آفتاب عدالت

آفتاب عدالت17%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181629 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

الف : عقلی دلیل اور ائمہ سے صادر ہونے والی بے پناہ احادیث کے مطابق نوع انسان کی بقا کے لئے امام اور حجت کا وجود ضروری ہے اور کوئی زمانہ اس مقدس وجود سے خالی نہ رہے گا _

ب : بہت سی احادیث کے مطابق امام صرف بارہ ہوں گے زیادہ نہیں _

ج : احادیث اور تاریخ کی گواہی کا متقتضایہ ہے کہ ان میں سے گیارہ دار فانی کو و داع کہہ چکے ہیں _

ان تین مطالب کے انضمام سے حضرت مہدی کی بقا یقینی طور پر ثابت ہوجاتی ہے اور چونکہ ظاہر نہیں ہیں ای لئے یہ کہنا چا ہئے کہ پردہ غیبت میں ہیں _

۱۶۱

غیبت صغری وکبری

جلالی : غیبت صغری و کبری کے کیا معنی ہیں ؟

ہوشیار : بارہویں امام دو مرتبہ لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوئے ہیں _پہلی مرتبہ اپنی پیدا ئشے کے سال ۲۵۵ یا ۲۵۶ یا اپنے والد کے انتقال کے سال سے ۳۲۹ ھ تک اس زمانہ ہیں آ پ اگر چہ عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے لیکن رابطہ با لکل منقظع نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کے نا ئب آپ کی خدمت میں پہنچتے اور لوگوں کی ضرور توں کو پورا کرتے تھے غیبت کے اس ۶۹ یا ۷۴ سالہ زمانہ کو غیبت صغری کہتے ہیں _

دوسری غیبت ۳۲۹ ھ سے شروع ہوئی اس میں نواب کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور ظہور تک جاری رہے گی _ اس کو غیبت کبری کہتے ہیں پیغمبر اکرم اور ائمہ پہلے ہی دونوں غیبتوں کی خبر دے چکے تھے ، مثلا :

اسحاق بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام جعفری صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

'' قائم کی دو غیبتیں ہوں گی ، ایک طولانی دوسری چھوٹی غیبت صغری میں خاص شیعوں کو ان کی قیام گاہ کا علم ہوگا _ لیکن دوسری میں آپکے مخصوص دینی دوستوں کے علاوہ آپ کی قیام گاہ کا کسی کو

۱۶۲

پتہ نہیں ہوگا(۱)

آپ ہی کا ارشاد ہے :

صاحب الامر کی دوغیبتیں ہیں : ایک ان میں سے اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ کہے گا : مر گئے ہیں ، دوسر ا کہے گا : قتل کرد یئےئے ،تیسرا کہے گا : چلے گئے _ معدود افراد ایسے ہوں گے جو آپ کے وجود کے معتقد رہیں گے اور انہی کا ایمان ثابت و استوار ہے _ اس زمانہ میں آپ کی قیام گاہ کا کسی کو پتہ نہ ہوگا ، ہاں ان کے مخصوص خدمت گار جانتے ہوں گے _(۲) آ ئھ حدیثیں اور ہیں

غیبت صغری اور شیعوں کا ارتباط

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ : غیبت صغری کے شروع ہونے کے بعد بعض فریب کاروں نے سادہ لوح لوگوں سے غلط فائدہ اٹھا یا اور یہ دعوی کر کے کہ ہم امام غائب کے نائب ہیں لوگوں کو فریب دیا اور اس طرح اپنی حیثیت بنالی اور لوگوں کے مال سے اپنے گھر بھر لئے _ جناب عالی اس بات کی وضاحت فرمائیں یہ نواب کون تھے ؟ اور امام زمانہ سے لوگوں کے زمانہ میں عام لوگ صاحب الامر کی ملاقات سے محروم تھے _ لیکن رابط با لکل منقطع نہیں ہوا تھا _ چنانچہ وہ ان افراد کے ذریعہ

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ۷ ص ۶۹ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص۱۵۵

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۳

۱۶۳

جنھیں نائب ، وکیل اور باب کہا جاتا تھا امام سھ رابطہ قائم کرتے ، اپنی دینی مشکلوں کوحل کرتے اور دیگر ضرور توں کو پورا کرتے تھے ، اپنے اموال سے سہم امام نکال کرانھیں کے ذریعہ بھیج دتیے تھے _ کبھی آپ سے مادی مدد ما نگتے تھے _ کبھی حج اور دوسرے سفر کے لئے اجازت لیتے تھے کبھی مریض کی شفا اور بیٹے کی پیدائشے کیلئے دعا کراتے تھے امام ہی کی طرف سے بعض لوگوں کیلئے پیسہ ، لباس اور کفن بھیجا جاتا تھا_ ان امور میں مخصوص و معین افراد و اسطہ تھے _ حاجتیں خطوط کے ذریعہ ارسال کی جاتی تھیں چنانچہ آپ بھی خط ہی کی صورت میں جواب ارسال فرماتے تھے _ اصطلاح میں آپ کے خطوط کو تو قیع کہتے ہیں _

کیا توقیعات خود امام کی تحریر تھیں ؟

جلالی : توقیعات کو خود امام تحریر فرما تے تھے یا کوئی اور ؟

ہوشیار : ہم کہہ چکے ہیں کہ توقیعات کے کاتب خود امام ہیں _ یہاں تک خواص او رعلمائے وقت کے در میان آپ کا خط ( تحریر ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھی طرح پہچا نتے تھے _ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں _

محمد بن عثمان عمری کہتے ہیں : امام کی طرف سے صادر ہونے والی توقیع کو میں ببخوبی پہچا نتا تھا(۱)

اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں : محمد بن عثمان کے ذریعہ میں نے اپنے مشکل مسائل امام کی خدمت میں ارسال کئے اور جواب امام زمانہ کے دستخط کے ساتھ موصول ہوا _(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳

۲ _ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹ ، اثبات الھداة ج ، ص ۴۶۰

۱۶۴

شیخ ابو عمرعامری کہتے ہیں : شیعوں کی ایک جماعت سے ابو غانم قزوینی نے ایک موضوع کے بارے میں اختلاف و نزاع کی _ شیعوں نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے ایک خط میں صورت حال لکھ کر ارسال کردیا اور جواب امام کی دستخط کے ساتھ موصول ہوا ''(۱) صدوق فرماتے ہیں : '' جو توقیع امام زمانہ نے اپنے دست مبارک سے میرے والد کیلئے رقم کی تھی وہ میرے پاس ابھی تک موجود ہے ''(۲)

مذکورہ افرادنے اس بات کی تو گواہی دی ہے کہ وہ خطوط امام زمانہ کی تحریرہوتے تھے لیکن اس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس طریقہ سے امام زمانہ کا خط پہچانتے تھے کیونکہ غیبت کے زمانہ میں مشاہدہ کا امکان نہیں تھا اس کے علاوہ بعض اشخاص نے اس کے برخلاف کہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روایت کی ہے کہ صاحب الامر کی توقیعات وہ جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے ذریعہ شیعوں تک پہنچتی تھیں ان کا وہی خط ہے جو امام حسن عسکری کے زمانہ کی توقیعات کا تھا _(۳)

پھر ابو نصر ہی کہتے ہیں : ۳۰۴ ھ میں ابوجعفر عمری کا انتقال ہوا_ تقریباً وہ پچاس سال تک امام زمانہ کے وکیل رہے _ ان کے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھی شیعوں کو اسی خط میں امام کی توقیعات دیتے تھے جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں لکھی جاتی تھیں(۴) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۷۸_

۲_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۲ ص ۲۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۱۶۵

دوسری جگہ کہتے ہیں : امام زمانہ کی توقیعات محمد بن عثمان اسی خط میں لکھتے تھے جس میں امام حسن عسکری (ع) کے زمانہ میں ان کے باپ عثمان بن سعید لکھتے تھے _(۱)

عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں : عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد صاحب الامر کی توقیعات اسی خط میں صادرہوتی تھیں جس میں ہم سے پہلے خط و کتابت ہوتی تھی _(۲)

