آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181626 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عجیب و غریب بات نہیں ہے بلکہ اس زمانہ کے وحشت ناک حالات ، کنیزوں کی کثرت اور اختفا میں شدت یہی اقتضا تھا اور امام حسن عسکری کی میراث کے سلسلے میں آپ کی والدہ اور جعفر کذاب کے در میان جو شدید اختلاف رونما ہو اتھا بعید نہیں ہے کہ اس میں خلیفہ کا ہا تھ ہو اور اس طرح امام حسن عسکری کے بیٹے کاپتہ لگا نا چا ہتا ہو _

کمال الدین میں صدوق لکھتے ہیں : جب امام حسن عسکری کی میرات کے سلسلہ میں آپ کی والدہ سے جعفر سے نزاع ہوئی ااور قضیہ خلیفہ تک پہنچا تو اس وقت امام حسن عسکری کی ایک کنیز صیقل نے حاملہ ہو نے کا دعوی کیا چنا نچہ اس کنیز کو خلیفہ معتمد کے گھر لے جا یا گیا اور خلیفہ کی عورتون ، خدمت گارون ، ماہر عورتون اور قاضی کی عورتو ں کی نگرانی میں رکھی گئیں تا کہ ان کے حاملہ ہونے کا مسئلہ واضح ہو جائے _ لیکن اس زمانے میں عبداللہ بن یحیی اور صاحب زنج کے خروج کا مسئلہ اٹھ کھٹرا ہوا _ اور حکومت کے افراد کو سامرہ سے نکلنا پڑا ، اور اپنے مسائل میں الجھ گئے اور صیقل کی نگرانی سے دست بردار ہو گئے(۱)

نام اور تعدد کے اختلاف میں دوسرا احتمال بھی ہے _ ممکن ہے کوئی یہ کہے : یہ سب نام ایک ہی کنیز کے تھے _ یعنی جس کنیز کے بطن سے صاحب الامر تھے ان کے کئی نام تھے ، یہ بھی بعید نہیں ہے کیونکہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ ایک ہی شخص کو متعدد ناموں سے پکار تے تھے _

اس احتمال کا ثبوت وہ حدیث ہے جو کہ ، کمال الدین ، میں موجود ہے

____________________

۱_کما الدین ج۲ ص ۱۴۹

۱۴۱

صدوق نے اپنی سند سے غیاث سے روایت کی ہے کہ انہوں کہا : امام حسن عسکری کے جانشین جمعہ کے دن پیدا ہوئے ہیں _ ان کی مادر گرامی ریحانہ ہیں کہ جنھیں نرجس صیقل اور سوسن بھی کہا جاتا ہے چونکہ حمل کے زمانہ میں مخصوص نورانیت و جلاکی حامل تھیں اس لئے ان کانام صیقل پڑ گیا تھا(۱)

آخرمیں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ صاحب الامر کی مادر گرامی کے نام کی تعیین میں اگرچہ مختصر ابہام ہے لیکن اس ابہام سے آپ کے اصل وجود پر کوئی صرف نہیں آتاہے کیونکہ ، جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، ائمہ اطہار اور امام حسن عسکری نے اپنے بیٹے کے وجود کی خبردی ہے اور حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی ، جو کہ قابل اعتماد و وثوق عورتیں ، انہیں نے آپ کی ولادت کی وضاحت کی ہے_ اس کے علاوہ امام حسن عسکری کے گھر کے خدام اور بعض ثقہ افراد نے اس کو دیکھا ہے اور اس کے و جود کی گواہی دی ہے _ والدہ کانام خواہ کچھ بھی ہو _

۱۴۲

ولادت مہدی اور علما ئے اہل سنت

فہیمی : اگر امام حسن عسکری کے یہا ں کو ئی بیٹا ہو تا تو اہل سنت کے علماء و مور خین بھی اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کرتے _

ہوشیار : علمائے اہل سنت کی جماعت تے بھی امام حسن عسکری کی ولادت آپ اور آپ کی پدر بزرگواکی تاریخ لکھی ہے اور ولادت کا ا عتراف کیا ہے _

ا _ محمد بن طلحہ شافعی نے لکھا ہے :

(( ابولقاسم محمد بن حسن ( عسکری ) نے ۲۵۸ ھ کو سامرہ میں ولادت پائی آپ کے والد کانام خالص حسن ہے _ حجت ، خلف صالح اور منتظر آپ کے القاب ہیں _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کرنے کے بعد فرما تے ہیںان کا مصداق امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں جو کہ پردہ غیب میں ہیں بعد میں ظا ہر ہوں گے(۱)

(ع) ۲ _ محمد بن یوسف نے امام حسن عسکری کی وفات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : محمد جو کہ امام منتظر ہیں ، کے علاوہ آپ کے یہاں کوئی بیٹا نہیں تھا _ )) ( ۲ )

____________________

۱_ مطالب السئول طبع ۱۲۸۷ _ ص ۸۹

۲ _ کفا یة الطالب ص ۳۱۲

۱۴۳

۳ _ ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں :

(( بارہویں فصل ابولقاسم ، محمد ، حجت ، خلف صالح بن ابو محمد ، حسن خالص کے حالات کے سلسلہ میں ہے _ یہ شیعوں کے بار ہو یں امام ہیں _ اس کے بعد امام کی تاریخ تحریر کی ہے اور مہدی کے بارے میں کچھ حدثیں بیان کی ہیں(۱)

۴ _ یوسف بن قزاو غلی نے امام حسن عسکری کے حالات قلم بند کرنے کے بعد لکھا ، ہے : (( آپ کے بیٹے کانام محمد اور کنیت ابو عبد اللہ و ابوالقاسم ہے _ و ہی حجت ، صاحب الزمان ، قائم اور منتظر ہیں _ امامت کا سلسلہ ان پرخم ہو گیا _ اس کے بعد مہدی سے متعلق کچھ احادیث لکھی ہیں _ ( ۲ )

۵ _ شیلنجی نے اپنی کتاب نور الا بصار میں تحریر کیا ہے کہ : (( محمد ، حسن عسکری کے بیٹے ہیں _ ان کی والدہ ام دلا ، نرجس یا صیقل یا سوسن ہیں _آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے _ امامیہ انھیںحجت ، مہدی خلف صالح ، قائم ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں ( ۳ )

۶ _ ابن حجر صواعق محرقہ میں امام حسن عسکری کے حالات لکھنے کے بعد لکھتے ہیں : آپ نے ابوالقاسم ، کہ جنھیں محمد ، حجت کہا جا تا ہے ، کہ علاوہ کوئی اولاد نہیں چھوڑی _ اس بچہ کی عمر باپ کے انتقال کے وقت پانچ سال

____________________

۱_ فصول المہمہ ص ۲۷۳ و ص ۳۸۶

۲ _ تذکر ة الخواص الامة ص ۲۰۴

۳ _ نور الا بصار طبع مصر ص ۱۶۸

۱۴۴

تھی(۱)

۷ _ محمد امین بغداد ی نے اپنے کتاب سباٹک الذہب میں لکھا ہے :

(( محمد ، حسن کو مہدی بھی کہا جاتا ہے ، والد کے انتقال کے وقت پانچ سال کے تھے _( ۲ )

۸ _ ابن خلکان نے اپنی کتاب (وفیات الا عیان) میں لکھا ہے کہ : ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری امامیہ کے بار ہویں امام ہیں _ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق وہی منتظر ، قائم اور مہدی ہیں ( ۳ )

۹ _ صاحب روضة الصفالکھتے ہیں :

محمد ، حسن ( عسکری ) کے بیٹے ہیں اور آ پ کی کنیت ابوالقاسم ہے امامیہ انہیں حجت ، قائم اور مہدی سمجھتے ہیں ( ۴ )

۱۰ _ شعرانی نے اپنی کتاب الیواقیت و الجو اھیر میں لکھا ہے کہ :

مہدی ، امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں آپ نے پندرہ شعبان ۲۵۵ ھ میں ولادت پائی _ اور حضرت عیسی کے ظہور تک زندہ و باقی رہیں گے _ اب ۹۵۸ ھ ہے _ اس لحاظ سے آپ کی عمر ۷۰۳ سال ہو چکی ہے ( ۵ )

