تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200937 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

ادراك: ادراك كے موانع ۵

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كى تباہى كے عوامل ۲

فسادى لوگ: ۱

قلب: قلبى بيمارى كے اثرات و نتائج ۵

مجرمين : ۱ ،۲

منافقين : منافقين اور اصلاح پسندى ۳; منافقين كا فساد و تباہى پھيلانا ۱ ، ۲، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷; منافقين كى جہالت ۴; منافقين كى حركات كے مقابل ہوشيار رہنا ۷; منافقين كى صفات ۱،۶; منافقين كى قلبى بيمارى ۵;منافقين كے جرائم ۱ ،۲ ، ۷;منافقين كے دعوے ۳

مومنين : مومنين اور منافقين ۶; مومنين كا ہوشيار رہنا ۷

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَكِن لاَّ يَعْلَمُونَ ( ۱۳ )

جب ان سے كہا جاتاہے كہ دوسرے مومنين كى طرح ايمان لے آؤ تو كہتے ہيں كہ ہم بيوقوفوں كى طرح ايمان اختيار كرليں حالانكہ اصل ميں يہى بيوقوف ہيں اور انھيں اس كى واقفيت بھى نہيں ہے _

۱ _ پيامبر اسلام(ص) نے منافقين سے چاہا كہ وہ باقى لوگوں كى طرح ايمان لے آئيں _و اذا قيل لهم ء امنوا كما ء امن الناس بعد والى آيت ميں ہے كہ منافقين لوگوں كے سامنے ايمان كا اظہار كرتے تھے لہذا احتمال يہ ہے كہ پيامبر اسلام (ص) اور منافقين كے مابين گفتگو ہوئي ہو جس ميں انہوں نے اپنى بے ايمانى كا اظہار كيا _

۲ _ عام لوگ پيامبر اسلام (ص) اور دين اسلام پر ايمان لانے ميں سچے تھے _آمنوا كما آمن الناس

۳ _ سچے مومنين منافقين كى نظر ميں بے وقوف اور احمق لوگ ہيں _قالوا ا نومن كما آمن السفهاء

۶۱

۴ _ اہل نفاق نے بيمار دل ہونے كے باعث اہل ايمان پر حماقت كى تہمت لگائي _فى قلوبهم مرض أنومن كما آمن السفهاء

۵ _ تكبر اور اپنى بڑائي بيان كرنا اور سچے مومنين كى تحقير كرنا منافقين كى صفات ميں سے ہے_أنومن كما آمن السفهاء

۶ _ منافقين نے مومنين پر حماقت كى تہمت لگاكر دعوت ايمان كو قبول نہ كيا _قالواأانومن كما آمن السفهاء

۷ _ منافقين خود كو بڑے عاقل اور روشن فكر سمجھتے ہيں _أنومن كما آمن السفهاء

۸ _ منافقين خود ہى بے عقل اور احمق ہيں _الاانهم هم السفهاء اس جملے ''الا انهم ...'' ميں خبر پر موجود ''ال'' اور ضمير فصل حصر پر دلالت كرتے ہيں اصطلاح ميں اسے حصر اضافى كہتے ہيں پس جملے كا معنى يہ بنتاہے _ منافقين ہى احمق ہيں نہ كہ سچے مومنين_

۹_ منافقين اپنى حماقت و كم عقلى سے بے خبر ہيں _الا انهم هم السفهاء و لكن لا يعلمون

۱۰_ نيكيوں كو برائي سمجھنا اور برائيوں كو نيكى تصور كرنا منافقين كى خصوصيات ميں سے ہے_اذا قيل و اذا قيل لهم آمنوا قالواانومن كما آمن السفهاء يہ مطلب اس سے اخذ ہوتاہے كہ منافقين فساد، خرابى اور تباہى كو اصلاح اور ايمان كو حماقت و بے عقلى تصور كرتے ہيں _

ايمان : ايمان كے متعلقات ۲;ايمان ميں صداقت ۲; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى دعوت ۱

قلب: بيمارى قلب كے نتائج و اثرات ۴

منافقين : منافقين اور روشن فكرى ۷; منافقين اور مومنين ۳، ۴،۵،۶; منافقين كا ايمان سے اجتناب ۶; منافقوں كا تكبر ۵; منافقوں كو ايمان كى دعوت ۱;منافقوں كى جہالت ۹; منافقين كى حماقت ۸،۹; منافقين كى صفات ۵، ۸ ، ۱۰;منافقين كے توہمات۷;منافقين كے قلب كى بيمارى ۴

منكر يا برائي : برائي كو نيكى ( معروف) تصور كرنا ۱

مومنين: صدر اسلام كى مومنين كى صداقت ۲; مومنين پر حماقت و بے عقلى كى تہمت ۳،۴; مومنين كے تحقير ۵

نيكياں يا معروف : نيكيوں كو منكر (برائي) تصور كرنا ۱۰

۶۲

وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِؤُونَ ( ۱۴ )

جب يہ صاحبان ايمان سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لے آئے اور جب اپنے شياطين كى خلوتوں ميں جاتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تمھارى ہى پارٹى ميں ہيں ہم تو صرف صاحبان ايمان كا مذا ق اڑاتے ہيں _

۱ _ منافقين جب مومنين كے درميان ہوتے ہيں تو ايمان كا اظہار كرتے اور اپنے آپ كو مسلمان ثابت كرنے كى كوشش كرتے _و اذالقوا الذين آمنوا قالوا آمنا

۲ _ بعثت النبى ( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے زمانے كے منافقين دو گروہوں پر مشتمل تھے _ ايك منافقوں كے سربراہ اور دوسرے ان كے پيروكار_و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا و اذا خلوا الى شياطينهم

''شياطينہم'' سے مراد منافقوں كے سردار ہيں ان كو شيطان قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ سازشيں تيار كرنے اور لائحہ عمل دينے والے لوگ يہى تھے_ يہاں قابل ذكر نكتہ يہ ہے كہ منافقين كے سردار وں كا بھى منافق ہونا احتمال كى صورت ميں پيش كيا گيا ہے_

۳ _ صدر اسلام كے منافقين اپنے سرداروں ، رہبروں كے ساتھ مخفى ملاقاتيں كرتے تا كہ اسلام و مسلمين كے خلاف سازشيں تيار كريں _

و اذا خلوا الى شياطينهم

'' خلا بہ واليہ'' اسكا معنى يہ ہے كہ اس نے اس كے ساتھ خلوت ( ميں ملاقات) كى _ بعض كا كہناہے كہ ''خلا'' جب ''الي'' كے ساتھ متعدى ہوتاہے تو اس ميں ''جانے'' كا مفہوم بھى پايا جاتاہے بنابرايں '' و اذا خلوا ...'' كا معنى يہ ہوا ''و اذا ذہبوا الى شياطينہم خالين بھم'' يعنى جب وہ اپنے سرداروں كى طرف جاتے تو ان كے ساتھ خلوت نشين ہوتے_

۴ _ منافقين كے گرو يا سربراہ سازشيں تيار كرنے والے شرير اور شياطين كى طرح ہيں _و اذا خلوا الى شياطينهم

۶۳

۵ _ صدر اسلام كے منافقين جب اپنے سربراہوں كى محفل ميں ہوتے تواپنے ہم مذہب،ہم عقيدہ (يعنى اسلام كا انكار) ہونے پر تاكيد كرتے_و اذا خلوا الى شياطينهم قالوا انا معكم

۶_ منافقوں كے اظہار اسلام كا ہدف مسلمانوں اور ايمانى معاشرے كا مذاق اڑانا ہے_قالوا آمنا انما نحن مستهزء ون

۷_ بعثت النبى ( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے زمانے ميں منافقت كى تحريك كے سربراہ اپنے پيروكاروں كے اسلام كى طرف رغبت سے پريشان تھے_قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن '' انما ...'' ميں حصر اضافى ہے اور '' حصر قلب'' كى ايك قسم ہے ايسے حصر كا استعمال وہاں ہوتاہے جہاں متكلم مخاطب كيلئے پيش آنے والے وہم كو دور كرنا چاہتاہو_ اس جملے ''انما نحن ...'' ميں (سرداروں كا) تو ہم ( جو دور كيا جارہاہے) يہ ہے كہ وہ منافق جو پيروكار ہيں اسلام كى طرف راغب ہوگئے ہيں _

۸_ منافقوں كا ظاہرى طور پر مسلمانوں والے اعمال انجام دينا ہرگز اس ليئے نہيں ہوتا كہ منافقوں كو كچھ تھوڑى سى بھى دين سے رغبت ہے_قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن ''انما نحن ...'' ميں موجود حصر گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے يعنى ہم ايمان يا مومنين والے اعمال جو انجام ديتے ہيں انكا مقصد صرف مذاق اڑاناہے_

۹ _روى عن ابى جعفر عليه‌السلام '' فى قوله شياطينهم'' انهم كهانهم (۱) امام باقر عليہ السلام سے روايت ہے كہ آيہ مجيدہ ميں شياطينہم سے مراد يہودى كا ہن ہيں _

اسلام : اسلام كے خلاف سازشيں ۳ / حديث : ۹

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كا مذاق اڑانا ۶

مسلمان: مسلمانوں كا مذاق اڑانا ۶; مسلمانوں كے خلاف سازشيں ۳

منافقين : پيروكار منافقين ۲; صدر اسلام كے منافقين ۲، ۳، ۵، ۷; منافقين اور مومنين ۱; منافقين كااسلام ظاہر كرنا ۱،۶،۸; منافقين كا كفر ۵; منافقوں كا مذاق ۶; منافقوں كى تنظيم ۳; منافقين كى سازشيں ۳; منافقين كى منافقت ۱; منافقين كے جرائم ۳; منافقين كے رہبروں كى پريشانى ۷;منافقين كے رہبروں كى شيطنت ۴; منافقين كے رہبروں كى شيطانى حركات ۴; منافقين كے سردار ۲; منافقين كے سرداروں كى سازشيں ۴; منافقين كے شياطين ۹;منافقين كے كاہن ۹

____________________

۱) تبيان شيخ طوسى ج/۱ ص ۷۹ ، مجمع البيان ج/۱ ص ۱۴۰_

۶۴

اللّهُ يَسْتَهْزِىءُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ( ۱۵ )

حالانكہ خدا خود ان كو مذاق بنائے ہوئے ہے اور انھيں سركشى ميں ڈھيل ديئے ہوئے ہے جو انھيں نظر بھى نہيں آرہى ہے_

۱_ اللہ تعالى نے منافقين كو ذليل و خوار كركے ان كا مذاق اڑايا _

الله يستهزيء بهم

''استهزائ ' 'كا معنى تمسخر اڑاناہے_ ہدف يہ ہے كہ جسكا تمسخر اڑايا گياہے اس كو ذليل و خوار كيا جائے_

۲ _ اللہ تعالى كى جانب سے منافقين كو ''استہزائ'' كرنا يہ اس عمل كى سزا تھى جو وہ اسلام اور ايمانى معاشرے كا مذاق اڑاتے تھے_

انما نحن مستهزء ون _ الله يستهزيء

اس آيہ مجيدہ ميں تمسخر كرنے والے منافقين كى سزا بيان كى گئي ہے_

۳ _ منافقين گمراہى و سركشى كى وادى ميں متحير و سرگرداں ہيں _

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

'' يعمہون'' كا مصدر '' عَمَہ'' ہے جسكا معنى حيرت و سرگردانى ہے _ '' يمدھم'' ميں ''ہم''

كے لئے يعمہون حال واقع ہوا ہے اور '' فى طغيانہم'' يمدہم سے متعلق ہونے كے علاوہ يعمہون سے بھى متعلق ہوسكتاہے_ پس جملے كا معنى يوں ہوگا منافقين در آں حاليكہ گمراہى و سركشى ميں سرگرداں ہيں اللہ تعالى انكى سركشى ميں اضافہ كرتاہے_

۴ _ اہل نفاق كى سركشى و سرگردانى ميں مسلسل اضافہ ہورہاہے _

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

''يمدّ'' كا مصدر ''مدّ'' ہے جسكا معنى اضافہ كرنا يا مہلت دينے كے ہيں _مذكورہ مطلب پہلے معنى سے ماخوذ ہے_

۵ _ اہل نفاق كى حيرت و سركشى ميں اضافہ اللہ تعالى كى جانب سے سزا كے طور پر ہے_

يمدهم فى طغيانهم يعمهون

۶_ اللہ تعالى كى جانب سے سزا گناہگاروں كے گناہ كے مطابق ہے_انما نحن مستهزؤن _ الله يستهزيء بهم

