سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)0%

سيرت آل محمد(عليهم السلام) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 27738
ڈاؤنلوڈ: 4692

تبصرے:

سيرت آل محمد(عليهم السلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27738 / ڈاؤنلوڈ: 4692
سائز سائز سائز
سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ولی عھدی امام رضاعليه‌السلام ( ۱)

آج ہماری بحث کا مرکز انتھائی اہم مسئلہ ہے وہ ہے مسئلہ امامت و خلافت۔ اس کو ہم حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولی عھدی کی طرف لے آتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے یہ مسئلہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مامون امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے سرزمین خراسان "مرو"میں لے آیا اور آپ کو اپنا ولی عھد مقرر کر دیا۔ یا ولی عھد دونوں لفظوں کا معنی و مفھوم ایک ہی ہے۔ یہ اس دور کی اصطلاح میں استعمال ہوتا تھا۔ میں نے چند سال قبل اس مسئلہ پر غور کیا تھا کہ یہ کلمہ کس تاریخ کی پیداوار ہے۔ صدر اسلام میں تو تھا ہی نھیں۔ جب موضوع ہی نہ تھا تو پھر لغت کیسی؟ پھر یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ اس قسم کی اصطلاح آنے والے زمانوں میں استعمال میں لائی گئی۔ سب سے پھلے معاویہ نے اس اصطلاح کو اپنے بیٹے یزید کے لئے استعمال کیا، لیکن اس نے اس کا کوئی خاص نام نہیں رکھا تھا، بلکہ اس نے یزید کےلیے بیعت کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اس لیے ہم اس لفظ کو اس دور کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ امام حسن علیہ السلام کی صلح کے وقت بھی یہ لفظ زیر بحث آیا۔ تاریخ کھتی ہے کہ امام علیہ السلام نے خلافت معاویہ کے حوالے کردی اور امام علیہ السلام کے نزدیک حاکم وقت کو اپنے حال پہ رہنے دینا ہی وقت کا اہم تقاضا تھا۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اعتراض کریں کہ اگر امام حسن علیہ السلام نے ایسا کیا ہے تو دوسرے آئمہ کو بھی کرنا چاہی ے تھا ایک امام کا اقدام صحیح ہے اور دوسروں کا نھیں؟

امام حسن علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کو حکام وقت کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہی ے۔ یہ دونوں پرچم جھاد بلند کرتے ہوئے شھید ہو جاتے تو بھتر تھا؟اب ہم نے انھیں اعتراضات کا جواب دینا ہے۔ تاکہ بدگمانیوں کا خاتمہ ہو اور لوگوں کو حقائق کے بارے میں پتہ چل سکے۔ امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بارے میں ہم روشنی ڈال چکے ہیں ۔ اب ہم امام رضا علیہ السلام کے دور امامت میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں تجزیہ کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے مامون کی ولی عھدی قبول فرمائی؟

علویوں کے ساتھ عباسیوں کا رویہ

مامون عباسی سلطنت کا وارث ہے۔ عباسیوں نے شروع ہی میں علویوں کے ساتھ مقابلہ کیا یہاں تک کہ بہت سے علوی عباسیوں کے ہاتھ وں قتل بھی ہوئے ۔ اقتدار کے حصول کے لیے جتنا ظلم عباسیوں نے علویوں پر کیا اور امویوں سے کسی صورت میں کم نہ تھا بلکہ ایک لحاظ سے زیادہ تھا۔ چونکہ اموی خاندان پر واقعہ کربلا کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لیے امویوں کو ظالم ترین تصور کیا جاتا ہے۔ عباسیوں نے جتنا ظلم علویوں پر کیا ہے وہ بھی اپنی جگہ پر بہت زیادہ تھا، دوسرے عباسی خلیفہ نے شروع شروع میں اولاد امام حسینعليه‌السلام پر بیعت کے بھانے سے حد سے زیادہ مظالم کئے ۔ بہت سے سادات کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ کچھ زندانوں میں قید و بندی کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ ان بیچاروں کو کھانے پینے کےلئے نہیں دیا جاتا تھا۔ بعض سادات پر چھتیں گرا کر ان کو شھید کیا جاتا تھا۔ وہ کونسا ظلم تھا جو عباسیوں نے سادات پر روانہ رکھا۔ منصور کے بعد جو بھی خلیفہ آیا اس نے اس پالیسی پر عمل کیا۔ مامون کے دور میں پانچ چھ سید زادوں نے انقلابی تحریکیں شروع کیں۔ ان کو مروج الذھب، مسعودی، کامل ابن اثیر میں تفصیل کےساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تاریخ کی بعض کتب میں تو سات آٹھ انقلابی شھزادوں کا ذکر ملتا ہے ۔

عباسیوں اور علویوں کے درمیان دشمنی بغض وکینہ کی حد تک چلی گئی تھی۔ کرسی خلافت کے حصول کیلئے عباسیوں نے ظلم کی انتھا کر دی، یہاں تک کہ اگر عباسی خاندان کا کوئی فرد عباسی خلافت کا مخالف ہوجاتا تو اس کو بھی فوراً قتل کر دیا جاتا۔ ابو مسلم عمر بھر عباسیوں کے ساتھ وفاداریوں کا حق نبھاتا رہا لیکن جو نھی اس کے بارے میں خطرے کا احساس کیا تو اسی وقت اس کا کام تمام کر دیا۔ برمکی خاندان نے ہارون کے ساتھ وفا کی انتھا کردی تھی ۔ انھوں نے اس کی خاطر غلط سے غلط کام بھی کئے اور ان دونوں خاندانوں کی دوستی تاریخ میں ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے ۔ لیکن ایک چھوٹے سے سیاسی مسئلہ کی وجہ سے اس نے یحیی کو مروا دیا اور اس کے خاندان کو چین سے رہنے نہ دیا تھا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا یھی مامون اپنے بھائی امین کے ساتھ الجھ پڑا۔ سیاسی اختلاف اتنا بڑھا کہ نوبت لڑائی تک پھنچ گئی ۔ بالآخر مامون کامیاب ہوگیا اور اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔ بدلتا رنگ ہے آسمان کیسے کیسے ۔

