تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200926 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

بادل: بادلوں كے فوائد ۷،۹

بارش: بارش كا برسنا ۷،۱۲; بارش كا منبع و سرچشمہ۷;بارش كے فوائد ۹،۱۰

تفكر : اللہ تعالى كى خالقيت ميں تفكر ۱۸;تفكر كے اثرات و نتائج ۲۱; عالم طبيعت ميں تفكر ۱۸

توحيد: توحيد ذاتى كى اہميت ۱۷

جہالت: جہالت كے اثرات و نتائج ۲۲

جہان بينى : جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۱۳

حقوق: استفادہ كا حق ۴،۵

خلقت: نظام خلقت۱۹; خلقت كا ہدف ركھنا ۱۹

درخت: درختوں كا پھل دينا ۱۲; درختوں كے پھل ۱۱; پھلوں كے وجود كا سرچشمہ ۱۰

ذكر: نعمتوں كاذكر ۱۳

روزي: روزى كا سرچشمہ ۸

زمين: زمين پر سكونت ۳; زمين سے استفادہ ۵; زمين كا بستر ہونا ۱; زمين كى تاريخ ۳; زمين كى خلقت ۲; زمين كے فوائد ۱،۲

شرك: شرك سے اجتناب ۱۷; شرك كا ناقابل قبول ہونا ۱۶،۲۱ شرك كے عوامل ۲۲

طبيعى اسباب: طبيعى اسباب كا عمل ۱۵; طبيعى اسباب كى اہميت و كردار ۱۴

عبادت: عبادت كى بنياد ۱۳

محرّك: محرك كے عوامل ۱۳

مطالعہ : كائنات كے مطالعہ كے اثرات و نتائج ۲۰

معاش: معاش كى كفالت كا سرچشمہ ۸

نعمت: نعمت سے استفادہ ۴; نعمت كا سرچشمہ ۱۳

وسائل و امكانات: امكانات كے وجود ميں آنے كے عوامل ۹

۸۱

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ( ۲۳ )

اگر تمھيں اس كلام كے بارے ميں كوئي شك ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل كيا ہے تو اس كا جيسا ايك ہى سورہ لے آؤ اور اللہ كے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ہيں سب كو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خيال ميں سچّے ہو _

۱ _ قرآن وہ كتاب ہے جو اللہ تعالى نے اپنے نبى (ص) پر نازل فرمائي _مما نزلنا على عبدنا

۲_ پيامبر اسلام (ص) اللہ كے بندے اور بندگى ميں ايك والا اور اعلى مقام ركھتے ہيں _ممانزلنا على عبدنا

۳_ عبد اور اللہ كا بندہ ہونا اعلى انسانى اقدار ميں سے ہے_ مما نزلنا على عبدنا پيامبر اكرم (ص) كى '' بندگى خدا'' كے ذريعے توصيف كى گئي ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ عبد خدا ہونا اعلى انسانى اقدار ميں سے ہے_

۴_ قرآن كريم اور اسكى ہر ايك سورة معجزہ ہے_فاتوا بسورة من مثله

۵_ قرآن كريم پيامبر اسلام(ص) كى رسالت كے اثبات كيلئے بنيادى سند ہے_ و ان كنتم فى ريب ان كنتم صادقين

۶ _ رسالت كے مخالفين قرآن كريم كے آسمانى ہونے اور اللہ تعالى كى جانب سے نزول كے بارے ميں شك كا اظہار كرتے ہيں _و ان كنتم فى ريب مما نزلنا على عبدنا

۷ _ قرآن كريم اس امر سے منزہ و مبرّا ہے كہ اس كے آسمانى ہونے كے بارے شك و ترديد كى جائے_و ان كنتم فى ريب مما نزلنا على عبدنا

كفار قرآن كريم كے آسمانى ہونے كے بارے ميں نہ فقط شك و ترديد كا اظہار كرتے بلكہ منكر قرآن تھے اسكے باوجود اللہ تعالى نے آيہ مجيدة ميں جملہ شرطيہ ( اگر تم شك ميں ہو) كا استعمال فرماياہے جو اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن كريم ميں شك و ترديد فقط قابل فرض ہے

نہ كہ حقيقت ركھتى ہے_

۸_ اللہ تعالى نے قرآن كے منكروں كو مقابلے كى دعوت دى ہے اور اس قرآن كى ايك سورہ كى مثل لانے كو كہا ہے_فأتوا بسورة من مثله ''مثله'' كى ضمير''مما نزلنا'' كى ''ما '' كى طرف لوٹتى ہے _

۹_قرآن كريم آنحضرت (ص) كے زمانے ميں ہى ''سورة'' كے عنوان سے مختلف حصوں ميں تقسيم شدہ تھا_فأتوا بسورة من مثله

۸۲

۱۰ _ قرآن كريم كے ہر حصے كو ''سورة'' قرار دينا اور اس طرح تقسيم بندى اللہ تعالى كى جانب سے ہے_*فاتوا بسورة من مثله

۱۱ _ اللہ تعالى نے قرآن كريم كے منكروں سے كہاہے كہ وہ قرآن مجيد كى ايك سورة كى مثل لانے كے لئے اپنے تمام نابغہ افراد كو دعوت ديں _وادعوا شهداء كم من دون الله

شہيد كى جمع شھداء ہے جسكا معنى ''گواہ '' ہے البتہ مطلع اور آگاہ افراد كے لئے بھى بولا جاتاہے''ادعوا'' كامصدر '' دعا '' ہے اسكا معنى ہے بلانا اوردعوت دينا _ اس جملہ ''وادعوا شہداء كم'' كا معنى يہ ہوسكتاہے_ شاہدوں كو دعوت دو تا كہ جو چيز تم لائے ہو اور اسكو قرآن كى مثال قرار ديتے ہو اس پر گواہى اور اپنى رائے ديں _ اس مفہوم كى بناپر ''شهدائ '' سے مراد گواہ ہيں _جبكہ يہ معنى بھى مراد ہوسكتاہے: اپنے شاہدوں كو دعوت دو تا كہ قرآن كى مثل لانے ميں تمہارى مدد كريں اس صورت ميں ''شهدائ '' كا معنى مطلع اور آگاہ افراد ہوگا_

۱۲_ فقط اللہ تعالى ہى ہے جو قرآن كريم كى مثل لانے كى صلاحيت ركھتاہے_وادعوا شهداء كم من دون الله

