آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181858 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

صقر کہتے ہیں : میں نے علی بن محمد سے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا:

'' میرے بعد میرے بیٹے حسن ( عسکری) امام ہیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھی چکی ہوگی '' _(۱)

ج: اما م حسن عسکری (ع) نے متعدد احادیث میں اس بات کی خبر دی ہے کہ قائم و مہدی میرا بیٹا ہے اور امام و پیغمبر جھوٹ و خطا سے منزہ ہیں ان احادیث میں سے بعض یہ ہیں :

محمد بن عثمان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے:

'' میں امام حسن عسکری کی خدمت میں تھا کہ آپ (ع) سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کہ کہ ان کے آباء و اجداد سے نقل ہوئی ہے کہ تا قیامت زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی اور جو شخص اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے ، وہ جہالت کی موت مرتا ہے _ امام (ع) نے جواب دیا : '' یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح اور حق ہے'' _ عرض کیا گیا : اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کے بعد امام و حجت کوں ہے ؟ فرمایا: '' میرے بیٹے محمد حجّت و امام ہیں اور جوان کے معرفت کے بغیر مرے گا وہ جہالت کی موت مرے گا _ آگاہ ہوجاؤ میرا بیٹا غیبت میں رہے گا ، اس زمانہ میں دنیا والے سرگردان ہوں گے ، باطل پرست ہلا ک ہوں گے اور جو شخص ان کے ظہور کے

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۲۷۵_

۱۲۱

وقت کو معین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے وہ اپنی غیبت کا زمانہ ختم ہوجانے کے بعد قیام کریں گے گویا میں سفید پرچم نجف میں ان کے سر پر لہراتا ہوا دیکھ رہا ہوں _(۱)

د_ امام حسن عسکری (ع) نے اپنے بیٹے کی ولادت کی چند اشخاص کو خوشخبری دی ہے ازباب مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱_ فضل بن شاذان جن کا انتقال حضرت حجت کی ولادت کے بعد اور امام حسن عسکری کی شہادت سے قبل ہوا تھا ،انہوں نے اپنی کتاب غیبت میں محمد بن علی بن حمزہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے امام حسن عسکری سے سنا کہ آپ(ع) فرمارہے تھے :

''۱۵ شعبان (۲۵۵) کی شب میں طلوع فجر کے وقت حجت خدا اور میرا جانشین مختون پیدا ہوا ہے '' _(۲)

۲_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے اما م حسن عسکری (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرما رہے تھے :

''حمد ہے اس خدا کی جس نے میرے مرنے سے قبل ہی مجھے میرا جانشین دکھا دیا ، اخلاق و خلق میں وہ سب سے زیادہ رسول(ص) سے مشابہ ہے ،ایک مدت تک خدا انھیں پردہ غیب میں رکھے گا اس کے بعد انھیں ظاہر کرے گا تا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں '' _(۳)

۳_ احمد بن حسن بن اسحاق قمی نے روایت کیہے کہ جب خلف صالح پیدا ہوئے اس وقت امام حسن (ع) کاخط احمد بن اسحاق کے بدست میرے پاس پہنچا اس میں آپ نے اپنے دست مبارک

____________________

۱_ بحار الانوار ج۵۱ ص ۱۶۰_

۲_ منتخب الاثر طبع اول ص ۳۲۰_

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۶۱_

۱۲۲

سے تحریر کیا تھا کہ:

''ہمارے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے ، اس بات کو مخفی رکھنا کیونکہ میں بھی سوائے اپنے دوستوں کے اور کسی سے بیان نہیں کروں گا ''_(۱)

۴_ اسحاق بن احمد کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''احمد جس چیز کے بارے میں لوگ شک میں مبتلا ہیں اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے عرض کی : ہمارے زن و مرد اور بوڑھے جوان پر تو حق اس وقت آشکار ہوگیا تھا جب آپ (ع) نے خط کے ذریعہ بیٹے کی ولادت کی خوشبخری دی تھی چنانچہ ہم ان کے معتقد ہوگئے ہیں '' _(۲)

۵_ ابوجعفر عمری نے روایت کی ہے کہ جب صاحب الامر پیدا ہوئے اس وقت امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا:

'' ابو عمر کو بلاؤ'' ، جب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: دس ہزار طل(۳) نان اور دس ہزار رطل گوشت خرید کر لاؤ اور بنی ہاشم میں تقسیم کردو اور خلال گوسفند سے میرے بیٹے کا عقیقہ کرو _(۴)

احادیث و اخبار کے اس مجموعہ سے یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں بیٹا تھا_

