تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200897 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

خريد و فروخت : نقصان دہ_ ۲/۱۰۲ نيز ر_ك قيامت

خسارہ : _ كے عوامل ۲/۱۶ ، ۲۷ ، ۶۴ ، ۱۲۱ نيز ر_ ك آخرت فروشى ، ابتلا ( آزمائش ) ، امتحان ، بنى اسرائيل ، خدا تعالى ، جادو ، دنياطلبى ، زياں كار لوگ ، شرك ، صلہ رحم، علو م غريبہ ، فاسقين ، كفار ، گمراہى ، گناہ ، منافقين ، ہمسر ( شوہر ، زوجہ ) يہود_

خشوع و خضوع : _ كى اہميت ۲/۵۸ _ كى آمادگى ۲/۴۶

خشيت : _ كے اثرات و نتائج ۲/۷۴ _ الہى ۲/۷۴ نيز ر_ ك طبيعت ( فطرت ) ، قلب

خطا : قبل از اسلام كى خطائيں ۲/۱۹۲ _ كے موانع ۲/ ۷۷

خوف : _ خدا كے نتائج ۲/۴۰ ، ۱۵۰ عذاب سے_ كے نتائج ۱/۵ ، ۲/۹۵ _ خدا كى اہميت ۲/ ۱۵۰ _ خدا ۲/ ۴۰ ، ۴۱ _دشمنوں سے ۲/۱۵۰ عذاب اخروى سے_ ۱/ ۵ ، ۲/۹۵_غير خدا سے _۲/ _۴۰ ، ۴۱، فقر سے _ ۲/ ۱۷۷_ پسنديدہ _۲/ ۴۱ ، ۱۵۰ ممنوع _۲/ ۴۱ ناپسنديدہ _۲/ ۱۵۰ _ كے عوامل ۲/ ۶۲ _ كے موانع ۲/ ۶۲ ، ۱۱۲ _ خدا كى علامتيں ۲/۱۲۲ ، ۱۹۵_ نيز ر_ ك ابتلا ( امتحان ) مومنين، محسنين ،(نيك لوگ) يہود

خود : _ كو تہمت سے برى قرار دينا ۲/۶۷ _ سے خيانت ۲/۱۸۷ _ سے مكر و فريب كى سرزنش ۲/۱۰۱ _ پہ ظلم ۲/ ۵۴ ، ۵۷ ، ۹۲ _ كى تباہى كے اسباب ۲/۱۲۱ _ سے مكر و فريب ۲/۹

خودسازى : ر_ ك تزكيہ

خودفروشي:ر _ك يہود

خودفريبى : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۳۰

خودكشى : _ كا حرام ہونا ۲/۱۹۵ نيز ر _ ك بنى اسرائيل

خوك ( خنزير): _ كے گوشت كا حرام ہونا ۲/۱۷۳_ كے خبائث ۲/۱۷۳ _ كا كھانا ۲/۱۷۳ _ كے گوشت كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

خون: _كے كھانے پينے كى حرمت ۲/۱۷۳ _ كا خبائث ميں سے ہونا ۲/۱۷۳ _ كا پينا ۲/۱۷۳ _ كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

۷۲۱

خير و نيكى : _ كى آمادگى ۲/۱۰۶ _ ميں سبقت ۲/۱۴۸ _ كا سرچشمہ ۲/۱۰۵ _ كے موارد ۲/۱۸۰ ، ۱۸۴

خيرخواہى : ر _ ك حضرت موسىعليه‌السلام

۷۲۲

اشاريى(۳)

د

دار الاسلام : ر_ ك سرزمين ہا (سرزمينيں )

دريا: كشتى كى _ميں حركت ۲/۱۶۴ دريائے نيل ۲/۵۰ _ كے پانى كا شگافتہ ہونا ۲/۵۰ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

دزدى ( چوري) : ر_ ك حرم

درماندہ راہ : _كى ضروريات كو پورا كرنا ۲/۱۷۷

درخت: درختوں كا پھل دينا ۲/۲۲ درختوں كے پھل دينے كا منبع ۲/۲۲ درختوں كا پھل ۲/۲۲ نيز ر_ ك بہشت، كافور

دشمن : دشمنوں كى سازشوں سے آگاہى ۲/۱۳۷ دشمنوں سے انتقام ۲/۱۹۰ دشمنوں كے پراپيگنڈے كا جواب ۲/۱۳۵ دشمنوں كا پراپيگنڈا ۲/۱۵۰ _ كى سازش سے چشم پوشى ۲/۱۰۹ جنگ ميں _ كے حقوق ۲/۱۹۰ اللہ تعالى كے_ ۲/۹۸ دشمنوں كے شر كو دور كرنا ۲/۱۳۷ _سے معاملے يا تعلق كى روش ۲/۱۰۹_ سے نرم برتاؤ كى آمادگى ۲/۱۱۰ دشمنوں كا سوء استفادہ كرنا ۲/۱۰۴ _ كى معافى ۲/۱۰۹ دشمنان خدا كا كفر ۲/۹۸ دشمنوں سے نبرد آزمائي ۲/۱۰۹ ، ۱۱۰ ، دشمنوں سے روابط كے مراحل ۲/۱۰۹ _ كے پراپيگنڈے سے ممانعت ۲/۱۵۰

نيز ر_ ك اطاعت، ترس (خوف ) ، جنگ ، جہاد، دشمن شناسى ، دشمنى ، صبر //دشمن شناسى : _ كے معيارات ۲/۱۶۹ //دينى معاشرہ: _ كو پہنچنے والے نقصان كى شناخت ۲/۸۶ _ كا تمسخر اڑانا ۲/۱۴ _ كا امتحان ۲/۱۵۵ _ كى تباہى كے عوامل ۲/۱۲ _ كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲/۱۵ نيز ر_ ك منافقين //دادا: ۲/۱۳۳

دربدر كرنا : _ سے اجتناب ۲/ ۸۴ ، ۸۵ _ كرنے كا انجام و سزا ۲/ ۸۵ نيز ر_ ك بنى اسرائيل تبعيدگران( دربدر كرنے والے) دين دار افراد ، مومنين ، يہود

دربدر كرنے والے لوگ: _ كى امداد كرنے سے اجتناب ۲/ ۸۵ _ كى امداد ۲/ ۸۵_

دعا: _كے نتائج و اثرات ۱/۶ ، ۲/۱۲۸ ، ۱۶۱ ، ۱۸۶ _ كے آداب ۱/۶ ، ۲/۱۲۶ ، ۱۲۷ ، ۱۲۹ _ كى قبوليت ۲/۱۸۶ _ميں خلوص ۲/۱۸۶ قبوليت _ كى خواہش ۲/۱۲۷ ، ۱۸۶ _ كى اہميت۱/۶ ، ۲/۱۸۶ _ ميں حمد و ثنا ۲/۱۲۹ پانى كى كمى كي_

۷۲۳

۲/۶۰ ہدايت كے لئے _ ۱/۶_ كى قبوليت كى آمادگى ۲/۱۲۹ قبوليت _ كى شرائط ۲/۱۸۶ قبوليت دعا كا منبع ۲/۱۲۷_ كا وقت ۲/۱۸۶ نيز ر_ ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت ا سماعيلعليه‌السلام ، ايمان ، بنى اسرائيل ، فرزند ( اولاد ) ، ماہ رمضان ، حضرت موسىعليه‌السلام

دفاع: _ ترك كرنے كے نتائج ۲/۱۹۵ _ كے آداب ۲/ ۱۹۵ _ كے احكام ۲/ ۱۹۱ حرام مہينوں ميں _ ۲/۱۹۴ _ كا دائرہ ۲/۱۹۴ نيز ر_ ك جہاد، حرم

دعوى كرنا : بغير دليل كے _ ۲/ ۹۴ ، ۱۱۱، جھوٹا_ ۲/ ۱۱۸_ اخروى سعادت كا ۲/ ۹۵ ، ۹۹_ ظالمانہ ۲/ ۹۵ _ كى اہميت كے معيارات ۲/ ۱۱_ كى قبوليت كے معيارات ۲ / ۹۴_

دنيا : كا بے قيمت ہونا ۲/۹۴ _ اور آخرت ۲/۹۴ نيز ر_ ك آرزو ، دنيا طلب افراد، دنياطلبي

دنياطلب افراد: ۲/۸۶ ، ۹۶ _ كو عذاب ۲/۸۶ _ كى سزا ۲/۸۶

دنياطلبي: _ كے نتائج ۲/۴۱ ، ۷۹ ، ۸۶ ، ۱۰۳ ، ۱۷۴ ، ۱۷۶ _ كا خطرہ ۲/۱۷۴ _ كا نقصان ۲/۱۰۲ _ كى سرزنش ۲/۹۶ _ كے عوامل ۲/۱۰۳ _ كا فسق ۲/۹۹ نيز ر_ ك بدعت گزاران ( اہل بدعت) ، دين ، علمائ، علمائے يہود،عہدشكن لوگ ، عيسائي ، يہود دوستداران خدا ( اللہ تعالى كے چاہنے والے) : ۲/۱۶۵

