آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181854 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہوجائیں _(۱)

اگر امام حسن عسکر ی کی رحلت کے بعد ہی مکمل غیت واقع ہوجاتی تو امام زمانہ کے مقدس وجود ہی سے لوگ غافل رہتے اور رفتہ رفتہ فراموش کردیتے _ اس لئے غیبت صغری سے ابتداء ہوئی تا کہ شیعہ اس زمانہ میں اپنے امام سے نائبوں کے ذریعہ رابطہ کریں اور ان کی علامتوں اور کرامات کو مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کی تکمیل کریں جب خیالات مساعد اور کامل آمادگی ہوگئی تو غیبت کبری کا آغاز ہوا _

کیا غیبت کبری کی انتہا ہے؟

انجینئر: کیا غیبت کبری کی کوئی حد معین ہے؟

ہوشیار : کوئی حد تو معین نہیں ہے _ لیکن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

امیر المؤمنین نے حضرت قائم کے بارے میں فرمایا:

'' ان کی غیبت اتنی طویل ہوگی کہ جاہل کہے گا : خد ا کو رسول (ص) کے اہل بیت کی احتیاج نہیںہے ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۲۰۶_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۹۳_

۱۸۱

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''قائم (ع) میں جناب نوح (ع) کی ایک خصوصیت پائی جائیگی اور وہ ہے طول عمر ''(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۲۱۷_

۱۸۲

فلسفہ غیبت

انجینئر: اگر امام ظاہر ہوتے اور لوگ ضرورت کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر اپنی مشکلیں حل کرتے تو یہ ان کے دین اور دنیا کیلئے بہتر ہوتا _ پس غیبت کیوں اختیار کی؟

ہوشیار: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مانع نہ ہوتا تو آپ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر تھا _ لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و اقع کے مطابق ہوتے ہیں _ لہذا امام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ہوگی _ اگر چہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے ، درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیاہے ، صرف ائمہ اطہار علیہم السلام کو معلوم ہے _

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر کیلئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں گے'' _ میں نے عرض کی ، کیوں ؟ فرمایا: ''ہمیں اس کی علّت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے'' _ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ وہی فلسفہ جو گزشتہ

۱۸۳

حجت خدا کی غیبت میں تھا _ لیکن اس کی حکمت ظہور کے بعد معلوم ہوگی _ بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر(ع) کی کشتی میں سوراخ ، بچہ کے قتل اور دیوار کو تعمیر کرنے کی جناب موسی کو جدا ہوتے وقت معلو م ہوئی تھی _ اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع سرّ ی ہے _ یہ خدا کے اسرار اور الہی غیوب میں سے ایک ہے _ چونکہ ہم خدا کو حکیم تسلیم کرتے ہیں _ اس لئے اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے امور حکمت کی روسے انجام پاتے ہیں _ اگر چہ اسکی تفصیل ہم نہیں جانتے ''_(۱)

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی علت و سبب اسلئے بیان نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو بتانے میں صلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے _

فائدہ اول: امتحان و آزمائشے _ تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہیں ہے انکی باطنی حالت ظاہر ہوجائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں ، غیبت پر ایمان ، انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں ، امام موسی کاظم فرماتے ہیں :

'' ساتویں امام کے جب پانچویں بیٹے غائب ہوجائیں ، اس وقت تم اپنے دین کی حفاظت کرنا _ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کردے _ اے میرے چھوٹے بیٹے صاحب الامر کے لئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ جسمیں

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۹۱_

۱۸۴

مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہوجائے گا _ خدا امام زمانہ کی غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لے گا _(۱)

دوسرا فائدہ : غیبت کے ذریعہ ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے _ حسن بہ فضال کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

