آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181850 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

صقر کہتے ہیں : میں نے علی بن محمد سے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا:

'' میرے بعد میرے بیٹے حسن ( عسکری) امام ہیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھی چکی ہوگی '' _(۱)

ج: اما م حسن عسکری (ع) نے متعدد احادیث میں اس بات کی خبر دی ہے کہ قائم و مہدی میرا بیٹا ہے اور امام و پیغمبر جھوٹ و خطا سے منزہ ہیں ان احادیث میں سے بعض یہ ہیں :

محمد بن عثمان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے:

'' میں امام حسن عسکری کی خدمت میں تھا کہ آپ (ع) سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کہ کہ ان کے آباء و اجداد سے نقل ہوئی ہے کہ تا قیامت زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی اور جو شخص اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے ، وہ جہالت کی موت مرتا ہے _ امام (ع) نے جواب دیا : '' یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح اور حق ہے'' _ عرض کیا گیا : اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کے بعد امام و حجت کوں ہے ؟ فرمایا: '' میرے بیٹے محمد حجّت و امام ہیں اور جوان کے معرفت کے بغیر مرے گا وہ جہالت کی موت مرے گا _ آگاہ ہوجاؤ میرا بیٹا غیبت میں رہے گا ، اس زمانہ میں دنیا والے سرگردان ہوں گے ، باطل پرست ہلا ک ہوں گے اور جو شخص ان کے ظہور کے

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۲۷۵_

۱۲۱

وقت کو معین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے وہ اپنی غیبت کا زمانہ ختم ہوجانے کے بعد قیام کریں گے گویا میں سفید پرچم نجف میں ان کے سر پر لہراتا ہوا دیکھ رہا ہوں _(۱)

د_ امام حسن عسکری (ع) نے اپنے بیٹے کی ولادت کی چند اشخاص کو خوشخبری دی ہے ازباب مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱_ فضل بن شاذان جن کا انتقال حضرت حجت کی ولادت کے بعد اور امام حسن عسکری کی شہادت سے قبل ہوا تھا ،انہوں نے اپنی کتاب غیبت میں محمد بن علی بن حمزہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے امام حسن عسکری سے سنا کہ آپ(ع) فرمارہے تھے :

''۱۵ شعبان (۲۵۵) کی شب میں طلوع فجر کے وقت حجت خدا اور میرا جانشین مختون پیدا ہوا ہے '' _(۲)

۲_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے اما م حسن عسکری (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرما رہے تھے :

''حمد ہے اس خدا کی جس نے میرے مرنے سے قبل ہی مجھے میرا جانشین دکھا دیا ، اخلاق و خلق میں وہ سب سے زیادہ رسول(ص) سے مشابہ ہے ،ایک مدت تک خدا انھیں پردہ غیب میں رکھے گا اس کے بعد انھیں ظاہر کرے گا تا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں '' _(۳)

۳_ احمد بن حسن بن اسحاق قمی نے روایت کیہے کہ جب خلف صالح پیدا ہوئے اس وقت امام حسن (ع) کاخط احمد بن اسحاق کے بدست میرے پاس پہنچا اس میں آپ نے اپنے دست مبارک

____________________

۱_ بحار الانوار ج۵۱ ص ۱۶۰_

۲_ منتخب الاثر طبع اول ص ۳۲۰_

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۶۱_

۱۲۲

سے تحریر کیا تھا کہ:

''ہمارے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے ، اس بات کو مخفی رکھنا کیونکہ میں بھی سوائے اپنے دوستوں کے اور کسی سے بیان نہیں کروں گا ''_(۱)

۴_ اسحاق بن احمد کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''احمد جس چیز کے بارے میں لوگ شک میں مبتلا ہیں اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے عرض کی : ہمارے زن و مرد اور بوڑھے جوان پر تو حق اس وقت آشکار ہوگیا تھا جب آپ (ع) نے خط کے ذریعہ بیٹے کی ولادت کی خوشبخری دی تھی چنانچہ ہم ان کے معتقد ہوگئے ہیں '' _(۲)

۵_ ابوجعفر عمری نے روایت کی ہے کہ جب صاحب الامر پیدا ہوئے اس وقت امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا:

'' ابو عمر کو بلاؤ'' ، جب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: دس ہزار طل(۳) نان اور دس ہزار رطل گوشت خرید کر لاؤ اور بنی ہاشم میں تقسیم کردو اور خلال گوسفند سے میرے بیٹے کا عقیقہ کرو _(۴)

احادیث و اخبار کے اس مجموعہ سے یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں بیٹا تھا_

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۲_

۲_ منتخب الاثر طبع اول ص ۳۴۵_

۳_ یعنی آدھا سیر

۴_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۰_

۱۲۳

امام زمانہ (عج) کو بچپنے میں دیکھا گیا ہے

ڈاکٹر : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے یہاں بیٹا پیدا ہو اور کسی کو اس کی اطلاع نہ ہو؟

پانچ سال گزرجائیں اور کوئی اسے پہچانتا نہ ہو ؟ کیا امام حسن عسکری کی سامرہ میں بودوباش نہیں تھی؟ کیا ان کے گھر کسی کی بھی آمد و رفت نہیں تھی ؟ کیا صرف عثمان بن سعید کے کہنے سے اس چیز کو قبول کیا جا سکتا ہے ؟

ہوشیار: اگر چہ یہ طے تھا کہ امام حسن عسکری (ع) کے بیٹے کو کوئی نہ دیکھنے پائے لیکن پھر بھی بعض قریبی اور قابل اعتماد اشخاص نے انھیں بچپن میں دیکھا ہے اور ان کے وجود کی گواہی دی ہے مثلاً:

۱_ حکیمہ خاتون بنت امام محمد نقی امام حسن عسکری کی پھوپھی ، صاحب الامر کی ولادت کے وقت وہاں موجود تھیں اور انہوں نے اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے _ اس کا خلاصہ یہ ہے : حکیمہ خاتون کہتی ہیں : پندرہ شعبان (۲۲۵) کی شب ، میں امام حسن عسکری کے گھر تھی _ جب میں اپنے گھر واپس آنا چاہتی تھی اس وقت امام حسن عسکری نے فرمایا: پھوپھی جان آج کی رات آپ ہمارے ہی گھر ٹھر جایئےیونکہ آج کی رات ولی خدا اور میرا جانشین پیدا ہوگا _ میں نے دریافت کیا کس کنیز سے ؟ فرمایا : سوسن سے _

۱۲۴

میں نے سوسن کو اچھی طرح سے دیکھا لیکن مجھے حمل کے آثار نظر نہ آئے _ نماز اور افطار کے بعد سوسن کے ساتھ میں ایک کمرے میں سوگئی _ تھوڑی دیر بعد بیدار ہوئی تو امام حسن عسکری کی باتوں کے متعلق سوچنے لگی _ پھر نماز شب میں مشغول ہوئی _ سوسن نے بھی نماز شب ادا کی _ صبح صادق کا وقت قریب آگیا _ لکن وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے مجھے امام حسن عسکری کی باتوں میں شک ہونے لگا تو دوسرے کمرہ سے امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا : پھوپھی جان شک نہ کیجئے میرے بیٹے کی ولادت کا وقت قریب ہے _

اچانک سوسن کی حالت بدل گئی میں نے پوچھا : کیا بات ہے _ فرمایا : شدید درد محسوس ہورہا ہے _ میں وضع حمل کے وسائل فراہم کرنے میں مشغول ہوگئی اور دایہ کے فرائض کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی _

کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ولی خدا پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے اور اسی وقت امام حسن عسکری نے فرمایا : پھوپھی جان میرے بیٹے کو لایئے میں بچہ کو ان کے پاس لے گئی انہوں نے بچہ کو لیا اور اپنی زبان مبارک اس کی آنکھوں پر پھرائی تو بچہ نے آنکھین کھولدیں اس کے بعد نوزاد کے دہان اور کان پر زبان پھرائی اور سر پر ہاتھ پھیراتو بچہ گویا ہوا اور تلاوت قرآن کرنے میں مشغول ہوگیا _ اس کے بعد بچہ مجھے دیدیا اور فرمایا : '' اس کی ماں کے پاس لے جایئے' حکیمہ خاتو ن کہتی ہیں:میں نے بچہ کو اس کی ماں کو دیدیا اور اپنے گھرلوٹ آئی _ تیسرے دن میں پھر امام حسن عسکری کے گھر گئی اور پہلے بچہ کو دیکھنے کی غرض سے سوسن کے کمرہ میں داخل ہوئی لیکن بچہ وہاں نہیں تھا _ اس کے بعد امام حسن عسکری کی خدمت میں پہنچی _ لیکن بچہ کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی تھی ، کہ امام حسن عسکری نے فرمایا: پھوپھی جان میرا بیٹا خدا

