تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201056 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی

بعض حضرات کا خیال ہے کہ سات حروف سے مراد، امر، زجر، ترغیب، ترھیب، جدل ، قصّے اور مثالیں ہیں۔

اس احتمال پر محمد بن بشارکی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جو ابو قلامہ سے منقول ہے، ابو قلامہ کہتا ہے:

''بلغنی أن النبی قال: انزل القرآن علی سبعة أحرف: أمر، وزجر، و ترغیب، و ترهیب، و جدل، و قصص، و مثل،،

''میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قران سات حروف: امر، زجر، ترغیب، ترہیب، جدل، قصّوں اور مثالوں پر نازل کیا گیا ہے۔،،(۱)

گذشتہ تاویل کے جواب سے اس تاویل کا جواب بھی واضح ہے۔

۴۔ فصیح لغات

بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ سات حروف سے مراد سات فصیح عربی لغات ہیں اور یہ لغتیں قرآن میں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں۔ وہ لغتیں یہ ہےں:

۱۔ لغت قریش۔

۲۔ لغت ہذیل۔

۳۔ لغت ہوازن۔

۴۔ لغت یمن۔

۵۔ لغت کنانہ۔

۶۔ لغت تمیم۔

۷۔ لغت ثقیف۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۴۱

یہ قول علماء کی ایک جماعت سے منسو ب ہے۔جس میں بیہقی ابہری اور صاحب قاموس شامل ہیں۔ اس قول کے بھی چند جواب ہیں:

۱۔ گذشتہ روایات نے سات حروف کے معنی و مفہوم کو بیان کردیا ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معنی مراد لینا مقام و موقع روایت سے سازگار نہیں ہے۔

۲۔ سات حروف سے سات لغات مراد لینا حضرت عمر کی روایت کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے:''نزل القراٰن بلغة مضر،، (۱) یعنی سارا قرآن قبیلہ مضر کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی اس قراءت پر اعتراض کیا جس میں وہ ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھا کرتا تھا اور انہوں نے اس کی طرف یہ بھی لکھ بھیجا کہ قرآن ھذیل کی لغت میں نازل نہیں ہوا۔ ا سلیے لوگوں کو لغت قریش کے مطابق قرآن پڑھایا گرو، لغت ھذیل کے مطابق نہیں۔(۲)

اسی طرح یہ احتمال حضرت عثمان کی روایت سے سازگار نہیں ہے جس مںی وہ قریش کے تین گروہوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اگر قرآن کے بارے میں زید بن ثابت سے تمہارا اختلاف ہو تو اسے قریشی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(۳)

نیز یہ روایت بھی اس قول کے منافی ہے: ''سورۃ فرقان کی قراءت میں حضرت عمر اور ہشام بن حکیم میں اختلاف ہوا۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس جاکر ہشام نے قراءت پڑھی تو آپ نے فرمایا قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے جیسے تو پڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے تلاوت کی۔ آپ نے فرمایا: قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) التبیان، ص ۶۴۔

(۲) ایضاً، ص ۶۵۔

(۳) صحیح بخاری، باب نزل القرآن بلسان قریش، ص ۱۵۶۔

(۴) اس روایت کی طرف گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۴۲

پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قراءت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

۳۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ''قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(۱)

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت

بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:

لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔

____________________

(۱)الاتقان، ج ۱، نوع ۳۷، ص ۲۳۰۔

۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف

سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے: ہم نے قرآن کی قراءتوں کی بنظر غائر دیکھا ہے جو کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں:

۱۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ ان سے حرکت تو بدل جاتی ہے مگر کلمے کا معنی اور صورت نہیں بدلتی جیسے''هن اطهرلکم،، یا''اطهرلکم،، پڑھا جائے۔ یعنی ''ر،، کو پیش اور زبر دیا جائے۔

۲۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ جن میں حرکت بدلنے سے کلمہ کا معنی اور صورت بدل جاتی ہے جیسے ''ربّنا باعد بین اسفارنا،، میں ''باعد،، کو صیغہ امر ''باعد،، اور صیغہ ماضی ''باعد،، پڑھا جائے۔

۳۔ ان کی بعض صورتوں میں کلمے کی صورت تو ویسی ہی رہتی ہے مگر حروف کے اختلاف سے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے ''ننشرھا،، اور ''ننشزھا،، 'را، اور 'زا، کے ساتھ۔

۴۔ بعض میں صورت تو بدل جاتی ہے لیکن اس کامعنی نہیں بدلتا، جیسے ''کالعھن المنفوش،، اور''کالصوف المنفوش،،۔

۵۔ صورت اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں، جیسے ''طلح منضود،، اور ''طلع منضود،،۔

۶۔ ان میں کلمات کو مقدم اور مؤخر کردیا جائے، جیسے ''وجاء ت سکرۃ الموت بالحق،، اور ''وجاء ت سکرۃ الحق بالموت۔،،

۷۔ ان میں کمی بیشی کی جائے، جیسے''تسع و تسعون نعجة انثی،، میں''انثیٰ،، ۔''اما الغلام فکان کافراو کان أبواه مومنین،، میں ''فکان کافرا،، اور ''فان اللہ بعد اکراھھن لھن غفور رحیم۔،، میں ''لھن،، بڑھا دیا گیا ہے۔

۲۴۴

جواب:

۱۔ یہ دعویٰ ہی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور ان روایات میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ قراءتوں کے اختلاف کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

۲۔ ان سات صورتوں میں معنیٰ کے بدلنے اور نہ بدلنے کی دو صورتیں بنائی گئی ہیں حالانکہ معنی کے بدلنے اور نہ بدلنے سے دو قسمیں نہیں بنتیں۔ کیونکہ معنیٰ کے بدلنے سے لفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ قراءتوں میں اختلاف تلفظ کی بنیاد پر ہے نہ کہ معنی کے۔ لہذا ایسی دو قراءتیں، ایک قراءت ہونی چاہیے نہ کہ دو۔ اس طرح قراءتیں چھ بنتی ہیں نہ کہ سات۔ اسی وجہ سے ''طلح منضود،، اور ''کالعھن المنفوش،، ایک ہی قسم شمار ہوگی۔ دو قسمیں نہیں۔

۳۔ ان قسموں میں لفظ کی صورت کے باقی رہنے جیسے۔ ''ننشزھا۔ ننشرھا،، اور باقی نہ رہنے جیسے ''طلح۔طلع،، کو بھی دو قسمیں قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ بھی دو قسمیں نہیں بلکہ ایک قسم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ کتابت میں ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، کی ایک ہی صورت میں لیک تلفظ میں تو مختلف ہے، اس طرح ''طلح،، اور ''طلع،، میں صورت بدلی ہوئی ہے اور ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، میں بھی بدلی ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مکتوب کا نہیں مقرّر (پڑھا جائے) کا نام ہے۔ آسمان سے لفظ نازل ہوا ہے۔ مکتوب ناز نہیں ہوا۔

۴۔ ان سات حروف سے متعلق روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ شروع میں قرآن ایک حرف میں نازل کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ اس واحد حرف سے مراد مذکورہ اختلاف کی قسموں میں سے کوئی قسم نہیں ہوسکتی۔ لہذا باقی چھ قسمیں بھی ان میں سے نہیں ہونگی۔ بنابرایں سات حروف سے مراد سات قراءتیں نہیں ہوسکتیں۔

۵۔ قرآن کی بہت سی آیات اور کلمات پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے اور ان میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔ جب اس اتفاقی قراءت کا ان اخلاقی قراءتوں میں اضافہ کریں گے تو مجموعاً آٹھ قراءتیں بنیں گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن آٹھ حروف میں نازل ہوا ہے۔

۲۴۵

۶۔ گذشتہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاریان قرآن، کلمات قرآن میں اختلاف کرتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ ان کا یہ اختلاف قرآن کے سات حروف میں سے ایک ہی حرف پر تھا۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو یہ عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ان اختلاف کا مطلب ہم یہ لیں کہ جبرئیل نے پہلے قرآن ایک حرف میں نازل کیا پھر دو حرفوں میں اس کے بعد تین میں اور پھر سات حروف میں۔

جزائری نے انصاف سے کام لیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: ''اس مسئلے، یعنی سات حروف میں بہت سے اقوال ہیں اور اکثر اقوال حق سے دور ہیں۔،،

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقوال اختیار کرنے والوں کو خبر ہی نہیں کہ سات حروف سے متعلق روایات کس موقع پر بیان کی گئی ہیں، بس جو دل چاہا کہہ دیا۔(۱)

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

ان روایات کی تفسیر و تاویل میں ساتواں قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قراءتوں میں اختلاف ہے جو گذشتہ اختلاف قراءت سے کچھ مختلف ہے۔

____________________

۱) التبیان، ص ۵۹۔

۲۴۶

اس قول کو زرقانی نے اختیار کیا ہے جسے ابو الفضل رازی نے لوائح میں نقل کیا ہے۔ زرقانی فرماتے ہیں:

''کوئی بھی کلام ہو، اس میں سات قسم کے اختلافات ہوسکتے ہیں:

۱۔ اسموں کا مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے،

۲۔ افعال میں تصریف او گردان کے اعتبار سے، جیسے ماضی ، مضارع اور امر ہے،

۳۔ اعراب اورحرکت کے اعتبار سے،

۴۔ کمی بیشی کے اعتبار سے،

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے،

۶۔ کلمات کے ردّ و بدل کے لحاظ سے، اور

۷۔ لغتوں اورلہجوں کے اعتبار سے جیسے فتح امامہ ترقیق تفخیم اظہار ادغام وغیرہ ہیں۔،،

جواب:

چھٹی تاویل پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے پہلا، چوتھا اور پانچواں اعتراض اس تاویل پر بھی وارد ہوتا ہے ان کے علاوہ اس پر یہ اعتراض بھی آتا ہے کہ اسماء میں۔ افراد تثنیہ کے اعتبار سے۔ اور افعال میں۔ تصریف کے اعتبار سے اختلاف ہیئت کے ذ یل میں آتا ہے۔ اس کو ایک مستقل قسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اس تقسیم میں چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا لحاظ کریں تو تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، ماضی، مضارع اور امر ان سب کو مستقل قرار دینا پڑے گا پھر اس اختلاف کی قسمیں سات سے تجاوز کرجائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک کلمہ میں ادغام، اظہار، روم، اشمام تخفیف اور تسہیل کے بعد بھی ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے، زیادہ نہیں اور بقول زرقارنی، ابن قتیبہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔(۱)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۱۵۴۔

۲۴۷

حق تو یہ ہے کہ قراءت مںی جتنے بھی اختلاف ہوسکتے ہیں ان سب کی بازگشت چھ قسموں کی طرف ہے۔

۱۔ ہیئت و صورت میں اختلاف ہو مادہ (حروف) میں نہیں۔ جیسے ''باعد،، ماضی اور ''باعد،، امر یا ''امانٰتھم،، جمع اور ''امانتھم،، مفرد میں۔

۲۔ مادہئ (کلمہ) حروف مختلف ہوں۔ ھیئت اور صورت نہیں، جیسے ''ننشزھا،، اور ''ننشرھا،، میں۔

۳۔ مادہ اور ہیئت دونوںمیں اختلاف ہو۔ جیسے ''عھن،، اور ''صوف،، میں ہے۔

۴۔ اعراب کی وجہ سے جملے کی ہیئت و صورت میں اختلاف ہو۔ جیسے ''ارجلکم،، اور ''ارجلکم،، میں ہے۔

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال گزر چکی ہے۔

۶۔ کمی اور بیشی کی وجہ سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔

۸۔ اکائیوں کی کثرت

سات حروف کی تاویل میں آٹھواں قول یہ ہے کےہ سات حروف سے سات کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اکائیوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ بنابرایں سات حروف سے مراد حروف کی کثرت ہے۔ جیسا کہ ستر سے دھائیوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے۔ ستر کا عدد نہیں۔ اسی طرح سات سو سے سینکڑوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے، سات سو کا عدد نہیں۔ یہ قول قاضی عیاض اور اس کے پیروکاروں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

جواب:

یہ احتمال گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، بلکہ بعض روایات میں اس احتمال کے خلاف تصریح موجود ہے اس کے علاوہ آٹھویں تاویل گذشتہ سات تاویلات سے الگ کوئی مستقل تاویل نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سات سے مراد اکائیوں کی کثرت ہے، لیکن حروف کا کوئی معنی بیان نہیں کیا گیا۔ لہذا لا محالہ گذشتہ سات معانی میں سے کوئی معنی مراد ہوگا اور سات معنوں پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ اس پر بھی ہوں گے۔

۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں

سات حروف (موضوع بحث) کی نویں تاویل یہ ہے کہ ان سے مراد سات قراءتیں ہیں۔

جواب:

اگر ان سات قراءتوں سے مراد مشہور سات قراءتیں ہیں تو تواتر قرااءات کی بحث میں اس کا بطلان ثابت کیا جاچکا ہے اور اگر سات قراءتوں سے مراد کوئی سی سات قراءتیں ہیں تو قراءتیں صرف سات نہیں ہیں۔

اس تاویل کی یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگرچہ مجموعی طور پر قرآن میں سات سے زیادہ قراءتیں ہیں لیکن اگر ایک ایک کلمہ کو دیکھاجائے تو اس میں سات سے زیادہ قراءتیں نہیں ہیں۔

یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر ان کلمات سے مراد اکثر کلمات ہوں (یعنی ایسے اکثر کلمات جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں) تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت کم کلمات ایسے ہیں جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے چند کلمات مراد ہوں کیونکہ قرآن کے کچھ کلمے ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مثلاً، ''وعبد الطاغوت،، بائیس طریقوں سے پڑھا گیا ہے اور لفظ ''اُفّ،، کو تیس سے زیادہ طریقوں سے پڑھا گیا ہے۔

ان سب کے علاوہ تاویل کی یہ وجہ سات حروف کی روایات کے شان ورود سے بھی ساز گار نہیں ہے۔

۱۰۔ مختلف لہجے

دسویں تاویل یہ ہے کہ روایات میں سے سات حروف سے مراد ایک ہی لفظ کے مختلف لہجے ہیں۔ اس قول کو رافعی نے اپنی کتاب ''اعجاز القرآن،، میں اختیار کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۷۰۔

۲۴۹

اس قول کی وضاحت: کلمات کی ادائیگی میں عرب کی ہر قوم و قبیلے کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ اسی لیے ہم عربوں کو سنتے ہیں کہ وہ ایک ہی لفظ مختلف لہجوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ،یقول کے ''قاف،، کو عراق کے عرب ''گاف،، سے تلفظ کرتے ہیں اور شامی ''ہمزہ،، سے۔ چونکہ تمام قوموں اور قبیلوں کو ایک ہی لہجے کا پابند بنانا جس سے وہ نامانوس ہوں، ایک قسم کی سختی سے اس لیے عربوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر متعدد لہجوں میں ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے اور سات کا خصوصیت سے ذکر کرنے کا مقصد صرف قراءتوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ لہذا قراءتوں کا سات سے زیادہ ہونا سات حروف کی روایات کے منافی نہیں ہے۔

جواب:

اگرچہ یہ تاویل باقی نو تاویلوں کی نسبت بہتر ہے۔ مگر پھر بھی نامکمل اور قابل اشکال ہے۔ کیونکہ:

۱۔ یہ تاویل حضرت عمر اور حضرت عثمان کی روایت سے منافات رکھتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے اور یہ کہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی لغت ہذیل کے مطابق ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھنےسے منع کردیا تھا۔

۲۔ یہ تاویل حضرت عمر اور ہشام کے اختلاف کے بھی منافی ہے کیونکہ دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔

۳۔ یہ تاویل روایت موقع اور شان ورود کے منافی ہے بلکہ بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اختلاف لہجوں یا ادائیگی کی کیفیت کا نہیں ہے بلکہ اصل لفظ کا ہے اور مختلف الفاظ ہی وہ حروف ہیں جن میں قرآن نازل کیا گی اہے۔

۴۔ لفظ ''سات،، سے کثرت مراد لینا، ظاہر روایت کے خلاف ہے بلکہ بعض روایتوں میں موجود صراحت کے خلاف ہے۔

۵۔ اس تاویل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی قرآن کا مختلف لہجوں میں پڑھاجانا صحیح ہو۔ حالانکہ یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت کے خلاف ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے تو مختلف لہجوں میں پڑھنا جائز تھا مگر بعد میں یہ بات منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔

۲۵۰

یہ بھی ممکن کہ مشہور اور ایک لہجے کے مطابق پڑھے جانے پر جو اجماع قطعی و یقینی قائم ہے اس کو نسخ کی دلیل قرار دیا جائے، کیونکہ اس اجماع کا واحد ماءخذ و مدرک یہ ہے کہ قرآن کا مختلف لہجوں میں نازل ہونا ثابت نہیں اور اگر مختلف لہجوں میں قرآن کی قراءت کا جواز ثابت ہو جیسا کہ آخری تاویل میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس اجماع و اتفاق کی بنیاد منہدم ہو جائیگی۔

اس کے علاوہ نسخ کا احتمال اس لیے بھی درست نہیں کہ رسول اسلامؐ کی متعدد بار درخواست پر قرآن سات حروف میں اس غرض سے نازل کیا گیا تاکہ امت کے لئے سہولت رہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سہولت نزول قرآن کے کچھ عرصے تک ہی حاصل رہے اور پھر سلب کرلی جائے اور اس پر اجماع علماء بھی قائم ہو جائے؟

یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امت محمدیؐ پہلے کی نسبت آج کے دور میں زیادہ رعایت و سہولت کی محتاج ہے۔ کیونکہ صدر اسلام میں اسلام کے پیروکاروں کی تعداد کم تھی اور قرآن کے ایک لہجے پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا، لیکن بعد میں یہ کام مشکل ہے۔

سات حروف کے بارے میں اتنے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور باقی اقوال کا ذکر کرنے اور ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں۔

گذشتہ تمام بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا سات حروف میں نازل ہونا کوئی صحیح معنی نہیں رکھتا، لہٰذا ان تمام راویتوں کو جو سات حروف پر دلالت کرتی ہیں رد کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً جب معصومین (علیہم السلام) کی احادیث بھی اس کی تکذیب کریں اور یہ ثابت کریں کہ قرآن صرف ایک حرف میں نازل ہوا ہے اور اختلاف رایوں کاایجاد کردہ ہے۔

۲۵۱

مسئلہ تحریف قرآن

٭ معنوی تحریف کی تعریف

٭ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

٭ نسخ تلاوت

٭ تحریف، قرآن کی نظر میں

٭ تحریف اور سُنّت

٭ نماز میں سورتوں کی اجازت

٭ خلفاء پر تحریف کا الزام

٭ قائلین تحریف کے شبہات

٭ روایاتِ تحریف

٭ روایات کاحقیقی مفہوم

۲۵۲

اس موضوع میں وارد ہونے قبل مناسب ہے کہ کچھ ایسے امور بیان کئے جائیں جن کا اصل مقصد سے تعلق ہے اور مقصد کی تحقیق اور وضاحت کے لیے ان سے بے نیاز نہیں رہا جاسکتا۔

۱۔ معنی تحریف کی تعریف

لفظ تحریف متعدد معنوں میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض معنیٰ میں قرآن میں تحریف بالاتفاق واقع ہوئی ہے اور بعض میں بالاتفاق واقع نہیں ہوئی اور کچھ کے بارے میں اختلاف ہے، اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:(۱)

i ۔ کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ) (۴:۴۶)

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہود سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو باتوں میں ان کے محل و موقع سے ہیر پھیر ڈال دیتے ہیں۔،،

قرآن کریم میں اس معنیٰ میں تحریف واقع ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ حقیقت قرآن کے معنی مقصود کے خلاف تفسیر کرنے کی کوشش کرنا تحریف ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اہل بدعت اور فاسد مذاہب کے پیروکار ہمیشہ قرآن کی تعبیر اپنی آراء اور خواہشات کے مطابق کرکے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس قسم کی تحریف سے شریعت نے بھی

___________________

(۱) ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۶۔

۲۵۳

منع فرمایا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی مذمّت کی ہے۔ چنانچہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے سعد الخیر کے نام اپنے ایک خط میں فرمایا:

''وکان من نبذهم الکتاب أن أقاموا حروفه و حرّفوا حدوده، فهم یروونه ولا یرعونه، والجهال یعجبهم حفظهم للروایة، و العلماء یحزنهم ترکهم للرعایة،، (۱)

''قرآن کو پس پشت ڈالنے کا ان کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے حروف قرآن کو تو قائم رکھا لیکن اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ قرآن کی روایت تو کرتے ہیں لیکن اس کی رعایت نہیں کرتے۔ جہلاء اس کی روایت کے حفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء اس کی رعایت کے ترک سے محزون ہوتے ہیں۔،،

ii ۔ تحریف کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اصل قرآن تو محفوظ ہے لیکن اس کے حروف اور حرکات میں کمی و زیادتی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ساری قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ان قراءتوں میں سے ایک قراءت کے مطابق ہے اور باقی قراءتیں یا زیادتی پر مشتمل ہیں یا ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

iii ۔ تحریف کا ایک معنیٰ یہ لیا جاتا ہے کہ ایک یا دو کلموں کی کمی یا زیادتی ہوئی ہے اور خود اصل قرآن محفوظ ہے۔

اس معنی کے اعتبار سے صدر اسلام اور صحابہ کرام کے دور میں تحریف بنتی ہے اور اس ضمن میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہی کافی ہے کہ حضرت عثمان نے متعدد قراءتوں کو جلا دیا تھا اور انہوں نے اپنے والیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اس قرآن کو جلا ڈالیں جو ان کا جمع کردہ نہیں ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ قرآن حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن سے مختلف تھے ورنہ انہیں جلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ علماء نے وہ مقامات بھی اپنی تحریوں میں بیان کئے ہیں جہاں مختلف قرآنوں میں اختلاف موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن داؤد سبحستانی نے اپنی کتاب ''کتاب المصاحف،، میں تحریر کیا ہے۔ بنابرایں اس قسم کی تحرف حضرت عثمان کی طرف سے یا دوسرے قرآن لکھنے والوں کی طرف سے یقیناً واقع ہوئی تھی۔

____________________

(۱) الوافی، آخر کتاب الصلوٰۃ، ج ۵، ص ۲۷۴۔

۲۵۴

ہم آگے چل کر یہ بات بھی واضح کریں گے کہ حضرت عثمان نے جس قرآن کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا وہ عیناً وہی قرآن تھا جو مسلمانوںمیں رائج تھا اور حضرت رسول کریمؐ کے زمانے سے دست بہ دست ان تک پہنچا تھا۔ اس لیے تحریف زیادتی و کمی کی صورت میں اگر واقع ہوئی ہے تو ان قرآنوں میں واقع ہوئی تھی جو حضرت عثمان کے زمانے کے بعد ختم ہوگئے تھے اور اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، اس میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی۔

مختصر یہ کہ جو لوگ دیگر اصحاب کے مصاحف متواتر نہ ہونے کے قائل ہیں، جیسا کہ صحیح بھی یہی ہے تو اس معنیٰ میں اگرچہ

تحریف صدر اوّل میں واقع ہوئی تھی لیکن حضرت عثمان کے دور کے بعد اس قسم کی تحریف منقطع ہوگئی اور وہی قرآن ہمارے پاس باقی رہ گیا ج ورسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر ثابت ہے۔

جو لوگ تمام قرآنوں کے متواتر ہونے کے قائل ہیں ان کو لامحالہ متنازع فیہ معنیٰ میں تحریف قرآن اور قرآن کے کسی حصّے کے صائع ہونے کا قائل ہونا ہوگا۔ اس سلسلے میں طبری اور دوسرے لوگوں کی تصریح کا ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عثمان نے سات حروف میں سے چھ کو کالعدم کر دیا جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور قرآن کو ایک ہی حرف میں منحصر کردیا۔(۱)

iv ۔ قرآنی آیات اور سورتوں میں کمی و زیادتی واقع ہوئی ہو لیکن پھر بھی رسول کریمؐ پر نازل شدہ قرآن محفوظ ہو اور رسول کریمؐ نے بھی مسلمہ طور پر ان آیات کی تلاوت فرمائی ہو۔

مثلاً بسم اللہ کے بارے میں مسلمانوں نے اتفاق کیا ہے کہ رسول کریمؐ نے سورہ براءت کے علاوہ تمام سورتوں سے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرمائی ہے اس کے باوجود علماء اہلسنت کا اختلاف ہے کہ آیا بسم اللہ قرآن کا حصّہ ہے؟

ان میں سے بعض نے یہی نظریہ اختیار کیا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ مالکی نظریہ یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر نمازی اختلاف سے نکلنے کے لیے اس کو پڑھے مکروہ نہیں ہے۔

____________________

(۱) قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کے باب کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۵۵

ایک اور جماعت کا کہنا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے۔ شیعوں کے نزدیک مسلم ہے کہ بسم اللہ سوائے سورہ توبہ کے باقی سورتوں کی جزء ہے اور یہ قول بعض علماء اہل سنت نے بھی اختیار کیا ہے چنانچہ اس کی تفصیل سورہ فاتحہ کی تفسیر کے دوران بیان کی جائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہ وجاتی ہے کہ قرآن میں (مثلاً بسم اللہ ہی کے بارے میں) کمی یا زیادتی واقع ہوئی ہے۔

v ۔ تحریف کا پانچواں معنی یہ ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے اس کا بعض حصہ قرآن نہیں ہے۔

تحریف کی اس قسم کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ے بلکہ اس کا باطل ہونا بدیہی و آشکار ہے۔

vi ۔ کمی کے اعتبار سے تحریف ہو۔ بایں معنی کہ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے وہ اس سارے قرآن پر مشتمل نہ ہو جو آسمان سے نازل ہوا ہے بلکہ اس کا بعض حصہ لوگوں کے ہاتھ سے ضائع ہوگیا ہو۔

