آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181853 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عجیب و غریب بات نہیں ہے بلکہ اس زمانہ کے وحشت ناک حالات ، کنیزوں کی کثرت اور اختفا میں شدت یہی اقتضا تھا اور امام حسن عسکری کی میراث کے سلسلے میں آپ کی والدہ اور جعفر کذاب کے در میان جو شدید اختلاف رونما ہو اتھا بعید نہیں ہے کہ اس میں خلیفہ کا ہا تھ ہو اور اس طرح امام حسن عسکری کے بیٹے کاپتہ لگا نا چا ہتا ہو _

کمال الدین میں صدوق لکھتے ہیں : جب امام حسن عسکری کی میرات کے سلسلہ میں آپ کی والدہ سے جعفر سے نزاع ہوئی ااور قضیہ خلیفہ تک پہنچا تو اس وقت امام حسن عسکری کی ایک کنیز صیقل نے حاملہ ہو نے کا دعوی کیا چنا نچہ اس کنیز کو خلیفہ معتمد کے گھر لے جا یا گیا اور خلیفہ کی عورتون ، خدمت گارون ، ماہر عورتون اور قاضی کی عورتو ں کی نگرانی میں رکھی گئیں تا کہ ان کے حاملہ ہونے کا مسئلہ واضح ہو جائے _ لیکن اس زمانے میں عبداللہ بن یحیی اور صاحب زنج کے خروج کا مسئلہ اٹھ کھٹرا ہوا _ اور حکومت کے افراد کو سامرہ سے نکلنا پڑا ، اور اپنے مسائل میں الجھ گئے اور صیقل کی نگرانی سے دست بردار ہو گئے(۱)

نام اور تعدد کے اختلاف میں دوسرا احتمال بھی ہے _ ممکن ہے کوئی یہ کہے : یہ سب نام ایک ہی کنیز کے تھے _ یعنی جس کنیز کے بطن سے صاحب الامر تھے ان کے کئی نام تھے ، یہ بھی بعید نہیں ہے کیونکہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ ایک ہی شخص کو متعدد ناموں سے پکار تے تھے _

اس احتمال کا ثبوت وہ حدیث ہے جو کہ ، کمال الدین ، میں موجود ہے

____________________

۱_کما الدین ج۲ ص ۱۴۹

۱۴۱

صدوق نے اپنی سند سے غیاث سے روایت کی ہے کہ انہوں کہا : امام حسن عسکری کے جانشین جمعہ کے دن پیدا ہوئے ہیں _ ان کی مادر گرامی ریحانہ ہیں کہ جنھیں نرجس صیقل اور سوسن بھی کہا جاتا ہے چونکہ حمل کے زمانہ میں مخصوص نورانیت و جلاکی حامل تھیں اس لئے ان کانام صیقل پڑ گیا تھا(۱)

آخرمیں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ صاحب الامر کی مادر گرامی کے نام کی تعیین میں اگرچہ مختصر ابہام ہے لیکن اس ابہام سے آپ کے اصل وجود پر کوئی صرف نہیں آتاہے کیونکہ ، جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، ائمہ اطہار اور امام حسن عسکری نے اپنے بیٹے کے وجود کی خبردی ہے اور حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی ، جو کہ قابل اعتماد و وثوق عورتیں ، انہیں نے آپ کی ولادت کی وضاحت کی ہے_ اس کے علاوہ امام حسن عسکری کے گھر کے خدام اور بعض ثقہ افراد نے اس کو دیکھا ہے اور اس کے و جود کی گواہی دی ہے _ والدہ کانام خواہ کچھ بھی ہو _

۱۴۲

ولادت مہدی اور علما ئے اہل سنت

فہیمی : اگر امام حسن عسکری کے یہا ں کو ئی بیٹا ہو تا تو اہل سنت کے علماء و مور خین بھی اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کرتے _

ہوشیار : علمائے اہل سنت کی جماعت تے بھی امام حسن عسکری کی ولادت آپ اور آپ کی پدر بزرگواکی تاریخ لکھی ہے اور ولادت کا ا عتراف کیا ہے _

ا _ محمد بن طلحہ شافعی نے لکھا ہے :

(( ابولقاسم محمد بن حسن ( عسکری ) نے ۲۵۸ ھ کو سامرہ میں ولادت پائی آپ کے والد کانام خالص حسن ہے _ حجت ، خلف صالح اور منتظر آپ کے القاب ہیں _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کرنے کے بعد فرما تے ہیںان کا مصداق امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں جو کہ پردہ غیب میں ہیں بعد میں ظا ہر ہوں گے(۱)

(ع) ۲ _ محمد بن یوسف نے امام حسن عسکری کی وفات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : محمد جو کہ امام منتظر ہیں ، کے علاوہ آپ کے یہاں کوئی بیٹا نہیں تھا _ )) ( ۲ )

____________________

۱_ مطالب السئول طبع ۱۲۸۷ _ ص ۸۹

۲ _ کفا یة الطالب ص ۳۱۲

۱۴۳

۳ _ ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں :

(( بارہویں فصل ابولقاسم ، محمد ، حجت ، خلف صالح بن ابو محمد ، حسن خالص کے حالات کے سلسلہ میں ہے _ یہ شیعوں کے بار ہو یں امام ہیں _ اس کے بعد امام کی تاریخ تحریر کی ہے اور مہدی کے بارے میں کچھ حدثیں بیان کی ہیں(۱)

۴ _ یوسف بن قزاو غلی نے امام حسن عسکری کے حالات قلم بند کرنے کے بعد لکھا ، ہے : (( آپ کے بیٹے کانام محمد اور کنیت ابو عبد اللہ و ابوالقاسم ہے _ و ہی حجت ، صاحب الزمان ، قائم اور منتظر ہیں _ امامت کا سلسلہ ان پرخم ہو گیا _ اس کے بعد مہدی سے متعلق کچھ احادیث لکھی ہیں _ ( ۲ )

۵ _ شیلنجی نے اپنی کتاب نور الا بصار میں تحریر کیا ہے کہ : (( محمد ، حسن عسکری کے بیٹے ہیں _ ان کی والدہ ام دلا ، نرجس یا صیقل یا سوسن ہیں _آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے _ امامیہ انھیںحجت ، مہدی خلف صالح ، قائم ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں ( ۳ )

۶ _ ابن حجر صواعق محرقہ میں امام حسن عسکری کے حالات لکھنے کے بعد لکھتے ہیں : آپ نے ابوالقاسم ، کہ جنھیں محمد ، حجت کہا جا تا ہے ، کہ علاوہ کوئی اولاد نہیں چھوڑی _ اس بچہ کی عمر باپ کے انتقال کے وقت پانچ سال

____________________

۱_ فصول المہمہ ص ۲۷۳ و ص ۳۸۶

۲ _ تذکر ة الخواص الامة ص ۲۰۴

۳ _ نور الا بصار طبع مصر ص ۱۶۸

۱۴۴

تھی(۱)

۷ _ محمد امین بغداد ی نے اپنے کتاب سباٹک الذہب میں لکھا ہے :

(( محمد ، حسن کو مہدی بھی کہا جاتا ہے ، والد کے انتقال کے وقت پانچ سال کے تھے _( ۲ )

۸ _ ابن خلکان نے اپنی کتاب (وفیات الا عیان) میں لکھا ہے کہ : ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری امامیہ کے بار ہویں امام ہیں _ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق وہی منتظر ، قائم اور مہدی ہیں ( ۳ )

۹ _ صاحب روضة الصفالکھتے ہیں :

محمد ، حسن ( عسکری ) کے بیٹے ہیں اور آ پ کی کنیت ابوالقاسم ہے امامیہ انہیں حجت ، قائم اور مہدی سمجھتے ہیں ( ۴ )

۱۰ _ شعرانی نے اپنی کتاب الیواقیت و الجو اھیر میں لکھا ہے کہ :

مہدی ، امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں آپ نے پندرہ شعبان ۲۵۵ ھ میں ولادت پائی _ اور حضرت عیسی کے ظہور تک زندہ و باقی رہیں گے _ اب ۹۵۸ ھ ہے _ اس لحاظ سے آپ کی عمر ۷۰۳ سال ہو چکی ہے ( ۵ )

