اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)0%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 196
مشاہدے: 83010
ڈاؤنلوڈ: 4079

تبصرے:

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 83010 / ڈاؤنلوڈ: 4079
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

اہل بیت کی عظمت سنت کی روشنی میں

۱)اہل بیت کا وجود نور الہٰی ہے

قرآن کریم میں خدا نے اپنی ذات گرامی کو نور سے تعبیر کیاہے جیسے( الله نور السموٰات والارض ) یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ پورے آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

نیز حضرت پیغمبر اسلام (ص) کے وجود مبارک کو اور خود قرآن کریم کو بھی نور سے یاد کیاگیا ہے، اسی طرح احادیث نبوی(ص)میں علم اور نمازتہجد اور احادیث متواترہ میں اہل بیت کے وجود بابرکت کو نور سے تعبیر کیا گیاہے۔

ابن مسعود (ع)نے کہا:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :اعلم ان الله خلقنی و علیاً من نور عظیم قبل خلق الخلق بالفی عام اذ لا تسبیح و لا تقدیس ( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔قندوزی،ینابیع المودۃ،ج۱ص ۷۰

۸۱

''پیغمبر اکرم (ص)نے مجھ سے فرمایا:(اے ابن مسعود (ع)) جان لو! خدا نے کائنات کو خلق کرنے سے دو ہزار سال پہلے مجھے اور علی (ع)کو ایک عظیم نور سے خلق فرمایا تھا جبکہ اس وقت خدا کی تقدیس اور تسبیح کےلئے کوئی مخلوق نہ تھا۔

اس روایت سے دو نکتے واضح ہوجاتے ہیں:

۱۔کائنات کی خلقت سے پہلے پیغمبر (ص)اور حضرت علی (ع)کی خلقت ہوئی تھی اگرچہ اس کا تصور کرنا اس صدی کے افراد کی ذہنیت سے دور ہے کیونکہ اس صدی کے انسان کا ذہن مادی اشیاء سے زیادہ مانوس ہے۔ لہٰذاماورائے مادہ و مادیات کا تصور اور خاکہ اس کے ذہن میں ڈالنا اتنی علمی ترقی اور عقل و شعور کے باوجود بہت مشکل ہے ۔لیکن اگر انسان کا عقیدہ اور ایمان مضبوط ہو تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ کائنات کی خلقت سے پہلے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے نور کو خلق کرنا خدا کے لئے مشکل کام نہیںتھا۔کیا اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہ تھا؟کیا اس طرح کا خلق کرنا ممکن نہیں ہے کیا کائنات کی خلقت حضرت پیغمبر (ص) اور حضرت علی (ع)کی خلقت کےلئے علت تامہ ہے؟ لہٰذا یہ کہنا کہ پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کی خلقت کےلئے مکان و زمان یا اس رائج مادی سسٹم کی ضرورت ہے۔اس طرح تصور کرناحقیقت میں کائنات کے حقائق سے بے خبر ہونے کے مترادف ہے۔

۸۲

۲۔اس حدیث سے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے وجود مبارک کے نور ہونے کا پتہ چلتا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے وجود میں کسی بشر کے لئے کوئی ضرر یا نقصان قابل تصور نہیں ہے۔ کیونکہ خدا کی ذات نور ہے قرآن نور ہے،علم وعبادات نور ہیں،اہل بیت کا وجود بھی نور ہے، اور یہ چیزیں انسان کے تکامل و ترقی کا ذریعہ ہیں۔تکامل و ترقی کےلئے رکاوٹ کا تصور محال ہے۔

نیز جناب عبد الرضی بن عبد السلام نے نزہۃ المجالس میں جناب جابر بن عبد اللہ (ع)سے روایت کی ہے:

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم ان الله خلقنی و خلق علی (ع) نورین بین یدی العرش نسبح الله و نقدسه قبل ان یخلق آدم بالفی عام فلما خلق الله آدم اسکننا فی صلبه ثم خلقنا من صلب طیب و بطن طاهر حتیٰ اسکننا فی صلب ابراهیم(ع)ثم نقلنا من صلب ابراهیم الیٰ صلب طیب و بطن طاهر حتیٰ اسکننا فی صلب عبد المطلب ثم افترق النور فی عبد المطلب فصار ثلثاه فی عبد الله و ثلثه فی ابی طالب (ع) ثم اجتمع النور منی و من علی (ع) فی فاطمة (ع) فالحسن و ال حسین (ع) نوران من نور ربّ العالمین ( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔نزہۃ المجالس ج ۲ص۲۳ ۰ ۔

