آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181869 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کی خدمت میں پہنچے _ اسی مجلس میں ایک محترم اور اجنبی شخص بھی موجود تھا _ اس اجنبی نے کہا : چند سال قبل میں نے کشتی کا سفر کیا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹک گیا اور ہمیں ایک سربستہ راز جزیرہ پر پہنچا دیا کہ جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم و اطلاع نہیں تھی _ ناچار کشتی سے اترے اور اس سرزمین میں داخل ہوئے _ یہاں احمد بن محمد ان ممالک کی حیرت انگیز داستان اس اجنبی سے تفصیلا نقل کرتے ہیں اور داستان شروع کرتے ہیں _ اس داستان کو سننے کے بعد وزیر مخصوص کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے بعد ہم سب کو بلایا اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تمہیں کسی سے یہ داستان نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے _ جب تک وزیر زندہ تھا ہم نے کسی سے بھی یہ داستان بیان نہ کی _(۱)

اجمالی طور پر داستان کی سند بیان کردی ہے تا کہ قارئین داستان کے ضعف کا اندازہ لگالیں تفصیل کے شائقین مذکورہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسی حکایتوں سے ایسے ممالک کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا _ اول تو اس داستان کا راوی ایک مجہول آدمی ہے کہ جس کی باتوں کا کوئی اعتبارنہیں ہے _ ثانیاً یہ ممکن نہیں ہے کہ روئے زمین پر ایسے ممالک آباد ہوں اور ان کی کسی کو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر میں کہ تمام زمین کی نقشہ کشی کردی گئی ہے جو دانشوروں کی توجہ کا مرکز ہے اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ایسے خم ٹھوک کر دفاع کیا ہے جیسے اسلام کے مسلم ارکان سے کرتے ہیں _

____________________

۱_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۳ ص ۵۸_

۲۶۱

کہتے ہیں : ممکن ہے وہ ممالک ابھی تک موجود ہوں اور خدا اغیار و نامحرموں سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہو _ لیکن میرے نقطہ نظر سے اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے _ میں نہیں جانتا کہ انھیں ایسے بے مدرک اور ضعیف موضوع کو ثابت کرنے کیلئے کس چیز نے مجبور کیا ہے کہتے ہیں بالفرض ایسے ممالک آج اگر موجود نہ ہوں تو بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانوں میں تھے بعد میں نیست و نابود ہوگئے اور ان کے باشندے متفرق ہوگئے ہیں _ یہ احتمال بھی بے بنیاد ہے _ کیونکہ اگر ایسے وسیع اور شیعہ نشین ممالک آباد ہو تے تو بہت سے لوگون کو ان کی اطلاع ہوتی اور ان کے حالات و کوائف اجمالی طور پر سہی تاریخ میں ثبت ہوتے _ یہ بات محال معلوم ہوتی ہے کہ چند بڑے ممالک موجود ہوں اور کسی کو ان کی خبر نہ ہو اور یہ سعادت صرف ایک مجہول شخص کو نصیب ہونے کے بعد ان کے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا دیئے جائیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کی تحقیق میں بھی ان کا نام و نشان نہ ملے _

علامہ ، محقق شیخ آقا بزرگ تہرانی مذکورہ داستان کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے اور لکھتے ہیں _ یہ داستان محمد بن علی علوی کی کتاب تغازی کے آر میں نقل ہوئی ہے _ اس سے علی بن فتح اللہ کاشانی یہ سمجھ بیٹھے کہ مرقومہ داستان کتاب ہی کا جز ہے _ جبکہ یہ اشتباہ ہے _ ممکن نہیں ہے کہ داستان کتاب کا جز ہوکیونکہ یحیی بن ہبیر کہ جس کے گھر یہ قضیہ پیش آیا وہ سنہ۵۶۰ ھ میں مر چکا تھا اور کتاب تغازی کے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہیں _ اس کے علاوہ داستان کے متن میں بھی تناقض ہے کیونکہ داستان کے ناقل احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ وزیر نے ہم سے عہد لیا کہ مذکورہ داستان کو تم میں سے کوئی بیان نہ کرے اور ہم نے

