اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 83006
ڈاؤنلوڈ: 4079

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 83006 / ڈاؤنلوڈ: 4079
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

والے اعمال کا اجر و ثواب بھی دو برابر دیا جاتا ہے،یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت لازم ہے اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی لازم و واجب ہے۔لہٰذا اہل بیت کو ہر مسئلے کا مرجع قرار دینا انسانیت اور فطرت کا تقاضا ہے۔

۱۷)اہل بیت ،صراط مستقیم ہیں

( اهدنا الصراط المستقیم ) ( ۱ )

''پالنے والے ہمیں راہ راست کی ہدایت کر''۔

تفسیر:

قرآن کریم میں کئی تعبیرات اور الفاظ راستے کے معنیٰ میں استعمال کئے گئے ہیں، سبیل اللہ، سبل،صراط،طریق،صراط مستقیم یہ سارے الفاظ صریحاً راستے کے معنیٰ بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ راستے کے معنیٰ میں ان کے علاوہ اور بھی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔نیز اللہ کی طرف سے جتنے انبیاء اور اوصیاء گذرے ہیں ان کے مبعوث ہونے کا فلسفہ بھی راستے کی نشاندہی بتایا جاتا ہے،جس سے راستے کی اہمیت اور ضرورت کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔لیکن ہم مسلمانوں کےلئے

____________________

( ۱ ) ۔حمد/ ۵۔

۶۱

خداوند عالم نے چوبیس گھنٹوں میں ،پانچ وقت زبان پر''( اهدنا الصراط المستقیم ) ''کا جملہ جاری کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔جس سے بھی راستے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔اگر ہم( اهدنا الصراط المستقیم ) کے بارے میں غور و فکر کریں تو اس کا مصداق بھی بخوبی واضح ہوجاتا ہے،اور اس راہ پر گامزن رہنے کی خاطر اللہ نے اپنے بندوں سے دعا کی درخواست کی ہے۔

برید اور ابن عباس (رض)نے روایت کی ہے کہ

فی قول الله اهدنا الصراط المستقیم،قال صراط محمد و آله ( ۱ )

یعنی صراط مستقیم سے حضرت محمد(ص) اور ان کے اہل بیت مراد ہیں۔

امام محمد باقر(ع)سے روایت ہے کہ امام (ع)سے صراط مستقیم کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (ع)نے فرمایا:

نحن الطریق الواضح و الصراط المستقیم الی الله ( ۲ )

یعنی ہم اہل بیت ہی اللہ کی طرف جانے کا واضح و روشن راستہ اور راہ مستقیم ہیں۔

جابر بن عبد اللہ انصار ی (ع)پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا:اللہ نے حضرت علی (ع)اور حضرت فاطمہ (س)اور ان

____________________

( ۱ ) ۔الحاکم الحسکانی عبیداللہ بن احمد؛شواہدالتنزیل ج۱ص ۷ ۴

( ۲ ) ۔الحاکم الحسکانی عبیداللہ بن احمد؛شواہدالتنزیل ج۱ص ۷ ۴

۶۲

کے دو فرزندوں کو اپنی مخلوقات کی ہدایت کےلئے خلق کیا ہے اور ان سے دوستی و محبت رکھنے کو لازم قرار دیا ہے۔وہ میری امت میں علم کا دروازہ بھی ہیں ،ان کے ذریعے سے میری امت کی ہدایت اور میری امت راہ مستقیم پر گامزن ہوسکتی ہے۔

توضیح:

تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہونے والے انبیاء میں حضرت محمد بن عبد اللہ(ص) آخری نبی ہیں جن کے بعد سلسلہ نبوّت و وحی منقطع ہوا اور کئی آیات میں اللہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی نبوت جن و انس کے لئے ہے۔کسی خاص قبیلہ اور طبقے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور آپؐ کی سیرت طیبہ پر چلنے کو ہر مسلمان راہ سعادت وہدایت سمجھتا ہے اور پیغمبر اکرم (ص)کی ذمہ داری بھی یہی تھی کہ لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دلائے اورراہ مستقیم اور راہ ہدایت کی نشاندہی فرمائیں۔کیونکہ بشر کےلئے پیغمبر اسلام (ص)مکی سیرت مشعل راہ ہدایت ہے اور آنحضرت (ص)نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ میں تمہاری نجات کا ذریعہ ہوں لیکن میں بھی تمہاری مانند انسان ہوں،موت اور حیات بر حق ہے۔لہٰذا میرے بعد راہ مستقیم کے مصداق میرے اہل بیت و عترت ہیں، وہ قیامت تک اسلام کی حفاظت اور تمہاری نجات کا ذریعہ ہیں۔ان سے متمسک رہو۔اگر بشر پیغمبر اسلام (ص)سے منقول روایات کا صحیح معنوں میں مطالعہ کرے تو بخوبی بہت سارے شبہات کا واضح جواب مل سکتا ہے۔

