آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181876 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

صقر کہتے ہیں : میں نے علی بن محمد سے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا:

'' میرے بعد میرے بیٹے حسن ( عسکری) امام ہیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھی چکی ہوگی '' _(۱)

ج: اما م حسن عسکری (ع) نے متعدد احادیث میں اس بات کی خبر دی ہے کہ قائم و مہدی میرا بیٹا ہے اور امام و پیغمبر جھوٹ و خطا سے منزہ ہیں ان احادیث میں سے بعض یہ ہیں :

محمد بن عثمان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے:

'' میں امام حسن عسکری کی خدمت میں تھا کہ آپ (ع) سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کہ کہ ان کے آباء و اجداد سے نقل ہوئی ہے کہ تا قیامت زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی اور جو شخص اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے ، وہ جہالت کی موت مرتا ہے _ امام (ع) نے جواب دیا : '' یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح اور حق ہے'' _ عرض کیا گیا : اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کے بعد امام و حجت کوں ہے ؟ فرمایا: '' میرے بیٹے محمد حجّت و امام ہیں اور جوان کے معرفت کے بغیر مرے گا وہ جہالت کی موت مرے گا _ آگاہ ہوجاؤ میرا بیٹا غیبت میں رہے گا ، اس زمانہ میں دنیا والے سرگردان ہوں گے ، باطل پرست ہلا ک ہوں گے اور جو شخص ان کے ظہور کے

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۲۷۵_

۱۲۱

وقت کو معین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے وہ اپنی غیبت کا زمانہ ختم ہوجانے کے بعد قیام کریں گے گویا میں سفید پرچم نجف میں ان کے سر پر لہراتا ہوا دیکھ رہا ہوں _(۱)

د_ امام حسن عسکری (ع) نے اپنے بیٹے کی ولادت کی چند اشخاص کو خوشخبری دی ہے ازباب مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱_ فضل بن شاذان جن کا انتقال حضرت حجت کی ولادت کے بعد اور امام حسن عسکری کی شہادت سے قبل ہوا تھا ،انہوں نے اپنی کتاب غیبت میں محمد بن علی بن حمزہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے امام حسن عسکری سے سنا کہ آپ(ع) فرمارہے تھے :

''۱۵ شعبان (۲۵۵) کی شب میں طلوع فجر کے وقت حجت خدا اور میرا جانشین مختون پیدا ہوا ہے '' _(۲)

۲_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے اما م حسن عسکری (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرما رہے تھے :

''حمد ہے اس خدا کی جس نے میرے مرنے سے قبل ہی مجھے میرا جانشین دکھا دیا ، اخلاق و خلق میں وہ سب سے زیادہ رسول(ص) سے مشابہ ہے ،ایک مدت تک خدا انھیں پردہ غیب میں رکھے گا اس کے بعد انھیں ظاہر کرے گا تا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں '' _(۳)

۳_ احمد بن حسن بن اسحاق قمی نے روایت کیہے کہ جب خلف صالح پیدا ہوئے اس وقت امام حسن (ع) کاخط احمد بن اسحاق کے بدست میرے پاس پہنچا اس میں آپ نے اپنے دست مبارک

____________________

۱_ بحار الانوار ج۵۱ ص ۱۶۰_

۲_ منتخب الاثر طبع اول ص ۳۲۰_

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۶۱_

۱۲۲

سے تحریر کیا تھا کہ:

''ہمارے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے ، اس بات کو مخفی رکھنا کیونکہ میں بھی سوائے اپنے دوستوں کے اور کسی سے بیان نہیں کروں گا ''_(۱)

۴_ اسحاق بن احمد کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''احمد جس چیز کے بارے میں لوگ شک میں مبتلا ہیں اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے عرض کی : ہمارے زن و مرد اور بوڑھے جوان پر تو حق اس وقت آشکار ہوگیا تھا جب آپ (ع) نے خط کے ذریعہ بیٹے کی ولادت کی خوشبخری دی تھی چنانچہ ہم ان کے معتقد ہوگئے ہیں '' _(۲)

۵_ ابوجعفر عمری نے روایت کی ہے کہ جب صاحب الامر پیدا ہوئے اس وقت امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا:

'' ابو عمر کو بلاؤ'' ، جب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: دس ہزار طل(۳) نان اور دس ہزار رطل گوشت خرید کر لاؤ اور بنی ہاشم میں تقسیم کردو اور خلال گوسفند سے میرے بیٹے کا عقیقہ کرو _(۴)

احادیث و اخبار کے اس مجموعہ سے یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں بیٹا تھا_

