آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181579 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

الف : عقلی دلیل اور ائمہ سے صادر ہونے والی بے پناہ احادیث کے مطابق نوع انسان کی بقا کے لئے امام اور حجت کا وجود ضروری ہے اور کوئی زمانہ اس مقدس وجود سے خالی نہ رہے گا _

ب : بہت سی احادیث کے مطابق امام صرف بارہ ہوں گے زیادہ نہیں _

ج : احادیث اور تاریخ کی گواہی کا متقتضایہ ہے کہ ان میں سے گیارہ دار فانی کو و داع کہہ چکے ہیں _

ان تین مطالب کے انضمام سے حضرت مہدی کی بقا یقینی طور پر ثابت ہوجاتی ہے اور چونکہ ظاہر نہیں ہیں ای لئے یہ کہنا چا ہئے کہ پردہ غیبت میں ہیں _

۱۶۱

غیبت صغری وکبری

جلالی : غیبت صغری و کبری کے کیا معنی ہیں ؟

ہوشیار : بارہویں امام دو مرتبہ لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوئے ہیں _پہلی مرتبہ اپنی پیدا ئشے کے سال ۲۵۵ یا ۲۵۶ یا اپنے والد کے انتقال کے سال سے ۳۲۹ ھ تک اس زمانہ ہیں آ پ اگر چہ عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے لیکن رابطہ با لکل منقظع نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کے نا ئب آپ کی خدمت میں پہنچتے اور لوگوں کی ضرور توں کو پورا کرتے تھے غیبت کے اس ۶۹ یا ۷۴ سالہ زمانہ کو غیبت صغری کہتے ہیں _

دوسری غیبت ۳۲۹ ھ سے شروع ہوئی اس میں نواب کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور ظہور تک جاری رہے گی _ اس کو غیبت کبری کہتے ہیں پیغمبر اکرم اور ائمہ پہلے ہی دونوں غیبتوں کی خبر دے چکے تھے ، مثلا :

اسحاق بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام جعفری صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

'' قائم کی دو غیبتیں ہوں گی ، ایک طولانی دوسری چھوٹی غیبت صغری میں خاص شیعوں کو ان کی قیام گاہ کا علم ہوگا _ لیکن دوسری میں آپکے مخصوص دینی دوستوں کے علاوہ آپ کی قیام گاہ کا کسی کو

۱۶۲

پتہ نہیں ہوگا(۱)

آپ ہی کا ارشاد ہے :

صاحب الامر کی دوغیبتیں ہیں : ایک ان میں سے اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ کہے گا : مر گئے ہیں ، دوسر ا کہے گا : قتل کرد یئےئے ،تیسرا کہے گا : چلے گئے _ معدود افراد ایسے ہوں گے جو آپ کے وجود کے معتقد رہیں گے اور انہی کا ایمان ثابت و استوار ہے _ اس زمانہ میں آپ کی قیام گاہ کا کسی کو پتہ نہ ہوگا ، ہاں ان کے مخصوص خدمت گار جانتے ہوں گے _(۲) آ ئھ حدیثیں اور ہیں

غیبت صغری اور شیعوں کا ارتباط

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ : غیبت صغری کے شروع ہونے کے بعد بعض فریب کاروں نے سادہ لوح لوگوں سے غلط فائدہ اٹھا یا اور یہ دعوی کر کے کہ ہم امام غائب کے نائب ہیں لوگوں کو فریب دیا اور اس طرح اپنی حیثیت بنالی اور لوگوں کے مال سے اپنے گھر بھر لئے _ جناب عالی اس بات کی وضاحت فرمائیں یہ نواب کون تھے ؟ اور امام زمانہ سے لوگوں کے زمانہ میں عام لوگ صاحب الامر کی ملاقات سے محروم تھے _ لیکن رابط با لکل منقطع نہیں ہوا تھا _ چنانچہ وہ ان افراد کے ذریعہ

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ۷ ص ۶۹ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص۱۵۵

