اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 83003
ڈاؤنلوڈ: 4079

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 83003 / ڈاؤنلوڈ: 4079
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

پر ہوئی ہوگی( ۱ ) ۔

۱۹) اہل بیت کے و جود سے کائنات خالی نہیں ہوسکتی

اگرہم آیات و روایات پرغور کریں تو اللہ تبارک وتعالی کاسب سے پہلے حضرت آدم(ع)کو خلق کرنے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ مخلوقات کی ہدایت کے لئے سب سے پہلے ایک ہدایت یافتہ اور معصوم ہستی کو خلق فرمایا تاکہ آنے والے انسانوں کو ہدایت اور تعلیم وتربیت دے سکے۔اور اسلامی تعلیمات اور احادیث نبویؐ سے واضح ہوجاتاہے کہ جتنے بھی انبیاء خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے ہیں وہ حقیقت میں ہمارے نبی حضرت محمد بن عبد اللہ(ص)کی بعثت اور نبوت کا پیش خیمہ تھا

لہٰذایہ کہہ سکتے ہیں کہ جتنے انبیائ گذرے ہیں حضرت محمد بن عبد اللہ(ص)کے آنے کےلئے زمینہ سازی کرتے رہے۔ کیونکہ خدا نے کائنات کی خلقت سے چار ہزار سال پہلے حضرت محمد بن عبد اللہ(ص)اور ان کے اہل بیت کے نور کو خلق فرمایا اور پورے انبیائ کو عالم ذر میں چودہ معصومین کا نور دکھایاگیا اور انبیاء نے امتحان اور سختی کے وقت اہل بیت کو کامیابی کاذریعہ قرار دیا اور بہت سارے انبیاء کو خدا نے انہیں کے صدقے میں کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔

____________________

( ۱ ) ینابیع المودۃص۱۲۳

۱۶۱

اورکائنات کی خلقت سے قیامت تک ایک لحظہ بھی اہل بیت میں سے کسی ہستی سے دنیاخالی نہیں ہوسکتی اگر ایک لحظہ بھی زمین اہل بیت سے خالی ہوجائے تو زمین وآسمان نابود ہوجائینگے۔

''ولاتخلوالارض منهم ولوخلت لانساخت باهلها '' ( ۱ )

زمین کبھی بھی اہل بیت کے کسی فردسے خالی نہیں ہوسکتی اوراگر ایک لحظہ کے لئے زمین خالی ہوجائے تو زمین اہل زمین سمیت نابودہوجائے گی۔نیزفرمایا:

ولولاماعلی الارض منّا لانساخت باهلها ( ۲ )

اگر ہم اہل بیت میں سے کوئی ایک روئے زمین پر نہ ہوتو زمین اہل زمین سمیت نابود ہوجائے گی۔

اور بہت ساری روایات میں فرمایا:قیامت تک حجت خدا سے دنیا خالی نہیں ہوسکتی ،دین اسلام تاقیامت کبھی امام اور پیشوا سے خالی نہیں ہوسکتا ۔یہ تمام احادیث ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات کی خلقت سے لے کرقیامت تک اہل بیت کے وجود اوران کے نور سے کائنات محروم نہیں ہوسکتی

____________________

( ۱ ) ینابیع المودۃ ،ص۲ ۰ ۔

( ۲ ) ینابیع المودۃ ،ص۲۱۔

۱۶۲

( ۳ ) نیز روایات اور احادیث کے علاوہ انسان کی فطرت اور عقل بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے یعنی خدا اور دین پر عقیدہ فطری اور عقلی ہے۔اس کا نگہبان ہونا اس کا لازمہ ہے۔اور دنیوی و اخروی زندگی کے فلاح وبہبود کی خاطر

نظام کی ضرورت بھی عقلی اور فطری ہے تب ہی تو پورے بشر نظام اور قوانین کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہیںاور ہر بشر کی فطرت اور عقل اعتراف کرتی ہے کہ اس نظام کو معاشرے میں نافذ کرنے والے افراد دوسروں سے کامل ہرحوالے سے لائق ہو، وہ سوائے انبیاء اور اہل بیت کے کوئی نہیں ہوسکتا۔لہذا عقل کی نظر میں ہر زمانے میں قیامت تک کوئی نہ کوئی ہادی اور منجی بشریت کا ہونا ضروری ہے تاکہ عدل وانصاف قائم ہو، یہ وہی مطلب ہے جو خدا نے قرآن مجید میں لکل قوم ہاداور پیغمبراکرم (ص)نے''ولاتخلوالارض منهم ولوخلت لانساخت باهلها '' کی صورت میں بیان فرمایاہے ۔