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۲_

۲_ منتخب الاثر طبع اول ص ۳۴۵_

۳_ یعنی آدھا سیر

۴_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۰_

۱۲۳

امام زمانہ (عج) کو بچپنے میں دیکھا گیا ہے

ڈاکٹر : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے یہاں بیٹا پیدا ہو اور کسی کو اس کی اطلاع نہ ہو؟

پانچ سال گزرجائیں اور کوئی اسے پہچانتا نہ ہو ؟ کیا امام حسن عسکری کی سامرہ میں بودوباش نہیں تھی؟ کیا ان کے گھر کسی کی بھی آمد و رفت نہیں تھی ؟ کیا صرف عثمان بن سعید کے کہنے سے اس چیز کو قبول کیا جا سکتا ہے ؟

ہوشیار: اگر چہ یہ طے تھا کہ امام حسن عسکری (ع) کے بیٹے کو کوئی نہ دیکھنے پائے لیکن پھر بھی بعض قریبی اور قابل اعتماد اشخاص نے انھیں بچپن میں دیکھا ہے اور ان کے وجود کی گواہی دی ہے مثلاً:

۱_ حکیمہ خاتون بنت امام محمد نقی امام حسن عسکری کی پھوپھی ، صاحب الامر کی ولادت کے وقت وہاں موجود تھیں اور انہوں نے اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے _ اس کا خلاصہ یہ ہے : حکیمہ خاتون کہتی ہیں : پندرہ شعبان (۲۲۵) کی شب ، میں امام حسن عسکری کے گھر تھی _ جب میں اپنے گھر واپس آنا چاہتی تھی اس وقت امام حسن عسکری نے فرمایا: پھوپھی جان آج کی رات آپ ہمارے ہی گھر ٹھر جایئےیونکہ آج کی رات ولی خدا اور میرا جانشین پیدا ہوگا _ میں نے دریافت کیا کس کنیز سے ؟ فرمایا : سوسن سے _

۱۲۴

میں نے سوسن کو اچھی طرح سے دیکھا لیکن مجھے حمل کے آثار نظر نہ آئے _ نماز اور افطار کے بعد سوسن کے ساتھ میں ایک کمرے میں سوگئی _ تھوڑی دیر بعد بیدار ہوئی تو امام حسن عسکری کی باتوں کے متعلق سوچنے لگی _ پھر نماز شب میں مشغول ہوئی _ سوسن نے بھی نماز شب ادا کی _ صبح صادق کا وقت قریب آگیا _ لکن وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے مجھے امام حسن عسکری کی باتوں میں شک ہونے لگا تو دوسرے کمرہ سے امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا : پھوپھی جان شک نہ کیجئے میرے بیٹے کی ولادت کا وقت قریب ہے _

اچانک سوسن کی حالت بدل گئی میں نے پوچھا : کیا بات ہے _ فرمایا : شدید درد محسوس ہورہا ہے _ میں وضع حمل کے وسائل فراہم کرنے میں مشغول ہوگئی اور دایہ کے فرائض کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی _

کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ولی خدا پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے اور اسی وقت امام حسن عسکری نے فرمایا : پھوپھی جان میرے بیٹے کو لایئے میں بچہ کو ان کے پاس لے گئی انہوں نے بچہ کو لیا اور اپنی زبان مبارک اس کی آنکھوں پر پھرائی تو بچہ نے آنکھین کھولدیں اس کے بعد نوزاد کے دہان اور کان پر زبان پھرائی اور سر پر ہاتھ پھیراتو بچہ گویا ہوا اور تلاوت قرآن کرنے میں مشغول ہوگیا _ اس کے بعد بچہ مجھے دیدیا اور فرمایا : '' اس کی ماں کے پاس لے جایئے' حکیمہ خاتو ن کہتی ہیں:میں نے بچہ کو اس کی ماں کو دیدیا اور اپنے گھرلوٹ آئی _ تیسرے دن میں پھر امام حسن عسکری کے گھر گئی اور پہلے بچہ کو دیکھنے کی غرض سے سوسن کے کمرہ میں داخل ہوئی لیکن بچہ وہاں نہیں تھا _ اس کے بعد امام حسن عسکری کی خدمت میں پہنچی _ لیکن بچہ کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی تھی ، کہ امام حسن عسکری نے فرمایا: پھوپھی جان میرا بیٹا خدا