پھر حالات نے رخ بدلا، بہت تبدیلی آئی، ایسی تبدیلی کہ جس پر مورخین بھی حیران ہیں۔ مامون خلیفہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے بلواتا ہے۔ حضرت کے نام پیغام بھجواتا ہے کہ آپ خلافت مجھ سے لے لیں۔ جب آپ تشریف لاتے ہیں تو کھتا ہے کہ بھتر ہے آپ ولی عھدی ہی قبول فرمائیں اگر نہ کیا تو آپ کے ساتھ یہ یہ سلوک کیا جائے گا۔ معاملہ دھمکیوں تک جاپھنچا۔ یہ مسئلہ اتنا سادا اور آسان نہیں ہے کہ جس آسانی کےساتھ بیان کیا جاتا ہے، بہت ہی مشکل حالات تھے۔ امام علیہ السلام ہی بھتر جانتے تھے کہ کونسی حکمت عملی اپنائی جائے ۔

جرجی زیدان تاریخ تمدن کی چوتھی جلد میں اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ اس کے بارے میں میں بھی تفصیلی بات چیت کروں گا۔ جرجی زید ایک بات کا اعتراف ضرور کرتا ہے کہ بنی عباس کی سیاست بھی انتھائی منافقانہ اور خفیہ طرز کی سیاست تھی۔ وہ اپنے قریبی ترین عزیزوں اور رشہ داروں سے بھی سیاسی داؤ پیچ پوشیدہ رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر آج تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ مامون امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عھد بنا کر کیا حاصل کرنا چاہتا تھا؟ کیا وجہ تھی کہ وہ آل محمدعليه‌السلام کے ایک ایسے فرد کو اپنا نائب مقرر کر رہا تھا کہ جو وقت کا امامعليه‌السلام بھی تھا اور یہ دل ہی دل میں خاندان رسالتعليه‌السلام کے ساتھ سخت دشمنی رکھتا تھا؟

امام رضاعليه‌السلام کی ولی عھدی اور تاریخی حقائق

امام رضا علیہ السلام کی ولی عھدی کا مسئلہ راز رہے یا نہ رہے لیکن ملت جعفریہ کے نزدیک اس مسئلے کی حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ہمارے اس موقف کی صداقت کےلیے شیعہ مورخین کی روایات ہی کافی ہیں جیسا کہ جناب شیخ مفید (رح) نے اپنی کتاب ارشاد، جناب شیخ صدوق نے اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں نقل کیا ہے ۔ خاص طور پر عیون میں امام رضا علیہ السلام ہی کی ولی عھدی کے بارے میں متعدد روایات نقل کی گئی ہیں۔ قبل اس کے ہم شیعہ کتب سے کچھ مطالب بیان کریں۔ اہلسنت کے ابو الفرج اصفھانی کی کتاب مقاتل الطالبین سے دلچسپ تاریخی نکات نقل کرتے ہے، ابو الفرج اپنے عھد کا بہت بڑا مورخ ہے یہ اموی خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے یہ آل بابویہ کے زمانے میں زندگی بسر کرتا رہا۔ چونکہ یہ اصفھان کا رہنے والا ہے اس لیے اس کو اصفھانی کھا جاتا ہے۔ ابو الفرج سنی المذھب ہے۔ شیعوں سے اس کا کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کو شیعوں سے کسی قسم کی ہمدردی تھی۔ پھر یہ شخص کچھ اتنا زیادہ نیک بھی نہ تھا کہ کھیں کہ اس نے تقوی اور پ رہی ز گاری کو سامنے رکھتے ہوئے حقائق کو بیان کیا ہے۔ مشھور کتاب الآغانی کا مصنف بھی یھی ابو الفرج اصفھانی ہی ہے۔ الآغانی اغنیۃ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے آوازیں۔

اس کتاب میں موسیقی کے بارے میں مکمل تعارف، کوائف اور تاریخ تحقیقی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ اٹہارہ جلدوں پر مشتمل یہ کتاب موسیقی کا انسائیکلوپیڑیا ہے ۔ کھا جاتا ہے کہ ابو الفرج کا ایک ہم عصر عالم صاحب بن عباد سفر پر کھیں بھی جاتا تھا۔ ابو الفرج کی چند کتابیں اس کے ہمراہ ہوتی تھیں۔ وہ کہا کر تھا کہ ابو الفرج کی کتابوں کے ہوتے ہوئے اب مجھے دوسری کتابوں کی ضرورت نہ رہی ۔ الآغانی اس قدر جامع اور تحقیقی کتاب ہے کہ اس کو پڑھ کر کسی دوسری کتاب کی احتیاج نہیں رھتی ۔ یہ موضوع کے اعتبار سے منفرد کتاب ہے۔ اس میں موسیقی اور موسیقی کاروں کے بارے میں پوری وضاحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ علامہ مجلسی (رح)، الحاج شیخ عباس قمی (رح)، نے بھی الآغانی کو الفرج کی تصنیف قرار دیا ہے۔ ہم نے کھا ہے کہ ابو الفرج کی ایک کتاب مقاتل الطالبین ہے (جو کہ کافی مشھور ہے) اس میں انھوں نے اولاد ابی طالب کے مقتولوں ک تاریخ بیان کی ہے۔ اس میں اولاد ابی طالب کی انقلابی تحریکوں اور ان کی المناک شھادتوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مختلف تاریخی پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شھادت کے اس باب میں علوی سادات کی اکثریت ہے۔ البتہ کچھ غیر علوی بھی شھید ہوئے ہیں۔ اس نےکتاب کے دس صفحے امام رضا علیہ السلام کی ولی عھدی کے ساتھ خاص کیے ہیں۔ اس کتاب کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ اس کے مطالب اور شیعہ قلمکاروں کی تحریریں اس موضوع کی بابت تقریباً ایک جیسی ہیں۔

