آفتاب عدالت

آفتاب عدالت17%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181619 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۶

كتب سماوي: كتب سماوى سے منہ پھرنا ۱۴; كتب سماوى كا ضرورى وابستگى ہونا۱۳; كتب سماوى كو قبول كرنے ميں تجزى بعض تعليمات كے قبول اور بعض كے رد; كا قائل ہونا ۱۴; كتب سماوى كى تعليمات ۱۳

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۲ )

اوران باتوں كااتباع شروع كرديا جو شياطين سليمان كيسلطنت ميں جپا كرتے تھے حالانكہ سليمانكافر نہيں تھے _ كافر يہ شياطين تھے جولوگوں كوجادو كى تعليم ديتے تھے اور پھرجو كچھ دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابلميں نازل ہوا ہے _وہ اس كى بھى تعليم اسوقت تك نہيں ديتے تھے جب تك يہ كہہ نہيں ديتے تھے كہ ہم ذريعہ امتحان ميں خبردارتم كافر نہ ہو جاناليكن وہ لوگان سے وہباتيں سيكھتے جس سے مياں بيوى كے درميانجھگڑا كراديں حالانكہ اذن خدا كے بغير وہكسى كو نقصان نہيں پہنچا سكتے _ يہ ان سےوہ سب كچھ سيكھتے جو ان كے لئے مضر تھااور اس كا كوئي فائدہ نہيں تھا يہ خوبجانتے تھے كہ جو بھى ان چيزوں كو خريدےگا اس كا آخرت ميں كوئي حصہ نہ ہوگا _انھوں نے اپنے نفس كا بہت برا سودا كياہے اگر يہ كچھ جانتے اور سمجھتے ہوں (۱۰۲)

۱_ حضرت سليمانعليه‌السلام ايك ايسے پيامبر ہيں جن كے پاس حكومت و سلطنت تھي_على ملك سليمان

۲ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت لگائي _و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا

'' ما كفر سليمان _ سليمان نے كفر اختيار نہ كيا '' اس سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنا ہے _ ان جملوں ''و لكن الشياطين ...'' اور ''ما تتلوا الشياطين '' سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت شياطين كى طرف سے تھى جو مشہور ہوگئي_

۳۴۱

۳ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے كے لوگوں كو جادوگرى كے علوم سكھائے اور لوگوں كے لئے جادو كو پڑھ كر بيان كرتے_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

'' تتلوا'' كا مصدر تلاوت ہے جس كا معنى پڑھنا اور قرا ت كرناہے آيت كے ما بعد كے مضمون كى روشنى ميں '' ما'' موصولہ سے مراد جادو اور اس طرح كى چيز ہے _'' تتلوا'' كا متعلق ''على الناس'' ہے اور اس كى دليل ''يعلمون الناس'' يعنى يہودى اس جادو كے پيروكار تھے جو شياطين لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے_

۴ _ شياطين حضرت سليمانعليه‌السلام اور انكى الہى حكومت كے مخالف تھے _ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

''على ملك سليمان _ سليمان كى حكومت كے مخالف '' يہ ''تتلوا'' كے مفعول محذوف كے لئے حال ہے يعنى جو جادو لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى سلطنت كے خلاف تھا_

۵ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كو سلطنت ملنا شياطين كى نظر ميں يہ سحر اور جادو كا كمال تھا_على ملك سليمان و ما كفر سليمان

شياطين جو جادو كے علم كى تحريريں لوگوں كے لئے حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت كے برخلاف پڑھتے تھے اس چيز كے بيان كے بعد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنااس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ شياطين يہ ظاہر كرتے تھے كہ جو كچھ بيان كرتے يا تلاوت كرتے ہيں يہ وہى كچھ ہے جس نے سليمان (عليہ السلام) كو سلطنت تك پہنچايا ہے اس طرح وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت كى نفى كے درپے تھے_

۶ _ حضرت سليمانعليه‌السلام جادوگرى اور كفر كى طرف رجحانات سے منزہ و مبرا تھے_و ما كفر سليمان

۷ _ جادو كا استعمال گناہ كبيرہ اور كفر كے برابر ہے_و ما كفر سليمان

يہ بات گزرچكى ہے كہ اس جملہ سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرناہے ليكن يہ جو جادوگرى كو كفر اختيار كرنے سے تعبير كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جادوگرى بھى ايك طرح كا كفر ہے يا پھر ايسا گناہ ہے جو كفر كے برابر ہے_

۳۴۲

۸_ الہى حكومت كى مخالفت اور اس كے خلاف سرگرم عمل ہونا حرام ہے _واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

۹ _ جادو كى تعليم دينے كے ذريعے شياطين كا كفر اختيار كرنا_و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر

۱۰_ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں جادو رائج تھا_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

۱۱ _ بعض يہوديوں نے شياطين كى طرف سے سكھائے گئے جادو كى طرف رغبت پيدا كى اور انہوں نے جادو سيكھنا شروع كيا _واتبعوا ما تتلوا الشياطين

'' اتبعوا'' كى ضمير '' فريق من الذين اوتوا الكتاب'' كى طرف لوٹتى ہے _

۱۲ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى شياطين كے جادو كى پيروى كرتے ہوئے آپعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سرگرم عمل رہے _ *واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ'' اتبعوا'' كا فاعل حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى ہوں _

۱۳ _ پيامبر اسلام (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كے لئے يہودى تورات كى بشارتوں كا انكار كرنے كے علاوہ سحر اور جادو سے بھى مدد ليتے تھے_

نبذ فريق كتاب الله وراء ظهورهم و اتبعوا ما تتلوا الشياطين

آيہ ما قبل ميں جملہ '' نبذ فريق'' ، '' لما جاء ہم'' كے بعد اس مطلب كو پہنچاتاہے كہ يہوديوں نے آنحضرت (ص) كے بارے ميں تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كيا تا كہ حضور (ص) كى رسالت كا انكار كريں _ جملہ''اتبعوا ...'' كا ''نبذ فريق'' پر عطف بھى اسى معنى پر دلالت كرتاہے كہ جادو كے پيچھے جانا بھى اسى مقصد كے لئے تھا_

