اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 83001
ڈاؤنلوڈ: 4079

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 83001 / ڈاؤنلوڈ: 4079
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

اہل بیت داخل نہیں ہیں بلکہ قرآن مجیدکی ان آیات کے مصداق صرف اہل بیت اطہار ہیں کیونکہ پیغمبر اسلام (ص)نے کئی مقامات پران آیات کے مصادیق کو بیان فرمایا ہے۔یعنی آیت مباہلہ( ۱ )

،آیت تطہیر( ۲ ) ،آیت مودّت( ۳ ) ،آیت اہل الذکر( ۴ ) ، وغیرہ کے نزول کے وقت ان کے مصادیق اہل بیت کو معین فرما کر کہا:اے اللہ!ہر نبی کے اہل بیت ہوا کرتے ہیں،لیکن میرے اہل بیت یہی ہستیاں ہیں ان کو ہر قسم کی پلیدی اور شر سے بچائے رکھ۔کبھی اہل بیت کو معین کرکے ان پر چادر ڈال دیتے تھے جس کا فلسفہ یہ تھا کہ دنیا والے اہل بیت (ع)میںازواج رسول (ص) اور دیگر ذرّیت کو شامل کرکے آیت تطہیر اور آیت مباہلہ جیسی آیات ان پر تطبیق نہ کرسکیں۔

لہٰذااگر ہم سیرت طیبہ رسول (ص) کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ہمارے زمانے میں پیش آنے والے شبہات اور توہمات کا کس اچھے انداز میں جواب دیا ہے۔غور کیجئے!اہل بیت کو کساء کے نیچے داخل کرنے کا مطلب کیا تھا؟یہ جواب تھا اس شبہہ کا جو آج پیش آرہاہے یعنی ازواج رسول (ص)کے بھی اہل بیت میں داخل ہونے کے اس توہم کا عملی جواب تھا۔سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ رسول اسلام (ص)یہ بتانا چاہتے

____________________

( ۱ ) آل عمران آیت٦۱

( ۲ ) الأحزاب آیت۳۳

( ۳ ) الشوری آیت۲۳

( ۴ ) النحل آیت۴

۴۱

تھے کہ دنیا والو! خدا نے جن افراد سے ''رجس ''کو دور رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ مخصوص افراد ہیں،اس خام خیالی میں نہ رہو کہ جو بھی اہل بیت رسول (ص) کہلائے وہ اس آیت کے مصادیق ہیں،ایسا ہرگز نہیں۔

اگر سنن ترمذی، در منثور ، شواہد التنزیل و صواعق محرقہ جیسی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بہت سارے شبہات کا جواب بآسانی مل سکتا ہے۔اور اہل بیت ؑ(کہ جن کی عظمت کو خدا نے( من جاء بالحسنة ) ،آیت مباہلہ،یا( فتلقیٰ آدم من ربّه کلمات ) یا( کونوا مع الصادقین ) یا( مع الشهدائ ) یا( اطیعوا ) کی شکل میں ذکر کیا ہے)کی کمیت اور تعدادبخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت عائشہ اورحضرت ام سلمہ ام المومنین ،ابی سعید الخدری (ع)سے،وہ انس ابن مالک اور برابن عاذب اور جابر بن عبد اللہ(ع)وغیرہ سے روایت نقل کرتے ہیں:

''انس بن مالک نے کہا:جس وقت آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) چھ ماہ تک نماز صبح کے وقت حضرت زہرا(س) کے گھر تشریف لاتے رہے اور آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے رہے،اورساتھ ہی فرماتے تھے:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔اے میرے اہل بیت ! نماز کا وقت ہوچکا ہے نماز کی حفاظت کرو۔( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔در منثورج ۷ ص۲۱۴،شواہد التنزیل ج ۲ ص۱۲حدیث٦۳ ۸