۲۰ ) اہل بیت اورقرآن کے درمیان کیاجدائی ممکن ہے؟

جس طرح پیغمبراکرم (ص)اور اہل بیت کے درمیان جدائی اور افتراق کا تصور مسلمانوں کی جہالت اور کم فہمی ہے اسی طرح اہل بیت اور قرآن کے درمیان جدائی کا تصور بھی حماقت ہے، قرآن کو خدا کی کتاب کے طور پر قبول

____________________

( ۳ ) تفصیل کےلئے ینابیع المودۃ اور فرائد السمطین اورمناقب وغیرہ کی طرف رجوع کرےں۔

۱۶۳

کرنا اور اہل بیت کی اطاعت و معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کو واجب نہ سمجھنا حقیقت میں تضاد گوئی ہے کیونکہ قرآن اور اہل بیت کو جدا سمجھنا سنت نبوی(ص) کے خلاف ہے ۔ لہذا جو قرآن کا معتقد ہو ا سے چاہیے کہ اہل بیت کا بھی معتقد ہو ۔یہ نہیں ہوسکتاہے کہ اہل بیت کو نہ مانےں قرآن کو مانے۔ کیونکہ اہل بیت حقیقت میں خدا کی طرف سے مفسر قرآن ہیں اہل بیت کے بغیر قرآن کا ادراک اور فہم کا دعوی کرنا جہالت کی علامت ہے اور قرآن کے ساتھ ناانصافی ہے ۔

حموینی ،شہربن آشوب سے روایت کرتا ہے :

قال کنت عند ام سلمة فباذنها دخل البیت ابوثابت مولیٰ علی فقالت یاابا ثابت این طارقلبک حین طارت القلوب مطائرها قال اتبعت علیاً قالت وقفت بالحق و الذی نفسی بیده لقد سمعتُ رسول الله(ص) یقول علی مع القرآن والقرآن مع علی ولن یفترقا حتی یردا علی الحوض ۔( ۱ )

شہر بن آشوب نے کہا : میں ام سلمہ کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ابو ثابت جو حضرت علی (ع)کا آزاد کردہ غلام تھا ام سلمہ کی اجازت سے گھرکے اندر داخل ہوا

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ،ص ۹۰ ۔

۱۶۴

پھرام سلمہ نے کہا :اے ابوثابت! جب لوگوں کے دل مختلف لوگوں کی طرف جھک گئے تھے تو تمہارے دل نے کس کی طرف رخ کیا؟ابو ثابت نے کہا میں علی (ع)کی

پیروی اور اطاعت کرتا رہا، اس وقت ام سلمہ نے کہا کہ تو نے حق کو پالیا ہے کیونکہ خدا کی قسم میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے سنا ہے کہ آپنے فرمایا:علی (ع)قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع)کے ساتھ۔ یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہونچنے تک ہرگزایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ۔

اسی مضمون کی احادیث اہل سنت کی کتابوں میں پندرہ کے قریب اور اہل تشیع کی کتابوں میں گیارہ کے قریب ہے جن کاخلاصہ یہ ہے کہ اہل بیت اور قرآن کے درمیان افتراق اور جدائی کا قائل ہونا اور قرآن کو ماننا اور علی (ع)اور دیگر اہل بیت کی امامت اور افضلیت کا قائل نہ ہونا مسلمانوں کی بدقسمتی کی علامت اور تضاد گوئی ہے۔ ابن حجر مکّی نے صواعق المحرقہ( ۱ ) میں روایت کی ہے :وفی روایة انّه صلی الله علیه وآله وسلم قال فی مرض موته ایهاالنّاس یوشک ان اقبض قبضاً سریعاً فینطق بی وقد قدمت الیکم القول معذرة الیکم الّا ا نی متخلف فیکم کتاب ربّی عزّوجلّ وعترتی اهل بیتی ثمّ اخذ بید علی (ع) فرفعها هذا علی مع