''گویا میں اپنے تیسرے بیٹے (امام حسن عسکری(ع) ) کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام کو ہر جگہ تلاش کررہے ہیں لیکن نہیں پارہے ہیں'' میں نے عرض کی : فرزند رسول کیوں؟ فرمایا:'' ان کے امام غائب ہوجائیں گے'' عرض کی : کیوں غائب ہوں گے ؟ فرمایا: '' تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''_(۲)

تیسرا فائدہ : غیبت کی وجہ سے قتل سے نجات پائی _

زرارہ کہتے ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

''قائم کے لئے غیبت ضرور ی ہے '' _ عرض کی کیوں ؟ فرمایا: قتل ہوجانے کا خوف ہے اور اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''_(۳)

مذکورہ تینوں حکمتیں اہل بیت کی احادیث میں منصوص ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۱۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۱۸۵

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو کیا حرج تھا ؟

انجینئر : اگر امام زمانہ لوگوں کے درمیان آشکار طور پر رہتے ، دنیا کے کسی بھی شہر میں زندگی بسر کرتے ، مسلمانوں کی دینی قیادت کی زمام اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور شمشیر کے ساتھ قیام اور کفر کاخاتمہ کرنے کیلئے حالات سازگار ہونے تک ایسے ہی زندگی گزارتے تو کیا حرج تھا؟

ہوشیار : اچھا مفروضہ ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نتائج بر آمد ہوئے _ میں حسب عادت موضوع کی تشریح کرتا ہوں _

پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا یہ بات لوگوں کے گوش گزار کی تھی کہ ظلم وستم کی حکومتیں مہدی موعود کے ہاتھوں تباہ ہوں گی اور بیداد گری کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں کے دو گروہ ہمیشہ امام زمانہ کے وجود مقدس کے منتظر رہے _ ایک مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کا گروہ جو کہ ہمیشہ اکثریت میں رہا ہے _ وہ حمایت و دفاع کے قصد سے امام زمانہ کے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع کا تقاضا کرتے تھے _ یہ ہمیشہ ہوتا تھا کہ ایک بڑا گر وہ آپ کا احاطہ کئے رہتا اور انقلاب کا تقاضا کرتا تھا _

دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں کارہا ہے جس کا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے یہ ذاتی مفاد کے حصول اور اپنے منصب کے تحفظ میں کسی بھی برے سے برے

۱۸۶

کام کو انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور پوری قوم کو اپنے مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتا تھا_ یہ گروہ امام زمانہ کے وجودکو اپنے شوم مقاصد کی راہ میں مانع سمجھتا اور اپنی فرمان روائی کو خطرہ میں دیکھتا تھا تو آپ کا خاتمہ کرکے اس عظیم خطرہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ میں وہ سب متحد ہوگئے تا کہ عدالت و دادخواہی کی جڑیں اس طرح کاٹ دیں کہ پھر سر سبز نہ ہو سکیں _

موت سے دڑ

جلالی : امام زمانہ اگر معاشرہ کی اصلاح ، دین کی ترویج اور مظلوموں سے دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ کیا ان خون ان کے آباء و اجداد کے خون سے زیادہ عزیز ہے ؟ موت سے کیوں دڑتے تھے؟

ہوشیار : دین و حق کی راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد کی طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں _ لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کی صلاح نہیں ہے _ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام کے بعد دوسرا امام اس کا جانشین ہوا ہے لیکن اگر امام زمانہ قتل ہوجائیں تو پھر کوئی جانشین نہیں ہے _ اور زمین حجّت خدا کے وجود سے خالی ہوجائے گی _ جبکہ یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ کے ذریعہ دنیا کی زمام حق پرستوں کے ہاتھوں میں آئے گی _

کیا امام کی حفاظت کرنے پر خدا قادر نہیں ہے؟

جلالی : کیا خدا امام زمانہ کو دشمنوں کے شرسے بچانے اور ان کی حفاظت پر قادر

۱۸۷

نہیں ہے؟

ہوشیار : باوجودیکہ خدا کی قدرت لا محدود ہے لیکن اپنے امور کو وہ اسباب و عادات کے مطابق انجام دیتا ہے _ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ کی حفاظت اور دین کی ترویج میں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت کے خلاف عمل کرے اور اگر ایسا کرے گا تو دنیا اختیار و امتحان کی جگہ نہ رہے گی _