آپ ارشاد کا مطالعہ کرلیں اور مقاتل الطالبین کو پڑھ لیں ان دونوں کتابوں مین آپ کو کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوگا۔ اس لیے ہم شیعہ سنی حوالوں سے اس مسئلہ پر بحث کریں گے لیکن اس سے قبل ہم آتے ہیں مامون کی طرف وہ کونسا عامل تھا کہ جس کی وجہ سے وہ امام رضا علیہ السلام کو ولی عھدی بنانے پر تیار ہوا؟اگر تو اس نے یہ سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ مرجائے یا قتل ہوجائے تو جانے سے پھلے خلافت امام رضا علیہ السلام کے سپرد کر جائے۔ ہم اس کو اس لیے نہیں مانیں گے کہ اگر اس کی امام علیہ السلام کے بارے میں اچھی نیت ہوتی تو وہ ان کو زھر دے کر شھید نہ کرتا۔ شیعوں کے نزدیک اس قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ مامون امام کے بارے میں اچھی نیت رکھتا تھا، بعض مورخین نے مامون کو شیعہ کے طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ آل علی علیہ السلام کا بحد احترام کرتا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی ہی مخلص، مومن تھا تو اپنی خلافت سے دست بردار ہو کر اس نے مسند خلافت امام علیہ السلام کے سپرد کیوں نہ کر دی؟اگر وہ سادات کا محبّ تھا تو امام علیہ السلام کو زھر کیوں دی؟

مامون اور تشیع

مامون ایک ایسا حکمران ہے کہ جس کو ہم خلفاء سے بڑھ کر بلکہ پوری دنیا کے حکمران سے بڑھ کر عالم، دانشور مانتے ہیں۔ وہ اپنے دور کا نابغہ انسان تھا۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وہ فکری و نظریاتی لحاظ سے مذھب شیعہ سے زیادہ متاثر تھا۔ شاید یھی وجہ ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے علمی لیکچرز میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتا تھا۔ وہ سنی علماء کے دروس میں بھی جاتا تھا۔ اہل سنت کے ایک معروف عالم ابن عبدالبر بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مامون نے چالیس سنی علماء کو ناشتے پر بلایا اور ان کو بحث و مباحثہ کی بھی دعوت دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آقائے محمد تقی شریعتی نے اپنے کتاب خلافت و ولایت میں نقل کرتے ہوئے کھا ہے کہ جس خوبصورتی کے ساتھ مامون نے مسئلہ خلافت پر دلائل دیئے ہیں اتنے کسی اور عالم نے نہیں دیئے ہوں گے۔ مامون نے علماء کےساتھ خلافت امیر المومنین پر بحث مباحثہ کیا اور سب کو مغلوب کر دیا۔

شیعہ روایات میں آیا ہے اور جناب سیخ عباس قمی (رح) نے بھی اپنی کتاب منتھی الآمال میں لکھا ہے کہ کسی نے مامون سے پوچھا کہ آپ نے شیعہ تعلیمات کس سے حاصل کی ہیں؟ کھنے لگا والد ہارون سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کھنا چاہتا تھا کہ ہارون بھی مذھب شیعہ کو اچھا اور برحق مذھب سمجھتا تھا۔ وہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ ایک خاص قسم کی عقیدت رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنے بابا سے کھا کرتا تھا کہ ایک طرف آپ امام علیہ السلام سے محبت کا دم بھرتے ہیں اور دوسرے طرف ان کو روحانی و جسمانی اذیتیں بھی دیتے ہیں؟ تو وہ کھا کرتا تھا "الملک عقیم" عرب میں ایک ضرب المثل ہے کہ اقتدار بیٹے کو نہیں پھچانتا، تو اگر چہ میرا بیٹا ہے لیکن میں یہ ہرگز برداشت نہ کروں گا کہ تو میری حکومت کے خلاف ذرا بھر اقدام کرے۔ حکومت، کرسی اور اقتدار کی خاطر میں تیرا سر قلم کرسکتا ہوں۔ مامون آئمہ کا دشمن تھا اس لیے اس کو شیعہ کھنا زیادتی ہوگی، یا پھر وہ کوفہ والوں کی مانند بے وفا تھا جو امام حسین علیہ السلام کو دعوت دے کر اپنا عھد توڑ بیٹھے اور یزیدی قوتوں کے ساتھ مل گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں ماموں ظالم تھا لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو اسے استاد کی تعظیم کا درس بھی نہ دے۔ کچھ مؤرخین کا کھنا ہے کہ ماموں نے خلوص نیت سے امام رضا علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور امام علیہ السلام کی موت طبعی تھی۔ لیکن ہم شیعہ اس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے مصلحت وقت کے مطابق آپ نے ولی عھدی کو قبول فرمایا تھا۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ امام علیہ السلام مامون کی حکومت کو حق مانتے اور جانتے ہوں امام علیہ السلام ایک روز بھی مسند حکومت پر نہیں بیٹھے۔ یو نھی وقت ملا آپ علوم اسلامی کی ترویج کرتے، غریبوں اور بے نواؤں کی خدمت کرتے۔ رہی بات مامون کی تو حکومت اور اقتدار کے بھوکے یہ خلیفے کسی سے مخلص نہ تھے۔ انھوں نے سیاسی مفادات کی خاطر بڑے بڑے مخلص دوستوں کو قتل کروا دیا تھا یہاں تک کہ اپنی اولاد پر بھی اعتبار نہ کیا۔