ان روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو توقیعات عثمان بن سعید او ر ان کے بعد محمد بن عثمان کے توسط سے لوگوں تک پہنچی ہیں ان کا خط بالکل وہی تھا کہ جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں توقیعات صادر ہوتی تھیں _ یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توقیعات امام کے خط میں نہیں تھیں بلکہ یہ کہا جائے کہ امام حسن عسکری (ع) نے توقیعات اور خط و کتابت کیلئے ایک مخصوص محرّر مقرر کررکھا تھا جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے زمانہ تک زندہ رہا _ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض توقیعات خود امام نے اور کچھ دوسروں نے تحریر کی ہیں _ لیکن یادرہے کہ زمانہ غیبت صغری کے علماء اور شیعوں کے حالات اور توقیعات کے متن کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان خطوط کی عبارت شیعوں کے نزدیک موثق اور قابل اعتماد تھی اور وہ انھیں امام ہی کی طرف سے سمجھتے اور قبول کرتے تھے_

اختلافات کے سلسلے میں مکاتبہ کرتے اور جواب کے بعد سراپا تسلیم ہوجاتے تھے ، یہاں تک اگر کبھی کسی توقیع کے بارے میں شک ہوجاتاتھا تو بھی مکاتبہ ہی کے ذریعہ حل کرتے تھے _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۳_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۵۰_

۱۶۶

علی بن حسین بابویہ نے امام زمانہ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا اور بیٹے کی پیدائشے کے لئے دعا کا تقاضا کیا اور اس کا جواب بھی ملا _(۱)

جن علا نے غیبت صغری اور نواب کا زمانہ درک کیا ہے ان میں سے ایک محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانی ہیں _ انہون نے اپنی کتاب '' غیبت'' میں نوّاب کی نیابت اور سفارت کی تائید کی ہے چنانچہ غیبت سے متعلق احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : غیبت صغری کے زمانہ میں امام اور لوگوں کے درمیان معین و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان کے توسط سے بیمار شفا پاتے اور شیعوں کی مشکلوں کے حل صادر ہوتے تھے لیکن اب غیبت صغری کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اور غیبت کبری کا زمانہ آگیا ہے _(۲)

معلوم ہوتا ہے کہ توقیعات کے ساتھ کچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے کہ جن کی بناپر علمائے وقت اور شیعہ انھیں تسلیم کرتے تھے _ شیخ حر عاملی لکھتے ہیں : ابن ابی غانم قزوینی شیعوں سے بحث کرتا اور کہتا تھا : امام حسن عسکری(ع) کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا _ شیعوں نے امام کی خدمت میں خط ارسال کیا ، وہ بغیر روشنائی کے قلم سے سفید کاغذ پر لکھا جاتا تھا تا کہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان کے خط جواب دیا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۰۶_

۲_ کتاب ''غیبت'' /۹۱_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۶۰_

۱۶۷

نوّاب کی تعداد

نوّاب کی تعداد میں اختلاف ہے _ سید بن طاؤس نے اپنی کتاب '' ربیع الشیعہ '' میں جو نام ذکر کئے ہیں وہ یہ ہیں : ابو ہاشم داؤد بن القاسم ، محمد بن علی بن بلال ، عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، عمر اہوازی ، احمد بن اسحاق ، ابو محمد الو جنای ، ابراہیم بن مہزیار ، محمد بن ابراہیم(۱) _

شیخ طوسی نے وکلاء کے نام اسی طرح نقل کئے ہیں : بغداد سے عمری ، ان کا بیٹا ، حاجز ، بلالی اور عطار ، کوفہ سے عاصمی ، اہواز سے محمد بن ابراہیم بن مہزیار ، قم سے احمد بن اسحاق ، ہمدان سغ محمد بن صالح ، رَی سے شامی واسدی ، آذربائجان سے قاسم بن العلاء اور نیشاپور سے محمد بن شاذان _(۲)

لیکن شیعوں کے درمیان چار اشخاص کی وکالت مشہور ہے : ا_ عثمان بن سعید ۲_ محمد بن عثمان ۳_ حسین بن روح ۴_ علی بن محمد سمری _ ان میں سے ہر ایک نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کررکھے تھے _(۳)

عثمان بن سعید

عثمان بن سعید امام حسن عسکری (ع) کے موثق و بزرگ صحابہ میں سے تھے _ ان کے متعلق

____________________

۱_ رجال ابو علی طبع سنہ ۱۱۰۲ ھ ص ۳۱۲_

۲_ رجال مامقانی طبع نجف ج ۱ ص ۲۰۰ ، اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۴_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۲_

۱۶۸

بوعلی لکھتے ہیں : '' عثمان بن سعید موثق و جلیل القدر تھے ، ان کی توصیف کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے ''(۱) علامّہ بہبہانی لکھتے ہیں :'' عثمان بن سعید ثقہ اور جلیل القدر ہیں(۲) _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے آپ کی توثیق کی ہے _

احمد بن اسحاق کہتے ہیں :'' میں نے امام علی نقی کی خدمت میں عرض کی ہیں کس کے ساتھ معاشرت کروں اور احکام دین کس سے دریافت کروں اور کس کی بات قبول کروں ؟ فرمایا: سعید بن عثمان ہمارے معتمد ہیں _ اگر وہ تم سغ کوئی بات کہیں تو صحیح ہے _ انکی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے ''_

ابوعلی نقل کرتے ہیں کہ: امام حسن عسکری سے بھی ایسا ہی سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: عثمان بن سعید اور ان کے بیٹے پرمجھے اعتماد ہے _ تمہارے سامنے وہ جو روایت بھی بیان کریں وہ صحیح ہے _ ان کی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے _ اصحاب کے درمیان یہ حدیث اس قدر مشہور تھی کہ ابو العباس حمیری کہتے ہیں : ''ہم لوگوں کے درمیان بہت زیادہ مذاکرہ ہوتا تھا اور اس میں عثمان بن سعید کی ستائشے کرتے تھے ''(۳) _

محمد بن اسمعیل و علی بن عبداللہ کہتے ہیں :'' سامرہ میں ہم لوگ حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں شرف یاب ہوئے اس وقت شیعوں کی ایک جماعت بھی موجود تھی ناگہان

____________________

۱_ رجال بوعلی ص ۲۰۰_

۲_ منہج البلاغ مؤلف علامہ بہبہانی ص ۲۱۹_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۸_

۱۶۹

بدر خادم آیا اور عرض کی ایک پریشان بال جماعت آئی ہے ، داخل ہونے کی اجازت چاہتی ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : وہ یمن کے شیعہ ہیں اس کے بعد آپنے بدر خادم سے فرمایا: عثمان بن سعید کو بلاؤ_ عثمان آئے ، امام نے فرمایا : تم ہمارے موثق وکیل ہو یہ جماعت جو مال خدا لیکر آئی ہے _ اسے تحویل میں لے لو _ راوی کہتا ہے : میں نے عرض کی : ہم تو یہ جانتے تھی کہ عثمان بہترین شیعہ ہیں لیکن آپ(ع) نے اس عمل سے ان کا مرتبہ بڑھا دیا اور ان کے ثقہ اور وکیل ہونے کا اثبات کردیا ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : حقیقت یہی ہے جان لو کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا میرے بیٹے مہدی کا وکیل ہوگا _(۱)

امام حسن عسکر ی(ع) نے اپنے بیٹے کے بارے میں چالیس افراد ، منجملہ ان کے علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ اور حسن بن محبوب ، کے سامنے فرمایا: '' یہ میرا جانشین اور تمہارا امام ہے اس کی اطاعت کرو ،واضح رہے آج کے بعد مدتوں تک تم اسے نہیں دیکھ سکوگے ، عثمان بن سعید کی باتوں کو تسلیم کرو اور ان کے حکم کے مطابق چلو کیونکہ وہ تمہارے امام کا جانشین ہے اور شیعوں کے امور کے حل و فصل اسی کے ہاتھ میں ہیں _(۲)