____________________

۱_ الصواعق المحرقہ

۲_سبائک الذہب ص۷۸

۳_روضةالصفا ج۳

۴_وفیات الاعیان ج۲ص ۲۴

۵_الیوقیت و الجواہیر مولفہ شعران طبع ۱۳۵۱ ج ۲ ص۲۳

۱۴۵

۱۱ _ شعرانی ہی نے فتوحات مکیہ کے باب ۳۶۶ وین سے نقل کیا ہے : جب زمیں ظلم و جورسے بھر جائے گی اس و قت مہدی ظہور فرمائیں کے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے آپ رسول کی اولاد اور جناب فاطمہ کی نسل سے ہیں _ ان کے جد حسین اور باپ عسکری بن امام علی نقی بن امام محمد تقی بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقربن زین العابدین بن امام حسین بن ابی طالب ہیں(۱)

۱۲ _ خواجہ پارسانے اپنی کتاب فصل الخطاب میں تحریر کیا ہے کہ : محمد بن حسن عسکری ۵ا شعبان ۲۵۵ میں پیدا ہوئے _ آپ کی والدہ کا نام نرجس ہے _ پانچ سال کی عمر میں باپ کا سایہ اٹھ گیا اور اس وقت سے آج تک غائب ہیں _ وہی شیعوں کے امام منتظر ہیں _ ان کے اصحاب خاص اور اہل بیت کے نزدیک ان کا وجود ثابت ہو چکا ہے _ خداوند عالم الیاس (ع) و خضر(ع) کی مانند ان کی عمر کو طولانی بنادے گا(۲)

۱۳ _ ابولفلاح حنبلی نے اپنی کتاب شذرات الذہب اور ذہبی نے العبر فی خبر من غیرمیں لکھا ہے کہ :

محمد بن حسن عسکری ، بن علی نقی ، بن جواد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق علوی اور حسینی ہیں _ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے ، شیعہ انھیں

____________________

۱_ الیواقیت و الجواہر ص ۱۴۳

۲ _ منقول از ینابیع المودة ج ۲ و ص ۱۲۶

۱۴۶

خلف صالح ، حجت ، مہدی ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں(۱)

۱۴ _ محمد بن علی حموی لکھتے ہیں :

ابوالقاسم محمد منتظر ۲۵۹ ھ کو شہر سامرہ میں پیدا ہو ئے(۲)

مذکور ہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے علمانے بھی امام حسن عسکری کے بیٹے کی ولادت کا قضیہ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ( ۳ )

اس وقت جلسہ ختم ہو گیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ جلسہ ہفتہ کی شب میں جلالی صاحب کے مکان پر منعقد ہو گا _

____________________

۱_ شذرات الذہب ج ۲ ص ۱۴۱ و کتا ب العیر فی خیر من غبر طبع کویت ج ۲ ص ۳۱

۲ _ تاریخ منصوری ص ۱۱۴ ، ص ۹۴ ( ماسکو سے فوٹو کا پی لی گئی )

۳ _ تفصیل کے شائقیں کشف الا سرار مؤلفہ حسین بن محمد تقی نور اور کفایہ الموحدین ج ۲ ، مولفہ طبرسی کا مطالعہ فرمائیں _

۱۴۷

کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوتا ہے؟

جلسہ شروع ہونے کے بعد فہیمی صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا :

فھیمی : بالفرض امام حسن عسکری کے یہاں بیٹا تھا لیکن اس بات کو کیونکر قبول کیا جاسکتا ہے کہ، پانچ سال کا بچہ منصب امامت و ولایت پرمتمکن ہوتاہے ؟ اور احکام خدا کی حفاظت وتحمل کے لئے اس کا انتخاب ہوتا ہے اور کمسنی میں ہی علم وعمل کی اعتبار سے لوگوں کا امام اور ان پر خدا کی حجت قرار پاتا ہے؟

ھوشیار : آپ نے نبوت اور امامت کو ایک ظاہری اور معمولی چیز تصوّ رکرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ اس کے لئے کسی قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے_ جو شخص احکام کے حفظ وتحمل کی صلاحیت رکھتا ہے اسی کو منتخب کر لیا جا تا ہے ، اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے _ گویا محمد بن عبداللہ(ص) کی جگہ ابوسفیان کا نبوت کے لئے انتخاب ہو سکتا ہے اور علی بن ابیطالب کے بجائے طلحہ وزبیر امام بن سکتے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں گے اور اہل بیت کی احادیث کا مطالعہ فرمائیں گے تو اس بات کی تصدیق فرمائیں گے کہ یہ بات اتنی آسان نہیں ہے _ کیونکہ نبوت بہت عظیم مقام ہے اس مقام پر فائز انسان کا خدا سے ارتباط واتصال رہتا ہے اور وہ عالم غیبی کے افاضات سے مستفید ہوتا ہے خدا کے احکام وقوانین وحی اور الہام کی صورت میں اس کے قلب پر نازل ہوتے ہیں

۱۴۸

اور انھیں حاصل کرنے میں اس سے کوئی اشتباہ و خطا واقع نہیں ہوتی _ اسی طرح امامت بھی ایک عظیم منصب ہے _ اس عہدہ کا حامل خد ا کے احکام اور نبوت کے علوم کو اس طرح حفظ و ضبط کرتا ہے کہ جس میں خطا و نسیان اور معصیت کا امکان نہیں ہے _ اس کا بھی عالم غیبت سے رابطہ رہتا ہے اور خدا کے افاضات و اشراقات سے بہرہ مند رہتا ہے _ علم و عمل کے سبب لوگوں کا امام اور دین خدا کا نمونہ و مظہر قرار پاتا ہے _

واضح ہے کہ ہر شخص میں اس منصب پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے روح کے اعتبار سے انسانیت کے اعلی درجہ پر فائز ہونا چاہئے تا کہ عوالم غیبی سے ارتباط اور علوم کے حفظ و حصول کی اس میں لیاقت پیدا ہو سکے اور اس کی جسمانی ترکیب اور دماغی قوتوں میں نہایت ہی اعتدال پایا جاتا ہو کہ جس سے عام ہستی کے حقائق اور غیبی افاضات کو بغیر کسی خطا و اشتباہ کے الفاظ و معانی کے قالب میں ڈھال سکے اور لوگوں تک پہنچا سکے _

پس خلقت کے اعتبار سے رسول اور امام ممتاز ہیں اور اسی ذاتی استعداد و امتیاز کی بنا پر خداوند عالم انھیں نبوت و امامت کے عظیم و منصب کے لئے منتخب کرتا ہے اگر چہ یہ امتیازات عہد طفولیت ہی سے ان میں موجود ہوتے ہیں _ لیکن جب صلاح ہوتی ہے ، کوئی مانع نہیں ہوتا اور حالات سازگار ہوتے ہیں تو ان ہی نمایان افراد کا منصب نبوت وامامت کے حامل کے عنوان سے سرکاری طور پر تعارف کرایا جاتا ہے اور وہ احکام کے حفظ و تحمل کے لئے مامور ہوتے ہیں _

یہ انتخاب کبھی بلوغ کے بعد یا بزرگی کے زمانہ میں ہوتا ہے اور کبھی عہد طفولیت میں ہوتا ہے _ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی

۱۴۹

اور کہا : میں نبی ہوں اور کتاب لے کر آیا ہوں _ سورہ مریم میں خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ حضرت عیسی نے فرمایا :'' میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اور نبوت عطا کی ہے ، میں جہاں بھی رہوں با برکت ہوں اور تا حیات مجھے نماز و زکوة کی وصیت کی ہے ''_

اس اور دوسری آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت عیسی بچینے ہی سے نبی اور صاحب کتاب تھے _

اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پانچ سال کے بچہ کا عوالم غیبی سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام کی ایسی عظیم ذمہ داری کے لئے منصوب کئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اس امانت کی ادائیگی اوراپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے _

چنانچہ امام علی نقی بھی والد کے انتقال کے وقت نو یا سات سال کے تھے اور کم سنی کی بناپر بعض شیعہ ان کی امامت کے بارے میں مستردد تھے_ اس مسئلہ کے حل کرنے کی غرض سے کچھ شیعہ آپ(ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آپ(ع) سے سیکڑوں مشکل ترین سوالات معلوم کئے اور مکمل جواب حاصل کئے اور ایسی کرامات کو مشاہدہ کیا کہ جن سے ان کا شک برطرف ہوگیا _(۱)

امام رضا (ع) نے انھیں اپنے جانشین اور امام کے عنوان سے پیش کیا تھا اور مخاطبین کے تعجب پر فرمایا تھا: '' حضرت عیسی بھی بچپنے میں نبی اور حجت خدا ہوئے تھے ''(۲) _

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۱۲۶_

۲_ اثبات الوصیہ ص ۱۶۶_

۱۵۰

حضرت امام علی نقی (ع) بھی چھ سال اور پانچ ماہ کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے اور امامت آپ کی طرف منتقل ہوگئی تھی_(۱)

جناب فہیمی صاحب ، انبیاء و ائمہ کی خلقت کچھ اس زاویہ سے ہوئی ہے کہ جس کا عام افراد سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا _

نابغہ بچّے

کبھی عام بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں جو کہ استعداد او حافظہ کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے نابغہ ہوتے ہیں اور ان کے ادراکات و دماغی صلاحیت چالیس سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھی ہوتی ہے _

ان ہی میں سے ایک ابو علی سینا بھی ہیں _ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے بتا یا : '' جب میں اچھے برے کو سمجھنے لگا تو مجھے معلم قرآن کے سپرد کیا گیا _ اس کے بعد ادب کے استاد کے حوالے کیا _ ادب کے استاد کو شاگرجو بھی سنا تے تھے اسے میں حفظ کرلیتا تھا _ اس کے علاوہ استاد نے مجھے حکم دیا تھا کہ : تم '' الصفات '' ، ''غریب المصنف ، '' ادب الکاتب'' ، '' اصلاح المنطق'' ، ''العین'' ، ''شعر و حماسہ'' ، ''دیوان ابن رومی'' ، '' تصریف'' ''مازنی'' اور سیبویہ کی نحو بھی سنایا کرو _ چنانچہ انھیں بھی میں نے ایک سال چھ ماہ میں ختم کڑدالا ، اگر استاد تعویق سے کام نہ لیتے تو اس سے کم مدت میں تمام کرلیتا اور جب دس سال کو ہو ا تو اہل بخارا کو انگشت بدندان کردیا _ اس کے بعد فقہ کی تعلیم

____________________

۱_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۴۰۱، اثبات الوصیہ ص ۱۷۴_

۱۵۱

کا سلسلہ شروع کیا اور بارہ سال کی عمر میں ابو حنفیہ کی فقہ کے مطابق فتوی دینے لگا تھا اس کے بعد علم طب کی طرف متوجہ ہو اور سولہ سال کی عمر میں'' قانون'' کی تصنیف کی اور چوبیس سال کی عمر میں خود کو تمام علوم کا ماہر سمجھتا تھا _(۱)

فاضل ہندی کے بارے میں منقول ہے کہ تیرہ سال کی عمر سے پہلے ہی انہوں نے تمام معقول و منقول علوم کو مکمل کرلیا تھا اور بارہ سال کی عمر ے پہلے ہی کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوئے تھے _(۲)

'' ٹوماس ینگ'' کو برطانیہ کے عظیم دانشوروں میں شمار کرنا چاہئے ، وہ بچپنے ہی سے ایک عجوبہ تھا _ دو سال کی عمر سے پڑھنا جانتا تھا ، آٹھ سال کی عمر میںخود ہی ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا ، نو سے چودہ سال کا زمانہ اپنی کلاسوں کے درمیان کے مختصر وقفوں میں فرانسیسی ، اطالوی ، عبری ، عربی اورفارسی کی تعلیم کا دورہ گزارا اور مذکورہ زبانوں کو اچھی طرح سیکھ لیا _ بیس سال کی عمر میں رویت کی تھیوری پر ایک مقالہ لکھ کر دربارشاہی میں پیش کیا اور اس میں اس بات کی تشریح کی کہ آنکھ عینک کے لینز کی خمیدگی میں ردو بدل کے ذریعہ کیسے واضح تصویر دیکھی جا سکتی ہے _(۳)

اگر آپ مشرق و مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ایسے بہت سے نابغہ

____________________

۱_ ہدیةالاحباب طبع تہران ص ۷۶_

۲_ ہدیة الاحباب ص ۲۸۸_

۳_ تاریخ علوم مؤلفہ بی برروسو ترجمہ صفاری طبع سوم ص ۴۳۲_

۱۵۲

ملیں گے _

جناب فہیمی صاحب ، نابغہ بچے ایسے دماغ اور صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں کہ کمسنی میں ہزاروں قسم کی چیزیں یادکرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں اور کتھیوں کو حل کرتے ہیں ،اور ان کی محیر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بدندان کردیتی ہے تو اگر خدا ، حضرت بقیةاللہ ، حجت حق ، علت مبقیہ انسانیت حضرت مہدی کو پانچ سال عمر میں ولی و امام منصوب کردے اور احکام کی حفاظت و تحمل کو ان کے سپرد کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ ائمہ اطہار نے بھی آپ کی کمسنی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے _

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

صاحب الامرکی عمر مبارک ہم میں سب سے زیادہ ہوگی اور زیادہ گمنام رہیں گے_

حضرت قائم کے نام پر کھڑا ہونا

جلالی کہ آپ کو معلوم ہے لوگوں کے در میان یہ رسم ہے کہ وہ لفظ قائم سن کر کھڑے ہوجائے ہیں اس عمل کا کوئی مدرک ہے یا نہیں ؟

ہوشیار: یہ طریقہ دنیا کے تمام شیعوں میں رائج تھا اور ہے _ منقول ہے کہ خراسان کی ایک مجلس میں امام رضا(ع) تشریف فرماتھے کہ لفظ قائم زبان پر آیا تو آپ کھڑے ہوئے اپنے دست مبارک کو سر پر رکھا اور فرمایا :

____________________

۱_ بحارالانوار

۱۵۳

اللہم عجّل فرجہ و سحّل مخرجہ(۱)

امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں بھی یہ طریقہ رائج تھا عرض کیا گیا قائم سن کر کھڑے ہونے کی کیا تکلیف ہونے کی کیا علّت ہے ؟فرمایا :

صاحب الامر مدت در از تک غیبت میں رہیں گے اوران کے دوستدار محبت کی شدّت کی بناپر آپ کو قائم کے لفت سے یاد کرتے ہیں جو کہ آپ (ع) کی حکوت و غریب کو بتا تا ہے _

چونکہ اس وقت امام زمانہ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لہذا احترام کے لئے کھڑا ہوناچا ہئے اور خدا سے آپ کے لئے تعجیل فرج کی دعا کرنا چاہئے _ ( ۲ )

شیعوں کے اس عمل میں مذہبی اور اظہار ادب کا ایک پہلو موجود ہے اگر چہ اس کا واجب ہونا معلوم نہیں ہے _

____________________

۱_ الزام الناصب ص ۸۱

۲_ الزام الناصب ص ۸۱

۱۵۴

داستان غیبت کی ابتدا کب ہوئی ؟

ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری دنیا سے لا ولد ا ٹھے ہیں لیکن عثمان بن سعید جیسے فائدہ اٹھا نے والوں نے اپنی عزت و بزرگی باقی رکھنے کی عرض سے مہدی کی غیبت کی داستان گھڑ لی اور خوب اس کی نشر و اشاعت کی _

ہوشیار : پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے غیبت مہدی کے بارے میں اس سے پہلے پیشیں گوئی کی تھی اور لوگوں کو اس کی خبر دیدی تھی چند نمونے ملا حظہ فرمائیں _