۲۶۲

اپنے عہد کو پورا کیا چنانچہ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک کسی سے بیان نہیں کی _ اس بناپر اس داستان کی حکایت وزیر کی تاریخ وفات ۵۶۰ کے بعد ہوئی جبکہ داستان کے متن میں عثمان بن عبد الباقی کہتے ہیں : احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ یہ داستان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے نقل کی گئی _(۱)

دوسری جگہ کہتے ہیں : عثمان بن عبد الباقی نے سات جمادی الثانی سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے بتایا : آپ جانتے ہیں کہ جمادی الثانی کے دو ماہ بعدرمضان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حادثہ کے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے یعنی جمادی الثانی میں اسے کسی سے بیان کیا جائے _

ہم امام زمانہ کے محل سکونت کے موضوع میں مجبور نہیں ہیں کہ زبر دستی پوچ دلیلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا کو ثابت کریں یا کہیں : آپ(ع) نے اپنی سکونت کیلئے اقلیم ثامن کا انتخاب کیا ہے _

فہیمی : تو جزیرہ خضراء کی داستان کیا ہے ؟

ہوشیار : چونکہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقیہ مطالب آئندہ جلسہ میں بیان کروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ میرے غریب خانہ ہی پر جلسہ منعقد ہوجائے _

____________________

۱_ الذریعہ ج ۵ ص ۱۰۶_

۲۶۳

جزیرہ خضراء

مقررہ وقت پر ہوشیار صاحب کے گھر جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

جلالی : گزشتہ جلسہ میں شاید فہیمی صاحب نے جزیرہ خضراء کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا تھا

فہیمی: میں نے سنا بلکہ امام زمانہ اور آپ کی اولاد جزیرہ خضراء میں زندگی بسر کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان کی حیثیت بھی افسانہ سے زیادہ نہیں ہے مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں اس داستان کو تفصیل سے نقل کیا ہے _ اجمال یہ ہے : میں نے نجف اشرف میں امیر المومنین (ع) کے کتب خانہ میں ،ایک رسالہ دیکھا تھا کہ نام جزیرہ خضراء کی داستان تھا _ اس قلمی رسالہ کے مؤلف فضل بن یحیی طبیبی ہیں _ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جزیرہ خضراء کی داستان میں نے ۱۵ / شعبان سنہ ۶۹۹ ھ کو اباعبداللہ علیہ السلام کے حرم میں شیخ شمس الدین اور شیخ جلال الدین سے سنی تھی _ انہوں نے زین الدین علی بن فاضل مازندرانی سے داستان نقل کی تھی _ مجھے شوق پیدا ہوا کہ خود ان سے داستان سنوں _

خوش قسمتی سے اسی سال شوال کے اوائل میں زین الدین شہر حلّہ تشریف لائے تو میں نے سید فخر الدین کے گھر ان سے ملاقات کی _ میں نے ان سے خواہش کی کہ جو داستا ن آپ نے شیخ شمس الدین و شیخ جلال الدین کو سنائی تھی وہ مجھے بھی سنا دیجئے انہوں نے فرمایا: میں دمشق میں شیخ عبد الرحیم حنفی اور شیخ زین الدین علی اندلسی

۲۶۴

سے تعلیم حاصل کرتا تھا _ شیخ زین الدین خوش طبع شیعہ اور علمائے امامیہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا اوران کا احترام کرتا تھا_ ایک مدت تک میں نے ان سے علم حاصل کیا اتفاقاً وہ مصر تشریف لے جانے کیلئے تیار ہوئے چونکہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ عقیدت و محبت تھی اس لئے انہوں نے مجھے بھی اپنی ہمراہ مصر لے جانے کا فیصلہ کیا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ میں اقامت گزینی کا قصد کیا _ تقریباً نو ماہ تک ہم نے وہاں بہترین زندگی گزاری _ ایک روز انھیں ان کے والد کا خط موصول ہوا ، خط میں تحریر تھا: میں شدید بیمارہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ مرنے سے قبل تمہیں دیکھ لوں _ استا د خط پڑھ کر رونے لگے اور اندلس کے سفر کا ارادہ کرلیا _ میں بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھا _ جب ہم جزیرہ کے اولین قریہ میں پہنچے تو مجھے شدید بیماری لا حق ہوگئی ، یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا _ میری کیفیت سے استاد بھی رنجیدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قریہ کے پیش نماز کے سپرد کیا تا کہ میری دیکھ بھال کرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تین روز کی بیماری کے بعد میری حالت ٹھیک ہوگئی _ چنانچہ میں گھر سے نکل کر دیہات کی گلیوں میں ٹہلنے لگا _ وہاں میں نے کوہستان سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو دیکھا جو کہ کچھ چیزیں لائے تھے _ میں نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بربر کی سرزمین سے آئے ہیں جو کہ رافضیوں کے جزیرہ سے قریب ہے ، جب میں نے رافضیوں کے جزیرہ کا نام سنا تو اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے پچیس روز کے فاصلے پر واقع ہے _ جس میں دو روز کی مسافت میں کہیں آبادی اور پانی نہیں ہے _ اس دو دن کی مسافت کو طے کرنے کے لئے میں نے گدھا کرایہ پر لیا اور اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں تک کہ رافضیوں کے جزیرہ

