آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 173015
ڈاؤنلوڈ: 4769

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173015 / ڈاؤنلوڈ: 4769
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

الف : عقلی دلیل اور ائمہ سے صادر ہونے والی بے پناہ احادیث کے مطابق نوع انسان کی بقا کے لئے امام اور حجت کا وجود ضروری ہے اور کوئی زمانہ اس مقدس وجود سے خالی نہ رہے گا _

ب : بہت سی احادیث کے مطابق امام صرف بارہ ہوں گے زیادہ نہیں _

ج : احادیث اور تاریخ کی گواہی کا متقتضایہ ہے کہ ان میں سے گیارہ دار فانی کو و داع کہہ چکے ہیں _

ان تین مطالب کے انضمام سے حضرت مہدی کی بقا یقینی طور پر ثابت ہوجاتی ہے اور چونکہ ظاہر نہیں ہیں ای لئے یہ کہنا چا ہئے کہ پردہ غیبت میں ہیں _

۱۶۱

غیبت صغری وکبری

جلالی : غیبت صغری و کبری کے کیا معنی ہیں ؟

ہوشیار : بارہویں امام دو مرتبہ لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوئے ہیں _پہلی مرتبہ اپنی پیدا ئشے کے سال ۲۵۵ یا ۲۵۶ یا اپنے والد کے انتقال کے سال سے ۳۲۹ ھ تک اس زمانہ ہیں آ پ اگر چہ عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے لیکن رابطہ با لکل منقظع نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کے نا ئب آپ کی خدمت میں پہنچتے اور لوگوں کی ضرور توں کو پورا کرتے تھے غیبت کے اس ۶۹ یا ۷۴ سالہ زمانہ کو غیبت صغری کہتے ہیں _

دوسری غیبت ۳۲۹ ھ سے شروع ہوئی اس میں نواب کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور ظہور تک جاری رہے گی _ اس کو غیبت کبری کہتے ہیں پیغمبر اکرم اور ائمہ پہلے ہی دونوں غیبتوں کی خبر دے چکے تھے ، مثلا :

اسحاق بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام جعفری صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

'' قائم کی دو غیبتیں ہوں گی ، ایک طولانی دوسری چھوٹی غیبت صغری میں خاص شیعوں کو ان کی قیام گاہ کا علم ہوگا _ لیکن دوسری میں آپکے مخصوص دینی دوستوں کے علاوہ آپ کی قیام گاہ کا کسی کو

۱۶۲

پتہ نہیں ہوگا(۱)

آپ ہی کا ارشاد ہے :

صاحب الامر کی دوغیبتیں ہیں : ایک ان میں سے اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ کہے گا : مر گئے ہیں ، دوسر ا کہے گا : قتل کرد یئےئے ،تیسرا کہے گا : چلے گئے _ معدود افراد ایسے ہوں گے جو آپ کے وجود کے معتقد رہیں گے اور انہی کا ایمان ثابت و استوار ہے _ اس زمانہ میں آپ کی قیام گاہ کا کسی کو پتہ نہ ہوگا ، ہاں ان کے مخصوص خدمت گار جانتے ہوں گے _(۲) آ ئھ حدیثیں اور ہیں

غیبت صغری اور شیعوں کا ارتباط

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ : غیبت صغری کے شروع ہونے کے بعد بعض فریب کاروں نے سادہ لوح لوگوں سے غلط فائدہ اٹھا یا اور یہ دعوی کر کے کہ ہم امام غائب کے نائب ہیں لوگوں کو فریب دیا اور اس طرح اپنی حیثیت بنالی اور لوگوں کے مال سے اپنے گھر بھر لئے _ جناب عالی اس بات کی وضاحت فرمائیں یہ نواب کون تھے ؟ اور امام زمانہ سے لوگوں کے زمانہ میں عام لوگ صاحب الامر کی ملاقات سے محروم تھے _ لیکن رابط با لکل منقطع نہیں ہوا تھا _ چنانچہ وہ ان افراد کے ذریعہ

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ۷ ص ۶۹ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص۱۵۵