ا س معنی میں تحریف محل بحث ہے۔ بعض اس تحریف کے قائل ہیں اور بعض منکر ہیں۔

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

مسلمانوں میں مشہور قول یہی ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اور جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ وہی مکمل قرآن ہے جو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا ہے۔ بہت سے علماء اعلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ جیسے رئیس المحدثین شیخ صدوق محمد بن بابویہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ عقیدہئ عدم تحریف، عقائد امامیہ کا ایک حصہ ہے۔ انہی علماء میں شیخ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوقی ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر التبیان میں اس کی تصریح فرمائی ہے اور اس قول کو اپنے محترم استاد سید مرتضیٰ علم الہدیٰ سے نقل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدم تحریف پر علم الہدیٰ کی نہایت مضبوط دلیل بھی نقل کی ہے۔

انہی علماء میں مشہو رمفسر طبرسی بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر مجمع البیان کے مقدمے میں ا س کی تصریح فرمائی ہے۔

انہی علماء میں شیخ الفقہا الشیخ جعفر بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ''کشف الغطائ،، میں قرآن پر بحث کے دوران عدم تحریف پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے۔

۲۵۶

انہی علماء میں جلیل القدر علامہ شہشھانی بھی شامل ہیں۔ انہو ںنے اپنی کتاب ''العروۃ الوثقیٰ،، میں قرآن مجید پر بحث کے دوران اسی نظریئے کو اختیار کیا ہے اور اکثر مجتہدین کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے۔

مشہور محّدث مولیٰ محسن کاشانی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی دونو ںکتب(۱) میں اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔

جلیل عالم اور مجاہد شیخ محمد بلاغی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تفسیر ''آلاء الرحمن،، میں یہی فرمایا ہے۔

علماء کی ایک جماعت نے بھی عدم تحریف کا قول بہت سے بزرگ علماء سے نقل کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ المشایخ شیخ مفید، شیخ بہائی، محقق قاضی نور اللہ اور اس پایہ کے دیگر علماء کرام ہیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جس نے بھی امامت کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس سلسلے میں جو ناخوشگوار واقعات تاریخ میں پیش آئے ہیں، ان سب کا ذکر انہوں نے کیا ہے لیکن تحریف قرآن کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہذا اگر ان کا نظریہ تحریف قرآن کا ہوتا تو وہ ضرور اس کا ذکر کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعہ سے کہیں زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے۔

مختصر یہ کہ علماء محققین میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ البتہ شیعوں میں محدثین کی ایک جماعت اور کچھ علمائے اہل سنت تحریف کے قائل ہیں۔

رافعی کہتے ہیں:

''اہل کلام میں سے کچھ لوگ، جن کو سوائے ظن و تاویل اور ہر امر اور قول میں جدلی اسلوب اختیار کرنے کے اس فن میں دست رسی حاصل نہیں تھی، کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ قرآن میں سے کچھ چیزیں ساقط ہوگئی ہوں۔ یہ بات انہوں نے

____________________

(۱) الوافی، ج ۵، ص ۲۷۴ اور علم الیقین، ص ۱۳۰۔

۲۵۷

جمع قرآن کے سلسلے میں واقع ہونے والے حالات سے اخذ کی ہے۔،،(۱)

طبرسی نے ''مجمع البیان،،میں تحریف قرآن کے قول کو سنیوں کے ایک مذہب ''حشویہ،، کی طرف نسبت دی ہے۔

مؤلف: عنقریب آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نسخ تلاوت عیناً تحریف ہے۔ بنابرایں نسخ تلاوت کے نظریہ، جو علماء اہل سنت میں مشہور ہے، کا لازمہ ہے کہ تحریف کا نظریہ بھی مشہور ہو (یعنی جس کے نزدیک نسخ تلاوت مشہور ہے اس کے نزدیک تحریف قرآن بھی مشہور ہوناچاہیے)۔

۳۔ نسخ تلاوت

اکثر علماء اہل سنت نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض قرآن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض راویات میں وارد شدہ اس مفہوم: ''اءنہ کان قرآناً علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انہوں نے نسخ تلاوت سمجھا ہے۔ پس ہمارے لیے مناسب ہے کہ اس قسم کی روایات کا ذکر کریں تاکہ واضح ہوجائے اس قسم کی روایات کو مان لینا تحریف قرآن کو ماننے کے مترادف ہے:

۱۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:

''خدا نے محمدؐ ک وبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یا دیا۔ اسی لیے جب رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئے کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا او رلوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:أن لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم یا وہ اس طرح تھی:ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم ۔(۲)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۴۱۔

(۲) صحیح بخاری، ج ۸، ص ۲۶۔ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۱۶۔

۲۵۸

سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن اشتر نے اپنی کتاب ''مصاحف،، میں لیث بن سعد سے روایت کی ہے:

''سب سے پہلے حضرت ابو بکر نے قرآن جمع کیا اور زید نے ان کے لیے لکھا اور جب حضرت عمر آیہ رجم لے کر آئے تو اس نے اسے نہیں لکھا، اس لیے کہ حضرت عمر اکیلے تھے۔(۱)

مؤلف: آیہ رجم، جس کے بارے میں حضرت عمر کا دعویٰ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہے اور اسے قبول نہیں کیا گیا، اس کی چند صورتیں روایت ہوئی ہیں اور ان میں سے کچھ یہ ہیں:

i ۔''اذا زنی الشیخ و الشیخه فارجموهما البتة، نکالاً من الله، و الله عزیز حکیم،،

ii ۔''الشیخ و الشیخ ةفارجموهما البتة بما قضیا من اللذة،،

iii ۔''ان الشیخ و الشیخه اذا زنیا فارجموهما ألبتة،،

بہرحال موجودہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس سے رجم کا حکم نکالا جاسکے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

۲۔ طبرانی نے موثق سند سے حضرت عمر بن الخطاب سے روایت کی ہے:

''قرآن دس لاکھ ستائیس ہزار حروف پر مشتمل ہے۔،،(۲)

جبکہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یہ اس مقدار کے ایک تہائی بھی نہیں ہے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان، ج ۱، ص ۱۰۱۔

(۲) الاتقان،ج ۱، ص ۱۲۱۔

۲۵۹

۳۔ ابن عباس نے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

''اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو بر حق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس میں سنگساری کی آیہ بھی تھی۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری رفمائی۔ اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ پھر کہا: ہم اس آیہ کو اسطرح پڑھتے تھے:''ولا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم،، یا''ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم،، (۱)

۴۔ نافع روایت کرتا ہے کہ ابن عمر نے کہا:

''تم میں سے شاید کوئی یہ کہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ پورا قرآن نہیں ہے اور اس کا ایک کثیر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ لہذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ اس قرآن کا وہ حصہ اس نے لیا ہے جو موجود ہے۔(۲)

۵۔ عروۃ بن زبیر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:

''رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں سورہ احزاب دو سو آیات پر مشتمل ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے قرآن لکھا تو اس وقت وہی سورے رہ گئے جو اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہیں۔،،(۳)

۶۔ ابو یونس کی دختر حمیدہ ناقل ہے:

''میرے والد جو ۸۰ سالہ تھے، حضرت عائشہ کے قرآن سے یہ آیہ پڑھا کرتے تھے:

''ان الله و ملائکته یصلون علی النبی یاأیها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما، و علی الذین یصلون الصفوف الأول،، حمیدہ کہتی ہے: قرآن میں حضرت عثمان کے تغیر و تبدل کرنے سے پہلے کی یہ بات ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) مسند احمد، ج ۱، ص ۴۸۔

(۲) الاتقان،ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

(۳) ایضاً۔

(۴) الاتقان، ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

خريد و فروخت : نقصان دہ_ ۲/۱۰۲ نيز ر_ك قيامت

خسارہ : _ كے عوامل ۲/۱۶ ، ۲۷ ، ۶۴ ، ۱۲۱ نيز ر_ ك آخرت فروشى ، ابتلا ( آزمائش ) ، امتحان ، بنى اسرائيل ، خدا تعالى ، جادو ، دنياطلبى ، زياں كار لوگ ، شرك ، صلہ رحم، علو م غريبہ ، فاسقين ، كفار ، گمراہى ، گناہ ، منافقين ، ہمسر ( شوہر ، زوجہ ) يہود_

خشوع و خضوع : _ كى اہميت ۲/۵۸ _ كى آمادگى ۲/۴۶

خشيت : _ كے اثرات و نتائج ۲/۷۴ _ الہى ۲/۷۴ نيز ر_ ك طبيعت ( فطرت ) ، قلب

خطا : قبل از اسلام كى خطائيں ۲/۱۹۲ _ كے موانع ۲/ ۷۷

خوف : _ خدا كے نتائج ۲/۴۰ ، ۱۵۰ عذاب سے_ كے نتائج ۱/۵ ، ۲/۹۵ _ خدا كى اہميت ۲/ ۱۵۰ _ خدا ۲/ ۴۰ ، ۴۱ _دشمنوں سے ۲/۱۵۰ عذاب اخروى سے_ ۱/ ۵ ، ۲/۹۵_غير خدا سے _۲/ _۴۰ ، ۴۱، فقر سے _ ۲/ ۱۷۷_ پسنديدہ _۲/ ۴۱ ، ۱۵۰ ممنوع _۲/ ۴۱ ناپسنديدہ _۲/ ۱۵۰ _ كے عوامل ۲/ ۶۲ _ كے موانع ۲/ ۶۲ ، ۱۱۲ _ خدا كى علامتيں ۲/۱۲۲ ، ۱۹۵_ نيز ر_ ك ابتلا ( امتحان ) مومنين، محسنين ،(نيك لوگ) يہود

خود : _ كو تہمت سے برى قرار دينا ۲/۶۷ _ سے خيانت ۲/۱۸۷ _ سے مكر و فريب كى سرزنش ۲/۱۰۱ _ پہ ظلم ۲/ ۵۴ ، ۵۷ ، ۹۲ _ كى تباہى كے اسباب ۲/۱۲۱ _ سے مكر و فريب ۲/۹

خودسازى : ر_ ك تزكيہ

خودفروشي:ر _ك يہود

خودفريبى : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۳۰

خودكشى : _ كا حرام ہونا ۲/۱۹۵ نيز ر _ ك بنى اسرائيل

خوك ( خنزير): _ كے گوشت كا حرام ہونا ۲/۱۷۳_ كے خبائث ۲/۱۷۳ _ كا كھانا ۲/۱۷۳ _ كے گوشت كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

خون: _كے كھانے پينے كى حرمت ۲/۱۷۳ _ كا خبائث ميں سے ہونا ۲/۱۷۳ _ كا پينا ۲/۱۷۳ _ كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

۷۲۱

خير و نيكى : _ كى آمادگى ۲/۱۰۶ _ ميں سبقت ۲/۱۴۸ _ كا سرچشمہ ۲/۱۰۵ _ كے موارد ۲/۱۸۰ ، ۱۸۴

خيرخواہى : ر _ ك حضرت موسىعليه‌السلام

۷۲۲

اشاريى(۳)

د

دار الاسلام : ر_ ك سرزمين ہا (سرزمينيں )

دريا: كشتى كى _ميں حركت ۲/۱۶۴ دريائے نيل ۲/۵۰ _ كے پانى كا شگافتہ ہونا ۲/۵۰ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

دزدى ( چوري) : ر_ ك حرم

درماندہ راہ : _كى ضروريات كو پورا كرنا ۲/۱۷۷

درخت: درختوں كا پھل دينا ۲/۲۲ درختوں كے پھل دينے كا منبع ۲/۲۲ درختوں كا پھل ۲/۲۲ نيز ر_ ك بہشت، كافور

دشمن : دشمنوں كى سازشوں سے آگاہى ۲/۱۳۷ دشمنوں سے انتقام ۲/۱۹۰ دشمنوں كے پراپيگنڈے كا جواب ۲/۱۳۵ دشمنوں كا پراپيگنڈا ۲/۱۵۰ _ كى سازش سے چشم پوشى ۲/۱۰۹ جنگ ميں _ كے حقوق ۲/۱۹۰ اللہ تعالى كے_ ۲/۹۸ دشمنوں كے شر كو دور كرنا ۲/۱۳۷ _سے معاملے يا تعلق كى روش ۲/۱۰۹_ سے نرم برتاؤ كى آمادگى ۲/۱۱۰ دشمنوں كا سوء استفادہ كرنا ۲/۱۰۴ _ كى معافى ۲/۱۰۹ دشمنان خدا كا كفر ۲/۹۸ دشمنوں سے نبرد آزمائي ۲/۱۰۹ ، ۱۱۰ ، دشمنوں سے روابط كے مراحل ۲/۱۰۹ _ كے پراپيگنڈے سے ممانعت ۲/۱۵۰

نيز ر_ ك اطاعت، ترس (خوف ) ، جنگ ، جہاد، دشمن شناسى ، دشمنى ، صبر //دشمن شناسى : _ كے معيارات ۲/۱۶۹ //دينى معاشرہ: _ كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۲/۸۶ _ كا تمسخر اڑانا ۲/۱۴ _ كا امتحان ۲/۱۵۵ _ كى تباہى كے عوامل ۲/۱۲ _ كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲/۱۵ نيز ر_ ك منافقين //دادا: ۲/۱۳۳

دربدر كرنا : _ سے اجتناب ۲/ ۸۴ ، ۸۵ _ كرنے كا انجام و سزا ۲/ ۸۵ نيز ر_ ك بنى اسرائيل تبعيدگران( دربدر كرنے والے) دين دار افراد ، مومنين ، يہود