۲۶۵

تک پہنچ گیا ، جزیرہ کے چاروں طرف دیواریں تھیں اور محکم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑی تھی، موذن کی آواز سنی ، اس نے شیعون کی اذان دی اور اس کے بعد امام زمانہ کے تعجیل کیلئے دعا کی _ خوشی سے میرے آنسو جاری ہوگئے _ لوگ مسجد میں آئے _ شیعوں کے طریقہ سے وضو کیا اور فقہ شیعہ کے مطابق نماز جماعت قائم ہوئی _ نماز اور تعقیبات کے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسی کی _ میں نے اپنی روداد سنائی اور بتایا کہ میں عراقی الاصل ہوں _ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شیعہ ہوں تو میرا بہت احترام کیا اور میرے قیام کے لئے مسجد کا حجرہ معین کیا _ پیش نماز صاحب بھی میرا احترام کرتے تھے اور شب و روز میرے پاس رہتے تھے _ ایک دن میں نے ان سے پوچھا اہل شہر کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک کہاں سے آتی ہیں؟ مجھے یہاں کاشتکاری کی زمین نظر نہیں آتی ہے _ اس نے کہا: ان کا کھانا جزیرہ سے آتا ہے ، یہ جزیرہ بحرا بیض کے بیچ واقع ہے _ ان کے کھانے کی اشیاء سال میں دو مرتبہ جزیرہ سے کشتیوں کے ذریعہ آتی ہیں _ میں نے پوچھا کشتی آنے میں کتنا وقت باقی ہے؟ اس نے کہا : چارماہ _ طویل مدت کی وجہ سے مجھے افسوس ہوا لیکن خوش قسمتی سے چالیس دن کے بدن کشتیاں آگئیں اور یکے بعد دیگرے سات کشتیاں وارد ہوئیں _ ایک کشتی سے ایک وجیہہ آدمی اترا ، مسجد میں آیا ، فقہ شیعہ کے مطابق وضو کیا اور نماز ظہر و عصر ادا کی _ نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوا ، سلام کیا اور گفتگو کے دوران میرے اور میرے والدین کا نام لیا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ کیا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تک کے سفر میں میرے نام سے واقف ہوئے ہیں ؟ کہا: نہیں ، بلکہ تمہارا اور تمہارے والدین کے نام ، شکل و صورت اور صفات مجھ تک پہنچے ہیں _