ان کی کرامات

ان تمام باتوں کے علاوہ ان کی طرف کچھ کرامات بھی منسوب ہیں جس سے

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۱۷۰

ان کی صداقت ثابت ہوتی ہے _ ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں _

شیخ طوسی نے اپنی کتاب ، غیبت میں بنی نوبخت کیایک جماعت منجملہ اس کے ابوالحسن کثیری سے روایت کی ہے کہ : قم اور اس کے مضافات سے عثمان بن سعید کے پاس کچھ مال بھیجا گیا پہنچا نے والا جب واپس لوٹنے لگا تو عثمان بن سعید نے کہا : ایک اور امانت تمہارے سپردکی گئی تھی وہ تم نے تحویل میں کیوں نہیں دی ؟ اس نے عرض کی : میرے پاس اور کوئی چیز باقی نہیں ہے _ عثمان بن سعید نے کہا : واپس جاؤ اور اسے تلاش کرو _ چند دن تلاش کرنے کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کہا : مجھے تو کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی _ فلاں بن فلاں نے ہمارے لئے سردانی کے دوپارچے تمہارے سپردکئے تھے وہ کیا ہوئے ؟ عرض کی : خدا کی قسم آپ کی بات سچ ہے لیکن میں بھول گیا اب نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں _ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آیا اور بہت تلاش کیا لیکن ناکام رہا _ پھر عثمان بن سعید کے پا گیا ، اور پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : فلان بن فلاں روئی بیچنے والے کے پاس جاؤ_ روئی کی دو تھیلے تم اس کے پاس لے گئے تھے ، جس تھیلے پر یہ تحریر ہو اسے کھول کر دیکھو وہ امانت تمہیں اس میں ملے گی اس نے حکم کی تعمیل کی پارچہ اس میں ملا تو ان کی خدمت میں پہنچا دیا(۱) _

محمد بن علی اسود کہتے ہیں : ایک عورت نے مجھے ایک کپڑا دیا تھا کہ اسے عثمان بن سعید کے پاس پہنچا دینا _ دوسرے کپڑوں کے ساتھ اسے میں ان کی خدمت میں لے گیا _ انہوں نے کہا : محمد بن عباس قمی کی تحویل میں دیدو _ میں نے حکم کی تعمیل کی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۱۶_

۱۷۱

اس کے بعد عثمان بن سعید نے پیغام بھیجا کہ فلاںعورت کا کپڑا تم نے کیوں نہیں دیا ؟ پس اس عورت کے کپڑے کی بات مجھے یاد آگئی تلاش بسیار کے بعد وہ ملاتو میں تحویل میں دے دیا _(۱)

شیخ صدوق نے اپنی کتاب '' اکمال الدین'' میں لکھا ہے :'' ایک شخص عراق سے عثمان بن سعید کے پاس سہم امام لے کر گیا _ عثمان نے مال واپس کردیا اور کہا: اس میں سے چار سو درہم اپنے چچا زاد بھائیوں کا حق نکال دو _ عراقی کو بڑا تعجّب ہوا _ جب اس نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک اس کے چچا زاد بھائیوں کی کاشتکاری کی کچھ زمیں اس کے پاس ہے _ جب صحیح طریقہ سے آنے پائی کا حساب کیا تو ان کے چار سو ہی درہم نکلے _ لہذا اس نے مبلغ مذکور کو اموال سے نکال دیا اور بقیہ کو عثمان بن سعید کے پاس لے گیا ، چنانچہ قبول کر لیا گیا _(۲)

اب احباب انصاف فرمائیں ، کیا عثمان بن سعید کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث ، امام حسن عسکری کے نزدیک ان کی قدرومنزلت اور امام حسن عسکری کے خاص اصحاب کا ان کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور ان کے عادل ہونے پر شیعوں کے اتفاق کے با وجود کیا ان کے وعد ے میں شک کیا جا سکتا ہے کیا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کی وجہ سے ایسا کیا؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۳۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۲۶، اثبات اہداةج۷ ص ۳۰۲

۱۷۲

محمّد بن عثمان

عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور امام کے وکیل منصوب ہوئے _

شیخ طوسی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : محمد بن عثمان اور ان کے والد دونوں صاحب الزمان کے وکیل تھے اور امام کی نظر میں معزز تھے _(۱)

مامقانی نے لکھا ہے : محمد بن عثمان کی عظمت و جلالت امامیہ کے نزدیک مسلم ہے _ کسی دلیل و بیان کی محتاج نہیں ہے _ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے والد کی حیات میں امام حسن عسکری کے بھی وکیل تھے اور حضرت حجّت کے بھی سفیر تھے _(۲)

عثمان بن سعید نے تصریح کی ہے کہ : میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین اور نائب امام ہے _(۳)

یعقوب بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے محمد بن عثمان کے توسط سے امام زمانہ (ع) کی خدمت میں خط ارسال کیا اور کچھ دینی مسائل معلوم کئے _ امام کی تحریر میں جواب موصول ہوا آپ نے تحریر فرمایا تھا: محمد بن عثمان عمری موثق ہیں اور ان کے خطوط میرے ہی خط ہیں _(۴)

____________________

۱_ منہج المقال ص ۳۰۵ ، رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۲_ رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۳_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۱۷۳

انکی کرامات

محمد بن شاذان کہتے ہیں کہ : میرے پاس سہم امام کے چار سو اسی درہم جمع ہوگئے تھے _ چونکہ میں پانچ سو سے کم امام کی خدمت میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا اس لئے بیس اپنی طرف سے شامل کر کے محمد بن عثمان کے توسط امام کی خدمت میں ارسال کردیئےیکن اس اضافہ کی تفصیل نہ لکھی _ امام کی طرف سے اس کی وصول یابی کی رسید اس تحریر کے ساتھ موصول ہوئی : '' پانچ سو درہم تمہارے بیس درہم کے ساتھ موصول ہوئے ''(۱) _

جعفر بن متیل کہتے ہیں : محمد بن عثمان نے مجھے طلب کیا ، چند کپڑے اور ایک تھیلی میں کچھ درہم دیئےور فرمایا: '' واسطہ جاؤ اور وہاں پہلا جو شخص ملے یہ کپڑے اور درہم اس کے حوالہ کردو ''_ میں واسطہ کے لئے روانہ ہوا اور پہلے جس شخص سے میری ملاقات ہوئی وہ حسن بن محمد بن قطاة تھے _ میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا ، معانقہ کیا اور کہا :'' محمد بن عثمان نے آپ کو سلام کہلایا ہے اور آپ کے لئے یہ امانت ارسال کی ہے '' _ یہ بات سن کر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : محمد بن عبداللہ عامری کا انتقال ہوگیا ہے _ اب میں ان کا کفن لینے کے لئے نکلا ہوں _ جب ہم نے اس امانت کو کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں ایک مردہ کے دفن کی تمام چیزیں موجود ہیں _ جنازہ اٹھانے والوں اور گورکن کیلئے کچھ پیسے بھی تھے ، اس کے بعد تشییع جنازہ کے بعد انہیں دفن کردیا ''(۲) _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳۷_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۱_

۱۷۴

محمد بن علی بن الاسود قمی کہتے ہیں :'' محمد بن عثمان نے اپنی قبر تیار کرائی تو میں نے وجہ دریافت کی ، کہا ، مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ :'' اپنے امور کو سمیٹ لو'' چنانچہ اس واقعہ کے دو ماہ بعد ان کا انتقال ہوا _(۱)

محمد بن عثمان تقریباً پچاس سال تک نائب امام رہے اور ۳۰۴ ھ میں انتقال کیا _(۲)

حسین بن روح

امام زمانہ کے تیسرے نائب حسین بن روح ہیں _ وہ اپنے زمانہ کے عقلمند ترین انسان تھے _ محمد بن عثمان نے انھیں امام زمانہ کا نائب منصوب کیا تھا _