كہا گيا ہے كہ''من دون الله '' ( اللہ كے علاوہ) ''شہداء كم'' كے عموم اور اطلاق كى تاكيد كے لئے بيان ہوا ہے يعنى يہ كہ جس كسى كو بھى جو بھى علم، فن يادانش ركھتاہو اس سے مدد لو تو پھر بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے ہو _ قرآن كى مثل لانا فقط خداوند متعال كے لئے ممكن ہے _

۱۳_ قرآن كے منكر قرآن كريم كى حقانيت اور اسكے آسمانى ہونے كے بارے ميں جو شك و ترديد كرتے ہيں وہ كذب و جھوٹ ہے _و ان كنتم فى ريب فأتوا بسورة ان كنتم صادقين

''ان كنتم فى ريب'' كے قرينے سے ''صادقين '' كا متعلق مشركوں كا قرآن كريم كے آسمانى ہونے كے بارے ميں شك و ترديد ہے _ گويا مفہوم يوں ہے : ان كنتم صادقين فى انكم مرتابون اگر اپنے شك و ترديد كے اظہار ميں سچے ہو تو يوں كرو_ يہ معنى اس بات كى طرف كنايہ ہے كہ وہ لوگ اپنے شك و ترديد كے اظہار ميں جھوٹے ہيں _

۱۴_ قرآن كريم كا آسمانى ہونا حتى رسالت كے مخالفين كى نظر ميں بھى ايك واضح امر تھا_

۸۳

ان كنتم صادقين

۱۵ _قرآن كريم كے مخالفين كوئي بھى شاہد نہ پاسكيں گے جو كسى كلام كے قرآن كى مثل ہونے كى گواہى دے_و ادعوا شهداء كم من دون الله

''شہدائ''كا معنى اگر گواہ ہو تو ''من دون اللہ'' كا ماقبل جملے سے استثنا ايك عمومى محاورہ كى جانب اشارہ ہے_ وہ يہ كہ جب انسانوں كے پاس اپنے مدعا پر كوئي گواہ نہيں ہوتا تويوں كہتے ہيں يعني: گواہوں كو بلاؤ تا كہ اپنى رائے ديں اور اگر گواہ نہ مليں تو يہ نہ كہنا : خدا گواہ ہے كہ يہ ''كلام'' قرآن كى مثل ہے_

اقدار: اقدار كے معيارات ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۲

عبوديت: عبوديت كى قدر و منزلت ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى عبوديت ۲; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت كے دلائل ۵; پيامبر اسلام (ص) كى كتاب ۱; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۲

قرآن كريم : قرآن كى تاريخ ۹; قرآن كا مقابلے كيلئے دعوت دينا ۸،۱۱; قرآن كا ترديد ناپذير ہونا ۷; قرآن كا منزہ ہونا ۷; قرآن كا منظم ہونا ۹،۱۰; قرآن كى حقانيت ۷،۱۳; قرآن كى تكذيب كرنے والوں كا جھوٹ ۱۳; قرآن كا سورتوں ميں تقسيم ہونا ۹،۱۰ ; قرآن ميں شك ۶،۱۳; قرآن آسمانى كتابوں ميں سے ہے ۱۴; قرآن كى سورتوں كا معجزہ ہونا ۴; قرآن كا معجزہ ہونا ۴; قرآن كى تكذيب كرنے والے ۱۵; قرآن كے وحى ہونے كى تكذيب كرنيوالے ۶; نزول قرآن ۱; قرآن كا كردار و اہميت ۵; قرآن كا وحى ہونا ۱ ، ۱۴; قرآن كى خصوصيات ۴،۵; قرآن كى مثل لانا ۸،۱۱ ، ۱۲،۱۵

۸۴

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ( ۲۴ )

اور اگر تم ايسا نہ كرسكے اور يقيناً نہ كرسكوگے تو اس آگ سے ڈرو جس كا ايندھن انسان اور پتھر ہيں اور جسے كافرين كے لئے مہيا كياگيا ہے _

۱_ تمام ادوار اور زمانوں كے انسان حتى قرآن كى ايك سورہ كى بھى مثل نہيں لاسكتے_فاتوا بسورة فان لم تفعلوا و لن تفعلوا ہميشہ ہميشہ كى نفى كيلئے حرف ''لن'' استعمال ہوتاہے _ پس '' لن تفعلوا ہرگز قرآن كى مثل نہيں لاسكتے'' يعنى كسى زمانے كا بشر قرآن كى مثل نہيں لاسكتا_

۲_ قرآن كى مثل لانے كى ناتوانى قرآن كريم كى پيشين گوئيوں ميں سے ہے _و لن تفعلوا

۳ _ قرآن كريم كى مثل كلام لانے كے بارے ميں انسانوں كى ناتوانى قرآن كريم كے آسمانى ہونے اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت كى دليل ہے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار

اگر قرآن كريم كى مثل كلام لانے پر ناتوانى اسكے آسمانى ہونے پر دليل نہ ہوتى تو مخالفين پر اتمام حجت نہ ہوتا اور '' اتقوا النار'' اس پر صحيح نہ ہوتا_

۴_ قرآن كريم اپنى حقايت كى دليل اور نبوت پيامبر اسلام (ص) كى صداقت كى سند ہے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار

۵ _ خداوند متعال منكرين قرآن سے چاہتاہے كہ جب وہ قرآن كى مثل و نظير لانے سے عاجز آجائيں توقرآن كريم پر اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پر ايمان لے آئيں _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقواالنار آتش جہنم سے دورى ضرورى ہے اس سے مراد يہ ہے كہ جو چيزيں آگ ( ميں داخل ہونے) كا موجب ہيں ان سے اجتناب كيا جائے اور يہ امور آيت كے قرينے سے قرآن اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كا انكار ہے _ بنابرايں''فاتقوا النار'' كا مفهوم يه هوگا _ فاتقوا الكفر بالقرآن والرسول لتتقوا النار

۶ _ دين كے منكروں كے بارے ميں اتمام حجت كيئے بغير وہ لوگ جہنم كى آگ ميں مبتلا نہيں ہونگے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار جملہ'' فان لم تفعلوا'' كا جواب شرط محذوف