____________________

۱_ الصواعق المحرقہ

۲_سبائک الذہب ص۷۸

۳_روضةالصفا ج۳

۴_وفیات الاعیان ج۲ص ۲۴

۵_الیوقیت و الجواہیر مولفہ شعران طبع ۱۳۵۱ ج ۲ ص۲۳

۱۴۵

۱۱ _ شعرانی ہی نے فتوحات مکیہ کے باب ۳۶۶ وین سے نقل کیا ہے : جب زمیں ظلم و جورسے بھر جائے گی اس و قت مہدی ظہور فرمائیں کے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے آپ رسول کی اولاد اور جناب فاطمہ کی نسل سے ہیں _ ان کے جد حسین اور باپ عسکری بن امام علی نقی بن امام محمد تقی بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقربن زین العابدین بن امام حسین بن ابی طالب ہیں(۱)

۱۲ _ خواجہ پارسانے اپنی کتاب فصل الخطاب میں تحریر کیا ہے کہ : محمد بن حسن عسکری ۵ا شعبان ۲۵۵ میں پیدا ہوئے _ آپ کی والدہ کا نام نرجس ہے _ پانچ سال کی عمر میں باپ کا سایہ اٹھ گیا اور اس وقت سے آج تک غائب ہیں _ وہی شیعوں کے امام منتظر ہیں _ ان کے اصحاب خاص اور اہل بیت کے نزدیک ان کا وجود ثابت ہو چکا ہے _ خداوند عالم الیاس (ع) و خضر(ع) کی مانند ان کی عمر کو طولانی بنادے گا(۲)

۱۳ _ ابولفلاح حنبلی نے اپنی کتاب شذرات الذہب اور ذہبی نے العبر فی خبر من غیرمیں لکھا ہے کہ :

محمد بن حسن عسکری ، بن علی نقی ، بن جواد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق علوی اور حسینی ہیں _ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے ، شیعہ انھیں

____________________

۱_ الیواقیت و الجواہر ص ۱۴۳

۲ _ منقول از ینابیع المودة ج ۲ و ص ۱۲۶

۱۴۶

خلف صالح ، حجت ، مہدی ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں(۱)

۱۴ _ محمد بن علی حموی لکھتے ہیں :

ابوالقاسم محمد منتظر ۲۵۹ ھ کو شہر سامرہ میں پیدا ہو ئے(۲)

مذکور ہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے علمانے بھی امام حسن عسکری کے بیٹے کی ولادت کا قضیہ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ( ۳ )

اس وقت جلسہ ختم ہو گیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ جلسہ ہفتہ کی شب میں جلالی صاحب کے مکان پر منعقد ہو گا _

____________________

۱_ شذرات الذہب ج ۲ ص ۱۴۱ و کتا ب العیر فی خیر من غبر طبع کویت ج ۲ ص ۳۱

۲ _ تاریخ منصوری ص ۱۱۴ ، ص ۹۴ ( ماسکو سے فوٹو کا پی لی گئی )

۳ _ تفصیل کے شائقیں کشف الا سرار مؤلفہ حسین بن محمد تقی نور اور کفایہ الموحدین ج ۲ ، مولفہ طبرسی کا مطالعہ فرمائیں _

۱۴۷

کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوتا ہے؟

جلسہ شروع ہونے کے بعد فہیمی صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا :

فھیمی : بالفرض امام حسن عسکری کے یہاں بیٹا تھا لیکن اس بات کو کیونکر قبول کیا جاسکتا ہے کہ، پانچ سال کا بچہ منصب امامت و ولایت پرمتمکن ہوتاہے ؟ اور احکام خدا کی حفاظت وتحمل کے لئے اس کا انتخاب ہوتا ہے اور کمسنی میں ہی علم وعمل کی اعتبار سے لوگوں کا امام اور ان پر خدا کی حجت قرار پاتا ہے؟

ھوشیار : آپ نے نبوت اور امامت کو ایک ظاہری اور معمولی چیز تصوّ رکرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ اس کے لئے کسی قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے_ جو شخص احکام کے حفظ وتحمل کی صلاحیت رکھتا ہے اسی کو منتخب کر لیا جا تا ہے ، اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے _ گویا محمد بن عبداللہ(ص) کی جگہ ابوسفیان کا نبوت کے لئے انتخاب ہو سکتا ہے اور علی بن ابیطالب کے بجائے طلحہ وزبیر امام بن سکتے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں گے اور اہل بیت کی احادیث کا مطالعہ فرمائیں گے تو اس بات کی تصدیق فرمائیں گے کہ یہ بات اتنی آسان نہیں ہے _ کیونکہ نبوت بہت عظیم مقام ہے اس مقام پر فائز انسان کا خدا سے ارتباط واتصال رہتا ہے اور وہ عالم غیبی کے افاضات سے مستفید ہوتا ہے خدا کے احکام وقوانین وحی اور الہام کی صورت میں اس کے قلب پر نازل ہوتے ہیں

۱۴۸

اور انھیں حاصل کرنے میں اس سے کوئی اشتباہ و خطا واقع نہیں ہوتی _ اسی طرح امامت بھی ایک عظیم منصب ہے _ اس عہدہ کا حامل خد ا کے احکام اور نبوت کے علوم کو اس طرح حفظ و ضبط کرتا ہے کہ جس میں خطا و نسیان اور معصیت کا امکان نہیں ہے _ اس کا بھی عالم غیبت سے رابطہ رہتا ہے اور خدا کے افاضات و اشراقات سے بہرہ مند رہتا ہے _ علم و عمل کے سبب لوگوں کا امام اور دین خدا کا نمونہ و مظہر قرار پاتا ہے _

واضح ہے کہ ہر شخص میں اس منصب پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے روح کے اعتبار سے انسانیت کے اعلی درجہ پر فائز ہونا چاہئے تا کہ عوالم غیبی سے ارتباط اور علوم کے حفظ و حصول کی اس میں لیاقت پیدا ہو سکے اور اس کی جسمانی ترکیب اور دماغی قوتوں میں نہایت ہی اعتدال پایا جاتا ہو کہ جس سے عام ہستی کے حقائق اور غیبی افاضات کو بغیر کسی خطا و اشتباہ کے الفاظ و معانی کے قالب میں ڈھال سکے اور لوگوں تک پہنچا سکے _

پس خلقت کے اعتبار سے رسول اور امام ممتاز ہیں اور اسی ذاتی استعداد و امتیاز کی بنا پر خداوند عالم انھیں نبوت و امامت کے عظیم و منصب کے لئے منتخب کرتا ہے اگر چہ یہ امتیازات عہد طفولیت ہی سے ان میں موجود ہوتے ہیں _ لیکن جب صلاح ہوتی ہے ، کوئی مانع نہیں ہوتا اور حالات سازگار ہوتے ہیں تو ان ہی نمایان افراد کا منصب نبوت وامامت کے حامل کے عنوان سے سرکاری طور پر تعارف کرایا جاتا ہے اور وہ احکام کے حفظ و تحمل کے لئے مامور ہوتے ہیں _

یہ انتخاب کبھی بلوغ کے بعد یا بزرگی کے زمانہ میں ہوتا ہے اور کبھی عہد طفولیت میں ہوتا ہے _ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی

۱۴۹

اور کہا : میں نبی ہوں اور کتاب لے کر آیا ہوں _ سورہ مریم میں خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ حضرت عیسی نے فرمایا :'' میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اور نبوت عطا کی ہے ، میں جہاں بھی رہوں با برکت ہوں اور تا حیات مجھے نماز و زکوة کی وصیت کی ہے ''_

اس اور دوسری آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت عیسی بچینے ہی سے نبی اور صاحب کتاب تھے _

اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پانچ سال کے بچہ کا عوالم غیبی سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام کی ایسی عظیم ذمہ داری کے لئے منصوب کئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اس امانت کی ادائیگی اوراپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے _

چنانچہ امام علی نقی بھی والد کے انتقال کے وقت نو یا سات سال کے تھے اور کم سنی کی بناپر بعض شیعہ ان کی امامت کے بارے میں مستردد تھے_ اس مسئلہ کے حل کرنے کی غرض سے کچھ شیعہ آپ(ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آپ(ع) سے سیکڑوں مشکل ترین سوالات معلوم کئے اور مکمل جواب حاصل کئے اور ایسی کرامات کو مشاہدہ کیا کہ جن سے ان کا شک برطرف ہوگیا _(۱)

امام رضا (ع) نے انھیں اپنے جانشین اور امام کے عنوان سے پیش کیا تھا اور مخاطبین کے تعجب پر فرمایا تھا: '' حضرت عیسی بھی بچپنے میں نبی اور حجت خدا ہوئے تھے ''(۲) _

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۱۲۶_

۲_ اثبات الوصیہ ص ۱۶۶_

۱۵۰

حضرت امام علی نقی (ع) بھی چھ سال اور پانچ ماہ کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے اور امامت آپ کی طرف منتقل ہوگئی تھی_(۱)

جناب فہیمی صاحب ، انبیاء و ائمہ کی خلقت کچھ اس زاویہ سے ہوئی ہے کہ جس کا عام افراد سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا _

نابغہ بچّے

کبھی عام بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں جو کہ استعداد او حافظہ کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے نابغہ ہوتے ہیں اور ان کے ادراکات و دماغی صلاحیت چالیس سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھی ہوتی ہے _

ان ہی میں سے ایک ابو علی سینا بھی ہیں _ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے بتا یا : '' جب میں اچھے برے کو سمجھنے لگا تو مجھے معلم قرآن کے سپرد کیا گیا _ اس کے بعد ادب کے استاد کے حوالے کیا _ ادب کے استاد کو شاگرجو بھی سنا تے تھے اسے میں حفظ کرلیتا تھا _ اس کے علاوہ استاد نے مجھے حکم دیا تھا کہ : تم '' الصفات '' ، ''غریب المصنف ، '' ادب الکاتب'' ، '' اصلاح المنطق'' ، ''العین'' ، ''شعر و حماسہ'' ، ''دیوان ابن رومی'' ، '' تصریف'' ''مازنی'' اور سیبویہ کی نحو بھی سنایا کرو _ چنانچہ انھیں بھی میں نے ایک سال چھ ماہ میں ختم کڑدالا ، اگر استاد تعویق سے کام نہ لیتے تو اس سے کم مدت میں تمام کرلیتا اور جب دس سال کو ہو ا تو اہل بخارا کو انگشت بدندان کردیا _ اس کے بعد فقہ کی تعلیم

____________________

۱_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۴۰۱، اثبات الوصیہ ص ۱۷۴_

۱۵۱

کا سلسلہ شروع کیا اور بارہ سال کی عمر میں ابو حنفیہ کی فقہ کے مطابق فتوی دینے لگا تھا اس کے بعد علم طب کی طرف متوجہ ہو اور سولہ سال کی عمر میں'' قانون'' کی تصنیف کی اور چوبیس سال کی عمر میں خود کو تمام علوم کا ماہر سمجھتا تھا _(۱)

فاضل ہندی کے بارے میں منقول ہے کہ تیرہ سال کی عمر سے پہلے ہی انہوں نے تمام معقول و منقول علوم کو مکمل کرلیا تھا اور بارہ سال کی عمر ے پہلے ہی کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوئے تھے _(۲)

'' ٹوماس ینگ'' کو برطانیہ کے عظیم دانشوروں میں شمار کرنا چاہئے ، وہ بچپنے ہی سے ایک عجوبہ تھا _ دو سال کی عمر سے پڑھنا جانتا تھا ، آٹھ سال کی عمر میںخود ہی ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا ، نو سے چودہ سال کا زمانہ اپنی کلاسوں کے درمیان کے مختصر وقفوں میں فرانسیسی ، اطالوی ، عبری ، عربی اورفارسی کی تعلیم کا دورہ گزارا اور مذکورہ زبانوں کو اچھی طرح سیکھ لیا _ بیس سال کی عمر میں رویت کی تھیوری پر ایک مقالہ لکھ کر دربارشاہی میں پیش کیا اور اس میں اس بات کی تشریح کی کہ آنکھ عینک کے لینز کی خمیدگی میں ردو بدل کے ذریعہ کیسے واضح تصویر دیکھی جا سکتی ہے _(۳)

اگر آپ مشرق و مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ایسے بہت سے نابغہ

____________________

۱_ ہدیةالاحباب طبع تہران ص ۷۶_

۲_ ہدیة الاحباب ص ۲۸۸_

۳_ تاریخ علوم مؤلفہ بی برروسو ترجمہ صفاری طبع سوم ص ۴۳۲_

۱۵۲

ملیں گے _

جناب فہیمی صاحب ، نابغہ بچے ایسے دماغ اور صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں کہ کمسنی میں ہزاروں قسم کی چیزیں یادکرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں اور کتھیوں کو حل کرتے ہیں ،اور ان کی محیر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بدندان کردیتی ہے تو اگر خدا ، حضرت بقیةاللہ ، حجت حق ، علت مبقیہ انسانیت حضرت مہدی کو پانچ سال عمر میں ولی و امام منصوب کردے اور احکام کی حفاظت و تحمل کو ان کے سپرد کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ ائمہ اطہار نے بھی آپ کی کمسنی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے _

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

صاحب الامرکی عمر مبارک ہم میں سب سے زیادہ ہوگی اور زیادہ گمنام رہیں گے_

حضرت قائم کے نام پر کھڑا ہونا

جلالی کہ آپ کو معلوم ہے لوگوں کے در میان یہ رسم ہے کہ وہ لفظ قائم سن کر کھڑے ہوجائے ہیں اس عمل کا کوئی مدرک ہے یا نہیں ؟

ہوشیار: یہ طریقہ دنیا کے تمام شیعوں میں رائج تھا اور ہے _ منقول ہے کہ خراسان کی ایک مجلس میں امام رضا(ع) تشریف فرماتھے کہ لفظ قائم زبان پر آیا تو آپ کھڑے ہوئے اپنے دست مبارک کو سر پر رکھا اور فرمایا :

____________________

۱_ بحارالانوار

۱۵۳

اللہم عجّل فرجہ و سحّل مخرجہ(۱)

امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں بھی یہ طریقہ رائج تھا عرض کیا گیا قائم سن کر کھڑے ہونے کی کیا تکلیف ہونے کی کیا علّت ہے ؟فرمایا :

صاحب الامر مدت در از تک غیبت میں رہیں گے اوران کے دوستدار محبت کی شدّت کی بناپر آپ کو قائم کے لفت سے یاد کرتے ہیں جو کہ آپ (ع) کی حکوت و غریب کو بتا تا ہے _

چونکہ اس وقت امام زمانہ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لہذا احترام کے لئے کھڑا ہوناچا ہئے اور خدا سے آپ کے لئے تعجیل فرج کی دعا کرنا چاہئے _ ( ۲ )

شیعوں کے اس عمل میں مذہبی اور اظہار ادب کا ایک پہلو موجود ہے اگر چہ اس کا واجب ہونا معلوم نہیں ہے _

____________________

۱_ الزام الناصب ص ۸۱

۲_ الزام الناصب ص ۸۱

۱۵۴

داستان غیبت کی ابتدا کب ہوئی ؟

ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری دنیا سے لا ولد ا ٹھے ہیں لیکن عثمان بن سعید جیسے فائدہ اٹھا نے والوں نے اپنی عزت و بزرگی باقی رکھنے کی عرض سے مہدی کی غیبت کی داستان گھڑ لی اور خوب اس کی نشر و اشاعت کی _

ہوشیار : پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے غیبت مہدی کے بارے میں اس سے پہلے پیشیں گوئی کی تھی اور لوگوں کو اس کی خبر دیدی تھی چند نمونے ملا حظہ فرمائیں _