دربدر كرنے والے لوگ: _ كى امداد كرنے سے اجتناب ۲/ ۸۵ _ كى امداد ۲/ ۸۵_

دعا: _كے نتائج و اثرات ۱/۶ ، ۲/۱۲۸ ، ۱۶۱ ، ۱۸۶ _ كے آداب ۱/۶ ، ۲/۱۲۶ ، ۱۲۷ ، ۱۲۹ _ كى قبوليت ۲/۱۸۶ _ميں خلوص ۲/۱۸۶ قبوليت _ كى خواہش ۲/۱۲۷ ، ۱۸۶ _ كى اہميت۱/۶ ، ۲/۱۸۶ _ ميں حمد و ثنا ۲/۱۲۹ پانى كى كمى كي_

۷۲۳

۲/۶۰ ہدايت كے لئے _ ۱/۶_ كى قبوليت كى آمادگى ۲/۱۲۹ قبوليت _ كى شرائط ۲/۱۸۶ قبوليت دعا كا منبع ۲/۱۲۷_ كا وقت ۲/۱۸۶ نيز ر_ ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت ا سماعيلعليه‌السلام ، ايمان ، بنى اسرائيل ، فرزند ( اولاد ) ، ماہ رمضان ، حضرت موسىعليه‌السلام

دفاع: _ ترك كرنے كے نتائج ۲/۱۹۵ _ كے آداب ۲/ ۱۹۵ _ كے احكام ۲/ ۱۹۱ حرام مہينوں ميں _ ۲/۱۹۴ _ كا دائرہ ۲/۱۹۴ نيز ر_ ك جہاد، حرم

دعوى كرنا : بغير دليل كے _ ۲/ ۹۴ ، ۱۱۱، جھوٹا_ ۲/ ۱۱۸_ اخروى سعادت كا ۲/ ۹۵ ، ۹۹_ ظالمانہ ۲/ ۹۵ _ كى اہميت كے معيارات ۲/ ۱۱_ كى قبوليت كے معيارات ۲ / ۹۴_

دنيا : كا بے قيمت ہونا ۲/۹۴ _ اور آخرت ۲/۹۴ نيز ر_ ك آرزو ، دنيا طلب افراد، دنياطلبي

دنياطلب افراد: ۲/۸۶ ، ۹۶ _ كو عذاب ۲/۸۶ _ كى سزا ۲/۸۶

دنياطلبي: _ كے نتائج ۲/۴۱ ، ۷۹ ، ۸۶ ، ۱۰۳ ، ۱۷۴ ، ۱۷۶ _ كا خطرہ ۲/۱۷۴ _ كا نقصان ۲/۱۰۲ _ كى سرزنش ۲/۹۶ _ كے عوامل ۲/۱۰۳ _ كا فسق ۲/۹۹ نيز ر_ ك بدعت گزاران ( اہل بدعت) ، دين ، علمائ، علمائے يہود،عہدشكن لوگ ، عيسائي ، يہود دوستداران خدا ( اللہ تعالى كے چاہنے والے) : ۲/۱۶۵

دشمنى : حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے _ كے اثرات و نتائج ۲/ ۹۸ تورات سے _ ۲/۹۷ مشرك رہبروں سے _ ۲/۱۶۷ كفار سے_ ۲/۹۸ ملائكہ سے_ ۲/۹۹ ہاديوں سے_ ۲/۹۷ حق سے _۲/ ۱۷۶ _ كے عوامل ۲/۱۷۶ _ اخروي_ كے عوامل ۲/۱۶۶ حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے _ كا فلسفہ ۲/۹۷ حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے_ كا ناپسنديدہ ہونا ۲/۹۷ _ كى علامتيں ۲/۱۳۷ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، انسان ، اہل كتاب ، حكومت ،خدا تعالى ، دشمن ، دشمن شناسى ، شياطين ، شيطان ، ظالمين ، علمائے يہود ، عيسائي ، مشركين ، يہود

دوستى : مشرك رہبروں كے ساتھ_ كے نتائج ۲/۱۶۷ باطل كى كے نتائج ۲/۱۶۶ مشرك رہبروں كے ساتھ_ ۲/۱۶۹ ناپسنديدہ _ ۲/۱۶۷ _اور اطاعت ۲/ دين : دينى تعليمات كے نتائج و اثرات ۲/۱۲۱ _ كى تعليم دينے كے نتائج ۲/۱۲۹ _ كے بعض حصے پر عمل كے نتائج ۲/۸۵ ، ۸۶_ پر پردہ ڈالنے كے نتائج ۲/۱۶۱ ، ۱۶۲ _ كو پہنچے والے نقصا ن كى شناخت ۲/۴۱ ، ۷۹ ، ۱۰۹ ، ۱۱۱ ، ۱۲۰ ،۱۷۰_ ميں شك سے اجتناب ۲/۱۴۷_ پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۲/۱۴۶ _ سيكھنے كى قدر و قيمت ۲/۱۵۱ _ سيكھانے كى اہميت ۲/۱۲۹ اركان_ ۲/۳ ، ۴ ، ۱۷۷_ ۱۶۶

۷۲۴

كے حقائق كا اظہار ۲/۱۶۰ _ سے منہ موڑنا ۲/۷ ، ۷۴ ، ۱۸۷ _ كے اہداف ۲/۱۷۷ _ كى حفاظت كى اہميت ۲/۱۲۰ _ كى پيروى كرنے كى اہميت ۲/۱۷۰ _شناسى كى اہميت ۲/۱۷۱ _ سے شبہات دور كرنے كى اہميت ۲/۷۸ _ قبول كرنے كى اہميت ۲/۱۴۷ _ كى حفاظت ۲/۷۸ ، ۱۳۵ _ كى اتباع كرنا ۲/۱۷۰ _ كى تبليغ ۲/۱۳۳، ۱۵۹ ، ۱۷۴_ميں تبعيض ۲/۸۵ _كے بارے ميں لوگوں كے تخيلات ۲/۷۹ _ كى تعليمات ۲/۸۳_ كى تعليم دينا ۲/۱۲۹ ، ۱۵۱ _ كا مقام ۲/۷۴ _ كى حاكميت ۲/۱۹۳ _ كى حقانيت كے دلائل ۲/۱۵۹ _ كو چھپانے والوں كى دنياطلبى ۲/۱۷۴ چنا ہوا _ ۲/۱۳۲ _ حق ۲/۱۳۵ _ حنيف ۲/۱۳۵ عالمانہ_ ۲/۱۴۵_ اور تقاضے ۲/۱۷۳ _ چھپانے كى سرزنش ۲/۱۴۶_كے بارے ميں ساز باز كا ظلم ۲/۱۴۵ _ كو چھپانے كا ظلم ۲/۱۴۰ _كو چھپانے والوں كا اخروى عذاب ۲/۱۶۲ _ كو چھپانے والوں كا عذاب ۲/۱۷۴ _ كے بعض حصے پر عمل ۲/۸۵ ، ۸۶ _ پر عمل ۲/۵ _سے منہ موڑنے كے عوامل ۲/۱۷۰_ پہ قائم رہنے كے عوامل ۲/۱۷۲_ پر پردہ ڈالنے كے عوامل ۲/۴۲ ، ۱۶۳ ، ۱۷۴ _ كے پھيلاؤ كے عوامل ۲/۱۹۳ فلسفہ _۲/۲۱ ، ۳۵ ، ۵۴ ، ۶۳ ، ۱۳۸ ، ۱۴۲ ، ۱۷۷ فہم _۲ /۱۱۸ _ قبول كرنا ۲/۱۳۲ ، ۱۴۳ ، ۱۷۱ برگزيدہ دين قبول كرنا ۲/۱۳۲ _ پر پردہ ڈالنا ۲/۴۲ ، ۱۴۰ ، ۱۶۱ _ كى نافرمانى كى سزا ۲/۱۱۹ _ چھپانے كى سزا ۲/۱۷۴ كى مخالفت كى سزا ۲/۱۴۹ _كوجھٹلانے والوں كى سزا ۲/۲۴ _ كا پھيلاؤ ۲/۱۹۳_ چھپانے كا گناہ ۲/۱۷۴ _ كى حاكميت ميں روڑے اٹكانا ۲/۱۹۳ _ فروعات_ ميں مجادلہ ۲/۱۴۸ فہم_ سے محروم لوگ ۲/۲۰ ، ۱۷۱_ كو چھپانے والوں كى اخروى محروميت ۲/۱۶۲ ، ۱۷۴ حقائق _ كى تشخيص كے معيارات ۲/۱۱۱ _ كى حقانيت كے معيارات ۲/۱۴۵ ، ۱۴۷ _ مقبول كے معيارات ۲/۱۲۰ _ كى حاكميت ميں روڑے ۲/۱۹۳ _ كى تشريع كا منبع ۲/۱۲۸ _ كا سرچشمہ ۲/۱۳۸ ، ۱۴۷_ كى اتباع ميں ركاوٹيں ۲/۱۷۰ _ ميں شك كے موانع ۲/۱۴۷ _كى فہم ميں ركاوٹيں ۲/۷_ كا نزول ۲/۱۳۶ _ كى حقانيت كى علامتيں ۲/۱۳۵ _كى تعليمات كو پھيلانا ۲/۳ _ كا نظام تعليمات ۲/۱۰۶ ، ۱۰۷ ، ۱۴۳ ، ۱۷۸_ ميں جبر و اكراہ كى نفى ۲/۱۳۳ _ كا كردار اور اہميت ۲/۳۷ ، ۱۱۳ ، ۱۷۵_ كا وحى ہونا ۲/۱۵۹ _ كا ہدايت كرنا ۲/۱۷۰ ، ۱۷۵

نيز ر_ ك اديان ، اسباط ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، اسلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، انبياءعليه‌السلام ، ايمان ، بنى اسرائيل ، سر تسليم خم ہونا ، جہاد ، ديندار لوگ، ديندارى ، دين سازان ( دين گھڑنے والے) ، دين سازى ، دين فروش لوگ ،دين فروشى ، صابئين ، عرف عام ، عقل ، عقيدہ ، علمائ، كفار ، پيامبر اسلام (ص) ، عيسائي ، عيسائيت ، منافقين ، نياز ہا ( ضروريات) حضرت يعقوبعليه‌السلام ، يہود ، يہوديت_ //دين و مذہب : ر _ ك دين اور رسومات

۷۲۵

ديندار لوگ : _ كى دربدرى سے اجتناب ۲/۸۵ _ كے قتل سے اجتناب ۲/۸۵ _ كى ذمہ دارى ۲/۸۵ _ كو تنبيہ ۲/۸۵

ديندارى : _ ميں ثابت قدم رہنا ۲/۶۳ ، ۹۳ _ كى شرائط ۲/۸۰ دين گھڑنے والے: ۲/۷۹

دين سازى : _ كا جرم ۲/۷۹ _ كا حرام ہونا ۲/۷۹ _ كا گناہ ۲/۷۹ نيز ر_ ك علمائے يہود ، كسب

دين فروش افراد: _ كا آگ كھانا ۲/۱۷۴ _ جہنم ميں ۲/۱۷۵ _ قيامت ميں ۲/۴۸ _ كى سزا ۲/۱۷۵ _ كى گمراہى ۲/۱۷۵ _ كى محروميت ۲/۱۷۵

دين فروشي: _ كے نتائج و اثرات ۲/۴۱ _ سے اجتناب ۲/۴۵ _ كى قيمت ۲/۴۱ ، ۱۷۴ _ كى قيمت كا ناچيز ہونا ۲/۹۰ _ كے منافع سے كھانا ۲/۱۷۴ _ سے اجتناب كے عوامل ۲/۴۱ _ كے عوامل ۲/۱۷۴ _ كا گناہ ۲/۱۷۴

ديت: _ ادا كرنے كے آداب ۲/۱۷۸ _ كے احكام ۲/۱۷۸ _ كے احكام پہ قائم رہنے كى اہميت ۲/۱۷۸ قتل كى _ ادا كرنا ۲/۱۷۸ قتل كي_ ۲/۱۷۸ نيز ر_ ك قاتل ، قصاص

ذ

ذبح : _ ميں بسملہ ۲/۱۷۳ نيز ر_ ك ذبيحہ

ذبيحہ : بسملہ كے بغير _ كى حرمت ۲/۱۷۳ ، بسملہ كے بغير _ كا خبائث ميں سے ہونا ۲/۱۷۳ _بسملہ كے بغير ۲/ ۱۷۳ _حرام _ كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

ذلت : دنياوى _ ۲/۱۱۴ _ كے اسباب ۲/۶۱ ، ۶۵ دنياوى _ كے اسباب ۲/۸۵ ، ۱۱۴ _ سے نجات كے عوامل و اسباب ۲/۶۲ نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، ذكر ، قرآن كريم ، عصيان گران ( نافرمان لوگ ) ، پيامبر اسلام (ص) ، مسجد ، يہود