بحار میں مجلسی لکھتے ہیں : جب محمد بن عثمان کا مرض شدید ہو گیا تو شیعوں کے سر برآوردہ اور معروف افراد ، جیسے ابو علی بن ہمام ، ابو عبداللہ بن محمد کاتب ، ابو عبداللہ باقطانی ، ابو سہل اسماعیل بن علی نوبختی اور ابو عبداللہ بن وجنا ان کے پاس گئے اور ان کے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : '' حسین بن روح میرے جانشین اور صاحب الامر کے وکیل و معتمد ہیں _ اپنے امور میں ان سے رجوع کرنا _ مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ حسین بن روح کو اپنا نائب مقرر کردو ''(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۵_

۱۷۵

جعفر بن محمد مدائینی کہتے ہیں : امام زمانہ کے اموال کو میں محمد بن عثمان کے پاس لے جاتا تھا_ ایک روز چار سودرہم ان کی خدمت میں پیش کیئےو فرمایا : اس پیسہ کو حسین بن روح کے پاس لے جاؤ _ میں نے عرض کی میری خواہش ہے کہ آپ ہی قبول فرمائیں فرمایا: حسین بن روح کے پاس لے جاؤ، معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے انھیں اپنا جانشین قرار دیا ہے _ میں نے دریافت کیا ، کیا امام زمانہ کے حکم سے آپ نے یہ کام انجام دیا ہے ؟ فرمایا: '' بے شک '' _ پس میں اسے حسین بن روح کے پاس لے گیا _ اس کے بعد سہم امام کو ہمیشہ انہیں کے پاس لے جاتا تھا _(۱)

محمد بن عثمان کے اصحاب و خواص کے درمیان بہت سے افراد تھے جو کہ مراتب میں حسین بن روح سے بلند تھے _ مثلاً جعفر بن احمد متیل کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ منصب نیابت ان کے سپرد کیا جائے گا _ لیکن ان کی توقع کے خلاف اس منصب کیلئے حسین بن روح کو منتخب کیا گیا _ اور تمام اصحاب یہاں تک جعفر بن احمد بن متیل بھی ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے _(۲)

ابو سہل نوبختی سے لوگوں نے دریافت کیا : حسین بن روح کیسے نائب بن گئے جبکہ آپ اس منصب کے لئے زیادہ سزاوار تھے؟ انہوں نے کہا : امام بہتر جانتے ہیں کہ اس منصب کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے _ چونکہ میں ہمیشہ مخالفوں سے مناظرہ کرتا ہوں _ اگر مجھے وکیل بنایا جاتا تو ممکن تھا کہ بحث کے دوران اپنے مدعا کے اثبات

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۳_

۱۷۶

کیلئے امام کا پتہ بتا دیتا _ لیکن حسن بن روح مجھ جیسے نہیں ہیں ، یہاں تک کہ اگر امام اس کے لباس میں چھپے ہوں اور لوگ قیچی سے پارہ پارہ کریں تو بھی وہ اپنا دامن نہیں کھولیں گے کہ امام نظر آجائیں _(۱)

صدوق لکھتے ہیں : محمد بن علی اسود نے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین بن بابویہ نے میرے ذریعہ حسین بن روح کو پیغام دیا کہ صاحب الامر(ع) سے میرے لئے دعا کرادیں شاید خدا مجھے بیٹے عطا کرے _ میں نے ان کا پیغام حسین بن روح کی خدمت میں پہنچا دیا تین روز کے بعد انہوں نے اطلاع دی کہ امام نے ان کے لئے دعا کردی ہے عنقریب خدا انہیں ایسا بیٹا عطا کرے گا کہ جس سے لوگوں کو فیض پہنچے گا _ اسی سال ان کے یہاں محمد کی ولادت ہوئی _ اس کے اور بیٹے بھی پیدا ہوئے _ اس کے بعد صدوق لکھتے ہیں جب محمد بن علی جب بھی مجھے دیکھتے تھے کہ محمد بن حسن بن احمد کے درس میں آمدورفت رکھتا ہوں اور علمی کتابوں کے پڑھنے اور حفظ کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے ، تو کہتے تھے : اس سلسلے میں برابر بھی تعجب نہ کرو کہ تحصیل علم سے تمہیں اتنا شغف ہے کیونکہ تم امام زمانہ کی دعا سے پیدا ہوئے ہو _(۲)

ایک شخص کو حسین بن روح کی نیابت پر شک تھا _ پس اس نے موضوع کی تحقیق کے لئے بغیر روشنائی کے قلم سے ایک خط لکھا اور امام زمانہ کی خدمت میں ارسال کیا چند روز کے بعد امام نے حسین بن روح کے ذریعہ اس کا جواب ارسال فرمایا_(۳) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۹_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۸۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۴۰_

۱۷۷

۳۲۶ ھ ، ماہ شعبان میں حسین بن روح نے وفات پائی _(۱)

چوتھے نائب

امام زمانہ کو چوتھے نائب شیخ ابوالحسن علی بن محمد سمری تھے _ ان کے بارے میں ابن طاؤس لکھتے ہیں :'' انہوں نے امام علی نقی اور امام حسن عسکری کی خدمت کی اور ان دونوں امامو ں کا ان سے مکاتبہ تھا اور ان کے لئے بہت سی توقیعات مرقوم فرمائی ہیں _ وہ نمایان اور ثقہ شیعوں میں سے ایک تھے _(۲)

احمد بن محمد صفوانی کہتے ہیں : حسین بن روح نے علی بن محمد سمری کو اپنا جانشین مقرر کیا تا کہ وہ ان کے امور انجام دیں _ لیکن جب علی بن محمد سمری کا وقت قریب آیا تو لوگ ان کی خدمت میںآئے تا کہ ان کے جانشین کے بارے میں سوال کریں _ انہون نے فرمایا : مجھے اپنا نائب بنانے کا حکم نہیں ملا ہے _(۳)

احمد بن ابراہیم بن مخلد کہتے ہیں : ایک دن علی بن محمد سمری نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا : خدا علی بن بابویہ قمی پر رحم کرے _ حاضرین نے اس جملہ کی تاریخ لکھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ اسی دن علی بن بابویہ کا انتقال ہوا تھا _ سمری نے بھی ۳۲۹ ھ میں وفات پائی _(۴)

____________________

۱_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۲_ رجال مامقانی ج ۲ ص ۳۰۲_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۱۷۸

حسین بن احمد کہتے ہیں : علی بن محمد سمری کی وفات سے چند روز قبل میں ان کی خدمت میں تھا کہ امام زمانہ کی طرف سے صادر ہونے والے خط کو انہوں نے لوگوں کے سامنے پڑھا _ اس کا مضمون یہ تھا : '' علی بن محمد سمری، خدا تمہارے انتقال پر تمہارے بھائیوں کو صبر جمیل عطا کرے _ چھ روز کے بعد تمہارے اجل آجائے گی _ اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور اب کسی کو اپنا نائب مقرر نہ کرنا کیونکہ اس کے بعد غیبت کبری کا سلسلہ شروع ہوگا _ میں اس وقت تک ظاہر نہ ہونگا جب تک خدا کا حکم نہ ہوگا طویل مدت ، دلوں میں قساوت اور زمین ظلم و جور سے نہ بھر جائے گی _ تمہارے در میان ایسے افراد پیدا ہوں گے جو ظہور کا دعوی کریں گے _ لیکن یادر ہے ، سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے پہلے جو شخص ظہور کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہے _(۱)

شیعوں کا درمیان چار اشخاص کی نیابت مشہور ہے _ کچھ لوگوں نے انپے مہدی ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ہے لیکن دلیل نہ ہونے کی بناپر ان کا جھوٹ آشکار ہوا اور ذلیل ہوئے _ جیسا کا حسن شرعی ، محمد بن نصیر نمیری ، احمد بن ہلال کرخی ، محمد بن علی بن ہلال ، محمد بن علی شلمغانی اورابوبکر بغدادی نے کیا تھا _ یہ تھی نوّاب کے بارے میں میری معلومات _ ان مدارک سے ان کے دعوے کے صحیح ہونے کا اطمینان حاصل ہوجاتاہے _

ڈاکٹر: اس سلسلے میں میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے لیکن آج کی رات ہماری بحث بہت طویل ہوگئی اسلئے آئندہ جلسہ میں پیش کرونگا _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۶۱_

