۷ _ كى حقانيت ۲/ ۱۱۸ _ كا خواستگاہ ۲/ ۱۵۱ _ سے رشتہ دارى ۲/ ۱۴۱ _ كا دين ۲/ ۱۴۰ _ كا راستہ ۱/۶ _ كا روزہ ۲/ ۱۸۳ _ كى صفات ۲/ ۶۷ _ كى عبوديت ۲/ ۹۰ _ كى عصمت ۲/ ۶۷ كے رجحانات ۲/ ۱۳۲ _ كا علم ۲/ ۸۷ _ كے جھٹلانے كے عوامل ۲/۸۷ قتل _ كے عوامل ۲/ ۸۷ _كے فضائل ۲/ ۳۰ ، ۹۸ _ كے قاتل ۲/ ۶۱ _كا قتل ۲/ ۸۷ ، ۹۱،۹۹ _ كے دشمنوں كا كفر ۲ /۹۸ _كو جھٹلانے كى سزا ۲/ ۵۵ _ كا انتخاب ۲/ ۹۰ _ كو جھٹلانے كا گناہ ۲/ ۵۵ _ پر ايمان لانے والے ۲/۵ _ كى رحلت ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱_ كے دشمنوں كا مشابہ ہونا۲ /۱۱۸ _ كے درجات ۲/ ۹۸ _ كى نبوت كا سرچشمہ ۲/ ۹۰ _ پر نزول وحى ۲/ ۱۴۴ _ كى نسل ۲/ ۱۴۱ _ كى نعمت ۲/ ۱۲۹ ، ۱۵۱ _ كى تربيتى خصوصيات ۲/۱۳۳ _ كى ہم آہنگى ۲/

۶۹۴

۱۷۷ نيز ر_ ك احتجاج ( بحث و مجادلہ) ، اطاعت، ايمان، بنى اسرائيل ، خويشاوندى (رشتہ داري) رسولانعليه‌السلام خداوند( انبيائے الہىعليه‌السلام ) كفار، كفر ، يہود، ہرنبىعليه‌السلام _

انتقام : پسنديدہ_ ۲/ ۵۰ مظلوم كے سامنے _۲/ ۵۰ _ ميں عدل ۲/ ۱۹۰

نيز ر_ ك انسان، دشمن،ظالمين ، قيامت ، مشركين

انجيل: _ كى اتباع كے آثار ۲/ ۱۲۱ _ كى تلاوت كے آثار ۲/ ۱۲۱ _ اور قرآن كريم ۲/ ۴۴_ كى بشارتيں ۲/ ۱۲۱ ، ۱۴۶ _ كے پيروكار ۲/ ۱۲۱ _ كى تصديق ۲/ ۱۱۳ _ كى تعليمات ۲/ ۴۴ ، ۱۴۶ ، ۱۵۹ _ كى حقانيت كے دلائل ۲/۴۱ _ كے بعض حصول پر پردہ ڈالنا ۲/ ۱۷۴ _ كى مخالفت ۲/ ۱۱۳ _ كى اہميت ۲/ ۱۱۳ _كا وحى ہونا۲ /۱۷۶ _ كا ہدايت كرنا ۲/ ۱۱۳

نيز ر_ ك اسلام ، ايمان، تورات، قبلہ ، قرآن كريم ، پيامبر اسلام (ص) ،عيسائي_ يہود

انحراف: _ كا تدريجى ہونا ۲/ ۱۶۸ _ كا خطرہ ۲/ ۱۰۱ _ كى زمين فراہم ہونا ۲/ ۱۶۸ _ كے عوامل ۲/ ۱۶۸ _ كے موارد ۲/ ۱۰۸ ، ۱۲۰_ كے موانع ۱/۷ /نيز ر_ ك اديان، امتيں ، بنى اسرائيل ، مسلمان، عيسائي ، عيسائيت ، يہود ، يہوديت