۶۵

۷ _ منافقين، گمراہوں اور سركشوں كو مہلت دينا اللہ تعالى كى سنتوں ( روشوں ) ميں سے ايك سنت ہے_

و يمدهم فى طغيانهم يعمهونيہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' مدّ'' كا معنى مہلت دينا مراد ليا جائے لسان العرب ميں آياہے ''مده فى غيه''يعنى _ امهله_ اسكو مہلت دى _

۸ _ منافقين كو انكى سركشى اور سرگردانى ميں مہلت دينا اللہ تعالى كى جانب سے انكا تمسخر ہے_الله يستهريء بهم و يمدهم فى طغيانهم يعمهون يہ مطلب اس بناپر ہے اگر جملہ '' يمدھم ...'' ، ''الله يستهزيء بهم'' كے لئے بيان اور تفسير ہو _

۹ _ صادق و سچے مومنين اللہ تعالى كى بارگاہ ميں نہايت عزيز و محترم ہيں _

انما نحن مستهزؤن _ الله يستهزيء بهماللہ تعالى نے اپنے مومنين كا منافقين كى طرف سے تمسخر كا جواب دياہے اور اسكا دفاع فرماياہے جملے كا آغاز اپنے باعظمت و جلال اسم '' اللہ'' سے فرماياہے اور خود كو انكا تمسخر كرنے كا جواب دياہے_ اس طرح كا برتاؤ كرنا اس ميں بہت سارے نكات ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ مومن كى اللہ تعالى كے ہاں بہت عزت و منزلت ہے_

۱۰_ تمسخر كى سزا اگر تمسخر ہو تو ناپسنديدہ نہيں ہے _انما نحن مستهزء ون_الله يستهزيء بهم

۱۱ _ امام رضا (عليہ السلام) سے روايت ہے _

''ان الله تبارك و تعالى لا يسخر و لايستهزي ...ولكنه عزوجل يجازيهم جزاء السخريةوجزاء الاستهزائ ...''(۱) اللہ تعالى كسى كا بھى تمسخر اور استہزاء نہيں كرتا بلكہ اسكى صاحب عزت و جلال ذات منافقين كو ان كے تمسخر اور استہزاء كى سزا ديتى ہے_

استہزاء : جائز استہزاء ۱۰; استہزاء كى سزا ۱۰

اسلام: اسلام كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا تمسخر كرنا ۱، ۲ ، ۸، ۱۱; اللہ تعالى كا سزا دينا ۵ ، ۶; سنن الہى ۷

پاداش: پاداش دينے كا نظام ۶;گناہ كا پاداش سے تناسب۶

حديث : ۱۱

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۶۳ ح /۱ باب ۲۱ ، نورالثقلين ج/۱ص ۳۵ ح ۲۳_

۶۶

دينى معاشرہ : دينى معاشرے كے تمسخر اڑانے كى سزا ۲

سركش: سركشوں كو مہلت دينا ۷

سنن الہي: مہلت دينے كى الہى سنت ۷

گمراہ: گمراہوں كو مہلت دينا ۷

منافقين : منافقين كا تمسخر ۱، ۲، ۸; منافقين كو مہلت دينا ۷،۸;منافقين كى تحقير ۱; منافقين كى سركشى ۳ ، ۸; منافقين كى سركشى ميں اضافہ ۴،۵ ; منافقين كى سرگردانى ۳،۸; منافقين كى سرگردانى ميں اضافہ ۴،۵; منافقين كى سزا ۵; منافقين كى گمراہى ۳;منافقين كے تمسخر كى سزا ۲،۱۱

مومنين: مومنين كى عزت ۹; مومنين كى منزلت و درجات ۹

أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ ( ۱۶ )

يہى وہ لوگ ہيں جنھوں نے ہدايت كو دے كر گمراہى خريدلى ہے جس تجارت سے نہ كوئي فائدہ ہے اور نہ اس ميں كسى طرح كى ہدايت ہے _

۱_ منافقين ہدايت كے كھوجانے اور ضائع كردينے كے مقابل گمراہى كے خريدار ہيں _اولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدي

۲ _ بعثت النبى (ص) كے زمانے ميں منافقين كے ہدايت حاصل كرنے كے تمام امكانات موجود تھے_اشترو الضلالة بالهدي آيہ مجيدہ ميں ہدايت كو انكا سرمايہ شمار كيا گيا ہے_ در آں حاليكہ منافقين نے ہدايت نہ پائي پس آيہ مباركہ اس حقيقت كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ ہدايت كے تمام تر امكانات اور خارجى اسباب گويا ان كے اختيار ميں تھے_

۳_ منافقين كى تجارت ( ہدايت كے مقابلے ميں گمراہى خريدنا) ايسى تجارت ہے جس ميں كوئي سود و منفعت نہيں ہے_

فما ربحت تجارتهم

۶۷

۴ _ منافقين اپنے حقيقى سود و زياں سے آگاہى نہيں ركھتے _و ما كانوا مهتدين

ما قبل جملوں كى روشنى ميں '' مہتدين'' سے مراد حقيقى سود و زياں ہے گويا آيت كا مفہوم يہ ہے:و ما كانوا مهتدين الى منافعهم و مضارهم

۵_ اہل نفاق كا گمراہى اختيار كرنے اور ہدايت كو كھودينے كا سبب اپنے حقيقى سود و زياں سے عدم آگاہى ہے_اولئك الذين اشتروا الضلالة و ما كانوا مهتدين

''ما كانوا مهتدين'' كا جملہ''اشتروا الضلالة بالهدى '' پر عطف ہے گويا اسكى دليل كے طور پرہے_ يعنى يوں ہے: چونكہ اپنے حقيقى سود و زياں سے آگاہ نہيں ہيں اس لئے انہوں نے ايسى تجارت كى ہے_

۶ _ انسان كا حقيقى نقصان و زياں اس ميں ہے كہ وہ گمراہى اختيار كرے اور ہدايت كو كھودے_اشتروا الضلالة بالهدى فما ربحت تجارتهم

۷ _ منافقين اسلام كے فقط اظہار سے اپنے مقاصد (مفادات كا حصول اور اسلام كو نقصان پہنچانا) ميں كاميابى حاصل نہيں كرسكتے _و ما كانوا مهتدين

يہ مطلب اس صورت ميں ہے كہ '' مھتدين'' كامتعلق منافقوں كے مقاصد ہوں يعنى مراد يہ ہو :و ما كانوا مهتدين الى مقاصدهم _ بعد والى آيات اس مطلب كى تائيد بھى كرتى ہيں _

گمراہي: گمراہى كا زياں ۶

منافقين: صدر اسلام كے منافقين ۲; منافقوں كا اظہار اسلام ۷; منافقوں كا نقصان۴;منافقوں كى تجارت ۳; منافقين كى جہالت ۴;منافقين كى جہالت كے اثرات و نتائج ۵; منافقوں كى سازشيں ۷; منافقوں كى شكست ۷; منافقين كى گمراہى ۱،۳; منافقين كى گمراہى كے عوامل ۵; منافقين كى ہدايت ۲; منافقين كى ہدايت فروشى ۱، ۳، ۵

نقصان و زيان: نقصان كے عو امل ۶

۶۸

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ ( ۱۷ )

ان كى مثال اس شخص كى ہے جس نے روشنى كے لئے آگ بھڑكائي اور جب ہر طرف روشنى پھيل گئي تو خدا نے اس نور كو سلب كرليا اور اب اسے اندھيرے ميں كچھ سوجھتا بھى نہيں ہے _

۱ _ منافقين كا اظہار ايمان كرنا ايسے شخص كى مانند ہے جو تاريكى سے نجات كے لئے بہت جلد بجھنے والى آگ روشن كرے_

مثلهم كمثل الذى استوقد ناراً فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم

''استوقد '' كا مصدر استيقاد ہے جسكا معنى آتش روشن كرنا ہے ''لما'' حرف شرط ہے جبكہ اسكا جواب محذوف ہے اور يہ جملہ ''ذہب اللہ ...'' اس كے جواب كى طرف اشارہ ہے گويا مطلب يوں ہوا : جيسے ہى آگ نے اس كے اطراف ميں روشنى پھيلائي تو بجھ گئي اور وہ تاريكى ميں رہ گيا_

۲_ منافقين ايمان كا مظاہرہ كركے اپنے مفادات كا حصول اور معاشرتى مشكلات سے چھٹكار اچاہتے ہيں _

مثلهم كمثل الذى استوقد ناراً ذهب الله بنورهم

منافقين كو ايسے آدمى سے تشبيہ دى گئي ہے جو تاريكى ميں بہت جلد بجھنے والى آگ جلاتاہے_

اس سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ كافر ايمانى معاشرے ميں سماجى مشكلات سے دوچار ہے لہذا مجبوراً ايمان كا اظہار كرتاہے تا كہ ان مشكلات سے نجات حاصل كرسكے ليكن اللہ تعالى بہت جلد ہى اسكو ذليل و رسوا كرديتاہے_

۳ _ منافقين كو ايمان كا مظاہرہ كرنے سے بہت ہى كم اور ناپائيدار مفادات حاصل ہوتے ہيں _فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم

۴ _ منافقين اپنے ايمان كے مظاہرے سے سوء استفادہ كرپائيں اللہ تعالى اس فرصت كو بہت محدود فرماديتاہے_ذهب الله بنورهم

۵ _ ايمان كے مظاہرے سے كچھ فائدے حاصل ہوتے ہيں اگرچہ يہ فوائدناپائيدار اورزودگذرہوتے ہيں _فلما اضائت ما حوله ذهب الله بنورهم

۶_ كچھ لوگ اگر چہ ان كا ايمان صادق ہوتاہے ليكن

۶۹

اس كے باوجود منافقت كى طرف مائل اور منافقين ميں سے ہوجاتے ہيں _ذهب الله بنورهم اس جملے ''ذہب اللہ بنورہم'' ميں ان كى تعريف كى گئي ہے كہ جو نور ركھتے تھے اس اعتبار سے مذكورہ بالا مفہوم اخذ كيا جاسكتاہے گويا آيہ مباركہ بيان فرمارہى ہے كہ منافقين كا ايك گروہ ايسا ہے جو شروع ميں حقيقى ايمان لے آيا ليكن بعض عوامل و اسباب كى بناپر منافق ہوگيا_ اس بات كى تائيد بعد والى آيت كا يہ جملہ ہے'' فهم لا يرجعون''

۷_ اللہ تعالى منافقوں كو نور ايمان سے محروم كركے انتہائي سخت تاريكيوں ميں مبتلا كرتاہے_ذهب الله بنورهم و تركهم فى ظلمات لا يبصرون ''ظلمات'' نكرہ استعمال ہوا ہے اس سے تاريكى كى شدت و سختى مراد ہے_

۸_گمراہى كے مختلف شعبے اور اسكے مختلف چہرے ہيں _و تركهم فى ظلمات لا يبصرون يہ مطلب '' ظلمات _ تا ريكياں اور گمراہياں '' كے جمع استعمال ہونے سے ماخوذ ہے_

۹_ منافقين سے نور ايمان سلب ہونے كے بعد ہدايت كى كوئي راہ باقى نہيں رہي_و تركهم فى ظلمات لا يبصرون جملہ'' تركهم فى ظلمات'' يہ بيان كرتاہے كہ منافقين كو تاريكيوں نے مكمل طور پر گھير ركھاہے لہذا نجات كى كوئي راہ نہيں ہے جملہ''لا يبصرون_ وہ نہيں ديكھتے'' حكايت كرتاہے كہ ديكھنے اور ہدايت ہونے كے وسائل و امكانات نابود ہوچكے ہيں بالفاظ ديگر نہ صرف يہ كہ ہدايت كى راہ ميں ركاوٹيں ايجاد ہوچكى ہيں بلكہ ان ميں ہدايت قبول كرنے كى صلاحيت ہى ختم ہوچكى ہے_

۱۰_ منافقين كو بہت كم مدت روشنى كے بعد تاريكى و گمراہى ميں رہنے دينا اللہ تعالى كى جانب سے ان كا استہزاء ( تمسخر) تھا_الله يستهزيء بهم فلما اضاء ت ما حوله ذهب الله بنورهم ممكن ہے اس جملے ''الله يستهزي بهم و يمدهم'' كے لئے توضيحى جملہ مثال كى صورت ميں يہ جملہ ہو'' فلما اضا ء ت ما حوله ...''