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۳

۱۶۳

جنھیں نائب ، وکیل اور باب کہا جاتا تھا امام سھ رابطہ قائم کرتے ، اپنی دینی مشکلوں کوحل کرتے اور دیگر ضرور توں کو پورا کرتے تھے ، اپنے اموال سے سہم امام نکال کرانھیں کے ذریعہ بھیج دتیے تھے _ کبھی آپ سے مادی مدد ما نگتے تھے _ کبھی حج اور دوسرے سفر کے لئے اجازت لیتے تھے کبھی مریض کی شفا اور بیٹے کی پیدائشے کیلئے دعا کراتے تھے امام ہی کی طرف سے بعض لوگوں کیلئے پیسہ ، لباس اور کفن بھیجا جاتا تھا_ ان امور میں مخصوص و معین افراد و اسطہ تھے _ حاجتیں خطوط کے ذریعہ ارسال کی جاتی تھیں چنانچہ آپ بھی خط ہی کی صورت میں جواب ارسال فرماتے تھے _ اصطلاح میں آپ کے خطوط کو تو قیع کہتے ہیں _

کیا توقیعات خود امام کی تحریر تھیں ؟

جلالی : توقیعات کو خود امام تحریر فرما تے تھے یا کوئی اور ؟

ہوشیار : ہم کہہ چکے ہیں کہ توقیعات کے کاتب خود امام ہیں _ یہاں تک خواص او رعلمائے وقت کے در میان آپ کا خط ( تحریر ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھی طرح پہچا نتے تھے _ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں _

محمد بن عثمان عمری کہتے ہیں : امام کی طرف سے صادر ہونے والی توقیع کو میں ببخوبی پہچا نتا تھا(۱)

اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں : محمد بن عثمان کے ذریعہ میں نے اپنے مشکل مسائل امام کی خدمت میں ارسال کئے اور جواب امام زمانہ کے دستخط کے ساتھ موصول ہوا _(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳

۲ _ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹ ، اثبات الھداة ج ، ص ۴۶۰

۱۶۴

شیخ ابو عمرعامری کہتے ہیں : شیعوں کی ایک جماعت سے ابو غانم قزوینی نے ایک موضوع کے بارے میں اختلاف و نزاع کی _ شیعوں نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے ایک خط میں صورت حال لکھ کر ارسال کردیا اور جواب امام کی دستخط کے ساتھ موصول ہوا ''(۱) صدوق فرماتے ہیں : '' جو توقیع امام زمانہ نے اپنے دست مبارک سے میرے والد کیلئے رقم کی تھی وہ میرے پاس ابھی تک موجود ہے ''(۲)

مذکورہ افرادنے اس بات کی تو گواہی دی ہے کہ وہ خطوط امام زمانہ کی تحریرہوتے تھے لیکن اس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس طریقہ سے امام زمانہ کا خط پہچانتے تھے کیونکہ غیبت کے زمانہ میں مشاہدہ کا امکان نہیں تھا اس کے علاوہ بعض اشخاص نے اس کے برخلاف کہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روایت کی ہے کہ صاحب الامر کی توقیعات وہ جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے ذریعہ شیعوں تک پہنچتی تھیں ان کا وہی خط ہے جو امام حسن عسکری کے زمانہ کی توقیعات کا تھا _(۳)

پھر ابو نصر ہی کہتے ہیں : ۳۰۴ ھ میں ابوجعفر عمری کا انتقال ہوا_ تقریباً وہ پچاس سال تک امام زمانہ کے وکیل رہے _ ان کے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھی شیعوں کو اسی خط میں امام کی توقیعات دیتے تھے جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں لکھی جاتی تھیں(۴) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۷۸_

۲_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۲ ص ۲۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۱۶۵

دوسری جگہ کہتے ہیں : امام زمانہ کی توقیعات محمد بن عثمان اسی خط میں لکھتے تھے جس میں امام حسن عسکری (ع) کے زمانہ میں ان کے باپ عثمان بن سعید لکھتے تھے _(۱)

عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں : عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد صاحب الامر کی توقیعات اسی خط میں صادرہوتی تھیں جس میں ہم سے پہلے خط و کتابت ہوتی تھی _(۲)