دشمنى : حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے _ كے اثرات و نتائج ۲/ ۹۸ تورات سے _ ۲/۹۷ مشرك رہبروں سے _ ۲/۱۶۷ كفار سے_ ۲/۹۸ ملائكہ سے_ ۲/۹۹ ہاديوں سے_ ۲/۹۷ حق سے _۲/ ۱۷۶ _ كے عوامل ۲/۱۷۶ _ اخروي_ كے عوامل ۲/۱۶۶ حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے _ كا فلسفہ ۲/۹۷ حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے_ كا ناپسنديدہ ہونا ۲/۹۷ _ كى علامتيں ۲/۱۳۷ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، انسان ، اہل كتاب ، حكومت ،خدا تعالى ، دشمن ، دشمن شناسى ، شياطين ، شيطان ، ظالمين ، علمائے يہود ، عيسائي ، مشركين ، يہود

دوستى : مشرك رہبروں كے ساتھ_ كے نتائج ۲/۱۶۷ باطل كى كے نتائج ۲/۱۶۶ مشرك رہبروں كے ساتھ_ ۲/۱۶۹ ناپسنديدہ _ ۲/۱۶۷ _اور اطاعت ۲/ دين : دينى تعليمات كے نتائج و اثرات ۲/۱۲۱ _ كى تعليم دينے كے نتائج ۲/۱۲۹ _ كے بعض حصے پر عمل كے نتائج ۲/۸۵ ، ۸۶_ پر پردہ ڈالنے كے نتائج ۲/۱۶۱ ، ۱۶۲ _ كو پہنچے والے نقصا ن كى شناخت ۲/۴۱ ، ۷۹ ، ۱۰۹ ، ۱۱۱ ، ۱۲۰ ،۱۷۰_ ميں شك سے اجتناب ۲/۱۴۷_ پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۲/۱۴۶ _ سيكھنے كى قدر و قيمت ۲/۱۵۱ _ سيكھانے كى اہميت ۲/۱۲۹ اركان_ ۲/۳ ، ۴ ، ۱۷۷_ ۱۶۶

۷۲۴

كے حقائق كا اظہار ۲/۱۶۰ _ سے منہ موڑنا ۲/۷ ، ۷۴ ، ۱۸۷ _ كے اہداف ۲/۱۷۷ _ كى حفاظت كى اہميت ۲/۱۲۰ _ كى پيروى كرنے كى اہميت ۲/۱۷۰ _شناسى كى اہميت ۲/۱۷۱ _ سے شبہات دور كرنے كى اہميت ۲/۷۸ _ قبول كرنے كى اہميت ۲/۱۴۷ _ كى حفاظت ۲/۷۸ ، ۱۳۵ _ كى اتباع كرنا ۲/۱۷۰ _ كى تبليغ ۲/۱۳۳، ۱۵۹ ، ۱۷۴_ميں تبعيض ۲/۸۵ _كے بارے ميں لوگوں كے تخيلات ۲/۷۹ _ كى تعليمات ۲/۸۳_ كى تعليم دينا ۲/۱۲۹ ، ۱۵۱ _ كا مقام ۲/۷۴ _ كى حاكميت ۲/۱۹۳ _ كى حقانيت كے دلائل ۲/۱۵۹ _ كو چھپانے والوں كى دنياطلبى ۲/۱۷۴ چنا ہوا _ ۲/۱۳۲ _ حق ۲/۱۳۵ _ حنيف ۲/۱۳۵ عالمانہ_ ۲/۱۴۵_ اور تقاضے ۲/۱۷۳ _ چھپانے كى سرزنش ۲/۱۴۶_كے بارے ميں ساز باز كا ظلم ۲/۱۴۵ _ كو چھپانے كا ظلم ۲/۱۴۰ _كو چھپانے والوں كا اخروى عذاب ۲/۱۶۲ _ كو چھپانے والوں كا عذاب ۲/۱۷۴ _ كے بعض حصے پر عمل ۲/۸۵ ، ۸۶ _ پر عمل ۲/۵ _سے منہ موڑنے كے عوامل ۲/۱۷۰_ پہ قائم رہنے كے عوامل ۲/۱۷۲_ پر پردہ ڈالنے كے عوامل ۲/۴۲ ، ۱۶۳ ، ۱۷۴ _ كے پھيلاؤ كے عوامل ۲/۱۹۳ فلسفہ _۲/۲۱ ، ۳۵ ، ۵۴ ، ۶۳ ، ۱۳۸ ، ۱۴۲ ، ۱۷۷ فہم _۲ /۱۱۸ _ قبول كرنا ۲/۱۳۲ ، ۱۴۳ ، ۱۷۱ برگزيدہ دين قبول كرنا ۲/۱۳۲ _ پر پردہ ڈالنا ۲/۴۲ ، ۱۴۰ ، ۱۶۱ _ كى نافرمانى كى سزا ۲/۱۱۹ _ چھپانے كى سزا ۲/۱۷۴ كى مخالفت كى سزا ۲/۱۴۹ _كوجھٹلانے والوں كى سزا ۲/۲۴ _ كا پھيلاؤ ۲/۱۹۳_ چھپانے كا گناہ ۲/۱۷۴ _ كى حاكميت ميں روڑے اٹكانا ۲/۱۹۳ _ فروعات_ ميں مجادلہ ۲/۱۴۸ فہم_ سے محروم لوگ ۲/۲۰ ، ۱۷۱_ كو چھپانے والوں كى اخروى محروميت ۲/۱۶۲ ، ۱۷۴ حقائق _ كى تشخيص كے معيارات ۲/۱۱۱ _ كى حقانيت كے معيارات ۲/۱۴۵ ، ۱۴۷ _ مقبول كے معيارات ۲/۱۲۰ _ كى حاكميت ميں روڑے ۲/۱۹۳ _ كى تشريع كا منبع ۲/۱۲۸ _ كا سرچشمہ ۲/۱۳۸ ، ۱۴۷_ كى اتباع ميں ركاوٹيں ۲/۱۷۰ _ ميں شك كے موانع ۲/۱۴۷ _كى فہم ميں ركاوٹيں ۲/۷_ كا نزول ۲/۱۳۶ _ كى حقانيت كى علامتيں ۲/۱۳۵ _كى تعليمات كو پھيلانا ۲/۳ _ كا نظام تعليمات ۲/۱۰۶ ، ۱۰۷ ، ۱۴۳ ، ۱۷۸_ ميں جبر و اكراہ كى نفى ۲/۱۳۳ _ كا كردار اور اہميت ۲/۳۷ ، ۱۱۳ ، ۱۷۵_ كا وحى ہونا ۲/۱۵۹ _ كا ہدايت كرنا ۲/۱۷۰ ، ۱۷۵

نيز ر_ ك اديان ، اسباط ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، اسلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، انبياءعليه‌السلام ، ايمان ، بنى اسرائيل ، سر تسليم خم ہونا ، جہاد ، ديندار لوگ، ديندارى ، دين سازان ( دين گھڑنے والے) ، دين سازى ، دين فروش لوگ ،دين فروشى ، صابئين ، عرف عام ، عقل ، عقيدہ ، علمائ، كفار ، پيامبر اسلام (ص) ، عيسائي ، عيسائيت ، منافقين ، نياز ہا ( ضروريات) حضرت يعقوبعليه‌السلام ، يہود ، يہوديت_ //دين و مذہب : ر _ ك دين اور رسومات

۷۲۵

ديندار لوگ : _ كى دربدرى سے اجتناب ۲/۸۵ _ كے قتل سے اجتناب ۲/۸۵ _ كى ذمہ دارى ۲/۸۵ _ كو تنبيہ ۲/۸۵

ديندارى : _ ميں ثابت قدم رہنا ۲/۶۳ ، ۹۳ _ كى شرائط ۲/۸۰ دين گھڑنے والے: ۲/۷۹

دين سازى : _ كا جرم ۲/۷۹ _ كا حرام ہونا ۲/۷۹ _ كا گناہ ۲/۷۹ نيز ر_ ك علمائے يہود ، كسب

دين فروش افراد: _ كا آگ كھانا ۲/۱۷۴ _ جہنم ميں ۲/۱۷۵ _ قيامت ميں ۲/۴۸ _ كى سزا ۲/۱۷۵ _ كى گمراہى ۲/۱۷۵ _ كى محروميت ۲/۱۷۵

دين فروشي: _ كے نتائج و اثرات ۲/۴۱ _ سے اجتناب ۲/۴۵ _ كى قيمت ۲/۴۱ ، ۱۷۴ _ كى قيمت كا ناچيز ہونا ۲/۹۰ _ كے منافع سے كھانا ۲/۱۷۴ _ سے اجتناب كے عوامل ۲/۴۱ _ كے عوامل ۲/۱۷۴ _ كا گناہ ۲/۱۷۴

ديت: _ ادا كرنے كے آداب ۲/۱۷۸ _ كے احكام ۲/۱۷۸ _ كے احكام پہ قائم رہنے كى اہميت ۲/۱۷۸ قتل كى _ ادا كرنا ۲/۱۷۸ قتل كي_ ۲/۱۷۸ نيز ر_ ك قاتل ، قصاص

ذ

ذبح : _ ميں بسملہ ۲/۱۷۳ نيز ر_ ك ذبيحہ

ذبيحہ : بسملہ كے بغير _ كى حرمت ۲/۱۷۳ ، بسملہ كے بغير _ كا خبائث ميں سے ہونا ۲/۱۷۳ _بسملہ كے بغير ۲/ ۱۷۳ _حرام _ كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