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۲_

۲_ منتخب الاثر طبع اول ص ۳۴۵_

۳_ یعنی آدھا سیر

۴_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۰_

۱۲۳

امام زمانہ (عج) کو بچپنے میں دیکھا گیا ہے

ڈاکٹر : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے یہاں بیٹا پیدا ہو اور کسی کو اس کی اطلاع نہ ہو؟

پانچ سال گزرجائیں اور کوئی اسے پہچانتا نہ ہو ؟ کیا امام حسن عسکری کی سامرہ میں بودوباش نہیں تھی؟ کیا ان کے گھر کسی کی بھی آمد و رفت نہیں تھی ؟ کیا صرف عثمان بن سعید کے کہنے سے اس چیز کو قبول کیا جا سکتا ہے ؟

ہوشیار: اگر چہ یہ طے تھا کہ امام حسن عسکری (ع) کے بیٹے کو کوئی نہ دیکھنے پائے لیکن پھر بھی بعض قریبی اور قابل اعتماد اشخاص نے انھیں بچپن میں دیکھا ہے اور ان کے وجود کی گواہی دی ہے مثلاً:

۱_ حکیمہ خاتون بنت امام محمد نقی امام حسن عسکری کی پھوپھی ، صاحب الامر کی ولادت کے وقت وہاں موجود تھیں اور انہوں نے اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے _ اس کا خلاصہ یہ ہے : حکیمہ خاتون کہتی ہیں : پندرہ شعبان (۲۲۵) کی شب ، میں امام حسن عسکری کے گھر تھی _ جب میں اپنے گھر واپس آنا چاہتی تھی اس وقت امام حسن عسکری نے فرمایا: پھوپھی جان آج کی رات آپ ہمارے ہی گھر ٹھر جایئےیونکہ آج کی رات ولی خدا اور میرا جانشین پیدا ہوگا _ میں نے دریافت کیا کس کنیز سے ؟ فرمایا : سوسن سے _

۱۲۴

میں نے سوسن کو اچھی طرح سے دیکھا لیکن مجھے حمل کے آثار نظر نہ آئے _ نماز اور افطار کے بعد سوسن کے ساتھ میں ایک کمرے میں سوگئی _ تھوڑی دیر بعد بیدار ہوئی تو امام حسن عسکری کی باتوں کے متعلق سوچنے لگی _ پھر نماز شب میں مشغول ہوئی _ سوسن نے بھی نماز شب ادا کی _ صبح صادق کا وقت قریب آگیا _ لکن وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے مجھے امام حسن عسکری کی باتوں میں شک ہونے لگا تو دوسرے کمرہ سے امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا : پھوپھی جان شک نہ کیجئے میرے بیٹے کی ولادت کا وقت قریب ہے _

اچانک سوسن کی حالت بدل گئی میں نے پوچھا : کیا بات ہے _ فرمایا : شدید درد محسوس ہورہا ہے _ میں وضع حمل کے وسائل فراہم کرنے میں مشغول ہوگئی اور دایہ کے فرائض کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی _

کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ولی خدا پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے اور اسی وقت امام حسن عسکری نے فرمایا : پھوپھی جان میرے بیٹے کو لایئے میں بچہ کو ان کے پاس لے گئی انہوں نے بچہ کو لیا اور اپنی زبان مبارک اس کی آنکھوں پر پھرائی تو بچہ نے آنکھین کھولدیں اس کے بعد نوزاد کے دہان اور کان پر زبان پھرائی اور سر پر ہاتھ پھیراتو بچہ گویا ہوا اور تلاوت قرآن کرنے میں مشغول ہوگیا _ اس کے بعد بچہ مجھے دیدیا اور فرمایا : '' اس کی ماں کے پاس لے جایئے' حکیمہ خاتو ن کہتی ہیں:میں نے بچہ کو اس کی ماں کو دیدیا اور اپنے گھرلوٹ آئی _ تیسرے دن میں پھر امام حسن عسکری کے گھر گئی اور پہلے بچہ کو دیکھنے کی غرض سے سوسن کے کمرہ میں داخل ہوئی لیکن بچہ وہاں نہیں تھا _ اس کے بعد امام حسن عسکری کی خدمت میں پہنچی _ لیکن بچہ کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی تھی ، کہ امام حسن عسکری نے فرمایا: پھوپھی جان میرا بیٹا خدا