۸۳

جناب جابر (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ آپنے فرمایا: بتحقیق خدا نے مجھے اور علی (ع)کو حضرت آدم (ع)کی خلقت سے دوہزار سال پہلے دو نور کی شکل میں عرش کے سامنے خلق کیا اور ہم خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے ۔جب خدا نے حضرت آدم (ع)کو خلق فرمایا تو ہمارے نورکو ان کے صلب مبارک میں قرار دے دیا پھر ان کے صلب سے پاک و پاکیزہ اصلاب کے ذریعہ منتقل کرکے حضرت ابراہیم(ع)کے صلب میں ٹھہرایا،پھر ان کے صلب اور پشت سے نکال کر جناب عبد المطّلب- کے صلب میں منتقل کیا پھر جناب عبد المطلب (ع)کے صلب سے یہ نور اس طرح تقسیم ہواکہ دو حصے حضرت عبد اللہ بن عبد المطّلب- کے صلب میں قرار دیا گیاجبکہ ایک حصہ جناب ابو طالب بن عبد المطلب +کے صلب میں قرار دیاگیا،پھر اس نور کے دونوں حصے فاطمہ (س)کے وجود مبارک میں جمع ہوئے لہٰذا حسن- و حسین- اللہ تعالیٰ کے دو نور ہیں۔

اس روایت پر غور کیا جانا چاہے کیونکہ گذشتہ روایت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے نور کا کائنات کی خلقت سے پہلے موجود ہونے کو بتایا گیا ۔ اس روایت میں حضرت آدم(ع)کی خلقت سے پہلے حضرت پیغمبر (ص) اور حضرت علی (ع)کا نورخلق ہونے کی خبر دی۔

۸۴

نیز جناب سلمان فارسی (ع)نے فرمایا:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: یا سلمان!فهل علمت من نقبائی و من الانثیٰ عشر الذین اختارهم الله للامامة بعدی فقلت الله و رسوله اعلم قال یا سلمان خلقنی الله من صفوةٍ نوره و دعانی فا طعت و خلق من نوری علیاً فدعاه واطاعه وخلق من نوری و نور علی فاطمه فدعاها فاطاعته و خلق منی و من علی و فاطمة الحسن و الحسین فدعاهما فاطاعاه فسمانا بالخمسة الاسماء من اسمائه الله المحمود و انا محمد والله اعلٰی وهٰذا علی و الله فاطر وهٰذه فاطمة والله ذوالاحسان وهٰذا الحسن والله المحسن وهٰذا الحسین ثم خلق منا ومن صلب الحسین تسعة ائمة فدعاهم فاطاعوه قبل ان یخلق الله سماء مبنیة وارضا مدحیة او هواء او ماء او ملکاً او بشراً وکنّا بعلمه نوراً نسبحه و نقدسه و نطیع ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اے سلمان (ع)! کیا تو جانتے ہو کہ میرے جانشین کون ہیں؟ اور وہ بارہ افراد جنہیں خدا نے میرے بعد امامت کےلئے چن لیا ہے کون ہیں؟سلمان (ع)نے کہا:اللہ اور اس کا رسول (ص) بہترجانتے ہیں۔ اس وقت رسول خدا ؐنے فرمایا: اے سلمان (ع)جان لو!خدا نے مجھے اپنے

____________________

( ۱ ) ۔بحار الانوارج ۱۵ ص ۹ ۔

۸۵

خالص نور سے خلق فرمایا اور مجھے اپنی اطاعت کی دعوت دی تو میں نے اطاعت کی پھر میرے نور سے علی (ع)کو خلق کیا اور ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی انہوں نے بھی اطاعت کی اور میرے اور علی (ع)کے نور سے فاطمہ زہرا(س) کو خلق کیا ان کو بھی اطاعت کی دعوت دی انہوں نے لبیک کہا پھر میرے،علی (ع)اور فاطمہ (س)کے نور سے حسن و حسین (ع) کو خلق فرمایا ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی انہوں نے قبول کیا پھر خدا نے ہمیں اپنے پانچ اسماء حسنیٰ سے موسوم فرمایا پس خدا محمود ہے میں محمد،خدا اعلیٰ ہے اور یہ علی (ع)،خدا فاطر ہے اور یہ فاطمہ (س) ،خدا صاحب احسان ہے اور یہ حسن (ع)،خدا محسن ہے اور یہ حسین-۔اس کے بعد خدا نے میرے حسین(ع)کے صلب سے نو ہستیوں کو امام اور پیشوا بناکر خلق فرمایا ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی تو سب نے خدا کی اطاعت کی،اس وقت آسمان،زمین،ہوا،پانی،فرشتے اور بشر میں سے کوئی چیز خلق نہیں ہوئی تھی صرف ہمارا نور تھا جو خدا کی تسبیح و تقدیس اور اطاعت کر رہا تھا۔