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۳

۱۶۳

جنھیں نائب ، وکیل اور باب کہا جاتا تھا امام سھ رابطہ قائم کرتے ، اپنی دینی مشکلوں کوحل کرتے اور دیگر ضرور توں کو پورا کرتے تھے ، اپنے اموال سے سہم امام نکال کرانھیں کے ذریعہ بھیج دتیے تھے _ کبھی آپ سے مادی مدد ما نگتے تھے _ کبھی حج اور دوسرے سفر کے لئے اجازت لیتے تھے کبھی مریض کی شفا اور بیٹے کی پیدائشے کیلئے دعا کراتے تھے امام ہی کی طرف سے بعض لوگوں کیلئے پیسہ ، لباس اور کفن بھیجا جاتا تھا_ ان امور میں مخصوص و معین افراد و اسطہ تھے _ حاجتیں خطوط کے ذریعہ ارسال کی جاتی تھیں چنانچہ آپ بھی خط ہی کی صورت میں جواب ارسال فرماتے تھے _ اصطلاح میں آپ کے خطوط کو تو قیع کہتے ہیں _

کیا توقیعات خود امام کی تحریر تھیں ؟

جلالی : توقیعات کو خود امام تحریر فرما تے تھے یا کوئی اور ؟

ہوشیار : ہم کہہ چکے ہیں کہ توقیعات کے کاتب خود امام ہیں _ یہاں تک خواص او رعلمائے وقت کے در میان آپ کا خط ( تحریر ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھی طرح پہچا نتے تھے _ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں _

محمد بن عثمان عمری کہتے ہیں : امام کی طرف سے صادر ہونے والی توقیع کو میں ببخوبی پہچا نتا تھا(۱)

اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں : محمد بن عثمان کے ذریعہ میں نے اپنے مشکل مسائل امام کی خدمت میں ارسال کئے اور جواب امام زمانہ کے دستخط کے ساتھ موصول ہوا _(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳

۲ _ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹ ، اثبات الھداة ج ، ص ۴۶۰

۱۶۴

شیخ ابو عمرعامری کہتے ہیں : شیعوں کی ایک جماعت سے ابو غانم قزوینی نے ایک موضوع کے بارے میں اختلاف و نزاع کی _ شیعوں نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے ایک خط میں صورت حال لکھ کر ارسال کردیا اور جواب امام کی دستخط کے ساتھ موصول ہوا ''(۱) صدوق فرماتے ہیں : '' جو توقیع امام زمانہ نے اپنے دست مبارک سے میرے والد کیلئے رقم کی تھی وہ میرے پاس ابھی تک موجود ہے ''(۲)

مذکورہ افرادنے اس بات کی تو گواہی دی ہے کہ وہ خطوط امام زمانہ کی تحریرہوتے تھے لیکن اس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس طریقہ سے امام زمانہ کا خط پہچانتے تھے کیونکہ غیبت کے زمانہ میں مشاہدہ کا امکان نہیں تھا اس کے علاوہ بعض اشخاص نے اس کے برخلاف کہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روایت کی ہے کہ صاحب الامر کی توقیعات وہ جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے ذریعہ شیعوں تک پہنچتی تھیں ان کا وہی خط ہے جو امام حسن عسکری کے زمانہ کی توقیعات کا تھا _(۳)

پھر ابو نصر ہی کہتے ہیں : ۳۰۴ ھ میں ابوجعفر عمری کا انتقال ہوا_ تقریباً وہ پچاس سال تک امام زمانہ کے وکیل رہے _ ان کے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھی شیعوں کو اسی خط میں امام کی توقیعات دیتے تھے جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں لکھی جاتی تھیں(۴) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۷۸_

۲_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۲ ص ۲۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۱۶۵

دوسری جگہ کہتے ہیں : امام زمانہ کی توقیعات محمد بن عثمان اسی خط میں لکھتے تھے جس میں امام حسن عسکری (ع) کے زمانہ میں ان کے باپ عثمان بن سعید لکھتے تھے _(۱)

عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں : عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد صاحب الامر کی توقیعات اسی خط میں صادرہوتی تھیں جس میں ہم سے پہلے خط و کتابت ہوتی تھی _(۲)

ان روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو توقیعات عثمان بن سعید او ر ان کے بعد محمد بن عثمان کے توسط سے لوگوں تک پہنچی ہیں ان کا خط بالکل وہی تھا کہ جس میں امام حسن عسکری کے زمانہ میں توقیعات صادر ہوتی تھیں _ یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توقیعات امام کے خط میں نہیں تھیں بلکہ یہ کہا جائے کہ امام حسن عسکری (ع) نے توقیعات اور خط و کتابت کیلئے ایک مخصوص محرّر مقرر کررکھا تھا جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے زمانہ تک زندہ رہا _ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض توقیعات خود امام نے اور کچھ دوسروں نے تحریر کی ہیں _ لیکن یادرہے کہ زمانہ غیبت صغری کے علماء اور شیعوں کے حالات اور توقیعات کے متن کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان خطوط کی عبارت شیعوں کے نزدیک موثق اور قابل اعتماد تھی اور وہ انھیں امام ہی کی طرف سے سمجھتے اور قبول کرتے تھے_