ستمگران کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے

جلالی : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور کفار و ستمگر آپ کو دیکھتے ، آپ کی برحق باتیں سنتے تو ممکن تھا کہ وہ آپ کو قتل نہ کرتے بلکہ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لاتے اور اپنی روش بدل دیتے _

ہوشیار: ہر شخص حق کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء سے آج تک لوگوں کے درمیان ایک گروہ حق و صحت کا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت صرف کی ہے _ کیا انبیاء و ائمہ اطہار حق نہیں کہتے تھے؟ کیا ان کی برحق باتیں اور معجزات ستمگروں کی دست رس میں نہیں تھے؟ اس کے باوجود انہوں نے چراغ ہدایت کو خاموش کرنے کے سلسلے میں کسی کام سے دریغ نہ کیا _ صاحب الامر بھی اگر خوف کے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے _

خاموش رہو تا کہ محفوظ رہو

ڈاکٹر : میرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ کلی طور پر سیاست سے علیحدہ رہتے

۱۸۸

اور کفار و ستمگروں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ، ان کے اعمال کے مقابل سکوت اختیار کرتے اور اپنی دینی و اخلاقی راہنمائی میں مشغول رہتے تو دشمنوں کے شر سے محفوظ رہتے _

ہوشیار : چونکہ ستمگروں نے یہ بات سن رکھی تھی کہ مہدی موعود ان کے دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ کے سکوت پر اکتفا نہ کرتے _ اس کے علاوہ جب مومنین یہ دیکھتے کہ آپ ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں ، ایک دو سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ امام کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تو وہ بھی آہستہ آہستہ دنیا کی اصلاح اور حق کی کامیابی سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اکرم و قرآن مجید کی بشارتوں میں شک کرنے لگتے _ ان تمام چیزوں کے علاوہ مظلوم لوگ آپ کو سکوت کی اجازت نہ دیتے _

عدم تعرض کا معاہدہ

انجینئر : وقت کے ستمگروں سے عدم تعرض کا معاہدہ کرنے کا امکان تھا وہ اس طرح کہ آ پ(ع) ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور چونکہ آپ کی امانت داری و نیک منشی مشہور تھی اس لئے آپ کے معاہدے محترم اور اطمینان بخش ہوتے اور ستمگروں کو بھی آپ سے سروکار نہ ہوتا _

ہوشیار: مہدی موعود کا پروگرام تمام ائمہ اطہار کے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ کو تا حد امکان ترویج دین اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے مامور کیا گیا تھا ، جنگ کے لئے نہیں _ لیکن ابتداء ہی سے یہ مقدر تھا کہ مہدی کی سیرت و رفتار ان سے مختلف ہوگی ، وہ ظلم اور باطل کے مقابلہ میں سکوت نہیں کریں گے اور

۱۸۹

جنگ و جہاد کے ذریعہ ظلم و جور کی بیخ کنی کریں گے اور ستمگروں کے خودسری کی محلوں کو منہدم کریں گے _