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

قسم اس خدا کی جس نے مجھے بشارت دینے کے لئے مبعوث کیا ہے قائم میرا بیٹا ہے اور وہ اس عہد کے مطابق غیبت اختیار کرے گا جو اس تک پہنچےے گا غیبت اتنی طو لانی ہوگی کہ لوگ یہاں تک کہنے لگیں گے کہ خدا کو آل محمد کی کوئی ضرورت نہیں ہے _ کچھ لوگ اس کی ولادت ہی میں شک کریں گے _ پس جو بھی غیبت کا زمانہ درک کرے اسے اپنے دین کی حفاظت کرناچاہئے اور شک کے راستہ سے شیطان کو اپنے اندر راہ نہیں دینا چا ہئے ، کہیں ایسانہ ہو کہ اسے وہ دین و ملت سے خارج

۱۵۵

کردے _ جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے ماں ، باپ ( آدم و ہواء ) کو جنت سے نکال دیا تھا بے شک خدا شیطان کو کافروں کافرما نروا اور دوست قرار دیتا ہے(۱)

اصبغ بن نباتہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت قائم کا ذکر کیااور فرمایا : جان لو ان کی غیبت ایسی ہوگی کہ جاہل کہے گا : خدا آل محمد کا محتاج نہیں ہے ))

امام صادق فرماتے ہیں :

اگر تم امام کی غیبت کی خبر سنو تو انکار نہ کرنا _ ۸۸ حدیثیں اور ہیں ان احادیث کی بنا پر مسلمان قائم کے لئے غیبت ضروری سمجھتے ہیں اور ان کے خصائص میں شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ جس کو وہ مہدی سمجھتے تھے اسے بھی غیبت کی ترغیب د لا تے تھے _ ابو الفرج اصفہانی لکھتے میں :

عیسی بن عبداللہ نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن(ع) بچین ہی ہے غیبت کی زندگی بسر کرتے تھے اور مہدی کر لقب سے یاد کئے جاتے تھے

سید محمد حمیری کہتے ہیں :

میں محمد بن حنیفہ کے بارے میں غلو کرتا تھا اور میرا عقیدہ تھا کہ وہ غائب ہیں

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ، ص ۳۸۶

۲ _ اثبات الھداة ج ۶ ص ۳۹۳

۳ _ اثبات الھداة ج ۶ ص ۳۵۰

۴ _ مقاتل الطالبین ص ۱۶۵

۱۵۶

ایک زمانہ تک اسی عقیدہ کا معتقد ر ہا بہاں بک کہ خدانے مجھ پر احسان کیا اور جعفر بن محمد امام صادق کے ذریعہ مجھے آتش ( جہنّم ) سے نجات عطا کی اور سید ھے راستہ کی ہدایت کی _ واقعہ یہ تھا کہ جب جعفر بن محمد(ص) کی امامت دلیل و برہان سے ثابت ہوگئی ، تو ایک روز میں نے آپ سے عرض کی : فرزند رسول غیبت کے سلسلہ میں آپ کے آبا واجداد سے کچھ حدیثیں ہم تک پہنچی ، ہیں کہ جن میں غیبت کے و قوع پذیر ہو نے کو یقینی قرار دیا گیا ہے _ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اس سے خبردار فرمائیں کہ کون غیبت اختیار کریگا ؟ امام صادق نے جواب دیا : میرا چھٹا بیٹا غیبت اختیار کرے گا اور وہ رسول کے بعد ہونے والے ائمہ میں سے بار ہواں ہے کہ ان میں سے پہلے علی اور آخری قائم برحق ، بقیہ اللہ اور صاحب الزمان ہیں قسم خدا کی اگر وہ نوح کی عمر کے برابر بھی غیبت میں رہیں گے تو بھی دنیا سے نہ جائیں گے یہاں تک ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _

سید حمیری کہتے ہیں : جب میں نے اپنے مولا جعفر بن محمد سے یہ سنا تو حق مجھ پر آشکار ہوگیا اور پہلے عقیدہ سے تو بہ کی اور اس سلسلہ میں کچھ اشعار بھی کہے(۱)

غبیت مہدی کی داستان عثمان بن سعید نے نہیں گھڑی ہے بلکہ خدا نے ان کے لئے غیبت مقرر کی اور رسول خدا و ائمہ اطہار علیہم السلام نے آپکی ولادت سے قبل

____________________

۱_ کمال الدین مؤلفہ شیخ صدوق طبع ۱۳۷۸ ھ ج ۱ ص ۱۱۲ تا ص ۱۱۵

۱۵۷

لوگوں کو اس کی خبردی ہے _

طبرسی لکھتے ہیں :

ولی عصر کی غیبت کے بارے میں آپ اور آپ کے والد کی ولادت سے پہلے حدیثیں صادر ہوئی ہیں اور شیعہ محمد ثین نے انھیں اصول اور ان کتا بوں میں قلم بند کیا ہے جو کہ امام محمد باقر کے زمانہ میں تا لیف ہوئی ہیں ، منجملہ ثقہ محمد ثین میں سے ایک حسن بن محبوب ہیں ، انہوں نے غیبت سے تقریبا سو سال قبل کتاب (( مشیخہ )) تالیف کی اور اس میں غیبت سے متعلق احادیث جمع کیں _ اس میں ایک حدیث یہ ہے کہ :

ابو بصیر کہتا ہے : ہیں نے امام نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی : حضرت ابوجعفر ( امام باقر ) فرماتے تھے : قائم آل محمد کی دو غیبتین ہوں گی یک غیبت صغری دوسری غیبت کبری _ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ملا حظہ فرما یئےہ امام حسن عسکری کے بیٹے کے لئے دو غیبتوں کا پیش آنا اس طرح ثابت ہوا ))

غیبت صغری کے زمانہ کی عمر اسی سال سے زیادہ گز ر چکی تھی وہ اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۶ پر لکھتے ہیں : ائمہ نے امام زمانہ کی غیبت کی پہلے ہی خبر دیدی تھی ، اگر امام کی غیبت واقع نہ ہوتی تویہ امامیہ کے عقیدہ کے باطل ہونے کا ثبوت ہوتا _ لیکن خدا نے آپ(ع) کو غیبت میں بلا کر ائمہ کی احادیث کی صحت کی آشکار کردیا

____________________

۱_ اعلام الوری مولفہ طبرسی طبع تہران ص ۴۱۶

۱۵۸

امام زمانہ کی ولادت سے پہلے غیبت سے متعلق کتابیں

بارہویں امام حضرت مہدی موعود کی غیبت کو پیغمبر اکرم ، علی بن ابیطالب اور دیگر ائمہ نے مسلمانوں کے گوش گزار کیا ہے اور بات صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے در میان مشہور تھی کہ علماء ، روات احادیث ، ائمہ کے اصحاب نے آپ اور آپ کے باپ داداکی ولادت سے قبل مخصوص غیبت کے موضوع پر کتا بیں تالیف کی ہیں اوران میں مہدی موعود اور آپ کی غیبت سے متعلق احادیث جمع کی ہیں رجال کی کتابوں میں آپ ان مؤلفیں کے نام تلاش کرسکتے ہیں _ از باب نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

ا_ موسی بن جعفر کے صحابی ، علی بن حسن بن محمد طائی طاطری نے غیبت کے موضوع پرا یک کتاب تالیف کی ہے یہ فقیہ اور معتمد تھے(۱)

۲_موسی بن جعفر کے صحابی علی بن عمراعرج کوفی نے غیبت سے متعلق ایک کتاب تالیف کی ہے_(۲)

۳ _ موسی بن جعفر کے صحابی ابراہیم بن صالح انماطی نے غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے(۳)

(ص) ۴ _ امام رضا(ع) کے ہمعصر حسن بن علی بن ابی حمزہ نے غیبت کے سلسلہ میں ایک

____________________

۱_ رجال نجاشی ص ۱۹۳ ، رجال شیخ طوسی ص ۳۵۷ ، فہرست طوسی ص ۱۱۸

۲ _ رجال نجاشی ص ۱۹۴

۳ _ رجال نجاشی ص ۲۸ ، فہرست شیخ طوسی ص ۷۵

۱۵۹

کتاب لکھی ہے(۱)