انحراف جنسي: _ كے موانع ۲/ ۱۸۷ /انحصار طلبى : ر _ ك اہل كتاب ، عيسائي ، يہود

انحطاط : _ كے عوامل ۲/ ۶۴ نيز ر _ ك انسان

انسان: انسانى كمال كے آثار۲/۳۰_ عمل سے آگاہى ۲/ ۱۴۴ ، ۱۴۹ _ كى نيتوں سے آگاہى ۲/ ۱۴۴_ كے اخروى احساسات ۲/ ۱۶۷ _ كا اختيار ۱/۵ ، ۲/ ۳۵ ، ۱۹۵ _ كا تكوينى اختيار ۲/ ۵۳ _ كا ادراك ۲/ ۳۱ _ كى قدر و قيمت ۲/ ۱۰۲ انسانوں كى زندگى كى قدر و قيمت ۲/ ۱۷۹ _ كى صلاحيتيں ۲/۳۰ ، ۳۱ _ كا زمين پر قيام ۲/ ۳۶ _ كا فريب قبول كرنا ۲/ ۳۶ ، ۱۶۸ _ كا فساد و تباہى پھيلانا۲ /۳۰ انسانوں كى اقسام ۱/۷_ كا امتحان ۲/ ۴۹ _ كى مدد ۱/۶ انسانوں كا امن و امان ۲/ ۱۲۶ _ كا اخروى انتقام ۲/ ۱۶۷_خلقت سے ماقبل ۲/ ۲۸ _ قيامت ميں ۲/ ۴۸ ، ۱۴۸ حضرت آدمعليه‌السلام سے ماقبل كا_ ۲/ ۳۰ انسانوں كو تعليم دينے كى اہميت ۲/ ۱۵۱ _ كى ملائكہ پر برترى ۲ /۳۰ _ كى موجودات پر فضيلت ۲/ ۲۹ _ كى بے صبرى ۲/ ۶۱ _ كى بينائي ۲/۱۷۱ انسانى تاريخ ۲/ ۳۰ انسانى مصلحتوں كى تكميل ۲/ ۳۵ ، ۶۱ انسانوں كے حقوق پر تجاوز ۲/ ۶۰_ كے امور كى تدبير ۲/ ۱۰۷ _ كا تزكيہ ۲/ ۱۵۱ _ كى تعليم ۲/ ۱۵۱ _ كى شرعى تكاليف ۲/ ۹۳ ، ۱۲۵ ، ۱۵۹ _ كا تنوع طلب ہونا ۲/ ۶۱ _ كا اخروى توشہ ۲/۱۱۰ _ كے عمل كا تحرير ہونا ۲/ ۱۵۲ _ كى اخروى حسرت ۲/ ۱۶۷ انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا ۲ /۱۴۸ انسانوں كے حقوق ۲/ ۲۲،۲۹،۸۴ ،۱۲۵، ۱۶۸،۱۷۷ _