شیخ مفید و شیخ صدوق کی آراء

ایک اور مفروضہ کہ جسے جناب شیخ مفید (رح) اور جناب شیخ صدوق (رح) نے تسلیم کیا ہے کہ مامون شروع میں امام رضا علیہ السلام کو اپنا نائب بنانے میں مخلص تھا لیکن بعد میں اس کی نیت بدل گئی۔ ابو الفرج، جناب صدوق (رح)، شیخ مفید (رح) نے اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مامون کھتا ہے کہ ایک روز مجھے اپنے بھائی امین نے بلوایا (مامون اس وقت امین کا ولی عھد تھا) لیکن میں نہ گیا۔ کچھ لمحوں کے بعد اس کے سپاہی آئے کہ میرے ہاتھ باندھ کر مجھے خلیفہ امین کے پاس لے جائیں۔ خراسان کے نواحی علاقوں میں بہت سی انقلابی تحریکیں سر اٹھا رہی ں تھیں۔ میں نے اپنے سپاہی وں کو بھیجا کہ ان کے ساتھ مقابلہ کریں لیکن ہمیں اس لڑائی میں شکست ہوئی۔ اس وقت میں نے تسلیم کر لیا کہ اپنے بھائی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک دن میں نے خدا سے توبہ کی مامون نے جس شخص کو یہ بات بتائی وہ اس کو اس کمرے میں لے گیا کہ میں نے اس کمرے کو دھلوایا پاک وپاکیزہ لباس پھنا۔ اور اللہ تعالی سے منت مانی کہ اگر میں تندرست ہو گیا تو خلافت اس شخص کو دے دوں گا جس کا وہ حقدار ہے۔

اسی جگہ پر جتنا مجھے قرآن مجید یاد تھا میں نے پڑھا اور چار رکعتیں ادا کیں۔ یہ کام مین نے انتھائی خلوص کے ساتھ کیا۔ اس عمل کے بعد میں نے اپنے اندر انھونی سی طاقت محسوس کی۔ اس کے بعد میں نے کبھی کبھی کسی محاذ پر شکست نہیں کھائی ۔ سیستان کے محاذ پر میں نے اپنی فوج بھیجی وہاں سے فتح و کامیاب کی خبر ملی پھر طاہر بن حسین کو اپنے بھائی کے مقابلہ میں بیجھا وہ بھی کامیاب ہوا ۔ مسلسل کامیابیوں کے بعد میں اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہتا تھا۔ شیخ صدوق اور دیگر شیعہ مورخین و محدثین نے اس امر کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ مامون نے نذر مانی تھی اسلئے اس نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عھد مقرر کیا تھا اس کی اور وجہ کوئی نہیں ہے ایک احتمال تو یہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دوسرا احتمال

دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ اقدام یا یہ سوچ مامون کی طرف سے نہ تھی بلکہ یہ منصوبہ فضل بن سھل نے بنایا تھا۔ اس کے پاس دور عھدوں کا اختیار تھا، اور مامون کا قابل اعتماد وزیر تھا (مامون کے ایک وزیر کا نام فضل بن سھل تھا یہ دو بھائی تھے دوسرے کا نام حسن بن سھل تھا۔ یہ دونوں خالصتاً ایرانی اور مجوسی الاصل تھے) ۔ برمکیوں کے دور میں فضل تعلیم یافتہ اور تجربہ کار سیاستدان کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ علم نجوم میں خاصی دسترس رکھتا تھا۔ برمکیوں کے پاس آکر مسلمان ہو گیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کا باپ مسلمان تھا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ یہ سب مجوسی تھے۔ اور انھوں نے اکٹھے ہی اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد فضل نے ترقی کی اور چند دنوں کے اندر اندر اسے بہت بڑی وزارت کا قلمدان مل گیا۔ گویا وزیر اعظم نامزد ہو گیا اس وقت۔ میں وزیر نہ ہوا کرتے تھے، سب کچھ فضل ہی کے پاس تھا۔ مامون کی فوج اکثریت ایرانی تھے۔ عرب فوج نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چونکہ مامون خراسان میں تھا اور امین عرب میں تھا اور ان دونوں کے درمیان جنگ جاری رھتی تھی۔

عرب امین کو پسند کرتے تھے اور مامون خراسان میں رہنے کی وجہ سے ایرانیوں کو پسند تھا۔ مسعودی نے مروج الذھب، التنبیہ والاشراف میں لکھا ہے کہ مامون کی ماں ایرانی تھی۔ اس لیے ایرانی قوم اس کو پسند کرتی تھی۔ اہستہ اہستہ حکومت کے تمام تر اختیارات فضل کے پاس منتقل ہوگئے اور مامون کے آلہ کار کے طور پر رہ گیا) فضل نے مامون سے کھا کہ آپ نے اب تک آل علی علیہ السلام پر بے تحاشا مظالم کیے ہیں اب بھتر یہ ہے کہ اولاد علی علیہ السلام میں اس وقت سب سے افضل شخص امام رضا علیہ السلام موجود ہیں ان کو لے آئیں اور اپنے ولی عھد کے طور پر ان کو متعارف کروائیں۔ مامون دلی طور پر اس پر راضی نہ تھا چونکہ فضل نے بات کی تھی اس لیے وہ اس کو ٹال نہ سکتا تھا اس لیے ہم کھہ سکتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کا ولی عھدی نامزد کرنا فضل بن سھل کے پرگراموں میں سے ایک پروگرام تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ فضل شیعہ تھا اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے عقیدت رکھتا تھا؟یا وہ پرانے مجوسانہ عقائد پر باقی تھا وہ چاہتا تھا کہ خلافت بنو عباس سے لے کر کسی اور کے حوالے کر دے یا وہ خلافت کو کھلونا بنانا چاہتا تھا کیا وہ حضرت امام رضاعليه‌السلام کیلئے مخلص تھا یا کہ نھیں؟ اگر یہ فضل کا منصوبہ تھا وہ ماموں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ مامون جیسا بھی تھا کم از کم مسلمان تو تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایران کو دنیائے اسلام کی فھرست سے نکال کر مجوسیت میں لے جانا چاہتا ہو۔ بھر کیف یہ تھے وہ سوالات جو مختلف جھتوں سے مختلف افراد کی طرف سے اٹھائے گئے۔ میں یہ کبھی نہیں کھوں گا کہ تاریخ کے پاس ان سوالات کا کوئی حتمی جواب بھی ہو ۔