۴۲

ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حقیقی اسلام کے محافظ اہل بیت ہی ہیں،چونکہ پیغمبر اکرم (ص)کا چھ ماہ تک مسلسل حضرت زہراء (س) کے گھر پر تشریف لے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقی محافظ وہی ہستیاں ہیں۔

نیز جابر (ع)سے یہ روایت کی گئی ہے:پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی (ع)

ئ حضرت فاطمہ زہرا(س) اور امام حسن (ع)و حسین- کو اپنے قریب بلا کر ان پر ایک بڑی چادر ڈال دی،پھر فرمایا:

اللهم هٰؤلآء اهل بیتی ۔

خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو ہر برائی سے دور رکھ اور ان کو اچھی طرح پاک و پاکیزہ قرار دے۔( ۱ )

پنجتن پاک کو الگ کرکے ایک چادر میں داخل کرنے کا فلسفہ اور حقیقت یہ ہے کہ آنے والے لوگ یہ توہم نہ کریں کہ اہل بیت میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔

نیز حضرت عائشہ سے روایت ہے:

قالت عائشه:خرج رسول الله غداةً و علیه مرط رحل من شعر اسود فجاء الحسن بن علی فادخله ثم جاء الحسین فدخل

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج ۲ ص۱٦حدیث٦۴ ۷

۴۳

معه ثم جائت فاطمة فادخلها ثم جاء علی فادخله ثم قال:انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس......'' ( ۱ )

حضرت عائشہ نے کہا:ایک دن پیغمبر اکرم (ص) اپنے دوش پر ایک اون سے بنی ہوئی کالی چادررکھ کرگھرسے نکلے اور حسن- اور حسین- اور حضرت فاطمہ= اور حضرت علی (ع)کو اپنے پاس بلایا جب وہ حضرات آپکے قریب آگئے تو انہیں ایک چادر کے اندر داخل کردیا اور پھر فرمایا:انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس....

اس روایت میں بھی اہل بیت کو ایک چادر میں داخل کرنے کی بات ہوئی ہے۔

پس بخوبی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کو الگ کرکے رسول اسلام (ص) یہ بتلا گئے کہ دنیا والو ان کی طہارت اور پاکیزگی پر شک نہ کرنا،کیونکہ یہ اہل بیت رسول ہیں اور ان سے ہر پلیدی کو دور رکھا گیا ہے،اور ان کی تعداد میں بھی کسی کو شک کرنے یا کسی غیر کو داخل کرکے تعدادبڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت میں پورے چودہ معصومین شامل ہیں،اس کی دلیل وہ روایات ہیں جن کو خود اہل سنت کے علماء نے رسول

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج۲ ص ۳۳حدیث ٦ ۷ ٦

۴۴

اسلام (ص)سے نقل کیا ہے اور ان کو ہم انشاء اللہ بعد میں سنت کی بحث میں بیان کرینگے۔

پیغمبر اکرم (ص)کا اہل بیت کو ایک جگہ جمع کرکے ان پر چادر ڈالنے اور خدا سے دعا مانگنے کا مقصد و فلسفہ یہی تھا کہ لوگ کتاب و سنت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔

۴۵

۱۱)اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم

( ان الله وملائکته یصلون علیٰ النبی یا ایها الذین آمنوا صلّوا علیه وسلّموا تسلیماً ) ( ۱ )

''بے شک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر اکرم (ص) پر درود بھیجتے ہیں،اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔''

تفسیر آیہ:

اس آیت میں یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ خدا اور اس کے فرشتے اہل بیت پر درود بھیجتے ہیں،اور یہ حکم دیا جارہا ہے کہ مومنین بھی ان پر درود بھیجےں۔

لہٰذا آج نماز پنجگانہ اور پیغمبر اسلام (ص)کا اسم مبارک لیتے وقت ان پر درود بھیجنا ہر مسلمان پر واجب ہے،لیکن درود کی کیفیت میں بھی شیعہ امامیہ اور

____________________

( ۱ ) ۔الاحزاب/۵٦

۴۶

اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے۔اگر ہم روایات نبوی(ص)کا مطالعہ کریں تو اس اختلاف کو بآسانی حل کرسکتے ہیں۔