۶۹۵

كى حقيقت ۲/ ۱۸۹ انسانى حواس ۲/۱۷۱ _ كى اخروى زندگى ۲/۲۸_ كى دنياوى زندگى ۲ /۲۸ _ كا خالق ۲/ ۲۱ ، ۵۴ انسانوں كى خداشناسى ۲/ ۱۰۶ ، ۱۰۷ _ كى خلافت ۲/ ۳۰ ، ۳۲ _ كى خلقت ۲/ ۳۰ ، ۳۲ _ كى خواہشات ۱/۵ _ كى معنوى خواہشات ۲/ ۱۲۸ _ كى خون ريزى ۲/ ۳۰ _ كے دشمن ۲/ ۳۶،۱۶۸،۱۶۹_ كى دشمنى ۲/۳۶ انسانوں كے راز ۲/۸،۹،۷۲،۷۷ انسانوں كا رزق ۲/۳ ، ۲۲ ، ۱۲۶ ، ۱۷۲ انسانوں كا رہبر ۲/ ۱۲۴ _ كا سرمايہ ۲/۸۶ _ كى تقدير ۲/۵۰ ، ۱۸۷ ، ۱۸۹ _ كى شنوائي ۲/۱۷۱_ كى صفات ۲/۱۶۸،۱۹۵ _ كى درجہ بندى ۲/ ۸ _ كا عجز ۱/۵ ، ۶ ، ۲/۲۴ ، ۱۲۸ _ كا عمل ۲/۷۴، ۸۵،۱۱۰،۱۴۰ قيامت ميں _ كا عمل ۲/ ۱۶۷ _ كا خفيہ عمل ۲/۱۸۷_ كى دشمنى كے اسباب ۲/ ۳۶ _كے ساتھ اللہ تعالى كا عہد و پيمان ۲/ ۲۷ ، ۴۰ ، ۶۴،۸۳ ، ۹۳،۱۲۵_ كا اخروى انجام ۲/۹۵ _ كا انجام ۲/ ۲۸ ، ۴۶،۴۸ ، ۱۵۶ _ كے فضائل ۲/ ۲۹ ، ۳۰ _ كى طاقت ۲/۸۸ _ كا كمال ۲/ ۳۰ ، ۳۱ ، ۵۶ _ كى خلافت كا فلسفہ ۲/ ۳۱ _ كى خلقت كا فلسفہ ۲/ ۲۱ ، ۳۰ _كے رجحانات ۲/۶۱ اللہ تعالى كى انسانوں سے گفتگو ۲/ ۱۱۸ انسانوں كا گواہ ۲/ ۱۴۳ _ كا مالك ۲/ ۱۵۶ _ كا آغاز (مبدائ) ۲/۱۵۶ ، ۱۵۷ _ كى موت ۲/ ۱۳۴ ، ۱۴۱ _ كے انحطاط كے درجات ۲/۷۴ انسانوں كے عمل كا ذمہ دار ۲/ ۱۱۹ انسانوں كى ذمہ دارى ۲/۳ ، ۲۱ ، ۴۰ ، ۵۶ ، ۵۷ ، ۷۸ ، ۱۲۱ ، ۱۲۴ ، ۱۳۳ ، ۱۳۶ ، ۱۶۱ ، ۱۶۸ ، ۱۸۳ _ كا مسكن (جائے قيام )۲/۳۶ انسانوں كى فكرى مشابہت ۲/ ۱۱۸_ كى مصلحتيں ۲/۵۴ ، ۱۸۴، انسانوں كا معبود ۲/ ۱۶۳ _ كا معلم (استاد) ۲/ ۳۱ _ كے درجات ۲/ ۳۰ _ كى تباہى كے معيارات ۲/ ۱۰۲ _كے منافع (فوائد) ۲/۱۲۱ ، ۱۳۲ ، ۱۶۴ _كے تدبير امور كا سرچشمہ ۲/۵۰ كى زندگى كا منبع ۲/۲۸ _كى موت كا منبع ۲/ ۲۸_ كى ضروريات ۱/۵ ، ۶ ، ۲/۳۵ ، ۱۲۷ ، ۱۸۷_ كى معنوى ضروريات ۲/ ۳۸ _كى نصرت ۲/۱۰۷_ كا سرپرست ۲/۱۰۷_ كى خصوصيات ۲/ ۳۰ ، ۳۱ _كى ہدايت ۱/۶ ، ۲/۵۳ ، ۱۴۲ ، ۱۴۳، ۱۵۱ ، ۱۸۵_ كا ياور و مددگار ۲/۱۰۷ نيز ر_ ك گناہ ، ملائكہ

انفاق ( خرچ كرنا ) : _ كے آثار ۲/ ۱۹۵ _ كے تسلسل كے آثار و اثرات۲/ ۳ _ كے ترك كرنے كے آثار ۲/ ۱۹۵ _ كے آداب ۲/ ۱۷۷ ، ۱۹۵_ كى قدر و قيمت ۲/ ۱۹۵ _ميں توازن ۲/ ۱۵۵ ، ۱۹۵ اللہ كى راہ ميں _ ۲/ ۱۷۷ ، ۱۹۵_ ميں ترجيح ۲/۱۷۷ _ كى اہميت ۲/ ۳ ، ۱۷۷ ، ۱۹۵ _ ميں تسلسل كى اہميت ۲/۳ _كى تشويق ۲/ ۱۸۴_ ميں رضايت ۲/۱۷۷ _كى آمادگى ۲/۳ _ كا دائرہ ۲/۳ ، ۱۹۵_ كے مصارف ۲/۱۷۷ _كے موانع ۲/۱۷۷_ //نيز ر_ ك انفاق كرنے والے، خويشاوندان (رشتہ دار) متقين اور نيك لوگ _ //انفاق كرنے والوں : _ كى ہدايت ۲/۵ _ كى تربيت ۲/۳ /( اطاعت):