____________________

( ۱ ) صفحہ نمبر ۷ ۵

۱۶۵

القرآن والقرآن مع علی لایفترقان حتی یردا علی الحوض عنقریب قبض روح هوگا لهذا تم آگاه هوکه میں تمهارے درمیان اپنے پرودگار کی کتاب اور میرے اهل بیت (ع) کو چهوڑ کر جارهاهوں پهر آنحضرت (ص)نےفاسألوهما مااختلفتم فیها ۔( ۱ )

پیغمبراکرم (ص)نے اپنے آخری وقت میں فرمایا: اے لوگو !میرحضرت علی (ع)کے دست مبارک کو تھام کر بلند کیا اور فرمایا:

یہ علی (ع)ہے جو قرآن کے ساتھ اور قرآن علی (ع)کے ساتھ ہے یہ دونوں میرے قریب حوض (کوثر) پر پہونچنے تک کبھی بھی جدا نہیں ہوسکتے لہذا جس مسئلہ میںتمہارے درمیان اختلاف ہوجائے اسے کتاب وعترت سے پوچھو۔

اہم نکات:

مذکورہ احادیث میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اختلافات کو کتاب اور اہل بیت کے ذریعے حل کرےں۔

اہل بیت اور قرآن کے مابین جدائی ڈالنا اہل بیت کی شان میں جسارت ہے کیونکہ پیغمبراکرم (ص)نے حدیث ثقلین میں فرمایا :میری رحلت کے بعد سے لے کر قیامت تک تمہارا مرجع اور فصل الخطاب کتاب و اہل بیت

____________________

( ۱ ) ۔صواعق المحرقہ ، ص ۷ ۵، فضائل الخمسہ ، ج۲ ، ص۱۱۳۔

۱۶۶

ہے اگر کتاب کو مانیں اہل بیت کو نہ مانیںیابالعکس یعنی اہل بیت کو مانیں او ر کتاب کو نہ مانیں تو ایسا شخص لاشعوری طور پر گمراہ ہوکر رہے گا۔ مذکورہ حدیث فریقین کے نزدیک صحیح اور حدیث ثقلین کے نام سے شیعہ اوراہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے ۔( ۱ )

۲۱) اہل بیت سے اگر تمام انسان ، محبت کرتے تو جہنم خلق ہی نہ ہوتا

دلیل عقلی اور آیات اور احادیث کی روشنی میں سارے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت اور جہنم برحق ہے جو جنت اور جہنم کا منکر ہوگا وہ اسلام سے خارج ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اگر ہم اسلامی کتب مخصوصاً آیات و احادیث کا مطالعہ کریںتو جنت اور جہنم کی خلقت کا فلسفہ روشن ہوجاتاہے۔آیات و روایات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جہنم کے خلق کرنے کا فلسفہ گناہ گاروں کو ان کے گناہوں کی سزا دینا ہے اور دشمنی اہل بیت بھی در واقع خدا کی نافرمانی ہے اس لئے جہنم کی خلقت کے اہداف میں ایک ہدف دشمنان اہل بیت کو عذاب دینا ہے۔

چنانچہ حافظ سمعانی نے اپنی سند کے ساتھ جابر سے روایت کی ہے :

قال کان رسول الله(ص) بعرفات لوانّ امتی صاموا حتی

____________________

( ۱ ) ۔ صواعق المحرقہ ص۱۲۵ ۔

۱۶۷

یکونوا کالحنایا وصلوا حتی کانوا کاالاوتار ثم ابغضوک لاکبّهم علی وجوهم فی النار ۔( ۱ )

جابر (ع)نے کہا:پیغمبراکرم (ص)عرفات میںبیٹھے ہوئے تھے آپنے فرمایا:اے علی (ع)اگر میری امت کی کمر روزہ زیادہ رکھنے کی وجہ سے خم ہوجائے اور زیادہ نماز پڑھنے کی وجہ سے نیزے کی مانند لاغر ہوجائے لیکن وہ تم سے بغض اور عداوت رکھے تو خدا ان کو روزقیامت منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔

اگرچہ پہلے بھی کچھ روایات اہل بیت کی محبت کے بغیر کسی بھی عبادت کے قبول نہ ہونے کے عنوان سے بیان ہوئی لیکن اس روایت کو یہاں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بغض علی (ع)اور عداوت اہل بیت کے ساتھ نجات اور سعادت اخروی کا تصور کرنا خام خیالی کے سواکچھ نہیں ۔

موفق بن احمد اپنی سند کے ساتھ طاؤوس سے وہ ابن عباس (رض)سے روایت کرتا ہے :