۱۲۵

کی پناہ میں غائب ہوگیا ہے _ جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور ہمارے شیعہ ہمارے جانشین کے بارے میں اختلاف کرنے لگیں تو آپ قابل اعتماد شیعوں سے میرے بیٹے کی داستان ولادت بیان کردیجئے گا لیکن اس قضیہ کو مخفی رکھنا چاہئے کیونکہ میرا بیٹا غائب ہوجائے گا _(۱)

۲_ امام حسن عسکری کی خدمت گار نسیم و ماریہ نے روایت کی ہے کہ : جب صاحب الامر نے ولادت پائی تو پہلے وہ دو زانو بیٹھے اور اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف بلند کیا _ اس کے بعد چھینک آئی تو فرمایا : '' الحمد للہ ربّ العالمین''(۲)

۳_ ابوغانم خادم کہتا ہے : امام حسن عسکری (ع) کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا ، تیسرے دن اس بچہ کو آپ نے اپنے اصحاب کو دکھایا اور فرمایا : '' یہ میرا بیٹا میرے بعدتمہارا امام و مولی ہے اور یہی وہ قائم ہے جس کا تم انتظار کروگے اور اس وقت ظہور کرے گا جب زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی اور اسے عدل و انصاف سے پر کرے گا ''(۳)

۴_ ابو علی خیزرانی اس کنیز سے نقل کرتے ہیں جو کہ اما م حسن عسکری نے انھیں بخش دی تھی کہ اس نے کہا : '' صاحب الامر کی ولادت کے وقت میں موجود تھی ، ان کی والدہ کا نام صیقل ہے ''(۴)

____________________

۱_ غیبت شیخ ص ۱۴۱ و ۱۴۲_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۲ ، اثبات الوصیہ ص ۱۹۷_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۱_

۴_ منتخب الاثر ص ۳۴۳_

۱۲۶

۵_ حسن بن حسین علوی کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کی ولادت کی مبارک بادپیش کی _(۱)

۶_ عبداللہ بن عباس علوی کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کی ولادت کی مبارک باد پیش کی _(۲)

۷_ حسن بن منذر کہتے ہیں :'' ایک دن حمزہ بن ابی الفتح میرے پاس آئے اور کہا : مبارک ہو کل رات خدا نے امام حسن عسکری کو فرزند عطا کیا ہے _ لیکن ہمیں اس خبر کے مخفی رکھنے کاحکم دیا ہے _ میں نے نام پوچھا تو فرمایا : ان کا نام محمد ہے _(۳)

۸_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری کی خدمت میں شرفیاب ہوا _ میرا قصد تھا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں کچھ دریافت کروں _ لیکن آپ (ع) ہی نے گفتگور کا آغاز کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق خداوند عالم نے حضرت آدم کی خلقت سے قیامت تک ، زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے ، اور نہ رکھے گا _ اس کے وجود کی برکت سے زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں ، بارش برستی ہے اور زمین کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں _ میں نے عرض کی اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کا جانشین کون ہے ؟ امام گھر میں داخل ہوئے اور ایک تین سالہ بچہ کو لائے جو کہ چو دھویں کے چاند کی مانند تھا اور فرمایا : اے احمد اگر تم خدا اور ائمہ کے نزدیک معزز نہ ہوتے تو میں تمہیں

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۳۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۷۲۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۳۴_

۱۲۷

اپنا بیٹا نہ دکھاتا _ جان لو یہ بچہ رسول کا ہمنام اور ہم کنیت ہے _ یہی زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _(۱)

۹_ معاویہ بن حکیم ، محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان عمری نے روایت کی ہے کہ ہم چالیس آدمی امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں جمع تھے کہ آپ اپنے بیٹے کو لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام اور جانشین ہے _ میرے بعد تمہیں اس کی اطاعت کرنا چاہئے اور اختلاف نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے _ واضح رہے کہ میرے بعد تم اسے نہ دیکھوگے '' _(۲)

۱۰ _ جعفر بن محمد بن مالک نے شیعوں کی ایک جماعت منجملہ علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ بن حکیم اور حسن بن ایوب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ہم لوگ امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں اس لئے جمع ہوئے تھے تا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں معلوم کریں _ اس مجلس میں چالیس اشخاص موجود تھے کہ عثمان بن سعید اٹھے اور عرض کی : یابن رسول اللہ ہم ایک سوال کی غرض سے آئے ہیں _ آپ (ع) نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد فرمایا کوئی شخص مجلس سے باہر نہ جائے ، یہ کہہ کر آپ (ع) تشریف لے گئے اور ایک گنھٹے کے بعد واپس تشریف لائے ، چاند سا بچہ اپنے ساتھ لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام ہے _ اس کی اطاعت کرو _ لیکن اس کے بعد اسے نہ دیکھو گے _(۳)

۱۱_ ابوہارون کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو دیکھا ہے جبکہ آپ کا چہرہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۱۱_

۱۲۸

چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا _(۱)

۱۲_ یعقوب کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ع) کے داہنی طرف پردہ پڑا ہوا ہے _ میں نے عرض کی : مولا صاحب الامر کون ہے ؟ فرمایا : پردہ اٹھاؤ، جب میں نے پردہ اٹھایا تو ایک بچہ ظاہر ہوا جو آپ (ع) کے زانو پر آکر بیٹھ گیا ، امام نے فرمایا یہی تمہارا امام ہے _(۲)

۱۳_ عمرو اہوازی کہتے ہیں : امام عسکری نے مجھے اپنا بیٹا دکھایا اور فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا تمہارا امام ہے _(۳)

۱۴_ خادم فارسی کہتے ہیں : میں امام حسن عسکری (ع) کے دروازے پر تھا کہ گھر سے ایک کنیز نکلی جبکہ اس کے پاس کوئی چیز تھی جس پر کپڑا پڑا تھا امام نے فرمایا: اس سے کپڑا ہٹاؤ، تو کنیز نے ایک حسین و جمیل بچہ دکھایا _ امام نے مجھ سے فرمایا : یہ تمہارا اما م ہے _ خادم فارسی کہتے ہیں : اس کے بعد میں نے اس بچہ کو ہیں دیکھا _(۴)

۱۵_ ابو نصر خادم کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو گہوارہ میں دیکھا ہے _(۵)

۱۶_ ابو علی بن مطہر کہتے ہیں : میں نے حسن عسکری کے فرزند کو دیکھا ہے _(۶)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۰_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۵_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۶_

۴_ ینابیع المودة باب ۸۲_

۵_ اثبات الہداة جلد ۷ ص ۳۴۴، اثبات الوصیہ ص ۱۹۸_

۶_ ینابیع المودہ باب ۸۲_

۱۲۹

۱۷_ کامل بن ابرایہم کہتے ہیں :'' میں نے صاحب الامر کو امام حسن عسکری کے گھڑ میں دیکھا ہے : چار سال کے تھے اور چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا ، میری مشکلوں کو میرے سوال کرنے سے پہلے ہی حل کیا تھا _(۱)

۱۸_ سعد بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے صاحب الامر کو دیکھا ہے آپ کا چہرہ چاند کے ٹکڑے کی مانند تھا _(۲)

۱۹_ حمزہ بن نصیر ، غلام ابی الحسن (ع) نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب صاحب الامر پیدا ہوئے تو آپ کے گھر میں رہنے والے افراد نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی _ جب کچھ بڑے ہوئے تو مجھے حکم ملا کہ روزانہ نلی کی ہڈی گوشت سمیت خرید کر لاؤ اور فرمایا یہ تمہارے چھوٹے مولا کے لئے ہے _(۳)

۲۰_ ابراہیم بن محمد کہتے ہیں : ایک روز میں حاکم کے دڑسے فرار کرنا چاہتا تھا لہذا وداع کی غرض سے امام حسن عسکری کے گھر گیا تو آپ کے پاس ایک حسین بچہ کو دیکھا ، عرض کی فرزند رسول یہ کس کا بچہ ہے ؟ فرمایا: یہ میرا بیٹا اور جانشین ہے _(۴)