۱۴ _ ہاروت و ماروت وہ فرشتے ہيں جو سرزمين بابل پر ساكن ہيں _و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ببابل '' محذوف سے متعلق اور ''الملكين'' كے لئے حال ہے يعنى '' الملكين كا ئنين ببابل'' بہت سے مفسرين نے كہا ہے كہ بابل عراق كا ايك شہر ہے جو دريائے فرات كے كنارے اور حلہ كے قريب واقع ہے _

۱۵_ ہاروت و ماروت نے بابل كے لوگوں كو جادو سكھايا_و ما انزل على الملكين و ما يعلمان من احد

۱۶ _ ہاروت و ماروت نے جادو كا علم اللہ تعالى سے حاصل كيا *و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

۳۴۳

۱۷ _ يہوديوں نے ہاروت اور ماروت كى تعليمات كو ليتے ہوئے پيامبرعليه‌السلام كےخلاف صف آرائي كى _

اتبعوا ما تتلوا و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ما انزل '' ، '' ما تتلوا ...'' پر عطف ہے يعنى :اتبعوا ما تتلوا الشياطين و اتبعوا ما انزل على الملكين _

۱۸ _ ہاروت اور ماروت اپنى تعليمات ( جادو كا سكھانا ) كو لوگوں كے لئے آزمائش سمجھتے تھے اور لوگوں كو متنبہ كرتے تھے_و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنه

۱۹_ ہاروت اور ماروت نے لوگوں كو جادو كى تعليم دينے سے پہلے اسكے غير صحيح استعمال اور سوء استفادہ سے منع كيا _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۰_ جادو كا استعمال اور اس سے سوء استفادہ انسان كو دائرہ كفر كى طرف لے جاتاہے_انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۱ _ غير آشنا علوم كى تعليم دينے والوں كو چاہيئے كہ ان علوم كے سيكھنے والوں كو ان كے نقصانات سے آگاہ اور اسكے سوء استفادہ سے روكيں _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۲ _ شاگردوں كو علوم كى تعليم ديتے وقت ان ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۳ _ اعمال كے نيك اور ناپسنديدہ ہونے ميں ہدف اور نيت كى اہميت _و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

دو فرشتوں (ہاروت ، ماروت) كے برخلاف شياطينكو جادو سكھانے كى وجہ سے كافر كہا گيا كيونكہ شياطين كے جادو سكھانے كا مقصد فساد و تباہى پھيلانا تھا جبكہ دو فرشتوں كا ہدف اور محرك فساد كو روكنا تھا_

۲۴ _ سرزمين بابل كے لوگوں نے ہاروت اور ماروت سے جادو سيكھاتا كہ اسكے ذريعے مياں بيوى ميں جدائي ڈاليں _

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۵ _ جادو كے علم كو رائج كرنے ميں بابل كے عوام كا كردار اور اہميت_

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۶ _ جادو كى تاثير اور اسكا نقصان پہنچانا اذن خدا سے ممكن ہے _

۳۴۴

و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۷ _ عالم ہستى ميں كوئي بھى كام يا تحرك اللہ تعالى كے اختيار اور ارادہ كے بغير ممكن نہيں ہے _

ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۸_ مياں بيوى ميں جادو كے ذريعے جدائي ڈالنا يہ گناہ كفر كے برابر ہے _

انما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۹_ مسحور شدہ انسانوں كى روح اور افكار پر جادو كا اثر _يفرقون به بين المرء و زوجه

۳۰_ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنے كا نقصان خود انہى لوگوں كے ليئے ہے _ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۱ _ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنا ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے_ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۲ _ سرزمين بابل كے عوام نے ہاروت اور ماروت سے ايسے جادو، ٹونے سيكھے جنكا نتيجہ ان كے لئے نقصان كے علاوہ كچھ نہ تھا_يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۳ _ بعض جادو نقصان دہ اور بعض فائدہ مند ہيں _يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۴_ لوگوں كو نقصان پہنچانے كے لئے جادو كے اعمال بجالانا يا فساد و بربادى پھيلانے كے لئے جادو سيكھنا حرام ہے اور اسكا گناہ كفر كے برابر ہے _فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زو جه و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۵ _ نقصان دہ اور بے فائدہ علوم سيكھنا حرام ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۶ _ لوگوں كو فائدہ پہنچانے كے لئے جادو كا علم سيكھنا جائز ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۷_ فرشتوں كا جسمانى حالت ميں آنا اس طرح كہ لوگ ان كا مشاہدہ كرسكيں ممكن ہے _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

۳۸_ فرشتے لوگوں ميں حاضر ہو كر ان كو تعليم دے سكتے ہيں _و ما يعلمان من احدحتى يقولا فيتعلمون منهما و يتعلمون ما يضرهم

۳۹_ شياطين ( جنّ) جسم بننے اور ديكھے جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں *يعلمون الناس السحر

۳۴۵

۴۰_ جو لوگ جادو كو ناچيز فائدہ اٹھانے اور نقصان پہنچانے كے لئے سيكھتے ہيں آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

'' اشتراہ'' كى مفعولى ضمير '' ما يضرہم و لا ينفعہم'' كى طرف لوٹتى ہے جس كا مطلب نقصان دہ جادو ہيں _

۴۱ _ يہوديوں نے اس بات كے جاننے كے باوجود كہ جادو سيكھنے سے وہ آخرت كى تمام نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے ، جادو سيكھا _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

''خلاق'' كا معنى بہت زيادہ منافع اور اچھا حصہہے ''خلاق'' كو نكرہ استعمال كرنا اور اس كے ساتھ '' من'' زائدہ كا استعمال قلت پر دلالت كرتاہے _ ظاہراً ''علموا'' كى ضمير يہوديوں كى طرف لوٹتى ہے_