قال رسول الله لواجتمع النّاس علی حبّ علی بن ابی طالب (ع) لما خلق الله عزوجل الناّر ۔( ۲ )

____________________

( ۱ ) ۔الرسالۃ القوامیۃ فی مناقب الصحابۃ ج۲ص ۳ ۰ ۱ ۔

( ۲ ) ینابیع المودۃ ج ۲ص٦۱۔

۱۶۸

پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: اگر تمام انسان علی بن ابی طالب (ع)سے محبت کرتے تو خدا جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔

حضرت عمر بن خطاب نے روایت کی ہے :

لواجتمع النّاس علی حبّ علی بن ابی طالب (ع) لما خلق الله عزوجل الناّر ۔( ۱ )

اگر تمام انسان علی بن ابی طالب (ع)سے محبت کرتے تو اللہ جہنم کو خلق ہی نہ کرتا

۲۲)اہل بیت کی شان میںصحابہ کرام کا نظریہ

بہت سارے غیرمسلم افراد بھی اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کے قائل ہیں مکارم الاخلاق ، علم اور عمل کے حوالے سے ہر ایک اہل بیت کی فوقیت اور برتری کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اگرچہ حکومت اورہوس اقتدار کے نتیجہ میں سرپرستی اورولی امر مسلمین کے منصب سے اہل بیت کو محروم کررکھا یعنی مسلم و غیر مسلم سب اہل بیت کی برتری اور فوقیت کے قائل ہیں لیکن سیاست اور حکومت کے نشے میں اہل بیت سے زیادہ خود کو حکومت کا حقدار سمجھتے تھے۔اگرچہ بہت سارے برجستہ اصحاب اہل بیت کرام کی برتری کو مانتے تھے اور ان کوہر مسئلہ کے حل کے لئے مرجع قرار دیتے تھے۔

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ص۲۵۱،

۱۶۹

ابو رافع نے کہا :

کنت قاعدا بعد ما بایع الناس ابابکر فسمعت ابا بکر یقول للعباس انشدک الله هل تعلم انّ رسول الله(ص) جمع بنی عبدالمطلب واولادهم وانت فیهم وجمعکم دون قریش فقال یابنی عبدالمطلب انّه لم یبعث الله نبیا الاجعل له من اهله اخاً ووزیراً ووصیاً وخلیفة فی اهله فمن منکم یبایعنی علی ان یکون اخی ووزیری ووصیّ وخلیفتی فی اهلی فلم یقم منکم احدفقال یا بنی عبدالمطلب کونوا فی الاسلام رؤساً ولا تکونوا اذ ناباً واللّه لیقومن قائمکم اولتکوننّ فی غیرکم ثمّ لنندمنّ فقام علی (ع) من بینکم یبایعه علی ماشرط له ودعاه الیه اتعلم هذا من رسول اللّه قال نعم ۔( ۱ )

ابورافع نے کہا: لوگوں کے حضرت ابوبکر کی بیعت کرنے کے بعد، میں بیٹھاہواتھااتنے میں ابوبکر نے جناب عباس (رض)سے کہا کہ اے عباس! تمہیں تمہارے پروردگار کی قسم !کیاتم نہیں جانتے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے جناب پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:اے فرزندان عبدالمطلب! اللہ نے کسی بھی نبی کو

____________________

( ۱ ) ۔ابن عساکر:ترجمہ امام علی (ع):ج۱ ص ۸۹ ، ۹۰ ۔

۱۷۰

مبعوث نہیں کیا ہے مگراس کے خاندان سے اس کی مددکے لئے کسی کو اس کا بھائی، وزیر اور جانشین قراردےا ، لہذا تم میں سے کون میری بیعت کرے گا تاکہ وہ میرا برادر، جانشین اورمیرا وزیر قرار پائے؟ اس وقت تم میں سے کسی نے جواب نہیں دیا پھر دوبارہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: اے فرزندان عبدالمطلب اسلام کی ترویج اور نشر واشاعت کے لئے سب سے آگے ہو نہ پیچھے ، کیونکہ خدا کی قسم اگرخلافت اور رہبری کے مقام پر تمہارے علاوہ کوئی اورقبضہ کر بیٹھے تو تمہیں پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اس وقت حضرت علی (ع)اٹھ کھڑے ہوئے اور آنحضرت (ص)کے روبرو ہو کرآپ کی بیعت کر کے ان کے وزیر اور جانشین اوربرادر بن گئے ابوبکر نے عباس سے پوچھا کیا اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہو؟ عباس نے کہا جی ہاں اس کی تصدیق کرتاہوں۔