یہ لوگ امام حسن عسکری کے معتمد ثقہ اور اصحاب و خدام ہیں کہ جنہوں نے بچپنے

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۲۳ ، ینابیع المودہ باب ۸۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۷۸ و ص ۸۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸ ، اثبات الوصیہ ص ۱۹۷_

۴_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۵۶_ ولادت صاحب الامر کے سلسلہ میں تفصیل کے شائقین ، علامہ محقق سید ہاشم بحرانی کی کتاب، تبصرة الولی فیمن را ی المہدی اور بحار الانوار ج ۵۱ باب ۱ ج ۵۲ باب ۱۷ و ۱۹ ملاحظہ فرمائیں _

۱۳۰

میں آپ کے لخت جگر کو دیکھا ہے اور اس کے وجود کی گواہی دی ہے _ جب ہم اس گواہی کے ساتھ پیغمبر اور ائمہ کی احادیث کو ضمیمہ کرتے ہیں تو امام حسن عسکری کے بیٹے کے وجود کا یقین حاصل ہوجاتا ہے _

وصیت میں ذکر کیوں نہیں ہے ؟

انجینئر : کہتے ہیں کہ امام حسن عسکری نے مرتے دم اپنی مادر گرامی کو اپنا وصی قرار دیا تھا تا کہ ان کے امور کی نگرانی کریں اور یہ بات قضات وقت کے نزدیک ثابت ہوچکی ہے لیکن آ پ(ع) نے کسی بیٹے کا نام نہیں لیا ہے اور انتقال کے بعد آپ کا مال آپ کی والد ہ اور بھائی کے درمیان تقسیم ہوا _(۱) اگر کوئی بیٹا ہوتا تو اپنی وصیت کے ضمن میں اس کا نام بھی درج کرتے تا کہ میراث سے محروم نہ رہے _

ہوشیار: امام حسن عسکری نے عمداً وصیت میں اپنے بیٹے کا نام ذکر نہیں کیا تھا تا کہ بادشاہ وقت کی طرف سے یقینی خطرات سے انھیں نجات دلائیں _ اس سلسے میں آپ بہت زیادہ محتاط رہے اور اپنے بیٹے کی ولادت کی خبرکے طشت از بام ہونے سے اس قدر خوف زدہ رہتے کہ کبھی تو اپنے خاص اصحاب سے بھی اسے چھپاتے اور اس موضوع کو مبہم بنادیتے تھے_

ابراہیم ابن ادریس کہتے ہیں :

'' امام حسن عسکری (ع) نے میرے پاس ایک گوسفند بھیجی اور کہلوایا : اس گوسفند

____________________

۱_ اصول کافی باب مولا ابی محمد الحسن بن علی _

۱۳۱

سے میرے بیٹے کا عقیقہ کردو اور اپنے خاندان کے ساتھ کھاؤ_ میں نے حکم کی تعمیل کی لیکن جب میں آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا ہمارا بچہ دنیا سے چلا گیا _ ایک مرتبہ پھر دو گوسفند کے ساتھ ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون یہ تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم _ ان دو گوسفندوں سے اپنے مولا کا عقیقہ کرو اور اپنے عزیزوں کے ساتھ کھاؤ، میں نے حکم تعمیل کی _ لیکن جب میں حاضر خدمت ہوا تو مجھ سے کچھ نہ فرمایا '' _(۱)

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے بھی اپنی وصیت میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا _ آپ نے پانچ اشخاص ، خلیفہ وقت منصور عباسی ، محمد بن سلیمان مدینہ کے گور نر کا بیٹا ، اپنے دو بیٹے عبداللہ و موسی (ع) اور موسی (ع) کی مادرگرامی حمیدہ کو اپنا وصی مقرر کیا تھا _(۳)

امام صادق (ع) نے اپنے اس عمل سے اپنے فرزند موسی کو یقینی خطر ے سے نجات عطا کی _ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اگر موسی کاظم کی امامت و وصایت خلیفہ پر ثابت ہوگئی تو وہ ان کے قتل کے درپے ہوجائے _ چنانچہ امام کا خیال صحیح ثابت ہوا اور خلیفہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اگر امام صادق کا کوئی معین وصی ہے تو اسے قتل کردو_

دوسرے کیوں خبر دار نہ ہوئے ؟

فہیمی : اگر کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اور دوست و

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۲۲ اثبات الہداة ج ۷ ص ۷۸ اثبات الوصیہ ص ۱۹۸

۲_ اصول کافی باب الاشارہ و النص علی ابی الحسن موسی

۱۳۲

ہمسایوں کو اس کی اطلاع ضروری ہوتی ہے اور ولادت کے موضوع میںکوئی اختلاف نہیں ہوتا _ یہ بات کیونکر قبول کی جا سکتی ہے کہ امام حسن عسکری ، جو کہ شیعوں کے نزیدک معزز تھے ، کے یہاں بیٹا پیدا ہوا لیکن لوگ اسی سے اتنے ہی بے خبر رہے کہ اصل موضوع ہی میں شک و اختلاف میں پڑگئے :

ہوشیار: عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے لیکن معمول کے خلاف امام حسن عسکرے نے پہلے ہے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا ، بلکہ پیغمبر اور ائمہ اطہار کے زمانہ سے یہی مقدر تھا کہ امام مہدی کی ولادت کو مخفی رکھا جائے چنانچہ آپ (ع) کی خفیہ ولادت کو آپ کی علامت شمار کیا جاتا تھا مثلاً _

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا:

'' ہمارے قائم کی ولادت لوگوں سے پوشیدہ رہے گی ، یہاں تک کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ _ پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں ، اور یہ اس لئے ہے کہ جب آپ (ع) ظہور فرمائیں اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''(۱)

عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے امام محمد(ع) باقر کی خدمت میں عرض کی عراق میں آپ کے شیعہ بہت ہیں خدا کی قسم آپ جیسی حیثیت کسی کی نہیں ہے آپ خروج کیوں نہیں کرتے ؟ فرمایا:

'' عبداللہ تم فضول باتوں میں آگئے ہو خدا کی قسم میں صاحب الامر نہیں ہوں جس کا روایات میں ذکر ہے''_ میں نے عرض کی : صاحب الامر کون ہے ؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۱۳۳

فرمایا:

'' ایسے شخص کے انتظار میں زندگی بسر کرو جس کی ولادت مخفی رہے گی _ وہی تمہارا مولا ہے ''_(۱)

فہیمی : امام حسن عسکر ی (ع) نے اپنے بیٹے کو ولادت کو لوگوں سے اس لئے مخفی رکھا تا کہ لوگ شک و حیرت میں مبتلا رہیں اور گمراہ ہوجائیں ؟

ہوشیار : جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ، مہدی موعود کی داستان صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے پیش نظر رہی ہے _ پیغمبر (ص) کی جو احادیث اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور وہ تائیدیں جو ائمہ اطہار نے کیں ہیں وہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھیں _ بادشاہان وقت بھی ان سے بے خبر نہیں تھے _ انہوں نے بھی سنا تھا کہ مہدی موعود نسل فاطمہ (ع) اور اولاد حسین (ع) سے ہوگا، ظالموں کی حکومتوں کو برباد کرے گا اور مشرق و مغرب پراس کی حکومت ہوگی _ ظالموں کو تہ تیغ کرے گا _ اس لئے وہ مہدی موعود کی و لادت سے خوف زدہ تھے _ وہ اپنی سلطنت سے احتمال خطرہ کو دفع کرنا چاہتے تھے _ اسی وجہ سے وہ بنی ہاشم خصوصاً امام حسن عسکری (ع) کے گھر پر کڑی نظر رکھتے تھے اور خفیہ و ظاہری افراد کو تعینات رکھتے تھے _

معتمد عباسی نے چند قابلہ عورتوں کو مخفی طور پر اس کام پر معین کیا تھا وہ گاہ بگاہ بنی ہاشم خصوصاً امام حسن عسکری کے گھر جائیں اور حالات کی رپورٹ پیش کریں _ جب اس کو امام حسن عسکری کی بیماری کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے خاص افراد کو اس کام پر __

