سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)0%

سيرت آل محمد(عليهم السلام) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 27732
ڈاؤنلوڈ: 4679

تبصرے:

سيرت آل محمد(عليهم السلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27732 / ڈاؤنلوڈ: 4679
سائز سائز سائز
سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف:
اردو

صلح امام حسن علیہ السلام (۲)

ھماری بحث امام حسن علیہ السلام کے بارے میں چل رہی تھی گزشتہ نشستوں میں میں نے جنگ اور صلح پر اسلامی نقطہ نظر کو بیان کیا ہے اور میں نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تاریخ اسلام سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ ہے امام وقت جو بھی قدم اٹھاتا ہے وہ عدل وانصاف کے عین تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے ۔ ہمارے ائمہ طاہر ینعليه‌السلام نے اپنے ہر کام، ہر فعل اور ہر عمل میں جو بھی کیا اللہ تعالی اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رضا کیلئے کیا ہے ۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف مقامات پر صلح کی، مختلف قراردادوں پر دستخط کیے، کبھی مشرکین کے ساتھ، تو کبھی اہل کتاب کے ساتھ کبھی آپ کو جنگوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میں نے اپنی بات اور گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فقھی و عقلی دلائل بھی پیش کیے ہیں ۔ میرا عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دین ایک کامل ترین مذھب اور نظریہ کا نام ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کی ہم اپنی مرضی کے مطابق تاویل کرتے رہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے حیات بخش اصول پھلے بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں اور قیامت تک اس کی حقانیت مسلم طور پر موجود رہے گی۔ اگر صلح کی بات آتی ہے تو اس کی کچھ شرائط ہیں اسی طرح جنگ کے بارے میں اس کے معین کردہ قوانین موجود ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مزاکرات کی میز پر بیٹھ کر دشمن کو بات منانا آسان ہوتا ہے اور اس میں جنگ وجدال کی نوبت نہیں آتی اور کبھی جو بات دشمن جنگ کے ذریعہ مانتا ہے وہ صلح سے پوری نہیں ہوتی ۔ میں نے گزشتہ محافل میں وضاحت کے ساتھ گفتگو کی ہے اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کے جوابات بھی دیئے ہیں دراصل امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں فضا اتنی مکدر تھی کہ صلح کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا، گویا آپ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کے دور میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اب میں اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد فیصلہ آپ کو خود ہی کرنا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کو کیا کرنا چاہی ے اور امام حسین علیہ السلام کو کیا؟اور ایک نے صلح اور دوسرے نے جنگ کو کیوں چنا؟آیئے چلتے ہیں تفصیل کی طرف:

امام حسنعليه‌السلام اور امام حسینعليه‌السلام کے ادوار میں فرق کتنا تھا؟

سب سے پہلا فرق تو یہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس وقت مسند خلافت پر تشریف فرما ہوئے تو اس وقت معاویہ مضبوط ترین پوزیش بنا چکا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی میں کس طرح کی صعوبتیں اور سختیاں برداشت کیں پھر آپ کو کس بیدردی اور مظلومیت کے ساتھ شھید کردیا گیا؟ اس عظیم اور مظلوم والد کی شھادت کے بعد امام حسن علیہ السلام مسند خلافت پر تشریف لائے، یہ حکومت اندرونی سطح پر بہت ہی کمزور ہو چکی تھی۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ امامعليه‌السلام کی شھادت کے اٹہارہ روز بعد امام حسن علیہ السلام خلیفہ وقت مقرر ہوئے ۔ ان اٹہارہ دنوں کے اندر اندر معاویہ نے خود کو اچھا خاصا مضبوط ومستحکم کر لیا۔ اس نے جگہ جگہ اپنی فوجیں پھیلا دیں۔ پھر معاویہ عراق کو فتح کرنے کیلئے ایک کثیر تعداد کی فوج اپنے ہمراہ لے کر عازم سفر ہوتا ہے، اور ادھر امام حسن علیہ السلام بے پناہ مشکلات سے دو چار تھے۔ ایک باغی اور سرکش شخص آپ کے خلاف بغاوت کر چکا تھا۔ اب یہاں پر امام حسن علیہ السلام کا قتل ہو جانا مسند خلافت کیلئے بہت زیادہ نقصان دہ تھا۔ ابتدائی ابتدائی حالات تھے۔ اس کے بر عکس امام حسین علیہ السلام اس جگہ پر خاموش رہتے یا کسی خاص مصلحت کا انتظار کرتے تو دین محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نعوذ باللہ کب کا مٹ چکا ہوتا ادھر خاموشی عبادت، ادھر جھاد کرنا عبادت، ایک مقام پر سکوت جھاد تھا اور دوسرے مقام پر جھاد ہی جھاد تھا۔ امام حسن علیہ السلام نے ایسے ایسے حالات میں ظلم وفساد کا مقابلہ کیا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو کب کا حکومت وقت کو تسلیم کر چکا ہوتا۔ امام حسنعليه‌السلام نے مصلحت کے تحت صلح کر لی تھی، لیکن معاویہ کی حاکمیت، خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ آپ نے کئی سالوں تک معاویہ کی شاطرانہ سیاست کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ کو دھوکہ و فریب کے ساتھ شھید کر دیا گیا۔ آپ نے جرأت واستقامت کے ساتھ حالات کا انتھائی جرأتمندی اور پامردی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ امام حسنعليه‌السلام کی حکومت عملی اتنی بلند تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی کی مدبرانہ سیاست کی تعریف کر کے اس سیاست کو آئیڈیل سیاست قرار دیا۔

اس لئے اعتراض کرنے والوں کو سمجھنا چاہی ے کہ امام حسنعليه‌السلام اور امام حسینعليه‌السلام کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ آپ مسند خلافت پر خلیفۃ المسلمین کے طور پر تشریف فرما تھے اگر ان کو وھیں پر قتل کیا جاتا تو یہ خلیفۃ المسلمین کا مسند خلافت پر قتل تھا جو کہ بہت بڑا مسئلہ تھا، امام حسین علیہ السلام نے بھی مسند خلافت پر شھید ہونے سے اجتناب کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسینعليه‌السلام مکہ میں بھی شھید نہیں ہونا چاہتے تھے" کیونکہ اس سے مکہ کی بے حرمتی ہوتی۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی السلام اس وقت غیر معمولی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ عثمان اپنے دور کے مخالفین کے مطالبات پورے کرتے ہوئے ان کےساتھ صلح کریں۔ آپ ہر صورت میں عثمان کی حفاظت و سلامتی کے خواہاں تھے، اور گاہے بہ گاہے ان کو مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ نھج البلاغہ میں ہے کہ آپ عثمان کا دفاع کرتے ہیں۔ آپ کا ایک فرمان ہے:

"وخشیت ان اکون اثما" (۲۱)

"کہ میں نے عثمان کا اس قدر دفاع کیا کہ اب مجھے ڈرہے کہ کھیں گناہگار نہ ہو جاؤں۔"

سوچنے کی بات ہے آپ خلیفہ صاحب کی حمایت کیوں کرتے تھے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ مسند رسول کی حفاظت کرنا تھی۔ آپ کی شبانہ روزی کی کوشش کا مقصد عثمان کو تحفظ فراہم کرنا تھا، کیونکہ یہ مسلمان کیلئے باعث ننگ و عار تھی کہ خلیفۃ المسلمین مسند خلافت پر قتل ہو اس سے مسند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے حرمتی ہو گی۔