۱۲۵

کی پناہ میں غائب ہوگیا ہے _ جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور ہمارے شیعہ ہمارے جانشین کے بارے میں اختلاف کرنے لگیں تو آپ قابل اعتماد شیعوں سے میرے بیٹے کی داستان ولادت بیان کردیجئے گا لیکن اس قضیہ کو مخفی رکھنا چاہئے کیونکہ میرا بیٹا غائب ہوجائے گا _(۱)

۲_ امام حسن عسکری کی خدمت گار نسیم و ماریہ نے روایت کی ہے کہ : جب صاحب الامر نے ولادت پائی تو پہلے وہ دو زانو بیٹھے اور اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف بلند کیا _ اس کے بعد چھینک آئی تو فرمایا : '' الحمد للہ ربّ العالمین''(۲)

۳_ ابوغانم خادم کہتا ہے : امام حسن عسکری (ع) کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا ، تیسرے دن اس بچہ کو آپ نے اپنے اصحاب کو دکھایا اور فرمایا : '' یہ میرا بیٹا میرے بعدتمہارا امام و مولی ہے اور یہی وہ قائم ہے جس کا تم انتظار کروگے اور اس وقت ظہور کرے گا جب زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی اور اسے عدل و انصاف سے پر کرے گا ''(۳)

۴_ ابو علی خیزرانی اس کنیز سے نقل کرتے ہیں جو کہ اما م حسن عسکری نے انھیں بخش دی تھی کہ اس نے کہا : '' صاحب الامر کی ولادت کے وقت میں موجود تھی ، ان کی والدہ کا نام صیقل ہے ''(۴)

____________________

۱_ غیبت شیخ ص ۱۴۱ و ۱۴۲_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۲ ، اثبات الوصیہ ص ۱۹۷_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۱_

۴_ منتخب الاثر ص ۳۴۳_

۱۲۶

۵_ حسن بن حسین علوی کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کی ولادت کی مبارک بادپیش کی _(۱)

۶_ عبداللہ بن عباس علوی کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کی ولادت کی مبارک باد پیش کی _(۲)

۷_ حسن بن منذر کہتے ہیں :'' ایک دن حمزہ بن ابی الفتح میرے پاس آئے اور کہا : مبارک ہو کل رات خدا نے امام حسن عسکری کو فرزند عطا کیا ہے _ لیکن ہمیں اس خبر کے مخفی رکھنے کاحکم دیا ہے _ میں نے نام پوچھا تو فرمایا : ان کا نام محمد ہے _(۳)

۸_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا _ میرا قصد تھا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں کچھ دریافت کروں _ لیکن آپ (ع) ہی نے گفتگور کا آغاز کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق خداوند عالم نے حضرت آدم کی خلقت سے قیامت تک ، زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے ، اور نہ رکھے گا _ اس کے وجود کی برکت سے زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں ، بارش برستی ہے اور زمین کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں _ میں نے عرض کی اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کا جانشین کون ہے ؟ امام گھر میں داخل ہوئے اور ایک تین سالہ بچہ کو لائے جو کہ چو دھویں کے چاند کی مانند تھا اور فرمایا : اے احمد اگر تم خدا اور ائمہ کے نزدیک معزز نہ ہوتے تو میں تمہیں

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۳۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۷۲۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۴_

۱۲۷

اپنا بیٹا نہ دکھاتا _ جان لو یہ بچہ رسول کا ہمنام اور ہم کنیت ہے _ یہی زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _(۱)

۹_ معاویہ بن حکیم ، محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان عمری نے روایت کی ہے کہ ہم چالیس آدمی امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں جمع تھے کہ آپ اپنے بیٹے کو لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام اور جانشین ہے _ میرے بعد تمہیں اس کی اطاعت کرنا چاہئے اور اختلاف نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے _ واضح رہے کہ میرے بعد تم اسے نہ دیکھوگے '' _(۲)

۱۰ _ جعفر بن محمد بن مالک نے شیعوں کی ایک جماعت منجملہ علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ بن حکیم اور حسن بن ایوب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ہم لوگ امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں اس لئے جمع ہوئے تھے تا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں معلوم کریں _ اس مجلس میں چالیس اشخاص موجود تھے کہ عثمان بن سعید اٹھے اور عرض کی : یابن رسول اللہ ہم ایک سوال کی غرض سے آئے ہیں _ آپ (ع) نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد فرمایا کوئی شخص مجلس سے باہر نہ جائے ، یہ کہہ کر آپ (ع) تشریف لے گئے اور ایک گنھٹے کے بعد واپس تشریف لائے ، چاند سا بچہ اپنے ساتھ لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام ہے _ اس کی اطاعت کرو _ لیکن اس کے بعد اسے نہ دیکھو گے _(۳)