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴_

۱۳۴

مامور کیا کہ وہ رات دن امام کے گھر پر نظر رکھیں _ اور جب امام کی وفات کی خبر سنی تو ایک جماعت کو امام (ع) کے فرزند کو تلاش کرنے پر مامور کیا اور آپ کے گھر کی تلاشی کا حکم دیا _ اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ماہر دائیوں کو بھیجا تا کہ امام کی کنیزوں کا معائینہ کریں اور اگر ان میں سے کسی کو حاملہ پائیں تو اسی قید کرلیں _

ان عورتوں کو ایک کنیز پر شک ہوگیا ، انہوں نے اس کی رپورٹ دی خلیفہ نے کنیز کو ایک حجرے میں قید کردیا اور نحریر خادم کو اس کی نگرانی پر مامور کردیا اور جب تک اس کے حمل سے مایوس نہیں ہوا ، اس وقت تک آزاد نہیںکیا _ صرف امام حسن عسکری کی خانہ تلاشی پر اکتفا کی بلکہ جب دفن سے فارغ ہوا تو حکم دیا کہ شہر کے تمام گھروں کی تلاشی لی جائے _(۱)

اب تو اس بات کی تصدیق فرمائیں کہ ان خطرناک حالات میں امام حسن عسکری کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے بیٹے کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھیں تا کہ وہ دشمنوں کے شہر سے محفوظ رہیں _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار نے بھی ایسی حالات کے بارے میں خبر دی تھی ولادت کے مخفی رہنے والے موضوع کو وہ پہلے سے جانتے تھے _

پھر یہ عجیب و غریب داستان ایسی نہیں ہے کہ جس کا تاریخ میں سابقہ ہی نہ ہو _ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں _ مثلاً جب فرعون کو یہ خبر ہوئی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کی حکومت کو تباہ کرے گا تو فرعون نے خطرہ کو رفع

____________________

۱_ اصول کافی باب مولاابی الحسن بن علی ، ارشاد مفید ، اعلا م الوری طبرسی ، کشف الغمہ باب الامام الھادی عشر

۱۳۵

کرنے کیلئے کچھ جاسوس مقرر کئے کہ وہ حاملہ عورتوں پر نظر رکھیں اگر لڑکا پیدا ہوتو اسے قتل کردیں اور لڑکی ہو تو اسے قید خانے میں ڈال دیں _ چنانچہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے فرعون نے سیکڑویں معصوم بچوں کو قتل کرادیا _ لیکن ان مظالم کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا ، خدا نے موسی کے حمل اور ولادت کو پوشیدہ رکھا تا کہ اپنے ارادہ کو پورا کردے _

امام حسن عسکری نے خطرناک حالات کے باوجود لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے بعض معتمد اصحاب کو اپنا بیٹا دکھا بیٹا دکھا دیا تھا اور ثقہ افراد کو اپنے بیٹے کی ولادت کی خبر دی تھی لیکن اس بات کی بھی تاکید کی تھی کہ اس موضوع کو دشمنوں سے مخفی رکھنا یہاں تک ان کا نام بھی نہ لینا _

۱۳۶

صاحب الامر (عج) کی مادر گرامی

جلالی : صاحب الامر کی مادر گرامی کا کیا نام ہے ؟

ہوشیار: آپ کی مادرگرامی کے متعدد نام بیان کئے گئے ہیں ، جیسے : نرجس ، صیقل ، ریحانہ ، سوسن ، خمط ، حکیمہ ، مریم درج ذیل دو نکات پر توجہ فرمائیں تو مذکورہ اختلاف کا سبب معلوم ہوجائے گا _

الف : امام حسن عسکری (ع) کی مختلف نام کی متعدد کنیزیں تھیں _ کنیزوں کے تعدد والے موضوع کو حکیمہ خاتون نے دو موقعوں پر بیان کیا ہے _

ایک جگہ حکیمہ خاتون کہتی ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری کی خدمت میں پہنچی تو دیکھا آپ (ع) صحن میں تشریف فرماہیں اور کنیزیں آپ کے چاروں طرف جمع ہیں میں نے عرض کی _ میں آپ کے قربان آپ کے جانشین کس کنیز سے پیدا ہوں گے فرمایا : سوسن سے ''_(۱)

دوسری جگہ حکیمہ خاتون فرماتی ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر گئی تھی _ جب میں نے واپسی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا : ہمارے ہی گھر افطار کیجئے کیونکہ

____________________

۱_ بحار الانوار جلد ۵۱ ص ۱۷_

۱۳۷

آج کی رات خدا مجھے بیٹا عطا کرے گا _ میں نے عرض کی : کس کنیز سے ؟ فرمایا نرجس سے _ عرض کی مولا : میں بھی نرجس کو تمام کنیزوں سے زیادہ چاہتی ہوں _(۱)

ان دو حدیثوں اور دیگر احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں متعدد کنیزیں تھیں _

ب_ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکاہوں کہ فرزند حسن عسکری نے خطرناک اور وحشت ناک ماحول میں ولادت پائی ہے _ کیونکہ خلفائے بنی عباس بلکہ بعض بنی ہاشم نے بھی یہ احساس کرلیا تھا کہ مہدی یعنی ظالم و ستمگروں سے جہاد کرنے والے کی ولادت کا وقت قریب ہے _ اس لئے انہوں نے اپنے خفیہ اور آشکار کارندوں کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ امام حسن عسکری بلکہ تمام علویوں کے گھروں کی مکمل طور پر نگرانی رکھیں _ بنی عباس کی اس مشینری کی پوری کوشش یہ تھی کہ ان گھروں سے ایک نوزاد بچہ تلاش کرکے خلیفہ کی خدمت میں پیش کردے _

ان دو مقدموں کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہ مقدر ہوگیا تھا کہ ایسے خوفناک حالات اور ایسے مرکز توجہ گھر میں امام حسن عسکری (ع) کا بیٹا پیدا ہو اور اسکی جان خطرہ سے محفوظ رہے _ اس لئے تمام پیش بندیاں کی گئی تھیں _ اولاً جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے آپ کی والدہ میں حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے _ ثانیاً: امام حسن عسکری (ع) نے احتیاط کی رعایت کے تحت کسی کو ان کی مادر گرامی کا نام نہیں بتایا _ ثالثاً: ولادت کے وقت حکیمہ خاتون اور چند کنیزوں کے علاوہ کوئی گھر میں نہیں تھا جبکہ

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۲۵_

۱۳۸

وضع حمل کے وقت عام طور پر دائی اور چند عورتوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے _ کوئی نہیں جانتا تھا کہ امام حسن عسکری نے شادی کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو کس سے _

پندرہ شعبان کی شب میں نہایت خفیہ اور پنہاں، ترس و خوف کے ماحول میں امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا پیدا ہوا ، اس گھر میں جہاں متعدد کنیزیں موجود تھیں لیکن کسی میں بھی حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے اور وضع حمل کے وقت حکیمہ خاتون کے علاوہ وہاں کوئی اور موجود نہ تھا اور کوئی قضیہ کے اظہار کی جرائت نہیں رکھتا تھا _

ایک زمانہ تک یہ موضوع سربستہ راز و مخفی رہا بعد میں خاص اصحاب کے درمیان شروع ہوا بعض کہتے تھے خدا نے امام حسن عسکری کو ایک فرزند عطا کیا ہے اور بعض انکار کرتے تھے _ چونکہ کنیزیں یکساں تھیں کسی میں حمل کے آثار ظاہر نہیں تھے اس لئے امام مہد ی کی مادر گرامی کے بارے میں اختلاف ناگزیر تھا ، بعض کہتے تھے ان کی والد صیقل ہیں _ بعض کہتے تھے سوسن ہیں اور بعض ریحانہ کو آپ کی والدہ قرار دیتے تھے اور کچھ ان کے علاوہ کسی اور کے قائل تھے _ حقیقت حال سے کوئی واقف نہ تھا اور جو معدود افراد واقف بھی تھے انھیں حقیقت بیان کرنے کی اجازت نہیں تھی _ یہاں تک کہ حکیمہ خاتون بھی، جو کہ آپ ولادت کی گواہ و شاہد تھیں ، احتیاط کی رعایت کی وجہ سے کبھی نرجس کو کبھی سوسن کو آپ کی والدہ بتاتی تھیں _