۱۱ _ ابراہيم بن ابى محمود كہتے ہيں :'' سألت ابا الحسن الرضا عليه‌السلام عن قول الله تعالى ''و تركهم فى ظلمات لا يبصرون''فقال ...منعهم المعاونة و اللطف وخلى بينهم و بين اختيارهم (۱) ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے سوال كيا اللہ تعالى كے اس قول''وتركہم فى ظلمات لا يبصرون'' كا كيا مطلب ہے؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا يعنى ان كو اپنى مدد اور لطف و كرم سے محروم كرتاہے اور ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديتاہے_ اللہ تعالى : اللہ تعالى كا استہزاء ( تمسخر) كرنا ۱۰; اللہ تعالى كے افعال۷; امداد الہى سے محروم ہونا ۱۱

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۱ ص ۱۲۳ ح ۱۵ باب۱۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۳۶ ح ۲۶_

۷۰

ايمان: اظہار ايمان كے اثرات و نتائج ۵; ايمان سے محروم لوگ ۷; نور ايمان ۷ ، ۹

تاريكي: تاريكى كے درجات ۷

تشبيہات: آگ جلانے والے سے تشبيہ ۱

حديث: ۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كى مثاليں ۱

گمراہي: گمراہى كى اقسام ۸

منافقت: منافقت كى طرف مائل ہونے والے ۶

منافقين : ۶ منافقين تاريكى ميں ۷ ، ۱۰; منافقين كا استہزاء كرنا ۱۰; منافقين كا اظہار اسلام ۱،۲،۳،۴; منافقين كو مہلت دينا ۴; منافقين كى گمراہى ۹،۱۰; منافقين كى محروميت ۷; منافقين كى مفادپرستى ۲; منافقين كى ہدايت ۹

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ ( ۱۸ )

يہ سب بہرے ، گونگے اور اندھے ہوگئے ہيں اور اب پلٹ كر آنے والے نہيں ہيں _

۱_ ظلمت و گمراہى ميں رہنے والے منافقين بہرے، گونگے اور نابينا افراد كى طرح ہيں _

تركهم فى ظلمات لا يبصرون_صم بكم عمي صم بكم، عمى بالترتيب اصم ( بہرہ)ابكم ( گونگا) اوراعمى ( اندھا) كى جمع ہے _ يہ كلمات مبتدائے محذوف كى خبر ہيں جو ''ہم'' ہے اور ماقبل آيت ميں ان لوگوں ( ظلمتوں ميں گھرے ہوئے منافقين ) كا ذكر ہوا ہے_

۲_ منافقين حق سننے ، حق ديكھنے اور حق بولنے كى توانائي نہيں ركھتے_صم بكم عمي

۳ _ منافقين معارف الہى اور دينى حقائق كے ادراك و تشخيص سے ناتواں ہيں _صم بكم عمي

۴ _ حقائق كے سننے، ديكھنے اور كہنے سے عاجزى و ناتوانى وہ ظلمتيں ہيں جن سے منافقين دوچار ہيں _و تركهم فى ظلمات لا يبصرون _ صم بكم عمي يہ آيہ مباركہ ممكن ہے ''ظلمات '' اور''لا يبصرون'' كے لئے تفسير ہو_

۵ _ گمراہيوں كى ظلمت ميں گھرے ہوئے منافقين كے پاس راہ نجات نہيں ہے اور يہ لوگ حقيقى ايمان كى طرف نہيں لوٹ سكتے_صمٌ بكمٌ عميٌ فهم لا يرجعون

تشبيہات: اندھے سے تشبيہ ۱;بہرے سے تشبيہ ۱; گونگے سے تشبيہ ۱

۷۱

ظلمت: ظلمت كے موارد ۴،۵

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ۱

گمراہي: گمراہى كى ظلمت ۵

منافقين : منافقين اور حق بينى ۲; منافقين اور حق گوئي ۲; منافقين كا اندھاپن ۱; منافقين كا برا ادراك ۳،۴; منافقين كا بہرہ پن ۱;منافقين كا حق نہ سننا۲، ۴; منافقين كا عجز ۳،۴; منافقين كا گونگا پن ۱; منافقين كا ہدايت قبول نہ كرنا ۵;منافقين ظلمت ميں ۱، ۴ ، ۵; منافقين كى گمراہى ۱، ۵;منافقين كے پاس ادراك كى صلاحيت نہ ہونا ۳، ۴

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاء فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصْابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّهُ مُحِيطٌ بِالْكافِرِينَ ( ۱۹ )

ان كى دوسرى مثال آسمان كى اس بارش كى ہے جس ميں تاريكى اور گرج چمك سب كچھ ہو كہ موت كے خوف سے كڑك ديكھ كر كانوں ميں انگلياں ركھ ليں حالانكہ خدا كافروں كا احاطہ كئے ہوئے ہے اور يہ بچ كر نہيں جاسكتے ہيں _

۱ _ اسلام اور قرآن انسانى حيات كا سرمايہ اوررشد و تكامل كاباعث ہيں _او كصيب

۲ _ قرآن كريم منافقين كے لئے ايسى بارش كى مانندہے جو تاريك و خوفناك رات ميں بجلى اور گرج چمك كے ساتھ ہو _او كصيب من السماء فيه ظلمات و رعد و برق

۳ _ قرآن كريم اہل نفاق كے لئے ظلمت و وحشت آفرين ہے اور بعض اوقات روشنى بخش ( بعض زودگذر مفادات كا ذريعہ) بھى ہے _فيه ظلمات و رعد و برق

۴ _ منافقين قرآنى معاشرے ميں اور اسلام كے مقابل خود كو نابودى و زوال ميں تصور كرتے تھے_يجعلون اصابعهم فى آذانهم من الصواعق حذر الموت

۵ _ كفار ہر طرف سے اللہ تعالى كى قدر ت و سلطنت ميں گھرے ہوئے ہيں _والله محيط بالكافرين

۶_ منافقين كفار كے زمرے ميں ہيں _والله محيط بالكافرين

۷_ شكست، ناكامى اور زوال منافقين كا انجام ہے_والله محيط بالكافرين

۸ _ منافقين قرآن كريم كى عظمت و شہرت اور اسلام كے پھيلاؤ كے مقابل اس كے سوا كوئي چارہ نہيں ركھتے مگر يہ كہ يہ اظہار كريں انہيں تو سنائي ہى نہيں دے رہا_يجعلون اصابعهم فى آذانهم من الصواعق حذر الموت

اسلام: اسلام كى اہميت و كردار ۱; اسلام كى خصوصيات ۱

۷۲

اسماء و صفات: محيط ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا احاطہ ۵

تشبيہات: تاريكى ميں بارش سے تشبيہ ۲; تاريكى ميں بجلى سے تشبيہ ۲; تاريكى ميں بجلى كڑكنے سے تشبيہ۲

حيات: حيات كے عوامل ۱

رشد و تكامل: رشدو تكامل كے عوامل ۱

قرآن كريم : قرآن كريم اور منافقين ۲،۳; قرآن كريم كى اہميت و كردار ۱;قرآن كريم كى تشبيہات ۲; قرآن كريم كى خصوصيات ۱

كفار: ۶ كفار اللہ تعالى كے گھيرے ميں ۵

منافقين : منافقين اور اسلام ۸; منافقين اور قرآن ۸ ; منافقين دينى معاشرے ميں ۴;منافقين كا انجام ۷;منافقين كا حق نہ سننا ۸; منافقين كا كفر ۶;منافقين كى شكست ۷; منافقين كى ہلاكت ۷

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاء لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۲۰ )

قريب ہے كہ بجلى ان كى آنكھوں كو چكا چوند كردے كہ جب وہ چمك جائے تو چل پڑيں اور جب اندھيرا ہوجائے تو ٹھہر جائيں خدا چاہے تو ان كى سماعت و بصارت كو بھى ختم كرسكتاہے كہ وہ ہر شے پر قدرت و اختيار ركھنے والا ہے _

۱ _ منافقين اسلام كى سربلندى اور پيشرفت كے مقابلے ميں خو د كو درماندہ اور بندگلى ميں ديكھتے ہيں _يكاد البرق يخطف ابصارهم ان آيات ميں اسلام كے مقابلے ميں منافقين كى حالت كو چند تشبيہات سے بيان كيا گياہے_ مفسرين كا كہناہے اس جملے'' يكاد البرق ...'' ميں اسلام اور اس كى بركت سے ملنے والے وسائل و امكانات كو '' برق _ بجلي'' سے تشبيہ دى گئي ہے اسكے ساتھ ہى ان نعمتوں سے مفادپرست اور موقع پرست منافقين كے فائدہ اٹھانے كو ايك اور تشبيہ سے بيان كيا گيا ہے_

۲ _ منافقين باوجود اس كے كہ اسلام كے مقابلے ميں درماندہ و زبوں حال ہيں پھر بھى اپنى موقع پرستى كے ذريعے اسلام كى نعمتوں سے استفادہ كرنے كے در پے ہيں _كلما اضاء لهم مشوا فيه

۷۳

۳ _ اسلامى معاشرے كى سہولتوں اور فوائد سے استفادہ كرنا ليكن مشكلات اور سختيوں كے وقت عليحدہ رہنا منافقين كى خصوصيات ميں سے ہے_و اذا اظلم عليهم قاموا

۴ _ اللہ تعالى نے بعض منافقين كے ادراك و فہم كى صلاحيت سلب فرماكر انہيں ايسا بنادياہے كہ وہ حق قبول نہيں كرسكتے اور بعض كو ہدايت قبول كرنے كى مہلت عنايت فرمائي ہے_و لو شاء الله لذهب بسمعهم و ابصارهم

۵_ منافقين اس بات كے سزاوار ہيں كہ انہيں معارف الہى كى شناخت سے محروم كرديا جائے_و لو شاء الله لذهب بسمعهم و ابصارهم

۶ _ اللہ تعالى ہر كام انجام دينے پر قادر ہے _ان الله على كل شيء قدير

۷ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ''قيل لامير المومنين عليه‌السلام هل يقدر ربك ان يدخل الدنيا فى بيضة من غير ان تصغر الدنيا و تكبر البيضه؟ قال ان الله تبارك و تعالى لا ينسب الى العجز والذى سألتنى لا يكون (۱)

امير المومنينعليه‌السلام سے سوال كيا گيا : كيا اللہ تعالى دنيا كو مرغى كے انڈے ميں قرار دے سكتاہے بغير اس كے كہ دنيا چھوٹى ہوجائے اور انڈا بڑا ہوجائے؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا اللہ تبارك و تعالى كى ذات اقدس كو عاجزى كى نسبت نہيں دى جاسكتى ليكن جو تو نے پوچھا ہے وہ ہوہى نہيں سكتا_

اسلامى معاشرہ : اسلامى معاشرے سے استفادہ كرنا ۳

اسماء و صفات: قدير ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت ۶; اللہ تعالى كى قدرت كا دائرہ۷

حديث : ۷

دين: دين فہمى سے محروم لوگ ۵

منافقين : منافقين اور اسلام۱، ۲;منافقين اور دينى تعليمات ۵;منافقين كا حق قبول نہ كرنا ۴;منافقين كا عجز ۲، ۵; منافقين كا مشكلات سے فرار ۳;منافقين كى جہالت ۵; منافقين كى خصوصيات۳;منافقين كى شكست ۱; منافقين كى محروميت ۵;منافقين كى موقع پرستى ۲،۳; منافقين كے ادراك كى صلاحيت سلب ہونا ۴،۵; منافقين كے لئے مہلت ۴;

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۳۰ ح ۹ باب ۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۹ ح ۳۶_

۷۴

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( ۲۱ )

اے انسانو پروردگار كى عبادت كرو جس نے تمھيں بھى پيدا كيا ہے اور تم سے پہلے والوں كو بھى خلق كيا ہے _ شايد كہ تم اسى طرح متقى اور پرہيزگا بن جاؤ _

۱_ لوگوں كے لئے اللہ كى عبادت و پرستش ايك لازم و ضرورى فريضہ ہے_يا ايها الناس اعبدوا ربكم

۲_ اللہ تعالى سب انسانوں كا پروردگار ہے_يا ايها الناس اعبدوا ربكم

۳ _ اللہ تعالى تمام موجودہ اور گذرے ہوئے انسانوں كا خالق ہے _اعبدوا ربكم الذى خلقكم و الذين من قبلكم

۴ _ انسانوں كا خالق ہونا وہ واحد حقيقت ہے جو اس بات كى شائستگى ركھتى ہے كہ اللہ تعالى كى پرستش كى جائے_اعبدو ربكم الذى خلقكم و الذين من قبلكم عبادت و بندگى كے ضرورى ہونے كے بعد اللہ تعالى كا ''خالقيت'' سے موصوف ہونا گويا عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل بيان فرمارہاہے_

