حضرت علی علیہ السلام کی مشکلات
و من کلام له علیه السلام دعونی والتمسو غیری فانّا مستقبلون امرا له وجوه الوان لا تقوم له القلوب ولا تثبت علیه العقول و انّ الافاق قد اغامت المحجة قد تنکرت و اعلمو انّی ان اجبتکم رکبت بکم ما اعلم
"یعنی مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لئے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو، ہمارے سامنے اب معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں " دیکھو افق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں " راستہ پہچاننے میں نہیں آتا، تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تمہاری خواہش کو مان لوں تو تمھیں اس راستے پر لے چلوں جو میرے علم میں ہے ۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام دوسرے خلفاء کی موجودگی اور ان کے بعد بہت زیادہ مشکلات میں تھے آپ کو کسی لحاظ سے بھی چین سے رہنے نہ دیا گیا " طرح طرح کی شورشیں اور سازشیں آپ کے ارد گرد خطرہ بن کر منڈ لاتی رہیں۔ عثمان کے قتل کے بعد لوگوں کا ایک انبوہ آپ کے دردولت پر حاضر ہوا اور اصرار کیا کہ وہ امامعليهالسلام
وقت کے طور پر زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لیں لیکن امام علیہ السلام خاموش رہے اور انتھائی دکھی انداز میں فرمایا۔
"دعونی والتمسوا غیری"
"مجھے چھوڑ دو خلافت کےلئے میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈھ لو"
اس سے یہ مقصد نہیں ہے کہ معاذاللہ حضرت اپنے آپ کو خلافت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا اہل نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ تو مسند رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر بیٹھنیے کے لئے سب سے زیادہ مستحق وسزاوار تھے، پھر فرمایا :
"فانا مستقبلون امر اله وجوه والوان"
"یعنی ہمارے سامنے ایک اور معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں ۔"
اس جملے کی وضاحت کرتے ہوئے امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وان الافاق قد اغامت"
کہ دیکھو افق عالم پر گھٹا ئیں چھائی ہوئی ہیں"
والمحجة قد تنکرت"
کہ راستے پہچانے نہیں جاتے"
آپ اسی خطبہ میں مزید فرماتے ہیں:
"واعلموا انی ان اجبتکم رکبت بکم ما اعلم"
تمھیں معلوم ہونا چاہی ے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمھیں اس راستے پہ لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے۔"
اور اس کے متعلق کسی کھنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والی کی سرزنش پہ کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسے میں ہوں"اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دینوی مفاد کے لئے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بھتر ہے ۔
امام علیہ السلام کے اس قول سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس قدر مشکل حالات میں گھرے ہوئے تھے ۔میں ایک نشست میں ان تمام مشکلات کے بارے میں تفصیل سے گفتگو نہیں کرسکتا ۔فی الحال حضرت علی علیہ اسلام کی ایک "مشکل "بتاتا ہوں کہ جو آپ کے لئے پوری سوسائٹی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مشکل تھی ۔
عثمان کا قتل
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے لئے سب سے پہلی مشکل عثمان کا قتل تھا ۔اس لئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا تھاکہ ابھی بہت سی مشکلات نے آنا ہے ۔طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں عفریت کی مانند اپنا اپنا منہ کھولے ہوئے ہیں ۔حضر علیعليهالسلام
اس حالت میں مسند خلافت پر تشریف لاتے ہیں کہ ان سے پیشرو خلیفہ کو چند نامعلوم افراد نے اس لئے قتل کردیا کہ اس کی تمام تر ذمہ داری حضرت علیعليهالسلام
پر پڑے۔ عثمان کے قاتلوں نے ان کی تدفین کے وقت بیشمار اعتراضات کیے اب وھی گروہ حضرت علیعليهالسلام
کے ارد گرد جمع تھے "ایک طرف قاتلین عثمان دوسری طرف عثمان کی محبت کا دم بھرنے والے لوگ جو حجاز "مدینہ"بصرہ" کوفہ اور مصر سے آئے ہوئے تھے ۔اور ان کے جذبات واحساسات میں ایک طرح کا طوفان برپا تھا ۔
حضرت علی علیہ السلام دو گروہوں کے درمیان انتھائی حیرانگی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ وہ کریں تو کیا کریں "اگر کسی خاص گروہ کی حمایت کرتے تو بھی ٹھیک نہیں تھا کسی کی مخالفت کرتے تب بھی موقعہ محل کے خلاف تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام عثمان کی کچھ پالیسیوں کے مخالف ہوں۔اختلاف رائے ایک طرف لیکن یہ اختلاف ایسا نہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام عثمان کے قتل کی خواہش کریں یا ان کے قتل میں کسی قسم کی مداخلت کریں آپ صلح جو" امن پسند شخصیت تھے ۔آپ نے اپنی شھرہ آفاق کتاب نھج البلاغہ میں عثمان کے قتل کا چودہ مرتبہ تذکرہ کیا ہے ۔دراصل یھی تذکرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ امن وآشتی کے کس قدر حامی اور طرف دار تھے ۔عثمان کے قتل سے قبل اور قتل کے بعد آپ کا رویہ انتھائی صلح جو یانہ رہا ۔آپ صبر واستقامت کی زندہ مثال بن کر بھپرے ہوئے حالات اور بکھرئے ہوئے لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے اور متحد کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
عثمان کے قتل کے بعد لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھےکو ئی اس قتل کے خلاف سراپا احتجاج نظر آرہا تھا، کوئی ان کی مخالفت کی وجہ سے تبدیلی خلافت پر اطمینان کا سانس لے رہا تھا، کہ آپ نے خلیفئہ وقت اور حاکم اسلامی ہونے کے ناطے سے کسی خاص گروہ کی حمایت نہیں کی بلکہ آپ کی کاوشوں اور کوششوں کا مرکز صرف ایک تھا کہ جیسے ہی بن پڑے اختلاف وتفرقہ کی فضا ختم ہو کر خوشگوار اور پرامن ماحول میں تبدیل ہو ۔حضرت علی علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ عثمان کے قتل سے بے شمار مسائل کھڑے ہوں گے ۔اور یھی قتل اسلام اور مسلمانوں کے اختلاف کی سب سے بڑی وجہ اور سبب بنے گا۔ آخر وھی ہوا جس کا آپ نے نھج البلاغہ میں خدشہ ظاہر کیا تھا۔ آج جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یھی حقیقت روز روشن کی طرح ہمارے سامنے آتی ہے کہ عثمان کو ان کے حاشیہ نشینوں نے قتل کرایا تھا ۔ان شر پسندوں کی شروع سے کوشش یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کیا جائے، ان کے اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے ۔
چناچہ یہ شر پسند اس تاڑ میں تھے کہ جناب امیر علیہ السلام کو عثمان کے قتل میں ملوّث کر کے وسیع پیمانے پر فتنہ وفساد کھڑا کریں ۔تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ معاویہ قتل عثمان میں ہر لحاظ سے ملوث تھا وہ اندرونی طور پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں مصروف تھا ۔وہ شروع ہی سے عثمان کے قتل کی سازشیں بنارہا تھا ۔اسے یہ بھی یقین تھا کہ دو گروہوں کی باہمی آویزیش اور لڑائی کے باعث قتل عثمان کی مذموم سازش ایک تو کامیاب رہے گی، دوسرا اصل قاتل کا پتہ نہیں چل سکے گا، تیسرا اس کا اصلی مشن کا میاب ہوجائے گا اور مسلمان ایک دوسرے سے دست بہ گریبان ہو کر اپنی مرکزیت کھو بیٹھیں گے ۔ان حالات ومشکلات کی وجہ سے جناب امیر علیہ السلام کو گونا گوں ومسائل سے دو چار ہونا پڑا ۔یہ موڑ تھا کہ جھاں منافقین مادی طور پر اپنے مکارانہ وعیارانہ حربوں میں کامیاب ہوگئے ۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی اس طرح اور اسی نوعیت کی مشکلات سے دوچار تھے، لیکن پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت علیعليهالسلام
کی مشکلات میں بہت بڑا فرق ہے۔سرکار رسالتمابصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دشمن بت پرست توحید کے منکر تھے اور علانیہ طور پر اللہ تعالی کی ربوبیت سے انکار کرتے تھے اور ان کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ ہی یھی تھی کہ حضور توحید کا اعلان نہ کریں، اور بتوں کے خلاف کچھ نہ کہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام کا مقابلہ ایک ایسے گروہ سے تھا کہ جو علانیہ طور پر خود کو مسلمان تو کہلواتے تھے لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہ تھے۔ ان کا نعرہ اسلامی تھا لیکن ان کا اصلی مقصد کفر ونفاق کی ترویج کرنا تھا ۔معاویہ کا باپ ابو سفیان کافر تھا وہ کافرانہ روپ ہی میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آیا حضرت کے لئے اس سے لڑنا آسان تھا ۔لیکن اسی ابوسفیان کا بیٹا معاویہ سفیانی وشیطانی مقاصد لے کر حضرت علی علیہ السلام سے آکر لڑا ۔اور اس نے آپ کی بھر پور مخالفت کی، طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔لیکن جب عثمان قتل ہوئے تو اس نے اس آیت کو:
(
من قُتِل مظلوما فقد جعلنا لولیه سلطانا
)
"اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابودیا ہے ۔"
عنوان بناکر خون عثمان کا مطالبہ کیا ۔وہ لوگوں کے احساسات وجذبات سے کھیل کر خون خرابہ کرنا چاہتا تھا ۔اس وقت اصل وارث کون ہے؟ تو کون ہے عثمان کو اپنا کہنے والا ۔تیرا تو ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔سب سے پہلے تو عثمان کا بیٹا موجود ہے ۔ان کے دیگر رشتہ دار بھی موجود ہیں ۔دوسرا تیرا ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہے؟دراصل وہ ایک چالاک اور عیار شخص تھا وہ اس مقتول صحابی رسول کے خون کو ذریعہ احتجاج بنانا چاہتا تھا ۔اس کا اصل مقصد حضرت علی علیہ السلام کی راہ میں رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کرنا تھا ۔دوسرے وہ چاہتا تھا کہ جب بھی اور جیسا بھی ہوسکے مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرکے ان میں ہر طرح کی تفریق ڈالی جائے ۔عثمان زندہ تھے تو معاویہ نے جناب کو قتل کرنے کے لئے اپنے کرائے کے قاتل اور جاسوس مقرر کررکھے تھے ۔اور اس نے اپنے گماشتوں سے کہہ رکھا تھا کہ جس وقت عثمان قتل ہو جائیں ان کا خون آلود کرتہ فوری طور پر میری طرف شام روانہ کیا جائے ۔خبر دار کہیں ۔یہ خون خشک نہ ہونے پائے۔
چنانچہ عثمان کا خون آلود کرتہ اور عثمان کی زوجہ محترمہ کی انگلی کاٹ کریہ دونوں چیزیں امیر شام معاویہ کی طرف روانہ کی گئیں ۔اندر سے اس کا کلیجہ تو ٹھنڑا ہو گیا لیکن ظاہر میں وہ سراپا احتجاج نظر آیا ۔اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ عثمان کی اہلیہ کی کٹی ہوئی انگلیاں اس کے منبر کے پاس لٹکا دی جائیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔اس نے بلند آواز سے کہا اے لوگو!دیکھو تو سھی کتنا ظلم ہو گیاہے کہ خلیفہ وقت کی بیوی کی انگلیاں بھی کاٹ دی گئی ہیں ۔اس نے حکم دیا کہ عثمان کا خون آلود پیراہن نوک نیزہ پر لٹکا کر مسجد کے قریب کسی جگہ پر نصب کیا جائے ۔جب ایسا کیا گیا تو معاویہ وہاں پر پہنچ گیا ۔اور عثمان کی مظلومیت پر زار وقطار رونے لگا۔ وہ گریہ کرتا رہا۔اور وہ اس قتل کے بہانے سے لوگوں کو احتجاج کرنے پر مجبور کرتا رہا۔ اس کا عوام سے بار بار یھی مطالبہ تھا کہ لوگو اٹھو بہت بڑا ظلم ہوگیا ہے۔ خلیفہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
بڑی بے دردی سے قتل کیے گئے ہیں۔ آپ لوگوں پر فرض عائد ہوتا کہ عثمان کے خون ناحق کا بدلہ لیں۔ یہ قتل علیعليهالسلام
ہی نے کیا ہے۔ لھذا ان سے انتقام لینا ہم سب کا دینی و مذھبی فریضہ ہے۔ دیکھو تو سھی کہ انقلابی طبقہ سب کا سب علیعليهالسلام
کے ارد گرد جمع ہے۔ اور انھی لوگوں نے عثمان کو شھید کیا ہے۔ غرض یہ کہ معاویہ طرح طرح کے حیلے بہانے بناتا رہا اس کی سازش ہی کہ وجہ سے جنگ جمل جنگ صفین کے نام سے دو جنگیں وجود میں آئیں ۔
(استاد محترم علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نھج البلاغہ کے اس خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے سے مسند حکومت خالی ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں امیر المومنین کی طرف اٹھنے لگیں، جن کی سلامت روی، اصول پرستی اور سیاسی بصیرت کا اس طویل مدت میں انھیں بڑی حد تک تجربہ ہو چکا تھا، چنانچہ متفقہ طور پر آپ کے دست حق پرست پہ بیعت کے لئے اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح بھولے بھٹکے مسافر دور سے منزل کی جھلک دیکھ کر اس کی سمت لپک پڑتے ہیں، جب کہ مؤرخ طبری نے لکھا ہے:" لوگ امیر المومنینعليهالسلام
پر ہجوم کرکے ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیا کیا مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں۔ اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے قریبیوں کے بارے میں ہماری کیسی آزمائش ہو رہی ہے ۔" مگر امیر المومنینعليهالسلام
نے ان کی خواہش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر ان لوگوں نے شور مچایا؟اور چیخ چیخ کر کہنے لگے اے ابو الحسنعليهالسلام
!