احمد بن ابراہیم کہتے ہیں : میں ۲۶۲ ھ میں حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پشت پردہ سے ان سے گفتگو کی اور ان کی نظریات معلوم کئے _ انہوں نے اپنے ائمہ کا تعارف کرایا او رآخر میں محمد بن حسن کا نام لیا _ میں نے پوچھا : آپ اس واقعہ کی خودگواہ ہیں یااخبار کی بناپر کہتی ہیں؟ فرمایا: امام حسن عسکری

۱۳۹

نے قضیہ لکھ کر اپنی مادر گرامی کے سپرد کردیا ہے _ میں نے عرض کی اس صورت میں شیعوں کو کس طرف رجوع کرنا چائے ؟فرمایا: امام حسن عسکری (ع) کی والدہ سے _ میں نے کہا : اس وصیت کی روسے ایک عورت کی پیروی ہوگی _ فرمایا : امام حسن عسکری (ع) نے اس وصیت میں اپنے جد امام حسین (ع) بن علی کی پیروی کی ہے کیونکہ آپ نے بھی کربلا میں اپنی بہن زینب (ع) کو اپنا وصی قراردیا تھا اور امام زین العابدین کے علوم کی جانب زینب (ع) کی طرف نسبت دی جاتی ہے _ امام حسین (ع) نے یہ کام اس لئے انجام دیا تھا تا کہ امام زین العابدین (ع) کی امامت کا مسئلہ مخفی رہے _ اس کے بعد حکیمہ نے فرمایا : تم تو اخباری ہو کیا تمہارے پیش نظریہ روایت نہیں ہے کہ حسین کے بیٹے کی میراث تقیسم ہوجائے گی جبکہ وہ زندہ ہے _(۱)

جیسا کہ آپ ملا حظ فرمار ہے ہیں کہ حکیمہ نے اس حدیث میں اور صریح جواب دینے سے احتراز کیا ہے اور بچہ کی داستان کی امام حسن عسکری کی والدہ کی طرف نسبت دی ہے یا وہ مخاطب سے ڈرتی اور ان سے حقیقت کو چھپا تی ہیںیا موضوع کو جان بوجھ کر مبہم رکھنا میں جبکہ یہی حکیمہ خاتون دوسری جگہ امام حسن عسکری کے نرجس سے نکاح کو تفضیل سے بیان کرتی ہیں اور مہدی کی ولادت کی داستان کو ، کہ جس کی خود گواہ تھیں ، تفصیل سے بیان کرتی ہیں _ اس کے بعد کہتی میں اب میں آپ کو مستقل طور پر د یکھتی ہوں اور گفتگو بھی کرتی ہوں ( ۲ ) خلاصہ ، صاحب الا مر کی والدہ کے بار ے میں جو اختلاف نظر آتا ہے وہ کوئی

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۷۸

۲ _ کمال الدین ج ۹۹ ص ۱۰۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہوجائیں _(۱)

اگر امام حسن عسکر ی کی رحلت کے بعد ہی مکمل غیت واقع ہوجاتی تو امام زمانہ کے مقدس وجود ہی سے لوگ غافل رہتے اور رفتہ رفتہ فراموش کردیتے _ اس لئے غیبت صغری سے ابتداء ہوئی تا کہ شیعہ اس زمانہ میں اپنے امام سے نائبوں کے ذریعہ رابطہ کریں اور ان کی علامتوں اور کرامات کو مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کی تکمیل کریں جب خیالات مساعد اور کامل آمادگی ہوگئی تو غیبت کبری کا آغاز ہوا _

کیا غیبت کبری کی انتہا ہے؟

انجینئر: کیا غیبت کبری کی کوئی حد معین ہے؟

ہوشیار : کوئی حد تو معین نہیں ہے _ لیکن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

امیر المؤمنین نے حضرت قائم کے بارے میں فرمایا:

'' ان کی غیبت اتنی طویل ہوگی کہ جاہل کہے گا : خد ا کو رسول (ص) کے اہل بیت کی احتیاج نہیںہے ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۲۰۶_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۹۳_

۱۸۱

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''قائم (ع) میں جناب نوح (ع) کی ایک خصوصیت پائی جائیگی اور وہ ہے طول عمر ''(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۲۱۷_

۱۸۲

فلسفہ غیبت

انجینئر: اگر امام ظاہر ہوتے اور لوگ ضرورت کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر اپنی مشکلیں حل کرتے تو یہ ان کے دین اور دنیا کیلئے بہتر ہوتا _ پس غیبت کیوں اختیار کی؟

ہوشیار: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مانع نہ ہوتا تو آپ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر تھا _ لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و اقع کے مطابق ہوتے ہیں _ لہذا امام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ہوگی _ اگر چہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے ، درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیاہے ، صرف ائمہ اطہار علیہم السلام کو معلوم ہے _

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر کیلئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں گے'' _ میں نے عرض کی ، کیوں ؟ فرمایا: ''ہمیں اس کی علّت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے'' _ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ وہی فلسفہ جو گزشتہ

۱۸۳

حجت خدا کی غیبت میں تھا _ لیکن اس کی حکمت ظہور کے بعد معلوم ہوگی _ بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر(ع) کی کشتی میں سوراخ ، بچہ کے قتل اور دیوار کو تعمیر کرنے کی جناب موسی کو جدا ہوتے وقت معلو م ہوئی تھی _ اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع سرّ ی ہے _ یہ خدا کے اسرار اور الہی غیوب میں سے ایک ہے _ چونکہ ہم خدا کو حکیم تسلیم کرتے ہیں _ اس لئے اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے امور حکمت کی روسے انجام پاتے ہیں _ اگر چہ اسکی تفصیل ہم نہیں جانتے ''_(۱)

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی علت و سبب اسلئے بیان نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو بتانے میں صلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے _

فائدہ اول: امتحان و آزمائشے _ تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہیں ہے انکی باطنی حالت ظاہر ہوجائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں ، غیبت پر ایمان ، انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں ، امام موسی کاظم فرماتے ہیں :

'' ساتویں امام کے جب پانچویں بیٹے غائب ہوجائیں ، اس وقت تم اپنے دین کی حفاظت کرنا _ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کردے _ اے میرے چھوٹے بیٹے صاحب الامر کے لئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ جسمیں

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۹۱_

۱۸۴

مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہوجائے گا _ خدا امام زمانہ کی غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لے گا _(۱)

دوسرا فائدہ : غیبت کے ذریعہ ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے _ حسن بہ فضال کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

''گویا میں اپنے تیسرے بیٹے (امام حسن عسکری(ع) ) کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام کو ہر جگہ تلاش کررہے ہیں لیکن نہیں پارہے ہیں'' میں نے عرض کی : فرزند رسول کیوں؟ فرمایا:'' ان کے امام غائب ہوجائیں گے'' عرض کی : کیوں غائب ہوں گے ؟ فرمایا: '' تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''_(۲)

تیسرا فائدہ : غیبت کی وجہ سے قتل سے نجات پائی _

زرارہ کہتے ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

''قائم کے لئے غیبت ضرور ی ہے '' _ عرض کی کیوں ؟ فرمایا: قتل ہوجانے کا خوف ہے اور اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''_(۳)

مذکورہ تینوں حکمتیں اہل بیت کی احادیث میں منصوص ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۱۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۱۸۵

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو کیا حرج تھا ؟

انجینئر : اگر امام زمانہ لوگوں کے درمیان آشکار طور پر رہتے ، دنیا کے کسی بھی شہر میں زندگی بسر کرتے ، مسلمانوں کی دینی قیادت کی زمام اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور شمشیر کے ساتھ قیام اور کفر کاخاتمہ کرنے کیلئے حالات سازگار ہونے تک ایسے ہی زندگی گزارتے تو کیا حرج تھا؟

ہوشیار : اچھا مفروضہ ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نتائج بر آمد ہوئے _ میں حسب عادت موضوع کی تشریح کرتا ہوں _

پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا یہ بات لوگوں کے گوش گزار کی تھی کہ ظلم وستم کی حکومتیں مہدی موعود کے ہاتھوں تباہ ہوں گی اور بیداد گری کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں کے دو گروہ ہمیشہ امام زمانہ کے وجود مقدس کے منتظر رہے _ ایک مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کا گروہ جو کہ ہمیشہ اکثریت میں رہا ہے _ وہ حمایت و دفاع کے قصد سے امام زمانہ کے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع کا تقاضا کرتے تھے _ یہ ہمیشہ ہوتا تھا کہ ایک بڑا گر وہ آپ کا احاطہ کئے رہتا اور انقلاب کا تقاضا کرتا تھا _

دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں کارہا ہے جس کا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے یہ ذاتی مفاد کے حصول اور اپنے منصب کے تحفظ میں کسی بھی برے سے برے

۱۸۶

کام کو انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور پوری قوم کو اپنے مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتا تھا_ یہ گروہ امام زمانہ کے وجودکو اپنے شوم مقاصد کی راہ میں مانع سمجھتا اور اپنی فرمان روائی کو خطرہ میں دیکھتا تھا تو آپ کا خاتمہ کرکے اس عظیم خطرہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ میں وہ سب متحد ہوگئے تا کہ عدالت و دادخواہی کی جڑیں اس طرح کاٹ دیں کہ پھر سر سبز نہ ہو سکیں _

موت سے دڑ

جلالی : امام زمانہ اگر معاشرہ کی اصلاح ، دین کی ترویج اور مظلوموں سے دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ کیا ان خون ان کے آباء و اجداد کے خون سے زیادہ عزیز ہے ؟ موت سے کیوں دڑتے تھے؟

ہوشیار : دین و حق کی راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد کی طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں _ لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کی صلاح نہیں ہے _ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام کے بعد دوسرا امام اس کا جانشین ہوا ہے لیکن اگر امام زمانہ قتل ہوجائیں تو پھر کوئی جانشین نہیں ہے _ اور زمین حجّت خدا کے وجود سے خالی ہوجائے گی _ جبکہ یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ کے ذریعہ دنیا کی زمام حق پرستوں کے ہاتھوں میں آئے گی _

کیا امام کی حفاظت کرنے پر خدا قادر نہیں ہے؟

جلالی : کیا خدا امام زمانہ کو دشمنوں کے شرسے بچانے اور ان کی حفاظت پر قادر

۱۸۷

نہیں ہے؟

ہوشیار : باوجودیکہ خدا کی قدرت لا محدود ہے لیکن اپنے امور کو وہ اسباب و عادات کے مطابق انجام دیتا ہے _ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ کی حفاظت اور دین کی ترویج میں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت کے خلاف عمل کرے اور اگر ایسا کرے گا تو دنیا اختیار و امتحان کی جگہ نہ رہے گی _

ستمگران کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے

جلالی : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور کفار و ستمگر آپ کو دیکھتے ، آپ کی برحق باتیں سنتے تو ممکن تھا کہ وہ آپ کو قتل نہ کرتے بلکہ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لاتے اور اپنی روش بدل دیتے _

ہوشیار: ہر شخص حق کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء سے آج تک لوگوں کے درمیان ایک گروہ حق و صحت کا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت صرف کی ہے _ کیا انبیاء و ائمہ اطہار حق نہیں کہتے تھے؟ کیا ان کی برحق باتیں اور معجزات ستمگروں کی دست رس میں نہیں تھے؟ اس کے باوجود انہوں نے چراغ ہدایت کو خاموش کرنے کے سلسلے میں کسی کام سے دریغ نہ کیا _ صاحب الامر بھی اگر خوف کے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے _

خاموش رہو تا کہ محفوظ رہو

ڈاکٹر : میرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ کلی طور پر سیاست سے علیحدہ رہتے

۱۸۸

اور کفار و ستمگروں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ، ان کے اعمال کے مقابل سکوت اختیار کرتے اور اپنی دینی و اخلاقی راہنمائی میں مشغول رہتے تو دشمنوں کے شر سے محفوظ رہتے _

ہوشیار : چونکہ ستمگروں نے یہ بات سن رکھی تھی کہ مہدی موعود ان کے دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ کے سکوت پر اکتفا نہ کرتے _ اس کے علاوہ جب مومنین یہ دیکھتے کہ آپ ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں ، ایک دو سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ امام کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تو وہ بھی آہستہ آہستہ دنیا کی اصلاح اور حق کی کامیابی سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اکرم و قرآن مجید کی بشارتوں میں شک کرنے لگتے _ ان تمام چیزوں کے علاوہ مظلوم لوگ آپ کو سکوت کی اجازت نہ دیتے _

عدم تعرض کا معاہدہ

انجینئر : وقت کے ستمگروں سے عدم تعرض کا معاہدہ کرنے کا امکان تھا وہ اس طرح کہ آ پ(ع) ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور چونکہ آپ کی امانت داری و نیک منشی مشہور تھی اس لئے آپ کے معاہدے محترم اور اطمینان بخش ہوتے اور ستمگروں کو بھی آپ سے سروکار نہ ہوتا _

ہوشیار: مہدی موعود کا پروگرام تمام ائمہ اطہار کے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ کو تا حد امکان ترویج دین اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے مامور کیا گیا تھا ، جنگ کے لئے نہیں _ لیکن ابتداء ہی سے یہ مقدر تھا کہ مہدی کی سیرت و رفتار ان سے مختلف ہوگی ، وہ ظلم اور باطل کے مقابلہ میں سکوت نہیں کریں گے اور

۱۸۹

جنگ و جہاد کے ذریعہ ظلم و جور کی بیخ کنی کریں گے اور ستمگروں کے خودسری کی محلوں کو منہدم کریں گے _

ایسی سیرت و رفتار مہدی کی علامتیں اور خصوصیات شمار کی جاتی تھیں_ ہر امام سے کہا جاتاتھا کہ ستمگروں کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ فرماتے تھے : مہدی تلوار سے جنگ کریں گے ، قیام کریں گے جبکہ میرے اندر یہ خصوصیات نہیں ہیں اور ان کی طاقت بةی نہیں ہے _ بعض سے دریافت کیا جاتا تھا: کیا آپ(ع) ہی قائم ہیں؟ فرماتے تھے : میں قائم بر حق ہوں لیکن و ہ قائم نہیں ہوں جو زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کریں گے _ بعض کی خدمت عرض کیا جاتا تھا: ہمیں امید ہے کہ آپ ہی قائم ہیں _فرماتے تھے: میں قائم ہوں لیکن جو قائم زمیں کو کفر و ظلم سے پاک کریں گے وہ اور ہیں _ دنیا کی پریشان حالی ، ابتری ، ظالموں کی ڈکٹیڑی اور مومنین کی محرومیت کی شکایت کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: مہدی کا انقلاب مسلّم ہے _ اسی وقت دنیا کی اصلاح ہوگی اور ظالموں سے انتقام لیا جائے گا _ مومنین کی قلّت اور کافروں کی کثرت و طاقت کی اعتنا کی جاتی تو ائمہ شیعوں کی ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد کی حکومت حتمی اور حق پرستی کی کامیابی یقینی ہے _ صبر کرو اور فرج آل محمد (ص) کے منتظر رہو اور دعا کرو، مومنین اور شیعہ ان خوش خبریوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم کے رنج و غم کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ''_

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مومنین بلکہ بشریت کو جو مہدی سے توقعات ہیں ان کے باوجود آپ وقت کے ستمگروں سے پیمان مودت و دوستی باندھ سکتے تھے؟ اگر آپ ایسا کرتے تو کیا مومنین پر یاس و ناامیدی غالب نہ آجاتی _ کیا وہ آپ پر

۱۹۰

یہ تہمت نہ لگاتے کہ آپ نے ظالموں سے ساز باز کرلی ہے اور آپ کا مقصد اصلاح نہیں ہے ؟

میرے نقطہ نظر سے تو اس کا امکان ہی نہیں تھا او راگر ایسا ہوگیا ہوتا تو مومنین کی قلیل تعداد مایوس و بد ظن ہوکر دین سے خارج اور طریقہ کفر پر گامزن ہوجاتی _

اس کے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستی کا معاہدہ کرلیتے تو مجبوراً اپنے عہد کی پابندی کرنے ، نتیجہ میں کبھی جنگ کا اقدام نہ کرتے ، کیونکہ اسلام نے عہدو پیمان کو محترم قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو ضروری جانا ہے _(۱)

اس وجہ سے احادیث میں تصریح ہوتی ہے ک صاحب الامر کی ولادت کے مخفی رکھنے اور غیبت کا ایک راز یہ ہے کہ ظالموں سے بیعت نہ کر سکیں تا کہ جب چاہیں قیام کریں اور کسی کی بیعت میں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' صاحب الامر کی ولادت کو مخفی رکھا جائے گا تا کہ ظہور کے وقت آپ کسی پیمان کے پابند نہ ہوں ، خدا ایک رات میں ان کے لئے زمین ہموار کریگا ''(۲) _