ان روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو توقیعات عثمان بن سعید او ر ان کے بعد محمد بن عثمان کے توسط سے لوگوں تک پہنچی ہیں ان کا خط بالکل وہی تھا کہ جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں توقیعات صادر ہوتی تھیں _ یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توقیعات امام کے خط میں نہیں تھیں بلکہ یہ کہا جائے کہ امام حسن عسکری (ع) نے توقیعات اور خط و کتابت کیلئے ایک مخصوص محرّر مقرر کررکھا تھا جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے زمانہ تک زندہ رہا _ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض توقیعات خود امام نے اور کچھ دوسروں نے تحریر کی ہیں _ لیکن یادرہے کہ زمانہ غیبت صغری کے علماء اور شیعوں کے حالات اور توقیعات کے متن کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان خطوط کی عبارت شیعوں کے نزدیک موثق اور قابل اعتماد تھی اور وہ انھیں امام ہی کی طرف سے سمجھتے اور قبول کرتے تھے_

اختلافات کے سلسلے میں مکاتبہ کرتے اور جواب کے بعد سراپا تسلیم ہوجاتے تھے ، یہاں تک اگر کبھی کسی توقیع کے بارے میں شک ہوجاتاتھا تو بھی مکاتبہ ہی کے ذریعہ حل کرتے تھے _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۳_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۵۰_

۱۶۶

علی بن حسین بابویہ نے امام زمانہ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا اور بیٹے کی پیدائشے کے لئے دعا کا تقاضا کیا اور اس کا جواب بھی ملا _(۱)

جن علا نے غیبت صغری اور نواب کا زمانہ درک کیا ہے ان میں سے ایک محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانی ہیں _ انہون نے اپنی کتاب '' غیبت'' میں نوّاب کی نیابت اور سفارت کی تائید کی ہے چنانچہ غیبت سے متعلق احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : غیبت صغری کے زمانہ میں امام اور لوگوں کے درمیان معین و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان کے توسط سے بیمار شفا پاتے اور شیعوں کی مشکلوں کے حل صادر ہوتے تھے لیکن اب غیبت صغری کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اور غیبت کبری کا زمانہ آگیا ہے _(۲)

معلوم ہوتا ہے کہ توقیعات کے ساتھ کچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے کہ جن کی بناپر علمائے وقت اور شیعہ انھیں تسلیم کرتے تھے _ شیخ حر عاملی لکھتے ہیں : ابن ابی غانم قزوینی شیعوں سے بحث کرتا اور کہتا تھا : امام حسن عسکری(ع) کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا _ شیعوں نے امام کی خدمت میں خط ارسال کیا ، وہ بغیر روشنائی کے قلم سے سفید کاغذ پر لکھا جاتا تھا تا کہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان کے خط جواب دیا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۰۶_

۲_ کتاب ''غیبت'' /۹۱_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۶۰_

۱۶۷

نوّاب کی تعداد

نوّاب کی تعداد میں اختلاف ہے _ سید بن طاؤس نے اپنی کتاب '' ربیع الشیعہ '' میں جو نام ذکر کئے ہیں وہ یہ ہیں : ابو ہاشم داؤد بن القاسم ، محمد بن علی بن بلال ، عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، عمر اہوازی ، احمد بن اسحاق ، ابو محمد الو جنای ، ابراہیم بن مہزیار ، محمد بن ابراہیم(۱) _

شیخ طوسی نے وکلاء کے نام اسی طرح نقل کئے ہیں : بغداد سے عمری ، ان کا بیٹا ، حاجز ، بلالی اور عطار ، کوفہ سے عاصمی ، اہواز سے محمد بن ابراہیم بن مہزیار ، قم سے احمد بن اسحاق ، ہمدان سغ محمد بن صالح ، رَی سے شامی واسدی ، آذربائجان سے قاسم بن العلاء اور نیشاپور سے محمد بن شاذان _(۲)

لیکن شیعوں کے درمیان چار اشخاص کی وکالت مشہور ہے : ا_ عثمان بن سعید ۲_ محمد بن عثمان ۳_ حسین بن روح ۴_ علی بن محمد سمری _ ان میں سے ہر ایک نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کررکھے تھے _(۳)

عثمان بن سعید

عثمان بن سعید امام حسن عسکری (ع) کے موثق و بزرگ صحابہ میں سے تھے _ ان کے متعلق

____________________

۱_ رجال ابو علی طبع سنہ ۱۱۰۲ ھ ص ۳۱۲_

۲_ رجال مامقانی طبع نجف ج ۱ ص ۲۰۰ ، اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۴_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۲_