آپ اسلام کی تباہی کو نہیں دیکھ رہے فتنہ و شر کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہیں دیکھتے، کیا آپ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے پھر بھی حضرت نے آمادگی کا اظہار نہ فرمایا، کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد جو ماحول بن گیا تھا اس کے اثرات دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں ۔ طبیعتوں میں خود غرضی و جاہ پسندی جڑ پکڑ چکی ہے، ذھنوں پر مادیت کے غلاف چڑھ چکے ہیں اور حکومت کو مقصد برآریوں کا ذریعہ قرار دینے کی عادت پڑ چکی ہے ۔ اب خلافت اللہ کو بھی مادیت کا رنگ دے کر اس سے کھیلنا چاہیں گے ۔ ان حالات میں ذھنیتوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے رخ موڑنے میں لوہے لگ جائیں گے ۔ ان اثرات کے علاوہ یہ مصلحت بھی کار فرما تھی کہ ان لوگوں کو سوچ سمجھ لینے کا موقعہ دے دیا جائے تاکہ کل اپنی مادی توقعات کو ناکام ہوتے دیکھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ یہ بیعت وقتی ضرورت اور ہنگامی جذبہ کے زیر اثر ہوگئی۔ اس میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تھا غرض جب اصرار حد سے بڑھا تو اس موقعہ پر یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس امر کو واضح کیا گیا کہ اگر تم مجھے مقاصد کے لئے چاہتے ہو تو میں تمہارا آلہ کار بننے کے لئے تیار نھیں، مجھے چھوڑ دو۔
اور اس مقصد کے لئے کسی اور کو منتخب کرلو جو تمہاری توقعات کو پوری کرسکے ۔ تم میری سابقہ سیرت کو دیکھ چکے ہو میں قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار نہیں اور نہ حکومت کے لئے اپنے اصول سے ہاتھ اٹھاؤں گا۔اگر تم کسی اور کو منتخب کرو گے تو میں ملکی قوانین و آئین حکومت کا اتنا ہی خیال کروں گا جتنا ایک پرامن شھری کو کرنا چاہی ئے ۔ میں نے کسی مرحلہ پر بھی شورش برپا کرکے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کو پراگندہ و منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہوگا بلکہ جس طرح مصالح عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح مشورے دیتا ہوں ۔ اب بھی دریغ نہ کروں گا اور اگر تم مجھے اسی سطح پر رہنے دو تو یہ چیز تمہارے دنیوی مفاد کے لئے بھتر ہوگی کیونکہ اس صورت میں میرے ہاتھ وں میں اقتدار نہیں ہوگا کہ تمہارے دنیوی مفادات کے لئے سدّ راہ بن سکوں، اور تمہاری من مانی خواہشوں میں روڑے اٹکاؤں، اور اگر یہ ٹھان چکے ہو کے میرے ہاتھ وں پر بیعت کیے بغیر نہ رہوگے تو پھر یاد رکھو چاہے تمہاری پیشانیوں پر بل آئیں اور چاہے تمہاری زبانیں میرے خلاف کھلیں میں حق کی راہ پر لے چلنے پر مجبور کردوں گا، اور حق کے معاملہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کروں گا اس پر بھی اگر بیعت کرنا چاہتے ہو تو اپنا شوق پورا کرلو ۔ امیر المومنینعليهالسلام
نے ان لوگوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا تھا بعد کے واقعات اس کی پوری پوری تصدیق کرتے ہیں ۔ چنانچہ جن لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے پیش نظر بیعت کی تھی جب انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بیعت توڑ کر الگ ہوگئے اور بے بنیاد الزامات تراش کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے) ۔
عدالت کے بغیر ہرگز نھیں
حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک مشکل یہ تھی کہ اس وقت کا معاشرہ ایک طرح کی بے مقصدیت میں کھو چکا تھا، لوگ ناجائز کاموں اور غلط رویوں کے عادی بن چکے تھے ۔پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ میں سفارش عروج پر تھی، خاندانی معیار فضیلت کو سامنے رکھا جاتا تھا ۔دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام تھے کہ عدالت کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ نہیں ہوں کہ عدالت سے ایک بال برابر بھی انحراف کروں یہاں تک کہ آپ کے ایک صحابی کو کہنا پڑا کہ قبلہ عالم آپ اپنے انداز میں کچھ نرمی لے آیئے ۔آپ نے اس کی بات کو سن کر احساس ناگواری کے ساتھ فرمایا:
"اتامرونی ان اطلب النصر بالجور والله ما اطور به ماسمر سمیر"
"یعنی کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم وزیادتی کرکے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے میں اس چیز کے قریب بھی نہیں بھٹکوں گا ۔"
سیاست ہو تو ایسی
حضرت علی علیہ اسلام کی تیسری مشکل یہ تھی کہ آپ کی سیاست سچائی، صداقت، اور شرافت پر مبنی تھی ۔آپ کی ہر بات حقیقت ہوا کرتی تھی ۔آپ لگی لپٹی بات کرنے کے عادی نہ تھے ۔اور نہ ہی کسی کو اندھیرے میں رکھتے تھے۔آپ کے اس انداز کو آپ کے کچھ دوست پسند نہ کرتے تھے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ مولاعليهالسلام
کچھ تو ظاہر ی رکھ رکھاؤ کر لیا کریں ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ سیاست یہ نہیں ہے کہ اس میں جھوٹ بولا جائے، یا منافقت اختیار کی جائے یا جھوٹ بول کر مطلب نکال لیا جائے، بلکہ سچی، کھری، حقیقی سیاست یہ ہے، کہ سچ کہو اس کے سوا کچھ نہ کہو۔ آپ کی حقیقت پسندی اور صاف گوئی کو دیکھ کر کچھ لوگ کھو کرتے تھے کہ علیعليهالسلام
تو سیاست نہیں جانتے، معاویہ کو دیکھئے وہ کتنا بڑا سیاسدان ہے آپ نے فرمایا:۔
"والله مامعاویة بادهی منی ولکنه یغدر ویفجر، ولولا کراهیة الغدر لکنت من ادهی الناس ولکن کل غدرة فجرة وکل فجرة کفرة ولکل غادر لواء یعرف به یوم القیامة!"