۸۵

ہے اور اسكى جگہ جملہ '' فاتقوا ...'' اسكا قائم مقام ہے _ پس اگر تقديرى مفہوم كو نظر ميں ركھيں تو معنى يہ ہوگا :فان لم تفعلوا تمت عليكم الحجة و ثبت لديكم ان القرآن منزل من عند الله فاتقوا

۷_ آتش جہنم سے نجات قرآن كريم پر ايمان اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى تصديق سے ميسر ہے _فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النا ر يہ مطلب گذشتہ تشريح كى روشنى ميں ہے _

۸ _ آتش جہنم كو كفار كے لئے آمادہ كيا گيا ہے _اعدت للكافرين '' اعدت'' كا مصدر اعداد ہے جسكا معنى تيار كرنا اور آمادہ كرنا ہے _

۹ _ آتش جہنم اسوقت آمادہ ، تيار اور موجود ہے _اعدت للكافرين يہ مطلب اس لئے ہے كيونكہ '' اعدت'' فعل ماضى ہے_

۱۰ _ منكرين قرآن اور جہنم كے پتھر آتش جہنم كے لئے چھوٹى لكڑياں اور ايندھن ہيں _فاتقوا النار التى وقودها الناس والحجارة '' وقود'' كا معنى ايندھن يا وہ چيز جس سے آگ لگائي جاتى ہے _

۱۱ _ روز قيامت كفار كو اس آگ سے عذاب ديا جائے گا جو انہوں نے خود جلائي ہے _فاتقوا النار التى وقودها الناس والحجارة اعدت للكافرين

۱۲_ انس كہتے ہيں :تلا رسول الله (ص) هذه الاية ''وقودها الناس والحجارة'' فقال: اوقد عليها الف عام حتى احمرت و الف عام حتى ابيضت و الف عام حتى اسودت فهى سوداء مظلمة لا يطفأ لهبها (۱)

پيامبر اسلام (ص) نے يہ آيت ''وقودہا الناس والحجارة'' كى تلاوت فرمائي اور فرمايا آتش جہنم كو ہزار سال روشن ركھا گيا يہاں تك كہ سرخ ہوگئي اور ہزار سال شعلہ ور ركھا گيا يہاں تك كہ سفيد ہوگئي اور پھر ہزار سال اسكے شعلے بھڑكتے رہے يہاں تك كہ يہ آگ سياہ ہو گئي اب يہ آگ سياہ وتاريك ہے اور اسكے شعلے كبھى نہيں بجھيں گے_

اتمام حجت: اتمام حجت كى اہميت و كردار۶

انسان: انسان كى عاجزى و ناتوانى ۱،۲

اہل جہنم: ۸،۱۰

____________________

۱) الدالمنثور ج/ ۱ ص ۹۰_

۸۶

ايمان: قرآن پر ايمان كے اثرات و نتائج ۷; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے اثرات و نتائج ۷;ايمان كى اہميت ۷; قرآن پر ايمان ۵; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۵; ايمان كى دعوت ۵; ايمان كے متعلقات ۵

پيامبر اسلام(ص) : پيامبر اسلام (ص) كى نبوت كے دلائل ۳،۴

جہنم: آتش جہنم ۶،۷،۹; ايندھن ۱۰،۱۲; جہنم كے پتھر۱۰; آتش كے شعلے ۱۲; جہنم كا موجود ہونا ۹;جہنم كے لئے ركاوٹيں ۷; جو امور جہنم كا موجب بنتے ہيں ۸;

حديث : ۱۲

دين: دين كو جھٹلانے والوں كى سزا ۶

سزا : سزا كا نظام ۶

عذاب: اہل عذاب ۸،۱۱; عذاب بيان كے بغير نہيں ۶ عذاب كے موجبات ۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كا اعجاز ۱،۲،۳; قرآن كى پيشين گوئي ۲; قرآن كى حقانيت كے دلائل ۴; قرآن كے وحى ہونے كے دلائل ۳; قرآن كے جھٹلانے والے اہل جہنم ہيں ۱۰; قرآن كى اہميت و كردار۴; قرآن كى مثل لانا ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵;

كفار: كفار كے لئے آخرت كا عذاب ۱۱; كفار كا انجام ۱۱;كفار جہنم ميں ۸

كفر: كفر كے نتائج ۸

۸۷

وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۲۵ )

پيغمبر آپ ايمان اور عمل صالح والوں كو بشارت دے ديں كہ ان كے لئے ايسے باغات ہيں جن كے نيچے نہريں جارى ہيں _ انھيں جب بھى وہاں كوئي پھل ديا جائے گا تو وہ يہى كہيں گے كہ يہ تو ہميں پہلے مل چكاہے _ حالانكہ وہ صرف اس كے مشابہ ہوگا اور ان كے لئے وہاں پاكيزہ بيوياں بھى ہوں گى اور انھيں اس ميں ہميشہ رہنا بھى ہے_

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كے تبليغى فرائض ميں سے ہے كہ اہل ايمان كو بہشت كى صفات اور اسكى نعمات كے بيان سے خوشخبرى ديں _و بشر الذين امنوا و هم فيها خالدون '' ان لهم '' پر ''بائ '' داخل ہوئي ہے جو تقدير ميں ہے اور يہ متعلق ہے ''بشّر '' كے يعنى مفہوم يوں ہے''بشر الذين آمنوا بان لهم ...''

۲ _ دھمكى دينا يا ڈرانا اور ترغيب و تشويق دلانا انسانوں كى ہدايت كے لئے قرآن كريم كى روشوں ميں سے ايك ہے _

فاتقوا النار و بشر الذين آمنوا ۳ _ بہشت اور اسكى نعمتيں ان لوگوں كى جزا ہے جو قرآن مجيد اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لائيں اور نيك اعمال بجا لائيں _و بشر الذين آمنوا ان لهم جنات تجرى من تحتها الانهار ما قبل آيات كى روشنى ميں ''امنوا' ' كا متعلق قرآن مجيد اور پيامبر اسلام (ص) ہيں _

۴ _ ايمان بغير نيك اعمال كے اور نيك اعمال بغير ايمان كے ا نسان كو جنت ميں نہيں لے جائيں گے _و بشر الذين امنوا و عملوا الصالحات ان لهم جنات