ذكر : _ تاريخ كے نتائج ۲/۶۶ _ الہى كے اثرات و نتائج ۲/۱۵۲ قيامت كے _ كے نتائج ۲/۱۲۳ اللہ تعالى كى نعمتوں كے_ كے نتائج ۲/۱۲۲ _ الہى سے ممانعت كے نتائج ۲/۱۱۴ _ الہى سے منہ موڑنا ۲/۱۱۵ ، تاريخ كے _ كى اہميت ۲/۵۱،۵۴ _ الہى كى اہميت ۲/۲۱ ، ۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۵۲ _ نعمت كى اہميت ۲/۴۰ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے امتحان كا _۲/۱۲۴ قيامت كى ہولناكيوں كا _۲/۱۲۳ پسنديدہ عمل كے بانيوں كا _ ۲/۱۲۷ كعبہ كے بنانے كا _ ۲/۱۲۷ تاريخ كا _ ۲/۵۰ ، ۵۵،۵۸ ، ۶۰ ، ۶۱ ، ۶۳ ، ۷۳ ، ۹۳، ۱۲۴ ، ۱۲۶ ، ۱۲۷ ، تورات كا _۲/۶۳ حاكميت الہى كا _ ۲/۱۰۷ تاريخى واقعات كا _ ۲/۳۴ ، اللہ تعالى كى خالقيت كا_ ۲/۵۴ اللہ تعالى كا _ ۲/۴۰ ، ۴۷ ، ۱۲۲ ،۱۵۲ ، ۱۵۸ ، مسجد ميں _

۷۲۶

۲/۱۱۴ ، حضرت ا براہيمعليه‌السلام كى دعا كا_ ۲/۱۲۶ ، ۱۲۷ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا كا ذكر _۲/۱۲۷ عہد خدا كا_ ۲/۸۳ قدرت الہى كا_ ۲/۱۰۷ معجزے كا _۲/۶۳ كوہ طور كے معجزہ كا _ ۲/۹۳ بنى اسرائيل كى نجات كا_ ۲/۴۹ نعمت كا _۲/۲۲ ، ۴۰ ، ۴۷ ، ۱۲۲ ، ۱۲۵ _الہى ميں ركاوٹيں ڈالنے والوں كى ذلت ۲/۱۱۴ _ الہى كى آمادگى ۲/۱۵۳ _ الہى ترك كرنے كے عوامل ۲/۱۱۴ _ نعمت كا فلسفہ ۲/۴۷ ، ۱۲۲_ الہى سے ممانعت كا گناہ ۲/۱۱۴ _ الہى كى جگہ ۲/۱۱۴ _ الہى سے ممانعت ۲/۱۱۴ _ الہى كى ركاوٹيں ۲/۱۱۴

ذمہ دارى : _ كا عمومى ہونا۲/۲۱ ، ۹۹

ر

راز : _ كا افشا كرنا ۲/۷۲

راعنا : ر_ ك دشنام ( گالى دينا )

راہ معتدل ( اعتدال كى راہ ) : ۲/۱۰۸

رشتہ دار: _سے نيكى اور حسن سلوك ۲/۸۳ ضرورت مند _ كےلئے خرچ كرنا ۲/۱۷۷ _ كى ضروريات كو پورا كرنا ۲/۱۷۷ _ كے حقوق ۲/۱۸۰ نيز ر_ ك خويشاوندى ( رشتہ داري) ، وصيت

رزق كى راشن بندي: _ كى اہميت ۲/۶۰

رشتہ داري: انبياءعليه‌السلام كے ساتھ _۲/۱۳۴،۱۴۱ نيز ر_ ك تعصب، قيامت

خيال پردازى ( خيال بافي) : ر_ ك يہود

رجحانات يا محبتيں : اللہ تعالى كى محبت كے اثرات و نتائج ۲/۱۷۷ مشرك رہبروں سے محبت كے اثرات ۲/۱۶۷ مال سے محبت كے اثرات و نتائج۲/۱۷۷ اللہ تعالى كى محبت ۲/۱۶۵ طاقتور رہبروں سے محبت ۲/۱۶۵ غير خدا كى محبت ۲/۱۶۵ باطل معبودوں سے محبت ۲/۱۶۵ نسل سے محبت ۲/۱۲۸ اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲/۱۶۵ باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۲/۱۶۵

رجعت: _ كاا مكان ۲/۵۶ ، ۷۳

۷۲۷

رحمت : _ سے فائدہ اٹھانا ۱/۳ _ كى بشارت ۲/۱۵۵ _ كا حصول ۲/۱۵۷_ سے محروم لوگ ۲/۸۸ ، ۸۹ ، ۱۵۹ ، ۱۶۲ _ سے محروم ہونا ۲/۸۸ ، ۱۵۹ ، ۱۶۱ ، ۱۶۲_ جن لوگوں كے شامل حال ہوتى ہے ۲/۳۷ ، ۶۴ ، ۱۰۵ ، ۱۵۵ ، ۱۵۷ ، ۱۶۰_ كے موجبات ۲/۱۶۰ نيز ر_ ك گناہگار لوگ ، ياس ( مايوسي)

رذائل: ر_ ك اخلاق ، يہود

رزق و روزى : _ سے استفادہ ۲/۶۰ ، ۱۷۲ پاكيزہ _ سے استفادہ ۲/۵۷ حلال _ سے استفادہ ۲/۵۷ پاكيزہ_ ۲/۱۷۲ حلال _ كمانا ۲/۱۵۵ _ كا منبع ۲/۲۲ ، ۵۷ ، ۶۰ ، ۱۷۲_ نيز ر_ ك انسان ، بنى اسرائيل ، اہل بہشت

رہبان : ر_ ك عيسائي علماء

رہبران ( قائدين ) : دينى _ كى غيبت كے نتائج ۲/۵۱ ، ۹۲ دينى _ كے قتل كے نتائج ۲/۶۱ دينى _ كا احترام ۲/۱۰۴ گمرا ہ _ كا گمراہ كرنا ۲/۱۶۶ ظالم _ كو رشوت دينا ۲/۱۸۸ _ كا رشوت خور ہونا ۲/۱۸۸ بت پرست _ ۲/۱۲۴ قيامت ميں _ ۲/۱۶۶ _ دينى اور لوگوں كے رجحانات ۲/۱۲۰ گمراہ _ قيامت ميں ۲/۱۶۶ دينى _ كے قتل كى آمادگى ۲/۶۱ دينى _ كا سازباز كرنا ۲/۱۴۵ دينى _ كى پسنديدہ گوشہ نشينى ۲/۵۱ دينى _ كا قتل ۲/۹۹ _ حق كے خلاف قيام ۲/۱۷۳دينى _ كى ذمہ دارى ۲/۶۰ ، ۱۲۶ ، ۱۵۵ ديني_ كو تنبيہ ۲/۱۲۰ نيز ر_ ك رہبرى (قيادت) ، علائق ، (رجحانات) ، مشركين ، منافقين

رياست طلبى : ر_ ك علمائے يہود

رستگاران ( سعادت مند انسان ) : ۲/۵ ۱۵

رسومات: معاشرتى _ كے نتائج و اثرات ۲/۱۷۰ غلط _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۸۹ نيز ر_ ك جاہليت ، نياكان ( اسلاف)

رشد : _ كے عوامل ۲/۱۹ ، ۲۶ ، ۴۰ ، ۴۹ ، ۱۲۴ ، ۱۳۱

رشوت : _ كے اثرات و نتائج۲ /۱۸۸ _ كے احكام ۲/۱۸۸ _ كا جرم ۲/۱۸۸ _ كا حرام ہونا ۲/۱۸۸ _ خورى كا خطرہ ۲/۱۸۸ _ كى حرمت كا واضح ہونا ۲/۱۸۸ نيز ر_ ك رہبران ( قائدين ) ، قاضى ، قضاوت

رفاقت : ر_ ك دوستي

رفاہ و آسائش : _ كى اہميت ۲/۱۲۶

نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، بنى اسرائيل ، كفار، مومنين ، مكہ معظمہ

ركوع : _ كى اہميت ۲/۱۲۵ دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں _۲/۱۲۵ _ كى جگہ ۲/۱۲۵ نيز ر_ ك نماز

۷۲۸

رنگھا ( مختلف رنگ): پيلا رنگ ۲/۶۹

روابط : اللہ تعالى سے رابطے كے اثرات و نتائج ۲/۱۱۰ نيز ر_ ك قيامت

روايت: ۱/۱ ، ۲،۵،۶،۷،۲/۱ ،۳،۶،۹،۱۴ ، ۱۵ ، ۱۷ ،۲۰،۲۱ ، ۲۴ ، ۲۵ ، ۲۶ ، ۲۷ ، ۲۸ ، ۳۰، ۳۱ ، ۳۳ ، ۳۴ ، ۳۵ ، ۳۶ ، ۳۷ ، ۴۱ ، ۴۳ ، ۴۴ ، ۴۵ ، ۴۹ ، ۵۱ ، ۵۵ ، ۵۷ ،۵۸ ، ۵۹، ۶۰ ، ۶۱ ، ۶۳ ، ۶۵ ، ۶۶ ، ۶۷ ، ۶۸ ، ۷۰ ، ۷۱ ، ۷۳ ، ۷۶ ، ۷۹ ، ۸۱ ، ۸۳ ، ۸۵ ، ۸۷ ، ۸۹ ، ۹۱، ۹۳ ، ۱۰۱ ، ۱۰۲ ، ۱۰۴ ، ۱۰۵ ، ۱۰۶ ، ۱۱۰ ، ۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۱۷ ، ۱۲۱ ، ۱۲۴ ، ۱۲۵ ، ۱۲۶ ، ۱۲۷ ، ۱۲۸ ، ۱۲۹ ، ۱۳۳ ، ۱۳۵ ، ۱۳۶ ، ۱۳۷ ، ۱۳۸ ، ۱۴۰ ، ۱۴۲ ، ۱۴۳ ، ۱۴۴ ، ۱۴۶ ، ۱۴۷ ، ۱۵۰ ، ۱۵۲ ، ۱۵۳ ، ۱۵۵ ، ۱۵۶ ، ۱۵۸ ، ۱۶۳ ، ۱۶۶ ، ۱۶۷ ، ۱۶۸ ، ۱۷۱ ، ۱۷۳ ، ۱۷۵ ، ۱۷۷ ، ۱۷۸ ، ۱۷۹ ، ۱۸۰ ، ۱۸۱ ، ۱۸۲ ، ۱۸۳ ، ۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۶ ، ۱۸۷ ، ۱۸۸ ، ۱۸۹ ، ۱۹۳ ، ۱۹۴ ، ۱۹۵

روح القدس : _ سے مراد ۲/۸۷ _ كى اہميت ۲/۸۷ نيز ر_ ك حضرت عيسىعليه‌السلام

روز ( دن ) : ر_ ك شب

روزہ : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۸۳ ، ۱۸۴ ، ۱۸۵ _ كى ابتدا ۲/۱۸۷ _ كے احكام ۲/۱۸۳، ۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷ _ كى اہميت اور قدر و منزلت ۲/۱۸۴ كى تعداد ۲/۱۸۵ _ ميں ترغيب ۲/۱۸۴_ بيمار كا _۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _غروب سے پہلے _افطار كرنا ۲/۱۸۷ _ كى انتہا ۲/۱۸۷ _ كے احكام ميں نرمى ہونا ۲/۱۸۵ _ كى اہميت ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۸۳ ، ۱۸۷ _ كے ايام ۲/۱۸۴ _ كا اجر ۲/۱۸۴ واجب _ كى تعداد ۲/۱۸۴ قضا _ كى تعداد ۲/۱۸۵ _ ميں ترغيب ۲/۱۸۴ بيمار كا _۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ اديان ميں _ ۲/۱۸۳ مسافر كا _ ۲/۱۸۴ ،۱۸۵ _ اور قرآن كريم ۲/۱۸۵ _ كى آمادگى ۲/۱۸۴ _ كى شرائط ۲/۱۸۴ قضا _ كى شرائط ۲/۱۸۴ _ كے وجوب كى شرائط ۲/۱۸۳ ، ۱۸۵ _ ميں عسر و حرج ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _كا فديہ ۲/۱۸۴ _ كا فلسفہ ۲/۱۸۵ _قضا _ كا فلسفہ ۲/۱۸۵ _كى قدرت ركھنا۲/۱۸۴ _كى قضا ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷ _ كے مبطلات ۲/۱۸۷ واجب _ كى مدت ۲/۱۸۵ _ سے معذور افراد ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _ كے فديہ كى مقدار ۲/۱۸۴ _ كے بطلان كے موارد ۲/۱۸۴ _ ميں نظم ۲/۱۸۵_ كا وجوب ۲/۱۸۳ ، ۱۸۵ _ كى قضا واجب ہونا ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵_ كا وقت ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷ _ كى قضا كا وقت ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _كى خصوصيات ۲/۱۸۵ نيز ر _ ك استمداد ( مدد طلب كرنا ) ، اعتكاف ، انبياءعليه‌السلام ، زن ( عورت ) ، ماہ رمضان

۷۲۹

ز

زراعت: _ كا وسيلہ ۲/۷۱ ينز ر_ ك بنى اسرائيل

زكوة: _ كے اثرات و نتائج ۲/۴۸ ، ۱۱۰ _ كے احكام ۲/۴۳ _ كى اہميت ۲/۴۳ ، ۱۱۰ ، ۱۷۷ _ كى ادائيگى ۲/۸۳ ، ۱۱۰ ، ۱۷۷ _كے تاركين ۲/۸۳_ فطرہ ۲/۴۳ _ كا وجوب ۲/۴۳ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