اس عظیم مقصد کی تکمیل کیلئے مولا علی علیہ السلام کو بے تحاشا قربانیاں دینا پڑیں۔ دوسری طرف آپ عوامی رد عمل کو بھی نہیں روکنا چاہتے تھے، کیونکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ حاکم وقت سے اپنی بات کھے اور اس کے سامنے اپنے مطالبات دھرائے۔ آپ لوگوں کو بھی حکومت کے خلاف اجتماع کرنے سے روکنا نہیں چاہتے تھے، اور آپ کی یہ کوشش تھی کہ عثمان کا قتل نہ ہو، کیونکہ آپ مسند رسول کے تحفظ و احترام کو زندگی کا سب سے اولین مقصد سمجھتے تھے۔ بالآخر وھی ہوا کہ جس کا آپ کو ایک عرصہ سے خدشہ تھا کہ عثمان قتل کر دیئے گئے۔ چنانچہ اگر امام حسن علیہ السلام انھی حالات میں معاویہ کے ساتھ مقابلہ کرتے تو ان کا حال بھی یھی ہوتا جیسا کہ تاریخ اسلام اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کو پتہ تھا کہ وہ شھید ہو جائیں گے۔ آپ تو صرف مسند خلافت کے احترام کی خاطر خاموش تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کی شھادت علم جھاد بلند کرنے والے عظیم مجاہد کی شھادت تھی کہ جنھوں نے ایسے ظالم فاسق وفاجر شخص کی حکومت کے خلاف آواز بلند کی کہ جو خود کو خلیفۃ المسلمین کہلواتا تھا۔ حالانکہ اس کا خلافت سے دور تک کا واسطہ نہ تھا، اس لئے تو میں نے کہا ہے کہ امام حسنعليه‌السلام اور امام حسینعليه‌السلام کے حالات و واقعات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ایک مقام پر چپ رھنا عبادت تھا اور دوسری جگہ پر ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنا وقت کا اہم تقاضہ تھا ۔

دوسرا فرق یہ تھا کہ کوفہ کی سرزمین اپنی بے وفائی کے باعث حق اور حق پرستوں کیلئے تنگ ہوچکی تھی۔ اگر معاویہ وہاں پر آجاتا تو بڑی آسانی سے اس کو فتح کر لیتا، امام حسن علیہ السلام کے حامیوں کی اکثریت رخ موڑ چکی تھی، کوفہ منافقوں کا مرکز بن چکا تھا۔ کوفہ میں سب سے بڑا مسئلہ خوارج کا وجود میں آنا تھا۔ لوگ جاہلیت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ حق کو پھچاننا مشکل ہو گیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس سوسائٹی کو نادانوں اور جاہلوں کی سوسائٹی سے تعبیر فرمایا نھج البلاغہ میں ہے کہ اس وقت کا معاشرہ تعلیم وتربیت سے عاری تھا۔ لوگ اسلام کو جانتے تک نہ تھے۔ اسلامی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا گیا تھا۔ وہ لوگ مسلمان ہونے کا دعوی تو کرتے تھے لیکن دراصل وہ اسلام کی الف با سے بھی واقف نہ تھے۔

بہر حال کوفہ میں عجیب ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ معاویہ کوفہ میں اپنی بنیادیں مستحکم کر چکا تھا اس نے پیسہ خرچ کر کے کوفیوں کو خرید لیا تھا۔ جگہ جگہ پر جاسوس پھیلے ہوئے تھے۔ حکومتی مشینری نے معاویہ کے حق میں اور امام حسن علیہ السلام کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کر رکھا تھا۔ اگر اس وقت امام حسنعليه‌السلام انقلاب برپا کرتے تو لوگوں کا ایک انبوہ معاویہ کے خلاف کھڑا ہو جاتا ۔ شاید تیس چالیس آدمیوں کا لشکر آمادۂ پیکار ہوتا۔ تاریخ میں یہاں تک ملتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام ایک لاکھ تک افراد کو جمع کرسکتے تھے۔ آپ معاویہ کے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام نے آٹھ مھینوں تک معاویہ سے مقابلہ کیا۔ اس وقت عراقی فوجیں خاص کر مضبوط تھیں۔ آٹھ مھینوں کی مسلسل جنگ میں معاویہ مکمل طور پر جنگ ہار چکا تھا، چند غداروں نے مولا مشکل کشا کے خلاف سازش کر کے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرکے میدان جنگ میں لے آئے۔

اگر امام حسنعليه‌السلام جنگ کرتے تو شام و عراق کی دو مسلمان فوجوں کے ما بین جنگ طول پکڑ جاتی اور ھزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا، اس سے حاصل کیا ہوتا؟جھاں تک تاریخ بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ معاویہ اپنی تمام تر چالاکیوں کی وجہ سے کامیاب ہو جاتا، اب آپ ہی اندازہ کریں کہ امام حسن علیہ السلام دو سالوں تک جنگ کرتے اور ھزاروں افراد قتل ہوتے اور نتیجہ مسند خلافت پر امام حسن علیہ السلام کی شھادت پر منتج ہوتا۔ امام حسن علیہ السلام کے پاس بھتر ( ۷۲) اشخاص موجود تھے۔ آپ نے ان کو بھی واپس بھیج دیا اور فرمایا تم سب یہاں سے چلے جاؤ۔ میں جانوں اور دشمن کی فوج جانے اور اگر میں اس حال میں شھید ہو جاؤں تو اس سے بھتر میرے لئے کیا اعزاز ہو گا۔

چنانچہ یہ وجوہات تھیں کہ جن کی وجہ سے امام حسن علیہ السلام کو صلح کرنا پڑی۔ ایک یہ کہ آپ نہ چاہتے تھے کہ دشمن آپ کو مسند رسول پر قتل کرکے اس عظیم مسند کی توھین کرے۔ دوسرا آپ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو۔ آپ اس وقت معاویہ کی فوج کے ساتھ بھر پور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن آپ نے امن و عامہ کی بحالی و برقراری اور مسند رسول کے تحفظ واحترام کی خاطر ھتھیار اٹھانے اور حملہ کرنے کے بجائے صلح و آشتی کو ترجیح دی۔ آپ نے اپنے قول و فعل کردار و گفتار کے ذریعہ ثابت کردیا کہ خاندان رسالت اسلامی و انسانی اقتدار کی کس طرح پاسداری کرتا ہے۔

صلح حسنعليه‌السلام اور قیام حسینیعليه‌السلام کے محرکات

حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے حالات میں بہت زیادہ فرق تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے عظیم انقلاب اور بے نظیر جھاد کے تین محرکات ہمارے سامنے آتے ہیں میں ان تینوں عوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، جبکہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کے دور میں صورت حال کچھ اور طرح کی تھی۔

حسینیعليه‌السلام انقلاب کا پہلا محرک یہ تھا ظالم حکومت نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کرنے کا مطالبہ کیا کہ:

"خذ الحسین بالبیعة اخذا شدیدا لیس فیه رخصة"

کہ امام حسین علیہ السلام کو بیعت کیلئے گرفتار کر لے اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے یہاں تک کہ وہ بیعت کیے بغیر کھیں نہ جاسکیں۔"

وقت کے فاسق وفاجر شخص نے وقت کے سب سے بڑے امام اور معصوم ہستی سے بیعت کا تقاضا کیا جو کہ ناممکن تھا۔ امام عالی مقام نے جو جواب دیا وہ یہ تھا میں اور یزید کی بیعت یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ حق اور باطل کی پیروی یہ نا ممکن بات ہے۔ کہاں وہ بدترین شخص اور کھاں میں پروردہ عصمت! بھلا رات اور دن بھی ایک جگہ پر جمع ہوسکتے ہیں۔ یہ بہت مشکل بات ہے۔ لیکن امام حسن علیہ السلام سے معاویہ نے صلح کی پیشکش تو کی تھی۔ بیعت کا تقاضا نہ کیا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ آپ میری خلافت کو تسلیم کر لیں۔ یہ بات تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ہے کہ معاویہ نے امام علیہ السلام سے بیعت کرنے کا کہا ہو، یا امامعليه‌السلام کے کسی صحابی یا کسی ماننے والے سے بیعت کا تقاضا کیا ہو ۔ دراصل ان کے درمیان بیعت کی بات بھی نہ تھی۔ یھی وجہ ہے کہ مسئلہ بیعت نے امام حسین علیہ السلام کو قیام کرنے اور علم جھاد بلند کرنے پر مجبور کیا۔ اور یہ مجبوری امام حسنعليه‌السلام کو درپیش نہ تھی اگر اس طرح کا مسئلہ ہوتا تو امام حسن علیہ السلام اسی طرح کرتے جس طرح ان کے عزیز ترین بھائی امام حسین علیہ السلام نے کیا تھا۔