ذلت : دنياوى _ ۲/۱۱۴ _ كے اسباب ۲/۶۱ ، ۶۵ دنياوى _ كے اسباب ۲/۸۵ ، ۱۱۴ _ سے نجات كے عوامل و اسباب ۲/۶۲ نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، ذكر ، قرآن كريم ، عصيان گران ( نافرمان لوگ ) ، پيامبر اسلام (ص) ، مسجد ، يہود

ذكر : _ تاريخ كے نتائج ۲/۶۶ _ الہى كے اثرات و نتائج ۲/۱۵۲ قيامت كے _ كے نتائج ۲/۱۲۳ اللہ تعالى كى نعمتوں كے_ كے نتائج ۲/۱۲۲ _ الہى سے ممانعت كے نتائج ۲/۱۱۴ _ الہى سے منہ موڑنا ۲/۱۱۵ ، تاريخ كے _ كى اہميت ۲/۵۱،۵۴ _ الہى كى اہميت ۲/۲۱ ، ۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۵۲ _ نعمت كى اہميت ۲/۴۰ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے امتحان كا _۲/۱۲۴ قيامت كى ہولناكيوں كا _۲/۱۲۳ پسنديدہ عمل كے بانيوں كا _ ۲/۱۲۷ كعبہ كے بنانے كا _ ۲/۱۲۷ تاريخ كا _ ۲/۵۰ ، ۵۵،۵۸ ، ۶۰ ، ۶۱ ، ۶۳ ، ۷۳ ، ۹۳، ۱۲۴ ، ۱۲۶ ، ۱۲۷ ، تورات كا _۲/۶۳ حاكميت الہى كا _ ۲/۱۰۷ تاريخى واقعات كا _ ۲/۳۴ ، اللہ تعالى كى خالقيت كا_ ۲/۵۴ اللہ تعالى كا _ ۲/۴۰ ، ۴۷ ، ۱۲۲ ،۱۵۲ ، ۱۵۸ ، مسجد ميں _

۷۲۶

۲/۱۱۴ ، حضرت ا براہيمعليه‌السلام كى دعا كا_ ۲/۱۲۶ ، ۱۲۷ حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى دعا كا ذكر _۲/۱۲۷ عہد خدا كا_ ۲/۸۳ قدرت الہى كا_ ۲/۱۰۷ معجزے كا _۲/۶۳ كوہ طور كے معجزہ كا _ ۲/۹۳ بنى اسرائيل كى نجات كا_ ۲/۴۹ نعمت كا _۲/۲۲ ، ۴۰ ، ۴۷ ، ۱۲۲ ، ۱۲۵ _الہى ميں ركاوٹيں ڈالنے والوں كى ذلت ۲/۱۱۴ _ الہى كى آمادگى ۲/۱۵۳ _ الہى ترك كرنے كے عوامل ۲/۱۱۴ _ نعمت كا فلسفہ ۲/۴۷ ، ۱۲۲_ الہى سے ممانعت كا گناہ ۲/۱۱۴ _ الہى كى جگہ ۲/۱۱۴ _ الہى سے ممانعت ۲/۱۱۴ _ الہى كى ركاوٹيں ۲/۱۱۴

ذمہ دارى : _ كا عمومى ہونا۲/۲۱ ، ۹۹

ر

راز : _ كا افشا كرنا ۲/۷۲

راعنا : ر_ ك دشنام ( گالى دينا )

راہ معتدل ( اعتدال كى راہ ) : ۲/۱۰۸

رشتہ دار: _سے نيكى اور حسن سلوك ۲/۸۳ ضرورت مند _ كےلئے خرچ كرنا ۲/۱۷۷ _ كى ضروريات كو پورا كرنا ۲/۱۷۷ _ كے حقوق ۲/۱۸۰ نيز ر_ ك خويشاوندى ( رشتہ داري) ، وصيت

رزق كى راشن بندي: _ كى اہميت ۲/۶۰

رشتہ داري: انبياءعليه‌السلام كے ساتھ _۲/۱۳۴،۱۴۱ نيز ر_ ك تعصب، قيامت

خيال پردازى ( خيال بافي) : ر_ ك يہود

رجحانات يا محبتيں : اللہ تعالى كى محبت كے اثرات و نتائج ۲/۱۷۷ مشرك رہبروں سے محبت كے اثرات ۲/۱۶۷ مال سے محبت كے اثرات و نتائج۲/۱۷۷ اللہ تعالى كى محبت ۲/۱۶۵ طاقتور رہبروں سے محبت ۲/۱۶۵ غير خدا كى محبت ۲/۱۶۵ باطل معبودوں سے محبت ۲/۱۶۵ نسل سے محبت ۲/۱۲۸ اللہ تعالى سے محبت كے عوامل ۲/۱۶۵ باطل معبودوں سے محبت كے عوامل ۲/۱۶۵

رجعت: _ كاا مكان ۲/۵۶ ، ۷۳

۷۲۷

رحمت : _ سے فائدہ اٹھانا ۱/۳ _ كى بشارت ۲/۱۵۵ _ كا حصول ۲/۱۵۷_ سے محروم لوگ ۲/۸۸ ، ۸۹ ، ۱۵۹ ، ۱۶۲ _ سے محروم ہونا ۲/۸۸ ، ۱۵۹ ، ۱۶۱ ، ۱۶۲_ جن لوگوں كے شامل حال ہوتى ہے ۲/۳۷ ، ۶۴ ، ۱۰۵ ، ۱۵۵ ، ۱۵۷ ، ۱۶۰_ كے موجبات ۲/۱۶۰ نيز ر_ ك گناہگار لوگ ، ياس ( مايوسي)

رذائل: ر_ ك اخلاق ، يہود

رزق و روزى : _ سے استفادہ ۲/۶۰ ، ۱۷۲ پاكيزہ _ سے استفادہ ۲/۵۷ حلال _ سے استفادہ ۲/۵۷ پاكيزہ_ ۲/۱۷۲ حلال _ كمانا ۲/۱۵۵ _ كا منبع ۲/۲۲ ، ۵۷ ، ۶۰ ، ۱۷۲_ نيز ر_ ك انسان ، بنى اسرائيل ، اہل بہشت

رہبان : ر_ ك عيسائي علماء

رہبران ( قائدين ) : دينى _ كى غيبت كے نتائج ۲/۵۱ ، ۹۲ دينى _ كے قتل كے نتائج ۲/۶۱ دينى _ كا احترام ۲/۱۰۴ گمرا ہ _ كا گمراہ كرنا ۲/۱۶۶ ظالم _ كو رشوت دينا ۲/۱۸۸ _ كا رشوت خور ہونا ۲/۱۸۸ بت پرست _ ۲/۱۲۴ قيامت ميں _ ۲/۱۶۶ _ دينى اور لوگوں كے رجحانات ۲/۱۲۰ گمراہ _ قيامت ميں ۲/۱۶۶ دينى _ كے قتل كى آمادگى ۲/۶۱ دينى _ كا سازباز كرنا ۲/۱۴۵ دينى _ كى پسنديدہ گوشہ نشينى ۲/۵۱ دينى _ كا قتل ۲/۹۹ _ حق كے خلاف قيام ۲/۱۷۳دينى _ كى ذمہ دارى ۲/۶۰ ، ۱۲۶ ، ۱۵۵ ديني_ كو تنبيہ ۲/۱۲۰ نيز ر_ ك رہبرى (قيادت) ، علائق ، (رجحانات) ، مشركين ، منافقين

رياست طلبى : ر_ ك علمائے يہود

رستگاران ( سعادت مند انسان ) : ۲/۵ ۱۵

رسومات: معاشرتى _ كے نتائج و اثرات ۲/۱۷۰ غلط _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۸۹ نيز ر_ ك جاہليت ، نياكان ( اسلاف)

رشد : _ كے عوامل ۲/۱۹ ، ۲۶ ، ۴۰ ، ۴۹ ، ۱۲۴ ، ۱۳۱

رشوت : _ كے اثرات و نتائج۲ /۱۸۸ _ كے احكام ۲/۱۸۸ _ كا جرم ۲/۱۸۸ _ كا حرام ہونا ۲/۱۸۸ _ خورى كا خطرہ ۲/۱۸۸ _ كى حرمت كا واضح ہونا ۲/۱۸۸ نيز ر_ ك رہبران ( قائدين ) ، قاضى ، قضاوت

رفاقت : ر_ ك دوستي

رفاہ و آسائش : _ كى اہميت ۲/۱۲۶

نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، بنى اسرائيل ، كفار، مومنين ، مكہ معظمہ

ركوع : _ كى اہميت ۲/۱۲۵ دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں _۲/۱۲۵ _ كى جگہ ۲/۱۲۵ نيز ر_ ك نماز