زمين : _ كى خلقت كا آغاز ۲/۱۱۷ _ كى تخليق (بغير كسى نمونے كے ہوتے ہوئے)۲/۱۱۷ _ كا زندہ كرنا ۲/۱۶۴ _ كے وسائل سے استفادہ كرنا ۲/۱۶۸ _ سے استفادہ كرنا ۲/۲۲ ، ۶۱ ، ۱۶۸ _ كا نقطہ آغاز ۲/۳۰ _ كا بستر ہونا ۲/۲۲_ كى تاريخ ۲/۲۲ ، ۳۰ _ كا حكمران ۲/۱۰۷ _ كا خالق ۲/۱۱۷ ، ۱۶۴ _ كى خلقت ۲/۲۲ ، ۱۶۴ مردہ _۲/۱۶۴ _ پر سكونت ۲/۲۲ _ كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۲/۱۶۸_ كى زندگى كے عوامل ۲/۱۶۴ _ كا غيب سے ہونا ۲/۳۳_ كے فوائد ۲/۲۲ ، ۳۶ _ كا پھيلاؤ ۲/۳۰_ كى موجودات كا مالك ۲/۱۱۶_ كى زندگى كا معيار ۲/۱۶۴_ كى زندگى كا سرچشمہ ۲/۱۶۴ نيز ر_ ك افساد(فساد پھيلانا) ، زندگى ، شياطين

زندگى : نئے سرے سے _ ملنا ۲/۷۳ برزخى _ كى حقانيت ۲/۱۵۴ _اخروى ۲/۲۸ _دنيوى ۲/۳۶ _ كے اسباب ۲/۱۹ _ كا سرچشمہ ۲/۲۸ ، ۷۳ نيز ر_ ك امتيں ، انسان، تفكر، جامعہ (معاشرہ ) ، زمين ، شہداء ،دنياوى _ كى قدر و قيمت ۲/۱۷۹ دنياوى _ كا حرص و لالچ ۲/۹۶ زمين پر_ ۲/۳۶ نيز ر_ ك مشركين ، يہود

زہد: ناپسنديدہ_ ۲/۱۶۸ ، ۱۷۲

زيارت: ر_ ك كعبہ

زياں كار انسان : ۲/۲۷ ، ۶۵ ، ۱۲۱ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

زيبائي : _ كا منبع ۱/۲ نيز ر_ ك آفرينش ( كائنات) //زينت : بہترين _ ۲/۱۳۸

س

سائلين : _ كو كھانا كھلانا ۲/۸۳ _ كى ضروريات پورا كرنا ۲/۱۷۷

سازش ( سازباز) : ر_ ك دين ، رہبران (قائدين )

سبزى جات : ر_ ك بنى اسرائيل

سبيل اللہ : _ كى قدر و منزلت ۲/۱۵۴ _ كے موارد ۲/۱۹۰ ، ۱۹۵

۷۳۰

سپاسگزارى : ر_ ك شكر //ستائش : ر_ ك حمد //ستم : ر_ ك ظلم //ستمگران : ر_ك ظالمين //ستمگرى : ر_ ك ظلم //سجدہ : _ كى اہميت ۲/۱۲۵ _ كى حقيقت ۲/۳۴_ دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں ۲/۱۲۵ _ كى جگہ ۲/۱۱۴ ، ۱۲۵ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، ابليس ، ملائكہ

سختى : _ سے سامنا كرنے كے آداب ۲/۱۵۶ _ ميں صبر كى اہميت ۲/۱۵۵ _ ميں صبر كا اجر ۲/۱۵۵ _ برداشت كرنا ۲/۱۵۴ _ كو آسان بنانے كى روش ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۵۴ ، ۱۵۵ ، ۱۵۶ ، ۱۷۷_ ميں صبر ۲/۱۵۶ ، ۱۵۷ ، ۱۷۷ _ سے نجات كے عوامل ۲/۱۸۵ نيز ر_ ك امتحان ، تكليف شرعي

سرزمينہا ( سرزمينيں ): اسلامى _ كو آزاد كرنا ۲/۱۹۱ سرزمين بيت المقدس ۲/۵۸ سرزمين سرانديب ۲/۳۶ سرزمين سرى لنكا۲/۳۶ سرزمين كوفہ ۲/۳۴

سرگردانى : ر_ ك بنى اسرائيل ، منافقين

سازشى لوگ : _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۱۰

سوال: _ كے نتائج ۲/۱۷۱ بے جا _ كے نتائج ۲/ ۱۰۸ بے جا_ ۲/ ۶۸ ، ۷۱ ، ۱۰۸،۱۰۹ جائز _۲/ ۱۸۶

نيز ر_ ك خدا تعالى ، ماہ (چاند) ، پيامبر اسلام (ص) مسلمان

سرزنش : _ كے عوامل ۲/۱۴۶

توجيہ كرنا : ر _ ك علمائے يہود

سر تسليم خم ہونا : خدا تعالى كے حضور _ كے نتائج ۲/ ۱۱۲ ، ۱۳۱ ، ۱۳۶ ، ۱۳۷ غير خدا كے سامنے _ ہونے سے اجتناب ۲/ ۱۳۳ خداوند متعال كے حضور _ كى اہميت ۲/ ۱۱۲ ، ۱۲۸ ، ۱۳۰ ، ۱۳۱ ، ۱۳۲ ، ۱۳۴ ، ۱۳۶ ، ۱۴۱ ، ۱۴۳ ، دين كے حضور _ كى اہميت ۲/ ۱۴۳ ، غير خدا كے حضور _۲/ ۱۳۶ قضائے الہى كے حضور_ ۲/ ۱۵۶ ، ۱۵۷ اللہ تعالى كے حضور كے دلائل _۲/۱۳۱ خدا تعالى كے حضور _ كى آمادگى ۲/ ۱۳۱ خدا وند متعال كے حضور _ كے درجات و مراتب ۲/ ۱۲۸ مقام _ ۲/ ۱۲۸ مقام _ تك پہنچنا ۲/ ۱۲۹

سيكھنا : حرام _ ۲/۱۰۲ نيز ر_ ك ملائكہ

۷۳۱

سكھانا : _ كے آداب ۲/ ۱۰۲ _ كى آمادگى ۲/ ۳۱

سرور: _ كے عوامل ۲/۶۹ نيز ر_ ك اديان ، مہتدين ( ہدايت يافتہ انسان ) سرى لانكا:ر_ك سرزمينہا

سعادتمند انسان : ۲/۱۵۷

صفا و مروہ كى سعى : ۲/۱۵۸ صدر اسلام ميں ۲/۱۵۸ _ كا عبادت ہونا ۲/۱۵۸ _ كا فلسفہ ۲/۱۵۸

سعادتمندي: _كے عوامل ۲/۵ ، ۱۸۹ نيز ر_ ك رستگاران(سعادتمند انسان ) ، متقين اللہ تعالى كے رسولعليه‌السلام : ۲/۱۱۹ ، ۱۵۱ _ كے دشمن ۲/۹۸ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام

سزا : سزاؤں كے قوانين جارى كرنے كے نتائج ۲/۵۴ _ كا گناہ سے تناسب ۲/۱۵ سزاؤں كے احكام كا خير ہونا ۲/۵۴ _ كا شخصى ہونا ۲/۱۳۴ اخروي_كے عوامل ۲/۱۱۳ دنياوى _۲/۱۱۴ سزاؤں كے قوانين كا فلسفہ ۲/۵۴سزاؤں كے موجبات ۲/۷ ،۳۹ ، ۵۴ ، ۵۵ ، ۷۴ ، ۱۱۴ ، ۱۲۰ ، ۱۴۹ ، ۱۷۴ سزاؤں كا نظام ۲/۱۵ ، ۲۴ ، ۴۸

سزائيں : سزاؤں كا انفرادى ہونا ۲/۴۸ ، ۱۳۴ ،۱۴۱ _ كا نظام ۲/۸۱ ، ۱۳۴ ، ۱۴۱_ كى خصوصيات ۲/۴۸

نيز ر_ك جرائم ، كيفر( سزا ) يہوديت

حضرت سليمانعليه‌السلام : _ كا منزہ ہونا ۲/۱۰۲ _ پہ جادوگرى كى تہمت ۲/۱۰۲ _ كى حكومت ۲/۱۰۲ _ كے دشمن ۲/۱۰۲ _ اور جادو ۲/۱۰۲ _ اور كفر ۲/۱۰۲ _كا واقعہ ۲/۱۰۲ _ كى نبوت ۲/۱۰۲ نيز ر_ ك جادو، شياطين ، يہود

سياست خارجہ : ۲/۱۰۴

ش

شاكرين : _ كے درجات ۲/۵۲ ، ۵۶

شب (رات): _شب و روز ميں تفاوت ۲/۱۶۴ _ كا آغاز ۲/۱۸۷ _ و روز كى گردش ۲/۱۶۴ _ و روز كى حد ۲/۱۸۷

نيز ر_ ك شب قدر ، ماہ رمضان

شب قدر : _ كا وقت ۲/۱۸۵

شبہات: _ كے جوابات دينے كى اہميت ۲/۱۳۹ شبہہ شناسى كى اہميت ۲/۱۴۲ _ كا جواب ۲/۱۴۲ _ كا جواب دينے كى روش ۲/۸۰ معاد ميں شبہ كے زوال كے عوامل ۲/۲۹ _ كے عوامل ۲/۴۲ ، ۱۰۹ ، ۱۴۷ نيز ر_ ك مجاہدين ، نسخ

شبہہ افكنى ( شبہ ڈالنا): ر_ ك علمائے يہود ، عيسائي، يہود_

۷۳۲

شبہہ زدائي ( شبہہ دور كرنا ) : ر_ ك دين

شخم زنى ( ہل چلانا ) : گائے كے ساتھ ۲/۷۱

شرك : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۶۳ ، ۱۶۵ ، ۱۶۷ ، ۱۷۰ _ سے اجتناب ۲/۲۲ _ عبادى سے اجتناب ۲/۸۳ _كى تشويق ۲/۱۶۹_ كو رد كرنا ۲/۲۲ ، ۱۴۲_ كى آمادگى ۲/۱۱۸ ، ۱۷۰ _ كا نقصان ۲/۵۴_ عملى ۲/۹ _ عبادى كا عجيب ہونا ۲/۸۳ _كا ظلم ۲/۵۴ ، ۶۵ ۱ _ عبادى كا ظلم ۲/۵۱ ، ۹۲ _ كے عوامل ۲/۲۲ ، ۱۶۴ ، ۱۶۵ ، ۱۶۹ _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۷۳ ، ۱۹۳_ كے موارد ۲/۱۶۶ نيز ر_ ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، بنى اسرائيل ، تبرى ( برائت، عيسائيت ، يہوديت _

شريعت : ر_ ك دين ، حضرت عيسىعليه‌السلام ، حضرت موسىعليه‌السلام

شعائر اللہ : ۲/۱۵۸

شكار: تفريح كے لئے _۲/۱۷۳ نيز ر_ ك شنبہ ( ہفتہ )

شادى ( خوشي): ر_ ك سرور

شكر: _ الہى كے اثرات و نتائج ۲/۱۷۲ _ خدا كى اہميت ۲/۵۲ ، ۱۵۲ ، ۱۷۲ ، ۱۸۵ _ نعمت كى اہميت ۲/۵۷ _ كى روح پيدا كرنا ۲/۱۵۳ _كى آمادگى ۲/۵۶ _ خدا كى آمادگى ۲/۱۸۵_ نعمت ۲/۱۵۲ ، ۱۷۲ بخشش كى نعمت كا _۲/۵۲ _ سے مراد ۲/۱۸۵ _ كے موانع ۲/۵۲ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

شكنجہ : ر_ ك آل فرعون ، بنى اسرائيل ، فرعونيان( الشكر فرعون)

شناخت : _ كا وسيلہ ۲/۷ ، ۱۷۱ _ كى اہميت ۲/۱۸۵ ميں گمان ۲/۷۸ _ كے موانع ۲/۷ ، ۷۴

شوہر: _ كا كردار و اہميت ۲/۱۸۷ زوجہ و_ كے مابين اختلاف ڈالنے كى حرمت ۲/۱۰۲ زوجہ و _ كى جدائي كا نقصان ۲/۱۰۲ زوجہ و_ كا ايك دوسرے كے ليئے لباس ہونا ۲/۱۸۷

نيز ر_ك بہشت ، جادو، سوگند (قسم ) ، نيازہا (ضروريات)

شاگردان : _ ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنا ۲/۱۰۲ نيز ر_ ك علوم غريبہ (ناآشنا علوم )

۷۳۳

شجر ہ ممنوعہ: _ سے استفادہ كے نتائج ۲/۳۶ _ سے اجتناب ۲/۳۵ _سے استفادہ ۲/۳۵ _ سے مراد كيا ہے ؟ ۲/۳۵ _ كى خصوصيات ۲/۳۵ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، حضرت حواعليه‌السلام _

شراب : _ كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

شہادت: ر_ ك گواہي

شہرنشينى : ر_ ك بنى اسرائيل

شہداء : _ كى زندگى كا ادراك ۲/۱۵۴ _ كى زندگى ۲/۱۵۴ _ كے درجات ۲/۱۵۴ نيز ر_ ك امتحان

شياطين : _ كا مجسم ہونا ۲/۱۰۲ _ كى تعليمات ۲/۱۰۲ _كا جادو ۲/۱۰۲ _كى دشمنى ۲/۱۰۲ _كا مشاہدہ ۲/۱۰۲ _ زمين ميں _۲/۳۶ _ اور جادو ۲/۱۰۲ _ اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۲/۱۰۲ _كا كفر ۲/۱۰۲ _ كا مسكن ( رہائش ) ۲/۳۶ نيز ر_ك منافقين، يہود

