آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181537 / ڈاؤنلوڈ: 5473
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کانام: آفتاب عدالت

مؤلف : آیت اللہ ابراہیم امینی

ترجمہ : نثار احمد زینپوری

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت : سید قلبی حسین رضوی کشمیری

سال طبع : ذی الحجة الحرام سہ ۱۴۱۵ ھ

تعداد : ۳۰۰۰

پریس کانام بہمن قم

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

اللهمّ کن لوليّک الحجة

بن الحسن صواتک علیه

و علی آبائه فی هذه الساعة و

فی کل ساعة ولیاً و حافظاً

و قاعداً و ناصراً و دلیلاً و عینا

حتی تسکنه ارضک طوعاً

و تمتعه فیها طویلاً

۴

پیش گفتار

زندہ اور غائب امام حضرت مہدی موعود کے وجود کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے جو کہ امامیہ مذہب کے ارکان میں شمار ہوتا ہے _ یہ عقیدہ متواتر اور قطعی الصدور احادیث سے ثابت ہوچکا ہے _ اس میں شک کی گنجائشے نہیں ہے _ لیکن اس سلسلے میں بہت سے مسائل تحقیق کے محتاج ہیں _ جیسے : طول عمر ، طولانی غیبت ، غیبت کی وجہ ، زمانہ غیبت میں امام زمانہ کے فوائد ، غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کے فرائض ، ظہور کی علا متیں ، حضرت مہدی کا عالمی انقلاب ، آپ(ع) کی کامیابی کی کیفیت ، حضرت مہدی کی فوج کا اسلحہ ، ان کے علاوہ اور دسیوں مسئلے ہیں ، کیونکہ مخالفین جوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ کے در میان کتابوں اور تقاریر کی صورت میں ان ہی باتوں کو اعتراضات کا نشانہ بنا تے ہیں _ ان کا جواب دینا ضروری ہے _ با وجودیکہ امام زمانہ روحی فداہ کے بارے میں بہت سی کتا بیں لکھی جا چکی ہیں مگر افسوس کہ لکھنے والے ان اعتراضات کی طرف متوجہ نہیں تھے _ لہذا ان کا جواب بھی نہیں دیا _ مؤلف ان اعتراضات سے واقف تھے چنانچہ ان کا جواب دینے کی غرض سے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تا کہ امام زمانہ(ع) سے متعلق ایسے صحیح مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کئے جائیں جو کہ ان کی ضرورت کو پو را کرسکیں خدا کی توفیق شامل حال ہوئی اور ۱۳۴۶ ق ش میں یہ کتاب طبع ہوکر شائفین کے ہاتھوں میں پہنچ گئی _ لیکن مؤلف ہمیشہ اس کی تکمیل کی فکر میں رہے اور ہیں _ چنانچہ ۱۳۴۷ ق ش میں نظر ثانی اور اضافات کے ساتھ دوسرے ایڈیشن طبع ہو کر شائفیں تک پہنچ گیا ، اس کے بعد

۵

اگر چہ آج تک یہ کتاب مستقل چھپتی رہی لیکن تجدید نظر کے لئے فرصت نہ مل سکی _ یہاں تک کہ اس زمانہ میں توفیق نصیب ہوئی اور نئے مطالب جمع ہوگئے _ لہذا نظر ثانی اور سودمند اضافات کے ساتھ شائقین کی خدمت میں حاضر ہے _ واضح رہے ہمیشہ کی طرح کتاب ہذا کی فائل کھلی رہے گی _ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحقیقات اور مشور وں سے نوازیں شکریہ

ابراھیم امینی قم _ مارچ ۱۹۹۵ئ

۶

مقدمہ

دنیا کے آشفتہ اور افسوس ناک حالات نے لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے ، اسلحہ کی دوڑ ، سردو گرم جنگ اور مشرق و مغرب کے درمیان صف آرائی اور وحشت ناک بحرانوں نے دنیا والوں کے دل و دماغ کو فرسودہ کردیا ہے _ جنگی اسلحہ کی پیدا وار اور بہتا ت، نسل آدم کو تہدید کررہی ہے ، عالمی دہشت گردوں اور خودسروں نے پسماندہ قوموں کو زندگی کے حق سے بھی محروم کردیا ہے ، پسماندہ طبقے کی روز افزوں محرومیت ، دنیا کے بیماروں اور بھوکے لوگوں کا استغاثہ و امداد طلبی اوربڑھتی ہوئی بیکاری نے حساس و زندہ دل و خیراندیش اشخاص کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے_ اخلاقی تنزل ،دینی امور سے بے پروائی ، احکام الہی سے روگردانی ، مادہ پرستی اور شہوت رانی میں افراط نے دنیا کے روشن خیال افراد کو مضطرب کردیا ہے _