۱۲۵

کی پناہ میں غائب ہوگیا ہے _ جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور ہمارے شیعہ ہمارے جانشین کے بارے میں اختلاف کرنے لگیں تو آپ قابل اعتماد شیعوں سے میرے بیٹے کی داستان ولادت بیان کردیجئے گا لیکن اس قضیہ کو مخفی رکھنا چاہئے کیونکہ میرا بیٹا غائب ہوجائے گا _(۱)

۲_ امام حسن عسکری کی خدمت گار نسیم و ماریہ نے روایت کی ہے کہ : جب صاحب الامر نے ولادت پائی تو پہلے وہ دو زانو بیٹھے اور اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف بلند کیا _ اس کے بعد چھینک آئی تو فرمایا : '' الحمد للہ ربّ العالمین''(۲)

۳_ ابوغانم خادم کہتا ہے : امام حسن عسکری (ع) کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا ، تیسرے دن اس بچہ کو آپ نے اپنے اصحاب کو دکھایا اور فرمایا : '' یہ میرا بیٹا میرے بعدتمہارا امام و مولی ہے اور یہی وہ قائم ہے جس کا تم انتظار کروگے اور اس وقت ظہور کرے گا جب زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی اور اسے عدل و انصاف سے پر کرے گا ''(۳)

۴_ ابو علی خیزرانی اس کنیز سے نقل کرتے ہیں جو کہ اما م حسن عسکری نے انھیں بخش دی تھی کہ اس نے کہا : '' صاحب الامر کی ولادت کے وقت میں موجود تھی ، ان کی والدہ کا نام صیقل ہے ''(۴)

____________________

۱_ غیبت شیخ ص ۱۴۱ و ۱۴۲_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۲ ، اثبات الوصیہ ص ۱۹۷_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۱_

۴_ منتخب الاثر ص ۳۴۳_

۱۲۶

۵_ حسن بن حسین علوی کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کی ولادت کی مبارک بادپیش کی _(۱)

۶_ عبداللہ بن عباس علوی کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کی ولادت کی مبارک باد پیش کی _(۲)

۷_ حسن بن منذر کہتے ہیں :'' ایک دن حمزہ بن ابی الفتح میرے پاس آئے اور کہا : مبارک ہو کل رات خدا نے امام حسن عسکری کو فرزند عطا کیا ہے _ لیکن ہمیں اس خبر کے مخفی رکھنے کاحکم دیا ہے _ میں نے نام پوچھا تو فرمایا : ان کا نام محمد ہے _(۳)

۸_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا _ میرا قصد تھا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں کچھ دریافت کروں _ لیکن آپ (ع) ہی نے گفتگور کا آغاز کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق خداوند عالم نے حضرت آدم کی خلقت سے قیامت تک ، زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے ، اور نہ رکھے گا _ اس کے وجود کی برکت سے زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں ، بارش برستی ہے اور زمین کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں _ میں نے عرض کی اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کا جانشین کون ہے ؟ امام گھر میں داخل ہوئے اور ایک تین سالہ بچہ کو لائے جو کہ چو دھویں کے چاند کی مانند تھا اور فرمایا : اے احمد اگر تم خدا اور ائمہ کے نزدیک معزز نہ ہوتے تو میں تمہیں

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۳۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۷۲۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۴_

۱۲۷

اپنا بیٹا نہ دکھاتا _ جان لو یہ بچہ رسول کا ہمنام اور ہم کنیت ہے _ یہی زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _(۱)

۹_ معاویہ بن حکیم ، محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان عمری نے روایت کی ہے کہ ہم چالیس آدمی امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں جمع تھے کہ آپ اپنے بیٹے کو لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام اور جانشین ہے _ میرے بعد تمہیں اس کی اطاعت کرنا چاہئے اور اختلاف نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے _ واضح رہے کہ میرے بعد تم اسے نہ دیکھوگے '' _(۲)

۱۰ _ جعفر بن محمد بن مالک نے شیعوں کی ایک جماعت منجملہ علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ بن حکیم اور حسن بن ایوب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ہم لوگ امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں اس لئے جمع ہوئے تھے تا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں معلوم کریں _ اس مجلس میں چالیس اشخاص موجود تھے کہ عثمان بن سعید اٹھے اور عرض کی : یابن رسول اللہ ہم ایک سوال کی غرض سے آئے ہیں _ آپ (ع) نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد فرمایا کوئی شخص مجلس سے باہر نہ جائے ، یہ کہہ کر آپ (ع) تشریف لے گئے اور ایک گنھٹے کے بعد واپس تشریف لائے ، چاند سا بچہ اپنے ساتھ لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام ہے _ اس کی اطاعت کرو _ لیکن اس کے بعد اسے نہ دیکھو گے _(۳)