۴۲ _ عالم آخرت نيكيوں اور نعمتوں سے پرُ ہے _و ما له فى الاخرة من خلاق

۴۳ _ يہوديوں نے نقصان دہ جادو سيكھ كر خود كو تباہ كيا اور بہت بُرى قيمت وصول كى _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۴ _ انسان كى جان كے مقابل بہت ہى قابل قدر قيمت صرف آخرت كى نعمتوں كا حصول ہے_

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

جملہ '' لقد علموا ...'' كو جملہ ''لبئس ...'' كے ساتھ ملانے سے يہ معنى نكلتاہے كہ انسان اگر آخرت كو كھودينے كى قيمت دنياوى منافع كا حصول قرار دے تو اس نے خود كو بہت ہى برُى قيمت پر بيچا ہے اور خود كو تباہ كرلياہے پس فقط جو چيز انسان كو زياں كار ہونے سے بچا سكتى ہے وہ آخرت كا حصول ہے_

۴۵ _ آخرت كى نعمتوں سے محروميت كے باعث انسان تباہ ہوجاتاہے _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۶ _ يہودى اپنے نقصان دہ سودے (آخرت كو كھوكر جادو كے فوائد كا حصول ) سے ناآگاہ ہيں _

لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

'' دنياوى مفادات كے مقابل آخرت كى نعمتوں كو بيچنا'' يہ '' يعلمون'' كے لئے ماقبل والے جملہ كى روشنى ميں مفعول ہے _ يعنى اے كاش جانتے ہوتے كہ يہ لين دين ان كے لئے نقصان دہ ہے اور بے سود_

۴۷_ آخرت كو كھودينے كے مقابل دنياوى مفادات كا حصول نقصان دہ سودا ہے _لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۸ _ جادوگر يہوديوں كى نظر ميں اخروى منافع پر دنياوى مفادات ترجيح ركھتے ہيں _

۳۴۶

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

اگر كوئي جانتاہو كہ ناجائز منافع اور مفادات كا حصول آخرت كو كھودينے سے ہوتاہے ( لقد علموا ...) ليكن اس كے باوجود اس لين دين كے نقصان دہ ہونے پر عقيدہ نہ ركھتاہو (لوكانوا يعلمون) تو معلوم ہوتاہے كہ يہ شخص دنياوى مفادات كو آخرت پر ترجيح ديتاہے_

۴۹_ جادوگر يہودى باوجود اس كے كہ انہيں عالم آخرت سے محروم ہونے كا اطمينان تھا اپنى اسى محروميت كا انكار كرتے تھے_لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

جملے كو لام قسم '' لقد'' اور لام تاكيد '' لمن'' سے تاكيد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جادوگر يہودى جس حقيقت كا علم ركھتے تھے اسى كا انكار كرتے تھے كيونكہ جملے كى تاكيد غالباً ايسے موارد ميں ہوتى ہے كہ جہاں اس كا مضمون مورد انكار ہو_

۵۰_ عالم آخرت پہ علم اورا يمان ہونا اوراس كے مطابق عمل نہ كرنا جہالت و بے ايمانى كے مترادف ہے _

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الآخرة من خلاق لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے اگر''لوكانوا يعلمون ''كا ارتباط ''لقد علموا ...'' سے ہو_ بنابرين ''يعلمون'' كا مفعول '' جادوگر كى عالم آخرت سے محروميت'' ہوگا _يہ جو خداوند عالم ايك طرف ان كو عالم ''لقد علموا'' اور دوسرى طرف جاہل '' لوكانوا يعلمون'' قرار ديتا ہے گويا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ علم و ايمان كا ہونا اور ان كے مطابق عمل كا نہ ہونا جہالت اور بے ايمانى كے برابر ہے _

۵۱ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ''فلما هلك سليمان وضع ابليس السحر و كتبه فى كتاب ثم طواه و كتب على ظهره هذا ما وضع آصف بن برخيا لملك سليمان بن داود من ذخاير كنوز العلم من اراد كذا و كذا فليفعل كذا و كذا'' ثم دفنه تحت السرير ثم استشاره لهم فقرأه فقال الكافرون ما كان سليمان عليه‌السلام يغلبنا الا بهذا و قال المومنون بل هو عبدالله و نبيّه فقال الله جل ذكره ''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۳۴۷

(۱) جب حضرت سليمانعليه‌السلام كى وفات ہوئي تو ابليس نے جادو كى بنياد ركھى اس نے ايك تحرير لكھى پھر اسے طے كيا اور اس پر لكھا '' اسے آصف بن برخيا نے حضرت سليمان بن داؤد كى حكومت برپا كرنے

كے لئے وضع كيا اس ميں علم كے ذخائر موجود ہيں تو جو ايسے ايسے كرنا چاہے تو وہ ايسا ايسا كرے پھر ابليس نے اس تحرير كو حضرت سليمانعليه‌السلام كے تخت كے نيچے چھپا ديا پھر اسكو نكالا اور سب كے سامنے پڑھا پس اس اجتماع ميں كافروں نے كہا سليمانعليه‌السلام تو فقط اسى جادو كے ذريعے ہم پر غالب آئے اور حكومت كى جبكہ مومنين نے كہا ہرگز ايسا نہيں بلكہ وہ اللہ كے بندے اور پيامبرعليه‌السلام تھے _ پس اللہ تعالى فرماتاہے''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۵۲ _ اللہ تعالى كے اس كلام (و ما انزل على الملكين ببابل هاروت وماروت )كے بارے ميں امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''و كان بعد نوح عليه‌السلام قد كثر السحرة ''(۱)

حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد دھوكا باز جادوگر بہت زيادہ ہوگئے تو اللہ تعالى نے اس زمانہ كے نبىعليه‌السلام كى طرف دو فرشتوں كو بھيجا تا كہ اس نبىعليه‌السلام كو جادوگروں كے جادو كے طريقے اور اس جادو كو باطل و ناكارہ كرنے كے طريقے سكھائيں _ پس اس پيامبرعليه‌السلام نے جادو كے طريقے سيكھے اور اللہ تعالى كے حكم سے بندگان خدا كو بھى يہ طريقے سكھائے اور ان سے كہا كہ جادوگروں كے جادو كو روكو اور اسكو ناكارہ كردو( ساتھ ہى ساتھ) اس نبىعليه‌السلام نے لوگوں پر جادو كرنے سے ان كو منع كيا