یہ اور ایسے ہی سیکڑوں حالات نے عاقبت اندیشی اور بشر کے خیرخواہ و اصلاح طلب افراد کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور انسانیت کی تباہی و پستی کے اندیشے کی گھنٹیاں ان کے کانوں میں بج رہی ہیں_ وہ انسان کی مشکلیں حل کرنے اور عالمی بحران کو دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لئے ہر در پردستک دیتے ہیں لیکن جتنی کوششیں کرتے ہیں اتنی ہی مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں _ کبھی اس حد تک مایوس ہوجاتے ہیں کہ انسان کی اصلاح کی قابلیت ہی کا انکار کردیتے ہیں اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں بد ظن ہوجاتے ہیں اور اس کے بھیانک نتائج سے لرزہ بر اندام رہتے ہیں اور دنیائے انسانیت کی مشکلیں حل

۷

کرنے کے سلسلے میں عاجزی کا اظہار کرتے ہیں _ اس سے بڑھ کر ، کبھی غیظ و غضب کی شدت کی بناپر انسانیت کے ارتقاء کے بھی منکر ہوجاتے ہیں اور اس کے علم و صنعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ کبھی عام حالات میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ علم و صنعت کی کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ سرکش اور خودخواہ انسان اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور اصلاح کی بجائی اس سے فساد کی طرف لے جاتا ہے _

دنیا کا مستقبل شیعوں کی نظر میں

لیکن شیعوں نے یاس و ناامیدی کے دیو کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دیا ہے وہ انسان کی عاقبت اور سرنوشت کے بارے میں نیک توقع رکھتے ہیں _ دنیا کے نیک و شریف انسانوں کو کامیباب تصوّر کرتے ہیں _ وہ کہتے ہیں ( اس بات کو ثابت بھی کردیا ہے) کہ یہ مختلف قسم کے پروگرام اور بشر کے خود ساختہ دل فریب مسلک انسان کو بدبختی کے گرداب سے نہیں نکال سکتے اور عالمی خطرناک بحران کا علاج نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ صالح بشر کی کامیابی و سعادت کیلئے صرف اسلام کے متین و جامع قوانین ، جن کا سرچشمہ منبع وحی ہے ، کو کافی سمجتھے ہیں _

وہ ایک روشن مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہیں _ جس زمانہ میں انسان حد کمال کو پہنچ جائے گا اور دنیا کی حکومت کی زمام ایسے معصوم امام کے ہاتھ میں ہوگی جو کہ غلطی و اشتباہ اور خود غرضی و خودخواہی سے پاک ہوگا _ کلی طور پر شیعہ امیدوار بنانے والے عطیات کے حال ہیں ، انہوں نے اس تاریک زمانہ میں بھی اپنے ذہن میں حکومت الہی کا نقشہ بنا رکھا ہے اور اس کے انتظار میں زندگی گزاررہے ہیں اور اس عالمی انقلاب کیلئے

۸

تیارہیں _

انتظار فرج اور ظہور میں تاخیر کی وجہ

شیعوں کے دشمن جن چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک مہدی موعود پر ایمان اور انتظار فرج ہے _ وہ کہتے ہیں کہ : شیعوں کی پسماندگی کا ایک سبب مصلح غیبی پر ایمان رکھنا ہے _ اس عقیدہ نے شیعوں کو بے پروا اور کاہل بنادیا ہے ، اجتماعی کوشش سے بازر کھا ہے اور ان سے علمی ترقیات و فکری اصلاحات کی صلاحیت سلب کرلی ہے _ چنانچہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں ذلیل و رسوا ہیں اور اب اپنے امور کی اصلاح کیلئے امام مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں

ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم شیعہ اور مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب کی تحقیق کریں لیکن اجمالی طور پر یہ بات مسلّم ہے کہ اسلام کے احکام و عقائد مسلمانوں کے انحطاط و پستی کا باعث نہیں بنے ہیں بلکہ خارجی اسباب و علل نے دنیائے اسلام کو پستی میں ڈھکیلا ہے ، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آسمانی مذاہب میں سے اسلام سے زیادہ کسی نے بھی ملت کی ترقی و عظمت اور اس کے اجتماعی امور کی تاکید نہیں کی ہے _ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے ظلم و فساد سے جنگ اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیا ہے اور اجتماعی و سماجی اصلاحات ، عدل پرستی اور امر بالمعروف کو دین کے واجبات میں شامل کیا ہے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ سارے مسلمانوں پر واجب ہیں تا کہ ایک گروہ خود آمادہ کرے _

''تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو خبرکی دعوت دے ، نیکیوں کاحکم دے برائیوں سے منع کرے اور ایسے ہی لوگ

۹

نجات یافتہ ہیں ''_(۱)

بلکہ ان دو فریضوں کو مسلمانوں کے افتخارات میں شمار کرتا ہے اور فرماتا ہے :

'' تم دنیا میں بہترین امت ہو کیونکہ تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو''(۲)

پیغمبر (ص) مسلمانوں کے امور کی اصلاح کی کوشش کو اسلام کا رکن اور مسلمان ہونے کی علامت قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' جو بھی دنیائے اسلام کی طرف سے بے پروائی کرے ، کوشش نہ کرے ، اہمیت نہ دے ، وہ مسلمان نہیں ہے '' _

قرآن مجید دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو مسلح اور تیار رہنے کا حکم دیتا ہے : ''جہاں تک ہوسکے دشمنوں کے مقابلہ میں خود کو مسلح و آمادہ کرو اور انھیں دہشت زدہ کرنے کیلئے جنگی توانائی کو مضبوط بناؤ''(۳)

اب ہم آپ ہی سے پوچھتے ہیں : ان آیتوں اور اس سلسلے میں وارد ہونے والی سیکڑوں احادیث کے باوجود اسلام نے مسلمانوں سے یہ کب کہا ہے کہ وہ دنیا کی علمی ترقی و صنعت سے آنکھیں بند رکھیں اور اسلام کیلئے جو خطرات ہیں انھیں اہمیت نہ دیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی حمایت کیلئے ظہور امام مہدی (ع) کے منتظر رہیں؟ اور دنیائے اسلام پر ہونے والے حملوں کے سلسلے میں خاموش رہیں اور ایک مختصر جملہ _ '' اے اللہ: ظہور مہدی میں تعجیل فرما'' کہکر میدان چھوڑدیں

ہم نے اپنی کتاب میں یہ بات تحریر کی ہے کہ انتظار فرج بجائے خود کامیابی کا راز ہے _ چنانچہ جب کسی قوم و ملت کے دل میں چراغ امید خاموش ہوجاتا ہے اور یاس

____________________

۱_ آل عمران / ۱۰۴

۲_ آل عمران /۱۱۰

۳_ انفال / ۶۰

۱۰

و ناامیدی کا دیواس کے خانہ دل میں جایگزیں ہوجاتا ہے توہ کبھی کامیابی و سعادت کا منھ نہیں دیکھ سکتی ہے جو لوگ اپنی کامیابی کے انتظار میں ہیں انھیں اپنے آخری سانس تک کوشاں رہنا چاہئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہئے اور مقصد سے بہرہ مند ہونے کیلئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے _

امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے کہ : '' ضرور آل محمد (ص) کی حکومت قائم ہوگی لہذا جو شخص امام زمانہ کے انصار میں شامل ہوناچاہتا ہے اسے بھر پور طریقہ سے متقی و پرہیزگار بننا اور نیک اخلاق سے آراستہ ہونا چاہئے اور اس کے بعد قائم آل محمد (ص) کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے _ جو بھی اس طرح ہمارے قائم کے ظہور کا انتظار کرے اور اس کی حیات میں مہدی (ع) کا ظہور نہ ہو بلکہ ظہور سے قبل ہی مرجائے تو اسے زمانہ کے انصار کے برابر اجر و ثواب ملے گا'' _ اس کے بعد آپ نے فرمایا:'' کوشش و جانفشانی سے کام لو اور کامیابی کے منتظر رہو ، اس معاشرہ کو کامیابی مبارک ہو جس پر خدا کی عنایات ہیں ''_(۱)

اسلام نے مسلمانوں کی تیاری کو بہت اہمیت دی ہے، اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام صادق نے فرمایا:'' ظہور قائم کے لئے تم خود کو تیار رکھو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرنے کے برابر ہو '' _(۲)

خدا نے مقرر کردیا کہ دنیا کے پراگندہ امور کی مسلمانوں کے ذریعہ اصلاح ہو اور ظلم و ستم کا جنازہ نکل جائے اور کفر و الحاد کی جڑیں کٹ جائیں ، پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائے کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا اس میں شک نہیں کرستا کہ ایسا

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۱۱

عالمی انقلاب مقدمات اور وسائل کی فراہمی کی بغیر ممکن نہیں ہے _

قرآن مجید نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روئے زمین پرحکومت کیلئے شائستگی ضروری ہے _ خداوند عالم کا ارشاد ہے :'' ہم نے لکھدیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے ''(۱) مذکورہ مطالب کے پیش نظر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس انقلاب کا علم بردار مسلمانوں کو ہونا چاہئے وہ اس کے مقدمات و اسباب فراہم نہ کریں اور اس سلسلے میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ؟ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم کرے گا _

ایک پیغام

غیرت دار مسلمانو غفلت کا زمانہ ختم ہوچکا ہے ، خواب غفلت سے اٹھو اختلافات سے چشم پوشی کرلو ، پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجاؤ ، اپنی زمام مشرق و مغرب کے ہاتھ میں نہ دو ، ہرجگہ تہذیب و تمدن انسانیت کے طلایہ دار بن جاؤ_ اپنی عظمت و استقلال اور تہذیب و تمدن کے محل کو اسلام کے محکم پایوں پر استوار کرو _ روح قرآن سے الہام حاصل کرو ، اسلام کی عزّت و سربلندی کی راہ پر چل کھڑے ہو ، مشرق و مغرب کے غلط اورزہریلے افکار کو لگام چڑھادو بشری تمدن کے قافلے کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لو ، اپنی عظمت و حریت حاصل کرو ، جہالت و نادانی اورفکری جمود و خرافات سے جنگ کرو _ جوانو اسلام کے حقائق سے واقفیت پیدا کرو تا کہ استعماری دیو تم سے مایوس ہوجائے اور تمہارے مرزوبوم (سرزمین) سے فرار کرجائے _

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۱۲

پیارے مسلمانو عزت و اقتدار شائستہ اور صالح لوگوں سے مخصوص ہے ، تم نے اپنی شائستگی کو ثابت کردیا ہے _ قرآن کے اجتماعی ، اقتصادی اور اخلاقی علوم کے گراں بہا منابع کو حاصل کرو ، دنیا والوں کے سامنے اسلام کے تئیں اصلاحی پروگرام کو پیش کرو اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردو کہ اسلام صرف عبادت گا ہوں میں گوشہ نشینی کی تلقین نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بشر کی ترقی و سرفرازی کے اسباب فراہم کرتا ہے _ تم دنیا کے خیر اندیش افراد کی امید بندھا دو اور اس مقدس جہاد میں انھیں بھی مدد کرنے کی دعوت دو اور دنیائے انسانیت کے قافلہ تمدن و خیرخواہی کی قیادت کرو _

اے جوانان اسلام اس مقدس جہاد اور انسانیت کے عظیم مقصد و ذمہ داری کو پورا کرنے میں تمہارا بہت بڑا حصہ ہے _ تمہیں عظمت اسلام، مسلمانوں کی ترقی اور امام زمانہ (عج) کے مقصد کی تکمیل میں بھرپور طریقہ سے کوشش کرنا چاہئے _ تمہیں آفتاب عدالت حضرت مہدی (ع) کے اصحاب میں شامل ہونا چاہئے کہ جن کے بارے میں امیر المؤمنین(ع) فرمایا ہے:'' مہدی موعود کے سارے اصحاب وانصار جوان ہوں گے ، ان میں بوڑھے کمیاب ہوں گے '' _(۱)