۱۶۸

بوعلی لکھتے ہیں : '' عثمان بن سعید موثق و جلیل القدر تھے ، ان کی توصیف کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے ''(۱) علامّہ بہبہانی لکھتے ہیں :'' عثمان بن سعید ثقہ اور جلیل القدر ہیں(۲) _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے آپ کی توثیق کی ہے _

احمد بن اسحاق کہتے ہیں :'' میں نے امام علی نقی کی خدمت میں عرض کی ہیں کس کے ساتھ معاشرت کروں اور احکام دین کس سے دریافت کروں اور کس کی بات قبول کروں ؟ فرمایا: سعید بن عثمان ہمارے معتمد ہیں _ اگر وہ تم سغ کوئی بات کہیں تو صحیح ہے _ انکی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے ''_

ابوعلی نقل کرتے ہیں کہ: امام حسن عسکری سے بھی ایسا ہی سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: عثمان بن سعید اور ان کے بیٹے پرمجھے اعتماد ہے _ تمہارے سامنے وہ جو روایت بھی بیان کریں وہ صحیح ہے _ ان کی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے _ اصحاب کے درمیان یہ حدیث اس قدر مشہور تھی کہ ابو العباس حمیری کہتے ہیں : ''ہم لوگوں کے درمیان بہت زیادہ مذاکرہ ہوتا تھا اور اس میں عثمان بن سعید کی ستائشے کرتے تھے ''(۳) _

محمد بن اسمعیل و علی بن عبداللہ کہتے ہیں :'' سامرہ میں ہم لوگ حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں شرف یاب ہوئے اس وقت شیعوں کی ایک جماعت بھی موجود تھی ناگہان

____________________

۱_ رجال بوعلی ص ۲۰۰_

۲_ منہج البلاغ مؤلف علامہ بہبہانی ص ۲۱۹_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۸_

۱۶۹

بدر خادم آیا اور عرض کی ایک پریشان بال جماعت آئی ہے ، داخل ہونے کی اجازت چاہتی ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : وہ یمن کے شیعہ ہیں اس کے بعد آپنے بدر خادم سے فرمایا: عثمان بن سعید کو بلاؤ_ عثمان آئے ، امام نے فرمایا : تم ہمارے موثق وکیل ہو یہ جماعت جو مال خدا لیکر آئی ہے _ اسے تحویل میں لے لو _ راوی کہتا ہے : میں نے عرض کی : ہم تو یہ جانتے تھی کہ عثمان بہترین شیعہ ہیں لیکن آپ(ع) نے اس عمل سے ان کا مرتبہ بڑھا دیا اور ان کے ثقہ اور وکیل ہونے کا اثبات کردیا ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : حقیقت یہی ہے جان لو کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا میرے بیٹے مہدی کا وکیل ہوگا _(۱)

امام حسن عسکر ی(ع) نے اپنے بیٹے کے بارے میں چالیس افراد ، منجملہ ان کے علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ اور حسن بن محبوب ، کے سامنے فرمایا: '' یہ میرا جانشین اور تمہارا امام ہے اس کی اطاعت کرو ،واضح رہے آج کے بعد مدتوں تک تم اسے نہیں دیکھ سکوگے ، عثمان بن سعید کی باتوں کو تسلیم کرو اور ان کے حکم کے مطابق چلو کیونکہ وہ تمہارے امام کا جانشین ہے اور شیعوں کے امور کے حل و فصل اسی کے ہاتھ میں ہیں _(۲)

ان کی کرامات

ان تمام باتوں کے علاوہ ان کی طرف کچھ کرامات بھی منسوب ہیں جس سے

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۱۷۰

ان کی صداقت ثابت ہوتی ہے _ ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں _

شیخ طوسی نے اپنی کتاب ، غیبت میں بنی نوبخت کیایک جماعت منجملہ اس کے ابوالحسن کثیری سے روایت کی ہے کہ : قم اور اس کے مضافات سے عثمان بن سعید کے پاس کچھ مال بھیجا گیا پہنچا نے والا جب واپس لوٹنے لگا تو عثمان بن سعید نے کہا : ایک اور امانت تمہارے سپردکی گئی تھی وہ تم نے تحویل میں کیوں نہیں دی ؟ اس نے عرض کی : میرے پاس اور کوئی چیز باقی نہیں ہے _ عثمان بن سعید نے کہا : واپس جاؤ اور اسے تلاش کرو _ چند دن تلاش کرنے کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کہا : مجھے تو کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی _ فلاں بن فلاں نے ہمارے لئے سردانی کے دوپارچے تمہارے سپردکئے تھے وہ کیا ہوئے ؟ عرض کی : خدا کی قسم آپ کی بات سچ ہے لیکن میں بھول گیا اب نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں _ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آیا اور بہت تلاش کیا لیکن ناکام رہا _ پھر عثمان بن سعید کے پا گیا ، اور پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : فلان بن فلاں روئی بیچنے والے کے پاس جاؤ_ روئی کی دو تھیلے تم اس کے پاس لے گئے تھے ، جس تھیلے پر یہ تحریر ہو اسے کھول کر دیکھو وہ امانت تمہیں اس میں ملے گی اس نے حکم کی تعمیل کی پارچہ اس میں ملا تو ان کی خدمت میں پہنچا دیا(۱) _

محمد بن علی اسود کہتے ہیں : ایک عورت نے مجھے ایک کپڑا دیا تھا کہ اسے عثمان بن سعید کے پاس پہنچا دینا _ دوسرے کپڑوں کے ساتھ اسے میں ان کی خدمت میں لے گیا _ انہوں نے کہا : محمد بن عباس قمی کی تحویل میں دیدو _ میں نے حکم کی تعمیل کی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۱۶_

۱۷۱

اس کے بعد عثمان بن سعید نے پیغام بھیجا کہ فلاںعورت کا کپڑا تم نے کیوں نہیں دیا ؟ پس اس عورت کے کپڑے کی بات مجھے یاد آگئی تلاش بسیار کے بعد وہ ملاتو میں تحویل میں دے دیا _(۱)

شیخ صدوق نے اپنی کتاب '' اکمال الدین'' میں لکھا ہے :'' ایک شخص عراق سے عثمان بن سعید کے پاس سہم امام لے کر گیا _ عثمان نے مال واپس کردیا اور کہا: اس میں سے چار سو درہم اپنے چچا زاد بھائیوں کا حق نکال دو _ عراقی کو بڑا تعجّب ہوا _ جب اس نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک اس کے چچا زاد بھائیوں کی کاشتکاری کی کچھ زمیں اس کے پاس ہے _ جب صحیح طریقہ سے آنے پائی کا حساب کیا تو ان کے چار سو ہی درہم نکلے _ لہذا اس نے مبلغ مذکور کو اموال سے نکال دیا اور بقیہ کو عثمان بن سعید کے پاس لے گیا ، چنانچہ قبول کر لیا گیا _(۲)

اب احباب انصاف فرمائیں ، کیا عثمان بن سعید کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث ، امام حسن عسکری کے نزدیک ان کی قدرومنزلت اور امام حسن عسکری کے خاص اصحاب کا ان کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور ان کے عادل ہونے پر شیعوں کے اتفاق کے با وجود کیا ان کے وعد ے میں شک کیا جا سکتا ہے کیا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کی وجہ سے ایسا کیا؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۳۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۲۶، اثبات اہداةج۷ ص ۳۰۲

۱۷۲

محمّد بن عثمان

عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور امام کے وکیل منصوب ہوئے _

شیخ طوسی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : محمد بن عثمان اور ان کے والد دونوں صاحب الزمان کے وکیل تھے اور امام کی نظر میں معزز تھے _(۱)

مامقانی نے لکھا ہے : محمد بن عثمان کی عظمت و جلالت امامیہ کے نزدیک مسلم ہے _ کسی دلیل و بیان کی محتاج نہیں ہے _ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے والد کی حیات میں امام حسن عسکری کے بھی وکیل تھے اور حضرت حجّت کے بھی سفیر تھے _(۲)

عثمان بن سعید نے تصریح کی ہے کہ : میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین اور نائب امام ہے _(۳)

یعقوب بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے محمد بن عثمان کے توسط سے امام زمانہ (ع) کی خدمت میں خط ارسال کیا اور کچھ دینی مسائل معلوم کئے _ امام کی تحریر میں جواب موصول ہوا آپ نے تحریر فرمایا تھا: محمد بن عثمان عمری موثق ہیں اور ان کے خطوط میرے ہی خط ہیں _(۴)

____________________

۱_ منہج المقال ص ۳۰۵ ، رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۲_ رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۳_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۱۷۳