اختلافات کے سلسلے میں مکاتبہ کرتے اور جواب کے بعد سراپا تسلیم ہوجاتے تھے ، یہاں تک اگر کبھی کسی توقیع کے بارے میں شک ہوجاتاتھا تو بھی مکاتبہ ہی کے ذریعہ حل کرتے تھے _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۳_ بحار الانوار ج ۵۳ ص ۱۵۰_

۱۶۶

علی بن حسین بابویہ نے امام زمانہ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا اور بیٹے کی پیدائشے کے لئے دعا کا تقاضا کیا اور اس کا جواب بھی ملا _(۱)

جن علا نے غیبت صغری اور نواب کا زمانہ درک کیا ہے ان میں سے ایک محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانی ہیں _ انہون نے اپنی کتاب '' غیبت'' میں نوّاب کی نیابت اور سفارت کی تائید کی ہے چنانچہ غیبت سے متعلق احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : غیبت صغری کے زمانہ میں امام اور لوگوں کے درمیان معین و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان کے توسط سے بیمار شفا پاتے اور شیعوں کی مشکلوں کے حل صادر ہوتے تھے لیکن اب غیبت صغری کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اور غیبت کبری کا زمانہ آگیا ہے _(۲)

معلوم ہوتا ہے کہ توقیعات کے ساتھ کچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے کہ جن کی بناپر علمائے وقت اور شیعہ انھیں تسلیم کرتے تھے _ شیخ حر عاملی لکھتے ہیں : ابن ابی غانم قزوینی شیعوں سے بحث کرتا اور کہتا تھا : امام حسن عسکری(ع) کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا _ شیعوں نے امام کی خدمت میں خط ارسال کیا ، وہ بغیر روشنائی کے قلم سے سفید کاغذ پر لکھا جاتا تھا تا کہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان کے خط جواب دیا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۰۶_

۲_ کتاب ''غیبت'' /۹۱_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۶۰_

۱۶۷

نوّاب کی تعداد

نوّاب کی تعداد میں اختلاف ہے _ سید بن طاؤس نے اپنی کتاب '' ربیع الشیعہ '' میں جو نام ذکر کئے ہیں وہ یہ ہیں : ابو ہاشم داؤد بن القاسم ، محمد بن علی بن بلال ، عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، عمر اہوازی ، احمد بن اسحاق ، ابو محمد الو جنای ، ابراہیم بن مہزیار ، محمد بن ابراہیم(۱) _

شیخ طوسی نے وکلاء کے نام اسی طرح نقل کئے ہیں : بغداد سے عمری ، ان کا بیٹا ، حاجز ، بلالی اور عطار ، کوفہ سے عاصمی ، اہواز سے محمد بن ابراہیم بن مہزیار ، قم سے احمد بن اسحاق ، ہمدان سغ محمد بن صالح ، رَی سے شامی واسدی ، آذربائجان سے قاسم بن العلاء اور نیشاپور سے محمد بن شاذان _(۲)

لیکن شیعوں کے درمیان چار اشخاص کی وکالت مشہور ہے : ا_ عثمان بن سعید ۲_ محمد بن عثمان ۳_ حسین بن روح ۴_ علی بن محمد سمری _ ان میں سے ہر ایک نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کررکھے تھے _(۳)

عثمان بن سعید

عثمان بن سعید امام حسن عسکری (ع) کے موثق و بزرگ صحابہ میں سے تھے _ ان کے متعلق

____________________

۱_ رجال ابو علی طبع سنہ ۱۱۰۲ ھ ص ۳۱۲_

۲_ رجال مامقانی طبع نجف ج ۱ ص ۲۰۰ ، اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۹۴_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۲_

۱۶۸

بوعلی لکھتے ہیں : '' عثمان بن سعید موثق و جلیل القدر تھے ، ان کی توصیف کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے ''(۱) علامّہ بہبہانی لکھتے ہیں :'' عثمان بن سعید ثقہ اور جلیل القدر ہیں(۲) _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے آپ کی توثیق کی ہے _