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۱ ح ۳۰۳_

۳۴۸

اور (كلام خدا وندى ميں ارشاد ہے ) '' وہ دو فرشتے كسى كو بھى جادو كى تعليم نہ ديتے مگر يہ كہ اس سے قبل كہتے ہم آزمائش كا ذريعہ ہيں '' يعنى يہ كہ اس نبىعليه‌السلام نے ان دوفرشتوں كو حكم ديا كہ تم بشرى صورت ميں ظاہر ہوجاؤ اور جو كچھ اللہ تعالى نے تم كو جادو اور اسكو ناكارہ كرنے كے بارے ميں سكھاياہے وہ تم لوگوں كو سكھاؤ پس اللہ عزوجلّ نے ان كو فرمايا جادو كے ذريعے ، دوسروں كو نقصان پہنچاكر ، لوگوں كو يہ كہہ كر كہ ہم بھى زندہ كرنے اور مارنے كى طاقت ركھتے ہيں اور يہ كہ ہم وہ كام كرسكتے ہيں جو فقط اللہ تعالى انجام دے سكتاہے ( ايسے اظہارات سے ) كہيں كافر نہ ہوجانا اور اللہ تبارك و تعالى كا ارشاد ہے ''و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله'' يعنى وہ جنہوں نے جادو سيكھا تھا وہ بھى اللہ تعالى كے علم اور اذن كے بغير كسى كو نقصان نہيں پہنچاسكتے تھے كيونكہ اگر اللہ تعالى چاہتا تو ان كو زبردستى روك سكتا تھا مزيد ارشاد بارى تعالى ہے '' وہ جادو كے علوم سے ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے نقصان ميں تھيں نہ كہ فائدہ ميں ''يعنى يہ كہ ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے دين كے لئے ضرر رساں ہو اور اس ميں كوئي فائدہ نہ ہو نيز ارشاد رب العزت ہے '' و لقد علموا لمن اشتراہ ما لہ فى الاخرة من خلاق'' كيونكہ ان كا عقيدہ تھا كہ آخرت نام كى كوئي چيز وجود نہيں ركھتى پس جب ان كا عقيدہ يہ تھا كہ جب آخرت ہى نہيں ہے تو پھر اس دنيا كے بعد كوئي چيز نہ ملے گي_ ليكن فرضاً اس دنيا كے بعد اگر آخرت ہو تو يہ لوگ اپنے كفر كى بناپر آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوں گے ...''

۵۳ _ عمرو بن عبيد كہتے ہيں ميں حضرت امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا تو عرض كيا كہ ميں گناہان كبيرہ كو قرآن حكيم سے پہچاننا چاہتاہوں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا''والسحر لان الله عزوجل يقول و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق ''(۱)

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/ ۱ ص ۲۶۷ ح۱باب ۲۷، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۷ ح ۲۹۴_

۲) اصول كافى ج/ ۲ ص۲۸۵ ح ۲۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۰ ح ۲۹۷_

۳۴۹

گناہان كبيرہ ميں سے ايك جادو ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' يقينا وہ لوگ جانتے تھے كہ جو كوئي اس متاع (جادو) كو خريدے گا اسے آخرت ميں كچھ نہ ملے گا_

آخرت: آخرت كى خصوصيات۴۲

آخرت فروشي: آخرت فروشى كا نقصان ۴۷

احكام : ۸،۳۱،۳۴،۳۵،۳۶

اختلاف ڈالنا: جادو سے اختلاف ڈالنا ۲۸; اختلاف ڈالنے كى سرزنش ۳۱; اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اذن ۲۶، ۲۷

امتحان : امتحان كا ذريعہ۱۸

انسان: انسان كى قدر و منزلت ۴۴; انسان كى تباہى كے معيارات ۴۵

ايمان: آخرت پر ايمان ۵۰; بغير عمل كے ايمان ۵۰; ايمان كا متعلق ۵۰

بابل: اہل بابل اورجادو ۱۵، ۲۴، ۲۵،۳۲; بابل ميں جادو كى تعليم ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے دشمن ۱۳،۱۷

تعليم: تعليم دينے كے آداب ۲۱، ۲۲

تغييرات: تغييرات كا سرچشمہ ۲۷

توحيد : توحيد افعالى ۲۷

تورات: تورات كى بشارتوں كو جھٹلانا ۱۳

جادو : جادو سے استفادہ كے نتائج ۲۰; جادو سيكھنے كے نتائج ۴۱; نقصان دہ جادوكى تعليم حاصل كرنے كے نتائج ۴۳; مياں بيوى كى جدائي ميں جادو كے اثرات ۲۴، ۲۸; جادو سے سوء استفادہ كے نتائج ۴۰; جادو كے احكام ۳۴، ۳۶; جادو سے استفادہ ۳۶; جادو سے نقصان پہنچانا ۳۴،۴۰; جادو كى اقسام ۳۳; جادو كى ايجاد ۵۱; جادو كى تاثير ۲۹; جادو كى تاريخ ۱۵، ۲۵،۵۲; جادو سيكھنا ۳۶، ۴۰ ;

۳۵۰

جادو سكھانا ۳،۹،۱۱،۱۵ ، ۵۲; حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد جادو ۵۲; جادو حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳،۱۰; جادو اور كفر ۷،۲۸،۳۴; نقصان دہ جادو ۳۲،۳۳; فائدہ مند جادو ۳۳; مباح جادو ۳۶; جادو كا نقصان ۲۶; جادو سے ناجائز فائدہ اٹھانا۱۹،۲۰; جادو پھيلنے كے عوامل ۲۵; جادو كى سزا ۵۳; جادو كى تعليم دينے كا گناہ ۳۴; جادو كا گناہ ۷،۵۳; جادو كى تاثير كا سرچشمہ ۲۶