۷۲۸

رنگھا ( مختلف رنگ): پيلا رنگ ۲/۶۹

روابط : اللہ تعالى سے رابطے كے اثرات و نتائج ۲/۱۱۰ نيز ر_ ك قيامت

روايت: ۱/۱ ، ۲،۵،۶،۷،۲/۱ ،۳،۶،۹،۱۴ ، ۱۵ ، ۱۷ ،۲۰،۲۱ ، ۲۴ ، ۲۵ ، ۲۶ ، ۲۷ ، ۲۸ ، ۳۰، ۳۱ ، ۳۳ ، ۳۴ ، ۳۵ ، ۳۶ ، ۳۷ ، ۴۱ ، ۴۳ ، ۴۴ ، ۴۵ ، ۴۹ ، ۵۱ ، ۵۵ ، ۵۷ ،۵۸ ، ۵۹، ۶۰ ، ۶۱ ، ۶۳ ، ۶۵ ، ۶۶ ، ۶۷ ، ۶۸ ، ۷۰ ، ۷۱ ، ۷۳ ، ۷۶ ، ۷۹ ، ۸۱ ، ۸۳ ، ۸۵ ، ۸۷ ، ۸۹ ، ۹۱، ۹۳ ، ۱۰۱ ، ۱۰۲ ، ۱۰۴ ، ۱۰۵ ، ۱۰۶ ، ۱۱۰ ، ۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۱۷ ، ۱۲۱ ، ۱۲۴ ، ۱۲۵ ، ۱۲۶ ، ۱۲۷ ، ۱۲۸ ، ۱۲۹ ، ۱۳۳ ، ۱۳۵ ، ۱۳۶ ، ۱۳۷ ، ۱۳۸ ، ۱۴۰ ، ۱۴۲ ، ۱۴۳ ، ۱۴۴ ، ۱۴۶ ، ۱۴۷ ، ۱۵۰ ، ۱۵۲ ، ۱۵۳ ، ۱۵۵ ، ۱۵۶ ، ۱۵۸ ، ۱۶۳ ، ۱۶۶ ، ۱۶۷ ، ۱۶۸ ، ۱۷۱ ، ۱۷۳ ، ۱۷۵ ، ۱۷۷ ، ۱۷۸ ، ۱۷۹ ، ۱۸۰ ، ۱۸۱ ، ۱۸۲ ، ۱۸۳ ، ۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۶ ، ۱۸۷ ، ۱۸۸ ، ۱۸۹ ، ۱۹۳ ، ۱۹۴ ، ۱۹۵

روح القدس : _ سے مراد ۲/۸۷ _ كى اہميت ۲/۸۷ نيز ر_ ك حضرت عيسىعليه‌السلام

روز ( دن ) : ر_ ك شب

روزہ : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۸۳ ، ۱۸۴ ، ۱۸۵ _ كى ابتدا ۲/۱۸۷ _ كے احكام ۲/۱۸۳، ۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷ _ كى اہميت اور قدر و منزلت ۲/۱۸۴ كى تعداد ۲/۱۸۵ _ ميں ترغيب ۲/۱۸۴_ بيمار كا _۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _غروب سے پہلے _افطار كرنا ۲/۱۸۷ _ كى انتہا ۲/۱۸۷ _ كے احكام ميں نرمى ہونا ۲/۱۸۵ _ كى اہميت ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۸۳ ، ۱۸۷ _ كے ايام ۲/۱۸۴ _ كا اجر ۲/۱۸۴ واجب _ كى تعداد ۲/۱۸۴ قضا _ كى تعداد ۲/۱۸۵ _ ميں ترغيب ۲/۱۸۴ بيمار كا _۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ اديان ميں _ ۲/۱۸۳ مسافر كا _ ۲/۱۸۴ ،۱۸۵ _ اور قرآن كريم ۲/۱۸۵ _ كى آمادگى ۲/۱۸۴ _ كى شرائط ۲/۱۸۴ قضا _ كى شرائط ۲/۱۸۴ _ كے وجوب كى شرائط ۲/۱۸۳ ، ۱۸۵ _ ميں عسر و حرج ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _كا فديہ ۲/۱۸۴ _ كا فلسفہ ۲/۱۸۵ _قضا _ كا فلسفہ ۲/۱۸۵ _كى قدرت ركھنا۲/۱۸۴ _كى قضا ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷ _ كے مبطلات ۲/۱۸۷ واجب _ كى مدت ۲/۱۸۵ _ سے معذور افراد ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _ كے فديہ كى مقدار ۲/۱۸۴ _ كے بطلان كے موارد ۲/۱۸۴ _ ميں نظم ۲/۱۸۵_ كا وجوب ۲/۱۸۳ ، ۱۸۵ _ كى قضا واجب ہونا ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵_ كا وقت ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷ _ كى قضا كا وقت ۲/۱۸۴ ، ۱۸۵ _كى خصوصيات ۲/۱۸۵ نيز ر _ ك استمداد ( مدد طلب كرنا ) ، اعتكاف ، انبياءعليه‌السلام ، زن ( عورت ) ، ماہ رمضان

۷۲۹

ز

زراعت: _ كا وسيلہ ۲/۷۱ ينز ر_ ك بنى اسرائيل

زكوة: _ كے اثرات و نتائج ۲/۴۸ ، ۱۱۰ _ كے احكام ۲/۴۳ _ كى اہميت ۲/۴۳ ، ۱۱۰ ، ۱۷۷ _ كى ادائيگى ۲/۸۳ ، ۱۱۰ ، ۱۷۷ _كے تاركين ۲/۸۳_ فطرہ ۲/۴۳ _ كا وجوب ۲/۴۳ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

زمين : _ كى خلقت كا آغاز ۲/۱۱۷ _ كى تخليق (بغير كسى نمونے كے ہوتے ہوئے)۲/۱۱۷ _ كا زندہ كرنا ۲/۱۶۴ _ كے وسائل سے استفادہ كرنا ۲/۱۶۸ _ سے استفادہ كرنا ۲/۲۲ ، ۶۱ ، ۱۶۸ _ كا نقطہ آغاز ۲/۳۰ _ كا بستر ہونا ۲/۲۲_ كى تاريخ ۲/۲۲ ، ۳۰ _ كا حكمران ۲/۱۰۷ _ كا خالق ۲/۱۱۷ ، ۱۶۴ _ كى خلقت ۲/۲۲ ، ۱۶۴ مردہ _۲/۱۶۴ _ پر سكونت ۲/۲۲ _ كے وسائل سے استفادہ كى شرائط ۲/۱۶۸_ كى زندگى كے عوامل ۲/۱۶۴ _ كا غيب سے ہونا ۲/۳۳_ كے فوائد ۲/۲۲ ، ۳۶ _ كا پھيلاؤ ۲/۳۰_ كى موجودات كا مالك ۲/۱۱۶_ كى زندگى كا معيار ۲/۱۶۴_ كى زندگى كا سرچشمہ ۲/۱۶۴ نيز ر_ ك افساد(فساد پھيلانا) ، زندگى ، شياطين

زندگى : نئے سرے سے _ ملنا ۲/۷۳ برزخى _ كى حقانيت ۲/۱۵۴ _اخروى ۲/۲۸ _دنيوى ۲/۳۶ _ كے اسباب ۲/۱۹ _ كا سرچشمہ ۲/۲۸ ، ۷۳ نيز ر_ ك امتيں ، انسان، تفكر، جامعہ (معاشرہ ) ، زمين ، شہداء ،دنياوى _ كى قدر و قيمت ۲/۱۷۹ دنياوى _ كا حرص و لالچ ۲/۹۶ زمين پر_ ۲/۳۶ نيز ر_ ك مشركين ، يہود

زہد: ناپسنديدہ_ ۲/۱۶۸ ، ۱۷۲

زيارت: ر_ ك كعبہ

زياں كار انسان : ۲/۲۷ ، ۶۵ ، ۱۲۱ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

زيبائي : _ كا منبع ۱/۲ نيز ر_ ك آفرينش ( كائنات) //زينت : بہترين _ ۲/۱۳۸

س

سائلين : _ كو كھانا كھلانا ۲/۸۳ _ كى ضروريات پورا كرنا ۲/۱۷۷

سازش ( سازباز) : ر_ ك دين ، رہبران (قائدين )

سبزى جات : ر_ ك بنى اسرائيل

سبيل اللہ : _ كى قدر و منزلت ۲/۱۵۴ _ كے موارد ۲/۱۹۰ ، ۱۹۵

۷۳۰

سپاسگزارى : ر_ ك شكر //ستائش : ر_ ك حمد //ستم : ر_ ك ظلم //ستمگران : ر_ك ظالمين //ستمگرى : ر_ ك ظلم //سجدہ : _ كى اہميت ۲/۱۲۵ _ كى حقيقت ۲/۳۴_ دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں ۲/۱۲۵ _ كى جگہ ۲/۱۱۴ ، ۱۲۵ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، ابليس ، ملائكہ

سختى : _ سے سامنا كرنے كے آداب ۲/۱۵۶ _ ميں صبر كى اہميت ۲/۱۵۵ _ ميں صبر كا اجر ۲/۱۵۵ _ برداشت كرنا ۲/۱۵۴ _ كو آسان بنانے كى روش ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۵۴ ، ۱۵۵ ، ۱۵۶ ، ۱۷۷_ ميں صبر ۲/۱۵۶ ، ۱۵۷ ، ۱۷۷ _ سے نجات كے عوامل ۲/۱۸۵ نيز ر_ ك امتحان ، تكليف شرعي