قیام حسینیعليه‌السلام کی دوسری وجہ! دعوت کوفہ تھی، وہاں کے لوگوں نے بیس سال تک معاویہ کے مظالم برداشت کیے اور وہ بہت تھک چکے تھے۔ ان کو امام عادل کی آمد کا بے چینی سے انتظار تھا۔ کوفہ کی فضا کا رنگ یکسر بدل چکا تھا۔ ایک بہت بڑے انقلاب کی پیشین گوئی کی جا رہی تھی۔ کوفہ والوں نے امام حسین علیہ السلام کی طرف بیس ھزار خطوط ارسال کیے ان سب میں ان لوگوں کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ مولا آپ سرزمین کوفہ پر قدم رکھ کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کیجئے ۔ اب ہم سے آپ کا مزید انتظار نہیں کیا جاتا۔ لیکن امام حسین علیہ السلام جب تشریف لائے تو کوفہ والے بالکل انجان بن چکے تھے۔ تاریخ نقطہ نظر سے اگر امام عالی مقام اہالیان کوفہ کے خطوط کو اہمیت نہ دیتے تو تاریخ میں آپ پر اعتراض کیا جا سکتا تھا۔ دنیا والے کہہ سکتے تھے کہ کوفہ کی سرزمین انقلاب کیلئے بالکل تیار تھی لیکن امام حسین علیہ السلام تشریف نہ لائے۔ لیکن امام حسن علیہ السلام کو اس طرح کا مسئلہ در پیش نہ تھا ۔ اس وقت کا کوفہ اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ لوگوں کی سوچیں بکھری اور اذھان پریشان تھے۔ ایسا کوفہ کہ جو اختلافات کا مرکز بن چکا تھا ۔ وہ کوفہ کہ جس کی حضرت علی علیہ السلام نے آخر وقت میں مذمت کی تھی۔ آپ نے خدا سے دعا کی تھی کہ بار الہا! مجھے ان لوگوں کے درمیان سے اٹھا لیجئے اور ان پر ایسا حکمران مسلط فرما کہ جس کے یہ اہل ہیں۔ تاکہ ان کو میری حکومت کی قدر معلوم ہوسکے۔

میں جو عرض کرنے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ کوفہ تیار ہے ۔ یہ امام حسین علیہ السلام سے اتمام حجت کے طور پر کہا گیا تھا، حالانکہ حقیقت میں وہ کسی صورت میں بھی انقلاب کیلئے سازگار نہ تھا۔ اب اگر امام عالی مقام لوگوں کے اس مطالبہ پر خاموش رہتے تو کھنے والے کہہ سکتے تھے کہ امام علیہ السلام نے مسلمانوں کی (نعوذباللہ) پروا نہیں کی، لیکن امام حسن علیہ السلام کا معاملہ اور تھا۔ آپ کے دور میں کوفہ کے لوگوں نے اپنی بے وفائی دکھادی تھی اور انھوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ امامعليه‌السلام کا ساتھ دینے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ کوفہ کی فضا اس قدر بدلی ہوئی تھی اور کوفی اس قدر بے وفا تھے کہ امام حسن علیہ السلام کوفیوں سے ملنا جلنا قطعی طور پر پسند نہ کرتے تھے۔ آپ گھر سے آتے جاتے وقت بہت زیادہ محتاط ہوتے یہاں تک کہ آپ اپنے لباس کے اندر زرہ پھن کر آتے تھے تاکہ خدا نخواستہ اگر کوئی شر پسند حملہ کرے تو آپ اپنا تحفظ کرسکیں۔ دوسری طرف آپ کو خوارج اور معاویہ سے سخت جانی خطرہ تھا۔ ایک مرتبہ آپ نماز پڑھنے میں مشغول تھے تو اچانک آپ پر کسی نے تیر پھینکنے شروع کر دئے چونکہ آپ نے لباس کے نیچے زرہ پھن رکھی تھی اس لئے اس ظالم کا حملہ کار آمد نہ ہوا۔ اور آپ بچ گئے چونکہ کوفہ والوں نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے کی دعوت دی تھی اس لئے آپ کی شرعی ذمہ داری تھی کہ احسن طریقے سے ان کے خطوط کا جواب دیں۔ اور امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں کوفہ کی سرزمین نفاق اگل رہی تھی چاروں طرف بغض و عناد کی چنگاریاں نکل رہی تھیں حالات یہ تھے کہ بکھرتے چلے جارہے تھے اس لئے آپ نے خاموشی اختیار کی۔

امام حسین علیہ السلام کے قیام کا تیسرا محرک امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی اہم ذمہ داری نبھانا تھی۔ قطع نظر اس کے کہ حکومت وقت نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کی، اور قطع اس کے کہ امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے اور ان کی ھدایت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اتمام حجت کے طور پر ان کو کوفیوں کے خطوط کا مثبت جواب دینا تھا دوسرے لفظوں میں اگر امام حسین علیہ السلام سے وہ بیعت طلب نہ کرتے تب بھی آپ کو قیام کرنا تھا اگر کوفہ آنے کی دعوت نہ دیتے تب بھی آپ کو یزیدی حکومت کے خلاف قیام کرنا تھا۔ یہ تھا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر۔ اگر چہ معاویہ نے بیس سال تک حکومت کی اور اس نے اسلامی تعلیمات کے خلاف بے شمار اقدامات کیے وہ واقعتاً ایک ظالم حکمران تھا اس کی بدعنوانیاں اور زیادتیاں سب پر عیاں تھیں اس نے احکام شریعت میں کمی بیشی کی تھی بیت المال کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا، محترم اور قابل قدر انسانوں کا خون بھی بہایا ۔ غرضیکہ وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ اس کے جو جی میں آیا کیا ان تمام گناہوں کے باوجود اس نے ایک ایسا بڑا جرم اور گناہ کبیرہ سے بڑھ کر گناہ کیا وہ یہ کہ اس نے اپنے ظالم، بے دین، فاسق و فاجر شرابی بیٹے کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔ ہم پر شرعی فرض عائد ہوتا ہے کہ اس پر اعتراضات کریں، اس سے پوچھیں کہ اس نے ایسے نااہل شخص کو عظیم منصب پر کیوں بٹھایا؟ حالانکہ امام حسین علیہ السلام جیسی جلیل القدر موجود شخصیت تھی۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

"من رای سلطانا جائزا مستحلا لحرام الله ناکثا عهده، مخالفا لسنة رسول الله یعمل فی عبادا لله بالاثم والعدوان" فلم یغیر علیه بفعل ولاقول، کان حقا علی الله ان یدخله مدخله الا وان هولاء قد لزموا اطاعة الشیطان" (۲۲)

"اگر کوئی شخص ایک ایسے ظالم حکمران کو دیکھے جو حلال خدا کو حرام کر دے اور اس سے کیے گئے وعدے کو توڑ دے سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف عمل کرے، لوگوں میں گناہ کا مرتکب ہو تو لوگ اس کو قول و فعل کے ذریعہ منع نہ کریں تو خدا وندکریم اس کو ضرور ہی ایسا عذاب دے گا جس کا وہ حکمران مستحق ہوگا"۔