"یعنی خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا، اگر مجھے عیاری وغداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار وزیرک ہوتا ۔لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الٰہی کی نافرمانی ہے ۔چنانچہ قیامت کے دن ہر غداری کے ہاتھ وں میں ایک جھنڈا ہو گا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔"
(استاد محترم علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نے لکھا ہے کہ وہ افراد جو مذھب و اخلاق سے بیگانہ "شرعی قید وبند سے آزاد اور جزاء وسزا کے تصور سے ناآشنا ہوتے ہیں ان کے لئے مطلب براری کے لئے حیل وذرائع کی کمی نہیں ہوتی "وہ ہر منزل پر کامیابی وکامرانی کی تدبیریں نکال لیتے ہیں ۔جھاں انسانی واسلامی تقاضے اور اخلاقی وشرعی حدیں روگ بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں وہاں حیلہ وتدبیر کا میدان تنگ اور جولانگاہ عمل کی وصعت محدود ہوجاتی ہے۔ چنانچہ معاویہ کا نفوذ وتسلط انھی تدابیر وحیل کا نتیجہ تھا ۔جن پر عمل پیرا ہونے میں اسے کوئی روک ٹوک نہ تھی، نہ حلال وحرام کا سوال اس کے لئے سدراہ ہوتا تھا، اور نہ پاداش آخرت کا خوف، اسے ان مطلق العنانیوں اور بے باکیوں سے روکتا تھا، جیسا کہ جناب راغب اصفھانی اس کی سیرت وکردار کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں "اس کا مطمع نظر یہی ہوتا تھا کہ جس طرح بن پڑے اپنا مطلب پورا کرو نہ حلال وحرام سے اسے کوئی واسطہ تھا نہ دین کی اسے کوئی پرواہ تھی اور نہ خدا کے غضب کی کوئی فکر تھی ۔
چناچہ اس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے غلط بیانی وافزاء پردازی کے سہارے ڈھونڈھے ۔طرح طرح کے مکر وفریب کے حربے استعمال کیے اور جب یہ دیکھا کہ امیر المؤمنینعليهالسلام
کو جنگ میں الجھائے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی تو طلحہ وزبیر کو آپ کے خلاف ابہار کر کھڑا کردیا اور جب اس صورت سے کامیابی نہ ہوئی، تو شامیوں کو بھڑکا کر جنگ صفین کا فتنہ برپا کردیا اور پھر حضرت عمار کی شھادت سے جب اس کا ظلم و عدوان بے نقاب ہونے لگا تو عوام فریبی کے لئے کبھی یہ کہہ دیا کہ عمار کے قاتل علیعليهالسلام
ہیں، کیونکہ وھی انھیں ہمراہ لانے والے ہیں ۔اور کبھی حدیث پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں لفظ فئتہ باغیتہ کی یہ تاویل کی کہ اس کے معنی باغی گروہ کے نہیں بلکہ اس کے معنی طلب کرنے والی جماعت کے ہیں ۔یعنی عمار اس گروہ کے ہاتھ وں سے قتل ہوں گے جو خون عثمان کے قصاص کا طالب ہوگا، حالانکہ اس حدیث کا دوسرا ٹکڑا (کہ عمار ان کو بہشت کی دعوت دیں گے اور وہ انھیں جہنم کی طرف بلائیں گے) اس تاویل کی کوئی گنجائش پیدا نہیں کرتا، جب ایسے اوچھے ھتھیاروں سے فتح وکامرانی کے آثار نظرنہ آئے تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا پر فریب حربہ استعمال کیا حالانکہ اس کی نظروں میں نہ قرآن کا کوئی وزن اور نہ اس کے فیصلہ کی کوئی اہمیت تھی۔
اگر اسے قرآن کا فیصلہ ہی مطلوب ہوتا تو یہ مطالبہ جنگ کے چھڑنے سے پہلے کرتا اور پھر جب اس پر حقیقت کھل گئی کہ عمرو ابن عاص نے ابو موسی کو فریب دے کر اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے اور اس کے فیصلہ کو قرآن سے دور کا بھی لگاؤ نہیں ہے تو وہ اس پر فریب تحکیم کے فیصلہ پر رضا مند نہ ہوتا ۔اور عمروابن عاص کو اس فریب کاری کی سزادیتا یا کم از کم تنبیہ وسرزنش کرتا مگر یہاں تو اس کےکارناموں پر اس کی تحسین آفرین کی جاتی ہے۔ اور کار گردگی کے صلہ میں اسے مصر کا گورنر بنادیا جاتا ہے ۔اس کے برعکس امیر المؤمنینعليهالسلام
کی سیرت شریعت واخلاق کے اعلی معیار کا نمونہ تھی، وہ ناموافق حالات میں بھی حق صداقت کے تقاضوں کو نظر میں رکھتے تھے اور اپنی پاکیزہ زندگی کو حیلہ ومکر کی آلودگیوں سے آلودہ نہ ہونے دیتے تھے، وہ چاہتے تو حیلوں کا توڑ حیلوں سے کرسکتے تھے، اور اس کی رکاکت آمیز حرکتوں کا جواب ایسی ہی حرکتوں سے دیا جاسکتا تھا، جیسے اس نے فرآت پر پہرہ بٹھا کر پانی روک دیا تھا ۔تو اس کو اس امر کے جواز میں پیش کیا جاسکتا تھا کہ جب عراقیوں نے فرآت پر قبضہ کرلیا تو ان پر بھی پانی بند کردیا جاتا، اور اس ذریعہ سے ان کی قوت حرب وضرب کو مضمحل کر کے انھیں مغلوب بنالیا جاتا مگر امیر المؤمنینعليهالسلام
ایسے ننگ انسانیت اقدام سے کہ جس کی کوئی آئین واخلاق اجازت نہیں دیتا کبھی اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیتے تھے ۔اگر چہ دنیا والے ایسے حربوں کو دشمن کے مقابلہ میں جائز سمجھتے ہیں اور اپنی کامرانی کے لئے ظاہر و باطن کی دورنگی کو سیاست وحسن تدبیر سے تعبیر کرتے ہیں ۔
مگر امیر المؤمنینعليهالسلام
کسی موقعہ پر فریب کاری ودورنگی سے اپنے اقتدار کے استحکام کا تصور بھی نہ کرتے۔ چنانچہ جب لوگوں نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ عثمانی دور کے عمال کو ان کے عھد بر قرار رہنے دیا جائے اور طلحہ وزبیر کو کوفہ وبصرہ کی امارت دے کر ہمنوا بنا لیا جائے اور معاویہ کو شام کا اقتدار سونپ کر اس کے دنیوی تدبیر سے فائدہ اٹھایا جائے، تو آپ نے دنیوی مصلحتوں پر شرعی تقاضوں کو ترجیح دیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کردیا اور معاویہ کے متعلق صاف لفظوں میں فرمایا۔
"اگر میں معاویہ کو اس کے علاقہ پر برقرار رہنے دوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا قوت بازو بنارہاہوں۔"
ظاہر بین لوگ صرف ظاہر کامیابی کو دیکھنے ہیں اور یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ یہ کامیابی کن ذرائع سے حاصل ہوئی؟ یہ شاطرانہ چالوں اور عیارانہ گھاتوں سے جسے کامیاب وکامران ہوتے دیکھتے ہیں اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ اور اسے مدبر، بافہم اور سیاستدان وبیدار مغز اور خدا جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں، اور جو الٰہی تعلیمات اور اسلامی ھدایات کی پابندی کی وجہ سے چالوں اور ہتھکنڑوں کو کام میں نہ لائے اور غلط طریق کار سے حاصل کی ہوئی کامیابی پر محرومی کو ترجیح دے وہ ان کی نظروں میں سیاست سے ناآشنا اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے کمزور سمجھا جاتا ہے ۔انھیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ یہ سوچیں کہ ایک پابند اصول وشرع کی راہ میں کتنی مشکلیں اور رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں کہ جو منزل کامرانی کے قریب پہنچنے کے باوجود اسے قدم آگے بڑھانے سے روک دیتی ہیں۔
خوارج حضرت علیعليهالسلام
کیلئے ایک بنیادی مشکل
مولائے کائنات کی ایک بنیادی مشکل میں عرض کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس سے قبل ایک ضروری بات وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دور میں ایک گروہ پیدا ہوا یہ لوگ حضور کے پرچم تلے جمع ہوگئے ۔آپ نے اس طبقہ کو تعلیم وتربیت دی، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا ۔قدم قدم پر ان لوگوں کی رھنمائی کی ۔رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات اس کے قلب وذھن میں گھر کر گئیں ۔ادھر پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے سر زمین مکہ میں قریش سے طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں، آپ نے حد سے زیادہ مظالم سہے، لیکن آپ نے قدم قدم پر صبر وتحمل سے کام لیا ۔آپ کے اصحاب عرض کرتے ہیں کہ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم
آپ ہمیں جنگ لڑنے اور دفاع کرنے کی اجازت عنایت فرماہی دیں، آخر ہم کب تک ان لوگوں کے مظالم برداشت کرتے رہیں گے؟ آخر ہم کب تک ان لوگوں کے مظالم برداشت کرتے رہیں گے؟آخر کب تک یہ افراد ہم پر پتھروں کی بارش کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم ان کے کوڑے سہتے رہیں گے؟ ظالموں کا ظلم حد سے بڑھ گیا۔ آپ نے جھاد کی اجازت نہ دی، جب اصرار بڑھا تو آپ نے فرمایا آپ لوگ ہجرت کر سکتے ہیں ۔
ان میں سے کچھ لوگ حبشہ چلے آئے ۔یہ ہجرت مسلمانوں کے لئے سودمند ثابت ہوئی ۔اس سوال کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم
تیرہ سال کی مدت میں کیا کرتے رہے؟ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم
لوگوں کی تربیت کرتے رہے، ان کو تعلیم کی روشنیوں سے روشناس کراتے رہے ۔ہجرت کے وقت ان لوگوں کی تعداد ایک ھزار کے لگ بھگ تھی ۔یہ لوگ اسلام کی حقیقتوں کو پوری طرح سے جانتے تھے ۔ان کی تربیت خالصتاً اسلامی طریقے پر ہوئی۔ درحقیقت یہ ایک تحریک تھی ایسے افراد کی جو تعلیم وتربیت، علم وعمل کے اسلح سے لیس تھے ۔
راہ حق کےجانبازوں نے قریہ قریہ، گلی گلی جاکر اسلام کا پرچار کیا، جس طرح ان کی تبلیغ میں تاثیر تھی اسی طرح لوگوں نے اتنی ہی تیزی سے اسلام کو قبول کیا۔نتیجہ چہار سوا اسلام کی کرنیں پھیل گئیں ۔ماحول منور ہوگیا، فضا معطر ہوگئی، بس کیا تھا ہر طرف اسلام ہی اسلام کی باتیں ہو رہی تھیں، پرچم اسلام بڑی زرق و برق اور شان وشوکت کے ساتھ لھرارہا تھا ۔
یھاں پر میں اتنا عرض کروں گا کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت علی علیہ اسلام کے زمانوں اور حالات میں بہت فرق تھا۔ جناب رسلتمابصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مقابلے میں کافر تھے ۔ایسے لوگ کہ جن کا عقیدہ صریحاً کافرانہ ومنکرانہ تھا ۔وہ علانیہ طور پر کھا کرتے تھے کہ ہم کافر ہیں اور کفر ہی کی حفاظت کے لئے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے لڑرہے ہیں، لیکن جناب علیعليهالسلام
کا مقابلہ منافقوں سے تھا ایسے منافق کہ جن کی زبان پر تو اسلام تھا لیکن ان کے دل کفر کا دم بھرتے تھے ۔اسلام وقرآن کا نام تو لیتے تھے لیکن اندر سے وہ اسلام کے سخت مخالف اور قرآن کے دشمن تھے ۔عثمان کے دور خلافت میں ان لوگوں نے بے پناہ فتوحات حاصل کیں لیکن انھوں نے حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم
پاک کی تمام تر تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ۔
آپ نے تیرہ ۱۳ سال تک لوگوں کو دفاع وجھاد کی اجازت اس لئے نہ دی کہ یہ لوگ بہت کم ظرف تھے ۔حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تمام کوششوں کا محور یہ تھا کہ اسلامی تھذیب پھلے پھولے، ایمانی تمدن میں وسعت پیدا ہو، لوگ پرچم اسلام تلے جمع ہوں، بدقسمتی سے اس وقت کے لوگ اپنے اس راستے سے ھٹ گئے جو کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے متعین کیا تھا وہ ظاہر میں اسلام اسلام کی رٹ لگاتے ہوئے نظر آتے تھے لیکن حقیقت میں وہ حقیقی اسلام اور اسلام محمدی کی اصلی روح سے ناآشانا تھے ۔یہ لوگ نماز پڑھتے، روزہ رکھتے تھے لیکن ان کے قلوب معرفت اور ان کے اذھان بصیرت سے بلکل ناواقف تھے ۔یوں سمجھ لیجئے کہ یہ لوگ خالی خولی اور خشک مقدس تھے ۔لمبی لمبی داڑھیاں اور پیشانیوں پر سجے ہوئے سجدہ کے علامتی نشانات، صوفیانہ وضع قطع، مولویانہ انداز زندگی، زاہدانہ رھن سھن رندانہ طرز تبلیغ ۔یہ تقدس مآب لوگ لمبے لمبے سجدے کرتے تھے ۔جب حضرت علی علیہ السلام نے جناب ابن عباس کو ان کے پاس بھیجا تو یہ سب مولائے کائنات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابن عباس نے مولا کی خدمت میں عرض کی کہ :۔
"لهم جباه قرحة لطول السجود"
مولاان کی پیشانیا ں کثرت سجود سے زخمی ہو گئی ہیں "
واید کثفنات الابل"
ان کے ہاتھ اونٹ کے زانو کی مانند سخت ہو چکے ہیں "
علیهم قمص مرحضة"
انھوں نے پرانے لباس پھن کر خود کو زاہد ظاہر کررکھا ہے "
وهم مشمرون "
تاویل کی کوئی گنجائش پیدا نھ "یہ سب کے سب ایک ہی طرز کی زندگی گزار رہے ہیں "
یہ طبقہ اور یہ گروہ جھاں جاہل اور نادان تھا وہاں خشک مقدس بھی تھا ۔ ان کا زاہدانہ انداز زندگی بھی حقیقی نیکی اور اخلاص ومعرفت سے خالی تھا ۔انھوں نے اسلام اسلام کی رٹ لگا رکھی تھی ۔ان کو یہ خبر نہ تھی کہ اصل اسلام کیا ہے، اسلامی تعلیمات کا مقصد حقیقی کیا ہے؟اسلام کن کے لئے اور کس کس مقصد کے لئے لایا گیا ہے؟ مولا امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا رک جاؤ ۔ٹھرجاؤ میری طرف توجہ کرو، میری بات سنو میں آپ کو بتاتاہوں یہ کون لوگ ہیں؟
"جفاة طغام عبید اقزام، جمعوا من کل اوب وتلقطوا من کل شوب ممن ینبغی ان یفقه ویودب ویعلم ویدرب لیسو من المهاجرین والا نصار ولا من الذین تبؤ الدار وایمان !"