۱۱_ ابوہارون کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو دیکھا ہے جبکہ آپ کا چہرہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۱۱_

۱۲۸

چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا _(۱)

۱۲_ یعقوب کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ع) کے داہنی طرف پردہ پڑا ہوا ہے _ میں نے عرض کی : مولا صاحب الامر کون ہے ؟ فرمایا : پردہ اٹھاؤ، جب میں نے پردہ اٹھایا تو ایک بچہ ظاہر ہوا جو آپ (ع) کے زانو پر آکر بیٹھ گیا ، امام نے فرمایا یہی تمہارا امام ہے _(۲)

۱۳_ عمرو اہوازی کہتے ہیں : امام عسکری نے مجھے اپنا بیٹا دکھایا اور فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا تمہارا امام ہے _(۳)

۱۴_ خادم فارسی کہتے ہیں : میں امام حسن عسکری (ع) کے دروازے پر تھا کہ گھر سے ایک کنیز نکلی جبکہ اس کے پاس کوئی چیز تھی جس پر کپڑا پڑا تھا امام نے فرمایا: اس سے کپڑا ہٹاؤ، تو کنیز نے ایک حسین و جمیل بچہ دکھایا _ امام نے مجھ سے فرمایا : یہ تمہارا اما م ہے _ خادم فارسی کہتے ہیں : اس کے بعد میں نے اس بچہ کو ہیں دیکھا _(۴)

۱۵_ ابو نصر خادم کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو گہوارہ میں دیکھا ہے _(۵)

۱۶_ ابو علی بن مطہر کہتے ہیں : میں نے حسن عسکری کے فرزند کو دیکھا ہے _(۶)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۰_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۵_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۶_

۴_ ینابیع المودة باب ۸۲_

۵_ اثبات الہداة جلد ۷ ص ۳۴۴، اثبات الوصیہ ص ۱۹۸_

۶_ ینابیع المودہ باب ۸۲_

۱۲۹

۱۷_ کامل بن ابرایہم کہتے ہیں :'' میں نے صاحب الامر کو امام حسن عسکری کے گھڑ میں دیکھا ہے : چار سال کے تھے اور چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا ، میری مشکلوں کو میرے سوال کرنے سے پہلے ہی حل کیا تھا _(۱)

۱۸_ سعد بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے صاحب الامر کو دیکھا ہے آپ کا چہرہ چاند کے ٹکڑے کی مانند تھا _(۲)

۱۹_ حمزہ بن نصیر ، غلام ابی الحسن (ع) نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب صاحب الامر پیدا ہوئے تو آپ کے گھر میں رہنے والے افراد نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی _ جب کچھ بڑے ہوئے تو مجھے حکم ملا کہ روزانہ نلی کی ہڈی گوشت سمیت خرید کر لاؤ اور فرمایا یہ تمہارے چھوٹے مولا کے لئے ہے _(۳)

۲۰_ ابراہیم بن محمد کہتے ہیں : ایک روز میں حاکم کے دڑسے فرار کرنا چاہتا تھا لہذا وداع کی غرض سے امام حسن عسکری کے گھر گیا تو آپ کے پاس ایک حسین بچہ کو دیکھا ، عرض کی فرزند رسول یہ کس کا بچہ ہے ؟ فرمایا: یہ میرا بیٹا اور جانشین ہے _(۴)

یہ لوگ امام حسن عسکری کے معتمد ثقہ اور اصحاب و خدام ہیں کہ جنہوں نے بچپنے

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۲۳ ، ینابیع المودہ باب ۸۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۷۸ و ص ۸۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸ ، اثبات الوصیہ ص ۱۹۷_

۴_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۵۶_ ولادت صاحب الامر کے سلسلہ میں تفصیل کے شائقین ، علامہ محقق سید ہاشم بحرانی کی کتاب، تبصرة الولی فیمن را ی المہدی اور بحار الانوار ج ۵۱ باب ۱ ج ۵۲ باب ۱۷ و ۱۹ ملاحظہ فرمائیں _

۱۳۰

میں آپ کے لخت جگر کو دیکھا ہے اور اس کے وجود کی گواہی دی ہے _ جب ہم اس گواہی کے ساتھ پیغمبر اور ائمہ کی احادیث کو ضمیمہ کرتے ہیں تو امام حسن عسکری کے بیٹے کے وجود کا یقین حاصل ہوجاتا ہے _