سرزمينہا ( سرزمينيں ): اسلامى _ كو آزاد كرنا ۲/۱۹۱ سرزمين بيت المقدس ۲/۵۸ سرزمين سرانديب ۲/۳۶ سرزمين سرى لنكا۲/۳۶ سرزمين كوفہ ۲/۳۴

سرگردانى : ر_ ك بنى اسرائيل ، منافقين

سازشى لوگ : _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۱۰

سوال: _ كے نتائج ۲/۱۷۱ بے جا _ كے نتائج ۲/ ۱۰۸ بے جا_ ۲/ ۶۸ ، ۷۱ ، ۱۰۸،۱۰۹ جائز _۲/ ۱۸۶

نيز ر_ ك خدا تعالى ، ماہ (چاند) ، پيامبر اسلام (ص) مسلمان

سرزنش : _ كے عوامل ۲/۱۴۶

توجيہ كرنا : ر _ ك علمائے يہود

سر تسليم خم ہونا : خدا تعالى كے حضور _ كے نتائج ۲/ ۱۱۲ ، ۱۳۱ ، ۱۳۶ ، ۱۳۷ غير خدا كے سامنے _ ہونے سے اجتناب ۲/ ۱۳۳ خداوند متعال كے حضور _ كى اہميت ۲/ ۱۱۲ ، ۱۲۸ ، ۱۳۰ ، ۱۳۱ ، ۱۳۲ ، ۱۳۴ ، ۱۳۶ ، ۱۴۱ ، ۱۴۳ ، دين كے حضور _ كى اہميت ۲/ ۱۴۳ ، غير خدا كے حضور _۲/ ۱۳۶ قضائے الہى كے حضور_ ۲/ ۱۵۶ ، ۱۵۷ اللہ تعالى كے حضور كے دلائل _۲/۱۳۱ خدا تعالى كے حضور _ كى آمادگى ۲/ ۱۳۱ خدا وند متعال كے حضور _ كے درجات و مراتب ۲/ ۱۲۸ مقام _ ۲/ ۱۲۸ مقام _ تك پہنچنا ۲/ ۱۲۹

سيكھنا : حرام _ ۲/۱۰۲ نيز ر_ ك ملائكہ

۷۳۱

سكھانا : _ كے آداب ۲/ ۱۰۲ _ كى آمادگى ۲/ ۳۱

سرور: _ كے عوامل ۲/۶۹ نيز ر_ ك اديان ، مہتدين ( ہدايت يافتہ انسان ) سرى لانكا:ر_ك سرزمينہا

سعادتمند انسان : ۲/۱۵۷

صفا و مروہ كى سعى : ۲/۱۵۸ صدر اسلام ميں ۲/۱۵۸ _ كا عبادت ہونا ۲/۱۵۸ _ كا فلسفہ ۲/۱۵۸

سعادتمندي: _كے عوامل ۲/۵ ، ۱۸۹ نيز ر_ ك رستگاران(سعادتمند انسان ) ، متقين اللہ تعالى كے رسولعليه‌السلام : ۲/۱۱۹ ، ۱۵۱ _ كے دشمن ۲/۹۸ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام

سزا : سزاؤں كے قوانين جارى كرنے كے نتائج ۲/۵۴ _ كا گناہ سے تناسب ۲/۱۵ سزاؤں كے احكام كا خير ہونا ۲/۵۴ _ كا شخصى ہونا ۲/۱۳۴ اخروي_كے عوامل ۲/۱۱۳ دنياوى _۲/۱۱۴ سزاؤں كے قوانين كا فلسفہ ۲/۵۴سزاؤں كے موجبات ۲/۷ ،۳۹ ، ۵۴ ، ۵۵ ، ۷۴ ، ۱۱۴ ، ۱۲۰ ، ۱۴۹ ، ۱۷۴ سزاؤں كا نظام ۲/۱۵ ، ۲۴ ، ۴۸

سزائيں : سزاؤں كا انفرادى ہونا ۲/۴۸ ، ۱۳۴ ،۱۴۱ _ كا نظام ۲/۸۱ ، ۱۳۴ ، ۱۴۱_ كى خصوصيات ۲/۴۸

نيز ر_ك جرائم ، كيفر( سزا ) يہوديت

حضرت سليمانعليه‌السلام : _ كا منزہ ہونا ۲/۱۰۲ _ پہ جادوگرى كى تہمت ۲/۱۰۲ _ كى حكومت ۲/۱۰۲ _ كے دشمن ۲/۱۰۲ _ اور جادو ۲/۱۰۲ _ اور كفر ۲/۱۰۲ _كا واقعہ ۲/۱۰۲ _ كى نبوت ۲/۱۰۲ نيز ر_ ك جادو، شياطين ، يہود

سياست خارجہ : ۲/۱۰۴

ش

شاكرين : _ كے درجات ۲/۵۲ ، ۵۶

شب (رات): _شب و روز ميں تفاوت ۲/۱۶۴ _ كا آغاز ۲/۱۸۷ _ و روز كى گردش ۲/۱۶۴ _ و روز كى حد ۲/۱۸۷

نيز ر_ ك شب قدر ، ماہ رمضان

شب قدر : _ كا وقت ۲/۱۸۵

شبہات: _ كے جوابات دينے كى اہميت ۲/۱۳۹ شبہہ شناسى كى اہميت ۲/۱۴۲ _ كا جواب ۲/۱۴۲ _ كا جواب دينے كى روش ۲/۸۰ معاد ميں شبہ كے زوال كے عوامل ۲/۲۹ _ كے عوامل ۲/۴۲ ، ۱۰۹ ، ۱۴۷ نيز ر_ ك مجاہدين ، نسخ

شبہہ افكنى ( شبہ ڈالنا): ر_ ك علمائے يہود ، عيسائي، يہود_

۷۳۲

شبہہ زدائي ( شبہہ دور كرنا ) : ر_ ك دين

شخم زنى ( ہل چلانا ) : گائے كے ساتھ ۲/۷۱

شرك : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۶۳ ، ۱۶۵ ، ۱۶۷ ، ۱۷۰ _ سے اجتناب ۲/۲۲ _ عبادى سے اجتناب ۲/۸۳ _كى تشويق ۲/۱۶۹_ كو رد كرنا ۲/۲۲ ، ۱۴۲_ كى آمادگى ۲/۱۱۸ ، ۱۷۰ _ كا نقصان ۲/۵۴_ عملى ۲/۹ _ عبادى كا عجيب ہونا ۲/۸۳ _كا ظلم ۲/۵۴ ، ۶۵ ۱ _ عبادى كا ظلم ۲/۵۱ ، ۹۲ _ كے عوامل ۲/۲۲ ، ۱۶۴ ، ۱۶۵ ، ۱۶۹ _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۷۳ ، ۱۹۳_ كے موارد ۲/۱۶۶ نيز ر_ ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، بنى اسرائيل ، تبرى ( برائت، عيسائيت ، يہوديت _

شريعت : ر_ ك دين ، حضرت عيسىعليه‌السلام ، حضرت موسىعليه‌السلام

شعائر اللہ : ۲/۱۵۸

شكار: تفريح كے لئے _۲/۱۷۳ نيز ر_ ك شنبہ ( ہفتہ )

شادى ( خوشي): ر_ ك سرور

شكر: _ الہى كے اثرات و نتائج ۲/۱۷۲ _ خدا كى اہميت ۲/۵۲ ، ۱۵۲ ، ۱۷۲ ، ۱۸۵ _ نعمت كى اہميت ۲/۵۷ _ كى روح پيدا كرنا ۲/۱۵۳ _كى آمادگى ۲/۵۶ _ خدا كى آمادگى ۲/۱۸۵_ نعمت ۲/۱۵۲ ، ۱۷۲ بخشش كى نعمت كا _۲/۵۲ _ سے مراد ۲/۱۸۵ _ كے موانع ۲/۵۲ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

شكنجہ : ر_ ك آل فرعون ، بنى اسرائيل ، فرعونيان( الشكر فرعون)

شناخت : _ كا وسيلہ ۲/۷ ، ۱۷۱ _ كى اہميت ۲/۱۸۵ ميں گمان ۲/۷۸ _ كے موانع ۲/۷ ، ۷۴

شوہر: _ كا كردار و اہميت ۲/۱۸۷ زوجہ و_ كے مابين اختلاف ڈالنے كى حرمت ۲/۱۰۲ زوجہ و _ كى جدائي كا نقصان ۲/۱۰۲ زوجہ و_ كا ايك دوسرے كے ليئے لباس ہونا ۲/۱۸۷

نيز ر_ك بہشت ، جادو، سوگند (قسم ) ، نيازہا (ضروريات)

شاگردان : _ ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنا ۲/۱۰۲ نيز ر_ ك علوم غريبہ (ناآشنا علوم )

۷۳۳

شجر ہ ممنوعہ: _ سے استفادہ كے نتائج ۲/۳۶ _ سے اجتناب ۲/۳۵ _سے استفادہ ۲/۳۵ _ سے مراد كيا ہے ؟ ۲/۳۵ _ كى خصوصيات ۲/۳۵ نيز ر_ ك حضرت آدمعليه‌السلام ، حضرت حواعليه‌السلام _

شراب : _ كى حرمت كا فلسفہ ۲/۱۷۳

شہادت: ر_ ك گواہي

شہرنشينى : ر_ ك بنى اسرائيل

شہداء : _ كى زندگى كا ادراك ۲/۱۵۴ _ كى زندگى ۲/۱۵۴ _ كے درجات ۲/۱۵۴ نيز ر_ ك امتحان