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

قسم اس خدا کی جس نے مجھے بشارت دینے کے لئے مبعوث کیا ہے قائم میرا بیٹا ہے اور وہ اس عہد کے مطابق غیبت اختیار کرے گا جو اس تک پہنچےے گا غیبت اتنی طو لانی ہوگی کہ لوگ یہاں تک کہنے لگیں گے کہ خدا کو آل محمد کی کوئی ضرورت نہیں ہے _ کچھ لوگ اس کی ولادت ہی میں شک کریں گے _ پس جو بھی غیبت کا زمانہ درک کرے اسے اپنے دین کی حفاظت کرناچاہئے اور شک کے راستہ سے شیطان کو اپنے اندر راہ نہیں دینا چا ہئے ، کہیں ایسانہ ہو کہ اسے وہ دین و ملت سے خارج

۱۵۵

کردے _ جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے ماں ، باپ ( آدم و ہواء ) کو جنت سے نکال دیا تھا بے شک خدا شیطان کو کافروں کافرما نروا اور دوست قرار دیتا ہے(۱)

اصبغ بن نباتہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت قائم کا ذکر کیااور فرمایا : جان لو ان کی غیبت ایسی ہوگی کہ جاہل کہے گا : خدا آل محمد کا محتاج نہیں ہے ))

امام صادق فرماتے ہیں :

اگر تم امام کی غیبت کی خبر سنو تو انکار نہ کرنا _ ۸۸ حدیثیں اور ہیں ان احادیث کی بنا پر مسلمان قائم کے لئے غیبت ضروری سمجھتے ہیں اور ان کے خصائص میں شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ جس کو وہ مہدی سمجھتے تھے اسے بھی غیبت کی ترغیب د لا تے تھے _ ابو الفرج اصفہانی لکھتے میں :

عیسی بن عبداللہ نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن(ع) بچین ہی ہے غیبت کی زندگی بسر کرتے تھے اور مہدی کر لقب سے یاد کئے جاتے تھے

سید محمد حمیری کہتے ہیں :

میں محمد بن حنیفہ کے بارے میں غلو کرتا تھا اور میرا عقیدہ تھا کہ وہ غائب ہیں

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ، ص ۳۸۶

۲ _ اثبات الھداة ج ۶ ص ۳۹۳

۳ _ اثبات الھداة ج ۶ ص ۳۵۰

۴ _ مقاتل الطالبین ص ۱۶۵

۱۵۶

ایک زمانہ تک اسی عقیدہ کا معتقد ر ہا بہاں بک کہ خدانے مجھ پر احسان کیا اور جعفر بن محمد امام صادق کے ذریعہ مجھے آتش ( جہنّم ) سے نجات عطا کی اور سید ھے راستہ کی ہدایت کی _ واقعہ یہ تھا کہ جب جعفر بن محمد(ص) کی امامت دلیل و برہان سے ثابت ہوگئی ، تو ایک روز میں نے آپ سے عرض کی : فرزند رسول غیبت کے سلسلہ میں آپ کے آبا واجداد سے کچھ حدیثیں ہم تک پہنچی ، ہیں کہ جن میں غیبت کے و قوع پذیر ہو نے کو یقینی قرار دیا گیا ہے _ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اس سے خبردار فرمائیں کہ کون غیبت اختیار کریگا ؟ امام صادق نے جواب دیا : میرا چھٹا بیٹا غیبت اختیار کرے گا اور وہ رسول کے بعد ہونے والے ائمہ میں سے بار ہواں ہے کہ ان میں سے پہلے علی اور آخری قائم برحق ، بقیہ اللہ اور صاحب الزمان ہیں قسم خدا کی اگر وہ نوح کی عمر کے برابر بھی غیبت میں رہیں گے تو بھی دنیا سے نہ جائیں گے یہاں تک ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _

سید حمیری کہتے ہیں : جب میں نے اپنے مولا جعفر بن محمد سے یہ سنا تو حق مجھ پر آشکار ہوگیا اور پہلے عقیدہ سے تو بہ کی اور اس سلسلہ میں کچھ اشعار بھی کہے(۱)

غبیت مہدی کی داستان عثمان بن سعید نے نہیں گھڑی ہے بلکہ خدا نے ان کے لئے غیبت مقرر کی اور رسول خدا و ائمہ اطہار علیہم السلام نے آپکی ولادت سے قبل

____________________

۱_ کمال الدین مؤلفہ شیخ صدوق طبع ۱۳۷۸ ھ ج ۱ ص ۱۱۲ تا ص ۱۱۵

۱۵۷

لوگوں کو اس کی خبردی ہے _

طبرسی لکھتے ہیں :

ولی عصر کی غیبت کے بارے میں آپ اور آپ کے والد کی ولادت سے پہلے حدیثیں صادر ہوئی ہیں اور شیعہ محمد ثین نے انھیں اصول اور ان کتا بوں میں قلم بند کیا ہے جو کہ امام محمد باقر کے زمانہ میں تا لیف ہوئی ہیں ، منجملہ ثقہ محمد ثین میں سے ایک حسن بن محبوب ہیں ، انہوں نے غیبت سے تقریبا سو سال قبل کتاب (( مشیخہ )) تالیف کی اور اس میں غیبت سے متعلق احادیث جمع کیں _ اس میں ایک حدیث یہ ہے کہ :

ابو بصیر کہتا ہے : ہیں نے امام نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی : حضرت ابوجعفر ( امام باقر ) فرماتے تھے : قائم آل محمد کی دو غیبتین ہوں گی یک غیبت صغری دوسری غیبت کبری _ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ملا حظہ فرما یئےہ امام حسن عسکری کے بیٹے کے لئے دو غیبتوں کا پیش آنا اس طرح ثابت ہوا ))

غیبت صغری کے زمانہ کی عمر اسی سال سے زیادہ گز ر چکی تھی وہ اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۶ پر لکھتے ہیں : ائمہ نے امام زمانہ کی غیبت کی پہلے ہی خبر دیدی تھی ، اگر امام کی غیبت واقع نہ ہوتی تویہ امامیہ کے عقیدہ کے باطل ہونے کا ثبوت ہوتا _ لیکن خدا نے آپ(ع) کو غیبت میں بلا کر ائمہ کی احادیث کی صحت کی آشکار کردیا

____________________

۱_ اعلام الوری مولفہ طبرسی طبع تہران ص ۴۱۶

۱۵۸

امام زمانہ کی ولادت سے پہلے غیبت سے متعلق کتابیں

بارہویں امام حضرت مہدی موعود کی غیبت کو پیغمبر اکرم ، علی بن ابیطالب اور دیگر ائمہ نے مسلمانوں کے گوش گزار کیا ہے اور بات صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے در میان مشہور تھی کہ علماء ، روات احادیث ، ائمہ کے اصحاب نے آپ اور آپ کے باپ داداکی ولادت سے قبل مخصوص غیبت کے موضوع پر کتا بیں تالیف کی ہیں اوران میں مہدی موعود اور آپ کی غیبت سے متعلق احادیث جمع کی ہیں رجال کی کتابوں میں آپ ان مؤلفیں کے نام تلاش کرسکتے ہیں _ از باب نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

ا_ موسی بن جعفر کے صحابی ، علی بن حسن بن محمد طائی طاطری نے غیبت کے موضوع پرا یک کتاب تالیف کی ہے یہ فقیہ اور معتمد تھے(۱)

۲_موسی بن جعفر کے صحابی علی بن عمراعرج کوفی نے غیبت سے متعلق ایک کتاب تالیف کی ہے_(۲)

۳ _ موسی بن جعفر کے صحابی ابراہیم بن صالح انماطی نے غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے(۳)

(ص) ۴ _ امام رضا(ع) کے ہمعصر حسن بن علی بن ابی حمزہ نے غیبت کے سلسلہ میں ایک

____________________

۱_ رجال نجاشی ص ۱۹۳ ، رجال شیخ طوسی ص ۳۵۷ ، فہرست طوسی ص ۱۱۸

۲ _ رجال نجاشی ص ۱۹۴

۳ _ رجال نجاشی ص ۲۸ ، فہرست شیخ طوسی ص ۷۵

۱۵۹

کتاب لکھی ہے(۱)

۵ _ امام رضا کے جلیل القدر اور مؤثق صحابی عباس بن ہشام ناشری رسدی متوفی ۲۲۰ ھ نے غیبت پر ایک کتاب تحریر کی ہے(۲)