۱۱_ ابوہارون کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو دیکھا ہے جبکہ آپ کا چہرہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۱۱_

۱۲۸

چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا _(۱)

۱۲_ یعقوب کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ع) کے داہنی طرف پردہ پڑا ہوا ہے _ میں نے عرض کی : مولا صاحب الامر کون ہے ؟ فرمایا : پردہ اٹھاؤ، جب میں نے پردہ اٹھایا تو ایک بچہ ظاہر ہوا جو آپ (ع) کے زانو پر آکر بیٹھ گیا ، امام نے فرمایا یہی تمہارا امام ہے _(۲)

۱۳_ عمرو اہوازی کہتے ہیں : امام عسکری نے مجھے اپنا بیٹا دکھایا اور فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا تمہارا امام ہے _(۳)

۱۴_ خادم فارسی کہتے ہیں : میں امام حسن عسکری (ع) کے دروازے پر تھا کہ گھر سے ایک کنیز نکلی جبکہ اس کے پاس کوئی چیز تھی جس پر کپڑا پڑا تھا امام نے فرمایا: اس سے کپڑا ہٹاؤ، تو کنیز نے ایک حسین و جمیل بچہ دکھایا _ امام نے مجھ سے فرمایا : یہ تمہارا اما م ہے _ خادم فارسی کہتے ہیں : اس کے بعد میں نے اس بچہ کو ہیں دیکھا _(۴)

۱۵_ ابو نصر خادم کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو گہوارہ میں دیکھا ہے _(۵)

۱۶_ ابو علی بن مطہر کہتے ہیں : میں نے حسن عسکری کے فرزند کو دیکھا ہے _(۶)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۰_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۵_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۶_

۴_ ینابیع المودة باب ۸۲_

۵_ اثبات الہداة جلد ۷ ص ۳۴۴، اثبات الوصیہ ص ۱۹۸_

۶_ ینابیع المودہ باب ۸۲_

۱۲۹

۱۷_ کامل بن ابرایہم کہتے ہیں :'' میں نے صاحب الامر کو امام حسن عسکری کے گھڑ میں دیکھا ہے : چار سال کے تھے اور چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا ، میری مشکلوں کو میرے سوال کرنے سے پہلے ہی حل کیا تھا _(۱)

۱۸_ سعد بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے صاحب الامر کو دیکھا ہے آپ کا چہرہ چاند کے ٹکڑے کی مانند تھا _(۲)

۱۹_ حمزہ بن نصیر ، غلام ابی الحسن (ع) نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب صاحب الامر پیدا ہوئے تو آپ کے گھر میں رہنے والے افراد نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی _ جب کچھ بڑے ہوئے تو مجھے حکم ملا کہ روزانہ نلی کی ہڈی گوشت سمیت خرید کر لاؤ اور فرمایا یہ تمہارے چھوٹے مولا کے لئے ہے _(۳)

۲۰_ ابراہیم بن محمد کہتے ہیں : ایک روز میں حاکم کے دڑسے فرار کرنا چاہتا تھا لہذا وداع کی غرض سے امام حسن عسکری کے گھر گیا تو آپ کے پاس ایک حسین بچہ کو دیکھا ، عرض کی فرزند رسول یہ کس کا بچہ ہے ؟ فرمایا: یہ میرا بیٹا اور جانشین ہے _(۴)

یہ لوگ امام حسن عسکری کے معتمد ثقہ اور اصحاب و خدام ہیں کہ جنہوں نے بچپنے

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۲۳ ، ینابیع المودہ باب ۸۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۷۸ و ص ۸۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸ ، اثبات الوصیہ ص ۱۹۷_

۴_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۵۶_ ولادت صاحب الامر کے سلسلہ میں تفصیل کے شائقین ، علامہ محقق سید ہاشم بحرانی کی کتاب، تبصرة الولی فیمن را ی المہدی اور بحار الانوار ج ۵۱ باب ۱ ج ۵۲ باب ۱۷ و ۱۹ ملاحظہ فرمائیں _

۱۳۰

میں آپ کے لخت جگر کو دیکھا ہے اور اس کے وجود کی گواہی دی ہے _ جب ہم اس گواہی کے ساتھ پیغمبر اور ائمہ کی احادیث کو ضمیمہ کرتے ہیں تو امام حسن عسکری کے بیٹے کے وجود کا یقین حاصل ہوجاتا ہے _