ایسی سیرت و رفتار مہدی کی علامتیں اور خصوصیات شمار کی جاتی تھیں_ ہر امام سے کہا جاتاتھا کہ ستمگروں کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ فرماتے تھے : مہدی تلوار سے جنگ کریں گے ، قیام کریں گے جبکہ میرے اندر یہ خصوصیات نہیں ہیں اور ان کی طاقت بةی نہیں ہے _ بعض سے دریافت کیا جاتا تھا: کیا آپ(ع) ہی قائم ہیں؟ فرماتے تھے : میں قائم بر حق ہوں لیکن و ہ قائم نہیں ہوں جو زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کریں گے _ بعض کی خدمت عرض کیا جاتا تھا: ہمیں امید ہے کہ آپ ہی قائم ہیں _فرماتے تھے: میں قائم ہوں لیکن جو قائم زمیں کو کفر و ظلم سے پاک کریں گے وہ اور ہیں _ دنیا کی پریشان حالی ، ابتری ، ظالموں کی ڈکٹیڑی اور مومنین کی محرومیت کی شکایت کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: مہدی کا انقلاب مسلّم ہے _ اسی وقت دنیا کی اصلاح ہوگی اور ظالموں سے انتقام لیا جائے گا _ مومنین کی قلّت اور کافروں کی کثرت و طاقت کی اعتنا کی جاتی تو ائمہ شیعوں کی ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد کی حکومت حتمی اور حق پرستی کی کامیابی یقینی ہے _ صبر کرو اور فرج آل محمد (ص) کے منتظر رہو اور دعا کرو، مومنین اور شیعہ ان خوش خبریوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم کے رنج و غم کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ''_

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مومنین بلکہ بشریت کو جو مہدی سے توقعات ہیں ان کے باوجود آپ وقت کے ستمگروں سے پیمان مودت و دوستی باندھ سکتے تھے؟ اگر آپ ایسا کرتے تو کیا مومنین پر یاس و ناامیدی غالب نہ آجاتی _ کیا وہ آپ پر

۱۹۰

یہ تہمت نہ لگاتے کہ آپ نے ظالموں سے ساز باز کرلی ہے اور آپ کا مقصد اصلاح نہیں ہے ؟

میرے نقطہ نظر سے تو اس کا امکان ہی نہیں تھا او راگر ایسا ہوگیا ہوتا تو مومنین کی قلیل تعداد مایوس و بد ظن ہوکر دین سے خارج اور طریقہ کفر پر گامزن ہوجاتی _

اس کے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستی کا معاہدہ کرلیتے تو مجبوراً اپنے عہد کی پابندی کرنے ، نتیجہ میں کبھی جنگ کا اقدام نہ کرتے ، کیونکہ اسلام نے عہدو پیمان کو محترم قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو ضروری جانا ہے _(۱)

اس وجہ سے احادیث میں تصریح ہوتی ہے ک صاحب الامر کی ولادت کے مخفی رکھنے اور غیبت کا ایک راز یہ ہے کہ ظالموں سے بیعت نہ کر سکیں تا کہ جب چاہیں قیام کریں اور کسی کی بیعت میں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' صاحب الامر کی ولادت کو مخفی رکھا جائے گا تا کہ ظہور کے وقت آپ کسی پیمان کے پابند نہ ہوں ، خدا ایک رات میں ان کے لئے زمین ہموار کریگا ''(۲) _

ان تمام چیزوں کے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع کیلئے خطرہ محسوس کرتے تو وہ اس پیمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ کے قتل کا منصوبہ بتاتے اور زمین کو حجت خدا کے وجود سے خالی کردیتے _

____________________

۱_ مائدہ /۱ و اسراء / ۳۴ و مومنوں/۸

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶

۱۹۱

مخصوص نواب کیوں معین نہ کئے ؟

جلالی: ہم اصل لزوم غیبت کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت کبری میں آپ نے اپنے شعیوں کے لئے غیبت صغری کی مانند نواب کیوں معین نہیں کئے شیعہ ان کے ذریعہ آپ سے رابطہ قائم کر تے اور اپنے مشکلات حل کرتے ؟

ہوشیار : دشمنوں نے نواب حضرت کو بھی اذ یتیں پہنچائی ہیں '، شکنجے دیئےیں تا کہ وہ امام کی قیام گاہ کاپتہ بتادیں انھیں آزاد نہیں چھوڑ اگیا تھا _ _

جلالی : یہ بھی ممکن تھا کہ معین اشخاص کو وکیل منصوب کرتے _ خود کبھی کبھی بعض مومنین کے پاس تشریف لاتے اور شعیوں کے لئے انھیں احکام و پیغام دیتے _