"یعنی وہ تندخواوباش اور کمینے بدقماش ہیں کہ ہر طرف اکھٹے کر لئے گئے ہیں۔اور مخلوط النسب لوگوں میں سے چن لئے گے ہیں ۔وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو جھالت کی بناء پر اس قابل ہیں کہ انھیں ابھی اسلام کے متعلق کچھ بتایا جائے، اور شایستگی سکھائی جائے اچھائی اور برائی کی تعلیم دی جائے، اور عمل کی مشق کرائی جائے، اور ان پر کسی نگران کو چھوڑا جائے، اور ان کے ہاتھ پکڑ کر چلایا جائے، نہ تو وہ مھاجر ہیں نہ انصار اور نہ ان لوگوں میں سے ہیں جو مدینہ میں فروکش تھے"۔
حضرت علی علیہ السلام جب مسند خلافت پر بیٹھے تو عجیب وغریب صورت حال تھی، اور اس نوع کے مسلمان موجود تھے یہاں تک کہ آپ کے سپاہی وں اور فوجیوں میں بھی اس طرح کے لوگ موجود تھے ۔آپ جنگ صفین میں معاویہ اور عمر وعاص کی شاطرانہ چالوں کے بارے میں بار بار پڑھ چکے ہیں، اور متعدد بار سن چکے ہیں جب ان لوگوں نے دیکھا کہ وہ شکست کے قریب ہیں تو انھوں نے ایک بھانہ اور ایک اسکیم تیار کی اور ایک حیلہ تراشا تاکہ جنگ بند ہوجائے ۔چنانچہ ان لوگوں نے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اے لوگو!ھم سب قرآن مجید کو ماننے والے ہیں، ہمارا قبلہ پر بھی مکمل ایمان ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں؟اگر آپ لڑنا بھی چاہتے ہیں تو آیئے سب سے پھلے قرآن پر حملہ کیجئے ۔یہ سننا تھا سبھی تلواریں نیام میں کر لیں، اور جنگ بندی کا اعلان کردیا اور ایک زبان ہو کر کھا بھلا کس طرح قرآن مجید سے لڑائی کی جاسکتی ہے؟
یہ لوگ فوراًمولا علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مولا مسئلہ حل ہوگیا ہے، قرآن مجید کی وجہ سے لڑائی ختم ہوچکی ہے ۔جب ہمارے درمیان قرآن مجید آگیا تو پھر جھگڑا کس بات کا، لڑائی کس چیز کے لئے" جنگ وجدال کا کیا مقصد؟ یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا کیا ہم نے پھلے ہی دن سے یہ نہیں کھا تھا کہ ہمیں قرآن مجید اور اسلام کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہئے، دیکھیں تو سھی کہ ہم میں حق پر کون ہے؟ یہ جھوٹ بکتے ہیں "یہ قرآن مجید نہیں لے آئے بلکہ قرآن مجید کی جلد اور کاغذ کو ڈھال قرار دیا ہے تاکہ بعد میں قرآن مجید کے خلاف قیام کریں ۔آپ اس کی طرف دھیان نہ دیں ۔میں تمہارا امام ہوں"میں ہی قرآن ناطق ہوں ۔ آپ لڑیں اور خوب لڑیں یہاں تک کہ ٹڈی دل دشمن میدان سے بھاگ جائے ۔یہ سن کر یہ لوگ کھنے لگے یا علیعليهالسلام
آپ کیسی باتیں کررہے ہیں ۔اب تک تو ہم آپ کو اچھا انسان خیال کرتے رہے ہیں ۔لیکن ہمیں اب پتہ چلا کہ آپ جاہ طلب انسان ہیں "بھلایہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم قرآن مجید کے خلاف جنگ کریں؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا لڑنا ہے تو آپ خود جاکر لڑیں ہم اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب نہیں کرسکتے؟
مالک اشتر میدان جنگ میں نبرد و پیکار تھے ۔ان لوگوں نے امام سے بار بار اصرار کیا کہ مولا مالک سے کھیں کہ وہ واپس آجائیں اور قرآن مجید کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لیں ۔امام نے پیغام بھیجا مالک واپس لوٹ آیئے ۔مالک نے عرض کی کہ قبلہ عالم ایک دو گھنٹہ کی مھلت دیجئے یہ ٹڈی دل لشکر جنگ ہارنے والا ہے ۔یہ واپس آگئے اور عرض کی مولا مالک جنگ کرنے سے باز نہیں آرہے ۔آیا یا مالک کو روکیں ورنہ بیس ھزار تلوار آپ پر حملہ آور ہوجائے گی ۔مولا نے پیغام دیا کہ مالک اگر تم علیعليهالسلام
کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو واپس لوٹ آؤ ۔وہ لوگ حضرت کے پاس آئے اور عرض کی ہم دو شخص بطور منصف تجویز کرتے ہیں ۔اب جبکہ قرآن مجید کی بات نکلی ہے تو ہم بھترین منصف مقرر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عمر وعاص کا نام تجویز کیا اور جناب امیر علیہ السلام نے ابن عباس کا نام پیش کیا، اس پر راضی نہ ہوئے اور کہا یا علیعليهالسلام
چونکہ وہ آپ کے چچازاد بھائی ہیں اور آپ کے رشتہ دار ہیں ہم تو اس شخص کے نام کی منظوری دیں گے جو کہ رشہ میں کچھ نہ لگتا ہو ۔آپ نے فرمایا ابن عباس نہ سھی "مالک اشتر کا نام لکھ لیں"وہ بولے مالک بھی ہمیں منظور نہیں ہیں ۔امام نے چند نام اور دیئے انھوں نے منظور نہ کیے ۔آپس میں صلاح مشورہ کرکے بولے کہ ہم تو صرف ابو موسی اشعری کو تسلیم کرتے ہیں ۔ابو موسی وہ شخص ہے جو اس سے بیشتر کوفہ کا گورنر تھا اور مولا ئے کائنات نے اس کو عھدہ سے معزول کردیا تھا ۔
ابو موسی کا دل حضرت علی علیہ السلام کے لئے صاف نہیں تھا بلکہ وہ امام علیہ السلام کے خلا ف شدید قسم کا کینہ وبغض رکھتا تھا ۔وہ لوگ ابو موسی کو لے آئے، لیکن عمر وعاص نے ابو موسی کو بھی دھوکہ دے دیا ۔جب ان لوگوں نے سمجھا کہ وہ فیصلہ کے وقت دھوکہ کھا چکے ہیں تو امامعليهالسلام
کے پاس آئے اور کھا کہ ہمیں تو فریب دیا گیا، دراصل ان کا یہ اعتراف جرم ایک طرح کی دوسری غلطی تھی ۔اس وقت ہم جنگ سے ہاتھ نہ اٹھاتے اور معاویہ سے لڑتے رہتے، وہ جنگ ایک عام جنگ تھی، اس میں قرآن مجید کا کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا، ہم نے ابو موسی کو منصف مان لر بھی شدید غلطی کی ہے، ہم اگر ابن عباس یا مالک اشتر کو مان لیتے تو بھتر تھا، واقعتاًجو شخص خدا کے فیصلے سے ھٹ کر کسی انسان کا فیصلہ مان لیتا ہے وہ حقیقت میں کفر کرتا ہے:
"ان الحکم الا لله"
حکومت تو بس صرف خدا ہی کے لئے ہے"
جب قرآن مجید نے کھا کہ فیصلہ صرف اللہ تعالی کا ہونا چاہئے کوئی انسان اس کے بغیر فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ چنانچہ ہم سب کافر ومشرک ہو گئے اس لئے ہم سب کو بارگاہ الٰہی میں توبہ کرنی چاہی ے ۔ "استغفراللہ ربی واتوب الیہ" کھنے لگے یا علیعليهالسلام
آپ بھی ہماری طرح منکر خدا ہوگئے ہیں، اس لئے توبہ کریں ۔اب آپ اندازہ فرمائیں کہ علیعليهالسلام
کس قدر مشکلات میں ہیں۔ یہاں پر ایک طرف معاویہ۔۔۔۔۔۔علیعليهالسلام
کے لئے دردسر اور مسئلہ بناہوا ہے، دوسری طرف عمرو عاص نے مولا کو پریشان کر رکھا ہے"تیسرا ان عقل کے اندھوں اور جاہل ترین افراد نے امامعليهالسلام
وقت کے لئے مسئلہ کھڑا کر رکھا ہے ۔آپ نے فرمایا، نہیں نھیں تم لوگ غلطی پر ہو فیصلہ کرنا کفر نہیں ہے"دراصل تم لوگوں کو اس آیت(
ان الحکم الا لله
)
کا معنی ہی نہیں آتا ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جو قانون اللہ تعالی کا معین کردہ ہو"اور اس نے اپنے بندوں کو اس پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہو کیا تم بھول گئے ہو جب ہم نے کھا تھا"کہ دو آدمی لے آؤ جو قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کریں ۔آپ نے فرمایا کہ میں نے کسی قسم کی غلطی نہیں کی جو چیز شریعت کے خلاف نہیں ہے ۔میں اس کو کیسے غلط کہہ سکتا ہوں۔یہ نہ کفر ہے اور نہ شرک یہ تو ہے۔ میرا فیصلہ۔ آگے آپ لوگوں کی اپنی مرضی ۔
خوارج کے ساتھ علیعليهالسلام
کا رویہ
ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے اپنا راستہ جدا کر لیا، خوارج کے نام سے ایک فرقہ بنالیا ۔ان کا مقصد صرف اور صرف علی علیہ السلام کی مخالفت کرنا تھا جب تک ان لوگوں نے امام علیہ السلام کے خلاف مسلح جنگ نہ کی اتنے تک امام علیہ السلام ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہے، یہاں تک کہ بیت المال میں سے ان کے مستحق لوگوں کو حصہ دیا جاتا تھا، ان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ کی ۔
وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
خارجی لوگ دوسروں کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی اہانت کرتے، لیکن امام علیہ السلام خاموش رہتے اور صبر وتحمل سے کام لیتے ۔آپ جب منبر پر تقریر کررہے ہوتے تو کچھ خارجی آپ کی تقریر کے دوران سیٹیاں بجاتے اور آوازیں کستے۔ ایک روز آپ تقریر فرمارہے تھے ایک شخص نے امام علیہ السلام سے ایک مشکل ترین سوال کیا، آپ نے اسی وقت اس انداز میں اس قدر آسان جواب دیا کہ تمام مجمع عش عش کر اٹھا، تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں ۔وہاں پر ایک خارجی بیٹھا ہوا تھا اور بولا :
"قاتله الله ماافقهه"
کہ خدا ان کو مار ڈالے کس قدر علامہ ہے یہ شخص"
آپ کے اصحاب نے اس شخص کو پکڑ کر مارنا چاہا لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا اسے چھو ڑدو اس نے بدتمیزی تو مجھ سے کی ہے زیادہ سے زیادہ تو آپ اس کو توبیخ ہی کرسکتے ہیں۔ اس کو اپنے حال پر رہنے دو، جو کھتا ہے کھتا پھرے جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں ۔
علی علیہ السلام حاکم وقت تھے، مسجد میں نماز، باجماعت پڑہارہے تھے آپ اندازہ فرمایئے کیسا حلیم وبردبار ہے ہمارا امامعليهالسلام
ان خارجیوں نے آپ کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھی، کھنے لگے علیعليهالسلام