۶۹۶

ر_ك آفرينش ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، اطاعت ،تسليم ، ملائكہ ، موجودات ، مہتدين ( ہدايت يافتہ لوگ ) حضرت يعقوبعليه‌السلام _

اوصياءعليه‌السلام : _ كا علم ۲/ ۸۷ /اولوا الالباب( صاحبان عقل): _كے ادراك كى قوت ۲/۱۷۹

اہانت: ر _ ك پيامبر اسلام (ص) ، مقدسات /اہل ايلہ: _كا مسخ ہونا ۲/ ۶۶

اہل بيتعليه‌السلام : _ كى عزت و تكريم ۲/۳۴ _ كے فضائل ۱/۷،۲/۳۴ ، ۳۷ نيز ر _ ك آئمہعليه‌السلام

اہل ذمہ : _ كے احكام ۲/۱۱۴ _ سے تعلقات كى روش ۲/۸۳

اہل عذاب : ر _ ك عذاب

اہل كتاب : _كے ساتھ الجھنے سے اجتناب ۲/۱۰۹ _ كا احتجاج (بحث و مجادلہ ) ۲/۱۳۹ _ كا اختلاف ۲/۱۱۳_ كے دعوے ۲/۱۱۲ _ كا كتاب خدا سے منہ موڑنا ۲/۱۰۱ _ كى انحصار طلبى ۲/۱۱۱، ۱۱۲_ صدر اسلام ميں ۲/۱۰۹ _اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۲/۱۰۹ _ اور بہشت ۲/۱۱۱ ، ۱۱۲_ اور پيامبرعليه‌السلام موعود ۲/۱۴۶_ اور مسلمانوں كا قبلہ ۲/۱۴۵،۱۴۶_ اور حق پر پردہ ڈالنا ۲/۱۴۶_ اور پيامبر اسلام (ص) ۲/۱۴۶ _كى بينش ۲/۱۰۹ _كا پراپيگنڈہ ۲/۱۰۹ _ اور مسلمان ۲/ ۱۰۹ ، ۱۳۹ _ اور صدر اسلام كے مسلمان ۲/۱۰۹_اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۲/۱۴۶ _ كا پروردگار ۲/۱۳۹ _ كا تحريف كرنا ۲/ ۱۰۱ _ كى توحيد ۲/ ۱۳۹ _ كى سازش ۲/۱۰۹ _ كے سازشى لوگ ۲/ ۱۰۹ _اہل كتاب كى دھمكى ۲/۱۰۹ ، ۱۴۴ _ كى سازش سے چشم پوشى ۲/۱۰۹ _ كا حسد ۲/ ۱۰۹ _ كا حق كو قبول نہ كرنا ۲/ ۱۴۵ _ كى دشمنى ۲/ ۱۰۵ _ كى بخشش ۲/ ۱۰۹ كا عقيدہ ۲/ ۱۱۱ _ كے رجحانات ۲/ ۱۰۹ _ كى دشمنى كے اسباب ۲/۱۷۶_ كے ساتھ اللہ تعالى كا عہد و پيمان ۲/۱۰۱ _كا كفر ۲/ ۱۰۵ ، ۱۳۷ _ كى ضد اور ہٹ دھرمى ۲/ ۱۴۵ _ سے نبرد آمائي ۲/ ۱۰۹ _ كے ساتھ نرم رويہ ۲/ ۱۰۹ _ كى ذمہ دارى ۲/۱۴۵_ نيز _ ر _ك علمائے اہل كتاب، قبلہ ، پيامبرا سلام (ص) عيسائي ،مشركين يہود_