۶ _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے صحابی ، عالم و ثقہ انسان علی بن حسن بن فضال نے غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے(۳)

۷ _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے صحابی فقیہ و متکلم ، فضل بن شاذان نیشا پوری متوفی ۲۶۰ ھ نے قائم آل محمد اور آپ کی غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے _(۴)

اگر آپ گزشتہ مطالب پر توجہ فرمائیں گے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ امام زمانہ کی داستان غیبت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دینی عمیق سلسلہ ہے جو کہ رسول کے زمانہ سے آج تک موضوع بحث بنا ہوا ہے اس بنا پر یہ احتمال دینا کہ مہدی کی غیبت کی داستان کو عثمان بن سعید نے گھڑی ہو گی ، بے بنیاد ہے اور یہ بات مغرض انسان ہی کہہ سکتے ہیں _

اس کے علاوہ اگر ہم تیں مطالب کو ایک دوسرے سے ضمیمہ کر دیں تو غیبت امام زمانہ قطعی ہو جائے گی :

____________________

۱_ رجائی نجاشی ص ۲۸ ، فہرست شیخ طوسی ص ۷۵

۲_ رجائی نجاشی ص ۲۱۵ رجائی شیخ طوسی ص ۳۸۴ ، فہرست شیخ طوسی ص ۱۴۷

۳ _ رجائی نجاشی ص ۱۹۵ رجائی نجاشی طوسی ص ۴۱۹

۴ _ رجائی نجاشی ص ۳۳۵ رجائی نجاشی طوسی ص ۴۲۰ و ص ۴۳۴ ، فہرست شیخ طوسی ص ۱۵۰

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہوجائیں _(۱)

اگر امام حسن عسکر ی کی رحلت کے بعد ہی مکمل غیت واقع ہوجاتی تو امام زمانہ کے مقدس وجود ہی سے لوگ غافل رہتے اور رفتہ رفتہ فراموش کردیتے _ اس لئے غیبت صغری سے ابتداء ہوئی تا کہ شیعہ اس زمانہ میں اپنے امام سے نائبوں کے ذریعہ رابطہ کریں اور ان کی علامتوں اور کرامات کو مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کی تکمیل کریں جب خیالات مساعد اور کامل آمادگی ہوگئی تو غیبت کبری کا آغاز ہوا _

کیا غیبت کبری کی انتہا ہے؟

انجینئر: کیا غیبت کبری کی کوئی حد معین ہے؟

ہوشیار : کوئی حد تو معین نہیں ہے _ لیکن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

امیر المؤمنین نے حضرت قائم کے بارے میں فرمایا:

'' ان کی غیبت اتنی طویل ہوگی کہ جاہل کہے گا : خد ا کو رسول (ص) کے اہل بیت کی احتیاج نہیںہے ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۲۰۶_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۹۳_

۱۸۱

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''قائم (ع) میں جناب نوح (ع) کی ایک خصوصیت پائی جائیگی اور وہ ہے طول عمر ''(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۲۱۷_

۱۸۲

فلسفہ غیبت

انجینئر: اگر امام ظاہر ہوتے اور لوگ ضرورت کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر اپنی مشکلیں حل کرتے تو یہ ان کے دین اور دنیا کیلئے بہتر ہوتا _ پس غیبت کیوں اختیار کی؟

ہوشیار: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مانع نہ ہوتا تو آپ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر تھا _ لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و اقع کے مطابق ہوتے ہیں _ لہذا امام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ہوگی _ اگر چہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے ، درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیاہے ، صرف ائمہ اطہار علیہم السلام کو معلوم ہے _

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر کیلئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں گے'' _ میں نے عرض کی ، کیوں ؟ فرمایا: ''ہمیں اس کی علّت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے'' _ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ وہی فلسفہ جو گزشتہ

۱۸۳

حجت خدا کی غیبت میں تھا _ لیکن اس کی حکمت ظہور کے بعد معلوم ہوگی _ بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر(ع) کی کشتی میں سوراخ ، بچہ کے قتل اور دیوار کو تعمیر کرنے کی جناب موسی کو جدا ہوتے وقت معلو م ہوئی تھی _ اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع سرّ ی ہے _ یہ خدا کے اسرار اور الہی غیوب میں سے ایک ہے _ چونکہ ہم خدا کو حکیم تسلیم کرتے ہیں _ اس لئے اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے امور حکمت کی روسے انجام پاتے ہیں _ اگر چہ اسکی تفصیل ہم نہیں جانتے ''_(۱)

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی علت و سبب اسلئے بیان نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو بتانے میں صلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے _

فائدہ اول: امتحان و آزمائشے _ تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہیں ہے انکی باطنی حالت ظاہر ہوجائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں ، غیبت پر ایمان ، انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں ، امام موسی کاظم فرماتے ہیں :

'' ساتویں امام کے جب پانچویں بیٹے غائب ہوجائیں ، اس وقت تم اپنے دین کی حفاظت کرنا _ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کردے _ اے میرے چھوٹے بیٹے صاحب الامر کے لئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ جسمیں

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۹۱_

۱۸۴

مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہوجائے گا _ خدا امام زمانہ کی غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لے گا _(۱)

دوسرا فائدہ : غیبت کے ذریعہ ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے _ حسن بہ فضال کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

''گویا میں اپنے تیسرے بیٹے (امام حسن عسکری(ع) ) کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام کو ہر جگہ تلاش کررہے ہیں لیکن نہیں پارہے ہیں'' میں نے عرض کی : فرزند رسول کیوں؟ فرمایا:'' ان کے امام غائب ہوجائیں گے'' عرض کی : کیوں غائب ہوں گے ؟ فرمایا: '' تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''_(۲)

تیسرا فائدہ : غیبت کی وجہ سے قتل سے نجات پائی _

زرارہ کہتے ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

''قائم کے لئے غیبت ضرور ی ہے '' _ عرض کی کیوں ؟ فرمایا: قتل ہوجانے کا خوف ہے اور اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''_(۳)

مذکورہ تینوں حکمتیں اہل بیت کی احادیث میں منصوص ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۱۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۱۸۵

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو کیا حرج تھا ؟

انجینئر : اگر امام زمانہ لوگوں کے درمیان آشکار طور پر رہتے ، دنیا کے کسی بھی شہر میں زندگی بسر کرتے ، مسلمانوں کی دینی قیادت کی زمام اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور شمشیر کے ساتھ قیام اور کفر کاخاتمہ کرنے کیلئے حالات سازگار ہونے تک ایسے ہی زندگی گزارتے تو کیا حرج تھا؟

ہوشیار : اچھا مفروضہ ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نتائج بر آمد ہوئے _ میں حسب عادت موضوع کی تشریح کرتا ہوں _

پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا یہ بات لوگوں کے گوش گزار کی تھی کہ ظلم وستم کی حکومتیں مہدی موعود کے ہاتھوں تباہ ہوں گی اور بیداد گری کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں کے دو گروہ ہمیشہ امام زمانہ کے وجود مقدس کے منتظر رہے _ ایک مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کا گروہ جو کہ ہمیشہ اکثریت میں رہا ہے _ وہ حمایت و دفاع کے قصد سے امام زمانہ کے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع کا تقاضا کرتے تھے _ یہ ہمیشہ ہوتا تھا کہ ایک بڑا گر وہ آپ کا احاطہ کئے رہتا اور انقلاب کا تقاضا کرتا تھا _

دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں کارہا ہے جس کا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے یہ ذاتی مفاد کے حصول اور اپنے منصب کے تحفظ میں کسی بھی برے سے برے

۱۸۶

کام کو انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور پوری قوم کو اپنے مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتا تھا_ یہ گروہ امام زمانہ کے وجودکو اپنے شوم مقاصد کی راہ میں مانع سمجھتا اور اپنی فرمان روائی کو خطرہ میں دیکھتا تھا تو آپ کا خاتمہ کرکے اس عظیم خطرہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ میں وہ سب متحد ہوگئے تا کہ عدالت و دادخواہی کی جڑیں اس طرح کاٹ دیں کہ پھر سر سبز نہ ہو سکیں _