احمد بن اسحاق کہتے ہیں :'' میں نے امام علی نقی کی خدمت میں عرض کی ہیں کس کے ساتھ معاشرت کروں اور احکام دین کس سے دریافت کروں اور کس کی بات قبول کروں ؟ فرمایا: سعید بن عثمان ہمارے معتمد ہیں _ اگر وہ تم سغ کوئی بات کہیں تو صحیح ہے _ انکی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے ''_

ابوعلی نقل کرتے ہیں کہ: امام حسن عسکری سے بھی ایسا ہی سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: عثمان بن سعید اور ان کے بیٹے پرمجھے اعتماد ہے _ تمہارے سامنے وہ جو روایت بھی بیان کریں وہ صحیح ہے _ ان کی بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے _ اصحاب کے درمیان یہ حدیث اس قدر مشہور تھی کہ ابو العباس حمیری کہتے ہیں : ''ہم لوگوں کے درمیان بہت زیادہ مذاکرہ ہوتا تھا اور اس میں عثمان بن سعید کی ستائشے کرتے تھے ''(۳) _

محمد بن اسمعیل و علی بن عبداللہ کہتے ہیں :'' سامرہ میں ہم لوگ حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں شرف یاب ہوئے اس وقت شیعوں کی ایک جماعت بھی موجود تھی ناگہان

____________________

۱_ رجال بوعلی ص ۲۰۰_

۲_ منہج البلاغ مؤلف علامہ بہبہانی ص ۲۱۹_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۴۸_

۱۶۹

بدر خادم آیا اور عرض کی ایک پریشان بال جماعت آئی ہے ، داخل ہونے کی اجازت چاہتی ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : وہ یمن کے شیعہ ہیں اس کے بعد آپنے بدر خادم سے فرمایا: عثمان بن سعید کو بلاؤ_ عثمان آئے ، امام نے فرمایا : تم ہمارے موثق وکیل ہو یہ جماعت جو مال خدا لیکر آئی ہے _ اسے تحویل میں لے لو _ راوی کہتا ہے : میں نے عرض کی : ہم تو یہ جانتے تھی کہ عثمان بہترین شیعہ ہیں لیکن آپ(ع) نے اس عمل سے ان کا مرتبہ بڑھا دیا اور ان کے ثقہ اور وکیل ہونے کا اثبات کردیا ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : حقیقت یہی ہے جان لو کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا میرے بیٹے مہدی کا وکیل ہوگا _(۱)

امام حسن عسکر ی(ع) نے اپنے بیٹے کے بارے میں چالیس افراد ، منجملہ ان کے علی بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ اور حسن بن محبوب ، کے سامنے فرمایا: '' یہ میرا جانشین اور تمہارا امام ہے اس کی اطاعت کرو ،واضح رہے آج کے بعد مدتوں تک تم اسے نہیں دیکھ سکوگے ، عثمان بن سعید کی باتوں کو تسلیم کرو اور ان کے حکم کے مطابق چلو کیونکہ وہ تمہارے امام کا جانشین ہے اور شیعوں کے امور کے حل و فصل اسی کے ہاتھ میں ہیں _(۲)

ان کی کرامات

ان تمام باتوں کے علاوہ ان کی طرف کچھ کرامات بھی منسوب ہیں جس سے

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۶_

۱۷۰

ان کی صداقت ثابت ہوتی ہے _ ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں _

شیخ طوسی نے اپنی کتاب ، غیبت میں بنی نوبخت کیایک جماعت منجملہ اس کے ابوالحسن کثیری سے روایت کی ہے کہ : قم اور اس کے مضافات سے عثمان بن سعید کے پاس کچھ مال بھیجا گیا پہنچا نے والا جب واپس لوٹنے لگا تو عثمان بن سعید نے کہا : ایک اور امانت تمہارے سپردکی گئی تھی وہ تم نے تحویل میں کیوں نہیں دی ؟ اس نے عرض کی : میرے پاس اور کوئی چیز باقی نہیں ہے _ عثمان بن سعید نے کہا : واپس جاؤ اور اسے تلاش کرو _ چند دن تلاش کرنے کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کہا : مجھے تو کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی _ فلاں بن فلاں نے ہمارے لئے سردانی کے دوپارچے تمہارے سپردکئے تھے وہ کیا ہوئے ؟ عرض کی : خدا کی قسم آپ کی بات سچ ہے لیکن میں بھول گیا اب نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں _ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آیا اور بہت تلاش کیا لیکن ناکام رہا _ پھر عثمان بن سعید کے پا گیا ، اور پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : فلان بن فلاں روئی بیچنے والے کے پاس جاؤ_ روئی کی دو تھیلے تم اس کے پاس لے گئے تھے ، جس تھیلے پر یہ تحریر ہو اسے کھول کر دیکھو وہ امانت تمہیں اس میں ملے گی اس نے حکم کی تعمیل کی پارچہ اس میں ملا تو ان کی خدمت میں پہنچا دیا(۱) _