اہل يقين ر_ ك يقين ابڈپالوجى ر_ ك جہان بيني

ايمان : _كے اخروى آثار ۲/ ۶۲_ كے آثار ۲/ ۴، ۵، ۲۱، ۲۹، ۷۷،۹۳،۱۰۳،۱۵۷،۱۸۱،۱۸۳،۱۹۲، انبياءعليه‌السلام پر _كے آثار ۲/ ۱۳۷ انجيل پر _ كے آثار ۲/ ۴۱ توحيد عبادى پر _ كے آثار۲/۱۶۳ تورات پر _ كے آثار ۲/ ۴۱ حشرپہ _ كے آثار ۲/ ۱۴۸ اللہ تعالى پر كے آثار۱/۵ ، ۲/ ۶۲ ، ۱۳۷ ، ۱۸۶ دين پر كے آثار۲/ ۴۴ ، اللہ تعالى كى رحمت پر _ كے آثار۲/ ۳۷ علم الہى پر _ كے آثار۱ ۲/ ۸۵ قدرت الہى پر _ كے آثار ۲/ ۱۶۵، ۱۸۶ قرآن

۶۹۷

كريم پر_ كے آثار ۲/ ۲۴ ، ۴۱ ، ۴۵ ، ۴۸ ، ۱۲۱ ، ۱۲۳ ، تقرب الہى پر _كے آثار ۲/ ۱۸۶ قيامت پر _ كے آثار ۲/ ۶۲ ، ۱۴۸ آسمانى كتابوں پر _ كے آثار۲/ ۴۱ ، ۱۳۷ لقاء الہى پہ _كے آثار ۲/ ۴۶ پيامبر اسلام (ص) پر _ كے آثار ۲/ ۲۴ ، ۱۲۱ ، ۱۲۳ ، ۱۵۳ _ كا فقط اظہار كرنے كے آثار ۲/ ۱۷_ ميں اختيار ۲/۸۸ پيامبر اسلام (ص) پہ _ كى اہميت ۲/ ۱۰۹_ ميں استقامت ۲/ ۱۴۵ _كى اہميت ۲/ ۲۴ ، ۶۲ ، ۱۰۳ ، ۱۲۴ آخرت پہ _ كى اہميت ۲/ ۴ ، ۱۷۷ اسلام پر _ كى اہميت ۲/ ۹۱ انجيل پہ _ كى اہميت ۲/ ۱۳۶ تورات پہ _ كى اہميت ۲/ ۱۳۶ اللہ تعالى پر _ كى اہميت ۲/ ۱۳۶ ،۱۷۷ غيبت پہ ايمان كى اہميت ۲/ ۳ قرآن كريم پہ_ كى اہميت ۲/ ۹۱ ، ۱۳۶ آسمانى كتابوں پہ _ كى اہميت ۲/ ۱۳۶ _ كى حفاظت كى اہميت ۲/ ۱۷۷ _ كے لئے آمادگى پيدا كرنا ۲/ ۷۸ ، ۸۰ آخرت پہ_ ۲/ ۴ ، ۱۰۲ ، ۱۷۷ ، آيات الہى پہ ايمان ۲/۱۰۸ دعا كى قبوليت پہ _۲/۱۸۶ اديان پر_۲/۴ اسلام پہ _ ۲/۴ ، ۴۴ ، ۸۸ انبياء پر _ ۲/۴ ، ۶۲،۹۱ ، ۹۳، ۱۳۶ ، ۱۳۸ ، ۱۷۷ ، كے انبياءعليه‌السلام اسباط پر _۲/ ۱۳۶ اللہ تعالى كى طرف بازگشت پہ_ ۲/۱۵۷ قرآن كريم كے بعض حصے پہ _ ۲/ ۸۵ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تعليمات پہ _۲/ ۱۳۶ اسباط كى تعليمات پہ _ ۲/ ۱۳۶ حضرت اسحاق كى تعليمات پہ _ ۲/۱۳۶ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى تعليمات پہ ۲/ ۱۳۶ انبياءعليه‌السلام كى تعليمات پہ _۲/ ۴ ، ۱۳۶ ، ۱۳۸ حضرت عيسىعليه‌السلام كى تعليمات پہ _۲/ ۱۳۶ پيامبر اسلام (ص) كى تعليمات پہ_ ۲/۴ حضرت موسىعليه‌السلام كى تعليمات پہ_ ۲/۱۳۶ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تعليمات پہ_ ۲/ ۱۳۶ توحيد پہ_ ۱/۵ ، ۲/۲۸ ، ۱۳۹ ، اللہ تعالى كى خالقيت پہ_ ۲/ ۲۱ اللہ تعالى پہ _ ۱/۵ ، ۶، ۲/۳ ، ۴،۶،۸،۶۲،۱۲۶،۱۳۶ ، ۱۷۷ ، ۱۸۶ ، دين پہ _ ۲/۴،۵،۱۰۸ اللہ تعالى كى ربوبيت پر_ ۱/۵ ۲/ ۲۱ ، ۱۳۱_ اللہ تعالى كى رحمت پہ_ ۱/۵ اللہ تعالى كى صفات پہ_ ۱/۵، ۶ علم الہى پہ _ ۲/ ۲۹ ، ۷۷،۱۸۱ غيب پہ_ ۲/۳ ، ۴ اللہ تعالى كى قدرت پہ_ ۲/۲۹ ، ۱۰۷ ، ۱۸۶ قرآن كريم پہ_ ۲/ ۴ ، ۲۴ ، ۴۱ ، ۴۴ ، ۱۰۳ ، ۱۲۱ ، ۱۳۶ ، ۱۳۸ ، تقرب الہى پہ_ ۲/ ۱۸۶ امام مہدىعليه‌السلام كے قيام پہ ۲/۳ قيامت پہ_ ۲/ ۶ ، ۸ ، ۶۲ ، ۱۲۶ ، ۱۷۷ آسمانى كتابوں پہ_ ۲/ ۴ ، ۹۱ ، ۹۳ ، ۱۲۱ ، ۱۳۶ ، ۱۷۷ ، اللہ تعالى كى مالكيت پہ_ ۱/۵ ، ۲/۱۵۶ پيامبر اسلامعليه‌السلام پہ _ ۲/۱۳ ، ۲۴ ، ۸۸، ۱۰۱ ، ۱۰۳ ، ۱۲۱ ملائكہ پہ _ ۲/ ۱۷۷ اللہ تعالى كى نظارت پہ_ ۲/ ۱۱۰ تقوى كے بغير