۸۶

فضل نے کہا:

قال الصادق علیه السلام:ان الله تبارک وتعالیٰ خلق اربعة عشر نوراً قبل خلق الخلق باربعة عشر الف عام فهی ارواحنا فقیل له یابن رسول الله ومن الاربعة عشر قال محمد(ص)و علی (ع) و فاطمه والحسن والحسین والائمة من ولد الحسین آخرهم القائم الذی یقوم بعد غیبة فیقتل الدجال و یطهر الارض من کل جور و ظلم ......( ۱ )

امام جعفر صادق (ع)فرماتے ہیں:بتحقیق خدا نے کائنات کو خلق کرنے سے چودہ ہزار سال پہلے چودہ نور کو خلق فرمایا،اوروہ ہم اہل بیت کی ارواح تھیں آپ (ع)سے پوچھا گیا یابن رسول خدا! وہ چودہ ہستیاں کون ہیں؟آپ- نے فرمایا:وہ حضرت محمد(ص)،حضرت علی (ع)،حضرت فاطمہ (س) ،حضرت حسن-حضرت حسین- اور امام حسین(ع)کی نسل سے نوامام ہیںجن میں سے آخری امام قائم عج ہوگا جو غیبت کے بعد ظہور کرے گااور دجال کو قتل کرکے زمین کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کردے گا۔

تحلیل:

مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوجاتاہے کہ اہل بیت شیعہ امامیہ کے

عقید ے کے مطابق چودہ ہیں جوچودہ معصومین کے نام سے مشہور ہیں ان کی خلقت حضرت آدم (ع)کی خلقت سے پہلے نور کی شکل میں عالم ذر اور عالم نفس میں ہوئی تھی۔

____________________

( ۱ ) ۔بحار الانوار ج ۱۵،ص۲۳۔

۸۷

جب حضرت آدم (ع)کی خلقت ہوئی تو خدا نے ان کے نور کو پاک و پاکیزہ صلبوں سے منتقل کرکے حضرت عبد اللہ(ع)اورحضرت ابو طالب-کے صلب تک پہنچا دیا پھراس مادی دنیامیں بشر کی شکل میں وجود کا لباس پہنایا۔

نیز امام سجاد (ع)نے فرمایا:

حدثنا عمّی حسن قال سمعت جدی رسول الله یقول خلقت من نور الله عز وجل و خلق اهل بیتی من نوری و خلق محبهم من نورهم و سائر الناس فی النار ( ۱ )

میں نے اپنے تایاامام حسن مجتبیٰ (ع)سے سنا کہ آپ-نے فرمایا:میرے نانا رسول خدا ؐنے فرمایا: میرا وجود خدا کے نور سے خلق ہوا اور میرے اہل بیت کو میرے نور سے خلق کیا گیا اور ان کے دوستوں کو اہل بیت کے نور سے خلق کیا گیا ۔ اوران کے ساتھ بغض رکھنے والوں کو منہ کے بل جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔

اہم نکات:

اگر اس صدی کا بشر اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کے بارے میں صرف اہل سنت کے منابع کا مطالعہ کرے توحقیقت واضح ہونے کے علاوہ بہت

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج ۱ص۱ ۰ ۔

۸۸

ساری مشکلات کا حل بھی مل سکتا ہے۔اور اہل بیت کی عظمت بیان کرنے والی احادیث کو کسی اضافہ اور مبالغہ گوئی کے بغیر پیش کیا جائے تو اہل بیت کی خلقت اور دیگر انسانوں کی خلقت میں بڑا فرق نظر آئے گا۔ اگر ہم ان کی خلقت کا حضرت آدم (ع)کی خلقت یا کائنات کی خلقت سے پہلے ہونے کی خبر کسی ایسے معاشرے میں بیان کریں جہاں سالوں سال سے مادی نظام رائج ہو تو ہمارا مذاق اڑایا جائے گا ۔کیونکہ ان کی ذہنیت مادہ اور مادیات سے مانوس ہوچکی ہے۔لہٰذا ان کا نظام ہر غیر مادی شیء کی نفی کرتا ہے ۔اسی لئے ایسے افراد کے ذہن میں ایسے حقائق کا بٹھانا بہت مشکل کام ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اسلامی فلسفہ سے آگاہ ہو تو بخوبی اس مطلب کو درک کرسکتا ہے۔کیونکہ اسلامی فلسفہ تین قسم کے عالم میں وجود کو ثابت کرتا ہے:

۱۔عالم ذہن

۲۔عالم خارج

۳۔عالم نفس الامر

ہم وجودذہنی اور وجود خارجی کی خصوصیات سے مانوس ہیں لیکن وجود نفس الامری کی خصوصیات سے بے خبر ہیں۔اس لئے جب چودہ معصومین کے وجود مبارک کا نور ہونے یا حضرت آدم (ع)اور کائنات کی خلقت سے پہلے عالم ذر اور عالم نفس الامرمیں موجود ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا درک کرنا مشکل ہوتا ہے۔

کسی مذہب یاعقیدے پر تنقیدکرنے سے پہلے ان کی دلیل اور اس عقیدہ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے،پھر اشکال بھی کرے اور جواب بھی سنے۔

۸۹

۲)اہل بیت کے نورکاانبیاء نے مشاہدہ کیاہے

اہل بیت اور چودہ معصومین یقیناً اس عالم مادی میں انبیاء الہٰی کی خلقت کے بعد آئے ہیںلیکن بہت ساری روایات اور احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا نے اہل بیت کا نور حضرت آدم (ع)کو عالم ذر میں دکھایا اورحضرت ابراہیم(ع)کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے نمرود کے ظلم و ستم کے وقت پنجتن پاک کے نور مبارک کامشاہدہ فرمایا اور خدا سے ان کاواسطہ دے کر دعا کی تو خدا نے یا نار کونی برداً وسلاماً علیٰ ابراہیم کہہ کر نجات دی ۔ اسی طرح حضرت یحییٰ (ع)اور حضرت نوح (ع)وغیرہ کے حالات متعدد روایات میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی (ع)نے مشکل وقت میںچودہ معصومین کا واسطہ دے کر خدا سے کامیابی کی درخواست کی ہے اور خدا نے ان کی درخواست قبول فرمایا۔ان تمام واقعات سے معلوم ہوجاتا ہے اہل بیت کے نور مبارک کاتمام انبیاء الہٰی نے مشاہدہ فرمایا جن کے صدقے میں وہ کامیاب ہوئے ۔جب حضرت آدم-کو ترک اولیٰ کے نتیجہ میں خدا نے سزا دی حضرت آدم-نے پنجتن پاک کا واسطہ دے کر معافی مانگی تو خدا نے ان کو معاف کردیا( ۱ )

نیز مفضل بن عمر بن عبد اللہ نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے:

انه قال:لما خلق ابراهیم علیه السلام و کشف الله عن بصره فنظر الیٰ جانب العرش نوراً فقال الهیٰ و سیدی ما هٰذا النور؟ قال یا ابراهیم هٰذا نور محمد صفوتی قال الهٰی و سیدی و ارایٰ نوراً الیٰ جانبه قال یا ابراهیم هٰذا نور علی ناصر دینی قال الهٰی و سیدی واریٰ نوراً ثالثاً یلی النورین قال یا ابراهیم هٰذا نور فاطمة تلی اباها و بعلها فطمت بها محبها من النار قال الهیٰ و سیدی واریٰ نورین یلیان ثلاثة انواراً قال یا ابراهیم هٰذا الحسن و الحسین یلیان نور ابیهما وامهما و جدهما قال الهیٰ و سیدی و اریٰ تسعة انواراً قد احلقوا بالخمسة انواراً قال یا ابراهیم هٰؤلآء الائمة من ولد هم قال الهٰی و سیدی وبماذا یعرفون؟قال یا ابراهیم اولهم علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر ابن محمد وموسیٰ ابن جعفر و علی ابن موسیٰ و محمد بن علی