شياطين : _ كا مجسم ہونا ۲/۱۰۲ _ كى تعليمات ۲/۱۰۲ _كا جادو ۲/۱۰۲ _كى دشمنى ۲/۱۰۲ _كا مشاہدہ ۲/۱۰۲ _ زمين ميں _۲/۳۶ _ اور جادو ۲/۱۰۲ _ اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۲/۱۰۲ _كا كفر ۲/۱۰۲ _ كا مسكن ( رہائش ) ۲/۳۶ نيز ر_ك منافقين، يہود

شيطان : _ كے ورغلانے اور فريب و مكارى كے اثرات و نتائج ۲/۳۶ _كا بہشت سے نكالا جانا ۲/۳۶ ، ۳۸ _ كا گمراہ كرنا ۲/۱۶۹_ كا ورغلانا ۲/۳۶ ، ۱۶۸ ، ۱۶۹ _ كے پيروكار ۲/۱۶۹_ كى ترغيبات ۲/۱۶۹_ كے مختلف راستے ۲/۱۶۸ _ كے دشمن ۲/۳۶ _كى دشمنى ۲/۱۶۸ ، ۱۶۹_ كے ورغلانے كى روش ۲/۱۶۸_ كے تسلط كى زمين ہموار ہونا ۲/۱۶۸ _ كا تسلط ۲/۳۶ _ حضرت آدمعليه‌السلام كى بہشت ميں ۲/۳۶ _ كى صفات ۲/۱۶۸ _ كے چيلے ۲/۱۶۹ _ كے قدم ۲/۱۶۸_ كا كردار و اہميت ۲/۳۶ ، ۱۶۹_كا ہبوط ۲/۳۶ ، ۳۸ نيز ر_ ك ابليس، اطاعت ، شياطين

شيطنت : ر_ ك منافقين

ص

صابئين : _ كے ايمان كے نتائج و اثرات ۲/۶۲ مومن _ كا اجر ۲/۶۲ _كا دين ۲/۶۲ _ كے دين كا رسمى ہونا ۲/۶۲ _ كى ذمہ دارى ۲/۶۲

صابرين : _ كى امداد ۲/۱۵۳ _ كو بشارت ۲/۱۵۵، ۱۵۷ _ كى حمايت ۲/۱۵۴ _ كا عقيدہ ۲/۱۵۶ _ سے مراد ۲/۱۵۵_ كى خصوصيات ۲/۱۵۶_ كى ہدايت ۲/۱۵۷

صاعقہ ( كڑكتى بجلى ) : ر ك عذاب

صالحين : ۲/۱۳۰ _ آخرت ميں ۲/۱۳۰ ، ۱۳۱ _ قيامت ميں ۲/۶۲ ،

۷۳۴

۱۳۰ _ كے فضائل ۲/۳۰ _ كے درجات ۲/۱۳۰ ، ۱۳۱_

صبر: _ كے اثرات و نتائج ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۵۵ _ كى اہميت ۲/۴۵ ، ۱۵۳ ، ۱۵۴ ، ۱۷۷ دشمنوں كى اذيت پر_ ۲/۱۱۰ اطاعت ميں _۲/۱۵۵ _ كے عوامل ۲/۱۱۰ _ آتش پر _ سے مراد ۲/۱۷۵

نيز ر_ ك استمداد (مدد طلب كرنا ) ، جہاد، سختى ، صابرين ، فقر ، مومنين ، مصائب

صبغة اللہ : _ سے مراد ۲/۱۳۸

صحرائے سينا : ر_ ك بنى اسرائيل

صداقت : ر_ ك ايمان ، مومنين، يہود

صحت: ر_ك تغذيہ (كھنا اور كھلانا )

صراط مستقيم : _ سے مراد ۱/۶ ، ۷ _ كى خصوصيات ۱/۷ نيز ر _ ك ہدايت

صلہ رحم: _ كى اہميت ۲/۲۷ قطع رحم كا نقصان ۲/۲۷

ض

ضروريات زندگى : _ كو پورا كرنے كا منبع ۲/۲۲ نيز ر_ ك زندگي

ضد ، ہت دھرمي: _ سے پرہيز كے اثرات ۲/۱۱۸ _ كے ا ثرات و نتائج ۲/۷۴ ، ۱۱۸ نيز ر_ ك اہل كتاب، بنى اسرائيل، علمائے يہود، عيسائي ، مشركين ، يہود

ط

طغيان (سركشي):ر _ ك منافقين

طغيان گران ( سركش لوگ): سركشوں كو مہلت ۲/۱۵

طلاق:ر _ ك سوگند (قسم )

طواف : دين ابراہيمىعليه‌السلام ميں ۲/۱۲۵_ كرنے والوں كے درجات ۲/۱۲۵ نيز ر_ ك كعبہ، نماز

طہارت : ر_ ك بہشت ، عبادت

۷۳۵

طيبات ( پاكيزہ اشياء ) : _ سے اجتناب ۲/۱۶۹ _ سے استفادہ ۲/۵۷ ، ۱۷۲ _ كو حرام قرار دينا ۲/۱۷۲

ظ

ظالمين : ۲/۳۵ ، ۵۱ ، ۹۲ ، ۹۵ ، ۱۴۵ ، ۱۶۵ ، ۱۹۳ _ سے انتقام ۲/۵۰ _ كى بہانہ تراشى ۲/۱۵۰_ كى دشمنى ۲/۱۵۰ _ كى قيادت ۲/۱۲۴ ظالم ترين لوگ ۲/۱۱۴ ، ۱۴۰ _اور قدرت الہى ۲/۱۶۵_ كو اخروى عذاب ۲/۱۶۵ _كے بارے ميں اللہ تعالى كا علم ۲/۹۵ _كى غفلت ۲/۱۶۵ _ كى سزا ۲/۹۵_ سے نبرد آزمائي ۲/۱۹۳ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

ضروريات: _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۶۸ معنوى _ كو پورا كرنا ۲/۱۲۸ _ پورى كرنے كا سرچشمہ ۲/۱۲۶ خدائي امداد كى ضرورت ۱/۵ غذا، خوراك كى ضرورت ۲/۳۵ دين كى ضرورت ۲/۳۵ رہائش كى ضروريات ۲/۳۵ ہدايت كى ضرورت ۱/۶ ، ۲/۳۵ ، ۳۸ زوجہ و شوہر كو ايك دوسرے كى ضرورت ۲/۳۵ ، ۱۸۷ جنسى ضرورت ۲/۱۸۷

ظلم : _ كے اثرات و نتائج ۲/۹۵ ، ۶۱_ كى سزا ۲/۹۵ _ كے درجات ۲/۱۴۰ _ كے موارد ۲/۳۵ ، ۵۱ ، ۵۴ ،

۵۹ ، ۹۲ ، ۱۱۴ ، ۱۴۰ ، ۱۴۵ ، نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، ظالمين

ظلمت ( تاريكى ) : _ كے درجات ۲/۱۷ _ كے موارد ۲/۱۸

ظن : ر_ ك شناخت، عقيدہ ، لقاء اللہ

ع

عابدين : ۲/۱۳۳ ، ۱۳۴ ، ۱۳۸ ، ۱۴۱ _ كے درجات ۲/۱۲۵ نيز ر_ ك امتہا ( امتيں )

عقلاء : ر _ ك تقليد //عالم برزخ : _ كى حقانيت ۲/۱۵۴

عبادت: _ كے اثرات و نتائج ۲/۲۱ كے آداب ۱/۵_ ميں اختيار ۱/۵_ ميں خلوص ۱/۵ _كى قدر و منزلت ۲/۱۲۵ ، ۱۲۷_ سے منہ موڑنا ۲/۱۱۵ _ كى اہميت ۲/۲۱ ، ۱۱۵ _ كى آمادگى پيدا ہونا ۲/۱۲۶ _كے آداب بيان كرنا ۲/۱۲۸ _ كى كيفيت بيان كرنا ۲/۱۲۸_ كى نصيحت ۲/۱۳۳_ ميں حضور قلب ۱/۵_ الہى كے دلائل ۱/۵ ، ۲/۱۶۳ _ كى آمادگى ۱/۵ ، ۲/۲۲ _ كى قبوليت كى شرائط ۲/۱۲۷ _ الہى ۱/۵، ۲/۲۱ ، ۱۱۵ ، ۱۱۶ ، ۱۳۳ ، ۱۳۸ ، ۱۵۲ كعبہ ميں _

۲/۱۲۵ غير خدا كى _۲/۵۱ ، ۵۴_ اور پاكيزگى ۲/۱۲۵ _اور طہارت ۲/۱۲۵ _ ترك كرنے كے عوامل ۲/۱۱۴ _ كے عوامل ۱/۵_ كا فلسفہ ۲/۲۱ ، ۱۷۷ _كى جگہ ۲/۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۵۸ _كا منبع ۲/۲۱ _ ميں اكراہ و جبر كى نفى ۲/۱۳۳