جنات: جنات كا مجسم ہونا ۳۹; جنات كا مشاہدہ ۳۹

جہالت: جہالت كے موارد ۵۰

حضرت سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كا منزہ ہونا ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كا الزام ۲; حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت ۱،۴،۵۱; حضرت سليمانعليه‌السلام كے دشمن ۴; حضرت سليمانعليه‌السلام اور جادو ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام اور كفر ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۵; حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۱

حكومت : دينى حكومت سے دشمنى كا حرام ہونا ۸

خاندان: خاندانى اختلاف ۳۱; خاندانى اختلاف كے عوامل ۲۴; خاندانوں ميں اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

دنياطلبي: دنياطلبى كا نقصان ۴۷

روايت:۵۱،۵۲،۵۳

روش و كردار: پسنديدہ كردار كے معيارات۲۳; ناپسنديدہ كردار كے معيارات۲۳

زوجہ و شوہر: زوجہ و شوہر ميں اختلاف ڈالنے كى حرمت ۳۱; زوجہ و شوہر كى جدائي كا نقصان ۳۰

سيكھنا : حرام سيكھنا ۳۴،۳۵

شاگردان: شاگردوں ميں ذمہ دارى پيدا كرنا ۲۲

شياطين : شياطين كا مجسم ہونا ۳۹; شياطين كى تعليمات ۳،۹،۱۱; شياطين كا جادو۱۲; شياطين كى دشمنى ۴; شياطين كا مشاہدہ ۳۹; شياطين اور جادو۵; شياطين اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۲،۴،۵; شياطين كا كفر ۹

علم: نقصان دہ علم سيكھنا ۳۵

فساد و تباہى پھيلانا :

۳۵۱

جادو سے فساد پھيلانا ۳۴

كفر: كفر كى بنياد۲۰; كفر كے موارد ۵۰

گناہان كبيرہ: ۷،۵۳

لين دين : نقصان دہ لين دين ۴۷

ماروت: ماروت بابل ميں ۱۴; ماروت اور جادو كا سيكھنا ۱۶; ماروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹ ، ۲۴; ماروت كا معلم ۱۶; ماروت كى تنبيہا ت ۱۸،۱۹

محرمات : ۸،۳۱،۳۴

معلم (استاد): معلم كى ذمہ دارى ۲۱،۲۲

ملائكہ: ملائكہ كا مجسم ہونا ۳۷; ملائكہ سے سيكھنا ۳۸; ملائكہ كا تعليم دينا ۳۸;ملائكہ كو ديكھنا ۳۷; بابل كے ملائكہ ۱۴

ناآشنا علوم: ناآشنا علوم كا نقصان ۲۱; ناآشنا علوم سے ناجائز فائدہ اٹھانا۲۱; ناآشنا علوم كے شاگردوں كو تنبيہ ۲۱

نعمت : اخروى نعمتوں كو حاصل كرنا ۴۴; اخروى نعمتوں سے محروم افراد ۴۰،۴۱،۴۹; اخروى نعمتوں سے محروميت ۴۵،۴۶،۴۹ ; اخروى نعمتوں كى بہتات اور فراواني۴۲

نيت: نيت كى اہميت ۲۳

واقعات: واقعات كا سرچشمہ ۲۷

ہاروت : ہاروت كا استاد۱۴; ہاروت بابل ميں ۱۴; ہاروت اور جادو سيكھنا ۱۶; ہاروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹، ۲۴; ہاروت كى تنبيہات ۱۸،۱۹

يہود: يہوديوں كى آخرت فروشى ۴۸; يہوديوں كى آگاہى ۴۱،۴۹; يہوديوں كى بصيرت ۴۸; يہوديوں كا شياطين كى پيروى كرنا ۱۲; يہوديوں كا ماروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كا ہاروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كى جادوگرى ۱۱،۱۳; يہوديوں كى جہالت ۴۶; يہوديوں كى خودفروشى ۴۳; يہوديوں كى حضرت سليمانعليه‌السلام سے دشمنى ۱۲; يہوديوں كى دنياطلبى ۴۸; يہوديوں كى روش پيكار ۱۳،۱۷; يہوديوں كا زياں كار ہونا ۴۶; يہوديوں كى محروميت ۴۹; جادوگر يہود۴۸،۴۹; حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہود ۱۲; يہودى اور جادو سيكھنا ۴۱،۴۳; يہود اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۱۲

۳۵۲

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّه خَيْرٌ لَّوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۳ )

اگر يہ لوگ ايمان لے آتے اور متقيبن جانے تو خدائي ثواب بہت بہتر تھا _اگر ان كى سمجھ ميں آجاتا (۱۰۳)

۱ _ اللہ تعالى كى جانب سے بہت ہى تھوڑى جزا بھى دوسرى كسى بھى منفعت يا سود سے كہيں زيادہ افضل اور قدر وقيمت والى ہے _لمثوبة من عند الله خير

''مثوبة'' كا معنى جزا كا ہے _ '' بہت ہى كم '' كى صفت كا مفہوم ''مثوبة'' كو نكرہ استعمال كرنے سے معلوم ہوتا ہے '' خير'' كا مفضل عليہ بھى ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز كو شامل ہوجائے _ پس ''خير'' يعنى ہر تصور كى جانے والى منفعت يا نفع سے بہتر _

۲ _ اللہ تعالى كى جزائيں ايمان اور تقوى ( گناہوں سے پرہيز) كى نگہداشت كرنے سے حاصل ہوتى ہيں _

و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

۳_ ايمان گناہوں سے پرہيز كے بغير اور گناہوں سے اجتناب ايمان كے بغير ہو تو الہى جزاؤں سے بہرہ مند ہونا ممكن نہيں _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة

۴ _ يہود اگر پيامبر اسلام (ص) اور قرآن حكيم پر ايمان لائيں اور گناہوں ( جادو، آسمانى كتابوں سے بے اعتنائي و غيرہ ) سے پرہيز كريں تو الہى جزاؤں (نعمتوں ) سے بہرہ مند ہوں گے _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة من عند الله خير