____________________

( ۱ ) ۔مناقب ص٦۳ ،ینابیع المودۃج۱ص ۹ ۵۔

۹۰

وعلی بن محمد والحسن بن علی والمهدی بن الحسن صاحب الزمان قال الهٰی وسیدی واریٰ انواراً لا یحصی عددها الا انت قال یا ابراهیم هٰؤلآء شیعتهم و محبیهم قال یا ابراهیم یصلون احدی و خمسین والتختم فی الیمین و الجهر ببسم الله الرحمن الرحیم والقنوت قبل الرکوع والسجود و سجدة الشکر قال ابراهیم: الهٰی اجعلنی من شیعتهم ومحبیهم فانزل الله فی القرآن وان من شیعته لابراهیم اذجاء ربه بقلب سلیم ( ۱ )

مفضل ابن عمر نے کہا : پیغمبر (ص)نے فرمایا جب خدا نے حضرت ابراہیم (ع)کو خلق فرمایا اور ان کی آنکھوں سے پردے ہٹادیئے تو حضرت ابراہیم- کی نظر عرش کے کنارے ایک نور پر پڑی عرض کیا :پروردگارا!یہ نور کیا ہے؟نداء آئی: اے ابراہیم-! یہ محمد(ص) کا نور ہے جو میرا برگزیدہ بندہ ہے حضرت ابراہیم(ع) نے کہا:خدایا! اس نور کے ساتھ جو نور نظر آرہا ہے وہ کس کا ہے؟جواب ملا اے ابراہیم! وہ نور، علی مرتضیٰ کا ہے جو میرے دین کا مددگار ہے۔حضرت ابراہیم نے کہا:اے میرے آقا و مولا ان دونوں کے پیچھے تیسرا نور کس کا ہے؟ جواب ملا اے ابراہیم (ع)! یہ حضرت فاطمہ (س)کا نورہے جو اپنے پدر بزرگوار اور شوہر کے کنارے

____________________

( ۱ ) ۔ ابن عساکر:الاربعین ص۳ ۸ ۔

۹۱

نظر آرہا ہے۔جس کے صدقے میں ان کے دوستداروںکو جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔حضرت ابراہیم (ع)نے کہا اے میرے مولا و آقا !ان نوروں کے پیچھے دو نور نظر آرہے ہیں وہ کون ہیں؟جواب ملا اے ابرہیم! وہ حسن و حسین (ع) ہیںجو انکے جد بزرگوار،مادر گرامی اور پدر بزرگوار کے پیچھے نظر آرہے ہیں۔پھر حضرت ابراہیم نے کہا اے میرے مولا و آقا ان پانچ نوروں کے ساتھ مزید نو نور نظر آرہے ہیں جو حلقے کی شکل میں ہیں،وہ کون ہیں؟خدا نے فرمایا:یہ ان کی اولاد ہیں جو ان کے بعد لوگوں کے امام اور پیشویٰ ہونگے۔حضرت ابراہیم نے سوال کیا اے میرے مولا و آقا ان کو کیسے اور کس نام سے یاد کروں ؟خدا نے فرمایا: اے ابراہیم! ان میں سے پہلا علی بن ال حسین (ع)ہے ان کے بعد محمدبن علی (ع) پھر جعفر ابن محمد پھر موسی بن جعفر اور پھر علی بن موسی پھر محمدبن علی اور پھر علی بن محمد پھر حسن بن علی ا ور آخری کا نام مہدی صاحب الزمان(عجّل اللہ تعالی فرجہ) ہوگا۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم (ع)نے کہا:اے خدا ان کے علاوہ بہت سارے نور کا مشاہدہ کر رہا ہوں ،جن کی تعداد سوائے تیری ذات کے کوئی اور نہیں جانتا،یہ کس کے نور ہیں؟۔خدا نے فرمایا: یہ ان ہستیوں کے ماننے والوں اور دوستوں کا نور ہے ۔حضرت ابراہیم (ع)نے خدا سے دعا کی پروردگارا! مجھے بھی ان کے ماننے والے دوستوں میں سے قرار دے۔اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد الہٰی

ہے:

وان من شیعته لابراهیم اذ جاء ربه بقلب سلیم ۔

۹۲

تحلیل:

اس حدیث کواہل سنت کی معتبر کتاب سے نقل کرنے کا ہدف یہ ہے کہ اس حدیث سے پیغمبر اکرم (ص)کے بارہ جانشین اور اہل بیت کا مصداق چودہ معصومین کے ہونے کا علم ہوجاتا ہے جو شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق ہے۔نیز انبیاء کا ان کے نور کو مشاہدہ کرنے کی خبرکے ساتھ ان کے اسماء بھی اس روایت میں موجود ہیں اور ان کے ماننے والوں کے برحق ہونے کی دلیل بھی کیونکہ حضرت ابراہیم (ع)خدا کے نبی ہونے کے باوجود خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ خدایا مجھے بھی ان کے ماننے والوں میں سے قرار دے۔لہٰذا خدا نے قرآن پاک میں ان کے حق میں فرمایا کہ ابراہیم- ان کے سچے ماننے والوں میں سے ہے۔لہٰذا جب حضرت ابراہیم (ع)سے خدا نے امتحان لیا اور خواب میں دکھایا کہ حضرت اسماعیل (ع)کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہے ہیں آپ- اسماعیل (ع)کو قربان گاہ کی طرف لے گئے ،ہاتھ پیر باندھ دیئے اور ذبح کرنے لگے تو خدا کی جانب سے وحی نازل ہوئی اے ابراہیم(ع)!قد صدقت الرؤیا ان کے بدلے میں دنبے کو ذبح کردے۔اس وقت حضرت ابراہیم (ع)نے اسماعیل(ع)کو چھوڑ دیا گوسفند کو ذبح کیا لیکن بہت زیادہ رونے لگے جبرئیل حضرت ابراہیم(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھنے لگے اے ابراہیم (ع)کیوں رو رہے ہو؟جبکہ خدا نے حضرت اسماعیل(ع)کو ذبح ہونے سے بچالیاہے حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا اے جبرائیل (ع)! میں اس لئے رورہا ہوںکہ اگر میرے ہاتھوں خدا کے حکم سے میرا بیٹا ذبح ہوتا تو روز قیامت انبیاء کے درمیاں فخر سے سر بلند ہوتا،لیکن میں اس سے محروم رہا ۔اس وقت جبرائیل (ع)نے حضرت ابراہیم (ع)سے پوچھا اے ابراہیم(ع)آپ کی نظر میں آپ افضل ہیں یا حضرت محمد(ص)؟حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا:حضرت محمد(ص)افضل ہیں۔پھر جبرئیل (ع)نے پوچھا اے ابراہیم(ع)آپ کی ذریہ افضل ہیں یا حضرت محمد(ص) کی؟فرمایا:حضرت محمد(ص)کی ذریہ۔ان کی ذریہ پر میری اولاد قربان ہو ۔ جبرئیل (ع)نے کہا آپ کی نظر میں اسماعیل افضل ہے یا حضرت حسین-؟آپ نے فرمایا:حضرت امام حسین-افضل ہیں۔ جبرئیل (ع)کہنے لگے اے ابراہیم(ع)یہی حسین- ؑہے جو کربلا کی سرزمین پربے دردی کے ساتھ ذبح کیاجائے گا تو اپنے فرزند اسماعیل-کی قربانی نہ ہونے پر گریہ کرنے کی جگہ حسین ابن علی (ع)کی قربانی پر گریہ کرو۔یہ سن کر حضرت ابراہیم (ع)بے اختیار رونے لگے( ۱ ) اس طرح کی روایات اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت ؑکی عظمت اور فضیلت کے تمام انبیاء

____________________

( ۱ ) اشتہاردی محمد:داستان و دوستان ،ج۲ص۲ ۸ ۔

۹۳

قائل تھے ۔اہل سنت کی کتابوں سے منقول مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کے نور کا مشاہدہ سارے انبیاء الہیٰ نے کیا ہے۔سارے انبیائ ان کے وسیلہ سے امتحان الہٰی میں کامیاب ہوئے۔

نیز حضرت یحیی (ع)کے بارے میں لکھا ہے کہ خدا نے حضرت یحیی(ع)کو نبوت کے منصب پر مبعوث فرمایا پھر انہیں پنجتن پاک کا نام سنایا ۔حضرت یحییٰ(ع)غور سے سنتے رہے، جب حسین (ع)کا نام لیا گیا تو بے اختیار آنسو بہنے لگے۔خدا سے پوچھا:پالنے والے! جب آپ نے حسین- کا نام لیا تو مجھ پر غم کی حالت طاری ہوگئی اس کی وجہ کیا ہے؟خدا نے فرمایا:اے یحییٰ! یہ حسین (ع)ہے جوکربلاکی سرزمین پربے دردی سے ذبح کیاجائے گا اس لئے ان کا نام سنتے ہی ہر مومن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتا ہے۔یہ روایت بھی اہل بیت کی عظمت کی بہترین دلیل ہے۔