ممتاز مورخ جرجی زیدان فضل بن سھل کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کھتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کو ولی عھد بنانا فضل ہی کا کارنامہ ہے، چونکہ فضل ایک شیعہ تھا اس لیے امام رضا علیہ السلام سے محبت ایک فطری امر تھا۔ لیکن ہم جرجی کے اس نظریئے کی اس لیے تردید کرتے ہیں کہ یہ بات تواریخ کی کتب میں ثابت نہیں ہوسکی۔ روایات میں ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام فضل کے سخت مخالف تھے۔ آپ مامون سے بڑھ کر فضل کی مخالفت کیا کرتے تھے بلکہ اس کو مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ محسوس کرتے تھے کبھی کبہار آپ مامون کو فضل سے خبردار کیا کرتے تھے فضل اور اس کا بھائی در پردہ امام رضا علیہ السلام کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ چناچہ یہاں پر دو احتمال ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ ولی عھدی کا پروگرام مامون کا ایجاد کردہ تھا اور مامون منت کو پورا کرتے ہوئے مولا رضا علیہ السلام کو خلافت دینا چاہتا تھا اس کے بعد اس نے یہ ارادہ ترک ولی عھدی بنانے کا پروگرام بنالیا۔

شیخ صدوق اور ہمارے دوسرے علماء نے اس نظریہ کو تسلیم کیا ہے ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ سارا منصوبہ فضل بن سھل کا تیار کردہ تھا۔ بعض مؤرخین کھتے ہیں کہ فضل ایک مخلص ترین شیعہ تھا اور بعض کا کھنا ہے کہ نہیں وہ ایک بد باطن شخص تھا اور اس کے عزائم انتھائی خطرناک تھے ۔

تیسرا احتمال

الف) شاید ایرانیوں کو خوش کرنا مقصود ہو

ایک احتمال اور ہے کہ ولی عھدی کا پروگرام درحقیقت، مامون ہی کا تھا۔ مامون شروع ہی سے مخلص نہ تھا وہ سب کچھ سیاست اور سازش کے طور پر کر رہا تھا۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ چونکہ ایرانی قوم شیعہ تھی اور امام علیہ السلام اور آل محمدعليه‌السلام سے دلی عقیدت رکھتے تھے، اس لیے مامون نے ایرانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا۔ جس روز مامون نے حضرت رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عھد مقرر کیا اس دن اس نے اعلان کیا کہ امام کو رضا کے لقب سے یاد کیا جائے تاکہ ایرانیوں نے نوے سال قبل "الرضا من آل محمدعليه‌السلام " کے نام سے انقلابی تحریک شروع کی تھی اس کی یاد تازہ ہوجائے ۔

اپنے آپ سے کھنے لگا کہ پھلے تو ایرانیوں کو راضی کر لوں اس کے بعد امام رضاعليه‌السلام کے بارے بھی سوچ لوں گا۔ ایک وجہ اور بھی ہے مامون اٹھائیس ۲۸ سالہ نوجوان تھا اور حضرت کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ شیخ صدوق (رح) کے مطابق حضرت کا سن منارک ۴۷ سال تھا شاید یھی قول معتبر ہو۔ مامون نے سوچا ہوگا کہ ظاہر ی طور پر امام کی ولی عھدی میرے لئے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ امامعليه‌السلام بیس سال مجھ سے بڑے ہیں یہ چند سال اور زندہ رہیں گے اور مجھ سے پھلے انتقال کر جائیں گے۔ چانچہ مامون کی سیاسی چال تھی کہ امام علیہ السلام کو ولی عھد مقرر کرکے ایرانیوں کی ہمدردیاں حاصل کرے ۔

ب) علویوں کی انقلابی تحریک کو خاموش کرنا

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ مامون نے یہ اقدام علویوں کو خاموش کرنے کیلئے کیا ہے۔ علوی اس وقت بہت زیادہ انقلابی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور اس حوالے سے ان کو ملک بھر میں ایک خاص شھرت حاصل تھی۔ سال میں چند مرتبہ ملک کے کسی کونے پا گوشے میں وہ حکومت کے خلاف تحریک شروع کرتے تھے۔ مامون کو علویوں کو راضی کرنے کیلئے یہ اقدام کرنا پڑا۔ اس کو یقین تھا جب وہ آل محمدعليه‌السلام میں کسی محترم فرد کو اپنی حکومت میں شامل کر لے گا ایک تو عوامی رد عمل میں کمی واقع ہوجائے گی دوسرا وہ اس سے علویوں کو راضی کر لے گا یا وہ اس سے علوی سادات سے اسلحہ لے لے گا۔