۵ _ امام رضا کے جلیل القدر اور مؤثق صحابی عباس بن ہشام ناشری رسدی متوفی ۲۲۰ ھ نے غیبت پر ایک کتاب تحریر کی ہے(۲)

۶ _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے صحابی ، عالم و ثقہ انسان علی بن حسن بن فضال نے غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے(۳)

۷ _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے صحابی فقیہ و متکلم ، فضل بن شاذان نیشا پوری متوفی ۲۶۰ ھ نے قائم آل محمد اور آپ کی غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے _(۴)

اگر آپ گزشتہ مطالب پر توجہ فرمائیں گے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ امام زمانہ کی داستان غیبت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دینی عمیق سلسلہ ہے جو کہ رسول کے زمانہ سے آج تک موضوع بحث بنا ہوا ہے اس بنا پر یہ احتمال دینا کہ مہدی کی غیبت کی داستان کو عثمان بن سعید نے گھڑی ہو گی ، بے بنیاد ہے اور یہ بات مغرض انسان ہی کہہ سکتے ہیں _

اس کے علاوہ اگر ہم تیں مطالب کو ایک دوسرے سے ضمیمہ کر دیں تو غیبت امام زمانہ قطعی ہو جائے گی :

____________________

۱_ رجائی نجاشی ص ۲۸ ، فہرست شیخ طوسی ص ۷۵

۲_ رجائی نجاشی ص ۲۱۵ رجائی شیخ طوسی ص ۳۸۴ ، فہرست شیخ طوسی ص ۱۴۷

۳ _ رجائی نجاشی ص ۱۹۵ رجائی نجاشی طوسی ص ۴۱۹

۴ _ رجائی نجاشی ص ۳۳۵ رجائی نجاشی طوسی ص ۴۲۰ و ص ۴۳۴ ، فہرست شیخ طوسی ص ۱۵۰

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

سوالات:

١۔ رمضان المبارک کے قضا روزوں کا وقت بیان کیجئے۔

٢۔ روزہ کے کفارہ کا وقت بیان کیجئے۔

٣۔ اگر کوئی اگلے سال کے رمضان تک قضا روزے نہ بجالاسکے تو اس کا فرض کیا ہے؟

٤۔ جو بوڑھا، روزہ نہیں رکھ سکتا ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

٥۔اگر بڑا بیٹا مرچکا ہوتو باپ کے قضا روزے کس کے ذمہ ہیں؟

٦۔ سفر میں کون روزہ رکھ سکتا ہے؟

۲۲۱

سبق نمبر ٣٥

خمس

مسلمانوں کے اقتصادی فرائض میں سے ایک فریضہ ''خمس'' کا ادا کرنا ہے، اس طرح کہ بعض مقاماتمیں اپنے مال کا ایک پنجم حصہ ایک خاص صورت میں خرچ کرنے کے لئے اسلامی حاکم کو دینا چاہئے۔

خمس واجب ہونے کے مواقع

خمس سات چیزوں پر واجب ہے:

*جو کچھ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ بچ جائے (کسب کار کانفع)

* معدن

* خزانہ

*جنگی غنائم

* وہ جواہرات جو سمندر کی تہہ سے نکالے جاتے ہیں۔

*حلال مال حرام کے ساتھ مخلوط ہوچکا ہو۔

۲۲۲

*وہ زمین جسے کافر ذمی زایک مسلمان سے خریدے۔(١)

خمس ادا کرنا بھی نمازو روزہ کی طرح واجبات میں سے ہے اورتمام بالغ اورعاقل اگر مذکورہ سات موارد میں سے ایک کے ،ما لک ہوں تو اس پر عمل کرنا چاہئے

جس طرح شرعی فریضہ کے آغاز پرہرکوئی نمازو روزہ کی فکر میں ہوتا ہے اسے خمس وزکات ادا کرنے اور دیگرواجبات کی فکر میں بھی ہونا چاہئے لہٰذا ضرورت کی حد تک ان کے مسائل سے آشنائی ضروری ہے، چنانچہ ہم یہاں پر خمس کے سات موارد میں سے صرف ایک کے بارے میں وضاحت کریں گے جس سے معاشرے کے لوگ زیادہ دوچار ہیں ، اور وہ سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر خمس ہے:

اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں درج ذیل دوسوالوں کے جواب پر غور کرنا چاہئے:

١۔ سال کے خرچ سے کیا مراد ہے؟

٢۔ کیا خمس کا سال قمری، یاشمسی مہینوںسے حساب ہوتا ہے اور اس کا آغاز کس وقت ہے؟

سال کا خرچہ:

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو پورے کرنے کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔

اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے

____________________

(١)توضیح المسائل ، م١٧٥١

*ذمہ= عہد وپیمان، وہ غیر مسلمان جو اسلامی ممالک میں زندگی کرتے ہیں اوران کے ساتھ عہدوپیمان باندھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سماجی قوانین کی رعایت کریں اورایک معین ٹیکس بھی ادا کریں گے جس کے عوض میں ان کی جان ومال امان میں رہے، انہیں کافر ذمی کہا جاتا ہے۔

۲۲۳

آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کے ایک پنجم حصہ خمس کے عنوان سے ادا کردے اور باقی ٤٥ حصہ اپنے لئے بچت کرے۔

لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیںجو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

* خوارک وپوشاک

* گھر کا سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔

* گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔

* مہانوں کا خرچہ۔

*شادی بیاہ کا خرچ۔

*ضروری اور لازم کتابیں۔

*زیارت کا خرچ

* انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں۔

*اداکیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔(١)

____________________

(١) العروة الوثقیٰ، ج ٢، ص ٣٩٤

۲۲۴

خمس کا سال:

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزے رکھنے چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ مال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتدائ:

* کسان کے لئے ۔۔۔۔ پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔

* ملازم کے لئے ۔۔۔۔ پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔

* مزدورکے لئے ۔۔۔۔ پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔

* دوکاندار کے لئے ۔۔۔۔۔ پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔(١)

وہ مال جس پر خمس نہیں ہے

* جومال مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل ہوجائے، اس پر خمس نہیں ہے:

١۔وراثت میں ملا ہوامال۔

٢۔بخشی گئی چی*(ہبہ)۔

٣۔ حاصل کئے گئے انعامات۔

٤۔ جو کچھ انسان کو عیدی کے طور پر ملتاہے*

٥۔ وہ مال جو کسی کو خمس، زکات یا صدقہ کے طور پر دیا جاتاہے۔(٢)

خمس نہ دینے کے نتائج:

١۔جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے، اس میں ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں، یعنی اس کے کھانے کو نہیں کھایا جاسکتا، جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اور اس پیسے سے کوئی چیز نہیں خریدی جاسکتی ہے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو۔(٣)

____________________

(١)العروة الوثقیٰ، ج ٢، ص ٤ ٣٩،م٦(٢) العروة الوثقیٰ، ج ٢،ص ٣٨٩۔ السابع ص ٩٠، م ٥١(٣)توضیح المسائل ص، م ١٧٩٠

*(تمام مراجع ) نمر ٢ اور ٤ اگر مال کے خرچہ سے بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے (م ١٧٦٢)

۲۲۵

٢۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے (حاکم شرع کی اجازت کے بغیر) کاروبار کیا جائے تو اس کار وبارکا ١٥معاملہ باطل ہے۔(١) *

٣۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسے حمام کے مالک کو دے کر غسل کرے تو وہ غسل باطل ہے۔(٢) ٭٭

٤۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے مکان خریدا جائے، تو اس مکان میں نماز پڑھنا باطل ہے۔(٣)

خمس کے احکام:

١۔ اگر قناعت کرکے کوئی چیز سالانہ خرچہ سے بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے۔١(٤)

٢۔ اگر گھر کے لئے سامان خریدا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہے تو احتیاط واجب ٭٭٭کی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے، مثال کے طور پر ایک بڑا فرج خریدے اور پہلے فرج کی ضرورت باقی نہ رہے۔(٥)

٣۔اشیائے خوردو نوش جیسے چاول، تیل، چائے وغیرہ جو سال کی آمدنی سے اس سال کے خرچہ

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٦٠ ١٧

(٢)توضیح المسائل، م ٣٩٣

(٣) توضیح المسائل ،٨٧٣

(٤)توضیح المسائل ، م ١٧٥٦

(٥)توضیح المسائل، م ١٧٨١

*( اراکی۔ خوئی) معاملہ صحیح ہے لیکن اس کا خمس ادا کرنا چاہئے (م١٧٩٤، ١٧٩٥

٭٭(خوئی) اگرچہ اس نے حرام کام انجام دیا ہے لیکن اس کا غسل باطل نہیں ہے (گلپائیگانی) اگر جانتا ہو کہ ان اوصاف کے ساتھ حمام کا مالک اس کے غسل پر رضامندہے یا حمام کے مالک کی رضا پر توجہ نہ دیتے ہوئے غسل کرے تو غسل صحیح ہے (م، ٣٨٩)

٭٭٭(خوئی ) احتیاط مستحب ہے.