وصیت میں ذکر کیوں نہیں ہے ؟

انجینئر : کہتے ہیں کہ امام حسن عسکری نے مرتے دم اپنی مادر گرامی کو اپنا وصی قرار دیا تھا تا کہ ان کے امور کی نگرانی کریں اور یہ بات قضات وقت کے نزدیک ثابت ہوچکی ہے لیکن آ پ(ع) نے کسی بیٹے کا نام نہیں لیا ہے اور انتقال کے بعد آپ کا مال آپ کی والد ہ اور بھائی کے درمیان تقسیم ہوا _(۱) اگر کوئی بیٹا ہوتا تو اپنی وصیت کے ضمن میں اس کا نام بھی درج کرتے تا کہ میراث سے محروم نہ رہے _

ہوشیار: امام حسن عسکری نے عمداً وصیت میں اپنے بیٹے کا نام ذکر نہیں کیا تھا تا کہ بادشاہ وقت کی طرف سے یقینی خطرات سے انھیں نجات دلائیں _ اس سلسے میں آپ بہت زیادہ محتاط رہے اور اپنے بیٹے کی ولادت کی خبرکے طشت از بام ہونے سے اس قدر خوف زدہ رہتے کہ کبھی تو اپنے خاص اصحاب سے بھی اسے چھپاتے اور اس موضوع کو مبہم بنادیتے تھے_

ابراہیم ابن ادریس کہتے ہیں :

'' امام حسن عسکری (ع) نے میرے پاس ایک گوسفند بھیجی اور کہلوایا : اس گوسفند

____________________

۱_ اصول کافی باب مولا ابی محمد الحسن بن علی _

۱۳۱

سے میرے بیٹے کا عقیقہ کردو اور اپنے خاندان کے ساتھ کھاؤ_ میں نے حکم کی تعمیل کی لیکن جب میں آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا ہمارا بچہ دنیا سے چلا گیا _ ایک مرتبہ پھر دو گوسفند کے ساتھ ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون یہ تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم _ ان دو گوسفندوں سے اپنے مولا کا عقیقہ کرو اور اپنے عزیزوں کے ساتھ کھاؤ، میں نے حکم تعمیل کی _ لیکن جب میں حاضر خدمت ہوا تو مجھ سے کچھ نہ فرمایا '' _(۱)

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے بھی اپنی وصیت میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا _ آپ نے پانچ اشخاص ، خلیفہ وقت منصور عباسی ، محمد بن سلیمان مدینہ کے گور نر کا بیٹا ، اپنے دو بیٹے عبداللہ و موسی (ع) اور موسی (ع) کی مادرگرامی حمیدہ کو اپنا وصی مقرر کیا تھا _(۳)

امام صادق (ع) نے اپنے اس عمل سے اپنے فرزند موسی کو یقینی خطر ے سے نجات عطا کی _ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اگر موسی کاظم کی امامت و وصایت خلیفہ پر ثابت ہوگئی تو وہ ان کے قتل کے درپے ہوجائے _ چنانچہ امام کا خیال صحیح ثابت ہوا اور خلیفہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اگر امام صادق کا کوئی معین وصی ہے تو اسے قتل کردو_

دوسرے کیوں خبر دار نہ ہوئے ؟

فہیمی : اگر کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اور دوست و

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۲۲ اثبات الہداة ج ۷ ص ۷۸ اثبات الوصیہ ص ۱۹۸

۲_ اصول کافی باب الاشارہ و النص علی ابی الحسن موسی

۱۳۲

ہمسایوں کو اس کی اطلاع ضروری ہوتی ہے اور ولادت کے موضوع میںکوئی اختلاف نہیں ہوتا _ یہ بات کیونکر قبول کی جا سکتی ہے کہ امام حسن عسکری ، جو کہ شیعوں کے نزیدک معزز تھے ، کے یہاں بیٹا پیدا ہوا لیکن لوگ اسی سے اتنے ہی بے خبر رہے کہ اصل موضوع ہی میں شک و اختلاف میں پڑگئے :

ہوشیار: عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے لیکن معمول کے خلاف امام حسن عسکرے نے پہلے ہے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا ، بلکہ پیغمبر اور ائمہ اطہار کے زمانہ سے یہی مقدر تھا کہ امام مہدی کی ولادت کو مخفی رکھا جائے چنانچہ آپ (ع) کی خفیہ ولادت کو آپ کی علامت شمار کیا جاتا تھا مثلاً _

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا:

'' ہمارے قائم کی ولادت لوگوں سے پوشیدہ رہے گی ، یہاں تک کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ _ پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں ، اور یہ اس لئے ہے کہ جب آپ (ع) ظہور فرمائیں اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''(۱)

عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے امام محمد(ع) باقر کی خدمت میں عرض کی عراق میں آپ کے شیعہ بہت ہیں خدا کی قسم آپ جیسی حیثیت کسی کی نہیں ہے آپ خروج کیوں نہیں کرتے ؟ فرمایا:

'' عبداللہ تم فضول باتوں میں آگئے ہو خدا کی قسم میں صاحب الامر نہیں ہوں جس کا روایات میں ذکر ہے''_ میں نے عرض کی : صاحب الامر کون ہے ؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۱۳۳

فرمایا:

'' ایسے شخص کے انتظار میں زندگی بسر کرو جس کی ولادت مخفی رہے گی _ وہی تمہارا مولا ہے ''_(۱)

فہیمی : امام حسن عسکر ی (ع) نے اپنے بیٹے کو ولادت کو لوگوں سے اس لئے مخفی رکھا تا کہ لوگ شک و حیرت میں مبتلا رہیں اور گمراہ ہوجائیں ؟

ہوشیار : جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ، مہدی موعود کی داستان صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے پیش نظر رہی ہے _ پیغمبر (ص) کی جو احادیث اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور وہ تائیدیں جو ائمہ اطہار نے کیں ہیں وہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھیں _ بادشاہان وقت بھی ان سے بے خبر نہیں تھے _ انہوں نے بھی سنا تھا کہ مہدی موعود نسل فاطمہ (ع) اور اولاد حسین (ع) سے ہوگا، ظالموں کی حکومتوں کو برباد کرے گا اور مشرق و مغرب پراس کی حکومت ہوگی _ ظالموں کو تہ تیغ کرے گا _ اس لئے وہ مہدی موعود کی و لادت سے خوف زدہ تھے _ وہ اپنی سلطنت سے احتمال خطرہ کو دفع کرنا چاہتے تھے _ اسی وجہ سے وہ بنی ہاشم خصوصاً امام حسن عسکری (ع) کے گھر پر کڑی نظر رکھتے تھے اور خفیہ و ظاہری افراد کو تعینات رکھتے تھے _

معتمد عباسی نے چند قابلہ عورتوں کو مخفی طور پر اس کام پر معین کیا تھا وہ گاہ بگاہ بنی ہاشم خصوصاً امام حسن عسکری کے گھر جائیں اور حالات کی رپورٹ پیش کریں _ جب اس کو امام حسن عسکری کی بیماری کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے خاص افراد کو اس کام پر __

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴_

۱۳۴

مامور کیا کہ وہ رات دن امام کے گھر پر نظر رکھیں _ اور جب امام کی وفات کی خبر سنی تو ایک جماعت کو امام (ع) کے فرزند کو تلاش کرنے پر مامور کیا اور آپ کے گھر کی تلاشی کا حکم دیا _ اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ماہر دائیوں کو بھیجا تا کہ امام کی کنیزوں کا معائینہ کریں اور اگر ان میں سے کسی کو حاملہ پائیں تو اسی قید کرلیں _

ان عورتوں کو ایک کنیز پر شک ہوگیا ، انہوں نے اس کی رپورٹ دی خلیفہ نے کنیز کو ایک حجرے میں قید کردیا اور نحریر خادم کو اس کی نگرانی پر مامور کردیا اور جب تک اس کے حمل سے مایوس نہیں ہوا ، اس وقت تک آزاد نہیںکیا _ صرف امام حسن عسکری کی خانہ تلاشی پر اکتفا کی بلکہ جب دفن سے فارغ ہوا تو حکم دیا کہ شہر کے تمام گھروں کی تلاشی لی جائے _(۱)

اب تو اس بات کی تصدیق فرمائیں کہ ان خطرناک حالات میں امام حسن عسکری کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے بیٹے کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھیں تا کہ وہ دشمنوں کے شہر سے محفوظ رہیں _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار نے بھی ایسی حالات کے بارے میں خبر دی تھی ولادت کے مخفی رہنے والے موضوع کو وہ پہلے سے جانتے تھے _

پھر یہ عجیب و غریب داستان ایسی نہیں ہے کہ جس کا تاریخ میں سابقہ ہی نہ ہو _ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں _ مثلاً جب فرعون کو یہ خبر ہوئی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کی حکومت کو تباہ کرے گا تو فرعون نے خطرہ کو رفع

____________________

۱_ اصول کافی باب مولاابی الحسن بن علی ، ارشاد مفید ، اعلا م الوری طبرسی ، کشف الغمہ باب الامام الھادی عشر