محمد بن علی اسود کہتے ہیں : ایک عورت نے مجھے ایک کپڑا دیا تھا کہ اسے عثمان بن سعید کے پاس پہنچا دینا _ دوسرے کپڑوں کے ساتھ اسے میں ان کی خدمت میں لے گیا _ انہوں نے کہا : محمد بن عباس قمی کی تحویل میں دیدو _ میں نے حکم کی تعمیل کی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۱۶_

۱۷۱

اس کے بعد عثمان بن سعید نے پیغام بھیجا کہ فلاںعورت کا کپڑا تم نے کیوں نہیں دیا ؟ پس اس عورت کے کپڑے کی بات مجھے یاد آگئی تلاش بسیار کے بعد وہ ملاتو میں تحویل میں دے دیا _(۱)

شیخ صدوق نے اپنی کتاب '' اکمال الدین'' میں لکھا ہے :'' ایک شخص عراق سے عثمان بن سعید کے پاس سہم امام لے کر گیا _ عثمان نے مال واپس کردیا اور کہا: اس میں سے چار سو درہم اپنے چچا زاد بھائیوں کا حق نکال دو _ عراقی کو بڑا تعجّب ہوا _ جب اس نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک اس کے چچا زاد بھائیوں کی کاشتکاری کی کچھ زمیں اس کے پاس ہے _ جب صحیح طریقہ سے آنے پائی کا حساب کیا تو ان کے چار سو ہی درہم نکلے _ لہذا اس نے مبلغ مذکور کو اموال سے نکال دیا اور بقیہ کو عثمان بن سعید کے پاس لے گیا ، چنانچہ قبول کر لیا گیا _(۲)

اب احباب انصاف فرمائیں ، کیا عثمان بن سعید کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث ، امام حسن عسکری کے نزدیک ان کی قدرومنزلت اور امام حسن عسکری کے خاص اصحاب کا ان کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور ان کے عادل ہونے پر شیعوں کے اتفاق کے با وجود کیا ان کے وعد ے میں شک کیا جا سکتا ہے کیا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کی وجہ سے ایسا کیا؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۳۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۲۶، اثبات اہداةج۷ ص ۳۰۲

۱۷۲

محمّد بن عثمان

عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور امام کے وکیل منصوب ہوئے _

شیخ طوسی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : محمد بن عثمان اور ان کے والد دونوں صاحب الزمان کے وکیل تھے اور امام کی نظر میں معزز تھے _(۱)

مامقانی نے لکھا ہے : محمد بن عثمان کی عظمت و جلالت امامیہ کے نزدیک مسلم ہے _ کسی دلیل و بیان کی محتاج نہیں ہے _ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے والد کی حیات میں امام حسن عسکری کے بھی وکیل تھے اور حضرت حجّت کے بھی سفیر تھے _(۲)

عثمان بن سعید نے تصریح کی ہے کہ : میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین اور نائب امام ہے _(۳)

یعقوب بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے محمد بن عثمان کے توسط سے امام زمانہ (ع) کی خدمت میں خط ارسال کیا اور کچھ دینی مسائل معلوم کئے _ امام کی تحریر میں جواب موصول ہوا آپ نے تحریر فرمایا تھا: محمد بن عثمان عمری موثق ہیں اور ان کے خطوط میرے ہی خط ہیں _(۴)

____________________

۱_ منہج المقال ص ۳۰۵ ، رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۲_ رجال مامقانی ج ۳ ص ۱۴۹_