۹۴

۳) اہل بیت سے محبت کا نتیجہ

آیات و روایات اور احادیث نبوی میں محبت اہل بیت کی اہمیت بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔چنانکہ روایت ہے کہ ولدزنا اور منافق کے سوا کوئی بھی اہل بیت سے بغض اور دشمنی نہیں رکھتا ،خدا نے ان کی محبت کو لازم قرار دیا ۔اور ان کے وجود مبارک کو ہی تخلیق کائنات کا ہدف اور انسان کی ترقی و تکامل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔اسی لئے ایک حدیث میں فرمایا کہ ایک لحظہ کےلئے

بھی محبت اہل بیت سے کائنات خالی نہیں ہوسکتی۔اگر ایک لحظہ کےلئے بھی کائنات محبت اہل بیت سے خالی ہو تو پوری کائنات نابود ہوجائے گی۔لہٰذا کلام مجید میں فرمایا:''لکل قوم ھادٍ''اس جملے کی تفسیر میں کئی احادیث اور روایات وارد ہوئی ہیں کہ ''ھاد ''سے محبت اہل بیت مراد ہے۔لہٰذا محبت اہل بیت کے نتائج اور ثمرات کی طرف بھی اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔

جناب ابن عباس (رض)سے روایت ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: لا تزول قدماً عبد یوم القیامة حتیٰ یسأل عن اربعٍ عن عمره فیما افناه وعن جسده فیما ابلاه وعن ماله فیما انفقه و من این کسبه و عن حب اهل البیت'' ۔( ۱ )

ابن عباس (رض)نے کہا : پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کوئی بھی انسان قیامت کے دن اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھا نہ جائے:

۱۔اپنی زندگی کو دنیا میں کس چیز میں سرگرم رکھا؟

۲۔ بدن اور جسم کو کیسے بڑھاپے کی حالت تک پہنچا دیا؟

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج۲۔ص ۹ ٦،

۹۵

۳۔دولت اور ثروت کو کیسے جمع کیااورکہا ںخرچ کیا؟

۴۔اہل بیت سے دوستی و محبت کی یا نہیں؟

تحلیل:

اس حدیث سے اہل بیت کی محبت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے یعنی روز قیامت خدا سب سے پہلے اہل بیت سے دوستی اور محبت کے بارے میں سوال کریگا۔اگر اہل بیت سے دوستی اور محبت کے متعلق مثبت جواب ملا تو دوسرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اگر محبت اہل بیت کے بارے میں مثبت جواب نہ ملا تو باقی سارے اعمال بھی خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔

۴) اہل بیت سے محبت،مومن کی علامت ہے

انسان عقیدہ کے حوالے سے تین دستوں میں تقسیم ہوتا ہے:

۱۔کافر۔

۲۔منافق۔

۳۔مومن۔

مومن کی علامتیں قرآن مجید اور احادیث میں کئی چیزیں بیان ہوئی ہیں ان کو تفصیل سے بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا صرف چند ایک روایات کو بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے:

۹۶

عن سلمان قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: لا یومن احد حتی یحب اهل بیتی لحبیفقال عمر ابن الخطاب وما علامة حب اهل بیتک؟،قال هٰذا وضرب بیده علیٰ علی (ع)، ( ۱ )

سلمان فارسی (ع)نے کہا:پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:جب تک میرے اہل بیت سے میری محبت کے واسطے محبت اور دوستی نہ کرے وہ شخص مومن نہیں کہلاسکتا۔اس وقت عمر ابن الخطاب نے پوچھا:آپ کے اہل بیت کی

محبت کی علامت کیا ہے؟ آنحضرت (ص)نے دست مبارک کو امیر المومنین (ع)پر رکھتے ہوئے فرمایا :یہ میرے اہل بیت کی محبت کی علامت ہے۔

تحلیل:

اگر ہم اس حدیث کے مضمون کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو بہت سارے مطالب واضح ہوجاتے ہیں:

۱۔ آنحضرت (ص)نے اس حدیث کو کسی مجمع میں بیان فرمایا کہ جس میں حضرت علی (ع)، حضرت عمر اور حضرت سلمان جیسے بزرگ صحابہ بیٹھے ہوئے تھے۔