۱۷۹

ابتداء ہی میں غیبت کبری کیوں واقع نہ ہوئی ؟

تمام احباب کی موجود گی میں ڈاکٹر صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

ڈاکٹر : غیبت صغری کا کیا فائدہ تھا؟ اگر یہی طے تھا کہ امام زمانہ غیبت اختیار کریں گے تو امام حسن عسگری (ع) کی وفات کے بعد ہی کیوں غیبت کبری کا آغاز اور مکمل انقطاع نہ ہو ا؟

ہوشیار: امام اور لوگوں کے رہبر کا غائب ہونا ، وہ بھی عرصہ دراز کیلئے عجیب و غیر مانوس بات ہے اور لوگوں کے لئے اس کاتسلیم کرنا مشکل ہے _ اس لئے رسول (ص) اور ائمہ نے یہ عزم کیا کہ : آہستہ آہستہ لوگوں کو اس امر سے مانوس کیا جائے اوراسے تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے ، لہذا گاہ بگاہ وہ ان کی غیبت اور اس زمانہ میں لوگوں کے مشکلوں میں گھر نے کی خبر دیتے تھے اور ان کا انتظار کرنے والوں کے لئے ثواب بیان کرتے اور انکار کرنے والوں کی سرزنش کرتے تھے _ کبھی اپنے عمل سے غیبت کی شبیہ پیش کرتے تھے _

اثبات الوصیت میں مسعودی لکھتے ہیں : امام علی نقی (ع) لوگوں کے ساتھ کم معاشرت کرتے تھے اور اپنے مخصوص اصحاب کے علاوہ کسی سے ربط و ضبط نہیں رکھتے تھے _ جب امام حسن عسکری (ع) ان کے جانشین ہوئے تو آپ بھی لوگوں سے اکثر پس پردہ سے گفتگو فرماتے تھے تا کہ ان کے شیعہ بارہویں امام کی غیبت سے مانوس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

سوالات:

١۔ رمضان المبارک کے قضا روزوں کا وقت بیان کیجئے۔

٢۔ روزہ کے کفارہ کا وقت بیان کیجئے۔

٣۔ اگر کوئی اگلے سال کے رمضان تک قضا روزے نہ بجالاسکے تو اس کا فرض کیا ہے؟

٤۔ جو بوڑھا، روزہ نہیں رکھ سکتا ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

٥۔اگر بڑا بیٹا مرچکا ہوتو باپ کے قضا روزے کس کے ذمہ ہیں؟

٦۔ سفر میں کون روزہ رکھ سکتا ہے؟

۲۲۱

سبق نمبر ٣٥

خمس

مسلمانوں کے اقتصادی فرائض میں سے ایک فریضہ ''خمس'' کا ادا کرنا ہے، اس طرح کہ بعض مقاماتمیں اپنے مال کا ایک پنجم حصہ ایک خاص صورت میں خرچ کرنے کے لئے اسلامی حاکم کو دینا چاہئے۔

خمس واجب ہونے کے مواقع

خمس سات چیزوں پر واجب ہے:

*جو کچھ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ بچ جائے (کسب کار کانفع)

* معدن

* خزانہ

*جنگی غنائم

* وہ جواہرات جو سمندر کی تہہ سے نکالے جاتے ہیں۔

*حلال مال حرام کے ساتھ مخلوط ہوچکا ہو۔

۲۲۲

*وہ زمین جسے کافر ذمی زایک مسلمان سے خریدے۔(١)

خمس ادا کرنا بھی نمازو روزہ کی طرح واجبات میں سے ہے اورتمام بالغ اورعاقل اگر مذکورہ سات موارد میں سے ایک کے ،ما لک ہوں تو اس پر عمل کرنا چاہئے

جس طرح شرعی فریضہ کے آغاز پرہرکوئی نمازو روزہ کی فکر میں ہوتا ہے اسے خمس وزکات ادا کرنے اور دیگرواجبات کی فکر میں بھی ہونا چاہئے لہٰذا ضرورت کی حد تک ان کے مسائل سے آشنائی ضروری ہے، چنانچہ ہم یہاں پر خمس کے سات موارد میں سے صرف ایک کے بارے میں وضاحت کریں گے جس سے معاشرے کے لوگ زیادہ دوچار ہیں ، اور وہ سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر خمس ہے:

اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں درج ذیل دوسوالوں کے جواب پر غور کرنا چاہئے:

١۔ سال کے خرچ سے کیا مراد ہے؟

٢۔ کیا خمس کا سال قمری، یاشمسی مہینوںسے حساب ہوتا ہے اور اس کا آغاز کس وقت ہے؟

سال کا خرچہ:

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو پورے کرنے کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔

اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے

____________________

(١)توضیح المسائل ، م١٧٥١

*ذمہ= عہد وپیمان، وہ غیر مسلمان جو اسلامی ممالک میں زندگی کرتے ہیں اوران کے ساتھ عہدوپیمان باندھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سماجی قوانین کی رعایت کریں اورایک معین ٹیکس بھی ادا کریں گے جس کے عوض میں ان کی جان ومال امان میں رہے، انہیں کافر ذمی کہا جاتا ہے۔

۲۲۳

آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کے ایک پنجم حصہ خمس کے عنوان سے ادا کردے اور باقی ٤٥ حصہ اپنے لئے بچت کرے۔

لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیںجو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

* خوارک وپوشاک

* گھر کا سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔

* گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔

* مہانوں کا خرچہ۔

*شادی بیاہ کا خرچ۔

*ضروری اور لازم کتابیں۔

*زیارت کا خرچ

* انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں۔

*اداکیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔(١)

____________________

(١) العروة الوثقیٰ، ج ٢، ص ٣٩٤

۲۲۴

خمس کا سال:

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزے رکھنے چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ مال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتدائ:

* کسان کے لئے ۔۔۔۔ پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔

* ملازم کے لئے ۔۔۔۔ پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔

* مزدورکے لئے ۔۔۔۔ پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔

* دوکاندار کے لئے ۔۔۔۔۔ پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔(١)

وہ مال جس پر خمس نہیں ہے

* جومال مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل ہوجائے، اس پر خمس نہیں ہے:

١۔وراثت میں ملا ہوامال۔

٢۔بخشی گئی چی*(ہبہ)۔

٣۔ حاصل کئے گئے انعامات۔

٤۔ جو کچھ انسان کو عیدی کے طور پر ملتاہے*

٥۔ وہ مال جو کسی کو خمس، زکات یا صدقہ کے طور پر دیا جاتاہے۔(٢)

خمس نہ دینے کے نتائج:

١۔جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے، اس میں ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں، یعنی اس کے کھانے کو نہیں کھایا جاسکتا، جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اور اس پیسے سے کوئی چیز نہیں خریدی جاسکتی ہے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو۔(٣)

____________________

(١)العروة الوثقیٰ، ج ٢، ص ٤ ٣٩،م٦(٢) العروة الوثقیٰ، ج ٢،ص ٣٨٩۔ السابع ص ٩٠، م ٥١(٣)توضیح المسائل ص، م ١٧٩٠

*(تمام مراجع ) نمر ٢ اور ٤ اگر مال کے خرچہ سے بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے (م ١٧٦٢)

۲۲۵

٢۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے (حاکم شرع کی اجازت کے بغیر) کاروبار کیا جائے تو اس کار وبارکا ١٥معاملہ باطل ہے۔(١) *

٣۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسے حمام کے مالک کو دے کر غسل کرے تو وہ غسل باطل ہے۔(٢) ٭٭

٤۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے مکان خریدا جائے، تو اس مکان میں نماز پڑھنا باطل ہے۔(٣)

خمس کے احکام:

١۔ اگر قناعت کرکے کوئی چیز سالانہ خرچہ سے بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے۔١(٤)

٢۔ اگر گھر کے لئے سامان خریدا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہے تو احتیاط واجب ٭٭٭کی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے، مثال کے طور پر ایک بڑا فرج خریدے اور پہلے فرج کی ضرورت باقی نہ رہے۔(٥)

٣۔اشیائے خوردو نوش جیسے چاول، تیل، چائے وغیرہ جو سال کی آمدنی سے اس سال کے خرچہ

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٦٠ ١٧

(٢)توضیح المسائل، م ٣٩٣

(٣) توضیح المسائل ،٨٧٣

(٤)توضیح المسائل ، م ١٧٥٦

(٥)توضیح المسائل، م ١٧٨١

*( اراکی۔ خوئی) معاملہ صحیح ہے لیکن اس کا خمس ادا کرنا چاہئے (م١٧٩٤، ١٧٩٥

٭٭(خوئی) اگرچہ اس نے حرام کام انجام دیا ہے لیکن اس کا غسل باطل نہیں ہے (گلپائیگانی) اگر جانتا ہو کہ ان اوصاف کے ساتھ حمام کا مالک اس کے غسل پر رضامندہے یا حمام کے مالک کی رضا پر توجہ نہ دیتے ہوئے غسل کرے تو غسل صحیح ہے (م، ٣٨٩)

٭٭٭(خوئی ) احتیاط مستحب ہے.