''عملوا ...''كو''آمنوا ''پر''الذين '' كے تكرار كے بغير عطف قرار دينا اس معنى ميں ظاہر ہے كہ جنت كا ملنا دونوں صفات ( ايمان اور عمل) كے اكٹھے ہونے پرموقوف ہے _

۸۸

۵ _ جنت ميں بہت سارے باغات ہيں _ان لهم جنات مذكورہ مطلب لفظ '' جنات'' كے جمع ہونے كى وجہ سے ہے _

۶ _ بہشت ميں مختلف نہريں ہيں جو ہميشہ جارى ہيں _تجرى من تحتها الانهار ''الانهار' ' چونكہ جمع ہے اسيلئے متعدد نہريں مراد ہيں اور''تجرى '' فعل مضارع ہے جونہروں كے دائمى طور پر جارى رہنے كى دليل ہے _ ''تحتہا'' كى ضمير ''جنات'' كى طرف لوٹتى ہے لہذا اس سے مراد جنت كے درخت اور عمارتيں ہوسكتى ہيں _

۷_ جنت ميں بہت زيادہ پھل دار درخت ہيں _ان لهم جنات ...كلما رزقوامنهامن ثمرة '' ثمرة'' سے مراد درختوں كے پھل ہيں بہشت اور باغ كو اسيلئے جنت كہتے ہيں كيونكہ درختوں كے جنڈ يا درختوں كى فراوانى سے چھپى ہوئي ہے _

۸ _ اہل بہشت كى روزى جنت كے درختوں كے پھل ہيں _كلما رزقوا منهما من ثمرة رزقا ''رزقاً'' كا معنى روزى ہے اور '' رزقوا'' كا مفعول دوم ہے ''منہا'' كى ضمير '' جنات'' كى طرف پلٹتى ہے اور ''من ثمرة'' ، ''منہا'' كے لئے گويا كہ بيان ہے_

۹_ اہل بہشت كا رزق و روزى ان كے صحيح عقائد اور نيك اعمال كا تجسم اور نتيجہ ہے_كلما رزقوا منها من ثمرة رزقا قالوا هذا الذى رزقنا من قبل يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''من قبل'' سے مراد دنيا ہو بنابرايں جملہ ''ہذا الذي ...'' اس بات پر دلالت كرتاہے كہ بہشت كى روزى وہى ہے جو اہل ايمان كو دنيا ميں عنايت كى گئي تھى اس بات كى (كہ بہشت كا رزق وہى دنيا والى روزى ہے)_ توجيہ كے سلسلے ميں يہ كہا جاسكتاہے كہ اسكا مقصود يہ ہے : بہشت كى نعمتيں دنيا ميں اہل ايمان كے وہى عقائد و اعمال كا مجسم ہونا ہے _ اس مطلب كى روشنى ميں ''الذى رزقنا'' سے مراد ايمان اور عمل صالح ہے_

۱۰ _ جنت كے پھل اور رزق ايك دوسرے كے مشابہ ہيں _كلما رزقوا منها من ثمرة رزقاً و اتوا به متشابها ''بہ'' كى ضمير '' رزقا'' كى طرف لوٹتى ہے اور ''متشابہا'' كا مطلب ايك جيسا ہونا ہے اور يہ اس ضمير كے لئے حال واقع ہواہے تو مطلب يہ ہوا: بہشت كا رزق مومنين كے پاس لايا جائے گا در آن حاليكہ يہ رزق ايك دوسرے كے مشابہ ہوگا البتہ يہ مفہوم اس بناپر ہے اگرجملہ '' اتوا بہ ...'' مستأنفہ بيانيہ ہو_

۱۱ _ بہشت كے درختوں سے جيسے ہى پھل توڑا جاتاہے تو اسكى جگہ ويسا ہى پھل دوبارہ اُبھر آتاہے _كلما رزقوا من ثمرة رزقا قالوا و اتوا به متشابها

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ جملہ '' اتوا بہ '' ، '' قالوا '' پر عطف ہو اس طرح ''اتوا به

۸۹

...'' ،''كلما رزقوا ...'' كے لئے جواب شر ط ہوگا _

۱۲ _ اہل بہشت كو جنت كے پھلوں اور رزق سے استفادہ كے لئے بالكل بھى محنت و مشقت نہيں كرنى پڑے گى _

كلما رزقوا منہا... و اتوا به متشابها ''رزقوا '' اور ''اتوا '' كو مجہول لانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بہشت ميں خدمت كرنے والے نوكر چاكر ہوں گے جو اہل بہشت كى خدمت ميں رزق اور پھل حاضر كريں گے _

۱۳ _ بہشت ميں اہل بہشت كے لئے پاك و مطہر بيوياں ہوں گى _و لهم فيها ازواج مطهرة

۱۴ _ بہشت ايك لازوال مقام ہے اور اہل بہشت اس ميں ہميشہ ہميشہ كے لئے رہيں گے _و هم فيها خالدون

۱۵ _ بہشت ميں زمان و مكان كا پہلو موجود ہے _ان لهم جنات تجرى من تحتها الانهار كلما رزقوا منها ''كلما'' كا معنى ہے جب كبھى بھى اور يہ چيز زمان (وقت) پر دلالت كرتى ہے _ '' تحتھا'' كا لفظ مكان (جگہ) كى طرف اشارہ ہے _

۱۶_ سليم كہتے ہيں :قلت''لعلى بن ابى طالب عليه‌السلام '' ...فمن لقى الله عارفاً بامامه مطيعاً له من اهل الجنة هو؟ قال:نعم اذا لقى الله و هو مومن من الذين قال الله عزوجل: ''الذين آمنواوعملواالصالحات'' (۱)

ميں نے حضرت علىعليه‌السلام سے عرض كيا اگر كوئي شخص اس حالت ميں خداوند متعال سے ملاقات كرے كہ اپنے امام كى معرفت ركھتاہو اور اسكى اطاعت ميں رہاہو تو كيا وہ اہل بہشت ميں سے ہے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جب كوئي شخص خداوند قدوس سے ملاقات كرے گا اور مومن ہو تو وہ ان لوگوں ميں سے ہے جن كے بارے ميں اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' وہ ايمان لائے اور انہوں نے نيك اعمال انجام ديئے''_