ہوشیار : اس میں بھی صلاح نہیں تھی بلکہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہی لوگ دشمنوں کو امام کے مکان کا پتہ بتاد یتے اور آپ کی اسیری و قتل کے اسباب فراہم کردیتے _

جلالی : خطرہ کا احتمال اس صورت میں تھا کہ جب آپ مجہول الحال شخص کے لئے ظاہر ہوتے لیکن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنین کے لیے ظہور فرماتے تو خطرہ کا با لکل احتمال نہ ہوتا _

ہوشیار : اس مفروضہ کے بھی کئی جواب دیئےاسکتے میں :

ا_ جس شخص کے لئے بھی ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ناچار معجزہ دکھا ناپڑ تا بلکہ ان لوگون کے لئے تو کئی معجزے دکھا نے پڑتے جو آسانی سے کسی بات کو قبول نہیں کرتے _ اسی اثناء میں فریب کار

۱۹۲

اور جادو گر بھی پیدا ہوجاتے جو کہ لوگوں کو فریب دیتے ، امامت کا دعوی کرتے اور سحر و جادو دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے اور معجزہ و جادو میں فرق کرنا ہر ایک کے قبضہ کی بات نہیں ہے ، اس قضسہ سے بھی لوگوں کے لئے بہت سے مفاسد و اشکالات پیدا ہوجا تے _

۲ _ فریب کار بھی اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں کے در میان جاکر امام سے ملاقات کا دعوی کرتے اور اپنے مقصد تک پہنچا نے کیلئے آپ کی طرف خلافت شرع احکام کی نسبت دیتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل کرتا اور اپنے کام کی ترقی تصیح کے لئے کہتا _ میں امام زمانہ کی خدمت میں حاضر ہواتھا _ کل رات غریب خانہ ہی پر تشریف لائے تھے مجھ سے فرمایا ہے _ فلاں کام انجام دو ، فلاں کام کیلئے میری تائید کی سے ، اس میں جو خر ابی اور مفاسد میں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں _

۳ _ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام زمانہ کسی بھی شخص ، یہاں تک صالح لوگوں بھی ملاقات نہیں کرتے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے صالحین و اولیاء خدا آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہوں لیکن انہیں یہ بات بیان کرنے کی اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنی ہی کیفیت سے واقف ہے اسے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے _

۱۹۳

امام غائب کا کیا فائدہ ؟

انجینئر : اگرامام لوگوں کے پیشوا ہیں ، تو انھیں ظاہر ہونا چا ہئے _ غائب امام کے وجود سے کیا فائدہ ہے ؟ جو امام سیکڑوں سال غائب رہے _ دین کی ترویج نہ کرے ، معاشر ے کی مشکوں کو حل نہ کر ے ، مخالفوں کے جواب نہ دے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے ، مظلوموں کی حمایت نہ کرے ، خدا کے احکام وحدود کو نا فذ نہ کرے ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟

ہوشیار :غیبت کے زمانہ میں لوگ آپ کے بیان کردہ فوائد سے اپنے اعمال کی بنا پر محروم ہیں لیکن وجود امام کے فوائد ان ہی میں منحصر نہیں ہیںبلکہ اور بہی فوائد ہین جو کہ غیبت کے زمانہ میں مترتب ہو تے ہیں منجملہ ان کے ذیل کے دو فوائد تہی ہیں:

اول : گزشتہ بحث ، علما کی کتابوںمیں نقل ہونے والی دلیلوں اور موضوع امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام کا مقدس وجود نوع انسان کی غایت ، انسانیت کا فرد کامل اور عالم مادی وعالم ربویت کے در میان رابطہ ہے_اگرروئے زمین پر امام کا وجود نہ ہو گا تو نوع انسان تباہ ہو جائے گی _ اگر امام نہ ہوں گے توصحیح معنوں میں خدا کی معرفت وعبادت نہ ہوگی _ اگر امام نہ ہوں گے تو عالم مادی اور منبع تخلیق کے در میان رابطہ منقطع ہو جائے گا_ امام کے قلب مقدس کی مثال ایک