تو (نعوذباللہ) مسلمان ہی نہیں ہیں، یہ کافر ومشرک ہیں، حالانکہ حضرت سورہ حمد اور دوسری سورہ کی تلاوت کررہے تھے۔وہاں پر ابن الکواب نامی شخص موجود تھا، اس نے طنزیہ طور پر یہ آیت بلند آواز سے پڑھی :۔
"ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک"
"وہ یہ آیت پڑھ کے یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ یا علیعليهالسلام
یہ درست ہے کہ آپ سب سے زیادہ پکے مسلمان ہیں، آپ کی عبادات اور دینی خدمات قابل قدر ہیں، چونکہ آپ نے نعوذباللہ شرک کیا ہے "علی علیہ السلام اس آیت کے مطابق :
"واذا قری القرآن فاستمعواله وانصتوا"
" (لوگو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو اور چپ چاپ رہو"
آپ خاموش ہو کر نماز پڑھتے رہے اس نے تین چار مرتبہ اسی طرح کا طنز کیا، آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
"فاصبر ان وعدالله حق لا یستخفنک الذین لا یوقنون"
اے رسول !تم صبر کرو "بیشک خدا کا وعدہ سچاہے اور کھیں ایسا نہ ہو کہ جو لوگ (تمہاری) تصدیق نہیں کرتے تمھیں (بہکا کر) خفیف کردیں ۔"
خوارج کا عقیدہ
کیا خارجیوں نے اس حد تک اکتفاء کیا ہے؟ اگر اتنا ہی کرتے تو حضرت علی علیہ السلام کے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا اور نہ ہی اتنی پریشانی کی بات تھی ۔انھوں نے اہستہ اہستہ فرقے اور گروہ کی صورت اختیار کر لی، جس طرح ہم نے عرض کیا ہے کہ وہ ظاہر ی صورت میں تو مسلمان تھے لیکن وہ پس پردہ کافر ومشرک تھے، کیونکہ انھوں نے اپنی طرف سے ایک نظریہ بلکہ عجیب قسم کے نظریات قائم کر لئے تھے ۔ان کا عقیدہ تھا کہ چونکہ حضرت علیعليهالسلام
عثمان اور امیر معاویہ کے حکم (منصف) کو قبول کیا ہے، اس لئے وہ اپنے اسلامی عقیدہ سے منحرف ہوگئے ہیں ۔ان کے نزدیک وہ بھی کافر ہوگئے تھے ۔چونکہ بقول ان کے ہم نے توبہ کرلی ہے اس لئے ہمارا عقیدہ صحیح ہو گیا ہے ان کے نزدیک امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔
یہ ظالم حکمران ان کے خلاف قیام کرنے کو جائز نہ سمجھتے تھے۔یہ لوگ دراصل انتھا پسند اور متعصب قسم کے تھے کہ جو خود کو اچھا سمجھتے تھے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے رہتے تھے ان کاعقیدہ تھا کہ عمل ایمان کا جز ہے وہ کھتے تھے کہ جو
"اشهد ان لااله الاالله واشهد ان محمداً رسول الله "
کھے اور دل سے نہ مانے، تو کھنے سے انسان مسلمان نہیں ہوجاتا ۔اگر وہ نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، شراب نہ پیئے، جوا نہ کھلئے، فعل بد کا مرتکب نہ ہو، جھوٹ نہ کھے اگر وہ تمام گناہ نہ کرے تو تب مسلمان ہے ۔اگر ایک مسلمان جھوٹ بول لیتا ہے وہ کافر ہوجائے گا، وہ نجس ہے، اور مسلمان نہیں ہے ۔اگر ایک مرتبہ غیبت کرے یا شراب پی لے تو دین اسلام سے خارج ہے۔ غرض کہ انھوں نے گناہان کبیرہ کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا ہے ۔ یہ لوگ دوسروں کو ناپاک، کافر، مشرک اور نجس سمجھتے تھے ۔ صرف اپنے آپ کو ہر لحاظ سے نیک اور پاک خیال کرتے تھے ۔ گویا یہ زبان حال سے کھہ رہے تھے کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی بھی ان کے سوا مسلمان وجود نہیں رکھتا ۔ ان کے نزدیک امر بالمعروف اور نھی عن المنکر واجب ہے ۔ لیکن اس کی کوئی شرط و غیرہ نہیں ہے ۔ یہ لوگ مولا علی علیہ السلام کو نعوذ باللہ مسلمان نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کا کھنا تھا کی علیعليهالسلام
کے خلاف قیام کرنا اور ان سے جنگ نہ فقط کار ثواب ہے بلکہ بہت بڑی عبادت ہے ۔ ان جاہلوں اور تنگ نظر لوگوں نے شھر کے باہر خیمہ نصب کیا ۔ اور باغی ہونے کا اعلان کردیا ۔ ان کے عقائد اور نظریات میں انتھا پسندی، تنگ نظری کے سوا کچھ نہ تھا یہ خارجی چونکہ دوسرے لوگوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے، اس لئے ان کا عقیدہ تھا کہ ان لوگوں کو رشتہ دینا چاہی ے نہ لینا چاہی ے ۔ ان کا ذبح شدہ گوشت حلال نہیں ہے، بلکہ ان کی عورتوں اور ان کے بال بچوں کا قتل جائز اور باعث ثواب ہے ۔
انھوں نے شھر سے باہر ایک ڈیرہ جما لیا اور شھر کے باسیوں کی قتل و غارت شروع کردی، یہاں تک کہ ایک صحابی رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں سے گزر رہا تھا وہ بی بی حاملہ تھی انھوں نے اس صحابی سے کھا کہ وہ علیعليهالسلام
پر تبرا کریں ۔ جب انھوں نے انکار کیا تو ان ظالموں نے اس عظیم اور بزرگ صحابی کو قتل کردیا اور اس کی بیوی کے شکم کو نیزے سے زخمی کردیا اور کھا تم کافر تھے اس لئے ہم نے تمہارے ساتھ ایسا کیا ۔ یہ خارجی ایک دوسرے خارجی کے باغ سے گزر رہے تھے تو ایک خارجی نے کھجور کا ایک دانہ توڑ کر کھا لیا تو سبھی چیخ پڑے اور بلند آواز سے کھا کہ اس کا مال نہ کھاؤ کیونکہ ہمارا مسلمان بھائی ہے ۔ یعنی یہ خارجی اور پلید صفت انسان دوسرے مسلمان کو کافر اور خود کو مسلمان کھا کرتے تھے ۔
خارجیوں کے ساتھ مولا علیعليهالسلام
کا مجاہدانہ مقابلہ
خارجیوں کی جارجانہ کاروائیاں اور ظالمانہ سرگرمیاں جب حد سے تجاوز کرنے لگیں تو مولا علیعليهالسلام
نے ان کے مقابلے میں ایک جری بھادر افراد پر مشتمل ایک لشکر تشکیل دیا، اب دوسرے مسلمانوں اور بے گناہ انسانوں کو خارجیوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا تھا ۔آپ نے ابن عباس کو ان سے بات چیت کرنے کیلئے بھیجا "جب وہ وآپس آئے تو مولا کوان الفاظ میں رپوٹ دی" یا حضرت!ان کی پیشانیوں پر محرابوں کا نشان ہے۔ان کے ہاتھ کثرت عبادت کی وجہ سخت ہوگئے ہیں"پرانا لباس اور زاہدانہ انداز زندگی مولا میں کس طرح ان کے ساتھ مذاکرات کروں؟ حضرت علی علیہ السلام خود تشریف لے گئے اور ان سے بات چیت کی، اور یہ گفتگو بہت سود مند ثابت ہوئی ۔بارہ ھزار افراد میں سے آٹھ ھزار آدمی نادم وشرمندہ ہوئے ۔علی علیہ السلام نے ایک علم نصب کیا اور فرمایا جو شخص اس پرچم تلے آجائے گا وہ محفوظ رہے گا ۔آٹھ ھزار آدمی اس پرچم کے سائے میں آگئے ۔لیکن چار ھزار اشخاص نے کہا کہ ہم کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے ۔
کائنات کے عظیم صابر اور بھادر امام نے تلوار اٹھائی اور ان ظالموں کی گردنیں گاجر مولی کی طرف کاٹ ڈالیں ۔ان میں دس آدمیوں نے معافی مانگ لی، آپ نے ان کو چھوڑدیا ۔ان نجات پانے والوں میں سے ایک عبدالرحمٰن بن ملجم تھا۔ یہ شخص خشک مقدس انسان تھا۔حضرت علی علیہ السلام کا نھج البلاغہ میں ایک جملہ ہے"واقعتاًعلیعليهالسلام
علیعليهالسلام
ہے "یھاں سے اس عالی نسب امام کی عظمت ورفعت ظاہر ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں :۔
"انا فقات عین الفتنة ولم یکن لیجتری علیها احد غیری بعدان ماج غیبها واشتد کلبها"
"اے لوگو!میں نے فتنہ وشر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں۔ جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں اور (دیوانے کتوں کی طرح) اس کی دیوانگی زورں پر تھی تو میرے علاوہ کسی ایک میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھتا"۔
اس طرح کے لوگ جو خود کو مقدس اور پارسا سمجھتے ہیں ان کا ذھن اتنا تنگ وتاریک ہو چکا ہوتا ہے کہ کسی کی بات کو برداشت نہیں کرتے ۔اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو جان سے ماردینے میں کسی قسم کی پس وپیش نہیں کرتے ۔یھی لوگ تھے جو یزید کے حق میں ایک جگہ پر جمع ہوگئے اور امام حسینعليهالسلام
اور ان کے ساتھیوں کو شھید کر ڈالا ۔اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ کرنا واقعتاً دل گردے کی بات ہے ۔یہ ایک طرف قرآن مجید پڑھتے، خدا کی عبادت کرتے تھے دوسری طرف دنیا کے صالح ترین افراد کو قتل کرتے ۔مولا خود فرماتے ہیں کہ ان مشکل ترین حالات میں میرے سوا کسی میں جرأت پیدا نہ ہوئی کہ ان کی جارحیت کا مقابلہ کرتے، حالانکہ اس وقت بڑے بڑے ایسے ایسے لوگ تھے جو خود کو سب سے بڑا مسلمان کہلواتے تھے"لیکن میں نے ان ظالموں کے خلاف تلوار بلند کی اور مجھے اس پر فخر ہے اس کے بعد فرماتے ہیں:
"بعد ان ماج غیبها"
"یعنی میں نے فتنہ وشر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں ۔اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں"