ان تمام چیزوں کے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع کیلئے خطرہ محسوس کرتے تو وہ اس پیمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ کے قتل کا منصوبہ بتاتے اور زمین کو حجت خدا کے وجود سے خالی کردیتے _

____________________

۱_ مائدہ /۱ و اسراء / ۳۴ و مومنوں/۸

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶

۱۹۱

مخصوص نواب کیوں معین نہ کئے ؟

جلالی: ہم اصل لزوم غیبت کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت کبری میں آپ نے اپنے شعیوں کے لئے غیبت صغری کی مانند نواب کیوں معین نہیں کئے شیعہ ان کے ذریعہ آپ سے رابطہ قائم کر تے اور اپنے مشکلات حل کرتے ؟

ہوشیار : دشمنوں نے نواب حضرت کو بھی اذ یتیں پہنچائی ہیں '، شکنجے دیئےیں تا کہ وہ امام کی قیام گاہ کاپتہ بتادیں انھیں آزاد نہیں چھوڑ اگیا تھا _ _

جلالی : یہ بھی ممکن تھا کہ معین اشخاص کو وکیل منصوب کرتے _ خود کبھی کبھی بعض مومنین کے پاس تشریف لاتے اور شعیوں کے لئے انھیں احکام و پیغام دیتے _

ہوشیار : اس میں بھی صلاح نہیں تھی بلکہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہی لوگ دشمنوں کو امام کے مکان کا پتہ بتاد یتے اور آپ کی اسیری و قتل کے اسباب فراہم کردیتے _

جلالی : خطرہ کا احتمال اس صورت میں تھا کہ جب آپ مجہول الحال شخص کے لئے ظاہر ہوتے لیکن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنین کے لیے ظہور فرماتے تو خطرہ کا با لکل احتمال نہ ہوتا _

ہوشیار : اس مفروضہ کے بھی کئی جواب دیئےاسکتے میں :

ا_ جس شخص کے لئے بھی ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ناچار معجزہ دکھا ناپڑ تا بلکہ ان لوگون کے لئے تو کئی معجزے دکھا نے پڑتے جو آسانی سے کسی بات کو قبول نہیں کرتے _ اسی اثناء میں فریب کار

۱۹۲

اور جادو گر بھی پیدا ہوجاتے جو کہ لوگوں کو فریب دیتے ، امامت کا دعوی کرتے اور سحر و جادو دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے اور معجزہ و جادو میں فرق کرنا ہر ایک کے قبضہ کی بات نہیں ہے ، اس قضسہ سے بھی لوگوں کے لئے بہت سے مفاسد و اشکالات پیدا ہوجا تے _

۲ _ فریب کار بھی اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں کے در میان جاکر امام سے ملاقات کا دعوی کرتے اور اپنے مقصد تک پہنچا نے کیلئے آپ کی طرف خلافت شرع احکام کی نسبت دیتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل کرتا اور اپنے کام کی ترقی تصیح کے لئے کہتا _ میں امام زمانہ کی خدمت میں حاضر ہواتھا _ کل رات غریب خانہ ہی پر تشریف لائے تھے مجھ سے فرمایا ہے _ فلاں کام انجام دو ، فلاں کام کیلئے میری تائید کی سے ، اس میں جو خر ابی اور مفاسد میں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں _

۳ _ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام زمانہ کسی بھی شخص ، یہاں تک صالح لوگوں بھی ملاقات نہیں کرتے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے صالحین و اولیاء خدا آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہوں لیکن انہیں یہ بات بیان کرنے کی اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنی ہی کیفیت سے واقف ہے اسے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے _

۱۹۳

امام غائب کا کیا فائدہ ؟

انجینئر : اگرامام لوگوں کے پیشوا ہیں ، تو انھیں ظاہر ہونا چا ہئے _ غائب امام کے وجود سے کیا فائدہ ہے ؟ جو امام سیکڑوں سال غائب رہے _ دین کی ترویج نہ کرے ، معاشر ے کی مشکوں کو حل نہ کر ے ، مخالفوں کے جواب نہ دے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے ، مظلوموں کی حمایت نہ کرے ، خدا کے احکام وحدود کو نا فذ نہ کرے ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟

ہوشیار :غیبت کے زمانہ میں لوگ آپ کے بیان کردہ فوائد سے اپنے اعمال کی بنا پر محروم ہیں لیکن وجود امام کے فوائد ان ہی میں منحصر نہیں ہیںبلکہ اور بہی فوائد ہین جو کہ غیبت کے زمانہ میں مترتب ہو تے ہیں منجملہ ان کے ذیل کے دو فوائد تہی ہیں:

اول : گزشتہ بحث ، علما کی کتابوںمیں نقل ہونے والی دلیلوں اور موضوع امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام کا مقدس وجود نوع انسان کی غایت ، انسانیت کا فرد کامل اور عالم مادی وعالم ربویت کے در میان رابطہ ہے_اگرروئے زمین پر امام کا وجود نہ ہو گا تو نوع انسان تباہ ہو جائے گی _ اگر امام نہ ہوں گے توصحیح معنوں میں خدا کی معرفت وعبادت نہ ہوگی _ اگر امام نہ ہوں گے تو عالم مادی اور منبع تخلیق کے در میان رابطہ منقطع ہو جائے گا_ امام کے قلب مقدس کی مثال ایک

۱۹۴

ٹرانسفار مر کی سی ہے جو کار خانہ کے ہزاروں بلبوں کو بجلی فراہم کرتاہے_ عوالم غیبی کے اشراقات وافاضات پہلے امام کے پاکیزہ قلب پر اور ان کے وسیلہ سے تمام لوگوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں _ امام عالم وجود کا قلب اور نوع انسانی کے رہبر و مربی ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان فوائد کے ترتیب میں آپ کی غیبت وحضور میں کوئی فرق نہیں ہے _ کیا اس کے با وجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ آپ نے یہ اعتراض اس کی زبان سے کیا ہے جس نے امامت و ولایت کے معنی کی تحقیق نہیں کی ہے اور امام کو صرف مسئلہ بیان کرنے والا تصور کرلیا ہے نہ کہ حدود جاری کرنے والا جبکہ عہدہ امامت وولایت اس سے کہیںبلند وبالاہے_

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''ہم مسلمانوںکے امام ، دنیا پر حجت ،مؤمنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولاہیں ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہیں _ ہماری وجہ سے آمان اپنی جگہ ٹھراہواہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے واسطہ سے باران رحمت نازل کر تا اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتاہے _اگر ہم روئے زمین پر نہ ہو تے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے''پھر فرمایا : '' جس دن سے خدا نے حضرت آدم کو پیدا کیا ہے_ اس دن سے آج تک زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے لیکن حجت خدا کا وجود کبھی ظاہر وآشکار اور کبھی غائب و مخفی رہا ہے_ قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہوگی_ اگر امام نہ ہو گا تو خدا کی عبادت نہ ہوگی_

۱۹۵

سلیمان کہتے ہیں : میں نے عرض کی امام غائب کے وجود سے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے ؟ جیسے ابر میں چھیے ہوئے سورج پہنچتا ہے(۱) _

اس اور دیگر حدیثوں میں صاحب الامر کے مقدس وجود اور ان کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بادل میں چھپ کربھی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے _ وجہ تشبیہ یہ ہے : طبیعی اور فلکیات کے علوم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سورج شمسی نظام کامر کز ہے _ اس کی قوت جاذبہ زمین کی محافظ اور اسے گرنے سے بچاتی ہے ، زمین کو اپنے چاروں طرف گردش دیتی ہے ، دن ، رات اور مختلف فصلوں کو وجود میں لاتی ہے _ اس کی حرارت حیوانات ، نباتات اور انسانوں کی زندگی کا باعث ہے _ اس کا نور زمین کو روشنی بخشتاہے _ ان فوائد کے مترتب ہونے میں سورج کے ظاہر یابادل میں پوشیدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یعنی اس کی قوت جاذبہ حرارت اور نور دونوں صورتوں میں رہتا ہے _ ہاں کم و بیش کا فرق ہوتا ہے _