۲۔حضرت عمر کامحبت اہل بیت کی علامت کے بارے میں پوچھنے کا

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ص۳ ۷ ۲۔

۹۷

مقصد یہ تھا کہ شاید کہیں پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی (ع)کو اہل بیت کے دائرے سے نکال کر کسی اور کو محبت اہل بیت کی علامت قرار دے۔لیکن پیغمبر اکرم (ص) ان کے اہداف اور مقاصد سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذا فرمایا:

هٰذا و ضرب بیده علیٰ علیّ علیه السلام

اگرچہ'' ھٰذا'' کا لفظ اشارہ کےلئے کافی تھا لیکن پیغمبر اکرم (ص)نے'' ھٰذا'' کہہ کر اپنے دست مبارک کو علی (ع)پر رکھااس کا فلسفہ یہ تھا کہ کہیں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ھٰذا سے کوئی اور مراد ہو، تب ہی توپیغمبر اکرم (ص)نے ''ھٰذا'' کہتے ہوئے حضرت علی (ع)کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش ختم کردی۔

۵)اہل بیت ،صراط سے عبور کا ذریعہ ہیں

مسلمانوں کے عقائد میں سے ایک صراط( ۱ ) ہے جس کی خصوصیات اور حالات آیات اور احادیث نبویؐ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ صراط ایک پُل ہے جس سے قیامت کے دن ہر جنتی کا گزرنا یقینی ہے جس کی تعریف روایات نبوی(ص) اور احادیث ائمہ میں اس طرح کی گئی ہے کہ وہ آگ سے زیادہ

____________________

( ۱ ) صراط کی حقیقت اور اوصاف سے آگاہی کیلئے مطالعہ کریں: آیت اللہ سیّد محمدحسین تہرانی :معاد شناسی

۹۸

گرم،تلوار سے زیادہ تیز،بال سے زیادہ باریک ہے۔

لہٰذا جو شخص ایسے مشکل راستہ سے بہ آسانی عبور کرنا چاہتاہے تو اسے چاہے کہ دنیا میں اہل بیت کے ساتھ دوستی اور محبت رکھے۔

چنانچہ اس مطلب کو حسن بصری نے ابن مسعود (ع)سے روایت کی ہے:ابن مسعود (ع)نے کہا:۔

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: اذا کان یوم القیامة یقعد علی (ع) علی الفردوس وهو جبل قریب علیٰ الجنة و فوقه علی العرش رب العالمین ومن سفحه یتفجر انهار الجنة ویتفرق فی الجنان و علی (ع)جالس علیٰ کرسیٍّ من نورٍ یجری بین یدیه النسیم لا یجوز احد الصراط الا و معه سند بولایة علی و ولایة اهل بیته فید خل محبیه الجنة و مبغضیه النار'' ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:روز قیامت حضرت علی (ع)فردوس پر تشریف فرما ہونگے جوجنت کے قریب ایک بلند پہاڑ کا نام ہے جس کے اوپر پروردگار عالم کا عرش ہے اور اس پہاڑ کے دامن سے جنت کی نہریں باغوں کی

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج ۱۔ص ۸ ٦۔

۹۹

طرف جاری ہیں اور حضرت علی (ع)نور سے بنی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہونگے ان کے سامنے تسنیم کا چشمہ جاری ہوگا اور کوئی بھی شخص صراط سے عبور نہیں کر سکتا ہے جب تک ولایت علی (ع)اور ولایت اہل بیت کی سند اس کے ساتھ نہ ہو اور جو ان کے دوستوں میں سے ہونگے انہیں جنت اور جو ان کے دشمنوں میں سے ہونگے انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تحلیل:

اس حدیث کی مانند بہت ساری روایات شواہد التنزیل( ۱ ) اور فرائد السمطین میں موجود ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کی ولایت اور سرپرستی کو قبول کئے بغیر صراط سے گذرنے کا دعویٰ غلط اور اشتباہ ہے۔کیونکہ صراط سے عبور کا وسیلہ صرف اعمال صالح کا انجام دینا نہیں ہے بلکہ اس کا ذریعہ ولایت اہل بیت کو قبول کرنا ہے۔یعنی چاہے دنیوی مشکل ہو یا اخروی،اس کے حل کا ذریعہ ولایت اہل بیت ہے۔

٦) اہل بیت سے محبت ،اعمال کی قبولیت کی شرط۔

بہت سی روایات نبوی(ص)سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کی محبت کے بغیر کوئی بھی عمل خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔

____________________

( ۱ ) ج ۲ ص ۱ ۰۷ حدیث ۷۸۸

۱۰۰