امام علیہ السلام کا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت حالات بہت زیادہ پیچیدہ تھے صورت حال انتھائی خطرناک تھی۔ ابن عباس جب ان کےپاس گئے تو دیکھا یہ تو بہت زیادہ عبادت کرنے والے ہیں ۔ان کی شکل وصورت پ رہی ز گاروں جیسی ہے'ان کو مارنا اور ان کے خلاف تلوار بلند کرنا واقعتاً مشکل بات تھی۔اگر ابن عباس کی جگہ پر ہم بھی ہوتے تو ان لوگوں کے خلاف ذرا بھی قدم نہ اٹھاتے ۔لیکن علی علیہ السلام کی معرفت اور جرأت کا کیا کہنا؟ آپ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑوں کو کمزور کررہے ہیں تو آپ نے دنیا اور دنیاداروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خارجیوں پر ایسی شمشیر زنی کی کہ منافقوں کا ستیاناس ہوگیا ۔اور اسلام حقیقی کا روشن اور تابناک چھرہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکھر کر سامنے آگیا۔ "واشتدکلبھا " اور دیوانے کتوں کی طرح اس کی دیوانگی زوروں پر تھی ۔حضرت کا جملہ بہت ہی عجیب وغریب جملہ ہے ۔آپ نے ان لوگوں کو ایک باؤ لے کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جب کوئی کتا باؤلے پن کا شکار ہوتا ہے تو اس کے سامنے جو بھی آتا ہے وہ اس کو کاٹ لیتا ہے۔ آپنے پرائے کی پروا نہیں کرتا وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ یہ اس کا مالک ہے ۔یا یہ کوئی دوسرا شخص ہے ۔ اس قسم کے کتے کی زبان نکلی ہوتی ہے، رال ٹپکا رہا ہوتا ہے، جب کسی گھوڑے سے گزرتا ہے یا کسی انسان سے تو ان کو بھی باؤلے پن کا مریض بنادیتا ہے، امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ مقدس مآب اور جعلی شریف نما لوگ دیوانے کتے کی مانند ہیں ۔یہ جس کو بھی کاٹتے ہیں اسے دیوانہ اور پاگل کردیتے ہیں ۔اورر دیوانے کتوں کا ایک ہی علاج ہے ان کو ختم کردیا جائے اگر امام علیہ السلام ان کتوں کا سر قلم نہ کرتے اور شمشیر حیدری کے ذریعے انھیں صفحہ ہستی سے نہ مٹاتے تو یہ بیماری پورے معاشرہ میں پھیل جاتی اور اس کو حماقت، جھالت اور نادانی کا شکار بنادیتی۔میں نے جب دیکھا کہ اسلام اور اسلامی معاشرہ ان جاہلوں کی وجہ سے سخت خطرہ میں ہے تو میں نے انتھائی جرأت مندی کے ساتھ اس بڑے فتنہ کو فنا کے گھاٹ اتار کر اسے خاموش کردیا ہے ۔
خارجیوں کی ھٹ دھرمی
خارجیوں کی ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں انتھائی مضبوط تھے۔جب عقیدہ اور نظریہ کی بات ہوتی تو یہ لوگ مرمٹتے تھے ۔انکی دوسری خوبی یہ تھی کہ یہ لوگ عبادت بہت زیادہ کرتے تھے ۔ان کی یہ صفت دوسروں کو ان کے بارے میں اچھا تأثر پیدا کرتی تھی یھی وجہ ہے کہ مولاعليهالسلام
نے فرمایا کسی ایک کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ ان پر شمشیر زنی کرے ۔ان میں تیسری بات یہ تھی کہ یہ لوگ جھالت ونادانی میں بھی بہت آگے تھے ۔یعنی پرلے درجے کے اجڈ اور ان پڑھ تھے ۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ ان کی جھالت اور نادانی کی وجہ سے اسلام پر کیا کیا گزری؟ نھج البلاغہ بہت عظیم کتاب ہے ہر لحاظ سے عجیب ہے، اسکی توحید عجیب، اس کی وعظ ونصیحت عجیب اس کی دعا والتجاء عجیب، اس کے تجزیئے عجیب ۔علی علیہ السلام جب معاویہ اور خارجیوں کے بارے تبصرہ فرماتے تھے تو کمال کر دیتے ہے۔ آپ نے خارجیوں سے فرمایاکہ "ثم انتم اشرار الناس "کہ تم بدترین لوگ ہو" آخر کیا وجہ ہے کہ آپ ان شریف نما لوگوں کو برے القابات کے ساتھ یاد کر رہے ہو۔
اگر ہم اس جگہ پر ہوں تو ہمیں کھیں گے کہ آدمی وہ اچھاہے جو دوسروں کو فائدہ پھنچائے اور نقصان نہ پھنچائے "کچھ لوگ ان شریف نما لوگوں کو دیکھ کر ان کو صالح اور پاکباز انسان کا لقب دے رہے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام ان کو بدترین اشخاص کہہ رہے ہیں؟ اس کے بعد فرماتے ہیں ۔ دراصل تم اور تم جیسے لوگ شیطان کے آلہ کا رہی ں۔ شیطان تمہارے ذریعہ سے لوگوں کو فریب دیتا ہے اور تمھیں کمان بناکر دوسروں پر تیر اندازی کرتا ہے ۔حضرت علی علیہ السلام واضح اور واشگاف الفاظ میں خارجیوں کی اس لئے مذمت کررہے ہیں یہ لوگ ظاہر میں قرآن پڑھتے ہیں لیکن حقیقت میں قرآنی تعلیمات کے خلاف کام کرتے ہیں ۔نمازیں پڑھتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں لیکن ان کی عبادت سے حقیقت کی بو نہیں آتی انھوں نے ظاہر ی شکل وصورت اور وضع قطع سے عام لوگوں کو فریب دے رکھا ہے ۔
آپ نے تاریخ کو پڑھا ہو گا کہ حضرت علی علیہ السلام کے دور میں عمرو عاص اور معاویہ جیسے لوگ بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کی غیر معمولی صلاحیتوں اور معجزاتی حیثیتوں سے واقف تھے" اور یہ وہ بھی جانتے تھے کہ شجاعت، زھد وتقوی علم وعمل میں علیعليهالسلام
کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔معاویہ حضرت علی علیہ السلام کی بہت زیادہ تعریفیں کرتا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے امام علیہ السلام سے جنگیں کیں، اور مختلف مواقع پر سازشوں کے جال بچھاتا رہا ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتے اور مانتے اور دیکھتے ہوئے بھی امام وقت کا مقابلہ کرتا ہے؟ جواب صاف ظاہر ہے اس کی عقل اور اس کے دل پر پردہ پڑ چکا تھا اور وہ عقل کا اندھا شخص شیطان کا آلہ کار بن کروہ کچھ کرتا رہا جو نہیں کرنا چاہی ئے تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ جب مولا علی علیہ السلام شھید ہوئے تو آپ کی شھادت کے بعد امام علیہ السلام کا جو بھی صحابی معاویہ کے پاس آتا تو یہ سب سے پہلے جو اس سے فرمائش کرتا تھا وہ یہ تھی میرے سامنے علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب اور ان کی خوبیاں بیان کرو، جب اس کے سامنے امام علیہ السلام کا تذکرہ کیا جاتا تو اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو چھلک پڑتے، اپنا زانو پیٹتا اور افسوس کرتے ہوئے وہ کھتا تھا ھاے افسوس اب علی علیہ السلام جیسا کوئی دنیا میں نہیں آئے گا۔
عمر وعاص اور معاویہ جیسے لوگ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت اور عظیم الشان حکومت سے بخوبی واقف تھے آپ کے ارفع و اعلی مقاصد کو بھی اچھی طرح سے جانتے تھے، لیکن دنیا کی زرق برق نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا تھا اور سیم و زر کی محبت اور طمع و لالچ نے ان کے دلوں پر تالے لگا رکھے تھے۔ دراصل یہ لوگ منافق تھے۔ انھوں نے لوگوں کو فریب دینے کیلئے دینی طرز کی وضع قطع بنا رکھی تھی۔ ان کا اصل مقصد تو مال ودولت اکٹھا کرنا اور اقتدار وحکومت کو حاصل کرنا تھا ۔ علی علیہ السلام کا دشمن اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ تھا۔ اور عمر و عاص، معاویہ اور ابن ملجم جیسے منافقوں، ظالموں، شیطانی آلہ کاروں کا علی علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ تھا۔ یہ شیطانی چال چلنے والے ابلیس سیاست کے پرزے علی۔ علیہ السلام جیسے مرد خدا کو طرح طرح کے جالوں میں الجھاتے رہے
علی علیہ السلام پر جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے، طرح طرح کی تھمتوں سے آپ کے دامن پاک کو داغدار بنانے کی کوشش کی جاتی یہاں تک کہ جو چیز یں علی علیہ السلام میں نہ تھیں ان کو توڑمروڑ کر آپ کی ذات پاک کے ساتھ نتھی کردیا جاتا تھا۔ ان بدبختوں نے علی علیہ السلام کو کافر، مشرک تک بھی کھا۔ (نعوذباللہ)
کسی نے ابن سینا کی اس رباعی کو سن کرکھا تھا کہ ابن سینا کافر ہیں وہ رباعی یہ ہے
کفر چومنی گزاف و آسان نبود
محکم تراز ایمان من ایمان نبود
در دھریکی چومن و آن ہم کافر
پس در ہمہ دھر یک مسلمان نبود
"یعنی کفر میرے لئے اتنا سستا اور آسان نہیں تھا۔وہ میرے ایمان سے زیادہ مضبوط پائیدار نہ تھا زمانے میں ایک میں ہوں اور وہ بھی کافر چنانچہ پورے عالم میں کوئی مسلمان نہیں رہا"۔
دراصل بات یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی اسلامی دانشور گزرے ہیں ان خالی خولی مولویوں اور خشک مقدس صوفیوں نے ان کوبھی تعریفی وتوصیفی نگاہ سے نہ دیکھا ۔ان کے بارے میں کبھی یہ کھا گیا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں" کبھی ان کو کھلے لفظوں میں کافر کہہ کر پکارا گیا"کبھی کھا گیا کہ یہ شیعہ تھا۔ مثال کے طور پر یہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن تھا۔ میں ّآپ کو ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے تمام مسلمان بھائیوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ آپ سب مسلمانوں بیدار ہوشیار رھنا چاہی ے نھروان کے خارجیوں جیسا رویہ نہیں اپنانا چاہی ے، یہ نہ ہو کہ شیطانی قوتیں آپ کو آلہ کاربنا کر آپ سے غلط کام نہ لیں ۔
ایک روز میرے دوست نے مجھ سے فون پر بات چیت کی جس کو سن کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی واقعتاً بہت عجیب و غریب بات تھی۔ اس نے مجھ سے کھا کہ علامہ اقبال پاکستانی نے اپنی کتاب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی توھین کی ہے، اور امام کو گالی بھی دی ہے۔ میں نے کھا کہ آپ نے کھاں پڑھا ہے کھنے لگا"آپ فلاں کتاب کے فلاں صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا آپ نے خود اپنی آنکھوں سے پڑھا ہے۔ بولا نہیں ایک محترم شخص نے مجھ سے کھا تھا اور میں نے آپ کو بتا دیا۔ یہ سن کر میں لرز اٹھا اور کھا کہ ہمارے ایک دوست آقائے سعیدی نے دیوان اقبال کو الف سے ی تک پڑھا ہے انھوں نے تو مجھے اس سے متعلق کچھ نہیں بتایا ۔ میں نے فوراً!جناب سید غلام رضا سعیدی سے فون پر رابطہ کیا اور ان سے اس مسئلہ کی بابت دریافت کیا " وہ بھی حیران ہوکر بولے اس نوعیت کا مسئلہ میری نظر سے بھی گزرا۔ میں نے کھا اتنے بڑے دانشور کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ تو نہیں بولنا چاہی ے ۔ایک دو گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھ سے رابطہ کرکے کھا کہ جی مجھے یاد آگیا دراصل بات یہ ہے کہ ھندوستان میں دو شخص تھے ایک کا نام جعفر اور دوسرے کا نام صادق جب انگریزوں نے ھندوستان پر قبضہ کیا کہ ان دو اشخاص نے انگریزوں کے مفادات کی خاطر کام کرکے اسلامی تحریک کو بہت بڑا نقصان پھنچایا ۔ جناب علامہ اقبال نے اپنی کتاب میں ان دونوں افراد کی مذمت کی ہے ۔