و من اللہ التوفیق

ابراہیم امینی

حوزہ علمیہ قم _ ایران

فروردین ۱۳۷۴ (مارچ ۱۹۹۵ء)

____________________

۱بحارالانوارج۵۲ص۳۳۳

۱۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں نے ایک انٹر کالج میں منعقد ہونے والی محفل میں شرکت کی _ یہ باشکوہ محفل ۱۵ / شعبان کو امام زمانہ کی ولادت کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی _ بڑی ہی آراستہ و پیراستہ محفل تھی ، اس میں ہر طبقے کے لوگ شریک تھے جبکہ اکثریت تعلیم یافتہ اور جوانوں کی تھی ، اس کا نظم و نسق اس کالج کی انجمن اسلامی کے ہاتھ میں تھا_

پروگرام کا آغاز ایک کمسن بچے نے کلام پاک کی تلاوت سے کیا _ اس کے بعد دوسرا طالب علم نے امام زمانہ کے بارے میں اشعار پڑھے، پھر ایک طالب علم کالکھا ہوا بہت ہی دلچسپ مقالہ پڑھاگیا _ پروگرام کے اختتام پر مذکورہ کالج کے پرنسپل جناب ہوشیار صاحب نے امام زمانہ (ع) کے سلسلے میں بصیرت افروز تقریر کی _ اور بعد از آں شیرینی و غیرہ سے ضیافت کی گئی _ مذکورہ پروگرام سے سب ہی متاثر تھے لیکن میں اں سب سے زیادہ متاثر تھا _ میں آرائشے اور مہمان نوازی کے وسائل سے متاثر نہیں ہواتھا_ بلکہ میں ان جوانوں کی پاکیزہ روح سے متاثر ہوا تھا جو کہ دین و دانش کے جمع کرنے کے ساتھ حقائق و معارف کی اشاعت ، اور عمومی اذہان و افکار کوروشن کرنے میں بے پناہ کوشش کررہے تھے _ ملّت کے نونہالوں کی روح پاکیزگی ، بلند ہمتی اور صفائے قلب محفل کے درودیوارسے عیاں تھی وہ ذوق و شوق اور گرم جوشی سے شرکت کرنے والوں کا استقبال و مدارات کررہے تھے_

ان روشن فکر اور حوصلہ مند جوانوں نے مجھے مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے بارے میں مطمئن کردیا _ میں نے ان کے دوش پر قوم کی تہذیب و ترقی کا پرچم دیکھا تو میری آنکھوں میں

۱۴

خوشی کے آنسو ڈبڈبانے لگے اور اس کالج کی انجمن اسلامی اور طلبہ کی کمیٹی اور ان کی بلند ہمتی کو میں نے دل کی گہرائی سے سراہا اور خداوند عالم سے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی _

اسی اثناء میں انجینئر مدنی صاحب نے _ جو کہ جناب ہوشیار صاحب کے پاس بیٹھے تھے _ کہا:'' کیا آپ لوگ واقعاً امام غائب پر عقیدہ رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے عقیدہ کی بنیاد تحقیق پر استوار ہیں یا تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں؟

ہوشیار: میرا ایمان اندھی تقلید کی بناپر نہیں ہے _ میں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد یہ عقیدہ قبول کیا ہے ، پھر بھی اس عقیدہ پر نظر ثانی اور تحقیق کیلئے تیارہوں _

انجینئر: چونکہ امام زمانہ (عج) کا موضوع میرے لئے بخوبی واضح نہیں ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں ، میں خود کو مطمئن نہیں کر سکا ہوں، اس لئے آپ سے بحث و تبادلہ خیال کے ذریعہ آپ کے مطالعہ سے مستفید ہونا چاہتاہوں _

ڈاکٹر امامی اور فہیمی : اگر ایسی کوئی نشست کا اہتمام ہوا تو ہم بھی اس میں شرکت کریں گے _