۳_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۴۹_

۱۷۳

انکی کرامات

محمد بن شاذان کہتے ہیں کہ : میرے پاس سہم امام کے چار سو اسی درہم جمع ہوگئے تھے _ چونکہ میں پانچ سو سے کم امام کی خدمت میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا اس لئے بیس اپنی طرف سے شامل کر کے محمد بن عثمان کے توسط امام کی خدمت میں ارسال کردیئےیکن اس اضافہ کی تفصیل نہ لکھی _ امام کی طرف سے اس کی وصول یابی کی رسید اس تحریر کے ساتھ موصول ہوئی : '' پانچ سو درہم تمہارے بیس درہم کے ساتھ موصول ہوئے ''(۱) _

جعفر بن متیل کہتے ہیں : محمد بن عثمان نے مجھے طلب کیا ، چند کپڑے اور ایک تھیلی میں کچھ درہم دیئےور فرمایا: '' واسطہ جاؤ اور وہاں پہلا جو شخص ملے یہ کپڑے اور درہم اس کے حوالہ کردو ''_ میں واسطہ کے لئے روانہ ہوا اور پہلے جس شخص سے میری ملاقات ہوئی وہ حسن بن محمد بن قطاة تھے _ میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا ، معانقہ کیا اور کہا :'' محمد بن عثمان نے آپ کو سلام کہلایا ہے اور آپ کے لئے یہ امانت ارسال کی ہے '' _ یہ بات سن کر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : محمد بن عبداللہ عامری کا انتقال ہوگیا ہے _ اب میں ان کا کفن لینے کے لئے نکلا ہوں _ جب ہم نے اس امانت کو کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں ایک مردہ کے دفن کی تمام چیزیں موجود ہیں _ جنازہ اٹھانے والوں اور گورکن کیلئے کچھ پیسے بھی تھے ، اس کے بعد تشییع جنازہ کے بعد انہیں دفن کردیا ''(۲) _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۳۷_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۱_

۱۷۴

محمد بن علی بن الاسود قمی کہتے ہیں :'' محمد بن عثمان نے اپنی قبر تیار کرائی تو میں نے وجہ دریافت کی ، کہا ، مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ :'' اپنے امور کو سمیٹ لو'' چنانچہ اس واقعہ کے دو ماہ بعد ان کا انتقال ہوا _(۱)

محمد بن عثمان تقریباً پچاس سال تک نائب امام رہے اور ۳۰۴ ھ میں انتقال کیا _(۲)

حسین بن روح

امام زمانہ کے تیسرے نائب حسین بن روح ہیں _ وہ اپنے زمانہ کے عقلمند ترین انسان تھے _ محمد بن عثمان نے انھیں امام زمانہ کا نائب منصوب کیا تھا _

بحار میں مجلسی لکھتے ہیں : جب محمد بن عثمان کا مرض شدید ہو گیا تو شیعوں کے سر برآوردہ اور معروف افراد ، جیسے ابو علی بن ہمام ، ابو عبداللہ بن محمد کاتب ، ابو عبداللہ باقطانی ، ابو سہل اسماعیل بن علی نوبختی اور ابو عبداللہ بن وجنا ان کے پاس گئے اور ان کے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : '' حسین بن روح میرے جانشین اور صاحب الامر کے وکیل و معتمد ہیں _ اپنے امور میں ان سے رجوع کرنا _ مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ حسین بن روح کو اپنا نائب مقرر کردو ''(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۳_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۵۵_

۱۷۵

جعفر بن محمد مدائینی کہتے ہیں : امام زمانہ کے اموال کو میں محمد بن عثمان کے پاس لے جاتا تھا_ ایک روز چار سودرہم ان کی خدمت میں پیش کیئےو فرمایا : اس پیسہ کو حسین بن روح کے پاس لے جاؤ _ میں نے عرض کی میری خواہش ہے کہ آپ ہی قبول فرمائیں فرمایا: حسین بن روح کے پاس لے جاؤ، معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے انھیں اپنا جانشین قرار دیا ہے _ میں نے دریافت کیا ، کیا امام زمانہ کے حکم سے آپ نے یہ کام انجام دیا ہے ؟ فرمایا: '' بے شک '' _ پس میں اسے حسین بن روح کے پاس لے گیا _ اس کے بعد سہم امام کو ہمیشہ انہیں کے پاس لے جاتا تھا _(۱)