معاویہ کے دور حکومت میں ایسا ہی تھا۔ امام حسن علیہ السلام اس کے کاموں پر راضی نہ تھے اور اس کو مظالم اور گناہوں سے باز رہنے کی تلقین بھی کرتے تھے۔

معاویہ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں یہ ڈھنڑورا پیٹتا رہا کہ میں عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں لیکن اب وہ کھتا تھا کہ میں قرآن و سنت اور سیرت خلفاء پر سوفی صد عمل کروں گا۔ اپنا جانشین بھی مقرر نہیں کرتا۔ میری خلافت کے بعد یہ خلافت حضرت حسن بن علی علیہ السلام کو منتقل ہو جائے گی۔ گویا اس نے واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا خلافت امام حسن علیہ السلام کی ہے اور آپ ہی اس کے سزاوار ہیں۔ فی الحال آپ یہ ذمہ داری مجھے سونپ دیں میں ان شرائط کے تحت عمل کروں گا۔ اس نے ایک سفید کاغذ امام علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیا اور اس پر اپنے دستخط بھی کر دیئے اور کہا کہ امام حسن علیہ السلام جو بھی مناسب سمجھیں اپنی شرائط لکھ دیں، میں ان کو قبول کرتا ہوں۔ میں صرف حاکم وقت کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں اور میری کوشش ہوگی کہ اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کروں۔ دراصل یہ ایک طرح کی معاویہ کی شاطرانہ چال تھی۔ اب اگر فرض کریں کہ ایسا ایک عظیم امام علیہ السلام کے ساتھ کیوں ہوا ہے کہ معاویہ نے سفید کاغذ بھیج کر امام علیہ السلام سے دستخط لئے اور کچھ شرائط پیش کر کے یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ آپ ایک کنارے پہ چلے جائیں۔ آپ کو خلافت کی ضرورت ہی نہیں ہے آپ کی جگہ پر میں جو ہوں۔ رہی بات اسلامی قوانین کے نفاذ کی تو میں کرلوں گا۔ اب اگر آپ ہماری شرائط قبول نہیں کریں گے تو ایک خونی جنگ شروع ہو جائے گی۔

لھذا آپ چھوڑیں سب باتوں کو اور ایک گوشہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔ اگر امام حسن علیہ السلام اس مقام پر صبر وتحمل سے کام نہ لیتے تو ایک بہت بڑی جنگ چھڑ سکتی تھی یہ جنگ دو تین سالوں تک لڑی جاتی اور اس میں ھزاروں افراد لقمہ اجل ہوتے جانی ومالی نقصان کےساتھ ساتھ امام حسنعليه‌السلام بھی شھید ہوجاتے تو آج تاریخ اسلام امام حسن علیہ السلام پر اعتراض کر سکتی تھی کہ آپ نے جنگ کی بجائے امن کو ترجیح کیوں نہیں دی؟ امام علیہ السلام نے اس میں صلح کو ترجیح دی۔ پیغمبر اسلام نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی کئی موقعوں پر صلح کی تھی انسان کو کھیں تو صلح کرنی چاہی ے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ معاویہ صرف حکومت چاہتا تھا نہ وہ آپ سے یہ خواہش کرتا تھا کہ آپعليه‌السلام اس کو بطور خلیفہ تسلیم کریں اور وہ یہ نہ کھتا تھا کہ آپ اسے امیر المومنینعليه‌السلام کا لقب دے کر پکاریں۔ وہ آپ سے بیعت کا مطالبہ کرتا ہے اگر آپ کھیں کہ آپ کی جان خطرے میں ہے تو وہ آپ کے بابا علی علیہ السلام کے شیعوں کو امن وامان کے بارے میں لکھ کر دینے کو تیار ہے صفین کی تمام ناراضگیاں ختم کرتا ہوں۔ آپ کی مالی پریشانی دور کرتا ہوں، حسب ضرورت رقم بھی دیتا ہوں تاکہ آپ کسی قسم کی اقتصادی مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ آپ اور آپ کے شیعہ آرام سے زندگی بسر کریں۔

اگر امام حسن علیہ السلام ان شرائط کے ساتھ صلح نہ کرتے تو آج بھی تاریخ ان پر یہ اعتراضات کرسکتی تھی جب آپ نے معاویہ کی شرائط کو مان لیا تو تاریخ آج اس کی مذمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ کہ معاویہ ایک چالاک وعیار سیاستدان تھا وہ ان شرائط کی آڑ میں دنیاوی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ حکومتی، سیاسی مفادات کے تحفظ کے سوا اور کچھ نہ چاہتا تھا۔ یھی وجہ ہے کہ جب وہ مکمل طور پر مسند حکومت پر بر اجمان ہوگیا تو وہ نہ فقط ان طے کردہ شرائط کو بھول گیا بلکہ وہ امام علیہ السلام کو طرح طرح کی اذیتیں دینے لگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ کوفہ میں آتا ہے تو لوگوں میں تقریر کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے اے کوفہ والو! میں نے پہلے آپ سے جنگ اس لئے نہیں کی کہ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، حج کریں اور زکوٰۃ دیں" ولکن لا تامرکم علیکم"بلکہ اس لئے جنگ کی کہ آپ پر حکومت کروں۔ پھر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ میں نے کیا کہا تو پھر پینترا بدل لیا اور کہا اس قسم کے مسائل آپ خود حل کریں میں ان مسائل کے بارے میں کیا کیا کرتا پھروں۔ پہلے تو اس نے خود ہی یہ شرط لگا دی کہ میرے مرنے کے بعد خلافت امام حسن علیہ السلام کو ملے گی اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کو لیکن سات آٹھ سالوں کے بعد جب اس نے دیکھا کہ اس کی حکومت ختم ہونے والی ہے تو اس نے یزید کی خلافت کا مسئلہ شروع کردیا چونکہ حضرت علی علیہ السلام کے ماننے والے اس کی قرار داد کو جانتے تھے اس لئے انھوں نے اس کے اس پروگرام کی مخالفت کی۔

تو اس نے مومنین کےساتھ وھی کیا جو کہ ایک ظالم حکمران اپنی رعیت کے ساتھ کرتا ہے۔ واقعتاً معاویہ شروع ہی سے شاطر وعیار شخص تھا۔ فقھاء اسلام نے اس کو خلفاء کی فھرست سے اس لئے خارج کردیا کہ اس کے سیاہ اعمالناموں کو دیکھ کر تاریخ اسلام شرما اٹھتی ہے۔ وہ ان حکمرانوں سے بھی پست سوچ رکھتا تھا جو عام دنیا کی خاطر صرف اور صرف حکومت کرنے آتے ہیں۔ اس طرح کے بادشاہ اپنی حفاظت کرتے ہے اور اپنی ہی حکومت کی بقاء چاہتے ہے ان درباروں میں فقط خوشامدیوں کو نوازا جاتا ہے۔ معاویہ کی تاریخ کو پڑھا جائے تو اس کو کسی طرح کوئی بھی مسلمانوں کا خلیفہ کہنا پسند نہیں کرے گا۔ یھی وجہ ہے جب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان دونوں شھزادوں، آقا زادوں کے حالات کا آپ میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پھر حالات بدلے، زمانہ بدلا، منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وہ شخص بر اجمان ہوا جو اسلام تو اسلام انسانیت کا دشمن تھا۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام نے جو موقف اختیار کیا قیامت تک آنے والے حق پرست اس جملے کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

"من رای سلطانا جائزا مستحلا لحرام الله کان حق علی الله ان یدخله مدخله"