۶۳

شیخ عبد اللہ الحنفی اپنی کتاب ارجح المطالب میں صراط مستقیم کی تعبیر میں اہل سنت کی سند اور طریق سے کئی روایات نقل کرتے ہیں، ان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ صراط مستقیم سے اہل بیت مراد ہیں۔ اور اہل تشیع کی سند کے ساتھ صراط مستقیم کی تعبیر کے بارے میں تقریباً چوبیس روایات منقول ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت صراط مستقیم کے مصداق ہیں،جن سے متمسک رہنا ضروری ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے صراط مستقیم کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں جن کو بیان کرنے کی اس مختصر کتاب میں وسعت نہیں ہے۔

۱۸)اہل بیت ،خدا کی جانب سے بشر پر گواہ ہیں

( وکذالک جعلناکم امة وسطاً لتکونوا شهداء علیٰ الناس ) ( ۲ )

اور اس طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔

____________________

(۱) تفصیلی مطالعہ کیلئے دیکھیں:علامہ طباطبائی : تفسیر المیزان ج۱تفسیرسورئہ حمد

(۲)۔بقرہ ۱۴۳۔

۶۴

تفسیر:

ابان بن ابی عیاش نے سلیم بن قیس (ع)سے وہ حضرت علی (ع)سے روایت کرتے ہیں:

قال انّ الله ایّانا عنی بقوله تعالیٰ تکونوا شهداء علیٰ الناس فرسول الله شاهد علینا و نحن شهداء علیٰ الناس و حجته فی ارضه و نحن الذین قال الله جل اسمه فیهم ( ۱ )

حضرت علی (ع)نے فرمایا:

بتحقیق خدا نے اپنے اس قول سے تکونوا.....ہم اہل بیت ارادہ کیا ہے،لہٰذا رسول اکرم (ص) خدا کی جانب سے ہم پر گواہ ہیں اور ہم تمام انسانوں پر گواہ ہیں اور پیغمبراکرم (ص)روئے زمین پر خدا کی طرف سے حجت ہیں اور ہم وہ ہستیاں ہیں جن کے بارے میں خدا نے فرمایا( وکذالک جعلناکم امة وسطاً..... )

علامہ فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہ نے اس آیت کی تفسیر میں در منثور اوراہل سنت کی دیگر کتابوں سے کئی احادیث کا ترجمہ ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امۃ وسطاً اور شہداء علیٰ الناس سے مراد اہل بیت ہیں( ۲ ) ۔

____________________

(۱)شواہد التنزیل ج ۱ ص۹۲۔

(۲)ترجمہ قرآن فرمان علی ص۲۸

۶۵

اہم نکات:

۱۔صراط مستقیم (سیدھا راستہ) اہل بیت ہیں۔

۲۔حبل اللہ، (خدا کی رسی)اہل بیت ہیں۔

۳۔تمام انسانوںپر اہل بیت ،خدا کی طرف سے گواہ ہیں،یعنی روز قیامت جنت اور جہنم میں داخل ہونے کا فیصلہ اہل بیت کی گواہی کے مطابق ہوگا۔

۴۔روز مرہ زندگی کے تمام مسائل چاہے اعتقادی ہوں یا اخلاقی،فقہی ہوں یا سماجی،سیاسی ہوں یا علمی ان سب کاسر چشمہ اہل بیت کو قرار دینا شرعی ذمہ داری ہے ان کی سیرت ان کے قول و فعل خدا کی طرف سے حجت ہیں

۱۹)اہل بیت مصداق شجر طیبہ ہیں

( الم تر کیف ضرب الله مثلاً کلمة طیبةً کشجرةٍ طیبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء تؤتی اکلها کل حین باذن ربها ) ( ۱ )