آيات ۹۹، ۱۰۱ كے قرينہ سے '' انھم'' كى ضمير سے مراد پيامبر اكرم (ص) اور قرآن كو جھٹلانے والے يہود ہيں _ قابل توجہ ہے كہ جملہ ''لمثوبة ...'' جواب شرط كا قائم مقام ہے اور جواب اسى طرح كا جملہ ہے '' لا ثيبوا _ يقينا انہيں اجر ديا جائے گا ''_

۵ _ زمانہ بعثت كے يہود دنيا سے دلبستگى اور پہلے سے موجود فسق و فجور كى وجہ سے ايمان و تقوى كى بنياديں كھوچكے تھے__

لبئس ما شروا به أنفسهم و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

جملہ'' و لو انھم ...'' ميں '' لو'' امتناعيہ كا استعمال اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں كا ايمان لانا اور جادو جيسے گناہوں سے

۳۵۳

اجتناب كرنا ايك مشكل يا ممتنع امر ہے_ ماقبل آيات جن ميں يہوديوں كى دنيا سے شديد دلبستگى اور ان كے فاسق ہونے كا ذكر ہے ممكن ہے كہ ان كى اس نفسيات كے پيدا ہونے كى دليل كا بيان ہو_

۶_ اللہ تعالى چاہتاہے كہ لوگ دنياوى منافع يا مفادات كے مقابل الہى جزاؤں كى قدرو منزلت سے آگاہ ہوں _

لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

'' لو كانوا يعلمون'' ميں '' لو'' تمنا كا معنى ديتاہے اور اللہ تعالى كے بارے ميں تمنا يعنى اس كا تشريعى ارادہ ہے _ '' يعلمون'' كا مفعول وہ تمام حقائق ہيں جن كا ماقبل كے جملوں ميں ذكر ہوا ہے ان ميں سے ايك چيز الہى جزا كا ديگر دنياوى منافع سے افضل ہونا ہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله خير

۷ _ الله تعالى چاہتا ہے كہ لوگ الہى جزاؤں كے ايمان او رتقوى كے ساتھ مربوط اور وابستہ ہونے سے آگاہ ہوجائيں _

و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة لو كانوا يعلمون

اس مطلب ميں ''يعلمون'' كا مفعول وہ حقيقت ہے جو جملہ شرطيہ '' لو انھم ...'' بيان كررہاہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله مشروط بالايمان والتقوى

۸ _ فقط علماء اور دانش مند افراد ہيں جو الہى جزاؤں كے ايمان اور تقوى سے مربوط ہونے اور ان جزاؤں كى ہر ديگر منفعت پر فضيلت و برترى كو درك كرتے ہيں _لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

ممكن ہے ''يعلمون'' فعل لازم ہو اور اس كو مفعول كى ضرورت نہ ہو _ اس بناپر اس كا معنى يہ ہوگا اے كاش اہل علم اور دانش مند ہوتے جو ان حقائق كا ادراك كرتے _

۹ _ الہى جزاؤں كى برترى اور قدر و منزلت سے انسانوں كى جہالت انہيں دنياوى مفادات كا گرويدہ كرديتى ہے اور ايمان وتقوى سے روك ديتى ہے_و لو انهم آمنوا و اتقوا لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لو'' شرطيہ ہو_ اس اعتبار سے مختلف احتمالات متصور ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ''يعلمون'' كا مفعول الہى جزا كى برترى و فضيلت ہو اور جملہ ''و لو انھم آمنوا'' سے جواب شرط ليا جائے يعني: مطلب يوں ہو ''لوكانوا يعلمون ان ثواب اللہ خير لآمنوا و اتقوا_ اگر جانتے ہوتے كہ الہى جزا دنياوى منافع سے برتر ہے تو يقيناً ايمان لے آتے اور تقوى اختيار كرتے''_

اجر: اجر كے موجبات ۲،۳،۴،۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى جزاؤں كى قدر و منزلت۶،۸،۹; الہى جزائيں ۱; الہى جزاؤں كى شرائط ۲،۳ ، ۴ ، ۷ ، ۸

۳۵۴

ايمان: ايمان كے نتائج ۲،۳; ايمان كى اہميت ۷،۸; قرآن كريم پر ايمان ۴; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۴; بغير تقوى كے ايمان۳; ايمان كا متعلق ۴; ايمان كى ركاوٹيں ۵،۹

تقوى : تقوى كے نتائج ۲،۳; تقوى كى اہميت ۷،۸; تقوى بغير ايمان كے ۳; تقوى كى ركاوٹيں ۵،۹

جہالت: جہالت كے نتائج ۹

دنياطلبي: دنياطلبى كے نتائج ۵; دنياطلبى كے اسباب ۹

دنياوى وسائل: دنياوى وسائل كى قدر و قيمت ۶

علماء : علماء كى خصوصيات۸

فسق: فسق كے نتائج ۵

قدريں : ۶،۸ قدروں سے جہالت ۹

گناہ : گناہ سے اجتناب ۴

يہود: يہوديوں كے اسلام لانے كے نتائج ۴; يہوديوں كے تقوى كے نتائج۴; صدر اسلام كے يہوديوں كى دنياطلبى ۵; صدر اسلام كے يہوديوں كا فسق ۵

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۰۴ )

ايمانوالو راعنا ( ہمارى رعايت كرو )نہ كہاكرو ''انظرنا '' كہا كرو اور غور سے سناكرو اور ياد ركھو كافرين كے لئے بڑادردناك عذاب ہے ( ۱۰۴)

۱ _ '' راعنا'' كا لفظ اس بات كى سند ہے كہ يہودى پيامبر (ص) كى اہانت كرتے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑاتے تھے_لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا آنحضرت (ص) كے گفتگو كرتے ہوئے مسلمان بعض اوقات آپ (ص) سے تقاضا كرتے كہ ذرا مہلت ديں تا كہ آپ (ص) كى پہلى گفتگو كو سمجھ ليں اور اس مہلت كى درخواست كے لئے ''راعنا _ ہميں فرصت ديجئے '' كا لفظ استعمال كرتے تھے يہودى اس كلمے ميں كچھ تحريف كركے اس سے ايك نامناسب اور برا معنى مراد ليتے اور اسى سے پيامبر اسلام (ص) كو خطاب كرتے تھے_