۲۲۶

کے لئے خریدی جاتی ہے، اگرسال کے آخر میں بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔(١)

٤۔ اگر ایک نابالغ بچے کا کوئی سرمایہ ہو اور اس سے کچھ نفع کمائے تو احتیاط واجب *کے طور پر

اس بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے۔(٢) ٭٭

مصرف خمس:

خمس کے مال کو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہئے، اس کا نصف سہم امام زمان علیہ السلام ہے اور اسے مجتہد جامع الشرائط جس کی انسان تقلید کرتا ہے یا اس کے وکیل کو دیا جاتا ہے دوسرے نصف کو بھی مجتہد جامع الشرائط یا اس کی اجازت سے ضروری شرائط کے حامل سادات کو دیا جائے۔(٣) ٭٭٭

خمس کے محتاج سید کے شرائط:

* غریب ہو یا ابن السبیل ہو، اگرچہ اپنے شہر میں غریب ومحتاج نہ ہو۔

*شیعہ اثنا عشری ہو۔

*کھلم کھلا گناہ کا مرتکب نہ ہو ( احتیاط واجب کی بناپر) اور اسے خمس دینا گناہ انجام دینے میں مددکا سبب نہ ہو۔

*احتیاط واجب کی بناء پران افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات اس (خمس لینے والے) کے ذمہ ہوں، جیسے بیوی بچے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٧٨٠(٢) توضیح المسائل، م ١٧٩٤.(٣) توضیح المسائل، م ١٨٣٤.(٤) توضیح المسائل، م ٣٥ ١٨ تا ٤١ ١٨

*(گلپائیگانی)بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے (م ١٨٠٣)

٭٭(خوئی) واجب نہیں ہے اس کا خمس دے (م ١٨٠٢)

٭٭٭(گلپائیگانی ،اراکی) صاحب مال خود بھی شرائط کے حامل سادات کو دے سکتا ہے (مسئلہ ١٨٤٣)

۲۲۷

سبق :٣٥ کاخلاصہ

١۔ خمس ادا کرنا ایک اقتصادی فریضہ ہے۔

٢۔ درج ذیل موارد میں خمس ادا کرنا واجب ہے:

*کسب وکار کی منفعت

*معدن (کان)

*خزانہ

*جنگی غنائم

*سمندری جواہرات

*حلال مال کا حرام مال سے مخلوط ہونا ۔

*وہ زمین جسے کا فرذمی مسلمان سے خریدے۔

٣۔خوراک، پوشاک، مسکن، گھر کا سامان، سواری، دعوت کے اخراجات، شادی بیاہ، زیارت، مسافرت، جواہرات، تحفے، صدقات اور کفارات سال کے اخراجات میں شمار ہوتے ہیں۔

٤۔ جس دن پہلی آمدنی انسان کے ہاتھ میں آئے، اسی دن سے خمس کا سال شروع ہوتا ہے اور ایک سال گزرنے کے بعد جو کچھ اس آمدنی سے بچا ہو اس پر خمس دینا چاہئے۔

٥۔ وراثت میں ملے مال، بخشش میں ملی چیزوں اور حاصل کئے گئے انعامات پر خمس نہیں ہے۔

٦۔ جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے اس میں مدا خلت نہیں کی جاسکتی ہے اور اگر اس مال سے تجارت کا ٥ ١ حصہ باطل ہے۔

٧۔ خمس کا نصف مال امام( عج) ہے، اسے اپنے مرجع تقلید کو دینا چاہئے، اور دوسرے نصف یعنی سادات کاحصہ مرجع تقلید کی اجازت سے درج ذیل شرائط کے حامل سید کو دیا جاسکتا ہے:

١.۔غریب ہو ۔

٢.۔ شیعہ اثنا عشری ہو۔

٣.۔کھلم کھلا معصیت وگناہ نہ کرتا ہو ۔

٤.۔ ان افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات وہ(لینے والا سید) ادا کرتا ہو، جیسے بیوی بچے۔

۲۲۸

سوالات:

١۔ کس قسم کے جواہرات پر خمس نہیں ہے ؟

٢۔ کسب وکار کے منافع کی وضاحت کیجئے؟

٣۔ سالِ خمس کا آغاز کس وقت ہوتا ہے؟

شادی وخوشی کے موقع پر دیئے جانے والے تحفہ پر خمس ہے یا نہیں ؟

٥۔ نابالغ بچے اگر کام کرکے کچھ پیسے بچت کریں، کیا اس پر خمس ہے؟

٦۔ مصرف خمس کی وضاحت کیجئے؟

۲۲۹

سبق نمبر ٣٦

زکات

مسلمانوں کا ایک اور اہم اقتصادی فریضہ زکات کی ادائیگی ہے۔

زکات کی اہمیت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں اس کا ذکر نماز کے بعد آیا ہے اور اسے ایمان کی علامت اور کامیابی کا سبب شمار کیا گیا ہے۔

معصومین علیہم السلام سے نقل کی گئی متعدد روایات میں آیا ہے:

'' جو زکات ادا کرنے میں مانع بن جائے،(کوتاہی کرے) دین سے خارج ہے''

زکات کے بھی خمس کی طرح خاص موارد ہیں، اس کی ایک قسم بدن اور زندگی کی زکات ہے جو ہر سال عید فطر کے دن ادا کی جاتی ہے اور یہ صرف ان لوگوں پر واجب ہے جو استطاعت رکھتے ہوں۔ اس قسم کی زکات کے مسائل روزہ کی بحث کے آخرپر بیان ہوئے ہیں*

زکات کی دوسری قسم، مال کی زکات ہے، لیکن لوگوں کے تمام اموال پر زکات نہیں ہے ، بلکہ صرف٩ چیزوں پر زکات ہے اور انہیں تین حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

____________________

* دیکھئے سبق نمبر٣٤.

۲۳۰

وجوب زکات کے مواقع(١)

١۔اناج:

گندم

جو

خرما

کشمش

٢۔ مویشی:

اونٹ

گائے

بھیڑبکری

٣۔ سکے:

سونا

چاندی

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٨٥٣.