(اے رسول (ص))کیاتم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے اچھی بات(جیسے کلمہ توحید)کی کیسی اچھی مثال بیان کی ہے کہ (اچھی بات)گویا ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے کہ اس کی جڑمضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمان

____________________

( ۱ ) ۔ابراہیم /۲۵۔

۶۶

میں پہنچی ہوئی ہیں خدا کے حکم سے ہمہ وقت پھلا پھولا رہتا ہے۔

تفسیر:

عبد الرحمن بن عوف کا غلام مینا ،اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

سمعت عبدالرحمن بن عوف یقول خذوا منی حدیثاً قبل ان تشاب الاحادیث باالاباطیل، سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول انا الشجرة و فاطمة فرعها و علی لقاحها وحسن و حسین ثمرها وشیعتنا ورقهاو اصل الشجرة فی جنة عدن و سائر ذالک فی سائر الجنة( ۱ )

مینانے کہا کہ عبد الرحمن بن عوف سے میں نے سنا کہ انہوں نے کہا (لوگو) باطل احادیث رائج اور مخلوط ہونے سے پہلے مجھ سے ایک حدیث سنو کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

'' میں درخت ہوں اور فاطمہ زہرا (س)اس کی شاخ اور علی (ع)اس کا شگوفہ ہے جبکہ حسن (ع)و حسین- اس درخت کے میوے ہیں اور ہمارے چاہنے والے اس کے پتے ہیں، اس کی جڑ جنات عدن میں ہے جبکہ اس کی شاخیں پوری جنت میں پھیلی ہوئی ہیں''۔

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج ۱ ص۳۱۲حدیث۴۳ ۰ ۔

۶۷

سلام خثعمی سے روایت کی گئی ہے جس کا ترجمہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرنا زیادہ مناسب ہے:( ۲ )

سلام خثعمی نے کہا کہ میں امام محمد باقر (ع)کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع)سے آیت شریفہ( اصلها ثابت و فرعها فی السماء ) کے متعلق سوال کیا کہ اس سے کیا مراد ہے؟

آپ (ع)نے فرمایا: اے سلام! شجر طیبہ سے پیغمبر اکرم (ص)،فرعہا سے حضرت علی (ع)میوے سے حضرات حسنین +،اور شاخ سے حضرت زہرا(س) مراد ہے۔جبکہ اس کی شاخ سے نکلنے والی ٹہنیوںسے ہم اہل بیت کے چاہنے والے افراد مراد ہیں۔جب ہمارے چاہنے والوں میں سے کوئی وفات پاتا ہے تو اس درخت سے ایک پتہ خشک ہو کر زمین پر گرجاتا ہے لیکن جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ ایک اور پتہ نکل جاتا ہے۔

سلام نے کہا :یا بن رسول اللہ! اگر ایسا ہے تو تؤتی اکلہا سے کیا مراد ہے؟

آپ (ع)نے فرمایا:اس سے مراد ہم ہیں۔ہم اپنے ماننے والوں کو ہر حج و

____________________

( ۲ ) شواہد التنزیل ج ۱ /ص۳۱۱ حدیث۴۲ ۸

۶۸

عمرہ کے موسم میں حلال و حرام کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔

نوٹ:

اگر آیت کریمہ کے ظاہری معنیٰ اور روایت کاموازنہ کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص)کو شجر طیبہ سے تعبیر کرکے ان کی فضیلت کو بیان فرمایا جبکہ ا پؐ کے اہل بیت کی عظمت کو فرعہا اور تؤتی اکلہا کے الفاظ میں بیان کیا جس سے اہل بیت کی خلقت اورفضیلت کا ہدف بھی معلوم ہوجاتا ہے یعنی خدا نے اہل بیت کو اپنے نظام کی حفاظت اور لوگوں کو ہر قسم کی برائی اور گمراہی سے نجات دلانے کی خاطر خلق فرمایا ہے۔

لہٰذا اگر مسلمان دور حاضر کے مفاسد اور مغربی تہذیب و تمدن کے برے اثرات سے بچنا چاہیں تو بہترین راہ اہل بیت کی سیرت پر عمل ہے جس میں ہر مسئلہ کا حل موجودہے اور ہر قسم کی ضلالت و گمراہی سے نجات کا ذریعہ بھی ہے۔کیونکہ خدا نے انکی ہدف خلقت ہماری تربیت اور اسلام کی نشر واشاعت بتایا ہے۔ اگر ہم اہل بیت کی سیرت سے قطع نظر دنیوی مسائل کے بارے میں غور کریں تو سوائے گمراہی اور ضلالت کے کچھ نظر نہیں آتا۔