جب وہ امام رضا علیہ السلام کو اپنے قریب لے آیا تو بہت سے انقلابیوں کو اس نے معاف کر دیا۔ امام رضا علیہ السلام کے بھائی کو بھی بخش دیا۔ ایک لحاظ سے فضا خوشگوار ہوگئی دراصل یہ اس کی شاطرانہ چال تھی کہ خلافت یا دوستی کا حوالہ دے کر تمام انقلابی تحریکوں اور مسلح تنظیموں کو خاموش کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ پھر موقع پر ایک ایک کرکے انقلابیوں کو ٹھکانے لگا دے گا۔ اب علوی سادات بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے اگر کسی قسم کا قدم اٹھاتے تو لوگوں نے کھنا تھا کہ اب وہ اپنے بزرگ اور آقا امام رضا علیہ السلام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

ج) امام رضاعليه‌السلام کو نھتا کرنا

ایک احتمال یہ بھی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولی عھدی کا منصوبہ مامون ہی نے تیار کیا تھا اس سے وہ سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ امام رضا علیہ السلام کو نھتا کرنا چاہتا تھا۔ ہماری روایت میں ہے کہ ایک روز حضرت امام رضا علیہ السلام نے مامون سے فرمایا کہ تمہارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب کوئی فرد منفی سوچ رکھتا ہو اور حکومت وقت پر تنقید کرتا ہو تو وہ خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے یھی حال اقوام عالم کا ہے سب سے پھلے تو حکومتیں قوم کو نھتا کرتی ہیں، جب ان سے ہر قسم کا اسلحہ واپس لے لیا جاتا وہ ناکارہ ہوجاتی ہیں تو پھر ظلم کا بازار کھل جاتا ہے اور اپنے مخالفوں کو ہر طرح سے کچل دیتی ہیں۔ اس وقت عوام کا رخ آل علی علیہ السلام کی طرف تھا۔ لوگوں کی دلی خواہش تھی کہ امام رضا علیہ السلام مضب خلافت پر بیٹھیں اور اس غیر آباد دنیا کو آباد کردیں۔ ہر طرف ھریالی ہی ھریالی ہو اور عدل وانصاف کی حکمرانی ہو۔ ظلم کی اندھیری رات چھٹ جائے اور عدل کا سویرا ہو۔

لیکن مامون نے امام علیہ السلام کو ولی عھد بنا کر لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حکومت کے ہاتھ مضبوط ہیں۔ امام علیہ السلام بھی حکومت کے ساتھ ہیں وہ ہر لحاظ سے امامعليه‌السلام کونھتا کرنا چاہتا تھا، اس کی کوشش تھی کہ امامعليه‌السلام حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے اپنا ذاتی اثر رسوخ کھو بیھٹیں گے۔ اب تاریخ کے لیے یہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے کہ وہ اس نتیجہ تک پھنچ سکے کہ ولی عھدی کا مسئلہ مامون کا ایجاد کردہ ہے یا فضل کو کوئی منصوبہ تھا؟ پھر اگر فضل کا منصوبہ تھا تو اس کی وجہ کیا ہوسکتی تھی؟ اگر اس کی نیت صحیح تھی تو کیا اپنے موقف پر قائم رہا ہے؟اگر وہ حسن نیت رکھتا تھا تو اس کی سیاست کیا تھی؟ تاریخ ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ شیخ صدوق (رح) کا موقف تو یہ ہے مامون کی نیت شروع میں تو ٹھیک تھی لیکن بعد میں اس کا ارادہ بدل گیا اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ لوگ جب پریشانی ومشکل سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ حق کی طرف لوٹ آتے ہیں اور اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں لیکن جب وہ مشکل سے نجات حاصل کر لیتے ہیں تو اپنے کیے ہوئے وعدوں کو بھول جاتے ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ۔

( فاذا رکبوا فی الفلک دعوا الله مخلصین له الدین فلما نجینهم الی البر اذا هم یشرکون" ) (۳۰)

"پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نھایت خلوص سے اس کی عبادت کرنے والے بن کر خدا سے دعا کرتے ہیں پھر جب انھیں خشکی میں (پھنچا کر) نجات دیتا ہے تو فوراً شرک کرنے لگتے ہیں۔"

مامون کو جب مشکلات نے گھیرا تو اس نے یہ منت مان لی تھی لیکن جب وہ مشکلات سے نکل آیا تو سب کچھ بھول گیا۔ بھتر یہ ہے کہ ہم حضرت امام رضا علیہ السلام کے بارے میں تحقیق کریں اور تاریخ کے مسلمہ مکات پر نظر دوڑائیں تو حقیقت کھل کر عیاں ہوجائے گی۔ میرے خیال میں اس تحقیق سے مامون کی نیتوں اور منصوبوں کا بھی پتہ لگانا مشکل نہ ہوگا۔