۲ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو '' راعنا'' كے لفظ سے پيامبر اسلام(ص) كو مخاطب كرنے سے منع فرمايا_

يا ايها الذين آمنوا لا تقولوا راعنا

۳۵۵

۳ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو حكم ديا كہ پيامبر اسلام (ص) (سے مہلت مانگتے ہوئے ) '' راعنا'' كى بجائے ''انظرنا'' كہيں _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا ''انظرنا'' كا معنى ہے ہميں مہلت ديجئے (مجمع البيان )

۴ _ ايسى گفتار و كردار سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جس كے نتيجے ميں دشمن ناجائز فائدہ اٹھائے_

۵ _ نيك عمل كے لئے نيك نيت ہى كافى نہيں ہے _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

يہ واضح ہے كہ ''راعنا'' كہنے سے مسلمانوں كى كوئي برى نيت نہ تھى ليكن اللہ تعالى نے مسلمانوں كواس لفظ كے استعمال كرنے سے روكاتا كہ دشمن اس سے سوء استفادہ نہ كرسكيں _

۶ _ ايسے الفاظ اور كلمات جن سے دينى مقدسات كى توہين ہوتى ہو ان سے پرہيزكرنا اور دوسرے لوگوں كو روكنا ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۷ _ ايسے كلام يا گفتگو سے اجتناب ضرورى ہے جس ميں پيامبر اسلام (ص) كى اہانت يا تمسخر كا پہلو نكلتاہو_

لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

۸ _ دينى قائدين كے احترام كا تحفظ ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۹ _ آنحضرت (ص) كے كلام كو غور سے سننا اور جب آپ (ص) كلام فرمارہے ہوں تو خاموش رہنا ضرورى ہے _

و قولوا انظرنا و اسمعوا''سمع''كا معنى ممكن ہے غور سے سننا ہو يا فرمانبردارى يا اطاعت بھى ہوسكتاہے _ مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۱۰_ پيامبر اكرم (ص) كے فرامين كو قبول كرنا اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے _يا ايها الذين آمنوا اسمعوا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''سمع'' كا معنى اطاعت كرنا ہو_

۱۱ _ كفر اختيار كرنے والے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _و للكافرين عذاب اليم

۱۲ _ نبى اسلام (ص) كى اہانت كرنا يا تمسخر اڑانا كفر كا موجب ہے _لا تقولوا راعنا و للكافرين عذاب اليم

۱۳ _ زمانہ بعثت كے يہود كفر اختيار كرنے والے لوگ تھے_و للكافرين عذاب اليم

ما قبل آيات كى روشنى ميں كافرين كا ايك مصداق يہود ہيں _

۱۴ _ نبى اسلام كو نہ ماننے والے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑانے والے دردناك عذاب كے مستحق ہيں _

و للكافرين عذاب اليم

۳۵۶

۱۵ _عن جميل قال كان الطيار يقول لى فدخلت انا و هوعلى ابى عبدالله عليه‌السلام فقال الطيار جعلت فداك ارايت ما ندب الله عزوجل اليه المومنين من قوله '' يا ايها الذين آمنوا'' ادخل فى ذلك المنافقون معهم؟ قال نعم و الضلال و كل من اقربالدعوة الظاهرة ...'' (۱) جميل كہتے ہيں ميں اور طيار امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو طيار نے حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا ميں آپعليه‌السلام كے قربان جاؤں كيا منافقين بھى اس آيت''يا ايها الذين آمنوا'' ميں شامل ہيں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ہاں بلكہ گمراہ اور ہر وہ شخص جس نے ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كرلياہو اس آيت ميں شامل ہے ...''

۱۶ _ امام باقرعليه‌السلام نے فرمايا''هذه الكلمة سب بالعبرانية اليه كانوا يذهبون '' (۱)

يہ لفظ ''راعنا'' عبرانى زبان ميں گالى ہے اور يہود اسكو گالى كے طور پر استعمال كرتے تھے_

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱

اطاعت: نبى اسلام (ص) كى اطاعت۱۰

اقرار: اسلام كے اقرار كے آثار۱۵

اللہ تعالى : اوامر الہى ۳; اللہ تعالى كے نواہى ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كے نتائج ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت كے آثار۱۲; پيامبر اسلام (ص) كے ساتھ گفتگو كے آداب ۲،۳،۹; پيامبر اسلام (ص) ; كے تمسخر سے اجتناب ۷ ;پيامبر اسلام (ص) كى اہانت سے اجتناب ۷; پيامبر اسلام (ص) كى گفتگو غور سے سننا ۹; پيامبر اسلام (ص) كا تمسخر ۱; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت ۱، ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱; پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كى سزا ۱۴

تكلم: تكلم كے آداب ۶،۷

دشمنان: دشمنوں كا سوء استفادہ كرنا۴

دينى قائدين : دينى قائدين كا احترام ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۴۱۲ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۴ح ۳۰۷ ، ۳۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۳۴۳، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۵ ح ۳۰۹_

۳۵۷

روايت: ۱۵،۱۶

سياست خارجہ : ۴

عذاب: اہل عذاب ۱۱،۱۴; دردناك عذاب ۱۱،۱۴; عذاب كے درجات ۱۱،۱۴; عذاب كے موجبات ۱۴

عمل صالح : عمل صالح كے معيارات ۵

كفار : ۱۳ كفار كو عذاب ۱۱

كفر: كفر كے نتائج ۱۴; نبى اسلام (ص) كے بارے ميں كفر كى سزا ۱۴; كفر كے موجبات ۱۲

گالي: راعنا كے لفظ سے گالى دينا ۱۶

مقدسات: مقدسات كى اہانت سے اجتناب ۶

منافقين : منافقين كا اسلام ۱۵

مؤمنين : مؤمنين كون لوگ؟ ۱۵; مؤمنين كى ذمہ دارى ۳،۱۰; مؤمنين كو تنبيہ ۲

نيت : نيت كے نتائج ۵

يہودي: يہوديوں كے تمسخر ۱; يہوديوں كى اہانتيں ۱; يہوديوں ميں گالى ۱۶; كافر يہوديوں كا عذاب ۱۴; صدر اسلام كے يہودى ۱،۱۳;