ابن مردویہ اور سعید ابن منصور،عبدابن حمید،ابن ابی حاتم اور کعب ابن عجزہ وغیرہ سے مروی ہے:

قال لما نزلت:انّ الله و ملٰئکته یصلون علیٰ النبی...قلنا یا رسول الله! قد علمنا السلام علیک فکیف الصلوٰة علیک؟قال قولوا اللهم صل علیٰ محمد و آل محمد ۔( ۲ )

کعب ابن عجزہ نے کہا:جب آیت:ان اللہ ...نازل ہوئی تو ہم نے پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا:یا رسول اللہ(ص)!ہمیں معلوم ہے کہ آپ پر سلام ہو،لیکن کیسے آپپر درود بھیجا جائے؟آنحضرت (ص)نے فرمایا: تم لوگ مجھ پر درود اس طرح بھیجو:

اللہم صلّ علیٰ محمد(ص)وآل محمد(ص)۔

اس حدیث کی رو سے دو نکات قابل غور ہیں:

۱۔امت محمدی،آنحضرت (ص) پر کیسے درود بھیجے،جس کا حکم خدا نے قرآن میں دیا ہے؟کیا اللہم صلّ وسلم کہنا کافی ہے؟یا اللہم صل علیٰ

____________________

( ۲ ) ۔در منثور ج٦،ص۴۴٦

۴۷

محمد و آل محمد کہنا ضروری ہے؟

۲۔چنانچہ بہت ساری روایات میں پیغمبر اکرم (ص)نے ناقص درود بھیجنے سے منع فرمایاہے، سارے مسلمان نماز میں درود اس طرح بھیجتے ہیں:

اللهم صل علیٰ محمد وآل محمد ۔

نیز ابن ابی شیبہ،احمد،بخاری نسائی ،ابن ماجہ و غیرہ نے اسناد کے ساتھ

اس آیت کی تفسیر اور توضیح کے حوالے سے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

پیغمبر اکرم (ص)سے اصحاب نے پوچھا :

یا رسول اللہ(ص)! خدا نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے لیکن ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟

آپ نے فرمایا:

قولوا اللهم صلّ علیٰ محمد و علیٰ آل محمد،

کہو: اے اللہ! محمد(ص) و آل محمد پر درود بھیج۔( ۱ )

پس ان روایات کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہم صلّ و سلم۔ درود کامل نہیں ہے اور کئی روایات میں نامکمل اور ناقص درود سے پیغمبر اکرم (ص)

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج ٦ ص٦۴ ۹ ،بخاری ج ۷ ص۳۱۱،سنن نسائی ج۲ص۲ ۰ ۱شواہد التنزیل ج ۲۔ص۳ ۰ ۱

۴۸

نے منع فرمایا ہے۔( ۱ )

اہم نکات:

آیت شریفہ میں صریحاً خدا نے مومنین کو اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے،روایات نبوی(ص)میںدرود بھیجنے کی کیفیت کو رسول اسلام (ص)نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔لہٰذا درود کی کیفیت میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا سبب،کتاب و سنت سے دوری ہے۔در حالیکہ روایات میں درود بھیجنے کا طریقہ اور کیفیت و اضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

۱۲)اہل بیت پر خدا کا سلام ہے

( سلام علیٰ آل یاسین ) ۔( ۲ )

(ہر طرف سے )آل یاسین پر سلام( ہی سلام) ہے۔

تفسیر آیہ:

گذشتہ آیت میں درود و سلام دونوں کا حکم ہوا ہے اور اس آیت میں آل یاسین ؑکو سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن اگر ہم درود اور سلام کی حقیقت اور فلسفے کے بارے میں غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ اہل بیت کی عظمت اورمنزلت خدا