۲۳۱

حد نصاب:

ان چیزوں کی زکات اس صورت میں واجب ہوتی ہے کہ ایک خاص مقدار تک پہنچ جائے اور اس مقدار کو'' حد نصاب'' کہتے ہیں۔ یعنی اگر حاصل شدہ پیداوار یا مویشیوں کی تعداد حد نصاب سے کمتر ہوتو، ان پر زکات نہیں ہے۔

اناج کا نصاب:

مذکورہ چار قسم کے اناج ایک نصاب رکھتے ہیں اور یہ نصاب تقریباً٨٥٠ کلو گرام ہے۔ اس لحاظ سے اگر حاصل شدہ پیداوار اس مقدار سے کم ہوتو، اس پر زکات نہیں ہے۔*(١)

اناج کی زکات کی مقدار:

جب اناج کی حاصل شدہ پیداوار حد نصاب کو پہنچے، تو اس میں سے ایک حصہ زکات کے عنوان سے ادا کیا جانا چاہئے۔ لیکن اناج کی زکات کی مقدار اسکی آبیاری پر منحصر ہے۔اس لحاظ سے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

١۔ جو پیداوار بارش کے پانی یادریا کے پانی سے آبیاری کرکے یا خشک کاشت کے نتیجہ میں حاصل ہوجائے، اس کی زکا ت کی مقدار ١٠ ١حصہ ہے۔

٢۔ جو پیداوار ڈول، بالٹی، رہٹ یا موٹر پمپ کے پانی سے آبیاری کرکے حاصل ہوجائے، اس کی زکات کی مقدار١٢٠ حصہ ہے۔

٣۔ جو پیداوار دونوں طریقوں، یعنی بارش کے پانی یادریا کے پانی کے علاوہ دستی صورت میں آبیاری کے نتیجہ میں حاصل ہوجائے تو اس کے نصف پر ١١٠ اور دوسرے نصف پر٢٠ ١حصہ زکات ہے۔(٢)

مویشیوںکا نصاب:

بھیڑبکری: بھیڑبکریوں کا پہلا نصاب چالیس عدد ہے اور ان کی زکات ایک بھیڑہے، بھیڑبکریوں کی تعداد جب تک چالیس تک نہ پہنچے ان پر زکات نہیں ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،م١٨٦٤. (٢)توضیح المسائل، م ١٨٧٥تا ٩ ١٨٧ (٣)توضیح المسائل،م ١٩١٣

زاناج کا صحیح نصاب ٢٠٧ ٨٤٧ کیلو گرام ہے۔

۲۳۲

گائے:

گائے کا پہلا نصاب تیس عدد ہے اور ان کی زکات ایک گوسالہ ہے جو ایک سال تمام ہونے کے بعد دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔(١)

اونٹ

اونٹ کا پہلا نصاب پانچ عدد ہے اور ان کی زکات ایک بھیڑہے۔اونٹوں کی تعداد جب تک ٢٦ عدد تک نہ پہنچے، ہر پانچ اونٹ کے لئے ایک بھیڑ زکات ہے لیکن جب ان کی تعداد ٢٦ تک پہنچ جائے تو ان کی زکات ایک اونٹ ہے۔(٢)

سونا اور چاندی کا نصاب:

سونے کا نصاب ١٥ مثقال اور چاندی کا نصاب ١٠٥ مثقال ہے اور دونوں کی زکات ١٤٠ ہے۔(٣)

زکات کے احکام:

١۔ گندم، جو، خرما، اور انگور پر، بیج کی قیمت، مزدوری، ٹریکٹر وغیرہ کے کرایہ کی صورت میں جو خرچہ آتاہے، اس کو پیداوار سے کم کیا جاسکتا ہے، لیکن نصاب کی مقدار اس خرچہ کے کم کرنے سے پہلے حساب کی جاتی ہے*

____________________

(١)توضیح المسائل م١٩١٢.

(٢)توضیح المسائل م١٩١٠.

(٣) توضیح المسائل م ١٨٩٦ و١٨٩٧

*(گلپائیگانی)۔ اراکی) خرچہ کم کرنے کے بعد حساب ہوتاہے(م،١٩٠٩)۔(خوئی) اس خرچہ کو کم نہیں کرسکتے(م، ١٨٨٩)

۲۳۳

اس طرح اگر ان چیزوں کی مقدار اس خرچہ کے کم کرنے سے پہلے نصاب کی حدتک پہنچ جائے تو زکات کا اداکرنا واجب ہے لیکن زکات، مذکورہ خرچ کو کم کرنے کے بعد باقی بچے اجناس سے ہی نکالی جائے گی۔(١)

٢۔ مویشیوں پر زکات درج ذیل صورت میں واجب ہوتی ہے:

*ایک سال تک ان کا مالک رہاہو*اس لحاظ سے مثلاً اگر کوئی١٠٠ عدد گائیں خریدے اور ٩ مہینے کے بعد انھیں بیچ دے،تو زکات واجب نہیں ہے۔(٢)

*مویشی سال بھر بیکار اور آزاد ہوں، اس لحاظ سے اس گائے اور اونٹ پر زکات نہیں ہے جن سے کھیتی باڑی یا بارکشی میں کام لیا جاتاہے۔(٣)

*مویشی سال بھر جنگل اور بیابان کے گھاس پر پلے، لہٰذا اگر تمام سال یا کچھ مدت تک بوئی ہوئی یا کاٹی ہوئی گھاس پر پلے تو زکات نہیں ہے۔(٤)

٣۔سونا اور چاندی پر اس وقت زکات واجب ہے جب کہ سکہ کی صورت میں ہوں اور ان کا معاملہ رائج ہو، اس لحاظ سے جو سونے کے زیورات آج کل خواتین استعمال کرتی ہیں، ان پر زکات نہیں ہے۔(٥)

٤۔ زکات ادا کرنا، ایک عبادت ہے اس لئے جوکچھ زکات کے طور پر ادا کیا جائے بقصد قربت ہونا چاہئے۔(٦)

____________________

(١)توضیح المسائل ١٨٨٠

(٢) توضیح المسائل،م ١٨٥٦

(٣)توضیح المسائل، م ١٩٠٨.

(٤)توضیح المسائل،م١٩٠٨

(٥)توضیح،م ١٨٩٩.

(٦)توضیح المسائل م١٩٥٧.

*(تمام مراجع) اگر گیارہ ماہ تک گائے بھیڑ اور اونٹ،سونا،چاندی کا مالک رہے تو بارہویںمہینے کی ابتداء میں زکات دینا چاہئے لیکن پہلے سال گزرنے کے بعد پورے ١٢ مہینے تمام ہونے پر حساب کرے(م، ١٨٨٦)

۲۳۴

مصارف زکات:

آٹھ مواقع پر زکات کاکیا جاسکتا ہے یعنی ان تمام موارد یا ان میں سے چند ایک پر خرچ کیا جاسکتا ہے:

١۔ فقیر، وہ ہے جس کی آمدنی وبچت اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سالانہ خرچہ سے کم ترہو۔

٢۔ مسکین، وہ ہے جو بالکل نادار اور مفلس ہو۔

٣۔ جو امام یا نائب امام کی طرف سے زکات جمع کرنے، اسکی حفاظت اور تقسیم کرنے پر مقررہو۔

٤۔ اسلام ومسلمین کے تئیں دلوں میں الفت پیدا کرنے کے لئے، جیسے اگر غیر مسلمانوں کی مدد کی جائے تو وہ دین اسلام کی طرف مائل ہوجائیں یا جنگ میں مسلمانوں کی مدد کریں *

٥۔ غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے۔

٦۔قرضدار، جو اپنا قرض ادا نہ کرسکتا ہو۔

٧۔ راہ خدا میں خرچ کرنا، یعنی ایسے کام انجام دینا جن سے عام لوگوں کو فائدہ ہواور اس میں خدا کی خوشنودی ہو، جیسے سڑکیں اور پل بنانا۔

٨۔ وہ مسافر جو سفر میں نادار ہوچکا ہو اور اپنے وطن لوٹنے کے لئے خرچ نہ رکھتاہو، اگرچہ اپنے وطن میں فقیر نہ ہو ۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٩٢٥

*(گلپائیگانی)بعیدنہیں ہے کہ یہ امام معصوم علیہ السلام سے مخصوص ہو(م١٩٣٣)

۲۳۵

سبق: ٣٦کا خلاصہ

١۔جن چیزوں پر زکات واجب ہے، وہ حسب ذیل ہیں:

گندم، جو، خرما،کشمش، اونٹ ، گائے، بھیڑ، سونا اور چاندی۔

٢*کات اس صورت میںواجب ہوتی ہے کہ جب موردزکات چیزحدنصاب تک پہنچ جائے۔ مختلف چیزوں کاحدنصاب حسب ذیل ہے:

(نمبر)--مال کی قسم--نصاب)--مقدار زکات

١۔—گندم----------٢٠٧ ٨٤٧ کیلو گرام

*١١٠(دسواں حصہ)، اگر بارش اور دریا کے پانی سے آبیاری ہوئی ہو۔

*١٢٠ (بیسواں حصہ)، اگر دستی بالٹی، رہٹ اور موٹرپمپ سے آبیاری ہوئی ہو۔

*٣٤٠، اگر دونوں چیزوں سے آبیاری ہوئی ہے۔

٢----جو

٣۔----خرما

٤۔----کشمش

٥۔-----( اونٹ)---پہلانصاب ٥ اونٹ پر---- ایک بھیڑ

-------------------٢٥ اونٹ پر۔---ہر ٥ اونٹ پرایک بھیڑ

-------------------٢٦ اونٹ پر ----ایک اونٹ

٦۔----گائے-------٣٠ گائے پر ۔-----ایک سال عمر کا ایک گوسالہ

٧۔ ----- بھیڑ ۔------٤٠بھیڑ پر ۔-----ایک بھیڑ

٨۔-----سونا۔-----١٥ مثقال پر----١/٤٠

٩۔-----چاندی ۔ -----١٠٥مثقال پر-----١/٤٠

٣۔ زکات کو ٨معین مقامات پر صرف کرنا چاہئے (جو بھی مورد ہو) ان موارد میں ہروہ کام بھی شامل ہے جسے خداپسند فرماتا ہے، جیسے، تعمیر مسجد، پل و...

۲۳۶

سوالات:

١۔ درخت کی پیداوار میں سے کس پیدا وار پر زکات واجب ہے؟

٢۔ باب زکات میں ، نصاب سے کیا مقصد ہے؟

٣۔ کیا نصاب کا، خرچہ کم کرنے سے پہلے حساب ہوتا ہے یا اس کے بعد؟

٤۔ گائے اور بھیڑکاپہلا نصاب کیا ہے اور ہر ایک کی زکات کی مقدار کتنی ہے؟

٥۔ حساب کرکے تبائیے کہ ١٨ سکہ طلا کی زکات کتنی ہوگی جب کہ ہر سکہ کا وزن١٠ مثقال ہو۔؟

٦۔موٹرپمپ کے ذریعہ دریا سے آبیاری ہونے والے گندم کی پیداوار کی زکات ١١٠ ہے یا ١٢٠۔؟

٧۔ایک شخص نے مارچ کی پہلی تاریخ کو٢٥ بھیڑ خریدے اور اسی سال اول ستمبر کو مزید ٢٠ بھیڑ خریدے، ان بھیڑوں کی زکات ادا کرنے کا وقت کب ہے؟

۲۳۷

سبق نمبر ٣٧

امربالمعروف ونہی عن المنکر*

ہر انسان معاشرے میں انجام پانے والے برے اور ترک کئے جانے والے نیک کاموں کے بارے میں ذمہ دارہے ، اس لئے اگر کوئی واجب کام ترک ہوجائے یا کوئی حرام کام انجام پائے تو اس کے مقابلے میں خاموشی اور لاتعلقی جائز نہیں ہے، اور معاشرے کے تمام لوگوں کو ''واجب''کام کی انجام دہی اور '' حرام'' کام کوروکنے کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اس عمل کو '' امر بالمعروف اور'' نہی عن المنکر'' کہتے ہیں ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :

*ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعض بیانات میں آیا ہے:

* ''امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' اہم ترین واجبات میں سے ہے۔

*دینی واجبات '' امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' کے سبب مستحکم وپائیدار ہوتے ہیں ۔

*''امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' ضروریات دین میں سے ہے،جو اس سے انکار کرے، وہ کافر ہے۔

*اگر لوگ'' امربالمعروف ونہی عن المنکر'' کو ترک کریں، تو برکت ان سے اٹھا لی جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی۔

____________________

*مسائل امر بالمعروف ونہی عن المنکر''آیت اللہ اراکی وآیت اللہ خوئی کے رسالوں میں ذکر نہیں ہوئے ہیں۔

۲۳۸

معروف ومنکر کی تعریف:

احکامِ دین میں تمام واجبات ومستحبات کو '' معروف'' اور تمام محرمات ومکروہات کو'' منکر'' کہا جاتا ہے، لہٰذا سماج کے لوگوں کو واجب ومستحب کام انجام دینے کی ترغیب دلانا امر ''بالمعروف'' اور انھیں حرام ومکر وہ کام کی انجام دہی سے روکنا '' نہی عن المنکر'' ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر واجب کفائی ہے، یعنی کفایت کی حد تک انجام پانے کی صورت میں دوسروں پر واجب نہیں ہے ، اگر شرائط میسر ہونے کی صورت میں سب لوگوں نے اسے ترک کیا ہوتو سب کے سب ترک واجب کے مرتکب ہوئے ہیں ۔(١)

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے شرائط:

''امربالمعروف ونہی عن المنکر'' چند شرائط کی بناء پر واجب ہے اور ان شرائط کے نہ ہونے کی صورت میں ساقط ہے یعنی واجب نہیںہے اور یہ شرائط حسب ذیل ہیں :

١۔امرونہی کرنے والے کوجاننا چاہئے کہ جو کام کوئی فردانجام دیتا ہے وہ حرام ہے اور جسے ترک کرتا ہے ،وہ واجب ہے، لہٰذا جو شخص حرام کام کی تشخیص نہ دے سکتا ہو کہ حرام ہے یا نہیں اس پر نہی کرنا واجب نہیں ہے۔

٢۔امرونہی کرنے والے کو احتمال دینا چاہئے کہ اس کا امر ونہی مؤثر ہوگا، لہٰذا اگر جانتاہو کہ مؤثر نہیں ہے یا اس میں شک کرتا ہو، تو اس پر امرونہی کرنا واجب نہیں ہے۔

٣۔ گناہگار اپنے کام کو جاری رکھنے پر اصرار کرتاہو، لہٰذا اگر معلوم ہوجائے کہ گناہگار کام کو ترک

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٤٦٣،م ٢

۲۳۹

کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پھرسے اس کام کو انجام نہیں دے گا یا اس کام کو پھرسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوگا، تو امرونہی واجب نہیں ہے ۔

٤۔ امر ونہی کرنے والے کے لئے ، امرو نہی کرنا اپنے رشتہ داروں اور دوست یا ہمراہوں، دیگر مومنین کی جان ومال اور آبرو کے لئے قابل توجہ ضررونقصان کا سبب نہ بنے۔(١)

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مراحل:

امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے چند مراحل ہیں اور اگر سب سے نچلے مرحلے پر عمل کرنے سے نتیجہ نکلے تو بعد والے مرحلہ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مراحل حسب ذیل ہیں:

پہلا مرحلہ :

گناہگار کے ساتھ ایسا برتائوکیا جائے کہ وہ سمجھ لے کہ اس کا سبب اس کا گناہ میں مرتکب ہوناہے مثلا اس سے منہ موڑلے یا ترش روئی سے پیش آئے یا آنا جانا بند کردے۔

دوسرا مرحلہ :

زبان سے امر ونہی کرنا:*یعنی واجب تر ک کرنے والے کو حکم دیدے کہ واجب بجالائے اور گناہگار کو حکم دیدے کہ گناہ کو ترک کرے۔

تیسر امرحلہ :

طاقت کا استعمال: منکر کو روکنے اور واجب انجام دینے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا، یعنی گناہگار کی پٹائی کرنا۔(٢)

امربالمعروف ونہی عن المنکر کے احکام :

١۔ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے شرائط اور موارد کو سیکھناواجب ہے تاکہ امر ونہی کرنے میں خطا سرزد نہ ہوجائے۔(٣)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١،ص ٦٥ ٤،ص ٤٧٢،م ١.

(٢)تحریر الوسیلہ،ج ١ ص ٤٧٦.(٣) تحریرالوسیلہ، ج١، ص ٤٧٦.

*آیت اللہ گلپائیگانی کے رسالہ میں آیا ہے: دوسرے مرحلہ میں حسن خلق اچھی زبان میں امرونہی کرے اور اس کی مصلحتیں بیان کرے اور اس کتاب کامرحلہ٢ اور ٣، مرحلہ ٣ و٤ ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455