موت سے دڑ

جلالی : امام زمانہ اگر معاشرہ کی اصلاح ، دین کی ترویج اور مظلوموں سے دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ کیا ان خون ان کے آباء و اجداد کے خون سے زیادہ عزیز ہے ؟ موت سے کیوں دڑتے تھے؟

ہوشیار : دین و حق کی راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد کی طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں _ لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کی صلاح نہیں ہے _ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام کے بعد دوسرا امام اس کا جانشین ہوا ہے لیکن اگر امام زمانہ قتل ہوجائیں تو پھر کوئی جانشین نہیں ہے _ اور زمین حجّت خدا کے وجود سے خالی ہوجائے گی _ جبکہ یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ کے ذریعہ دنیا کی زمام حق پرستوں کے ہاتھوں میں آئے گی _

کیا امام کی حفاظت کرنے پر خدا قادر نہیں ہے؟

جلالی : کیا خدا امام زمانہ کو دشمنوں کے شرسے بچانے اور ان کی حفاظت پر قادر

۱۸۷

نہیں ہے؟

ہوشیار : باوجودیکہ خدا کی قدرت لا محدود ہے لیکن اپنے امور کو وہ اسباب و عادات کے مطابق انجام دیتا ہے _ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ کی حفاظت اور دین کی ترویج میں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت کے خلاف عمل کرے اور اگر ایسا کرے گا تو دنیا اختیار و امتحان کی جگہ نہ رہے گی _

ستمگران کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے

جلالی : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور کفار و ستمگر آپ کو دیکھتے ، آپ کی برحق باتیں سنتے تو ممکن تھا کہ وہ آپ کو قتل نہ کرتے بلکہ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لاتے اور اپنی روش بدل دیتے _

ہوشیار: ہر شخص حق کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء سے آج تک لوگوں کے درمیان ایک گروہ حق و صحت کا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت صرف کی ہے _ کیا انبیاء و ائمہ اطہار حق نہیں کہتے تھے؟ کیا ان کی برحق باتیں اور معجزات ستمگروں کی دست رس میں نہیں تھے؟ اس کے باوجود انہوں نے چراغ ہدایت کو خاموش کرنے کے سلسلے میں کسی کام سے دریغ نہ کیا _ صاحب الامر بھی اگر خوف کے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے _

خاموش رہو تا کہ محفوظ رہو

ڈاکٹر : میرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ کلی طور پر سیاست سے علیحدہ رہتے

۱۸۸

اور کفار و ستمگروں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ، ان کے اعمال کے مقابل سکوت اختیار کرتے اور اپنی دینی و اخلاقی راہنمائی میں مشغول رہتے تو دشمنوں کے شر سے محفوظ رہتے _

ہوشیار : چونکہ ستمگروں نے یہ بات سن رکھی تھی کہ مہدی موعود ان کے دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ کے سکوت پر اکتفا نہ کرتے _ اس کے علاوہ جب مومنین یہ دیکھتے کہ آپ ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں ، ایک دو سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ امام کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تو وہ بھی آہستہ آہستہ دنیا کی اصلاح اور حق کی کامیابی سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اکرم و قرآن مجید کی بشارتوں میں شک کرنے لگتے _ ان تمام چیزوں کے علاوہ مظلوم لوگ آپ کو سکوت کی اجازت نہ دیتے _

عدم تعرض کا معاہدہ

انجینئر : وقت کے ستمگروں سے عدم تعرض کا معاہدہ کرنے کا امکان تھا وہ اس طرح کہ آ پ(ع) ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور چونکہ آپ کی امانت داری و نیک منشی مشہور تھی اس لئے آپ کے معاہدے محترم اور اطمینان بخش ہوتے اور ستمگروں کو بھی آپ سے سروکار نہ ہوتا _

ہوشیار: مہدی موعود کا پروگرام تمام ائمہ اطہار کے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ کو تا حد امکان ترویج دین اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے مامور کیا گیا تھا ، جنگ کے لئے نہیں _ لیکن ابتداء ہی سے یہ مقدر تھا کہ مہدی کی سیرت و رفتار ان سے مختلف ہوگی ، وہ ظلم اور باطل کے مقابلہ میں سکوت نہیں کریں گے اور

۱۸۹

جنگ و جہاد کے ذریعہ ظلم و جور کی بیخ کنی کریں گے اور ستمگروں کے خودسری کی محلوں کو منہدم کریں گے _

ایسی سیرت و رفتار مہدی کی علامتیں اور خصوصیات شمار کی جاتی تھیں_ ہر امام سے کہا جاتاتھا کہ ستمگروں کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ فرماتے تھے : مہدی تلوار سے جنگ کریں گے ، قیام کریں گے جبکہ میرے اندر یہ خصوصیات نہیں ہیں اور ان کی طاقت بةی نہیں ہے _ بعض سے دریافت کیا جاتا تھا: کیا آپ(ع) ہی قائم ہیں؟ فرماتے تھے : میں قائم بر حق ہوں لیکن و ہ قائم نہیں ہوں جو زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کریں گے _ بعض کی خدمت عرض کیا جاتا تھا: ہمیں امید ہے کہ آپ ہی قائم ہیں _فرماتے تھے: میں قائم ہوں لیکن جو قائم زمیں کو کفر و ظلم سے پاک کریں گے وہ اور ہیں _ دنیا کی پریشان حالی ، ابتری ، ظالموں کی ڈکٹیڑی اور مومنین کی محرومیت کی شکایت کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: مہدی کا انقلاب مسلّم ہے _ اسی وقت دنیا کی اصلاح ہوگی اور ظالموں سے انتقام لیا جائے گا _ مومنین کی قلّت اور کافروں کی کثرت و طاقت کی اعتنا کی جاتی تو ائمہ شیعوں کی ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد کی حکومت حتمی اور حق پرستی کی کامیابی یقینی ہے _ صبر کرو اور فرج آل محمد (ص) کے منتظر رہو اور دعا کرو، مومنین اور شیعہ ان خوش خبریوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم کے رنج و غم کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ''_

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مومنین بلکہ بشریت کو جو مہدی سے توقعات ہیں ان کے باوجود آپ وقت کے ستمگروں سے پیمان مودت و دوستی باندھ سکتے تھے؟ اگر آپ ایسا کرتے تو کیا مومنین پر یاس و ناامیدی غالب نہ آجاتی _ کیا وہ آپ پر

۱۹۰

یہ تہمت نہ لگاتے کہ آپ نے ظالموں سے ساز باز کرلی ہے اور آپ کا مقصد اصلاح نہیں ہے ؟

میرے نقطہ نظر سے تو اس کا امکان ہی نہیں تھا او راگر ایسا ہوگیا ہوتا تو مومنین کی قلیل تعداد مایوس و بد ظن ہوکر دین سے خارج اور طریقہ کفر پر گامزن ہوجاتی _

اس کے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستی کا معاہدہ کرلیتے تو مجبوراً اپنے عہد کی پابندی کرنے ، نتیجہ میں کبھی جنگ کا اقدام نہ کرتے ، کیونکہ اسلام نے عہدو پیمان کو محترم قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو ضروری جانا ہے _(۱)

اس وجہ سے احادیث میں تصریح ہوتی ہے ک صاحب الامر کی ولادت کے مخفی رکھنے اور غیبت کا ایک راز یہ ہے کہ ظالموں سے بیعت نہ کر سکیں تا کہ جب چاہیں قیام کریں اور کسی کی بیعت میں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' صاحب الامر کی ولادت کو مخفی رکھا جائے گا تا کہ ظہور کے وقت آپ کسی پیمان کے پابند نہ ہوں ، خدا ایک رات میں ان کے لئے زمین ہموار کریگا ''(۲) _

ان تمام چیزوں کے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع کیلئے خطرہ محسوس کرتے تو وہ اس پیمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ کے قتل کا منصوبہ بتاتے اور زمین کو حجت خدا کے وجود سے خالی کردیتے _