۱۹۴

ٹرانسفار مر کی سی ہے جو کار خانہ کے ہزاروں بلبوں کو بجلی فراہم کرتاہے_ عوالم غیبی کے اشراقات وافاضات پہلے امام کے پاکیزہ قلب پر اور ان کے وسیلہ سے تمام لوگوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں _ امام عالم وجود کا قلب اور نوع انسانی کے رہبر و مربی ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان فوائد کے ترتیب میں آپ کی غیبت وحضور میں کوئی فرق نہیں ہے _ کیا اس کے با وجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ آپ نے یہ اعتراض اس کی زبان سے کیا ہے جس نے امامت و ولایت کے معنی کی تحقیق نہیں کی ہے اور امام کو صرف مسئلہ بیان کرنے والا تصور کرلیا ہے نہ کہ حدود جاری کرنے والا جبکہ عہدہ امامت وولایت اس سے کہیںبلند وبالاہے_

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''ہم مسلمانوںکے امام ، دنیا پر حجت ،مؤمنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولاہیں ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہیں _ ہماری وجہ سے آمان اپنی جگہ ٹھراہواہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے واسطہ سے باران رحمت نازل کر تا اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتاہے _اگر ہم روئے زمین پر نہ ہو تے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے''پھر فرمایا : '' جس دن سے خدا نے حضرت آدم کو پیدا کیا ہے_ اس دن سے آج تک زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے لیکن حجت خدا کا وجود کبھی ظاہر وآشکار اور کبھی غائب و مخفی رہا ہے_ قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہوگی_ اگر امام نہ ہو گا تو خدا کی عبادت نہ ہوگی_

۱۹۵

سلیمان کہتے ہیں : میں نے عرض کی امام غائب کے وجود سے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے ؟ جیسے ابر میں چھیے ہوئے سورج پہنچتا ہے(۱) _

اس اور دیگر حدیثوں میں صاحب الامر کے مقدس وجود اور ان کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بادل میں چھپ کربھی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے _ وجہ تشبیہ یہ ہے : طبیعی اور فلکیات کے علوم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سورج شمسی نظام کامر کز ہے _ اس کی قوت جاذبہ زمین کی محافظ اور اسے گرنے سے بچاتی ہے ، زمین کو اپنے چاروں طرف گردش دیتی ہے ، دن ، رات اور مختلف فصلوں کو وجود میں لاتی ہے _ اس کی حرارت حیوانات ، نباتات اور انسانوں کی زندگی کا باعث ہے _ اس کا نور زمین کو روشنی بخشتاہے _ ان فوائد کے مترتب ہونے میں سورج کے ظاہر یابادل میں پوشیدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یعنی اس کی قوت جاذبہ حرارت اور نور دونوں صورتوں میں رہتا ہے _ ہاں کم و بیش کا فرق ہوتا ہے _

جب سیاہ گھٹاؤں میں سورج چھپ جاتا ہے یارات ہوجاتی ہے تو جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اب موجودات سورج کی حرارت اور نور میسر نہ ہو تو برف بن کر ہلاک ہوجا ئیں ، سورج ہی کی برکت سے سیاہ گھٹا ئیں چھٹتی ہیں اور اس کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوتا ہے _

امام کا مقدس وجود بھی عالم انسانیت کا قلب اور سورج اور اس کا تکوینی مربی

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۲۱۷

۱۹۶

وہادی ہے ، اور ان فوائد کے ترتب میں آپ کی غیبت و حضور میں اثر انداز نہیں ہے _ حاضرین سے گزارش ہے _ کہ نبوت عامہ اور امامت کے بارے میں ہونے والی بحث کو مد نظر رکھیں اور نہایت سنجیدگی سے ایک مرتبہ اسے دھرالیں ، تا کہ ولایت کے حقیقی معنی تک پہنچ جائیں _ اور امام کے وجود کے، اہم فائدہ کو سمجھ جائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اب بھی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امام غائب کی برکت کا اثر ہے _