۷۳۶

_ميں جگہ كى اہميت و كردار ۲/۱۲۵_ كا وجوب ۲/۸۳ نيز ر_ ك آفرينش ( كائنات)، حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاق،عليه‌السلام حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، توفيقات ، مومنين ، موجودات ، حضرت موسىعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام _ عبادت گاہ : ۲/۱۲۵ _ كى تطہير كى اہميت ۲/۱۲۵ _ كى خدمت كرنا ۲/۱۲۵

عوام: _ كا تمسخر اڑانا ۲/۶۷ _ كے حقوق كى حفاظت ۲/۱۸۸ _ كى پناہ ۲/۱۲۵ _ كا تزكيہ ۲/۱۲۹ _ كے حقوق ضائع ہونے كا خطرہ ۲/۱۸۸ _ سے حسن سلوك ۲/۸۳ _ كى كمزورى سے سوء استفادہ ۲/۷۶ _ كى گمراہى كے اسباب ۲/۱۶۶ _ كى لعنت ۲/۱۶۱ مشرك _ ۲/۱۶۵ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ، دين ، رہبران ( قائدين) ، ظالمين ، علمائے يہود، غصب ، قبلہ

عورت: _كى شرعى ذمہ دارى ۲/۳۵ حاملہ _ كا روزہ ۲/۱۸۴ _ كى ذمہ دارى ۲/۳۵ _ كى اہميت و كردار ۲/۱۸۷ نيز ر_ ك بنى اسرائيل ، قصاص

عفو و بخشش: _ كى اہميت ۲/۱۷۸ طاقت كے ہوتے ہوئے _ ۲/۱۷۸ نيز ر_ ك اہل كتاب ، بنى اسرائيل، خدا تعالى ، دشمن ، قاتلآ ، قصاص ، گناہ //آزاد : ر_ ك قصاص

لالچ : ر_ ك زندگى ، مشركين ، يہود

عبرت : _ كے عوامل ۲/۳۰ ، ۳۴ ، ۵۰ ، ۵۱ ، ۵۴ ، ۶۶ ، ۱۲۱ نيز ر_ ك اصحاب سبت ، تاريخ ، قرآن كريم ، متقين _

عبوديت : _ كے اثرات و نتائج ۲/۱۷۲_ كى قدر و منزلت ۲/۲۳ _ كا اظہار ۱/۶ _ كى روش ۲/۱۲۸ _ كى آمادگى ۲/۲۱ كى علامتيں ۱/۱ ، ۲/ ۱۷۲ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ، پيامبر اسلام (ص) ، مسلمين

عتق ( آزاد كرنا ) :ر _ ك بردہ (غلام)

عدالت ( عدل و انصاف ): كے اثرات و نتائج ۲/۱۹۴ _ كى اہميت ۲/۱۲۴، ۱۸۲ ، ۱۹۰ ، ۱۹۴

نيز ر_ ك انتقام ، اجر ، جنگ ، خدا تعالى ، رہبرى (قيادت) ، مقابلہ بہ مثل (برابر كا مقابلہ ) //عدس ( مسور) : ر_ ك بنى اسرائيل

عذاب: _ كى اقسام ۲/۱۰ اہل _۲/۷ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۲۴ ، ۳۹ ، ۷۹ ، ۸۱ ، ۹۰ ، ۹۶ ، ۱۰۴ ، ۱۲۰ ، ۱۲۳ ، ۱۲۶ ، ۱۶۷ ، ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۶_ ميں تاخير ۲/۱۶۲ دوسروں كے _ كو برداشت كرنا ۲/۱۲۳ _ ميں تخفيف ۲/۱۶۲_ ميں ہميشگى ۲/۱۶۲ بجلى كڑكنے كا _۲/۵۵ ، ۵۶ آسمانى _ ۲/۵۹ اخروي_ ۲/۱۶۲ عظيم _۲/۷ بلا بيان_ ۲/۲۴ دردناك_ ۲/۱۰ ، ۱۱ ، ۱۰۴ ، ۱۷۴ ، ۱۷۸ _ دنياوى ۲/۵۵ ، ۵۹ ذلت آميز_ ۲/۹۰ ، شديد _ ۲/۸۵ ،۸۶ ، ۱۶۵ _ سے بچنے كے عوامل ۲/۴۱ ، ۱۹۴ _

۷۳۷

سے نجات كے عوامل ۲/۱۷۴ اخروى _ سے نجات كے عوامل ۲/۴۸ كے درجات۲/۷ ، ۱۰ ،۱۱ ، ۸۵ ، ۸۶ ، ۱۰۴ ، ۱۶۲ ، ۱۶۵ ، ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۸ _ اخروى كے درجات ۲/۸۵ ،۱۱۴ _ كے موانع ۲/۱۸۹ _كے موجبات ۲/۱۱ ، ۲۴ ، ۴۱ ، ۵۹ ، ۷۹ ، ۸۱ ، ۹۰ ، ۱۰۴ ، ۱۶۲ ، ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۸ _ اخروى كے موجبات ۲/۸۵ ، ۸۶ ، ۱۱۴ ، دنياوي_ كے موجبات ۲/۶۵ ، ۶۶ _ سے نجات ۲/۸۶ ، ۱۲۰ ، اخروي_ سے نجات ۲/۴۸ ، ۱۲۳ ، ۱۶۶ نيز ر_ ك ترس ( خوف ) ، خدا تعالى ، قيامت

عرف عام : _ اور دين ۲/۱۸۰ _اور قوانين ۲/۱۸۰ _ اور موضوع كى شناخت ۲/۱۸۰ عرفى معيارات ۲/۱۸۰

عزت : ر_ ك خدا تعالى ، مومنين

عصمت : گناہ سے ۲/۱۲۴ نيز ر_ ك انبياءعليه‌السلام ،امامت

عصيان گران ( نافرمان لوگ ) : ۲/۵۹ ، ۹۳ _ كے لئے حتمى عذاب ۲/۴۸ _ كى تذليل ۲/۶۵ _ كو رد كيا جانا ۲/۶۵ _ كو دنياوى عذاب ۲/۶۵ _ قيامت ميں ۲/۴۸ _ كا انجام ۲/۶۶ _ كو دنياوى سزا ۲/۶۶ _ كا مسخ ہونا ۲/۶۶ نيز ر_ ك بنى اسرائيل

عطف قانون بہ ما سبق (قانون كو ماضى كى طرف لوٹانا) : ر _ ك قانون

عقل : _كى قدر و منزلت ۲/۱۷۰ _ كى اتباع كى اہميت ۲/۱۷۰ _ كا كردار و اہميت ۲/۱۷۰ _اور دين كى ہم آہنگى ۲/۱۷۰

عقيدہ : باطل _ كے اثرات و نتائج ۲/۸۰ باطل _ سے اجتناب ۲/۶۳ _ كى قدر و منزلت ۲/۹۰ _ ميں برہان و دليل كى اہميت ۲/۱۱۱ _ ميں برہان ۲/۱۱۱ آزادى _ كى تاريخ ۲/۶۷ _ كا مجسم ہونا ۲/۲۵ دينى _ ميں تخيلات ۲/۱۱۱ عقيدتى بنياد كى تقويت ۲/۱۱۰ ميں گمان ۲/۷۸ باطل_ ۲/۴۸ ، ۷۷ ، ۹۴ ، ۹۶ ، ۱۱۱ ، ۱۲۳ ، ۱۳۴ ، ۱۴۱ ، ۱۶۵ ، ۱۷۵ توحيد پہ _ ۲/۱۳۳ دين پہ_ ۲/۱۷۷ دين ابراہيمىعليه‌السلام پہ_ ۲/۱۳۰ ربوبيت الہى پہ_ ۲/۷۶ قيامت پہ_ ۲/۷۶ باطل _كے ساتھ نبرد آزمائي ۲/۸۰ دينى _ كا مرجع ۲/۱۱۳ _ كے مظاہر ۲/۹۱ ، ۹۳ ، ۹۴ _ كى تصحيح كے معيارات ۲/۹۳ دينى _ ميں مناظرہ ۲/۱۱۱

علم : _ كے اثرات و نتائج ۲/۷۴، ۱۲۰ ، ۱۳۷ ، ۱۴۵ ، ۱۸۴ _ كى اہميت ۲/۳۱ نقصان دہ _ كا سيكھنا ۲/۱۰۲ _ كا مقام و رتبہ ۲/۷۴ پسنديدہ _۲/۳۰ _ كا سرچشمہ ۲/۳۲ نيز ر_ ك علو م غريبہ ( ناآشنا علوم ) :

۷۳۸

علماء : علمائے دين كى تبليغ ۲/۱۷۴ دين دار علماء كا تزكيہ ۲/۱۷۴ علمائے دين كى دنياطلبى ۲/۱۷۴ بے عمل _ كى سرزنش ۲/۴۴ بے عمل _ كو عذاب ۲/۱۷۵ بے عمل _ ۲/۴۴ بے عمل _ جہنم ميں ۲/۱۷۵ تحريف كرنے والے_ ۲/۷۵ دنياطلب_ اور حق كو چھپانے والے ۲/۱۷۶ علمائے دين اور انحراف ۲/۱۰۱ علمائے دين اور حق پر پردہ ڈالنا ۲/۴۲ ، ۱۰۱ ، ۱۴۶ دين دار علمائے قيامت ميں ۲/۱۷۴ علمائے دين كى سرزنش كے عوامل ۲/۱۱۳ دين دار _ كے فضائل ۲/۱۷۴ علمائے دين كى اخروى سزا ۲/۱۱۳ بے عمل _ كا محروم ہونا ۲/۱۷۵_كى ذمہ دارى ۲/۴۴ علمائے دين كى ذمہ دارى ۲/۱۵۹ ، ۱۷۴ كا كردار و اہميت ۲/۷۵ فاسد _ كى اہميت و كردار ۲/۷۹ _ كى خصوصيات ۲/۱۰۳ ، ۱۸۴ علمائے دين كو تنبيہ ۲/۱۰۱ ، ۱۴۶ ، ۱۷۴ نيز _ ر_ ك علمائے اہل كتاب ، عيسائي علمائ، علمائے يہود