۵_ اللہ تعالى كى انسانوں پر ربوبيت اسكى پرستش و عبادت كى شائستگى كى دليل ہے_اعبدوا ربكم ''اعبدوا ربكم'' ميں اللہ كى بجائے رب كا استعمال عبادت كے ضرورى ہونے كى دليل كى طرف اشارہ ہے يعنى چونكہ ذات اقدس الہ العالمين ''رب '' ہے اس لئے پرستش كے لائق ہے پس اسكى عبادت ہونى چاہيئے_

۶ _ اللہ تعالى كى خالقيت و ربوبيت پر يقين انسان كيلئے اسكى بندگى كى طرف تمايل كا سبب ہے_اعبدوا ربكم الذى خلقكم

۷ _ انسانى اعمال و كردار كى بنياد انسان كا نظريہ كائنات يا جہاں بينى ہے_اعبدوا ربكم الذى خلقكم

۸ _ اللہ تعالى كى بندگى تقوى اختيار كرنے كى زمين ہموار كرتى ہے _

۷۵

اعبدوا ربكم لعلكم تتقون

۹ _ تقوى كا حصول تمام انسانوں كے لئے ايك نہايت لازم فريضہ ہے _لعلكم تتقون چونكہ عبادت كے ضرورى ہونے كا ہدف تقوى تك پہنچنا ہے پس تقوى كا حصول بھى لازم ہے _

۱۰ _ انسانوں كى خلقت كا ہدف تقوى كے مراتب كا حصول ہے_خلقكم لعلكم تتقون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ اگر ''لعلكم ...'' ، ''اعبدوا' ' كے علاوہ ''خلقكم'' سے بھى متعلق ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى كى بندگى انسان كو كفر و نفاق كے گرداب ميں گھر نے اور انكے نتائج سے محفوظ ركھتى ہے_ اعبدوا ربكم لعلكم تتقون كفر و نفاق كے شوم نتائج كا بيان كرنے كے بعد اللہ تعالى كى بندگى كى طرف دعوت ايك راہنمائي ہے تا كہ انسان خود كو كفر و نفاق كى طرف تمايل سے بچائے_ اس بناپر ''تتقون'' اپنے لغوى معنى ميں ہوگا اور اسكا متعلق كفر و نفاق ہوگا يعنى مفہوم آيت يوں ہوگا''اعبدوا ربكم لعلكم تتقون الكفر و النفاق''

۱۲_ اللہ تعالى كے احكام و ہ پروگرام ہيں جو انسان كو اس كے معين اہداف تك پہنچاتے ہيں _'' لعلكم تتقون'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ انسانوں كا متعين شدہ ہدف تقوى كا حصول ہے _ اس مقصد كے حصول كى خاطر اللہ تعالى نے عبادت كو واجب فرماياہے_ پس احكام الہى انسان كو اس كے اہداف تك پہنچانے كے لئے بيان ہوئے ہيں _

۱۳ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ'' فان قال ( قائل ) فلم تعبّدهم ؟ قيل لئلا يكونوا ناسين لذكره و لا تاركين لادبه و لا لاهين عن امره و نهيه (۱)

اگر كوئي يہ كہے كہ اللہ نے انسانوں كے لئے عبادت كيوں ضرورى قرار دى ہے ؟ تو كہا جائے گا اس لئے كہ اس كى ياد سے غافل نہ ہوں ؟ اس كے ادب كو ترك نہ كريں اور اس كے امر و نہى سے بى اعتنائي نہ برتيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۴; اللہ تعالى كى خالقيت ۳; اوامر الہى پر عمل ۱۳;ربوبيت الہى ۲،۵

انسان: انسان كا خالق ۳ ، ۴; انسان كى خلقت كا فلسفہ ۱۰; انسانوں كى ذمہ دارى ۱ ، ۹

ايمان: اللہ تعالى كى خالقيت پر ايمان ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۶;ايمان كے نتائج ۶; ايمان كے متعلقات ۶

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۲ ص ۱۰۳ ح ۱ باب ۳۴ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۳۹ ح ۳۹_

۷۶

بندگى و عبوديت: عبوديت كى بنياد يا جڑ ۶

تقوى : تقوى كى اہميت ۹،۱۰; تقوى كى بنياد ۸

جہاں بيني: جہاں بينى اور آئيڈيالوجى ۶،۷; جہاں بينى كى اہميت ۷

حديث : ۱۳

حقيقى معبود: حقيقى معبود كى خالقيت ۴

دين: فلسفہ دين ۱۲

ذكر: اللہ تعالى كے ذكر كى اہميت ۱۳

ذمہ دارى : ذمہ دارى كا عمومى ہونا ۱ ، ۹

عبادت: اللہ كى عبادت ۱; عبادت كا فلسفہ ۱۳; عبادت كى اہميت ۱; عبادت كى دليل ۵;عبادت كے اثرات و نتائج ۸، ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۷

كفر : كفر كے موانع ۱۱

معبوديت: معبوديت كے معيارات ۴،۵

نفاق: منافقت كے موانع ۱۱

۷۷

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاء وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّكُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۲۲ )

اس پروردگار نے تمھارے لئے زمين كا فرش اور آسمان كا شاميانہ بناياہے اور پھر آسمان سے پانى برساكر تمھارى روزى كے لئے زمين سے پھل نكالے ہيں لہذا اس كے لئے جان بوجھ كر كسى كو ہمسر اور مثل نہ بناؤ _

۱ _ انسانوں كى زندگى كے لئے زمين بہت ہى موزوں اور وسيع بسترہے _جعل لكم الارض فراشا ''جعل '' كا معنى ''صير'' _ تبديل كيا ہوسكتاہے اور '' خلق''_ خلق كيا بھى ہوسكتاہے_ ''فراشاً'' كا معنى وسيع بستر ہے اسكا زمين پر اطلاق تشبيہ كے طور پر ہے يعنى مراد يہ ہے''جعل الارض كالفراش''

۲ _ زمين كو انسانى زندگى كے لئے نہايت موزوں و مناسب خلق كرنا اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے_اعبدوا ربكم ...الذى جعل لكم الارض فراشا ''الذى جعل ...'' ما قبل آيت ميں ''ربكم '' كے لئے دوسرى صفت ہے_

۳ _ زمين اپنى خلقت كے ابتدائي دور ميں انسان كى سكونت و رہائش كے قابل نہ تھي_الذى جعل لكم الارض فراشا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''جعل '' كا معنى ''صير' ' ہو يعنى اللہ تعالى نے زمين كو اس قابل بنايا كہ سكونت اور زندگى كرنے كے قابل ہوسكے_ اس سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ زمين اپنى خلقت كے ابتدائي زمانے ميں ايسى نہ تھى _

۴ _ اللہ تعالى كى نعمتوں اور فطرى نعمات سے استفادہ كرنا تمام انسانوں كا حق ہے _فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۵ _ زمين كى وسعتوں ميں تمام انسانوں كو حق تصرف حاصل ہے_الذى جعل لكم الارض فراشا

۶ _ اللہ تعالى نے آسمان كو انسانوں كے منافع اور فوائد كے لئے بلند فرمايا _الذى جعل لكم السماء بناء

'' بنائ'' كا لفظ عرب لغت ميں عمارت، خيمہ و غيرہ كا معنى ركھتاہے_ آسمان كو بناء كہنا تشبيہ كے طور پر ہے يعنى مفہوم يہ ہوگا _جعل لكم السماء كالبناء _

۷۸

۷_ اللہ تعالى ہے جو بادلوں سے بارش نازل فرماتاہے_و انزل من السماء ماء ہر چيز جو اوپر ہو اسكو '' سمائ'' كہتے ہيں _ ''السمائ'' كا تكرار اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہر جگہ اس سے خاص مصداق مراد ہے _ پہلے جملے ميں چونكہ ''ارض'' كے مقابل استعمال ہوا ہے اس لئے آسمان كے معنى ميں ہے جبكہ دوسرے جملے ميں '' مائ'' كے قرينے سے اس سے بادل مراد ہوسكتا ہے_

۸ _ اللہ تعالى ہے جو رزق كا پيدا كرنے والا اور انسانوں كى زندگى كے اسباب مہيا فرمانے والا ہے_فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۹_ بادلوں سے نازل ہونے والا پانى انسانوں كے لئے رزق كے مہيا ہونے كا بنيادى سبب ہے_فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۱۰_ آسمان سے نازل ہونے والے پانى كے ذريعے اللہ تعالى درختوں كو پرثمر بناتاہے_وانزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات رزقالكم ثمرات كا مفرد ''ثمرة'' ہے جو درختوں كے پھلوں كےلئے استعمال ہوتاہے_''من الثمرات'' ميں '' منْ'' كا معنى بعض ہوسكتاہے_ اس صورت ميں ''من الثمرات' ، ''اخرج'' كے لئے مفعول ہوگا يعنى''فاخرج به بعض الثمرات ليكون رزقالكم'' ،''من'' بيانيہ بھى ہوسكتاہے پس اس صورت ميں ''اخرج ''كامفعول ''رزقاً '' ہوگا يعني:اخرج به رزقاً لكم وهى الثمرات

۱۱ _ درختوں كے پھل اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں اور انسانوں كے لئے رزق و روزى بھى ہے_فاخرج به من الثمرات رزقا لكم

۱۲_ آسمان كى خلقت ، بارش كا نزول، پھلوں كا پكنا اور انسانوں كے لئے رزق كا تيار ہونا يہ سب اللہ تعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _اعبدوا ربكم ...الذى جعل لكم ...رزقا لكم

۱۳ _ نعمتوں كا اللہ كى جانب سے ہونے كا يقين انسان كيلئے پروردگار كى بندگى كا محرّك بنتاہے_اعبدوا ربكم الذى انزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات يہ مطلب يوں استفادہ ہوتاہے كہ اللہ تعالى نے انسانوں ميں بندگى و عبادت كى روح زندہ كرنے كے لئے اپنى نعمتوں كى طرف لوگوں كى توجہ دلائي ہے_

۱۴ _ عالم طبيعات ميں اللہ تعالى كے افعال طبيعى اسباب اور عوامل كے ماتحت انجام پاتے ہيں _فاخرج به من الثمرات رزقالكم

۱۵_ طبيعى عوامل و اسباب پر خداوند متعال كى مطلق حاكميت قائم ہے_انزل من السماء ماء فاخرج به

۷۹

۱۶_ خداوند قدوس كا كوئي مثل و ہمسر نہيں _فلا تجعلوا للّه انداداً ''انداد'' كا مفرد ''ند'' ہے جسكا معنى مثل و ہمسر ہے_

۱۷_ پروردگار عالم كے مثل و نظير كے بارے ميں توّہم سے اجتناب كى ضرورت ہے_فلا تجعلوا لله انداداً

۱۸_ اللہ تعالى كے خلق كرنے كے اور عالم طبيعات كى نعمات كى خلقت ميں غور و فكر انسان كو عقيدہ توحيد كى طرف لے جاتاہے_الذى خلقكم الذى جعل لكم الارض فلاتجعلوا لله انداداً جمله'' لا تجعلوا ...'' كو ''فائ '' كے ساتھ بيان كرنا اس آيت اور ماقبل آيت كے حقائق كى طرف اشارہ ہے يعنى يہ كہ ان امور كى طرف توجہ انسان كو توحيد ربوبى كى طرف لے جاتى ہے گويا يہ كہ جب يہ علم ہوگيا كہ خداوند متعال ہى تمہارا خالق ہے وہى زمين كا پيدا كرنے والا ہے اور تو اب يہ معقول نہيں كہ تم اس كے لئے مثل و نظير فرض كرو_

۱۹_ كائنات كى خلقت ميں باقاعدہ ہدف اور منصوبہ بندى موجود ہے_الذى جعل فاخرج به من الثمرات رزقالكم

اس آيہ مجيدہ ميں زمين، بارش اور ديگر عوامل كو ايك خاص ہدف كے پورا كرنے كے لئے بيان كيا گيا ہے_ جب بعض امور كو كسى خاص ہدف كى تكميل كے لئے بيان كيا جائے تو اصطلاح ميں اسے منصوبہ بندى كہا جاتاہے يعنى ان امور ميں ہدف كا ہونا ضرورى ہوتاہے_

۲۰_ لوگوں كو عالم طبيعات اور خلقت كے مطالعے اور مشاہدے كى طرف ترغيب دلانا ايك راہ ہے جس سے انہيں توحيد كى طرف راغب كيا جائے_الذى جعل لكم الارض فراشاً فلا تجعلوا لله انداداً

۲۱_ اللہ تعالى كے لئے مثل و ہمسر تصور كرنا درست علم و تفكر سے سازگار نہيں ہے_فلا تجعلوا لله انداداً و انتم تعلمون