۲۲۶

کے لئے خریدی جاتی ہے، اگرسال کے آخر میں بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔(١)

٤۔ اگر ایک نابالغ بچے کا کوئی سرمایہ ہو اور اس سے کچھ نفع کمائے تو احتیاط واجب *کے طور پر

اس بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے۔(٢) ٭٭

مصرف خمس:

خمس کے مال کو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہئے، اس کا نصف سہم امام زمان علیہ السلام ہے اور اسے مجتہد جامع الشرائط جس کی انسان تقلید کرتا ہے یا اس کے وکیل کو دیا جاتا ہے دوسرے نصف کو بھی مجتہد جامع الشرائط یا اس کی اجازت سے ضروری شرائط کے حامل سادات کو دیا جائے۔(٣) ٭٭٭

خمس کے محتاج سید کے شرائط:

* غریب ہو یا ابن السبیل ہو، اگرچہ اپنے شہر میں غریب ومحتاج نہ ہو۔

*شیعہ اثنا عشری ہو۔

*کھلم کھلا گناہ کا مرتکب نہ ہو ( احتیاط واجب کی بناپر) اور اسے خمس دینا گناہ انجام دینے میں مددکا سبب نہ ہو۔

*احتیاط واجب کی بناء پران افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات اس (خمس لینے والے) کے ذمہ ہوں، جیسے بیوی بچے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٧٨٠(٢) توضیح المسائل، م ١٧٩٤.(٣) توضیح المسائل، م ١٨٣٤.(٤) توضیح المسائل، م ٣٥ ١٨ تا ٤١ ١٨

*(گلپائیگانی)بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے (م ١٨٠٣)

٭٭(خوئی) واجب نہیں ہے اس کا خمس دے (م ١٨٠٢)

٭٭٭(گلپائیگانی ،اراکی) صاحب مال خود بھی شرائط کے حامل سادات کو دے سکتا ہے (مسئلہ ١٨٤٣)

۲۲۷

سبق :٣٥ کاخلاصہ

١۔ خمس ادا کرنا ایک اقتصادی فریضہ ہے۔

٢۔ درج ذیل موارد میں خمس ادا کرنا واجب ہے:

*کسب وکار کی منفعت

*معدن (کان)

*خزانہ

*جنگی غنائم

*سمندری جواہرات

*حلال مال کا حرام مال سے مخلوط ہونا ۔

*وہ زمین جسے کا فرذمی مسلمان سے خریدے۔

٣۔خوراک، پوشاک، مسکن، گھر کا سامان، سواری، دعوت کے اخراجات، شادی بیاہ، زیارت، مسافرت، جواہرات، تحفے، صدقات اور کفارات سال کے اخراجات میں شمار ہوتے ہیں۔

٤۔ جس دن پہلی آمدنی انسان کے ہاتھ میں آئے، اسی دن سے خمس کا سال شروع ہوتا ہے اور ایک سال گزرنے کے بعد جو کچھ اس آمدنی سے بچا ہو اس پر خمس دینا چاہئے۔

٥۔ وراثت میں ملے مال، بخشش میں ملی چیزوں اور حاصل کئے گئے انعامات پر خمس نہیں ہے۔

٦۔ جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے اس میں مدا خلت نہیں کی جاسکتی ہے اور اگر اس مال سے تجارت کا ٥ ١ حصہ باطل ہے۔

٧۔ خمس کا نصف مال امام( عج) ہے، اسے اپنے مرجع تقلید کو دینا چاہئے، اور دوسرے نصف یعنی سادات کاحصہ مرجع تقلید کی اجازت سے درج ذیل شرائط کے حامل سید کو دیا جاسکتا ہے:

١.۔غریب ہو ۔

٢.۔ شیعہ اثنا عشری ہو۔

٣.۔کھلم کھلا معصیت وگناہ نہ کرتا ہو ۔

٤.۔ ان افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات وہ(لینے والا سید) ادا کرتا ہو، جیسے بیوی بچے۔

۲۲۸

سوالات:

١۔ کس قسم کے جواہرات پر خمس نہیں ہے ؟

٢۔ کسب وکار کے منافع کی وضاحت کیجئے؟

٣۔ سالِ خمس کا آغاز کس وقت ہوتا ہے؟

شادی وخوشی کے موقع پر دیئے جانے والے تحفہ پر خمس ہے یا نہیں ؟

٥۔ نابالغ بچے اگر کام کرکے کچھ پیسے بچت کریں، کیا اس پر خمس ہے؟

٦۔ مصرف خمس کی وضاحت کیجئے؟

۲۲۹

سبق نمبر ٣٦

زکات

مسلمانوں کا ایک اور اہم اقتصادی فریضہ زکات کی ادائیگی ہے۔

زکات کی اہمیت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں اس کا ذکر نماز کے بعد آیا ہے اور اسے ایمان کی علامت اور کامیابی کا سبب شمار کیا گیا ہے۔

معصومین علیہم السلام سے نقل کی گئی متعدد روایات میں آیا ہے:

'' جو زکات ادا کرنے میں مانع بن جائے،(کوتاہی کرے) دین سے خارج ہے''

زکات کے بھی خمس کی طرح خاص موارد ہیں، اس کی ایک قسم بدن اور زندگی کی زکات ہے جو ہر سال عید فطر کے دن ادا کی جاتی ہے اور یہ صرف ان لوگوں پر واجب ہے جو استطاعت رکھتے ہوں۔ اس قسم کی زکات کے مسائل روزہ کی بحث کے آخرپر بیان ہوئے ہیں*

زکات کی دوسری قسم، مال کی زکات ہے، لیکن لوگوں کے تمام اموال پر زکات نہیں ہے ، بلکہ صرف٩ چیزوں پر زکات ہے اور انہیں تین حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

____________________

* دیکھئے سبق نمبر٣٤.

۲۳۰

وجوب زکات کے مواقع(١)

١۔اناج:

گندم

جو

خرما

کشمش

٢۔ مویشی:

اونٹ

گائے

بھیڑبکری

٣۔ سکے:

سونا

چاندی

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٨٥٣.