شيطان : _ كے ورغلانے اور فريب و مكارى كے اثرات و نتائج ۲/۳۶ _كا بہشت سے نكالا جانا ۲/۳۶ ، ۳۸ _ كا گمراہ كرنا ۲/۱۶۹_ كا ورغلانا ۲/۳۶ ، ۱۶۸ ، ۱۶۹ _ كے پيروكار ۲/۱۶۹_ كى ترغيبات ۲/۱۶۹_ كے مختلف راستے ۲/۱۶۸ _ كے دشمن ۲/۳۶ _كى دشمنى ۲/۱۶۸ ، ۱۶۹_ كے ورغلانے كى روش ۲/۱۶۸_ كے تسلط كى زمين ہموار ہونا ۲/۱۶۸ _ كا تسلط ۲/۳۶ _ حضرت آدمعليه‌السلام كى بہشت ميں ۲/۳۶ _ كى صفات ۲/۱۶۸ _ كے چيلے ۲/۱۶۹ _ كے قدم ۲/۱۶۸_ كا كردار و اہميت ۲/۳۶ ، ۱۶۹_كا ہبوط ۲/۳۶ ، ۳۸ نيز ر_ ك ابليس، اطاعت ، شياطين

شيطنت : ر_ ك منافقين

ص

صابئين : _ كے ايمان كے نتائج و اثرات ۲/۶۲ مومن _ كا اجر ۲/۶۲ _كا دين ۲/۶۲ _ كے دين كا رسمى ہونا ۲/۶۲ _ كى ذمہ دارى ۲/۶۲

صابرين : _ كى امداد ۲/۱۵۳ _ كو بشارت ۲/۱۵۵، ۱۵۷ _ كى حمايت ۲/۱۵۴ _ كا عقيدہ ۲/۱۵۶ _ سے مراد ۲/۱۵۵_ كى خصوصيات ۲/۱۵۶_ كى ہدايت ۲/۱۵۷

صاعقہ ( كڑكتى بجلى ) : ر ك عذاب

صالحين : ۲/۱۳۰ _ آخرت ميں ۲/۱۳۰ ، ۱۳۱ _ قيامت ميں ۲/۶۲ ،

۷۳۴

۱۳۰ _ كے فضائل ۲/۳۰ _ كے درجات ۲/۱۳۰ ، ۱۳۱_

صبر: _ كے اثرات و نتائج ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۵۵ _ كى اہميت ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۵۴ ، ۱۷۷ دشمنوں كى اذيت پر_ ۲/۱۱۰ اطاعت ميں _۲/۱۵۵ _ كے عوامل ۲/۱۱۰ _ آتش پر _ سے مراد ۲/۱۷۵

نيز ر_ ك استمداد (مدد طلب كرنا ) ، جہاد، سختى ، صابرين ، فقر ، مومنين ، مصائب

صبغة اللہ : _ سے مراد ۲/۱۳۸

صحرائے سينا : ر_ ك بنى اسرائيل

صداقت : ر_ ك ايمان ، مومنين، يہود

صحت: ر_ك تغذيہ (كھنا اور كھلانا )

صراط مستقيم : _ سے مراد ۱/۶ ، ۷ _ كى خصوصيات ۱/۷ نيز ر _ ك ہدايت

صلہ رحم: _ كى اہميت ۲/۲۷ قطع رحم كا نقصان ۲/۲۷

ض

ضروريات زندگى : _ كو پورا كرنے كا منبع ۲/۲۲ نيز ر_ ك زندگي

ضد ، ہت دھرمي: _ سے پرہيز كے اثرات ۲/۱۱۸ _ كے ا ثرات و نتائج ۲/۷۴ ، ۱۱۸ نيز ر_ ك اہل كتاب، بنى اسرائيل، علمائے يہود، عيسائي ، مشركين ، يہود

ط

طغيان (سركشي):ر _ ك منافقين

طغيان گران ( سركش لوگ): سركشوں كو مہلت ۲/۱۵

طلاق:ر _ ك سوگند (قسم )

طواف : دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں ۲/۱۲۵_ كرنے والوں كے درجات ۲/۱۲۵ نيز ر_ ك كعبہ، نماز

طہارت : ر_ ك بہشت ، عبادت

۷۳۵

طيبات ( پاكيزہ اشياء ) : _ سے اجتناب ۲/۱۶۹ _ سے استفادہ ۲/۵۷ ، ۱۷۲ _ كو حرام قرار دينا ۲/۱۷۲

ظ

ظالمين : ۲/۳۵ ، ۵۱ ، ۹۲ ، ۹۵ ، ۱۴۵ ، ۱۶۵ ، ۱۹۳ _ سے انتقام ۲/۵۰ _ كى بہانہ تراشى ۲/۱۵۰_ كى دشمنى ۲/۱۵۰ _ كى قيادت ۲/۱۲۴ ظالم ترين لوگ ۲/۱۱۴ ، ۱۴۰ _اور قدرت الہى ۲/۱۶۵_ كو اخروى عذاب ۲/۱۶۵ _كے بارے ميں اللہ تعالى كا علم ۲/۹۵ _كى غفلت ۲/۱۶۵ _ كى سزا ۲/۹۵_ سے نبرد آزمائي ۲/۱۹۳ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

ضروريات: _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۶۸ معنوى _ كو پورا كرنا ۲/۱۲۸ _ پورى كرنے كا سرچشمہ ۲/۱۲۶ خدائي امداد كى ضرورت ۱/۵ غذا، خوراك كى ضرورت ۲/۳۵ دين كى ضرورت ۲/۳۵ رہائش كى ضروريات ۲/۳۵ ہدايت كى ضرورت ۱/۶ ، ۲/۳۵ ، ۳۸ زوجہ و شوہر كو ايك دوسرے كى ضرورت ۲/۳۵ ، ۱۸۷ جنسى ضرورت ۲/۱۸۷

ظلم : _ كے اثرات و نتائج ۲/۹۵ ، ۶۱_ كى سزا ۲/۹۵ _ كے درجات ۲/۱۴۰ _ كے موارد ۲/۳۵ ، ۵۱ ، ۵۴ ،

۵۹ ، ۹۲ ، ۱۱۴ ، ۱۴۰ ، ۱۴۵ ، نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، ظالمين

ظلمت ( تاريكى ) : _ كے درجات ۲/۱۷ _ كے موارد ۲/۱۸

ظن : ر_ ك شناخت، عقيدہ ، لقاء اللہ

ع

عابدين : ۲/۱۳۳ ، ۱۳۴ ، ۱۳۸ ، ۱۴۱ _ كے درجات ۲/۱۲۵ نيز ر_ ك امتہا ( امتيں )

عقلاء : ر _ ك تقليد //عالم برزخ : _ كى حقانيت ۲/۱۵۴

عبادت: _ كے اثرات و نتائج ۲/۲۱ كے آداب ۱/۵_ ميں اختيار ۱/۵_ ميں خلوص ۱/۵ _كى قدر و منزلت ۲/۱۲۵ ، ۱۲۷_ سے منہ موڑنا ۲/۱۱۵ _ كى اہميت ۲/۲۱ ، ۱۱۵ _ كى آمادگى پيدا ہونا ۲/۱۲۶ _كے آداب بيان كرنا ۲/۱۲۸ _ كى كيفيت بيان كرنا ۲/۱۲۸_ كى نصيحت ۲/۱۳۳_ ميں حضور قلب ۱/۵_ الہى كے دلائل ۱/۵ ، ۲/۱۶۳ _ كى آمادگى ۱/۵ ، ۲/۲۲ _ كى قبوليت كى شرائط ۲/۱۲۷ _ الہى ۱/۵، ۲/۲۱ ، ۱۱۵ ، ۱۱۶ ، ۱۳۳ ، ۱۳۸ ، ۱۵۲ كعبہ ميں _

۲/۱۲۵ غير خدا كى _۲/۵۱ ، ۵۴_ اور پاكيزگى ۲/۱۲۵ _اور طہارت ۲/۱۲۵ _ ترك كرنے كے عوامل ۲/۱۱۴ _ كے عوامل ۱/۵_ كا فلسفہ ۲/۲۱ ، ۱۷۷ _كى جگہ ۲/۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۵۸ _كا منبع ۲/۲۱ _ ميں اكراہ و جبر كى نفى ۲/۱۳۳

۷۳۶

_ميں جگہ كى اہميت و كردار ۲/۱۲۵_ كا وجوب ۲/۸۳ نيز ر_ ك آفرينش ( كائنات)، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاق،عليه‌السلام حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، توفيقات ، مومنين ، موجودات ، حضرت موسىعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام _ عبادت گاہ : ۲/۱۲۵ _ كى تطہير كى اہميت ۲/۱۲۵ _ كى خدمت كرنا ۲/۱۲۵

عوام: _ كا تمسخر اڑانا ۲/۶۷ _ كے حقوق كى حفاظت ۲/۱۸۸ _ كى پناہ ۲/۱۲۵ _ كا تزكيہ ۲/۱۲۹ _ كے حقوق ضائع ہونے كا خطرہ ۲/۱۸۸ _ سے حسن سلوك ۲/۸۳ _ كى كمزورى سے سوء استفادہ ۲/۷۶ _ كى گمراہى كے اسباب ۲/۱۶۶ _ كى لعنت ۲/۱۶۱ مشرك _ ۲/۱۶۵ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ، دين ، رہبران ( قائدين) ، ظالمين ، علمائے يہود، غصب ، قبلہ

عورت: _كى شرعى ذمہ دارى ۲/۳۵ حاملہ _ كا روزہ ۲/۱۸۴ _ كى ذمہ دارى ۲/۳۵ _ كى اہميت و كردار ۲/۱۸۷ نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، قصاص

عفو و بخشش: _ كى اہميت ۲/۱۷۸ طاقت كے ہوتے ہوئے _ ۲/۱۷۸ نيز ر_ ك اہل كتاب ، بنى اسرائيل، خدا تعالى ، دشمن ، قاتلآ ، قصاص ، گناہ //آزاد : ر_ ك قصاص

لالچ : ر_ ك زندگى ، مشركين ، يہود

عبرت : _ كے عوامل ۲/۳۰ ، ۳۴ ، ۵۰ ، ۵۱ ، ۵۴ ، ۶۶ ، ۱۲۱ نيز ر_ ك اصحاب سبت ، تاريخ ، قرآن كريم ، متقين _

عبوديت : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۷۲_ كى قدر و منزلت ۲/۲۳ _ كا اظہار ۱/۶ _ كى روش ۲/۱۲۸ _ كى آمادگى ۲/۲۱ كى علامتيں ۱/۱ ، ۲/ ۱۷۲ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ، پيامبر اسلام (ص) ، مسلمين

عتق ( آزاد كرنا ) :ر _ ك بردہ (غلام)

عدالت ( عدل و انصاف ): كے اثرات و نتائج ۲/۱۹۴ _ كى اہميت ۲/۱۲۴، ۱۸۲ ، ۱۹۰ ، ۱۹۴

نيز ر_ ك انتقام ، اجر ، جنگ ، خدا تعالى ، رہبرى (قيادت) ، مقابلہ بہ مثل (برابر كا مقابلہ ) //عدس ( مسور) : ر_ ك بنى اسرائيل

عذاب: _ كى اقسام ۲/۱۰ اہل _۲/۷ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۲۴ ، ۳۹ ، ۷۹ ، ۸۱ ، ۹۰ ، ۹۶ ، ۱۰۴ ، ۱۲۰ ، ۱۲۳ ، ۱۲۶ ، ۱۶۷ ، ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۶_ ميں تاخير ۲/۱۶۲ دوسروں كے _ كو برداشت كرنا ۲/۱۲۳ _ ميں تخفيف ۲/۱۶۲_ ميں ہميشگى ۲/۱۶۲ بجلى كڑكنے كا _۲/۵۵ ، ۵۶ آسمانى _ ۲/۵۹ اخروي_ ۲/۱۶۲ عظيم _۲/۷ بلا بيان_ ۲/۲۴ دردناك_ ۲/۱۰ ، ۱۱ ، ۱۰۴ ، ۱۷۴ ، ۱۷۸ _ دنياوى ۲/۵۵ ، ۵۹ ذلت آميز_ ۲/۹۰ ، شديد _ ۲/۸۵ ،۸۶ ، ۱۶۵ _ سے بچنے كے عوامل ۲/۴۱ ، ۱۹۴ _

۷۳۷

سے نجات كے عوامل ۲/۱۷۴ اخروى _ سے نجات كے عوامل ۲/۴۸ كے درجات۲/۷ ، ۱۰ ،۱۱ ، ۸۵ ، ۸۶ ، ۱۰۴ ، ۱۶۲ ، ۱۶۵ ، ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۸ _ اخروى كے درجات ۲/۸۵ ،۱۱۴ _ كے موانع ۲/۱۸۹ _كے موجبات ۲/۱۱ ، ۲۴ ، ۴۱ ، ۵۹ ، ۷۹ ، ۸۱ ، ۹۰ ، ۱۰۴ ، ۱۶۲ ، ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۸ _ اخروى كے موجبات ۲/۸۵ ، ۸۶ ، ۱۱۴ ، دنياوي_ كے موجبات ۲/۶۵ ، ۶۶ _ سے نجات ۲/۸۶ ، ۱۲۰ ، اخروي_ سے نجات ۲/۴۸ ، ۱۲۳ ، ۱۶۶ نيز ر_ ك ترس ( خوف ) ، خدا تعالى ، قيامت