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج ۲۔ص۲۱۱

( ۲ ) ۔صافات/۱۳ ۰

۴۹

کی نظر میں بہت زیادہ ہے جس کو لحظہ بہ لحظہ زبان پر جاری کرنا خدا کو زیادہ پسند ہے۔لہٰذا چاہے کسی اجتماعی کام کو انجام دےنا چاہیں یا کسی انفرادی کام کو، اس کام کو ان حضرات پر درودسلام بھیجتے ہوئے شروع کرنا چاہے،اسی میں برکت ہے اور اسی میں ہی کامیابی ہے۔

ابن ابی حاتم و طبرانی و ابن مردویہ نے ابن عباس (رض)سے روایت نقل کی ہے:

فی قوله سلام علیٰ آل یاسین قال نحن آل محمد آل یاسین ۔( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:آل یاسین سے مراد ہم آل محمد ہیں۔

فخر رازی ،فضل اور کلینی و غیرہ نے آل یاسین سے آل محمد مراد لیا ہے۔اس کی وجہ بھی یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یاسین پیغمبر اکرم (ص)کے القاب میں سے ایک ہے۔اور آل کے معنیٰ بھی لغت عرب میں سب جانتے ہیں لہٰذا سلام علیٰ آل یاسین سے اہل بیت کی فضیلت و اضح ہوجاتی ہے۔

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج ٦۔ ص۲۳۱ ینابیع المودۃج۱ص٦

۵۰

۱۳)اہل بیت کی قسم

( والسماء ذات البروج ) ( ۱ )

برجوں والے آسمان کی قسم۔

تفسیر آیہ:

اس آیت کی تفسیر میں ہاشم بن سلمان نے اپنی کتاب'' الحجۃ علی ما فی ینابیع المودۃ ''میں اصبغ بن نباتہ سے روایت کی ہے:

قال سمعت ابن عباس یقول قال رسول الله:انا السماء واما البروج فالائمة من اهل بیتی و عترتی اولهم علی (ع) وآخرهم المهدی و هم اثنا عشر( ۲ )

اصبغ بن نباتہ(ع)نے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض)سے سنا کہ آپ نے کہا ـ: پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:آسمان سے مراد میں ہوں اور اس کے بروج سے مراد میرے اہل بیت وعترت ہیں۔جس کا آغاز علی (ع)سے ہوتا ہے اور انتہاء مہدی برحق (عج) پراور وہ بارہ ہیں۔

____________________

( ۱ ) ۔بروج/۱۔

( ۲ ) ۔،الحجۃ علی ما فی ینابیع المودۃ ص۴۳ ۰

۵۱

توضیح:

۱۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے والسماء ذات البروج سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اثنا عشر مراد ہیں۔

۲۔پیغمبر اکرم (ص)کے جانشین بارہ ہیں۔

۳۔آخر ی امام کا لقب مہدی (عج)ہے۔ابتدائی امام کا نام علی (ع)ہے۔لیکن کسی روایت اور آیت میں پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعدجنہوں نے اپنے آپ کو خلیفہ مسلمین اور جانشینپیغمبر (ص) ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کوئی نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔

۱۴)اہل بیت سے محبت،رسالت کا صلہ ہے

( قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربیٰ ) ۔( ۱ )

ٍٍ ''اے رسول! تم کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ رسالت کا) اپنے قرابت داروں(اہل بیت )کی محبت کے سواء تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔''

تفسیر آیہ:

جناب ابن عباس (رض)سے روایت کی گئی ہے:

لمّا نزلت ''قل لا اسئلکم.....''قالوا یا رسول الله من هٰؤلآء الذین وجبت علینا مودتهم؟قال علی،فاطمة و ابنائهما وانّ

____________________

( ۱ ) ۔شوریٰ/۲۳

۵۲

الله تعالیٰ جعل اجری علیکم المودة فی اهل بیتی وانّی اسئلکم غداً عنهم ۔( ۱ )

جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا یا رسول اللہ! وہ لوگ کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہوگئی ہے؟ آپنے فرمایا: وہ حضرات علی (ع)،فاطمہ (س)اور حسن- و حسین (ع)ہیں اور خدا نے میری رسالت کا صلہ تم پر میرے اہل بیت کی محبت قرار دیا ہے۔لہٰذا کل قیامت کے دن ان کی محبت کے بارے میں تم سے سوال کروں گا۔

زمخشری نے تفسیر کشاف میں یوں روایت کی ہے:

روی انّ الانصار قالوا فعلنا و فعلنا کانّهم افتخروا فقال عباس او ابن عباس:لنا الفضل علیکم فبلغ ذالک رسول الله فاتاهم فی مجالسهم فقال یا معشر الانصار الم تکونوا اذلةً فاعزکم الله بنا قالوا بلیٰ .........۔( ۲ )

اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں پوری روایت کو نقل کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے لہٰذا درج بالا کتابوں کی طرف رجوع کریں۔یہاں پر پوری روایت کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں:

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج ۱،ص۱ ۹ ۴،کشاف ج ۴ ص۲۲ ۰

( ۲ ) ۔کشاف ج ۴ ص۲۲ ۰ ،،صحیح مسلم ج ۳ص ۲۱۱و صحیح بخاری ج۴ص۱۳۱

۵۳

''زمخشری نے کہا:روایت کی گئی ہے کہ ایک دن انصار اپنے ایک بڑے جلسے میں اپنے افعال پر فخر و مباہات کررہے تھے، کہہ رہے تھے کہ ہم نے یہ کام کیا وہ کام کیا۔جب ان کی باتیں ناز کی حد سے بھی گزر گئیں تو جناب ابن عباس(ع)سے رہا نہ گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ تم لوگوں کو فضیلت حاصل ہوگی مگر ہم لوگوں پر تمہیں ترجیح حاصل نہیں ہے اس مناظرے کی خبر پیغمبر اکرم (ص)تک پہنچی تو آنحضرت (ص)خود اس مجمع میں تشریف لائے اور فرمایا:اے گروہ انصار!کیا تم ذلیل نہ تھے کہ خدا نے ہمارے بدولت تمہیں عزت بخشی ؟سب نے کہا:بے شک یا رسول اللہ!ایسا ہی ہے۔ پھر آپنے فرمایا:کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے کہ خدا نے میری وجہ سے تمہاری ہدایت کی؟ عرض کیا:یقینا ایسا ہی ہے۔ پھر فرمایا:کیا تم لوگ میرے مقابلے میں جواب نہیں دیتے؟ وہ بولے کیا؟بآنحضرت (ص)نے فرمایا:کیا تم یہ نہیں کہتے کہ تمہاری قوم نے تم کو نکال باہر کیا،تو ہم نے پناہ دی،اسی طرح گفتگو جاری رہی یہاں تک کہ وہ لوگ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عاجزی سے عرض کرنے لگے: ہمارے مال اور جو کچھ ہمارے پاس ہیں وہ سب خدا اور اس کے رسول کا ہے۔یہی باتیں ہورہی تھیں کہ یہ آیت نازل ہوئی۔

۵۴

اس کے بعد آپنے فرمایا:جو شخص آل محمد کی دوستی میں مرجائے وہ شہید مرا ہے،جو آل محمد کی دوستی کے ساتھ مرے وہ مغفورہے،جو آل محمد کی دوستی پر مرے گویا وہ توبہ کر کے مراہے۔اس انسان کو ملک الموت اور منکر و نکیر بہشت کی خوشخبری دیتے ہیں جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ بہشت میں اس طرح جائے گا جیسے د لہن دلہاکے گھر جاتی ہے۔جو آل محمد کی دوستی پر مرے اس کی قبر کو خدا رحمت کے فرشتوں کےلئے زیارت گاہ بنادیتا ہے جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ سنت اور جماعت کے طریقہ پر مرا ۔اورجو آل محمد کی دشمنی پر مرے قیامت کے دن اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ خداکی رحمت سے مایوس ہے۔جو آل محمد کی دشمنی پر مرے وہ بہشت کی بو بھی نہیں سونگ سکتا ،پھر اس وقت کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ(ص)! جن کی محبت کو خدا نے واجب کیا ہے وہ کون ہیں:آنحضرت (ص)نے فرمایا:علی (ع)،فاطمہ (س)اور ان کے دو فرزند حسن- و حسین- ہیں۔پھر فرمایا: جو شخص میرے اہل بیت پر ظلم و ستم کرے اور مجھے اور میرے اہل بیت کو اذیت پہنچائے اس پر بہشت حرام ہے۔