جب سیاہ گھٹاؤں میں سورج چھپ جاتا ہے یارات ہوجاتی ہے تو جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اب موجودات سورج کی حرارت اور نور میسر نہ ہو تو برف بن کر ہلاک ہوجا ئیں ، سورج ہی کی برکت سے سیاہ گھٹا ئیں چھٹتی ہیں اور اس کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوتا ہے _

امام کا مقدس وجود بھی عالم انسانیت کا قلب اور سورج اور اس کا تکوینی مربی

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۲۱۷

۱۹۶

وہادی ہے ، اور ان فوائد کے ترتب میں آپ کی غیبت و حضور میں اثر انداز نہیں ہے _ حاضرین سے گزارش ہے _ کہ نبوت عامہ اور امامت کے بارے میں ہونے والی بحث کو مد نظر رکھیں اور نہایت سنجیدگی سے ایک مرتبہ اسے دھرالیں ، تا کہ ولایت کے حقیقی معنی تک پہنچ جائیں _ اور امام کے وجود کے، اہم فائدہ کو سمجھ جائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اب بھی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امام غائب کی برکت کا اثر ہے _

لیکن آپ نے جو دوسرے فوائد بیان کئے ہیں اگر چہ غیبت کے زمانہ میں عام لوگ ان سے محروم ہیں لیکن خداوند عالم اور خود امام فیض میں مانع نہیں ہیںبلکہ اس میںخود لوگوں کی تقصیر ہے _ اگر وہ ظہور میں مانع چیزوں کو بر طرف کر دیتے اور توحید و عدالت کی حکومت کے اسباب فراہم کر لیتے _ دنیا کے اذہان و افکار کو ہموار کر لیتے تو امام کا ظہور ہوجاتا اور آپ انسانی معاشرہ کو بے پناہ فوائد سے مالا مال کرد یتے_

ممکن ہے آپ یہ کہیں : جب عام حالات امام زمانہ کے ظہور کے لئے سازگار نہیں ہیں تو اس پر خطر کام کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے ؟ لیکن واضح رہے مسلمانوں کی طاقت وہمت کو ذاتی منافع کے حصول میں منحصر نہیں ہونا چاہئے ، تمام مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے اجتماعی امور کی اصلاح میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، رفاہ عام میں تندہی اور ظلم و بیدادگری سے مبارزہ بہت بڑی عبادت ہے _

ممکن ہے مزید آپ کہیں : ایک یا چند افرادکی کوشش سے کچھ نہیں ہوتا _ اور پھر میرا کیا گناہ ہے کہ امام کے دیدار سے محروم ہوں ؟ جواب : اگر ہم نے عام افکار کے رشد ، دنیا والوں کو اسلامی حقائق سے متعارف کرانے اور اسلام کے مقدس مقصد سے قریب لانے کی کوشش کی اوز اپنا فریضہ

۱۹۷

انجام دید یا ، تو اس کا ہمیں اجر ملے گا ، اگر چہ ہم نے معاشرہ بشریت کو مقصد سے ایک ہی قدم قریب کیا ہوگا اور اس کام کی اہمیت علماء پر مخفی نہیں ہے اسی لئے بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ انتظار فرج سب سے بڑی عبادت ہے _ ۱ _

دوسرا فائدہ : مہدی ، انتظار فرج اور امام زمانہ کے ظہور پر ایمان رکھنے سے مسلمانوں کے دلوں کو سکون ملتا اور امید نبدھتی ہے اور امیدوار رہنا مقصد کی کا میابی کا سبب ہے _ جس گروہ نے اپنے خانہ دل کو یاس و نا اُمیدی سے تاریک کرلیا اور اس میں امید کی کرن کا گزرنہ ہوتووہ ہرگز کا میاب نہ ہوگا _

ہاں دنیا کے آشفتہ حالات ، مادیت کا تبا ہ کن سیلاب ، علوم و معارف کی سرد بازاری پسماندہ طبقہ کی روز افزوں محرومیت ، استعمار کے فنون کی وسعت ، سردو گرم جنگیں ، اور مشرق و مغرب کا اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ نے روشن فکر اور بشر کے خیرخواہوں کو مضطرب کردیا ہے ، یہاں تک کہ وہ کبھی بشرکی اصلی طاقت ہی کی تردید کردیتے ہیں _

بشرکی امید کا صرف ایک جھرو کا کھولا ہوا ہے اور اس دنیا ئے تاریک میں جو امید کی چمکنے والی کرن انتظار فرج اور حکومت توحید کا درخشاں زمانہ اور قوانین الہی کا نفاذ ہے _ انتظار فرج ہی مایوس اور لرزتے دلوں کو آرام بخشتا اور پسماندہ طبقے کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے _ حکومت توحید کی مسرت بخش خوش خبریوں نے ہی مومنین کے عقائد کی حفاظت کی اور دین میں اسے پائیدار کیا ہے _ حق کے غلبہ اور کا میابی نے ہی بشر کے خیر خواہون کو فعالیت و کوشش پر ابھاراہے _اسی غیبی طاقت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲_۱۵۰

۱۹۸

سے استمداد انسانیت کو یاس و نا امیدی کے ہولنا ک غار میں گرنے سے بچاتی ہے اور امیدو آرزوؤں کی شاہ راہوں کو منور کرتی ہے _ پیغمبر اکرم(ع) توحید کی عالمی حکومت اور عالمی اصلاحات کے رہبر کے تعین و تعارف سے دنیا ئے اسلام سے یاس و نا اُمیدی کے دیوکو نکال دیا ہے _ شکست و نا اُمیدی کے راستوں کو مسدود کردیا ہے _ اس بات کی تو قع کی جاتی ہے کہ اسلام کے اس گراں بہا منصوبہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمان دنیا کی پراگندہ قوموں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور حکومت توحید کی تشکیل کے لئے ان سے اتحاد کرلیں گے _ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں :

'' انتظار فرج خود عظیم فرج و گشائشے ہے ''(۱)

مختصر یہ کہ محدی موعود پر ایمان نے شیعوَ کے مستقبل کو تا بناک بنادیا ہے اور اس دن کی امید میں خوش رہتے ہیں _ شکست و یاس کو ان سے سلب کرکے انھیں مقصد کی راہ ، تہذیب اخلاق اور معارف سے دلچپی لینے پر ابھارا ہے _ شیعہ ، مادیت ، شہوت رانی ، ظلم وستم ، کفرو بے دینی اور جنگ و استعمار کے تاریک دور میں حکومت توحید عقل انسانیت کی تکمیل ، ظلم و ستم کی تباہی ، حقیقی صلح برقراری اور علوم و معارف کی گرم بازاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں _ اور اس کے اسباب و مقاصد فراہم کردہے ہیں _ اس لئے اہل بیت(ع) کی احادیث میں انتظار فرج کو بہترین عبارت اور راہ حق میں شہادت قرار دیاگیا ہے _ ۲ _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ تا ۱۵۰

۱۹۹

اسلام سے دفاع

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ولی عصر (ع) زمانہ غیبت میں بھی اسلام کی عظمت و ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حدتک کوشش فرماتے ہیں _

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں :

وہ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر ، دائیں بائیں چلے گئے اور ضلالت کی راہ

پر گامزن ہوئے ، ہدابت کے راستہ

کوچھوڑدیا ، پس جو ہونے والاہے

اس کیلئے جلد نہ کرو ، انتظار کرو اور جو چیز بہت جلد واقع ہونے والی ہے اسے ددرنہ سمجھو کتنے لوگوں نے کسی چیز کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا لیکن جب اسے پالیا تو کہا : اے کاش میں نے اس کا ادراک نہ کیا ہوتا ، مستقبل کی بشار تیں کتنی قریب ہیں اب و عدوں کے پورا ہونے اور ان چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنھیں تم پہچانتے آگاہ ہو جاؤ ہم اہل بیت میں سے جو اس زمانہ کو درک کرے گا _ وہ امام زمانہ ہے _ وہ روشن چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کا طریقہ اختیار کرے گا _ یہاں تک کہ اس زمانہ کے لوگوں کی مشکلکشائی کرے گا اور اسیروں کو آزاد کرے کا باطل و نقصان دہ طاقتوں کو پراگندہ کرے گا _ مفید لوگوں کو جمع کرے گا _ ان تمام کاموں کو خفیہ طور پرانجام دے گا کہ قیافہ شناس بھی غور وتامل کے بعد کچھ نہ سمجھ سکیں گے _ امام زمانہ کے وجود کی برکت سے _ دین سے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455