۱۳۵

کرنے کیلئے کچھ جاسوس مقرر کئے کہ وہ حاملہ عورتوں پر نظر رکھیں اگر لڑکا پیدا ہوتو اسے قتل کردیں اور لڑکی ہو تو اسے قید خانے میں ڈال دیں _ چنانچہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے فرعون نے سیکڑویں معصوم بچوں کو قتل کرادیا _ لیکن ان مظالم کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا ، خدا نے موسی کے حمل اور ولادت کو پوشیدہ رکھا تا کہ اپنے ارادہ کو پورا کردے _

امام حسن عسکری نے خطرناک حالات کے باوجود لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے بعض معتمد اصحاب کو اپنا بیٹا دکھا بیٹا دکھا دیا تھا اور ثقہ افراد کو اپنے بیٹے کی ولادت کی خبر دی تھی لیکن اس بات کی بھی تاکید کی تھی کہ اس موضوع کو دشمنوں سے مخفی رکھنا یہاں تک ان کا نام بھی نہ لینا _

۱۳۶

صاحب الامر (عج) کی مادر گرامی

جلالی : صاحب الامر کی مادر گرامی کا کیا نام ہے ؟

ہوشیار: آپ کی مادرگرامی کے متعدد نام بیان کئے گئے ہیں ، جیسے : نرجس ، صیقل ، ریحانہ ، سوسن ، خمط ، حکیمہ ، مریم درج ذیل دو نکات پر توجہ فرمائیں تو مذکورہ اختلاف کا سبب معلوم ہوجائے گا _

الف : امام حسن عسکری (ع) کی مختلف نام کی متعدد کنیزیں تھیں _ کنیزوں کے تعدد والے موضوع کو حکیمہ خاتون نے دو موقعوں پر بیان کیا ہے _

ایک جگہ حکیمہ خاتون کہتی ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری کی خدمت میں پہنچی تو دیکھا آپ (ع) صحن میں تشریف فرماہیں اور کنیزیں آپ کے چاروں طرف جمع ہیں میں نے عرض کی _ میں آپ کے قربان آپ کے جانشین کس کنیز سے پیدا ہوں گے فرمایا : سوسن سے ''_(۱)

دوسری جگہ حکیمہ خاتون فرماتی ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر گئی تھی _ جب میں نے واپسی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا : ہمارے ہی گھر افطار کیجئے کیونکہ

____________________

۱_ بحار الانوار جلد ۵۱ ص ۱۷_

۱۳۷

آج کی رات خدا مجھے بیٹا عطا کرے گا _ میں نے عرض کی : کس کنیز سے ؟ فرمایا نرجس سے _ عرض کی مولا : میں بھی نرجس کو تمام کنیزوں سے زیادہ چاہتی ہوں _(۱)

ان دو حدیثوں اور دیگر احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں متعدد کنیزیں تھیں _

ب_ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکاہوں کہ فرزند حسن عسکری نے خطرناک اور وحشت ناک ماحول میں ولادت پائی ہے _ کیونکہ خلفائے بنی عباس بلکہ بعض بنی ہاشم نے بھی یہ احساس کرلیا تھا کہ مہدی یعنی ظالم و ستمگروں سے جہاد کرنے والے کی ولادت کا وقت قریب ہے _ اس لئے انہوں نے اپنے خفیہ اور آشکار کارندوں کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ امام حسن عسکری بلکہ تمام علویوں کے گھروں کی مکمل طور پر نگرانی رکھیں _ بنی عباس کی اس مشینری کی پوری کوشش یہ تھی کہ ان گھروں سے ایک نوزاد بچہ تلاش کرکے خلیفہ کی خدمت میں پیش کردے _

ان دو مقدموں کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہ مقدر ہوگیا تھا کہ ایسے خوفناک حالات اور ایسے مرکز توجہ گھر میں امام حسن عسکری (ع) کا بیٹا پیدا ہو اور اسکی جان خطرہ سے محفوظ رہے _ اس لئے تمام پیش بندیاں کی گئی تھیں _ اولاً جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے آپ کی والدہ میں حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے _ ثانیاً: امام حسن عسکری (ع) نے احتیاط کی رعایت کے تحت کسی کو ان کی مادر گرامی کا نام نہیں بتایا _ ثالثاً: ولادت کے وقت حکیمہ خاتون اور چند کنیزوں کے علاوہ کوئی گھر میں نہیں تھا جبکہ

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۲۵_

۱۳۸

وضع حمل کے وقت عام طور پر دائی اور چند عورتوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے _ کوئی نہیں جانتا تھا کہ امام حسن عسکری نے شادی کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو کس سے _