لیکن آپ نے جو دوسرے فوائد بیان کئے ہیں اگر چہ غیبت کے زمانہ میں عام لوگ ان سے محروم ہیں لیکن خداوند عالم اور خود امام فیض میں مانع نہیں ہیںبلکہ اس میںخود لوگوں کی تقصیر ہے _ اگر وہ ظہور میں مانع چیزوں کو بر طرف کر دیتے اور توحید و عدالت کی حکومت کے اسباب فراہم کر لیتے _ دنیا کے اذہان و افکار کو ہموار کر لیتے تو امام کا ظہور ہوجاتا اور آپ انسانی معاشرہ کو بے پناہ فوائد سے مالا مال کرد یتے_

ممکن ہے آپ یہ کہیں : جب عام حالات امام زمانہ کے ظہور کے لئے سازگار نہیں ہیں تو اس پر خطر کام کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے ؟ لیکن واضح رہے مسلمانوں کی طاقت وہمت کو ذاتی منافع کے حصول میں منحصر نہیں ہونا چاہئے ، تمام مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے اجتماعی امور کی اصلاح میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، رفاہ عام میں تندہی اور ظلم و بیدادگری سے مبارزہ بہت بڑی عبادت ہے _

ممکن ہے مزید آپ کہیں : ایک یا چند افرادکی کوشش سے کچھ نہیں ہوتا _ اور پھر میرا کیا گناہ ہے کہ امام کے دیدار سے محروم ہوں ؟ جواب : اگر ہم نے عام افکار کے رشد ، دنیا والوں کو اسلامی حقائق سے متعارف کرانے اور اسلام کے مقدس مقصد سے قریب لانے کی کوشش کی اوز اپنا فریضہ

۱۹۷

انجام دید یا ، تو اس کا ہمیں اجر ملے گا ، اگر چہ ہم نے معاشرہ بشریت کو مقصد سے ایک ہی قدم قریب کیا ہوگا اور اس کام کی اہمیت علماء پر مخفی نہیں ہے اسی لئے بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ انتظار فرج سب سے بڑی عبادت ہے _ ۱ _

دوسرا فائدہ : مہدی ، انتظار فرج اور امام زمانہ کے ظہور پر ایمان رکھنے سے مسلمانوں کے دلوں کو سکون ملتا اور امید نبدھتی ہے اور امیدوار رہنا مقصد کی کا میابی کا سبب ہے _ جس گروہ نے اپنے خانہ دل کو یاس و نا اُمیدی سے تاریک کرلیا اور اس میں امید کی کرن کا گزرنہ ہوتووہ ہرگز کا میاب نہ ہوگا _

ہاں دنیا کے آشفتہ حالات ، مادیت کا تبا ہ کن سیلاب ، علوم و معارف کی سرد بازاری پسماندہ طبقہ کی روز افزوں محرومیت ، استعمار کے فنون کی وسعت ، سردو گرم جنگیں ، اور مشرق و مغرب کا اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ نے روشن فکر اور بشر کے خیرخواہوں کو مضطرب کردیا ہے ، یہاں تک کہ وہ کبھی بشرکی اصلی طاقت ہی کی تردید کردیتے ہیں _

بشرکی امید کا صرف ایک جھرو کا کھولا ہوا ہے اور اس دنیا ئے تاریک میں جو امید کی چمکنے والی کرن انتظار فرج اور حکومت توحید کا درخشاں زمانہ اور قوانین الہی کا نفاذ ہے _ انتظار فرج ہی مایوس اور لرزتے دلوں کو آرام بخشتا اور پسماندہ طبقے کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے _ حکومت توحید کی مسرت بخش خوش خبریوں نے ہی مومنین کے عقائد کی حفاظت کی اور دین میں اسے پائیدار کیا ہے _ حق کے غلبہ اور کا میابی نے ہی بشر کے خیر خواہون کو فعالیت و کوشش پر ابھاراہے _اسی غیبی طاقت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲_۱۵۰