۲۲_ اللہ تعالى كے لئے مثل و ہمسر تصور كرنا جہالت و نادانى كى بناپر ہے_فلا تجعلوا لله انداداً و انتم تعلمون

آسمان: آسمان كى خلقت ۶ ، ۱۲; آسمان كے فوائد ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حاكميت ۱۵; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۲،۱۲; اللہ تعالى كى عنايات ۴،۱۱;اللہ تعالى كى وحدانيت ۱۶; اللہ تعالى كے افعال ۶،۷،۸،۱۰،۱۴;خداشناسى كى روشيں ۲۰

انسان : انسانوں كا رزق ۹، ۱۱، ۱۲;انسانوں كے حقوق ۴،۵

ايمان: توحيد پر ايمان كى بنياد ۱۸

۸۰

بادل: بادلوں كے فوائد ۷،۹

بارش: بارش كا برسنا ۷،۱۲; بارش كا منبع و سرچشمہ۷;بارش كے فوائد ۹،۱۰

تفكر : اللہ تعالى كى خالقيت ميں تفكر ۱۸;تفكر كے اثرات و نتائج ۲۱; عالم طبيعت ميں تفكر ۱۸

توحيد: توحيد ذاتى كى اہميت ۱۷

جہالت: جہالت كے اثرات و نتائج ۲۲

جہان بينى : جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۱۳

حقوق: استفادہ كا حق ۴،۵

خلقت: نظام خلقت۱۹; خلقت كا ہدف ركھنا ۱۹

درخت: درختوں كا پھل دينا ۱۲; درختوں كے پھل ۱۱; پھلوں كے وجود كا سرچشمہ ۱۰

ذكر: نعمتوں كاذكر ۱۳

روزي: روزى كا سرچشمہ ۸

زمين: زمين پر سكونت ۳; زمين سے استفادہ ۵; زمين كا بستر ہونا ۱; زمين كى تاريخ ۳; زمين كى خلقت ۲; زمين كے فوائد ۱،۲

شرك: شرك سے اجتناب ۱۷; شرك كا ناقابل قبول ہونا ۱۶،۲۱ شرك كے عوامل ۲۲

طبيعى اسباب: طبيعى اسباب كا عمل ۱۵; طبيعى اسباب كى اہميت و كردار ۱۴

عبادت: عبادت كى بنياد ۱۳

محرّك: محرك كے عوامل ۱۳

مطالعہ : كائنات كے مطالعہ كے اثرات و نتائج ۲۰

معاش: معاش كى كفالت كا سرچشمہ ۸

نعمت: نعمت سے استفادہ ۴; نعمت كا سرچشمہ ۱۳

وسائل و امكانات: امكانات كے وجود ميں آنے كے عوامل ۹

۸۱

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ( ۲۳ )

اگر تمھيں اس كلام كے بارے ميں كوئي شك ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل كيا ہے تو اس كا جيسا ايك ہى سورہ لے آؤ اور اللہ كے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ہيں سب كو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خيال ميں سچّے ہو _

۱ _ قرآن وہ كتاب ہے جو اللہ تعالى نے اپنے نبى (ص) پر نازل فرمائي _مما نزلنا على عبدنا

۲_ پيامبر اسلام (ص) اللہ كے بندے اور بندگى ميں ايك والا اور اعلى مقام ركھتے ہيں _ممانزلنا على عبدنا

۳_ عبد اور اللہ كا بندہ ہونا اعلى انسانى اقدار ميں سے ہے_ مما نزلنا على عبدنا پيامبر اكرم (ص) كى '' بندگى خدا'' كے ذريعے توصيف كى گئي ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ عبد خدا ہونا اعلى انسانى اقدار ميں سے ہے_

۴_ قرآن كريم اور اسكى ہر ايك سورة معجزہ ہے_فاتوا بسورة من مثله

۵_ قرآن كريم پيامبر اسلام(ص) كى رسالت كے اثبات كيلئے بنيادى سند ہے_ و ان كنتم فى ريب ان كنتم صادقين

۶ _ رسالت كے مخالفين قرآن كريم كے آسمانى ہونے اور اللہ تعالى كى جانب سے نزول كے بارے ميں شك كا اظہار كرتے ہيں _و ان كنتم فى ريب مما نزلنا على عبدنا

۷ _ قرآن كريم اس امر سے منزہ و مبرّا ہے كہ اس كے آسمانى ہونے كے بارے شك و ترديد كى جائے_و ان كنتم فى ريب مما نزلنا على عبدنا

كفار قرآن كريم كے آسمانى ہونے كے بارے ميں نہ فقط شك و ترديد كا اظہار كرتے بلكہ منكر قرآن تھے اسكے باوجود اللہ تعالى نے آيہ مجيدة ميں جملہ شرطيہ ( اگر تم شك ميں ہو) كا استعمال فرماياہے جو اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن كريم ميں شك و ترديد فقط قابل فرض ہے

نہ كہ حقيقت ركھتى ہے_

۸_ اللہ تعالى نے قرآن كے منكروں كو مقابلے كى دعوت دى ہے اور اس قرآن كى ايك سورہ كى مثل لانے كو كہا ہے_فأتوا بسورة من مثله ''مثله'' كى ضمير''مما نزلنا'' كى ''ما '' كى طرف لوٹتى ہے _

۹_قرآن كريم آنحضرت (ص) كے زمانے ميں ہى ''سورة'' كے عنوان سے مختلف حصوں ميں تقسيم شدہ تھا_فأتوا بسورة من مثله

۸۲

۱۰ _ قرآن كريم كے ہر حصے كو ''سورة'' قرار دينا اور اس طرح تقسيم بندى اللہ تعالى كى جانب سے ہے_*فاتوا بسورة من مثله

۱۱ _ اللہ تعالى نے قرآن كريم كے منكروں سے كہاہے كہ وہ قرآن مجيد كى ايك سورة كى مثل لانے كے لئے اپنے تمام نابغہ افراد كو دعوت ديں _وادعوا شهداء كم من دون الله

شہيد كى جمع شھداء ہے جسكا معنى ''گواہ '' ہے البتہ مطلع اور آگاہ افراد كے لئے بھى بولا جاتاہے''ادعوا'' كامصدر '' دعا '' ہے اسكا معنى ہے بلانا اوردعوت دينا _ اس جملہ ''وادعوا شہداء كم'' كا معنى يہ ہوسكتاہے_ شاہدوں كو دعوت دو تا كہ جو چيز تم لائے ہو اور اسكو قرآن كى مثال قرار ديتے ہو اس پر گواہى اور اپنى رائے ديں _ اس مفہوم كى بناپر ''شهدائ '' سے مراد گواہ ہيں _جبكہ يہ معنى بھى مراد ہوسكتاہے: اپنے شاہدوں كو دعوت دو تا كہ قرآن كى مثل لانے ميں تمہارى مدد كريں اس صورت ميں ''شهدائ '' كا معنى مطلع اور آگاہ افراد ہوگا_

۱۲_ فقط اللہ تعالى ہى ہے جو قرآن كريم كى مثل لانے كى صلاحيت ركھتاہے_وادعوا شهداء كم من دون الله

كہا گيا ہے كہ''من دون الله '' ( اللہ كے علاوہ) ''شہداء كم'' كے عموم اور اطلاق كى تاكيد كے لئے بيان ہوا ہے يعنى يہ كہ جس كسى كو بھى جو بھى علم، فن يادانش ركھتاہو اس سے مدد لو تو پھر بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے ہو _ قرآن كى مثل لانا فقط خداوند متعال كے لئے ممكن ہے _

۱۳_ قرآن كے منكر قرآن كريم كى حقانيت اور اسكے آسمانى ہونے كے بارے ميں جو شك و ترديد كرتے ہيں وہ كذب و جھوٹ ہے _و ان كنتم فى ريب فأتوا بسورة ان كنتم صادقين

''ان كنتم فى ريب'' كے قرينے سے ''صادقين '' كا متعلق مشركوں كا قرآن كريم كے آسمانى ہونے كے بارے ميں شك و ترديد ہے _ گويا مفہوم يوں ہے : ان كنتم صادقين فى انكم مرتابون اگر اپنے شك و ترديد كے اظہار ميں سچے ہو تو يوں كرو_ يہ معنى اس بات كى طرف كنايہ ہے كہ وہ لوگ اپنے شك و ترديد كے اظہار ميں جھوٹے ہيں _

۱۴_ قرآن كريم كا آسمانى ہونا حتى رسالت كے مخالفين كى نظر ميں بھى ايك واضح امر تھا_

۸۳

ان كنتم صادقين

۱۵ _قرآن كريم كے مخالفين كوئي بھى شاہد نہ پاسكيں گے جو كسى كلام كے قرآن كى مثل ہونے كى گواہى دے_و ادعوا شهداء كم من دون الله

''شہدائ''كا معنى اگر گواہ ہو تو ''من دون اللہ'' كا ماقبل جملے سے استثنا ايك عمومى محاورہ كى جانب اشارہ ہے_ وہ يہ كہ جب انسانوں كے پاس اپنے مدعا پر كوئي گواہ نہيں ہوتا تويوں كہتے ہيں يعني: گواہوں كو بلاؤ تا كہ اپنى رائے ديں اور اگر گواہ نہ مليں تو يہ نہ كہنا : خدا گواہ ہے كہ يہ ''كلام'' قرآن كى مثل ہے_

اقدار: اقدار كے معيارات ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۲

عبوديت: عبوديت كى قدر و منزلت ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى عبوديت ۲; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت كے دلائل ۵; پيامبر اسلام (ص) كى كتاب ۱; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۲

قرآن كريم : قرآن كى تاريخ ۹; قرآن كا مقابلے كيلئے دعوت دينا ۸،۱۱; قرآن كا ترديد ناپذير ہونا ۷; قرآن كا منزہ ہونا ۷; قرآن كا منظم ہونا ۹،۱۰; قرآن كى حقانيت ۷،۱۳; قرآن كى تكذيب كرنے والوں كا جھوٹ ۱۳; قرآن كا سورتوں ميں تقسيم ہونا ۹،۱۰ ; قرآن ميں شك ۶،۱۳; قرآن آسمانى كتابوں ميں سے ہے ۱۴; قرآن كى سورتوں كا معجزہ ہونا ۴; قرآن كا معجزہ ہونا ۴; قرآن كى تكذيب كرنے والے ۱۵; قرآن كے وحى ہونے كى تكذيب كرنيوالے ۶; نزول قرآن ۱; قرآن كا كردار و اہميت ۵; قرآن كا وحى ہونا ۱ ، ۱۴; قرآن كى خصوصيات ۴،۵; قرآن كى مثل لانا ۸،۱۱ ، ۱۲،۱۵

۸۴

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ( ۲۴ )

اور اگر تم ايسا نہ كرسكے اور يقيناً نہ كرسكوگے تو اس آگ سے ڈرو جس كا ايندھن انسان اور پتھر ہيں اور جسے كافرين كے لئے مہيا كياگيا ہے _

۱_ تمام ادوار اور زمانوں كے انسان حتى قرآن كى ايك سورہ كى بھى مثل نہيں لاسكتے_فاتوا بسورة فان لم تفعلوا و لن تفعلوا ہميشہ ہميشہ كى نفى كيلئے حرف ''لن'' استعمال ہوتاہے _ پس '' لن تفعلوا ہرگز قرآن كى مثل نہيں لاسكتے'' يعنى كسى زمانے كا بشر قرآن كى مثل نہيں لاسكتا_

۲_ قرآن كى مثل لانے كى ناتوانى قرآن كريم كى پيشين گوئيوں ميں سے ہے _و لن تفعلوا

۳ _ قرآن كريم كى مثل كلام لانے كے بارے ميں انسانوں كى ناتوانى قرآن كريم كے آسمانى ہونے اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كى دليل ہے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار

اگر قرآن كريم كى مثل كلام لانے پر ناتوانى اسكے آسمانى ہونے پر دليل نہ ہوتى تو مخالفين پر اتمام حجت نہ ہوتا اور '' اتقوا النار'' اس پر صحيح نہ ہوتا_

۴_ قرآن كريم اپنى حقايت كى دليل اور نبوت پيامبر اسلام (ص) كى صداقت كى سند ہے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار

۵ _ خداوند متعال منكرين قرآن سے چاہتاہے كہ جب وہ قرآن كى مثل و نظير لانے سے عاجز آجائيں توقرآن كريم پر اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پر ايمان لے آئيں _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقواالنار آتش جہنم سے دورى ضرورى ہے اس سے مراد يہ ہے كہ جو چيزيں آگ ( ميں داخل ہونے) كا موجب ہيں ان سے اجتناب كيا جائے اور يہ امور آيت كے قرينے سے قرآن اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كا انكار ہے _ بنابرايں''فاتقوا النار'' كا مفهوم يه هوگا _ فاتقوا الكفر بالقرآن والرسول لتتقوا النار