فرمان علی نے اپنے ترجمہ قرآن میں اس حدیث کو نقل کیا ہے،رجوع کیجئے۔اس حدیث کا آدھا حصہ مسلم،بخاری اور در منثور میںبھی نقل ہوا ہے جبکہ زمخشری نے( ۱ ) پوری حدیث کو نقل کیا ہے۔لیکن مأخذ کی نئی اشاعتوں میں تحریف اور تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ آیندہ یہ حدیث کشاف میں بھی نظر نہ آئے۔کیونکہ اس حدیث کا بغور جائزہ لینے سے بہت

____________________

( ۱ ) کشّاف ج۴ص۲۲ ۰

۵۵

سارے شبہات و اعتراضات کا جواب بآسانی مل سکتا ہے۔لہٰذا ایسی اہم روایت

کو معاشرے تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

۱۵)اہل بیت سے محبت ،نیکیوں میں اضافے کا سبب ہے

( ومن یقترف حسنة نزدله فیها حسناً ) ( ۱ )

اور جو شخص نیکی حاصل کرے گاہم اس کےلئے اس کی خوبی میں اضافہ کرےں گے۔

تفسیر:

ابن خاتم نے ابن عباس (رض)سے روایت کی ہے

ومن یقترف حسنة قال المودة لآل محمد ( ۲ )

اس آیت شریفہ کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس سے اہل بیت رسول کی محبت مراد ہے۔

زمخشری نے بھی لکھا ہے:

ان السوی انها المودة فی آل رسولالله ( ۳ )

''اس آیت کریمہ سے آل رسول (ص)کی دوستی مراد ہے۔''

____________________

( ۱ ) شوریٰ/۲۲۔

( ۲ ) ۔در منثورج ۷ ص۲۴ ۸

( ۳ ) ۔کشاف ج ۴ ص۲۲۱

۵۶

اہم نکات:

اگر محققین اور علماء و دانشور سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے تاریخ،اخبار و حدیث اور تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو کسی بھی مسلمان کو اہل بیت کی فضیلت اور عظمت سے انکار کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ایسی اہم روایات اور تاریخی مطالب وافر مقدار میں فریقین کے علماء و محققین نے اپنی کتابوںمیں اہل بیت کی شان میں بیان کئے ہیں۔لہٰذا اگر دور حاضر میں ہم بھی اندھی تقلید کے بجائے تحقیق اور غور کریں تو بہت سارے شبہات اور اعتراضات کا حل مل جاتا ہے۔

اپنے مأخذ اور بنیادی کتابوں کا مطالعہ کئے بغیر ایک دوسرے پر بے جا الزامات لگا کرمسلمانوں کے اتحاد کو پامال کرنا اسلام اور قرآن وسنت کے خلاف ہونے کے علاوہ سیرت اہل بیت کے منافی بھی ہے۔آج مسلمانوں کے مابین پیداہونے والے بہت سارے اختلافات کا سبب بھی کتابوں اورروایات پر غور نہ کرنا بتایا جاتا ہے۔ورنہ مسلمانوں کے درمیان جتنی آج اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے شائد کسی اور زمانے میں پیش نہ آئی ہو۔