____________________

۱_ مائدہ /۱ و اسراء / ۳۴ و مومنوں/۸

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶

۱۹۱

مخصوص نواب کیوں معین نہ کئے ؟

جلالی: ہم اصل لزوم غیبت کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت کبری میں آپ نے اپنے شعیوں کے لئے غیبت صغری کی مانند نواب کیوں معین نہیں کئے شیعہ ان کے ذریعہ آپ سے رابطہ قائم کر تے اور اپنے مشکلات حل کرتے ؟

ہوشیار : دشمنوں نے نواب حضرت کو بھی اذ یتیں پہنچائی ہیں '، شکنجے دیئےیں تا کہ وہ امام کی قیام گاہ کاپتہ بتادیں انھیں آزاد نہیں چھوڑ اگیا تھا _ _

جلالی : یہ بھی ممکن تھا کہ معین اشخاص کو وکیل منصوب کرتے _ خود کبھی کبھی بعض مومنین کے پاس تشریف لاتے اور شعیوں کے لئے انھیں احکام و پیغام دیتے _

ہوشیار : اس میں بھی صلاح نہیں تھی بلکہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہی لوگ دشمنوں کو امام کے مکان کا پتہ بتاد یتے اور آپ کی اسیری و قتل کے اسباب فراہم کردیتے _

جلالی : خطرہ کا احتمال اس صورت میں تھا کہ جب آپ مجہول الحال شخص کے لئے ظاہر ہوتے لیکن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنین کے لیے ظہور فرماتے تو خطرہ کا با لکل احتمال نہ ہوتا _

ہوشیار : اس مفروضہ کے بھی کئی جواب دیئےاسکتے میں :

ا_ جس شخص کے لئے بھی ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ناچار معجزہ دکھا ناپڑ تا بلکہ ان لوگون کے لئے تو کئی معجزے دکھا نے پڑتے جو آسانی سے کسی بات کو قبول نہیں کرتے _ اسی اثناء میں فریب کار

۱۹۲

اور جادو گر بھی پیدا ہوجاتے جو کہ لوگوں کو فریب دیتے ، امامت کا دعوی کرتے اور سحر و جادو دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے اور معجزہ و جادو میں فرق کرنا ہر ایک کے قبضہ کی بات نہیں ہے ، اس قضسہ سے بھی لوگوں کے لئے بہت سے مفاسد و اشکالات پیدا ہوجا تے _

۲ _ فریب کار بھی اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں کے در میان جاکر امام سے ملاقات کا دعوی کرتے اور اپنے مقصد تک پہنچا نے کیلئے آپ کی طرف خلافت شرع احکام کی نسبت دیتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل کرتا اور اپنے کام کی ترقی تصیح کے لئے کہتا _ میں امام زمانہ کی خدمت میں حاضر ہواتھا _ کل رات غریب خانہ ہی پر تشریف لائے تھے مجھ سے فرمایا ہے _ فلاں کام انجام دو ، فلاں کام کیلئے میری تائید کی سے ، اس میں جو خر ابی اور مفاسد میں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں _

۳ _ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام زمانہ کسی بھی شخص ، یہاں تک صالح لوگوں بھی ملاقات نہیں کرتے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے صالحین و اولیاء خدا آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہوں لیکن انہیں یہ بات بیان کرنے کی اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنی ہی کیفیت سے واقف ہے اسے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے _

۱۹۳

امام غائب کا کیا فائدہ ؟

انجینئر : اگرامام لوگوں کے پیشوا ہیں ، تو انھیں ظاہر ہونا چا ہئے _ غائب امام کے وجود سے کیا فائدہ ہے ؟ جو امام سیکڑوں سال غائب رہے _ دین کی ترویج نہ کرے ، معاشر ے کی مشکوں کو حل نہ کر ے ، مخالفوں کے جواب نہ دے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے ، مظلوموں کی حمایت نہ کرے ، خدا کے احکام وحدود کو نا فذ نہ کرے ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟

ہوشیار :غیبت کے زمانہ میں لوگ آپ کے بیان کردہ فوائد سے اپنے اعمال کی بنا پر محروم ہیں لیکن وجود امام کے فوائد ان ہی میں منحصر نہیں ہیںبلکہ اور بہی فوائد ہین جو کہ غیبت کے زمانہ میں مترتب ہو تے ہیں منجملہ ان کے ذیل کے دو فوائد تہی ہیں:

اول : گزشتہ بحث ، علما کی کتابوںمیں نقل ہونے والی دلیلوں اور موضوع امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام کا مقدس وجود نوع انسان کی غایت ، انسانیت کا فرد کامل اور عالم مادی وعالم ربویت کے در میان رابطہ ہے_اگرروئے زمین پر امام کا وجود نہ ہو گا تو نوع انسان تباہ ہو جائے گی _ اگر امام نہ ہوں گے توصحیح معنوں میں خدا کی معرفت وعبادت نہ ہوگی _ اگر امام نہ ہوں گے تو عالم مادی اور منبع تخلیق کے در میان رابطہ منقطع ہو جائے گا_ امام کے قلب مقدس کی مثال ایک

۱۹۴

ٹرانسفار مر کی سی ہے جو کار خانہ کے ہزاروں بلبوں کو بجلی فراہم کرتاہے_ عوالم غیبی کے اشراقات وافاضات پہلے امام کے پاکیزہ قلب پر اور ان کے وسیلہ سے تمام لوگوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں _ امام عالم وجود کا قلب اور نوع انسانی کے رہبر و مربی ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان فوائد کے ترتیب میں آپ کی غیبت وحضور میں کوئی فرق نہیں ہے _ کیا اس کے با وجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ آپ نے یہ اعتراض اس کی زبان سے کیا ہے جس نے امامت و ولایت کے معنی کی تحقیق نہیں کی ہے اور امام کو صرف مسئلہ بیان کرنے والا تصور کرلیا ہے نہ کہ حدود جاری کرنے والا جبکہ عہدہ امامت وولایت اس سے کہیںبلند وبالاہے_

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''ہم مسلمانوںکے امام ، دنیا پر حجت ،مؤمنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولاہیں ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہیں _ ہماری وجہ سے آمان اپنی جگہ ٹھراہواہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے واسطہ سے باران رحمت نازل کر تا اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتاہے _اگر ہم روئے زمین پر نہ ہو تے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے''پھر فرمایا : '' جس دن سے خدا نے حضرت آدم کو پیدا کیا ہے_ اس دن سے آج تک زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے لیکن حجت خدا کا وجود کبھی ظاہر وآشکار اور کبھی غائب و مخفی رہا ہے_ قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہوگی_ اگر امام نہ ہو گا تو خدا کی عبادت نہ ہوگی_

۱۹۵

سلیمان کہتے ہیں : میں نے عرض کی امام غائب کے وجود سے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے ؟ جیسے ابر میں چھیے ہوئے سورج پہنچتا ہے(۱) _

اس اور دیگر حدیثوں میں صاحب الامر کے مقدس وجود اور ان کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بادل میں چھپ کربھی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے _ وجہ تشبیہ یہ ہے : طبیعی اور فلکیات کے علوم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سورج شمسی نظام کامر کز ہے _ اس کی قوت جاذبہ زمین کی محافظ اور اسے گرنے سے بچاتی ہے ، زمین کو اپنے چاروں طرف گردش دیتی ہے ، دن ، رات اور مختلف فصلوں کو وجود میں لاتی ہے _ اس کی حرارت حیوانات ، نباتات اور انسانوں کی زندگی کا باعث ہے _ اس کا نور زمین کو روشنی بخشتاہے _ ان فوائد کے مترتب ہونے میں سورج کے ظاہر یابادل میں پوشیدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یعنی اس کی قوت جاذبہ حرارت اور نور دونوں صورتوں میں رہتا ہے _ ہاں کم و بیش کا فرق ہوتا ہے _

جب سیاہ گھٹاؤں میں سورج چھپ جاتا ہے یارات ہوجاتی ہے تو جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اب موجودات سورج کی حرارت اور نور میسر نہ ہو تو برف بن کر ہلاک ہوجا ئیں ، سورج ہی کی برکت سے سیاہ گھٹا ئیں چھٹتی ہیں اور اس کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوتا ہے _