۶ _ دين كے منكروں كے بارے ميں اتمام حجت كيئے بغير وہ لوگ جہنم كى آگ ميں مبتلا نہيں ہونگے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار جملہ'' فان لم تفعلوا'' كا جواب شرط محذوف

۸۵

ہے اور اسكى جگہ جملہ '' فاتقوا ...'' اسكا قائم مقام ہے _ پس اگر تقديرى مفہوم كو نظر ميں ركھيں تو معنى يہ ہوگا :فان لم تفعلوا تمت عليكم الحجة و ثبت لديكم ان القرآن منزل من عند الله فاتقوا

۷_ آتش جہنم سے نجات قرآن كريم پر ايمان اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى تصديق سے ميسر ہے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النا ر يہ مطلب گذشتہ تشريح كى روشنى ميں ہے _

۸ _ آتش جہنم كو كفار كے لئے آمادہ كيا گيا ہے _اعدت للكافرين '' اعدت'' كا مصدر اعداد ہے جسكا معنى تيار كرنا اور آمادہ كرنا ہے _

۹ _ آتش جہنم اسوقت آمادہ ، تيار اور موجود ہے _اعدت للكافرين يہ مطلب اس لئے ہے كيونكہ '' اعدت'' فعل ماضى ہے_

۱۰ _ منكرين قرآن اور جہنم كے پتھر آتش جہنم كے لئے چھوٹى لكڑياں اور ايندھن ہيں _فاتقوا النار التى وقودها الناس والحجارة '' وقود'' كا معنى ايندھن يا وہ چيز جس سے آگ لگائي جاتى ہے _

۱۱ _ روز قيامت كفار كو اس آگ سے عذاب ديا جائے گا جو انہوں نے خود جلائي ہے _فاتقوا النار التى وقودها الناس والحجارة اعدت للكافرين

۱۲_ انس كہتے ہيں :تلا رسول الله (ص) هذه الاية ''وقودها الناس والحجارة'' فقال: اوقد عليها الف عام حتى احمرت و الف عام حتى ابيضت و الف عام حتى اسودت فهى سوداء مظلمة لا يطفأ لهبها (۱)

پيامبر اسلام (ص) نے يہ آيت ''وقودہا الناس والحجارة'' كى تلاوت فرمائي اور فرمايا آتش جہنم كو ہزار سال روشن ركھا گيا يہاں تك كہ سرخ ہوگئي اور ہزار سال شعلہ ور ركھا گيا يہاں تك كہ سفيد ہوگئي اور پھر ہزار سال اسكے شعلے بھڑكتے رہے يہاں تك كہ يہ آگ سياہ ہو گئي اب يہ آگ سياہ وتاريك ہے اور اسكے شعلے كبھى نہيں بجھيں گے_

اتمام حجت: اتمام حجت كى اہميت و كردار۶

انسان: انسان كى عاجزى و ناتوانى ۱،۲

اہل جہنم: ۸،۱۰

____________________

۱) الدالمنثور ج/ ۱ ص ۹۰_

۸۶

ايمان: قرآن پر ايمان كے اثرات و نتائج ۷; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے اثرات و نتائج ۷;ايمان كى اہميت ۷; قرآن پر ايمان ۵; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۵; ايمان كى دعوت ۵; ايمان كے متعلقات ۵

پيامبر اسلام(ص) : پيامبر اسلام (ص) كى نبوت كے دلائل ۳،۴

جہنم: آتش جہنم ۶،۷،۹; ايندھن ۱۰،۱۲; جہنم كے پتھر۱۰; آتش كے شعلے ۱۲; جہنم كا موجود ہونا ۹;جہنم كے لئے ركاوٹيں ۷; جو امور جہنم كا موجب بنتے ہيں ۸;

حديث : ۱۲

دين: دين كو جھٹلانے والوں كى سزا ۶

سزا : سزا كا نظام ۶

عذاب: اہل عذاب ۸،۱۱; عذاب بيان كے بغير نہيں ۶ عذاب كے موجبات ۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كا اعجاز ۱،۲،۳; قرآن كى پيشين گوئي ۲; قرآن كى حقانيت كے دلائل ۴; قرآن كے وحى ہونے كے دلائل ۳; قرآن كے جھٹلانے والے اہل جہنم ہيں ۱۰; قرآن كى اہميت و كردار۴; قرآن كى مثل لانا ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵;

كفار: كفار كے لئے آخرت كا عذاب ۱۱; كفار كا انجام ۱۱;كفار جہنم ميں ۸

كفر: كفر كے نتائج ۸

۸۷

وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۲۵ )

پيغمبر آپ ايمان اور عمل صالح والوں كو بشارت دے ديں كہ ان كے لئے ايسے باغات ہيں جن كے نيچے نہريں جارى ہيں _ انھيں جب بھى وہاں كوئي پھل ديا جائے گا تو وہ يہى كہيں گے كہ يہ تو ہميں پہلے مل چكاہے _ حالانكہ وہ صرف اس كے مشابہ ہوگا اور ان كے لئے وہاں پاكيزہ بيوياں بھى ہوں گى اور انھيں اس ميں ہميشہ رہنا بھى ہے_

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كے تبليغى فرائض ميں سے ہے كہ اہل ايمان كو بہشت كى صفات اور اسكى نعمات كے بيان سے خوشخبرى ديں _و بشر الذين امنوا و هم فيها خالدون '' ان لهم '' پر ''بائ '' داخل ہوئي ہے جو تقدير ميں ہے اور يہ متعلق ہے ''بشّر '' كے يعنى مفہوم يوں ہے''بشر الذين آمنوا بان لهم ...''

۲ _ دھمكى دينا يا ڈرانا اور ترغيب و تشويق دلانا انسانوں كى ہدايت كے لئے قرآن كريم كى روشوں ميں سے ايك ہے _

فاتقوا النار و بشر الذين آمنوا ۳ _ بہشت اور اسكى نعمتيں ان لوگوں كى جزا ہے جو قرآن مجيد اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لائيں اور نيك اعمال بجا لائيں _و بشر الذين آمنوا ان لهم جنات تجرى من تحتها الانهار ما قبل آيات كى روشنى ميں ''امنوا' ' كا متعلق قرآن مجيد اور پيامبر اسلام (ص) ہيں _

۴ _ ايمان بغير نيك اعمال كے اور نيك اعمال بغير ايمان كے ا نسان كو جنت ميں نہيں لے جائيں گے _و بشر الذين امنوا و عملوا الصالحات ان لهم جنات

''عملوا ...''كو''آمنوا ''پر''الذين '' كے تكرار كے بغير عطف قرار دينا اس معنى ميں ظاہر ہے كہ جنت كا ملنا دونوں صفات ( ايمان اور عمل) كے اكٹھے ہونے پرموقوف ہے _

۸۸

۵ _ جنت ميں بہت سارے باغات ہيں _ان لهم جنات مذكورہ مطلب لفظ '' جنات'' كے جمع ہونے كى وجہ سے ہے _

۶ _ بہشت ميں مختلف نہريں ہيں جو ہميشہ جارى ہيں _تجرى من تحتها الانهار ''الانهار' ' چونكہ جمع ہے اسيلئے متعدد نہريں مراد ہيں اور''تجرى '' فعل مضارع ہے جونہروں كے دائمى طور پر جارى رہنے كى دليل ہے _ ''تحتہا'' كى ضمير ''جنات'' كى طرف لوٹتى ہے لہذا اس سے مراد جنت كے درخت اور عمارتيں ہوسكتى ہيں _

۷_ جنت ميں بہت زيادہ پھل دار درخت ہيں _ان لهم جنات ...كلما رزقوامنهامن ثمرة '' ثمرة'' سے مراد درختوں كے پھل ہيں بہشت اور باغ كو اسيلئے جنت كہتے ہيں كيونكہ درختوں كے جنڈ يا درختوں كى فراوانى سے چھپى ہوئي ہے _

۸ _ اہل بہشت كى روزى جنت كے درختوں كے پھل ہيں _كلما رزقوا منهما من ثمرة رزقا ''رزقاً'' كا معنى روزى ہے اور '' رزقوا'' كا مفعول دوم ہے ''منہا'' كى ضمير '' جنات'' كى طرف پلٹتى ہے اور ''من ثمرة'' ، ''منہا'' كے لئے گويا كہ بيان ہے_

۹_ اہل بہشت كا رزق و روزى ان كے صحيح عقائد اور نيك اعمال كا تجسم اور نتيجہ ہے_كلما رزقوا منها من ثمرة رزقا قالوا هذا الذى رزقنا من قبل يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''من قبل'' سے مراد دنيا ہو بنابرايں جملہ ''ہذا الذي ...'' اس بات پر دلالت كرتاہے كہ بہشت كى روزى وہى ہے جو اہل ايمان كو دنيا ميں عنايت كى گئي تھى اس بات كى (كہ بہشت كا رزق وہى دنيا والى روزى ہے)_ توجيہ كے سلسلے ميں يہ كہا جاسكتاہے كہ اسكا مقصود يہ ہے : بہشت كى نعمتيں دنيا ميں اہل ايمان كے وہى عقائد و اعمال كا مجسم ہونا ہے _ اس مطلب كى روشنى ميں ''الذى رزقنا'' سے مراد ايمان اور عمل صالح ہے_

۱۰ _ جنت كے پھل اور رزق ايك دوسرے كے مشابہ ہيں _كلما رزقوا منها من ثمرة رزقاً و اتوا به متشابها ''بہ'' كى ضمير '' رزقا'' كى طرف لوٹتى ہے اور ''متشابہا'' كا مطلب ايك جيسا ہونا ہے اور يہ اس ضمير كے لئے حال واقع ہواہے تو مطلب يہ ہوا: بہشت كا رزق مومنين كے پاس لايا جائے گا در آن حاليكہ يہ رزق ايك دوسرے كے مشابہ ہوگا البتہ يہ مفہوم اس بناپر ہے اگرجملہ '' اتوا بہ ...'' مستأنفہ بيانيہ ہو_

۱۱ _ بہشت كے درختوں سے جيسے ہى پھل توڑا جاتاہے تو اسكى جگہ ويسا ہى پھل دوبارہ اُبھر آتاہے _كلما رزقوا من ثمرة رزقا قالوا و اتوا به متشابها

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ جملہ '' اتوا بہ '' ، '' قالوا '' پر عطف ہو اس طرح ''اتوا به

۸۹

...'' ،''كلما رزقوا ...'' كے لئے جواب شر ط ہوگا _

۱۲ _ اہل بہشت كو جنت كے پھلوں اور رزق سے استفادہ كے لئے بالكل بھى محنت و مشقت نہيں كرنى پڑے گى _

كلما رزقوا منہا... و اتوا به متشابها ''رزقوا '' اور ''اتوا '' كو مجہول لانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بہشت ميں خدمت كرنے والے نوكر چاكر ہوں گے جو اہل بہشت كى خدمت ميں رزق اور پھل حاضر كريں گے _

۱۳ _ بہشت ميں اہل بہشت كے لئے پاك و مطہر بيوياں ہوں گى _و لهم فيها ازواج مطهرة

۱۴ _ بہشت ايك لازوال مقام ہے اور اہل بہشت اس ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے _و هم فيها خالدون

۱۵ _ بہشت ميں زمان و مكان كا پہلو موجود ہے _ان لهم جنات تجرى من تحتها الانهار كلما رزقوا منها ''كلما'' كا معنى ہے جب كبھى بھى اور يہ چيز زمان (وقت) پر دلالت كرتى ہے _ '' تحتھا'' كا لفظ مكان (جگہ) كى طرف اشارہ ہے _

۱۶_ سليم كہتے ہيں :قلت''لعلى بن ابى طالب عليه‌السلام '' ...فمن لقى الله عارفاً بامامه مطيعاً له من اهل الجنة هو؟ قال:نعم اذا لقى الله و هو مومن من الذين قال الله عزوجل: ''الذين آمنواوعملواالصالحات'' (۱)

ميں نے حضرت علىعليه‌السلام سے عرض كيا اگر كوئي شخص اس حالت ميں خداوند متعال سے ملاقات كرے كہ اپنے امام كى معرفت ركھتاہو اور اسكى اطاعت ميں رہاہو تو كيا وہ اہل بہشت ميں سے ہے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جب كوئي شخص خداوند قدوس سے ملاقات كرے گا اور مومن ہو تو وہ ان لوگوں ميں سے ہے جن كے بارے ميں اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' وہ ايمان لائے اور انہوں نے نيك اعمال انجام ديئے''_