عرف عام : _ اور دين ۲/۱۸۰ _اور قوانين ۲/۱۸۰ _ اور موضوع كى شناخت ۲/۱۸۰ عرفى معيارات ۲/۱۸۰

عزت : ر_ ك خدا تعالى ، مومنين

عصمت : گناہ سے ۲/۱۲۴ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ،امامت

عصيان گران ( نافرمان لوگ ) : ۲/۵۹ ، ۹۳ _ كے لئے حتمى عذاب ۲/۴۸ _ كى تذليل ۲/۶۵ _ كو رد كيا جانا ۲/۶۵ _ كو دنياوى عذاب ۲/۶۵ _ قيامت ميں ۲/۴۸ _ كا انجام ۲/۶۶ _ كو دنياوى سزا ۲/۶۶ _ كا مسخ ہونا ۲/۶۶ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

عطف قانون بہ ما سبق (قانون كو ماضى كى طرف لوٹانا) : ر _ ك قانون

عقل : _كى قدر و منزلت ۲/۱۷۰ _ كى اتباع كى اہميت ۲/۱۷۰ _ كا كردار و اہميت ۲/۱۷۰ _اور دين كى ہم آہنگى ۲/۱۷۰

عقيدہ : باطل _ كے اثرات و نتائج ۲/۸۰ باطل _ سے اجتناب ۲/۶۳ _ كى قدر و منزلت ۲/۹۰ _ ميں برہان و دليل كى اہميت ۲/۱۱۱ _ ميں برہان ۲/۱۱۱ آزادى _ كى تاريخ ۲/۶۷ _ كا مجسم ہونا ۲/۲۵ دينى _ ميں تخيلات ۲/۱۱۱ عقيدتى بنياد كى تقويت ۲/۱۱۰ ميں گمان ۲/۷۸ باطل_ ۲/۴۸ ، ۷۷ ، ۹۴ ، ۹۶ ، ۱۱۱ ، ۱۲۳ ، ۱۳۴ ، ۱۴۱ ، ۱۶۵ ، ۱۷۵ توحيد پہ _ ۲/۱۳۳ دين پہ_ ۲/۱۷۷ دين ابراہيمىعليه‌السلام پہ_ ۲/۱۳۰ ربوبيت الہى پہ_ ۲/۷۶ قيامت پہ_ ۲/۷۶ باطل _كے ساتھ نبرد آزمائي ۲/۸۰ دينى _ كا مرجع ۲/۱۱۳ _ كے مظاہر ۲/۹۱ ، ۹۳ ، ۹۴ _ كى تصحيح كے معيارات ۲/۹۳ دينى _ ميں مناظرہ ۲/۱۱۱

علم : _ كے اثرات و نتائج ۲/۷۴، ۱۲۰ ، ۱۳۷ ، ۱۴۵ ، ۱۸۴ _ كى اہميت ۲/۳۱ نقصان دہ _ كا سيكھنا ۲/۱۰۲ _ كا مقام و رتبہ ۲/۷۴ پسنديدہ _۲/۳۰ _ كا سرچشمہ ۲/۳۲ نيز ر_ ك علو م غريبہ ( ناآشنا علوم ) :

۷۳۸

علماء : علمائے دين كى تبليغ ۲/۱۷۴ دين دار علماء كا تزكيہ ۲/۱۷۴ علمائے دين كى دنياطلبى ۲/۱۷۴ بے عمل _ كى سرزنش ۲/۴۴ بے عمل _ كو عذاب ۲/۱۷۵ بے عمل _ ۲/۴۴ بے عمل _ جہنم ميں ۲/۱۷۵ تحريف كرنے والے_ ۲/۷۵ دنياطلب_ اور حق كو چھپانے والے ۲/۱۷۶ علمائے دين اور انحراف ۲/۱۰۱ علمائے دين اور حق پر پردہ ڈالنا ۲/۴۲ ، ۱۰۱ ، ۱۴۶ دين دار علمائے قيامت ميں ۲/۱۷۴ علمائے دين كى سرزنش كے عوامل ۲/۱۱۳ دين دار _ كے فضائل ۲/۱۷۴ علمائے دين كى اخروى سزا ۲/۱۱۳ بے عمل _ كا محروم ہونا ۲/۱۷۵_كى ذمہ دارى ۲/۴۴ علمائے دين كى ذمہ دارى ۲/۱۵۹ ، ۱۷۴ كا كردار و اہميت ۲/۷۵ فاسد _ كى اہميت و كردار ۲/۷۹ _ كى خصوصيات ۲/۱۰۳ ، ۱۸۴ علمائے دين كو تنبيہ ۲/۱۰۱ ، ۱۴۶ ، ۱۷۴ نيز _ ر_ ك علمائے اہل كتاب ، عيسائي علمائ، علمائے يہود

علمائے اہل كتاب: _ كا اقرار ۲/۱۰۱ _ كا تجاہل عارفانہ ۲/۱۰۱_ كو دھمكى ۲/۱۴۰ _ كا عذاب ۲/۱۷۵ _اور انجيل ۲/۱۷۴_ اور تورات ۲/۱۰۱ ، ۱۷۴ _اور حق چھپانا ۲/۱۴۰ ، ۱۴۴ ، ۱۴۶ ، ۱۷۴ _ اور پيامبر اسلام(ص) ۲/۱۰۱ كا علم ۲/۱۴۴ _ كى گمراہى ۲/۱۷۵ نيز ر_ ك قبلہ

عيسائي علماء : ۲/۱۱۳ _ كى حق كےخلاف معركہ آرائي ۲/۱۷۶ _ اور حق چھپانا ۲/۱۵۹ ، ۱۷۶ _ كا علم ۲/۱۴۴ _ پر لعنت ۲/۱۵۹ نيز ر_ ك قبلہ

علمائے يہود : ۲/۱۱۳ _ كى آگاہى ۲/۷۵ _ كا بدعتيں ايجاد كرنا ۲/۷۹ ، ۸۰ _ كى بصيرت ۲/۷۶ ، ۷۹ _كا عمل تحريف ۲/۷۵ ، ۷۹ _ كا توجيہات گھڑنا ۲/۷۶_ كا حق كے خلاف قيام ۲/۱۷۶_ كا حق قبول نہ كرنا ۲/۷۶ _ كى دشمنى ۲/۷۸ _ كى دنياطلبى ۲/۷۹ _ كى دين سازى ۲/۷۹_ كى جاہ طلبى ۲/۷۹ _ كى توجيہات گھڑنے كى آمادگى ۲/۷۶_ كا سوء استفادہ ۲/۷۶_ كا شبہہ پيدا كرنا۲/۷۹ _اور اسلام ۲/۷۵ _ اور حماقت ۲/۷۶_ اور قرآن كريم ۲/۷۵ _اور حق كا چھپانا ۲/۷۶ ، ۱۵۹ ، ۱۷۶_ اور پيامبر اسلام (ص) ۲/۷۶ ،۷۹ ،۱۰۱ _ اور عوام ۲/۷۵ _ اور مسلمان ۲/۷۶_ اور يہود ۲/۷۶ _ كا علم ۲/۱۴۴ _ كى ضد و ہٹ دھرمى ۲/۷۶ _ پر لعنت ۲/۱۵۹ _ كى نسل پرستى ۲/۷۶ _ كا كردار و اہميت ۲/۷۵ ، ۷۹ نيز ر_ ك قبلہ ، مسلمان //علو م غريبہ ( ناآشنا علوم ) : _ كا نقصان ۲/۱۰۲ _ سے سوء استفادہ كرنا ۲/۱۰۲ _ كے سيكھنے والوں كو تنبيہ ۲/۱۰۲ //عليت : _ كا نظام ۲/۷۳

عمرہ : _ كے احكام ۲/۱۵۸ _ كى اہميت ۲/۱۲۵ _ كے مناسك ۲/۱۵۸

عمل: _ كے اخروى اثرات و نتائج ۲/۱۶۷ ناپسنديدہ _ كے اخروى نتائج ۲/۱۶۷ _ كے نتائج ۲/۵۰ ، ۹۵

۷۳۹

، ۱۳۴ ، ۱۳۹ ، ۱۴۱ ، ۱۸۹ ناپسنديدہ_ كے نتائج ۲/۱۶۷ پسنديدہ _ كے آداب ۲/۱۲۷ جاہلانہ _ سے اجتناب ۲/۶۷ ناپسنديدہ _ سے اجتناب ۲/۶۳ _ ميں خلوص ۱/۵_ كى قدر و قيمت ۲/۱۵۴ _ كے نتائج سے پر اميد ہونا ۲/۱۸۶ دوسروں كے _ سے فائدہ اٹھانا ۲/۱۴۱ پسنديدہ _كى اہميت ۲/۱۲۷ ، ۱۴۸ _ ميں منطق كى اہميت ۲/۱۸۹ _ كى اخروى جزا ۲/۱۴۸ _ كى جزا ۲/۱۳۴ ، ۱۴۱ پسنديدہ _ كى جزا ۲/۱۴۸ ، ۱۵۸ _ كا حساب كتاب ۲/۱۳۴ _ كى قبوليت كى دعا ۲/۱۲۷ ناپسنديدہ _كى دعوت ۲/۱۶۹ _ميں صحيح روش /۱۸۹ _ميں غير درست روش ۲/۱۸۹ _پسنديدہ كى آمادگى ۲/۱۴۸ اوامر الہى پہ_ ۲/۲۱ ، ۵۸ ، ۹۳ بغير ايمان كے _۲/۳ ، پسنديدہ_ ۲/۵۱ ، ۵۴ ، ۶۰ ، ۶۷ ، ۱۲۵ ، ۱۲۷ ، ۱۲۹ ، ۱۳۳ ، ۱۵۸ ، ۱۷۰ ، ۱۸۳ رضاكارانہ طور پر پسنديدہ _ انجام دينا ۲/۱۵۸جاہلانہ_ ۲/۶۷ شيطاني_ ۲/۱۶۹ ناپسنديدہ _۲/۲۷ ، ۸۰ ، ۱۰۱ ، ۱۳۶ ، ۱۴۸ ، ۱۶۹ ،۱۷۰ ، ۱۷۲ ، ۱۸۸_ ميں دوام كے عوامل ۲/۱۵۴ ناپسنديدہ_ كى سزا ۲/۷۴ _ كى قبوليت كے لئے دعا كى كيفيت ۲/۱۲۷ _كے گواہ ۲/۱۴۳ _ كى جزا كا وقت ۲/۱۴۸

عمل صالح : _ كے اخروى اثرات و نتائج ۲/۶۲ _ ترك كرنے كے نتائج ۲/۶۲ ، ۶۵ كے اثرات و نتائج ۲/۲۵ ، ۶۲ ، ۸۲ _ كى اہميت ۲/۶۲ ، ۱۱۰ _ كى بقا ۲/۱۱۰ بہترين_ ۲/۱۱۰ _ كى جزا ۲/۲۵ ، ۱۱۰ ، ۱۴۱ _ كا مجسم ہونا ۲/۲۵ _ كى آمادگى ۲/۱۱۰ ، بغير ايمان كے _ ۲/۲۵ ، ۶۲ ، ۸۲ _ كے معيارات ۲/۱۰۴ _ كے موارد ۲/۸۳ نيز ر_ ك قيامت _

عمو (چچا) : ۲/۱۳۳ //عواطف ( احساسات): _ كو تحريك دينا ۲/۱۹۵ _ اور عقيدہ ۲/۱۶۵ نيز ر_ ك مومنين

عوامل طبيعى ( فطرى عوامل ) : عمل كے _۲/۲۲ ، ۵۰ ، ۶۱ _ كى اہميت و كردار ۲/۲۲، ۷۳

عہد: وفائے _كے اثرات و نتائج ۲/۴۰ وفائے_ كى اہميت ۲/۲۷ ، ۴۰ ، ۶۴ ، ۱۰۰ وفائے _كى آمادگى ۲/۴۰ _اللہ تعالى كے ساتھ ۲/۲۷ وفائے _۲/۴۰ ، ۴۵ ، ۱۷۷ نيز ر_ ك انسان، اہل كتاب، بنى اسرائيل ، خدا تعالى ، ذكر ، عہد شكن لوگ، عہدشكنى ، يہود

عہد جديد : ر_ ك انجيل //عہد شكن لو گ: ۲/۸۳

عہد شكنوں كى دنياطلبى ۲/۸۶_ كى محروميت ۲/۸۶ نيز ر_ ك قرآن كريم

عہدشكنى : _ كے نتائج ۲/۲۷اللہ تعالى كے ساتھ _ كے نتائج و اثرات ۲/۶۴ _ كى سرزنش ۲/۲۷ _ كے عوامل ۲/۱۰۰ اللہ تعالى كے ساتھ_ ۲/۹۹ ، ۱۰۰ اللہ تعالى كے ساتھ _ كا فلسفہ ۲/۸۶ اللہ تعالى كے ساتھ_ كى سزا ۲/۸۵ ، ۸۶ _ كا گناہ ۲/۶۴ _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۰۰ اللہ تعالى كے ساتھ _ كے موانع

۷۴۰

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785