۶۹

لہٰذا اگر اتحاد ویکجہتی ،نظام اسلام کی حفاظت، قرآن و سنت کی بالادستی، مسلمانوں کی عظمت اور شرافت کے خواہاں ہیں تو سیرت اہل بیت پر عمل کریں۔( ۱ )

۲۰)اہل بیت انبیاء کی نجات کا وسیلہ ہیں

( فتلقیٰ آدم من ربّه کلمات فتاب علیه انّه هو التّواب الرحیم ) ( ۲ )

''پھر آدم (ع)نے اپنے پروردگار سے(عذر خواہی کے)کچھ کلمات(اور

الفاظ)سیکھے پس خدا نے(ان الفاظ کی برکت سے) آدم (ع)کی توبہ قبول کرلی،بے شک خدا بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے''۔

تفسیرآیت:

سعید بن جبیر نے عبد اللہ بن عباس (رض)سے روایت کی ہے:

قال سئل النبی عن الکلمات التی تلقیٰ آدم من ربه فتاب علیه قال سأله بحق محمد و علی و فاطمة و الحسن و الحسین

____________________

( ۱ ) قارئین محترم،صواعق محرقہ،تفسیر بیضاوی،تفسیر در منثور،شواہد التنزیل جیسی کتابوں کا مطالعہ کریں ان میں منقول روایات کو جو اہل بیت کی شان میں ہیں نشر کریں،تاکہ نجات بشر کا ذریعہ بن سکیں۔

( ۲ ) ۔بقرہ /۳ ۷ ۔

۷۰

الا تبت علیّ فتاب علیه ( ۱ ) ۔

عبد اللہ ابن عباس (رض)نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص)سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس آیت میں کلمات سے ہم اہل بیت مراد ہیں کہ حضرت آدم(ع)نے خدا سے حضرت محمد(ص)،حضرت علی (ع)اور حضرت فاطمہ (س)و حضرات حسنین(ع)کے صدقے میں توبہ کی تو خدا نے صرف ان کے صدقے میں توبہ آدم (ع)قبول کرلی نیزابن عباس (رض)سے روایت کی گئی ہے:

عن النبی(ص) لما امر الله آدم بالخروج من الجنة رفع طرفه نحو السماء فرأی خمسة اشباح عن یمین العرش فقال الهٰی خلقت خلقاً من قبلی فاوحی الله الیه اما تنظر الیٰ هٰذه الاشباح قال بلیٰ قال هٰولاء الصفوة من نوری شققت اسمائهم من اسمیفانا الله محمود وهٰذا محمد(ص) وانا العالی وهٰذا علی وانا الفاطر و هٰذه فاطمة وانا المحسن وهٰذا الحسن ولی اسماء الحسنیٰ و هٰذا الحسین فقال آدم فبحقهم اغفرلی فاوحی الله الیه قد غفرت وهی الکلمات التی قال الله فتلقیٰ آدم من ربه کلمات فتاب علیه ( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔منا قب : ابن مغازلی ص٦۳حدیث ۸۹ و ینابیع المودۃج ۱ص ۹ ۵۔

( ۲ ) ۔،ینابیع المودۃ ص ۹۷ ۔

۷۱

ابن عباس (رض)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :جب خدا نے حضرت آد م(ع)کو جنت سے نکلنے کا حکم دیا تو حضرت آدم (ع)نے آسمان کی طرف دیکھا اور عرش کے قریب دائیں جانب پانچ ہستیوں کا جلوہ دکھائی دیا تو خدا سے پوچھا پالنے والے! کیا مجھ سے پہلے کسی کو خلق فرمایا تھا؟ خدا کی طرف سے وحی ہوئی اے آدم (ع)! کیا تمہیں ان پانچ ہستیوں کا شبح نظر آرہا ہے؟آدم (ع)نے عرض کیا،جی ہاں۔خدا نے فرمایا:یہ پانچ ہستیاں میری منتخب شدہ ہستیاں ہیں جن کو میں نے اپنے نور سے خلق کیا ہے ۔ان کے اسماء میرے اسماء سے لئے گئے ہیں یعنی میں محمود ہوں یہ محمد(ص)ہیں۔میں عالی ہوں یہ علی (ع)ہیں۔میں فاطر ہوں یہ فاطمہ= ہیں۔میںمحسن ہوں یہ حسن (ع)ہیں اور میرے اسماء حسنیٰ ہیں یہ حسین (ع)ہیں۔اتنے میں آدم (ع)اٹھ کھڑے ہوئے اور