میرے خیال میں جب بھی غلطی فھمی ہوتی ہے تو اسی طرح کی ہوتی ہے۔ پھر میں نے وہ کتاب منگوائی اس کا مطالعہ کیا تو حیران رہ گیا کہ اقبال کیا کھنا چاہتے ہیں اور سمجھنے والوں نے سمجھا واقعتاً جھاں برے لوگ ہیں وہاں اچھے بھی موجود ہیں علامہ اقبال نے یوں کھا۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ دین ننگ جھاں ننگ وطن
یعنی جعفر بنگالی اور صادق دکنی نے دین اور وطن کو بہت نقصان پھنچایا ہے۔ اس لئے یھی لوگ ملک و قوم اور دین کے لئے ننگ و عار ہیں ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام بنگال یادکن کے رہنے والے تو نہیں تھے کتنی غلط بات کھی ہے اس شخص نے جس نے علامہ اقبال جیسے دانشور کے بارے میں اس قسم کی تہمت لگائی ہے۔ اس کے بعد جب ہم نے تاریخی ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ جب انگریزوں نے ھندوستان پر چڑھائی کی تو وہاں کے دو شیعہ مجاہدوں نے ان کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کیا ان میں سے ایک کا نام سراج الدین تھا اور دوسرے کا نام ٹیپو سلطان تھا۔ سراج الدین جنوبی ھندوستان اور ٹیپو سلطان شمالی ھندوستان میں تھے۔ علامہ اقبال نے ان دو سپوتوں کی بہت زیادہ تعریف کی۔ انگریزوں نے سراج الدین کی حکومتی مشینری میں جعفر نامی شخص کو تیار کیا اس نےسراج الدین کو اندرونی طور پر کمزور کیا اور ٹیپو سلطان کی حکومت میں صادق نامی شخص کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ۔ان کی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پھنچایا گیا۔ جس کے نتیجہ میں انگریز ایک سوسال تک ھندوستان پر مسلط رہا ۔ شیعہ حضرات سراج الدین اور ٹیپو سلطان کا اس لئے احترام کرتے ہیں یہ دونوں بھادر شیعہ تھے۔ سنی حضرات اس لئے احترام کرتے ہیں کہ یہ دونوں مسلم قوم کے ھیرو تھے۔ ھندو ان کا اس لے احترام کرتے ہیں کہ یہ مجاہد قومی ھیرو تھے۔ لیکن جعفر و صادق نامی اشخاص سے ھندوستان وپاکستان کا ہر فرد اس لئے نفرت کرتا ہے کہ ان دونوں غداروں نے ملک و قوم کے ساتھ غدداری کی تھی۔
ایک روز میں نے سوچا کہ آپ لوگ علامہ اقبال کے اشعار اکثر اوقات بلکہ زیادہ اپنی محافل و مجالس میں پڑھتے ہیں اس عظیم شاعر نے امام حسین علیہ السلام کی شان میں کتنے اچھے اور عمدہ شعر کھے ہیں۔ آپ کے مذھبی حلقوں میں کچھ لوگ ان کے بارے میں کھتے ہیں کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کا گالیاں دی ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اقبال نے تو جعفر بنگالی اور صادق دکنی کے منافقانہ رویے کی وجہ سے ان کی مذمت کی ہے۔ میں حقیقت حال کو دیکھتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ ہمارے مسلمان بھی کتنے سادہ مزاج ہیں کہ اتنی بڑی بات اتنے آسان لفظوں میں کہہ دی۔ علامہ اقبال ملت السلامیہ کے جلیل القدر شاعر ہیں۔ ہم سب کو ان کا احترام کرنا چاہی ے ۔ ان کی طویل اسلامی خدمت پر انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہی ے۔ آئندہ کوئی شخص بھی ان کے بارے میں اسی طرح کی کوئی بات کرے تو اس پر ہرگز اعتماد نہ کریں۔
امیر معاویہ نے ایک مرتبہ شام میں بدھ کے روز نماز جمعہ کا اعلان کردیا، چنانچہ بدھ کے دن نماز جمعہ ادا کی گئی۔ اس پر کسی ایک شخص نے اعتراض نہ کیا ۔ معاویہ نے اپنے ایک جاسوس سے کھا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاکر کہو کہ میں ایک ھزار آدمی مسلح لے کر آپ کے پاس آرہاہوں کہ آپ نے بدھ اور جمعہ کا فرق کیوں نہیں بتایا۔ اب میں آپ کو ختم کردوں گا۔ اب حسینیہ ارشاد بھی گناہگار ہو گیا ہے کہ ایک روز اس میں فلسطینیوں کے حقوق اور کمک کے لئے اس میں گفتگو ہوئی ہے"آپ تو بخوبی جانتے ہیں ہمارے وطن عزیز ایران میں یھودیوں کی بڑی تعداد موجود ہے"یہ لوگ اسرائیل کے ایجنٹ ہیں" اور انتھائی دکھ کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض مسلمان ان یھودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں کہ حسینیہ ارشاد (امام بارگاہ) کے خلاف اخبارات میں کوئی بیان نہ چھپا ہو۔
میں یہاں پر صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ وہ اپنی آنکھیں کھول کر رکھیں ہر کام سوچ سمجھ کر کریں۔ اس ملک اور دوسرے اسلامی ممالک میں یھودی اور ان کے ایجنٹ سرگرم عمل ہیں۔ ان کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔اس لئے یہ بدبخت کسی نہ کسی حوالے سے مسلمانوں کے خلاف مصروف کار رہتے ہیں۔ نھروان کے خوارج کی تاریخ دوبارہ نہ دھرانی پڑے۔ آخر کب تک ہم اسلام کا نام لے کر مسلمانوں کے سرقلم کرتے رہیں گے؟ ہمیں ان محافل و مجالس سے سبق حاصل کرنا چاہی ے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ہر سال ایک جگہ پر اکٹھے ہو کر علی علیہ السلام کے نام پر جلسہ منعقد کرتے ہیں؟ اس لئے کہ علی علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ زندگی اور آپ کی سیرت طیبہ اپنے سامنے رکھ کر ہم اپنی زندگیون کو سنواریں۔
ھمیں سیرت علی علیہ السلام کو نمونہ عمل بنانا چاہی ے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ حضرت علی علیہ السلام نے کس طرح خوارج سے مقابلہ کیا؟ انھوں نے خشک مقدس ملاؤں کے خلاف کس انداز میں نبرد آزمائی کی؟ انھوں نے منافقوں کو کس طرح پامال کیا؟اور جھالت کے خلاف کس طرح جنگ لڑی؟ علی علیہ السلام کو جاہل شیعہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ علی علیہ السلام کو ایسے شیعہ نہیں چاہیئے کہ جو یھودیوں کے ایجنٹوں کے پروپیگنڑے پر عمل کرتے ہوئے کھیں کہ اقبال پاکستانی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو گالی دی ہے ۔ اور یہ بات پورے ملک میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل گئی ۔ اقبال کو ناصبی تک کہا گیا۔ حالانکہ وہ عظیم شخص اہلبیت اطہار علیھم السلام کے مخلص ترین عقیدت مندوں میں سے تھا۔ لوگ بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں کہ سنی سنائی بات کو اتنا اوپر لے جاتے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ کسی شخص کو اتنی توفیق نصیب نہ ہوئی کہ پاکستانی سفارت خانے یا کسی اور جگہ سے کتاب منگوا کر اس کا مطالعہ کرے۔ علی علیہ السلام کو اس طرح کے شیعہ کی ضرورت نھیں۔علی علیہ السلام اس سے اظہار نفرت کرتا ہے۔
اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھول کر رکھیں۔ جب بھی کوئی بات سنیں اس پر فوراً یقین نہ کریں۔ جن باتوں اور خبروں سے بد گمانیاں جنم لیتی ہوں وہ معاشرہ کے لئے بے حد خطرناک ہوتی ہیں۔ جب آپ کسی بات کی تحقیق کر چکیں تو پھر اللہ تعالی کو حاضر ناظر سمجھ کر جو چاہیں بات کریں۔ لیکن تحقیق اور ثبوت کے بغیر کوئی بات نہ کریں۔
عبدالرحمٰن ابن ملجم آتا ہے علی علیہ السلام کو قتل کر دیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت کس قدر افسوس کرتا ہے۔ پشیمان ہوتا ہے۔ ایک خارجی کی ایک رباعی ہے اس کے پہلے دو شعر پیش کرتا ہوں وہ کھتا ہے۔
یا ضربة من تقی ما اراد بها
الا لیبلغ من ذی العرش رضوانا
"یعنی اس پ رہی ز گار شخص ابن ملجم (نعوذباللہ) کی ضربت کا کیا کھنا کہ اس کا مطمع نظر رضائے خدا کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔ پھر کھتا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے اعمال ایک ترازوں میں رکھے جائیں اور ابن ملجم کی ایک ضربت ایک ترازو میں رکھی جائے تو اس وقت آپ دیکھیں گے کہ پوری انسانیت میں ابن ملجم سے اچھا کام کسی نے نہیں کیا ہوگا" نعوذباللہ آپ اندازہ فرمائیں کہ جھالت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتی ہے۔ کہ ایک شخص نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم ومھربان کے قاتل کو کس قدر عمدہ القابات سے یاد کرتا ہے؟
شھادت علی علیہ السلام