۱۷_سئل الصادق عليه‌السلام عن قوله الله عزوجل '' لهم فيها ازواج مطهرة'' قال : الازواج المطهرة اللاتى لا يحضن و لا يحدثن ''(۲) امام صادقعليه‌السلام سے اللہ كے اس كلام ''مومنين كے لئے بہشت ميں پاك و مطہر بيوياں ہيں '' كے بارے پوچھا گيا تو آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا مراد بہشتى بيويوں ميں حيض اور حدث نہ ہوگا_

امامت: امامت كى اہميت۱۶

____________________

۱) سليم بن قيس ہلالي، اسرار آل محمد ص ۵۵ ، بحار الانوار ج / ۲۸ ص ۱۶ ،ح۲۲_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۵۰ ح ۴ ، الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۹۷_

۹۰

ايمان: ايمان نيك اعمال كے بغير ۴ قرآن پر ايمان كا اجر ۳; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كا اجر ۳;

اہل بہشت : ۳،۱۶ اہل بہشت كى ہميشگى و دوام ۱۴; اہل بہشت كى روزى ۸،۹

بہشت: بہشت كے پہلو ۱۵; بہشت كے پھلوں سے استفادہ ۱۲; بہشت كى نعمتوں سے استفادہ ۱۲; بہشت كے باغات ۵; بہشت كى بشارت ۱; بہشت ميں زمان كا پہلو۱۵; بہشت ميں مكان كا پہلو ۱۵; بہشتى بيويوں كى پاكيزگى ۱۳; بہشت كا دائمى ہونا ۱۴; بہشتى درخت ۷; بہشتى بيويوں كى طہارت ۱۳،۱۷; جو چيزيں بہشت كا موجب ہيں ۳،۴; بہشتى ميوہ جات ۷،۸; بہشتى نعمتيں ۱،۳،۵،۶،۷،۱۳; بہشتى نہريں ۶; بہشتى پھلوں كى خصوصيات ۱۰،۱۱; بہشتى نعمتوں كى خصوصيات ۱۰; بہشتى پھلوں كا ايك جيسا ہونا ۱۰،۱۱; بہشتى نعمتوں كا ايك جيسا ہونا ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تبليغ۱;پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۱

حديث : ۱۶،۱۷

رہبري: رہبرى و قيادت كى اہميت ۱۶

عقيدہ: صحيح عقيدہ كا مجسم ہونا۹

عمل صالح: عمل صالح كے نتائج ۹; عمل صالح كا اجر ۳; عمل صالح كا مجسم ہونا۹; عمل صالح بغير ايمان كے ۴

مومنين: مومنين كو خوشخبرى ۱; مومنين كا اجر ۳; عمل كرنيوالے مومنين ۱۶

ہدايت: ہدايت كرنے ميں ڈرانا ''انذار'' ۲; ہدايت كے لئے تشويق ۲; ہدايت كى روش ۲

۹۱

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ ( ۲۶ )

اللہ اس بات ميں كوئي شرم نہيں محسوس كرتا كہ وہ مچھر يا اس سے بھى كمتر كى مثال بيان كرے_ اب جو صاحبان ايمان ہيں وہ جانتے ہيں كہ يہ سب پروردگاركى طرف سے برحق ہے اور جنھوں نے كفر اختيار كيا ہے وہ يہى كہتے ہيں كہ آخر ان مثالوں سے خدا كا مقصد كيا ہے _ خدا اسى طرح بہت سے لوگوں كو گمراہى ميں چھوڑ ديتاہے اور بہت سوں كو ہدايت دے دےتاہے اور گمراہى صرف انھيں كا حصہ ہے جو فاسق ہيں _

۱_ لوگوں كى ہدايت كے لئے مثالوں كا استعمال قرآن كى روشوں ميں سے ہے_ان الله لا يستحى ان يضرب مثلا يهدى به كثيراً

۲ _ اللہ تعالى نے بعض حقائق كى وضاحت كے لئے قرآن مجيد ميں مچھريا اس سے بڑے حشرات الارض كى مثاليں بيان فرمائي ہيں _ان الله لا يستحى ان يضرب مثلاً ما بعوضة فما فوقها جملہ''ان الله ...'' اس بات كى حكايت كررہاہے : قرآن مجيد ميں (بعوضہ _مچھر) اور اس سے بڑے حشرات كا ذكر ہے _ گويا يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے ''لن يخلقوا ذباباً سورہ حج آيت۷۳'' اور ''كمثل العنكبوت _ سورہ عنكبوت آيت ۴۱'' لسان العرب ميں آياہے كہ بعوض مكھيوں كى فيملى سے ہيں جسكى مفرد بعوضة ہے _

۳ _ اللہ تعالى حقيقت كے بيان كى خاطر مچھر جيسے حشرہ كى مثال دينے سے نہيں شرماتا_

ان الله لا يستحى ان يضرب مثلا ما بعوضه فما فوقها ''استحيائ'' حيا ء سے ہے جسكا معنى جھجكنا يا شرماناہے_ بعوضہ كا معنى مچھر ہے _

۴ _ شرم و حيا اس بات كا باعث نہيں ہونى چاہيئے كہ انسان دينى حقائق ہى بيان نہ كرے _ان الله لا يستحى ان يضرب مثلاً ما بعوضه خداوند متعال كے افعال اسكے علم و حكمت كے لايزال منبع سے صادر ہوتے ہيں _ پروردگار متعال كے جو افعال قرآن حكيم ميں بيان ہوئے ہيں ہميں ان كى پيروى كرنى چاہيئے ( سوائے ان افعال كے جو ہمارے لئے ممكن نہيں ہيں جيسے خلق كرنا ) لہذا اس جملہ '' لا يستحي'' سے يہ درس ملتاہے كہ حقائق بيان كرنے ميں ہميں شرم نہيں كرنى چاہيئے_

۹۲

۵_ قرآن حكيم كى مثاليں حق ( حقيقت بيان كرنے والي) اور سب اللہ تعالى كى جانب سے ہيں _فيعلمون انه الحق من ربهم

۶ _ قرآن مجيد كى مثاليں مومنين كے لئے تربيت و رشد كا باعث ہيں _فيعلمون انه الحق من ربهم

۷_ اہل ايمان قرآنى مثالوں كى حقانيت اور ان كے آسمانى ہونے كا ادراك ركھتے اور اچھى طرح سمجھتے ہيں _فامّا الذين آمنوا فيعلمون انه الحق من ربهم