امام کا مقدس وجود بھی عالم انسانیت کا قلب اور سورج اور اس کا تکوینی مربی

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۲۱۷

۱۹۶

وہادی ہے ، اور ان فوائد کے ترتب میں آپ کی غیبت و حضور میں اثر انداز نہیں ہے _ حاضرین سے گزارش ہے _ کہ نبوت عامہ اور امامت کے بارے میں ہونے والی بحث کو مد نظر رکھیں اور نہایت سنجیدگی سے ایک مرتبہ اسے دھرالیں ، تا کہ ولایت کے حقیقی معنی تک پہنچ جائیں _ اور امام کے وجود کے، اہم فائدہ کو سمجھ جائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اب بھی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امام غائب کی برکت کا اثر ہے _

لیکن آپ نے جو دوسرے فوائد بیان کئے ہیں اگر چہ غیبت کے زمانہ میں عام لوگ ان سے محروم ہیں لیکن خداوند عالم اور خود امام فیض میں مانع نہیں ہیںبلکہ اس میںخود لوگوں کی تقصیر ہے _ اگر وہ ظہور میں مانع چیزوں کو بر طرف کر دیتے اور توحید و عدالت کی حکومت کے اسباب فراہم کر لیتے _ دنیا کے اذہان و افکار کو ہموار کر لیتے تو امام کا ظہور ہوجاتا اور آپ انسانی معاشرہ کو بے پناہ فوائد سے مالا مال کرد یتے_

ممکن ہے آپ یہ کہیں : جب عام حالات امام زمانہ کے ظہور کے لئے سازگار نہیں ہیں تو اس پر خطر کام کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے ؟ لیکن واضح رہے مسلمانوں کی طاقت وہمت کو ذاتی منافع کے حصول میں منحصر نہیں ہونا چاہئے ، تمام مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے اجتماعی امور کی اصلاح میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، رفاہ عام میں تندہی اور ظلم و بیدادگری سے مبارزہ بہت بڑی عبادت ہے _

ممکن ہے مزید آپ کہیں : ایک یا چند افرادکی کوشش سے کچھ نہیں ہوتا _ اور پھر میرا کیا گناہ ہے کہ امام کے دیدار سے محروم ہوں ؟ جواب : اگر ہم نے عام افکار کے رشد ، دنیا والوں کو اسلامی حقائق سے متعارف کرانے اور اسلام کے مقدس مقصد سے قریب لانے کی کوشش کی اوز اپنا فریضہ

۱۹۷

انجام دید یا ، تو اس کا ہمیں اجر ملے گا ، اگر چہ ہم نے معاشرہ بشریت کو مقصد سے ایک ہی قدم قریب کیا ہوگا اور اس کام کی اہمیت علماء پر مخفی نہیں ہے اسی لئے بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ انتظار فرج سب سے بڑی عبادت ہے _ ۱ _

دوسرا فائدہ : مہدی ، انتظار فرج اور امام زمانہ کے ظہور پر ایمان رکھنے سے مسلمانوں کے دلوں کو سکون ملتا اور امید نبدھتی ہے اور امیدوار رہنا مقصد کی کا میابی کا سبب ہے _ جس گروہ نے اپنے خانہ دل کو یاس و نا اُمیدی سے تاریک کرلیا اور اس میں امید کی کرن کا گزرنہ ہوتووہ ہرگز کا میاب نہ ہوگا _

ہاں دنیا کے آشفتہ حالات ، مادیت کا تبا ہ کن سیلاب ، علوم و معارف کی سرد بازاری پسماندہ طبقہ کی روز افزوں محرومیت ، استعمار کے فنون کی وسعت ، سردو گرم جنگیں ، اور مشرق و مغرب کا اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ نے روشن فکر اور بشر کے خیرخواہوں کو مضطرب کردیا ہے ، یہاں تک کہ وہ کبھی بشرکی اصلی طاقت ہی کی تردید کردیتے ہیں _

بشرکی امید کا صرف ایک جھرو کا کھولا ہوا ہے اور اس دنیا ئے تاریک میں جو امید کی چمکنے والی کرن انتظار فرج اور حکومت توحید کا درخشاں زمانہ اور قوانین الہی کا نفاذ ہے _ انتظار فرج ہی مایوس اور لرزتے دلوں کو آرام بخشتا اور پسماندہ طبقے کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے _ حکومت توحید کی مسرت بخش خوش خبریوں نے ہی مومنین کے عقائد کی حفاظت کی اور دین میں اسے پائیدار کیا ہے _ حق کے غلبہ اور کا میابی نے ہی بشر کے خیر خواہون کو فعالیت و کوشش پر ابھاراہے _اسی غیبی طاقت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲_۱۵۰

۱۹۸

سے استمداد انسانیت کو یاس و نا امیدی کے ہولنا ک غار میں گرنے سے بچاتی ہے اور امیدو آرزوؤں کی شاہ راہوں کو منور کرتی ہے _ پیغمبر اکرم(ع) توحید کی عالمی حکومت اور عالمی اصلاحات کے رہبر کے تعین و تعارف سے دنیا ئے اسلام سے یاس و نا اُمیدی کے دیوکو نکال دیا ہے _ شکست و نا اُمیدی کے راستوں کو مسدود کردیا ہے _ اس بات کی تو قع کی جاتی ہے کہ اسلام کے اس گراں بہا منصوبہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمان دنیا کی پراگندہ قوموں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور حکومت توحید کی تشکیل کے لئے ان سے اتحاد کرلیں گے _ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں :

'' انتظار فرج خود عظیم فرج و گشائشے ہے ''(۱)

مختصر یہ کہ محدی موعود پر ایمان نے شیعوَ کے مستقبل کو تا بناک بنادیا ہے اور اس دن کی امید میں خوش رہتے ہیں _ شکست و یاس کو ان سے سلب کرکے انھیں مقصد کی راہ ، تہذیب اخلاق اور معارف سے دلچپی لینے پر ابھارا ہے _ شیعہ ، مادیت ، شہوت رانی ، ظلم وستم ، کفرو بے دینی اور جنگ و استعمار کے تاریک دور میں حکومت توحید عقل انسانیت کی تکمیل ، ظلم و ستم کی تباہی ، حقیقی صلح برقراری اور علوم و معارف کی گرم بازاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں _ اور اس کے اسباب و مقاصد فراہم کردہے ہیں _ اس لئے اہل بیت(ع) کی احادیث میں انتظار فرج کو بہترین عبارت اور راہ حق میں شہادت قرار دیاگیا ہے _ ۲ _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ تا ۱۵۰

۱۹۹

اسلام سے دفاع

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ولی عصر (ع) زمانہ غیبت میں بھی اسلام کی عظمت و ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حدتک کوشش فرماتے ہیں _

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں :

وہ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر ، دائیں بائیں چلے گئے اور ضلالت کی راہ

پر گامزن ہوئے ، ہدابت کے راستہ

کوچھوڑدیا ، پس جو ہونے والاہے

اس کیلئے جلد نہ کرو ، انتظار کرو اور جو چیز بہت جلد واقع ہونے والی ہے اسے ددرنہ سمجھو کتنے لوگوں نے کسی چیز کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا لیکن جب اسے پالیا تو کہا : اے کاش میں نے اس کا ادراک نہ کیا ہوتا ، مستقبل کی بشار تیں کتنی قریب ہیں اب و عدوں کے پورا ہونے اور ان چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنھیں تم پہچانتے آگاہ ہو جاؤ ہم اہل بیت میں سے جو اس زمانہ کو درک کرے گا _ وہ امام زمانہ ہے _ وہ روشن چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کا طریقہ اختیار کرے گا _ یہاں تک کہ اس زمانہ کے لوگوں کی مشکلکشائی کرے گا اور اسیروں کو آزاد کرے کا باطل و نقصان دہ طاقتوں کو پراگندہ کرے گا _ مفید لوگوں کو جمع کرے گا _ ان تمام کاموں کو خفیہ طور پرانجام دے گا کہ قیافہ شناس بھی غور وتامل کے بعد کچھ نہ سمجھ سکیں گے _ امام زمانہ کے وجود کی برکت سے _ دین سے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455