ابن ملجم ان نو ۹ آدمیوں میں سے ایک ہے جو خشک مقدس ہیں۔ یہ لوگ مکہ آتے ہیں اور آپس میں عھد وپیمان کرتے ہیں کہ دنیائے اسلام میں تین آدمی (علی علیہ السلام، معاویہ، عمر و عاص) خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو قتل کردیا جائے۔ ابن ملجم حضرت علی علیہ السلام کے قتل کیلئے نامزد کیا جاتا ہے۔حملے کا وقت انیسویں ماہ رمضان کی رات طے پایا۔ آخر اس رات طے کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ابن ابی الحدید کھتے ہیں کہ نادانی کی انتھا دیکھئے یہ رات انھوں نے اس لئے مقرر کی کہ چونکہ یہ عمل بہت بڑی عبادت ہے اسلئے اس رات کو انجام دیا جائے، تو اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ ابن ملجم کوفہ آتا ہے اور کافی دنوں تک اسی رات کا انتظار کرتا رہا اس عرصہ میں وہ "قطام"نامی خارجی عورت سے اس کی آشنائی ہو جاتی ہے۔ اس سے شادی کی پیشکش کرتا ہے، وہ کھتی ہے میں شادی کیلئے حاضر ہوں لیکن اس کا حق مھر بہت مشکل ہے۔ اس نے کھا میں دینے کو تیار ہوں وہ عورت بولی تین ھزار درھم" وہ بولا کوئی حرج نھیں۔ ایک غلام، وہ بھی ملے گا، ایک کنیز وہ بھی ملےگی۔ میری چوتھی شرط یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کو قتل کیا جائے پہلے تو وہ کانپ اٹھا پھر بولی خوشحال زندگی گزارنے کیلئے آپ کو یہ کام تو کرنا پڑے گا اگر تو زندہ بچ گیا تو بھتر ہے نہ بچا تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ایک عرصہ تک اس شش وپنج میں مبتلا رہا اور اس نے دو شعر کھے۔
ثلاثه آلاف وعبد وقینة
وقتل علی بالحسام المسمم
ولا مهر اعلی من دان علا
ولا فتک الا دون فتک ابن ملجم
وہ کھتا ہے کہ اس نے یہ چند چیزیں مجھ سے حق مھر میں طلب کی ہیں۔ اس کے بعد وہ کھتا ہے کہ جتنا بھی حق مھر زیادہ ہو وہ علی علیہ السلام سے بھتر ہے۔ میری بیوی کا حق مھر علی علیہ السلام کا خون ہے۔ پھر وہ کھتا ہے کہ پوری دنیا میں تا قیام قیامت ایسا قتل نہیں ہے جو ابن ملجم کے ہاتھ سے علی علیہ السلام کا قتل ہوا ہے، سے بڑا ہو واقعتاً اس نے بالکل ٹھیک کھا ہے۔
پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب علی علیہ السلام موت کے بستر پر وصیت کرتے ہیں۔ اس وقت ماحول میں عجیب و غریب کشیدگی پائی جاتی تھی۔ لوگوں کے جذبات میں شعلے لپک رہے رہے۔ ایک طرف معاویہ اور اس کے کارندے موجود تھے دوسری طرف خشک مقدس ملاؤں کا گروہ موجود تھا" ان دونوں گروپوں میں تضاد پایا جاتا تھا۔ آپ نے اپنے اصحاب اور جانثاروں سے فرمایا کہ لا تقتلوالخوارج بعدی کہ میرے بعد ان کو قتل نہ کرنا، انھوں نے مجھے تو مارڈالا ہے تم ان کو نہ مارنا۔ اگر آپ لوگوں نے خارجیوں کا قتل عام کیا تو یہ بات معاویہ کے فائدے میں جائے گی۔ اس سے کسی لحاظ سے بھی حق کو کوئی فائدہ نہیں پھنچے گا۔ آپ نے نھج البلاغہ میں ارشاد فرمایا:
"لا تقتلو الخوارج من بعدی فلیس من طلب الحق فاخطاه کمن الباطل فادرکه"
"یعنی میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا اس لئے کہ جو حق کا طالب ہو اور اسے نہ پاسکے وہ ایسا نہیں ہے کہ جو باطل ہی کی طلب میں ہو اور پھر اسے بھی پالے"
علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم رقمطر از ہیں کہ قتل خوارج سے روکنے کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ امیر المو منیین علیہ السلام کی نگاہی ں دیکھ رہی تھیں کہ آپ کے بعد تسلط واقتدار ان لوگوں کے ہاتھ وں میں ہوگا جو جھاد کے موقعہ و محل سے بے خبر ہوں گے اور صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے تلواریں چلائیں گے اور یہ وھی لوگ تھے کہ جو امیر المو منین علیہ السلام کو برا سمجھنے اور برا کھنے میں خوارج سے بھی بڑھے چڑھے ہوئے تھے۔
لھذا جو خود گم کردہ راہ ہوں انھیں دوسرے گمراہوں سے جنگ وجدال کا کوئی حق نہیں پھنچتا اور نہ جان بوجھ کر گمراہی وں میں پڑے رہنے والے اس کے مجاز ہوسکتے ہیں کہ بھولے سے بے راہ ہو جانے والوں کے خلاف صف آرائی کریں۔ چنانچہ امیر المو منین علیہ السلام کا یہ ارشاد واضح طور سے اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ خوارج کی گمراہی جان بوجھ کر نہ تھی بلکہ شیطان کے بھکاوے میں آکر باطل کو حق سمجھنے لگے اور اس پر اڑگئے اور معاویہ اور اس کی جماعت کی گمراہی کی یہ صورت تھی کہ انھوں نے حق کو حق سمجھ کر ٹھکرایا اور باطل کو باطل سمجھ کر اپنا شعار بنائے رکھا اور دین کے معاملہ میں ان کی بے باکیاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ نہ انھیں غلط فھمی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ان پر خطائے اجتھادی کا پردہ ڈالا جاسکتا ہے جبکہ وہ علانیہ دین کی حدود توڑدیتے تھے اور اپنی رائے کے سامنے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ارشاد کو اہمیت نہ دیتے تھے۔
چنانچہ ابن الحدید نے لکھا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چاندی اور سونے کے برتنوں میں پینے والے پیٹ میں دوزخ کی آگ کے لپکے اٹھیں گے تو معاویہ نے کھا کہ میری رائے میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں "اور کس طرح زیاد ابن ابیہ کو اپنے سے ملا لینے کیلئے قول پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو ٹھکرا کر اپنے اجتھاد کو کار فرما کرنا" منبر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اہل بیت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو برا کھنا، حدود شرعیہ کو پامال کرنا، بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنا، اور ایک فاسق کو مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کرکے زندقہ والحاد کی راہی ں کھول دینا ایسے واقعات ہیں کہ انھیں کسی غلط فھمی پر محمول کرنا حقائق سے عمداًچشم پوشی کرناہے۔
علی علیہ السلام کو کسی سے کینہ نہ تھا وہ ہمیشہ حق کی بات کھتے اور عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ جب ابن ملجم کو قید کرکے مولا علی علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا وہ شرم کی وجہ سے سر جھکائے ہوئے تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا ابن ملجم بتایہ کام تو نے کیوں کیا؟کیا میں تیرا اچھا امام نہ تھا؟ علی علیہ السلام کا یہ کھنا تھا کہ عرق ندامت اس کی پیشانی اور چھرے پر بہہ پڑا ۔ اس نے عرض کی علی علیہ السلام میں بدبخت تھا اور یہ بہت بڑا گناہ کر بیٹہا۔ لیکن ایک بار اس نے کرخت لھجہ کے ساتھ گفتگو کی اور کھا کہ یا علیعليهالسلام
یہ تلوار خریدتے وقت اللہ تعالی سے عھد کیا تھا کہ میں اس تلوار سے بدترین انسان کو قتل کروں گا (نعوذباللہ) اور میں ہمیشہ اپنے خدا سے یہ دعا کرتا رہا کہ اس تلوار سے اس انسان کا خاتمہ کر، آپ نے فرمایا ابن ملجم اللہ نے تیری دعا قبول کرلی ہے تو اپنی اسی تلوار سے قتل ہوگا۔
علی علیہ السلام دنیا سے چلے گئے آپ کا جنازہ کوفے جیسے بڑے شھر میں موجود ہے خارجیوں کے علاوہ شھر کے جتنے بھی لوگ تھے سب کی خواہش تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے جنازہ میں شرکت کریں اور وہ علی علیہ السلام کے غم میں گریہ وزاری کر رہے تھے۔ اکیسویں رمضان کی رات ہے امام حسنعليهالسلام
اور امام حسینعليهالسلام
، محمد بن حنفیہعليهالسلام
جناب ابوالفضل عباسعليهالسلام
اور چند مومنین شاید چھ سات آدمی تھے، انھوں نے تاریکی شب میں مولا کو غسل و کفن دیا۔ امام علی علیہ السلام کی معین کردہ جگہ میں رات کی تاریکی وتنھائی اور خاموشی میں آپ کو اہوں اور سسکیوں اور آنسوؤں کے ساتھ دفن کردیا گیا۔ اس جگہ پر کچھ انبیاء کرام بھی مدفون تھے۔ جب دوسری صبح ہوئی تب لوگوں کو علم ہوا کہ جناب ابو تراب علیہ السلام دفنائے جاچکے ہیں لیکن آپ کی قبر اطھر کے بارے میں کسی کو علم نہ تھا یہاں تک کہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت حسن علیہ السلام نے جنازہ تشکیل دے کر مدینہ روانہ کردیا تاکہ خوارج اور دشمنان علی علیہ السلام یہ سمجھیں کہ امام کو مدینہ میں دفن کردیا ہے۔ اور وہ قبر علی علیہ السلام کی توھین نہ کریں۔ اس زمانے میں خوارج کا قبضہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کے فرزندان اور چند خواص کے علاوہ کسی کو خبر نہ تک تھی کہ مولا مشکل کشا علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟
یہ راز ایک سو سال تک مخفی رہا۔ بنی امیہ چلے گئے اور بنی عباس آگئے۔ اب یہ خطرہ ٹل گیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے سب سے پھلے امام علی علیہ السلام کی قبر مبارک کی نشاندھی کی" اور علانیہ طور پر لوگوں کو بتایا کہ ہمارے جد امجد امیر المومنین علیہ السلام یھیں پر دفن ہیں۔ زیارت عاشورا کا راوی صفوان کھتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں کوفہ میں تھا۔ آپ ہمیں قبر علی علیہ السلام کے سراہنے لے آئے اور اشارہ کرکے فرمایا یہ ہے داداعلی علیہ السلام کی قبر اطھر۔ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم امام علی علیہ السلام کی قبر پر سایہ کا اہتمام کریں۔ بس اسی روز سے والی نجف کی آخری آرام گاہ مشھور ہوئی۔ کتنے بڑے دکھ کی بات ہے کہ علی علیہ السلام کے دشمن اس قدر کینہ پرور اور کمینہ صفت لوگ تھے کہ ایک صدی تک آپ کی قبر غیر محفوظ تھی۔