۸ _ مچھر يا اسطرح كى مثال كو كفار نامعقول اور اللہ تعالى كى شان سے ماوراء خيال كرتے ہيں _و اما الذين كفروا فيقولون ما ذا اراد الله بهذا مثلا چونكہ كفار قرآن مجيد كے منكر تھے لہذا اس جملہ ''ماذا اراد الله بھذا مثلاً ''سے يہ پتہ چلتا ہے كہ پروردگار عالم كا ان مثالوں سے ہدف كيا ہے_ اس كا يہ مطلب نہيں كہ كفار ان مثالوں پر يقين ركھتے تھے كہ يہ ''من جانب الله '' ہيں ليكن ان كى توجيہ و تاويل نہيں كر سكتے بلكہ انكا مقصود يہ تھا كہ ايسى مثاليں ناپسنديدہ، بے ہدف اور غير معقول ہيں لہذا لله تعالى كى طرف سے نازل نہيں ہو سكتيں _

۹_ قرآن كريم كى مثل و نظير لانے كى ناتوانى كفار كے قرآنى مثالوں پر اعتراضات كا سر چشمہ تھي_فان لم تفعلوا ولن تفعلوا ان الله لا يستحى ان يضرب مثلا ما و اما الذين كفروا فيقولون ماذا اراد الله بهذا مثلا

قرآن كريم كا مقابلے كى دعوت دينا (فأتوا بسورة) اور كفار كا اسكى مثل لانے كے بارے ميں ناتوانى (ولن تفعلوا) كے بعد ان كا قرآنى مثالوں پر اعتراض كرنا كفار كى بہانہ تراشى كى طرف اشارہ ہے: يعنى چونكہ قرآن كريم كى مثل لانے سے عاجز ہيں اس لئے بہانے اور اعتراض كے پيچھے ہيں (ما ذا ارادالله بهذا مثلا )

۱۰_ الله تعالى قرآنى مثالوں سے بہت ساروں كى ہدايت اور بہت ساروں كو گمراہ كرتا ہے_يضل به كثيرا و يهدى به كثيرا ''يضلُ اور يھدي'' كى ضمير الله تعالى كى طرف لوٹتى ہے اور ''بہ'' كى ضمير ''مثلاً'' كى طرف پلٹتى ہے_

۹۳

۱۱_ فقط فاسقين قرآنى مثالوں كے سبب گمراہى كى طرف كھچے چلے جاتے ہيں _و ما يضل به الا الفاسقين

۱۲_ انسان كے فسق اور تباہ كارى كى وجہ سے الله تعالى كا گمراہ كرنے كا ارادہ ہے_و ما يضل به الا الفاسقين

''به '' ميں ''بائ '' سببيت يا استعانت كے لئے ہے_''يضلّ '' كا فاعل ضمير ہے جو 'الله ، كى طرف لوٹتى ہے اور اس كا مفعول ''الفاسقين '' ہے_

۱۳_ الله تعالى كے گمراہ كرنے يا انسانوں كو ہدايت كرنے كا ارادہ ان حالات و عوامل كے ساتھ مشروط ہے جو انسان خود فراہم كرتا ہے_يضل به كثيراً و يهدى به كثيرا و ما يضل به الا الفاسقين ''وما يضلّ '' يعنى الله تعالى قرآنى مثالوں سے فقط فاسقوں كو گمراہ كرتا ہے_ يہ مطلب اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ الله تعالى كا گمراہ كرنا بے ہودہ و بے معنى نہيں بلكہ اس كى جڑ خود انسان كے اختيارى اعمال ہيں _ در حقيقت يہ گمراہى انسان كے فسق و فجور كا نتيجہ اور اس كى تباہ كارى كى سزا ہے_

۱۴_ الله تعالى كے افعال اسباب و عوامل كے ذريعے وجود ميں آتے ہيں _ يضل بہ كثيراً و يہدى بہ كثيرا

۱۵_ انسانوں كى ہدايت اور گمراہى خداوند قدوس كے اختيار ميں ہے_ يضل بہ كثيراً و يہدى بہ كثيرا

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے ايك روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :''انّما ضرب الله ْ المثل بالبعوضة لانّ البعوضة على صغر حجمها خلق الله ْ فيها جميع ما خلق فى الفيل مع كبره وزيادة عضوين آخرين '' (۱) الله تعالى نے مچھر كى مثال بيان فرمائي ہے كيونكہ باوجود اس كے كہ اس كا جسم نہايت چھوٹا ہے الله تعالى نے اس ميں وہ سب كچھ خلق فرمايا جو ہاتھى ميں اتنا بڑا وجود ركھتے ہوئے ہے بلكہ مچھر ميں دو اعضاء زيادہ ہيں _

۱۷_ امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں :انّ هذا القول من الله عزوجل (انّ الله لا يستحيي ...) رد على من زعم انّ الله تبارك وتعال يضلّ العباد ثم يعذبهم على ضلالتهم فقال الله عزوجل : انّ الله لا يستحيى ''(۲) الله عزوجل كا يہ كلام (غالباً آيت كا آخرى جملہ مراد ہے) ان لوگوں كے لئے جواب ہے جو يہ گمان كرتے ہيں كہ الله تعا لى اپنے بندوں كو گمراہ كرتا ہے اور پھر اس گمراہى پر عذاب كرتا ہے پس الله تعالى فرماتا ہے ''انّ الله لا يستحيى ...''

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۶۵ ، بحار الانوار ج/۹ ص۶۴_

۲) تفسير قمى ج/۱ ص۳۴ ، نورالثقلين ج/۱ص ۴۵ ح۶۳_

۹۴

الله تعالى : الله كے اختيارات ۱۵; ارادئہ الہى ۱۳;الله تعالى كا گمراہ كرنا ۱۰، ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۷; الله تعالى كے افعال ۱۰; الله تعالى اور شرم۳; الله تعالى كے افعال كى كيفيت ۱۴; مشيت الہى ۱۵; ہدايت الہي۱، ۱۳، ۱۵