انکی کرامات

محمد بن شاذان کہتے ہیں کہ : میرے پاس سہم امام کے چار سو اسی درہم جمع ہوگئے تھے _ چونکہ میں پانچ سو سے کم امام کی خدمت میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا اس لئے بیس اپنی طرف سے شامل کر کے محمد بن عثمان کے توسط امام کی خدمت میں ارسال کردیئےیکن اس اضافہ کی تفصیل نہ لکھی _ امام کی طرف سے اس کی وصول یابی کی رسید اس تحریر کے ساتھ موصول ہوئی : '' پانچ سو درہم تمہارے بیس درہم کے ساتھ موصول ہوئے ''(۱) _

جعفر بن متیل کہتے ہیں : محمد بن عثمان نے مجھے طلب کیا ، چند کپڑے اور ایک تھیلی میں کچھ درہم دیئےور فرمایا: '' واسطہ جاؤ اور وہاں پہلا جو شخص ملے یہ کپڑے اور درہم اس کے حوالہ کردو ''_ میں واسطہ کے لئے روانہ ہوا اور پہلے جس شخص سے میری ملاقات ہوئی وہ حسن بن محمد بن قطاة تھے _ میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا ، معانقہ کیا اور کہا :'' محمد بن عثمان نے آپ کو سلام کہلایا ہے اور آپ کے لئے یہ امانت ارسال کی ہے '' _ یہ بات سن کر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : محمد بن عبداللہ عامری کا انتقال ہوگیا ہے _ اب میں ان کا کفن لینے کے لئے نکلا ہوں _ جب ہم نے اس امانت کو کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں ایک مردہ کے دفن کی تمام چیزیں موجود ہیں _ جنازہ اٹھانے والوں اور گورکن کیلئے کچھ پیسے بھی تھے ، اس کے بعد تشییع جنازہ کے بعد انہیں دفن کردیا ''(۲) _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳۷_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۱_

۱۷۴

محمد بن علی بن الاسود قمی کہتے ہیں :'' محمد بن عثمان نے اپنی قبر تیار کرائی تو میں نے وجہ دریافت کی ، کہا ، مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ :'' اپنے امور کو سمیٹ لو'' چنانچہ اس واقعہ کے دو ماہ بعد ان کا انتقال ہوا _(۱)

محمد بن عثمان تقریباً پچاس سال تک نائب امام رہے اور ۳۰۴ ھ میں انتقال کیا _(۲)

حسین بن روح

امام زمانہ کے تیسرے نائب حسین بن روح ہیں _ وہ اپنے زمانہ کے عقلمند ترین انسان تھے _ محمد بن عثمان نے انھیں امام زمانہ کا نائب منصوب کیا تھا _

بحار میں مجلسی لکھتے ہیں : جب محمد بن عثمان کا مرض شدید ہو گیا تو شیعوں کے سر برآوردہ اور معروف افراد ، جیسے ابو علی بن ہمام ، ابو عبداللہ بن محمد کاتب ، ابو عبداللہ باقطانی ، ابو سہل اسماعیل بن علی نوبختی اور ابو عبداللہ بن وجنا ان کے پاس گئے اور ان کے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : '' حسین بن روح میرے جانشین اور صاحب الامر کے وکیل و معتمد ہیں _ اپنے امور میں ان سے رجوع کرنا _ مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ حسین بن روح کو اپنا نائب مقرر کردو ''(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۵_

۱۷۵

جعفر بن محمد مدائینی کہتے ہیں : امام زمانہ کے اموال کو میں محمد بن عثمان کے پاس لے جاتا تھا_ ایک روز چار سودرہم ان کی خدمت میں پیش کیئےو فرمایا : اس پیسہ کو حسین بن روح کے پاس لے جاؤ _ میں نے عرض کی میری خواہش ہے کہ آپ ہی قبول فرمائیں فرمایا: حسین بن روح کے پاس لے جاؤ، معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے انھیں اپنا جانشین قرار دیا ہے _ میں نے دریافت کیا ، کیا امام زمانہ کے حکم سے آپ نے یہ کام انجام دیا ہے ؟ فرمایا: '' بے شک '' _ پس میں اسے حسین بن روح کے پاس لے گیا _ اس کے بعد سہم امام کو ہمیشہ انہیں کے پاس لے جاتا تھا _(۱)