نیزحضرت عائشہ سے روایت کی ہے :

قالت قلت لابی انّی اراک تطیل النظر الی وجه علی بن ابی طالب فقال لی یابنّیة سمعت رسول الله(ص) یقول النظر الی وجه علی عبادة ۔( ۱ )

میں نے اپنے باپ سے کہا : میں دیکھتاہوںکہ آپ حضرت علی (ع)کے چہرے کی

____________________

( ۱ ) ۔ غایۃ المرام، ص ٦۲٦۔

۱۷۱

طرف بہت زیادہ نظر کرتے ہیں ( اس کی وجہ کیاہے ؟) کہنے لگے: میری بیٹی میں نے پیغمبراکرم (ص)کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی (ع)کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔

اسی طرح علامہ محدّث ابن حنویہ الحنفی الموصلی اپنی کتاب بحرالمناقب( ۱ ) میں انس بن مالک سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں کہ انس بن مالک نے کہا : حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں ایک یہودی خلیفہ کی تلاش میں وارد مدینہ ہوا لوگ اس کو حضرت ابوبکر کے پاس لے گئے یہودی نے حضرت ابوبکر سے کہا:تو خلیفہ وقت اورجانشین رسول (ص)ہے؟حضرت ابوبکر نے کہا:جی ہاں میں خلیفہ وقت اور جانشین رسول (ص)ہوں، کیا تجھے نظر نہیں آتاکہ میں اس کے محراب اور مقام پر بیٹھا ہوا ہوں ؟ یہودی نے کہا: اگر ایسا ہے تو کچھ سوالات کا جواب آپ سے جاننا چاہتاہوں،حضرت ابو بکر نے کہا :جوکچھ سوالات ہے پوچھو یہودی نے کہا مجھے بتادے پھر اس نے پوچھا: وہ چیز کیاہے جسے خدا نہیں جانتا اور خدا کے پاس نہیں ہے اور خدا کے لئے نہیں ، ابوبکر نے کہا ایسے سوالات وہ لوگ کرتے ہیں جو زندیق ہے اس وقت عباس (رض)بھی وہاں موجود تھے انہوں نے حضرت ابو بکر سے کہا: اس یہودی کے ساتھ نرمی کرو ۔ ابوبکر نے کہا :کیاآپ نے اس کے

____________________

( ۱ ) ،ص ۷ ٦،

۱۷۲

سوالات کو نہیں سنا ابن عباس (رض)نے کہا :اگر جواب دے سکتے ہو تو جواب دو ورنہ اس کو آزاد کردے تاکہ جہاں جانا چاہتا ہے جاسکے اس وقت جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ اس کو دربار سے نکال دو یہودی یہ کہتا ہوا نکل گیا کہ خدا کی لعنت ان لوگوں پر ہوجو ایسے مقام پر قابض ہیں جس کے وہ لائق نہیں اور علم ودلیل کے بغیر انسانوں کی جان سے کھیلنا چاہتے ہیں کہ جسے خدا نے حرام قرار دیاہے پھر یہودی کہنے لگا اے لوگو! جب یہ شخص کسی ایک مسئلہ کا جواب نہ دے سکے تواسلام کہاں پیغمبراکرم (ص)کہاں ،ان کاجانشین کہاں ، ابن عباس (رض)کے کہنے پر اسے وہاں سے نکالااور کسی نے اس سے کہا بہتر یہ ہے کہ حضرت علی (ع)سے جا کر پوچھو جو علم نبوت اور وحی الہی کا گہوارہ ہے اس کو حضرت علی (ع)کے پاس پہونچا دیا گیااور حضرت علی (ع)کے اجازت لی لوگوں کی بھیڑبہت زیادہ تھی کچھ خوش ہورہے تھے کچھ رو رہے تھے اتنے میں حضرت ابوبکر نے کہا :اے ابوالحسن (ع)اس یہودی نے مجھے سے بے دینوںاور زندیقوں کا سوال کیاہے ۔امام نے فرمایا: اے یہودی تو کیا کہتاہے ؟ یہودی نے کہا کیامیں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ مہمان کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں جو ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا؟امام (ع)نے فرمایا:ان لوگوں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کہاوہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے امام نے فرمایا :اس کو درگذر کرجو سوالات ہیں وہ پوچھیں۔ یہودی نے کہا :میرے سوال کا جواب سوائے جانشین رسول خدا ؐکے کوئی نہیں دے سکتا ،