۲۶۶

میں تمھیں اپنے ساتھ جزیرہ خضراء لے جاؤنگا _ ایک ہفتہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور ضروری امور کی انجام دہی کے بعد سفر کا آغاز کیا _ سولہ دن سمندر کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے بحرا بیض نظر آیا _ اس شیخ نے کہ جس کا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا کس چیز کا نظارہ کررہے ہو؟ اس علاقہ کے پانی کا دوسرا رنگ ہے _ اس نے کہا: یہ بحرا بیض ہے اور یہ جزیرہ خضراء ہے ، پانی نے اسے دیواروں کی طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور خدا کی حکمت ہے کہ جب ہمارے دشمنوں کی کشتیاں ادھر آنا چاہتی ہیں تو وہ صاحب الزمان کی برکت سے غرق ہوجاتی ہیں _ اس علاقہ کہ میں نے تھوڑا ساپانی پیا ، فرات کے پانی کی طرح شیرین و خوشگوارتھا _ بحرا بیض کا کچھ سفر طے کرنے کے بعد جزیرہ خضراء پہنچے کشتی سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس میں میوہ سے لدے ہوئے درخت اور چیزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زیادہ تھے اور اہل شہر بہترین زندگی گزار رہے تھے _ اس پر کیف منظر سے میرا دل باغ باغ ہوگیا _ میرا دوست محمد اپنے گھر لے گیا _ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد میں بہت سی جماعتیں تھیں اور ان کے درمیان ایک شخص تھا کہ جس کے جلال و عظمت کو میں بیان نہیں کرسکتا _ اس کا نام سید شمس الدین محمد تھا _ وہ لوگوں کو عربی ، قرآن ، فقہ اوراصول دین کی تعلیم دیتا تھا _ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا: اپنے پاس بٹھایا ، مزاج پرستی کی اور کہا میں نے شیخ محمد کو تمہارے پاس بھیجا تھا _ اس کے بعد انہوں نے میرے قیام کے لئے مسجد کا ایک کمرہ معین کرنے کا حکم دیا _ ہم آرام کرتے اور شمس الدین اور ان کے اصحاب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے _ اسی طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب میں وہاں پہلے جمعہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ

۲۶۷

سید شمس الدین نے نماز جمعہ واجب کی نیت سے ادا کی _ میں نے کہا : کیا امام زمانہ حاضر ہیں کہ واجب کی نیت سے نماز پڑھی ؟ کہا : امام حاضر نہیں ہیں لیکن میں ان کا خاص نائب ہوں ، میں نے کہا : کیا کبھی آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں ، لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ وہ امام کی آواز سنتے تھے مگر دیکھتے نہیں تھے ، ہاں دادا آواز بھی سنتے تھے اور دیکھتے بھی تھے_ میں نے کہا: میرے سید و سردار : کیا وجہ ہے کہ امام (ع) کو بعض لوگ دیکھتے ہیں اور بعض نہیں ؟ فرمایا: یہ بعض بندوں پر خدا کا لطف ہے _

اس کے بعد سید نے میرا ہاتھ پکڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں میں نے ایسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں کا مشاہدہ کیا کہ جن کی نظیر عراق میں نہیں تھی _ واپسی کی وقت ایک حسین و جمیل آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی _ میں نے سید سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن تھا ؟ کہا: کیا اس بلند پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، کہا: اس پہاڑ کے درمیاں ایک خوبصورت جگہ ہے اور درختوں کے نیچے ایک خوشگوار پانی کا سرچشمہ ہے وہاں اینٹوں کا بنا ہوا ایک گنبد ہے یہ شخص اس قبہ کا نگہبان و خدمت گار ہے _ میں ہر جمعہ کی صبح کو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ کی زیارت کرتاہوں اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک کاغذ ملتا ہے کہ جس میں میری ضرورت کے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہیں _ تمہارے لئے بھی ضروری ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ میں امام زمانہ کی زیارت کرو _

میں اس پہاڑ کی جانب روانہ ہوا _ قبہ کو میں نے ایسا ہی پایا جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا _ وہاں وہ خادم بھی ملا _ میں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات کی خواہش کی انہوں نے کہا: ناممکن ہے اور ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے _ میں نے کہامیرے لئے دعا کرو ،

۲۶۸

انہوں نے میرے لئے دعا کی ، اس کے بعد میں پہاڑ سے اتر آیا اور سید شمس الدین کے گھر کی طرف روانہ ہوا ان سے راستہ میں کہیں ملاقات نہ ہوئی _ میں اپنی کشتی کے ساتھ شیخ محمد کے گھر پہنچا اور پہاڑ کا ماجرا انھیں سنایا اور بتایا کہ ان خادموں نے مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے _ شیخ محمد نے بتایا کہ وہاں سید شمس الدین کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے _ وہ امام زمانہ کی اولاد سے ہیں _ ان کے اور امام زمانہ کے درمیان پانچ پشتیں ہیں وہ امام زمانہ کے خاص نائب ہیں _