محمد بن عثمان کے اصحاب و خواص کے درمیان بہت سے افراد تھے جو کہ مراتب میں حسین بن روح سے بلند تھے _ مثلاً جعفر بن احمد متیل کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ منصب نیابت ان کے سپرد کیا جائے گا _ لیکن ان کی توقع کے خلاف اس منصب کیلئے حسین بن روح کو منتخب کیا گیا _ اور تمام اصحاب یہاں تک جعفر بن احمد بن متیل بھی ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے _(۲)

ابو سہل نوبختی سے لوگوں نے دریافت کیا : حسین بن روح کیسے نائب بن گئے جبکہ آپ اس منصب کے لئے زیادہ سزاوار تھے؟ انہوں نے کہا : امام بہتر جانتے ہیں کہ اس منصب کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے _ چونکہ میں ہمیشہ مخالفوں سے مناظرہ کرتا ہوں _ اگر مجھے وکیل بنایا جاتا تو ممکن تھا کہ بحث کے دوران اپنے مدعا کے اثبات

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۳_

۱۷۶

کیلئے امام کا پتہ بتا دیتا _ لیکن حسن بن روح مجھ جیسے نہیں ہیں ، یہاں تک کہ اگر امام اس کے لباس میں چھپے ہوں اور لوگ قیچی سے پارہ پارہ کریں تو بھی وہ اپنا دامن نہیں کھولیں گے کہ امام نظر آجائیں _(۱)

صدوق لکھتے ہیں : محمد بن علی اسود نے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین بن بابویہ نے میرے ذریعہ حسین بن روح کو پیغام دیا کہ صاحب الامر(ع) سے میرے لئے دعا کرادیں شاید خدا مجھے بیٹے عطا کرے _ میں نے ان کا پیغام حسین بن روح کی خدمت میں پہنچا دیا تین روز کے بعد انہوں نے اطلاع دی کہ امام نے ان کے لئے دعا کردی ہے عنقریب خدا انہیں ایسا بیٹا عطا کرے گا کہ جس سے لوگوں کو فیض پہنچے گا _ اسی سال ان کے یہاں محمد کی ولادت ہوئی _ اس کے اور بیٹے بھی پیدا ہوئے _ اس کے بعد صدوق لکھتے ہیں جب محمد بن علی جب بھی مجھے دیکھتے تھے کہ محمد بن حسن بن احمد کے درس میں آمدورفت رکھتا ہوں اور علمی کتابوں کے پڑھنے اور حفظ کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے ، تو کہتے تھے : اس سلسلے میں برابر بھی تعجب نہ کرو کہ تحصیل علم سے تمہیں اتنا شغف ہے کیونکہ تم امام زمانہ کی دعا سے پیدا ہوئے ہو _(۲)

ایک شخص کو حسین بن روح کی نیابت پر شک تھا _ پس اس نے موضوع کی تحقیق کے لئے بغیر روشنائی کے قلم سے ایک خط لکھا اور امام زمانہ کی خدمت میں ارسال کیا چند روز کے بعد امام نے حسین بن روح کے ذریعہ اس کا جواب ارسال فرمایا_(۳) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۹_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۸۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۴۰_

۱۷۷

۳۲۶ ھ ، ماہ شعبان میں حسین بن روح نے وفات پائی _(۱)

چوتھے نائب

امام زمانہ کو چوتھے نائب شیخ ابوالحسن علی بن محمد سمری تھے _ ان کے بارے میں ابن طاؤس لکھتے ہیں :'' انہوں نے امام علی نقی اور امام حسن عسکری کی خدمت کی اور ان دونوں امامو ں کا ان سے مکاتبہ تھا اور ان کے لئے بہت سی توقیعات مرقوم فرمائی ہیں _ وہ نمایان اور ثقہ شیعوں میں سے ایک تھے _(۲)

احمد بن محمد صفوانی کہتے ہیں : حسین بن روح نے علی بن محمد سمری کو اپنا جانشین مقرر کیا تا کہ وہ ان کے امور انجام دیں _ لیکن جب علی بن محمد سمری کا وقت قریب آیا تو لوگ ان کی خدمت میںآئے تا کہ ان کے جانشین کے بارے میں سوال کریں _ انہون نے فرمایا : مجھے اپنا نائب بنانے کا حکم نہیں ملا ہے _(۳)