۱۷۳

امام (ع)نے اصرار فرمایا :جو کچھ ہے سوال کرویہودی نے کہا : آپ مجھے بتائے جو خدا کے لئے نہیں وہ کیا ہے؟ جو خدا کے پاس نہیں ہے وہ کیاہے؟ وہ چیز کیا ہے جسے خدا نہیں جانتا؟حضرت علی (ع)نے فرمایا: اے یہودی اس سوال کا جواب ایک شرط کے ساتھ میں بیان کروںگاوہ شرط یہ ہے کہ اگر میں جواب دو ں تولاالہ الا اللہ محمد...پڑھے اور مسلمان ہوجائے اس نے قبول کیا پھر امام (ع)نے فرمایا: جوخدا کے لئے نہیں ہے وہ ہمسر اور شریک حیات وفرزند ہے اور جو خدا کے پاس نہیں ہے وہ ظلم ہے لیکن جسے خدا نہیں جانتا وہ یہ کہ خدا کا کوئی شریک ہو،خدا خود قادر مطلق ہے کسی وزیر اور شریک سے بے نیاز ہے یہودی نے کہا:اے رسول خدا ؐکے جانشین آپ نے صحیح جواب فرمایا: اس وقت یہودی نے امام (ع)کے دست مبارک تھام کر شہادتین زبان پر جاری کیا اور کہا تو ہی خلیفہ برحق ہے ان کے حقیقی جانشین ان کے وارث علم وسیرت ہے تو اسلام کی آبیاری کے لئے لائق ترین ہستی ہے انس کہتاہے ؛لوگ خوشی میں فریاد کرنے لگے لیکن حضرت ابوبکر نے کہا علی (ع)تو ہرغم اور مشکل کوبرطرف کرنے والی ذات ہے پھر حضرت ابوبکروہاں سے نکلے اور منبر پر جاکر اقرار کیا اے لوگو میں علی (ع)ہوتے ہوئے تمہارے سرپرست اور جانشینی رسول کا لائق نہیں ہوں لہذا مجھے چھوڑ دو ۔( ۱ ) اس حدیث کو ہمارے برادران اہل سنت کے بہت سارے برجستہ علماء نے اپنی کتابوں

____________________

( ۱ ) ۔بحرالمناقب،ص ۷ ٦مخطوط ،

۱۷۴

میں نقل کیا ہے جس سے بخوبی حضرت علی (ع)کی افضلیت کا پتہ چلتا ہے نیز آپ کے جانشین رسول ہونے کا مسئلہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔سوید بن غفلہ سے روایت کی ہے:

قال رأی عمر رجلا یخاصم علیاً فقال له عمر انّی لاظنّک من المنافقین سمعت رسول الله(ص) یقول علی منی بمنزلةهارون من موسی الاّ انّه لانبی بعدی ۔( ۱ )

سوید بن غفلہ نے کہا کہ ایک دن حضرت عمر نے کسی شخص کو دیکھا جوحضرت علی (ع)سے بغض اور عداوت رکھتا تھا۔حضرت عمر نے اس سے کہا اے فلانی میرے خیال میں تومنافقین میں سے ہو۔ کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے سنا ہے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا کہ جس طرح حضرت ہارون (ع)حضرت موسی (ع)کے برادر ، وزیر اور اس کا خلیفہ تھا اسی طرح علی (ع)میرا بھائی ، میرا وزیراور خلیفہ ہے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

اس روایت سے روشن ہوجاتاہے کہ حضرت علی (ع)حضرت ہارون(ع)کی مانند ہے یعنی ہارون (ع)حضرت موسی- کا خلیفہ، وزیر، مددگار اور ان کے بھائی تھے اسی طرح حضرت علی (ع)پیغمبراکرم (ص)کے مدد گار ان کے جانشین اور وزیر ہے،صرف فرق یہ ہے حضرت ہارون- خود بھی نبی تھے لیکن حضرت علی (ع)نبی نہیں

____________________

( ۱ ) ۔ابن عساکر ،ترجمہ امام علی (ع)ج،۱ ص ۳۳ ۰ ۔

۱۷۵

کیونکہ آنحضرت (ص)کے بعد کوئی نبی نہیں۔

نیز عبداللہ بن عباس (رض)سے روایت کی ہے :