اس کے بعد میں نے سید شمس الدین سے خواہس کی کہ میں اپنی بعض دینی مشکلیں آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے سامنے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے صحیح قرائت بتادیں _ فرمایا: کوئی حرج نہیں _ پہلے میں نے قرآن شروع کیا _ تلاوت کے درمیان قاریوں کا اختلاف بیان کیا تو سید نے کہا : ہم ان قرائتوں کو نہیں جانتے ہماری قرائت تو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قرآن کے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت علی (ع) کے جمع کردہ قرآن کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا تھا _ بعد میں ابوبکر کے حکم سے قرآن جمع کیا گیا اور اس سے بعض چیزیں حذف کردی گئی ہیں _ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آیت کے قبل و بعد میں ربط نہیں ہے _ سید کی اجازت کے بعد تقریباً میں نے نوے مسائل ان سے نقل کئے خاص کے علاوہ کسی کو ان کے نقل کی اجازت نہیں دیتا ہوں _

اس کے بعد اپنی مشاہدہ کردہ دوسری داستان نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میں نے سید سے عرض کی : امام زمانہ سے ہمارے پاس کچھ احادیث پہنچی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص زمانہ غیبت میں رویت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے _ جبکہ آپ

۲۶۹

کہتے ہیں ہم سے بعض کی امام سے ملاقات ہوتی ہے ، اس حدیث اور آپ کے بیان میں کیسے توافق ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: یہ احادیث صحیح ہیں ، لیکن اس وقت کے لئے تھیں جب بنی عباس میں سے آپ(ع) کے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ میں دشمن آپ سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہمارے شہر بھی ان سے دور ہیں کسی کی دست رسی اس میں نہیں ہے ، لہذا اب ملاقات میں کوئی خطرہ نہیں ہے _

میں نے کہا: سید شیعہ امام سے کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ خمس آپ نے شیعوں کے لئے مباح کیاہے _ کیا آپ نے اما م سے یہ حدیث سنی ہے کہ امام نے خمس کو شیعوں کیلئے مباح کیا ہے _ اس کے بعد وہ سید سے کچھ اور مسائل نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: تم نے بھی ابھی تک امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے لیکن پہچان نہیں سکے _

خاتمہ میں کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: مغربی ممالک میں قیام نہ کرو، جتنی جلد ہوسکے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا _

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان ایسی ہی ہے جیسا کہ میں نے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے _ آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ داستان کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ افسانہ کی حیثیت ہے کیونکہ :

اولاً: اس کی سند معتبر و قابل اعتماد نہیں ہے _ یہ داستان ایک مجہول قلمی نسخے سے نقل کی گئی ہے چنانچہ اس کے متعلق خود مجلسی لکھتے ہیں : چونکہ مجھے یہ داستان معتبر کتابوں میں نہیں ملی ہے اس لئے میں نے اس کو الگ باب میں نقل کیا ہے ( تا کہ کتاب کے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )

ثانیاً: داستان کے مطالب کے درمیان تناقض پایاجاتا ہے جیسا کہ آپ نے

۲۷۰

ملاحظہ فرمایا: سید شمس الدین ایک جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں : '' میں امام زمانہ کا خاص نائب ہوں اور ابھی تک امام زمانہ کو نہیں دیکھا ہے _ میرے والد نے بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی آواز سنتے تھے جبکہ میرے دادا دیکھتے اور آواز سنتے تھے '' _ لیکن یہی سید شمس الدین دوسری جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں :'' میں ہر جمعہ کی صبح کو امام کی زیارت کے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھی جاؤ'' ، داستان کے راوی سے شیخ محمد نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف سید شمس الدین اور انہی جیسے لوگ امام کی خدمت میں مشرف ہو سکتے ہیں _ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ فرما رہے ہیں کہ ان مطالب میں کتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سید شمس الدین جانتے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو زیارت کے لئے نہیں لے جاتے تو پھر داستان کے راوی سے یہ تجویز کیسے پیش کی کہ ملاقات کے لئے پہاڑ پر جاؤ_

ثالثاً : مذکورہ داستان میں تحریف قرآن کی تصریح ہوئی ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور علمائے اسلام شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں _

رابعاً: خمس کے مباح ہونے والا موضوع بھی کہ جس کی تائید کی گئی ہے فقہا کی نظر میں صحیح نہیں ہے _