کیونکہ آج پوری دنیا قرآن و سنت کی پامالی کےلئے ہر قسم کے حربے آزما رہی ہے،اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔جبکہ سارے مسلمان قرآن وسنت کے قائل ہوتے ہوئے بھی آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔یہ ہماری بدقسمتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

۵۷

۱٦)اہل بیت سے متمسک رہنے کا حکم

( واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا ) ( ۱ )

''اور اللہ تبارک تعالیٰ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے تھام لو۔''

تفسیر:

سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض)سے روایت کی ہے :

قال کنّا عند النبی اذا جاء اعرابی فقال یا رسول الله سمعتک تقول واعتصموا بحبل الله الذی نعتصم به فضرب النبی یده فی ید علی وقال تمسکوا بهٰذا هو حبل الله المتین ( ۲ )

ابن عباس (رض)نے کہا کہ ہم پیغمبر اسلام (ص)کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک ا عرابی آیا اور پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا یا رسول اللہ(ص) میں نے آپسے سنا ہے:واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً۔لہٰذا اللہ کی رسی سے کیا مراد ہے؟ تاکہ اسے تھام لوں۔اس وقت رسول اسلام (ص)

____________________

( ۱ ) ۔آل عمران ۱ ۰ ۳۔

( ۲ ) ۔شواہد التنزیل ج۱ ص ۱۳۱،حدیث۱ ۸۰

۵۸

نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی (ع)کے دست مبارک پر رکھتے ہوئے فرمایا:اللہ کی رسی سے مراد،یہ ہے اسے تھام لو۔یہی اللہ کی واضح اور روشن رسی ہے۔

اس روایت کی بناء پر صرف حضر ت علی (ع)کے حبل اللہ ہونے کا پتہ چلتا ہے،جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ پورے چودہ معصومین جو اہل بیت ہیں،حبل اللہ ہیں جن سے متمسک رہنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے

تمام چودہ معصومین کے حبل اللہ ہونے کی خبر حضرت امام جعفر صادق(ع)نے دی ہے:

فی قوله:واعتصموا بحبل الله جمیعاً قال نحن حبل الله ( ۱ )

آپ (ع)سے واعتصموا بحبل اللہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (ع)نے فرمایا اللہ کی رسی سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔

امام شافعی کا یہ مشہور کلام بھی اس آیت کی تفسیر ہے،جس سے اہل بیت واعتصموا بحبل اللہ کے مصداق ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے متمسک رہنے کی اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے:

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج۱ ص ۱۳۱،حدیث۱ ۸۰

۵۹

ولما رأیت الناس قد ذهب بهم مذاهب فی البحر الغی والجهل رکبت علیٰ اسم الله فی سفن النجاة.وهم اهل بیت المصطفیٰ قائم الرسل و تمسکت حبل الله و هو و لاء هم کما قد امرنا بالتمسک بالحبل( ۱ )

اہم نکات:

۱۔ان روایات کی رو سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت حبل اللہ(اللہ کی رسی) ہیں۔

۲۔اہل بیت سے متمسک رہنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔

۳۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان سے دوستی اور محبت کے بغیر انسان کے اعمال بے سود ہیں۔

۴۔ان سے دشمنی اور بغض رکھنا اس آیت کریمہ کے منافی ہونے کے علاوہ قرآن و سنت پر اعتقاد کے ساتھ متضاد بھی ہے۔

۵۔ایک طرف سے اسلام کے اصول و فروع کے پابند ہونے کا دعویٰ کرنا دوسری طرف سے اہل بیت کو دیگر اصحاب کرام کے مانند تصور کرنا حقیقت میں نا انصافی ہے۔کیونکہ اہل بیت سے متمسک رہنے اور ان سے دوستی و محبت کرنے کا حکم خدا کی جانب سے ہے اور ان کی محبت کے ساتھ انجام دیئے جانے

____________________

( ۱ ) ۔المغربی،احمد بن بطریق،فتح الملک العلی،ص ۷۰ ط؛مکتبہ امیر المومنین اصفہان

۶۰