تاریخ کیا کھتی ہے؟

۱۔ مدینہ سے امامعليه‌السلام کی خراسان میں آمد

تاریخ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے (مرو) خراسان بلوانے پر آپ سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ گویا آپ اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے بلکہ لائے گئے تھے۔ مورخین میں سے ایک نے بھی یہ نہیں لکھا کہ امام کو خراسان لانے سے قبل کوئی خط و کتابت کی گئی ہو۔ یا کسی شخص کے ذریعہ آپ تک پیغام بھجوایا گیا ہو، آپ کو آمد مقصد بالکل نہیں بتایا گیا تھا جب آپ "مرو" میں تشریف لائے تو پہلی بار مسئلہ ولی عھدی پیش کیا گیا۔ اس طرح امام سمیت آل ابی طالب حکومتی اہلکاروں کی نظر میں تھے، یہاں تک کہ جس راسے سے امامعليه‌السلام کو لایا گیا وہ راستہ بھی دوسرے راستوں سے مختلف تھا۔ پہلے ہی سے پروگرام طے پایا تھا کہ امامعليه‌السلام کو شیعہ نشین علاقوں سے نہ گزارا جائے۔ کیونکہ بغاوت کا خطرہ تھا ۔ اس لیے مامون نے حکم دیا امامعليه‌السلام کو کوفہ کے راستے سے نہ لایا جائے بلکہ بصرہ خوزستان سے ہوتے ہوئے نیشاپور لایا جائے۔ پولیس کے اہل کار حضرت امام رضا علیہ السلام کے ادھر ادھر بہت زیادہ تھے۔ پھر آپ کے دشمنوں، مخالفوں کو آپ ساتھ تعینات کیا گیا۔ سب سے پہلے تو جو پولیس افسر آپ کی نگرانی کر رہا تھا وہ مامون کا خاص گماشتہ اور وفادار تھا۔ اس کا نام جلودی تھا۔ امام علیہ السلام سے کینہ و بغض رکھتا تھا، یہاں تک کہ جب مسئلہ ولی عھدی مرو میں پیش کیا گیا تو اس جلودی نامی شخص نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مامون نے اسے خاموش رہنے کو کہا لیکن اس نے کہا کہ میں اس کی بھر پور مخالفت کروں گا۔ جلودی اور دوسرے آدمیوں کو زندان میں ڈالا گیا پھر اسی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے ان کو قتل کردیا گیا۔

(جلودی بہت بی ملعون شخص تھا اس نے مدینہ میں علویوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن اس کو شکست ہوئی۔ ہارون نے اسی جلودی کو حکم دیا تھا کہ آل ابی طالبعليه‌السلام کا تمام مال، زیورات اور لباس وغیرہ لوٹ لے۔ یہ سادات کے دروازے پر آیا لیکن امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تجھے اندر نہیں جانے دوں گا۔ اس نے بہت اصرار لیا۔ امامعليه‌السلام نے فرمایا یہ ہو ہی نہیں سکھتا۔اس نے کہا میری یہ ڈیوٹی میں شامل ہے ۔ آپ نے فرمایا تو ادھر ہی ٹھر جا جو کہتا ہے وہ ہم خود ہی تجھے دیتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خود اندر تشریف لے گئے آپ نے بیبیوں سے فرمایا آپ کے پاس جو چیز بھی ہے کپڑے، زیورات وغیرہ وہ سب مجھے دے دو تاکہ میں جلودی کو دے دوں)

مورخین نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک روز ہارون نے حضرت امامعليه‌السلام اور فضل کی موجودگی میں جلودی کو اپنے دربار میں بلوایا اور اس سے کہا کہ اپنے موقف پر نظر ثانی کرے۔ لیکن جلودی اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم سوفی صد اس بات کی مخالفت کریں گے بلکہ ایک شخص نے بد تمیزی بھی کی۔ ہارون نے حکم دیا ان میں سے جو بھی ہماری بات نہ مانے ان کا سر قلم کر دیا جائے۔ چنانچہ دوافراد کو اس وقت قتل کر دیا گیا۔ جلودی کی باری ائی۔ امام رضا علیہ السلام نے ہارون سے فرمایا کہ اسے معاف کر دو لیکن جلودی نے کہا اے امیر! میری آپ سے ایک درخواست ہے وہ یہ ہے کہ اس شخص یعنی (امامعليه‌السلام ) کی سفارش میرے بارے میں قبول نہ کیجئے۔ مامون نے کہا تیری قسمت خراب ہے۔ میں امامعليه‌السلام کی سفارش قبول نہیں کرتا۔ اس نے تلوار اٹھائی اس وقت جلودی کو ڈھیر کر دیا۔ بھر حال امام رضا علیہ السلام کو خراسان لایا گیا۔ تمام سادات ایک جگہ پر اور امام رضا علیہ السلام ایک جگہ پر ۔ ۔ ۔۔ ۔ لیکن پولیس کے سخت پہروں میں تھے اس وقت مامون نے کہا آقا میں آپ کو اپنا ولی عھد مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات تاریخ کی مسلمہ حقائق میں سے ہے۔

۲- امام رضا علیہ السلام کا انکار

جیسا کہ ہم نے کہا کہ مدینہ میں حضرت سے ولی عھدی کی بات بھی نہ کی گئی اور نہ اس سے متعلق کوئی مشورہ لیا گیا "مرو" میں جب آپ کو ولی عھدی کی بابت بتایا گیا تو آپ نے شدید انکار کیا۔ ابو الفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ مامون نے فضل بن سہل اور حسن بن سہل کو امامعليه‌السلام کے پاس بھیجا جب ان دونوں بھائیوں نے آپ کی ولی عھدی کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہوگا اور تم لوگ یہ کھا کہہ رہے ہو؟ انھوں نے کہا ہم مجبور ہیں ہمیں اوپر سے حکم ہوا ہے کہ اگر آپ نے انکار کیا تو آپ کا سر قلم کر دیں گے۔ شیعہ علماء نے بار بار اس تاریخی جملہ کو ذکر کیا ہے کہ انکاری کی صورت میں آپ کو اسی وقت قتل کر دیا جاتا لیکن مورخین نے یہ بھی لکھا ہے حضرت نے قبول نہ فرمایا۔ یہ دونوں مامون کے پاس گئے دوسرا مرتبہ مامون خود حضرت کے پاس آیا اور بات چیت کی۔ آخر میں امامعليه‌السلام کو قتل کی دھمکی بھی دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہا آپ اس عھدے کو قبول کیوں نہیں کرتے؟کیا آپ کے دادا علیعليه‌السلام نے مجلس شورای میں شرکت نہ کی تھی؟ اس سے وہ کہتا چاہتا تھا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ تمہارا خاندانی شیواہ ہے ۔