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( ۱۰۵ )

كافر اہل كتابيہود و نصا رى اور عام مشركين يہ نہيں چاہتے كہ تمھارے اوپر پروردگار كى طرف سےكوئي خير نازل ہو حالانكہ الله جسے چاہتاہے اپنى رحمت كے لئے مخصوص كرليتا ہے اورالله بڑے فضل و كرم كا مالك ہے (۱۰۵)

۱ _ اہل كتاب (يہود و نصارى ) اور مشركين و ہ لوگ ہيں جنہوں نے كفر اختيار كيا _

ما يود الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين

چونكہ''المشركين'' ، '' اہل الكتاب'' پر عطف ہے پس '' من اہل'' ميں '' من'' بيانيہ ہے _ بنابريں '' ما يود الذين كفروا '' يعنى وہ لوگ جو كافر ہوگئے ( مراد اہل كتاب اور مشرك ) نہيں چاہتے _

۳۵۸

۲ _ كفار ( يہود و نصارى اور مشركين) مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى ناراضى ہيں _

ما يود الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير ''خير'' كو نكرہ استعمال كرنا اور '' من'' زائدہ كا استعمال اس امر كى حكايت كرتاہے كہ مشركين مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى خوش نہيں ہيں _

۳ _ انسانوں كے لئے خير و بركات كا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _ان ينزل عليكم من خير من ربكم

۴ _ ذات اقدس بارى تعالى كى جانب سے خير و بركات كا نزول انسانوں پر اس كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے_

ان ينزل عليكم من خير من ربكميہ مطلب لفظ '' رب'' سے استفادہ ہوتاہے_

۵ _ اسلام اور مسلمانوں كے ساتھ دشمنى ميں اہل كتاب كا مشركين كے ساتھ برابر ہونا ايك عجيب امر ہے اور ايك ايسا مسئلہ ہےجس كى توقع نہ تھي_

ما يودّ الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين ان ينزل عليكم من خير

يہوديوں كے لئے اہل كتاب كا عنوان استعمال كرنا ان كے توحيد و رسالت اور پرعقيدے كى حكايت كرتاہے اور ان كى مشركين جو اديان الہى كے كسى اصول پر عقيدہ نہيں ركھتے ان كے ساتھ شركت و برا برى يہ امور اشارہ ہيں كہ يہوديوں اور مشركين كا ارتباط غير معقول اور تعجب آور ہے _

۶ _ اللہ تعالى اپنى مشيت كى بناپر اپنى رحمت كو بعض انسانوں كے ساتھ مختص فرماديتاہے _

والله يختص برحمته من يشاء

۷ _ اللہ تعالى كے ہاں خاص رحمت ہے _والله يختص برحمته من يشاء

۸_ مومنين كے خير و بركت حاصل كرنے پر كفار كى ناراضگى اہل ايمان پر رحمت الہى كے خاتمے كا سبب نہيں بنے گى _ما يودّ الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير من ربكم والله يختص برحمته من يشاء

۹_ اللہ تعالى كے ہاں بہت عظيم فضل و بخشش ہے _والله ذو الفضل العظيم

۱۰_ بندگان خدا پر خاص رحمت الہى كا نزول ان ميں پہلے سے موجود لياقت ، صلاحيت اور آمادہ زمين ہے _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيمواللہ يختص برحمتہ من يشاء كے بعد اللہ تعالى كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ انتہائي عظيم اور لا محدود فضل و بخشش كا مالك ہے يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ يہ جو پرودرگار اپنى خاص رحمت سب كو عطا نہيں فرماتا اور اس كو اپنے خاص بندوں كے ساتھ مختص فرماتاہے اس كى وجہ رحمت كى كمى نہيں ہے بلكہ انسانوں ميں اس كى زمين فراہم نہيں ہے جو مخصوص رحمت كى كشش كا باعث بنے_

۳۵۹

۱۱ _ الہى مشيتوں ميں قانون و حكمت موجود ہے جو لاقانونيت اور بے ہودگى سے منزہ و مبرّا ہيں _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيم

۱۲ _روى عن اميرالمومنين عليه‌السلام وعن ابى جعفر الباقر عليه‌السلام ان المراد برحمته هنا النبّوة (۱)

امير المومنينعليه‌السلام اور امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اس آيت ميں رحمت سے مراد نبوت ہے _

اسلام : دشمنان اسلام ۵

اسماء اور صفات: ذوالفضل العظيم ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۳; خاص رحمت الہى ۶،۷،۱۰; رحمت الہى ۸; نزول رحمت الہى كى شرائط ۱۰; فضل الہى كى عظمت ۹; مشيت الہى كا قانونى ہونا ۱۱; فضل الہى كے درجات ۹; مشيت الہى ۶; ربوبيت الہى كے مظاہر ۴

امور : تعجب آور امور ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كى دشمنى ۵; اہل كتا ب كا كفر ۱

خير: خير كا سرچشمہ ۳،۴

رحمت : رحمت جن كے شامل حال ہوتى ہے ۶،۸،۱۰

روايت: ۱۲ عيسائي :

عيسائيوں كا كفر ۱; عيسائي اور مسلمانان۲; عيسائيوں كى ناراضگى ۲

كفار:۱ كفار اور مسلمان ۲; كفار كى ناراضگى ۲،۸

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۵; مسلمانوں پر خير كا نزول ۲،۸

مشركين : مشركين كا اہل كتاب سے اتحاد ۵; مشركين كى دشمنى ۵;مشركين كا كفر ۱; مشركين كى ناراضگى ۲

نبوت: نبوت كى رحمت ۱۲

يہود: يہوديوں كا كفر ۱; يہوديوں كى ناراضگى ۲; يہود اور مسلمان ۲

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ ص ۳۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ص ۱۱۵ ح ۳۱۰_

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455