بہر حال داستان رومانٹک انداز میں بنائی گئی ہے ، لہذا بہت ہی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے _ زین الدین نامی ایک شخص عراق سے تحصیل علم کے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طویل سفر طے کرتا

۲۷۱

ہے _ وہاں بیمار پڑتا ہے _ اس کا استاد اسے چھوڑدیتا ہے _ افاقہ کے بعد ، رافضیوں کے جزیرہ کا نام سن کر اس جزیرہ کو دیکھنے کا ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ اپنے استاد کو بھول جاتا ہے _ خطرناک اور طویل سفر طے کرکے رافضیوں کے جزیرہ پہنچتا ہے _ جزیرہ میں زراعت نہیں ہوتی لہذا پوچھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی غذ ا کہاں سے آتی ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ ان کی غذا جزیرہ خضراء سے آتی ہے ، باوجودیکہ لوگوں نے بتا یا تھا کہ چار ماہ کے بعد کشتیاں آئیں گی لیکن اچانک چالیس ہی دن کے بعد آجاتی ہیں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتی ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد اسے (راوی کو) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں _ بحر ابیض کے وسط میں سفید پانی دیکھتا ہے جو کہ شیرین و گوارا بھی ہے اس کے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر کر جزیرہ خضراء میں داخل ہوتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عراقی طویل سفر طے کرنے کے بعد مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے اور ان سب کی زبان جانتا ہے ، کیا اندلس کے باشندے بھی عربی بولتے تھے؟

دوسری قابل توجہ بات بحر ابیض کی داستان ہے _ آپ جانتے ہیں کہ بحر ابیض روس کی جمہوریاؤں کے شمال میں واقع ہے _ وہاں یہ واقعہ نہیں پیش آسکتا تھا _ البتہ بحر متوسط کو بھی بحر ابیض کہتے ہیں _ ممکن ہے یہ داستان وہاں کی ہو لیکن اس پورے سمندر کو بحر ابیض کہا جا تا ہے نہ کہ اس مخصوص علاقہ کو جسے داستان کے راوی نے سفید محسوس کیا تھا _ اگر کوئی مذکورہ داستان میں مزید غور کرے گا تو اس کا جعلی ہونا واضح ہوجائے گا _

خاتمہ پر اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے _ جیسا کہ اس سے قبل آپ

۲۷۲

ملاحظہ فرما چکے ہیں _ ہماری احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام زمانہ اجنبی کی طرح لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں _ عام مجموع اور حج میں شرکت کرتے ہیں اور بعض مشکلات کے حل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں _

اس مطلب کے پیش نظر امام زمانہ ، مستضعفین اور حاجت مندوں کی امید کا دور افتادہ علاقہ ، سمندر کے بیچ میں اقامت گزیں ہونا نہایت ہی نا انصافی ہے _ آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ ایسی غیر معتبر داستان کی تشریح کیلئے آپ کا قیمتی وقت لیا _

جلالی : امام زمانہ کی اولا ہیں یا نہیں ؟

ہوشیار: ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شادی اور اولاد کا قطعی و یقینی طور پر اثبات و نفی کرتی ہو _ البتہ ممکن ہے خفیہ طور پر شادی کی ہو اور ایسے ہی اولا د کا بھی کسی کو علم نہ ہو اور جیسے مناسب سمجھتے ہوں عمل کرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں کی دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کی اولاد ہے یااس کے بعد پیدا ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۷_

۲۷۳

ظہور کب ہوگا؟

ڈاکٹر : مہدی موعو د کب ظہور فرمائیں گے ؟

ہوشیار: ظہور کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت کی تعیین کرنے والے کو ائمہ اطہار علیہم السلام نے جھوٹا قرار دیا ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

فضل کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی کے ظہور کا وقت معین ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں تین مرتبہ فرمایا:

''جو شخص ظہور کے وقت کی تعیین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے ''(۱)

عبد الرحمن بن کثیر کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ مہزم اسدی آئے اور عرض کی : میں آپ(ع) کے قربان ، قائم آل محمد (ص) کا ظہور اور حکومت حق کی تشکیل ، کہ جس کے آپ منتظر ہیں ، کب ہوگا ؟ آپ (ع) نے جواب دیا :