۱۹۸

سے استمداد انسانیت کو یاس و نا امیدی کے ہولنا ک غار میں گرنے سے بچاتی ہے اور امیدو آرزوؤں کی شاہ راہوں کو منور کرتی ہے _ پیغمبر اکرم(ع) توحید کی عالمی حکومت اور عالمی اصلاحات کے رہبر کے تعین و تعارف سے دنیا ئے اسلام سے یاس و نا اُمیدی کے دیوکو نکال دیا ہے _ شکست و نا اُمیدی کے راستوں کو مسدود کردیا ہے _ اس بات کی تو قع کی جاتی ہے کہ اسلام کے اس گراں بہا منصوبہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمان دنیا کی پراگندہ قوموں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور حکومت توحید کی تشکیل کے لئے ان سے اتحاد کرلیں گے _ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں :

'' انتظار فرج خود عظیم فرج و گشائشے ہے ''(۱)

مختصر یہ کہ محدی موعود پر ایمان نے شیعوَ کے مستقبل کو تا بناک بنادیا ہے اور اس دن کی امید میں خوش رہتے ہیں _ شکست و یاس کو ان سے سلب کرکے انھیں مقصد کی راہ ، تہذیب اخلاق اور معارف سے دلچپی لینے پر ابھارا ہے _ شیعہ ، مادیت ، شہوت رانی ، ظلم وستم ، کفرو بے دینی اور جنگ و استعمار کے تاریک دور میں حکومت توحید عقل انسانیت کی تکمیل ، ظلم و ستم کی تباہی ، حقیقی صلح برقراری اور علوم و معارف کی گرم بازاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں _ اور اس کے اسباب و مقاصد فراہم کردہے ہیں _ اس لئے اہل بیت(ع) کی احادیث میں انتظار فرج کو بہترین عبارت اور راہ حق میں شہادت قرار دیاگیا ہے _ ۲ _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ تا ۱۵۰

۱۹۹

اسلام سے دفاع

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ولی عصر (ع) زمانہ غیبت میں بھی اسلام کی عظمت و ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حدتک کوشش فرماتے ہیں _

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں :

وہ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر ، دائیں بائیں چلے گئے اور ضلالت کی راہ

پر گامزن ہوئے ، ہدابت کے راستہ

کوچھوڑدیا ، پس جو ہونے والاہے

اس کیلئے جلد نہ کرو ، انتظار کرو اور جو چیز بہت جلد واقع ہونے والی ہے اسے ددرنہ سمجھو کتنے لوگوں نے کسی چیز کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا لیکن جب اسے پالیا تو کہا : اے کاش میں نے اس کا ادراک نہ کیا ہوتا ، مستقبل کی بشار تیں کتنی قریب ہیں اب و عدوں کے پورا ہونے اور ان چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنھیں تم پہچانتے آگاہ ہو جاؤ ہم اہل بیت میں سے جو اس زمانہ کو درک کرے گا _ وہ امام زمانہ ہے _ وہ روشن چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کا طریقہ اختیار کرے گا _ یہاں تک کہ اس زمانہ کے لوگوں کی مشکلکشائی کرے گا اور اسیروں کو آزاد کرے کا باطل و نقصان دہ طاقتوں کو پراگندہ کرے گا _ مفید لوگوں کو جمع کرے گا _ ان تمام کاموں کو خفیہ طور پرانجام دے گا کہ قیافہ شناس بھی غور وتامل کے بعد کچھ نہ سمجھ سکیں گے _ امام زمانہ کے وجود کی برکت سے _ دین سے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455