کہ اگر کوئی ظالم شخص کی حکومت کو دیکھے کہ وہ ایسے ایسے کام کررہا ہو اور ان کو دیکھ کر وہ چپ رہے تو اللہ تعالی کے نزدیک وہ گناہگار ہے۔"

اس وقت امام حسن علیہ السلام نے اسلام کی عظیم تر مصلحتوں اور حکمتوں کے مطابق عمل کرتے ہوئے مکر وفریب کے مقابلے میں امن وشرافت کی وہ داغ بیل ڈالی کہ انسانیت قیامت تک اس پر فخر کرتی رہے گی۔ دراصل امام حسن علیہ السلام کی صلح قیام حسینیعليه‌السلام کے لئے پیش خیمہ تھی۔ ضروری تھا کہ امام حسن علیہ السلام ایک عرصہ تک کے لئے خاموش ہو جائیں تاکہ اموی خاندان کی اصلیت اور حقیقت لوگوں پر آشکار ہو جائے اور اس کے بعد ایسا عالمگیر انقلاب آئے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومر بن جائے۔ معاویہ نے جب قرارداد کے اصولوں کی کہلے عام خلاف ورزی کی تو امام حسن علیہ السلام کے کچھ شیعہ آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا حضرتعليه‌السلام ! اب وہ قرارداد خودبخود ختم ہوگئی ہے کیونکہ معاویہ نے اس کو خود ہی منسوخ کردیا ہے اور اس کے اصولوں کو پامال کردیا ہے لہذا آپ اٹھیے، قیام فرمایئے، فرمایا یہ انقلاب معاویہ کے بعد ہی آئے گا یعنی آپ لوگ صبر کریں۔ ایک مناسب وقت کا انتظار کریں، یہاں تک صورت حال واضح ہوجائے۔ وھی وقت وقت قیام ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ کے بعد تک زندہ رہ جاتے تو آپ وھی کرتے جو کہ امام حسین علیہ السلام نے کیا تھا۔ آپ ہر صورت میں علانیہ طور پر علم جھاد بلند کرتے ۔ متذکرہ بالا قیام حسینی کے تین محرکات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ امام حسن علیہ السلام کا زمانہ امام حسین علیہ السلام کے دور سے یکسر مختلف تھا۔ ایک جگہ پر خاموشی مصلحت تھی، سکوت عبادت تھا اور دوسری جگہ پر کلمہ حق بلند کرنا، یزیدیت کے خلاف آواز بلند کرنا عبادت تھی۔ ایک امام سے بیعت طلب نہیں کی گئی اور دوسرے سے کی گئی دراصل بیعت کرنا بذات خود بہت بڑا مسئلہ ہے۔

میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کوفہ والوں کی درخواست مسترد کردیتے تو دامن عصمت پر اعتراض ہو سکتا تھا۔ لیکن امام عالی مقام کے انقلاب آفرین کردار نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ بیس سال کے بعد کوفہ پھر اور کوفہ تھا۔ اس کوفے والے بنی امیہ سے سخت نفرت کرنے لگے، امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے اظہار عقیدت ہونے لگا، آج کے لوگ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر آنسو بہارہے تھے۔ درختوں نے پھل دینے شروع کیے ہیں۔ زمینیں سرسبز شاداب ہو چکی ہیں۔ مولا تشریف لے آیئے۔ یہاں کی فضا ساز گار ہے۔ اسی طرح کی دعوت اس بات کی مقتضی تھی کہ آپ کوفہ جائیں۔ جبکہ امام حسن علیہ السلام کے زمانے کا کوفہ کچھ اور طرح کا کوفہ تھا۔ امام حسن علیہ السلام کے خاموش اور پر حکمت انقلاب نے ایک نئی تاریخ مرتب کی اور ایک عالمگیر انقلاب کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔ تیسرا محرک حکومت کی بد عملی تھی امام حسن علیہ السلام کے دور میں معاویہ اتنا کھل کر فسق و فجور نہ کرتا تھا کہ جتنا یزید نے کیا ۔ امام حسن علیہ السلام نے ایک وقت کا انتظار کیا۔ اور اسی وقت کی ذمہ داری آپ کے پیارے بھائی نے اپنے ہاتھ وں پر لی۔ اسلام کے مرجھائے ہوئے درخت اور کملائے ہوئے پھولوں میں وہ جان ڈالی کہ وہ درخت قیامت تک کے اجڑے ہوئے انسانوں اور لٹے ہوئے قافلوں کو غیرت و حیرت کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیتا رہے گا۔

قرار داد میں کیا تھا؟

اب میں آپ کے سامنے وہ قرار داد کی عبارت پیش کرتا ہوں جو کہ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ باندھی تھی:

۱) معاویہ کی حکومت واگزار کی جا رہی ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ قرآن و سنت اور سیرت خلفاء پر عمل کرے گا۔ میں یہاں پر ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ایک اصول تھا کہ خلافت میرے ہاتھ میں ہو یا کسی اور کے ہاتھ میں باوجودیکہ خلافت میرا حق ہے میں قیام نہیں کروں گا، یہ لوگوں کا کام ہے، میں اس وقت قیام کروں گا جب خلافت غصب کی جا رہی ہوگی نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

"والله لا سلمن ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیها جورالاعلی خاصة"

امام حسن علیہ السلام کی قرارداد بھی یھی تھی کہ جب تک فقط مجھ پر ظلم کیا جارہا ہو، اور میرا حق غصب کیا گیا ہو تب تک میں خاموش رہوں گا لیکن جب کوئی غاصب حکمران مسلمانوں کے شرعی امور میں داخل اندازی کرنے لگ جائے تو پھر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔"

۲) معاویہ کے مرنے کے بعد حکومت کرنے کا حق امام حسن علیہ السلام کو ہوگا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام مسند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث ہوں گے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صلح عارضی مدت کے لئے تھی۔ امام حسن علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ اب ہم جارہے ہیں تو جانے اور یہ خلافت جانے جب تک جی چاہے حکومت کرتا رہے پھر یہ صلح معاویہ کی زندگی تک تھی اس کے بعد وہ صلح خود بخود ختم ہوجائے گی اس لئے معاویہ کو حق نہیں پھنچتا کہ وہ سازشوں کے جال بچھاتا پھرے اور نہ ہی وہ کوئی دوسرا شخص بطور خلیفہ معین کرسکتا ہے۔

۳) معاویہ شام میں حضرت علی علیہ السلام پر کھلے عام طعن و تشنیع کرتا تھا اس صلح نامہ میں شرط عائد کی گئی کہ اس عمل بدکو روکا جائے۔

معاویہ نے نمازوں کے وقت جو علی علیہ السلام پر طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع کر رکھا تھااس دن سے موقوف ہوگیا اب وہ علی علیہ السلام کو اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کرتا تھا۔ اس قرار داد پر معاویہ نے دستخط کیے اور یہ سلسلہ رک گیا اس سے بیشتر وہ علی علیہ السلام کے خلاف جگہ جگہ پروپیگنڈا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہم ان کو برا بھلا (نعوذ باللہ) اس لئے کھتے ہیں کہ وہ اسلام سے خارج ہو چکے تھے۔ اب معاویہ پر اعتراض ہونے لگا کہ تو ایک شخص کو لعنت کا حقدار سمجھتا تھا اب تو اس کو اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کر رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ہے اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ اس نے قرارداد کے اصولوں کو توڑ دیا، انسانی اقدار کو روند ڈالا اور پھر نوے ۹۰ سال تک یہ سلسلہ طول پکڑ گیا۔