قال سمعت عمربن الخطاب وعنده جماعة فتذاکروا السابقین الیٰ الالسلام فقال عمر امّا علی (ع) سمعت رسول الله (ص) یقول فیه ثلاث خصالٍ لوددت ان لی واحدة منهنّ احبّ الیّ ممّا طلعت علیه الشمس کنت انا وابو عبیده وابوبکر وجماعة من الصحابة اذا ضرب النبی (ص) بیده علی منکب علی (ع) فقال له ی علی (ع) انت اول المؤمنین ایماناً واول المسلمین اسلاماً وانت منی بمنزلة هارون من موسی ۔( ۱)

عبداللہ بن عباس (رض)نے کہا کہ میں نے حضرت عمر سے سناکہ (ایک دن ) ایک گروہ حضرت عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہوئی کہ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ اس وقت حضرت عمر نے کہا لیکن جہاں تک حضرت علی (ع)کا تعلق ہے ان کے بارے میں حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ: علی (ع)میں تین خصلتیں پائی جاتی ہیں اگر ان میںسے کوئی ایک مجھ میں پائی جاتی تو ہر اس چیز سے مجھے زیادہ پسند ہے کہ جس پر سورج طلوع

____________________

( ۱ ) ۔ابن عساکرترجمہ امام علی (ع)،ج۱،ص،۳۳۱۔

۱۷۶

کرچکا ہے۔(پھرحضرت عمر نے کہا) میں ، ابوعبیداللہ ، ابوبکر اور اصحاب میں سے ایک جماعت پیغمبراکرم (ص)کے محضر میں بیٹھے تھے اتنے میں حضرت علی (ع)آئے ، آپنے دست مبارک کو حضرت علی (ع)کے کندے پر مارا اور فرمایا: اے علی (ع)تو سب سے پہلا مؤمن اور سب سے پہلا مسلمان ہو تو میرے لئے ہارون- کی مانند ہو یعنی جس طرح ہارون (ع)حضرت موسی- کے لئے مدد گار تھے اسی طرح تو میرے لئے مددگار میرا وزیر اورجانشین ہے ۔

نیز حضرت عمر سے راویت کی گئی ہے :

عن عمر وقد نازعه رجل فی مسألة فقال بینی وبینک هذا الجالس ( واشارالی علی بن ابی طالب (ع) ) فقال الرجّل هذا الابطن فنهض عمر من مجسله واخذ بتلببه حتی شاله من الارض ثم قال آتدری من حقرت مولای ومولی کل مسلم ۔( ۱)

(ایک دن ) حضرت عمر اورکسی شخص کے درمیان کسی مسئلہ پہ جھگڑا ہوا تو حضرت عمر نے کہا ہم فیصلہ اس شخص پر چھوڑ دیتے ہیں جو ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یہ کہہ کر حضرت علی بن ابی طالب- کی طرف اشارہ کیا اس وقت اس شخص نے کہا کیاہم اس پیٹ پھولے ہوئے شخص کافیصلہ قبول کریں ،حضرت عمر

____________________

( ۱ ) ۔فضائل خمسہ من صحاح الستہ ،ج۲ص ۲ ۸۸ ۔

۱۷۷

نے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑ کر اسے زمین سے بلند کرکے کہا کیاتم جانتے ہو کہ تم نے کس کی تحقیر کی ہے ؟ تو نے میرے اور ہر مسلمان کے سرپرست ومولیٰ کی تحقیر کی ہے ۔

ہمارے برادران اہل سنت کی کتابوں میں اصحاب کرام سے بہت سی روایتیں اہل بیت کی شان میں نقل ہوئی ہیں( ۱ )

ایک اعتراض اور اس کا جواب

اعتراض:اگرچہ ذکرشدہ مختصر روایات میںصرف حضرت علی (ع)کے متعلق صحابہ کرام کی گواہی اور اعتراف موجود ہے جبکہ شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت سے چودہ معصومین مراد ہے ان کے بارے میں مذکورہ روایات میں کوئی اشارہ نہیں ہے ۔