محمد بن عثمان کے اصحاب و خواص کے درمیان بہت سے افراد تھے جو کہ مراتب میں حسین بن روح سے بلند تھے _ مثلاً جعفر بن احمد متیل کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ منصب نیابت ان کے سپرد کیا جائے گا _ لیکن ان کی توقع کے خلاف اس منصب کیلئے حسین بن روح کو منتخب کیا گیا _ اور تمام اصحاب یہاں تک جعفر بن احمد بن متیل بھی ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے _(۲)

ابو سہل نوبختی سے لوگوں نے دریافت کیا : حسین بن روح کیسے نائب بن گئے جبکہ آپ اس منصب کے لئے زیادہ سزاوار تھے؟ انہوں نے کہا : امام بہتر جانتے ہیں کہ اس منصب کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے _ چونکہ میں ہمیشہ مخالفوں سے مناظرہ کرتا ہوں _ اگر مجھے وکیل بنایا جاتا تو ممکن تھا کہ بحث کے دوران اپنے مدعا کے اثبات

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۲_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۳_

۱۷۶

کیلئے امام کا پتہ بتا دیتا _ لیکن حسن بن روح مجھ جیسے نہیں ہیں ، یہاں تک کہ اگر امام اس کے لباس میں چھپے ہوں اور لوگ قیچی سے پارہ پارہ کریں تو بھی وہ اپنا دامن نہیں کھولیں گے کہ امام نظر آجائیں _(۱)

صدوق لکھتے ہیں : محمد بن علی اسود نے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین بن بابویہ نے میرے ذریعہ حسین بن روح کو پیغام دیا کہ صاحب الامر(ع) سے میرے لئے دعا کرادیں شاید خدا مجھے بیٹے عطا کرے _ میں نے ان کا پیغام حسین بن روح کی خدمت میں پہنچا دیا تین روز کے بعد انہوں نے اطلاع دی کہ امام نے ان کے لئے دعا کردی ہے عنقریب خدا انہیں ایسا بیٹا عطا کرے گا کہ جس سے لوگوں کو فیض پہنچے گا _ اسی سال ان کے یہاں محمد کی ولادت ہوئی _ اس کے اور بیٹے بھی پیدا ہوئے _ اس کے بعد صدوق لکھتے ہیں جب محمد بن علی جب بھی مجھے دیکھتے تھے کہ محمد بن حسن بن احمد کے درس میں آمدورفت رکھتا ہوں اور علمی کتابوں کے پڑھنے اور حفظ کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے ، تو کہتے تھے : اس سلسلے میں برابر بھی تعجب نہ کرو کہ تحصیل علم سے تمہیں اتنا شغف ہے کیونکہ تم امام زمانہ کی دعا سے پیدا ہوئے ہو _(۲)

ایک شخص کو حسین بن روح کی نیابت پر شک تھا _ پس اس نے موضوع کی تحقیق کے لئے بغیر روشنائی کے قلم سے ایک خط لکھا اور امام زمانہ کی خدمت میں ارسال کیا چند روز کے بعد امام نے حسین بن روح کے ذریعہ اس کا جواب ارسال فرمایا_(۳) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۵۹_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۱۸۰_

۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۳۴۰_

۱۷۷

۳۲۶ ھ ، ماہ شعبان میں حسین بن روح نے وفات پائی _(۱)

چوتھے نائب

امام زمانہ کو چوتھے نائب شیخ ابوالحسن علی بن محمد سمری تھے _ ان کے بارے میں ابن طاؤس لکھتے ہیں :'' انہوں نے امام علی نقی اور امام حسن عسکری کی خدمت کی اور ان دونوں امامو ں کا ان سے مکاتبہ تھا اور ان کے لئے بہت سی توقیعات مرقوم فرمائی ہیں _ وہ نمایان اور ثقہ شیعوں میں سے ایک تھے _(۲)

احمد بن محمد صفوانی کہتے ہیں : حسین بن روح نے علی بن محمد سمری کو اپنا جانشین مقرر کیا تا کہ وہ ان کے امور انجام دیں _ لیکن جب علی بن محمد سمری کا وقت قریب آیا تو لوگ ان کی خدمت میںآئے تا کہ ان کے جانشین کے بارے میں سوال کریں _ انہون نے فرمایا : مجھے اپنا نائب بنانے کا حکم نہیں ملا ہے _(۳)