۶۹۸

۲/ ۱۰۳بغير عمل كے ۲/ ۳ ، ۱۰۲ عمل صالح كے بغير ۲/ ۲۵ ، ۶۲ ، ۸۲ _ اور عمل ۲ /۱۸۶ _ اور ناپسنديدہ عمل ۲/ ۹۳ قرآن كريم پہ _ كا اجر ۲/ ۲۵ پيامبر اسلام (ص) پہ _ كا اجر ۲/ ۲۵ _ ميں ة تبعيض ۲/ ۱۳۶ _ ميں ثابت قدم لوگ ۲/ ۱۷۷ _ كى دعوت ۲/ ۲۴ قرآن كريم پہ _ كے دلائل ۲/۹۱ توحيد پہ_ كى آمادگى ۲/ ۲۲ ، ۱۶۴ اللہ تعالى پر _ كى آمادگى ۲/ ۱۸۶ اللہ تعالى كى رحمانيت پہ _ كى آمادگى ۲/ ۱۶۴ اللہ تعالى كى رحيميت پہ _ كى آمادگى ۲/ ۱۶۴ قرآن كريم پہ _ كى آمادگى ۲/۱۲۳ پيامبر اسلام (ص) پہ _ كى آمادگى ۲/ ۱۲۲ ، ۱۲۳ _ كے زائل ہونے كے اسباب ۲/۹۹ _ كى سختياں ۲/ ۱۵۴ ، ۱۵۵ ، ۱۵۶ ، ۱۵۷_ ميں صداقت ۲/ ۱۳ ، ۱۷۷ _ كے عوامل۲ / ۲۸ قرآن كريم پہ _ كے اسباب ۲/ ۴۱ ، ۱۲۱ ، پيامبر اسلام (ص) پہ _كے اسباب ۲/ ۱۲۱قبوليت_ ۲/۱۹۲_كے متعلقات ۱/۵ ، ۶، ۲/۳ ، ۴،۵، ۶،۸، ۱۳ ، ۲۱ ، ۲۴ ، ۲۸ ، ۲۹ ، ۱ ۴،۴۴، ۶۲، ۷۷، ۸۵،۸۸، ۹۱،۹۳ ، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۳ ، ۱۰۷،۱۰۸، ۱۱۰ ، ۱۲۱ ، ۱۲۶ ، ۱۳۱ ،۱۳۶ ، ۱۳۸ ، ۱۳۹ ، ۱۵۷ ،