۴) کوفہ کے بیت المال میں پانچ ملین درھم موجود تھے لھٰذا قرارداد کے مطابق اس کو سال میں دو ملین درھم امام حسن علیہ السلام کو بھیجنے چاہیں تھے یہ بات باقاعدہ قرارداد میں درج تھی تاکہ امام علیہ السلام اپنی اور اپنے ماننے والوں کی ضرورت پوری کرسکیں۔ ھدایا اور عطیات کے سلسلے میں بنی ھاشم کو بنی امیہ پر اہمیت دی جائے اور ایک ملین درھم امیر المومنین علیہ السلام سے تعلق رکھنے والے شھداء کے وارثان میں تقسیم کیا جائے۔ وہ شھدا جو جنگ جمل وصفین میں درجئہ شھادت پر فائز ہوئے تھے۔ شیراز کے آس پاس جتنا بھی علاقہ تھا وہ بنی ھاشم کے ساتھ خاص کر دیا گیا اور اس کی تمام آمدنی ان کو دی جائے گی۔

۵) لوگوں کے لئے امن وحفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ شام، عراق، یمن، حجاز، اور دیگر شھروں کے لوگوں کی حفاظت کی جائے کالے گورے کی تفریق نہیں ہونی چاہی ے۔ اور معاویہ کو چاہی ے کہ جنگ صفین کی تمام باتیں بھلادے۔ وہ لوگ جو صفین میں معاویہ کے خلاف لڑے تھے۔ معاویہ ان کی حفاظت وسلامتی کیلئے ضروری اقدامات کرے۔ عراقی عوام بھی پرانی سب باتیں بھلادیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب جھاں کھیں بھی آباد ہیں ان کا خاص خیال رکھا جائے، اور شیعیان علی علیہ السلام کو کسی قسم کی تکلیف نہ پھنچائی جائے۔ علی علیہ السلام کے چاہنے والے اپنے مال، جان، ناموس اور اولاد کے سلسلے میں بے خوف رہیں۔ ان کی ہر لحاظ سے حفاظت کی جائے۔ حقدار کو حق دیا جائے اور اصحاب علیعليه‌السلام کے پاس جو کچھ ہے ان سے نہ لیا جائے۔ اور امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور خاندان رسالت کے کسی فرد کو تکلیف نہ پھنچے ۔ ان کا احترام کیا جائے آرٹیکل نمبر ۵ اور ۳ میں حضرت علیعليه‌السلام کے خلاف کھلے عام مخالفت کرنے کے بارے میں تھا۔ اگر چہ معاویہ نے پہلی شرط میں بھی مان لیا تھا کہ وہ قرآن و سنت اور سیرت خلفاء کے مطابق عمل کرے گا لیکن پھر کیا وجہ تھی کہ وہ اس مسئلہ کو علیحدہ شرط کے طور پر لکھ رہا تھا؟اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا والوں پر ثابت کردے کہ مولا علی علیہ السلام کے خلاف ناسزا الفاظ کھنا جائز ہے؟ یہ بھی ایک طرح کی سازش تھی۔ یہ تھی قرارداد کی مجموعی عبارت ! معاویہ نے اپنے نمائندہ خصوصی عبداللہ بن عامر کو خالی کاغذ پر اپنے دستخط کر کے امام حسن علیہ السلام کے پاس بھیجا آپ جو بھی شرائط لکھیں گے میں ان کو قبول کروں گا اس کے بعد معاویہ نے خدا اور پیغمبر کی قسمیں کھائیں کہ وہ ایسا کرے گا اور ایسا نہ کرے گا اور اس نے زبانی طور پر اس طرح کی باتیں کیں اور پھر اس کاغذ پر دستخط کر دیئے۔ یہ بات بہر صورت تسلیم کرنا پڑے گی کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے زمانوں اور حالات میں بہت زیادہ فرق تھا۔

اگر امام حسین علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے تو آپ بھی وھی کرتے جو کہ آپ کے بڑے بھائی جناب امام حسن علیہ السلام نے کیا تھا اسی طرح امام حسن علیہ السلام معاویہ کے بعد تک زندہ رہتے تو آپ امام حسین علیہ السلام کی مانند قیام کرتے ان دونوں شھزادوں کا طرز زندگی اور حکمت عملی ایک جیسی تھی کیونکہ وہ ایک شجر کے دو ثمر تھے۔

سوال اور جواب

سوال: اگر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے تو کیا آپ صلح کرتے یا نہ؟ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ میں معاویہ کی حکومت کو ایک دن کیلئے برداشت نہ کروں گا لیکن امام حسن علیہ السلام نے حکومت معاویہ کو کیوں تسلیم کیا؟

جواب: آپ کے اس سوال کا جواب صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت علی علیہ السلام اپنے صاجزادے، امام حسن علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے تو بالکل ویسا کرتے جس طرح امام حسن علیہ السلام نے کیا تھا۔ اگر حضرت علی علیہ السلام کو ومسند خلافت پر قتل کیے جانے کا خدشہ ہوتا یا ویسے حالات پیدا ہوتے جو کہ امام حسن علیہ السلام کو پیش آئے تھے تو آپ بھی انھی شرائط کے تحت صلح کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے لیکن حضرت علی علیہ السلام کا دور بہت مختلف دور تھا ۔ مولا علی علیہ السلام کو طرح طرح کی الجھنو اور مشکلات میں الجھایا گیا۔ فتنوں، شرانگیزیوں، سازشوں، شورشوں اور یورشوں نے مولا علی علیہ السلام کو یوں الجھائے رکھا کہ اگر آپ کی جگہ پر پتھر ہوتا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا، اگر لوہا ہوتا تو وہ بھی موم ہوجاتا۔ یہ صرف اور صرف علی علیہ السلام کا دل تھا کہ مصیبتوں کے طوفانوں اور پہاڑوں کا شجاعانہ مقابلہ کرتے رہے۔ جنگ صفین میں آپ فتح حاصل کر چکے تھے۔ اگر خوارج نیزوں پر قرآن بلند کر کے نہ آتے تو علی علیہ السلام بڑی آسانی سے جنگ جیت چکے ہوتے۔ باقی آپ کا یہ کھنا کہ مولا علی علیہ السلام مشکل کشاء، شیر خدا ایک دن بھی معاویہ کی حکومت کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے، لیکن امام حسن علیہ السلام نے حکومت کو تسلیم کر لیا تھا؟

آپ نے ان دونوں مسئلوں کو خلط ملط کردیا، حالانکہ یہ دونوں مسئلے الگ الگ ہیں۔ ان کے درمیان ویسے ہی فرق ہے جیسا کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے احوال میں فرق تھا۔جس طرح حضرت علی علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ معاویہ آپ کا نائب بن کر مسند خلافت پر بیٹھے یا آپعليه‌السلام اس کو حاکم وقت مقرر کریں، اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے بھی اس کو اپنا نائب اور جانشین نہیں بنایا تھا۔ صلح کا مقصد یہ ہے کہ آپ ایک کنارے پر چلے گئے تھے۔ آپ نے اس کی حکومت کو قطعی طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس قرارداد میں آپ کو ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملے گا کہ جس میں آپ نے معاویہ کو بطور خلیفہ تسلیم کیا ہو۔ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایک کونے میں جارہے ہیں اور تو جانے اور تیرا کام جانے۔آپعليه‌السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ تو جو کچھ کام انجام دے گا وہ ٹھیک ہے۔ پس حالات کا فرق ہوا تو طریقہ کار بھی بدل گیا۔ جس طرح مولا علی علیہ السلام نے حکومت کو مسترد کردیا تھا اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے بھی اس کی حقانیت و خلافت کو قبول نہیں کیا تھا۔ موقع محل کو دیکھ کر جس طرح تلوار اٹھانا عبادت ہے اسی طرح امت اسلامیہ ک بھتری کیلئے خاموش ہو جانا بھی عبادت ہے۔