۱۷_سئل الصادق عليه‌السلام عن قوله الله عزوجل '' لهم فيها ازواج مطهرة'' قال : الازواج المطهرة اللاتى لا يحضن و لا يحدثن ''(۲) امام صادقعليه‌السلام سے اللہ كے اس كلام ''مومنين كے لئے بہشت ميں پاك و مطہر بيوياں ہيں '' كے بارے پوچھا گيا تو آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا مراد بہشتى بيويوں ميں حيض اور حدث نہ ہوگا_

امامت: امامت كى اہميت۱۶

____________________

۱) سليم بن قيس ہلالي، اسرار آل محمد ص ۵۵ ، بحار الانوار ج / ۲۸ ص ۱۶ ،ح۲۲_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۵۰ ح ۴ ، الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۹۷_

۹۰

ايمان: ايمان نيك اعمال كے بغير ۴ قرآن پر ايمان كا اجر ۳; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كا اجر ۳;

اہل بہشت : ۳،۱۶ اہل بہشت كى ہميشگى و دوام ۱۴; اہل بہشت كى روزى ۸،۹

بہشت: بہشت كے پہلو ۱۵; بہشت كے پھلوں سے استفادہ ۱۲; بہشت كى نعمتوں سے استفادہ ۱۲; بہشت كے باغات ۵; بہشت كى بشارت ۱; بہشت ميں زمان كا پہلو۱۵; بہشت ميں مكان كا پہلو ۱۵; بہشتى بيويوں كى پاكيزگى ۱۳; بہشت كا دائمى ہونا ۱۴; بہشتى درخت ۷; بہشتى بيويوں كى طہارت ۱۳،۱۷; جو چيزيں بہشت كا موجب ہيں ۳،۴; بہشتى ميوہ جات ۷،۸; بہشتى نعمتيں ۱،۳،۵،۶،۷،۱۳; بہشتى نہريں ۶; بہشتى پھلوں كى خصوصيات ۱۰،۱۱; بہشتى نعمتوں كى خصوصيات ۱۰; بہشتى پھلوں كا ايك جيسا ہونا ۱۰،۱۱; بہشتى نعمتوں كا ايك جيسا ہونا ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تبليغ۱;پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۱

حديث : ۱۶،۱۷

رہبري: رہبرى و قيادت كى اہميت ۱۶

عقيدہ: صحيح عقيدہ كا مجسم ہونا۹

عمل صالح: عمل صالح كے نتائج ۹; عمل صالح كا اجر ۳; عمل صالح كا مجسم ہونا۹; عمل صالح بغير ايمان كے ۴

مومنين: مومنين كو خوشخبرى ۱; مومنين كا اجر ۳; عمل كرنيوالے مومنين ۱۶

ہدايت: ہدايت كرنے ميں ڈرانا ''انذار'' ۲; ہدايت كے لئے تشويق ۲; ہدايت كى روش ۲

۹۱

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ ( ۲۶ )

اللہ اس بات ميں كوئي شرم نہيں محسوس كرتا كہ وہ مچھر يا اس سے بھى كمتر كى مثال بيان كرے_ اب جو صاحبان ايمان ہيں وہ جانتے ہيں كہ يہ سب پروردگاركى طرف سے برحق ہے اور جنھوں نے كفر اختيار كيا ہے وہ يہى كہتے ہيں كہ آخر ان مثالوں سے خدا كا مقصد كيا ہے _ خدا اسى طرح بہت سے لوگوں كو گمراہى ميں چھوڑ ديتاہے اور بہت سوں كو ہدايت دے دےتاہے اور گمراہى صرف انھيں كا حصہ ہے جو فاسق ہيں _

۱_ لوگوں كى ہدايت كے لئے مثالوں كا استعمال قرآن كى روشوں ميں سے ہے_ان الله لا يستحى ان يضرب مثلا يهدى به كثيراً

۲ _ اللہ تعالى نے بعض حقائق كى وضاحت كے لئے قرآن مجيد ميں مچھريا اس سے بڑے حشرات الارض كى مثاليں بيان فرمائي ہيں _ان الله لا يستحى ان يضرب مثلاً ما بعوضة فما فوقها جملہ''ان الله ...'' اس بات كى حكايت كررہاہے : قرآن مجيد ميں (بعوضہ _مچھر) اور اس سے بڑے حشرات كا ذكر ہے _ گويا يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے ''لن يخلقوا ذباباً سورہ حج آيت۷۳'' اور ''كمثل العنكبوت _ سورہ عنكبوت آيت ۴۱'' لسان العرب ميں آياہے كہ بعوض مكھيوں كى فيملى سے ہيں جسكى مفرد بعوضة ہے _

۳ _ اللہ تعالى حقيقت كے بيان كى خاطر مچھر جيسے حشرہ كى مثال دينے سے نہيں شرماتا_

ان الله لا يستحى ان يضرب مثلا ما بعوضه فما فوقها ''استحيائ'' حيا ء سے ہے جسكا معنى جھجكنا يا شرماناہے_ بعوضہ كا معنى مچھر ہے _

۴ _ شرم و حيا اس بات كا باعث نہيں ہونى چاہيئے كہ انسان دينى حقائق ہى بيان نہ كرے _ان الله لا يستحى ان يضرب مثلاً ما بعوضه خداوند متعال كے افعال اسكے علم و حكمت كے لايزال منبع سے صادر ہوتے ہيں _ پروردگار متعال كے جو افعال قرآن حكيم ميں بيان ہوئے ہيں ہميں ان كى پيروى كرنى چاہيئے ( سوائے ان افعال كے جو ہمارے لئے ممكن نہيں ہيں جيسے خلق كرنا ) لہذا اس جملہ '' لا يستحي'' سے يہ درس ملتاہے كہ حقائق بيان كرنے ميں ہميں شرم نہيں كرنى چاہيئے_

۹۲

۵_ قرآن حكيم كى مثاليں حق ( حقيقت بيان كرنے والي) اور سب اللہ تعالى كى جانب سے ہيں _فيعلمون انه الحق من ربهم

۶ _ قرآن مجيد كى مثاليں مومنين كے لئے تربيت و رشد كا باعث ہيں _فيعلمون انه الحق من ربهم

۷_ اہل ايمان قرآنى مثالوں كى حقانيت اور ان كے آسمانى ہونے كا ادراك ركھتے اور اچھى طرح سمجھتے ہيں _فامّا الذين آمنوا فيعلمون انه الحق من ربهم

۸ _ مچھر يا اسطرح كى مثال كو كفار نامعقول اور اللہ تعالى كى شان سے ماوراء خيال كرتے ہيں _و اما الذين كفروا فيقولون ما ذا اراد الله بهذا مثلا چونكہ كفار قرآن مجيد كے منكر تھے لہذا اس جملہ ''ماذا اراد الله بھذا مثلاً ''سے يہ پتہ چلتا ہے كہ پروردگار عالم كا ان مثالوں سے ہدف كيا ہے_ اس كا يہ مطلب نہيں كہ كفار ان مثالوں پر يقين ركھتے تھے كہ يہ ''من جانب الله '' ہيں ليكن ان كى توجيہ و تاويل نہيں كر سكتے بلكہ انكا مقصود يہ تھا كہ ايسى مثاليں ناپسنديدہ، بے ہدف اور غير معقول ہيں لہذا لله تعالى كى طرف سے نازل نہيں ہو سكتيں _

۹_ قرآن كريم كى مثل و نظير لانے كى ناتوانى كفار كے قرآنى مثالوں پر اعتراضات كا سر چشمہ تھي_فان لم تفعلوا ولن تفعلوا ان الله لا يستحى ان يضرب مثلا ما و اما الذين كفروا فيقولون ماذا اراد الله بهذا مثلا

قرآن كريم كا مقابلے كى دعوت دينا (فأتوا بسورة) اور كفار كا اسكى مثل لانے كے بارے ميں ناتوانى (ولن تفعلوا) كے بعد ان كا قرآنى مثالوں پر اعتراض كرنا كفار كى بہانہ تراشى كى طرف اشارہ ہے: يعنى چونكہ قرآن كريم كى مثل لانے سے عاجز ہيں اس لئے بہانے اور اعتراض كے پيچھے ہيں (ما ذا ارادالله بهذا مثلا )

۱۰_ الله تعالى قرآنى مثالوں سے بہت ساروں كى ہدايت اور بہت ساروں كو گمراہ كرتا ہے_يضل به كثيرا و يهدى به كثيرا ''يضلُ اور يھدي'' كى ضمير الله تعالى كى طرف لوٹتى ہے اور ''بہ'' كى ضمير ''مثلاً'' كى طرف پلٹتى ہے_

۹۳

۱۱_ فقط فاسقين قرآنى مثالوں كے سبب گمراہى كى طرف كھچے چلے جاتے ہيں _و ما يضل به الا الفاسقين

۱۲_ انسان كے فسق اور تباہ كارى كى وجہ سے الله تعالى كا گمراہ كرنے كا ارادہ ہے_و ما يضل به الا الفاسقين

''به '' ميں ''بائ '' سببيت يا استعانت كے لئے ہے_''يضلّ '' كا فاعل ضمير ہے جو 'الله ، كى طرف لوٹتى ہے اور اس كا مفعول ''الفاسقين '' ہے_

۱۳_ الله تعالى كے گمراہ كرنے يا انسانوں كو ہدايت كرنے كا ارادہ ان حالات و عوامل كے ساتھ مشروط ہے جو انسان خود فراہم كرتا ہے_يضل به كثيراً و يهدى به كثيرا و ما يضل به الا الفاسقين ''وما يضلّ '' يعنى الله تعالى قرآنى مثالوں سے فقط فاسقوں كو گمراہ كرتا ہے_ يہ مطلب اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ الله تعالى كا گمراہ كرنا بے ہودہ و بے معنى نہيں بلكہ اس كى جڑ خود انسان كے اختيارى اعمال ہيں _ در حقيقت يہ گمراہى انسان كے فسق و فجور كا نتيجہ اور اس كى تباہ كارى كى سزا ہے_

۱۴_ الله تعالى كے افعال اسباب و عوامل كے ذريعے وجود ميں آتے ہيں _ يضل بہ كثيراً و يہدى بہ كثيرا

۱۵_ انسانوں كى ہدايت اور گمراہى خداوند قدوس كے اختيار ميں ہے_ يضل بہ كثيراً و يہدى بہ كثيرا

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے ايك روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :''انّما ضرب الله ْ المثل بالبعوضة لانّ البعوضة على صغر حجمها خلق الله ْ فيها جميع ما خلق فى الفيل مع كبره وزيادة عضوين آخرين '' (۱) الله تعالى نے مچھر كى مثال بيان فرمائي ہے كيونكہ باوجود اس كے كہ اس كا جسم نہايت چھوٹا ہے الله تعالى نے اس ميں وہ سب كچھ خلق فرمايا جو ہاتھى ميں اتنا بڑا وجود ركھتے ہوئے ہے بلكہ مچھر ميں دو اعضاء زيادہ ہيں _

۱۷_ امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں :انّ هذا القول من الله عزوجل (انّ الله لا يستحيي ...) رد على من زعم انّ الله تبارك وتعال يضلّ العباد ثم يعذبهم على ضلالتهم فقال الله عزوجل : انّ الله لا يستحيى ''(۲) الله عزوجل كا يہ كلام (غالباً آيت كا آخرى جملہ مراد ہے) ان لوگوں كے لئے جواب ہے جو يہ گمان كرتے ہيں كہ الله تعا لى اپنے بندوں كو گمراہ كرتا ہے اور پھر اس گمراہى پر عذاب كرتا ہے پس الله تعالى فرماتا ہے ''انّ الله لا يستحيى ...''