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۶

حديث : ۱۶، ۱۷

حقائق : حقائق كے بيان كرنے ميں شرم ۴; حقائق بيان كرنے كى روش ۲،۳

رشد : رشد كے عوامل ۶

فاسقين : فاسقين كى گمراہى كے عوامل ۱۱; فاسقين اور قرآنى مثاليں ۱۱

فسق : فسق كے اثرات و نتائج۱۲

قرآن مجيد : قرآنى مثالوں كا گمراہ كرنا ۱۰،۱۱; قرآنى مثالوں كى حقانيت ۵،۷; قرآنى مثالوں كا فلسفہ ۵،۶; قرآنى مثالوں كے فوائد ۱; قرآنى مثالوں كا فہم ۷; قرآنى مثاليں ۲،۱۶; قرآن مجيد پر اعتراضات كا سرچشمہ ۹; قرآنى مثالوں كا سرچشمہ ۵; قرآنى مثالوں كا وحى ہونا ۷; قرآنى مثالوں كا ہدايت كرنا ۱۰; قرآن كى مثل ونظير گھڑنا۹

كفار : كفار كا عجز و ناتوانى ۹ ;كفار اور قرآنى مثاليں ۸

گمراہي: گمراہى كى جڑ ۱۲، ۱۳ ;گمراہى كا منبع ۱۵

مثاليں : مچھر كى مثال ۲، ۳، ۸، ۱۶

مؤمنين : مئومنين كى تربيت ۶; مومنين كا رشد ۶; مومنين اور قرآنى مثاليں ۷

نفسيات : تربيتى نفسيات۱

ہدايت : ہدايت كى روش ۱ ہدايت كى جڑيں ۱۳; ہدايت كا سرچشمہ۱۵

۹۵

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( ۲۷ )

جو خدا كے ساتھ مضبوط عہد كرنے كے بعد بھى اسے توڑديتے ہيں اور جسے خدا نے جوڑنے كا حكم ديا ہے اسے كاٹ ديتے ہيں اور زمين ميں فساد برپا كرتے ہيں يہى وہ لوگ ہيں جو حقيقتاً خسارہ والے ہيں _

۱_ الله تعالى نے انسانوں كے لئے عہد وپيمان كى وفا ضرورى و لازم قرار دى ہے_الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه ''عہد''كا معنى معاہدہ، عہدوپيمان ہے اور عھدالله سے مراد ممكن ہے وہ فرائض اور الہى تكاليف ہوں جو الله تعالى كى جانب سے انسانوں كے كندھوں پر ڈالى گئي ہيں _ البتہ اس سے مراد وہ معاہدے بھى ہو سكتے ہيں جن كو وفا كرنا انسان نے اپنے لئے ضرورى قرار ديا ہے اور ان معاہدوں كو انسان نے الله تعالى سے مربوط كر ركھا ہےجس طرح ''الله كى قسم ہے''مذكورہ بالامفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے _

۲_ ان معاہدوں كى پابندى ضرورى ہے جو خداوند متعال نے انسانوں كے لئے لازمى قرار ديئے ہيں _الذين ينقضون عهد الله

۳_ ان معاہدوں كو وفا كرنا ضرورى ہے جو انسان الله تعالى كے ساتھ باندھتا ہے_الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه

يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ ''عہدالله '' سے مراد وہ معاہدے ہوں جن كو وفا كرنا انسان اپنے لئے قسم وغيرہ كے ذريعے لازم قرار ديتا ہے ''ميثاق'' مصدر ہے اور اس كا معنى ہے استحكام عطا كرنا_ ''ميثاقہ'' كى ضمير''عھد'' كى طرف لوٹتى ہے يعنى يہ كہ جب انہوں نے اپنے معاہدے كو مستحكم كر ليا تو اب اسكى وفا پر تاكيد كرتے ہيں _

۴_ معاہدے كو توڑنا خصوصاً اس پر تاكيد كے بعد ايك ناپسنديدہ اور قابل نفرت عمل ہے_الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه

۵_ ان رشتوں يا معاہدوں كو توڑنا جن كو برقرار ركھنے اور وفا كرنے كا الله تعالى نے فرمان ديا ہے ايك ناگوار اور حرام عمل ہے_و يقطعون ما أمر الله به أن يوصل

۹۶

''ان'' مصدريہ ہے اور''ان يوصل'' ،''بہ'' كى ضمير كے لئے بدل اور''ما امر الله '' ، ضمير كا مرجع ہے_ پس مطلب يوں ہوا :الذى امر الله بوصله_ ''ما امر الله ''سے مراد اس طرح كے رشتے ناطے ہيں : صلہ رحم، اہل ايمان كے درميان سرپرستى كا رشتہ، برحق رہبروں اور امت اسلامى كے مابين سرپرستى كا تعلق_

۶_ زمين پر فساد پھيلانا الله تعالى كے محرمات ميں سے ہے_و يفسدون فى الارض

۷_ وہ لوگ جو الہى معاہدوں كى پابندى نہيں كرتے يا ان رشتوں ناطوں كو اہميت نہيں ديتے جن كى برقرارى كا پروردگار نے حكم ديا ہے تو وہ لوگ فاسق ہيں _الاالفاسقين_ الذين و يقطعون ما أمر الله به أن يوصل ''الذين''، ''الفاسقين ''كى توضيحى صفت ہے_

۸_ زمين پر فساد پھيلانے والے فاسق ہيں _الا الفاسقين الذين يفسدون فى الارض

۹_ قرآن حكيم اس طرح كے لوگوں كو گمراہى كى طرف لے جاتا ہے جو الہى معاہدوں كو توڑتے ہيں ، ان رشتوں ناطوں كو توڑتے ہيں جن كى برقرارى كا خدا نے حكم ديا ہے اور زمين پر فساد پھيلاتے ہيں _و ما يضل به الا الفاسقين_ الذين يفسدون فى الارض

۱۰_ فاسقين خسارے ميں ہيں _اولئك هم الخاسرون

۱۱_ الہى معاہدوں كو توڑنا، ان رشتوں ناطوں كو توڑنا جن كى برقرارى كا پروردگار نے حكم ديا ہے اور زمين پر فساد پھيلانا يہ امور انسان كےلئے حقيقى خسارے كا باعث ہيں _الذين ينقضون عهد الله اولئك هم الخاسرون

۱۲_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :''قال لى ابى على ابن الحسين عليه‌السلام ايّاك ومصاحبة القاطع لرحمه قال الله عزوجل ''الذين ...يقطعون ما أمر الله به ان يوصل اُولئك هم الخاسرون'' (۱)