وصیت میں ذکر کیوں نہیں ہے ؟

انجینئر : کہتے ہیں کہ امام حسن عسکری نے مرتے دم اپنی مادر گرامی کو اپنا وصی قرار دیا تھا تا کہ ان کے امور کی نگرانی کریں اور یہ بات قضات وقت کے نزدیک ثابت ہوچکی ہے لیکن آ پ(ع) نے کسی بیٹے کا نام نہیں لیا ہے اور انتقال کے بعد آپ کا مال آپ کی والد ہ اور بھائی کے درمیان تقسیم ہوا _(۱) اگر کوئی بیٹا ہوتا تو اپنی وصیت کے ضمن میں اس کا نام بھی درج کرتے تا کہ میراث سے محروم نہ رہے _

ہوشیار: امام حسن عسکری نے عمداً وصیت میں اپنے بیٹے کا نام ذکر نہیں کیا تھا تا کہ بادشاہ وقت کی طرف سے یقینی خطرات سے انھیں نجات دلائیں _ اس سلسے میں آپ بہت زیادہ محتاط رہے اور اپنے بیٹے کی ولادت کی خبرکے طشت از بام ہونے سے اس قدر خوف زدہ رہتے کہ کبھی تو اپنے خاص اصحاب سے بھی اسے چھپاتے اور اس موضوع کو مبہم بنادیتے تھے_

ابراہیم ابن ادریس کہتے ہیں :

'' امام حسن عسکری (ع) نے میرے پاس ایک گوسفند بھیجی اور کہلوایا : اس گوسفند

____________________

۱_ اصول کافی باب مولا ابی محمد الحسن بن علی _

۱۳۱

سے میرے بیٹے کا عقیقہ کردو اور اپنے خاندان کے ساتھ کھاؤ_ میں نے حکم کی تعمیل کی لیکن جب میں آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا ہمارا بچہ دنیا سے چلا گیا _ ایک مرتبہ پھر دو گوسفند کے ساتھ ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون یہ تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم _ ان دو گوسفندوں سے اپنے مولا کا عقیقہ کرو اور اپنے عزیزوں کے ساتھ کھاؤ، میں نے حکم تعمیل کی _ لیکن جب میں حاضر خدمت ہوا تو مجھ سے کچھ نہ فرمایا '' _(۱)

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے بھی اپنی وصیت میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا _ آپ نے پانچ اشخاص ، خلیفہ وقت منصور عباسی ، محمد بن سلیمان مدینہ کے گور نر کا بیٹا ، اپنے دو بیٹے عبداللہ و موسی (ع) اور موسی (ع) کی مادرگرامی حمیدہ کو اپنا وصی مقرر کیا تھا _(۳)

امام صادق (ع) نے اپنے اس عمل سے اپنے فرزند موسی کو یقینی خطر ے سے نجات عطا کی _ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اگر موسی کاظم کی امامت و وصایت خلیفہ پر ثابت ہوگئی تو وہ ان کے قتل کے درپے ہوجائے _ چنانچہ امام کا خیال صحیح ثابت ہوا اور خلیفہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اگر امام صادق کا کوئی معین وصی ہے تو اسے قتل کردو_

دوسرے کیوں خبر دار نہ ہوئے ؟

فہیمی : اگر کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اور دوست و

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۲۲ اثبات الہداة ج ۷ ص ۷۸ اثبات الوصیہ ص ۱۹۸

۲_ اصول کافی باب الاشارہ و النص علی ابی الحسن موسی

۱۳۲

ہمسایوں کو اس کی اطلاع ضروری ہوتی ہے اور ولادت کے موضوع میںکوئی اختلاف نہیں ہوتا _ یہ بات کیونکر قبول کی جا سکتی ہے کہ امام حسن عسکری ، جو کہ شیعوں کے نزیدک معزز تھے ، کے یہاں بیٹا پیدا ہوا لیکن لوگ اسی سے اتنے ہی بے خبر رہے کہ اصل موضوع ہی میں شک و اختلاف میں پڑگئے :

ہوشیار: عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے لیکن معمول کے خلاف امام حسن عسکرے نے پہلے ہے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا ، بلکہ پیغمبر اور ائمہ اطہار کے زمانہ سے یہی مقدر تھا کہ امام مہدی کی ولادت کو مخفی رکھا جائے چنانچہ آپ (ع) کی خفیہ ولادت کو آپ کی علامت شمار کیا جاتا تھا مثلاً _

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا:

'' ہمارے قائم کی ولادت لوگوں سے پوشیدہ رہے گی ، یہاں تک کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ _ پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں ، اور یہ اس لئے ہے کہ جب آپ (ع) ظہور فرمائیں اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''(۱)

عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے امام محمد(ع) باقر کی خدمت میں عرض کی عراق میں آپ کے شیعہ بہت ہیں خدا کی قسم آپ جیسی حیثیت کسی کی نہیں ہے آپ خروج کیوں نہیں کرتے ؟ فرمایا:

'' عبداللہ تم فضول باتوں میں آگئے ہو خدا کی قسم میں صاحب الامر نہیں ہوں جس کا روایات میں ذکر ہے''_ میں نے عرض کی : صاحب الامر کون ہے ؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۱۳۳

فرمایا:

'' ایسے شخص کے انتظار میں زندگی بسر کرو جس کی ولادت مخفی رہے گی _ وہی تمہارا مولا ہے ''_(۱)

فہیمی : امام حسن عسکر ی (ع) نے اپنے بیٹے کو ولادت کو لوگوں سے اس لئے مخفی رکھا تا کہ لوگ شک و حیرت میں مبتلا رہیں اور گمراہ ہوجائیں ؟

ہوشیار : جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ، مہدی موعود کی داستان صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے پیش نظر رہی ہے _ پیغمبر (ص) کی جو احادیث اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور وہ تائیدیں جو ائمہ اطہار نے کیں ہیں وہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھیں _ بادشاہان وقت بھی ان سے بے خبر نہیں تھے _ انہوں نے بھی سنا تھا کہ مہدی موعود نسل فاطمہ (ع) اور اولاد حسین (ع) سے ہوگا، ظالموں کی حکومتوں کو برباد کرے گا اور مشرق و مغرب پراس کی حکومت ہوگی _ ظالموں کو تہ تیغ کرے گا _ اس لئے وہ مہدی موعود کی و لادت سے خوف زدہ تھے _ وہ اپنی سلطنت سے احتمال خطرہ کو دفع کرنا چاہتے تھے _ اسی وجہ سے وہ بنی ہاشم خصوصاً امام حسن عسکری (ع) کے گھر پر کڑی نظر رکھتے تھے اور خفیہ و ظاہری افراد کو تعینات رکھتے تھے _

معتمد عباسی نے چند قابلہ عورتوں کو مخفی طور پر اس کام پر معین کیا تھا وہ گاہ بگاہ بنی ہاشم خصوصاً امام حسن عسکری کے گھر جائیں اور حالات کی رپورٹ پیش کریں _ جب اس کو امام حسن عسکری کی بیماری کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے خاص افراد کو اس کام پر __

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴_

۱۳۴

مامور کیا کہ وہ رات دن امام کے گھر پر نظر رکھیں _ اور جب امام کی وفات کی خبر سنی تو ایک جماعت کو امام (ع) کے فرزند کو تلاش کرنے پر مامور کیا اور آپ کے گھر کی تلاشی کا حکم دیا _ اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ماہر دائیوں کو بھیجا تا کہ امام کی کنیزوں کا معائینہ کریں اور اگر ان میں سے کسی کو حاملہ پائیں تو اسی قید کرلیں _

ان عورتوں کو ایک کنیز پر شک ہوگیا ، انہوں نے اس کی رپورٹ دی خلیفہ نے کنیز کو ایک حجرے میں قید کردیا اور نحریر خادم کو اس کی نگرانی پر مامور کردیا اور جب تک اس کے حمل سے مایوس نہیں ہوا ، اس وقت تک آزاد نہیںکیا _ صرف امام حسن عسکری کی خانہ تلاشی پر اکتفا کی بلکہ جب دفن سے فارغ ہوا تو حکم دیا کہ شہر کے تمام گھروں کی تلاشی لی جائے _(۱)

اب تو اس بات کی تصدیق فرمائیں کہ ان خطرناک حالات میں امام حسن عسکری کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے بیٹے کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھیں تا کہ وہ دشمنوں کے شہر سے محفوظ رہیں _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار نے بھی ایسی حالات کے بارے میں خبر دی تھی ولادت کے مخفی رہنے والے موضوع کو وہ پہلے سے جانتے تھے _

پھر یہ عجیب و غریب داستان ایسی نہیں ہے کہ جس کا تاریخ میں سابقہ ہی نہ ہو _ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں _ مثلاً جب فرعون کو یہ خبر ہوئی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کی حکومت کو تباہ کرے گا تو فرعون نے خطرہ کو رفع

____________________

۱_ اصول کافی باب مولاابی الحسن بن علی ، ارشاد مفید ، اعلا م الوری طبرسی ، کشف الغمہ باب الامام الھادی عشر