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۶۵ ، بحار الانوار ج/۹ ص۶۴_

۲) تفسير قمى ج/۱ ص۳۴ ، نورالثقلين ج/۱ص ۴۵ ح۶۳_

۹۴

الله تعالى : الله كے اختيارات ۱۵; ارادئہ الہى ۱۳;الله تعالى كا گمراہ كرنا ۱۰، ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۷; الله تعالى كے افعال ۱۰; الله تعالى اور شرم۳; الله تعالى كے افعال كى كيفيت ۱۴; مشيت الہى ۱۵; ہدايت الہي۱، ۱۳، ۱۵

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۶

حديث : ۱۶، ۱۷

حقائق : حقائق كے بيان كرنے ميں شرم ۴; حقائق بيان كرنے كى روش ۲،۳

رشد : رشد كے عوامل ۶

فاسقين : فاسقين كى گمراہى كے عوامل ۱۱; فاسقين اور قرآنى مثاليں ۱۱

فسق : فسق كے اثرات و نتائج۱۲

قرآن مجيد : قرآنى مثالوں كا گمراہ كرنا ۱۰،۱۱; قرآنى مثالوں كى حقانيت ۵،۷; قرآنى مثالوں كا فلسفہ ۵،۶; قرآنى مثالوں كے فوائد ۱; قرآنى مثالوں كا فہم ۷; قرآنى مثاليں ۲،۱۶; قرآن مجيد پر اعتراضات كا سرچشمہ ۹; قرآنى مثالوں كا سرچشمہ ۵; قرآنى مثالوں كا وحى ہونا ۷; قرآنى مثالوں كا ہدايت كرنا ۱۰; قرآن كى مثل ونظير گھڑنا۹

كفار : كفار كا عجز و ناتوانى ۹ ;كفار اور قرآنى مثاليں ۸

گمراہي: گمراہى كى جڑ ۱۲، ۱۳ ;گمراہى كا منبع ۱۵

مثاليں : مچھر كى مثال ۲، ۳، ۸، ۱۶

مؤمنين : مئومنين كى تربيت ۶; مومنين كا رشد ۶; مومنين اور قرآنى مثاليں ۷

نفسيات : تربيتى نفسيات۱

ہدايت : ہدايت كى روش ۱ ہدايت كى جڑيں ۱۳; ہدايت كا سرچشمہ۱۵

۹۵

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( ۲۷ )

جو خدا كے ساتھ مضبوط عہد كرنے كے بعد بھى اسے توڑديتے ہيں اور جسے خدا نے جوڑنے كا حكم ديا ہے اسے كاٹ ديتے ہيں اور زمين ميں فساد برپا كرتے ہيں يہى وہ لوگ ہيں جو حقيقتاً خسارہ والے ہيں _

۱_ الله تعالى نے انسانوں كے لئے عہد وپيمان كى وفا ضرورى و لازم قرار دى ہے_الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه ''عہد''كا معنى معاہدہ، عہدوپيمان ہے اور عھدالله سے مراد ممكن ہے وہ فرائض اور الہى تكاليف ہوں جو الله تعالى كى جانب سے انسانوں كے كندھوں پر ڈالى گئي ہيں _ البتہ اس سے مراد وہ معاہدے بھى ہو سكتے ہيں جن كو وفا كرنا انسان نے اپنے لئے ضرورى قرار ديا ہے اور ان معاہدوں كو انسان نے الله تعالى سے مربوط كر ركھا ہےجس طرح ''الله كى قسم ہے''مذكورہ بالامفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے _

۲_ ان معاہدوں كى پابندى ضرورى ہے جو خداوند متعال نے انسانوں كے لئے لازمى قرار ديئے ہيں _الذين ينقضون عهد الله

۳_ ان معاہدوں كو وفا كرنا ضرورى ہے جو انسان الله تعالى كے ساتھ باندھتا ہے_الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه

يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ ''عہدالله '' سے مراد وہ معاہدے ہوں جن كو وفا كرنا انسان اپنے لئے قسم وغيرہ كے ذريعے لازم قرار ديتا ہے ''ميثاق'' مصدر ہے اور اس كا معنى ہے استحكام عطا كرنا_ ''ميثاقہ'' كى ضمير''عھد'' كى طرف لوٹتى ہے يعنى يہ كہ جب انہوں نے اپنے معاہدے كو مستحكم كر ليا تو اب اسكى وفا پر تاكيد كرتے ہيں _

۴_ معاہدے كو توڑنا خصوصاً اس پر تاكيد كے بعد ايك ناپسنديدہ اور قابل نفرت عمل ہے_الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه

۵_ ان رشتوں يا معاہدوں كو توڑنا جن كو برقرار ركھنے اور وفا كرنے كا الله تعالى نے فرمان ديا ہے ايك ناگوار اور حرام عمل ہے_و يقطعون ما أمر الله به أن يوصل

۹۶

''ان'' مصدريہ ہے اور''ان يوصل'' ،''بہ'' كى ضمير كے لئے بدل اور''ما امر الله '' ، ضمير كا مرجع ہے_ پس مطلب يوں ہوا :الذى امر الله بوصله_ ''ما امر الله ''سے مراد اس طرح كے رشتے ناطے ہيں : صلہ رحم، اہل ايمان كے درميان سرپرستى كا رشتہ، برحق رہبروں اور امت اسلامى كے مابين سرپرستى كا تعلق_

۶_ زمين پر فساد پھيلانا الله تعالى كے محرمات ميں سے ہے_و يفسدون فى الارض

۷_ وہ لوگ جو الہى معاہدوں كى پابندى نہيں كرتے يا ان رشتوں ناطوں كو اہميت نہيں ديتے جن كى برقرارى كا پروردگار نے حكم ديا ہے تو وہ لوگ فاسق ہيں _الاالفاسقين_ الذين و يقطعون ما أمر الله به أن يوصل ''الذين''، ''الفاسقين ''كى توضيحى صفت ہے_

۸_ زمين پر فساد پھيلانے والے فاسق ہيں _الا الفاسقين الذين يفسدون فى الارض

۹_ قرآن حكيم اس طرح كے لوگوں كو گمراہى كى طرف لے جاتا ہے جو الہى معاہدوں كو توڑتے ہيں ، ان رشتوں ناطوں كو توڑتے ہيں جن كى برقرارى كا خدا نے حكم ديا ہے اور زمين پر فساد پھيلاتے ہيں _و ما يضل به الا الفاسقين_ الذين يفسدون فى الارض

۱۰_ فاسقين خسارے ميں ہيں _اولئك هم الخاسرون

۱۱_ الہى معاہدوں كو توڑنا، ان رشتوں ناطوں كو توڑنا جن كى برقرارى كا پروردگار نے حكم ديا ہے اور زمين پر فساد پھيلانا يہ امور انسان كےلئے حقيقى خسارے كا باعث ہيں _الذين ينقضون عهد الله اولئك هم الخاسرون

۱۲_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :''قال لى ابى على ابن الحسين عليه‌السلام ايّاك ومصاحبة القاطع لرحمه قال الله عزوجل ''الذين ...يقطعون ما أمر الله به ان يوصل اُولئك هم الخاسرون'' (۱)

ميرے والد امام سجادعليه‌السلام نے مجھے فرمايا جو قطع رحم كرتا ہے اسكى ہم نشينى سے پرہيز كرو الله تعالى ارشاد فرماتا ہے وہ لوگ ...جو اسكو قطع كرتے ہيں جس كے وصل كرنے (ملانے) كا الله نے حكم ديا ہے يہى لوگ ہيں جو خسارے ميں ہيں _

احكام : ۵، ۶

____________________

۱) اصول كافى ج/۲ ص۶۴۱ ح۷، نورالثقلين ج/۱ ص۴۵ ح ۶۶_

۹۷

الله تعالى : عہد الہى ۱،۲

انسان : الله تعالى كا انسانوں سے عہد ۱،۲

اہل خسارہ : ۱۰، ۱۲

اہل فساد : اہل فساد كا فسق ۸

حديث : ۱۲

خسارہ : خسارے كے عوامل ۱۱

صلہ رحم : صلہ رحم كى اہميت ۱۲ ;صلہ رحم قطع كرنے كا خسارہ ۱۲

عمل: ناپسنديدہ عمل ۴

عہد: وفائے عہد كى اہميت ۲،۳ ;الله تعالى سے عہد ۳

عہد شكنى : عہد شكنى كے نتائج و اثرات ۹، ۱۱ ;عہد شكنى كى سرزنش ۴; عہد شكنى كا ناپسنديدہ ہونا ۴

فاسقين : ۷،۸ فاسقين كا خسارے ميں ہونا ۱۰

فساد پھيلانا : فساد پھيلانے كے نتائج و اثرات۹، ۱۱; زمين پر فساد پھيلانا ۸،۹; زمين پر فساد پھيلانا حرام ہے ۶

فسق : فسق كے موارد ۷،۸

قرآن مجيد : قرآن مجيد كا گمراہ كرنا ۹; قرآن مجيد اور عہد شكن لوگ ۹; قرآن كريم اور فساد پھيلانے والے ۹

محرمات : ۵،۶

ہم نشينى : ناپسنديدہ ہم نشيني۱۲

۹۸

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ( ۲۸ )

آخر تم لوگ كس طرح كفر اختيار كرتے ہو جب كہ تم بيجان تھے اور خدا نے تمھيں زندگى دى ہے اور پھر موت بھى دے گا اور پھر زندہ بھى كرے گا اور پھر اس كى بارگاہ ميں پلٹا كر لے جائے جاؤ گے_

۱_ الله تعالى انسانوں كو زندگى عطا فرماتا ہے اور مارتا ہے_كنتم امواتاً فاحى كم ثم يميتكم ثم يحييكم

۲_ مردہ يا معدوم وجود كا زندہ وجود ميں تبديل ہونا الله تعالى كے وجود پر دلالت كرتا ہے_كيف تكفرون بالله و كنتم امواتاً فاحى كم

۳_ انسان كا اپنى موت و حيات ميں غور و فكر اس كو خدائے واحد پر ايمان اور يقين كى طرف لے جاتا ہے_كيف تكفرون بالله و كنتم امواتا فاحى كم

۴_ واضح دلائل كے ہوتے ہوئے خدائے متعال كى وحدانيت اور اسكى ذات اقدس كا انكار ايك غير منطقى اور تعجب آور بات ہے_كيف تكفرون بالله و كنتم امواتاً فاحى كم جملہ''كيف تكفرون بالله '' كا استفہام تعجب كے لئے ہے اور جملہ ''و كنتم امواتا فأحى كم '' حاليہ ہے جو تعجب كى علت كو بيان كررہاہے_

۵_ انسان اپنى دنياوى زندگى سے قبل ايك مردہ اور فاقد حيات وجود تھا_كنتم امواتاً فاحى كم

۶_ انسان كى زندگى دو طرح كى ہے دنياوى زندگى اور اخروى زندگيفاحى كم ثم يميتكم ثم يحييكم

بعض مفسرين كے نزديك '' ثمّ يحييكم _يعنى تمہيں مارنے كے بعد پھر زندہ كرے گا''برزخ كى زندگى كى طرف اشارہ ہے_ جبكہ بعض مفسرين كے نزديك اس سے مراد قيامت كے موقع پر مردوں كے زندہ ہونے كى طرف اشارہ ہے_

۷_ انسانوں كے تكامل معنوى كى انتہا و انجام خداوند متعال كى ذات اقدس ہے اور سب لوگ فقط اسى كى طرف لوٹ كر جائيں گے_ثم اليه ترجعون

۸_ انسانوں كى الله تعالى كى طرف بازگشت اخروى زندگى ميں زندہ ہونے كے بعد ہوگي_يحييكم ثم اليه ترجعون

۹۹

۹_ حضرت على عليہ السلام سے روايت ہے ...

انما اراد الله ُ جل ذكرهُ بالموت اعزاز نفسه واذلال خلقه و قرأ '' وكنتم امواتاً فاحى كم ثم يميتكم ثم يحييكم ...''(۱)

الله جل جلالہ نے انسان كے لئے موت كو قرار دے كر اپنى عزت اور اپنى مخلوق كى ذلت كے اظہار كا ارادہ فرمايا ہے_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے يہ آيت تلاوت فرمائي''وكُنتم امواتاً فأحى كم ثُمّ يُميتكم ثّمّ يحييكم ...''

الله تعالى : خداكے افعال ۱; خدا شناسى كے دلائل ۲; عزت خداوندى ۹

الله تعالى كى طرف بازگشت : ۷،۸

انسان: انسان خلقت سے پہلے ۵; انسان كى اخروى حيات ۶; انسان كى دنيوى زندگى ۶; انسان كا انجام ۷; انسانى زندگى كا حقيقى سرچشمہ ۱; انسان كى مرگ كا حقيقى منبع۱

ايمان : توحيد پر ايمان ۳; ايمان كے عوامل ۳; ايمان سے متعلق امور ۳

تفكر : حيات ميں تفكر كے اثرات و نتائج۳; موت ميں تفكر كے اثرات و نتائج۳

حديث : ۹

حيات : اخروى حيات ۸; حيات كا سرچشمہ ۲

كفر : كفر كا بے منطق ہونا ۴; خداوند متعال كے بارے ميں كفر ۴

مختلف امور : تعجب آور امور ۴

موت : فلسفہء موت ۹

____________________

۱) بحار الانوار ج/۳۲ ص ۳۵۵ ح ۳۳۷_

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785