پندرہ شعبان کی شب میں نہایت خفیہ اور پنہاں، ترس و خوف کے ماحول میں امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا پیدا ہوا ، اس گھر میں جہاں متعدد کنیزیں موجود تھیں لیکن کسی میں بھی حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے اور وضع حمل کے وقت حکیمہ خاتون کے علاوہ وہاں کوئی اور موجود نہ تھا اور کوئی قضیہ کے اظہار کی جرائت نہیں رکھتا تھا _

ایک زمانہ تک یہ موضوع سربستہ راز و مخفی رہا بعد میں خاص اصحاب کے درمیان شروع ہوا بعض کہتے تھے خدا نے امام حسن عسکری کو ایک فرزند عطا کیا ہے اور بعض انکار کرتے تھے _ چونکہ کنیزیں یکساں تھیں کسی میں حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے اس لئے امام مہد ی کی مادر گرامی کے بارے میں اختلاف ناگزیر تھا ، بعض کہتے تھے ان کی والد صیقل ہیں _ بعض کہتے تھے سوسن ہیں اور بعض ریحانہ کو آپ کی والدہ قرار دیتے تھے اور کچھ ان کے علاوہ کسی اور کے قائل تھے _ حقیقت حال سے کوئی واقف نہ تھا اور جو معدود افراد واقف بھی تھے انھیں حقیقت بیان کرنے کی اجازت نہیں تھی _ یہاں تک کہ حکیمہ خاتون بھی، جو کہ آپ ولادت کی گواہ و شاہد تھیں ، احتیاط کی رعایت کی وجہ سے کبھی نرجس کو کبھی سوسن کو آپ کی والدہ بتاتی تھیں _

احمد بن ابراہیم کہتے ہیں : میں ۲۶۲ ھ میں حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پشت پردہ سے ان سے گفتگو کی اور ان کی نظریات معلوم کئے _ انہوں نے اپنے ائمہ کا تعارف کرایا او رآخر میں محمد بن حسن کا نام لیا _ میں نے پوچھا : آپ اس واقعہ کی خودگواہ ہیں یااخبار کی بناپر کہتی ہیں؟ فرمایا: امام حسن عسکری

۱۳۹

نے قضیہ لکھ کر اپنی مادر گرامی کے سپرد کردیا ہے _ میں نے عرض کی اس صورت میں شیعوں کو کس طرف رجوع کرنا چائے ؟فرمایا: امام حسن عسکری (ع) کی والدہ سے _ میں نے کہا : اس وصیت کی روسے ایک عورت کی پیروی ہوگی _ فرمایا : امام حسن عسکری (ع) نے اس وصیت میں اپنے جد امام حسین (ع) بن علی کی پیروی کی ہے کیونکہ آپ نے بھی کربلا میں اپنی بہن زینب (ع) کو اپنا وصی قراردیا تھا اور امام زین العابدین کے علوم کی جانب زینب (ع) کی طرف نسبت دی جاتی ہے _ امام حسین (ع) نے یہ کام اس لئے انجام دیا تھا تا کہ امام زین العابدین (ع) کی امامت کا مسئلہ مخفی رہے _ اس کے بعد حکیمہ نے فرمایا : تم تو اخباری ہو کیا تمہارے پیش نظریہ روایت نہیں ہے کہ حسین کے بیٹے کی میراث تقیسم ہوجائے گی جبکہ وہ زندہ ہے _(۱)

جیسا کہ آپ ملا حظ فرمار ہے ہیں کہ حکیمہ نے اس حدیث میں اور صریح جواب دینے سے احتراز کیا ہے اور بچہ کی داستان کی امام حسن عسکری کی والدہ کی طرف نسبت دی ہے یا وہ مخاطب سے ڈرتی اور ان سے حقیقت کو چھپا تی ہیںیا موضوع کو جان بوجھ کر مبہم رکھنا میں جبکہ یہی حکیمہ خاتون دوسری جگہ امام حسن عسکری کے نرجس سے نکاح کو تفضیل سے بیان کرتی ہیں اور مہدی کی ولادت کی داستان کو ، کہ جس کی خود گواہ تھیں ، تفصیل سے بیان کرتی ہیں _ اس کے بعد کہتی میں اب میں آپ کو مستقل طور پر د یکھتی ہوں اور گفتگو بھی کرتی ہوں ( ۲ ) خلاصہ ، صاحب الا مر کی والدہ کے بار ے میں جو اختلاف نظر آتا ہے وہ کوئی

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۷۸

۲ _ کمال الدین ج ۹۹ ص ۱۰۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455