سوال:کیا حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو یہ وصیت کی تھی کہ آپ اس کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کریں؟

جواب:مجھے یاد نہیں آرہا کہ امام علیہ السلام نے اس قسم کی کوئی وصیت کی ہو لیکن جھاں تک تاریخ میں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام آخر دم تک معاویہ سے جنگ کرنے کے خواہاں تھے۔ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس چپقلش سے دو چار تھے۔ امام علی علیہ السلام کو جو چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی تھی وہ معاویہ کی منافقانہ ڈپلومیسی تھی۔ حضرت اس کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ آپ کی خواہش تھی کہ جب تک معاویہ ہلاک نہیں ہوجاتا اس سے جنگ جاری رکھنی چاہی ے۔آپ کی شھادت سے معاویہ سے جنگ کا سلسلہ ٹوٹ گیا اگر آپ کو شھید نہ کیا جاتا تو ایک اور جنگ پیش آسکتی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام کا نھج البلاغہ میں ایک مشھور خطبہ ہے اس میں آپ لوگوں کو جھاد کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس کے بعد جنگ صفین میں شھید ہونے والے اپنے باوفا صحابہ کو یاد کرتے ہیں۔ فرمایا:

"این اخوانی الذین رکبوا الطریق ومضوا علی الحق این عمار واین ابن التیهان واین ذو الشهادتین" (۲۳)

"کھاں گئے ہیں میرے بھائی، میرے ساتھی، وہ سیدھے راستے پر سوار ہوئے یقیناًوہ حق پر تھے عمار یاسر اور میرے دوست کھاں ہیں؟"

اس کے بعد آپ نے گریہ کیا۔ آپ کا یہ خطاب نماز جمعہ میں تھا۔ آپ نے لوگوں کو آگے بڑھنے اور جھاد کرنے کی ترغیب دلائی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ ابھی دوسرا جمعہ نہ آیا تھا کہ آپ کو ضربت لگی اور شھید ہوگئے۔ امام حسن علیہ السلام نے بھی شروع میں معاویہ سے جنگ کرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن جب اپنے اصحاب کی بے پرواہی اور اندرونی اختلافات کو ملاحظہ فرمایا تو آپ نے جنگ کا ارادہ ترک کردیا۔ دوسرے لفظوں میں جب آپ نے یہ دیکھا کہ جنگ کرنے سے جگ ھنسائی ہوگی آپ نے بھتر سمجھا کہ اس حالت میں خاموش رہنے ہی میں عافیت ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے ایمانی لحاظ سے ایک طاقتور جماعت تیار کی جو کہ بڑی اور سخت سے سخت مشکل کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ یہ کسی تاریخ نے نہیں لکھا کہ آپ کی جماعت کا کوئی ایک فرد بھی دشمن کی فوج میں شامل ہوا ہو بلکہ آخری دم تک استقامت کے یہ پہاڑ اپنی اپنی جگھوں اور اپنے ارادوں پر ڈٹے رہے۔ ان کے بچوں تک نے بھی خواہش نہیں کی وہ فوج یزید میں سے ہوتے؟لیکن امام علیہ السلام کی پاکیزہ کردار کی کشش تھی کہ دشمن کی فوج سے منحرف ہو کر بہت سے افراد لشکر امام میں شامل ہوئے۔ امام عالی مقام کے اصحاب میں سے کسی نے کسی مقام پر ایمان کی کمزوری اور بزدلی نہیں دکھائی۔ ضحاک بن عبداللہ مشرقی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مولاعليه‌السلام میں ایک شرط پر آپ کے لشکر میں شامل ہونا چاہتا ہوں کہ میں جب تک آپ کے لشکر میں رہوں گا کہ میں اور میرا وجود آپ کیلئے مفید ہے۔ لیکن جب دیکھوں گا کہ میرا آپ کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پھنچ رہا تو میں آپ سے جدا ہو کر چلا جاؤں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ٹھیک ہے آپ ہمارے پاس آجایئے چنانچہ یہ شخص لشکر امام میں شامل ہوگیا۔

عاشورہ کے آخری لمحات تک یہ شخص وھیں رہا اس کے بعد کھنے لگا مولاعليه‌السلام اب میں جانا چاہتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا آپ کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ اس کے پاس بہت اعلی قسم کا گھوڑا تھا یہ اس پر سوار ہوا اور اس کو ایڑی لگائی اور لشکر یزید کو چیرتا ہوا باہر نکل گیا۔ چند یزیدیوں نے صحاک کا تعاقب کیا وہ اس کو گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن ان سپاہی وں میں اس کا ایک واقف کار نکل آیا اس نے کہا اسے جانے دیجیئے کہ یہ جنگ نہیں کرنا چاہتا۔ انھوں نے اسے جانے دیا اس کے علاوہ کسی ایک شخص نے بھی لشکر امام میں سے اپنے ایمان کی کمزوری نہیں دیکھائی۔ لیکن امام حسن علیہ السلام کے اصحاب اگر بزدلی اور کمزوری نہ دکھاتے تو آپ کسی طرح بھی صلح نہ کرتے ایک تو آپ شھید ہوجاتے دوسرے رسوائی ہوتی اس لئے آپ نے مصالحت کی۔

یہ وہ فرق ہے کہ جو ایک کے قیام اور دوسرے کی مصالحت پر منتج ہوا۔ جس طرح حضرت علی علیہ السلام معاویہ سے جنگ کے خواباں تھے کی طرح امام حسن علیہ السلام بھی ان سے لڑنا چاہتے تھے لیکن جب کوفہ والوں کی بے وفائی اور بے پرواہی دیکھی تو آپ نے جنگ کا ارادہ بدل لیا یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے لشکر میں بھی کمی واقع ہوگئی، تو آپ نے شھر سے باہر آکر فوجیوں سے فرمایا آپ نخیلہ مقام پر جائیں اور آپ نے خطبہ دیا اور لوگوں کو جھاد کی طرف دعوت دی تو سبھی خاموش رہے، اس مجمع میں صرف عدی بن حاتم اپنی جگہ سے اٹھا اور لوگوں کی ملامت کی اور کہا کہ میں خود جاتا ہوں چنانچہ وہ چل پڑا ایک ھزار آدمی بھی اس کے ساتھ چل پڑے اس کے بعد امام حسن علیہ السلام نخیلہ مقام پر تشریف لے گئے اور دس دنوں تک وھیں پر قیام فرمایا۔ صرف چار ھزار آدمی جمع ہوئے حضرت دوسری مرتبہ پھر تشریف لائے اور لوگوں کو دوبارہ جھاد کی طرف راغب کیا اس مرتبہ لوگوں کی جمعیت کچھ زیادہ اکٹھی ہوئی لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایمان کی کمزوری اور بزدلی کا مظاہر کیا۔ رات ہوئی معاویہ کی طرف سے کچھ لوگ آئے ان کے سرداروں کو پیسے دئیے چنانچہ اسی رات کو وہ لوگ بھاگ کر چلے گئے، ٹولیاں ٹولیاں بنا کر جارہے تھے۔ اس افسوسناک صورت حال کو دیکھ کر حضرت نے مناسب سمجھا کہ ذلت کے بجائے عزت کے ساتھ خاموشی اختیار کی جائے۔

سوال: آپ نے یہ فرمایا کہ اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو تاریخ ان پر اعتراض کرسکتی تھی۔ میرے خیال کے مطابق امام علیہ السلام اگر صلحنامہ پر دستخط نہ کرتے تو ان کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ معاویہ ایک چالاک وعیار شخص تھا۔ اس نے امام حسن علیہ السلام کی طرف ایک سفید کاغذ بھجوا کر ایک چال کھیلی تھی۔ معاویہ کو تو لوگ حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ سے جانتے تھے کہ یہ شخص صرف اور صرف اقتدار کا بھوکا ہے اور کرسی کے حصول کیلئے اس طرح کے حربے استعمال کرتا رھتا ہے؟