'' ظہور کے وقت کی تعیین کرنے والا جھوٹا ہے ، تعجیل کرنے والے ہلاک ہوتے ہیں اور سراپا تسلیم لوگ نجات پاتے ہیں اور

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲۷۴

ان کی بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے ''(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا :

''جو شخص وقت ظہور کی تعیین کرتاہے _ اس کی تکذیب کرنے میں خوف محسوس نہ کرو کیونکہ ہم ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کرتے '' _ اس سلسلہ میں دس احادیث اور ہیں _(۲)

ا ن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) نے ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کی ہے اور ہر غلط فائدہ اٹھائے والے کا راستہ بند کردیا ہے _ پس اگر امام کی طرف کسی ایسی حدیث کی نسبت دی جائے کہ جس میں وقت کی تعیین کی گئی ہو تو اسکی تاویل کی جائے اگر قابل تاویل ہے یا اس کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے یا اسکی تکذیب کرنا چاہئے جیسے ابولبید مخزومی کی ضعیف و مجمل حدیث میں امام کی طرف بعض مطالب کی طرف نسبت دی گئی ہے او ران کے ضمن میں کہا ہے کہ ہمارا قائم '' الر'' میں قیام کرے گا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۴_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۶_

۲۷۵

ظہور کی علامتیں

انجینئر: ظہور کی علامتیں کہاں تک صحیح ہیں؟

ہوشیار: صاحب الامر (ع) کے ظہور کی بہت سی علامتیں احادیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں لیکن اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو بحث طولانی ہوجائیگی اور کئی جلسے اس میں گزر جائیں گے لیکن یہاں چند ضروری باتوں کی وضاحت کردینا ضروری ہے :

الف: بعض علامتوں کا مدرک ، خبر واحد ہے کہ جس کی سند و طریق میں غیر موثق اور مجہول الحال اشخاص ہیں لہذا مفید یقین نہیں ہے _

ب: اہل بیت کی احادیث میں ظہور کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے _ ان میں سے ایک حتمی و ضروری ہے ، اس میں :وئی قید و شرط نہیں ہے ان کا ظہور سے قبل واقع ہونا ضروری ہے _ دوسری قسم حتمی نہیں ہے یہ وہ حوادث ہیں جو ظہور کی حتمی علامت نہیںہیں بلکہ شرط سے مشروط ہیں اگر شرط واقع ہوگی تو یہ بھی ہوں گے اور اگر شرط نہ ہوگی تو یہ بھی نہ ہوں گے _ لہذا انھیں اجمالی طور پر ظہور کی علامتوں میں شمار کرنے میں مصلحت تھی _

ج _ جو چیزیں ظہور کی علامت ہیں وہ جب تک واقع نہ ہونگی اس وقت تک

۲۷۶

صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا اور ان کا وقوع اس بات کی دلیل ہے کہ فرج کا زمانہ ایک حد تک قریب آگیا ہے _ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان علامتوں کے واقع ہوتے ہی بلا فصل امام زانہ کا ظہور ہوجائے گا _ لیکن ان میں سے بعض کی تصریح ہوئی ہے کہ وہ امام کے ظہور سے نزدیک واقع ہونگی _

د_ ظہور کی بعض علامتیں معجزانہ اور خارق العادت کے طور پر واقع ہونگی تا کہ مہدی موعود کے دعوے کے صحیح ہونے کی تائید کریں اور دنیا کے غیر معمولی حالات کو بیان کریں _ یہ علامتیں ایسی ہی ہیں جیسے دیگر معجزات اور صرف اس لئے انھیں رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معمولی حالات کے موافق نہیں ہیں _

ھ_ ظہور کی علامتوں کی ایک قسم کتابوں میں ہمیں نظر آتی ہیں کہ جن کا واقع ہونا محال معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہ کہا گیا ہے ظہور کے وقت مغرب سے سورج نکلے گا اور نصف ماہ رمضان میں سورج گہن لگے گا اور پھر اسی مہینہ کے نصف آخر میں گہن لگے گا _ دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسے حوادث کے واقع ہونے سے کائنیات کا نظام درہم و برہم ہوجائے گا _ اور شمسی نظام کی گردش میں تبدیلی آجائے گی _ لیکن واضح رہے ان علامتوں کا مدرک بھی خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ ان کی سند میں خدشہ وارد کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بنی امیہ و بنی عباس کے خلفا کی جعل کی ہوئی ہیں _ کیونکہ اس زمانہ میں بعض لوگ حکومت وقت کے خلاف مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرتے تھے اور اس طرح بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیتے تھے _ خلفائے وقت نے جب یہ محسوس کیا کہ مہدی سے متعلق اصل احادیث کا انکار ممکن نہیں ہے تب انہوں نے دوسرا طریقہ سوچا تا کہ علویوں