۱۳۵

کرنے کیلئے کچھ جاسوس مقرر کئے کہ وہ حاملہ عورتوں پر نظر رکھیں اگر لڑکا پیدا ہوتو اسے قتل کردیں اور لڑکی ہو تو اسے قید خانے میں ڈال دیں _ چنانچہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے فرعون نے سیکڑویں معصوم بچوں کو قتل کرادیا _ لیکن ان مظالم کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا ، خدا نے موسی کے حمل اور ولادت کو پوشیدہ رکھا تا کہ اپنے ارادہ کو پورا کردے _

امام حسن عسکری نے خطرناک حالات کے باوجود لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے بعض معتمد اصحاب کو اپنا بیٹا دکھا بیٹا دکھا دیا تھا اور ثقہ افراد کو اپنے بیٹے کی ولادت کی خبر دی تھی لیکن اس بات کی بھی تاکید کی تھی کہ اس موضوع کو دشمنوں سے مخفی رکھنا یہاں تک ان کا نام بھی نہ لینا _

۱۳۶

صاحب الامر (عج) کی مادر گرامی

جلالی : صاحب الامر کی مادر گرامی کا کیا نام ہے ؟

ہوشیار: آپ کی مادرگرامی کے متعدد نام بیان کئے گئے ہیں ، جیسے : نرجس ، صیقل ، ریحانہ ، سوسن ، خمط ، حکیمہ ، مریم درج ذیل دو نکات پر توجہ فرمائیں تو مذکورہ اختلاف کا سبب معلوم ہوجائے گا _

الف : امام حسن عسکری (ع) کی مختلف نام کی متعدد کنیزیں تھیں _ کنیزوں کے تعدد والے موضوع کو حکیمہ خاتون نے دو موقعوں پر بیان کیا ہے _

ایک جگہ حکیمہ خاتون کہتی ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری کی خدمت میں پہنچی تو دیکھا آپ (ع) صحن میں تشریف فرماہیں اور کنیزیں آپ کے چاروں طرف جمع ہیں میں نے عرض کی _ میں آپ کے قربان آپ کے جانشین کس کنیز سے پیدا ہوں گے فرمایا : سوسن سے ''_(۱)

دوسری جگہ حکیمہ خاتون فرماتی ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر گئی تھی _ جب میں نے واپسی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا : ہمارے ہی گھر افطار کیجئے کیونکہ

____________________

۱_ بحار الانوار جلد ۵۱ ص ۱۷_

۱۳۷

آج کی رات خدا مجھے بیٹا عطا کرے گا _ میں نے عرض کی : کس کنیز سے ؟ فرمایا نرجس سے _ عرض کی مولا : میں بھی نرجس کو تمام کنیزوں سے زیادہ چاہتی ہوں _(۱)

ان دو حدیثوں اور دیگر احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں متعدد کنیزیں تھیں _

ب_ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکاہوں کہ فرزند حسن عسکری نے خطرناک اور وحشت ناک ماحول میں ولادت پائی ہے _ کیونکہ خلفائے بنی عباس بلکہ بعض بنی ہاشم نے بھی یہ احساس کرلیا تھا کہ مہدی یعنی ظالم و ستمگروں سے جہاد کرنے والے کی ولادت کا وقت قریب ہے _ اس لئے انہوں نے اپنے خفیہ اور آشکار کارندوں کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ امام حسن عسکری بلکہ تمام علویوں کے گھروں کی مکمل طور پر نگرانی رکھیں _ بنی عباس کی اس مشینری کی پوری کوشش یہ تھی کہ ان گھروں سے ایک نوزاد بچہ تلاش کرکے خلیفہ کی خدمت میں پیش کردے _

ان دو مقدموں کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہ مقدر ہوگیا تھا کہ ایسے خوفناک حالات اور ایسے مرکز توجہ گھر میں امام حسن عسکری (ع) کا بیٹا پیدا ہو اور اسکی جان خطرہ سے محفوظ رہے _ اس لئے تمام پیش بندیاں کی گئی تھیں _ اولاً جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے آپ کی والدہ میں حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے _ ثانیاً: امام حسن عسکری (ع) نے احتیاط کی رعایت کے تحت کسی کو ان کی مادر گرامی کا نام نہیں بتایا _ ثالثاً: ولادت کے وقت حکیمہ خاتون اور چند کنیزوں کے علاوہ کوئی گھر میں نہیں تھا جبکہ

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۲۵_

۱۳۸

وضع حمل کے وقت عام طور پر دائی اور چند عورتوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے _ کوئی نہیں جانتا تھا کہ امام حسن عسکری نے شادی کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو کس سے _