جواب: یہ درست ہے کہ معاویہ بہت ہی چالاک انسان تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اسلامی شرائط کو قبول کیا ہے یا غیر اسلامی کو؟ ظاہر ہے اسلامی شرائط ہی امام علیہ السلام نے قبول فرمائی تھیں۔ دوسری بات یہ صلح نامہ ذاتی مقصد اور شخصی مفاد کیلئے نہیں تھا بلکہ اس میں تمام مسلمانوں کے فوائد مضمر تھے۔ تیسری بات امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ ہر گز وفانہ کی۔ پھر اس وقت حکومتی مشینری شب وروز پروپیگنڈا کر رہی تھی کہ معاویہ تو امام علیہ السلام کی ہر بات مانتا ہے لیکن امام علیہ السلام نہیں مانتے ظاہر ہے اس وقت کا مورخ یھی لکھتا کہ نعوذ باللہ امام حسن علیہ السلام صلح جو انسان نہیں ہیں حالانکہ امن وسلامتی کا قیام ائمہ طاہر ین علیھم السلام کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ آپ نے یہ کہا کہ وہاں کے عوام حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ سے معاویہ کو پوری طرح سے جانتے اور پھچانتے تھے۔ کہ وہ اپنی ایک بات پر قائم نہیں رھتا کھتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے دراصل معاملہ کچھ یوں تھا کہ لوگ معاویہ کو اچھا انسان تو نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کے نزدیک وہ حکمران اچھا تھا۔ اس لئے بھی کوفہ والے قدر ے خاموش ہوگئے ۔ عوامی ردعمل یہ تھا کہ اگر وہ اچھا انسان نہیں ہے تو کیا اچھا حکمران تو ہے وہ کہا کرتے تھے کہ معاویہ نے خطہ شام کو کس طرح سنوارا ہے، اور وہاں کے لوگ کس طرح خوشحال ہیں؟ لوگوں نے معاویہ کو اس طرح پھچان رکھا تھا پھر اس کو حکمران ہونے کے باعث پورے ملک پر مکمل قدرت حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ اس لئے سبھی خاموش تھے۔ اب ان حالات میں حق وصداقت، سچائی و راستبازی کے پیکر امام حسن علیہ السلام تن تنھا کیا کرتے؟

اس وقت لوگوں میں یہ بات عام تھی کہ معاویہ وقت کا بہت بڑا سیاستدان ہے۔ مورخین نے معاویہ کی اس مقام پر مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر وہ کوفہ میں بھی حلم وبردباری اور اچھے کردار کا عملی مظاہر ہ کرتا تو وہ اسلامی و دینی نقطہ نظر سے بھی کامیاب ہوتا۔ معاویہ کے بارے میں مشھور تھا کہ وہ بردبارسیاستدان ہے۔ لوگ اس کو جاکر سر عام گالیاں دیتے اور برا بھلا کھتے تھے لیکن وہ ان کی تمام باتیں سنی ان سنی کر دیتا تھا، اور ھنستے مسکراتے ہوئے ان کو انعام واکرام سے نوازتا تھا۔ اس کے اس رویے کی وجہ سے لوگوں کی سوچ بدل جاتی اور اس کی اس بات پر لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے تھے کہ معاویہ دنیا دار حکمران ہے۔ امام حسن علیہ السلام اس لئے خاموش ہوگئے تھے کہ وہ لوگوں کے اذھان پیسوں سے خرید لیا کرتا تھا۔ لوگوں کو اس سےغرض نہ تھی کہ وہ نیک ہو، اچھا ہو، دیندار ہو۔ بلکہ وہ چاہتے تھے کہ جو حکومتی امور کو بآ احسن چلا سکے۔

معاویہ کے بارے میں مشھور تھا کہ وہ ایک جاہ طلب اقتدار کا بھوکا انسان تھا (جس طرح آج کے دور میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کو خریدا جاتا ہے اس وقت بھی معاویہ اعتراض کرنے والے کو پیسے دے کر خاموش کرا دیتا تھا بلکہ اس کے بڑے بڑے مخالف مالی و مادی لالچ کی وجہ سے اس کے ساتھی بن گئے) اب آپ ہی فرمایئے کہ امام حسن علیہ السلام صلح نامہ پر دستخط کر کے گوشہ تنھائی میں نہ بیٹھیں تو کیا کریں۔ واقعتاً حالات نے امام علیہ السلام کو بے بس اور مجبور کردیا تھا۔

سوال: کیا امام حسین علیہ السلام نے اس صلحنامہ پر دستخط کیے تھے؟ کیا آپ نے اپنے بھائی جان امام حسن علیہ السلام پر اعتراض نہیں کیا تھا یا روکا نہیں تھا کہ وہ بیعت نہ کریں؟

جواب: میں نے کھیں نہیں پڑھا کہ مولا امام حسین علیہ السلام نے بھی اس پر دستخط کیے ہوں دراصل آپ کی اجازت اور آپ کے دستخطوں کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ اس وقت کے امام اور دینی سر براہ امام حسن مجتبی علیہ السلام تھے۔ جب ایک سربراہ موجود ہوتا ہے تو دوسرے کے احکامات اور آراء کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ امام حسین علیہ السلام کا فیصلہ بھی وھی تھا جو امام حسن علیہ السلام کا تھا۔ صلح کے بعد ایک گروہ امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور عرض کی مولاعليه‌السلام ہم اس صلح کو قبول نہیں کرتے۔ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں اور آپ قیام فرمایئے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا میرے پیارے بھائی جناب حسن علیہ السلام نے جو کچھ کیا ہے صحیح کیا ہے میں تو ان کے فرامین پر عمل کرنے کا پابند ہوں۔

تاریخ میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کی سوچ ایک تھی۔ امام حسن کی ذات گرامی امام حسین علیہ السلام کیلئے ایک معتبر حوالہ اور حرف آخر کے طور پر حیثیت رکھتی تھی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ معاویہ کے مذاکرات اور صلحنامہ کے وقت امام حسین علیہ السلام نے مشورہ دینے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ امام حسین علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ اس وقت کے محمد،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی،عليه‌السلام حسن علیہ السلام ہی ہیں۔ جو کھیں گے سچ کھیں گے اور جو کریں گے ٹھیک کریں گے۔ کیونکہ وہ وقت کے امام اور وقت کے سب سے بڑے دانائے راز ہیں اور امام کبھی خطاء نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی سوچ الہٰی ہوتی ہے۔ امام علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے رھنمائی ہوتی ہے۔ غلطی کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ (میرے نزدیک امام حسن علیہ السلام کے مدبرانہ اقدام پر حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی مرتضی علیہ السلام نے انھیں داد تحسین دی ہوگی اور جناب فاطمۃ الزھراءعليه‌السلام نے دعائیں دی ہونگی۔ امام حسینعليه‌السلام نے آگے بڑھ کر اپنے جلیل القدر بھائی کو گلے لگایا ہوگا۔ جناب جبرائیل امینعليه‌السلام نے اس منظر کو دیکھ کر ملائکہ کو نوید مسرت دی ہوگی کہ آج کا محمد (ص)، آج کا علیعليه‌السلام کس احسن طریقہ سے دین الہٰی کی تبلیغ کے فرائض انجام دے رہا ہے؟ ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ مولاعليه‌السلام آپ نے ان کربناک لمحوں میں جس حسن تدبر کا مظاہر ہ کیا ہے اس پر آپ کو پوری انسانیت خراج تحسین پیش کرتی ہے۔)