احمد بن ابراہیم بن مخلد کہتے ہیں : ایک دن علی بن محمد سمری نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا : خدا علی بن بابویہ قمی پر رحم کرے _ حاضرین نے اس جملہ کی تاریخ لکھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ اسی دن علی بن بابویہ کا انتقال ہوا تھا _ سمری نے بھی ۳۲۹ ھ میں وفات پائی _(۴)

____________________

۱_ رجال مامقانی ج ۱ ص ۲۰۰_

۲_ رجال مامقانی ج ۲ ص ۳۰۲_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۳۶۰_

۱۷۸

حسین بن احمد کہتے ہیں : علی بن محمد سمری کی وفات سے چند روز قبل میں ان کی خدمت میں تھا کہ امام زمانہ کی طرف سے صادر ہونے والے خط کو انہوں نے لوگوں کے سامنے پڑھا _ اس کا مضمون یہ تھا : '' علی بن محمد سمری، خدا تمہارے انتقال پر تمہارے بھائیوں کو صبر جمیل عطا کرے _ چھ روز کے بعد تمہارے اجل آجائے گی _ اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور اب کسی کو اپنا نائب مقرر نہ کرنا کیونکہ اس کے بعد غیبت کبری کا سلسلہ شروع ہوگا _ میں اس وقت تک ظاہر نہ ہونگا جب تک خدا کا حکم نہ ہوگا طویل مدت ، دلوں میں قساوت اور زمین ظلم و جور سے نہ بھر جائے گی _ تمہارے در میان ایسے افراد پیدا ہوں گے جو ظہور کا دعوی کریں گے _ لیکن یادر ہے ، سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے پہلے جو شخص ظہور کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہے _(۱)

شیعوں کا درمیان چار اشخاص کی نیابت مشہور ہے _ کچھ لوگوں نے انپے مہدی ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ہے لیکن دلیل نہ ہونے کی بناپر ان کا جھوٹ آشکار ہوا اور ذلیل ہوئے _ جیسا کا حسن شرعی ، محمد بن نصیر نمیری ، احمد بن ہلال کرخی ، محمد بن علی بن ہلال ، محمد بن علی شلمغانی اورابوبکر بغدادی نے کیا تھا _ یہ تھی نوّاب کے بارے میں میری معلومات _ ان مدارک سے ان کے دعوے کے صحیح ہونے کا اطمینان حاصل ہوجاتاہے _

ڈاکٹر: اس سلسلے میں میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے لیکن آج کی رات ہماری بحث بہت طویل ہوگئی اسلئے آئندہ جلسہ میں پیش کرونگا _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۶۱_

۱۷۹

ابتداء ہی میں غیبت کبری کیوں واقع نہ ہوئی ؟

تمام احباب کی موجود گی میں ڈاکٹر صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

ڈاکٹر : غیبت صغری کا کیا فائدہ تھا؟ اگر یہی طے تھا کہ امام زمانہ غیبت اختیار کریں گے تو امام حسن عسگری (ع) کی وفات کے بعد ہی کیوں غیبت کبری کا آغاز اور مکمل انقطاع نہ ہو ا؟

ہوشیار: امام اور لوگوں کے رہبر کا غائب ہونا ، وہ بھی عرصہ دراز کیلئے عجیب و غیر مانوس بات ہے اور لوگوں کے لئے اس کاتسلیم کرنا مشکل ہے _ اس لئے رسول (ص) اور ائمہ نے یہ عزم کیا کہ : آہستہ آہستہ لوگوں کو اس امر سے مانوس کیا جائے اوراسے تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے ، لہذا گاہ بگاہ وہ ان کی غیبت اور اس زمانہ میں لوگوں کے مشکلوں میں گھر نے کی خبر دیتے تھے اور ان کا انتظار کرنے والوں کے لئے ثواب بیان کرتے اور انکار کرنے والوں کی سرزنش کرتے تھے _ کبھی اپنے عمل سے غیبت کی شبیہ پیش کرتے تھے _

اثبات الوصیت میں مسعودی لکھتے ہیں : امام علی نقی (ع) لوگوں کے ساتھ کم معاشرت کرتے تھے اور اپنے مخصوص اصحاب کے علاوہ کسی سے ربط و ضبط نہیں رکھتے تھے _ جب امام حسن عسکری (ع) ان کے جانشین ہوئے تو آپ بھی لوگوں سے اکثر پس پردہ سے گفتگو فرماتے تھے تا کہ ان کے شیعہ بارہویں امام کی غیبت سے مانوس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455