جواب : اس مختصر کتاب میں پورے اہل بیت کی شان میں جتنی

روایات اور آیات واردہوئی ہیں سب کو جمع کرکے بیان کرنا میراہدف نہیں ہے بلکہ اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے برادران اہل سنت کے معتبر منابع سے اہل بیت کی عظمت اور فضیلت ثابت کرنا مقصود ہے لہذا گذشتہ روایات میں اگرچہ صرف حضرت علی (ع)کانام مذکور ہے لیکن دوسری بہت ساری روایات میں پورے اہل

____________________

( ۱ ) دیکھیں: ابن عساکر: کتاب ترجمہ امام علی (ع)اور فضائل خمسہ من الصحاح الستہ ج۲وغیرہ

۱۷۸

بیت کے مصداق اور اسامی گرامی موجود ہیں ان کی افضلیت کا صحابہ کرام اور تابعین بخوبی اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ینابیع المودۃ،شواہد التنزیل،مناقب حضرت علی (ع)کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

۲۳)اہل بیت کی برتری عقل کی روسے

جب کسی معاشرے میں کوئی محقق یا مفکر کسی مطلب اور حقیقت کو تقریر اور خطابت کی صورت میں یاتألیف اور تصنیف کی شکل میں یادیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پیش کرنا چاہتاہے تو اس کی کوشش اور توجہ دو نکتوں کی طرف مرکوز ہوتی ہے:

۱ ۔ مطلب مستدل اور اصول وضوابط کے مطابق ہو۔

۲۔فصاحت وبلاغت اور حسن وزیبائی کلام کے اصول وضوابط سے خارج نہ ہو، تاکہ سامعین اور قارئین کو زیادہ سے زیادہ متأثر اور مطمئن کرسکے لہذا جب ہم نے اہل بیت کی برتری اور افضلیت کو قرآن وسنت کی روشنی میں اہل سنت کے منابع سے ثابت کیا ہے تومناسب ہے کہ عقل کی رو سے بھی اہل بیت کی برتری کو ثابت کروں تاکہ ان کی امامت کے معتقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حقانیت پراطمینان حاصل ہو اورشکوک و شبہات کا ازالہ ہو۔

۱۷۹

قرآن وسنت کی طرح عقل وفطرت سے بھی بخوبی اہل بیت کی برتری اور افضلیت کی تائید ہوتی ہے اور ان کی سرپرستی کو قبول کرنے اوران کے حقوق کی رعایت کرنے کی ضرورت کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ عقل کی نظر میں وہ انسان واجب الاطاعت اور افضل ہے جوسوائے رضایت الہی اور مشیّت معبود حقیقی کسی اورشے کے درپے نہ ہو ،چاہے ذاتی نفع ہو یا نہ ہو، ہرحرکات وسکنات اور قول وفعل میں خدا کی رضایت کا خواہان ہواور مکمل طور پر خدا کا فرمانبردار ہو اور اس کی پوری کوشش یہ ہو کہ معاشرے میں عدل وانصاف کی آبیاری ،ظلم وستم اورناانصافی کی نابودی ہو اور وہ ہر قسم کے عیب ونقص یعنی نافرمانی الہی اورگناہ سے پاک وپاکیزہ ہو، تو عقل درک کرتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ ایسے افراد کو روز مرّہ زندگی کے تمام امور میں اسوہ اورنمونہ عمل قرار دیاجانا چاہے تاکہ ان کی سیرت پر چل کر سعادت مادی ومعنوی سے ہمکنار ہوسکے۔

پس اگر کوئی اہل بیت کے کردار وگفتار پرصحیح معنوںمیں غور کرے تو ان کی حقانیت اورا ن کی برتری و افضلیت کا مسئلہ واضح ہوجاتاہے ۔یعنی اہل بیت صرف ہدایت اور رہنمائی بشر کےلئے خلق کیا گیا ہے۔ لہذا اہل بیت میں سے کسی ہستی کی سیر ت اور سوانح حیات میں کوئی ایسا مطلب نظرنہیں آتا جو عقل وفطرت کے منافی ہو چاہے اعتقادی پہلوہو یا عملی ، فقہی ہو یا سماجی ،اقتصادی ہو یاسیاسی، اخلاقی ہو یا فلسفی ،کلامی ہو یا منطقی ،تاریخی ہو یاطبی، تمام مسائل اور امورمیں اہل بیت ہر جانب سے پیشقدم نظر آتے ہیں اور ذرہ برابر غلطی اور گناہ نظر نہیں آتایہی ان کی حقانیت اور برتری کی واضح دلیل ہے

۱۸۰