دوسرے لفظوں میں جب حضرت علی علیہ السلام نے شورای میں شرکت فرمائی تو خلیفہ کے انتخاب میں دخل اندازی کی، اور یہ مانتے اور جانتے ہوئے خاموش ہوگئے کہ خلافت اللہ کی طرف سے انہی کا حق ہے۔ اور آپ نے آنے والے لمحوں کا انتظار کیا۔ پس جب آپ کے دادا علی نے شوری کے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے تو آپ ہماری مشاورتی کمیٹی میں شمولیت اختیار کیوں نہیں کرتے؟ امام علیہ السلام نے مجبور ہو کر قبول کر لیا اور خاموش ہوگئے۔ البتہ آپ کے سوال کا جواب باقی ہے جو کہ ہم نے اپنی اس گفتگو میں دینا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے انکار کر دیا تھا تو اپنے اس موقف پر قائم رہتے اگر چہ اس کے لیے آپ کو جان بھی قربان کرنی پڑتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کر لیتے۔ امام حسین علیہ السلام نےیزید کی بیعت سے انکار کر کے اپنی مظلومانہ شھادت کو قبول کر لیا۔ لیکن یزیدیت کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا۔ جب انکار ہی کیا تھا تو انکار ہی رہنے دیتے؟اس سوال کا جواب ہم اس گفتگو میں دیں گے۔

۳۔ امام رضا علیہ السلام کی شرط

مورخین نے لکہا ہے کہ امام علیہ السلام نے ایک شرط عائد کی کہ ولی عھدی کا منصب میں اس صورت میں قبول کروں گا کہ حکومتی اور سرکاری معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کروں گا اور کوئی ذمہ داری بھی نہ لوں گا۔ در حقیقت آپ مامون کے کسی کام میں تعاون نہیں کرنا چاہتے تھے۔ گویا آپ ایک طرح کی مامون کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ ایک طرح کا احتجاج تھا اور احتساب بھی۔ مامون نے امام علیہ السلام کی یہ شرط مان لی لیکن امام علیہ السلام نماز عید میں بھی شرکت نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ مامون نے امام علیہ السلام سے کہا کہ آپ اس عید پر ضرور تشریف لائیں۔ آپ نے فرمایا یہ میرے معاہدے کے خلاف ہے۔ مامون بولا لوگ ہمارے خلاف طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، اس مرتبہ آپ ہر حالت میں شرکت فرمایئے۔ حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے آپ نے ایسی صورت میں مامون کی دعوت قبول فرمائی کہ مامون اور فضل کو شرمندگی اٹھانا پڑی، کیونکہ آپ کی وجہ سے ایک بہت بڑے انقلاب کے برپا ہونے کا خطرہ تھا۔ اسی خوف اور خدشے کی بناء پر آپ راستہ ہی میں واپس بھیج دیا گیا اور آپ کو باہر اس لیے نہیں جانے دیا گیا کہ اگر آپ عید کے اجتماع میں شرکت کرتے ہیں تو لوگوں کا انبوہ کثیر آپ کی بیعت کر کے حکومت وقت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا۔

۴۔ ولی عھدی کے اعلان کے بعد امامعليه‌السلام کا رویہ

اس مسئلہ سے بھی اہم مسئلہ ولی عھدی کے اعلان کے بعد امام رضا علیہ السلام کا مامون کے ساتھ بے غرضانہ رویہ اختیار کرنا ہے۔ اس کے بارے مین اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء اور مورخین نے کہلے لفظوں میں اظہار خیال کیا ہے۔ جب امام رضا علیہ السلام کو ولی عھد نامزد کیا جاچکا تو آپ نے ڈیڑھ سطر کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنی پالیسی کہل کر بیان کی آپ نے اس خطبہ میں نہ مامون کا نام لیا اور چھوٹا سا شکریہ بھی ادا نہ کیا۔ حالانکہ سرکاری پروٹوکول کے مطابق آپ مامون کا نام لینے کے ساتھ ساتھ شکریہ بھی ادا کرنا چاہی ے تھا۔ ابو الفرج بیان کرتے ہیں کہ مامون نے ایک دن اعلان کیا کہ فلاں روز ملک بھر کے عوام ایک جگہ پر جمع ہوں اور علانیہ طور پر امام رضا علیہ السلام کی بیعت کی جائے چنانچہ ایک بہت اجتماع ہوا، اس میں مامون نے امام علیہ السلام کے لیے کرسی صدارت بچھوائی۔ سب سے پھلے مامون کے بیٹے عباس نے بیعت کی پھر علوی سید کو موقعہ بیعت دیا گیا۔ اس طرح ایک عباسی اور ایک علوی بیعت کے لیے آتے جاتے رہے اور ان بیعت کرنے والوں کو بھترین انعامات بھی دیئے گئے۔ آپ نے بیعت کیلئے دوسرے طریقے رکھے ہوئے تھے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ میرے جد بزرگوار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طریقے سے بیعت لیتے تھے لوگوں نے آپ کے ہاتھ وں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی، خطباء، شعراء اور مقررین نے اپنے الفاظ اور اپنے اپنے انداز میں سرکار رضاعليه‌السلام کی مدح سرائی کی۔ بعض شعراء نے مامون کو بھی سراہا اس کے بعد مامون نے امام رضا علیہ السلام سے کھا:

قم فاخطب الناس وتکلم فیهم"

آپ اٹھ کر لوگوں سے خطاب کریں مامون کو یہ توقع تھی کہ امام علیہ السلام اس کے حق میں توصیفی کلمات ادا فرمائیں گے۔

"فقال بعد حمد الله والثناء علیه"