ان کے صدقے میں خدا سے معذرت خواہی کی تو خدا کی طرف سے وحی ہوئی کہ اے آدم(ع)! میں نے تیری معذرت خواہی کو قبول کیا،کیونکہ آیت''فتلقیٰ آدم....''میں کلمات سے مراد یہی ہستیاں ہیں''۔

۷۲

اہم نکات:

۱۔آیت سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ حضرت آدم(ع)خدا کی طرف سے سب سے پہلا بشر اور نبی ہونے کے باوجود معمولی سی ترک اولیٰ پر اہل بیت کے وسیلے کے بغیر نجات نہیںمل سکی۔جس سے عام انسانوں کے حالات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔یعنی جب خدا کا بھیجا ہوا نبی اہل بیت کی وساطت کے بغیر نجات نہیں پاسکتا تو دوسرے انسانوں کےلئے اہل بیت کے بغیر کیسے نجات مل سکتی ہے۔حضرت آدم(ع)کو اہل بیت کا خاکہ اور اشباح عالم ذر میں دکھادیا تھا جس سے ایک حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ یعنی اہل بیت کا خاکہ اس مادی دنیا میں خلق کرنے سے پہلے خدا نے انبیاء کو دکھایا تھا اور فرمایا تھا کہ یہی ہستیاں کائنات کی تمام مخلوقات سے افضل ہیں اور انہی کے وسیلے سے نجات مل سکتی ہے۔

۲۱)اہل بیت ،صادقین کے مصداق ہیں

( یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله وکونوا مع الصادقین ) ( ۱ )

''اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔''

تفسیرآیت:

اس آیت میں خدا نے فرمایا جو مومن ہے اسے چاہے کہ:

الف:تقویٰ اختیار کرے۔

ب: صادقین کے ساتھ ہوجائے۔

____________________

( ۱ ) سورئہ توبہ آیہ ۱۱ ۹

۷۳

تقویٰ کی حقیقت بیان کرنے کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف صادقین کی وضاحت کریں گے:

فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہ( ۱ ) نے آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن مرویہ نے ابن عباس (رض)سے اور ابن عساکر نے امام محمد باقر (ع)سے روایت

کی ہے کہ اس آیت میں صادقین سے حضرت علی ابن ابی طالب(ع)مراد ہیں( ۲ )

لیکن استاد محترم ، علامہ آقائے علی ربانی گلپائگانی نے اپنے لیکچر میں صادقین کے بارے میں فرمایا:صادقین سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔لیکن حاکم حسکانی عبد اللہ بن عمرسے روایت کرتے ہیں کہ صادقین سے اہل بیت مراد ہیں۔( ۳ )

بعض دوسرے مفسرین اس طرح تفسیر کرتے ہیں:

الصادقون هم الائمة الصدیقون بطاعتهم ( ۴ )

صادقین سے ائمہ اطہار (ع) مراد ہیں۔کہ جنہوں نے خدا کی سچی اطاعت کی ہے۔

____________________

( ۱ ) ترجمہ قرآن حاشیہ ۲

( ۲ ) ۔در منثور ج ۳ ص۳ ۹۰ ۔

( ۳ ) ۔شواہد التنزیل ج ۱ ص۲٦۲،حدیث۳۵ ۷ ۔

( ۴ ) ۔ینابیع المودۃج۱ص۱۱۵۔

۷۴

پس آیت مذکورہ سے اہل بیت کی ایک خاص خصوصیت ثابت ہوتی ہے جس کا دوسرے انسانوں میں پایا جانا مشکل ہے کیونکہ''مختص الشیء لا یوجد فی غیره'' ( ۱ ) وہ حقیقت اور سچائی کے ساتھ خدا کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ اس آیت کے حوالے سے مزید وضاحت کےلئے ڈاکٹر تیجانی حفظہ اللہ کی لکھی ہوئی معروف کتاب( ۲ ) اور دیگر تفاسیر کی طرف رجوع کریں۔ الغدیر اور جو کتابیں عقائد کے موضوع پر لکھی گئی ،ان میں اس آیت سے اہل بیت کی عصمت کو ثابت کیا گیا ہے۔حتیٰ فخر رازی نے بھی اس طرح کا احتمال دیا ہے۔