۲۳۱

حد نصاب:

ان چیزوں کی زکات اس صورت میں واجب ہوتی ہے کہ ایک خاص مقدار تک پہنچ جائے اور اس مقدار کو'' حد نصاب'' کہتے ہیں۔ یعنی اگر حاصل شدہ پیداوار یا مویشیوں کی تعداد حد نصاب سے کمتر ہوتو، ان پر زکات نہیں ہے۔

اناج کا نصاب:

مذکورہ چار قسم کے اناج ایک نصاب رکھتے ہیں اور یہ نصاب تقریباً٨٥٠ کلو گرام ہے۔ اس لحاظ سے اگر حاصل شدہ پیداوار اس مقدار سے کم ہوتو، اس پر زکات نہیں ہے۔*(١)

اناج کی زکات کی مقدار:

جب اناج کی حاصل شدہ پیداوار حد نصاب کو پہنچے، تو اس میں سے ایک حصہ زکات کے عنوان سے ادا کیا جانا چاہئے۔ لیکن اناج کی زکات کی مقدار اسکی آبیاری پر منحصر ہے۔اس لحاظ سے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

١۔ جو پیداوار بارش کے پانی یادریا کے پانی سے آبیاری کرکے یا خشک کاشت کے نتیجہ میں حاصل ہوجائے، اس کی زکا ت کی مقدار ١٠ ١حصہ ہے۔

٢۔ جو پیداوار ڈول، بالٹی، رہٹ یا موٹر پمپ کے پانی سے آبیاری کرکے حاصل ہوجائے، اس کی زکات کی مقدار١٢٠ حصہ ہے۔

٣۔ جو پیداوار دونوں طریقوں، یعنی بارش کے پانی یادریا کے پانی کے علاوہ دستی صورت میں آبیاری کے نتیجہ میں حاصل ہوجائے تو اس کے نصف پر ١١٠ اور دوسرے نصف پر٢٠ ١حصہ زکات ہے۔(٢)

مویشیوںکا نصاب:

بھیڑبکری: بھیڑبکریوں کا پہلا نصاب چالیس عدد ہے اور ان کی زکات ایک بھیڑہے، بھیڑبکریوں کی تعداد جب تک چالیس تک نہ پہنچے ان پر زکات نہیں ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،م١٨٦٤. (٢)توضیح المسائل، م ١٨٧٥تا ٩ ١٨٧ (٣)توضیح المسائل،م ١٩١٣

زاناج کا صحیح نصاب ٢٠٧ ٨٤٧ کیلو گرام ہے۔

۲۳۲

گائے:

گائے کا پہلا نصاب تیس عدد ہے اور ان کی زکات ایک گوسالہ ہے جو ایک سال تمام ہونے کے بعد دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔(١)

اونٹ

اونٹ کا پہلا نصاب پانچ عدد ہے اور ان کی زکات ایک بھیڑہے۔اونٹوں کی تعداد جب تک ٢٦ عدد تک نہ پہنچے، ہر پانچ اونٹ کے لئے ایک بھیڑ زکات ہے لیکن جب ان کی تعداد ٢٦ تک پہنچ جائے تو ان کی زکات ایک اونٹ ہے۔(٢)

سونا اور چاندی کا نصاب:

سونے کا نصاب ١٥ مثقال اور چاندی کا نصاب ١٠٥ مثقال ہے اور دونوں کی زکات ١٤٠ ہے۔(٣)

زکات کے احکام:

١۔ گندم، جو، خرما، اور انگور پر، بیج کی قیمت، مزدوری، ٹریکٹر وغیرہ کے کرایہ کی صورت میں جو خرچہ آتاہے، اس کو پیداوار سے کم کیا جاسکتا ہے، لیکن نصاب کی مقدار اس خرچہ کے کم کرنے سے پہلے حساب کی جاتی ہے*

____________________

(١)توضیح المسائل م١٩١٢.

(٢)توضیح المسائل م١٩١٠.

(٣) توضیح المسائل م ١٨٩٦ و١٨٩٧

*(گلپائیگانی)۔ اراکی) خرچہ کم کرنے کے بعد حساب ہوتاہے(م،١٩٠٩)۔(خوئی) اس خرچہ کو کم نہیں کرسکتے(م، ١٨٨٩)

۲۳۳

اس طرح اگر ان چیزوں کی مقدار اس خرچہ کے کم کرنے سے پہلے نصاب کی حدتک پہنچ جائے تو زکات کا اداکرنا واجب ہے لیکن زکات، مذکورہ خرچ کو کم کرنے کے بعد باقی بچے اجناس سے ہی نکالی جائے گی۔(١)

٢۔ مویشیوں پر زکات درج ذیل صورت میں واجب ہوتی ہے:

*ایک سال تک ان کا مالک رہاہو*اس لحاظ سے مثلاً اگر کوئی١٠٠ عدد گائیں خریدے اور ٩ مہینے کے بعد انھیں بیچ دے،تو زکات واجب نہیں ہے۔(٢)

*مویشی سال بھر بیکار اور آزاد ہوں، اس لحاظ سے اس گائے اور اونٹ پر زکات نہیں ہے جن سے کھیتی باڑی یا بارکشی میں کام لیا جاتاہے۔(٣)

*مویشی سال بھر جنگل اور بیابان کے گھاس پر پلے، لہٰذا اگر تمام سال یا کچھ مدت تک بوئی ہوئی یا کاٹی ہوئی گھاس پر پلے تو زکات نہیں ہے۔(٤)

٣۔سونا اور چاندی پر اس وقت زکات واجب ہے جب کہ سکہ کی صورت میں ہوں اور ان کا معاملہ رائج ہو، اس لحاظ سے جو سونے کے زیورات آج کل خواتین استعمال کرتی ہیں، ان پر زکات نہیں ہے۔(٥)

٤۔ زکات ادا کرنا، ایک عبادت ہے اس لئے جوکچھ زکات کے طور پر ادا کیا جائے بقصد قربت ہونا چاہئے۔(٦)

____________________

(١)توضیح المسائل ١٨٨٠

(٢) توضیح المسائل،م ١٨٥٦

(٣)توضیح المسائل، م ١٩٠٨.

(٤)توضیح المسائل،م١٩٠٨

(٥)توضیح،م ١٨٩٩.

(٦)توضیح المسائل م١٩٥٧.

*(تمام مراجع) اگر گیارہ ماہ تک گائے بھیڑ اور اونٹ،سونا،چاندی کا مالک رہے تو بارہویںمہینے کی ابتداء میں زکات دینا چاہئے لیکن پہلے سال گزرنے کے بعد پورے ١٢ مہینے تمام ہونے پر حساب کرے(م، ١٨٨٦)

۲۳۴

مصارف زکات:

آٹھ مواقع پر زکات کاکیا جاسکتا ہے یعنی ان تمام موارد یا ان میں سے چند ایک پر خرچ کیا جاسکتا ہے:

١۔ فقیر، وہ ہے جس کی آمدنی وبچت اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سالانہ خرچہ سے کم ترہو۔

٢۔ مسکین، وہ ہے جو بالکل نادار اور مفلس ہو۔

٣۔ جو امام یا نائب امام کی طرف سے زکات جمع کرنے، اسکی حفاظت اور تقسیم کرنے پر مقررہو۔

٤۔ اسلام ومسلمین کے تئیں دلوں میں الفت پیدا کرنے کے لئے، جیسے اگر غیر مسلمانوں کی مدد کی جائے تو وہ دین اسلام کی طرف مائل ہوجائیں یا جنگ میں مسلمانوں کی مدد کریں *

٥۔ غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے۔

٦۔قرضدار، جو اپنا قرض ادا نہ کرسکتا ہو۔

٧۔ راہ خدا میں خرچ کرنا، یعنی ایسے کام انجام دینا جن سے عام لوگوں کو فائدہ ہواور اس میں خدا کی خوشنودی ہو، جیسے سڑکیں اور پل بنانا۔

٨۔ وہ مسافر جو سفر میں نادار ہوچکا ہو اور اپنے وطن لوٹنے کے لئے خرچ نہ رکھتاہو، اگرچہ اپنے وطن میں فقیر نہ ہو ۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٩٢٥

*(گلپائیگانی)بعیدنہیں ہے کہ یہ امام معصوم علیہ السلام سے مخصوص ہو(م١٩٣٣)

۲۳۵

سبق: ٣٦کا خلاصہ

١۔جن چیزوں پر زکات واجب ہے، وہ حسب ذیل ہیں:

گندم، جو، خرما،کشمش، اونٹ ، گائے، بھیڑ، سونا اور چاندی۔

٢*کات اس صورت میںواجب ہوتی ہے کہ جب موردزکات چیزحدنصاب تک پہنچ جائے۔ مختلف چیزوں کاحدنصاب حسب ذیل ہے:

(نمبر)--مال کی قسم--نصاب)--مقدار زکات

١۔—گندم----------٢٠٧ ٨٤٧ کیلو گرام

*١١٠(دسواں حصہ)، اگر بارش اور دریا کے پانی سے آبیاری ہوئی ہو۔

*١٢٠ (بیسواں حصہ)، اگر دستی بالٹی، رہٹ اور موٹرپمپ سے آبیاری ہوئی ہو۔

*٣٤٠، اگر دونوں چیزوں سے آبیاری ہوئی ہے۔

٢----جو

٣۔----خرما

٤۔----کشمش

٥۔-----( اونٹ)---پہلانصاب ٥ اونٹ پر---- ایک بھیڑ

-------------------٢٥ اونٹ پر۔---ہر ٥ اونٹ پرایک بھیڑ

-------------------٢٦ اونٹ پر ----ایک اونٹ

٦۔----گائے-------٣٠ گائے پر ۔-----ایک سال عمر کا ایک گوسالہ

٧۔ ----- بھیڑ ۔------٤٠بھیڑ پر ۔-----ایک بھیڑ

٨۔-----سونا۔-----١٥ مثقال پر----١/٤٠

٩۔-----چاندی ۔ -----١٠٥مثقال پر-----١/٤٠

٣۔ زکات کو ٨معین مقامات پر صرف کرنا چاہئے (جو بھی مورد ہو) ان موارد میں ہروہ کام بھی شامل ہے جسے خداپسند فرماتا ہے، جیسے، تعمیر مسجد، پل و...

۲۳۶

سوالات:

١۔ درخت کی پیداوار میں سے کس پیدا وار پر زکات واجب ہے؟

٢۔ باب زکات میں ، نصاب سے کیا مقصد ہے؟

٣۔ کیا نصاب کا، خرچہ کم کرنے سے پہلے حساب ہوتا ہے یا اس کے بعد؟

٤۔ گائے اور بھیڑکاپہلا نصاب کیا ہے اور ہر ایک کی زکات کی مقدار کتنی ہے؟

٥۔ حساب کرکے تبائیے کہ ١٨ سکہ طلا کی زکات کتنی ہوگی جب کہ ہر سکہ کا وزن١٠ مثقال ہو۔؟

٦۔موٹرپمپ کے ذریعہ دریا سے آبیاری ہونے والے گندم کی پیداوار کی زکات ١١٠ ہے یا ١٢٠۔؟

٧۔ایک شخص نے مارچ کی پہلی تاریخ کو٢٥ بھیڑ خریدے اور اسی سال اول ستمبر کو مزید ٢٠ بھیڑ خریدے، ان بھیڑوں کی زکات ادا کرنے کا وقت کب ہے؟

۲۳۷

سبق نمبر ٣٧

امربالمعروف ونہی عن المنکر*

ہر انسان معاشرے میں انجام پانے والے برے اور ترک کئے جانے والے نیک کاموں کے بارے میں ذمہ دارہے ، اس لئے اگر کوئی واجب کام ترک ہوجائے یا کوئی حرام کام انجام پائے تو اس کے مقابلے میں خاموشی اور لاتعلقی جائز نہیں ہے، اور معاشرے کے تمام لوگوں کو ''واجب''کام کی انجام دہی اور '' حرام'' کام کوروکنے کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اس عمل کو '' امر بالمعروف اور'' نہی عن المنکر'' کہتے ہیں ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :

*ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعض بیانات میں آیا ہے:

* ''امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' اہم ترین واجبات میں سے ہے۔

*دینی واجبات '' امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' کے سبب مستحکم وپائیدار ہوتے ہیں ۔

*''امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' ضروریات دین میں سے ہے،جو اس سے انکار کرے، وہ کافر ہے۔

*اگر لوگ'' امربالمعروف ونہی عن المنکر'' کو ترک کریں، تو برکت ان سے اٹھا لی جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی۔

____________________

*مسائل امر بالمعروف ونہی عن المنکر''آیت اللہ اراکی وآیت اللہ خوئی کے رسالوں میں ذکر نہیں ہوئے ہیں۔

۲۳۸

معروف ومنکر کی تعریف:

احکامِ دین میں تمام واجبات ومستحبات کو '' معروف'' اور تمام محرمات ومکروہات کو'' منکر'' کہا جاتا ہے، لہٰذا سماج کے لوگوں کو واجب ومستحب کام انجام دینے کی ترغیب دلانا امر ''بالمعروف'' اور انھیں حرام ومکر وہ کام کی انجام دہی سے روکنا '' نہی عن المنکر'' ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر واجب کفائی ہے، یعنی کفایت کی حد تک انجام پانے کی صورت میں دوسروں پر واجب نہیں ہے ، اگر شرائط میسر ہونے کی صورت میں سب لوگوں نے اسے ترک کیا ہوتو سب کے سب ترک واجب کے مرتکب ہوئے ہیں ۔(١)

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے شرائط:

''امربالمعروف ونہی عن المنکر'' چند شرائط کی بناء پر واجب ہے اور ان شرائط کے نہ ہونے کی صورت میں ساقط ہے یعنی واجب نہیںہے اور یہ شرائط حسب ذیل ہیں :

١۔امرونہی کرنے والے کوجاننا چاہئے کہ جو کام کوئی فردانجام دیتا ہے وہ حرام ہے اور جسے ترک کرتا ہے ،وہ واجب ہے، لہٰذا جو شخص حرام کام کی تشخیص نہ دے سکتا ہو کہ حرام ہے یا نہیں اس پر نہی کرنا واجب نہیں ہے۔

٢۔امرونہی کرنے والے کو احتمال دینا چاہئے کہ اس کا امر ونہی مؤثر ہوگا، لہٰذا اگر جانتاہو کہ مؤثر نہیں ہے یا اس میں شک کرتا ہو، تو اس پر امرونہی کرنا واجب نہیں ہے۔

٣۔ گناہگار اپنے کام کو جاری رکھنے پر اصرار کرتاہو، لہٰذا اگر معلوم ہوجائے کہ گناہگار کام کو ترک

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٤٦٣،م ٢

۲۳۹

کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پھرسے اس کام کو انجام نہیں دے گا یا اس کام کو پھرسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوگا، تو امرونہی واجب نہیں ہے ۔

٤۔ امر ونہی کرنے والے کے لئے ، امرو نہی کرنا اپنے رشتہ داروں اور دوست یا ہمراہوں، دیگر مومنین کی جان ومال اور آبرو کے لئے قابل توجہ ضررونقصان کا سبب نہ بنے۔(١)

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مراحل:

امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے چند مراحل ہیں اور اگر سب سے نچلے مرحلے پر عمل کرنے سے نتیجہ نکلے تو بعد والے مرحلہ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مراحل حسب ذیل ہیں:

پہلا مرحلہ :

گناہگار کے ساتھ ایسا برتائوکیا جائے کہ وہ سمجھ لے کہ اس کا سبب اس کا گناہ میں مرتکب ہوناہے مثلا اس سے منہ موڑلے یا ترش روئی سے پیش آئے یا آنا جانا بند کردے۔

دوسرا مرحلہ :

زبان سے امر ونہی کرنا:*یعنی واجب تر ک کرنے والے کو حکم دیدے کہ واجب بجالائے اور گناہگار کو حکم دیدے کہ گناہ کو ترک کرے۔

تیسر امرحلہ :

طاقت کا استعمال: منکر کو روکنے اور واجب انجام دینے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا، یعنی گناہگار کی پٹائی کرنا۔(٢)

امربالمعروف ونہی عن المنکر کے احکام :

١۔ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے شرائط اور موارد کو سیکھناواجب ہے تاکہ امر ونہی کرنے میں خطا سرزد نہ ہوجائے۔(٣)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١،ص ٦٥ ٤،ص ٤٧٢،م ١.

(٢)تحریر الوسیلہ،ج ١ ص ٤٧٦.(٣) تحریرالوسیلہ، ج١، ص ٤٧٦.

*آیت اللہ گلپائیگانی کے رسالہ میں آیا ہے: دوسرے مرحلہ میں حسن خلق اچھی زبان میں امرونہی کرے اور اس کی مصلحتیں بیان کرے اور اس کتاب کامرحلہ٢ اور ٣، مرحلہ ٣ و٤ ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455