۱۷۷ ، ۱۸۱ ، ۱۸۶ _ سے محروم لوگ ۲/۱۷ _ كے جھوٹے دعوے دار ۲/۸ اسلام پہ_ سے ممانعت ۲/۷۵ آسمانى كتابوں پہ _ سے ممانعت ۲/ ۱۶۰ _ كى راہ ميں ركاوٹيں ۲/۶،۷۵ ، ۹۹،۱۰۳ _ كے موجبات ۲/ ۱۲۱ _ كى علامتيں ۲/۱۲۱ ، ۱۴۳ ، ۱۷۷ ، آسمانى كتابوں پہ _ كى علامتيں ۲/۸۵ بے ايمانى كى علامتيں ۲/ ۸۵ ، ۱۶۵ نور _۲/۱۷

۶۹۹

ب

بابل: اہل _ اور جادو ۲/ ۱۰۲ _ ميں جادو كى تعليم ۲/ ۱۰۲ نيز ر_ ك ماروت ، ملائكہ ، ہاروت

باد ( ہوا ) : _ كا چلنا ۲/ ۱۶۴

بادل: بارش برسانے والے ۲ / ۱۶۴ _كا مسخر كيا جانا ۲ / ۱۶۴ _كا سايہ ۲ / ۵۷ _كے فوائد ۲ / ۲۲_

باران ( بارش): _ كا برسنا ۲/ ۲۲ _ كے فوائد ۲/ ۲۲ ، ۱۶۴ _ كا منبع ۲/ ۲۲ ، ۱۶۴ نيز ر_ ك تشبيہات

بازگشت بہ خدا ( اللہ تعالى كى طرف بازگشت ) : ۲/۲۸ ، ۴۶ ، ۵۴ ، ۱۵۶

باطل: _ كى تشخيص كے معيارات ۲/۱۸۵ نيزر_ ك حق ، باطل معبود

باغى : ر_ ك اضطرار

بت پرستى : سے معركہ آرائي ۲/ ۱۷۳

بت: بتوں كى قربانى كا خبائث ميں سے ہونا ۲/۱۷۳ بتوں كى قربانى ۲/ ۱۷۳_

بدائ: ر_ك خدا تعالى

بدعت: _ كے آثار ۲/۷۹ _كى تشويق ۲/۱۶۹ _ كا جرم ۲/۷۹ _ كى حرمت ۲/ ۷۹ _ كا عذاب ۲/ ۷۹ _ كے عوامل ۲/ ۱۶۹ _ كى اخروى سزا ۲/ ۸۱_ كا گناہ ۲/ ۷۹ ، ۸۱_

نيز ر_ ك بدعت ايجاد كرنے والے ، علمائے يہود، كسب ( كمائي)

بدعت ايجاد كرنے والے:

_ان كى دنياطلبى ۲/ ۷۹ نيز ر_ ك بدعت، يہود

برائي : _ كا ارتكاب كرنے والے ۲/۱۶۹

برائت : مشرك قائدين سے _۲/۱۶۷ شرك عبادى سے _ ۲/ ۱۳۸ مشرك پيروكاروں سے ۲/۱۶۶

نيز ر_ ك مشركين

برادركشى : _ كے آثار ۲/ ۸۵ _ كا گناہ ۲/ ۸۵ برزخ ر_ ك عالم برزخ

برگزيدگان ( برگزيدہ لوگ) : ۲/۱۳۰ _ قيامت ميں ۲/ ۱۳۰

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785