احمد بن ابراہیم بن مخلد کہتے ہیں : ایک دن علی بن محمد سمری نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا : خدا علی بن بابویہ قمی پر رحم کرے _ حاضرین نے اس جملہ کی تاریخ لکھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ اسی دن علی بن بابویہ کا انتقال ہوا تھا _ سمری نے بھی ۳۲۹ ھ میں وفات پائی _(۴)

____________________

۱_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۲_ رجال مامقانی ج ۲ ص ۳۰۲_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۱۷۸

حسین بن احمد کہتے ہیں : علی بن محمد سمری کی وفات سے چند روز قبل میں ان کی خدمت میں تھا کہ امام زمانہ کی طرف سے صادر ہونے والے خط کو انہوں نے لوگوں کے سامنے پڑھا _ اس کا مضمون یہ تھا : '' علی بن محمد سمری، خدا تمہارے انتقال پر تمہارے بھائیوں کو صبر جمیل عطا کرے _ چھ روز کے بعد تمہارے اجل آجائے گی _ اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور اب کسی کو اپنا نائب مقرر نہ کرنا کیونکہ اس کے بعد غیبت کبری کا سلسلہ شروع ہوگا _ میں اس وقت تک ظاہر نہ ہونگا جب تک خدا کا حکم نہ ہوگا طویل مدت ، دلوں میں قساوت اور زمین ظلم و جور سے نہ بھر جائے گی _ تمہارے در میان ایسے افراد پیدا ہوں گے جو ظہور کا دعوی کریں گے _ لیکن یادر ہے ، سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے پہلے جو شخص ظہور کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہے _(۱)

شیعوں کا درمیان چار اشخاص کی نیابت مشہور ہے _ کچھ لوگوں نے انپے مہدی ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ہے لیکن دلیل نہ ہونے کی بناپر ان کا جھوٹ آشکار ہوا اور ذلیل ہوئے _ جیسا کا حسن شرعی ، محمد بن نصیر نمیری ، احمد بن ہلال کرخی ، محمد بن علی بن ہلال ، محمد بن علی شلمغانی اورابوبکر بغدادی نے کیا تھا _ یہ تھی نوّاب کے بارے میں میری معلومات _ ان مدارک سے ان کے دعوے کے صحیح ہونے کا اطمینان حاصل ہوجاتاہے _

ڈاکٹر: اس سلسلے میں میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے لیکن آج کی رات ہماری بحث بہت طویل ہوگئی اسلئے آئندہ جلسہ میں پیش کرونگا _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۶۱_

۱۷۹

ابتداء ہی میں غیبت کبری کیوں واقع نہ ہوئی ؟

تمام احباب کی موجود گی میں ڈاکٹر صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

ڈاکٹر : غیبت صغری کا کیا فائدہ تھا؟ اگر یہی طے تھا کہ امام زمانہ غیبت اختیار کریں گے تو امام حسن عسگری (ع) کی وفات کے بعد ہی کیوں غیبت کبری کا آغاز اور مکمل انقطاع نہ ہو ا؟

ہوشیار: امام اور لوگوں کے رہبر کا غائب ہونا ، وہ بھی عرصہ دراز کیلئے عجیب و غیر مانوس بات ہے اور لوگوں کے لئے اس کاتسلیم کرنا مشکل ہے _ اس لئے رسول (ص) اور ائمہ نے یہ عزم کیا کہ : آہستہ آہستہ لوگوں کو اس امر سے مانوس کیا جائے اوراسے تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے ، لہذا گاہ بگاہ وہ ان کی غیبت اور اس زمانہ میں لوگوں کے مشکلوں میں گھر نے کی خبر دیتے تھے اور ان کا انتظار کرنے والوں کے لئے ثواب بیان کرتے اور انکار کرنے والوں کی سرزنش کرتے تھے _ کبھی اپنے عمل سے غیبت کی شبیہ پیش کرتے تھے _

اثبات الوصیت میں مسعودی لکھتے ہیں : امام علی نقی (ع) لوگوں کے ساتھ کم معاشرت کرتے تھے اور اپنے مخصوص اصحاب کے علاوہ کسی سے ربط و ضبط نہیں رکھتے تھے _ جب امام حسن عسکری (ع) ان کے جانشین ہوئے تو آپ بھی لوگوں سے اکثر پس پردہ سے گفتگو فرماتے تھے تا کہ ان کے شیعہ بارہویں امام کی غیبت سے مانوس

۱۸۰