ہوشیار: جو وقت بھی آپ لوگ مقرر کریں میں حاضر ہوں _

آخر کار مناظرہ کے لئے ہفتہ کی شب کا تعین ہوااور اسی پر جشن ختم ہوگیا ، ہفتہ کی شب میں انجینئر صاحب کے گھر پر مجلس مناظرہ منعفد ہوئی رسمی چائے و غیرہ کے بعد ۸ بجے مناظرہ کی کاروائی شروع کرنے کا اعلان ہوا _

۱۵

عقیدہ مہدویت کا آغاز

ڈاکٹر: اسلامی معاشرہ میں عقیدہ مہدی کب داخل ہوا؟ کیا پیغمبراسلام کے زمانہ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے یا اس عقیدہ نے آپکی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان شہرت پائی ہے ؟ بعض صاحبان قلم نے لکھا ہے کہ : صدر اسلام میں اس عقیدہ کا کہیں نام و نشان نہیں تھا _

ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو مہدی کہتی ہے اور ان کے ذریعہ اسلام کے ارتقاء کی خوش خبری سنائی اور جب ان کاانتقال ہوگیا تو کہا: وہ مرے نہیں ہیں بلکہ رضوی نامی پہاڑ میں چلے گئے اور ایک دن ظہور کریں گے _

ہوشیار: عقیدہ مہدی صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا اور پیغمبر اسلام (ص) نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار مہدی کے وجود کی خبر دی اور کبھی تو امام مہدی کی حکومت اور ان کے اسم و کنیت کو بھی بیان کرتے تھے _

اس سلسلے میں آپ (ص) نے جو احادیث بیان فرمائی ہیں وہ شیعہ و سنی طریقوں سے ہم تک پہنچی ہیں ، اور توا تر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں ، ان میں سے چند نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :

عبداللہ بن مسعود نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: '' اس وقت تک دنیا کا خاتمہ نہ ہوگا جب تک میرے اہل بیت سے مہدی نام کا ایک شخص لوگوں

۱۶

پر حکومت نہیں کرے گا ''_(۱)

ابوالجحاف نے بیان کیا ہے کہ رسول خدا نے تین مرتبہ فرمایا: '' میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں _ جب لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا اور سخت مشکلوں میں گھرے ہوں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اس وقت ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اپنے پیروکاروں کے دلوں کو عبادت اور عدل گستری کے جذبہ سے بھردیں گے '' ( ۲)_

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے :'' اس وقت تک قیامت بر پا نہ ہوگی جب تک ہمارا برحق قائم قیام نہ کرے گا _ جب خدا حکم دے گا تو ظہور کرے گا _ جو شخص ان کی پیروی کرے گا ، نجات پائے گا اور جوروگردانی کرے گا ، وہ ہلاک ہوجائے گا _ خدا کے بندو خدا پر نظر رکھوجب بھی مہدی (عج) کا ظہور ہو تو فوراً ان کی طرف دوڑو اگر تمہیں برف کے اوپر ہی سے چل کرجانا پڑے کیونکہ وہ خلیفة اللہ ہیں ''(۳)

آپ (ص) ہی نے فرمایاہے :'' جو میرے بیٹے قائم کا انکار کرے گویا اس نے میرا انکار کیا ہے ''(۴) نیز فرمایا :'' دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حسین (ع) کی اولاد میں سے ایک شخص میری امت کا حاکم نہ ہوگا جو کہ دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی''(۵)

____________________

۱_ بحار الانوار طبع اسلامیہ سنہ ۱۳۸۴ ھ ج ۵۱ ص ۷۵ _ اثبات الہداة ط ۱ ج ۷ ص ۹ _

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۷۴_

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۵ و اثبات الہداة ج ۶ ص ۲۸۲_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۷۳_

۵_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۶۶_

۱۷

مہدی (ص) عترت نبی (ص) سے ہیں

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں بلکہ ان میں سے اکثر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت امام مہدی اور قائم کا موضوع زمانہ رسول (ص) میں ایک مسلم عقیدہ تھا اور آپ (ص) مسلمانوں کے سامنے کسی نئی خبر کے عنوان سے پیش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے آثار و علامتیںبیان کرتے تھے اور فرماتے تھے:'' مہدی اور قائم میری عترت سے ہوگا '' _

حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں :'' میں نے رسول (ص) خدا کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی موعود ہم میں سے ہوگا یا ہمارے غیرمیں سے ؟ فرمایا : ہم میں سے ہوگا _ ان ہی کے ذریعہ خدا دین کو تمام کرے گا جیسا کہ اس کی ابتداء میرے ہاتھ سے ہوئی ہے ، اور ہمارے ذریعہ لوگ فتنوں سے نجات پائیں گے جیسا کہ ہمارے ہی وسیلہ سے شرک سے نجات پائی ہے ہمارے طفیل میں خدا انکے دلوں سے پرانی کدور تین ختم کرے گا جیسا کہ اس نے شرک و بت پرستی کے زمانہ کی دشمنی کے بعد دین میں انھیں باہم مہربان بنادیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئی ہیں '' _(۱)

ابو سعید خدری کہتے ہیں :'' میں نے سنا کہ رسول(ص) نے بالائے منبر سے فرمایا : مہدی موعود میرے اہل بیت سے ہوگا ، آخری زمانہ میں ظہور کرے گا ، آسمان ان کے لئے بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی ، وہ زمین کو ایسے ہی عدل و انصاف سے پرکریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) خدا سے سنا کہ آپ (ص) نے فرمایا: '' مہدی میری عترت اور

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۸۴و اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۹۱ و مجمع الزوائد تالیف علی بن ابی بکر ہیثمی ط قاہرہ ج ۷ ص ۱۳۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۷۴و اثبات الہداة ج ۷ ص ۹_

۱۸

اولاد فاطمہ (ع) سے ہوگا ''_ (۱)

رسول خدا (ص) نے فرمایا :'' قائم میری ذریت سے ہوگا، اس کا نام میرا نام ، اس کی کنیت میری کنیت اور اس کی عادت میری عادت ہے _ وہ لوگوں کو میرے دین و مذہب اور کتاب خدا کی طرف بلائے گا_ جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی_ جس نے س کی غیبت کے زمانہ میں اس کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا جس نے اس کی تکذیت کی اس نے میرے تکذیب کی ، جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی _ او رمیں اسکی تکذیب کرنے والے اور اس کے بارے میں اپنی حدیث کے انکار کرنے والے اور امت کو گمراہ کرنے والے کی خدا سے شکایت کروں گا _ ظالم عنقریب اپنے لئے کا نتیجہ دیکھ لیں گے ''(۲)

ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول (ص) خدا کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا : '' میں پیغمبروں کا سردار ہوں اور علی (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے دو بیٹے بہترین بیٹے ہیں _ ہمارے معصوم ائمہ حسین (ع) کی اولاد سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا'' یہ سن کر ایک صحرا نشین شخص اٹھا اور عرض کی :'' اے اللہ کے رسول (ص) آپ (ع) کے بعد کتنے امام ہوں گے ؟ فرمایا: ''جتنے عیسی کے حواری ، بنی اسرائیل کے نقباء اور اسباط تھے''(۳)

حذیفہ نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) خدا نے فرمایا :'' میرے بعد اتنے ہی امام ہوں گے جتنے بنی اسرائیل کے نقباء تھے_ ان میں سے نو حسین کی نسل سے ہوں گے او راس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا _ آگاہ ہوجاؤ وہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے _ دیکھو

____________________

۱_ بحار ج ۵۱ ص ۷۵_

۲_ بحار ج ۵۱ ص ۷۳_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۵۱_

۱۹

میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کروگے ''_ (۱)

سعید بن مسیب نے عمر اور عثمان بن عفان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:'' ہم نے رسول (ص) خدا سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہوں گے _ ان میں سے نو حسین (ع) کی اولاد میں سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا _ میرے بعد جو بھی ان سے تمسک کرے وہ یقینا خدا کی مضبوط رسی کو تھام لے گا او رجو انھیں چھوڑ دے گا وہ خدا کو چھوڑ دے گا ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۳۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۲۶_

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455