پندرہ شعبان کی شب میں نہایت خفیہ اور پنہاں، ترس و خوف کے ماحول میں امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا پیدا ہوا ، اس گھر میں جہاں متعدد کنیزیں موجود تھیں لیکن کسی میں بھی حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے اور وضع حمل کے وقت حکیمہ خاتون کے علاوہ وہاں کوئی اور موجود نہ تھا اور کوئی قضیہ کے اظہار کی جرائت نہیں رکھتا تھا _

ایک زمانہ تک یہ موضوع سربستہ راز و مخفی رہا بعد میں خاص اصحاب کے درمیان شروع ہوا بعض کہتے تھے خدا نے امام حسن عسکری کو ایک فرزند عطا کیا ہے اور بعض انکار کرتے تھے _ چونکہ کنیزیں یکساں تھیں کسی میں حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے اس لئے امام مہد ی کی مادر گرامی کے بارے میں اختلاف ناگزیر تھا ، بعض کہتے تھے ان کی والد صیقل ہیں _ بعض کہتے تھے سوسن ہیں اور بعض ریحانہ کو آپ کی والدہ قرار دیتے تھے اور کچھ ان کے علاوہ کسی اور کے قائل تھے _ حقیقت حال سے کوئی واقف نہ تھا اور جو معدود افراد واقف بھی تھے انھیں حقیقت بیان کرنے کی اجازت نہیں تھی _ یہاں تک کہ حکیمہ خاتون بھی، جو کہ آپ ولادت کی گواہ و شاہد تھیں ، احتیاط کی رعایت کی وجہ سے کبھی نرجس کو کبھی سوسن کو آپ کی والدہ بتاتی تھیں _

احمد بن ابراہیم کہتے ہیں : میں ۲۶۲ ھ میں حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پشت پردہ سے ان سے گفتگو کی اور ان کی نظریات معلوم کئے _ انہوں نے اپنے ائمہ کا تعارف کرایا او رآخر میں محمد بن حسن کا نام لیا _ میں نے پوچھا : آپ اس واقعہ کی خودگواہ ہیں یااخبار کی بناپر کہتی ہیں؟ فرمایا: امام حسن عسکری

۱۳۹

نے قضیہ لکھ کر اپنی مادر گرامی کے سپرد کردیا ہے _ میں نے عرض کی اس صورت میں شیعوں کو کس طرف رجوع کرنا چائے ؟فرمایا: امام حسن عسکری (ع) کی والدہ سے _ میں نے کہا : اس وصیت کی روسے ایک عورت کی پیروی ہوگی _ فرمایا : امام حسن عسکری (ع) نے اس وصیت میں اپنے جد امام حسین (ع) بن علی کی پیروی کی ہے کیونکہ آپ نے بھی کربلا میں اپنی بہن زینب (ع) کو اپنا وصی قراردیا تھا اور امام زین العابدین کے علوم کی جانب زینب (ع) کی طرف نسبت دی جاتی ہے _ امام حسین (ع) نے یہ کام اس لئے انجام دیا تھا تا کہ امام زین العابدین (ع) کی امامت کا مسئلہ مخفی رہے _ اس کے بعد حکیمہ نے فرمایا : تم تو اخباری ہو کیا تمہارے پیش نظریہ روایت نہیں ہے کہ حسین کے بیٹے کی میراث تقیسم ہوجائے گی جبکہ وہ زندہ ہے _(۱)

جیسا کہ آپ ملا حظ فرمار ہے ہیں کہ حکیمہ نے اس حدیث میں اور صریح جواب دینے سے احتراز کیا ہے اور بچہ کی داستان کی امام حسن عسکری کی والدہ کی طرف نسبت دی ہے یا وہ مخاطب سے ڈرتی اور ان سے حقیقت کو چھپا تی ہیںیا موضوع کو جان بوجھ کر مبہم رکھنا میں جبکہ یہی حکیمہ خاتون دوسری جگہ امام حسن عسکری کے نرجس سے نکاح کو تفضیل سے بیان کرتی ہیں اور مہدی کی ولادت کی داستان کو ، کہ جس کی خود گواہ تھیں ، تفصیل سے بیان کرتی ہیں _ اس کے بعد کہتی میں اب میں آپ کو مستقل طور پر د یکھتی ہوں اور گفتگو بھی کرتی ہوں ( ۲ ) خلاصہ ، صاحب الا مر کی والدہ کے بار ے میں جو اختلاف نظر آتا ہے وہ کوئی

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۷۸

۲ _ کمال الدین ج ۹۹ ص ۱۰۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455