۲۷۷

کی نہضت و تحریک کو مختل کیا جا سکے اور لوگوں کو اس سے بازر کھا جا سکے _ اس لئے انہوں نے محال علامتیں جعل کیں تا کہ لوگ ان علامتوں کے منتظر رہیں اور علویوں کی بات نہ مانیں _ اگر صحیح احادیث ہوتیں تو کوئی بات نہ تھی ایسی علامتیں معجزانہ طور پروجود میں آئیں گی تا کہ کائنات کے غیر معمولی حالات کا اعلان کریں اور حکومت حق کی ترقی کے اسباب فراہم کریں _

۲۷۸

سفیانی کا خروج

انجینئر: ظہور کی علامتوں میں سے ایک سفیانی ہے _ یہ کون ہے اور اس کا قصہ کیا ہے؟

ہوشیار: بہت سی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صاحب الامر (عج) کے ظہور سے پہلے ابو سفیان کی نسل سے ایک شخص خروج کرے گا _ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ظاہراً اچھا آدمی ہے ہمیشہ اس کی زبان پر ذکر خدا ہے _ لیکن بدترین و خبیث ترین انسان ہے _ بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے گے ، اپنے ہمراہ لے کر چلے گا ، پانچ علاقوں ، شام ، حمص ، فلسطین ، اردن ، اور قنسرین پر قابض ہوجائے گا اور بنی عباس کی حکومت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا _ بے شمار شیعوں کو قتل کریگا اس کے بعد صاحب الامر (عج) کا ظہور ہوگا تو وہ امام زمانہ سے جنگ کے لئے اپنا لشکر بھیجے گا لیکن مکہ و مدینہ کے درمیان اس کا لشکر زمین میں دھنس جائے گا _

جلالی : آپ جانتے ہیں کہ بنی عباس کی حکومت مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے کہ جسے سفیانی نابود کرے :

ہوشیار: امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ:

'' بنی عباس کی حکومت فریب و نیرنگ سے وجود میں آئی ہے لہذا یہ اس طرح

۲۷۹

تباہ ہوگی کہ اس کا کہیں نشان بھی نہیں ملے گا ، لیکن پھر وجود میں آئے گی اور اس طرح اوج پر پہنچے گی گویا اسے کوئی دھچکاہی نہیں لگاتھا _''(۱)

اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنی عباس کی دوبارہ حکومت ہوگی اور آخری مرتبہ سفیانی کے ہاتھوں تباہ ہوگی _ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ سفیانی کے خروج کو ضروری کہا گیا ہے لیکن اس کے خروج کا زمانہ اور کیفیت معلوم نہیں ہے یعنی ممکن ہے بنی عباس کی حکومت کی تباہی سفیانی کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ دوسروں کے توسط سے ہو _

فہیمی: میں نے سنا ہے : چونکہ خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے دل میں خلافت کی آرزو تھی اور وہ بنی مروان کے ہاتھوں میں خلافت کی زمام دیکھتا تھا اس لئے اس نے بنی امیہ کی حوصلہ افزائی کیلئے خروج سفیانی کی داستان گھڑی خالد کے بارے میں صاحب اغانی لکھتے ہیں :

''وہ عالم و شاعر تھا ، کہا جاتاہے کہ سفیانی کی حدیث کو اسی نے جعل کیا ہے ''(۲)

طبری لکھتے ہیں :'' علی بن عبداللہ بن خالد بن یزید بن معاویہ نے شام میں سنہ ۱۵۹ میں خروج کیا تھا وہ کہتا تھا _ میں سفیانی منتظر ہوں ، اس طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا _(۲) ان تاریخی شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ سفیانی کا خروج جعلی چیز ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵۰ _

۲_ اغانی ج ۱۶ ص ۱۷۱ _

۳_ طبری ج ۷ ص ۲۵_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455