ميرے والد امام سجادعليه‌السلام نے مجھے فرمايا جو قطع رحم كرتا ہے اسكى ہم نشينى سے پرہيز كرو الله تعالى ارشاد فرماتا ہے وہ لوگ ...جو اسكو قطع كرتے ہيں جس كے وصل كرنے (ملانے) كا الله نے حكم ديا ہے يہى لوگ ہيں جو خسارے ميں ہيں _

احكام : ۵، ۶

____________________

۱) اصول كافى ج/۲ ص۶۴۱ ح۷، نورالثقلين ج/۱ ص۴۵ ح ۶۶_

۹۷

الله تعالى : عہد الہى ۱،۲

انسان : الله تعالى كا انسانوں سے عہد ۱،۲

اہل خسارہ : ۱۰، ۱۲

اہل فساد : اہل فساد كا فسق ۸

حديث : ۱۲

خسارہ : خسارے كے عوامل ۱۱

صلہ رحم : صلہ رحم كى اہميت ۱۲ ;صلہ رحم قطع كرنے كا خسارہ ۱۲

عمل: ناپسنديدہ عمل ۴

عہد: وفائے عہد كى اہميت ۲،۳ ;الله تعالى سے عہد ۳

عہد شكنى : عہد شكنى كے نتائج و اثرات ۹، ۱۱ ;عہد شكنى كى سرزنش ۴; عہد شكنى كا ناپسنديدہ ہونا ۴

فاسقين : ۷،۸ فاسقين كا خسارے ميں ہونا ۱۰

فساد پھيلانا : فساد پھيلانے كے نتائج و اثرات۹، ۱۱; زمين پر فساد پھيلانا ۸،۹; زمين پر فساد پھيلانا حرام ہے ۶

فسق : فسق كے موارد ۷،۸

قرآن مجيد : قرآن مجيد كا گمراہ كرنا ۹; قرآن مجيد اور عہد شكن لوگ ۹; قرآن كريم اور فساد پھيلانے والے ۹

محرمات : ۵،۶

ہم نشينى : ناپسنديدہ ہم نشيني۱۲

۹۸

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ( ۲۸ )

آخر تم لوگ كس طرح كفر اختيار كرتے ہو جب كہ تم بيجان تھے اور خدا نے تمھيں زندگى دى ہے اور پھر موت بھى دے گا اور پھر زندہ بھى كرے گا اور پھر اس كى بارگاہ ميں پلٹا كر لے جائے جاؤ گے_

۱_ الله تعالى انسانوں كو زندگى عطا فرماتا ہے اور مارتا ہے_كنتم امواتاً فاحى كم ثم يميتكم ثم يحييكم

۲_ مردہ يا معدوم وجود كا زندہ وجود ميں تبديل ہونا الله تعالى كے وجود پر دلالت كرتا ہے_كيف تكفرون بالله و كنتم امواتاً فاحى كم

۳_ انسان كا اپنى موت و حيات ميں غور و فكر اس كو خدائے واحد پر ايمان اور يقين كى طرف لے جاتا ہے_كيف تكفرون بالله و كنتم امواتا فاحى كم

۴_ واضح دلائل كے ہوتے ہوئے خدائے متعال كى وحدانيت اور اسكى ذات اقدس كا انكار ايك غير منطقى اور تعجب آور بات ہے_كيف تكفرون بالله و كنتم امواتاً فاحى كم جملہ''كيف تكفرون بالله '' كا استفہام تعجب كے لئے ہے اور جملہ ''و كنتم امواتا فأحى كم '' حاليہ ہے جو تعجب كى علت كو بيان كررہاہے_

۵_ انسان اپنى دنياوى زندگى سے قبل ايك مردہ اور فاقد حيات وجود تھا_كنتم امواتاً فاحى كم

۶_ انسان كى زندگى دو طرح كى ہے دنياوى زندگى اور اخروى زندگيفاحى كم ثم يميتكم ثم يحييكم

بعض مفسرين كے نزديك '' ثمّ يحييكم _يعنى تمہيں مارنے كے بعد پھر زندہ كرے گا''برزخ كى زندگى كى طرف اشارہ ہے_ جبكہ بعض مفسرين كے نزديك اس سے مراد قيامت كے موقع پر مردوں كے زندہ ہونے كى طرف اشارہ ہے_

۷_ انسانوں كے تكامل معنوى كى انتہا و انجام خداوند متعال كى ذات اقدس ہے اور سب لوگ فقط اسى كى طرف لوٹ كر جائيں گے_ثم اليه ترجعون

۸_ انسانوں كى الله تعالى كى طرف بازگشت اخروى زندگى ميں زندہ ہونے كے بعد ہوگي_يحييكم ثم اليه ترجعون

۹۹

۹_ حضرت على عليہ السلام سے روايت ہے ...

انما اراد الله ُ جل ذكرهُ بالموت اعزاز نفسه واذلال خلقه و قرأ '' وكنتم امواتاً فاحى كم ثم يميتكم ثم يحييكم ...''(۱)

الله جل جلالہ نے انسان كے لئے موت كو قرار دے كر اپنى عزت اور اپنى مخلوق كى ذلت كے اظہار كا ارادہ فرمايا ہے_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے يہ آيت تلاوت فرمائي''وكُنتم امواتاً فأحى كم ثُمّ يُميتكم ثّمّ يحييكم ...''

الله تعالى : خداكے افعال ۱; خدا شناسى كے دلائل ۲; عزت خداوندى ۹

الله تعالى كى طرف بازگشت : ۷،۸

انسان: انسان خلقت سے پہلے ۵; انسان كى اخروى حيات ۶; انسان كى دنيوى زندگى ۶; انسان كا انجام ۷; انسانى زندگى كا حقيقى سرچشمہ ۱; انسان كى مرگ كا حقيقى منبع۱

ايمان : توحيد پر ايمان ۳; ايمان كے عوامل ۳; ايمان سے متعلق امور ۳

تفكر : حيات ميں تفكر كے اثرات و نتائج۳; موت ميں تفكر كے اثرات و نتائج۳

حديث : ۹

حيات : اخروى حيات ۸; حيات كا سرچشمہ ۲

كفر : كفر كا بے منطق ہونا ۴; خداوند متعال كے بارے ميں كفر ۴

مختلف امور : تعجب آور امور ۴

موت : فلسفہء موت ۹

____________________

۱) بحار الانوار ج/۳۲ ص ۳۵۵ ح ۳۳۷_

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785