علمائے اہل كتاب: _ كا اقرار ۲/۱۰۱ _ كا تجاہل عارفانہ ۲/۱۰۱_ كو دھمكى ۲/۱۴۰ _ كا عذاب ۲/۱۷۵ _اور انجيل ۲/۱۷۴_ اور تورات ۲/۱۰۱ ، ۱۷۴ _اور حق چھپانا ۲/۱۴۰ ، ۱۴۴ ، ۱۴۶ ، ۱۷۴ _ اور پيامبر اسلام(ص) ۲/۱۰۱ كا علم ۲/۱۴۴ _ كى گمراہى ۲/۱۷۵ نيز ر_ ك قبلہ

عيسائي علماء : ۲/۱۱۳ _ كى حق كےخلاف معركہ آرائي ۲/۱۷۶ _ اور حق چھپانا ۲/۱۵۹ ، ۱۷۶ _ كا علم ۲/۱۴۴ _ پر لعنت ۲/۱۵۹ نيز ر_ ك قبلہ

علمائے يہود : ۲/۱۱۳ _ كى آگاہى ۲/۷۵ _ كا بدعتيں ايجاد كرنا ۲/۷۹ ، ۸۰ _ كى بصيرت ۲/۷۶ ، ۷۹ _كا عمل تحريف ۲/۷۵ ، ۷۹ _ كا توجيہات گھڑنا ۲/۷۶_ كا حق كے خلاف قيام ۲/۱۷۶_ كا حق قبول نہ كرنا ۲/۷۶ _ كى دشمنى ۲/۷۸ _ كى دنياطلبى ۲/۷۹ _ كى دين سازى ۲/۷۹_ كى جاہ طلبى ۲/۷۹ _ كى توجيہات گھڑنے كى آمادگى ۲/۷۶_ كا سوء استفادہ ۲/۷۶_ كا شبہہ پيدا كرنا۲/۷۹ _اور اسلام ۲/۷۵ _ اور حماقت ۲/۷۶_ اور قرآن كريم ۲/۷۵ _اور حق كا چھپانا ۲/۷۶ ، ۱۵۹ ، ۱۷۶_ اور پيامبر اسلام (ص) ۲/۷۶ ،۷۹ ،۱۰۱ _ اور عوام ۲/۷۵ _ اور مسلمان ۲/۷۶_ اور يہود ۲/۷۶ _ كا علم ۲/۱۴۴ _ كى ضد و ہٹ دھرمى ۲/۷۶ _ پر لعنت ۲/۱۵۹ _ كى نسل پرستى ۲/۷۶ _ كا كردار و اہميت ۲/۷۵ ، ۷۹ نيز ر_ ك قبلہ ، مسلمان //علو م غريبہ ( ناآشنا علوم ) : _ كا نقصان ۲/۱۰۲ _ سے سوء استفادہ كرنا ۲/۱۰۲ _ كے سيكھنے والوں كو تنبيہ ۲/۱۰۲ //عليت : _ كا نظام ۲/۷۳

عمرہ : _ كے احكام ۲/۱۵۸ _ كى اہميت ۲/۱۲۵ _ كے مناسك ۲/۱۵۸

عمل: _ كے اخروى اثرات و نتائج ۲/۱۶۷ ناپسنديدہ _ كے اخروى نتائج ۲/۱۶۷ _ كے نتائج ۲/۵۰ ، ۹۵

۷۳۹

، ۱۳۴ ، ۱۳۹ ، ۱۴۱ ، ۱۸۹ ناپسنديدہ_ كے نتائج ۲/۱۶۷ پسنديدہ _ كے آداب ۲/۱۲۷ جاہلانہ _ سے اجتناب ۲/۶۷ ناپسنديدہ _ سے اجتناب ۲/۶۳ _ ميں خلوص ۱/۵_ كى قدر و قيمت ۲/۱۵۴ _ كے نتائج سے پر اميد ہونا ۲/۱۸۶ دوسروں كے _ سے فائدہ اٹھانا ۲/۱۴۱ پسنديدہ _كى اہميت ۲/۱۲۷ ، ۱۴۸ _ ميں منطق كى اہميت ۲/۱۸۹ _ كى اخروى جزا ۲/۱۴۸ _ كى جزا ۲/۱۳۴ ، ۱۴۱ پسنديدہ _ كى جزا ۲/۱۴۸ ، ۱۵۸ _ كا حساب كتاب ۲/۱۳۴ _ كى قبوليت كى دعا ۲/۱۲۷ ناپسنديدہ _كى دعوت ۲/۱۶۹ _ميں صحيح روش /۱۸۹ _ميں غير درست روش ۲/۱۸۹ _پسنديدہ كى آمادگى ۲/۱۴۸ اوامر الہى پہ_ ۲/۲۱ ، ۵۸ ، ۹۳ بغير ايمان كے _۲/۳ ، پسنديدہ_ ۲/۵۱ ، ۵۴ ، ۶۰ ، ۶۷ ، ۱۲۵ ، ۱۲۷ ، ۱۲۹ ، ۱۳۳ ، ۱۵۸ ، ۱۷۰ ، ۱۸۳ رضاكارانہ طور پر پسنديدہ _ انجام دينا ۲/۱۵۸جاہلانہ_ ۲/۶۷ شيطاني_ ۲/۱۶۹ ناپسنديدہ _۲/۲۷ ، ۸۰ ، ۱۰۱ ، ۱۳۶ ، ۱۴۸ ، ۱۶۹ ،۱۷۰ ، ۱۷۲ ، ۱۸۸_ ميں دوام كے عوامل ۲/۱۵۴ ناپسنديدہ_ كى سزا ۲/۷۴ _ كى قبوليت كے لئے دعا كى كيفيت ۲/۱۲۷ _كے گواہ ۲/۱۴۳ _ كى جزا كا وقت ۲/۱۴۸

عمل صالح : _ كے اخروى اثرات و نتائج ۲/۶۲ _ ترك كرنے كے نتائج ۲/۶۲ ، ۶۵ كے اثرات و نتائج ۲/۲۵ ، ۶۲ ، ۸۲ _ كى اہميت ۲/۶۲ ، ۱۱۰ _ كى بقا ۲/۱۱۰ بہترين_ ۲/۱۱۰ _ كى جزا ۲/۲۵ ، ۱۱۰ ، ۱۴۱ _ كا مجسم ہونا ۲/۲۵ _ كى آمادگى ۲/۱۱۰ ، بغير ايمان كے _ ۲/۲۵ ، ۶۲ ، ۸۲ _ كے معيارات ۲/۱۰۴ _ كے موارد ۲/۸۳ نيز ر_ ك قيامت _

عمو (چچا) : ۲/۱۳۳ //عواطف ( احساسات): _ كو تحريك دينا ۲/۱۹۵ _ اور عقيدہ ۲/۱۶۵ نيز ر_ ك مومنين

عوامل طبيعى ( فطرى عوامل ) : عمل كے _۲/۲۲ ، ۵۰ ، ۶۱ _ كى اہميت و كردار ۲/۲۲، ۷۳

عہد: وفائے _كے اثرات و نتائج ۲/۴۰ وفائے_ كى اہميت ۲/۲۷ ، ۴۰ ، ۶۴ ، ۱۰۰ وفائے _كى آمادگى ۲/۴۰ _اللہ تعالى كے ساتھ ۲/۲۷ وفائے _۲/۴۰ ، ۴۵ ، ۱۷۷ نيز ر_ ك انسان، اہل كتاب، بنى اسرائيل ، خدا تعالى ، ذكر ، عہد شكن لوگ، عہدشكنى ، يہود

عہد جديد : ر_ ك انجيل //عہد شكن لو گ: ۲/۸۳

عہد شكنوں كى دنياطلبى ۲/۸۶_ كى محروميت ۲/۸۶ نيز ر_ ك قرآن كريم

عہدشكنى : _ كے نتائج ۲/۲۷اللہ تعالى كے ساتھ _ كے نتائج و اثرات ۲/۶۴ _ كى سرزنش ۲/۲۷ _ كے عوامل ۲/۱۰۰ اللہ تعالى كے ساتھ_ ۲/۹۹ ، ۱۰۰ اللہ تعالى كے ساتھ _ كا فلسفہ ۲/۸۶ اللہ تعالى كے ساتھ_ كى سزا ۲/۸۵ ، ۸۶ _ كا گناہ ۲/۶۴ _ سے نبرد آزمائي ۲/۱۰۰ اللہ تعالى كے ساتھ _ كے موانع

۷۴۰

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785