۲۲)اہل بیت کی سرپرستی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا حکم

( یا ایها الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان انّه لکم عدو مبین ) ( ۳ )

''اے ایمان والو! تم سب کے سب ایک بار اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو وہ تمہارا یقیناً ظاہر بہ ظاہر دشمن ہے۔''

____________________

( ۱ ) جو بات کسی شے کےلئے مخصوص ہے وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ہے۔

( ۲ ) ''پھر میں ہدایت پاگیا''

( ۳ ) بقرہ /۲ ۰۸ ۔

۷۵

تفسیرآیت:

ابن مغازلی صاحب مناقب روایت نقل کرتے ہیں:

عن علی فی قوله تعالیٰ ادخلوا فی السلم کافة قال ولایتنا اهل البیت ( ۱ )

حضرت علی (ع)سے ''ادخلوا فی السلم کافۃ ''کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (ع)نے فرمایا: اس سے ہم اہل بیت کی ولایت مراد ہے یعنی سب کے سب ہماری ولایت اور سرپرستی کو پوری طرح مان لےں۔

نیز امام محمد باقر (ع)سے شیخ سلیمان قندوزی ینابیع المودۃ میں روایت کی ہے:

عن ابی جعفر الباقر فی قوله تعالیٰ یا ایها الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافة یعنی ولایة علی علیه السلام والاوصیاء بعده ( ۲ )

امام محمد باقر(ع)سے آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ- نے فرمایا:( ادخلوا فی السلم کافة ) سے حضرت علی (ع)اور ان کے بعد انکے جانشینوں کی ولایت مراد ہے۔

____________________

( ۱ ) ۔منا قب ابن مغازلی۔ ص۱ ۰ ۴

( ۲ ) ۔ینایبع المودۃ ص۲۵ ۰ ،

۷۶

اگر ہم گذشتہ روایات کی بنا پر'' فی السلم کافۃ ''سے اہل بیت کی ولایت اور سرپرستی کا ارادہ کریںتو دوسرے جملے سے بہت ہی عجیب و غریب نکتہ سمجھ میں آتا ہے یعنی خدا نے اہل بیت کی سرپرستی اور ولایت کو قبول کرنے کے حکم ساتھ دوسرے لوگوں کی سرپرستی اور ولایت کو خطوات الشیطان سے تعبیر کرکے فرمایا اہل بیت کے سوا دوسروں کی ولایت اور سر پرستی کو قبول نہ کرو کیونکہ ان کی ولایت اور سرپرستی کو قبول کرنا قدم بہ قدم شیطان کے اتباع اور پیروی کے مترادف ہے۔

اگرچہ شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ بالذات ولایت اور سرپرستی کا حق خدا کے سواء کسی بشر کو نہیں ہے لیکن خدا نے جن کو سرپرستی اور ولایت کا حق عطا کیا ہے وہ اہل بیت ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسروںکی ولایت کو قبول کرنا خدا کی نظر میں خطوات شیطان کا اتباع ہے۔

۲۳)اہل بیت انصاف کا دروازہ ہیں

( وممن خلقنا امة یهدون وبه یعدلون ) ( ۱ )

اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو(دین) حق کی ہدایت کرتے اور حق کے ساتھ انصاف بھی کرتے ہیں۔ ____________________

( ۱ ) ۔اعراف/۱ ۱ ۸ ۔

۷۷

تفسیر:

اس آیت میں خدا نے خبر دی کہ میری مخلوقات میں سے کچھ لوگ انصاف اور حق کی ہدایت کے لئے خلق کی گئی ہیں،وہ کون ہیں ان کو معین کرنا ضروری ہے۔ فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہنے لکھا ہے کہ حضرت علی (ع)سے روایت کی گئی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر فرقے ہوںگے ان میں سے بہتر فرقے جہنمی ہیں صرف ایک فرقہ جنتی ہے اور ان کے بارے میں خدا نے فرمایا ـ:میں اور میرے ماننے والے شیعہ اس آیت کے مصداق ہیں۔( ۱ )

شواہد التنزیل کے مصنف نے ابن عباس (رض)سے روایت کی ہے:

فی قوله عز و جل وممن خلقنا امة.....قال یعنی من امة محمد وعلی ابن ابی طالب علیهما السلام یهدون بالحق یعنی یدعون بعدک یا محمد الیٰ الحق وبه یعدلون فی الخلافة بعدک ( ۲ )

یعنی اس آیت سے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے پیروکار مراد ہے جو پیغمبر (ص)کے بعد حق کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور پیغمبر (ص)کے

بعد خلافت کے سلسلے میں حق کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں۔جو لوگوں کی ہدایت اور حق کی طرف انصاف کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔

____________________

( ۱ ) ترجمہ قرآن حاشیہ ۲

( ۲ ) ۔شواہد التنزیل ج ۱ ص۲ ۰ ۴حدیث ۲٦٦

۷۸

جناب محمد رضا امین زادہ نے اپنی کتاب فضائل اہل بیت کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس آیت کے متعلق اہل سنت سے دو حدیثیں جبکہ اہل تشیع سے بارہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ آیت کریمہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو نقل کیا ہے:

انّ من امتی قوماً علیٰ الحق حتیٰ یتنزل عیسیٰ بن مریم ( ۱ )

پیغمبر (ص)نے فرمایا:اس آیت میں میری امت میں سے ایک گروہ مراد ہے جو برحق ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے تک حق کی دعوت دیتے رہیں گے۔

تحلیل:

اگر ہم با شعورانسان کی حیثیت سے تعصب اوراندھی تقلید اور دیگر عوامل سے قطع نظر شرعی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چودہ معصومین کی سیرت کو صحیح معنوں میں درک کریں تو بہت سارے مسائل کا حل مل سکتا ہے اور اس آیت کا مصداق جو برحق ہونے کے علاوہ دین حق کی ہدایت اور انصاف کا مصداق ہے،متعین کرسکتے ہیں۔

____________________

( ۱ ) فضائل اہل بیت ص۲ ۸

( ۲ ) تفسیر کبیر ج ۱۵ ص ۷ ۲۔

۷۹

اگر عدل وانصاف اورہدایت و سعادت کے خواہاں ہوںاور ظلم وستم ، جہالت و گمراہی اور شیطانی اوصاف کے حامل لوگوں کے تسلط سے نجات کے طالب ہوں تو اہل بیت کی سیرت پر چلنا چاہے اور ان کے نورانی کلمات سے استفادہ کرنا چاہے کیوں کہ کسی تعصب اور مادی ہدف کے بغیر صرف ذمہ داری سمجھ کر ہدایت کرنے والی ہستیاں اہل بیت ہیں۔

ان کی سیرت سے ہٹ کر جو بھی نظام اور سیرت ہیں ان میں دوام اور اور استحکام نظرنہیںآتا اس کے علاوہ ان میں دنیا و آخرت کی تباہی، ظلم و ستم اور ضلالت و گمراہی کے رواج، جہالت اور ناانصافی اور جابر حکمرانوں کے تسلط کے سوا کچھ بھی نہیں ہے چنانچہ آج صاحبان عقل دنیا میں ایسے وقائع اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیاست اور کامیابی کے نام سے بے گناہ افراد کو اپنا غلام بنا کریا قتل و غارت کے ذریعے ہم دہشت گردی سے نجات دینے کےلئے پیدا کئے گئے ہیں جبکہ ان نظریات کو صحیح معنوں میں درک کرنے سے دہشت گردوں کی تقویت اور ناانصافی کے فروغ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا لہٰذا پڑھے لکھے حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بالغ نظری سے اہل بیت کی سیرت کا مطالعہ کریں۔

اگر ہم کسی شعبے میں کامیاب،باوقار،با عزت اور باشرف ہونا چا ہیں تو اس کی بہترین راہ اہل بیت کی سیرت ہے جس میں ہماری دنیا و آخرت دونوں کی سعادت کے علاوہ ثبات اور دوام بھی نظر آتا ہے۔

اب تک اہل بیت کی عظمت کے بارے میں اہل سنت کی تفاسیر اور معتبر کتابوں سے کچھ آیات کونقل کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔لیکن اگر ہم اہل سنت کی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں تواہل بیت کی شان اور ان کی عظمت بیان کرنے والی مزید آیات مل سکتی ہیں ۔

قارئین محترم سے گزارش ہے ہمارے برادران اہل سنت کی ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرنے والی آیات و روایات بہت زیادہ ہیں۔

۸۰